Tuesday 9 March 2021

مشاجراتِ صحابہؓ Quarrels of Companions (of Last Messenger of Allah)

مشاجراتِ صحابہؓ:

Quarrels of Companions (of Last Messenger of Allah):


’’مشاجرات ‘‘ جمع ہے مشاجرۃ کا، اور ’’مشاجرۃ‘‘ ماخوذ ہے لفظ شجر سے ، شجر باب نصر ینصر سے آتا ہے، شجر شجورا کا معنیٰ ہے: زیر بحث ہونا، مختلف فیہ ہونا۔

[معلوف، ہم لوئس ، المنجد: ص۵۱۲، دارالاشاعت، کراچی،۱۹۹۴ء]

لغوی اعتبار سے لفظ ’’مشاجرہ ‘‘ کا مطلب درختوں کا گھنا ہونا یا درخت کی شاخوں اور ڈالیوں کا ایک دوسرے میں گھس جانا ،گتھ جانا اور آپس میں ٹکرانا ہے۔ یہیں سے اس کا اطلاق جھگڑے اور نزاع کے معنیٰ میں ہوا ہے۔اس لیے کہ لڑنے والے ،ایک دوسرے میں گتھ جاتے ہیں۔


علمائے کرام نے صحابہ کرام ؓ کے درمیان جو اختلافات پیش آئے اور کھلی جنگوں تک نوبت پہنچ گئی، ان کو جنگ وجدال سے تعبیر نہیں کیا، بلکہ ازروئے ادب مشاجرہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ کیونکہ درخت کا ایک دوسرے میں گھسنا اور ٹکرانا، مجموعی حیثیت سے کوئی عیب نہیں ہے، بلکہ درخت کی زینت اور کمال ہے۔

[امینی، خلیل ، نورعالم، صحابہ رسول ﷺ اسلام کی نظرمیں: ص۲۱۵، ادارہ علم وادب، انڈیا، ۲۰۰۲ء]


شریعت کی اصطلاح میں ’’مشاجرۃ‘‘ کا مطلب ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اختلاف ، نزاع اور آپس میں لڑائی ۔ چونکہ درختوں کے شاخوں کا آپس میں اختلاف اور مختلف سمت ہونا کوئی عیب نہیں اور نہ اس پر کوئی اعتراض وارد ہوتا ہے بلکہ درخت کے مناسب لگتا ہے اسی وجہ سے صحابہ کے درمیان نزاع و اختلاف کو بھی علمائے دین نے بجائے جنگ اور لڑائی کے مشاجرہ کا نام دیا ہے کیونکہ ایک دین/عقیدے کے ساتھ جڑے ہوتے ہوئے ان کا اختلاف مناسب تھا اور کوئی قابل اعتراض نہیں ہے جیسا کہ درخت کی شاخیں، تنے سے جڑے ہوئے ہونے کے باوجود تنے سے مختلف ہوتی ہیں ۔




کیا صحابہ کرامؓ کے درمیان مشاجرہ واقع ہوا ہے ؟

یہاں یہ ایک امر بدیہی ہے کہ بعض صحابہ کرام ؓ کے درمیان’’مشاجرہ‘‘ رونما ہوا ہے ، بالخصوص سیدنا علی کرم اللہ وجہہ ، سیدنا معاویہ بن ابی سفیان ؓ اور سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کے درمیان جس کے نتیجے میں جنگ جمل اور جنگ صفین واقع ہوئیں، لیکن ان کی یہ لڑائی خلافت حاصل کرنے کے لیے نہیں تھی یعنی وجہ نزاع خلافت نہیں تھی بلکہ قصاص کی معاملے پر لڑائی لڑی گئی ۔جیسا کہ سیدنا معاویہؓ کا قول ابن ابی شیبہ ؒکی سندسےنقل کیا گیا ہے: ما قاتلت علیاً الا فی امر عثمان


"میں نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ جنگ نہیں لڑی تھی مگر سیدنا عثمان ؓ کے قصاص کے معاملے پر لڑی تھی۔" صحابہ یا تابعین کے درمیان جو تنازع واقع ہوا ہے اس میں سبائی کا ہاتھ ہے یعنی عبداللہ بن سبا یہودی یمنی اور اس کی سبائی پارٹی کی کارستانیاں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کتب حدیث وتاریخ میں صراحت ہے کہ قتلِ عثمان میں کوئی صحابی شریک نہ تھا۔ 

[شرح مسلم ،ج۲،ص۲۷۲]





 مشاجراتِ صحابہ پر اصولی حکم:

مسلمانوں کو ہمیشہ سے تاریخی کتب کے جھوٹے قصوں اور واقعات کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا ہے، اگر کوئی عقل مند اس فرمانِ باری تعالی پر غور کرے:

( تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ )

ترجمہ:
یہ امت ہے جو گزر گئی جو اس نے کمایا اس کیلیے وہی ہے اور تمہارے  لئے وہ ہے جو تم نے کمایا، اور تم سے ان کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔
[سورۃ البقرة:134، 141]

اور پھر اس آیت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زبان کو لگام دے، اور فتنوں سے متعلقہ گفتگو میں مت پڑے، تاکہ اللہ کے سامنے جب جائے تو اس نے کسی پر ظلم نہ کیا ہو، نبوی خانوادے سے محبت کرے اور ان کے دشمنوں سے دشمنی روا رکھے تو وہ اپنے رب کے ہاں متقی شخص ہو گا اور اس کا دین بھی صحیح سلامت ہوگا۔
مسلمانوں کے ما بین ہونے والے اختلافات اور جھگڑوں کو بیان کرنے والے عام طور پر راوی  جھوٹے ، نا معلوم  اور کذاب ہوتے ہیں، اس لیے ان راویوں کی جانب سے بیان کردہ روایات پر بالکل بھی اعتماد نہیں کرنا چاہیے؛ کیونکہ وہ عادل راوی نہیں ہیں، جبکہ کسی کی بات پر اعتماد کرنے کیلیے اللہ تعالی نے اصول بیان فرمایا کہ:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ )
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو [مبادا] تم کسی قوم کو لا علمی کی بنا پر کوئی گزند پہنچاؤ اور پھر تمھیں اپنے کیے پر ندامت اٹھانی پڑے۔
[سورۃ الحجرات:6]

انہی جھوٹے قصہ گو راویوں میں ابو مخنف
[ميزان الاعتدال:3/419] 

تاریخِ اسلامی میں جھوٹے راویوں کا کردار

صرف تاریخِ طبری میں موجود جھوٹے دروغ گو راویوں کا اجمالی خاکہ یہ ہے:
حمد بن سائب کلبی کی بارہ (۱۲) روایات، حشام بن محمد کلبی کی پچپن (۵۵) روایات ،محمد بن عمر کی چار سو چالیس (۴۴۰)روایات ،سیف بن عمر تمیمی کی سات سو (۷۰۰)روایات ، ابو مخنف لوط بن یحی ٰ کی چھ سو بارہ (۶۱۲)روایات، ہیثم بن عدی کی سولہ(۱۶) روایات،محمد بن اسحاق بن سیار (یسار)(۲۵) کی ایک سو چونسٹھ (۱۶۴)روایات ہیں،ان سب کی روایات کا مجموعہ جن کو موٴرخ طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے وہ انیس سو ننانوے( ۱۹۹۹) ہے۔
[تفصیل کے لیے دیکھیے : مدرسة الکذابین فی روایة التاریخ الإسلامي و تدوینیہ، ص:۴۵۔۴۷،دار البلاغ الجزائر]

اصول وقاعدہ:
صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں جو آیات وارد ہیں، وہ قطعی ہیں، جو احادیث صحیحہ ان کے متعلق وارد ہیں، وہ اگرچہ ظنّی ہیں؛ مگر ان کی اسانید اس قدر قوی ہیں کہ تواریخ کی روایات ان کے سامنے ہیچ ہیں؛ اس لیے اگر کسی تاریخی روایت میں اور آیات واحادیث صحیحہ میں تعارض واقع ہوگا تو تواریخ کو غلط کہنا ضروری ہوگا۔
علامہ ابن تیمیہؒ  نے ’’الصارم المسلول‘‘میں قاضی ابویعلیٰ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ: ’’رضٰی‘‘ اللہ تعالیٰ کی صفتِ قدیم ہے، وہ اپنی رضا کا اعلان صرف انھیں کے لیے فرماتا ہے، جن کے متعلق وہ جانتا ہے کہ ان کی وفات اسبابِ رضا پر ہوگی۔
۔۔۔ میرا رب نہ غلطی کرتا ہے اور نہ ہی بھولتا ہے۔ [سورۃ طٰہٰ:52] یعنی وہ لوگوں کی خوش بختی اور بدبختی میں خطا نہیں کرتا اور ان کے ثواب اور عقاب کو نہیں بھولتا۔ [تفسیر مدارک]




 علامہ ابن فورکؓ فرماتے ہیں:
          ’’ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ صحابۂ کرامؓ کے درمیان جو مشاجرات ہوئے ان کی مثال ایسی ہے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے درمیان پیش آنے والے واقعات  کہ وہ حضرات آپس کے ان اختلافات کے باوجود ولایت اور نبوت کی حدود سے خارج نہیں ہوئے، بالکل یہی معاملہ صحابہؓ کے درمیان پیش آنے والے واقعات کا بھی ہے۔‘‘
          اور حضرت محاسبیؒ فرماتے ہیں کہ:
          ’’جہاں تک اس خونریزی کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں ہمارا کچھ کہنا مشکل ہے؛کیونکہ اس میں خود صحابہؓ کے درمیان اختلاف تھا اور حضرت حسن بصریؒ سے صحابہؓ کے باہمی قتال کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایاکہ
          ’’ یہ ایسی لڑائی تھی جس میں صحابہؓ موجود تھے اور ہم غائب، وہ پورے حالات کو جانتے تھے، ہم نہیں جانتے، جس معاملہ پر تمام صحابہؓکااتفاق ہے، ہم اس میں ان کی پیروی کرتے ہیں اور جس معاملہ میں ان کے درمیان اختلاف ہے، اس میں سکوت اختیار کرتے ہیں۔‘‘




اہل السنت و الجماعت کا صحابہ کے بارے میں عقیدہ

امام طحاوی متوفی331 ھ نے اس بارے میں اہل سنت والجماعت کا جو عقیدہ بیان کیا ہے وہ اجماعی عقیدے کا ترجمان ہے اور جامع بیان ہے:

ونحب اصحاب رسول اللہ ولا نفرط فی حب احد منھم ولا نتبرا من احدمنھم و نبغض من یغبضھم ولا نذکرھم الا بخیرو حبھم دیناً و ایماناً و بغضھم کفر ا ونفاقا و طغیاناً

[طحاویؒ، امام، العقیدہ الطحاویہ ،مکتبہ ستاریہ،گلشن اقبال،کراچی،۲۰۰۴ء،ص۱۳]

’’ہم اصحاب رسول ﷺ سے محبت کرتے ہیں مگر ان کی محبت میں حد سے تجاوز نہیں کرتے، ہم اصحابِ رسول میں سے کسی سے بھی برات نہیں کرتے ، ہم ان لوگوں سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ سے بغض رکھتے ہیں ، ہم صحابہ کا ذکر خیر اور بھلائی کے ساتھ کرتے ہیں اور ہم صحابہ سے محبت دین و ایمان سمجھتے ہیں اور ان سے بغض رکھنا کفر ، نفاق اور سرکشی سمجھتے ہیں۔‘‘

صحابہؓ کا مقام: قرآن کریم اور فرمانِ رسول اللہ ﷺ میں دیکھئے:



علم تاریخ اور علم حدیث کے درمیان فرق

نمبر شمار        علمِ حدیث                علمِ تاریخ
۱۔
علمِ حدیث منسوب ہے نبی ﷺ کی طرف۔

    علمِ تاریخ منسوب نہیں کسی       نبی یا صحابی کی طرف۔

۲۔
علمِ حدیث اصول شرع میں سے ایک اصل ہے جس پر عمل کرنا واجب ہے ۔

    علمِ تاریخ اصول شرع میں         سے نہیں ہے ۔

۳۔
علمِ حدیث و تاریخ کا باہمی تعارض آجائے تو علم حدیث میں ثابت شدہ بات کو لیں گے۔

    تاریخ سے ثابت شدہ بات کو      رد کریں گے ۔
۴۔
علمِ حدیث کے مؤلفین مسلم علماء ،صلحاء قرآن و حدیث کے ماہر تھے۔

    جبکہ علمِ تاریخ کے اکثر         مؤلفین یہود و نصاریٰ مجوس      و دیگر غیر مسلموں کا گروہ       ہے جن کا نہ قران و سنت سے     تعلق نہ تاریخ و جغرافیہ سے ۔


درجہ بالافرق کی بنیاد پر ہم یہ بات واضح طور پر کہہ سکتے ہیں،کہ جولوگ مشاجرات صحابہ کو بنیاد بناکر کسی صحابی کی تنقیص کرتے ہیں وہ تاریخ کو مآخذ اصلیہ بناتے ہیں حالانکہ تاریخ اصول شرع میں سے نہیں ہے بلکہ تاریخ جب نصوص قران و حدیث کے مخالف/متعارض ہوتو اس کو رد کیا جاتا ہے کیونکہ تاریخی روایات زیادہ سے زیادہ ظنی ہوتی ہیں اور قران وسنت یقینی ہے ،تو یقین کے مقابلے میں ظن کو ئی حیثیت نہیں ہوتی:انَّ الظنَ لا یُغنیِ مِن الحقِ شیا۔

اب ہم مختصراً بعض قابل توجہ اشکالات اور اس کے جوابا ت کا ذکر کریں گے تاکہ ذہنوں کو شکوک و شبہات سے پاک کیا جائے ۔


سوال ۱:

سیدنا عمار ؓ کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: تقتلہ (عماراً) الفئتہ الباغیہ ؟ ’’ (عمارکو) ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘

اوریہ بات ثابت ہے کہ جنگ صفین میں سیدنا عمار ؓسیدناعلی ؓکے ساتھ تھےاورسیدنا معاویہ ؓ کی فوجوں کے خلاف لڑرہے تھے کہ ان میں سے کسی کے ہاتھ سے شہید ہوگئے تھے ۔

الجواب:

اس سوال کے کئی طرح سے جوابات دیے گئے ہیں ۔

(الف ) سیدناعمار ؓ کے قاتل صحابی نہیں تھے بلکہ سبائی باغی تھے کیونکہ نحوی اصول کے مطابق الباغیہ یہ الفئتہ کی صفت ہے ۔پھر صفت موصوف تقتل کا فاعل ہے ،فاعل کا وجود فعل سے پہلے ہونا ضروری ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ گروہ پہلے ہی سے باغی ہے نہ کہ حضرت عمار کے قتل کے بعد ۔اور اس گروہ کی پہلی بغاوت امام برحق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ہوئی۔

(ب)دوسری توجیہ یہ ہے کہ باغیہ یہ بغاوت سے نہیں بلکہ اس کا مصدر بغیہ ہے جس کا معنی ہے طلب کرنے والا،یعنی سیدنا عثمان ؓکے خون کا طلب کرنے والا۔

(ج)اگر بغاوت سےبھی ہو تو یہ بغاوت اجتہاد ی تھی یعنی تنازع خلافت کا نہیں تھا بلکہ قصاص سیدناعثمان ؓ کا تھا جیسا کہ سیدنا معاویہ ؓ نے اقرار کیا تھا کہ"میں نے سیدنا علی ؓ کےساتھ لڑائی صرف سیدنا عثمان ؓ کے معاملے میں تھی"۔

[ابن ابی شیبہؒ، المصنف لابن ابی شیبہ ،دارالقرآن،لسبیلہ گارڈن،کراچی،۲۰۰۵ء،ج۱،ص۵۲]


سوال۲:

اذا رایتم معاویہ علیٰ منبری فا قتلوہ ’’جب تم منبر پر معاویہ کودیکھو تو قتل کردو۔‘‘

جواب :

یہ من گھڑت روایت ہے۔ 

[ابن تیمیہؒ، منہاج السنۃ ،دارالسلام،ریاض، ص۲۰۱]


سوال ۳:

بعض کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے سیدنا معاویہ ؓ کو فرمایا کہ تمھاری جسم سے مجھے بدبو آتی ہے تمہاری اولاد ہماری اولاد کے ساتھ ظلم کرے گی ۔

جواب:

مذکورہ بالا روایت بلکہ سیدنا معاویہ ؓ اور اس کے بیٹے یزید کے ذم کے بارے میں روایات کے متعلق ملا علی قاریؒ نے لکھا ہے :

و من ذالک الاحادیث فی ذم معاویہ ،ذم عمر و بن العاص ،وذم بنی الامیہ کلھم موضوعْ۔

[ملاعلی قاریؒ ، الموضوعات الکبیر ، دارالمعارف،بیروت، ۱۹۸۸ء، ص ۱۰۶]

’’اسی طرح کی احادیث معاویہؓ کی مذمت میں،عمروبن العاصؓ کی مذمت میں اور بنی امیہ کی مذمت میں ہیں سب کے سب من گھڑت ہیں۔‘‘


سوال ۴:

سیدنا معاویہ ؓ کے نام پر اعتراض کہ معاویہ کے معنی ہے بھونکنا؟

جواب :

معاویہ باب مفاعلہ سے اسم فاعل ہے جس کے آخر میں "ۃ" مبالغہ کے لیے بڑھائی گی ہے مثل العلامہ ، مادہ اس کا عوی (ع و ی لفیف مقرو ن ہے ) جب مجرد ہو عوی یعوی عین بمعنی بھونکنا ہے اور جب ثلاثی مزید باب مفاعلہ میں استعمال ہوا تو متعدی ہوگیا بمعنی بھونکانا یعنی کتوں کو بھونکانا۔ [المنجد، ص۵۳۹]

سوال ۵: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس میدان میں کیوں کود پڑیں۔

جواب :جب بیٹوں کے درمیاں نزاع ہو تو ماں صلح کے لیے درمیان میں آجاتی ہے یہ تو کوئی اعتراض کی بات ہی نہیں۔


خلاصہ

اس مختصر تحریر کے بعد ہم صحابہ کے بارے میں بطور خلاصہ یہ ذکر کرتے ہیں کہ جولوگ صحابہ پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کسی صحابی کے بارے میں کوئی طعنہ زنی ہو تو وہ صحابی نہیں ہوگا اگر صحابی ہو تو سند طعن خطا ہوگی اور اگر سند طعن درست ہو تو غلطی اجتہادی ہوگی اور اگر غلطی قصداً ہو تو اس نے توبہ کی ہوگی اگر توبہ بھی نہ کی ہوگی تو :

ان الحسنات یذھبن السیات [سورۃ ھود:۱۱۴]

’’بے شک نیکیاں گناہوں کو مٹادیتی ہیں۔‘‘

صحابہ کرامؓ کے بارے میں زیادہ تر شکوک و شبہات کتب تاریخ کوماخذ بنانے کی وجہ سے ہوتے ہیں، تاریخ کے بارے میں ہم نے پہلے مختصراً گفتگو کی ہے، اب خلاصہ دوبارہ بیان کرتے ہیں کہ ہم قرآن و سنت کے تابع ہیں، تاریخ کوئی حجت نہیں۔ جیسا کہ مفتی محمد شفیع ؒ اپنی مشہور کتاب "شہید کربلا " کے حاشیے میں لکھتے ہیں: "لیکن یہ یادر کھنا چاہیے کہ تاریخ کی مستند روایات بھی تاریخ ہی کی حیثیت رکھتی ہیں" مستند تاریخ کا بھی وہ درجہ نہیں جو مستند و معتبر احادیث کا ہے کہ ان پر احکام ،عقائد و حلال و حرام کی بنیاد ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امام بخاریؒ جیسے نقاد حدیث کی تاریخ کبیر و صغیر کا وہ درجہ نہیں جو صحیح بخاری کا ہے ۔

[مفتی محمد شفیع ،شہید کربلا، دارالاشاعت، اردوبازار، کراچی،۲۰۰۳ء،ص۱۰]

علامہ عنایت اللہ شاہ بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ:"صحابہ کے بارے میں گندگی کی مکھی بن کر تاریخ میں نہیں دیکھنا، نبی کے صحابی کے بارے میں شہد کی مکھی بن کر قرآن کے اوراق میں دیکھو۔"

[صحابہ رسول ﷺ اسلام کی نظر میں، ص۲۴۵]




**********************

مشاجراتِ صحابہ کے حوالہ سے اہل السنۃ و الجماعہ کا موقف کیا ہے؟


صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان پیش آنے والے اختلافات و حروب کو مشاجراتِ صحابہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

مشاجراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں اہل السنہ و الجماعہ کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ حسنِ ظن رکھا جائے، ان پر کسی قسم کا طعن نہ کیا جائے،کیوں کہ صحابہ کرام کے جن دو فریقوں میں اختلافات ہوئے، اس کی بنیاد اجتہاد تھا، جن دو جماعتوں کے درمیان جنگ ہوئی ان میں سے ہر ایک فریق اپنے آپ کو حق پر اور فریقِ مخالف  کو باغی سمجھتا تھا، اور باغیوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے قرآنی طریقہ پر عمل پیرا ہوا۔ لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور اپنے اجتہاد میں مصیب تھے، جب کہ ان کے مد مقابل  اجتہادی چوک کا شکار ہوئے، تاہم فریقین میں سے کسی ایک کا بھی مقصد دنیاوی اغراض نہ تھے، جس کے نتیجہ میں دونوں ہی عند اللہ ماجور ہوں گے، ان شاء اللہ!

باقی مشاجرات کے معاملے میں سکوت اختیار کرنا چاہیے، بحث مباحثہ،  لعن طعن کرنا بزبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ممنوع ہے۔

"المعجم الكبير للطبراني" میں ہے:

"عن ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم قال :"إذا ذُكر أصحابي فأمسكوا، وإذا ذكرت النجوم فأمسكوا، وإذا ذكر القدر فأمسكوا )". ( ٢ / ٩٦ )

ترجمہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جب میرے اصحاب کا ( یعنی ان کے  باہمی اختلافات وغیرہ کا ) ذکر چھڑے تو باز آجاؤ، اور جب ستاروں کا ذکر چھڑے تو باز آجاؤ، اور جب تقدیر کا ذکر چھڑے تو رک جاؤ، ( یعنی اس میں زیادہ غور و خوض اور بحث و مباحثہ نہ کرو)۔

فتح الباري لابن حجر میں ہے:

"واتفق أهل السنة على وجوب منع الطعن علی أحد من الصحابة بسبب ما وقع لهم من ذلك، ولو عرف المحق منهم؛ لأنهم لم يقاتلوا في تلك الحروب إلا عن اجتهاد، وقد عفا الله تعالى عن المخطئ في الاجتهاد، بل ثبت أنه يؤجر أجراً واحداً، وأن المصيب يؤجر أجرين".

(کتاب الفتن باب إذا التقیٰ المسلمان، ١٣ / ٤٣ )

ترجمہ:

اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کے مابین واقع ہونے والے حوادث کی بنا پر ان میں کسی ایک صحابی پر طعن و تشنیع سے اجتناب واجب ہے،  اگرچہ یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں صحابی کا موقف موقفِ حق تھا ؛ کیوں کہ انہوں نے ان لڑائیوں میں صرف اپنے اجتہاد کی بناپر حصہ لیا اور اللہ نے مجتہد مخطی کو معاف فرمادیا ہے، بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ مجتہد کے اجتہاد میں خطا ہوجائے تب بھی اسے ایک گنا اجر ملے گا، اور جس کا اجتہاد درست ہوگا اسے دو گنا اجر ملے گا۔

بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني شرح الفتح الرباني لترتيب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشيباني میں ہے:

"( قال النووي:) ... واعلم أن الدماء التي جرت بين الصحابة رضي الله عنهم ليست بداخلة في هذا الوعيد، و مذهب أهل السنة و الحق: إحسان الظن بهم و الإمساك عما شجر بينهم و تأويل قتالهم، و أنهم مجتهدون متأولون لم يقصدوا معصية و لا محض الدنيا، بل اعتقد كل فريق أنه المحق و مخالفه باغ، فوجب عليه قتاله ليرجع إلي امر الله، و كان بعضهم مصيباً و بغضهم مخطئاً معذوراً في الخطأ؛ لأنه لاجتهاد، و المجتهد إذا أخطأ لا إثم عليه، وكان علي رضي الله عنه هو المحق المصيب في تلك الحروب، هذا مذهب أهل السنة، وكانت القضايا مشتبهةً حتى أن جماعة من الصحابة تحيروا فيها فاعتزلوا الطائفتين و لم يقاتلوا و لم يتيقنوا الصواب، ثم تأخروا عن مساعدتهم، و الله اعلم".

( باب إحسان النية علي الخير و مضاعفة الاجر بسبب ذلك و ما جاء بسبب العزم و الهم، ١٩ / ٧ ، ط: دار إحياء التراث العربي، بيروت)

ترجمہ:

اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے، ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحبِ رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے؛ تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے؛کیوں کہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد سے گر خطا سرزد ہوجائے تو اس پر گناہ نہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے، یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا۔ فقط واللہ اعلم


****************************

 

روى الخطيب في «تاريخ بغداد» (6/ 44)، وابن عساكر في «تاريخ مدينة دمشق» (59/ 141)، وابن أبي يعلى في «طبقات الحنابلة» (1/ 251) من طريق الحسن بن محمد الخلال حدثنا عبدالله بن عثمان الصفار حدثنا أبو القاسم إسحاق بن إبراهيم بن آزر الفقيه حدثني أبي قال: حضرت أحمد بن حنبل، وسأله رجل عما جرى بين علي ومعاوية -رضي الله عنهما- فأعرض عنه؛ لأن هذا السؤال مرفوض، فقيل له: يا أبا عبد الله! هو رجل من بني هاشم -يعني هذا السائل- وكان الإمام أحمد -رحمه الله- يعرف لأهل بيت النبي ﷺ قدرهم، فأقبل عليه، فقال: اقرأ: تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ [سورة البقرة:134] فأجابه بهذا الجواب.

[مناقب الإمام أحمد (ص: 221)]


ملا علی قاری کی شرح الفقه الاکبر (ص 102) میں ہے:-

سئل احمد عن امر علی و عائشہ فقال تلک امتہ قد خلت لها ما کسبت و لکم ما کسبتم ولا تسئلون عن ما کانوا یعملون.

ترجمہ:

 حضرت امام احمد بن حنبل سے حضرت علی اور حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنهما) کے اختلافی معاملہ کے متعلق پوچها گیا تو انہوں نے قرآن کی آیت پڑهہ دی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ یہ ایک جماعت تهی جو گزر چکی وہ اپنے اعمال کی ذمہ دار ہے اور تم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہو. پس تم سے ان کے کئیے کا نہیں پوچها جائے گا.

اور مثلا امام ذهبی رح نے سیر اعلام النبلاء (جلد3 ص142) میں لکها ہے کہ ؛-

قال الاوزاعی سئل رجل الحسن البصری عن علی و عثمان فقال کانت لهذا سابقتہ و لهذا سابقتہ ولهذا قرابتہ و لهذا قرابتہ و ابتلی هذا و عوفی هذا. فسئله عن علی و معاویہ فقال کانت لهذا قرابتہ ولهذا قرابتہ و لهذا سابقتہ و لیس لهذا سابقتہ و ابتلیا جمیعا.

امام اوزاعی رح فرماتے ہیں کہ کسی نے حضرت حسن بصری رح سے حضرت علی و حضرت عثمان ( رضی اللہ عنهما) کے متعلق پوچها تو انہوں نے فرمایا ، انہیں بهی قبول اسلام میں سبقت حاصل ہے اور انہیں بهی. انہیں بهی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتهہ قریبی رشتہ داری کا شرف حاصل ہے اور انہیں بهی. حضرت علی( کرم اللہ وجہ) کو آزمائش سے دوچار ہونا پڑا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ( مظلومانہ شهادت کے بعد) عافیت پا گئے. اس نے پهر حضرت علی اور حضرت معاویہ( رضی اللہ عنهما) کے متعلق پوچها تو آپ نے فرمایا کہ انہیں بهی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت حاصل ہے اور انہیں بهی اور انہیں(حضرت علی رض کو) قبول اسلام میں سبقت حاصل ہے اور انہیں (حضرت معاویہ رض کو) نہیں. آزمائش دونوں کو پیش آئی.

اور مثلا دمیری کی حیوه الحیوان ( جلد 1 ص350) میں ہے.

و قد سئل عن علی و معاویہ ( رضی اللہ عنهما) فقال(عمربن عبدالعزیز) تلک دمآء طهراللہ منها سیوفنا افلا نطهر من الخوض فیهم السنتنا.

حضرت عمر بن عبدالعزیز رح سے حضرت علی اور حضرت معاویہ( رضی اللہ عنهما) کے متعلق پوچها گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ان خونوں میں ہماری تلواروں کو رنگین ہونے سے بچایا تو کیا اب ہمیں اپنی زبانوں کو ان معاملات کی چهان بین سے نہیں بچانا چاہئیے؟

اور مثلا علامہ ابن حجر مکیؒ اپنی کتاب الخیرات الحسان(ص57) میں امام ابوحنیفہ رحمتہ علیہ کے متعلق لکهتے ہیں ؛-

سئل عن علی و معاویہ و قتلی صفین فقال اخاف علی اللہ عن اقدم بشئ یسئلنی عنه ولو سکت لم اسئل عنه بل عن ما کلفت به فالاشتغال به اولی.

ترجمہ:

حضرت امام ابوحنیفہؒ سے حضرت علی اور حضرت معاویہ(رضی اللہ عنهما) اور جنگ صفین کے مقتولین کے بارے میں پوچها گیا تو انہوں نے جواب دیا میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں کہ اس معاملے میں کوئی ایسی بات کہہ دوں جس کے متعلق اللہ تعالی مجهہ سے پوچهے اور اگر میں خاموش رہوں تو مجهہ سے ان کے متعلق پوچها نہیں جائے گا. مجهہ سے صرف انہی ذمہ داریوں سے متعلق پوچها جائے گا جن کا میں شرعاً مکلف اور پابند ہوں. لہذا مجهے اپنے انہی اعمال میں مشغول رہنا بہتر ہے.

اور مثلا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اپنی کتاب غنیتہ الطالبین(ص140) میں لکهتے ہیں؛-

نسلم امرهم الی اللہ عزوجل علی ما کان و جری من اختلاف علی و طلحہ و الزبیر و عائشہ و معاویہ ( رضی اللہ عنهم).

ترجمہ:

 ہم اس اختلاف میں جو علی، طلحہ، زبیر، عائشہ اور معاویہ( رضی اللہ تعالی عنهم) کے درمیان پیش آیا تو ہم ان کے معاملے کو اللہ عزوجل کے سپرد کرتے ہیں.

اور مثلا علامہ قرطبیؒ اپنی تفسیر الجامع لاحکام القرآن(ج16ص322) میں حضرت حسن بصریؒکے متعلق لکهتے ہیں؛-

قال شهده اصحاب محمد و نهینا و علموا و جهلنا و اجتمعوا فاتبعنا واختفوا فوقفنا.

حضرت حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا قتال تها جس میں اصحاب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) موجود تهے، ہم تو غیرحاضر تهے. انہیں حالات کا صحیح علم تها، ہم تو بےخبر رہے. جس پر اصحاب متفق ہوئے تو ہم نے اس کی پیروی کی اور جس بات میں انہوں نے اختلاف کیا تو ہم نے توقف اختیار کیا.

اور مثلا یہی امام قرطبیؒ اپنی تفسیر(ج16ص361) میں لکهتے ہیں ؛-

لایجوز ان ینسب الی احد من الصحابہ خطا مقطوع به اذ کانوا کلهم اجتهدوا فی ما فعلوه و ارادوااللہ عزوجل وهم کهم لنا آئمه و قد تعبدنا بالکف عن ما شجر بینهم.

صحابہ کرام میں سے کسی کی طرف بهی یقین کے ساتهہ خطا کو منسوب کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ سب نے اپنے طور پر اجتہاد سے کام لیا اور وہ اللہ کی رضا کا ارادہ رکهتے تهے اور وہ سب کے سب ہمارے پیشوا ہیں. ہم ان کے بارے میں اپنی زبان کو بند رکهنے میں ہی اللہ کی رضا خیال کرتے ہیں.

اور مثلا شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے؛-

وقعد عن القتال اکثر الاکابر…..یعنی اکابر صحابہ کرام کی اکثریت باہم خانہ جنگی میں شریک نہیں ہوئی.

یہی بات اور متقدمین حضرات مثلا علامہ ابن کثیرؒ نے بهی لکهی ہے کہ ان دنوں دسیوں ہزار صحابہ کرام زندہ موجود تهے لیکن بہت ہی کم حضرات نے ان جنگوں میں حصہ لیا.

اوپر تفصیل سے مشاجرات صحابہ کے متعلق متقدمین کے موقف کی عبارات آپ نے ملاحظہ فرمائیں اور یہ کہ صحابہ کرام کی اکثریت نے ان محاربات میں حصہ نہیں لیا. اگر اس دور کے صحابہ کرام کی اکثریت قطعیت سے یہ فیصلہ نہ کرسکی کہ کون حق پر ہے اور کون باغی یا مخطی ہے تو بعد والے یہ فیصلہ کیسے کرسکتے ہیں؟ یہاں یہ بهی یاد رہے کہ خطاء اور نسیان اپنی اصل کے اعتبار سے قابل مواخذہ نہ ہوتے تو اللہ تعالی ہمیں یہ دعا ہی کیوں سکهاتا؛- ربنا لا تواخذنا ان نسینا او اخطانا..الآیہ.. یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالی خود ہی عدم مواخذہ کی دعا سکهائے پهر نسیان اور خطاء پر مواخذہ بهی فرمانے لگے. لیکن قتل خطاء اس سے ایک حد تک مستثنی ہے. اس پر آخرت میں مواخذہ نہ بهی ہو تو بهی دنیا میں مقتول کے ورثاء کو دیت دینا ہوگی. لگاتار دو ماہ کے روزے رکهنے ہوں گے وغیرہ وغیرہ. لہذا یہ سمجهنا درست نہیں کہ صحابہ کرام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو باغی نہیں بلکہ خطائے اجتہادی پر سمجهتے تهے اور خطائے اجتہادی چونکہ معاف ہے اس لئے انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتهہ دینا ضروری نہ سمجها.

ایسی مبینہ خطاء صحابہ کرام کے لئے نظرانداز کئے جانے کے لائق نہیں ہوسکتی تهی جس میں مسلمانوں کے خون بہنے کے بهی قوی خدشات تهے. وہ اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو یقین قطعی کے ساتهہ خطائے اجتہادی پر سمجهتے تو اتمام حجت کے لئے یقینا حضرت معاویہ پر ان کی غلطی کو خوب واضح کرتے. اگر وہ پهر بهی تسلیم نہ کرتے تو یقینا سورہ حجرات میں مذکور متعلقہ حکم کے تحت حضرت علی کرم اللہ وجہ کا بهرپور ساتهہ دیتے اور گهروں میں نہ بیٹهہ رہتے.

اور مثلا بروایت حکیم الامت مولانا اشرف علی تهانوی کسی شخص نے مولانا نعیم لکهنویؒ سے حضرت علی اور حضرت معاویہ( رضی اللہ عنهما) کے متعلق پوچها تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ یہ سوال تمہارا ہے یا کسی اور کا؟ اس شخص نے کہا کہ فلاں حافظ صاحب نے پوچها ہے. مولانا لکهنوی صاحب کے پوچهنے پر اس شخص نے بتایا کہ حافظ صاحب جوتے فروخت کرتے ہیں اور میں کپڑے رنگتا ہوں. مولانا نے فرمایا کہ تم دونوں مطمئن رہو قیامت کے دن ان حضرات کا مقدمہ تم پر پیش نہیں ہوگا اس لئے تم کپڑے رنگتے رہو اور حافظ صاحب جوتے فروخت کرتے رہیں.

مندرجہ بالا عبارات سے خوب واضح ہورہا ہے کہ اکابر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنهم) کی اکثریت نے ان جنگوں سے اجتناب کیا. اس کے بعد متقدمین اکابر امت مثلا حضرت حسن بصریؒ، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام احمد بن حنبلؒ، شیخ عبدالقادر جیلانیؒ اور علامہ قرطبیؒ وغیرہ حضرات نے توقف اور سکوت اختیار کیا.

علامہ قرطبیؒ نے یہ بهی لکها ہے کہ ان اختلافی امور میں یقین اور قطعیت کے ساتهہ خطاء کو صحابہ کرام کی طرف منسوب کرنا سرے سے جائز ہی نہیں. تو بتائیے کہ ہمارے اکثر متاخرین کا یہ خیال کیسے درست ہوا کہ ان جنگوں میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) یقیناً حق پر اور حضرت معاویہ ( رضی اللہ عنہ) یقینا خطاء پر تهے. بعض حضرات نے تو اس موقف پر اجماع امت تک کا بهی ناحق دعوی فرما دیا ہے. یہ ان حضرات کی خطائے اجتہادی ہے جس پر وہ ان شاءاللہ ماخوذ نہیں ہوں گے. لیکن خطاء بہرحال خطاء ہے. جب اس بات میں اختلاف پیدا ہوجائے کہ کوئی صحابی رسول خطاء اجتہادی پر ہے یا غیراصحابی حضرات صحابی کی طرف خطائے اجتہادی کے انتساب میں خود خطائےاجتہادی پر ہیں ؟ تو اس اختلاف میں اصول ” اهون البلیتین” (lesser evil) کے تحت صحابی کی بجائے غیرصحابی کو خطائےاجتہادی پر قرار دینا ہی صحیح ہوگا. جب صحابی کی طرف خطائےاجتہادی منسوب کی جائے تو اس کا جواب یہ پیش کیا جاتا ہے کہ خطائے اجتہادی سرے سے قابل مواخذہ ہی نہیں بلکہ مجتہد کو اس کی غلطی پر بهی اکہرا اجر ملتا ہے لہذا صحابی پر خطائے اجتہادی منسوب کرنے سے اس کی تنقیص نہیں ہوتی. پس اگر ہم غیرصحابی کی طرف خطائےاجتہادی منسوب کریں تو اس کی توہین بهی نہیں ہوتی. اور ادب کا تقاضا یہ بهی ہے کہ بعض ناگزیر صورتوں میں صحابی کی بجائے غیرصحابی کی طرف خطائے اجتہادی کو منسوب کیا جائے. یہاں اس حقیقت کو بهی نظرانداز کیا گیا ہے کہ اجتہادی اختلاف میں ہمیشہ صواب اور خطاء کا ہی اختلاف نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ اختلاف اولی و خلاف اولی، احسن و حسن ، افضل و مفضول اور راجح اور مرجوح کا بهی تو ہوسکتا ہے. اختلاف تنوع تو ایک طرف رہا بعض اوقات اختلاف تضاد میں بهی فریقین مصیب(حق بجانب) ہوتے ہیں. مثلا غزوہ بنی نظیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر کچهہ اصحاب نے تو یہودیوں کے کهجور کے درخت کاٹے اور کچهہ نے نہیں کاٹے. دونوں کا عمل بالکل متضاد ہے لیکن فریقین اپنی اپنی جگہ پر حق بجانب تهے. مشاجرات صحابہ کرام میں محاکمہ سرے سے خلاف ادب ہے. کوئی اس کے بغیر نہ رہ سکے تو فریقین کو حق بجانب قرار دیا جاسکتا ہے یا اس سے نیچے اترتے ہوئے اسے اولی و خلاف اولی کا اختلاف سمجها جا سکتا ہے. دیکهئیے نماز میں رفع یدین و عدم رفع یدین وغیرہ بیشتر فروعی اختلافات میں فقہی مسائل کی ناگزیر تحقیق کے پیش نظر ہم اولی اور خلاف اولی سے آگے نہیں بڑهہ سکتے یہاں کسی کو بهی خطائےاجتہادی پر سمجهنا صحیح نہیں. مشاجرات صحابہ کرام میں محاکمہ تو سراسر غیرضروری ہے اور فقہی مسائل کے برعکس اس کی کوئی ناگزیر صورت سرے سے ہی نہیں پهر بهی محاکمے کا شوق بےچین کرے تو ہمیں فریقین کو مصیب(حق بجانب) سمجهنا چاہئیے یا پهر اولی اور خلاف اولی سے آگے نہیں بڑهنا چاہئیے. ورنہ امام ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل وغیرہ کی طرح سکوت اور توقف ہی بہتر ہے. ہم یہاں امام ابوحنیفہؒ کی اتباع چهوڑ کر متاخرین اکابر حضرات کی پیروی کو کیوں ضروری سمجهتے ہیں؟

(جاری)

جنگ جمل اور جنگ صفین کے بارے میں روایات




حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ أَبُو مَعْمَرٍ ، نا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ مُضَارِبِ بْنِ حَزْنٍ ، قَالَ : قِيلَ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : " مَا حَمَلَهُمْ عَلَى قَتْلِ عُثْمَانَ ؟ قَالَ : الْحَسَدُ 

حضرت علیؓ سے پوچھا گیا کہ لوگوں کو قتل عثمانؓ پر کس چیز نے برانگیختہ کیا تو فرمایا : حسد اور عناد نے۔


حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، وَطَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ " مَا قَتَلْتُ يَعْنِي : عُثْمَانَ وَلَا أَمَرْتُ ثَلَاثًا وَلَكِنِّي غُلِبْتُ " .
حضرت ابن عباسؓ حضرت علیؓ سے نقل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ کو فرماتے ہوئے سنا : اللہ کی قسم ! حضرت عثمانؓ کو میں نے قتل نہیں کیا اور نہ ہی میں نے ان کے قتل کا حکم دیا ہے بلکہ میں نے اس قتل سے منع کیا تھا اور میں اس معاملے میں مغلوب رہا۔ 
[المصنف لابن ابی شیبہ: ج 15 ص 208]


فَقَالَ عَلِيٌّ " لَعَنَ اللَّهُ قَتَلَةَ عُثْمَانَ فِي السَّهْلِ وَالْجَبَلِ وَالْبَرِّ وَالْبَحْرِ. 
حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی قاتلینِ عثمان پر لعنت کرے ، ہر جگہ لعنت ہو ، صاف زمین میں ، پہاڑوں میں، اور خشکی اور سمندر میں۔ 
[المصنف لابن ابی شیبہ: ج 4 ص 1018]


أَخْبَرَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الأَنْصَارِيِّ ، قَالَ : رَأَيْتُ عَلَى عَلِيٍّ عِمَامَةً سَوْدَاءَ يَوْمَ قُتِلَ عُثْمَانُ ، قَالَ : وَرَأَيْتُهُ جَالِسًا فِي ظُلَّةِ النِّسَاءِ ، وَسَمِعْتُهُ يَوْمَئِذٍ يَوْمَ قُتِلَ عُثْمَانُ يَقُولُ : " تَبًّا لَكُمْ سَائِرَ الدَّهْرِ " .
ابوجعفر انصاری کی روایت ہے کہ جس دن حضرت عثمانؓ قتل کئے گئے اس دن میں نے حضرت علیؓ کو سیاہ عمامہ باندھے دیکھا ۔ حضرت علیؓ نے پوچھا : اس شخص نے کیا کیا : میں نے کہا : وہ قتل کر دیئے گئے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا : ہمیشہ کیلئے تمہارے لئے ہلاکت ہو۔ 



جس کو خود حضرت علیؓ باغی اور منافق نہ کہیں ، انہیں آج کل کہ شیعہ کس منہ سے کہتے ہیں؟ حضرت علیؓ نے تو انہیں اپنا بھائی کہا ہے۔


شیعوں کے معروف و معتبر عالم عبداللہ بن جعفر الحمیریؒ (م304ھ) اپنی معتبر کتاب "قرب الاسناد" میں بسندِ صحیح روایت کرتا ہے اس سند کے دو راوی جو حضرت علی عليه السلام سے روایت کر رہے ہیں خود آئمہ معصومین ہیں اور باقی تین راوی معتبر اور ثقہ شیعہ راوی ہیں جن کو جمہور شیعہ علماء نے ثقہ اور صحیح کہا ہے



جعفر، عن أبيه: أن عليا عليه السلام كان يقول لأهل حربه:
" إنا لم نقاتلهم على التكفير لهم، ولم نقاتلهم على التكفير لنا، ولكنا رأينا أنا على حق، ورأوا أنهم على حق۔
ترجمہ:
حضرت امام باقرؒ سے مروی ہے کہ حضرت علی المرتضٰیؓ اپنے مقابلین کے حق میں فرماتے تھے کہ ہم ان سے ان کی تکفیر کی بنا پر قتال نہیں کر رہے اور نہ ہی ان سے اس وجہ سے قتال کر رہے ہیں کہ وہ ہماری تکفیر کرتے ہیں۔ بلکہ بات یہ ہے کہ ہم یقین کرتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ یقیناً وہ حق پر ہیں۔ 

[کتاب قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة ٩٣، حدیث/313؛ قله المجلسي في البحار المجلد الثامن: 426 (الطبعة الحجرية).]








جعفر، عن أبيه عليه السلام: أن عليا عليه السلام لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق، ولكنه كان يقول: " هم إخواننا بغوا علينا " ۔
 ترجمہ:
امام جعفر صادقؒ اپنے والد امام باقرؒ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ اپنے مدمقابل (حضرت معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں) میں سے کسی کو مشرک یا منافق کی نسبت یاد نہیں کرتے تھے لیکن یوں کہتے تھے وہ ہمارے بھائی تھے ان سے زیادتی ہو گئی۔
[کتاب قرب الاسناد - الحميري القمي - الصفحة ٩٤، حدیث/318 ؛ نقله المجلسي في البحار المجلد الثامن: ٤٢٦ (الطبعة الحجرية).]


حضرت علیؓ نے فرمایا: اے لوگو! معاویہؓ کی حکومت کو برا مت کہو! خدا کی قسم جب وہ نہ رہیں گے تو دنیا میں سخت بد امنی پھیلے گی۔ ازالۃ الخفاء [لد 4 صفحہ 522)] میں امام ابن کثیرؒ (م774ھ) سے نقل کیا ہے کہ حضرت علیؓ جب جنگِ صفین سے واپس ہوئے تو فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ، ‌لَا ‌تَكْرَهُوا ‌إِمَارَةَ مُعَاوِيَةَ; فَإِنَّهُ لَوْ فَقَدْتُمُوهُ لَقَدْ رَأَيْتُمُ الرُّءُوسَ تَنْزُو مِنْ كَوَاهِلِهَا كَالْحَنْظَلِ.
[البداية والنهاية (امام) ابن کثیر : ج 9 ص 233 دار هجر]
اے لوگو! تم معاویہؓ کی امارت کو نا پسند مت کرو، کیوں کہ اگر وہ نہ رہیں گے تو تم دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے جس طرح حنظل کا پھل درخت سے ٹوٹ کر گرتا ہے۔

منهاج السنة النبوية [ج6 ، ص209] کی عبارت جنگِ جمل کے بیان میں گزرچکی اسے مکرر ملاحظہ فرمالیں۔



اسی طرح امام ابن کثیرؒ (م774ھ) نے لکھا ہے کہ مختلف سندوں(راویوں کے سلسلوں) سے یہ بات منقول ہے کہ حضرت معاویہؓ نے ایک گفتگو کے وقت فرمایا:
وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّهُ ‌خَيْرٌ ‌مِنِّي ‌وَأَفْضَلُ، ‌وَأَحَقُّ بِالْأَمْرِ مِنِّي، وَلَكِنْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ عُثْمَانَ قُتِلَ مَظْلُومًا، وَأَنَا ابْنُ عَمِّهِ، وَأَنَا أَطْلُبُ بِدَمِهِ ۔
[البدایہ والنہایہ(امام) ابن کثیر : ج 11 ، ص 425 دار هجر]
(کتنی تاکید سے فرماتے ہیں) اللہ کی قسم! یقینا میں جانتا ہوں کہ حضرت علیؓ مجھ سے افضل و بہتر ہیں اور خلافت کے بھی مجھ سے زیادہ حقدار ہیں۔ لیکن کیا یہ بات تم تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت عثمانؓ کو ظلماً شہید کیا گیا اور میں ان کا چچا زاد بھائی ہوں، اس لئے مجھے ان کے خون کا بدلہ اور قصاص لینے کا زیادہ حق ہے۔



حافظ ابن عبدالبرؓ (م463ھ) لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہؓ مختلف فقہی مسائل میں خط و کتابت کے ذریعہ حضرت علیؓ سے معلومات حاصل کرتے رہتے تھے جب حضرت علیؓ کی وفات کی خبر پہونچی تو کہا:
‌ذهب ‌الْعلم بِمَوْت عَليّ۔
[استیعاب تحت الاصابہ: ج ۳ ، ص ۴۳ ، تاريخ قضاة الأندلس(امام) النباهي: ص23، منح الجليل شرح مختصر خليل:9 / 648]
یعنی علیؓ کی موت سے علم رخصت ہوگیا ۔





دونوں فریقین حق پر تھے، ایک زیادہ حق پر تھا:
فائدہ :
ان مشاجرات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں "اجتہادی" اختلاف تھا ۔ احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔ صحیح مسلم اور مسند احمد بن حنبل میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے متعدد سندوں کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے ۔
«‌تَمْرُقُ مَارِقَةٌ فِي فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ، فَيَلِي ‌قَتْلَهُمْ أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ»
[صحیح مسلم :1064، السنن الكبرى للنسائي:8501، شرح السنة للبغوي:2555]
مسلمانوں کے باہمی اختلاف کے وقت ایک گروہ (جماعت سے) نکل جائے گا اور اس کو وہ گروہ قتل کرے گا، جو مسلمانوں کے دونوں گروہ میں حق سے زیادہ قریب ہوگا۔

فائدہ :
اس حدیث میں مارقہ سے مراد باتفاق "خوارج" کا گروہ ہیں، ان کو حضرت علیؓ اور ان کی جماعت نے قتل کیا، جن کو آپؐ نے اولی الطائفتین بالحق فرمایا۔ آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو جماعت حق پر ہوگی وہ قتل کرے گی، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کا اختلاف صریح حق و باطل کا نہیں بلکہ "اجتہادی" (جائز اور افضل کا) اختلاف ہوگا، البتہ حضرت علیؓ کی جماعت حق کے زیادہ قریب ہوگی اسی طرح صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اور حدیث کی متعدد کتابوں میں قوی سند کے ساتھ یہ حدیث منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«‌لَا ‌تَقُومُ ‌السَّاعَةُ حَتَّى تَقْتَتِلَ فِئَتَانِ ‌عَظِيمَتَانِ، وَتَكُونُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ وَدَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ»۔
[صحیح مسلم : 157، صحیح بخاری:7121، صحیح ابن حبان:6734]
قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ مسلمانوں کی دو عظیم جماعتیں آپس میں قتال نہ کریں ان کے درمیان زبردست خوں ریزی ہوگی حالاں کہ دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا۔

علامہ نوویؒ (م676ھ) فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں مسلمانوں کی دو جماعتوں سے مراد حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کی جماعتیں ہیں اور حضور اقدس ﷺ نے دونوں کی دعوت کو ایک قرار دیا، جس سے صاف ظاہر ہے کہ دونوں اسلام ہی کی دعوت لے کر کھڑی ہوئی تھیں اور اپنے اپنے اجتہاد کے موافق دین ہی کی بھلائی چاہتی تھیں، کسی کے پیشِ نظر اقتدار کی خواہش اور حصولِ جاہ کی تمنا نہ تھی ۔

حافظ ابن کثیرؒ (م774ھ) ان دونوں روایتوں کو نقل کرکے فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ علیؓ اولی الطائفتین الی الحق ہیں اور یہی مذہب اہلِ سنت والجماعت کا ہے کہ حضرت علیؓ مصیب ہیں اور حضرت معاویہؓ چوں کہ مجتہد ہیں اس لئے انشاء اللہ وہ بھی ماجور ہوں گے ۔
[البدایہ والنہایہ: ج ۷ ، ص۲۷۹]





حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ الْوَلِيدِ ، عَنْ جُنْدُبٍ الْخَيْرِ ، قَالَ : أَتَيْنَا حُذَيْفَةَحِينَ سَارَ الْمِصْرِيُّونَ إِلَى عُثْمَانَ ، فَقُلْنَا : إِنَّ هَؤُلَاءِ قَدْ سَارُوا إِلَى هَذَا الرَّجُلِ فَمَا تَقُولُ ؟ قَالَ : " يَقْتُلُونَهُ وَاللَّهِ " ، قَالَ : قُلْنَا : أَيْنَ هُوَ ؟ قَالَ : " فِي الْجَنَّةِ وَاللَّهِ " , قَالَ : قُلْنَا : فَأَيْنَ قَتَلَتُهُ ؟ قَالَ : " فِي النَّارِ وَاللَّهِ " .
حضرت جندب خیر کی روایت ہے کہ ہم حضرت حذیفہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جب مصریوں نے حضرت عثمانؓ کا محاصرہ کر رکھا تھا، تو ہم نے کہا: یہ لوگ اس شخص کی طرف چل پڑے ہیں۔ آپ کیا کہتے ہیں: اللہ کی قسم ! یہ لوگ اسے قتل کر کے رہیں گے۔ ہم نے کہا : یہ شخص کہاں ہو گا۔ فرمایا جنت میں ۔ ہم نے کہا : اس کے قاتل کہاں ہوں گے ۔ فرمایا : اللہ کی قسم ! دوزخ میں جائیں گے۔ 


عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : خَرَجَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، ذَاتَ يَوْمٍ ، وَمَعَهُ عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ الطَّائِيُّ ، فَإِذَا رَجُلٌ مِنْ طَيِّئٍ قَتِيلٌ ، قَدْ قَتَلَهُ أَصْحَابُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، فَقَالَ عَدِيُّ : يَا وَيْحَ هَذَا ! كَانَ أَمْسِ مُسْلِمًا وَالْيَوْمَ كَافِرًا ، فَقَالَ عَلِيٌّ : " مَهْلا ، كَانَ أَمْسِ مُؤْمِنًا وَالْيَوْمَ مُؤْمِنٌ " .
حضرت علیؓ اپنی جماعت کے ساتھ تشریف لا رہے تھے تو اس وقت ایک شخص عدی بن حاتم طائی بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ انہوں نے بنی طے کے ایک مقتول کو دیکھا جس کو حضرت علیؓ کی جماعت نے قتل کر ڈالا تھا۔ تو عدی بن حاتم کہنے لگا کہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ یہ کل مسلمان تھا اور آج کافر مرا پڑا ہے۔ حضرت علیؓ نے یہ سن کر فرمایا کہ ایسا نہ کہو، بلکہ یہ کل بھی مومن تھا اور آج بھی مومن ہے۔ 





حضرت علی رضی اللہ عنہ اور مقتولین جنگ صفین:


حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہےکہ وہ جنگ صفین کی رات نکلےتواہل شام کی طرف نظر اٹھا کر فرمایا:

((اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلَهُمْ))
[مصنف ابن أبي شيبة » كِتَابُ الْجَمَلِ » بَابُ مَا ذُكِرَ فِي صِفِّينَ ... رقم الحديث: 37162]
’’اے اللہ مجھے اور انھیں معاف فرمادے‘‘
(مصنف ابن ابی شیبہ:297/15)
صحیح سند سے یزید بن الاصم سے منقول ہےکہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سےصفین کے مقتولین کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا
’’ہمارے اور ان کے مقتولین جنتی ہیں‘‘
(مصنف ابن شیبہ:303/15،سنن سعید بن منصور:398/2،مجمع الزوائد:357/9، وذكر نحوه الذهبي في السير (3/144))

علامہ ابن خلدونؒ (م808ھ) نے امام طبریؒ (م360ھ) وغیرہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علیؓ سے پوچھا گیا کہ جنگِ جمل اور جنگِ صفین کے مقتولین کا انجام کیا ہوگا؟ حضرت علیؓ نے دونوں فریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
«والّذي نفسي بيده ‌لا ‌يموتنّ ‌أحد ‌من هؤلاء وقلبه نقيّ إلّا دخل الجنّة» ۔
[مقدمہ ابن خلدون: ج1 ص 268 دار الفكر، بيروت ]
قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! ان میں سے جو بھی صفائی قلب کے ساتھ مرا ہوگا وہ جنت میں جائے گا۔

جبکہ اس معاملہ پر قرآن کریم کی صریح دلالت ہے .
وہ مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پران کی اتباع کی، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن میں نہریں جاری ہیں ۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے.
[سورۃ التوبہ:100]
اور نکال لیں گے ہم جو کچھ ان کے دلوں میں خفگی تھی، بہتی ہوں گی ان کے نیچے نہریں اور وہ کہیں گے شکر اللہ کا جس نے ہم کو یہاں تک پہنچا دیا اور ہم نہ تھے راہ پانے والے اگر نہ ہدایت کرتا ہم کو اللہ بیشک لائے تھے رسول ہمارے رب کے سچی بات، اور آواز آئے گی کہ یہ جنت ہے وارث ہوئے تم اس کے بدلے میں اپنے اعمال کے.
[سورہ الاعراف:43]



عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : كُنْتُ إِلَى جَنْبِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ بِصِفِّينَ , وَرُكْبَتِي تَمَسُّ رُكْبَتَهُ , فَقَالَ رَجُلٌ : كَفَرَ أَهْلُ الشَّامِ , فَقَالَ عَمَّارٌ : " لَا تَقُولُوا ذَلِكَ ، نَبِيُّنَا وَنَبِيُّهُمْ وَاحِدٌ , وَقِبْلَتُنَا وَقِبْلَتُهُمْ وَاحِدَةٌ ، وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ مَفْتُونُونَ جَارُوا عَنِ الْحَقِّ ، فَحَقَّ عَلَيْنَا أَنْ نُقَاتِلَهُمْ حَتَّى يَرْجِعُوا إِلَيْهِ 

ایک شخص نے اہل شام کے حق میں کفر کی نسبت کی اور ان کو کافر کہنے لگا تو حضرت عمارؓ نے سن کر ارشاد فرمایا کہ ایسا مت کہو کیونکہ ان کے اور ہمارے نبی ایک ہیں اور ان کا اور ہمارا قبلہ ایک ہے لیکن بات یہ ہے کہ وہ لوگ فتنہ میں مبتلا ہو گئے اور امر حق سے متجاوز ہو گئے ہیں ، ہم پر لازم ہے کہ ہم ان کے ساتھ قتال کریں تاکہ وہ حق کی طرف پلٹ آئیں۔ 

[المصنف لابن ابی شیبہ ج 15 ص 290 ]









عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مِهْرَانَ ، قال : حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عَلِيًّا ، يَوْمَ صِفِّينَ وَهُوَ عَاضٌّ عَلَى شَفَتِهِ : " لَوْ عَلِمْتُ أَنَّ الْأَمْرَ يَكُونُ هَكَذَا مَا خَرَجْتُ , اذْهَبْ يَا أَبَا مُوسَى فَاحْكُمْ وَلَوْ بِحَزِّ عُنُقِي 

سلیمان بن مہران کہتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے بیان کیا جس نے صفین کے موقع پر خود حضرت علی سے سنا تھا ، اس وقت آپ کی اضطرابی کیفیت یہ تھی کہ آپ اپنے لب مبارک کو زیر دندان کرتے تھے اور فرماتے اگر اس معاملہ کے متعلق مجھے یہ معلوم ہوتا کہ یہاں تک پہنچے گا تو میں اس کے لیے خروج ہی نہ کرتا۔ حضرت ابوموسٰی کے حق میں فرمان دیا کہ آپ تشریف لے جائیں اور فیصلہ کریں اگرچہ اس میں مجھے خسارہ ہو۔ 

مصنف لابن ابی شیبہ ج 15 ص 293 


عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَّادٍ ، قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ يَوْمَ الْجَمَلِ : " يَا حَسَنُ ، لَيْتَ أَبَاكَ مَاتَ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً " ، فَقَالَ لَهُ : يَا أَبَتِ قَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا ، قَالَ : " يَا بُنَيَّ لَمْ أَرَ أَنَّ الأَمْرَ يَبْلُغُ هَذَا 

حضرت علی نے فرمایا : اے حسن ! کاش تیرا باپ آج سے بیس سال قبل فوت ہو گیا ہوتا۔ حضرت حسن نے کہا : اے ابا جان ! میں نے آپ کو اس سے روکا تھا۔ حضرت علی نے کہا ! اے بیٹے! مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ معاملہ یہاں تک پہنچے گا۔ 

البدایۃ والنہایہ ج 7 ص 288 


  حضرت علی نے فرمایا : اللهم أحلل بقتلة عثمان خزيا 
اے اللہ ! قاتلین عثمان پر ذلت اور رسوائی نازل کر۔ 
المصنف لابن ابی شیبہ ج 15 ص 277






حضرت امیر معاویہؓ کا مقصد محض اپنی خلافت قائم کرنا نہ تھا بلکہ وہ تو حضرت علیؓ کو اپنے سے افضل اور خلافت کا زیادہ حقدار سمجھتے تھے  تاریخ الاسلام میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ

وحدثني يعلى بن عبيد: ثنا أبي قال: قال أبو مسلم الخولاني وجماعة لمعاوية: أنت تنازع عليا هل أنت مثله فقال: لا والله إني لأعلم أن عليا أفضل مني وأحق بالأمر، ولكن ألستم تعلمون أن عثمان قتل مظلوما، وأنا ابن عمه، وإنما أطلب بدمه، فأتوا عليا فقولوا له: فليدفع إلي قتلة عثمان وأسلم له، فأتوا عليا فكلموه بذلك، فلم يدفعهم إليه

[کتاب تاريخ الإسلام - الذهبي - ج ٣ - الصفحة ٥٤٠]

ترجمہ

حضرت ابومسلم خولانی حضرت امیر معاویہؓ کے پاس گئے اور فرمایا :آپ حضرت علیؓ سے خلافت کے بارے میں تنازع کیوں کرتے ہیں؟ کیا آپ حضرت علیؓ جیسے ہیں؟ حضرت امیر معاویہؓ نے فرمایا نہیں الله کی قسم میں جانتا ہوں کہ حضرت علیؓ مجھ سے افضل ہیں اور خلافت کے زیادہ حقدار ہیں لیکن تم نہیں جانتے کہ حضرت عثمانؓ کو ظلما قتل کردیا گیا؟ اور میں ان کا چچا زاد بھائ ہوں اور ان کے قصاص کا مطالبہ کر رہا ہوں تم حضرت علیؓ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ وہ قاتلینِ عثمانؓ کو میرے حوالے کردیں اور میں یہاں کا نظام ان کے سپرد کر دوں گا۔








حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
إِنَّمَا أُرِيدُ أَنْ يَحْجِزَ بَيْنَ النَّاسِ مَكَانِي قَالَتْ : وَلَمْ أَحْسَبْ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ النَّاسِ قِتَالٌ ، وَلَوْ عَلِمْتُ ذَلِكَ لَمْ أَقِفْ ذَلِكَ الْمَوْقِفَ أَبَدًا قَالَتْ : فَلَمْ يَسْمَعِ النَّاسُ كَلَامِي ، وَلَمْ يَلْتَفِتُوا إِلَيَّ ، وَكَانَ الْقِتَالُ 

میرا خیال تھا کہ میں اپنے مقام و مرتبہ کی بنا پر لوگوں کے درمیان (جنگ) سے مانع ہوں گی۔ اور فرماتی ہیں کہ مجھے یہ گمان ہی نہیں تھا کہ لوگوں کے درمیان قتال واقع ہو گا۔ اگر مجھے یہ بات قبل ازیں معلوم ہوتی تو میں اس مقام میں ہرگز نہ پہنچتی۔ فرماتی تھیں کہ لوگوں نے میرا کلام نہ سنا اور میری بات کی طرف توجہ نہ کی۔ اور قتال واقع ہو گیا۔ 

[المصنف لعبدالرزاق: ج 5 ص 457 ]





حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِي حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو زُبَيْدٍ عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ الزُّبَيْدِيُّ ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبُو جَمِيلَةَ ، قَالَ : قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ لِعَائِشَةَ : يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ ! - يَوْمَ الْجَمَلِ - ، فَقَالَتْ : كُنْ كَخَيْرِ ابْنَيْ آدَمَ ، فَأَغْمَدَ سَيْفَهُ بَعْدَمَا سَلَّهُ ، ثُمَّ قَالَ : حَتَّى قُتِلَ 

حضرت محمد بن طلحہ سے حضرت عائشہ نے کہا کہ آدم کے فرزندوں میں سے بہترین فرزند کی صورت اختیار کر۔ پس اس نے جو تلوار کھینچی تھی، اس کو نیام میں کر لیا، پھر کھڑا تھا حتی کہ کسی نے شہید کر ڈالا۔ 

[تاریخ کبیر : ج 1 ص 110 ]


عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، قَالَ : قَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَاشِمَةِ : " لَمَّا فَرَغَ مِنْ أَصْحَابِ الْجَمَلِ وَنَزَلَتْ عَائِشَةُ مَنْزِلَهَا ، دَخَلْتُ عَلَيْهَا ، فَقُلْتُ : السَّلامُ عَلَيْكِ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ ، قَالَتْ : مَنْ هَذَا ؟ قُلْتُ : خَالِدُ بْنُ الْوَاشِمَةِ ، قَالَتْ : مَا فَعَلَ طَلْحَةُ ؟ قُلْتُ : أُصِيبَ ، قَالَتْ : إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، يَرْحَمُهُ اللَّهُ ، فَمَا فَعَلَ الزُّبَيْرُ ؟ قُلْتُ : أُصِيبَ ، قَالَتْ : إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، يَرْحَمُهُ اللَّهُ ، قُلْتُ : بَلْ نَحْنُ لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ فِي زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ ، قَالَتْ : وَأُصِيبَ زَيْدٌ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَتْ : إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، يَرْحَمُهُ اللَّهُ ، فَقُلْتُ : يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ ، ذَكَرْتُ طَلْحَةَ ، فَقُلْتِ : يَرْحَمُهُ اللَّهُ ، وَذَكَرْتُ الزُّبَيْرَ ، فَقُلْتِ : يَرْحَمُهُ اللَّهُ ، وَذَكَرْتُ زَيْدًا ، فَقُلْتِ : يَرْحَمُهُ اللَّهُ ، وَقَدْ قَتَلَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا ، وَاللَّهِ لا يَجْمَعُهُمُ اللَّهُ فِي جَنَّةٍ أَبَدًا ، قَالَتْ : أَوَ لا تَدْرِي أَنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 

ابن سیرین کہتے ہیں کہ خالد بن واشمہ جنگ جمل کے بعد حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے اس سے دریافت کیا۔ حضرت طلحۃ کا کیا بنا، تو خالد نے عرض کیا، وہ شہید ہو گئے، توحضرت عائشہ نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور ان پر ترحم کے کلمات فرمائے۔ پھر پوچھا کہ زبیر کا کیا ہوا۔ تو خالد نے عرض کی : وہ بھی شہید ہو گئے تو حضرت صدیقہ نے پھر کلمہ ترجیع ادا فرمایا اور کلمات ترحم فرمائے۔ پھر میں نے کہا زید بن صوحان جو قبیلہ عبدالقیس پر امیر تھا، اور حضرت علی کے حامیوں میں سے تھا، قتل ہو گئے، توحضرت صدیقہ نے ان پر بھی کلمہ ترحم ادا فرمایا۔ اس وقت خالد بن واشمہ کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا کہ یا ام المومنین : میں نے طلحہ اور زبیر کا ذکر کیا، تو آپ نے کلمہ ترحم ادا فرمائے اور جب میں نے زید بن صوجان کی شہادت کا ذکر کیا ، پھر بھی آپ نے کلمہ ترحم فرمائے ہیں، حالانکہ یہ ہر دو فریق مقابل تھے اور انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا ہے۔ اور اللہ تعالٰی کی قسم یہ لوگ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ تو حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا کہ اے خالد! کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالٰی کی رحمت وسیع ہے اوروہ ہر چیز پر قادر ہے۔ 

سنن الکبرٰی للبیہقی ، کتاب النفقات، بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ ثَنَاءِ السُّلْطَانِ
**********************
صحابہ کرامؓ، تاریخی روایات 
احوالِ زمانہ سے عبرت حاصل کرنا، انقلابات جہاں سے دنیا کی بے ثباتی کا سبق لے کر فکر آخرت کو مقدم رکھنا، اللہ تعالیٰ کے انعامات واحسانات کا استحضار، انبیاء وصلحاءِ امت کے احوال سے قلوب کو منور کرنا اور کفار وفجار کے انجام بد سے نصیحت حاصل کرنا وغیرہ فن تاریخ -جو واقعات نگاری اور احوال ماضیہ کو بیان کرنے کا نام ہے- کے فوائد ہیں، اس لئے اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے، اس کی اہمیت کے لئے تو یہی کافی ہے کہ قصص وتاریخ، قرآن کریم کے پانچ علوم میں سے ایک ہے اور اس کا وہ حصہ جس پر حدیث نبویؐ کے صحت وسقم کو پہچاننے کا مدار ہے، جس کو محدثین نے"اسماء الرجال" کے نام سے الگ مکمل تنقیح واحتیاط کے ساتھ جمع کیا ہے، فن حدیث کے جزء کی حیثیت رکھتا ہے، اس اہمیت کے باوجود تاریخ کا یہ مقام نہیں ہے کہ اس سے عقائد کے باب میں استدلال کیا جائے یا حلال وحرام کی تعیین میں حجت قرار دیا جائے،یا قرآن وسنت اور اجماع امت سے ثابت شدہ مسائل میں تاریخی روایات کی بناء پر شکوک وشبہات پیدا کئے جائیں، اس لئے صحابہ کرامؓ اور تاریخی روایات کے باب میں علماء دیوبند کا موقف جمہور امت کے مطابق یہ ہے کہ:
۱۔       چوں کہ صحابہ کرامؓ عام افراد امت کی طرح نہیں ہیں بلکہ یہ حضرات، رسول خدا اور خلق خدا کے درمیان خدا تعالیٰ کا ہی عطا کیا ہوا ایک واسطہ ہیں ، یہ از روئے قرآن وحدیث ایک خاص مقام رکھتے ہیں، اس لئے ان کے مقام کی تعیین تاریخ سے نہیں ، قرآن وسنت سے کی جائے گی۔
۲۔      چوں کہ قرآنِ کریم کی دسیوں آیات میں صحابہ کرامؓ کے حالات مصرح مذکور ہیں اس لئے تاریخی روایات ان کے معارض قطعاً نہیں ہوسکتیں ۔
۳۔      یہ ان احادیث صحیحہ ثابتہ کے بھی معارض نہیں ہوسکتیں جن کے جمع وتدوین میں وہ احتیاط برتی گئی ہے جو احتیاط تاریخ میں نہیں کی گئی، اصول حدیث کے معروف امام ابن صلاحؒ  لکھتے ہیں :
وغالب علی الاخباریین الاکثار والتخلیط فی ما یروونہ۔

(علوم الحدیث:۲۶۳)

"مؤرخین میں یہ بات غالب ہے کہ روایاتِ کثیرہ جمع کرتے ہیں جن میں صحیح وسقیم ہرطرح کی روایات خلط ملط ہوتی ہیں"۔
۴۔      پھر یہ مسئلہ عقائد اسلامیہ سے متعلق ہے اور جمہور امت نے کتب عقائد میں اپنے اپنے ذوق کے مطابق مفصل یا مجمل اس کا ذکر کیا ہے اس لئے اس کا مدار قرآن وسنت پر ہی رکھا جاسکتا ہے نہ کہ تاریخ کی خلط ملط روایات پر۔

*********************
مشاجرات صحابہؓ 
صحابہ کرامؓ کے مابین جو اختلافات رونما ہوئے اور خون ریز جنگوں تک کی نوبت آگئی، ان اختلافات کو علماء امت، صحابہ کرامؓ کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے"مشاجرات" کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں ، جنگ وجدال کی تعبیر سے گریز کرتے ہیں کہ اس میں ایک گونہ ان کے تئیں سوء ادب ہے"مشاجرہ" کے معنی از روئے لغت ایک درخت کی شاخوں کا دوسرے میں داخل ہونا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ درختوں کے لئے باعث زینت ہے نہ کہ عیب، اس طرح علماء امت اس اختلاف کی تعبیر سے ہی یہ اشارہ دینا چاہتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ کے وہ اختلافات جو اپنی انتہاء کو پہنچ گئے تھے اور جس میں وہ باہم برسرپیکار بھی ہوگئے وہ اختلافات بھی کوئی نقص وعیب نہیں بلکہ زینت وکمال ہیں ۔
مشاجرات صحابہؓ میں باعث تشویش یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق، جب تمام صحابہ کرامؓ واجب الاحترام اور لائق تعظیم ہیں اور کسی ایک کے حق میں بھی ادنیٰ سے ادنیٰ سوء ادب کی گنجائش نہیں تو پھر اختلاف کے موقع پر یہ احترام کیسے قائم رہ سکتا ہے کیونکہ ان اختلافات میں ایک فریق کا حق پر اور دوسرے فریق کا خطا پر ہونا بدیہی ہے بلکہ ایمان وعقیدے کے لئے اہل حق اور ارباب خطا کی تعیین ضروری بھی ہے تو جو خطا پر ہیں ان کی تنقیص ایک لازمی امر ہے۔
مشاجراتِ صحابہؓ کے اس شبہ کے سلسلے میں علماء امت اور علماء دیوبند کا دوٹوک موقف یہ ہے کہ باجماع امت تمام صحابہ کرامؓ واجب التعظیم ہیں ، اسی طرح اس بات پر بھی اجماع ہے کہ جنگ جمل وجنگ صفین میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ حق پر تھے اور ان سے مقابلہ کرنے والے حضرت معاویہؓ وغیرہ خطا پر، لیکن ان کی خطا اجتہادی تھی جو شرعاً گناہ نہیں کہ جس پر وہ اللہ تعالیٰ کے عتاب کے مستحق قرار پائیں بلکہ معاملہ یہ ہے کہ جب انہوں نے اصولِ اجتہاد کی رعایت کرتے ہوئے اپنی وسعت بھر تمام تر کوشش کی پھر بھی خطا ہوگئی تو وہ ایک اجر کے حق دار ہوں گے، اس طرح خطا وصواب بھی واضح ہوگیا اور صحابہ کرامؓ کے مقام ومرتبے پر کوئی آنچ بھی نہیں آئی، ہمارے خیال میں مشاجرات صحابہؓ کے حوالہ سے"امام قرطبی" نے اپنی تفسیر میں سورۃ الحجرات کی آیت"وإن طائفتان من المومنین اقتتلوا" کے ذیل میں اہل سنت والجماعت کے مسلک کی بہترین تحقیق فرمائی ہےاس کا مطالعہ کرلینا ہی چاہئے، یہ سطور اس تفصیل کی متحمل نہیں، تاہم مفسر موصوف کے ایک استدلال کا خلاصہ نقل کردینا مناسب ہوگا جو -انشاء اللہ- بیمار دلوں کے لئے سامان شفاء ہوگا۔
مفسر موصوفؒ نے اس نظریے کو مدلل کرتے ہوئے کہ دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی گناہ اور فسق وفجور کا مرتکب نہیں تھا، حضرت طلحہؒ حضرت زبیرؓ اور حضرت عمارؓ سے متعلق ارشادات نبویؐ بیان فرمائے ہیں ، جس کا ماحصل یہ ہے کہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہؓ کے بارے میں فرمایا ہے:"طلحہ روئے زمین چلنے والے شہید ہیں "اور حضرت زبیرؓ کے بارے میں خود حضرت علیؓ سے یہ حدیث مروی ہے:"زبیر کا قاتل جہنم میں ہے"، حضرت علیؓ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ"صفیہ کے بیٹے کے قاتل کو جہنم کی خبر دے دو" اور یہ دونوں حضرات ان عشرۂ مبشرہؓ میں ہیں جن کے نام لے کر جنتی ہونے کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، پھر یہ بھی معلوم ہے کہ ان دونوں حضرات نے حضرت عثمانؓ کے قصاص کا مطالبہ کیا تھا، حضرت علیؓ سے مقابلہ کیا اور اسی دوران شہید ہوئے۔
دوسری طرف حضرت عمار بن یاسررضی اللہ عنہ ہیں ، حضرت علیؓ کے طرف دار ہیں ، آپ کے مخالفین سے پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شہادت کی بھی پیشین گوئی فرمائی ہے۔
جب حال یہ ہے کہ حضرت علیؓ کے طرف دار بھی شہید اور مخالفین بھی شہید، تو پھر کیسے کسی فریق کو گناہ گار یا فاسق کہا جاسکتا ہے، ہرگز نہیں ! بلکہ ان تمام حضرات کے پیش نظر رضاء الٰہی کے حصول کے سوا کچھ نہ تھا، دونوں کا اختلاف کسی دنیوی غرض سے نہ تھا بلکہ اجتہاد ورائے کی بناء پر تھا جس پر کسی بھی فریق کو مجروح ومطعون نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح جو صحابہؓ کنارہ کش رہے وہ بھی اجتہاد کی بناء پر، اس لئے وہ بھی نقص وعیب سے مبرأ اور واجب التعظیم ہیں ۔
پھر علماء دیوبند کے نزدیک سب سے اہم سکوت(خاموشی) اور کفِ لسان(زبان روکنا)  ہے اور حضرت حسن بصریؒ کا یہ قول ان کے لئے اسوہ ہے جس میں وہ فرماتے ہیں :
"یہ ایسی لڑائی تھی جس میں صحابہؓ موجود تھے اور ہم غائب، وہ پورے حالات کو جانتے تھے، ہم نہیں جانتے، جس معاملے پر تمام صحابہؓ کا اتفاق ہے، ہم اس میں ان کی پیروی کرتے ہیں اور جس معاملے میں ان کے درمیان اختلاف ہے اس میں سکوت اختیار کرتے ہیں"۔

(قرطبی سورۂ حجرات)


مشاجرات صحابہؓ کے معاملہ میں امت کا عقیدہ اور عمل
  تفسیر قرطبی سورئہ حجرات میں آیت وإن طائفتان من المؤمنین اقتتلوا کے تحت مشاجرات صحابہ پر سلف صالحین کے اقوال کے ساتھ بہترین تحقیق فرمائی ہے جو انھیں کی طویل عبارت میں لکھی جاتی ہے۔

(۱۴) الْعَاشِرَۃُ – لَا یَجُوزُ أَنْ یُنْسَبَ إِلَی أَحَدٍ مِنَ الصَّحَابَۃِ خَطَائٌ مَقْطُوعٌ بِہِ، إِذْ کَانُوا کُلَّہُمُ اجْتَہَدُوا فِیمَا فَعَلُوہُ وَأَرَادُوا اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ، وَہُمْ کُلُّہُمْ لَنَا أَئِمَّۃٌ، وَقَدْ تَعَبَّدْنَا بِالْکَفِّ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَہُمْ، ولا نَذْکُرَہُمْ إِلَّا بِأَحْسَنِ الذِّکْرِ، لِحُرْمَۃِ الصُّحْبَۃِ وَلِنَہْیِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ سَبِّہِمْ، وَأَنَّ اللَّہَ غَفَرَ لَہُمْ، وَأَخْبَرَ بِالرِّضَاء عَنْہُمْ، ہَذَا مَعَ مَا قَدْ وَرَدَ مِنَ الْأَخْبَارِ مِنْ طُرُقٍ مُخْتَلِفَۃٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ طَلْحَۃَ شَہِیدٌ۔ یَمْشِی عَلَی وَجْہِ الْأَرْضِ، فَلَوْ کَانَ مَا خَرَجَ إِلَیْہِ مِنَ الْحَرْبِ عِصْیَانًا لَمْ یَکُنْ الْقَتْل فِیہِ شَہِیدًا، وَکَذَلِکَ لَوْ کَانَ مَا خَرَجَ إِلَیْہِ خَطَاء فِی التَّأْوِیلِ وَتَقْصِیرًا فِی الْوَاجِبِ عَلَیْہِ، لِأَنَّ الشَّہَادَۃَ لَا تَکُونُ إِلَّا بِقَتْلٍ فِی طَاعَۃٍ، فَوَجَبَ حَمْلُ أَمْرِہِمْ عَلَی مَا بَیَّنَّاہُ۔ وَمِمَّا یَدُلُّ عَلَی ذَلِکَ مَا قَدْ صَحَّ وَانْتَشَرَ مِنْ أَخْبَارِ عَلِیٍّ بِأَنَّ قَاتِلَ الزُّبَیْرِ فی النار۔ وقولہ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ’’بَشِّرْ قَاتِلَ ابْنِ صَفِیَّۃَ بِالنَّارِ‘‘۔ وَإِذَا کَانَ کَذَلِکَ فَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ طَلْحَۃَ، وَالزُّبَیْرَ غَیْرُ عَاصِیَیْنِ وَلَا آثِمَیْنِ بِالْقِتَالِ، لِأَنَّ ذَلِکَ لَوْ کَانَ کَذَلِکَ لَمْ یَقُلِ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی طَلْحَۃَ: ’’شَہِیدٌ‘‘۔ وَلَمْ یُخْبِرْ أَنَّ قَاتِلَ الزُّبَیْرِ فِی النَّارِ، وَکَذَلِکَ مَنْ قَعَدَ غَیْرَ مُخْطِیِٔ فِی التَّأْوِیلِ۔ بَلْ صواب أراہم اللَّہُ الِاجْتِہَادَ۔ وَإِذَا کَانَ کَذَلِکَ لَمْ یُوجِبْ ذَلِکَ لَعْنَہُمْ وَالْبَرَائَۃَ مِنْہُمْ وَتَفْسِیقَہُمْ، وَإِبْطَالَ فَضَائِلِہِمْ وَجِہَادَہُمْ، وَعَظِیمَ غِنَائِہِمْ فِی الدِّینِ، رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ۔ وَقَدْ سُئِلَ بَعْضُہُمِ عَنِ الدِّمَائِ الَّتِی أُرِیقَتْ فِیمَا بَیْنَہُمْ فَقَالَ۔’’تِلْکَ أُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَہا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَا کَسَبْتُمْ وَلا تُسْئَلُونَ عَمَّا کانُوا یَعْمَلُونَ‘‘ وسئل بَعْضُہُمْ عَنْہَا أَیْضًا فَقَالَ: تِلْکَ دِمَائٌ طَہَّرَ اللَّہُ مِنْہَا یَدِی، فَلَا أُخَضِّبُ بِہَا لِسَانِی۔ یَعْنِی فِی التَّحَرُّزِ مِنَ الْوُقُوعِ فِی خَطَائٍ، وَالْحُکْمِ عَلَی بَعْضِہِمْ بِمَا لَا یَکُونُ مُصِیبًا فِیہِ۔ قَالَ ابْنُ فَوْرِکٍ: وَمِنْ أَصْحَابِنَا مَنْ قَالَ إِنَّ سَبِیلَ مَا جَرَتْ بَیْنَ الصَّحَابَۃِ مِنَ الْمُنَازَعَاتِ کَسَبِیلِ مَا جَرَی بَیْنَ إِخْوَۃِ یُوسُفَ مَعَ یُوسُفَ، ثُمَّ إِنَّہُمْ لَمْ یَخْرُجُوا بِذَلِکَ عَنْ حَدِّ الْوَلَایَۃِ وَالنُّبُوَّۃِ، فَکَذَلِکَ الْأَمْرُ فِیمَا جَرَی بَیْنَ الصَّحَابَۃِ۔ وَقَالَ الْمُحَاسِبِیُّ: فَأَمَّا الدِّمَائُ فَقَدْ أَشْکَلَ عَلَیْنَا الْقَوْلُ فِیہَا بِاخْتِلَافِہِمْ۔ وَقَدْ سُئِلَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ عَنْ قِتَالِہِمْ فَقَالَ: قِتَالٌ شَہِدَہُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَغِبْنَا، وَعَلِمُوا وَجَہِلْنَا، وَاجْتَمَعُوا فَاتَّبَعْنَا، وَاخْتَلَفُوا فَوَقَفْنَا۔ قَالَ الْمُحَاسِبِیُّ فَنَحْنُ نَقُولُ کَمَا قَالَ الْحَسَنُ، وَنَعْلَمُ أَنَّ الْقَوْمَ کَانُوا أَعْلَمَ بِمَا دَخَلُوا فِیہِ مِنَّا، وَنَتَّبِعُ مَا اجْتَمَعُوا عَلَیْہِ، وَنَقِفُ عِنْدَ مَا اخْتَلَفُوا فِیہِ وَلَا نَبْتَدِعُ رَأْیًا مِنَّا، وَنَعْلَمُ أَنَّہُمُ اجْتَہَدُوا وَأَرَادُوا اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ، إِذْ کَانُوا غَیْرَ مُتَّہَمِینَ فِی الدین، ونسأل اللّٰہ التوفیق۔ (تفسیر القرطبی ص۳۲۲،ج۱۶)
            یہ جائز نہیں ہے کہ کسی بھی صحابی کی طرف قطعی اور یقینی طور پر غلطی منسوب کی جائے؛ اس لیے کہ ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہاد سے کام لیا تھا اورسب کا مقصد اللہ کی خوشنودی تھی، یہ سب حضرات ہمارے پیشوا ہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے باہمی اختلافات سے کفِّ لسان کریں اور ہمیشہ ان کا ذکر بہترین طریقے پر کریں؛ کیونکہ صحابیت بڑی حرمت کی چیز ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے انھیں معاف کررکھا ہے اور ان سے راضی ہے، اس کے علاوہ متعدد سندوں سے یہ حدیث ثابت ہے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طلحہؓ کے بارے میں فرمایا:


’’ان طلحۃ شہید یمشی علی وجہ الأرض‘‘


’’یعنی طلحہ روئے زمین پر چلنے والے شہید ہیں‘‘


اب اگر حضرت علیؓ کے خلاف حضرت طلحہؓ کا جنگ کے لیے نکلنا کھلا گناہ اور عصیان تھا تو اس جنگ میں مقتول ہوکر وہ ہرگز شہادت کارتبہ حاصل نہ کرتے، اسی طرح اگر حضرت طلحہؓ کا یہ عمل تاویل کی غلطی اور ادائے واجب میں کوتاہی قرار دیا جاسکتا تو بھی آپ کو شہادت کا مقام حاصل نہ ہوتا؛ کیونکہ شہادت تو صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کوئی شخص اطاعت ربّانی میں قتل ہوا ہو، لہٰذا ان حضرات کے معاملہ کو اسی عقیدہ پر محمول کرنا ضروری ہے جس کا اوپر ذکر کیاگیا۔

اسی بات کی دوسری دلیل وہ صحیح اور معروف ومشہور احادیث ہیں جو خود حضرت علیؓ سے مروی ہیں اور جن میں آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’زبیرؓ کا قاتل جہنم میں ہے‘‘


نیز حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ


’’صفیہؓ کے بیٹے کے قاتل کو جہنم کی خبر دے دو‘‘ جب یہ بات ہے تو ثابت ہوگیا کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ اس لڑائی کی وجہ سے عاصی اور گنہگار نہیں ہوئے، اگر ایسا نہ ہوتا تو حضور … حضرت طلحہؓ کو ’’شہید‘‘ نہ فرماتے اور حضرت اور حضرت زبیرؓ کے قاتل کے بارے میں جہنم کی پیشین گوئی نہ کرتے۔ نیز ان کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہے، جن کے جنتی ہونے کی شہادت تقریباً متواتر ہے۔


اسی طرح جو حضرات صحابہؓ ان جنگوں میں کنارہ کش رہے، انھیں بھی تاویل میں خطاکار نہیں کہا جاسکتا؛ بلکہ ان کا طرز عمل بھی اس لحاظ سے درست تھا کہ اللہ نے ان کو اجتہاد میںاسی رائے پر قائم رکھا۔ جب یہ بات ہے تو اس وجہ سے ان حضرات پر لعن طعن کرنا، ان سے براء ت کا اظہار کرنا اور انھیں فاسق قرار دینا، اُن کے فضائل ومجاہدات اور ان عظیم دینی مقامات کو کالعدم کردینا کسی طرح درست نہیں ہے۔ بعض علماء سے پوچھا گیا کہ اس خون کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو صحابۂ کرامؓ کے باہمی مشاجرات میں بہایاگیا، تو انھوں نے جواب میں یہ آیت پڑھ دی کہ


تِلْکَ أُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُم مَّا کَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْأَلُونَ عَمَّا کَانُوا یَعْمَلُونَ۔


ترجمہ: یہ ایک امت تھی جو گذرگئی، اس کے اعمال اس کے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہیں اورتم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیاجائے گا۔


کسی اور بزرگ سے یہی سوال کیاگیا تو انھوںنے کہا:


’’یہ ایسے خون ہیں کہ اللہ نے میرے ہاتھوں کو اس میں (رنگنے سے) بچایا، اب میں اپنی زبان کو ان سے آلودہ نہیں کروںگا۔‘‘

            مطلب یہی تھا کہ میںکسی ایک فریق کو کسی معاملے میں یقینی طور پر خطاکار ٹھہرانے کی غلطی میں مبتلا نہیںہونا چاہتا۔

            علامہ ابن فورکؓ فرماتے ہیں:

            ’’ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ صحابۂ کرامؓ کے درمیان جو مشاجرات ہوئے ان کی مثال ایسی ہے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کے بھائیوں کے درمیان پیش آنے والے واقعات کہ وہ حضرات آپس کے ان اختلافات کے باوجود ولایت اور نبوت کی حدود سے خارج نہیں ہوئے، بالکل یہی معاملہ صحابہؓ کے درمیان پیش آنے والے واقعات کا بھی ہے۔‘‘

            اور حضرت محاسبیؒ فرماتے ہیں کہ:

            ’’جہاں تک اس خونریزی کا معاملہ ہے تو اس کے بارے میں ہمارا کچھ کہنا مشکل ہے؛کیونکہ اس میں خود صحابہؓ کے درمیان اختلاف تھا اور حضرت حسن بصریؒ سے صحابہؓ کے باہمی قتال کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ

            ’’ یہ ایسی لڑائی تھی جس میں صحابہؓ موجود تھے اور ہم غائب، وہ پورے حالات کو جانتے تھے، ہم نہیں جانتے، جس معاملہ پر تمام صحابہؓ کااتفاق ہے، ہم اس میں ان کی پیروی کرتے ہیں اور جس معاملہ میں ان کے درمیان اختلاف ہے، اس میں سکوت اختیار کرتے ہیں۔‘‘

            حضرت محاسبیؒ فرماتے ہیں کہ ہم بھی وہی بات کہتے ہیں جوحسن بصریؒ نے فرمائی، ہم جانتے ہیں کہ صحابۂ کرامؓ نے جن چیزوں میں دخل دیا، ان سے وہ ہم سے کہیں بہتر طریقے پر واقف تھے، لہٰذا ہمارا کام یہی ہے کہ جس پر وہ سب حضرات متفق ہوں اس کی پیروی کریں اور جس میں ان کا اختلاف ہو اس میں خاموشی اختیار کریں اور اپنی طرف سے کوئی نئی رائے پیدا نہ کریں، ہمیںیقین ہے کہ ان سب نے اجتہاد سے کام لیا تھا اور اللہ کی خوشنودی چاہی تھی؛ اس لیے کہ دین کے معاملہ میں وہ سب حضرات شک وشبہ سے بالاتر ہیں۔‘‘

  اس طویل عبارت میں علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اہل سنت کے عقیدے کی بہترین ترجمانی فرمائی ہے۔ عبارت کے شروع میں انھوں نے حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کی شہادت سے متعلق جو حدیثیں نقل فرمائی ہیں، ان سے اس مسئلہ پر بطور خاص روشنی پڑتی ہے، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ دونوں حضرات آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار صحابہؓ میں سے ہیں اور ان دس خوش نصیب حضرات میں آپ کا بھی نام ہے جن کے بارے میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر ان کے جنتی ہونے کی خوشخبری دی ہے اور جنھیں عشرئہ مبشرہ کہا جاتا ہے، ان دونوں حضرات نے حضرت عثمانؓ کے قصاص کا مطالبہ کرنے کے لیے حضرت علیؓ کا مقابلہ کیا اور اسی دوران شہید ہوئے، آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ احادیث میں ان دونوں حضرات کو شہید قرار دیا۔ دوسری طرف حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علیؓ کے سرگرم ساتھیوں میں سے تھے اور انھوں نے پوری قوت کے ساتھ حضرت علیؓ کے مخالفین کا مقابلہ کیا، آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بھی شہادت کی پیشین گوئی فرمائی، غور کیا جائے تو یہی ارشادات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ان جنگوں میں کوئی فریق بھی کھلے باطل پر نہ تھا؛ بلکہ ہر ایک فریق اللہ کی رضا کے لیے اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق کام کررہا تھا، ورنہ ظاہر ہے کہ اگر یہ اختلاف کھلے حق وباطل کا اختلاف ہوتا تو ہر ایک فریق کے رہنمائوں کے لیے بیک وقت شہادت کی پیشین گوئی نہ فرمائی جاتی، ان ارشادات نے یہ واضح کردیا کہ حضرت طلحہؓ وزبیرؓ بھی اللہ کی خوشنودی کے لیے لڑ رہے تھے؛ اس لیے وہ بھی شہید ہیں اور حضرت عمارؓ کا مقصد بھی رضائے الٰہی کے حصول کے سوا کچھ نہ تھا؛ اس لیے وہ بھی لائق مدح وستائش ہیں۔ دونوں کا اختلاف کسی دنیوی غرض سے نہیں؛ بلکہ اجتہاد ورائے کی بنا پر تھا اور ان میں سے کسی بھی فریق کو مجروح ومطعون نہیں کیاجاسکتا۔

شرح مواقف مقصد سابع میں ہے:


(۱۵) وامّا الفتن والحروب الواقعۃ بین الصّحابۃ فالشامیۃ انکروا وقوعہا ولا شک انہ مکابرۃ للتّواتر فی قتل عثمان و واقعۃ الجمل والصفّین وَالْمُعْتَرِفون بوقوعہا منہم من سکت عن الکلام فیہا بتخطیۃ أو تصویب وہم طائفۃ من أہل السنّۃ فإن أرادوا أنہ اشتغال بما لا یعنی فلا بأس بہ إذِ قال الشافعیؒ وغیرہ من السلف تلک دماء طہر اللّٰہ عنہا ایدینا فلنطہر عنہا الخ۔


ترجمہ: رہے وہ فتنے اور جنگیں جو صحابہؓ کے درمیان واقع ہوئے تو فرقۂ شامیہ نے تو ان کے وقوع ہی کا انکار کردیا ہے اور کوئی شک نہیں کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت اور واقعۂ جمل وصفین جس تواتر کے ساتھ ثابت ہے، یہ اس کا بے دلیل انکار ہے اور جن حضرات نے ان کے وقوع کا انکار نہیں کیا ہے ان میں سے بعض نے تو ان واقعات میں مکمل سکوت اختیار کیااور نہ کسی خاص فریق کی طرف غلطی منسوب کی، نہ حق وصواب یہ حضرات اہل سنت ہی کی ایک جماعت ہیں، اگر ان کی مراد یہ ہے کہ یہ ایک فضول کام ہے تو ٹھیک ہے؛ اس لیے کہ امام شافعیؒ وغیرہ علمائے سلف نے فرمایاہے کہ یہ ایسے خون ہیں جن سے اللہ نے ہمارے ہاتھوں کو پاک رکھا ہے؛ اس لیے چاہیے کہ ہم اپنی زبانوں کو بھی ان سے پاک رکھیں۔


شیخ ابن الہمام نے ’’شرح مسامرہ‘‘ میں فرمایا:


واعتقاد أہل السنّۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم وجوبا باثبات اللّٰہ أنہ لکل منہم والکفّ عن الطّعن فیہم الثّناء علیہم کما اثنی اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ (وذکر آیات عدیدۃ ثم قال) واثنی علیہم الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ثم سرد احادیث الباب) ثم قال وما جری بین معاویۃ وعلیؓ من الحروب کان مبیناً علی الاجتہاد۔ (شرح مسامرہ ص۱۳۲ طبع دیوبند)


ترجمہ: اہل سنت کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ تمام صحابہؓ کو لازمی طور پر پاک صاف مانتے ہیں؛ اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے ہر ایک کا تزکیہ فرمایاہے، نیز ان کے بارے میں اعتراضات کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور ان سب کی مدح وثنا کرتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ثنا فرمائی (اس کے بعد چند آیتیں ذکر کرکے فرماتے ہیں) اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی تعریف فرمائی (پھر کچھ احادیث نقل کرکے لکھتے ہیں) اور حضرت معاویہؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان جو جنگیں ہوئیں وہ اجتہاد پر مبنی تھیں۔‘‘


شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے شرح عقیدہ واسطیہ میں اس بحث پر تفصیلی کلام فرمایا ہے ان کے چندجملے یہ ہیں اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:


ویتبروئون من طریقۃ الروافض الذین یبغضون الصحابۃ ویسبّونہم وطریقۃ النواصب الذین یؤذون أہل البیت بقول لاعمل ویمسکون عما شجر بین الصحابۃ ویقولون إن ہذہ الآثار المرویۃ فی مساویہم منہا ما ہو کذب، ومنہا ما قد زید فیہ ونقص وغیروجہہ والصحیح منہ ہم فیہ معذرون أما مجتہدون مصیبون، و اما مجتہدون مخطئون، وہم مع ذلک لا یعتقدون أن کل واحد من الصحابۃ معصوم من کبائر الاثم وصغائرہ بل یجوز علیہم الذنوب فی الجملۃ، ولہم من الفضائل والسوابق ما یوجب مغفرۃ ما یصدر منہم ان صدر حتی أنہم یغفرلہم من السیئات ما لا یغفر لمن بعدہم۔


ترجمہ: اہل سنت ان روافض کے طریقہ سے براء ت کرتے ہیں جو صحابہؓ سے بغض رکھتے اور انھیں برا کہتے ہیں، اسی طرح ان ناصبوں کے طریقے سے بھی براء ت کرتے ہیں جو اہل بیت کو اپنی باتوں سے نہ کہ عمل سے تکلیف پہنچاتے ہیں اور صحابہؓ کے درمیان جو اختلافات ہوئے ان کے بارے میں اہل سنت سکوت اختیار کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ صحابہؓ کی برائی میں جو روایتیں منقول ہیں ان میں سے بعض تو بالکل جھوٹ ہیں، بعض ایسی ہیں کہ ان میں کمی بیشی کردی گئی ہے اور ان کا صحیح مفہوم بدل دیاگیا ہے اور اس قسم کی جو روایتیں بالکل صحیح ہوں، ان میں بھی صحابہؓ معذور ہیں، ان میں سے بعض حضرات اجتہاد سے کام لے کر حق وصواب تک پہنچ گئے اور بعض نے اجتہاد سے کام لیا اور اس میں غلطی ہوگئی اس کے ساتھ ہی اہل سنت کا یہ اعتقاد بھی نہیں ہے کہ صحابہؓ کا ہر فرد تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے معصوم ہے؛ بلکہ ان سے فی الجملہ گناہوں کا صدور ممکن ہے؛ لیکن ان کے فضائل وسوابق اتنے ہیں کہ اگر کوئی گناہ ان سے صادر بھی ہوتو یہ فضائل ان کی مغفرت کے موجب ہیں؛ یہاں تک کہ ان کی مغفرت کے مواقع اتنے ہیں کہ ان کے بعد کسی کو حاصل نہیں ہوسکتے۔

            کتاب مذکور میں ابن تیمیہؒ ایک مفصل کلام کے بعد لکھتے ہیں:

            اور جب سلف صالحین اہل السنۃ والجماعۃ کا اصول یہ پڑگیا جو اوپر بیان کیاگیا ہے تو اب یہ سمجھیے کہ ان حضرات کے قول کاحاصل یہ ہے کہ بعض صحابۂ کرامؓ کی طرف جو بھی گناہ یا برائیاں منسوب کی گئی ہیں ان میں بیشتر حصہ تو جھوٹ اور افتراء ہے اور کچھ حصہ ایسا ہے جس کو انھوں نے اپنے اجتہاد سے حکم شرعی اور دین سمجھ کر اختیار کیا؛ مگر بہت سے لوگوں کو ان کے اجتہاد کی وجہ اور حقیقت معلوم نہیں، اس لیے اس کو گناہ قرار دیا اور کسی معاملہ میں یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ وہ خطا اجتہادی ہی نہیں؛ بلکہ حقیقتاً گناہ ہی ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا وہ گناہ بھی معاف ہوچکا ہے، یا اس وجہ سے کہ انھوں نے توبہ کرلی (جیسا کہ بہت سے ایسے معاملات میں ان کی توبہ خود قرآن وسنت میں منقول وماثور ہے) اور یا ان کی دوسری ہزاروں حسنات وطاعات کے سبب معاف کردیا گیا اور یا اس کو دنیا میں کسی

مصیبت وتکلیف میں مبتلا کرکے اس گناہ کا کفارہ کردیاگیا، اس کے سوا اور بھی اسباب مغفرت کے ہوسکتے ہیں (ان کے گناہ کو مغفور ومعاف قرار دینے کی وجہ یہ ہے ) کہ قرآن وسنت کے دلائل سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وہ اہل جنت میں سے ہیں اس لیے ناممکن ہے کہ کوئی ایسا عمل ان کے نامۂ اعمال میں باقی رہے جو جہنم کی سزا کا سبب بنے اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ صحابۂ کرامؓ میں سے کوئی شخص ایسی حالت پر نہیں مرے گا جو دخول جہنم کا سبب بنے تو اس کے سوا اور کوئی چیز ان کے استحقاق جنت میں مانع نہیں ہوسکتی۔

اور عشرہ مبشرہ کے علاوہ کسی معین ذات کے متعلق اگرچہ ہم یہ نہ کہہ سکیں کہ وہ جنتی ہے جنت ہی میںجائے گا؛ مگر یہ بھی تو جائز نہیںکہ ہم کسی کے حق میں بغیر کسی دلیل شرعی کے یہ کہنے لگیں کہ وہ مستحق جنت کا نہیں ہے؛ کیونکہ ایسا کہنا تو عام مسلمانوں میں سے بھی کسی کے لیے جائز نہیں جن کے بارے میںہمیں کسی دلیل سے جنتی ہونا بھی معلوم نہ ہو۔ ہم ان کے بارے میں بھی یہ شہادت نہیں دے سکتے کہ وہ ضرور جہنم میں جائے گا تو پھر افضل المومنین اور خیار المومنین (صحابہ کرام) کے بارے میں یہ کیسے جائز ہوجائے گا اور ہر صحابی کے پورے اعمال ظاہرہ وباطنہ کی اور حسنات وسیئات اور ان کے اجتہادات کی تفصیلات کا علم ہمارے لیے بہت دشوار ہے اور بغیر علم وتحقیق کے کسی کے متعلق فیصلہ کرنا حرام ہے اسی لیے مشاجرات صحابہؓ کے معاملہ میں سکوت کرنا بہتر ہے؛ اس لیے کہ بغیر علم صحیح کے کوئی حکم لگانا حرام ہے۔ انتہی‘‘ (شرع عقیدہ واسطیہ ص۴۵۶-۴۵۷)

            اس کے بعد شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے صحیح روایت سے یہ واقعہ بیان کیا ہے۔

            (۱۹) ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے سامنے حضرت عثمان غنی پر تین الزام لگائے۔ ایک یہ کہ وہ غزوئہ احد میں میدان سے بھاگنے والوں میں تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ غزوئہ بدر میں شریک نہیں تھے۔ تیسرے یہ کہ بیعت رضوان میں بھی شریک نہ تھے۔

            حضرت عبداللہ نے ان تینوں الزاموں کا جواب یہ دیا کہ بیشک غزوئہ احد میں فرار کا صدور ان سے ہوا؛ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کی معافی کا اعلان کردیا۔ مگر تم نے پھر بھی معاف نہ کیا کہ اس کا ان پر عیب لگاتے ہو۔ رہا

غزوئہ بدر میں شریک نہ ہونا تو وہ خود آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہوا اور اسی لیے آپ نے عثمان غنی کو غانمین بدر میں شمار کرکے ان کا حصہ لگایا اور بیعت رضوان کے وقت وہ حضور ہی کے بھیجے ہوئے مکہ مکرمہ گئے تھے اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس بیعت میںشریک کرنے کے لیے خود اپنے ایک ہاتھ کو حضرت عثمانؓ کا ہاتھ قرار دے کر اپنے دست مبارک سے بیعت فرمائی اور ظاہر ہے کہ خود عثمان غنی حاضر ہوتے اور ان کا ہاتھ اس جگہ ہوتا تو بھی وہ فضیلت حاصل نہ ہوتی؛ کیونکہ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک اس سے ہزاروں درجہ بہتر ہے۔‘‘

اس واقعہ میں غور کروکہ تین الزاموں میں سے ایک الزام کو صحیح مان کر یہ جواب دیا کہ اب وہ ان کے لیے کوئی عیب نہیں؛ جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف کردیا ہے۔ باقی دو الزاموں کا غلط بے اصل ہونا بیان فرمادیا۔ اس کو نقل کرکے ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ یہی حال تمام صحابہ کا ہے ان کی طرف جو کوئی گناہ منسوب کیا جاتا ہے یا تو وہ گناہ ہی نہیں ہوتا بلکہ حسنہ اور نیکی ہوتی ہے اور یا پھر وہ اللہ کا معاف کیا ہوا گناہ ہوتا ہے (شرح عقیدہ واسطیہ ص۴۶۰ -۴۶۱)

(۲۰) علامہ سفارینی نے اپنی کتاب الدرۃ المضئیہ میں، پھر اس کی شرح میں اس مسئلہ پراچھا کلام کیاہے اس کا ایک حصہ یہاں نقل کیاجاتاہے، پہلے متن کتاب کے دو شعر لکھے ہیں۔

واحذر من الخوض الذی قد یزری، بفضلہم مما جری لو تدری

اور پرہیز کرو صحابہ کرام میں پیش آنے والے جھگڑوں میں دخل دینے سے جس میں ان میں سے کسی کی تحقیر ہوتی ہو۔

فانہ عن اجتہاد قد صدرَ فاسلم ازل اللّٰہ من لہم ہجر

کیوںکہ ان کا جو عمل بھی ہوا ہے اپنے اجتہاد شرعی کی بنا پر ہوا ہے تم سلامتی کی راہ اختیار کرو۔ اللہ ذلیل کرے اس شخص کو جو ان کی بدگوئی کرے۔

اس کے بعد اس کی شرح میںفرمایا:

فَإِنَّہُ أَیِ التَّخَاصُمُ وَالنِّزَاعُ وَالتَّقَاتُلُ وَالدِّفَاعُ الَّذِی جَرَی بَیْنَہُمْ کَانَ عَنِ اجْتِہَادٍ قَدْ صَدَرَ مِنْ کُلِّ وَاحِدٍ مِنْ رُؤُسِ الْفَرِیقَیْنِ، وَمَقْصِدٍ سَائِغٍ لِکُلِّ فِرْقَۃٍ مِنَ الطَّائِفَتَیْنِ، وَإِنْ کَانَ الْمُصِیبُ فِی ذَلِکَ لِلصَّوَابِ وَاحِدہما وَہُوَ عَلِیٌّ رِضْوَانُ اللَّہِ عَلَیْہِ وَمَنْ وَالَاہُ، وَالْمُخْطِیُٔ ہُوَ مَنْ نَازَعَہُ وَعَادَاہُ، غَیْرَ أَنَّ لِلْمُخْطِیِٔ فِی الِاجْتِہَادِ أَجْرًا وَثَوَابًا، خِلَافًا لِأَہْلِ الْجَفَائِ وَالْعِنَادِ، فَکُلُّ مَا صَحَّ مِمَّا جَرَی بَیْنَ الصَّحَابَۃِ الْکِرَامِ وَجَبَ حَمْلُہُ عَلَی وَجْہٍ یَنْفِی عَنْہُمُ الذُّنُوبَ وَالآثَامَ، فَمُقَاوَلَۃُ عَلِیٍّ مَعَ الْعَبَّاسِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا لَا تَقْضِی إِلَی شَیْنٍ، وَتَقَاعُدُ عَلِیٍّؓ عَنْ مُبَایَعَۃِ الصِّدِّیقِؓ فِی بَدْئِ الْأَمْرِ کَانَ لِأَحَدِ أَمْرَیْنِ: إِمَّا لِعَدَمِ مَشُورَتِہِ کَمَا عَتَبَ عَلَیْہِ بذَلِکَ، وَإِمَّا وُقُوفًا مَعَ خَاطِرِ سَیِّدَۃِ نِسَائِ الْعَالَمِ فَاطِمَۃَ الْبَتُولِ مِمَّا ظَنَّتْ أَنَّہُ لَہَا، وَلَیْسَ الْأَمْرُ کَمَا ہُنَالِکَ، ثُمَّ إِنَّ عَلِیًّاؓ بَایَعَ الصِّدِّیقَؓ عَلَی رُؤسِ الْأَشْہَادِ، فَاتَّحَدَتِ الْکَلِمَۃُ وَلِلَّہِ الْحَمْدُ وَحَصَلَ الْمُرَادُ، وَتَوَقُّفِ عَلِیٍّ عَنْ الِاقْتِصَاصِ مِنْ قَتَلَۃِ عُثْمَانَؓ، إِمَّا لِعَدَمِ الْعِلْمِ بِالْقَاتِلِ، وَإِمَّا خَشْیَۃَ تَزَایُدِ الْفَسَادِ وَالطُّغْیَانِ، وَکَانَتْ عَائِشَۃؓ وَطَلْحَۃؓ وَالزُّبَیْرؓ وَمُعَاوِیَۃؓ رضی اللّٰہ عنہم وَمَنِ اتَّبَعَہُمْ مَا بَیْنَ مُجْتَہِدٍ وَمُقَلِّدٍ فِی جَوَازِ مُحَارِبَۃِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ سَیِّدِنَا أَبِی الْحَسَنَیْنِ، الْأَنْزَعِ الْبَطِینِ رِضْوَانُ اللَّہِ تعالی عَلَیْہِ۔

وَقَدِ اتَّفَقَ أَہْلُ الْحَقِّ أَنَّ الْمُصِیبَ فِی تِلْکَ الْحُرُوبِ وَالتَّنَازُعِ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ عَلِیٌّؓ مِنْ غَیْرِ شَکٍّ وَلَا تَدَافُعٍ، وَالْحَقُّ الَّذِی لَیْسَ عَنْہُ نُزُولٌ أَنَّہُمْ کُلُّہُمْ رِضْوَانُ اللَّہِ عَلَیْہِمْ عُدُولٌ، لِأَنَّہُمْ مُتَأَوِّلُونَ فِی تِلْکَ المخاصمات مُجْتَہِدُونَ فِی ہَاتِیکَ الْمُقَاتَلَاتِ، فَإِنَّہُ وَإِنْ کَانَ الْحَقُّ عَلَی الْمُعْتَمَدِ عِنْدَ أَہْلِ الْحَقِّ وَاحِدًا، فَالْمُخْطِیُٔ مَعَ بَذْلِ الْوُسْعِ وَعَدَمِ التَّقْصِیرِ مَأْجُورٌ لَا مَأْزُورٌ، وَسَبَبُ تِلْکَ الْحُرُوبِ اشْتِبَاہُ الْقَضَایَا، فَلِشِدَّۃِ اشْتِبَاہِہَا اخْتَلَفَ اجْتِہَادُہُمْ، وَصَارُوا ثَلَاثَۃَ أَقْسَامٍ: قِسْمٌ ظَہَرَ لَہُمُ اجْتِہَادًا أَنَّ الْحَقَّ فِی ہَذَا الطَّرَفِ، وَأَنَّ مُخَالِفَہُ بَاغٍ فَوَجَبَ عَلَیْہِ نُصْرَۃُ الْمُحِقِّ، وَقِتَالُ الْبَاغِی عَلَیْہِ فِیمَا اعْتَقَدُوہُ، فَفَعَلُوا ذَلِکَ، وَلَمْ یَکُنْ لِمَنْ ہَذَا صِفَتُہُ التَّأَخُّرُ عَنْ مُسَاعَدَۃِ الإِمَامِ الْعَادِلِ فِی قِتَالِ الْبُغَاۃِ فِی اعْتِقَادِ، وَقِسْمٌ عَکْسُہُ سَوَائً بِسَوَائٍ، وَقِسْمٌ ثَالِثٌ اشْتَبَہَتْ عَلَیْہِمُ الْقَضِیَّۃُ، فَلَمْ یَظْہَرْ لَہُمْ تَرْجِیحُ أَحَدِ الطَّرَفَیْنِ، فَاعْتَزَلُوا الْفَرِیقَیْنِ، وَکَانَ ہَذَا الِاعْتِزَالُ ہُوَ الْوَاجِبُ فِی حَقِّہِمْ، لِأَنَّہُ لَا یَحِلُّ الإِقْدَامُ عَلَی قِتَالِ مُسْلِمٍ حَتَّی یَظْہَرَ مَا یُوجِبُ ذَلِکَ، وَبِالْجُمْلَۃِ فَکُلُّہُمْ مَعْذُورُونَ وَمَأْجُورُونَ لَا مَأْزُورُونَ، وَلِہَذَا اتَّفَقَ أَہْلُ الْحَقِّ مِمَّنْ یُعْتَدُّ بِہِ فِی الإِجْمَاعِ عَلَی قَبُولِ شَہَادَاتِہِمْ وَرِوَایَاتِہِمْ، وَثُبُوتِ عَدَالَتِہِمْ، وَلِہَذَا کان عُلَمَائنَا کَغَیْرِہِمْ مِنْ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَمِنْہُمُ ابْنُ حَمْدَانَ فِی نِہَایَۃِ الْمُبْتَدِئِینَ یَجِبُ حُبُّ کُلِّ الصَّحَابَۃِ، وَالْکَفُّ عَمَّا جَرَی بَیْنَہُمْ کِتَابَۃً وَقِرَائَۃً وَإِقْرَائً وَسَمَاعًا وَتَسْمِیعًا، وَیَجِبُ ذِکْرُ مَحَاسِنِہِمْ وَالتَّرَضِّی عَنْہُمْ وَالْمَحَبَّۃُ لَہُمْ وَتَرْکُ التَّحَامُلِ عَلَیْہِمْ، وَاعْتِقَادُ الْعُذْرِ لَہُمْ، وَأَنَّہُمْ انما فَعَلُوا مَا فَعَلُوا بِاجْتِہَادٍ سَائِغٍ لَا یُوجِبُ کُفْرًا وَلَا فِسْقًا، بَلْ ورُبَّمَا یُثَابُونَ عَلَیْہِ، لِأَنَّہُ اجْتِہَادٌ سَائِغٌ، ثُمَّ قَالَ وَقِیلَ: الْمُصِیبُ عَلِیٌّؓ، وَمَنْ قَاتَلَہُ فَخَطَؤُہُ مَعْفُوٌّ عَنْہُ۔ وَإِنَّمَا نَہَی عَنِ الْخَوْضِ فِی النَّظْمِ (ای فی نظم العقیدۃ عن الخوض فی مشاجرات الصحابۃ) لِأَنَّ الإِمَامَ أَحْمَدَ کَانَ یُنْکِرُ عَلَی مَنْ خَاضَ وَیُسَلِّمُ أَحَادِیثَ الفَضائِل، وَقَدْ تَبَرَّأَ مِمَّنْ ضَلَّلَہُمْ أَوْ کَفَّرَہُمْ، وَقَالَ: السُّکُوتُ عَمَّا جَرَی بَیْنَہُمْ۔ (شرح عقائد سفارینی ص۳۸۶ ج۲)

ترجمہ: اس لیے کہ جو نزاع وجدال اور دفاع وقتال صحابہؓ کے درمیان پیش آیا وہ اس اجتہاد کی بنا پر تھا جو فریقین کے سرداروں نے کیا تھا اور فریقین میں سے ہر ایک کا مقصد اچھا تھا، اگرچہ اس اجتہاد میںبرحق فریق ایک ہی ہے اور وہ حضرت علیؓ اور ان کے رفقا ہیں اور خطا پر وہ حضرات ہیں جنھوں نے حضرت علیؓ سے نزاع وعداوت کا معاملہ کیا؛ البتہ جو فریق خطا پر تھا، اسے بھی ایک اجر وثواب ملے گا، اس عیقدہ میں صرف اہل جفا وعناد ہی اختلاف کرتے ہیں، لہٰذا صحابہ کرامؓ کے درمیان مشاجرات کی جو صحیح روایات ہیں ان کی بھی اس میں تشریح کرنا واجب ہے جو ان حضرات سے گناہوں کے الزام کو دور کرنے والی ہو، لہٰذا حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ کے درمیان جو تلخ کلامی ہوئی وہ کسی کے لیے موجب عیب نہیں، نیز ابتداء میں حضرت علیؓ نے جو حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت نہیںکی تھی، وہ دو باتوں میں سے کسی ایک وجہ سے تھی، یا تو اس لیے کہ ان سے مشورہ نہیں لیاگیا تھا، جیسا کہ خود انھوں نے اسی پر رنجیدگی کا اظہار فرمایا، یا پھر اس سے حضرت فاطمہؓ کی دلداری مقصود تھی جو یہ سمجھتی تھیں کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث سے جو حصہ مجھے ملنا چاہیے، وہ ملے پھر حضرت علیؓ نے بلاشبہ تمام لوگوں کے سامنے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اللہ کے فضل سے مسلمانوں کی بات ایک ہوگئی اور مقصد حاصل ہوگیا۔

اسی طرح حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کا قصاص لینے میںجو توقف سے کام لیا وہ یاتو اس بنا پر تھا کہ یقینی طور سے قاتل معلوم نہ ہوسکا یا اس لیے کہ فتنہ فساد میں اضافہ کا اندیشہ تھا اور حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت معاویہؓ اور ان کے متبعین نے حضرت علیؓ کے مقابلہ میں جنگ کرنے کو جوجائز سمجھا اس میں ان میں سے بعض حضرات مجتہد تھے اور بعض ان کی تقلید کرنے والے۔

اور اس بات پر اہل حق کا اتفاق ہے کہ ان جنگوں میں حق بلاشبہ حضرت علیؓ کے ساتھ تھا اور وہ عقیدئہ برحق جس پرکوئی مصالحت نہیں ہوسکتی، یہ ہے کہ یہ تمام حضرات صحابہؓ عادل ہیں؛ اس لیے کہ ان تمام جنگوں میں انھوں نے تاویل اور اجتہاد سے کام لیا؛ اس لیے کہ اہل حق کے نزدیک اگرچہ حق ایک ہی ہوتا ہے؛ لیکن حق تک پہنچنے کے لیے پوری کوشش صرف کرنے اوراس میں کوتاہی نہ کرنے کے بعد کسی سے غلطی بھی ہوجائے تو وہ ماجور ہی ہوتا ہے، گناہ گار نہیں۔

اور درحقیقت ان جنگوں کا سبب معاملات کا اشتباہ تھا، یہ اشتباہ اتنا شدید تھا کہ صحابہؓ کی اجتہادی آرا مختلف ہوگئیں اور وہ تین قسموں میں بٹ گئے، صحابہؓ کی ایک جماعت تو وہ تھی جس کے اجتہاد نے اسے اس نتیجہ تک پہنچایا کہ حق فلاں فریق کے ساتھ ہے اور اس کا مخالف باغی ہے، لہٰذا اس پر اپنے اجتہاد کے مطابق برحق فریق کی مدد کرنا اور باغی فریق سے لڑنا واجب ہے؛ چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور ظاہر ہے کہ جس شخص کا حال یہ ہو اس کے لیے ہرگز مناسب نہیں تھا کہ وہ امام عادل وبرحق کی مدد اور باغیوں سے جنگ کے فریضے میں کوتاہی کرے۔ دوسری قسم اس کے برعکس ہے اور اس پر بھی تمام وہی باتیں صادق آتی ہیں جو پہلی قسم کے لیے بیان کی گئی ہیں، صحابہؓ کی ایک تیسری جماعت وہ تھی جس کے لیے کچھ فیصلہ کرنا مشکل تھا اور اس پر یہ واضح نہ ہوسکا کہ فریقین میں سے کس کو ترجیح دے یہ جماعت فریقین سے کنارہ کش رہی اور ان حضرات کے حق میں یہ کنارہ کشی ہی واجب تھی؛اس لیے کہ جب تک کوئی شرعی وجہ واضح نہ ہو، کسی مسلمان کے خلاف قتال کا اقدام حلال نہیں ہوتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ تمام صحابہؓ معذور اورماجور ہیں، گناہ گار نہیں، یہی وجہ ہے کہ اہل حق کے تمام قابل ذکر علماء کا اس پر اجماع ہے کہ ان کی شہادتیں بھی قبول ہیں اور ان کی روایات بھی اور ان سب کے لیے عدالت ثابت ہے۔ اسی لیے ہمارے ملک کے علماء نے — اور ان کے علاوہ تمام اہل سنت نے — جن میں ابن حمدانؒ (نہایۃ المبتدئین) بھی داخل ہیں، فرمایا ہے کہ

تمام صحابہؓ سے محبت رکھنا اور ان کے درمیان جو واقعات پیش آئے ان کو لکھنے، پڑھنے، پڑھانے، سننے اور سنانے سے پرہیز کرنا واجب ہے اور ان کی خوبیوں کا تذکرہ کرنا، ان سے رضامندی کا اظہار کرنا، ان سے محبت رکھنا، ان پر اعتراضات کی روش کو چھوڑنا، انھیں معذور سمجھنا اور یہ یقین رکھنا واجب ہے کہ انھوں نے جو کچھ کیا وہ ایسے جائز اجتہاد کی بنا پر کیا جس سے نہ کفر لازم آتا ہے نہ فسق ثابت ہوتا ہے؛ بلکہ بسا اوقات اس پر انھیں ثواب ہوگا اس لیے کہ یہ ان کا جائز اجتہاد تھا۔ پھر کہتے ہیں بعض حضرات نے کہا ہے کہ حق حضرت علیؓ کے ساتھ تھا اور جس نے ان سے قتال کیااس کی غلطی معاف کردی گئی ہے۔ اور الدرۃ المضیئہ کی نظم میں جو مشاجرات کے معاملہ میں غور وبحث سے منع کیاگیا ہے، وہ اس لیے کہ امام احمدؒ اس شخص پر نکیر فرمایا کرتے تھے جو اس بحث میں الجھتا ہو اور فضائل صحابہ میں جو احادیث آئی ہیں، انھیں تسلیم فرماکر ان لوگوں سے برا ء ت کا اظہار کرتے تھے جو صحابہ کو گمراہ یا کافر کہتے ہیں اور کہتے تھے کہ (صحیح طریقہ) مشاجرات صحابہؓ میں سکوت اختیار کرنا ہے۔

یہ مختصر مجموعہ ہے سلف وخلف،متقدمین ومتاخرین علماء امت کے عقائد واقوال کا جن میں تمام صحابہ کرام کے عدل وثقہ ہونے پر بھی اجماع واتفاق ہے اور اس پر بھی کہ ان کے درمیان پیش آنے والے مشاجرات میںخوض نہ کیا جائے یا سکوت اختیار کریں، یا پھر ان کی شان میں کوئی ایسی بات کہنے سے پرہیز کریں جس سے ان میں سے کسی کی تنقیص ہوتی ہو۔

No comments:

Post a Comment