Saturday, 16 October 2021

اسلام میں خوشی منانے کا تصور اور جائز وناجائر طریقے

خوشی غمی میں بھی عدل (حق بات/طریقہ) سے بےاعتدالی ہوجاتی ہے، لہٰذا خوشی کا عدل جاننے، مانگنے اور ماننے کی ضرورت ہے۔


ناحق خوشی پر لوگوں کے سامنے اکڑنا:

القرآن:

ان سے یہ پہلے ہی کہہ دیا گیا ہوگا کہ : یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ تم زمین میں ناحق بات پر خوش ہوتے تھے اور اس لیے کہ تم زمین میں اکڑ دکھاتے تھے۔

[سورۃ غافر:75]


خوشی غمی میں عدل(حق)پر رہنے کی ضرورت:

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«ثَلَاثٌ مُهْلِكَاتٌ: شُحٌّ مُطَاعٌ، وَهَوًى مُتَّبَعٌ، وَإِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ مِنَ الْخُيَلَاءِ، وَثَلَاثٌ مُنْجِيَاتٌ: ‌الْعَدْلُ ‌فِي ‌الرِّضَا وَالْغَضَبِ، وَالْقَصْدُ فِي الْغِنَى وَالْفَاقَةِ، وَمَخَافَةُ اللَّهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ»

ترجمہ:

تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں: (1)کنجوسی جس کی اطاعت کی جائے، (2)اور خواہشات جس کی اتباع کی جائے، (3)اور آدمی تکبر کی وجہ سے خود کو بڑا سمجھے۔ اور تین چیزیں نجات دلانے والی ہیں: (1)خوشی وغمی میں عدل کرنا، (2)مالداری اور فاقہ میں میانہ روی اختیار کرنا (3)اور چھپ کر اور اعلانیہ اللہ سے ڈرنا۔

[المعجم الأوسط-الطبراني:5452(5754)]

[مسند البزار:6491، الكنى والأسماء للدولابي:847، المجالسة وجواهر العلم-الدينوري:899، الترغيب في فضائل الأعمال-ابن شاهين:33+525، مسند الشهاب القضاعي:325+326، شعب الإيمان:731، جامع بيان العلم وفضله:961]

صحيح الترغيب والترهيب:453، صحيح الجامع:3045، سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌1802


حضرت مالک بن الحارث فرماتے ہیں کہ حضرت عمارؓ یوں دعا کرتے:

«اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ، أَنْ تُحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي مَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِي، اللَّهُمَّ أَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، وَأَسْأَلُكَ الْقَصْدَ فِي الْغِنَى وَالْفَقْرِ، وَأَسْأَلُكَ ‌الْعَدْلَ ‌فِي الرِّضَاءِ وَالْغَضَبِ، اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيَّ لِقَاءَكَ وَشَوْقًا إِلَيْكَ فِي غَيْرِ فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ، وَلَا ضَرَّاءِ مَضَرَّةٍ»

ترجمہ:

اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپ کے علم غیب کے ساتھ، اور مخلوق پر آپ کی قدرت کے ساتھ، کہ آپ مجھے زندہ رکھیں جب تک آپ جانیں کہ زندگی میرے حق میں بہتر ہے، اور مجھے وفات دے دیں جب آپ جان لیں کہ وفات میرے لیے بہتر ہے۔ اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں ظاہر اور پوشیدگی میں آپ کے خوف کا، اور میں آپ سے امیری اور فقیری میں میانہ روی مانگتا ہوں، اور میں آپ سے سوال کرتا ہوں غصہ اور خوشی میں اعتدال کا۔ اے اللہ ! میرے نزدیک اپنی ملاقات کو محبوب بنا دے، اور اپنی ملاقات کے شوق کو بھی جو نہ گمراہ کرنے والے فتنہ میں ہو اور نہ ہی کسی حالت تکلیف میں تکلیف دے۔

[مصنف ابن أبي شيبة:29348]


حضرت علیؓ کی دعا کے الفاظ:

«اللَّهُمَّ ثَبِّتْنَا عَلَى كَلِمَةِ ‌الْعَدْلِ ‌فِي ‌الرِّضَا وَالصَّوَابِ وَقَوَامِ الْكِتَابِ، هَادِينَ مَهْدِيِّينَ، رَاضِينَ مَرْضِيِّينَ، غَيْرَ ضَالِّينَ، وَلَا مُضِلِّينَ»

[مسند ابن الجعد:64]





ناحق خوشی اور غمی منانے والی حرکات:

قرآن مجید نے راستوں پر شور مچانے کو گدھے کی آواز کہا۔

[تفسیرالقرطبي: سورۃ لقمان:19]


حضرت جابرؓ (اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ) سے نبی ﷺ کا یہ فرمان مروی ہے کہ

میں نے تو روکا ہے دو احمق اور نافرمان آوازوں(شور شرابے)سے:

(1) مصیبت کے وقت چہرے نوچنے،گریبان پھاڑنے اور شیطانی چیخوں سے۔

(2) اور نعمت کے وقت کھیل تماشہ اور شیطانی موسیقی سے۔

[ترمذی:1005(حاکم:6825)]


حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

دو آوازوں پر دنیا و آخرت میں "لعنت" کی گئی ہے: (1)خوشی ونعمت ملنے پر  بانسری (موسیقی)کی آواز، (2)اور مصیبت کے وقت چیخ وپکار(نوحہ)کی آواز۔

[الأحادیث المختارۃ:2200 صحیح الترغیب:3527, مسند البزار:7513]

القرآن:

اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں۔ تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بےسمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں، اور اس کا مذاق اڑائیں۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔

[سورۃ نمبر 31 لقمان، آیت نمبر 6]





خلافِ عدل خوشی منانے والے:
القرآن:

اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اسے نعمتوں کا مزہ چکھا دیں تو وہ کہتا ہے کہ ساری برائیاں مجھ سے دور ہوگئیں۔ (اس وقت) وہ اترا کر شیخیاں بگھارنے لگتا ہے۔

[سورۃ ھود:10]

یعنی نجات ونعمتیں دینے والے رب کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے نجات ونعمت کے حاصل ہونے کو اپنے کمال علم وہنر پر گھمنڈ کرتے لوگوں کے سامنے فخر کرنا عدل (right) نہیں۔


القرآن:

یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو لوگ اپنے کئے پر بڑے خوش ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف ان کاموں پر بھی کی جائے جو انہوں نے کئے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کے لیے دردناک سزا (تیار) ہے۔

[سورۃ آل عمران:188]


جن لوگوں کو (غزوہ تبوک سے) پیچھے رہنے دیا گیا تھا، وہ رسول اللہ کے جانے کے بعد اپنے (گھروں میں) بیٹھے رہنے سے بڑے خوش ہوئے، اور ان کو یہ بات ناگوار تھی کہ وہ اللہ کے راستے میں اپنے مال و جان سے جہاد کریں، اور انہوں نے کہا تھا کہ : اس گرمی میں نہ نکلو۔ کہو کہ : جہنم کی آگ گرمی میں کہیں زیادہ سخت ہے۔ کاش۔ ان کو سمجھ ہوتی۔

[سورۃ التوبۃ:81]


پھر انہیں جو نصیحت کی گئی تھی، جب وہ اسے بھلا بیٹھے تو ہم نے ان پر ہر نعمت کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ جو نعمتیں انہیں دی گئی تھیں، جب وہ ان پر اترانے لگے تو ہم نے اچانک ان کو آپکڑا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بالکل مایوس ہو کر رہ گئے۔

[سورۃ الانعام:44]


اگر تمہیں کوئی بھلائی مل جائے تو انہیں دکھ ہوتا ہے، اور اگر تم پر کوئی مصیبت آپڑے تو کہتے ہیں کہ : ہم نے تو پہلے ہی اپنا بچاؤ کرلیا تھا، اور (یہ کہہ کر) بڑے خوش خوش واپس جاتے ہیں۔

[سورۃ التوبۃ:50]


پھر ہوا یہ کہ لوگوں نے اپنے دین میں باہم پھوٹ ڈال کر فرقے بنا لیے، ہر گروہ نے اپنے خیال میں جو طریقہ اختیار کرلیا ہے، اسی پر خوش ہے۔

[سورۃ المومنون:53]

وہ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرلیا، اور مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ ہر گروہ اپنے اپنے طریقے پر خوش ہے۔

[سورۃ الروم:32]


عدل مخالفین کی وقتی خوشیاں:

وہ اللہ ہی تو ہے جو تمہیں خشکی میں بھی اور سمندر میں بھی سفر کراتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو، اور یہ کشتیاں لوگوں کو لے کر خوشگوار ہوا کے ساتھ پانی پر چلتی ہیں اور لوگ اس بات پر مگن ہوتے ہیں تو اچانک ان کے پاس ایک تیز آندھی آتی ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھتی ہیں اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ہر طرف سے گھر گئے۔ تو اس وقت وہ خلوص کے ساتھ صرف اللہ پر اعتقاد کر کے صرف اسی کو پکارتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ)“ (یا اللہ !) اگر تو نے ہمیں اس (مصیبت سے) نجات دے دی تو ہم ضرور بالضرور شکر گزار لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔

[سورۃ یونس:22]


ناحق فخر کرنے - اِترانے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔

قارون موسیٰ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر اس نے انہی پر زیادتی کی۔ اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیے تھے کہ اس کی چابیاں طاقتور لوگوں کی ایک جماعت سے بھی مشکل سے اٹھتی تھیں۔ ایک وقت تھا جب اس کی قوم نے اس سے کہا کہ : اتراؤ نہیں، اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

[سورۃ القصص:76]


چنانچہ جب ان کے پیغمبر ان کے پاس کھلی کھلی دلیلیں لے کر آئے تب بھی وہ اپنے اس علم پر ہی ناز کرتے رہے جو ان کے پاس تھا، اور جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے، اسی نے ان کو آگھیرا۔

[سورۃ غافر:83]


عادلانہ خوشی:

چند ہی سالوں میں ! سارا اختیار اللہ ہی کا ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور اس دن ایمان والے (اللہ کی دی ہوئی فتح بدر سے) خوش ہوں گے۔

[سورۃ الروم:4]


خوشی کے قابل چیز:

(اے پیغمبر) کہو کہ : یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوا ہے، لہذا اسی پر تو انہیں خوش ہونا چاہیے، یہ اس تمام دولت سے کہیں بہتر ہے جسے یہ جمع کر کر کے رکھتے ہیں۔

[سورۃ یونس:58]


اہلِ کتاب میں سے بعض کا قرآن کے نزول پر خوش ہونا:

اور (اے پیغمبر) جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اس کلام سے خوش ہوتے ہیں جو تم پر نازل کیا گیا ہے، اور انہی گروہوں میں وہ بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کا ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ (33) کہہ دو کہ : مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں، اور اس کے ساتھ کسی کو خدائی میں شریک نہ مانوں، اسی بات کی میں دعوت دیتا ہوں، اور اسی (اللہ) کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے۔

[سورۃ الرعد:36]


خلاصہ:


یہ اس لیے تاکہ جو چیز تم سے جاتی رہے، اس پر تم غم میں نہ پڑو، اور جو چیز اللہ تمہیں عطا فرمادے، اس پر تم اتراؤ نہیں، (18) اور اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اتراہٹ میں مبتلا ہو، شیخی بگھارنے والا ہو۔

[سورۃ الحدید:23]

یعنی جس شخص کا اس بات پر ایمان ہو کہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ اسی تقدیر کے مطابق ہورہا ہے، جو (اللہ کے ازلی علم سے) لوحِ محفوظ میں پہلے سے لکھی ہوئی ہے، اسے کسی ناگوار واقعے پر اتنا صدمہ نہیں ہوتا جو اسے دائمی پریشانی اور حسرت میں مبتلا رکھے ؛ بلکہ یہ چیز اس کی تسلی کا باعث ہوتی ہے کہ جو کچھ تقدیر میں لکھا تھا وہی ہوا، اور یہ کہ اس دنیا کی تکلیفیں آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، اس طرح اگر کوئی خوشی کا واقعہ پیش آتا ہے تو انسان اس پر اتراکر تکبر میں مبتلا نہیں ہوتا، اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور تقدیر کے مطابق ہے، اور اس پر انسان کو اترانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔






فتح پر خوشی کیسے منائی جائے؟
القرآن:
جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے۔ (1) اور تم لوگوں کو دیکھ لو کہ وہ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں۔ تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اور اس سے مغفرت مانگو۔ (2) یقین جانو وہ بہت(باربار) معاف کرنے والا ہے۔

[سورۃ النصر]
تشریح:
انتہائی فتح مندیوں ، کامیابیوں ، کامرانیوں کے وقت ارشاد یہ نہیں ہوتا کہ جشن دھوم دھام سے منانا ، جلوس نکالنا ، نقارے بجانا ، چراغاں کرنا ، زندہ باد کے نعرے لگانا (دنیا تو فتح مندیوں کے انہیں جشنوں ، جلوسوں سے واقف ہے) بلکہ حکم یہ ملتا ہے کہ اللہ کی یاد کی منزلیں طے کرنے کے بعد حمد وتسبیح واستغفار میں اور زیادہ لگ جائیے !

تفریح Entertainment جائز ہے۔

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «‌رَوِّحُوا ‌الْقُلُوبَ سَاعَةً بِسَاعَةٍ»

ترجمہ:

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دلوں کو لمحہ بہ لمحہ فرحت دیا کرو“۔

[مسند الشهاب القضاعي:672، (جامع بيان العلم وفضله:663زهر الفردوس:1596، جامع الأحاديث-السيوطي:12789، ضعيف الجامع الصغير:‌‌3140]


(1) ذکر کے ذریعہ

حضرت قسامہ بن زہیر سے روایت ہے کہ: دلوں کو راحت دو یعنی ذکر سے۔

[المصنف - ابن أبي شيبة:37848(35115)، أخبار الشيوخ وأخلاقهم:346، حلية الأولياء:3/ 104، المطالب العالية:3102]


(2) حکمت ولطائف کے ذریعہ

سیدنا علیؓ فرمایا کرتے تھے:

[إِنَّ ‌الْقُلُوبَ ‌تَمَلُّ كَمَا تَمَلُّ الأَبْدَانُ فَابْتَغُوا لَهَا طَرَائِفَ الْحِكْمَةِ]

ترجمہ:

جس طرح جسم اکتا (تھک) جاتے ہیں اسی طرح دل بھی اکتاتے ہیں۔ اس کی اکتاہٹ دور کرنے کے لیے حکمت سے پُر لطیفے تلاش کیا کرو۔

[الرسائل للجاحظ: ج1/ص289، أنساب الأشراف للبلاذري:119 (ج2/ص135)، أدب الدنيا والدين-الماوردي: ص13]

یہی فرمان حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے بھی مروی ہے۔

[الكامل في اللغة والأدب-محمد بن يزيد المبرد(م285ھ) : 2/ 211]

یہی فرمان امام شعبیؒ سے بھی مروی ہے۔

[الرسائل للجاحظ: ج2/ص92، الرسائل الأدبية-الجاحظ: ص164]


اور یہ بھی فرماتے:

إذا ‌أُكره ‌القلب ‌عمي۔

ترجمہ:

’’(کیوں کہ) دل میں اگر کراہیت آگئی تو دل اندھے ہو جائیں گے۔‘‘

[الرسائل للجاحظ:1/ 290، الكامل في اللغة والأدب:2/ 211، بغية الرائد-القاضي عياض: ص119]

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے بھی مروی ہے۔

[أنساب الأشراف للبلاذري:11 /222، بهجة المجالس: ص20، جامع الأحاديث-السيوطي:40427-]

حضرت ابراھیم بن ادھمؒ سے بھی مروی ہے

[صيد الخاطر-ابن الجوزي: ص78]

اولیاء اللہ کے نزدیک خوشی کا تصور:

حضرت وھب بن منبہؒ کا فرمان ہے: جو کوئی کسی دنیاوی چیز سے اپنے دل سے خوش ہوتا ہے اس نے حکمت میں خطا کی۔

حوالہ

‌‌«مَنْ فَرِحَ مِنْ قَلْبِهِ بِشَيْءٍ مِنَ الدُّنْيَا فَقَدْ أَخْطَأَ الْحِكْمَةَ»

[الزهد لابن أبي الدنيا:524]

اصول:

جب بھی دنیا کی مذمت کی گئی تو وہاں (نافرمانی کرکے) آخرت کو نقصان پہنچا کر  حاصل کردہ دنیا ہے۔


(3) کھیل کے ذریعہ

سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کھیل تماشے کے ذریعے آپ کو طاقت فراہم کرتا ہوں تاکہ حق کے کام کے لیے میں چست اور پھرتیلا رہوں۔


تفریح کی لَت ناپسندیدہ کیوں؟

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ.

ترجمہ:

کسی کے اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی (بےضرورت) کاموں کو ترک کردے (جس میں دنیا و آخرت کا کوئی فائدہ نہ ہو).

[الترمذى:2317، ابن ماجه:3976]

یعنی : بدکاری تو چھوڑنی ہی ہے لیکن بےکاری بھی چھوڑدے.


اس شخص میں تفریح کی لت (دُھت) نہیں جو اللہ کے ذکر (نصیحت) کی عادت رکھتا ہو، جسے فضول ملنے کے بجاۓ تنہائی اچھی لگے، دل بازار کے بجاۓ مسجد میں اٹکا اور اپنے ہی گھر میں ٹکا رہے.

خوشی میں کرنے کے کام:

خوشی منانے کے دنیا میں بہت سے طریقے ہیں۔ بعض قومیں خوشی کے وقت شراب پیتی ہیں، بعض آتش بازی میں اپنا روپیہ پھونکتی ہیں، لیکن مسلمان کا کام تو یہ نہیں کہ ان طریقوں سے اپنی خوشی کو ظاہر کرے۔ اس لیے کہ ہمارے سچے مذہب نے ان سب صورتوں کو ہمارے لیے منع کر دیا ہے ۔ دنیا کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ان طریقوں سے نمائشی خوشی چند لمحوں کے لیے ہو جاتی ہے، لیکن بعد کو رنج او رتکلیف بہت زیادہ ہوتی ہے اور دل کی فرحت وراحت تو ایک لمحہ کے لیے بھی ان طریقوں سے نہیں ہوتی۔ مسلمان کو اتنانا سمجھ تو نہ ہونا چاہیے کہ اس کی ناسمجھی پر دوسری قومیں ہنسیں اور وہ دنیا میں بھی اپنا نقصان کرے اور آخرت میں بھی اس کو شرمندگی اور پچھتاوا ہو۔


(1) خوشی ہونے یا خوشخبری ملنے پر سجدہ شکر ادا کرنا مسنون ہے:

حضرت ابوبکرہؓ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم ﷺ کے پاس جب کوئی ایسا معاملہ آتا جس سے آپ خوش ہوتے، یا وہ خوش کن معاملہ ہوتا، تو آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدے میں گر پڑتے۔

[سنن ابن ماجہ:1394، سنن ابی داود:2774 ، سنن الترمذی:1578]

۔۔۔جب ہم حضرت علیؓ کے پاس آئے تو آپؓ (جنگِ نہروان میں فتح پر) فرطِ خوشی میں سجدہ ادا کر رہے تھے۔

[مصنف ابن أبي شيبة:8424+32852]




حقیقی مومن خوش کن حالات میں ایمان کا سودا کرتا ہے نہ غم کے موقع پر ہی ڈگمگاہٹ ( کمزوری) کا شکار ہوتا ہے۔

حضرت صہیبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’مومن آدمی (کیلئے اللہ کے تقدیری فیصلہ) کا بھی عجیب حال ہے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات کسی کو حاصل نہیں سوائے اس مومن آدمی کے کہ اگر اسے کوئی خوشی پہنچی اور شکر ادا کیا تو بھی ثواب ہے اگر نقصان پہنچا اور صبر کیا تو بھی ثواب ہے۔‘‘

[صحیح مسلم:2999، صحيح ابن حبان:2896 (أحمد:23924، الطبراني:7316)]

۔۔۔اور خوشخبری ہے صبر کرنے والوں کیلئے۔

[تفسير(امام)البغوي-سورۃ البقرۃ:155]


یہی طرز عمل ہمارے اسلاف کا تھا۔


(2)ہوسکے تو خوشی میں بطورِ شکرانہ کچھ صدقہ/نذر کرنا مستحب ہے:

حضرت کعب بن مالکؓ جب نابینا ہوگئے تو ان کے بیٹوں میں یہی ان کو راستے میں ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ انھوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالکؓ سے ان کے واقعہ کے سلسلے میں سنا جس کے بارے میں آیت «وعلى الثلاثة الذين خلفوا‏» نازل ہوئی تھی۔ آپ نے آخر میں (نبی کریم ﷺ سے) عرض کیا تھا کہ اپنی توبہ کے قبول ہونے کی خوشی میں اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں خیرات کرتا ہوں۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نہیں اپنا کچھ تھوڑا مال اپنے پاس ہی رہنے دو ۔ یہ تمہارے حق میں بھی بہتر ہے۔

[صحيح البخاري:4676]




مومن کیلئے خوشی کی بات، موقعہ اور طریقہ:

ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے:

«اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ الَّذِينَ إِذَا أَحْسَنُوا اسْتَبْشَرُوا، وَإِذَا أَسَاءُوا اسْتَغْفَرُوا»

اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جو نیک کام کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں، اور جب برا کام کرتے ہیں تو اس سے استغفار کرتے ہیں۔

[سنن ابن ماجہ:3820]

الدر المنثور في التفسير بالمأثور-سورۃ آل عمران:135

مسند أبي داود الطيالسي:1637، مسند إسحاق بن راهويه:1336, مسند أحمد:24980-25120-26021، مسند أبي يعلى:4472، الدعاء للطبراني:1401، الدعوات الكبير-البيهقي:211،

صحيح الكتب التسعة وزوائده:7415


نوٹ:

(1)اللہ ہی خوشی وغمی پیدا کرتا ہے۔

(2)اعمال ذریعہ ہیں خوشی وغمی کے۔

(3)مومن کو نیکی پر خوشی ہوتی ہے اور (خواہش پرست)نافرمان کو برائی سے خوشی ہوتی ہے۔

(4)مومن کو نیکی سے"دائمی"خوشی پہنچتی ہے، نافرمان کو"وقتی"۔

(5)دائمی خوشی/غمی چیزوں سے نہیں، دل کے اندر(نیکی/برائی)سے ملتی ہے۔

(6)اللہ سے تعلق میں اضافہ/کمی کی نشانی دعا مانگنے میں زیادتی/کمی ہے۔












(3)شکرانہ میں روزہ رکھنا اور عبادات میں غیرمذہبوں کی مشابہت منع نہیں:

ابن شہاب نے حضرت ابو موسیٰؓ سے نقل کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عاشورہ کا دن وہ تھا جس میں یہود روزہ رکھتے تھے اور اس کو عید کے طور پر مناتے تھے، پس تم بھی روزہ رکھو۔

یہ روایت بتلا رہی ہے کہ جناب رسول اللہ نے اس دن کے روزے کا حکم فرمایا اور یہود یہ روزہ اس شکریہ کے طور پر رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون پر غلبہ عنایت فرمایا۔ اور آپ ﷺ نے بھی اسی طور پر روزہ رکھا اور شکر کا روزہ اختیار ہوتا ہے نہ کہ فرض ۔ ذیل کی روایات۔ ملاحظہ کریں۔ اس روایت میں آپ نے ان کو روزے کا حکم فرمایا جس کا مقصد گناہوں کا کفارہ اور ثواب کا حصول تھا اور یہ ہماری پیش کردہ روایتِ ابن عباسؓ کے خلاف نہیں کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اس بات پر شکر گزاری کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے ادا کرتے ہو کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے ذریعہ شکریہ ادا کیا پس اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ گزشتہ سال کے گناہ مٹا دیتے ہوں۔

[تخریج : بخاری فی الصوم باب ٦٩‘ مسلم فی الصیام ١٢٩]۔

روایات بالا اور خصوصاً یہ روایت ظاہر کر رہی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے روزہ رکھنے کا اس لیے حکم فرمایا کیونکہ یہودی نجات بنی اسرائیل اور غرق فرعون کی خوشی میں یہ روزہ رکھتے تھے گویا یہ صوم تشکر تھا جناب رسول اللہ ﷺ نے بھی بطور تشکر رکھنے کا حکم فرمایا تشکر میں تو اختیار ہوتا ہے نہ کہ فرضیت۔

[شرح معاني الآثار-الطحاوي:3292]




(4)قومی خوشی کے موقع پر کھلانا اور کھانا جائز ہے:

حضرت عبداللہ بن قرط ؓ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر (یعنی قربانی کا دن) ہے پھر یوم الْقَرِّ (یعنی گیارہویں ذوالحجہ کا دن) ہے، اس دن رسول اللہ ﷺ کے سامنے پانچ یا چھ اونٹنیاں لائی گئیں، تو ان میں سے ہر ایک آگے بڑھنے لگی کہ آپ نحر کی ابتداء اس سے کریں جب وہ گرگئیں تو آپ نے آہستہ سے کچھ کہا جو میں نہ سمجھ سکا تو میں نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: جو چاہے اس میں سے گوشت کاٹ لے۔

[سنن أبي داود:1765]

قربانی کے گوشت کو اس کے مالک کی اجازت سے کاٹنے کے اجازت کا بیان۔

[صحيح ابن خزيمة:2917]

خوشی میں اشیاء بکھیرنے کا حکم

[السنن الكبرى للبيهقي:14685]




عيد
العادۃ کسی فعل یا انفعال کو "بار بار کرنا" حتی کہ وہ طبعی فعل کی طرح سہولت سے انجام پاسکے۔ اسی لئے بعض نے کہا ہے کہ عادۃ طبیعتِ ثانیہ کا نام ہے۔
العید وہ ہے جو بار بار لوٹ کر آئے۔
اصطلاحِ شریعت میں یہ لفظ فطرہ کے دن اور قربانی کے دن پر بولا جاتا ہے۔ چونکہ شرعی طور پر یہ دن خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«يَوْمُ عَرَفَةَ، وَيَوْمُ النَّحْرِ، وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الْإِسْلَامِ، وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ.»
ترجمہ:
یوم عرفہ(یعنی نویں ذی الحجہ)، یوم النحر(یعنی دسویں ذی الحجہ) اور ایامِ تشریق (یعنی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ) ہم اہلِ اسلام کی عید ہے، اور یہ (1)کھانے اور (2)پینے کے دن ہیں۔
[سنن ابو داؤد:2419، سنن الترمذی:773، سنن النسائی:3007، صحيح ابن خزيمة:2100، صحيح ابن حبان:3603]

«أَلَا ، لَا تَصُومُوا هَذِهِ الْأَيَّامَ فَإِنَّهَا أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ ، وَذِكْرِ اللهِ»
ترجمہ:
خبردار!ان دنوں میں روزہ مت رکھو، کیونکہ یہ دن ہیں: (1)کھانے اور (2)پینے اور (3)ذکر اللہ کے۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌3573، شرح معاني الآثار:4100]
ذکر اللہ سے مراد یہ ہے کہ ایامِ تشریق میں فرض نمازوں کے بعد اللہ اکبر۔اللہ اکبر کہیں۔
[تفسیر ابن کثیر:1 /417 سورۃ البقرۃ:203]

تیسری روایت میں ہے کہ بھیجا رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو ایامِ تشریق میں، کہ وہ اعلان کریں (لوگوں میں):
فَإِنَّهَا أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَبِعَالٍ»
ترجمہ:
(اے لوگو!) یہ دن ہیں: (1)کھانے اور (2)پینے اور (3)میل جول کے۔
[مصنف ابن أبي شيبة:15265، (شرح معاني الآثار:4111) (الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم:3376)]
يَعْنِي النِّكَاحَ
[مسند إسحاق بن راهويه:2419]
وملاعبةُ الرجلِ أهلَه
ترجمہ:
اور کھیلنے کیلئے مرد کا اپنے گھروالی سے۔
[غريب الحديث للقاسم بن سلام:58]

اس لئے ہر وہ دن جس میں کوئی شادمانی حاصل ہو اس پر عید کا لفظ بولا جانے لگا ہے۔
چناچہ آیت کریمہ:۔
أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ تَكُونُ لَنا عِيداً
ترجمہ:
ہم پر آسمان سے خوان (نعمت) نازل فرما۔ ہمارے لئے (وہ دن) عید قرار پائے۔
[سورۃ المائدة:114]
میں عید سے شادمانی کا دن ہی مراد ہے۔ اور العید اصل میں (خوشی یا غم کی) اس حالت کو کہتے ہیں جو بار بار انسان پر لوٹ کر آئے اور العائدۃ ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو۔

[المفردات في غريب القرآن - امام الراغب الأصفهانيؒ(م502ھ) : صفحہ593، الناشر: دار القلم، الدار الشامية - دمشق بيروت]

اس لیے کہ عید منانا سب لوگوں کی شرست اور طبیعت میں شامل ہے اور ان کے احساسات سے مرتبط ہوتی ہے، لہٰذا سب لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے لیے کوئي نہ کوئي تہوار ہونا چاہیے جس میں وہ سب جمع ہو کر اپنی خوشی وفرحت اور سرور کا اظہار کریں۔



لوگوں کی بنائی عیدیں غیراسلامی(بدعت) ہیں:
حضرت طاؤسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَتَّخِذُوا ‌شَهْرًا ‌عِيدًا، وَلَا تَتَّخِذُوا يَوْمًا عِيدًا۔
’’تم (اپنی طرف سے) کسی مہینے کو عید نہ بناؤ، اور نہ کسی دن کو عید بناؤ‘‘.
[مصنف عبد الرزاق:8100 (7853) ، لطائف المعارف لابن رجب: ص118]

کفار امتوں کی عیدیں اور تہوار اس کے دنیاوی معاملات کے اعتبار سے منائي جاتی ہیں مثلا: سال نو کا تہوار یا پھر زراعت کا موسم شروع ہونے کا تہوار اور بیساکھی کا تہوار یا موسم بہار کا تہوار ، یا کسی ملک کے قومی دن کا تہوار یا پھر کسی حکمران کا مسند اقدار پر براجمان ہونے کے دن کا تہوار اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے تہوار منائے جاتے ہيں ۔

اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے کچھ دینی تہوار بھی ہوتے ہیں، مثلا: یھود  کے خاص دینی تہوار یا عیسائيوں کے تہواروں میں جمعرات کا تہوار شامل ہے، جس کے بارہ میں ان کا خیال ہے کہ جمعرات کے دن عیسی علیہ السلام پر مائدہ یعنی آسمان سے دسترخوان نازل کیا گیا تھا اور سال کے شروع میں کرسمس کا تہوار ، اسی طرح شکر کا تہوار ، عطاء کا تہوار ، بلکہ اب تو عیسائي سب یورپی اور امریکی اور اس کے علاوہ دوسرے ممالک جن میں نصرانی نفوذ پایا جاتا ہے ان تہواروں کو مناتے ہیں اگرچہ بعض ممالک میں اصلا نصرانیت تو نہيں لیکن اس کے باوجود کچھ ناعاقبت اندیش قسم کے کچھ مسلمان بھی کم علمی یا پھر نفاق کی بنا پر ان تہواروں میں شامل ہوتے ہیں ۔

اسی طرح مجوسیوں کے بھی کچھ خاص تہوار اور عیدیں ہیں مثلا: مھرجان اور نیروز وغیرہ کا تہوار مجوسیوں کا ہے  ۔

اور اسی طرح فرقہ باطنیہ کے بھی کچھ تہوار ہیں، مثلا: عید الغدیر کا تہوار جس کے بارہ میں ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضي اللہ تعالی عنہ اور ان کے بعد بارہ اماموں سے خلافت پر بیعت کی تھی۔



مسلمانوں کی عید میں دوسروں سے امتیاز:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مسلمانوں کی ان دو عیدوں پر دلالت کرتا ہے اور مسلمانوں کی ان دو عیدوں کے علاوہ کوئي اور عید ہی نہیں :

حضرت عائشہ ؓ نے بتلایا کہ حضرت ابوبکر ؓ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں، حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں یہ شیطانی باجے؟ اور یہ عید(الفطر) کا دن تھا۔ آخر رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ سے فرمایا: اے ابوبکر!
إِنَّ ‌لِكُلِّ ‌قَوْمٍ ‌عِيدًا، وَهَذَا عِيدُنَا۔
ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔
[صحيح البخاري:952، صحيح مسلم:892، (سنن ابن ماجه:1898)]

لھذا مسلمانوں کے لیے جائز اورحلال نہيں کہ وہ کفار اور مشرکوں سے ان کے تہواروں اورعیدوں میں مشابہت کریں نہ تو کھانے اورنہ ہی لباس میں اورنہ ہی آگ جلاکر اورعبادت کرکے ان کی مشابہت کرنا بھی جائز نہيں ، اور اسی طرح ان کے تہواروں اورعیدوں میں بچوں کو کھیل کود کرنے بھی نہيں دینا چاہیے ، اورنہ ہی زيب وزينت کا اظہار کیا جائے اوراسی طرح مسلمانوں کے بچوں کو کفار کے تہواروں اور عیدوں میں شریک ہونے کی اجازت بھی نہیں دینی چاہیے  ۔

ہر کفریہ اوربدعت والی عید اورتہوار حرام ہے مثلا سال نو کا تہوار منانا ، انقلاب کا تہوار ، عید الشجرۃ ، عیدالجلاء ، سالگرہ منانا ، ماں کا تہوار ، مزدوروں کا تہوار ، نیل کا تہوار ، اساتذہ کا تہوار ، اورعید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب بدعات اورحرام ہیں ۔

مسلمانوں کی صرف اور صرف دو عیدیں اور تہوار ہيں ، عید الفطر اور عیدالاضحی ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی فرمان ہے۔

حضرت انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ نبویہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے دو تہوار تھے جن میں وہ کھیل کود کرتے اورخوشی وراحت حاصل کرتے تھے ، لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ دو دن کیسے ہیں ؟
لوگوں نے جواب دیا کہ ہم دور جاہلیت میں ان دنوں میں کھیل کود کیا کرتے تھے ، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْأَضْحَى، وَيَوْمَ الْفِطْرِ
یقینا اللہ تعالی نے تمہیں ان دو دنوں کے بدلے میں اچھے دن دیے ہیں عید الاضحی اور عیدالفطر۔
[سنن ابوداود: حدیث نمبر 1134]۔

یہ دونوں عیدیں اللہ تعالی کے شِعار(یعنی نشان، پہچان،رسم،عادت) اورعلامتوں میں سے جن کا احیاء کرنا اوران کے مقاصد کا ادراک اوران کے معانی کو سمجھنا ضروری ہے ۔



عید کے دنوں میں روزہ رکھنا منع وحرام ہے:

حضرت مسعود بن حکم انصاری کی والدہ کہتی ہیں کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں اب بھی حضرت علی ؓ کو اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھ رہی ہوں کہ وہ نبی ﷺ کے سفید خچر پر سوار ہیں، حجۃ الوداع کے موقع پر وہ انصار کے ایک گروہ کے پاس رک رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اے لوگو! نبی ﷺ فرماتے تھے کہ یہ روزے کے ایام نہیں ہیں، یہ تو کھانے اور پینے اور ذکر کے دن ہیں۔

[صحيح ابن خزيمة:2147، مسند أحمد:708، المستدرك على الصحيحين للحاكم:1588، مسند أبي يعلى الموصلي:461، الأحاديث المختارۃ:804]

[تفسير ابن کثیر»سورۃ البقرہ:203]


دوسری روایت میں۔۔۔کھانے پینے اور نکاح کے دن ہیں۔

[مسند إسحاق بن راهويه:2419، م صنف ابن أبي شيبة:15265، شرح معاني الآثار-الطحاوي، 4095]



عید کے دنوں کے اعمال:

حضرت عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا: یوم عرفہ، یوم النحر اور ایامِ تشریق ہم اہل اسلام کی عید ہے، اور یہ (1)کھانے پینے کے دن ہیں۔

[مسلم:1141، ابوداؤد:2419، الترمذي:773، النسائي:3007، الدارمی:1805]

...(2)اور ذکر اللہ کے دن ہیں۔

[مسلم:1141، الطحاوي:4096، النسائي:4230، ابوداؤد:2813، ﴿تفسیر البغوی»سورۃ البقرۃ:203﴾]

۔۔۔یعنی تکبیراتِ تشریق ادا کرنے کے دن ہیں۔

[فضائل الأوقات للبيهقي:221]

...(3)اور ملنے جلنے کے۔

[مصنف ابن أبي شيبة:15265]

...یعنی نکاح کے۔

[مسند إسحاق بن راهويه:2419]

۔۔۔لہٰذا ان دنوں میں روزہ مت رکھو۔

[شرح معاني الآثار-الطحاوي:4095]



عیدین کے دن خوشی منانے کے آداب:
عیدین کے دن خوشی و مسرت کے دن ہیں، اور ان ایام کیلئے کچھ عبادات، آداب اور عادات مختص بھی ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:

1- غسل کرنا:

یہ عمل صحابہ کرام سے ثابت ہے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ سے ایک آدمی نے غسل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: "اگر  چاہو تو روزانہ غسل کرو" تو آدمی نے کہا: "نہیں!  جسے غسل کہا جاتا ہے اس کے بارے میں سوال ہے" تو علی رضی اللہ عنہ  نے فرمایا:  "وہ غسل جمعہ کے دن، یوم عرفہ کے دن، عید الاضحی، اور عید الفطر کے دن ہوتا ہے"
اسے امام شافعیؒ نے اپنی "مسند الشافعی" صفحہ: (385) میں ذکر کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل (1/176) میں اسے صحیح کہا ہے۔

2-  نئے کپڑے زیب تن کرنا:

چنانچہ اس بارے میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ :  عمر رضی اللہ عنہ نے بازار سے ریشمی جبہ  خریدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور عرض کیا: "یا رسول اللہ! آپ بھی اس کے ساتھ کا جبہ عیدین اور وفود سے ملاقات کیلئے خرید لیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: (یہ ایسے شخص کا لباس ہے جس کا [آخرت میں ]کوئی حصہ نہیں ہے)
بخاری: (906) مسلم: (2068)، امام بخاری نے اس حدیث پر عنوان قائم کرتے ہوئے لکھا ہے: "باب ہے عیدین  پر زیب و زینت اختیار کرنے کے بارے میں"

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان مواقع میں زیب و زینت اختیار کرنا ان کے ہاں بھی مشہور و معروف تھا" انتہی
" المغنی " ( 2 / 370 )

ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث سے  عید کیلئے زیب و زینت اختیار کرنے کا علم ہوتا ہے، اور یہ  بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کرنا ان کے ہاں عام اور مشہور تھا" انتہی
" فتح الباری " لابن رجب ( 6 / 67 )

شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث سے  عید کے موقع پر زیب و زینت اختیار کرنے کی دلیل اس طرح لی جاتی ہے  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو عید کے دن خوبصورت لباس پہننے  سے منع نہیں فرمایا بلکہ  ممانعت کی تو صرف ریشمی لباس سے  کی" انتہی
" نيل الأوطار " ( 3 / 284 )

اس بات پر عمل صحابہ کرام کے زمانے سے لیکر اب تک  چلا آ رہا ہے۔

ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بیہقی نے صحیح سند کیساتھ نافع سے بیان کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما عیدین کے موقع پر اچھے سے اچھا لباس زیب تن کرتے تھے"

نیز انہوں نے ایک جگہ یہ بھی کہا ہے کہ:
"عیدین کے موقع پر خوبصورت لباس زیب تن  کرنے میں عید نماز کے لئے جانے والے، یا گھر میں بیٹھے رہنے والے، حتی کہ خواتین و بچے سبھی  شامل ہیں" انتہی
" فتح الباری " لابن رجب (6/68 ، 72)

جبکہ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ : اگر اعتکاف کیا ہو تو پھر عید کیلئے اعتکاف والے کپڑوں میں  ہی جائے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عید کیلئے سنت یہی ہے کہ  خوبصورت لباس زیب تن کرے، چاہے کسی نے اعتکاف کیا ہو یا نہ کیا ہو"
" أسئلة وأجوبة في صلاة العيدين " (صفحہ: 10)

3- اچھی خوشبو لگانا:

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے صحیح ثابت ہے کہ وہ عید الفطر کے دن خوشبو لگایا کرتے تھے، جیسے کہ فریابی کی کتاب: "احکام العیدین" صفحہ: 83 میں موجود ہے۔

ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : میں نے اہل علم کو  عیدین کے دن  زیب و زینت  اور خوشبو لگانے کو مستحب کہتے ہوئے سنا ہے" ، اسی طرح امام شافعی نے بھی اسے مستحب کہا ہے۔
" فتح الباری" از: ابن رجب ( 6 / 68 )

مذکورہ زیب و زینت  اور خوشبو کا استعمال  خواتین کی طرف سے گھر کی چار دیواری میں خاوند،  محرم اور گھر کی خواتین کے سامنے ہوگا۔

چنانچہ موسوعہ فقہیہ (31/116) میں ہے کہ:
"خوبصورت لباس، بیرونی و اندرونی صفائی ستھرائی،  جسمانی بد بو سے چھٹکارا، وغیرہ دیگر امور میں عید نماز کیلئے جانے والے اور [مجبوری کی بنا پر]گھر میں  رہنے والے تمام افراد کیلئے ہے؛ کیونکہ یہ دن زیب و زینت کا دن ہے، اس لئے تمام کا حکم برابر ہوگا، لیکن خواتین اس میں شامل نہیں ہیں۔

چنانچہ خواتین  عید نماز کیلئے جاتے ہوئے خوبصورت لباس زیب تن نہیں کرینگی، بلکہ عام سادہ لباس میں  عید نماز کیلئے جائیں، خوبصورت لباس اور خوشبو استعمال نہ کریں؛ کیونکہ ان کی وجہ سے فتنے کا خدشہ رہتا ہے، حتی کہ بوڑھی ، اور غیر دلکش خواتین   بھی اسی حکم میں شامل ہیں، چنانچہ خواتین مردوں سے بالکل الگ تھلگ رہیں گی" انتہی

4- تکبیرات کہنا:

عید الفطر کے موقع پر عید کا چاند نظر آتے ہی تکبیرات کہنا مسنون ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ
ترجمہ: تا کہ تم گنتی پوری کرو، اور اللہ تعالی کی کبریائی اسی طرح بیان کرو جیسے اس نے تمہاری رہنمائی کی ہے۔[البقرة : 185]

اس آیت کے مطابق گنتی روزوں کی تعداد پوری ہونے سے مکمل ہوگی ، اور تکبیرات  کا آخری وقت  یہ ہے کہ  جب امام خطبہ کیلئے  آ جائے۔

جبکہ عید الاضحی کے موقع پر تکبیرات  یوم عرفہ کی صبح سے لیکر  ایام تشریق کے آخر تک  جاری رہیں گی جو کہ ذو الحجہ کی 13 تاریخ کو  ہوتا ہے۔

5- رشتہ داروں سے ملاقاتیں:

عید کے دن رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دوستوں  کیساتھ  ملاقات کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، لوگوں میں اس کا اہتمام عام پایا جاتا ہے۔

بلکہ یہ  بھی کہا گیا ہے کہ عید نماز کیلئے آتے جاتے راستہ تبدیل کرنے کا حکم بھی اسی لیے دیا گیا ہے کہ  زیادہ سے زیادہ  لوگوں سے ملاقات ہو۔

بہت سے اہل علم عید نماز کیلئے آتے جاتے  وقت راستہ تبدیل کرنے کو مستحب کہتے ہیں، چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن آتے جاتے راستہ تبدیل کرتے تھے"۔ بخاری: (943)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"یہ بھی کہا گیا ہے کہ: تا کہ آپ زندہ اور فوت شدہ رشتہ داروں کے اہل خانہ سے ملیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ: صلہ رحمی کیلئے راستہ تبدیل کرتے تھے" انتہی
" فتح الباری " ( 2 / 473 )

6- مبارکباد دینا:

اس کیلئے کوئی بھی اچھے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں، اس کیلئے افضل ترین الفاظ " تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكُمْ" ہیں؛ کیونکہ یہ الفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہیں۔
چنانچہ جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام  عید کے موقع پر جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو کہتے: " تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ"۔
حافظ ابن حجر نے " فتح الباری " ( 2 / 517 ) میں اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔

مالک رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:
"عید کی نماز سے واپس آنے کے بعد اگر کوئی  اپنے بھائی سے کہہ دے کہ: " تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكَ، وَغَفَرَ اللهُ لَنَا وَلَكَ " اور آگے سے جواب میں بھی اسی طرح کے الفاظ کہے تو کیا یہ مکروہ ہے؟ " تو انہوں نے کہا: "یہ مکروہ نہیں ہے" انتہی
" المنتقى شرح الموطأ " ( 1 / 322 )

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عید کے دن مبارک باد دیتے ہوئے نماز عید کے بعد ایک دوسرے کو یہ کہنا کہ: " تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَمِنْكُمْ " یا "اللہ تعالی آپکو بار بار عیدیں نصیب کرے" اس طرح کے دیگر دعائیہ کلمات کہنا ، متعدد صحابہ کرام سے  مروی ہے کہ وہ ایسا کیا کرتے تھے،  ائمہ کرام نے اس بارے میں رخصت ہی دی ہے، جیسے کہ امام احمد کہتے ہیں کہ: "میں کسی کو عید کی مبارکباد یتے ہوئے پہل نہیں کرتا، لیکن اگر کوئی مجھے مبارکباد دے تو میں اس کا جواب دیتا ہوں، کیونکہ جواب دینا واجب ہے"
مبارکباد دینے سے متعلق احادیث میں کہیں بھی حکم نہیں ہے، اور نا ہی اس سے کہیں ممانعت  موجود ہے، اس لئے مبارکباد ینااور نہ دینا دونوں طرح درست ہے"
" مجموع الفتاوى " ( 24 / 253 )

7- کھانے پینے کا اہتمام:

کھانے پینے کا خصوصی اہتمام کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، یہ اہتمام گھر میں یا گھر سے باہر  کسی ہوٹل وغیرہ میں بھی ہو سکتا ہے، تاہم کسی ایسے ہوٹل میں کھانے کا اہتمام نہ کریں جہاں پر شراب نوشی  ہو، یا وہاں  موسیقی کی آواز آ رہی ہو، یا پھر مرد و زن کا مخلوط ماحول ہو۔

کچھ علاقوں میں ایسا بھی ممکن ہے کہ  مرد و زن کے مخلوط ماحول ، اور دیگر شرعی مخالفات سے  بچنے کیلئے زمینی یا سمندری  سفر بھی کر سکتے ہیں۔

نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایام تشریق کھانے پینے، اور ذکر الہی کے دن ہیں) مسلم: (1141)

8- جائز تفریح:

فیملی کے ساتھ ساحل بری، بحری سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح  قدرتی  طور پر خوبصورت علاقوں   اور تفریحی پارک وغیرہ  میں بھی جا سکتے ہیں بشرطیکہ وہاں کوئی غیر شرعی امور نہ ہو ں، اسی طرح موسیقی سے خالی ملی نغمے اور ترانے بھی سنے جا سکتے ہیں۔

چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی  ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ، اس وقت دو چھوٹی بچیاں  جنگ بعاث کے ترانے گا رہیں تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر لیٹ گئے اور اپنا چہرہ دوسری جانب کر لیا، پھر اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے مجھے ڈانٹ پلائی اور کہا: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شیطان کی بانسریاں؟" اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے اور فرمایا: (انہیں ترانے پڑھنے دو) ، چنانچہ جب آپ کی توجہ  دوسری جانب ہوئی  تو میں نے انہیں ہاتھ سے اشارہ کیا اور وہ دونوں وہاں سے چلتی بنیں۔

اسی طرح عید کا دن  تھا اور سیاہ فام  لوگ  نیزوں اور ڈھالوں سے کھیل رہے تھے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا یا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی مجھ سے پوچھا تھا: (کیا تم انہیں کھیلتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہو؟) تو میں نے کہا : "ہاں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا، میرا گال آپ کے رخسار پر تھا، اور  آپ نے انہیں فرمایا: (بنی ارفدہ [یعنی حبشہ کے لوگو!] اپنے کام میں لگے رہو) تو جب میں تھک گئی تو آپ نے پوچھا: (کافی ہے؟) میں نے کہا: "جی ہاں" تو آپ نے فرمایا: (چلو اب چلی جاؤ) ۔
بخاری: (907) مسلم: (829)

اور ایک روایت میں ہے کہ: عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن فرمایا تھا: (تاکہ یہودیوں کو علم ہو جائے کہ ہمارے دین میں وسعت ہے، بیشک مجھے وسیع ظرف  دین حنیف دے کر بھیجا گیا ہے)
مسند احمد: (50/366) مسند احمد کے محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ: (4/443) میں "جید" کہا ہے۔

اور نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ عنوان قائم کیا ہے :
"باب ہے اس بیان میں کہ: عید کے دنوں  میں معصیت سے خالی کھیل کود میں رخصت ہے"

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں متعدد فوائد ہیں:

عید کے دنوں میں  اہل خانہ  کیلئے ہر قسم کی فراوانی  کریں تا کہ اس کا  دل خوشگوار ہو جائے، بدن کو عبادت سے کچھ راحت دیں، اور آج کے دن [نفلی]عبادت سے دوری بہتر ہے، نیز اس میں یہ بھی ہے کہ: عید کے دنوں میں اظہار مسرت دینی شعائر میں سے ہے"
" فتح الباری " ( 2 / 514 )

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عید کے دنوں میں یہ کام بھی کیا جاسکتا ہے کہ  لوگ آپس میں تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کو کھانے کی دعوت دیتے ہیں، اکٹھے ہو کر اظہار مسرت بھی کرتے ہیں، اس عادت میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ عید کے دن ہیں، بلکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر داخل ہوئے تو ۔۔۔۔-آگے انہوں نے مکمل حدیث بیان کی-۔

اس میں یہ بھی ہے کہ -الحمد للہ- شریعت میں لوگوں کی آسانی و سہولت کے پیش نظر ایسی چیزیں موجود ہیں جو عید کے دنوں میں مسرت و شادمانی کا سامان پیدا کرتی ہیں "
" مجموع فتاوى شیخ ابن عثیمین" ( 16 / 276 )

اسی طرح  " الموسوعة الفقهية " ( 14 / 166 ) میں ہے کہ:
" عید کے دنوں میں اہل خانہ  پر ہر قسم کی فراوانی  کرنا لازمی امر ہے، جس سے دل خوشگوار ہو جائے، بدن کو عبادت سے کچھ راحت دیں، اسی طرح  عید کے دنوں میں اظہار مسرت اس دین  کے شعائر میں سے ہے، عید کے دنوں میں کھیل کود کرنا مسجد یا کسی اور جگہ جائز ہے، بشرطیکہ کھیل کود کا انداز وہی ہو جو عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے جس میں حبشی لوگوں کی نیزہ بازی کا ذکر ہے" انتہی





خوشی میں کھیلنا کودنا جائز ہے:

حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینے آئے تو حبشی آپ ﷺ کی آمد پر خوش ہو کر خوب کھیلے اور اپنی برچھیاں لے کر کھیلتے۔

[مصنف عبد الرزاق:20781 (باب: کھیل کا بیان)]

[سنن أبي داود:4923 (باب:شادی اور عید میں دف پیٹنا)]

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کی مدینہ منورہ تشریف آوری کی خوشی میں حبشیوں نے نیزے کے کرتب دکھائے۔



No comments:

Post a Comment