مشاجراتِ صحابہؓ:
Quarrels of Companions (of Last Messenger of Allah):
’’مشاجرات ‘‘ جمع ہے مشاجرۃ کا، اور ’’مشاجرۃ‘‘ ماخوذ ہے لفظ شجر سے ، شجر باب نصر ینصر سے آتا ہے، شجر شجورا کا معنیٰ ہے: زیر بحث ہونا، مختلف فیہ ہونا۔
[معلوف، ہم لوئس ، المنجد: ص۵۱۲، دارالاشاعت، کراچی،۱۹۹۴ء]
لغوی اعتبار سے لفظ ’’مشاجرہ ‘‘ کا مطلب درختوں کا گھنا ہونا یا درخت کی شاخوں اور ڈالیوں کا ایک دوسرے میں گھس جانا ،گتھ جانا اور آپس میں ٹکرانا ہے۔ یہیں سے اس کا اطلاق جھگڑے اور نزاع کے معنیٰ میں ہوا ہے۔اس لیے کہ لڑنے والے ،ایک دوسرے میں گتھ جاتے ہیں۔
علمائے کرام نے صحابہ کرام ؓ کے درمیان جو اختلافات پیش آئے اور کھلی جنگوں تک نوبت پہنچ گئی، ان کو جنگ وجدال سے تعبیر نہیں کیا، بلکہ ازروئے ادب مشاجرہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ کیونکہ درخت کا ایک دوسرے میں گھسنا اور ٹکرانا، مجموعی حیثیت سے کوئی عیب نہیں ہے، بلکہ درخت کی زینت اور کمال ہے۔
[امینی، خلیل ، نورعالم، صحابہ رسول ﷺ اسلام کی نظرمیں: ص۲۱۵، ادارہ علم وادب، انڈیا، ۲۰۰۲ء]
شریعت کی اصطلاح میں ’’مشاجرۃ‘‘ کا مطلب ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اختلاف ، نزاع اور آپس میں لڑائی ۔ چونکہ درختوں کے شاخوں کا آپس میں اختلاف اور مختلف سمت ہونا کوئی عیب نہیں اور نہ اس پر کوئی اعتراض وارد ہوتا ہے بلکہ درخت کے مناسب لگتا ہے اسی وجہ سے صحابہ کے درمیان نزاع و اختلاف کو بھی علمائے دین نے بجائے جنگ اور لڑائی کے مشاجرہ کا نام دیا ہے کیونکہ ایک دین/عقیدے کے ساتھ جڑے ہوتے ہوئے ان کا اختلاف مناسب تھا اور کوئی قابل اعتراض نہیں ہے جیسا کہ درخت کی شاخیں، تنے سے جڑے ہوئے ہونے کے باوجود تنے سے مختلف ہوتی ہیں ۔
کیا صحابہ کرامؓ کے درمیان مشاجرہ واقع ہوا ہے ؟
یہاں یہ ایک امر بدیہی ہے کہ بعض صحابہ کرام ؓ کے درمیان’’مشاجرہ‘‘ رونما ہوا ہے ، بالخصوص سیدنا علی کرم اللہ وجہہ ، سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ؓ اور سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے درمیان جس کے نتیجے میں جنگ جمل اور جنگ صفین واقع ہوئیں، لیکن ان کی یہ لڑائی خلافت حاصل کرنے کے لیے نہیں تھی یعنی وجہ نزاع خلافت نہیں تھی بلکہ قصاص کی معاملے پر لڑائی لڑی گئی ۔جیسا کہ سیدنا معاویہؓ کا قول ابن ابی شیبہ ؒکی سندسےنقل کیا گیا ہے: ما قاتلت علیاً الا فی امر عثمان
"میں نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ جنگ نہیں لڑی تھی مگر سیدنا عثمان ؓ کے قصاص کے معاملے پر لڑی تھی۔" صحابہ یا تابعین کے درمیان جو تنازع واقع ہوا ہے اس میں سبائی کا ہاتھ ہے یعنی عبداللہ بن سبا یہودی یمنی اور اس کی سبائی پارٹی کی کارستانیاں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کتب حدیث وتاریخ میں صراحت ہے کہ قتلِ عثمان میں کوئی صحابی شریک نہ تھا۔
[شرح مسلم ،ج۲،ص۲۷۲]
مشاجراتِ صحابہ پر اصولی حکم:
تاریخِ اسلامی میں جھوٹے راویوں کا کردار
اہل السنت و الجماعت کا صحابہ کے بارے میں عقیدہ
علم تاریخ اور علم حدیث کے درمیان فرق
نمبر شمار | علمِ حدیث | علمِ تاریخ |
۱۔ | علمِ حدیث منسوب ہے نبی ﷺ کی طرف۔ | علمِ تاریخ منسوب نہیں کسی نبی یا صحابی کی طرف۔ |
۲۔ | علمِ حدیث اصول شرع میں سے ایک اصل ہے جس پر عمل کرنا واجب ہے ۔ | علمِ تاریخ اصول شرع میں سے نہیں ہے ۔ |
۳۔ | علمِ حدیث و تاریخ کا باہمی تعارض آجائے تو علم حدیث میں ثابت شدہ بات کو لیں گے۔ | تاریخ سے ثابت شدہ بات کو رد کریں گے ۔ |
۴۔ | علمِ حدیث کے مؤلفین مسلم علماء ،صلحاء قرآن و حدیث کے ماہر تھے۔ | جبکہ علمِ تاریخ کے اکثر مؤلفین یہود و نصاریٰ مجوس و دیگر غیر مسلموں کا گروہ ہے جن کا نہ قران و سنت سے تعلق نہ تاریخ و جغرافیہ سے ۔ |
درجہ بالافرق کی بنیاد پر ہم یہ بات واضح طور پر کہہ سکتے ہیں،کہ جولوگ مشاجرات صحابہ کو بنیاد بناکر کسی صحابی کی تنقیص کرتے ہیں وہ تاریخ کو مآخذ اصلیہ بناتے ہیں حالانکہ تاریخ اصول شرع میں سے نہیں ہے بلکہ تاریخ جب نصوص قران و حدیث کے مخالف/متعارض ہوتو اس کو رد کیا جاتا ہے کیونکہ تاریخی روایات زیادہ سے زیادہ ظنی ہوتی ہیں اور قران وسنت یقینی ہے ،تو یقین کے مقابلے میں ظن کو ئی حیثیت نہیں ہوتی:انَّ الظنَ لا یُغنیِ مِن الحقِ شیا۔
اب ہم مختصراً بعض قابل توجہ اشکالات اور اس کے جوابا ت کا ذکر کریں گے تاکہ ذہنوں کو شکوک و شبہات سے پاک کیا جائے ۔
سوال ۱:
سیدنا عمار ؓ کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: تقتلہ (عماراً) الفئتہ الباغیہ ؟ ’’ (عمارکو) ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘
اوریہ بات ثابت ہے کہ جنگ صفین میں سیدنا عمار ؓسیدناعلی ؓکے ساتھ تھےاورسیدنا معاویہ ؓ کی فوجوں کے خلاف لڑرہے تھے کہ ان میں سے کسی کے ہاتھ سے شہید ہوگئے تھے ۔
الجواب:
اس سوال کے کئی طرح سے جوابات دیے گئے ہیں ۔
(الف ) سیدناعمار ؓ کے قاتل صحابی نہیں تھے بلکہ سبائی باغی تھے کیونکہ نحوی اصول کے مطابق الباغیہ یہ الفئتہ کی صفت ہے ۔پھر صفت موصوف تقتل کا فاعل ہے ،فاعل کا وجود فعل سے پہلے ہونا ضروری ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ گروہ پہلے ہی سے باغی ہے نہ کہ حضرت عمار کے قتل کے بعد ۔اور اس گروہ کی پہلی بغاوت امام برحق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ہوئی۔
(ب)دوسری توجیہ یہ ہے کہ باغیہ یہ بغاوت سے نہیں بلکہ اس کا مصدر بغیہ ہے جس کا معنی ہے طلب کرنے والا،یعنی سیدنا عثمان ؓکے خون کا طلب کرنے والا۔
(ج)اگر بغاوت سےبھی ہو تو یہ بغاوت اجتہاد ی تھی یعنی تنازع خلافت کا نہیں تھا بلکہ قصاص سیدناعثمان ؓ کا تھا جیسا کہ سیدنا معاویہ ؓ نے اقرار کیا تھا کہ"میں نے سیدنا علی ؓ کےساتھ لڑائی صرف سیدنا عثمان ؓ کے معاملے میں تھی"۔
[ابن ابی شیبہؒ، المصنف لابن ابی شیبہ ،دارالقرآن،لسبیلہ گارڈن،کراچی،۲۰۰۵ء،ج۱،ص۵۲]
سوال۲:
اذا رایتم معاویہ علیٰ منبری فا قتلوہ ’’جب تم منبر پر معاویہ کودیکھو تو قتل کردو۔‘‘
جواب :
یہ من گھڑت روایت ہے۔
[ابن تیمیہؒ، منہاج السنۃ ،دارالسلام،ریاض، ص۲۰۱]
سوال ۳:
بعض کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے سیدنا معاویہ ؓ کو فرمایا کہ تمھاری جسم سے مجھے بدبو آتی ہے تمہاری اولاد ہماری اولاد کے ساتھ ظلم کرے گی ۔
جواب:
مذکورہ بالا روایت بلکہ سیدنا معاویہ ؓ اور اس کے بیٹے یزید کے ذم کے بارے میں روایات کے متعلق ملا علی قاریؒ نے لکھا ہے :
و من ذالک الاحادیث فی ذم معاویہ ،ذم عمر و بن العاص ،وذم بنی الامیہ کلھم موضوعْ۔
[ملاعلی قاریؒ ، الموضوعات الکبیر ، دارالمعارف،بیروت، ۱۹۸۸ء، ص ۱۰۶]
’’اسی طرح کی احادیث معاویہؓ کی مذمت میں،عمروبن العاصؓ کی مذمت میں اور بنی امیہ کی مذمت میں ہیں سب کے سب من گھڑت ہیں۔‘‘
سوال ۴:
سیدنا معاویہ ؓ کے نام پر اعتراض کہ معاویہ کے معنی ہے بھونکنا؟
جواب :
معاویہ باب مفاعلہ سے اسم فاعل ہے جس کے آخر میں "ۃ" مبالغہ کے لیے بڑھائی گی ہے مثل العلامہ ، مادہ اس کا عوی (ع و ی لفیف مقرو ن ہے ) جب مجرد ہو عوی یعوی عین بمعنی بھونکنا ہے اور جب ثلاثی مزید باب مفاعلہ میں استعمال ہوا تو متعدی ہوگیا بمعنی بھونکانا یعنی کتوں کو بھونکانا۔ [المنجد، ص۵۳۹]
سوال ۵: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس میدان میں کیوں کود پڑیں۔
جواب :جب بیٹوں کے درمیاں نزاع ہو تو ماں صلح کے لیے درمیان میں آجاتی ہے یہ تو کوئی اعتراض کی بات ہی نہیں۔
خلاصہ
اس مختصر تحریر کے بعد ہم صحابہ کے بارے میں بطور خلاصہ یہ ذکر کرتے ہیں کہ جولوگ صحابہ پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی صحابی کے بارے میں کوئی طعنہ زنی ہو تو وہ صحابی نہیں ہوگا اگر صحابی ہو تو سند طعن خطا ہوگی اور اگر سند طعن درست ہو تو غلطی اجتہادی ہوگی اور اگر غلطی قصداً ہو تو اس نے توبہ کی ہوگی اگر توبہ بھی نہ کی ہوگی تو :
ان الحسنات یذھبن السیات [سورۃ ھود:۱۱۴]
’’بے شک نیکیاں گناہوں کو مٹادیتی ہیں۔‘‘
صحابہ کرامؓ کے بارے میں زیادہ تر شکوک و شبہات کتب تاریخ کوماخذ بنانے کی وجہ سے ہوتے ہیں، تاریخ کے بارے میں ہم نے پہلے مختصراً گفتگو کی ہے، اب خلاصہ دوبارہ بیان کرتے ہیں کہ ہم قرآن و سنت کے تابع ہیں، تاریخ کوئی حجت نہیں۔ جیسا کہ مفتی محمد شفیع ؒ اپنی مشہور کتاب "شہید کربلا " کے حاشیے میں لکھتے ہیں: "لیکن یہ یادر کھنا چاہیے کہ تاریخ کی مستند روایات بھی تاریخ ہی کی حیثیت رکھتی ہیں" مستند تاریخ کا بھی وہ درجہ نہیں جو مستند و معتبر احادیث کا ہے کہ ان پر احکام ،عقائد و حلال و حرام کی بنیاد ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امام بخاریؒ جیسے نقاد حدیث کی تاریخ کبیر و صغیر کا وہ درجہ نہیں جو صحیح بخاری کا ہے ۔
[مفتی محمد شفیع ،شہید کربلا، دارالاشاعت، اردوبازار، کراچی،۲۰۰۳ء،ص۱۰]
علامہ عنایت اللہ شاہ بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ:"صحابہ کے بارے میں گندگی کی مکھی بن کر تاریخ میں نہیں دیکھنا، نبی کے صحابی کے بارے میں شہد کی مکھی بن کر قرآن کے اوراق میں دیکھو۔"
[صحابہ رسول ﷺ اسلام کی نظر میں، ص۲۴۵]
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان پیش آنے والے اختلافات و حروب کو مشاجراتِ صحابہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
مشاجراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں اہل السنہ و الجماعہ کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ حسنِ ظن رکھا جائے، ان پر کسی قسم کا طعن نہ کیا جائے،کیوں کہ صحابہ کرام کے جن دو فریقوں میں اختلافات ہوئے، اس کی بنیاد اجتہاد تھا، جن دو جماعتوں کے درمیان جنگ ہوئی ان میں سے ہر ایک فریق اپنے آپ کو حق پر اور فریقِ مخالف کو باغی سمجھتا تھا، اور باغیوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے قرآنی طریقہ پر عمل پیرا ہوا۔ لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور اپنے اجتہاد میں مصیب تھے، جب کہ ان کے مد مقابل اجتہادی چوک کا شکار ہوئے، تاہم فریقین میں سے کسی ایک کا بھی مقصد دنیاوی اغراض نہ تھے، جس کے نتیجہ میں دونوں ہی عند اللہ ماجور ہوں گے، ان شاء اللہ!
باقی مشاجرات کے معاملے میں سکوت اختیار کرنا چاہیے، بحث مباحثہ، لعن طعن کرنا بزبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ممنوع ہے۔
"المعجم الكبير للطبراني" میں ہے:
"عن ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم قال :"إذا ذُكر أصحابي فأمسكوا، وإذا ذكرت النجوم فأمسكوا، وإذا ذكر القدر فأمسكوا )". ( ٢ / ٩٦ )
ترجمہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جب میرے اصحاب کا ( یعنی ان کے باہمی اختلافات وغیرہ کا ) ذکر چھڑے تو باز آجاؤ، اور جب ستاروں کا ذکر چھڑے تو باز آجاؤ، اور جب تقدیر کا ذکر چھڑے تو رک جاؤ، ( یعنی اس میں زیادہ غور و خوض اور بحث و مباحثہ نہ کرو)۔
فتح الباري لابن حجر میں ہے:
"واتفق أهل السنة على وجوب منع الطعن علی أحد من الصحابة بسبب ما وقع لهم من ذلك، ولو عرف المحق منهم؛ لأنهم لم يقاتلوا في تلك الحروب إلا عن اجتهاد، وقد عفا الله تعالى عن المخطئ في الاجتهاد، بل ثبت أنه يؤجر أجراً واحداً، وأن المصيب يؤجر أجرين".
(کتاب الفتن باب إذا التقیٰ المسلمان، ١٣ / ٤٣ )
ترجمہ:
اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کے مابین واقع ہونے والے حوادث کی بنا پر ان میں کسی ایک صحابی پر طعن و تشنیع سے اجتناب واجب ہے، اگرچہ یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں صحابی کا موقف موقفِ حق تھا ؛ کیوں کہ انہوں نے ان لڑائیوں میں صرف اپنے اجتہاد کی بناپر حصہ لیا اور اللہ نے مجتہد مخطی کو معاف فرمادیا ہے، بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ مجتہد کے اجتہاد میں خطا ہوجائے تب بھی اسے ایک گنا اجر ملے گا، اور جس کا اجتہاد درست ہوگا اسے دو گنا اجر ملے گا۔
بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني شرح الفتح الرباني لترتيب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشيباني میں ہے:
"( قال النووي:) ... واعلم أن الدماء التي جرت بين الصحابة رضي الله عنهم ليست بداخلة في هذا الوعيد، و مذهب أهل السنة و الحق: إحسان الظن بهم و الإمساك عما شجر بينهم و تأويل قتالهم، و أنهم مجتهدون متأولون لم يقصدوا معصية و لا محض الدنيا، بل اعتقد كل فريق أنه المحق و مخالفه باغ، فوجب عليه قتاله ليرجع إلي امر الله، و كان بعضهم مصيباً و بغضهم مخطئاً معذوراً في الخطأ؛ لأنه لاجتهاد، و المجتهد إذا أخطأ لا إثم عليه، وكان علي رضي الله عنه هو المحق المصيب في تلك الحروب، هذا مذهب أهل السنة، وكانت القضايا مشتبهةً حتى أن جماعة من الصحابة تحيروا فيها فاعتزلوا الطائفتين و لم يقاتلوا و لم يتيقنوا الصواب، ثم تأخروا عن مساعدتهم، و الله اعلم".
( باب إحسان النية علي الخير و مضاعفة الاجر بسبب ذلك و ما جاء بسبب العزم و الهم، ١٩ / ٧ ، ط: دار إحياء التراث العربي، بيروت)
ترجمہ:
اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے، ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحبِ رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے؛ تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے؛کیوں کہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد سے گر خطا سرزد ہوجائے تو اس پر گناہ نہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے، یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا۔ فقط واللہ اعلم
روى الخطيب في «تاريخ بغداد» (6/ 44)، وابن عساكر في «تاريخ مدينة دمشق» (59/ 141)، وابن أبي يعلى في «طبقات الحنابلة» (1/ 251) من طريق الحسن بن محمد الخلال حدثنا عبدالله بن عثمان الصفار حدثنا أبو القاسم إسحاق بن إبراهيم بن آزر الفقيه حدثني أبي قال: حضرت أحمد بن حنبل، وسأله رجل عما جرى بين علي ومعاوية -رضي الله عنهما- فأعرض عنه؛ لأن هذا السؤال مرفوض، فقيل له: يا أبا عبد الله! هو رجل من بني هاشم -يعني هذا السائل- وكان الإمام أحمد -رحمه الله- يعرف لأهل بيت النبي ﷺ قدرهم، فأقبل عليه، فقال: اقرأ: تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ [سورة البقرة:134] فأجابه بهذا الجواب.
[مناقب الإمام أحمد (ص: 221)]
ملا علی قاری کی شرح الفقه الاکبر (ص 102) میں ہے:-
سئل احمد عن امر علی و عائشہ فقال تلک امتہ قد خلت لها ما کسبت و لکم ما کسبتم ولا تسئلون عن ما کانوا یعملون.
ترجمہ:
حضرت امام احمد بن حنبل سے حضرت علی اور حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنهما) کے اختلافی معاملہ کے متعلق پوچها گیا تو انہوں نے قرآن کی آیت پڑهہ دی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ یہ ایک جماعت تهی جو گزر چکی وہ اپنے اعمال کی ذمہ دار ہے اور تم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہو. پس تم سے ان کے کئیے کا نہیں پوچها جائے گا.
اور مثلا امام ذهبی رح نے سیر اعلام النبلاء (جلد3 ص142) میں لکها ہے کہ ؛-
قال الاوزاعی سئل رجل الحسن البصری عن علی و عثمان فقال کانت لهذا سابقتہ و لهذا سابقتہ ولهذا قرابتہ و لهذا قرابتہ و ابتلی هذا و عوفی هذا. فسئله عن علی و معاویہ فقال کانت لهذا قرابتہ ولهذا قرابتہ و لهذا سابقتہ و لیس لهذا سابقتہ و ابتلیا جمیعا.
امام اوزاعی رح فرماتے ہیں کہ کسی نے حضرت حسن بصری رح سے حضرت علی و حضرت عثمان ( رضی اللہ عنهما) کے متعلق پوچها تو انہوں نے فرمایا ، انہیں بهی قبول اسلام میں سبقت حاصل ہے اور انہیں بهی. انہیں بهی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتهہ قریبی رشتہ داری کا شرف حاصل ہے اور انہیں بهی. حضرت علی( کرم اللہ وجہ) کو آزمائش سے دوچار ہونا پڑا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ( مظلومانہ شهادت کے بعد) عافیت پا گئے. اس نے پهر حضرت علی اور حضرت معاویہ( رضی اللہ عنهما) کے متعلق پوچها تو آپ نے فرمایا کہ انہیں بهی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت حاصل ہے اور انہیں بهی اور انہیں(حضرت علی رض کو) قبول اسلام میں سبقت حاصل ہے اور انہیں (حضرت معاویہ رض کو) نہیں. آزمائش دونوں کو پیش آئی.
اور مثلا دمیری کی حیوه الحیوان ( جلد 1 ص350) میں ہے.
و قد سئل عن علی و معاویہ ( رضی اللہ عنهما) فقال(عمربن عبدالعزیز) تلک دمآء طهراللہ منها سیوفنا افلا نطهر من الخوض فیهم السنتنا.
حضرت عمر بن عبدالعزیز رح سے حضرت علی اور حضرت معاویہ( رضی اللہ عنهما) کے متعلق پوچها گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ان خونوں میں ہماری تلواروں کو رنگین ہونے سے بچایا تو کیا اب ہمیں اپنی زبانوں کو ان معاملات کی چهان بین سے نہیں بچانا چاہئیے؟
اور مثلا علامہ ابن حجر مکیؒ اپنی کتاب الخیرات الحسان(ص57) میں امام ابوحنیفہ رحمتہ علیہ کے متعلق لکهتے ہیں ؛-
سئل عن علی و معاویہ و قتلی صفین فقال اخاف علی اللہ عن اقدم بشئ یسئلنی عنه ولو سکت لم اسئل عنه بل عن ما کلفت به فالاشتغال به اولی.
ترجمہ:
حضرت امام ابوحنیفہؒ سے حضرت علی اور حضرت معاویہ(رضی اللہ عنهما) اور جنگ صفین کے مقتولین کے بارے میں پوچها گیا تو انہوں نے جواب دیا میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں کہ اس معاملے میں کوئی ایسی بات کہہ دوں جس کے متعلق اللہ تعالی مجهہ سے پوچهے اور اگر میں خاموش رہوں تو مجهہ سے ان کے متعلق پوچها نہیں جائے گا. مجهہ سے صرف انہی ذمہ داریوں سے متعلق پوچها جائے گا جن کا میں شرعاً مکلف اور پابند ہوں. لہذا مجهے اپنے انہی اعمال میں مشغول رہنا بہتر ہے.
اور مثلا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اپنی کتاب غنیتہ الطالبین(ص140) میں لکهتے ہیں؛-
نسلم امرهم الی اللہ عزوجل علی ما کان و جری من اختلاف علی و طلحہ و الزبیر و عائشہ و معاویہ ( رضی اللہ عنهم).
ترجمہ:
ہم اس اختلاف میں جو علی، طلحہ، زبیر، عائشہ اور معاویہ( رضی اللہ تعالی عنهم) کے درمیان پیش آیا تو ہم ان کے معاملے کو اللہ عزوجل کے سپرد کرتے ہیں.
اور مثلا علامہ قرطبیؒ اپنی تفسیر الجامع لاحکام القرآن(ج16ص322) میں حضرت حسن بصریؒکے متعلق لکهتے ہیں؛-
قال شهده اصحاب محمد و نهینا و علموا و جهلنا و اجتمعوا فاتبعنا واختفوا فوقفنا.
حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا قتال تها جس میں اصحاب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) موجود تهے، ہم تو غیرحاضر تهے. انہیں حالات کا صحیح علم تها، ہم تو بےخبر رہے. جس پر اصحاب متفق ہوئے تو ہم نے اس کی پیروی کی اور جس بات میں انہوں نے اختلاف کیا تو ہم نے توقف اختیار کیا.
اور مثلا یہی امام قرطبیؒ اپنی تفسیر(ج16ص361) میں لکهتے ہیں ؛-
لایجوز ان ینسب الی احد من الصحابہ خطا مقطوع به اذ کانوا کلهم اجتهدوا فی ما فعلوه و ارادوااللہ عزوجل وهم کهم لنا آئمه و قد تعبدنا بالکف عن ما شجر بینهم.
صحابہ کرام میں سے کسی کی طرف بهی یقین کے ساتهہ خطا کو منسوب کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ سب نے اپنے طور پر اجتہاد سے کام لیا اور وہ اللہ کی رضا کا ارادہ رکهتے تهے اور وہ سب کے سب ہمارے پیشوا ہیں. ہم ان کے بارے میں اپنی زبان کو بند رکهنے میں ہی اللہ کی رضا خیال کرتے ہیں.
اور مثلا شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے؛-
وقعد عن القتال اکثر الاکابر…..یعنی اکابر صحابہ کرام کی اکثریت باہم خانہ جنگی میں شریک نہیں ہوئی.
یہی بات اور متقدمین حضرات مثلا علامہ ابن کثیرؒ نے بهی لکهی ہے کہ ان دنوں دسیوں ہزار صحابہ کرام زندہ موجود تهے لیکن بہت ہی کم حضرات نے ان جنگوں میں حصہ لیا.
اوپر تفصیل سے مشاجرات صحابہ کے متعلق متقدمین کے موقف کی عبارات آپ نے ملاحظہ فرمائیں اور یہ کہ صحابہ کرام کی اکثریت نے ان محاربات میں حصہ نہیں لیا. اگر اس دور کے صحابہ کرام کی اکثریت قطعیت سے یہ فیصلہ نہ کرسکی کہ کون حق پر ہے اور کون باغی یا مخطی ہے تو بعد والے یہ فیصلہ کیسے کرسکتے ہیں؟ یہاں یہ بهی یاد رہے کہ خطاء اور نسیان اپنی اصل کے اعتبار سے قابل مواخذہ نہ ہوتے تو اللہ تعالی ہمیں یہ دعا ہی کیوں سکهاتا؛- ربنا لا تواخذنا ان نسینا او اخطانا..الآیہ.. یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالی خود ہی عدم مواخذہ کی دعا سکهائے پهر نسیان اور خطاء پر مواخذہ بهی فرمانے لگے. لیکن قتل خطاء اس سے ایک حد تک مستثنی ہے. اس پر آخرت میں مواخذہ نہ بهی ہو تو بهی دنیا میں مقتول کے ورثاء کو دیت دینا ہوگی. لگاتار دو ماہ کے روزے رکهنے ہوں گے وغیرہ وغیرہ. لہذا یہ سمجهنا درست نہیں کہ صحابہ کرام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو باغی نہیں بلکہ خطائے اجتہادی پر سمجهتے تهے اور خطائے اجتہادی چونکہ معاف ہے اس لئے انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتهہ دینا ضروری نہ سمجها.
ایسی مبینہ خطاء صحابہ کرام کے لئے نظرانداز کئے جانے کے لائق نہیں ہوسکتی تهی جس میں مسلمانوں کے خون بہنے کے بهی قوی خدشات تهے. وہ اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو یقین قطعی کے ساتهہ خطائے اجتہادی پر سمجهتے تو اتمام حجت کے لئے یقینا حضرت معاویہ پر ان کی غلطی کو خوب واضح کرتے. اگر وہ پهر بهی تسلیم نہ کرتے تو یقینا سورہ حجرات میں مذکور متعلقہ حکم کے تحت حضرت علی کرم اللہ وجہ کا بهرپور ساتهہ دیتے اور گهروں میں نہ بیٹهہ رہتے.
اور مثلا بروایت حکیم الامت مولانا اشرف علی تهانوی کسی شخص نے مولانا نعیم لکهنویؒ سے حضرت علی اور حضرت معاویہ( رضی اللہ عنهما) کے متعلق پوچها تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ یہ سوال تمہارا ہے یا کسی اور کا؟ اس شخص نے کہا کہ فلاں حافظ صاحب نے پوچها ہے. مولانا لکهنوی صاحب کے پوچهنے پر اس شخص نے بتایا کہ حافظ صاحب جوتے فروخت کرتے ہیں اور میں کپڑے رنگتا ہوں. مولانا نے فرمایا کہ تم دونوں مطمئن رہو قیامت کے دن ان حضرات کا مقدمہ تم پر پیش نہیں ہوگا اس لئے تم کپڑے رنگتے رہو اور حافظ صاحب جوتے فروخت کرتے رہیں.
مندرجہ بالا عبارات سے خوب واضح ہورہا ہے کہ اکابر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنهم) کی اکثریت نے ان جنگوں سے اجتناب کیا. اس کے بعد متقدمین اکابر امت مثلا حضرت حسن بصریؒ، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام احمد بن حنبلؒ، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اور علامہ قرطبیؒ وغیرہ حضرات نے توقف اور سکوت اختیار کیا.
علامہ قرطبیؒ نے یہ بهی لکها ہے کہ ان اختلافی امور میں یقین اور قطعیت کے ساتهہ خطاء کو صحابہ کرام کی طرف منسوب کرنا سرے سے جائز ہی نہیں. تو بتائیے کہ ہمارے اکثر متاخرین کا یہ خیال کیسے درست ہوا کہ ان جنگوں میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) یقیناً حق پر اور حضرت معاویہ ( رضی اللہ عنہ) یقینا خطاء پر تهے. بعض حضرات نے تو اس موقف پر اجماع امت تک کا بهی ناحق دعوی فرما دیا ہے. یہ ان حضرات کی خطائے اجتہادی ہے جس پر وہ ان شاءاللہ ماخوذ نہیں ہوں گے. لیکن خطاء بہرحال خطاء ہے. جب اس بات میں اختلاف پیدا ہوجائے کہ کوئی صحابی رسول خطاء اجتہادی پر ہے یا غیراصحابی حضرات صحابی کی طرف خطائے اجتہادی کے انتساب میں خود خطائےاجتہادی پر ہیں ؟ تو اس اختلاف میں اصول ” اهون البلیتین” (lesser evil) کے تحت صحابی کی بجائے غیرصحابی کو خطائےاجتہادی پر قرار دینا ہی صحیح ہوگا. جب صحابی کی طرف خطائےاجتہادی منسوب کی جائے تو اس کا جواب یہ پیش کیا جاتا ہے کہ خطائے اجتہادی سرے سے قابل مواخذہ ہی نہیں بلکہ مجتہد کو اس کی غلطی پر بهی اکہرا اجر ملتا ہے لہذا صحابی پر خطائے اجتہادی منسوب کرنے سے اس کی تنقیص نہیں ہوتی. پس اگر ہم غیرصحابی کی طرف خطائےاجتہادی منسوب کریں تو اس کی توہین بهی نہیں ہوتی. اور ادب کا تقاضا یہ بهی ہے کہ بعض ناگزیر صورتوں میں صحابی کی بجائے غیرصحابی کی طرف خطائے اجتہادی کو منسوب کیا جائے. یہاں اس حقیقت کو بهی نظرانداز کیا گیا ہے کہ اجتہادی اختلاف میں ہمیشہ صواب اور خطاء کا ہی اختلاف نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ اختلاف اولی و خلاف اولی، احسن و حسن ، افضل و مفضول اور راجح اور مرجوح کا بهی تو ہوسکتا ہے. اختلاف تنوع تو ایک طرف رہا بعض اوقات اختلاف تضاد میں بهی فریقین مصیب(حق بجانب) ہوتے ہیں. مثلا غزوہ بنی نظیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر کچهہ اصحاب نے تو یہودیوں کے کهجور کے درخت کاٹے اور کچهہ نے نہیں کاٹے. دونوں کا عمل بالکل متضاد ہے لیکن فریقین اپنی اپنی جگہ پر حق بجانب تهے. مشاجرات صحابہ کرام میں محاکمہ سرے سے خلاف ادب ہے. کوئی اس کے بغیر نہ رہ سکے تو فریقین کو حق بجانب قرار دیا جاسکتا ہے یا اس سے نیچے اترتے ہوئے اسے اولی و خلاف اولی کا اختلاف سمجها جا سکتا ہے. دیکهئیے نماز میں رفع یدین و عدم رفع یدین وغیرہ بیشتر فروعی اختلافات میں فقہی مسائل کی ناگزیر تحقیق کے پیش نظر ہم اولی اور خلاف اولی سے آگے نہیں بڑهہ سکتے یہاں کسی کو بهی خطائےاجتہادی پر سمجهنا صحیح نہیں. مشاجرات صحابہ کرام میں محاکمہ تو سراسر غیرضروری ہے اور فقہی مسائل کے برعکس اس کی کوئی ناگزیر صورت سرے سے ہی نہیں پهر بهی محاکمے کا شوق بےچین کرے تو ہمیں فریقین کو مصیب(حق بجانب) سمجهنا چاہئیے یا پهر اولی اور خلاف اولی سے آگے نہیں بڑهنا چاہئیے. ورنہ امام ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل وغیرہ کی طرح سکوت اور توقف ہی بہتر ہے. ہم یہاں امام ابوحنیفہؒ کی اتباع چهوڑ کر متاخرین اکابر حضرات کی پیروی کو کیوں ضروری سمجهتے ہیں؟
(جاری)
جنگ جمل اور جنگ صفین کے بارے میں روایات
جعفر، عن أبيه عليه السلام: أن عليا عليه السلام لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق، ولكنه كان يقول: " هم إخواننا بغوا علينا " ۔
ترجمہ:
امام جعفر صادقؒ اپنے والد امام باقرؒ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ اپنے مدمقابل (حضرت معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں) میں سے کسی کو مشرک یا منافق کی نسبت یاد نہیں کرتے تھے لیکن یوں کہتے تھے وہ ہمارے بھائی تھے ان سے زیادتی ہو گئی۔
[مصنف ابن أبي شيبة » كِتَابُ الْجَمَلِ » بَابُ مَا ذُكِرَ فِي صِفِّينَ ... رقم الحديث: 37177]
وہ مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پران کی اتباع کی، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن میں نہریں جاری ہیں ۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے.
[سورۃ التوبہ:100]
اور نکال لیں گے ہم جو کچھ ان کے دلوں میں خفگی تھی، بہتی ہوں گی ان کے نیچے نہریں اور وہ کہیں گے شکر اللہ کا جس نے ہم کو یہاں تک پہنچا دیا اور ہم نہ تھے راہ پانے والے اگر نہ ہدایت کرتا ہم کو اللہ بیشک لائے تھے رسول ہمارے رب کے سچی بات، اور آواز آئے گی کہ یہ جنت ہے وارث ہوئے تم اس کے بدلے میں اپنے اعمال کے.
[سورہ الاعراف:43]
(علوم الحدیث:۲۶۳)
(قرطبی سورۂ حجرات)
کتاب مذکور میں ابن تیمیہؒ ایک مفصل کلام کے بعد لکھتے ہیں:
اس کے بعد شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے صحیح روایت سے یہ واقعہ بیان کیا ہے۔
(۱۹) ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے سامنے حضرت عثمان غنی پر تین الزام لگائے۔ ایک یہ کہ وہ غزوئہ احد میں میدان سے بھاگنے والوں میں تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ غزوئہ بدر میں شریک نہیں تھے۔ تیسرے یہ کہ بیعت رضوان میں بھی شریک نہ تھے۔
No comments:
Post a Comment