مستشرقین اور منکرین حدیث کہتے ہیں کہ حدیث قابل اعتبار نہیں ہیں کیونکہ بہت سے لوگوں نے حدیثیں گھڑ بھی لی تھیں، حالانکہ حدیثوں کا گھڑا جانا خود اِس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ آغازِ اسلام میں بھی پُوری امّت رسول اللہ ﷺ کے اقوال و اعمال کو قانون کا درجہ دیتی تھی، ورنہ آخر گمراہی پھیلانے والوں کو جھوٹی حدیثیں گھڑنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ جعل ساز لوگ وہی سکّے تو جعلی بناتے ہیں جن کا بازار میں چلن ہو۔ جن نوٹوں کی بازار میں کوئی قیمت نہ ہو ،انہیں کون بیوقوف جعلی طور پر چھاپے گا؟ مزید یہ بات کہ کچھ احادیث گھڑی گئی سب سے پہلے علمائے اسلام نے ہی بتائی ہے۔حضرت عثمان کی شہادت کے ساتھ ہی دور ِ فتنہ شروع ہوگیا جس کی طرف احادیث میں اشارات پائے جاتے ہیں۔ پھر یہ فتنے کسی ایک جہت سے رونما نہیں ہوئے بلکہ سیاسی اور مذہبی فتنے اس کثرت سے ابھرے کہ ان پر کنٹرول ناممکن ہوگیا۔ان فتنوں میں ایک فتنہ وضع حدیث کا تھا۔اس فتنہ کے سد باب کے لیے گو پہلی صدی ہجری کے خاتمہ پر ہی بعض علمائے تابعین نے کوششیں شروع کردی تھی۔اور پھر اس کے بعد وضع حدیث کے اس فتہ کوروکنے کےلیے ائمہ محدثین نے صرف احادیث کوجمع کردینے کو ہی کافی نہیں سمجھا بلکہ سنت کی حفاظت کے لیے علل حدیث، جرح وتعدیل، اور نقد رجال کے قواعد اور معاییر قائم کئے ،اسانید کے درجات مقرر کئے ۔ ثقات اور ضعفاء رواۃ پر مستقل تالیفات مرتب کیں¬۔ اور مجروح رواۃ کے عیوب بیان کئے ۔موضوع احادیث کو الگ جمع کیا او ررواۃ حدیث کےلیے معاجم ترتیب دیں۔جس سے ہر جہت سے صحیح ، ضعیف ،موضوع احادیث کی تمیز امت کے سامنے آگئی۔تمام بڑے بڑے محدثین نے علم پیغمبر کے گرد حفاظت کے پہرے دیئے اور ایسے حضرات بھی سامنے آئے ؛ جنہوں نے موضوع روایات کی نشاندہی میں مستقل کتب تصنیف فرمائی ہیں۔
یاد رہے کہ احادیثِ موضوعہ کا بیان کرنا بھی پہلے دن سے حرام ہے کیونکہ یہ حضورﷺ پر افتراء اور بہتان ہے۔حضورﷺ نے فرمایا:
«مَنْ تَعَمَّدَ عَلَيَّ كَذِبًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ»
جس نے جان بوجھ کرمجھ پر بہتان باندھا اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانا جہنم بنالے۔
[صحيح البخاري، كتاب العلم، بَابُ إِثْمِ مَنْ كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ ، حدیث نمبر:108]
موضوع احادیث کے بارے میں اہم کتابیں:
(۱)موضوعات ابن جوزیؒ (۵۹۷ھ)
بے شک اس کتاب کواولیت کا شرف حاصل ہے؛ مگرچونکہ یہ اس فن کی پہلی محنت ہے؛ اس لیئے آپ سے اس میں کئی فروگذاشتیں ہوئی ہیں؛ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ آپ نے اس باب میں ایک بڑا علمی مواد فراہم کیاہے۔آپ نے بعض حدیثوں کوبھی موضوعات میں رکھ دیا تواس کی اصلاح کے لیئے امام سیوطیؒ (۹۱۱ھ) نے تعقبات علی الموضوعات تحریر فرمائی ہے، جولائقِ مطالعہ ہے۔
(۲)موضوعات حضرت شیخ حسن الصنعانی (۶۵۰ھ)
حضرت علامہ حسن صنعانی (لاہوریؒ) صاحب مشارق الانوار نقد حدیث میں بہت سخت تھے، ان کے سامنے ابنِ جوزیؒ کی موضوعات نشان راہ تھی، آپ نے اپنی طرف سے بھی اس باب میں گرانقدر معلومات مہیا کیئے ہیں، بعد کے آنے والے مؤلفین نے اس باب میں آپ کی کتاب سے بہت استفادہ کیا ہے۔
(۳)موضوعات المصابیح
حضرت شیخ سراج الدین عمر بن علی القروینی (۸۰۴ھ) کی تصنیف ہے اور بہت نایاب ہے۔
(۴)اللالی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ
یہ حضرت علامہ جلال الدین سیوطیؒ (۹۱۱ھ) کی تصنیف ہے، آپ نے اس کے علاوہ کتاب الذیل اور کتاب الوجیز بھی اس باب میں تحریر فرمائی ہیں، جوقابل مطالعہ ہیں۔
(۵)تذکرۃ الموضوعات اور قانون الموضوعات
تذکرۃ الموضوعات اور قانون الموضوعات کے مصنف حضرت علامہ محمدطاہر پٹنی صاحب مجمع البحار (۹۸۶ھ) لغت حدیث کے جلیل القدر امام تھے، آپ کی کتابیں تذکرۃ الموضوعات اور قانون الموضوعات جو ۲۲۹/صفحات اور ۸۰/صفحات پر مشتمل ہیں، اس باب کی بہت مفید کتابیں ہیں۔
(۶)موضوعات کبیر اور اللالی المصنوع فی الحدیث الموضوع
موضوعات کبیر محدث ِجلیل حضرت ملا علی قاریؒ (۱۰۱۴ھ) کی تالیف ہے، یہ اس باب میں بہت جامع اور مرکزی کتاب ہے، اللالی المصنوع اس کے بعد کے درجے میں ہے۔
اس کتاب کا اردو ترجمہ مفت ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے جائین:
https://besturdubooks.net/?s=%D9%85%D9%88%D8%B6%D9%88%D8%B9
(۷)الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ
یہ علامہ شوکانیؒ (۱۲۵۰ھ) کی تالیف ہے، اس میں آپ ابنِ جوزیؒ کی راہ پر چلے ہیں اور بہت سختی کی ہے، کئی ضعیف اور حسن حدیثیں بھی موضوع ٹھہرادی ہیں۔
(۸)الآثارالمرفوعہ فی الاحادیث الموضوعہ
یہ حضرت مولانا عبدالحیی لکھنویؒ (۱۴۰۷ھ) کی تالیف ہے۔
ان تمام کوششوں کے باوجود اہلِ باطل موضوع حدیثوں کی روایت سے رُکے نہیں وہ اس کی برابر اشاعت کرتے رہتے ہیں
چند موضوع روایات:
ہم یہاں فائدہ عام کے لیئے چند روایات بھی ذکر کرتے ہیں، جن کی کوئی سند نہیں، نہ صحیح، نہ حسن، نہ ضعیف، ان سے آپ اندازہ کرسکیں گے کہ حدیث کے باب میں کس قدر بے احتیاطی ہماری صفوں میں گھس آئی ہے۔
(۱)”علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل”
ترجمہ:میری امت کے علماء ایسے ہیں جیسے بنی اسرائیل کے انبیاء۔
ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں:” بہر حال حدیث:علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل،جس کے متعلق حفاظ نے صراحت کی ہے جیسے زرکشی ، عسقلانی ،دمیری اور سیوطی نے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
(مرقات شرح مشکوٰۃ طبع قدیم:۵/۵۶۴،مصر)
(2)”من تکلم بکلام الدنیا فی المسجد احبط اللہ اعمالہ اربعین سنۃ” جس نے مسجد میں دنیا کی کوئی بات کی اللہ اس کے چالیس سال کے اعمال ضائع کردیتا ہے، علامہ صنعانی (۶۵۰ھ) فرماتے ہیں کہ یہ موضوع ہے ملاعلی قاریؒ فرماتے ہیں “وھو کذالک لانہ باطل منبی ومعنی”۔
(موضوعاتِ کبیر:۴۸، مطبوع:دہلی)
(3)”حدیث لانبی بعدی” کتنی مشہور متواتر اور واضح المعنی ہے مگر محمد بن سعید شامی نے اسے حضرت انس بن مالک کی روایت بناکر حضورﷺ کے نام پر یہ حدیث وضع کردی “اناخاتم النبین لانبی بعدی الا ان یشاء اللہ” میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں؛ مگریہ کہ جواللہ چاہے، علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”فوضع ہذا الاستثناء لماکان یدعوالیہ من الالحاد والزندقۃ ویدعی النبوۃ”۔(فتح الملہم:۱/۶۵)
(4)”لوکان موسیٰ وعیسیٰ حیّین ماوسعھما الااتباعی” حدیث میں صرف موسیٰ کا نام تھا (اگرموسیٰ زندہ ہوتے توانہیں بھی میری پیروی سے چارہ نہ ہوتا) حضرت عیسیٰ کوفوت شدہ ثابت کرنے کے لیے یہ نام بھی ساتھ بڑھادیا گیا، علامہ شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں اس کی سند کا کتبِ حدیث میں کہیں پتہ نہیں۔ (فوائد القرآن:۳۹۸، سورۂ مریم، پارہ:۱۶)
(5)”موتوا قبل ان تموتوا” کتنی مشہور روایت ہے ملاعلی قاری حافظ ابن حجر عسقلانی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ حدیث کہیں ثابت نہیں۔
(موضوعات:۷۵)
(6)حسن پرستوں نے اپنے ذوق کوتسکین دینے کے لیے یہ حدیث گھڑلی ہے “النظر الی الوجہ الجمیل عبادۃ” خوبصورت چہروں کو دیکھنا عبادت ہے۔حافظ ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں: “ھٰذا کذب باطل علی رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام لویروہ احد باسناد صحیح بل ھو من الموضوعات”۔ (موضوعات:۷۷)
اس طرح علماء نے بہت سی احادیث میں ایسے فقروں کی نشاندہی بھی کی ہے جو گھڑے ہوئے ہیں مثلا فرض نمازوں کے بعد جودعا مانگتے ہیں اس میں یہ الفاظ “والیک یرجع السلام حینا ربنا بالسلام” حدیث میں اضافہ کئے گئے ہیں معلوم نہیں کس نے یہ جملے حدیث میں ڈال دیئے ہیں، ملا علی قاری لکھتے ہیں “فلااصل لہ” (موضوعات:۸۹) اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔
حدیث اپنی جگہ موجود ہو اور کچھ الفاظ زیادہ کردیئے جائیں یہ روایت ان کی مثال ہے۔ بعض لوگوں نے الفاظ تبدیل کررکھے ہیں مثلا حدیث میں تھا”اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنوراللہ” (جامع صغیر:۱/۹) انہوں نے بدل کر “من نوراللہ” بنادیا(ملفوظات:۱/۱۰۸)
حضورﷺ کی خدمت میں ایک شخص پیتل کی انگوٹھی پہنے حاضرہوا آپ نے اسے کہا:”مَالِي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ الْأَصْنَامِ”۔ ترجمہ:میں تجھ میں بتوں کی ہوا کیا محسوس کررہا ہوں۔
(ابوداؤد، كِتَاب الْخَاتَمِ،بَاب مَاجَاءَ فِي خَاتَمِ الْحَدِيدِ،حدیث نمبر:۳۶۸۷، شاملہ، موقع الإاسلام)
اسے یوں بدلا “مَالِیْ اَرَفِیْ یَدک حلیۃ الاصنام” (ملفوظات:۳/۲) تیرے ہاتھ میں بتوں کا زیور کیوں دیکھ رہا ہوں۔
وضع حدیث کا کام صدیوں سے رکا ہوا تھا مرزا غلام احمد نے پھر سے اسے زندہ کیا اور لکھا احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ مسیح موعود صدی کے سرپر آئے گا اور وہ چودھویں صدی کا مجدد ہوگا (ضمیمہ براہین احمد:۵/۱۸۸) آنحضرتؐ زندگی بھرچودھویں صدی کا لفظ اپنی زبان پر نہیں لائے نہ کبھی کہا کہ قیامت چودھویں صدی کے ختم پر آئے گی، مرزا غلام احمد نے خود ہی یہ بات تجویز کی اور خود ہی اس کی علامات پورا کرنے کے لیے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کردیا اور چودھویں صدی کی روایات گھڑی اور اسے حضور اکرمﷺ کے ذمہ لگادیا اور پھریہ روایات بھی گھڑی کہ مسیح موعود تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا:”بل ھو امامکم منکم”۔ (ازالہ اوہام:۱/۲۳)
“بَلْ ھُوَ” کے الفاظ کتبِ احادیث میں کہیں نہیں ہیں، مرزا غلام احمد قادیانی نے یہ خود گھڑے ہیں، معلوم ہوا اہلِ باطل وضع احادیث کا سلسلہ اب تک جاری رکھے ہوئے ہیں، حدیث کے اصل الفاظ یہ تھے:”كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَانَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ”۔ ترجمہ: تمہارا کیا حال ہوگا جب ابنِ مریم تم میں اتریں گے اور اس وقت تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔(مسلم،كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ حَاكِمًا بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:۲۲۲، شاملہ، موقع الإاسلام)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیثیں وضع کرنے والے اعتراض کے تحت حدیثیں گھڑتے تھے اور باطل فرقوں کا یہ عام طریقہ رہا ہے۔
حدیث اورمستشرقین-چند بڑے اعتراضات کا جائزہ
1۔ذخیرہ احادیث میں موضوع روایات کی موجودگی :
احادیث کی کتابوں میں بعض موضوع روایات کے پائے جانے کی وجہ سے دوسری احادیث کی حیثیت مشکوک ہے ۔
چنانچہ آرتھر جیفری (Arthur Jeffery)اپنی کتاب “Islam, Muhammad and his religion”میں لکھتاہے :
“”تاہم پیغمبر(ﷺ)کے انتقال کے بعد، ان کے پیروکاروں کی بڑھتی ہوئی جماعت نے محسوس کیا کہ مذہبی اور معاشرتی زندگی میں بے شمار ایسے مسائل ابھر رہے ہیں جن کے متعلق قرآن میں کوئی رہنمائی موجود نہیں ،لہٰذا یسے مسائل کے متعلق راہنمائی حدیث میں تلاش کی گئی۔ احادیث سے مراد وہ چیزیں جو پیغمبر (ﷺ)نے اپنی زبان سے کہیں یا آپ ان پر عمل پیرا ہوئے یا وہ چیزیں جن کے متعلق کہا گیا کہ وہ پیغمبر (ﷺ)کے اقوال یا افعال ہیں ۔صحیح ،جزوی طور پر صحیح اور اور جعلی احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ حدیث کی کتابوں میں جمع کردیا گیا ۔” Muhammad and his religion”Page12)
آتھرجیفری نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ صحیح اور جزوی طور پر صحیح احادیث بھی تھیں لیکن جعلی احادیث بھی وضع کی گئیں تھیں مسلمانوں نے صحیح احادیث کے ساتھ من گھڑت احادیث کو بھی کتابوں میں درج کردیا جس سے دوسری صحیح حدیثوں کی حیثیت مشکوک ہوگئی۔
مستشرقین کا یہ اعتراض انتہائی کمزور اور سطحی درجہ کا ہے احادیث کی کتابوں میں موضوع احادیث کی موجودگی کوئی ایسی بات نہیں جس کے انکشاف کا سہرا مستشرقین کے سر پر ہو، بلکہ مسلمان ہر زمانے میں اس قسم کی حدیثوں سے آگاہ رہےہیں اور علماء نے اپنے دینی بھائیوں کو ہمیشہ ایسی احادیث سے آگاہ اور خبردار کیا ہے۔
چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے “اللآلی المصنوعہ فی الا حادیث الموضوعۃ”کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں تمام مو ضوع احادیث کو جمع کیا اور اسی طرح حافظ ابو الحسن بن عراق نے”تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاحادیث الشنیعۃالموضوعۃ “کتاب لکھی جس میں موضوع روایات کا ذکر ہے تاکہ مسلمان موضوع احادیث سے ہوشیار رہیں۔جب مسلم علماء کا حدیث کے ساتھ اس قدر اسشتغال ہے کہ وہ موضوع اور صحیح، ضعیف اور سقیم حدیث میں تمیز کرسکتے ہیں اور انہوں نے ایسے قوانین اور اصول مرتب کیے جن کی روشنی میں احادیث صحیحہ کو پرکھا جاسکتا ہے۔تو موضوع روایات کے پائے جانے کی وجہ سے احادیث صحیحہ کی حیثیت کیسے مشکوک ہوگئی ؟
صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، نسائی شریف میں کوئی حدیث موضوع نہیں اور ابن ماجہ میں گو چند ایک موضوع احادیث ہیں لیکن محدثین ان کی بھی نشاندہی کی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین کو ایسی احادیث کے موضوع ہونے کا علم ہی مسلمانوں کی خوشہ چینی سے ہوا ہے وگر نہ جو قوم بائبل کے ہر رطب ویابس کے کلام اللہ ہونے پر یقین رکھتی ہو اسے کیا خبر کہ صحیح حدیث کونسی ہے اور موضوع کونسی؟
2۔تدوین حدیث :
سرولیم میور اور گولڈ زیہر کا دعویٰ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی حدیثیں لکھنے کا کام آپ کی وفات کے نوے برس بعد شروع ہوا، اور بعد میں آنے والے مستشرقین اورمنکرین حدیث نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر کہہ دیا کہ احادیث کی تدوین تیسری صدی ہجری میں ہوئی ہے اس لیے حدیث کو دین اسلام کا مصدر قرار دینا صحیح نہیں اور اس پر اعتماد بھی نہیں کیا جاسکتا؟(نظریہ عامۃ فی تاریخ الفقہ لعلی حسن عبدالقادر: ۱۲۶)
مستشرقین کا یہ اعتراض زبردست مغالطے پر مبنی ہے اس لیے کہ حدیث کی حفاظت کا طریقہ محض کتابت نہیں ہے بلکہ دورنبوی ﷺ میں مختلف طریقے اختیار کیے گئے ہیں۔
۱)بذریعہ یادداشت :
عربوں کو غیر معمولی یادداشت اور قوت حافظہ عطا کی گئی تھی ان کو اپنی شاعری کے سینکڑوں اشعار یاد ہوتے تھے، وہ نہ صرف اپنے سلسلہ نسب کو یاد رکھتے تھے بلکہ اکثر لوگوں کو تو اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کے نسب تک یاد ہوتے تھے۔صحیح بخاری شریف میں حضرت جعفر بن عمر و الضمری بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ عبیداللہ بن عدی بن خیار کے ساتھ حضرت وحشی سے ملنے “حمص” گیا ،عبیداللہ نے پوچھا کہ آپ مجھے پہچانتے ہیں؟
تو حضرت وحشیؓ نے جواب دیا کہ آج سے کئی سال پہلے ایک دن عدی بن خیار کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا تھا اورمیں اس بچے کو چادر میں لپیٹ کر مُرضَعہ کے پاس لے گیا تھا بچہ کا سارا جسم ڈھکا ہوا تھا میں نے صرف پاؤں دیکھے تھے، تمہارے پاؤں اس کے پاؤں کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں (درس ترمذی جلد اول صفحہ۳۵، مفتی تقی عثمانی صاحب)
غور کرنے کی بات ہے کہ جو قوم اتنی معمولی باتوں کو اتنے وثوق سے یاد رکھتی ہے وہ آنحضرت ﷺ کے اقوا ل وافعال یاد رکھنے کا کتنا اہتمام کرے گی جبکہ وہ انہیں اپنے لیے راہ نجات سمجھتے ہوں اور اس ارشاد عالی کو بھی سن رکھا ہو ۔
” نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّی يُبَلِّغَهُ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ “(ابو داؤد شریف ،کتاب العلم )
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے حدیث سنی اور سے یاد کیا یہاں تک کہ اسے آگے دوسروں تک پہنچایا پس بہت سے فقہ کے حامل ایسے ہیں جو اس کو زیادہ فقیہ لوگوں تک پہنچا دیں گے اور بہت سے فقہی مسائل کے واقف ایسے ہیں جو خود فقیہ نہیں ہیں۔”چنانچہ صحابہ کرامؓ احادیث زبانی یاد کرنے کے عادی تھے۔
سیدنا حضرت ابو ہریرۃ ؓ جو رسول اکرم ﷺ کے ممتاز صحابی ہیں اور پانچ ہزارتین سو چوہتر(5374(احادیث کے راوی ہیں وہ فرماتے ہیں:۔”میں نے اپنی رات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے ایک تہائی رات میں نماز پڑھتا ہوں، ایک تہائی میں سوتا ہوں،اور باقی ایک تہائی رات میں رسول اکرم ﷺ کی احادیث یاد کرتا ہوں ۔” (حجیت حدیث صفحہ ۱۱۱،از شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب)
۲)مذاکرے :
حفاظت حدیث کا دوسرامصدر وماخذ اور طریقہ صحابہ کرام ؓ کے باہمی مذاکرے تھے انہیں جب بھی کسی سنت کے بارے میں علم ہوتا تو وہ اسے بیان کرکے دوسروں تک پہنچاتے اور یہ طریقہ کار درحققیت حضور اکرم کے حکم کی تعمیل پر مبنی تھا۔
ارشادنبوی ﷺ ہے ” فَلْيبلغ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ”جو لوگ حاضر ہیں وہ ان لوگوں کو پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔(بخاری شریف ،کتاب المناسک )
چونکہ اصحاب رسول ﷺ کی نظروں میں علم حدیث کی بہت اہمیت تھی اس لیے ان کا مشغلہ یہی تھا کہ جب کبھی وہ باہم یکجا ہوتے تو آپ ﷺ کے ارشادات کا تذکر ہ کرتے ان مسلسل اور متواتر مذاکروں نے سنت کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیااور جو احادیث مبارکہ چند افراد تک محدود تھیں وہ دوسروں تک پہنچ گئیں۔
۳)تعامل :
سنت کی حفاظت کا تیسرا راستہ یہ تھا کہ اس پر عمل کیا جائے، صحابہ کرام ؓ جو کچھ آپ ﷺ سے حاصل کیا اسے عملی طور اپنے جاری کیا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ حضور اکرم ﷺ کی سنت کو بھول جاتے جبکہ انہوں نے اپنی زندگیوں کی عمارت اسی بنیاد پر استوار کی تھی۔
۴)کتابت :
حدیث مبارکہ کی حفاظت کا چوتھا طریقہ ” کتابت “ہے جو حضور اکرم ﷺ کے دور مبارک میں شروع ہوچکا تھا مستشرقین کا یا منکرین حدیث یہ کہنا کہ احادیث تیسری صدی ہجری میں یا اڑھائی سو سال بعد لکھی گئیں یہ تاریخی حقائق کو جھٹلانے والی بات ہے جو محض ہٹ دھرمی اور تعصب پر مبنی ہے۔تاریخی طور پر کتابت حدیث کو چار مراحل پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
ا۔متفرق طور پر احادیث جمع کرنا ۔
ب۔کسی شخصی صحیفہ میں احادیث کو جمع کرنا جس کی حیثیت ذاتی یادداشت کی ہو۔
ج۔احادیث کو کتابی صورت میں بغیر تبویب (ابو اب بندی )کے جمع کرنا ۔
د۔احادیث کو کتابی صورت میں تبویب کے ساتھ جمع کرنا۔
عہد رسالت ﷺ اور عہد صحابہ ؓ میں کتابت کی پہلی دوقسمیں اچھی طرح رائج ہوچکیں تھیں۔ (حجیت حدیث صفحہ۱۰۹تا ۱۲۴)
حضوراکرم ﷺ کا احادیث لکھوانا ،صحابہؓ کا احادیث کو لکھنا اور ان کی حفاظت کے لیے زبردست کوششیں کرنا ،اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک احادیث کی حفاظت انتہائی اہم ذمہ داری تھی اور وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔
عہد تابعین میں کتابت وتدوین حدیث
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ،اسلامی سرحدیں دنیا کے طول وعرض میں پھیلنے لگیں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی گئی ،صحابہ کرامؓ ایک ایک کر کے اس دنیا سے رخصت ہوتے گئے ان حالات میں حضرت عمربن عبدالعزیز ؓ نے سرکاری سطح پر احادیث طیبہ کی تدوین کے لیے اقدامات کیے اور یہ 100 کی بات ہے لیکن حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کی اس کوشش اور حکم سے پہلے بھی عہد تابعین میں احادیث کی تدوین کے آثار ملتے ہیں ۔اس سلسلے میں صحیفہ ہمام بن منبہؒ نمایاں ہے جس میں حضرت ابو ہریرہؓ کے جلیل القدر شاگرد حضرت ہمام بن منبہؒ نے اپنے استاد محترم سے حاصل کردہ روایات کو جمع کیا اور اس کا نام “الصحیفہ الصحیحہ”رکھا ۔
امام احمد بن حنبل ؒ نے اپنی مسند میں اس صحیفہ کو بتما مہا نقل کردیا ہے ۔حسن اتفاق سے چند سال پہلے اس صحیفہ کااصل مخطوطہ دریافت ہوگیا ہے اس کا ایک نسخہ جرمنی میں برلن کے کتب خانہ میں موجود ہے اور دوسرا نسخہ دمشق کے کتب خانہ “مجمع علمی “میں ،سیرت اور تاریخ کے مشہور محقق ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے ان دونوں نسخوں سے مقابلہ کرکے یہ صحیفہ شائع کردیا ہے اس میں ایک سے اڑتیس احادیث ہیں ،اور جب مسند احمد سے اس کا مقابلہ کیا گیا تو کہیں ایک حرف یا ایک نقطہ میں بھی فرق نہیں تھا ۔ (درس ترمذی جلد اول صفحہ ۴۲)
خلاصہ کلام :
حضوراکر مﷺ کے دور مبارک میں ہی احادیث کو لکھا جانے لگا تھا لیکن وہ احادیث کسی ترتیب سے نہیں تھیں جس نے جو سنا اس کونقل کرلیا ، بعدمیں جیسے جیسے علم حدیث کے ساتھ اہل علم کا اشتغال بڑھتا گیا تو مختلف اعتبار سے علم حدیث پرکتب لکھی جانے لگیں کسی نے فقہی نقطہ نظر سے اپنی کتاب کو تالیف کیا اور کسی نے “عقائد “اور “ایمانیات”سے آغاز کیا ۔”طہارت “سے متعلقہ احادیث کو “کتاب الطہارت”میں اور “نماز “سے متعلقہ احادیث کو “کتاب الصلوۃ”میں اور زکوۃ کی احادیث کو “کتا ب الزکوۃ”میں علی ہذالقیاس اس طرح باقی احکامات کو ابواب بندی کرکے درج کیا ۔
3۔ حضور ﷺ کا احادیث لکھنے سے منع کرنا :
حضوراکر م ﷺ کا کتابت حدیث سے منع کرنا ” قَالَ لَا تَکْتُبُوا عَنِّي وَمَنْ کَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ وَحَدِّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ وَمَنْ کَذَبَ عَلَيَّ قَالَ هَمَّامٌ أَحْسِبُهُ قَالَ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ “(مسلم شریف جلد دوم صفحہ۴۱۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مجھ سے کوئی بات نہ لکھو اور جس آدمی نے قرآن مجید کے علاوہ مجھ سے کچھ سن کر لکھا ہے تو وہ اس مٹا دے اور مجھ سے سنی ہوئی احادیث بیان کرو اس میں کوئی گناہ نہیں اور جس آدمی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا تو اسے چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
اس بات کی دلیل ہے کہ احادیث حجت نہیں،تو پھر حدیثوں کی کیا اہمیت اور ان پر اعتماد کیسا ؟
مستشرقین کی خدمت میں گزارش ہے کہ جب ان کا دعویٰ یہ ہے کہ احادیث قابل اعتماد اور لائق حجت نہیں تو پھر اپنے موقف کی تائید میں حدیث کو پیش کرکے استدلال کرنا کیسے صحیح ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین اسلام کی دشمنی میں اس قدر سچا ئی اور حق سے دور جاچکے ہیں کہ اسلام میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کے لیے ایک بات پر نکتہ اعتراض اٹھارہے ہوتے ہیں تو دوسرے مقام پر اسی رد کی ہوئی بات سے دلیل پکڑ رہے ہوتے ہیں قطع نظر اس بات سے اس عمل سے ان کے اپنے اقوال میں تضاد واقع ہورہا ہے۔
کتابت حدیث کی ممانعت اس زمانےکی بات ہے جب تک قرآن کریم کسی ایک نسخہ میں مدون نہیں ہوا تھا بلکہ متفرق طور پر صحابہ کے پاس لکھا ہوا تھا دوسری طرف صحابہ کرام بھی ابھی تک اسلوب قرآن سے اتنے مانوس نہ تھے کہ وہ قرآن اور غیر قرآن میں پہلی نظر تمیز کرسکیں، ان حالات میں اگر احادیث بھی لکھی جائیں تو خطرہ تھا کہ وہ قرآن کے ساتھ گڈ مڈ ہوجائیں اس خطرہ کے پیش نظر آپ ﷺ نے کتابت حدیث سے ممانعت فرما دی لیکن جب صحابہ کرام اسلوب قرآن سے اچھی طرح واقف ہوگئے تو آپ ﷺ نے کتابت حدیث کی اجازت دیدی جس کے متعدد واقعات کتب حدیث میں منقول ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک صحابیؓ نے شکایت کی کہ وہ بسا اوقات احادیث کو بھول جاتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا”اسْتَعِنْ بِيَمِينِکَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ لِلْخَطِّ ”
(ترمذی شریف صفحہ۱۰۷جلد ۲)اپنے داہنے ہاتھ سے مدد لو اور (یہ فرماکر )آپ نے اپنے ہاتھ سے لکھنے کا اشارہ فرمایا ۔
“عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو باتیں سنا کرتا تھا انہیں لکھا کرتا تھا یاد کرنے لیے۔ لیکن مجھے قریش نے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو جو سنتے ہو لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر ہیں (اور بشری تقاضا کی وجہ سے آپ کو غصہ بھی آتا ہے، خوشی کی حالت بھی ہوتی ہے) اور آپ کبھی غصہ میں اور کبھی خوشی کی حالت میں گفتگو کرتے ہیں لہٰذا میں نے کتابت سے ہاتھ روک لیا اور اس کا تذکرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا، حضور نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق بات کے اور کچھ نہیں نکلتی۔”) ابو داؤدشریف جلددوم صفحہ ۵۱۳)
فتح مکہ کے موقع پر (8-ھ) حضوراکرم ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں انسانی حقوق پر مشتمل کئی احکام شریعت تھے، ایک یمنی شخص نے جس کا نام “ابو شاہ “تھا اس نے حضور اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ یہ خطبہ اسے تحریری صورت میں مہیا کیا جائے جس پر آپ ﷺ نے فرمایا “اکْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ” ابو شاہ کے لیے تحریر کرو ۔ (صحیح بخاری ،کتاب العلم صفحہ ۲۲)
یہ چند مثالیں اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ عہد رسالت ﷺ اور عہد صحابہ میں کتابت حدیث کا طریقہ خوب اچھی طرح رائج ہوچکا تھا لیکن یہ کوششیں سب انفرادی تھیں اور کتابت حدیث سے ممانعت اک مخصوص وقت میں تھی ۔
امام نوویؒ (شارح صحیح مسلم )نے منع کتابت حدیث کی ایک اور توجیہ ذکر کی ہے کہ علی الاطلاق کتابت کسی بھی زمانہ میں ممنوع نہیں ہوئی ،بلکہ بعض حضرات صحابہ ایسے کرتے تھے کہ آیات قرآنی لکھنے کے ساتھ ساتھ آنحضرت ﷺ کی بیان فرمودہ تشریح وتفسیر بھی اسی جگہ لکھ لیا کرتے تھے۔
یہ صورت بڑی خطرناک تھی، کیونکہ اس سے آیات قرآنی کے التباس کا قوی اندیشہ تھا اس لیے صرف اس صورت کی ممانعت کی گئی تھی ،قرآن سے الگ احادیث لکھنے کی کوئی ممانعت نہیں تھی( درس ترمذی جلداول صفحہ ۳۷)
4۔سند گھڑنے کے اعتراضات:
منٹگمری واٹ احادیث طیبہ کی اسناد کے متعلق اعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسلمان اپنی بات کو حضوراکرم (ﷺ) کی طرف منسوب کرنے کے لیے اسناد کو گھڑا کرتے تھے۔چنانچہ وہ لکھتا ہے ” “احادیث کی مکمل اسناد بیان کرنے کو “الشافعی “کی تعلیمات کا نتیجہ قرار دیا جاسکتاہے جو تقریباالواقدی کےہم عصر تھے ۔جب احادیث کی مکمل اسناد بیان کرنے کا رواج ہوگیا تو لازما علماء کی یہ خواہش ہوتی ہوگی کہ وہ اپنی اسناد کو حضرت محمد (ﷺ)کے صحابہ تک پہنچائیں ۔خواہ انہیں اپنی اسناد میں اضافہ کرنا پڑے ،تاہم اس قسم کے اضافوں کو بھی قابل اعتبار سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ غالباً وہ عام طور پر جانتے تھے کہ ان کے پیش روؤں نے یہ معلومات کہاں سے حاصل کیں،اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم جس طرح اسناد کی آخری کڑیوں پر اعتبار کرسکتے ہیں اس طرح ان کی ابتدائی کڑیوں پر اعتبار نہیں کرسکتے ۔”(Muhammad at madina oxford university Press Karachi Page 388 pub year1981)
منگمری واٹ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہاہے کہ مسلمان احادیث کی سند کو گھڑا کرتے تھے بظاہر وہ یہ نہیں کہہ رہاکہ وہ احادیث کو گھڑا کرتے تھے اس لیے کہ جب اسناد مشکوک ہوجائیں گی تو احادیث طیبہ خود بخود اپنا اعتماد واعتبار کھو بیٹھیں گی ۔منٹگمری واٹ کا یہ اعتراض یا تو مسلمانوں کے اصول حدیث کے فن سے اس کی کلیۃ جہالت کا نتیجہ ہے اور یا پھر احادیث طیبہ کے قصر رفیع کی بنیادوں پر عمدا کلہاڑا چلانے کی بہت بڑی سازش ہے۔
روایت حدیث میں کڑی احتیاط کی خاطر محدثین کرام نے سند کی پابندی اپنے اوپر لگائی جو اسی امت کی خصوصیت ہے۔ تاکہ کسی دشمن اسلام کو دخل اندازی کا موقعہ نہ مل سکے ۔محدثین “اسناد “کی جانچ پڑتال کرتے تھے نہ کہ گھڑتے تھے۔
سند کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ جو شخص بھی کوئی حدیث بیان کرے، پہلے وہ یہ بتائے کہ اس کو یہ حدیث کس نے سنائی ہے؟ اور اس سنانے والے نے کس سے سنی ہے؟ اسی طرح جتنے راویوں کا واسطہ اس حدیث کی روایت میں آیا ہے، ان سب کے نام بہ ترتیب بیان کر کے اس صحابی کا نام بتائے جس نے یہ حدیث حضور اکرم ﷺ سے خود سن کر روایت کی ہے، چنانچہ آج حدیث نبوی ﷺ کے جو عظیم الشان مجموعے مشہور ومعروف کتب حدیث کی صورت میں ہمارے پاس محفوظ اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، ان میں ہر ہر حدیث کے ساتھ اس کی سند بھی محفوظ چلی آرہی ہے، جس کی بدولت آج ہر حدیث کے بارے میں نام بہ نام یہ بتایا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ سے ہم تک یہ حدیث کن کن اشخاص کے واسطے سے پہنچی ہے۔
کسی حدیث کی سند میں اگر درمیان کے کسی راوی کا نام چھوڑ دیا جائے تو محدثین ایسی سند کو “منقطع “کہہ کر ناقابل اعتماد قرار دیتے ہیں، اوراگر نام تو سب راویوں کے بیان کردے جائیں، مگر ان میں کوئی راوی ایسا آجائے جو ثقہ، اور متقی وپرہیزگار نہ ہو، یا اس کاحافظہ کمزور ہو یا وہ ایسا غیر معروف شخص ہو جس کے تقویٰ اور حافظے کے متعلق کچھ معلوم نہ ہو، تو ایسی تمام صورتوں میں محدثین، اس سند پر اعتماد نہیں کرتے، اور جب تک وہ حدیث کسی اور قابل اعتماد سند سے ثابت نہ ہوجائے اسے قابل استدلال نہیں سمجھتے۔ اور یہ ساری تفاصیل جاننے کے لیے “اسماء الرجال “کا فن ایجاد کیا گیا جسمیں راوی کے تمام ضروری حالات مثلاً، پیدائش وفات، تعلیم کب اور کس سے حاصل کی، شاگرد کون تھے، ناقدین کیا رائے تھی وغیرہ ذالک سب اس میں موجود ہیں ۔ (کتابت حدیث عہدرسالت وعہد صحابہ میں ،صفحہ ۳۰)
فن اسماء الرجال کے بارے میں ڈاکٹر اسپرنگر جیسے متعصب یورپین کو یہ لکھنا پڑا کہ “کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری، نہ آج موجود ہے، جس نے مسلمانوں کی طرح “اسماء الرجال “کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو ،جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصوں کا حال معلوم ہوسکتا ہو۔”( خطبات مدراس صفحہ ۴۲)
خلاصہ کلام :
محدثین روایت کو لینے اور بیان کرنے میں بڑی احتیاط کرتے تھے اور باقاعدہ اسناد کی جانچ پڑتال کرتے تھے اور اس کا مقصد ہی یہی ہوتا تھا کہ وہ “سند ” من گھڑت تو نہیں اگر کسی قسم کا کوئی شبہ یا شک ہوتا تو روایت کو چھوڑ دیتے تھے چہ جائیکہ یہ کہا جائے کہ وہ “اسناد “کو گھڑتے تھے ۔
اور راویوں کی چھان بین کے سلسلے میں”اسماء الرجال “جیسا عظیم الشان فن یجاد ہوا جس کی بدولت کسی بھی راوی کے مکمل حالات معلوم کیے جاسکتےہیں لہٰذا یہ کہناکہ محدثین اسنا د کو گھڑا کرتے تھے یہ سراسر ا بے جا الزام ہے جو دعویٰ بلادلیل کے قبیل سے ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
5۔متن کی جانچ پڑتال:
گولذ زیہر اور شاخت نے متن حدیث پر اعتراض کیا ہے کہ محدثین نے اسناد کے پرکھنے میں جس قدر محنت کی، اس قدر محنت “متن”کی جانچ پڑتال میں نہیں کی کہ آیا وہ بات جس کو حدیث بیان کررہی ہے وہ اس معاشرے او ر واقعہ پر بھی منبطق ہوتی ہے؟
مستشرقین کا یہ کہنا کہ “متن “کی جانچ پڑتال نہیں کی گئی یہ حقائق سے چشم پوشی کرنا ہے۔
محدثین نے جس طرح احادیث کی “اسناد “کو پرکھا اسی طرح”متون حدیث “کو بھی پرکھا اور اس سلسلے میں اصول وقواعد مرتب کیے ،شاذ ومعلل کی اصطلاحات مقرر کیں جس طریقے سے سند میں شذوذ پایا جاسکتا ہے اسی طرح متن میں بھی، جس طریقے سے کوئی علت خفیہ قادحہ سند میں ہوسکتی ہے متن میں بھی پائی جاسکتی ہے، جس طرح سند “منکر،مضطرب،مصحف،مقلوب “ہوسکتی ہے اسی طرح بعینہ متن میں بھی یہ صورت حال ہوسکتی ہے۔
لہٰذا جب محدثین کرام نے سند اور متن دونوں کے پرکھنے کے اصول وضع کیے ہیں تو پھر کہاں اس بات کی گنجائش ہے کہ یہ کہا جائے محدثین نے “متن حدیث “کو نہیں پرکھا۔
احادیث کے “متون”کی جانچ پڑتال تو صحابہ کرامؓ کے زمانے میں بھی ہوتی تھی جس کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ باوجود “سند”کے صحیح ہونے کے ،”متن “کو رد کردیا گیا ۔جیسا کہ فاطمہ بنت قیس کا مشہور واقعہ ہے حضرت عمرؓ نے جب ان کی حدیث کو سنا کہ جب ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے رہائش اور خرچہ مقرر نہیں کیا (یعنی یہ مسئلہ سامنے آیا کہ مطلقہ ثلاث کو سکنی ونفقہ نہیں ملے گا )حضرت عمرؓ نے فرمایا” “ہم ایک عورت کے بیان پر اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ترک نہیں کریں گے پتہ نہیں اس کو ٹھیک سے یاد بھی رہا یا نہیں(ایسی عورت کو خرچہ وغیرہ ملے گا)۔”(سنن ابی داؤود ،طلاق کا بیان )
اسی طرح حضرت عائشہؓ نے جب حدیث ابن عمرؓ کو سنا ” إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُکَائِ أَهْلِهِ” ” میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔”
تو فرمایا ” لَا وَاللَّهِ مَا قَالَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُکَائِ أَحَدٍ وَلَکِنَّهُ قَالَ إِنَّ الْکَافِرَ يَزِيدُهُ اللَّهُ بِبُکَائِ أَهْلِهِ عَذَابًا وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ أَضْحَکَ وَأَبْکَی وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَی ”
“نہیں اللہ کی قسم رسول اللہ نے یہ نہیں فرمایا مردہ کر اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کافر پر اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب اور زیادہ ہو جاتا ہے اور اللہ ہی ہنساتے اور رلاتے ہیں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔”
راوی حدیث حضرت ابوب کہتے ہیں کہ :۔ جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث پہنچی تو فرمایا “”تم مجھے ایسے آدمیوں کی روایت بیان کرتے ہو جو نہ جھوٹے ہیں اور نہ تکذیب کی جا سکتی ہے البتہ کبھی سننے میں غلطی ہو جاتی ہے”(صحیح مسلم ،جنازوں کا بیان )اس کے علاوہ اور بھی کئی مثالیں ہیں۔
خلاصہ کلام:
محدثین نے جس طرح “اسناد “کو پرکھا اسی طرح “متون “کو بھی پرکھا اور صحابہ کرامؓ کے زمانے میں بھی یہ طریقہ رائج تھا جیساکہ ابھی دو مثالیں گزری ہیں ۔
No comments:
Post a Comment