Thursday, 21 October 2021

اللہ کی خاطر محبت اور اللہ کی خاطر نفرت کیا ہے؟


اللہ سے محبت کی علامت» اللہ والوں سے محبت۔
القرآن:
...وہ محبت کرتے ہیں جس نے ہجرت کی(یعنی نافرمانی اور نافرمانوں کو چھوڑا)۔۔۔
[سورۃ الحشر:9]
حدیثِ قدسی:
میری خاطر محبت کرنے والوں، میری خاطر مجلسیں قائم کرنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے سے ملنے والوں اور میری خاطر خرچ کرنے والوں کے لئے میری محبت واجب ہو گئی۔
[صحیح ابن حبان:575]
(1)انبیاء (2)صحابہ (3)اولیاء (4)علماء (5)صلحاء (6)مساکین سے محبت رکھنا خالص اللہ کیلئے محبت ہے، لہٰذا ان سے محبت کریں، ان کے ساتھ بیٹھیں، ان سے ملنے جائیں، ان پر خرچ کریں۔





::::::: اللہ کی خاطر محبت کرنے کےفوائد :::::::


:::::::تکمیل اِیمان کے اسباب میں سے ہے :::::::

::::::: ابی اُمامہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا
﴿ مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الإِيمَانَ
 جِس نے اللہ کی خاطر مُحبت کی ، اور اللہ کی خاطر نفرت کی، اور اللہ کی خاطرہی (کسی کو کچھ) دِیا ، اور اللہ ہی کی خاطر(کسی کو کچھ)دینے سے رُکا رہا ، تو یقیناً اُس نے اپنا اِیمان مکمل کر لیا
[سنن ابو داؤد /حدیث 4683/کتاب  السُنّۃ]































::::: ایمان کی مضبوطی کے اسباب میں سے ہے :::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ابو ذر الغِفاری رضی اللہ عنہ ُ سے فرمایا﴿يَا أَبَا ذَرٍّ أَيُّ عُرَى الإِيمَانِ أَوْثَقُ؟::: اے ابو ذر کیا تُم جانتے ہو کہ اِیمان کی سب سے زیادہ مضبوط گرہ کونسی ہے؟،
ابو ذر رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا """ اللہ اور اس کے رسول ہی سب سے زیادہ عِلم رکھتے ہیں """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ الْمُوَالاةُ فِي اللَّهِ ، وَ المُعَادَاةُ فِي الله ، وَالْحُبُّ فِي اللَّهِ ، وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ::: اللہ کے لیے دوستی رکھنا ، اور اللہ کے لیے دُشمنی رکھنا ، اور اللہ کے لیے مُحبت کرنا ، اور اللہ کے نفرت کرناصحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ /حدیث2539۔








::::::: اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی مُحبت پانے کے اسباب میں سے ہے :::::::
مُعاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اِرشاد فرماتے ہوئے سُنا کہ﴿قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَجَبَتْ مَحَبَّتِى لِلْمُتَحَابِّينَ فِىَّ وَالْمُتَجَالِسِينَ فِىَّ وَالْمُتَزَاوِرِينَ فِىَّ وَالْمُتَبَاذِلِينَ فِىَّ:::اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمانا ہے کہ میرے لیے آپس میں مُحبت کرنے والوں، ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے والوں ، اور ایک دوسرے کو جا کر ملنے والوں ، اور (ایک دوسرے کی خیر کے لیے) اپنی قوتیں صرف کرنے والوں کے لیے میری مُحبت واجب ہوگئیصحیح ابن حبان /حدیث 575/کتاب البِر و الاحسان /باب13 الصحبة والمجالسة، مؤطا مالک/حدیث 1748/(کتاب)الشعر/باب5، مُسند أحمد/حدیث 22680/حدیث معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ ُ میں سے حدیث رقم 47، صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ /حدیث4331۔







::::: قیامت والے دِن بھی یہ مُحبتیں قائم رہیں گی:::::

﴿الأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ::: اُس دِن سب ہی دوست دُشمن دن جائیں گے سوائے تقویٰ والوں کے سُورت الزُخرف (43)/آیت67،
تقویٰ والوں کی دوستیاں صِرف اللہ کے لیے ہوتی ہیں ، کسی دُنیاوی مقصد کے لیے ، پس یہ لوگ جو ایک دوسرے سے صِرف اللہ کے لیے مُحبت اور دوستی کرنے والے ہوں گے قیامت والے دِن بھی اُن کی دوستی برقرار رہے گی ، اور جو لوگ دُنیاوی مقاصد کے لیے ، اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے دوستیاں رکھنے والے ہوں گے وہ ایک دوسرے کے دُشمن بن جائیں گے ۔







::::::: انبیاء اور شھداء کے لیے بھی پسندیدہ درجہ حاصل ہونےکے اسباب میں سے ہے :::::::
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عُمر الفارق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ لأُنَاسًا مَا هُمْ بِأَنْبِيَاءَ وَلاَ شُهَدَاءَ يَغْبِطُهُمُ الأَنْبِيَاءُ وَالشُّهَدَاءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِمَكَانِهِمْ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى:::بے شک اللہ کے بندوں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے،جو انبیاء میں سے نہیں اور نہ ہی شہیدوں میں سے ہوں گےلیکن قیامت والے دِن اللہ کے پاس اُن کی رتبے کی انبیاء اور شہید بھی تعریف کریں گے
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا """ اے اللہ کے رسول ہمیں بتایے کہ وہ لوگ کون ہیں ؟"""،
تو اِرشاد فرمایا ﴿هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوا بِرُوحِ اللَّهِ عَلَى غَيْرِ أَرْحَامٍ بَيْنَهُمْ وَلاَ أَمْوَالٍ يَتَعَاطَوْنَهَا فَوَاللَّهِ إِنَّ وُجُوهَهُمْ لَنُورٌ وَإِنَّهُمْ عَلَى نُورٍ لاَ يَخَافُونَ إِذَا خَافَ النَّاسُ وَلاَ يَحْزَنُونَ إِذَا حَزِنَ النَّاسُ:::وہ(صِرف )اللہ کی خاطر مُحبت کرنے والے لوگ ہوں گے ، (کیونکہ ) اُن کے درمیان نہ تو (اِیمان کے عِلاوہ)کوئی رشتہ داری ہو گی اور نہ ہی کوئی مال لینے دینے کا معاملہ ، پس اللہ کی قَسم اُن کے چہرے روشنی ہی روشنی ہوں گے اور وہ روشنی پر ہوں گے ، جب (قیامت والے دِن) لوگ ڈر رہے ہوں گے اور غم زدہ ہوں گے تو وہ نہیں ڈریں گے ، اور نہ ہی غم زدہ ہوں گے
اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی ﴿أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ :::بے شک اللہ کے ولیوں (دوستوں) پر نہ کوئی ڈر ہو گا اور نہ ہی وہ غم زدہ ہوں گےسُنن ابو داؤد /حدیث3529/کتاب الاِجارۃ /باب42،
اِس حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے یہ خبر کروائی کہ اللہ کی خاطر ، صِرف اللہ کی خاطر ایک دوسرےسے مُحبت کرنے والے اِیمان والے اللہ کے اُن ولیوں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں قیامت والے دِن کوئی خوف اور غم نہ ہوگا اور وہ اللہ کے ہاں ایسے بلند رتبے پائیں گے کہ جنہیں دیکھ کر انبیاء اور شہدا ءبھی رشک کریں گے ،
یعنی اللہ کے ولیوں کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ صِرف اور صِرف اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ، اور جو لوگ خود کو اولیاء اللہ سمجھتے ہیں ، یا دوسروں پر ایسا ظاہر کرتے ہیں ، یا لوگ اُنہیں اولیاء اللہ سمجھتے ہیں ، لیکن وہ نام نہاد اولیاء اپنے دوسرے اِیمان والے کلمہ گو بھائیوں بہنوں سے نفرت کرتے ہیں ، ان کی عزت اور ایمان پر حملہ آور ہوتے ہیں ، اور اپنے مریدان کو اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں اور بہنوں سے نفرت کرنے والے اور اُن پر حملہ آور ہونے والا بناتے ہیں ، ایسے لوگ کسی بھی طور اولیاء اللہ نہیں ہو سکتے ، جی ہاں ، اللہ کے دُشمن کے اولیاء ہو سکتے ہیں ، جِس کے بڑے اہداف میں سے ایک ہدف """لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ """ کہنے اور ماننے والوں کے درمیان نفرتوں کو رواج دینا ہے ، تو یاد رکھیے کہ اولیاء اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اِیمان والے بھائیوں اور بہنوں سے اللہ کی خاطر مُحبت رکھتے ہیں ، نفرت ، عدوات اور بغض نہیں ، ان کی اصلاح کے لیےکوشاں رہتے ہیں نہ کہ اُن کو ملت اِسلامیہ سے خارج قرار دینے کی کوششوں میں ، ایسی کوششوں میں رہنے والوں کے لیے شدید خطرہ ہے کہ اپنے ان اعمال اور ایسے جاھلانہ فتوؤں اور باتوں کی بنا پر خود ہی ملت سے خارج نہ ہوجائیں ،
بات ہو رہی تھی سچے أولیا اللہ کی پہچان کے بارے میں تو اس موضوع کو فی الحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ایک ایسے شاگر د کا ایک قول سنا کر روکتا ہوں ، جنہیں اُمت میں کتاب اللہ کے سب سے بڑے عُلماء میں سے سب سے پہلا مانا جاتا ہے اور حق مانا جاتا ہے ،توجہ سے پڑھیے ،
حَبر الاُمہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک بہت ہی بہترین بات منقول ہے کہ """""
 مَنْ أَحَبَّ فِي اللَّهِ وَأَبْغَضَ فِي اللَّهِ، وَوَالَى فِي اللَّهِ وَعَادَى فِي اللَّهِ ، فَإِنَّمَا تُنَالُ وِلَايَةُ اللَّهِ بِذَلِكَ:::جِس نے اللہ کی خاطر مُحبت کی اور اللہ کی خاطر نفرت کی ، اور اللہ کی خاطر دوستی (اورقلبی تعلق داری) رکھی ، اور اللہ کی خاطر دُشمنی رکھی، تو یقینا ً وہ شخص ان (صِفات) کے ذریعے اللہ کی ولایت کا درجہ پا جا ئے گا """""
اللہ تعالیٰ ہمیں اُس کے حقیقی اولیاء کی پہچان عطاء فرمائے اور ان کے ساتھیوں میں بنائے ، اور یقینا ً اُس کی رحمت سے کچھ بعید نہیں کہ ہمیں اُن میں سے ہی بنا دے ، لیکن ہماری طرف سے اخلاص اور اتباع سُنّت کے مطابق محنت درکار ہے ،"""أولیاء اللہ """کی پہچان میں غلط فہمیوں کی بات کافی طوالت والی ہو سکتی ہے ، کچھ اسی طرح کا معاملہ """ فنا فی اللہ """ کا بھی ہے ، اِن شاء اللہ ، کسی اور وقت میں ان کے بارے میں ضروری معلومات مہیا کرنے کی کوشش کروں گا ۔





:::::::قیامت والے دِن اللہ کی عرش کا سایہ پانے کے اسباب میں سے ہے :::::::
::::::: ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ نے فرمایا کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَيْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلاَلِى الْيَوْمَ أُظِلُّهُمْ فِى ظِلِّى يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلِّى:::بے شک قیامت والے دِن اللہ کہے گا کہ میرے جلال کی وجہ (ایک دوسرے سے) مُحبت کرنے والے (اِیمان والے)کہاں ہیں ؟ آج ، اُس دِن میں جب کہ میرے (عرش کے)سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں ، میں انہیں اپنے (عرش)کے سایے میں جگہ دوں گاصحیح مُسلم/حدیث6713/کتاب البر والصلۃ و الادب/باب12،
::::::: ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کی روایت کردہ سات قسم کے لوگوں کو عرش کے سایے میں جگہ ملنے والی حدیث شریف میں ہے کہ
﴿سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِى ظِلِّهِ يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّهُ الإِمَامُ الْعَادِلُ ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِى عِبَادَةِ رَبِّهِ ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِى الْمَسَاجِدِ ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِى اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّى أَخَافُ اللَّهَ . وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفَى حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ:::
جس دِن اللہ کے (عرش کے) سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا اُس دِن اللہ سات لوگوں کو اپنے (عرش کے) سایے میں جگہ دے گا (1)انصاف کرنےوالا حُکمران ، اور (2)وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہوئے بڑا ہو، اور (3)وہ شخص جِس کا دِل مسجدوں میں ہی لگا رہے، اور (4)وہ دو شخص جو صِرف اللہ کے لیےمُحبت کرتے ہوں اسی مُحبت میں وہ ملتے ہوں اور اِسی مُحبت میں وہ الگ ہوتے ہوں، اور (5)وہ شخص جِسے کسی رتبے اور حُسن والی عورت نے (برائی کے لیے)دعوت دی ہو اور وہ شخص(اُس عورت کی دعوت ٹُھکراتے ہوئے)کہے میں اللہ سے ڈرتا ، اور (6)وہ شخص جو اس قدر چُھپا کر صدقہ کرتا ہو کہ اُس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ ہو کہ اُس کے دائیں ہاتھ نے کیا صدقہ کیا ہے ، اور (7)وہ شخص جِس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اُس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئےمُتفقٌ علیہ، صحیح البخاری/حدیث660/کتاب الاذان /باب36، صحیح مُسلم/ حدیث2427/کتاب الزکاۃ /باب31،







::::::: اللہ کی خاطر مُحبت کرنے والوں کی نشانیاں :::::::
::::::: ایک دوسرے کو نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے باز رہنے کی تلقین کرنا اور ان دونوں ہی کاموں کی تکمیل میں ایک دوسرے کی مدد کرنا :::::::
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا فرمان ﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ:::اور اِیمان والے مرد اور اِیمان والی عورتیں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں (کہ ایک دوسرے کو)نیکی کے کاموں کا حُکم کرتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں﴾ سُورت التوبہ (9)/آیت71 ،
اِیمان لانے والوں میں سے ،صِرف وہی لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل پیرانظر آتے ہیں جو ایک دوسرے سے اللہ کے لیے مُحبت کرتے ہیں ، ورنہ تو لاکھوں اِیمان والے ہیں ، أربوں مُسلمان ہیں ، کتنے ہیں جوایک دوسرے کو نیکی کی تلقین کرتے ہوں ؟ برائی اور گناہوں سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوں؟ جو ہیں ، جتنے ہیں ، وہ اِن شاء اللہ ، ایک دوسرے اللہ کی خاطر مُحبت کرنے والوں میں ہو سکتے ہیں ۔

اسی طرح ارشادِ نبوی ہے: «‌اللَّهَ ‌اللَّهَ ‌فِي ‌أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ»
ترجمہ:(میرے ساتھیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو،تم میرے بعدانہیں [اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل کی خاطر]نشانہ نہ بنانا، جوکوئی ان سے محبت رکھتاہے وہ دراصل مجھ سے محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھتاہے،اورجوکوئی ان سے بغض رکھتاہے وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتاہے۔جس نے انہیں کوئی اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی،اورجس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے اللہ کو اذیت پہنچائی،اورجس نے اللہ کواذیت پہنچائی ٗ اللہ عنقریب اس کی گرفت فرمائے گا‘‘۔
[مسند أحمد:،20549+20578، سنن الترمذي:3862، صحيح ابن حبان:7256، صحيح الكتب التسعة وزوائده:6506]




::::: ایک دوسرے کے دُکھ درد کو بالکل اپنے دُکھ درد کی طرح محسوس کرنا ، اور ایک دوسرے پر رحم و شفقت کرنا اور مددگار رہنا :::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین :::
﴿تَرَى الْمُؤْمِنِينَ فِى تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى:::اِیمان والوں کی مثال ایک دوسرے سے محبت کرنے میں ، اور ایک دوسرے پر صِرف اِیمان کی وجہ سے رحم کرنے میں ، اور ایک دوسرے کے مددگار رہنے میں اس طرح ہے کہ جیسے کوئی ایک جِسم ہوتا ہے کہ جب اُس جِسم کا کوئی حصہ تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا ہی جِسم اُس تکلیف کی وجہ سے بخار اور بے خوابی کامیں مبتلا رہتا ہے﴾ صحیح البخاری/حدیث6011/کتاب الادب/باب27،صحیح مُسلم/حدیث6751/کتاب البِر والصلۃ ولآداب/ باب17،
﴿الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا:::اِیمان والے ایک دوسرے کے لیے چُنی ہوئی دیوار کی طرح ہوتے ہیں جو(اپنے حصوں کو ) ایک دوسرے کومضبوط کرتی ہے صحیح البخاری/ حدیث481/کتاب الصلاۃ / باب88،صحیح مُسلم/حدیث6750/کتاب البِر والصلۃ ولآداب/ باب17،




::::: ایک دوسرے کو برائی سے روکنا اور ظلم سے بچانا :::::
نبی اللہ صلی اللہ علی وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد گرامی ہے ﴿وَلْيَنْصُرِ الرَّجُلُ أَخَاهُ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا إِنْ كَانَ ظَالِمًا فَلْيَنْهَهُ فَإِنَّهُ لَهُ نَصْرٌ وَإِنْ كَانَ مَظْلُومًا فَلْيَنْصُرْهُ:::اور ضروری ہے کہ کوئی (مُسلمان)آدمی اپنے بھائی کی مدد کرے خواہ وہ بھائی ظُلم کرنے والوں میں سے ہو یا مظلوم ہو، اگر تو وہ ظلم کرنے والوں میں سے ہو تو اپنے اُس ظالم بھائی کو ظلم کرنے سے روکے،اور یہی اُس ظالم کی مدد ہے ، اور اگر وہ مظلوم ہو تو (ظُلم سے نجات حاصل کرنے میں)اُس کی مدد کرے﴾ صحیح مُسلم/حدیث6747/کتاب البِر والصلۃ الآداب/ باب16،
اِن شاء اللہ مذکورہ بالا کے ذریعے اُن تمام سوالات کے جوابات سمجھے جا چکے ہوں گے جو سوالات میں نے اپنی بات کے آغاز میں پیش کیے تھے ،
لہذا ، میں اب اس موضوع کو مزید دو باتیں سنا کر روکتا ہوں ،
ایک تو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے مسلمانوں کے درمیان اللہ کی خاطر مُحبت پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے ایک بہترین اور انتہائی آسان طریقہ بیان کرتا چلوں ،




::::: مُسلمانوں کے درمیان اللہ کی خاطر مُحبت نشر کرنے کا ایک نبوی طریقہ :::::
رسول اللہ صلی اللہ علی وعلی آلہ وسلم کا فرمان مُبارک ہے ﴿لاَ تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا وَلاَ تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلاَ أَدُلُّكُمْ عَلَى شَىْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ أَفْشُوا السَّلاَمَ بَيْنَكُمْ:::تُم لوگ اُس وقت تک جنّت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک اِیمان نہ لاؤ ، اور اُس وقت اِیمان والے نہیں ہو سکتے جب تک ایک دوسرے سے مُحبت کرنے والے نہ بنو گے ،کیا میں تُم لوگوں کو ایسی چیز(کام) کے بارے میں نہ بتاوں کہ جس کو کرنے سے تُم ایک دوسرے سے مُحبت کرنے لگو ، (وہ کام یہ ہے کہ)اپنے درمیان سلام (کرنے)کو پھیلاؤصحیح مُسلم/حدیث203/ کتاب الاِیمان/باب24،
اور دوسرا ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شاندار قول بھی سناتا چلوں کہ """""ولو كان كُل ما اختلفَ مُسلِمَانٌ فى شيءٍ تهاجرا لم يَبقَ بَين المُسلِمِين َ عصمة ٌولا أخُوَة::: اور اگر کوئی سے دو مُسلمان ہر اختلاف کی صُورت میں ایک دوسرے سے قطع تعلقی کرنے لگیں تو مُسلمانوں کے درمیان نہ تو کوئی عزت داری رہے اور نہ ہی کوئی بھائی بندی """"" كتب ورسائل وفتاوى شيخ الإسلام ابن تيميہ ،باب صلاۃ الجمعہ،
اللہ تبارک و تعالی ٰ ہم سب کو اور ہر ایک کلمہ گو ایک دوسرے سے صرف اور صرف اللہ کے لیے مُحبت کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمارے اختلافات کو ہماری مُحبت کے خاتمےکا سبب نہ بننے دے ، بلکہ اُسی مُحبت میں ایک دوسرے کی اصلاح کی نیک کوششوں کی ہمت دے ، والسلام علیکم۔





حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ الْحُبُّ فِي اللَّهِ، وَالْبُغْضُ فِي اللَّهِ.

تمام اعمال سے افضل اﷲ تعالیٰ کے لئے محبت کرنا اور اﷲ کے لئے دشمنی رکھنا ہے۔

[أبو داود، السنن، كتاب السنة، باب مجانبة أهل الأهواء وبغضهم، 4: 198، رقم: 4599، دارالفكر]

درج بالا روایت اور اسی مفہوم کی دیگر روایات میں بیان کردہ ’البغض فی اللہ‘ سے مراد گنہگاروں سے یکسر قطع تعلقی نہیں بلکہ اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ بندہ مومن اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے تو اس کے صدقِ ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اُن لوگوں سے محبت کرے جنہیں اللہ پسند فر ماتا ہے اور دشمنی و بغض بھی اسی سے رکھے جو اللہ تعالیٰ کا مبغوض ہے۔ گویا ایمان لانے کے بعد ہمارے قلبی جذبات اور معاشرتی تعلقات کی بنیاد حسد، ذاتی عدات و ناپسندیدگی یا نفع و نقصان پر نہیں بلکہ خالصتاً رضائے الٰہی پر مبنی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر کسی سے محبت و تعلق رکھا جاسکتا ہے تو یقیناً اللہ کے نعام یافتہ بندے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین، علمائے حق اور اولیاء اللہ ہوسکتے ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ان سے سچی محبت و عقیدت رکھے گا تو ظاہر ہے کہ وہ یقیناً ان کی اتباع و پیروی کرے گا‘ اعمالِ صالحہ بجالائے گا۔  اسی طرح جو شخص اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے کسی سے بغض و عداوت رکھے گا تو وہ یقیناً دشمنانِ دین ہوں گے جو خدا کے دین کو مٹانے اور اس کے نظام کو تہ و بالا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسی صورت میں بندہ مومن کا فرض ہے کہ ان دشمنانِ حق کی بیخ کنی اور دین کی سر بلندی کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں بروکار لائے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی دشمنانِ حق سے دوستی و تعلق رکھنے سے روکا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَO

اللہ تو محض تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں (یعنی وطن) سے نکالا اور تمہارے باہر نکالے جانے پر (تمہارے دشمنوں کی) مدد کی۔ اور جو شخص اُن سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔

[سورۃ الْمُمْتَحِنَة، 60: 8]

یہ حکم محاربین یعنی ان کفار کے بارے میں ہے جو مسلح ہو کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں ہیں اور دینِ خدا کے خلاف اعلانیہ یا غیراعلانیہ طور پر برسرِ پیکار ہیں‘ جہاں تک غیرحربی کفار یا عام گنہگار افراد کا معاملہ ہے تو ان سے معاشرتی تعلق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَO

اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

[سورۃ الْمُمْتَحِنَة، 60: 7]

جب اللہ تعالیٰ غیر حربی یعنی امن پسند اور غیرمسلح کفار سے معاشرتی مقاطع کا حکم نہیں دے رہا بلکہ ان کے ساتھ بھلائی کا سلوک کرنے اور عدل و انصاف کا برتاؤ رکھنے میں کوئی حرج بھی قرار نہیں دیتا تو عام مسلمانوں سے معاشرتی قطع تعلقی کا کس بنیاد پر روا رکھی جاسکتی ہے؟ اگر گنہگار افراد سے قطع تعلقی کرلی جائے تو ان کی اصلاح کی کیا صورت رہ جائے گی؟ پھر دعوت و تبلیغ تو صرف صلحاء کے لیے رہ جائے گی‘ ایسی صورت میں اسلام کی تعلیمات عام کرنے کی صورت کیا بنے گی؟

دعائے قنوت میں ’ونخلع و نترک من یفجرک‘ (جو تیری نافرمانی کرے اس سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہیں) سے مراد بھی یہی ہے کہ ہم گنہگاروں کے عملِ بد سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں‘ ناکہ ان سے معاشرتی قطع تعلقی کا اعادہ کیا جا رہا ہے۔

درج بالا تمام دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر برے اعمال سے اجتناب کیا جائے‘ مسلمانوں‌ اور دینِ حق کے خلاف برسرِ پیکار کفار سے دوستی و محبت نہ رکھی جائے، گنہگاروں اور غیرمسلموں سے قطع تعلقی کی بجائے ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے اور انہیں اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کروایا جائے۔ لہٰذا گناہ سے نفرت کی جائے‘ گنہگاروں سے نہیں، کفر سے قطع تعلقی کی جائے پرامن کفار سے نہیں۔










علماء سے بغض رکھے جانے کی پیش گوئی:
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَبْغَضَ الْمُسْلِمُونَ عُلَمَاءَهُمْ وَأَظْهَرُوا عِمَارَةَ أَسْوَاقِهِمْ وَتَنَاكَحُوا عَلَى جَمْعِ الدَّرَاهِمِ رَمَاهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِأَرْبَعِ خِصَالٍ: بِالْقَحْطِ مِنَ الزَّمَانِ، وَالْجَوْرِ مِنَ السُّلْطَانِ، وَالْخِيَانَةِ مِنْ ولَاةِ الْأَحْكَامِ، وَالصَّوْلَةِ مِنَ الْعَدُوِّ۔
یعنی
جب مسلمان(امت)اپنے علماء سے بغض رکھنے لگیں گے اور بازاروں کی عمارتوں کو بلند وغالب کرنے لگیں گے اور(دینداری کے بجائے) مال ودولت کے ہونے پر نکاح کرنے لگیں گے تو اللہ عز وجل ان پر چار قسم کے عذاب بھیجے گا: قحط سالی زمانے(کے حالات)سے، اور ظلم حکمرانوں سے، اور خیانت والیانِ حکام سے، اور پے در پے حملے دشمنوں سے۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم » كِتَابُ الرِّقَاقِ » فصل فی توقیر العلماء، حديث:7923]



اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ

1۔ یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَیُحِبُّوْنَهٗٓ لا اَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَی الْکٰفِرِيْنَ ز یُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ۔

(المائدۃ، 5 : 54)

’’اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اللہ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم( اور) کافروں پر سخت ہوں گے اللہ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔‘‘


2۔ وَاِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًاo

(الأحزاب، 33 : 29)

’’اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) اور دارِ آخرت کی طلبگار ہو تو بے شک اللہ نے تم میں نیکوکار بیبیوں کے لیے بہت بڑا اَجر تیار فرما رکھا ہےo‘‘


3۔ اَلْاَخِلَّآء یَوْمَئِذٍ م بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَo

(الزخرف،43 : 67)

’’سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے (انہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی)o‘‘


4۔ وَعَدَ اللهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًاo

(الفتح، 48 : 29)

’’اللہ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہےo‘‘


5۔ وُجُوْہٌ يَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌo اِلٰی رَبِّهَا نَاظِرَةٌo

(القیامۃ، 75 : 22۔23)

’’بہت سے چہرے اُس دن شگفتہ و تر و تازہ ہوں گےo اور (بلا حجاب) اپنے رب (کے حسن و جمال ) کو تک رہے ہوں گےo‘‘


6۔ وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْکِيْنًا وَّ یَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيْدُ مِنْکُمْ جَزَآء وَّلَا شُکُوْرًاo

(الدھر، 76 : 8، 9)

’’اور (اپنا) کھانا اللہ کی محبت میں (خود اس کی طلب و حاجت ہونے کے باوجود اِیثاراً) محتاج کو اوریتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیںo (اور کہتے ہیں کہ) ہم تو محض اللہ کی رضا کے لئے تمہیں کھلا رہے ہیں، نہ تم سے کسی بدلہ کے خواستگار ہیں اور نہ شکرگزاری کے (خواہشمند) ہیںo‘‘


اَ لْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ

1۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ اللهَ تَعَالَی یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ : أَيْنَ الْمُتَحَابُّوْنَ بِجَلَالِي؟ اَلْیَوْمَ أُظِلُّهُمْ فِي ظِلِّي۔ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّي۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَابْنُ حِبَّانَ، وَالدَّارِمِيُّ۔

1 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : البر والصلۃ والآداب، باب : في فضل الحب في اللہ، 4 / 1988، الرقم : 2566، وابن حبان في الصحیح، 2 / 334، الرقم : 574، والدارمي في السنن، 2 / 403، الرقم : 2757، والبیھقي في السنن الکبری، 10 / 232، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 237، الرقم : 7230۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا : میری عظمت کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے آج کہاں ہیں؟ میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں، کیونکہ آج میرے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ابن حبان اور دارمی نے روایت کیا ہے۔


2۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ : أَنَّ رَجُلًا زَارَ أَخًا لَهُ فِي قَرْیَةٍ أُخْرَی۔ فَأَرْصَدَ اللهُ لَهُ، عَلَی مَدْرَجَتِهِ مَلَکاً۔ فَلَمَّا أَتَی عَلَيْهِ قَالَ : أَيْنَ تُرِيْدُ؟ قَالَ : أُرِيْدُ أَخًا لِي فِي ھَذِهِ الْقَرْیَةِ۔ قَالَ : ھَلْ لَکَ عَلَيْهِ مِنْ نِعْمَةٍ تَرُبُّھَا؟ قَالَ : لَا۔ غَيْرَ أَنِّي أَحْبَبْتُهُ فِي اللهِ عزوجل۔ قَالَ : فَإِنِّي رَسُوْلُ اللهِ إِلَيْکَ، بِأَنَّ اللهَ قَدْ أَحَبَّکَ کَمَا أَحْبَبْتَهُ فِيْهِ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَأَحْمَدُ، وَابْنُ حِبَّانَ۔

2 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : البر والصلۃ والآداب، باب : فضل الحب في الله، 4 / 1988، الرقم : 2567، وابن حبان في الصحیح، 2 / 331، 337، الرقم : 572، 576، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 408، الرقم : 9280، وأبو یعلی في المعجم، 1 / 211، الرقم : 254، والبیھقی في شعب الإیمان، 6 / 488، وابن المبارک في الزھد، 1 / 247، الرقم : 710۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے کے لئے ایک دوسری بستی میں گیا، اللہ تعالیٰ نے اس کے راستے میں ایک فرشتہ کو بھیج دیا، جب اس شخص کا اس کے پاس سے گزر ہوا تو فرشتے نے پوچھا : کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ اس شخص نے کہا : اس بستی میں میرا ایک بھائی ہے اس سے ملنے کا ارادہ ہے۔ فرشتے نے پوچھا : کیا تمہارا اس پر کوئی احسان ہے جس کی تکمیل مقصود ہے؟ اس نے کہا : اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ مجھے اس سے صرف اللہ تعالیٰ کے لئے محبت ہے۔ تب اس فرشتہ نے کہا کہ میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کایہ پیغام لایا ہوں کہ جس طرح تم اس شخص سے محض اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرتے ہو اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔


3۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ : إِنَّ اللهَ عزوجل قَالَ : إِذَا تَلَقَّانِي عَبْدِي بِشِبْرٍ، تَلَقَّيْتُهُ بِذِرَاعٍ۔ وَإِذَا تَلَقَّانِي بِذِرَاعٍ، تَلَقَّيْتُهُ بِبَاعٍ، وَإِذَا تَلَقَّانِي بِبَاعٍ، جِئْتُهُ أَتَيْتُهُ بِأَسْرَعَ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ۔

3 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب : الحث علی ذکر الله تعالی، 4 / 2061، الرقم : 2675، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 316، الرقم : 8178، وأیضاً، 3 / 283، الرقم : 14045۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب میرا بندہ ایک بالشت میری طرف بڑھتا ہے، میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میری طرف بڑھتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہوں اور جب وہ میری طرف دو ہاتھ بڑھتا ہے تو میں تیزی سے اس کی طرف بڑھتا ہوں (یعنی بکثرت اس پر اپنی رحمت اور مدد و نصرت فرماتا ہوں)۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔


4۔ عَنْ صُهَيْبٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ : إِذَا دَخَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، قَالَ : یَقُوْلُ اللهُ ل : تُرِيْدُوْنَ شَيْئًا أَزِيْدُکُمْ؟ فَیَقُوْلُوْنَ : أَ لَمْ تُبَيِّضْ وُجُوْهَنَا؟ أَ لَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّةَ وَتُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ؟ قَالَ : فَیَکْشِفُ الْحِجَابَ فَمَا أُعْطُوْا شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَی رَبِّهِمْ عزوجل ثُمَّ تَلاَ هَذِهِ الآیَةَ : {لِلَّذِيْنَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَی وَ زِیَادَةٌ} ]یونس، 10 : 26[۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ۔

4 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : إثبات رؤیۃ المؤمنین الآخرۃ ربھم، 1 / 163، الرقم : 181، والترمذي في السنن، کتاب : تفسیر القرآن، باب : ومن سورۃ یونس، 5 / 286، الرقم : 3105، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 332، وعبد الله بن أحمد في السنۃ، 1 / 245، الرقم : 449، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 309، الرقم : 5744۔

’’حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب جنتی جنت میں داخل ہو جائیں گے، اللہ عزوجل فرمائے گا : تم کچھ اور چاہتے ہو تو میں تمہیں دوں؟ وہ عرض کریں گے : (اے ہمارے رب! کیا تو نے ہمارے چہرے منور نہیں کر دیئے کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کر دیا اور ہمیں دوزخ سے نجات نہیں دی۔ فرمایا : اس کے بعد اللہ تعالیٰ پردہ اٹھادے گا، انہیں اپنے پروردگار کے دیدار سے بہتر کوئی چیز نہیں ملی ہو گی پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : {ایسے لوگوں کے لئے جو نیک کام کرتے ہیں نیک جزا ہے (بلکہ) اس پر اضافہ بھی ہے}۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔


5۔ عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّهُ لَقِيَ أَبَا هُرَيْرَةَ رضي الله عنه فَقَالَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضي الله عنه : أَسْأَلُ اللهَ أَنْ یَجْمَعَ بَيْنِي وَبَيْنَکَ فِي سُوْقِ الْجَنَّةِ، فَقَالَ سَعِيْدٌ : أَوَ فِيْهَا سُوْقٌ؟ قَالَ : نَعَمْ أَخْبَرَنِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلُوْهَا نَزَلُوْا فِيْهَا بِفَضْلِ أَعْمَالِهِمْ، فَیُؤْذَنُ لَهُمْ فِي مِقْدَارِ یَومِ الْجُمُعَةِ مِنْ أَيَّامِ الدُّنْیَا فَیَزُوْرُوْنَ رَبَّھُمْ، وَیُبْرِزُ لَهُمْ عَرْشَهُ۔

قَالَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضي الله عنه : قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَهَلْ نَرَی رَبَّنَا؟ قَالَ : نَعَمْ، هَلْ تَتَمَارَوْنَ فِي رُؤْیَةِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ؟ قُلْنَا : لَا، قَالَ : کَذَلِکَ لَا تَتَمَارَوْنَ فِي رُؤْیَةِ رَبِّکُمْ عزوجل وَلَا یَبْقَی فِي ذَلِکَ الْمَجْلِسِ رَجُلٌ إِلَّا حَاضَرَهُ اللهُ مُحَاضَرَةً …۔

ثُمَّ نَنْصَرِفُ إِلَی مَنَازِلِنَا، فَیَتَلَقَّانَا أَزْوَاجُنَا فَیَقُلْنَ : مَرْحَبًا وَأَهْـلًا لَقَدْ جِئْتَ وَإِنَّ بِکَ مِنَ الْجَمَالِ وَالطِّيْبِ أَفْضَلَ مِمَّا فَارَقْتَنَا عَلَيْهِ، فَیَقُوْلُ : إِنَّا جَالَسْنَا الْیَوْمَ رَبَّنَا الْجَبَّارَ (عزوجل)، وَیَحِقُّ لَنَا أَن نَنْقَلِبَ بِمِثْلِ مَا انْقَلَبْنَا۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه۔

5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ الجنۃ، باب : ما جاء في سوق الجنۃ، 4 / 685، الرقم : 2549، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : صفۃ الجنۃ، 2 / 1450، الرقم : 4336، وابن حبان في الصحیح، 16 / 464۔ 467، الرقم : 7437، وابن أبي عاصم في السنۃ، 1 / 258، الرقم : 585۔ 586، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 301، الرقم : 5728۔

’’حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی ملاقات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے فرمایا : میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو جنت کے بازار میں اکٹھا کردے۔ سعید کہنے لگے : کیا جنت میں کوئی بازار بھی ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں مجھے رسول اللہ ﷺ نے بتایا ہے کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو وہ اپنے عملوں کی برتری کے لحاظ سے مراتب حاصل کریں گے۔ دنیا کے جمعہ کے روز کے برابر انہیں اجازت دی جائے گی کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے۔ اور وہ ان کے لیے اپنا عرش ظاہر کرے گا۔

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا ہم اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں، کیا تم سورج اور چودھویں کے چاند کو دیکھنے میں کوئی شک کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا : نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اسی طرح تم اپنے پروردگار کے دیدار میں کوئی شک نہیں کروگے۔ اس محفل میں کوئی ایسا شخص نہیں ہوگا جس سے اللہ تعالیٰ براهِ راست گفتگو نہ فرمائے۔…

’’انہوں نے کہا کہ پھر ہم واپس اپنے گھروں میں آجائیں گے۔ ہماری بیویاں ہمارا استقبال کریں گی اور کہیں گی خوش آمدید، خوش آمدید، تم واپس آئے ہو، تو تمہارا حسن و جمال ہم سے جدا ہوتے وقت سے بڑھ گیا ہے۔ وہ کہے گا : آج ہماری مجلس ہمارے رب جبار سے ہوئی ہے۔ ہم اسی (خوبصورت) شکل و صورت میں تبدیل ہونے کے حق دار تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔


6۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : قَالَ اللهُ تَعَالَی : وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّيْنَ فِيَّ، وَالْمُتَجَالِسِيْنَ فِيَّ، وَالْمُتَزَاوِرِيْنَ فِيَّ، وَالمُتَبَاذِلِيْنَ فِيَّ۔ رَوَاهُ مَالِکٌ بإِسْنَادِهِ الصَّحِيْحِ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : ھَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔

6 : أخرجه مالک في الموطأ، 2 / 953، الرقم : 1711، وإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ، وَصَحَّحَهُ ابن حبان في الصحیح، 2 / 335، الرقم : 575، والحاکم في المستدرک، 4 / 186، الرقم : 7314، والبیھقي في السنن الکبری، 10 / 233، وَصَحَّحَهُ، وَوَافَقَهُ الذھبي، وقال ابن عبد البر : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ۔

’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میری خاطر محبت کرنے والوں، میری خاطر مجلسیں قائم کرنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے سے ملنے والوں اور میری خاطر خرچ کرنے والوں کے لئے میری محبت واجب ہو گئی۔‘‘

اس حدیث کو امام مالک نے اسنادِ صحیح سے اور ابن حبان نے روایت کیا ہے اور امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔


7۔ عَنْ مُعَاذٍ رضي الله عنه أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ ﷺ ، عَنْ أَفْضَلِ الْأَيْمَانِ؟ قَالَ : أَنْ تُحِبَّ ِللهِ، وَتُبْغِضَ ِللهِ، وَتُعْمِلَ لِسَانَکَ فِي ذِکْرِ اللهِ، قَالَ : وَمَاذَا یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ : وَأَنْ تُحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ، وَتَکْرَهَ لَھُمْ مَا تَکْرَهُ لِنَفْسِکَ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ۔

7 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 247، الرقم : 22183، والطبراني في المعجم الکبیر، 20 / 191، الرقم : 425۔

’’حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا کہ کون سا ایمان افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اللہ کے لئے محبت کرے اوراللہ کے لئے ہی نفرت کرے اور اپنی زبان کو اللہ کے ذکر میں مشغول رکھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اس کے علاوہ اور کوئی چیز؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو لوگوں کے لئے وہ چیز پسند کر جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور ان کے لئے وہ چیز ناپسند کر جو اپنے لئے ناپسند کرتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔


8۔ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ عَنْ لِسَانِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ : حَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّيْنَ فِيَّ، وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَبَاذِلِيْنَ فِيَّ، وَحَقَّتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَصَادِقِيْنَ فِيَّ، وَالْمُتَوَاصِلِيْنَ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ۔

8 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 229، الرقم : 22055، وابن حبان في الصحیح، 2 / 338، الرقم : 577، والحاکم في المستدرک، 4 / 187، الرقم : 7315۔

’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (اللہ رب العزت کے حوالے سے) بیان فرماتے ہوئے سنا : میری خاطر محبت کرنے والوں کے لئے میری محبت برحق ہے، میری خاطر صلہ رحمی کرنے والوں کے لئے بھی میری محبت بر حق ہے، میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرنے والوں کے لئے بھی میری محبت برحق ہے اور میری خاطر ایک دوسرے کو ملنے والوں کے لئے بھی میری محبت برحق ہے۔‘‘ اسے امام اَحمد نے صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔


9۔ عَنْ أَبِي مَالِکٍ الْأَشْعَرِيِّ رضي الله عنه عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ : یَا أَیُّھَا النَّاسُ، اسْمَعُوْا وَاعْقِلُوا وَاعْلَمُوْا أَنَّ ِللهِ عزوجل عِبَادًا لَيْسُوْا بِأَنْبِیَاء وَلَا شُھَدَاءَ، یَغْبِطُھُمُ الْأَنْبِیَاءُ وَالشُّهَدَاءُ عَلَی مَجَالِسِھِمْ وَقُرْبِهِمْ مِنَ اللهِ۔ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الأَعْرَابِ مِنْ قَاصِیَةِ النَّاسِ وَأَلْوَی بِیَدِهِ إِلَی نَبِيِّ اللهِ ﷺ فَقَالَ : نَبِيَّ اللهِ، نَاسٌ مِنَ النَّاسِ، لَيْسُوْا بِأَنْبِیَاءَ وَلاَ شُهَدَاءَ یَغْبِطُھُمُ الْأَنْبِیَاءُ وَالشُّھَدَاءُ عَلَی مَجَالِسِهِمْ وَقُرْبِهِمْ مِنَ اللهِ انْعَتْهُمْ لَنَا یَعْنِي صِفْھُمْ لَنَا، شَکِّلْھُمْ لَنَا، فَسُرَّ وَجْهُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ لِسُؤَالِ الْأَعْرَابِيِّ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ھُمْ نَاسٌ مِنْ أَفْنَاءِ النَّاسِ، وَنَوَازِعِ الْقَبَائِلِ، لَمْ تَصِلْ بَيْنَھُمْ أَرْحَامٌ مُتَقَارِبَةٌ، تَحَابُّوْا فِي اللهِ وَتَصَافَوْا۔ یَضَعُ اللهُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مَنَابِرَ مِنْ نُوْرٍ، فَیَجْلِسُھُمْ عَلَيْهَا، فَیَجْعَلُ وُجُوْھَمْ نُوْرًا، وَثِیَابَهُمْ نُوْرًا، یَفْزَعُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا یَفْزَعُوْنَ، وَھُمْ أَوْلِیَاءُ اللهِ الَّذِيْنَ لَا خَوْفٌ عَلَيْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ۔

9 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 343، الرقم : 22957، وابن المبارک في الزھد، 1 / 248، الرقم : 714۔

’’حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اے لوگو! سنو، سمجھو اور معلوم کر لو کہ اللہ عزوجل کے کچھ بندے ایسے ہیں جو نہ نبی ہیں اور نہ شہداء لیکن نبی اور شہید ان کے مراتب اور اللہ کے ہاں تقرب کو دیکھ کر رشک کریں گے۔ دور سے آنے والے ایک بدوی نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا : یا رسول اللہ! جو لوگ نہ نبی ہوں اور نہ شہید لیکن انبیاء اور شہداء ان کی مسند اور اللہ کے تقرب کو دیکھ کر رشک کریں گے، ان کی خوبی اور ان کا حلیہ ہمارے سامنے بیان فرما دیجیے۔ رسول اللہ ﷺ بدوی کے اس سوال سے خوش ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ لوگ وہ ہیں جو مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی آپس میں کوئی رشتہ داری نہیں ہے، لیکن وہ اللہ کے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے خیرخواہ ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے لئے قیامت کے دن نور کے منبر لگائے گا، وہ ان پر بیٹھیں گے اور ان کے چہرے اور کپڑے پُر نور بنا دے گا (باقی) لوگ گھبرائیں گے (لیکن) یہ نہیں گھبرائیں گے۔ یہی اولیاء اللہ ہیں جنہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غم زدہ ہوں گے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔


10۔ عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَوْ أَنَّ عَبْدَيْنِ تَحَابَّا فِي اللهِ عزوجل، وَاحِدٌ فِي الْمَشْرِقِ وَآخَرُ فِي الْمَغْرِبِ، لَجَمَعَ اللهُ بَيْنَھُمَا یَوْمَ الْقِیَامَةِ، یَقُوْلُ : ھَذَا الَّذِي کُنْتَ تُحِبُّهُ فِيَّ۔ رَوَاهُ الْبَيْھَقِيُّ۔

10 : أخرجه البیھقي في شعب الإیمان، 6 / 492، الرقم : 9022۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر دو بندے اللہ تعالیٰ کے لئے ایک دوسرے سے محبت کریں۔ (ان میں سے) ایک مشرق میں اور دوسرا مغرب میں (بھی) ہو تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز انہیں ضرور ملا دے گا اور فرمائے گا : یہ ہے وہ (شخص) جس سے تو میری خاطر محبت کیا کرتا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔


11۔ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَیَبْعَثَنَّ اللهُ أَقْوَامًا یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِي وُجُوْھِھِمُ النُّوْرُ عَلَی مَنَابِرِ اللُّؤْلُؤِ یَغْبِطُھُمُ النَّاسُ لَيْسُوْا بِأَنْبِیَاءَ وَلاَ شُهَدَاءَ۔ قَالَ : فَجَثَا أَعْرَابِيُّ عَلَی رُکْبَتَيْهِ فَقَالَ : یَا رَسُوْلِ اللهِ، حِلْھُمْ لَنَا نَعْرِفْھُمْ۔ قَالَ : ھُمُ الْمُتَحَابُّوْنَ فِي اللهِ مِنْ قَبَائِلَ شَتَّی وَبِلاَدٍ شَتَّی یَجْتَمِعُوْنَ عَلَی ذِکْرِ اللهِ یَذْکُرُوْنَهُ۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ۔

11 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 3 / 291، الرقم : 3435، و ذکره المنذري في الترغیب والترھیب، 2 / 262، رقم : 2327، والهیثمی في مجمع الزوائد، 10 / 77۔

’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کچھ ایسے لوگ (قبروں) سے اٹھائے گا جن کے چہرے پر نور ہو گا۔ وہ موتیوں کے منبروں پر ہوں گے۔ لوگ ان سے رشک کریں گے، نہ ہی وہ انبیاء ہوں گے اور نہ شہدائ۔ ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک بدوی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور عرض کرنے لگا : یا رسول اللہ! ان کے متعلق ہمیں بتائیں تاکہ ہمیں بھی ان کا علم ہو جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ہیں، مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف علاقوں میں رہتے ہیں لیکن اللہ کی یاد کے لئے جمع ہوتے ہیں اور اسے یاد کرتے ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔


اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ

1۔ قال عمر رضي الله عنه : والله، لقد لان قلبي في الله حتی لھو ألین من الزبد، ولقد اشتد قلبي في الله حتی لھو أشد من الحجر۔

1 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 51۔

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ کی قسم! میرا دل خدا کے لئے اس قدر نرم ہو گیا کہ مکھن بھی اتنا نرم نہیں ہو گا اور خدا ہی(کی محبت میں اس کے دشمنوں) کے لئے میرا دل اس قدر سخت ہو گیا کہ پتھر بھی اس کے مقابلے سخت نہ ہو گا۔‘‘


2۔ قال معروف الکرخي رَحِمَهُ الله : للفتیان علاماتٌ ثلاثٌ : وفاءٌ بلا خلاف، ومدحٌ بلا جُود، وعطاءٌ بلا سُؤال۔

2 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 89۔

’’حضرت معروف کرخی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی محبت و الفت میں پروان چڑھے نوجوانوں کی تین نشانیاں ہیں بغیر کسی خوف و ڈر کے وفا کرتے ہیں، بغیر مبالغے کے تعریف کرتے ہیں اور بغیر سوال کئے عطا کرتے ہیں۔‘‘


3۔ سُئِل معروف عن المحبَّةِ، فقال : المحبَّةُ لیست من تعلیم الخلقِ، إنما هي من مواهب الحَقِّ وفَضْلِه۔

3 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 89۔

’’حضرت معروف کرخی رَحِمَهُ اللہ سے محبت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : یہ کوئی مخلوق کی تعلیم کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو حق تعالیٰ کے تحفوں میں سے ایک تحفہ اور اس کا فضل ہے۔‘‘


4۔ قال یحي بن معاذ الرازي رَحِمَهُ الله : علی قَدْر حُبِّک الله تعالی یُحبُّک الخَلْق، وبِقَدْر خَوْفِک من الله تعالی یَهابُک الخلقُ، وعلی قَدْر شُغْلِک باللهِ یشتَغِلُ في أَمْرِک الخلق۔

4 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 111۔

’’حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جس قدر تم اللہ سے محبت کرو گے اسی قدر مخلوقِ خدا تم سے محبت کرے گی اور جس قدر تم اللہ سے خوف کھاؤ گے اسی طرح مخلوق خدا تم سے خوف کھائے گی اور جس قدر اللہ کے احکام کی پابندی کرو گے اسی قدر مخلوق خدا تمہارے حکم کی تعمیل کرے گی۔‘‘


5۔ قال أبو یعقوب النهرجوري رَحِمَهُ الله : قلت لأبي یعقوب السوسي : هل یتأسف العارف علی شيء غیر الله عزوجل؟ فقال : وهل یری غیره فیتأسف علیه؟ قلت : فبأي عین ینظر إلی الأشیاء؟ فقال : بعین الفناء والزوال۔

5 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 315۔

’’شیخ ابو یعقوب نہرجوری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو یعقوب سوسی رَحِمَهُ اللہ سے پوچھا : کیا عارف اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور چیز(کے نہ ملنے) پر بھی افسوس کرتا ہے؟ انہوں نے فرمایا : کیا اسے اللہ کے سوا کوئی اور چیز دکھائی دیتی ہے کہ وہ اس پر افسوس کرے؟ میں نے عرض کیا : پھر اسے دنیا کی اشیاء کو کس نگاہ سے دیکھنا چاہئے؟ فرمایا : زوال اور فنا کی نگاہ سے۔‘‘


6۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : أوحی الله عزوجل إلی داود علیه السلام : لو یعلم المُدْبِرُوْنَ عنّي کیف انتظاري لهم ورفقي بهم وشوقي إلی ترکِ مَعَاصِيْهِمْ لماتوا شوقاً إليّ، وانقطعت أوصالهم من محبّتي، یا داود، هذه إرادتي في المُدْبِرِيْنَ عنّي، فکیف إرادتي في مُقْبِلِيْنَ إليّ؟

6 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 332۔

’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ روایت بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ اگر وہ لوگ جو مجھ سے منہ موڑ لیتے ہیں، یہ جان لیں کہ میں ان کا کیسے انتظار کر رہا ہوں اور ان پر کیسے مہربانی کرنے والا ہوں اور ان کے معصیت کاریوں کو ترک کرنے کو کتنا پسند کرتا ہوں تو وہ میرے شوق میں مر جائیں اور ان کے جوڑ میری محبت کی وجہ سے منقطع ہو جائیں۔ اے داؤد! یہ میرا ارادہ ان لوگوں کے متعلق ہے جو مجھ سے منہ موڑتے ہیں پس جو لوگ میری طرف آتے ہیں ان کے ساتھ میرا ارادہ کیا ہو گا؟‘‘


7۔ عن الإمام القشیري، قال : قیل : العارف قد أنس بذکرِ اللهِ فأوْحَشَه مِن خَلْقِه، وافتقر إلی اللهِ فأغناه عن خَلْقِه، وذل له تعالی فأعزّه في خلقه۔

7 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 315۔

’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مروی ہے کہ عارف چونکہ ذکر اللہ کے ساتھ انس حاصل کر چکا ہوتا ہے اس لئے اللہ (یا اللہ کا انس) اس کو مخلوق سے مستغنی کر دیتا ہے اور وہ اللہ کے سامنے ذلیل رہتا ہے اس لئے اللہ اسے مخلوق میں معزز بنا دیتا ہے۔‘‘

8۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قال بعضهم : من عرف الله تعالی تبرّم بالبقاء، وضَاقَتْ علیه الدّنیا بسعتها۔

8 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 313۔

’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ کسی صوفی سے مروی ہے کہ جس نے اللہ کو پہچان لیا وہ دنیا میں زندہ رہنے سے تنگ آ جاتا ہے اور دنیا اس قدر وسعت کے باوجود اس کے لئے تنگ معلوم ہوتی ہے۔‘‘


9۔ قال جعفر رَحِمَهُ الله : سمعت سمنون رَحِمَهُ الله یقول : ذهب المُحبّون ﷲ تعالی بشرف الدنیا والآخرۃ، لأن النبيَّ ﷺ قال : المرء مع من أحب (متفق علیه)، فهم مع الله تعالی۔

9 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 322۔

’’حضرت جعفر رَحِمَهُ اللہ نے سمنون رَحِمَهُ اللہ سے روایت کی کہ محبت کرنے والے دنیا اور آخرت کا شرف حاصل کریں گے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے (متفق علیہ حدیث میں) فرمایا : الْمَرء مَعَ مَنْ أحبّ ’’انسان اسی کے ساتھ ہوتا ہے جس سے اسے محبت ہو۔ لهٰذا وہ اللہ کے ساتھ ہوئے۔‘‘


10۔ قال عبد الله الأنصاري رَحِمَهُ الله : سمعت الحسین الأنصاري رَحِمَهُ الله یقول : رأیت في النّوم کأن القیامۃ قد قامت وشخصٌ قائمٌ تحت العرش فیقول الحق، سبحانه : یا ملائکتي، من هذا؟ فقالوا : الله أعلم، فقال : هذا معروف الکرخي سکر من حبي فلا یفیق إلا بلقائي۔

10 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 331۔

’’حضرت عبد اللہ الانصاری نے الحسین الانصاری رحمہا اللہ سے روایت کی کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا قیامت برپا ہے اور ایک شخص عرش کے نیچے کھڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتا ہے : یہ کون ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں : اللہ کو بہتر معلوم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یہ معروف کرخی ہے، یہ میری محبت میں مدہوش ہے، اب وہ میری ملاقات کے بغیر ہوش میں نہیں آ سکتا۔‘‘









 

No comments:

Post a Comment