لکھوانے والی بات لکھوا دی جاچکی ہے۔
لکھوانے کا حکم کسے دیا گیا تھا؟
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھے ایک طبق لانے کا حکم دیا تاکہ آپ اس میں ایسی ہدایات لکھ دیں جن کی موجودگی میں نبی ﷺ کے بعد امت گمراہ نہ ہوسکے، مجھے "اندیشہ" ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کاغذ لینے کے لیے جاؤں اور پیچھے سے نبی ﷺ کی روح پرواز کرجائے، اس لیے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ مجھے زبانی بتا دیجئے، میں اسے یاد رکھوں گا، فرمایا: میں نماز اور زکوۃ کی وصیت کرتا ہوں نیز غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتا ہوں۔
حوالہ
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: أَمَرَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ آتِيَهُ بِطَبَقٍ يَكْتُبُ فِيهِ مَا لَا تَضِلُّ أُمَّتُهُ مِنْ بَعْدِهِ، قَالَ: فَخَشِيتُ أَنْ تَفُوتَنِي نَفْسُهُ، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَحْفَظُ وَأَعِي. قَالَ: " أُوصِي بِالصَّلاةِ، وَالزَّكَاةِ، وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ۔
[مسند أحمد:693، الأدب المفرد:156، الأحاديث المختارة:762]
اگر اس کے علاوہ کوئی اور بات بھی ہوتی تو اللہ کی گواہی ہے کہ نبی ﷺ غیب کی بات چھپانے والے نہیں۔
[سورۃ التکویر:24]
کیوں حضرت علیؓ نے پہلے خود نہ پوچھا؟
حضرت علیؓ رسول اللہ ﷺ کے یہاں سے واپس آئے، یہ رسول اللہ ﷺ کے مرض موت کا واقعہ ہے، صحابہ کرام نے پوچھا: ابو الحسن! رسول اللہ کی طبیعت کیسی ہے؟ کہا: الحمد اللہ! کافی بہتر ہے، پھر سیّدنا عباس بن عبدالمطلب نے سیّدنا علی کا ہاتھ تھام کر فرمایا: اللہ کی قسم! تین دن بعد آپ محکوم ہو جائیں گے، اللہ کی قسم! مجھے آثار نظر آرہے ہیں کہ نبی کریم ﷺ اس مرض سے جانبر نہیں ہو سکیں گے، مجھے خوب شناخت ہے کہ وفات کے وقت بنی عبد المطلب کے چہرے کیسے ہوتے ہیں، ہمیں آپ کے پاس چلنا چاہیے اور پوچھنا چاہئے کہ خلافت کسے ملے گی؟ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو ہمیں معلوم ہو جائے، اگر کوئی دوسرا ہے تو بھی پتا چل جائے اور اس کے بارے میں ہمیں وصیت فرما دیں، حضرت علیؓ نے کہا: اللہ کی قسم! اب اگر پوچھا اور نبی کریم ﷺ نے انکار کر دیا تو لوگ ہمیں کبھی خلافت نہیں دیں گے، میں تو نہیں پوچھوں گا۔
[صحیح البخاری :4447]
خلافت کیلئے نبی ﷺ کا رجحان کس کیلئے تھا؟
سیّدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مجھے مرض الموت میں فرمایا تھا:
ادْعِي لِي أَبَا بَكْرٍ، أَبَاكِ، وَأَخَاكِ، حَتَّى أَكْتُبَ كِتَابًا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَمَنَّى مُتَمَنٍّ وَيَقُولُ قَائِلٌ: أَنَا أَوْلَى، وَيَأْبَى اللهُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَكْرٍ
ترجمہ:
اپنے والد ابوبکر اور بھائی عبدالرحمن کو بلائیں تاکہ میں تحریر لکھ دوں، میں خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ کوئی خلافت کا متمنی کہے کہ میں زیادہ حق دار ہوں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ اور مومن ابوبکر کے علاوہ انکار کردیں گے۔
[مسند الامام أحمد:24751، صحیح مسلم :2387، صحيح ابن حبان:6598]
تبھی تو حضرت علیؓ نے فرمایا:
آگے رکھا رسول الله ﷺ نے ابوبکر کو، اور یقیناً میں دیکھ رہا تھا اپنی جگہ سے، اور میں صحتمند بھی تھا مریض نہ تھا، اور میں میں حاضر بھی تھا غائب نہ تھا، اور اگر میں ارادہ کرتا آگے بڑھنے کا تو یقیناً بڑھ سکتا تھا، بس ہم راضی ہوئے اپنے دین کیلئے جس سے راضی تھے رسول اللہ ﷺ ہماری دنیا کیلئے۔
حوالہ
قَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَبَا بَكْرٍ فَصَلَّى بِالنَّاسِ,وَقَدْ رَأَى مَكَانِي,وَمَا كُنْتُ غَائِبًا وَلَا مَرِيضًا,وَلَوْ أَرَادَ أَنْ يُقَدِّمَنِيَ لَقَدَّمَنِي,فَرَضِينَا لِدُنْيَانَا مَنْ رَضِيَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِدِينِنَا۔
[ابن بطة:218، الآجري:1193]
جب قبض کیا گیا نبی ﷺ (کی روح)کو ہم نے نظر کی ہمارے معاملہ(امارۃ وخلافت)میں، تو ہم نے پایا کہ نبی ﷺ نے آگے کیا ابوبکر کو نماز میں، تو ہم بھی راضی ہوئے اپنی دنیا کیلئے جیسے راضی تھے نبی ﷺ ہمارے دین کیلئے، لہٰذا آگے رکھا ہم نے ابوبکر کو۔
حوالہ
«لَمَّا قُبِضَ النَّبِيُّ ﷺ نَظَرْنَا فِي أَمْرِنَا، فَوَجَدْنَا النَّبِيَّ ﷺ قَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ فِي الصَّلَاةِ، فَرَضِينَا لِدُنْيَانَا مَا رَضِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِدِينِنَا، فَقَدَّمْنَا أَبَا بَكْرٍ رَحِمَهُ اللَّهُ»
[السنة-أبي بكر بن الخلال:333]
حضرت ابن عباسؓ سے لمبی روایت میں ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔آخر نبی ﷺ نے اپنی وفات کے وقت تین وصیتیں فرمائی تھیں۔ (1)یہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے باہر کردینا۔ (2)دوسرے یہ کہ وفود سے ایسا ہی سلوک کرتے رہنا ‘ جیسے میں کرتا رہا (ان کی خاطرداری ضیافت وغیرہ) اور تیسری ہدایت میں بھول گیا۔
حوالہ
۔۔۔۔۔وَأَوْصَاهُمْ بِثَلَاثٍ، قَالَ: أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ، وَسَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ، أَوْ قَالَ: فَنَسِيتُهَا.»
[صحیح بخاری:3053+ 3168+ 4431، صحيح مسلم:1637، السنن الكبرى للنسائي:5823]
سب سے آخری کلام:
(نبی کے بیوی اور مومنین کی ماں)حضرت ام سلمہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کی آخری وصیت یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھنا اور اپنے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرنا یہی کہتے کہتے نبی ﷺ کا سینہ مبارک کھڑکھڑانے اور زبان رکنے لگی۔
حوالہ
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: كَانَ مِنْ آخِرِ وَصِيَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ، وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ۔ حَتَّى جَعَلَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَجْلِجُهَا فِي صَدْرِهِ، وَمَا يَفِيصُ بِهَا لِسَانُهُ۔
[مسند أحمد:26483+ 26657+ 26684، سنن ابن ماجه:1625، السنن الكبرى للنسائي:7060+7061+7063، صحيح الترغيب والترهيب:2286، صحيح الجامع الصغير:3873، سلسلة الأحاديث الصحيحة:868]
No comments:
Post a Comment