خوشی غمی میں بھی عدل (حق بات/طریقہ) سے بےاعتدالی ہوجاتی ہے، لہٰذا خوشی کا عدل جاننے، مانگنے اور ماننے کی ضرورت ہے۔
ناحق خوشی پر لوگوں کے سامنے اکڑنا:
القرآن:
ان سے یہ پہلے ہی کہہ دیا گیا ہوگا کہ : یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ تم زمین میں ناحق بات پر خوش ہوتے تھے اور اس لیے کہ تم زمین میں اکڑ دکھاتے تھے۔
[سورۃ غافر:75]
خوشی غمی میں عدل(حق)پر رہنے کی ضرورت:
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«ثَلَاثٌ مُهْلِكَاتٌ: شُحٌّ مُطَاعٌ، وَهَوًى مُتَّبَعٌ، وَإِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ مِنَ الْخُيَلَاءِ، وَثَلَاثٌ مُنْجِيَاتٌ: الْعَدْلُ فِي الرِّضَا وَالْغَضَبِ، وَالْقَصْدُ فِي الْغِنَى وَالْفَاقَةِ، وَمَخَافَةُ اللَّهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ»
ترجمہ:
تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں: (1)کنجوسی جس کی اطاعت کی جائے، (2)اور خواہشات جس کی اتباع کی جائے، (3)اور آدمی تکبر کی وجہ سے خود کو بڑا سمجھے۔ اور تین چیزیں نجات دلانے والی ہیں: (1)خوشی وغمی میں عدل کرنا، (2)مالداری اور فاقہ میں میانہ روی اختیار کرنا (3)اور چھپ کر اور اعلانیہ اللہ سے ڈرنا۔
[المعجم الأوسط-الطبراني:5452(5754)]
[مسند البزار:6491، الكنى والأسماء للدولابي:847، المجالسة وجواهر العلم-الدينوري:899، الترغيب في فضائل الأعمال-ابن شاهين:33+525، مسند الشهاب القضاعي:325+326، شعب الإيمان:731، جامع بيان العلم وفضله:961]
صحيح الترغيب والترهيب:453، صحيح الجامع:3045، سلسلة الأحاديث الصحيحة:1802
حضرت مالک بن الحارث فرماتے ہیں کہ حضرت عمارؓ یوں دعا کرتے:
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ، أَنْ تُحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي مَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِي، اللَّهُمَّ أَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، وَأَسْأَلُكَ الْقَصْدَ فِي الْغِنَى وَالْفَقْرِ، وَأَسْأَلُكَ الْعَدْلَ فِي الرِّضَاءِ وَالْغَضَبِ، اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيَّ لِقَاءَكَ وَشَوْقًا إِلَيْكَ فِي غَيْرِ فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ، وَلَا ضَرَّاءِ مَضَرَّةٍ»
ترجمہ:
اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپ کے علم غیب کے ساتھ، اور مخلوق پر آپ کی قدرت کے ساتھ، کہ آپ مجھے زندہ رکھیں جب تک آپ جانیں کہ زندگی میرے حق میں بہتر ہے، اور مجھے وفات دے دیں جب آپ جان لیں کہ وفات میرے لیے بہتر ہے۔ اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں ظاہر اور پوشیدگی میں آپ کے خوف کا، اور میں آپ سے امیری اور فقیری میں میانہ روی مانگتا ہوں، اور میں آپ سے سوال کرتا ہوں غصہ اور خوشی میں اعتدال کا۔ اے اللہ ! میرے نزدیک اپنی ملاقات کو محبوب بنا دے، اور اپنی ملاقات کے شوق کو بھی جو نہ گمراہ کرنے والے فتنہ میں ہو اور نہ ہی کسی حالت تکلیف میں تکلیف دے۔
[مصنف ابن أبي شيبة:29348]
حضرت علیؓ کی دعا کے الفاظ:
«اللَّهُمَّ ثَبِّتْنَا عَلَى كَلِمَةِ الْعَدْلِ فِي الرِّضَا وَالصَّوَابِ وَقَوَامِ الْكِتَابِ، هَادِينَ مَهْدِيِّينَ، رَاضِينَ مَرْضِيِّينَ، غَيْرَ ضَالِّينَ، وَلَا مُضِلِّينَ»
[مسند ابن الجعد:64]
ناحق خوشی اور غمی منانے والی حرکات:
قرآن مجید نے راستوں پر شور مچانے کو گدھے کی آواز کہا۔
[تفسیرالقرطبي: سورۃ لقمان:19]
حضرت جابرؓ (اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ) سے نبی ﷺ کا یہ فرمان مروی ہے کہ
میں نے تو روکا ہے دو احمق اور نافرمان آوازوں(شور شرابے)سے:
(1) مصیبت کے وقت چہرے نوچنے،گریبان پھاڑنے اور شیطانی چیخوں سے۔
(2) اور نعمت کے وقت کھیل تماشہ اور شیطانی موسیقی سے۔
[ترمذی:1005(حاکم:6825)]
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
دو آوازوں پر دنیا و آخرت میں "لعنت" کی گئی ہے: (1)خوشی ونعمت ملنے پر بانسری (موسیقی)کی آواز، (2)اور مصیبت کے وقت چیخ وپکار(نوحہ)کی آواز۔
[الأحادیث المختارۃ:2200 صحیح الترغیب:3527, مسند البزار:7513]
القرآن:
اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں۔ تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بےسمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں، اور اس کا مذاق اڑائیں۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔
[سورۃ نمبر 31 لقمان، آیت نمبر 6]
خلافِ عدل خوشی منانے والے:
القرآن:
اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اسے نعمتوں کا مزہ چکھا دیں تو وہ کہتا ہے کہ ساری برائیاں مجھ سے دور ہوگئیں۔ (اس وقت) وہ اترا کر شیخیاں بگھارنے لگتا ہے۔
[سورۃ ھود:10]
یعنی نجات ونعمتیں دینے والے رب کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے نجات ونعمت کے حاصل ہونے کو اپنے کمال علم وہنر پر گھمنڈ کرتے لوگوں کے سامنے فخر کرنا عدل (right) نہیں۔
القرآن:
یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو لوگ اپنے کئے پر بڑے خوش ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف ان کاموں پر بھی کی جائے جو انہوں نے کئے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کے لیے دردناک سزا (تیار) ہے۔
[سورۃ آل عمران:188]
جن لوگوں کو (غزوہ تبوک سے) پیچھے رہنے دیا گیا تھا، وہ رسول اللہ کے جانے کے بعد اپنے (گھروں میں) بیٹھے رہنے سے بڑے خوش ہوئے، اور ان کو یہ بات ناگوار تھی کہ وہ اللہ کے راستے میں اپنے مال و جان سے جہاد کریں، اور انہوں نے کہا تھا کہ : اس گرمی میں نہ نکلو۔ کہو کہ : جہنم کی آگ گرمی میں کہیں زیادہ سخت ہے۔ کاش۔ ان کو سمجھ ہوتی۔
[سورۃ التوبۃ:81]
پھر انہیں جو نصیحت کی گئی تھی، جب وہ اسے بھلا بیٹھے تو ہم نے ان پر ہر نعمت کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ جو نعمتیں انہیں دی گئی تھیں، جب وہ ان پر اترانے لگے تو ہم نے اچانک ان کو آپکڑا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بالکل مایوس ہو کر رہ گئے۔
[سورۃ الانعام:44]
اگر تمہیں کوئی بھلائی مل جائے تو انہیں دکھ ہوتا ہے، اور اگر تم پر کوئی مصیبت آپڑے تو کہتے ہیں کہ : ہم نے تو پہلے ہی اپنا بچاؤ کرلیا تھا، اور (یہ کہہ کر) بڑے خوش خوش واپس جاتے ہیں۔
[سورۃ التوبۃ:50]
پھر ہوا یہ کہ لوگوں نے اپنے دین میں باہم پھوٹ ڈال کر فرقے بنا لیے، ہر گروہ نے اپنے خیال میں جو طریقہ اختیار کرلیا ہے، اسی پر خوش ہے۔
[سورۃ المومنون:53]
وہ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرلیا، اور مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ ہر گروہ اپنے اپنے طریقے پر خوش ہے۔
[سورۃ الروم:32]
عدل مخالفین کی وقتی خوشیاں:
وہ اللہ ہی تو ہے جو تمہیں خشکی میں بھی اور سمندر میں بھی سفر کراتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو، اور یہ کشتیاں لوگوں کو لے کر خوشگوار ہوا کے ساتھ پانی پر چلتی ہیں اور لوگ اس بات پر مگن ہوتے ہیں تو اچانک ان کے پاس ایک تیز آندھی آتی ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھتی ہیں اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ہر طرف سے گھر گئے۔ تو اس وقت وہ خلوص کے ساتھ صرف اللہ پر اعتقاد کر کے صرف اسی کو پکارتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ)“ (یا اللہ !) اگر تو نے ہمیں اس (مصیبت سے) نجات دے دی تو ہم ضرور بالضرور شکر گزار لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔
[سورۃ یونس:22]
ناحق فخر کرنے - اِترانے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔
قارون موسیٰ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر اس نے انہی پر زیادتی کی۔ اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیے تھے کہ اس کی چابیاں طاقتور لوگوں کی ایک جماعت سے بھی مشکل سے اٹھتی تھیں۔ ایک وقت تھا جب اس کی قوم نے اس سے کہا کہ : اتراؤ نہیں، اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
[سورۃ القصص:76]
چنانچہ جب ان کے پیغمبر ان کے پاس کھلی کھلی دلیلیں لے کر آئے تب بھی وہ اپنے اس علم پر ہی ناز کرتے رہے جو ان کے پاس تھا، اور جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے، اسی نے ان کو آگھیرا۔
[سورۃ غافر:83]
عادلانہ خوشی:
چند ہی سالوں میں ! سارا اختیار اللہ ہی کا ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور اس دن ایمان والے (اللہ کی دی ہوئی فتح بدر سے) خوش ہوں گے۔
[سورۃ الروم:4]
خوشی کے قابل چیز:
(اے پیغمبر) کہو کہ : یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوا ہے، لہذا اسی پر تو انہیں خوش ہونا چاہیے، یہ اس تمام دولت سے کہیں بہتر ہے جسے یہ جمع کر کر کے رکھتے ہیں۔
[سورۃ یونس:58]
اہلِ کتاب میں سے بعض کا قرآن کے نزول پر خوش ہونا:
اور (اے پیغمبر) جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اس کلام سے خوش ہوتے ہیں جو تم پر نازل کیا گیا ہے، اور انہی گروہوں میں وہ بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کا ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ (33) کہہ دو کہ : مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں، اور اس کے ساتھ کسی کو خدائی میں شریک نہ مانوں، اسی بات کی میں دعوت دیتا ہوں، اور اسی (اللہ) کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے۔
[سورۃ الرعد:36]
خلاصہ:
یہ اس لیے تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے، اس پر تم غم میں نہ پڑو، اور جو چیز اللہ تمہیں عطا فرمادے، اس پر تم اتراؤ نہیں، (18) اور اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اتراہٹ میں مبتلا ہو، شیخی بگھارنے والا ہو۔
[سورۃ الحدید:23]
یعنی جس شخص کا اس بات پر ایمان ہو کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ اسی تقدیر کے مطابق ہورہا ہے، جو (اللہ کے ازلی علم سے) لوحِ محفوظ میں پہلے سے لکھی ہوئی ہے، اسے کسی ناگوار واقعے پر اتنا صدمہ نہیں ہوتا جو اسے دائمی پریشانی اور حسرت میں مبتلا رکھے ؛ بلکہ یہ چیز اس کی تسلی کا باعث ہوتی ہے کہ جو کچھ تقدیر میں لکھا تھا وہی ہوا، اور یہ کہ اس دنیا کی تکلیفیں آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، اس طرح اگر کوئی خوشی کا واقعہ پیش آتا ہے تو انسان اس پر اتراکر تکبر میں مبتلا نہیں ہوتا، اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور تقدیر کے مطابق ہے، اور اس پر انسان کو اترانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
تفریح Entertainment جائز ہے۔
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «رَوِّحُوا الْقُلُوبَ سَاعَةً بِسَاعَةٍ»
ترجمہ:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دلوں کو لمحہ بہ لمحہ فرحت دیا کرو“۔
[مسند الشهاب القضاعي:672، (جامع بيان العلم وفضله:663) زهر الفردوس:1596، جامع الأحاديث-السيوطي:12789، ضعيف الجامع الصغير:3140]
(1) ذکر کے ذریعہ
حضرت قسامہ بن زہیر سے روایت ہے کہ: دلوں کو راحت دو یعنی ذکر سے۔
[المصنف - ابن أبي شيبة:37848(35115)، أخبار الشيوخ وأخلاقهم:346، حلية الأولياء:3/ 104، المطالب العالية:3102]
(2) حکمت ولطائف کے ذریعہ
سیدنا علیؓ فرمایا کرتے تھے:
[إِنَّ الْقُلُوبَ تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الأَبْدَانُ فَابْتَغُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكْمَةِ]
ترجمہ:
جس طرح جسم اکتا (تھک) جاتے ہیں اسی طرح دل بھی اکتاتے ہیں۔ اس کی اکتاہٹ دور کرنے کے لیے حکمت سے پُر لطیفے تلاش کیا کرو۔
[الرسائل للجاحظ: ج1/ص289، أنساب الأشراف للبلاذري:119 (ج2/ص135)، أدب الدنيا والدين-الماوردي: ص13]
یہی فرمان حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے بھی مروی ہے۔
[الكامل في اللغة والأدب-محمد بن يزيد المبرد(م285ھ) : 2/ 211]
یہی فرمان امام شعبیؒ سے بھی مروی ہے۔
[الرسائل للجاحظ: ج2/ص92، الرسائل الأدبية-الجاحظ: ص164]
اور یہ بھی فرماتے:
إذا أُكره القلب عمي۔
ترجمہ:
’’(کیوں کہ) دل میں اگر کراہیت آگئی تو دل اندھے ہو جائیں گے۔‘‘
[الرسائل للجاحظ:1/ 290، الكامل في اللغة والأدب:2/ 211، بغية الرائد-القاضي عياض: ص119]
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے بھی مروی ہے۔
[أنساب الأشراف للبلاذري:11 /222، بهجة المجالس: ص20، جامع الأحاديث-السيوطي:40427-]
حضرت ابراھیم بن ادھمؒ سے بھی مروی ہے
[صيد الخاطر-ابن الجوزي: ص78]
اولیاء اللہ کے نزدیک خوشی کا تصور:
حضرت وھب بن منبہؒ کا فرمان ہے: جو کوئی کسی دنیاوی چیز سے اپنے دل سے خوش ہوتا ہے اس نے حکمت میں خطا کی۔
حوالہ
«مَنْ فَرِحَ مِنْ قَلْبِهِ بِشَيْءٍ مِنَ الدُّنْيَا فَقَدْ أَخْطَأَ الْحِكْمَةَ»
[الزهد لابن أبي الدنيا:524]
اصول:
جب بھی دنیا کی مذمت کی گئی تو وہاں (نافرمانی کرکے) آخرت کو نقصان پہنچا کر حاصل کردہ دنیا ہے۔
(3) کھیل کے ذریعہ
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کھیل تماشے کے ذریعے آپ کو طاقت فراہم کرتا ہوں تاکہ حق کے کام کے لیے میں چست اور پھرتیلا رہوں۔
تفریح کی لَت ناپسندیدہ کیوں؟
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ.
ترجمہ:
کسی کے اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی (بےضرورت) کاموں کو ترک کردے (جس میں دنیا و آخرت کا کوئی فائدہ نہ ہو).
[الترمذى:2317، ابن ماجه:3976]
یعنی : بدکاری تو چھوڑنی ہی ہے لیکن بےکاری بھی چھوڑدے.
اس شخص میں تفریح کی لت (دُھت) نہیں جو اللہ کے ذکر (نصیحت) کی عادت رکھتا ہو، جسے فضول ملنے کے بجاۓ تنہائی اچھی لگے، دل بازار کے بجاۓ مسجد میں اٹکا اور اپنے ہی گھر میں ٹکا رہے.
خوشی میں کرنے کے کام:
خوشی منانے کے دنیا میں بہت سے طریقے ہیں۔ بعض قومیں خوشی کے وقت شراب پیتی ہیں، بعض آتش بازی میں اپنا روپیہ پھونکتی ہیں، لیکن مسلمان کا کام تو یہ نہیں کہ ان طریقوں سے اپنی خوشی کو ظاہر کرے۔ اس لیے کہ ہمارے سچے مذہب نے ان سب صورتوں کو ہمارے لیے منع کر دیا ہے ۔ دنیا کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ان طریقوں سے نمائشی خوشی چند لمحوں کے لیے ہو جاتی ہے، لیکن بعد کو رنج او رتکلیف بہت زیادہ ہوتی ہے اور دل کی فرحت وراحت تو ایک لمحہ کے لیے بھی ان طریقوں سے نہیں ہوتی۔ مسلمان کو اتنانا سمجھ تو نہ ہونا چاہیے کہ اس کی ناسمجھی پر دوسری قومیں ہنسیں اور وہ دنیا میں بھی اپنا نقصان کرے اور آخرت میں بھی اس کو شرمندگی اور پچھتاوا ہو۔
(1) خوشی ہونے یا خوشخبری ملنے پر سجدہ شکر ادا کرنا مسنون ہے:
حضرت ابوبکرہؓ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کے پاس جب کوئی ایسا معاملہ آتا جس سے آپ خوش ہوتے، یا وہ خوش کن معاملہ ہوتا، تو آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدے میں گر پڑتے۔
[سنن ابن ماجہ:1394، سنن ابی داود:2774 ، سنن الترمذی:1578]
۔۔۔جب ہم حضرت علیؓ کے پاس آئے تو آپؓ (جنگِ نہروان میں فتح پر) فرطِ خوشی میں سجدہ ادا کر رہے تھے۔
[مصنف ابن أبي شيبة:8424+32852]
حقیقی مومن خوش کن حالات میں ایمان کا سودا کرتا ہے نہ غم کے موقع پر ہی ڈگمگاہٹ ( کمزوری) کا شکار ہوتا ہے۔
حضرت صہیبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’مومن آدمی (کیلئے اللہ کے تقدیری فیصلہ) کا بھی عجیب حال ہے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات کسی کو حاصل نہیں سوائے اس مومن آدمی کے کہ اگر اسے کوئی خوشی پہنچی اور شکر ادا کیا تو بھی ثواب ہے اگر نقصان پہنچا اور صبر کیا تو بھی ثواب ہے۔‘‘
[صحیح مسلم:2999، صحيح ابن حبان:2896 (أحمد:23924، الطبراني:7316)]
۔۔۔اور خوشخبری ہے صبر کرنے والوں کیلئے۔
[تفسير(امام)البغوي-سورۃ البقرۃ:155]
یہی طرز عمل ہمارے اسلاف کا تھا۔
(2)ہوسکے تو خوشی میں بطورِ شکرانہ کچھ صدقہ/نذر کرنا مستحب ہے:
حضرت کعب بن مالکؓ جب نابینا ہوگئے تو ان کے بیٹوں میں یہی ان کو راستے میں ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ انھوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالکؓ سے ان کے واقعہ کے سلسلے میں سنا جس کے بارے میں آیت «وعلى الثلاثة الذين خلفوا» نازل ہوئی تھی۔ آپ نے آخر میں (نبی کریم ﷺ سے) عرض کیا تھا کہ اپنی توبہ کے قبول ہونے کی خوشی میں اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں خیرات کرتا ہوں۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں اپنا کچھ تھوڑا مال اپنے پاس ہی رہنے دو ۔ یہ تمہارے حق میں بھی بہتر ہے۔
[صحيح البخاري:4676]
مومن کیلئے خوشی کی بات، موقعہ اور طریقہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے:
«اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ الَّذِينَ إِذَا أَحْسَنُوا اسْتَبْشَرُوا، وَإِذَا أَسَاءُوا اسْتَغْفَرُوا»
اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جو نیک کام کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں، اور جب برا کام کرتے ہیں تو اس سے استغفار کرتے ہیں۔
[سنن ابن ماجہ:3820]
الدر المنثور في التفسير بالمأثور-سورۃ آل عمران:135
مسند أبي داود الطيالسي:1637، مسند إسحاق بن راهويه:1336, مسند أحمد:24980-25120-26021، مسند أبي يعلى:4472، الدعاء للطبراني:1401، الدعوات الكبير-البيهقي:211،
صحيح الكتب التسعة وزوائده:7415
نوٹ:
(1)اللہ ہی خوشی وغمی پیدا کرتا ہے۔
(2)اعمال ذریعہ ہیں خوشی وغمی کے۔
(3)مومن کو نیکی پر خوشی ہوتی ہے اور (خواہش پرست)نافرمان کو برائی سے خوشی ہوتی ہے۔
(4)مومن کو نیکی سے"دائمی"خوشی پہنچتی ہے، نافرمان کو"وقتی"۔
(5)دائمی خوشی/غمی چیزوں سے نہیں، دل کے اندر(نیکی/برائی)سے ملتی ہے۔
(6)اللہ سے تعلق میں اضافہ/کمی کی نشانی دعا مانگنے میں زیادتی/کمی ہے۔
(3)شکرانہ میں روزہ رکھنا اور عبادات میں غیرمذہبوں کی مشابہت منع نہیں:
ابن شہاب نے حضرت ابو موسیٰؓ سے نقل کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عاشورہ کا دن وہ تھا جس میں یہود روزہ رکھتے تھے اور اس کو عید کے طور پر مناتے تھے، پس تم بھی روزہ رکھو۔
یہ روایت بتلا رہی ہے کہ جناب رسول اللہ نے اس دن کے روزے کا حکم فرمایا اور یہود یہ روزہ اس شکریہ کے طور پر رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون پر غلبہ عنایت فرمایا۔ اور آپ ﷺ نے بھی اسی طور پر روزہ رکھا اور شکر کا روزہ اختیار ہوتا ہے نہ کہ فرض ۔ ذیل کی روایات۔ ملاحظہ کریں۔ اس روایت میں آپ نے ان کو روزے کا حکم فرمایا جس کا مقصد گناہوں کا کفارہ اور ثواب کا حصول تھا اور یہ ہماری پیش کردہ روایتِ ابن عباسؓ کے خلاف نہیں کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اس بات پر شکر گزاری کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے ادا کرتے ہو کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے ذریعہ شکریہ ادا کیا پس اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ گزشتہ سال کے گناہ مٹا دیتے ہوں۔
[تخریج : بخاری فی الصوم باب ٦٩‘ مسلم فی الصیام ١٢٩]۔
روایات بالا اور خصوصاً یہ روایت ظاہر کر رہی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے روزہ رکھنے کا اس لیے حکم فرمایا کیونکہ یہودی نجات بنی اسرائیل اور غرق فرعون کی خوشی میں یہ روزہ رکھتے تھے گویا یہ صوم تشکر تھا جناب رسول اللہ ﷺ نے بھی بطور تشکر رکھنے کا حکم فرمایا تشکر میں تو اختیار ہوتا ہے نہ کہ فرضیت۔
[شرح معاني الآثار-الطحاوي:3292]
(4)قومی خوشی کے موقع پر کھلانا اور کھانا جائز ہے:
حضرت عبداللہ بن قرط ؓ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر (یعنی قربانی کا دن) ہے پھر یوم الْقَرِّ (یعنی گیارہویں ذوالحجہ کا دن) ہے، اس دن رسول اللہ ﷺ کے سامنے پانچ یا چھ اونٹنیاں لائی گئیں، تو ان میں سے ہر ایک آگے بڑھنے لگی کہ آپ نحر کی ابتداء اس سے کریں جب وہ گرگئیں تو آپ نے آہستہ سے کچھ کہا جو میں نہ سمجھ سکا تو میں نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: جو چاہے اس میں سے گوشت کاٹ لے۔
[سنن أبي داود:1765]
قربانی کے گوشت کو اس کے مالک کی اجازت سے کاٹنے کے اجازت کا بیان۔
[صحيح ابن خزيمة:2917]
خوشی میں اشیاء بکھیرنے کا حکم
[السنن الكبرى للبيهقي:14685]
عید کے دنوں میں روزہ رکھنا منع وحرام ہے:
حضرت مسعود بن حکم انصاری کی والدہ کہتی ہیں کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں اب بھی حضرت علی ؓ کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھ رہی ہوں کہ وہ نبی ﷺ کے سفید خچر پر سوار ہیں، حجۃ الوداع کے موقع پر وہ انصار کے ایک گروہ کے پاس رک رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اے لوگو! نبی ﷺ فرماتے تھے کہ یہ روزے کے ایام نہیں ہیں، یہ تو کھانے اور پینے اور ذکر کے دن ہیں۔
[صحيح ابن خزيمة:2147، مسند أحمد:708، المستدرك على الصحيحين للحاكم:1588، مسند أبي يعلى الموصلي:461، الأحاديث المختارۃ:804]
[تفسير ابن کثیر»سورۃ البقرہ:203]
دوسری روایت میں۔۔۔کھانے پینے اور نکاح کے دن ہیں۔
[مسند إسحاق بن راهويه:2419، م صنف ابن أبي شيبة:15265، شرح معاني الآثار-الطحاوي، 4095]
عید کے دنوں کے اعمال:
حضرت عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یوم عرفہ، یوم النحر اور ایامِ تشریق ہم اہل اسلام کی عید ہے، اور یہ (1)کھانے پینے کے دن ہیں۔
[مسلم:1141، ابوداؤد:2419، الترمذي:773، النسائي:3007، الدارمی:1805]
...(2)اور ذکر اللہ کے دن ہیں۔
[مسلم:1141، الطحاوي:4096، النسائي:4230، ابوداؤد:2813، ﴿تفسیر البغوی»سورۃ البقرۃ:203﴾]
۔۔۔یعنی تکبیراتِ تشریق ادا کرنے کے دن ہیں۔
[فضائل الأوقات للبيهقي:221]
...(3)اور ملنے جلنے کے۔
[مصنف ابن أبي شيبة:15265]
...یعنی نکاح کے۔
[مسند إسحاق بن راهويه:2419]
۔۔۔لہٰذا ان دنوں میں روزہ مت رکھو۔
[شرح معاني الآثار-الطحاوي:4095]
خوشی میں کھیلنا کودنا جائز ہے:
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینے آئے تو حبشی آپ ﷺ کی آمد پر خوش ہو کر خوب کھیلے اور اپنی برچھیاں لے کر کھیلتے۔
[مصنف عبد الرزاق:20781 (باب: کھیل کا بیان)]
[سنن أبي داود:4923 (باب:شادی اور عید میں دف پیٹنا)]
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کی مدینہ منورہ تشریف آوری کی خوشی میں حبشیوں نے نیزے کے کرتب دکھائے۔
No comments:
Post a Comment