(اعلانیہ بدکاری کرنے والے سے ترکِ تعلق کرنا)
یہ فقہی اصطلاح بدکار شخص سے تعلقات منقطع کرنے کے شرعی حکم کی وضاحت کرتی ہے، خاص طور پر جب وہ اپنی بدکاری کو چھپائے نہیں بلکہ کھلم کھلا کرے۔ اس کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
1. *حکم و مشروعیت:*
* *سنت ہے:* ابن مفلح "الآداب الشرعية" (ج:1، ص:230) میں نقل کرتے ہیں کہ *عملی، قولی یا اعتقادی* ہر قسم کی بدکاری کا کھلم کھلا ارتکاب کرنے والے شخص کو ترکِ تعلق کرنا (ہجر کرنا) *سنت* ہے۔
* *امام احمد کا قول:* حنبل کی روایت میں امام احمد فرماتے ہیں: "جب کسی شخص کو معلوم ہو کہ کوئی شخص بدکاری پر قائم ہے اور وہ (بدکار شخص) خود اس بات کو جانتا ہے، تو اگر وہ (جاننے والا) اس سے تعلقات منقطع کر دے یہاں تک کہ وہ (بدکاری سے) باز آ جائے، تو وہ گنہگار نہیں ہوگا۔ ورنہ آدمی کو کیسے پتہ چلے گا کہ وہ کس چیز پر (گمراہی پر) قائم ہے اگر وہ (اپنے گناہوں پر) نہ تو کسی منکر (نکالنے والے) کو دیکھے اور نہ ہی کسی دوست کی طرف سے (اسے) جفا (ترکِ تعلق) نظر آئے؟"
2. ہجر کی نوعیت و حدود:
* کلام اور سلام چھوڑنا: امام احمد کی اکثر منقولہ روایات کے ’ظاہر‘ کے مطابق، مجاہر بالمعصی سے مکمل طور پر ’بات چیت اور سلام کرنا چھوڑ دینا‘ مستحب/جائز ہے۔
* فرضِ کفایہ کا قول: ایک قول یہ ہے کہ بدکاری کا اعلان کرنے والے کو اس کی توبہ تک ’سلام چھوڑنا فرضِ کفایہ‘ ہے (یعنی کچھ لوگوں کا ایسا کرنا کافی ہے)، لیکن باقی لوگوں کے لیے سلام چھوڑنا مکروہ ہے۔
* تین دن کے بعد سلام: ایک قول یہ ہے کہ مجاہر بالمعصی سے مطلقاً ہجر واجب ہے، البتہ تین دن کے بعد سلام کرنا جائز ہے۔
* وجوب کا قول (خاص حالات): میمونی کی روایت اور بعض اصحاب کے کلام سے ’وجوب‘ (لازمی ہونا) بھی ثابت ہوتا ہے، خاص طور پر جب معصیت کے جاری رہنے کا خدشہ ہو یا اس کا اثر دوسروں پر پڑ رہا ہو (نشوز)۔
3. ہدف و حکمت:
* ردع و اصلاح (روک تھام و اصلاح): ہجر کا بنیادی مقصد مجرم کو اس کے فعل کی سنگینی کا احساس دلانا، اسے شرمندہ کرنا اور اسے گناہ سے ’باز آنے پر مجبور کرنا‘ ہے۔ امام احمد کے حوالے سے ابن مفلح لکھتے ہیں: "جب اسے (بدکار کو) اس کی سزا ملے گی (لوگوں کا بائیکاٹ)، تو شاید وہ باز آ جائے"۔
* گناہ کی شناخت: جیسا کہ امام احمد نے فرمایا، اس سے گناہ گار کو اس کے فعل کی قباحت کا پتہ چلتا ہے۔
* معاشرتی صفائی: یہ عمل معاشرے میں گناہ کے اعلانیہ پھیلاؤ کو روکنے اور برائی کی حوصلہ شکنی کرنے میں مدد دیتا ہے۔
4. اہم شرط: اعلانِ معصیت (مجاہرت):
* استتار (چھپانے) والے سے ہجر نہیں: ہجر کا حکم صرف اس شخص پر لاگو ہوتا ہے جو اپنی بدکاری کو ’کھلم کھلا‘ کرتا ہو، اسے چھپاتا نہ ہو۔
* امام احمد کا واضح فرمان: حنبل کی روایت میں امام احمد فرماتے ہیں کہ جو شخص شراب پیتا ہو یا کسی بھی قسم کی بدکاری کا ارتکاب کرتا ہو، اگر وہ اس کا ’اعلان‘ کرتا ہو اور اسے کھلم کھلا کرتا ہو، تو اس کی کوئی حرمت نہیں ہے اور نہ ہی اس سے صلہ رحمی (تعلق) رکھنا جائز ہے۔
* خلّال کی وضاحت: خلّال اپنی کتاب "المجانبة" میں لکھتے ہیں کہ امام احمد (ابو عبداللہ) بدکاری کرنے والوں یا رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی خلاف ورزی کرنے والوں سے ہجر کرتے تھے، بشرطیکہ وہ اپنے گناہ پر قائم ہوں یا نقصان پہنچا رہے ہوں۔ لیکن جو شراب پیتا ہو یا کوئی اور حرام کام کرتا ہو پھر اس کا اعلان نہ کرتا ہو اور نہ ہی شرم و حیا کو پامال کرتا ہو، تو ایسے لوگوں کی عزتوں اور دوسرے مسلمانوں کی عزتوں سے رکنا اور ان پر حملہ نہ کرنا زیادہ محفوظ راستہ ہے۔
* ستر کی اہمیت: جو گناہ چھپ کر کرے، اس پر پردہ ڈالنا چاہیے اور اسے نصیحت کرنی چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔" (بخاری و مسلم)
5. اہلِ بدع (بدعتیوں) سے ہجر:
* بدعتیوں خصوصاً داعیہ بدعت سے ہجر: سلف صالحین (صحابہ و تابعین) کا ’اجماع‘ تھا کہ ’اہل بدع و اہواء‘ خصوصاً جو بدعت کی ’دعوت‘ دیتے ہوں (داعیہ بدعت)، ان سے ہجر کیا جائے، ان کی مجالس میں نہ بیٹھا جائے، ان کی کتابیں نہ پڑھی جائیں اور نہ ہی ان کی باتیں سنی جائیں۔ شیخ موفّق الدین (ابن قدامہ) نے اس پر زور دیا۔
* صحابہ و تابعین کا عمل: ابن مفلح نے ابن مسعود، انس بن مالک، حذیفہ، حسن بصری، سمرہ بن جندب، عمر بن خطاب، ابن عباس، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی، محمد بن کعب قرظی، حماد بن سلمہ، طاؤس، ایوب سختیانی، سلیمان تیمی، یونس بن عبید جیسے جلیل القدر صحابہ و تابعین سے ہجر اہل بدع کے حوالے سے متعدد واقعات و اقوال نقل کیے ہیں۔ قاضی (احمد کا قول نقل کرتے ہیں) کہا: "یہ صحابہ و تابعین کا اجماع ہے۔"
* بدعتیوں کی عیادت و نمازِ جنازہ: بعض روایات میں بدعتیوں کی عیادت نہ کرنے اور ان کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کی ممانعت بھی آئی ہے، خاص طور پر قدریہ (منکرین تقدیر) کے بارے میں۔
6. استثناءات و احتیاطیں:
* داعیہ بدعت و مشہور فاسق: جو شخص بدعت یا فسق کا ’داعی‘ ہو یا معاشرے میں برائی اور فساد سے ’مشہور‘ ہو، اس کا برملا انکار کرنا چاہیے اور اسے علانیہ سزا دی جانی چاہیے تاکہ وہ باز آئے اور دوسرے عبرت پکڑیں۔ اس پر پردہ نہیں ڈالنا چاہیے۔
* مصلحت کا دخل: شیخ تقی الدین (ابن تیمیہ) نے ذکر کیا کہ ’مصلحت‘ کو مدنظر رکھا جائے۔ اگر ہجر سے زیادہ نفع بخش طریقہ اصلاح کا ہو تو اسے اختیار کیا جائے۔
* اہلِ ذمہ و اہلِ حرب: اہل ذمہ (غیر مسلم شہری) اور اہل حرب (دشمن) سے عام ہجر کا حکم نہیں ہے کیونکہ ان سے معاہدات اور ضروری معاملات (جزیہ وصولی، تجارت وغیرہ) کی وجہ سے کلام کرنا پڑتا ہے۔ مرتدین سے تو جنگ کی جاتی ہے جو سب سے بڑا ہجر ہے۔
* نشوز (بیوی کی نافرمانی) میں ہجر: قرآن مجید میں ناشز (نافرمان) بیوی کے ساتھ بستر میں ہجر کرنے کا حکم ہے (سورہ النساء: 34)۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے بعض فقہاء کہتے ہیں کہ ہجر تین دن سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے اگر مصلحت ہو۔
* جرحِ روات و شہود: اگر کسی راوی، گواہ، یا امانت دار (یتیموں کے مال، صدقات، اوقاف وغیرہ کا متولی) میں کوئی ایسی خرابی پائی جائے جو اس کی اہلیت پر اثر انداز ہو، تو اس کی پردہ پوشی نہیں کرنی چاہیے بلکہ ضرورت کے وقت اس کا تذکرہ کرنا *واجب* ہے کیونکہ یہ نصیحت کے زمرے میں آتا ہے، غیبتِ محرمہ میں نہیں۔ اس پر علماء کا اجماع ہے۔
7. مجاہرت (اعلانِ گناہ) کی مذمت:
* نبی ﷺ کی وعید: صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "میری تمام امت معاف کردی جائے گی سوائے ’مجاہرین‘ کے۔ اور مجاہرت میں سے یہ بھی ہے کہ بندہ رات کو کوئی (برا) کام کرے پھر صبح ہو جائے حالانکہ اللہ نے اس پر پردہ ڈال رکھا ہو، پھر وہ (خود) کہے: اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں (برا) کام کیا تھا۔ وہ رات بھر اللہ کے پردہ میں رہا اور صبح ہوتے ہی اللہ کے پردے کو ہٹا بیٹھا۔" یعنی اپنے گناہ کو خود چھپانے کے بجائے بیان کرنا بھی مجاہرت اور گناہ ہے۔
(ج) خلاصہ و نتیجہ:
* بدکاری (معصیت) کا ’کھلم کھلا اعلان (مجاہرت)‘ کرنے والے شخص سے تعلقات منقطع کرنا (ہجر کرنا) شرعاً ’مستحب/مسنون‘ عمل ہے، بلکہ بعض حالات میں ’واجب‘ بھی ہو سکتا ہے، جیسے کہ وہ بدعت کا داعی ہو یا اس کا گناہ معاشرے میں فساد پھیلا رہا ہو (نشوز)۔
* ہجر کا بنیادی مقصد گناہ گار کو اس کے قبیح فعل کا احساس دلانا، اسے شرمندہ کرنا اور اسے گناہ سے باز آنے پر مجبور کرنا ہے، نہ کہ محض انتقام لینا۔
* یہ حکم صرف مجاہر بالمعصی (اعلانیہ گناہ کرنے والے) پر لاگو ہوتا ہے۔ جو شخص گناہ چھپ کر کرے، اس پر پردہ ڈالنا اور اسے نصیحت کرنا چاہیے۔ اس کا پردہ چاک کرنا یا اس سے ہجر کرنا جائز نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں ناجائز بھی ہے۔
* اہل بدع و اہواء خصوصاً داعیہ بدعت سے ہجر کرنا سلف صالحین (صحابہ و تابعین) کے اجماع اور مسلک پر تھا۔
* ہجر کی نوعیت (مکمل تعلقات منقطع کرنا، صرف سلام نہ کرنا، کچھ عرصہ کے لیے) اور مدت (تین دن، اس سے زائد) کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلافات موجود ہیں، لیکن مقصد اصلاح ہی ہونا چاہیے۔
* مجاہرت یعنی گناہ کا اعلان کرنا یا اسے پھیلانا خود ایک بہت بڑا گناہ ہے جس سے نبی ﷺ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔
[الآداب الشرعية-ابن مفلح»جلد 1، صفحہ 230]
حقوق میں درگذر کرنے کی 2 شرائط
القرآن:
اور تم میں سے جو دو مرد بدکاری کا ارتکاب کریں، ان کو اذیت دو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو ان سے درگزر کرو۔ بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ نمبر 4 النساء،آیت نمبر 16]
حضرت عبداللہ بن مغفل المزنی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو چھوٹے پتھر پھینکتے (الخذف) دیکھا۔ انہوں نے اس سے کہا: پتھر نہ پھینکو! کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے پتھر پھینکنے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے: 'یہ (پتھر پھینکنا) نہ تو شکار کو مارتا ہے، نہ دشمن کو (خاصا) زخمی کرتا ہے، البتہ یہ آنکھ پھوڑ دیتا ہے اور دانت توڑ دیتا ہے۔' پھر عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اسے دوبارہ اسی طرح پتھر پھینکتے دیکھا تو کہا: 'کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی حدیث نہیں سناتا کہ آپ نے پتھر پھینکنے سے منع فرمایا ہے، اور تم پھر بھی پتھر پھینک رہے ہو؟ (اب) میں تم سے کبھی نہیں بولوں گا۔'"
(مسلم کی ایک روایت میں ہے:)
"میں تم سے "ہمیشہ" کے لیے بات نہیں کروں گا"۔
[صحیح بخاری:5479، صحیح مسلم:1954]
تشریح:
1. الخذف (پتھر پھینکنے) کی حرمت و حکمت:
* تعریف: الخذف چھوٹی کنکریاں یا پتھر انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیان رکھ کر زور سے پھینکنے کو کہتے ہیں (یہ کھیل یا بے مقصد کام ہوتا ہے)۔
* حکم: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے صریحاً منع فرمایا ہے۔
* حکمت و نقصانات:
* غیر موثر: یہ نہ تو شکار مارنے کے لیے کارآمد ہے، نہ ہی دشمن کو مناسب طریقے سے زخمی کرنے کے لیے (کیونکہ نشانہ درست نہیں لگتا اور زخم معمولی ہوتا ہے)۔
* نقصان دہ: اس سے آنکھ پھوٹنے (فَقَأَ الْعَيْنَ) اور دانت ٹوٹنے (كَسَرَ السِّنَّ) کا بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے، جو اکثر لاپرواہی یا مذاق میں ہوتا ہے۔
* فضول خرچی و اذیت: یہ بے مقصد وقت کا ضیاع ہے، دوسروں کو تکلیف پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے اور ممکنہ جانی یا مالی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
2. ہجر (تعلقات ترک کرنے) کا واقعہ اور اس کی شرعی حیثیت:
* واقعہ: عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے پہلے اس شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنائی جس میں پتھر پھینکنے کی ممانعت بیان ہوئی تھی۔ جب انہوں نے دوبارہ اسے یہی کام کرتے دیکھا تو انہوں نے اسے مستقل طور پر ہجر کرنے (بات چیت ترک کرنے) کا اعلان کر دیا۔
* ہجر کی نوعیت: یہ ہجر دینی معاملے میں نافرمانی (معصیت) پر اصرار کی وجہ سے تھا۔ اس شخص نے سنت نبوی کی صریح خلاف ورزی جاری رکھی۔
* شرعی جواز و استدلال:
* امام نووی رحمہ اللہ اپنی "شرح صحیح مسلم" (ج 6، ص 444) میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
> "اور اس حدیث میں اہل بدعات و فسق اور سنت کی مخالفت کرنے والوں (جان بوجھ کر) کے ساتھ ہجر کرنا (تعلقات ترک کرنا) ہے، اور یہ کہ ان کا ہمیشہ کے لیے ہجر کرنا جائز ہے۔ اور جو ہجر تین دن سے زیادہ کی ممانعت ہے، وہ صرف اس شخص کے لیے ہے جو اپنے نفس کے لیے (غصہ، رنجش) یا دنیوی معاملات (لین دین، رشتہ داری وغیرہ) کی وجہ سے ہجر کرے۔
> رہے اہل بدعات اور ان جیسے (گمراہ گروہ، فاسق علانیہ گناہ کرنے والے) تو ان کا ہمیشہ ہجر کرنا (جائز بلکہ مستحب یا واجب ہے)۔ اور یہ حدیث (ابن مغفل کا واقعہ) اس (اصول) کی تائید کرتی ہے، اس کے ساتھ اس جیسی دیگر احادیث بھی ہیں، جیسے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ (اور ان کے دو ساتھیوں) کی حدیث وغیرہ۔"
* نووی کی وضاحت کے اہم نکات:
* اہل بدع و فسق سے ہجر: بدعتیوں، کھلم کھلا فسق کرنے والوں اور دانستہ سنت کی مخالفت کرنے والوں سے ہمیشہ کے لیے تعلقات ترک کرنا جائز بلکہ بعض حالات میں ضروری ہے۔ اس کا مقصد ان کی گمراہی سے بچنا، ان کی تردید کرنا، انہیں شرم دلانا اور دوسروں کو ان کے شر سے محفوظ رکھنا ہے۔
* تین دن سے زیادہ ہجر کی ممانعت کی قید: عام مسلمانوں کے درمیان ذاتی غصے، رنجش یا دنیاوی معاملات (جیسے رشتہ داری، لین دین) کی وجہ سے تین دن سے زیادہ ہجر کرنا منع ہے۔ یہ ممانعت "اہل بدع و فسق" پر لاگو نہیں ہوتی۔
* دوسری احادیث سے تائید: امام نووی رحمہ اللہ اس کی تائید میں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے دو ساتھیوں کے واقعے (جنہیں تبوک کی غزوہ سے پیچھے رہ جانے پر نبی ﷺ اور تمام صحابہ نے 50 دن تک ہجر کیا تھا) کا حوالہ دیتے ہیں، جو صحیح بخاری (4418، 2757) وغیرہ میں مذکور ہے۔ یہ واقعہ بھی دینی معاملے میں نافرمانی پر ہجر کی مشروعیت پر دلالت کرتا ہے۔
خلاصہ و نتیجہ:
1. الخذف (چھوٹے پتھر پھینکنا) حرام ہے: اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ فضول، غیر موثر اور نقصان دہ عمل ہے جس سے آنکھیں پھوٹنے اور دانت ٹوٹنے کا شدید خطرہ ہوتا ہے۔
2. اہل بدع و فسق سے ہجر جائز/مستحب/واجب ہے: جو شخص دینی معاملے میں نافرمانی پر اصرار کرے، بدعت کو اپنائے، کھلم کھلا فسق کرے یا جان بوجھ کر سنت کی مخالفت کرے، ایسے شخص سے ہمیشہ کے لیے تعلقات ترک کرنا (ہجر کرنا) شرعاً جائز ہے۔ یہ عمل سلف صالحین (صحابہ و تابعین) سے ثابت ہے۔
3. ہجر کی دو اقسام:
* مذموم ہجر: ذاتی غصے، رنجش یا دنیاوی معاملات کی وجہ سے کسی مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ہجر کرنا حرام ہے۔
* محمود/مشروع ہجر: دینی مصلحت (بدعت، فسق علانیہ، سنت کی مخالفت) کی وجہ سے اہل بدع و فسق سے ہجر کرنا مستحب یا واجب ہو سکتا ہے اور اس کی کوئی زمانی حد (مثلاً تین دن) نہیں ہے، بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہو سکتا ہے جب تک وہ اپنی گمراہی یا گناہ پر قائم رہیں۔
4. مقصد اصلاح و تنبیہ: ہجر کا بنیادی مقصد گناہ گار کو اس کے قبیح فعل کا احساس دلانا، اسے شرمندہ کرنا، اسے گناہ سے باز آنے پر مجبور کرنا اور معاشرے کو برائی کے اثرات سے بچانا ہے۔
حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: 'عورتوں کو رات کے وقت مساجد (نماز کے لیے) جانے سے مت روکو۔'"
[صحیح مسلم:442، صحیح بخاری:827]
"پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ایک بیٹے (عبداللہ بن عبداللہ) نے کہا: اللہ کی قسم! ہم انہیں (عورتوں کو) ضرور روکیں گے، ہم انہیں نہیں جانے دیں گے کہ وہ اس (مسجد جانے) کو بہانہ (فساد یا خلل) بنائیں۔"
[صحیح مسلم:442]
> "سالم بن عبداللہ کہتے ہیں: اس پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سخت غصے میں آگئے۔"
[سنن ابن ماجہ:16، مسند احمد-الأرناؤوط:5021]
"پھر وہ (عبداللہ بن عمر) اس (بیٹے) کی طرف متوجہ ہوئے..."
[مسند احمد-الأرناؤوط:6252]
"...اس کے سینے پر (غصے سے) تھپڑ مارا..."
[مسند احمد-الأرناؤوط:5021]
"...اور اسے بری طرح برابھلا کہا، میں نے کبھی انہیں اس طرح برابھلا کہتے نہیں سنا تھا، اور فرمایا: 'میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سناتا ہوں اور تم کہتے ہو: اللہ کی قسم! ہم انہیں روکیں گے؟"
[صحیح مسلم:442، سنن ابو داؤد:568]
"سالم کہتے ہیں: پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس (بیٹے) سے موت تک بات نہیں کی۔"
[مسند احمد:4933، غاية المرام:411، الثمر المستطاب ج1 ص729، إصلاح الساجد ص225]
تشریح:
1. حدیث کا بنیادی حکم: عورتوں کا مسجد جانا جائز ہے۔
* نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح حکم: "عورتوں کو رات کے وقت مساجد جانے سے مت روکو۔" (صحیح مسلم:442، صحیح بخاری:827)۔
* تشریح: یہ حدیث عورتوں کے مساجد میں نماز پڑھنے کے حق کی واضح دلیل ہے، خصوصاً رات کے اوقات میں (مثلاً عشاء یا تہجد کی نماز)۔ شریعت میں عورتوں کے مسجد جانے کی بنیادی طور پر اجازت ہے، اگرچہ ان کے لیے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔
2. بیٹے کا اعتراض اور لفظ "دَغَل" کی تشریح:
* بیٹے کا موقف: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بیٹے (عبداللہ بن عبداللہ) نے کہا: "اللہ کی قسم! ہم انہیں ضرور روکیں گے، ہم انہیں نہیں جانے دیں گے کہ وہ اس (مسجد جانے) کو دَغَلًا بنائیں۔"
* لفظ "دَغَل" کی تشریح (عون المعبود، ج 2 / ص 91):
* معنیٰ: دَغَل کا اصل معنی گھنا جنگل یا گنجان درخت ہیں۔
* مجازی معنیٰ: یہاں اس سے مراد فساد، دھوکہ، بدگمانی کا باعث بننے والا عمل یا بہانہ ہے۔ یعنی بیٹے کا خیال تھا کہ کچھ عورتیں مسجد جانے کے نام پر گھروں سے نکل کر کسی ناجائز کام (مثلاً خلط ملط، بے پردگی، فضول گپ شپ) کا ارتکاب کرسکتی ہیں یا اسے بہانہ بنا سکتی ہیں۔
* سبب: حافظ ابن حجر (فتح الباری) کے حوالے سے عون المعبود میں بیان کیا گیا ہے کہ بیٹے نے اس وقت کچھ عورتوں میں پائے جانے والے فساد یا بدعملی کو دیکھ کر، اور اپنی غیرت کی وجہ سے یہ بات کہی۔
3. عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا شدید رد عمل:
* شدید غصہ: بیٹے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح حکم کی مخالفت پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سخت غصے میں آئے۔
* سینے پر تھپڑ مارنا: انہوں نے اپنے بیٹے کے سینے پر غصے میں تھپڑ مارا (مسند احمد:5021)۔ یہ شدید غصے اور ناراضی کی علامت تھی، نہ کہ جسمانی سزا۔
* سخت گالیاں دینا: سالم بن عبداللہ (بیٹے کا بھائی) کہتے ہیں کہ انہوں نے بیٹے کو بری طرح گالیاں دیں اور انہوں نے اپنے والد کو کبھی اس طرح گالیاں دیتے نہیں سنا تھا۔
* شدید الفاظ میں تنبیہ: انہوں نے فرمایا: "میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سناتا ہوں اور تم کہتے ہو: اللہ کی قسم! ہم انہیں روکیں گے؟" (صحیح مسلم:442)۔ یہ جملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی صریح مخالفت پر سخت ملامت پر مشتمل ہے۔
* ہمیشہ کے لیے ہجر (تعلقات ترک کرنا): عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس واقعے کے بعد اپنے اس بیٹے سے زندگی بھر بات نہیں کی، یہاں تک کہ ان میں سے ایک (یا دونوں) کا انتقال ہو گیا (مسند احمد:4933 وغیرہ)۔
4. ہجر کی حکمت اور اسباق (عون المعبود، ج 2 / ص 91):
* وجہ انکار: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا انکار صرف اس بات پر تھا کہ ان کے بیٹے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح حکم کی صریح مخالفت پر اصرار کیا اور اپنی رائے کو شرعی نص پر ترجیح دی۔
* اہم اسباق:
* سنت کی مخالفت پر سختی: جو شخص اپنی رائے یا خواہشات کی بنیاد پر سنت نبوی کی مخالفت کرے، اس پر سخت گرفت کرنا اور اسے متنبہ کرنا ضروری ہے۔
* والدین کا حقِ تربیت: والد کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بالغ اولاد کو بھی، اگر وہ کوئی نامناسب بات کہے (خصوصاً دین کے معاملے میں)، ادب سکھائے اور ٹوکے۔ یہ اس بات کی واضح مثال ہے۔
* ہجر کا جواز بطورِ سزا: دینی معاملے میں سنگین غلطی (خصوصاً سنت کی مخالفت) پر کسی شخص کو تعلقات منقطع کرنے (ہجر کرنے) کی سزا دینا جائز ہے، خواہ وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ یہ اس کی غلطی کی سنگینی کو واضح کرنے اور اسے سوچنے پر مجبور کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ (عون المعبود میں امام نووی کے حوالے سے اسے جائز قرار دیا گیا ہے)۔
* نص پر عمل کی تاکید: شرعی نصوص (قرآن و حدیث) پر عمل کرنا ضروری ہے، انہیں اپنی رائے، شک، بدگمانی یا کسی ممکنہ فساد کے خدشے کی بنیاد پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ممکنہ فساد کی روک تھام کے لیے دیگر شرعی طریقے (نصیحت، اصلاح) استعمال کیے جائیں گے، نہ کہ اصل حکم کو ہی منسوخ کر دیا جائے۔
* ہجر کی مدت کے بارے میں وضاحت: عون المعبود میں حافظ ابن حجر (فتح الباری) کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ ہجر (جس کا اختتام موت پر ہوا) اس بات کی دلیل ہے کہ واقعے کے بعد ان میں سے ایک فوت ہو گیا تھا۔
(ج) خلاصہ و نتیجہ:
1. شرعی حکم: عورتوں کا رات کے وقت مساجد میں نماز پڑھنے جانا جائز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا۔
2. سنت کی مخالفت کا گناہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح اور واضح حکم کی مخالفت کرنا، چاہے اچھی نیت سے ہو (جیسے فساد کا خدشہ)، ناجائز اور سخت قابل مذمت عمل ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا شدید رد عمل اسی بات پر تھا۔
3. والد کی ذمہ داری: والد کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد (چاہے وہ بالغ ہی کیوں نہ ہو) کو دین کے معاملے میں غلط راہ پر چلنے یا سنت کی مخالفت پر سختی سے روکے اور انہیں ادب سکھائے۔
4. ہجر کا جواز: دینی معاملے میں سنگین خطا (بالخصوص سنت نبوی کی صریح مخالفت) پر کسی قریبی رشتہ دار کو بھی ہمیشہ کے لیے تعلقات ترک کرنے (ہجر کرنے) کی سزا دینا جائز ہے۔ یہ اس کی خطا کی سنگینی کو واضح کرنے اور توبہ کی ترغیب دینے کے لیے ہوتا ہے۔
5. فتنے کا علاج: اگر کسی حکم شرعی (جیسے عورتوں کا مسجد جانا) کے نتیجے میں فتنے یا فساد کا خدشہ ہو، تو اس کا حل یہ نہیں کہ حکم شرعی ہی کو منسوخ یا معطل کر دیا جائے، بلکہ اصلاح کے دیگر شرعی طریقے (نصیحت، پردہ کا اہتمام، نگرانی، برائی کو روکنا) استعمال کیے جائیں۔
1. مِنْ جَارِ السُّوءِ (برے ہمسائے سے پناہ):
امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (م852ھ) نے فرمایا:
"الجار السوء یعیش في جوارك ویؤذيك بالقول أو الفعل، وقد یصیر سبباً فی هلاک الإنسان۔"
ترجمہ:
"برا ہمسایہ وہ ہے جو آپ کے پڑوس میں رہتا ہے اور قول یا فعل سے تکلیف دیتا ہے، جو انسان کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔"
- امام غزالی(م505ھ) نے فرمایا:
"شر الجار یمنع الخیر ویجلب الهم، فلذلک استعاذ منه النبیﷺ۔"
ترجمہ:
"برا ہمسایہ بھلائی کو روکتا اور غم لاتا ہے، اس لیے نبی ﷺ نے اس سے پناہ مانگی۔"
[احیاء العلوم]
---
2. وَمِنْ زَوْجَةٍ تُشَيِّبُنِي قَبْلَ الْمَشِيبِ (بیوی جو قبل از وقت بوڑھا کرے) :


حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَبْغَضَ الْمُسْلِمُونَ عُلَمَاءَهُمْ وَأَظْهَرُوا عِمَارَةَ أَسْوَاقِهِمْ وَتَنَاكَحُوا عَلَى جَمْعِ الدَّرَاهِمِ رَمَاهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِأَرْبَعِ خِصَالٍ: بِالْقَحْطِ مِنَ الزَّمَانِ، وَالْجَوْرِ مِنَ السُّلْطَانِ، وَالْخِيَانَةِ مِنْ ولَاةِ الْأَحْكَامِ، وَالصَّوْلَةِ مِنَ الْعَدُوِّ۔
یعنی
جب مسلمان(امت)اپنے علماء سے بغض رکھنے لگیں گے اور بازاروں کی عمارتوں کو بلند وغالب کرنے لگیں گے اور(دینداری کے بجائے) مال ودولت کے ہونے پر نکاح کرنے لگیں گے تو اللہ عز وجل ان پر چار قسم کے عذاب بھیجے گا: قحط سالی زمانے(کے حالات)سے، اور ظلم حکمرانوں سے، اور خیانت والیانِ حکام سے، اور پے در پے حملے دشمنوں سے۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم » كِتَابُ الرِّقَاقِ » فصل فی توقیر العلماء، حديث:7923]
اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ
1۔ یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَهٗٓ لا اَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَی الْکٰفِرِيْنَ ز یُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ۔
(المائدۃ، 5 : 54)
’’اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اللہ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم( اور) کافروں پر سخت ہوں گے اللہ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔‘‘
2۔ وَاِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًاo
(الأحزاب، 33 : 29)
’’اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) اور دارِ آخرت کی طلبگار ہو تو بے شک اللہ نے تم میں نیکوکار بیبیوں کے لیے بہت بڑا اَجر تیار فرما رکھا ہےo‘‘
3۔ اَلْاَخِلَّآء یَوْمَئِذٍ م بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَo
(الزخرف،43 : 67)
’’سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے (انہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی)o‘‘
4۔ وَعَدَ اللهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًاo
(الفتح، 48 : 29)
’’اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہےo‘‘
5۔ وُجُوْہٌ يَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌo اِلٰی رَبِّهَا نَاظِرَةٌo
(القیامۃ، 75 : 22۔23)
’’بہت سے چہرے اُس دن شگفتہ و تر و تازہ ہوں گےo اور (بلا حجاب) اپنے رب (کے حسن و جمال ) کو تک رہے ہوں گےo‘‘
6۔ وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْکِيْنًا وَّ یَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيْدُ مِنْکُمْ جَزَآء وَّلَا شُکُوْرًاo
(الدھر، 76 : 8، 9)
’’اور (اپنا) کھانا اللہ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیںo (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لئے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہشمند) ہیںo‘‘
اَ لْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ
1۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ اللهَ تَعَالَی یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ : أَيْنَ الْمُتَحَابُّوْنَ بِجَلَالِي؟ اَلْیَوْمَ أُظِلُّهُمْ فِي ظِلِّي۔ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّي۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَابْنُ حِبَّانَ، وَالدَّارِمِيُّ۔
1 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : البر والصلۃ والآداب، باب : في فضل الحب في اللہ، 4 / 1988، الرقم : 2566، وابن حبان في الصحیح، 2 / 334، الرقم : 574، والدارمي في السنن، 2 / 403، الرقم : 2757، والبیھقي في السنن الکبری، 10 / 232، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 237، الرقم : 7230۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا : میری عظمت کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے آج کہاں ہیں؟ میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں، کیونکہ آج میرے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابن حبان اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
2۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ : أَنَّ رَجُلًا زَارَ أَخًا لَهُ فِي قَرْیَةٍ أُخْرَی۔ فَأَرْصَدَ اللهُ لَهُ، عَلَی مَدْرَجَتِهِ مَلَکاً۔ فَلَمَّا أَتَی عَلَيْهِ قَالَ : أَيْنَ تُرِيْدُ؟ قَالَ : أُرِيْدُ أَخًا لِي فِي ھَذِهِ الْقَرْیَةِ۔ قَالَ : ھَلْ لَکَ عَلَيْهِ مِنْ نِعْمَةٍ تَرُبُّھَا؟ قَالَ : لَا۔ غَيْرَ أَنِّي أَحْبَبْتُهُ فِي اللهِ عزوجل۔ قَالَ : فَإِنِّي رَسُوْلُ اللهِ إِلَيْکَ، بِأَنَّ اللهَ قَدْ أَحَبَّکَ کَمَا أَحْبَبْتَهُ فِيْهِ۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَأَحْمَدُ، وَابْنُ حِبَّانَ۔
2 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : البر والصلۃ والآداب، باب : فضل الحب في الله، 4 / 1988، الرقم : 2567، وابن حبان في الصحیح، 2 / 331، 337، الرقم : 572، 576، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 408، الرقم : 9280، وأبو یعلی في المعجم، 1 / 211، الرقم : 254، والبیھقی في شعب الإیمان، 6 / 488، وابن المبارک في الزھد، 1 / 247، الرقم : 710۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے کے لئے ایک دوسری بستی میں گیا، اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں ایک فرشتہ کو بھیج دیا، جب اس شخص کا اس کے پاس سے گزر ہوا تو فرشتے نے پوچھا : کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ اس شخص نے کہا : اس بستی میں میرا ایک بھائی ہے اس سے ملنے کا ارادہ ہے۔ فرشتے نے پوچھا : کیا تمہارا اس پر کوئی احسان ہے جس کی تکمیل مقصود ہے؟ اس نے کہا : اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ مجھے اس سے صرف اللہ تعالیٰ کے لئے محبت ہے۔ تب اس فرشتہ نے کہا کہ میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کایہ پیغام لایا ہوں کہ جس طرح تم اس شخص سے محض اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرتے ہو اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
3۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ : إِنَّ اللهَ عزوجل قَالَ : إِذَا تَلَقَّانِي عَبْدِي بِشِبْرٍ، تَلَقَّيْتُهُ بِذِرَاعٍ۔ وَإِذَا تَلَقَّانِي بِذِرَاعٍ، تَلَقَّيْتُهُ بِبَاعٍ، وَإِذَا تَلَقَّانِي بِبَاعٍ، جِئْتُهُ أَتَيْتُهُ بِأَسْرَعَ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ۔
3 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب : الحث علی ذکر الله تعالی، 4 / 2061، الرقم : 2675، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 316، الرقم : 8178، وأیضاً، 3 / 283، الرقم : 14045۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب میرا بندہ ایک بالشت میری طرف بڑھتا ہے، میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میری طرف بڑھتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں اور جب وہ میری طرف دو ہاتھ بڑھتا ہے تو میں تیزی سے اس کی طرف بڑھتا ہوں (یعنی بکثرت اس پر اپنی رحمت اور مدد و نصرت فرماتا ہوں)۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
4۔ عَنْ صُهَيْبٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، قَالَ : یَقُوْلُ اللهُ ل : تُرِيْدُوْنَ شَيْئًا أَزِيْدُکُمْ؟ فَیَقُوْلُوْنَ : أَ لَمْ تُبَيِّضْ وُجُوْهَنَا؟ أَ لَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ وَتُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ؟ قَالَ : فَیَکْشِفُ الْحِجَابَ فَمَا أُعْطُوْا شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَی رَبِّهِمْ عزوجل ثُمَّ تَلاَ هَذِهِ الآیَةَ : {لِلَّذِيْنَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَی وَ زِیَادَةٌ} ]یونس، 10 : 26[۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ۔
4 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : إثبات رؤیۃ المؤمنین الآخرۃ ربھم، 1 / 163، الرقم : 181، والترمذي في السنن، کتاب : تفسیر القرآن، باب : ومن سورۃ یونس، 5 / 286، الرقم : 3105، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 332، وعبد الله بن أحمد في السنۃ، 1 / 245، الرقم : 449، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 309، الرقم : 5744۔
’’حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب جنتی جنت میں داخل ہو جائیں گے، اللہ عزوجل فرمائے گا : تم کچھ اور چاہتے ہو تو میں تمہیں دوں؟ وہ عرض کریں گے : (اے ہمارے رب! کیا تو نے ہمارے چہرے منور نہیں کر دیئے کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کر دیا اور ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی۔ فرمایا : اس کے بعد اللہ تعالیٰ پردہ اٹھادے گا، انہیں اپنے پروردگار کے دیدار سے بہتر کوئی چیز نہیں ملی ہو گی پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : {ایسے لوگوں کے لئے جو نیک کام کرتے ہیں نیک جزا ہے (بلکہ) اس پر اضافہ بھی ہے}۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
5۔ عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّهُ لَقِيَ أَبَا هُرَيْرَةَ رضي الله عنه فَقَالَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضي الله عنه : أَسْأَلُ اللهَ أَنْ یَجْمَعَ بَيْنِي وَبَيْنَکَ فِي سُوْقِ الْجَنَّةِ، فَقَالَ سَعِيْدٌ : أَوَ فِيْهَا سُوْقٌ؟ قَالَ : نَعَمْ أَخْبَرَنِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلُوْهَا نَزَلُوْا فِيْهَا بِفَضْلِ أَعْمَالِهِمْ، فَیُؤْذَنُ لَهُمْ فِي مِقْدَارِ یَومِ الْجُمُعَةِ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْیَا فَیَزُوْرُوْنَ رَبَّھُمْ، وَیُبْرِزُ لَهُمْ عَرْشَهُ۔
قَالَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضي الله عنه : قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَهَلْ نَرَی رَبَّنَا؟ قَالَ : نَعَمْ، هَلْ تَتَمَارَوْنَ فِي رُؤْیَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ؟ قُلْنَا : لَا، قَالَ : کَذَلِکَ لَا تَتَمَارَوْنَ فِي رُؤْیَةِ رَبِّکُمْ عزوجل وَلَا یَبْقَی فِي ذَلِکَ الْمَجْلِسِ رَجُلٌ إِلَّا حَاضَرَهُ اللهُ مُحَاضَرَةً …۔
ثُمَّ نَنْصَرِفُ إِلَی مَنَازِلِنَا، فَیَتَلَقَّانَا أَزْوَاجُنَا فَیَقُلْنَ : مَرْحَبًا وَأَهْـلًا لَقَدْ جِئْتَ وَإِنَّ بِکَ مِنَ الْجَمَالِ وَالطِّيْبِ أَفْضَلَ مِمَّا فَارَقْتَنَا عَلَيْهِ، فَیَقُوْلُ : إِنَّا جَالَسْنَا الْیَوْمَ رَبَّنَا الْجَبَّارَ (عزوجل)، وَیَحِقُّ لَنَا أَن نَنْقَلِبَ بِمِثْلِ مَا انْقَلَبْنَا۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه۔
5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ الجنۃ، باب : ما جاء في سوق الجنۃ، 4 / 685، الرقم : 2549، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : صفۃ الجنۃ، 2 / 1450، الرقم : 4336، وابن حبان في الصحیح، 16 / 464۔ 467، الرقم : 7437، وابن أبي عاصم في السنۃ، 1 / 258، الرقم : 585۔ 586، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 301، الرقم : 5728۔
’’حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی ملاقات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے فرمایا : میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو جنت کے بازار میں اکٹھا کردے۔ سعید کہنے لگے : کیا جنت میں کوئی بازار بھی ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں مجھے رسول اللہ ﷺ نے بتایا ہے کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو وہ اپنے عملوں کی برتری کے لحاظ سے مراتب حاصل کریں گے۔ دنیا کے جمعہ کے روز کے برابر انہیں اجازت دی جائے گی کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے۔ اور وہ ان کے لیے اپنا عرش ظاہر کرے گا۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا ہم اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، کیا تم سورج اور چودھویں کے چاند کو دیکھنے میں کوئی شک کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا : نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اسی طرح تم اپنے پروردگار کے دیدار میں کوئی شک نہیں کروگے۔ اس محفل میں کوئی ایسا شخص نہیں ہوگا جس سے اللہ تعالیٰ براهِ راست گفتگو نہ فرمائے۔…
’’انہوں نے کہا کہ پھر ہم واپس اپنے گھروں میں آجائیں گے۔ ہماری بیویاں ہمارا استقبال کریں گی اور کہیں گی خوش آمدید، خوش آمدید، تم واپس آئے ہو، تو تمہارا حسن و جمال ہم سے جدا ہوتے وقت سے بڑھ گیا ہے۔ وہ کہے گا : آج ہماری مجلس ہمارے رب جبار سے ہوئی ہے۔ ہم اسی (خوبصورت) شکل و صورت میں تبدیل ہونے کے حق دار تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
6۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : قَالَ اللهُ تَعَالَی : وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّيْنَ فِيَّ، وَالْمُتَجَالِسِيْنَ فِيَّ، وَالْمُتَزَاوِرِيْنَ فِيَّ، وَالمُتَبَاذِلِيْنَ فِيَّ۔ رَوَاهُ مَالِکٌ بإِسْنَادِهِ الصَّحِيْحِ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔
6 : أخرجه مالک في الموطأ، 2 / 953، الرقم : 1711، وإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ، وَصَحَّحَهُ ابن حبان في الصحیح، 2 / 335، الرقم : 575، والحاکم في المستدرک، 4 / 186، الرقم : 7314، والبیھقي في السنن الکبری، 10 / 233، وَصَحَّحَهُ، وَوَافَقَهُ الذھبي، وقال ابن عبد البر : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ۔
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میری خاطر محبت کرنے والوں، میری خاطر مجلسیں قائم کرنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے سے ملنے والوں اور میری خاطر خرچ کرنے والوں کے لئے میری محبت واجب ہو گئی۔‘‘
اس حدیث کو امام مالک نے اسنادِ صحیح سے اور ابن حبان نے روایت کیا ہے اور امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
7۔ عَنْ مُعَاذٍ رضي الله عنه أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ ، عَنْ أَفْضَلِ الْأَيْمَانِ؟ قَالَ : أَنْ تُحِبَّ ِللهِ، وَتُبْغِضَ ِللهِ، وَتُعْمِلَ لِسَانَکَ فِي ذِکْرِ اللهِ، قَالَ : وَمَاذَا یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ : وَأَنْ تُحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ، وَتَکْرَهَ لَھُمْ مَا تَکْرَهُ لِنَفْسِکَ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ۔
7 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 247، الرقم : 22183، والطبراني في المعجم الکبیر، 20 / 191، الرقم : 425۔
’’حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کہ کون سا ایمان افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اللہ کے لئے محبت کرے اوراللہ کے لئے ہی نفرت کرے اور اپنی زبان کو اللہ کے ذکر میں مشغول رکھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اس کے علاوہ اور کوئی چیز؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو لوگوں کے لئے وہ چیز پسند کر جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور ان کے لئے وہ چیز ناپسند کر جو اپنے لئے ناپسند کرتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
8۔ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ عَنْ لِسَانِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ : حَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّيْنَ فِيَّ، وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَبَاذِلِيْنَ فِيَّ، وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَصَادِقِيْنَ فِيَّ، وَالْمُتَوَاصِلِيْنَ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ۔
8 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 229، الرقم : 22055، وابن حبان في الصحیح، 2 / 338، الرقم : 577، والحاکم في المستدرک، 4 / 187، الرقم : 7315۔
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (اللہ رب العزت کے حوالے سے) بیان فرماتے ہوئے سنا : میری خاطر محبت کرنے والوں کے لئے میری محبت برحق ہے، میری خاطر صلہ رحمی کرنے والوں کے لئے بھی میری محبت بر حق ہے، میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرنے والوں کے لئے بھی میری محبت برحق ہے اور میری خاطر ایک دوسرے کو ملنے والوں کے لئے بھی میری محبت برحق ہے۔‘‘ اسے امام اَحمد نے صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
9۔ عَنْ أَبِي مَالِکٍ الْأَشْعَرِيِّ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ : یَا أَیُّھَا النَّاسُ، اسْمَعُوْا وَاعْقِلُوا وَاعْلَمُوْا أَنَّ ِللهِ عزوجل عِبَادًا لَيْسُوْا بِأَنْبِیَاء وَلَا شُھَدَاءَ، یَغْبِطُھُمُ الْأَنْبِیَاءُ وَالشُّهَدَاءُ عَلَی مَجَالِسِھِمْ وَقُرْبِهِمْ مِنَ اللهِ۔ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الأَعْرَابِ مِنْ قَاصِیَةِ النَّاسِ وَأَلْوَی بِیَدِهِ إِلَی نَبِيِّ اللهِ ﷺ فَقَالَ : نَبِيَّ اللهِ، نَاسٌ مِنَ النَّاسِ، لَيْسُوْا بِأَنْبِیَاءَ وَلاَ شُهَدَاءَ یَغْبِطُھُمُ الْأَنْبِیَاءُ وَالشُّھَدَاءُ عَلَی مَجَالِسِهِمْ وَقُرْبِهِمْ مِنَ اللهِ انْعَتْهُمْ لَنَا یَعْنِي صِفْھُمْ لَنَا، شَکِّلْھُمْ لَنَا، فَسُرَّ وَجْهُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ لِسُؤَالِ الْأَعْرَابِيِّ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ھُمْ نَاسٌ مِنْ أَفْنَاءِ النَّاسِ، وَنَوَازِعِ الْقَبَائِلِ، لَمْ تَصِلْ بَيْنَھُمْ أَرْحَامٌ مُتَقَارِبَةٌ، تَحَابُّوْا فِي اللهِ وَتَصَافَوْا۔ یَضَعُ اللهُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مَنَابِرَ مِنْ نُوْرٍ، فَیَجْلِسُھُمْ عَلَيْهَا، فَیَجْعَلُ وُجُوْھَمْ نُوْرًا، وَثِیَابَهُمْ نُوْرًا، یَفْزَعُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا یَفْزَعُوْنَ، وَھُمْ أَوْلِیَاءُ اللهِ الَّذِيْنَ لَا خَوْفٌ عَلَيْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ۔
9 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 343، الرقم : 22957، وابن المبارک في الزھد، 1 / 248، الرقم : 714۔
’’حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے لوگو! سنو، سمجھو اور معلوم کر لو کہ اللہ عزوجل کے کچھ بندے ایسے ہیں جو نہ نبی ہیں اور نہ شہداء لیکن نبی اور شہید ان کے مراتب اور اللہ کے ہاں تقرب کو دیکھ کر رشک کریں گے۔ دور سے آنے والے ایک بدوی نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا : یا رسول اللہ! جو لوگ نہ نبی ہوں اور نہ شہید لیکن انبیاء اور شہداء ان کی مسند اور اللہ کے تقرب کو دیکھ کر رشک کریں گے، ان کی خوبی اور ان کا حلیہ ہمارے سامنے بیان فرما دیجیے۔ رسول اللہ ﷺ بدوی کے اس سوال سے خوش ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ لوگ وہ ہیں جو مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی آپس میں کوئی رشتہ داری نہیں ہے، لیکن وہ اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے خیرخواہ ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے لئے قیامت کے دن نور کے منبر لگائے گا، وہ ان پر بیٹھیں گے اور ان کے چہرے اور کپڑے پُر نور بنا دے گا (باقی) لوگ گھبرائیں گے (لیکن) یہ نہیں گھبرائیں گے۔ یہی اولیاء اللہ ہیں جنہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غم زدہ ہوں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔
10۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَوْ أَنَّ عَبْدَيْنِ تَحَابَّا فِي اللهِ عزوجل، وَاحِدٌ فِي الْمَشْرِقِ وَآخَرُ فِي الْمَغْرِبِ، لَجَمَعَ اللهُ بَيْنَھُمَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ، یَقُوْلُ : ھَذَا الَّذِي کُنْتَ تُحِبُّهُ فِيَّ۔ رَوَاهُ الْبَيْھَقِيُّ۔
10 : أخرجه البیھقي في شعب الإیمان، 6 / 492، الرقم : 9022۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر دو بندے اللہ تعالیٰ کے لئے ایک دوسرے سے محبت کریں۔ (ان میں سے) ایک مشرق میں اور دوسرا مغرب میں (بھی) ہو تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز انہیں ضرور ملا دے گا اور فرمائے گا : یہ ہے وہ (شخص) جس سے تو میری خاطر محبت کیا کرتا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
11۔ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَیَبْعَثَنَّ اللهُ أَقْوَامًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِي وُجُوْھِھِمُ النُّوْرُ عَلَی مَنَابِرِ اللُّؤْلُؤِ یَغْبِطُھُمُ النَّاسُ لَيْسُوْا بِأَنْبِیَاءَ وَلاَ شُهَدَاءَ۔ قَالَ : فَجَثَا أَعْرَابِيُّ عَلَی رُکْبَتَيْهِ فَقَالَ : یَا رَسُوْلِ اللهِ، حِلْھُمْ لَنَا نَعْرِفْھُمْ۔ قَالَ : ھُمُ الْمُتَحَابُّوْنَ فِي اللهِ مِنْ قَبَائِلَ شَتَّی وَبِلاَدٍ شَتَّی یَجْتَمِعُوْنَ عَلَی ذِکْرِ اللهِ یَذْکُرُوْنَهُ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔
11 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 3 / 291، الرقم : 3435، و ذکره المنذري في الترغیب والترھیب، 2 / 262، رقم : 2327، والهیثمی في مجمع الزوائد، 10 / 77۔
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کچھ ایسے لوگ (قبروں) سے اٹھائے گا جن کے چہرے پر نور ہو گا۔ وہ موتیوں کے منبروں پر ہوں گے۔ لوگ ان سے رشک کریں گے، نہ ہی وہ انبیاء ہوں گے اور نہ شہدائ۔ ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک بدوی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور عرض کرنے لگا : یا رسول اللہ! ان کے متعلق ہمیں بتائیں تاکہ ہمیں بھی ان کا علم ہو جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ہیں، مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف علاقوں میں رہتے ہیں لیکن اللہ کی یاد کے لئے جمع ہوتے ہیں اور اسے یاد کرتے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ
1۔ قال عمر رضي الله عنه : والله، لقد لان قلبي في الله حتی لھو ألین من الزبد، ولقد اشتد قلبي في الله حتی لھو أشد من الحجر۔
1 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 51۔
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم! میرا دل خدا کے لئے اس قدر نرم ہو گیا کہ مکھن بھی اتنا نرم نہیں ہو گا اور خدا ہی(کی محبت میں اس کے دشمنوں) کے لئے میرا دل اس قدر سخت ہو گیا کہ پتھر بھی اس کے مقابلے سخت نہ ہو گا۔‘‘
2۔ قال معروف الکرخي رَحِمَهُ الله : للفتیان علاماتٌ ثلاثٌ : وفاءٌ بلا خلاف، ومدحٌ بلا جُود، وعطاءٌ بلا سُؤال۔
2 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 89۔
’’حضرت معروف کرخی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی محبت و الفت میں پروان چڑھے نوجوانوں کی تین نشانیاں ہیں بغیر کسی خوف و ڈر کے وفا کرتے ہیں، بغیر مبالغے کے تعریف کرتے ہیں اور بغیر سوال کئے عطا کرتے ہیں۔‘‘
3۔ سُئِل معروف عن المحبَّةِ، فقال : المحبَّةُ لیست من تعلیم الخلقِ، إنما هي من مواهب الحَقِّ وفَضْلِه۔
3 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 89۔
’’حضرت معروف کرخی رَحِمَهُ اللہ سے محبت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : یہ کوئی مخلوق کی تعلیم کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو حق تعالیٰ کے تحفوں میں سے ایک تحفہ اور اس کا فضل ہے۔‘‘
4۔ قال یحي بن معاذ الرازي رَحِمَهُ الله : علی قَدْر حُبِّک الله تعالی یُحبُّک الخَلْق، وبِقَدْر خَوْفِک من الله تعالی یَهابُک الخلقُ، وعلی قَدْر شُغْلِک باللهِ یشتَغِلُ في أَمْرِک الخلق۔
4 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 111۔
’’حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جس قدر تم اللہ سے محبت کرو گے اسی قدر مخلوقِ خدا تم سے محبت کرے گی اور جس قدر تم اللہ سے خوف کھاؤ گے اسی طرح مخلوق خدا تم سے خوف کھائے گی اور جس قدر اللہ کے احکام کی پابندی کرو گے اسی قدر مخلوق خدا تمہارے حکم کی تعمیل کرے گی۔‘‘
5۔ قال أبو یعقوب النهرجوري رَحِمَهُ الله : قلت لأبي یعقوب السوسي : هل یتأسف العارف علی شيء غیر الله عزوجل؟ فقال : وهل یری غیره فیتأسف علیه؟ قلت : فبأي عین ینظر إلی الأشیاء؟ فقال : بعین الفناء والزوال۔
5 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 315۔
’’شیخ ابو یعقوب نہرجوری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو یعقوب سوسی رَحِمَهُ اللہ سے پوچھا : کیا عارف اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور چیز(کے نہ ملنے) پر بھی افسوس کرتا ہے؟ انہوں نے فرمایا : کیا اسے اللہ کے سوا کوئی اور چیز دکھائی دیتی ہے کہ وہ اس پر افسوس کرے؟ میں نے عرض کیا : پھر اسے دنیا کی اشیاء کو کس نگاہ سے دیکھنا چاہئے؟ فرمایا : زوال اور فنا کی نگاہ سے۔‘‘
6۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : أوحی الله عزوجل إلی داود علیه السلام : لو یعلم المُدْبِرُوْنَ عنّي کیف انتظاري لهم ورفقي بهم وشوقي إلی ترکِ مَعَاصِيْهِمْ لماتوا شوقاً إليّ، وانقطعت أوصالهم من محبّتي، یا داود، هذه إرادتي في المُدْبِرِيْنَ عنّي، فکیف إرادتي في مُقْبِلِيْنَ إليّ؟
6 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 332۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ روایت بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ اگر وہ لوگ جو مجھ سے منہ موڑ لیتے ہیں، یہ جان لیں کہ میں ان کا کیسے انتظار کر رہا ہوں اور ان پر کیسے مہربانی کرنے والا ہوں اور ان کے معصیت کاریوں کو ترک کرنے کو کتنا پسند کرتا ہوں تو وہ میرے شوق میں مر جائیں اور ان کے جوڑ میری محبت کی وجہ سے منقطع ہو جائیں۔ اے داؤد! یہ میرا ارادہ ان لوگوں کے متعلق ہے جو مجھ سے منہ موڑتے ہیں پس جو لوگ میری طرف آتے ہیں ان کے ساتھ میرا ارادہ کیا ہو گا؟‘‘
7۔ عن الإمام القشیري، قال : قیل : العارف قد أنس بذکرِ اللهِ فأوْحَشَه مِن خَلْقِه، وافتقر إلی اللهِ فأغناه عن خَلْقِه، وذل له تعالی فأعزّه في خلقه۔
7 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 315۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مروی ہے کہ عارف چونکہ ذکر اللہ کے ساتھ انس حاصل کر چکا ہوتا ہے اس لئے اللہ (یا اللہ کا انس) اس کو مخلوق سے مستغنی کر دیتا ہے اور وہ اللہ کے سامنے ذلیل رہتا ہے اس لئے اللہ اسے مخلوق میں معزز بنا دیتا ہے۔‘‘
8۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قال بعضهم : من عرف الله تعالی تبرّم بالبقاء، وضَاقَتْ علیه الدّنیا بسعتها۔
8 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 313۔
’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ کسی صوفی سے مروی ہے کہ جس نے اللہ کو پہچان لیا وہ دنیا میں زندہ رہنے سے تنگ آ جاتا ہے اور دنیا اس قدر وسعت کے باوجود اس کے لئے تنگ معلوم ہوتی ہے۔‘‘
9۔ قال جعفر رَحِمَهُ الله : سمعت سمنون رَحِمَهُ الله یقول : ذهب المُحبّون ﷲ تعالی بشرف الدنیا والآخرۃ، لأن النبيَّ ﷺ قال : المرء مع من أحب (متفق علیه)، فهم مع الله تعالی۔
9 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 322۔
’’حضرت جعفر رَحِمَهُ اللہ نے سمنون رَحِمَهُ اللہ سے روایت کی کہ محبت کرنے والے دنیا اور آخرت کا شرف حاصل کریں گے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے (متفق علیہ حدیث میں) فرمایا : الْمَرء مَعَ مَنْ أحبّ ’’انسان اسی کے ساتھ ہوتا ہے جس سے اسے محبت ہو۔ لهٰذا وہ اللہ کے ساتھ ہوئے۔‘‘
10۔ قال عبد الله الأنصاري رَحِمَهُ الله : سمعت الحسین الأنصاري رَحِمَهُ الله یقول : رأیت في النّوم کأن القیامۃ قد قامت وشخصٌ قائمٌ تحت العرش فیقول الحق، سبحانه : یا ملائکتي، من هذا؟ فقالوا : الله أعلم، فقال : هذا معروف الکرخي سکر من حبي فلا یفیق إلا بلقائي۔
10 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 331۔
’’حضرت عبد اللہ الانصاری نے الحسین الانصاری رحمہا اللہ سے روایت کی کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا قیامت برپا ہے اور ایک شخص عرش کے نیچے کھڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتا ہے : یہ کون ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں : اللہ کو بہتر معلوم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یہ معروف کرخی ہے، یہ میری محبت میں مدہوش ہے، اب وہ میری ملاقات کے بغیر ہوش میں نہیں آ سکتا۔‘‘
No comments:
Post a Comment