Wednesday, 3 August 2022

فرض نماز کے بعد دعا سنت مستحبہ ہے

فرض نمازوں کے بعد امام و مقتدی کا دعا کرنا احادیثِ نبویہ و روایات فقہیہ سے ثابت ہے جو کہ سنتِ مستحبہ ہے، لہٰذا اس کو بدعت سمجھنا درست نہیں، مگر اس اجتماع کو لازم سمجھنا اور جو ایسا نہ کرے اسے بنظرِ حقارت دیکھنا وغیرہ درست نہیں، اس سے احتراز چاہیے۔


عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَيُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ؟ قَالَ: «جَوْفَ اللَّيْلِ الآخِرِ، وَدُبُرَ الصَّلَوَاتِ المَكْتُوبَاتِ»۔

ترجمہ:

حضرت ابوامامہؓ کہتے ہیں کہ پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

«‌آدھی رات کے آخر کی دعا (یعنی تہائی رات میں مانگی ہوئی دعا) اور فرض نمازوں کے اخیر میں»۔

[سنن الترمذي:3499، السنن الكبرى - النسائي:9856]



حضرت ابوبردہؓ نے اپنے والد سے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

«مَنْ كَانَتْ لَهُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَاجَةٌ فَلْيَدْعُ بِهَا ‌دُبُرَ ‌كُلِّ ‌صَلَاةٍ ‌مَفْرُوضَةٍ»

ترجمہ:

 جس کو اللہ عزوجل سے حاجت ہو وہ اسے ہر فرض نماز کے بعد دعا مانگے۔

[مسند المقلين من الأمراء والسلاطين-تمام بن محمد الدمشقي:6]




امام کا دعا کے لئے اپنے آپ کو مخصوص کرنا مکروہ ہے:

حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:

کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کے گھر کے اندر جھانک کر دیکھے جب تک کہ گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ لے لے۔ اگر اس نے  (جھانک کر)  دیکھا تو گویا وہ اندر داخل ہوگیا۔ اور کوئی لوگوں کی امامت اس طرح نہ کرے کہ ان کو چھوڑ کر دعا کو صرف اپنے لیے خاص کرے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے ان سے خیانت کی، اور نہ کوئی نماز کے لیے کھڑا ہو اور حال یہ ہو کہ وہ پاخانہ اور پیشاب کو روکے ہوئے ہو۔

[سنن الترمذي:357، سنن ابوداؤد:90، سنن ابن ماجة:923]




جماعت کے بعد امام کا دائیں، بائیں یا مقتدیوں کی جانب رُخ کر کے بیٹھنا:

عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ الْعَامِرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‌الْفَجْرَ، ‌فَلَمَّا ‌سَلَّمَ ‌انْحَرَفَ» وَرَفَعَ ‌يَدَيْهِ وَدَعَا۔
ترجمہ:
جابر بن یزید بن اسود العامری اپنے والد (حضرت اسود العامریؓ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کے وقت نماز پڑھی، اور جب آپ ﷺ نے سلام فرمایا تو آپ (نمازیوں کی طرف) مڑ گئے۔ اور اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور دعا فرمائی۔
[المصنف - ابن أبي شيبة:3122(3093)][معارف السنن:3/123]
صحيح؛ جابر ثقة، أخرجه أحمد (1474)، وأبو داود (614)، والترمذي (219)، والنسائي 2/ 112، وابن خزيمة (1279)، وابن حبان (1565)، والحاكم 1/ 414، والطيالسي (1564)، وابن أبي عاصم في الآحاد (1462)، والدارمي (1367)، والطبراني 22/ 614، وعبد الرزاق (3934)، والدارقطني 1/ 413، والبيهقي 2/ 301، وابن نافع 3/ 222





ہر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا۔

عَنِ ‌الْمُطَّلِبِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى أَنْ تَشَهَّدَ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَأَنْ تَبَأَسَ، وَتَمَسْكَنَ وَتُقْنِعَ بِيَدَيْكَ، وَتَقُولَ: اللَّهُمَّ اللَّهُمَّ، فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ، فَهِيَ خِدَاجٌ»۔

ترجمہ:

حضرت مطلب ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نماز دو دو رکعت ہے، اس طرح کہ تم ہر دو رکعت کے بعد تشہد پڑھو اور پھر اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ ظاہر کرو اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگو اور کہو: اے میرے اللہ! اے میرے اللہ! جس نے ایسا نہیں کیا (یعنی دل نہ لگایا، اور اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ کا اظہار نہ کیا) تو اس کی نماز ناقص ہے۔

[سنن أبي داود:1296، السنن الكبرى-النسائي:619-1445، مسند أبي داود الطيالسي:1463، مسند ابن الجعد:1568، مسند أحمد:17523-17528-17529، صحيح ابن خزيمة:1212، سنن الدارقطني:1548، السنن الكبرى - البيهقي:4578]

(دوسری روایت میں ہے)

عَنْ الفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصَّلَاةُ ‌مَثْنَى ‌مَثْنَى، تَشَهَّدُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَتَخَشَّعُ، وَتَضَرَّعُ، وَتَمَسْكَنُ، وَتُقْنِعُ يَدَيْكَ، يَقُولُ: تَرْفَعُهُمَا إِلَى رَبِّكَ، مُسْتَقْبِلًا بِبُطُونِهِمَا وَجْهَكَ، وَتَقُولُ: ‌يَا ‌رَبِّ ‌يَا ‌رَبِّ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهُوَ كَذَا وَكَذَا۔

ترجمہ:

حضرت فضل بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نماز دو دو رکعت ہے اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے، نماز خشوع و خضوع، مسکنت اور گریہ وزاری کا اظہار ہے، اور تم اپنے دونوں ہاتھ اٹھاؤ۔ یعنی تم اپنے دونوں ہاتھ اپنے رب کے سامنے اٹھاؤ اس حال میں کہ ہتھیلیاں تمہارے منہ کی طرف ہوں اور کہہ: یا رب! یا رب! اور جس نے ایسا نہیں کیا وہ ایسا ایسا ہے۔

[سنن الترمذي:385، السنن الكبرى-النسائي:618-1444، الزهد والرقائق - ابن المبارك:1152، مسند ابن المبارك:53، مسند أحمد:1799-17525، مسند البزار:2169، مسند أبي يعلى:6738، صحيح ابن خزيمة:1213، المعجم الكبير للطبراني:757، المعجم الأوسط للطبراني:8632، الدعاء - الطبراني:210، السنن الكبرى - البيهقي:4577, ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:954]

(دوسری روایت میں ہے)

عَنِ الْمُطَّلِبِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي وَدَاعَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، وَتَشَهَّدُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَتَبَاءَسُ ‌وَتَمَسْكَنُ ‌وَتُقْنِعُ، وَتَقُولُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهِيَ خِدَاجٌ۔

ترجمہ:

حضرت مطلب بن ابی وداعہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے، اور اللہ کے سامنے اپنی محتاجی و مسکینی ظاہر کرنا، اور  دعا مانگنا، اور کہنا ہے کہ اے اللہ! مجھ کو بخش دے۔ جو کوئی ایسا نہ کرے (یعنی اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ ظاہر نہ کرے تو) اس کی نماز ناقص ہے۔

[سنن ابن ماجه:1325]





عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَن ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَهُ بَعْدَ مَا سَلَّمَ وَهُوَ مُسْتَقْبِلٌ الْقِبْلَةَ، فَقَالَ: ‌اللَّهُمَّ ‌خَلِّصِ ‌الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَضَعَفَةَ الْمُسْلِمِينَ الَّذِينَ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلا مِنْ أَيْدِي الْكُفَّارِ۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرنے کے بعد قبلے کی طرف منہ کئے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی: اے اللہ! ولید بن ولید کو عیاش بن ابو ربیعہ کو، سلمہ بن ہشام کو اور تمام ناتواں بےطاقت مسلمانوں کو اور جو بےحیلے کی طاقت رکھتے ہیں نہ راہ پانے کی کافروں کے ہاتھوں سے نجات دے۔
[تفسير ابن أبي حاتم:5872، تفسير ابن كثير:2/ 345]
تفسیر ابن جریر میں ہے:
كَانَ يَدْعُو فِي ‌دُبُرِ ‌صَلَاةِ ‌الظُّهْرِ
آپ ﷺ ظہر کی نماز کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے۔
[تفسير الطبري:10275، مسند أحمد:9285]
امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
وَلِهَذَا الْحَدِيثِ شَاهِدٌ فِي الصَّحِيحِ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ كَمَا تَقَدَّمَ
اس حدیث کے شواہد صحیح میں بھی اس سند کے سوا اور سندوں میں بھی ہیں کہ جیسے کہ پہلے گذرا۔
[تفسير ابن كثير - ت السلامة : 2/ 309، تفسير ابن كثير - ط العلمية: 2/ 345]
[تحفة الأحوذي-عبد الرحمن المباركفوري: 2/ 170]




جماعت کے بعد کی خاص دعائیں:
(1)عَنِ ‌الْبَرَاءِ قَالَ: « كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْبَبْنَا أَنْ نَكُونَ عَنْ يَمِينِهِ يُقْبِلُ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ. قَالَ: فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: ‌رَبِّ ‌قِنِي ‌عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ - أَوْ تَجْمَعُ - عِبَادَكَ .»
ترجمہ:

حضرت براءؓ فرماتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو ہم آپ ﷺ کے دائیں طرف ہونے کو پسند کرتے تھے تاکہ آپ ﷺ ہماری طرف رخ کر کے متوجہ ہوں، حضرت براءؓ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
اے پروردگار! مجھے اس دن کے عذاب سے بچانا جس دن تو اپنے بندوں کو اٹھائے - جمع فرمائے گا۔
[صحيح مسلم:709(1642)، صحيح ابن خزيمة:1563+1565]




(2)عَنْ ‌ثَوْبَانَ قَالَ: « كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا، وَقَالَ: «اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ، وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الجَلَالِ وَالإِكْرَامِ»۔

ترجمہ:

حضرت ثوبانؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز سے جب فارغ ہوتے تو تین مرتبہ استغفار کرتے اور پھر کہتے:

اے اللہ! تو ہی سلام ہے، اور تجھ سے ہی تمام کی سلامتی ہے، تو بڑی برکت والا ہے، جلال اور بزرگی والا ہے۔

[صحيح مسلم:591، سنن ابن ماجه:928، سنن أبي داود:1513، سنن الترمذي:300، سنن النسائي:1337]


عَنِ ‌ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: «كَانَ يَقُولُ إِذَا سَلَّمَ: اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ، وَمِنْكَ السَّلَامُ، ‌تَبَارَكْتَ ‌يَا ‌ذَا ‌الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ»

ترجمہ:

حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ جب سلام پھیرتے تو آپ کہتے تھےاے اللہ! تو ہی سلام ہے، اور تجھ سے ہی تمام کی سلامتی ہے، تو بڑی برکت والا ہے، اے جلال اور بزرگی والے۔

[مسند أبي داود الطيالسي:371]

محمد فواد عبدالباقی نے وضاحت کی:

[(لم يقعد إلا مقدار) الظاهر أن المراد لم يقعد على هيئته إلا هذا المقدار ثم ينصرف عن جهة القبلة. وإلا فقد جاء أنه كان يقعد بعد صلاة الفجر إلى أن تطلع الشمس. وغير ذلك]

ترجمہ:

(وہ اس مقدار کے علاوہ نہیں بیٹھے) سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اس مقدار کے علاوہ اپنی حالت میں نہیں بیٹھتے، پھر قبلہ کی سمت سے منہ پھیر لیتے۔ ورنہ یہ آیا کہ آپ نماز فجر کے بعد سورج نکلنے تک بیٹھے رہتے وغیرہ]








ہر (فرض ونفل) نماز کے بعد کی خاص دعائیں:

(3)عَنْ وَرَّاد كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمْلَى عَلَيَّ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فِي كِتَابٍ إِلَى مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ، ‏‏‏‏‏‏لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ۔

ترجمہ:

حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے، انھوں نے حضرت امیر معاویہؓ کو خط لکھا کہ نبی ﷺ ہر فرض نماز کے بعد پڑھتے تھے:

اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے۔ اور وہ ہر بات پر قادر ہے۔ اے اللہ ! تیری عطا کو کوئی روکنے والا نہیں اور تیری روکی ہوئی چیز کو کوئی عطا کرنے والا نہیں اور کسی دولت مند کو اس کی تونگری تیرے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔

[صحيح البخاري:844، صحيح ابن خزيمة:742]






(4)حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، ثنا أَبُو الْمُهَلَّبِ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: مَا دَنَوْتُ مِنْ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ، أَوْ تَطَوُّعٍ إِلَّا سَمِعْتُهُ يَدْعُو بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ الدَّعَوَاتِ، لَا يَزِيدُ فِيهِنَّ وَلَا يَنْقُصُ مِنْهُنَّ: «اللهُمَّ، اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَخَطَايَايَ، اللهُمَّ ‌أَنْعِشْنِي، وَاجْبِرْنِي، وَاهْدِنِي لِصَالِحِ الْأَعْمَالِ وَالْأَخْلَاقِ، فَإِنَّهُ لَا يَهْدِي لِصَالِحِهَا، وَلَا يَصْرِفُ سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ».

ترجمہ:

ہم سے  بیان کیا الحسین بن اسحاق التستری نے کہ، انہوں نے یحییٰ حمانی سے، انہوں نے ابو بکر بن عیاش سے، انہوں نے ابو المحلب سے، انہوں نے عبید اللہ بن زحر سے، انہوں نے علی بن یزید سے، انہوں نے القاسم سے، وہ حضرت ابو امامہؓ سے، انہوں نے کہا: میں جب کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ کو فرض اور نفل نماز کے بعد ان کلمات سے دعا مانگتے ہوئے سنتا، آپ نے نہ ان میں کوئی اضافہ کیا اور نہ ہی ان میں کوئی کمی کیاے اللہ! میری خطاؤں اور گناہوں کو بخش دے، اے اللہ! مجھے سرگرم رکھ ، اور مجھے مجبور (سیدھا) رکھ ، اور مجھے اچھے اعمال اور اخلاق کی ہدایت دے، کیونکہ کوئی ہدایت نہیں کرتا بھلائی کی، اور نہیں پھیرتا کوئی برائی سے سوائے تیرے۔"

[المعجم الكبير للطبراني:7811(7893)، عمل اليوم والليلة لابن السني:116، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:1191، التدوين في أخبار قزوين:3/ 252، الأذكار للنووي:194، زاد المعاد-ابن القيم:1/ 348، مجمع الزوائد:16982، صحيح الجامع الصغير:1266]

نوٹ:

آپ ﷺ نے نہ ان(کلمات)میں کوئی اضافہ کیا اور نہ کمی کی ۔۔۔

اس جملہ کا مطلب اس دعائیہ کلمات میں کمی بیشی ہوسکتی ہے یا اس وقت کی دعا میں اتنی ہی مختصر دعا کرنا ہوسکتا ہے۔


جبکہ دوسری روایت میں یہ الفاظ نہیں۔


حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، نَا أَبُو إِسْمَاعِيلَ التِّرْمِذِيُّ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، نَا عُمَرُ بْنُ مِسْكِينٍ، مِنْ وَلَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ؛ قَالَ: مَا صليت وراء نيبكم صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا سَمِعْتُهُ {حِينَ يَنْصَرِفُ} يَقُولُ: «اللهُمَّ! اغْفِرْ لِي خَطَايَايَ وَذُنُوبِي كُلَّهَا؛ اللهُمَّ! ‌انْعِشْنِي وَاجْبُرْنِي وَاهْدِنِي لِصَالِحِ الْأَعْمَالِ وَالْأَخْلاقِ، إِنَّهُ لا يَهْدِي لِصَالِحِهَا وَلا يَصْرِفُ سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ»

ترجمہ:

ہم سے حدیث بیان کی احمد نے کہ، ہم سے بیان کیا ابو اسماعیل ترمذی نے کہ، ہم سے حدیث کیا محمد بن الصلت نے کہ، ہم سے بیان کیا عمر بن مسکین نے کہ، انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بیٹوں سے، وہ نافع سے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے، وہ حضرت ابو ایوب الانصاریؓ سے؛ انہوں نے کہا کہ: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز نہیں پڑھی لیکن میں نے (ہر نماز میں) آپ کو یہ کہتے سنا {جب منہ پھیرتے} کہ: "اے اللہ! بخش فرما میری خطائیں اور گناہ سب کے سب، اے اللہ! مجھے تروتازہ (سرگرم) فرما، اور مجھے مجبور کر(سیدھا رکھ) ، اور مجھے ہدایت دے اچھے اعمال اور اخلاق کی، کیونکہ نہیں کرتا ہدایت نیکی کی اور نہیں پھیرتا برائی سے سوائے تیرے۔"

[المجالسة وجواهر العلم:1447، مجموع فيه مصنفات أبي جعفر ابن البختري:174، المشيخة الكبرى - قاضي المارستان:630، ربيع الأبرار ونصوص الأخيار-الزمخشري:113- {المعجم الصغير للطبراني:610، المخلصيات:1868}]

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُهُ وُثِّقُوا.

[مجمع الزوائد:17366]




جماعت کے بعد اجتماعی دعا:

(5)عن أنسٍ قَالَ: ما صلَّى بنا رسولُ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم- صلاةً مكتوبةً قط، إلا قَالَ حين أقبلَ عَلَينا بوجْهِهِاللَّهمَّ إِنِّي أعوذُ بكَ من كلِّ عَملٍ يخزينِي، وأعوذُ بِكَ من كلِّ صاحبٍ يؤذيني، وأعوذُ بِكَ من كلِّ أملٍ يلهِينِي، وأعوذُ بِكَ من كلِّ فقرٍ ‌يُنْسِينِي، وأعوذُ بِكَ من كلِّ غِنًى يُطغِينِي"

ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ آپ  نے کبھی فرض نماز کے بعد اس دعاء کو ترک نہیں فرمایا جب آپ ہماری طرف منہ کرتے:
اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں رسوا کرنے والے ہر عمل سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں تکلیف پہنچانے والے ہر ساتھی سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں غفلت میں رکھنے والی ہر امید سے، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں بھلادینے والے ہر فقر وفاقہ سے ، اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں میں سرکشی میں ڈال دینے والی ہر مالداری سے۔

[مختصر زوائد مسند البزار:2116، نسخة طالوت بن عباد:61، عمل اليوم والليلة لابن السني:120، كشف الأستار عن زوائد البزار:3102]




(6)حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرِّفَاعِيُّ الْأَصَمُّ، عَنِ الْجَعْدِ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ: صَلَّى أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ فِي مَسْجِدِ بَنِي رِفَاعَةَ هَا هُنَا، فَأَمَرَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَصَلَّى بِهِمُ الصُّبْحَ، فَلَمَّا أَنْ فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ أَقْبَلَ عَلَى الْقَوْمِ فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ أَقْبَلَ عَلَى الْقَوْمِ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَمَلٍ يُخْزِينِي، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ غِنًى يُطْغِينِي، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ صَاحِبٍ يُرْدِينِي، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ أَمْرٍ{أمل} يُلْهِينِي، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فَقْرٍ ‌يُنْسِينِي»
ترجمہ:
ہم سے شیبان بن فرخ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عقبہ بن عبداللہ الرفاعی الاعصام نے بیان کیا، انہوں نے الجعد ابی عثمان کی سند سے، انہوں نے کہا: حضرت انس بن مالکؓ نے یہاں بنی رفاعہ کی مسجد میں نماز پڑھی، تو انہوں نے حکم فرمایا اپنے ساتھیوں کو کہ اذان دی جائے، آپ نے ان کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی، پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اپنے اصحاب کو آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے: اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس عمل سے جو مجھے رسوا کرے، اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس مالداری سے جو مجھے سرکش بنادئے، اے اللہ! میں اس دوست سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو میرا انکار کرے، اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس معاملہ{امید} سے جو مجھے پریشان کر دے، اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غربت وبھوک سے جو مجھے بھلا دے۔
[مسند أبي يعلى:4352، الدعاء - الطبراني:657، المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي:1656 {الفردوس بمأثور الخطاب-الديلمي:1878}]








ہر (فرض ونفل) نماز کے بعد کا مطلب:- جب سلام پھیرتے۔

(7)عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الزُّبَيْرِ يَقُولُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ حِينَ يُسَلِّمُ: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ. لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِيَّاهُ، لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ. لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ۔ " قَالَ: " وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهَلِّلُ بِهِنَّ دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ "۔

ترجمہ:

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے كہ وه ہر نماز کے بعد، جس وقت سلام پھیرتے، یہ پڑھتے:

اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کے ليے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قدرت صرف اللہ کی توفیق سے ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں، ہر نعمت کا مالک وہی ہے اور سارا فضل اسی کی ملکیت ہے اور اسی کے لیے بہترين تعريف ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، ہم خالص اسی کی عبادت کرنے والے ہیں اگرچہ کافر ناپسند کریں۔ 

اور فرماتے تھے کہ نبی ﷺ بھی ہر نماز کے بعد یہ کلمات کہا کرتے تھے۔

[مسند أحمد:16105، صحيح مسلم:594، سنن النسائي:1340]


عن عبد الله بن الزُّبيرِ، قال: كان رسولُ الله صلى الله عليه وسلم يقولُ عندَ انقضاءِ صلاتِه قبل أن يقومَ

ترجمہ:

حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ: رسول اللہ ﷺ نماز کے آخر میں اٹھنے سے پہلے یہ دعا فرماتے تھے۔

[صحيح ابن خزيمة:741، المعجم الكبير للطبراني:309]


كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا سَلَّمَ مَنْ صَلَاتِهِ، يَقُولُ بِصَوْتِهِ الْأَعْلَى۔

ترجمہ:

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز سے جب سلام پھیرتے تو اپنی بلند آواز سے کہتے۔

[مسند الشافعي - ترتيب سنجر:267، - ترتيب السندي:288، معرفة السنن والآثار-البيهقي:3893، شرح السنة للبغوي:716، الأنوار في شمائل النبي المختار-البغوي:558، مصابيح السنة-البغوي:684]


مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے امام، مقتدی اور منفرد سب کے لیے فرض نماز کے بعد دعا کا سنت ہونا ثابت ہوتا ہے اور جب ان سب کے لیے یہ دعا سنت ہے، تو فرائض کے بعد امام اور مقتدی جب اس سنت پر عمل کرتے ہوئے دعا کریں گے، تو خود بخود اجتماع کی کیفیت بن جائے گی، لیکن یہ اجتماع ایک ضمنی چیز ہے اور جائز ہے، بذات خود مقصود نہیں ہے، اس کے لیے الگ سے صریح اور مستقل دلیل طلب کرنا اور دلیل نہ ملنے پر اس کو بدعت قرار دینا، درست نہیں ہے۔






(8)عَنْ ‌مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِهِ، وَقَالَ: يَا مُعَاذُ، وَاللهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، فَقَالَ: أُوصِيكَ يَا مُعَاذُ لَا تَدَعَنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ تَقُولُ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ»

ترجمہ:

حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: اے معاذ! میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد اس دعا کو پڑھنا نہ چھوڑنا:

اے اللہ! میری مدد کر اپنے ذکر و شکر کرنے پر اور اچھی طرح عبادت کرنے پر۔

[سنن أبي داود:1522، صحيح ابن خزيمة:751، صحيح ابن حبان:492+1776]






(9)حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا الْبَرَاءُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْغَنَوِيُّ، مِنْ أَنْفُسِهِمْ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَضْرَةَ، يُحَدِّثُ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ، عَلَى هَذَا الْمِنْبَرِ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ دُبُرَ كُلِّ صَلاةٍ مِنْ أَرْبَعٍ، يَقُولُ: " اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الفِتَنِ، مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْأَعْوَرِ الْكَذَّابِ۔

ترجمہ:

ابو نضرہؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباسؓ (جامع بصرہ کے) منبر پر رونق افروز تھے، میں نے انھیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ ہر نماز کے بعد چار چیزوں سے پناہ مانگتے تھے اور فرماتے تھے کہ:

اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں عذاب قبر سے، اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں عذاب جہنم سے، اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ظاہری اور باطنی فتنوں سے، اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کانے دجال کے فتنے سے  جو بہت بڑا کذاب ہوگا۔

[مسند أحمد:2778(2779)]




(10)حضرت سعد بن ابی وقاص اپنے بیٹوں کو یہ کلمات اس طرح سکھاتے تھے، جس طرح معلم لوگوں کو کتابت سکھاتے ہیں اور کہتے جاتے تھے، کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے بعد ان کو پڑھا کرتے تھے، وہ کلمات یہ ہیں:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ ‌أُرَدَّ ‌إِلَى ‌أَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ.

ترجمہ:

اے اللہ ! بزدلی سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں ‘ اس سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ عمر کے سب سے ذلیل حصے (بڑھاپے) میں پہنچا دیا جاؤں اور تیری پناہ مانگتا ہوں میں دنیا کے فتنوں سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے۔ 

[صحيح البخاري:2822، سنن النسائي:5447، صحيح ابن خزيمة:746]



(11) عَنْ ‌جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يُشِيرُ بِإِصْبَعِهِ فِي الصَّلَاةِ فَلَمَّا سَلَّمَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ مَا عَلِمْتُ مِنْهُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ»

ترجمہ:

حضرت جابر بن سمرہؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نماز میں انگلی سے اشارہ کر رہے ہیں، پھر جب سلام پھیرا تو میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

اے اللہ! تجھ سے ہر اس بھلائی کا سوال کرتا ہوں جو میں اس میں سے جانتا ہوں اور جو میں نہیں جانتا، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں ہر اس برائی سے جو میں اس میں سے جانتا ہوں اور جو میں نہیں جانتا۔

[مسند أبي داود الطيالسي:822، المعجم الكبير للطبراني:2058]




(12)حدثنا ابن فضيل عن الأعمش عن عمير بن (سعيد) قال: كان عبد اللَّه يعلمنا التشهد في الصلاة ثم يقول: إذا فرغ أحدكم من التشهد في الصلاة فليقل: اللهم (إني) أسألك من الخير كله ما علمت منه وما لم أعلم، وأعوذ بك من الشر كله ما علمت منه وما لم أعلم، اللهم إني أسالك من خير ما سألك (‌منه) ‌عبادك ‌الصالحون، وأعوذ بك من شر ما عاذ ‌منه ‌عبادك ‌الصالحون. ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار، ربنا (إننا) آمنا فاغفر لنا ذنوبنا وكفر عنا سيئاتنا وتوفنا مع الأبرار، (ربنا) وآتنا ما وعدتنا على رسلك، ولا تخزنا يوم القيامة إنك لا تخلف الميعاد۔

ترجمہ:

ہم سے حدیث بیان کی ابن فضیل نے، وہ الاعمش سے، وہ عمیر بن سعید سے، انہوں نے کہا کہ حضرت عبداللہ(بن مسعودؓ) ہمیں نماز میں تشہد سکھاتے تھے، پھر کہتے: جب تم میں سے کوئی نماز میں تشہد سے فارغ ہو جائے تو کہو: اے اللہ! میں تجھ سے ہر ساری بھلائیوں کا سوال کرتا ہوں جو میں جانتا ہوں اور جو میں نہیں جانتا، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں تمام برائیوں سے جو میں جانتا ہوں اور جو میں نہیں جانتا، اے اللہ! میں تجھ سے اس چیز کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں جو تیرے نیک بندوں نے تجھ سے مانگی ہے اور میں اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس سے تیرے نیک بندے پناہ مانگتے ہیں۔ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا، اے ہمارے رب! ہم سلامت ہیں تو ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری برائیوں کا کفارہ دے، (اے ہمارے رب!) نیک لوگوں کے ساتھ موت دے اور ہمیں وہ دے جو تو نے ہم سے اپنے رسولوں سے وعدہ کیا تھا اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کرنا بےشک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

[المصنف - ابن أبي شيبة:3054(3025)]

[المعجم الكبير للطبراني:9941]




(13) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔۔۔۔ وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، ‌إِذَا ‌صَلَّيْتَ فَقُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ ‌فِعْلَ ‌الخَيْرَاتِ، ‌وَتَرْكَ ‌المُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ المَسَاكِينِ، وَإِذَا أَرَدْتَ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ۔

{وَأَسْأَلُكَ حُبَّكَ ‌وَحُبَّ ‌مَنْ ‌يُحِبُّكَ وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُنِي إِلَى حُبِّكَ۔}

ترجمہ:

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ۔۔۔۔ اور (میرے رب نے) کہا: اے محمد! جب تم نماز پڑھ چکو تو کہو: اے اللہ میں تجھ سے بھلے کام کرنے کی توفیق طلب کرتا ہوں، اور ناپسندیدہ و منکر کاموں سے بچنا چاہتا ہوں اور مسکینوں سے محبت کرنا چاہتا ہوں، اور جب تو اپنے بندوں کو کسی آزمائش میں ڈالنا چاہیئے تو فتنے میں ڈالے جانے سے پہلے مجھے اپنے پاس بلا لے۔

{میں تجھ سے اور اس شخص سے جو تجھ سے محبت کرتا ہو، محبت کرنے کی توفیق طلب کرتا ہوں، اور تجھ سے ایسے کام کرنے کی توفیق چاہتا ہوں جو کام تیری محبت کے حصول کا سبب بنے.}

[سنن الترمذي:3233، مسند أحمد:3484، المنتخب من مسند عبد بن حميد:682، رؤية الله للدارقطني:245، الصحيحة: 3169]

{سنن الترمذي:3235، مسند أحمد:22109، مسند البزار:4172-5385، مسند الروياني:656، التوحيد لابن خزيمة:57-58، المعجم الكبير للطبراني:290، رؤية الله للدارقطني:227-253-254، المستدرك على الصحيحين للحاكم:1913-1932، شرح السنة للبغوي:925}




(14)نا إِسْحَاقُ بْنُ خَلْدُونَ الْبَالِسِيُّ، نا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، نا خُصَيْفٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ عَبْدِ يَبْسُطُ كَفَّيْهِ فِي دُبُرِ صَلَاتِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: ‌اللَّهُمَّ ‌إِلَهِي ‌إِلَهَ إِبْرَاهِيمَ، وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ، إِلَهَ جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ، أَسْأَلُكَ أَنْ تَسْتَجِيبَ دَعْوَتِي، فَإِنِّي مُضْطَرٌّ، وَتَعْصِمَنِي فِي دِينِي فَإِنِّي مُبْتَلًى، وَتَنَالَنِي بِرَحْمَتِكَ، فَإِنِّي مُذْنِبٌ، وَتَنْفِيَ عَنِّي الْفَقْرَ فَإِنِّي مُسْتَمْسِكٌ{مُتَمَسْكِنٌ} إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يَرُدَّ يَدَيْهِ خَائِبَتَيْنِ۔

ترجمہ:

ہم سے بیان کیا اسحاق بن خلدون البلسی نے کہ، ہم سے بیان کیا عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن نے کہ، ہم سے بیان کیا خصیف نے حضرت انس بن مالکؓ سے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ، آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جو اپنی ہتھیلیوں کو پھیلائے اپنی نماز کے بعد، پھر کہے: اے اللہ! میرے خدا، ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کے خدا، جبرائیل اور میکائیل اور اسرافیل کے خدا، میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ میری دعا کو قبول فرما کیونکہ میں مجبور ہوں، اور میرے دین میں میری حفاظت فرما کیونکہ میں آزمائش میں مبتلا ہوں، اور مجھے اپنی رحمت سے گھیر دے کیونکہ میں گناہگار ہوں، اور میرے فقر وفاقہ (بھوک وغربت) کو دور فرما کہ میں پکڑا ہوا(مسکین)ہوں۔

مگر اللہ پر حق ہوتا ہے کہ وہ اس کے ہاتھوں کو مایوس نہ لوٹائے۔

[معجم ابن الأعرابي:1204 {عمل اليوم والليلة لابن السني:138، زهر الفردوس:598، تحفة الأحوذي:2/ 171} تاريخ دمشق لابن عساكر:16 /383(1963)، الموسوعة الحديثية:1101]

اس حدیث میں ہر نماز کے بعد صراحت کے ساتھ ہاتھ اٹھاکر دعا کرنے کا ذکر موجود ہے، اس لیے نماز کے بعد مُناجات(دعا,التجا) میں رفع یدین کیا جائے تو درست ہے۔



(15)عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ مَقَامِي بَيْنَ كَتِفَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ إِذَا سَلَّمَ قَالَ: «اللهم ‌اجعل ‌خير ‌عمري آخره، اللهم اجعل خواتيم عملي رضوانك، اللهم اجعل خير أيامى يوم ألقاك».

ترجمہ:

حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میرا ٹھکانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان تھا، پھر جب آپ سلام پھیرتے تو کہتے: اے اللہ! کردے بہترین میری آخری عمر کو، اے اللہ! بنادے میرے عمل کا اختتام اپنی رضا، اے اللہ! بنادے بہترین میرا دن جب میری آپ سے ملاقات ہو۔

[المعجم الأوسط للطبراني:9411]


دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ مَقَامِي بَيْنَ كَتِفَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قُبِضَ، فَكَانَ يَقُولُ إِذَا انْصَرَفَ مِنَ الصَّلَاةِ: «اللَّهُمَّ ‌اجْعَلْ ‌خَيْرَ ‌عُمْرِي آخِرَهُ، وَخَيْرَ عَمَلِي خَوَاتِمَهُ، وَاجْعَلْ خَيْرَ أَيَّامِي يَوْمَ أَلْقَاكَ»

ترجمہ:

حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میرا ٹھکانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان تھا، جب تک کہ آپ (کی روح مبارک) کو قبض کیا گیا، تو آپ کہتے جب منہ پھیرتے نماز سے کہ:  اے اللہ! میری آخری عمر کو بہترین فرما، اور میرا خاتمہ بالخیر فرما، اور میرے بہترین دن وہ فرما جو تیرے ساتھ ملاقات کے ہوں۔

[عمل اليوم والليلة لابن السني:121، الأذكار للنووي:196]

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَفِيهِ أَبُو مَالِكٍ النَّخَعِيُّ، وَهُوَ ضَعِيفٌ۔

[مجمع الزوائد:16974]




(16)حضرت ابو امامہؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:

"إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَاسْتُجِيبَ الدُّعَاءُ، فَإِذَا انْصَرَفَ الْمُنْصَرِفُ مِنَ الصَّلَاةِ، وَلَمْ يَقُلْ: اللهُمَّ أْجِرْنِي مِنَ النَّارِ، وأَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ، ‌وَزَوِّجْنِي ‌مِنَ ‌الْحُورِ الْعِينِ، قَالَتِ النَّارُ: يَا وَيْحَ هَذَا، أَعَجَزَ أَنْ يَسْتَجِيرَ اللهَ مِنْ جَهَنَّمَ؟ وَقَالَتِ الْجَنَّةُ: يَا وَيْحَ هَذَا، أَعَجَزَ أَنْ يَسْأَلَ اللهُ الْجَنَّةَ؟ وَقَالَتِ الْحُورُ الْعَيْنِ: يَا وَيْحَ هَذَا أَعَجَزَ أَنْ يَسْأَلَ اللهَ أَنْ يُزَوِّجَهُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ".
ترجمہ:
جب نماز قائم کی جاتی ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور دعا قبول کی جاتی ہے، اور جب منہ پھیرنے والا(نمازی سلام کے وقت) منہ پھیرتا ہے اور یہ نہیں کہتا : "اے اللہ! مجھے دوزخ سے نجات عطا فرما، اور مجھے جنت میں داخل فرما، اور مجھے حورعین سے بیاہ دے"، تو فرشتے کہتے ہیں: افسوس! کیا یہ شخص بے بس ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے دوزخ سے پناہ طلب کرے، اور جنت کہتی ہے: افسوس! کیا یہ شخص عاجز ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جنت مانگے، اور حور کہتی ہے : یہ شخص عاجز آگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کرکے وہ اس کی حورعین سے شادی کردے۔
[المعجم الكبير للطبراني:7496، مسند الشاميين للطبراني:1601، موجبات الجنة لابن الفاخر:54]



(17)حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ يَزِيدَ التَّغْلِبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ إِذَا فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ«اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ الْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْفَوْزَ بِالْجَنَّةِ وَالْجَوَازَ مِنَ النَّارِ، اللَّهُمَّ لَا تَدَعْ لَنَا ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ، وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ، وَلَا حَاجَةً إِلَّا قَضَيْتَهَا»

ترجمہ:

حضرت حصین بن یزید ثعلبی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نماز سے جب فارغ ہوتے تو یہ کلمات کہا کرتے تھے:

اے اللہ! میں تجھ سے ان اعمال کا سوال کرتا ہوں جو تیری رحمت کو واجب کرنے والے ہیں، میں تجھ سے تیری مغفرت کے اسباب کا سوال کرتا ہوں، میں تجھ سے ہرنی کی کی توفیق اور ہر گناہ سے سلامتی کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے جنت کی کامیابی اور جہنم سے پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ! میرے ہر گناہ کو دور کردے اور میری ہر پریشانی کو دور کرے اور میری ہر ضرورت کو پورا کردے۔

[المصنف - ابن أبي شيبة - ت الشثري:3127+31509]

[المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت » کتاب: نماز کا بیان » باب: آدمی سلام پھیرنے کے بعد کیا کہے؟ حدیث نمبر: 3098+29532]



(18)حَدَّثَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَضَمَّهُمَا، وَقَالَ: «رَبِّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ، وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ، وَمَا أَعْلَنْتُ، وَمَا أَسْرَفْتُ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلَهَ ‌إِلَّا ‌أَنْتَ، لَكَ الْمُلْكُ، وَلَكَ الْحَمْدُ»

ترجمہ:

حضرت علقمہ بن مرثد اور اسماعیل بن امیہ نے مجھ سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تھے تو آپ ہاتھ اٹھاتے اور ان دونوں(اپنے ہاتھوں)کو ملاتے اور کہتے: «اے میرے رب! مجھے معاف کر دے میں نے جو کچھ کیا اور جو کچھ میں نے کیا۔ تاخیر کی ہے، اور جو میں نے نازل کیا ہے، اور جو میں نے اعلان کیا ہے، اور جو میں نے اسراف کیا ہے، اور جو تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو»۔

[الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي : 1154]


اور حضرت علی﷽ سے روایت ہے کہ

وَإِذَا سَلَّمَ قَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ‌مَا ‌قَدَّمْتُ ‌وَمَا ‌أَخَّرْتُ، وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ»

ترجمہ:

اور جب آپ سلام کرتے تو کہتے: اے اللہ! مجھے بخش دے جو میں نے کیا اور جو میں نے تاخیر کی اور جو میں نے اعلان کیا اور جو میں نے چھپایا اور جو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔

[مسند أبي داود الطيالسي:147، مسند أحمد:729+803، صحيح مسلم:771، سنن أبي داود:760+1509، سنن الترمذي:3421+3422+3423، صحيح ابن خزيمة:723+743، صحيح ابن حبان: التقاسيم والأنواع:6617+6633]






(19)حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي هَارُونَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ مَرَّةٍ يَقُولُ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ عِنْدَ انْصِرَافِهِ«سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ، وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلَينَ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ»

ترجمہ:

حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی پاک ﷺ کو اپنی نماز کے آخر میں فارغ ہوتے تو کئی مرتبہ یہ کہتے سنا ہے:

تمہارا رب پاک ہے جو کہ عزت والا اور کافروں کے شرک سے پاک ہے اور تمام رسولوں پر سلامتی ہو اور تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔

[مصنف ابن أبي شيبة » کتاب: نماز کا بیان » باب: آدمی سلام پھیرنے کے بعد کیا کہے؟ حدیث نمبر: 3097]

(طیالسی ۲۱۹۸۔ ابو یعلی ۱۱۱۸)

[مصنف عبد الرزاق الصنعاني:3196]

[معجم ابن الأعرابي:1487]






(20)حَدَّثَنِي ابْنُ هُبَيْرَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ مَسْلَمَةَ الْفِهْرِيُّ وَكَانَ مُسْتَجَابًا أَنَّهُ أُمِّرَ عَلَى جَيْشٍ فَدَرَّبَ الدُّرُوبَ، فَلَمَّا لَقِيَ الْعَدُوَّ قَالَ لِلنَّاسِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «‌لَا ‌يَجْتَمِعُ ‌مَلَأٌ ‌فَيَدْعُو ‌بَعْضُهُمْ وَيُؤَمِّنُ سَائِرُهُمْ إِلَّا أَجَابَهُمُ اللهُ» ، ثُمَّ إِنَّهُ حَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ فَقَالَ: اللهُمَّ احْقِنْ دِمَاءَنَا وَاجْعَلْ أُجُورَنَا أُجُورَ الشُّهَدَاءِ، فَبَيْنَا هُمْ عَلَى ذَلِكَ إِذْ نَزَلَ الْهِنْبَاطُ أَمِيرُ الْعَدُوِّ فَدَخَلَ عَلَى حَبِيبٍ سُرَادِقَهُ. قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ: «الْهِنْبَاطُ بِالرُّومِيَّةِ صَاحِبُ الْجَيْشِ»
ترجمہ:
حضرت ابن ہیبرہ فرماتے ہیں کہ حضرت حبیب بن مسلمہ الفہریؓ مستجاب الدعوت تھے، ان کو ایک لشکر کا امیر مقرر کیا گیا، جب دشمن سے لڑے تو لوگوں سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو لوگ جمع ہوکر دعا کرتے ہیں اور دوسرے سارے لوگ آمین کہتے ہیں، تو اللہ عزوجل ان کی دعا قبول کرتا ہے۔ پھر (حضرت حبیبؓ نے) اللہ کی حمد وثناء کی، عرض کیا: اے اللہ! ہمارے خون محفوظ رکھ! ہمیں شہداء والا ثواب دے۔ ابھی ہم اسی حالت میں تھے کہ اچانک دشمن کے امیر کا لشکر اترا، حضرت حبیبؓ کو زخمی کردیا۔ امام طبرانیؒ فرماتے ہیں: الْهِنْبَاطُ رومی زبان میں لشکر کے سپہ سالار کو کہتے ہیں۔
[المعجم الكبير للطبراني:3536، المستدرك على الصحيحين للحاكم:5478، مجمع الزوائد:17347]



(21)عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: «صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ‌الْفَجْرَ، ‌ثُمَّ ‌أَقْبَلَ ‌عَلَى ‌الْقَوْمِ فَقَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا وَصَاعِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا وَيَمَنِنَا "
ترجمہ:
حضرت عبداللہ ان عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: "اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے شہر میں برکت فرما، اور ہمارے لئے (وزن کے پیمانوں) صاع اور مد میں برکت دے۔ اور ہمارے لئے شام اور یمن (کی تجارتوں) میں برکت دے۔"
[المعجم الأوسط للطبراني:4098، فضائل الشام ودمشق لأبي الحسن الربعي:20، تاريخ الرقة-أبو علي القُشَيْري:145، معجم ابن المقرئ:66، تاريخ دمشق لابن عساكر:1/ 132، جامع الأحاديث-السيوطي:39629، كنز العمال:38230]
ورجاله ثقات
[مجمع الزوائد:5816، صحيح كنوز السنة النبوية: صفحہ139]

مزید دلائل کے لیے ”النفائس المرغوبة في الدعاء بعد المکتوبة “ مؤلفہ حضرت مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کا مطالعہ فرمائیں۔


‌كَانَ ‌مِنْ ‌دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رسول الله ﷺ کی دعاؤں میں:

(1)‌‌«اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى وَالْعِفَّةَ وَالْغِنَى»
[من حديث سفيان الثوري - ت عامر صبري:49]
(2)«اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ»
[الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي:386]
(3)«اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي عَيْنَيْنِ هَطَّالَتَيْنِ تبْكِيَانِ بذُرُوفِ الدُّمُوعِ، وَتَشْفِيَانِي مِنْ خَشْيَتِكَ قَبْلَ أَنْ يَكُونَ الدُّمُوعُ دَمًا، وَالْأَضْرَاسُ جَمْرًا»
[الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي:480، الزهد لأحمد بن حنبل:48, الرقة والبكاء لابن أبي الدنيا:44]
(4)اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، وَإِسْرَافِي، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَالْمُؤَخِّرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ»
[مسند أبي داود الطيالسي:2516، مسند إسحاق بن راهويه:308]
[الأدب المفرد - بأحكام الألباني - ت الزهيري:673، الصحيحة:2944]
(5)«اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، وَمِنْ دُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ»
[المصنف - ابن أبي شيبة - ت الشثري:31084، المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت:29126]
[سنن ابن ماجه:250]
اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَؤُلَاءِ الْأَرْبَعِ
[مسند أحمد:14023]
(6) «اللَّهُمَّ فَالِقَ الْإِصْبَاحِ، وَجَاعِلَ اللَّيْلِ سَكَنًا، وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا، اقْضِ عَنِّي الدَّيْنَ، وَاغْنِنِي مِنَ الْفَقْرِ، وَمَتِّعْنِي بِسَمْعِي وَبَصَرِي، وَقُوَّتِي فِي سَبِيلِكَ»
[المصنف - ابن أبي شيبة - ت الشثري:31154، المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت:29193]
(7)«اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ، وَشُكْرِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ»
[المصنف - ابن أبي شيبة - ت الشثري:31813، المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت:29825]
[الشكر لابن أبي الدنيا:4]
(8)«اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَارِ السُّوءِ فِي دَارِ الْمُقَامِ، فَإِنَّ جَارَ الدُّنْيَا يَتَحَوَّلُ»
[الأدب المفرد - بأحكام الألباني - ت الزهيري:117، الصحيحة:1443]
(9)«اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ، وَفُجَأَةِ نِقْمَتِكَ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ»
[الأدب المفرد - بأحكام الألباني - ت الزهيري:685، صحيح مسلم:2739، سنن أبي داود:1545]
(10)اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ، وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ، وَالعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ، اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَأَهْلِي، وَمِنَ المَاءِ البَارِدِ
[سنن الترمذي:3490]
(11)‌‌«اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ التَّوْفِيقَ لِمَحَابِّكَ مِنَ الْأَعْمَالِ، وَصِدْقَ التَّوَكُّلِ عَلَيْكَ، وَحُسْنَ الظَّنِّ بِكَ»
[التوكل على الله لابن أبي الدنيا:3]
(12)«اللَّهُمَّ أَغْنِنِي بِالْعِلْمِ، وَزَيِّنِّي بِالْحِلْمِ، وَأَكْرِمْنِي بِالتَّقْوَى، وَجَمِّلْنِي بِالْعَافِيَةِ»
[الحلم لابن أ-:بي الدنيا: صفحہ 20]
(13)«اللَّهُمَّ اجْعَلْ أَوْسَعَ رِزْقِكَ عَلَيَّ عِنْدَ كِبَرِ سِنِّي ، وَانْقِطَاعِ عُمْرِي ، وَقُرْبِ أَجَلِي»
[إصلاح المال-ابن أبي الدنيا:152]
(14)«اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ، وَشَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ بَعْدُ»
[السنة لابن أبي عاصم:370]
(15)اللَّهمَّ مَتِّعنِي بسمعِي وبصرِي، واجعلهما الوارثَ منِّي، وانصُرني عَلَى من ظَلَمنِي وأَرِني مِنْهُ ثَأرِي
[مسند البزار:8003، مختصر زوائد مسند البزار:2161]











ترجمہ:

ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا:

(1)علامہ طبرانی رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے ایک روایت ذکر کی ہے کہ  محمد بن یحیی اسلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن  زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا  ، انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ  وہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہا تھا تو جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو  حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے اس وقت تک (دعا کے لیے) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے (لہٰذا تم بھی ایسا ہی کرو)۔

حوالہ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَحْيَى، قَالَ: رَأَيْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ وَرَأَى رَجُلًا رَافِعًا يَدَيْهِ بِدَعَوَاتٍ قَبْلَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاتِهِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْهَا، قَالَ: «إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَرْفَعْ ‌يَدَيْهِ ‌حَتَّى ‌يَفْرُغَ ‌مِنْ ‌صَلَاتِهِ»۔ 

[المعجم الكبير للطبراني:324، الأحاديث المختارة-المقدسي:303]

رجاله ثقات

[مجمع الزوائد:17345، تحفة الأحوذي:2/ 100+171]




(2)حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارا رب حیا والا اور کریم ہے، اپنے بندے سے حیا کرتاہے ، جب وہ اپنے ہاتھوں  کو اس کے سامنے اٹھاتا ہے کہ ان کو خالی واپس لوٹا دے۔

[سنن أبي داود:1488، سنن الترمذي:3556، صحيح ابن حبان:4733]




(3)حضرت مالک بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم اللہ سے دعا کرو تو ہاتھوں  کی ہتھیلیوں سے کرو، ہاتھوں  کی پشت سے نہ کرو۔

[سنن أبي داود:1486، سلسلة الأحاديث الصحيحة:595]



(4)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں  ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں  سے سوال کیا کرو اور ہاتھوں  کی پشت سے نہ کرو ،پس جب دعا سے فارغ ہوجاؤ تو  ہاتھوں  کو اپنے چہرے پر پھیر لو۔

[سنن أبي داود:1485، سلسلة الأحاديث الصحيحة:595]



دعا میں  ہاتھ اٹھانا حضور ﷺ کی عادتِ شریفہ تھی:

(5) حضرت سائب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ جب دعا فرماتے تھے تو اپنے دونوں  ہاتھ مبارک اٹھاتے اور فارغ ہوتے تو ان دونوں  کو اپنے چہرے پر پھیرتے۔

[سنن أبي داود:1492، مسند أحمد:17943، المعجم الكبير للطبراني:631]

اس طرح کی روایات فرض نمازوں کے بعدہاتھ اٹھاکراجتماعی دعاکے ثبوت واستحباب کے لیے کافی ہیں؛ اس لیے نماز کے بعد دعاپر نکیر کرنا یا اسے بدعت کہنا درست نہیں۔ تاہم اسے سنتِ مستمرہ دائمہ کہنا مشکل ہے، اس بنا پر اس کو ضروری اور لازم سمجھ کر کرنا، اور نہ کرنے والوں پر طعن وتشنیع کرنا بھی درست نہیں۔ اور یہ دعا سراً (آہستہ/مخفی آواز سے) افضل ہے، البتہ تعلیم کی غرض سے  کبھی کبھار امام  جہراً بھی دعا کرا سکتا ہے۔

حضرت علامہ محمد انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے "فیض الباری" میں اور محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے کہ فرائض کے بعد موجودہ ہیئت کے مطابق اجتماعی دعا کرنا سنتِ مستمرہ تو نہیں ہے، لیکن اس کی اصل ثابت ہے ؛ اس لیے یہ بدعت  نہیں ہے، اسے بدعت کہنا غلو ہے۔

مزید دلائل کے لیے ”النفائس المرغوبة في الدعاء بعد المکتوبة “ مؤلفہ حضرت مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کا مطالعہ فرمائیں۔




دعا میں چہرے پر ہاتھ پھیرنا:
ثقہ تابعی امام ابو نعیم وہب بن کیسان نے فرمایا: میں نے (سیدنا) ابن عمر اور ابن زبیر (رضی اللہ عنہما ) کو دیکھا، وہ دونوں دعا کرتے، اپنی دونوں ہتھیلیاں (اپنے) چہرے پر پھیرتے تھے۔
[الادب المفرد: 609 وسندہ حسن، میری کتاب: ہدیۃ المسلمین ح 22]

اس روایت پر بعض الناس کی جرح جمہور کی توثیق کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

امام معمربن راشد رحمہ اللہ (متوفی 154ھ) دعا میں سینے تک ہاتھ اُٹھاتے اور پھر اپنے چہرے پر پھیرتے تھے۔
[مصنف عبدالرزاق 3/ 123 ح 5003 وسندہ صحیح]

امام اسحاق بن راہویہ ان احادیث (جن میں چہرے پر ہاتھ پھیرنے کا ذکر ہے) پر عمل کرنا مستحسن سمجھتے تھے۔ 
[مختصر قیام اللیل للمروزی ص 304]

اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی وعلمی مقالات للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
[جلد 4 صفحہ 568]



فرض نماز کے بعد دعا کرنا اور ایسی دعا کا مقبول ہونا احادیث میں وارد ہے جس کا تقاضہ ہے کہ ہرفرض پڑھنے والا اپنی نماز کے بعد دعا کرے اب اگر جماعت سے نماز ادا کی جارہی ہوگی تو ہرایک کے انفراداً دعا کرنے سے اجتماعی ہیئت معلوم ہوگی اس میں مضائقہ نہیں کیونکہ جماعت کی نماز پوری ہوجانے کے بعد امام کے ساتھ مقتدیوں کے اقتداء کا تعلق ختم ہوجاتا ہے، مقتدی اس بات کے پابند نہیں کہ جتنی دیر امام دعا مانگے مقتدی لوگ بھی اس کی اتباع کریں بلکہ مقتدی پہلے بھی ختم کرسکتے ہیں اور امام کے بعد تک بھی مانگ سکتے ہیں۔


اجتماع کو ضروری سمجھنا اور اس کا اہتمام والتزام کرنا بدعت ہوگا، اکابر کے فتاوی ماننے کے تقاضہ سے دعا کا ترک کرنا کہاں لازم آتا ہے، بلکہ ہر شخض انفراداً دعا کرے جس سے اجتماعی ہیئت بن جائے مضائقہ نہیں یہ نکلتا ہے۔

 فقہی جزئیات :

    نماز کے بعد امام کے لیے لوگوں کی طرف منہ کرکے اجتماعی دعا  کرنے کے مستحب ہونے کے متعلق نورالایضاح میں ہے : لا بأس بقراءة الأوراد بين الفريضة والسنة ويستحب للامام بعد سلامه  أن يستقبل بعده الناس ويستغفرون اللہ ثلاثا ويقرءون آية الكرسي   ثم يقولون لا إله إلا اللہ وحده لا شريک له  له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير ، ثم يدعون لأنفسهم وللمسلمين رافعي أيديهم ثم يمسحون بها وجوههم في آخره “ ترجمہ:فرض و سنن کے درمیان اَوْرَاد و وَظائف پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور امام کے لیے مستحب ہے کہ سلام کے بعد  لوگوں کی طرف منہ کرلے اور پھر  سب لوگ  تین بار استغفارکریں اور آیت الکرسی پڑھیں پھر لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير کہیں اور پھر سب مل کر ہاتھ اٹھا کر اپنے لیے اور مسلمانوں کے لیے دعا کریں اور پھر اپنے ہاتھوں کو اپنے چہروں پر پھیر لیں ۔


مذکورہ بالا  عبارت کے تحت  مراقی الفلاح میں ہے :

 يستحب الفصل بينهما كما كان عليه السلام إذا سلم يمكث قدر ما يقول: "اللهم أنت السلام ومنك السلام وإليك يعود السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام" ثم يقوم إلى السنة قال الكمال وهذا هو الذي ثبت عنه صلى اللہ عليه وسلم من الأذكار التي تؤخر عنه السنة ويفصل بينها وبين الفرض 

ترجمہ :

فرض اور سنن کے درمیان فاصلہ کرنا مستحب ہے ،جیسا کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس دعا:( اللهم أنت السلام ومنك السلام وإليك يعود السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام) کی مقدار  وقفہ کیا کرتے تھے، پھر سنتوں کے لیے کھڑے ہوتے تھے ، علامہ کمال علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ یہی وہ اذکار ہیں جو رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے  ثابت ہیں کہ جن کی بنا پر سنتوں میں تاخیر کی جاسکتی ہے اور فرض و سنتوں کے درمیان فاصلہ کیا جائے گا۔

[نورالایضاح مع  مراقی الفلاح ، کتاب الصلوٰۃ ، فصل فی اذکار الواردۃ ، صفحہ 118 ، 119 ، مطبوعہ المکتبۃ العصریۃ]


    علامہ یعقوب بن سیّد علی حنفی  رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات : 931 ھ ) لکھتے ہیں  :

(یغتنم الدعاء بعدالمکتوبۃ ) وقبل السنّۃ علی ما روی عن البقالی  من انّہ قال الافضل  ان یشتغل بالدعاء ثم بالسنّۃ وبعد السنن الاوراد علی ما روی  عن غیرہ  وھو المشھور  المعمول بہ  فی زماننا  کما  لا یخفی  ( فانّہ مستجاب ) بالحدیث  وقد قال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی حدیث رواہ ابن عباس  رضی اللہ عنھما  ( ومن لم یفعل  ذلک فھو خداج )  ای من لم یدع  بعد الصلوات رافعا یدیہ الیٰ ربّہ مستقبلا ببطونھا الی وجھہ  ولم یطلب حاجاتہ قائلا یا ربّ یا ربّ ، فما فعلہ  من الصلوات ناقصۃ عند الحق  سبحانہ 

ترجمہ:

فرض نماز کے بعد  اور سنتوں سے پہلے ، امام دعا میں مشغول ہو ، اس بنا پر جو بقالی سے مروی ہے کہ افضل یہ ہے کہ پہلے دعا کی جائے ، پھر سنتیں پڑھی جائیں اور ان کے علاوہ دیگر کی روایت کے مطابق مسنون اَوْرَادْ پڑھ کر دعا کی جائے ، جیساکہ ہمارے ہاں معمول بھی ہے  ، جو کسی پر مخفی نہیں  اور حدیثِ پاک کے مطابق اس وقت دعا قبول ہوتی ہے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے    ایک حدیث میں ارشاد فرمایا جس کو حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے روایت کیا  کہ جو اس طرح نہ کرے  اس کی نماز ناقص ہے، یعنی نمازوں  کے بعد  ہا تھ اٹھا کر  ، ہتھیلیاں سامنے پھیلا کر اپنی حاجات کے لیے دعا نہ کرے اور یا ربّ یا ربّ نہ پکارے ، اس کی نماز اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نزدیک  ناقص ہے  ۔

[مفاتیح الجنان شرح شرعۃ الاسلام ، کتاب الصلوٰۃ ، باب آداب الصلوٰۃ ، صفحہ 150 ، 151 ، مطبوعہ المکتبۃ الحقیقۃ استنبول ، ترکی]



    نماز کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت کہنے والوں کو جواب دیتے ہوئے شیخ العرب و العجم علامہ ہاشم سندھی ٹھٹھوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1174 ھ ) لکھتے ہیں :

 اگر یہ اعتراض کیا جائے  کہ ائمہ کرام مساجد میں نماز کے بعد  دعا مانگتے ہیں اور مقتدی آمین آمین کہتے ہیں ، جس طرح ابھی دیارِ عرب و عجم میں متعارف ہے  ، یہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا طریقہ نہیں ہے   اور نہ ہی اس باب میں کوئی حدیث مذکور ہے  ،تو میں کہتا ہوں اس اعتراض کے بہت سے جوابات ہیں   : پہلا جواب یہ ہے کہ جس نے  بدعت کا حکم لگایا   وہ  شخص ان احادیث پر مطلع ہی نہیں جو نماز کے بعد  ماثور دعاؤں  کے بارے میں وارد ہیں  ، اس لیے  اس نے کہا  کہ اس باب میں کوئی حدیث مذکور نہیں ۔دوسرا جواب یہ ہے کہ جو شخص نماز کے بعد دعا کو بدعت کہہ رہا ہے ،  بلاشبہ اس کا قول  ہرگز صحیح نہیں ، کیونکہ  یہ قول بہت سی احادیثِ نبویہ اور روایاتِ فقہیہ سےمردود ہے ،  جن کو ہم  (پیچھے) بیان کر آئے ہیں اور وہ احادیث و  روایات ِ فقہیہ اس بات پر دالّ ہیں کہ   فرض نماز کے بعد دعا سنّت ہے ۔تیسرا جواب یہ ہے کہ اگر  معترض کی  یہ مراد ہے کہ  نماز کے بعد اس کیفیت سے دعا مانگنا کہ امام ہاتھ اٹھا کر دعا مانگے اور مقتدی آمین آمین کہیں  ، یہ بدعت ہے  ،تو یہ بھی صحیح نہیں  ، کیونکہ دعا میں ہاتھوں کا اٹھانا سننِ دعا سے ہے اور اسی طرح دعا کے بعد دونوں ہاتھوں کو  منہ  پر پھیرنا   یہ بھی سننِ دعا سے ہے  اور یہ امور سنّتِ مستحبہ مؤکدہ ہیں  اور جو امر  سننِ ماثورہ سے مرکب ہو  اس کے لیے بدعت کا قول درست نہیں ہے ، کیونکہ دعا میں ہاتھوں  کا اٹھانا سننِ دعا سے ہے ،جو احادیثِ نبویہ اور  روایاتِ فقہیہ   سے ثابت ہے ۔‘‘

[التحفة المرغوبة فی افضلية الدعاء بعد المكتوبة   مترجم  ، صفحہ  60 ، 61]

 



احادیث مبارکہ میں فرض نمازوں کے بعد دعا مانگنے کی بڑی فضیلت اور اہمیت بیان ہوئی ہے، اور اس وقت کو دعا کی قبولیت کا وقت بتایا گیا ہے، اور دعا نہ مانگنے پر وعید بھی آئی ہے، چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے :



حضرت فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز دو رکعت ہے۔ ہر دو رکعتوں میں تشہد ہے، خشوع، عاجزی اور مسکینی ہے، اور دونوں ہاتھوں کا اپنے رب کی طرف اٹھانا اس حالت میں کہ تم کہو یا رب رب (اے میرے رب رب) اور جس نے ایسا نہیں کیا وہ ایسا ویسا ہے۔

(سنن الترمذی)



محمد بن یحیی اسلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن  زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ  وہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھائے کررہا ہے، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے تھے اس وقت تک (دعا کے لیے) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ( لہذا تم بھی ایسا ہی کرو)۔

(المعجم الکبیر ، للطبرانی)


مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے امام، مقتدی اور منفرد سب کے لیے فرض نماز کے بعد دعا کا سنت ہونا ثابت ہوتا ہے اور جب ان سب کے لیے یہ دعا سنت ہے، تو فرائض کے بعد امام اور مقتدی جب اس سنت پر عمل کرتے ہوئے دعا کریں گے، تو خود بخود اجتماع کی کیفیت بن جائے گی، لیکن یہ اجتماع ایک ضمنی چیز ہے اور جائز ہے، بذات خود مقصود نہیں ہے، اس کے لیے الگ سے صریح اور مستقل دلیل طلب کرنا اور دلیل نہ ملنے پر اس کو بدعت قرار دینا، درست نہیں ہے۔


خلاصہ یہ کہ فرائض کے بعد اجتماعی دعا کے تمام اجزاء، یعنی دعا، دعا کیلیے دونوں ہاتھ اٹھانا، آمین کہنا اور دعا کے بعد دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرنا، سب احادیث طیبہ سے ثابت ہے، لہذا اس کے مجموعے کو بدعت کہنا درست نہیں ہے۔


البتہ یہ دعا آہستہ اور چپکے چپکے مانگنا افضل ہے؛ کیونکہ قرآن و سنت میں اس کی زیادہ ترغیب دی گئی ہے، لیکن اگر کبھی کبھی امام بلند آواز سے دعا کرے اور مقتدی اس پر آمین کہیں، تو تعلیماً یہ بھی جائز ہے، لیکن واضح رہے کہ فرائض کے بعد کی مذکورہ دعا کا درجہ تفصیلِ بالا کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ سنتِ مستحبہ ہے، لہٰذا اس دعا کو اسی درجہ میں رکھتے ہوئے کرنا چاہیے، بعض لوگ اس دعا کو فرض و واجب کی طرح ضروری سمجھتے ہیں اور اسی درجہ میں اس پر عمل کرتے ہیں، سو اس کا ترک کرنا کبھی کبھار ضروری ہوگا۔


اسی طرح بعض لوگ اس کا التزام کرتے ہیں کہ امام اور مقتدی سب مل کر ہی دعا کریں، ابتداء بھی ساتھ ہو اور انتہاء بھی ساتھ ہو، اس التزام کا ترک کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ اس التزام کا نتیجہ یہ ہے مقتدی حضرات امام کی دعا کا انتظار کرتے رہتے ہیں، کوئی مقتدی امام کی دعا سے پہلے اپنی دعا نہیں کر سکتا، ورنہ لوگ اس پر طعن کرتے ہیں اور اس کے اس عمل کو معیوب سمجھتے ہیں، حالانکہ اوپر لکھا جا چکا ہے کہ اس دعا میں اجتماع اصل مقصود نہیں، بلکہ وہ ایک ضمنی چیز ہے۔


واضح رہے کہ جتنی دیر چاہے امام دعا کرے اور جتنی دیر چاہے مقتدی دعا مانگے، دونوں ایک دوسرے کے تابع نہیں ہیں، مقتدی کو اختیار ہے کہ اپنی مختصر دعا مانگ کر چلا جائے یا چاہے تو امام کے ساتھ دعا ختم کرے یا چاہے تو امام کی دعا سے زیادہ دیر تک دعا کرتا رہے، ہر طرح جائز ہے اور ہر طرح کے فرائض کے بعد یہ سنت مستحبہ ادا ہو جاتی ہے، خلاصہ یہ کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا اگر چہ مستقل سنت نہیں ہے، لیکن اسے بدعت بھی نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ اس کی اصل ثابت ہے۔


(2)سیدہ امّی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔

أَنَّهَا رَأَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو رَافِعًا يَدَيْهِ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي بَشَرٌ۔۔۔

ترجمہ:

انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کرتے ہوئے دیکھا کہ اے اللہ! میں تو بشر ہوں۔۔۔

[مسند احمد:26218]



: 3سیدناعبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ؛ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک نقل فرماتے ہیں:


إذا دَعَوْتَ الله فَادْعُ اللهَ ببطن كَفَّيْكَ ولا تَدْعُ بِظُهُورِهِمَا فإذا فرغتَ فامسحْ بهما وجهَك


جامع الاحادیث: رقم الحدیث 1936


ترجمہ: جب آپ اللہ سے دعا کریں تو اپنی ہتھیلیوں کے اندرونی حصّہ کی طرف سے کریں ،اپنی ہتھیلیوں کی پشت سے نہ کریں اور جب آپ دعا سے فارغ ہو جائیں تو اپنی ہتھیلیوں کو اپنے چہرے پر پھیر لیں۔


مذکورہ تینوں احادیث (اور اسی طرح دیگر احادیث) سے ثابت ہوا کہ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ؛ جائز اور مستحب ہے۔ اسے خلافِ سنّت عمل قرار دینا کم فہمی ہے۔کیوں کہ یہ بالکل واضح سی بات ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرض نماز کے بعد دعا کرنے کی ترغیب دی ہے اور عملاً فرض نماز کے بعد دعا فرمائی بھی ہےتو مقتدی حضرات یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیسے دعا نہیں کرتے ہوں گے؟؟مزید یہ کہ جب نماز انفرادی ہو گی تو دعا بھی انفرادی ہو گی اور جبفرض نماز باجماعت ادا کی گئی ہو تو ظاہر ہےکہ اس کے بعد دعا صورۃً اجتماعی ہو گی ۔ کیوں کہ اصل میں سب نمازی حضرات نماز کے لیے جمع ہوتے ہیں نہ کہ دعا کے لیے۔اس موقع پر اجتماعیت تو خودبخود ضمناً ہو جاتی ہے۔چنانچہ نماز کے بعد امام و مقتدی سب کے لیے دعا کرنا مستحب ہے۔اسی لیے


مشہور محدّث امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "الدعاء للامام والمأموم والمنفرد وهو مستحب عقب كل الصلوات بلا خلاف"


ترجمہ: نمازوں کے بعد دعا کرنا بغیر کسی اختلاف کے مستحب ہے ، امام کے لیے بھی ، مقتدی کے لیے بھی اور منفرد کے لیے بھی۔



ملحوظہ:

جولوگ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کو بدعت اور خلافِ سنّت کہتے ہیں ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ خود ان کے مسلک کے بزرگوں نے اس عمل کو جائز قرار دیا ہے۔لیجیے! چند حوالہ جات آپ بھی ملاحظہ فرما لیں۔


٭ : عبد الرحمٰن مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں۔ " قلت القول الراجح عندي أن رفع اليدين في الدعاء بعد الصلاة جائز لو فعله أحد لا بأس عليه إن شاء الله تعالٰى۔


تحفۃ الاحوذی باب ما یقول اذا سلم من الصلوٰۃ


ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ میرے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ نماز کے بعد دعا کرتے ہوئے ہاتھ اٹھانا جائز ہے۔اگر کوئی یہ عمل کرے تو اس میں ان شاء اللہ تعالیٰ کوئی حرج نہیں۔


٭ : نواب صدیق حسن خان کے حوالے سے غیر مقلد عالم ابو مسعود عبدالجبار سلفی لکھتے ہیں۔


"والحاصل ان رفع الیدین فی الدعاءایّ دعاء کان و فی ایّ وقت کان بعد الصلوٰۃ او غیرھا ادب من احسن الآداب دلّت علیہ الاحادیث عموماً و خصوصاً…الخ


ترجمہ: خلاصہ یہ ہے کہ دعا خواہ کوئی بھی ہواور کسی وقت میں ہو، نماز کے بعد ہو یا اس علاوہ، اس میں ہاتھ اٹھانا بہترین ادب ہے۔اس مسئلہ پر عام اور خاص احادیث دلالت کرتی ہیں۔تھوڑا سا آگے چل کے لکھتے ہیں۔ "وانکار الحافظ ابن القیّم رفع الیدین فی الدعاء بعد الصلوٰۃ وھم منہ"


ترجمہ: اور حافظ ابنِ قیّم رحمہ اللہ تعالیٰ کا نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے سے انکار کرنا یہ ان کا وہم ہے۔"


نماز کے بعد دعائے اجتماعی: صفحہ 61


٭ : نذیر حسین دہلوی صاحب لکھتے ہیں: "صاحبِ فہم پر مخفی نہ رہے کہ بعد نماز فرائض کے ہاتھ اٹھا کے دعا مانگنا جائز و مستحب ہے۔


     فتاویٰ نذیریہ جلد1صفحہ 566


٭ : ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں: "ان احادیث سے بعد نماز فرض کے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا قولاً و فعلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوا۔"


فتاویٰ ثنائیہ جلد 1 صفحہ 505


٭ : غیر مقلد عالم عبدالجبار سلفی صاحب نے 131 صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام انہوں نے "نماز کے بعد دعائے اجتماعی اور طائفہ منصورہ کامسلکِ اعتدال" رکھا ہے۔اس کتاب میں موصوف نے فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کو دلائل اور اپنے غیر مقلد اکابرین حضرات کے فتاویٰ جات سے ثابت کیا ہے۔ جیسا کہ کتاب کے "پیش لفظ " میں لکھا ہے۔ "فاضل مرتّب کے نزدیک فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کا جواز سنّت اور احادیث سے ملتا ہے۔" نیز موصوف نے اجتماعی دعا کے منکرین کا بھرپور طریقے سے رد کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے 9 لاجواب سوالات بھی کیے ہیں۔ سوالات کے اختتام میں ان منکرین کوتنبیہ کرتے ہوئے فاضل مؤلف نے لکھا ہے۔"لہٰذا اہل حدیث کو فضائل اور آداب والی احادیث سے بِدکنا نہیں چاہیےاور نہ ہی دعا اور اس میں ہاتھ اٹھانے سے انکار کر کے وجودیوں اور نیچریوں (معتزلیوں) کی "بی" ٹیم بننا چاہیے۔"مزید تفصیل کے لیے ابو مسعود عبدالجبار سلفی صاحب کی مذکورہ کتاب اور مفتی محمد رضوان صاحب کی کتاب "فرض نماز کے بعد دعا کے شرعی احکام " کا مطالعہ فرمائیں۔


مذکورہ عبارات میں فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کو بدعت اور خلافِ سنّت کہنے والوں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ اللہ کریم انہیں دین کی سمجھ عطا فرمائے۔

واللہ اعلم بالصواب۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دلائل:


كذا في السنن الكبري للنسائي:


ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﻳﻮﺏ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﻏﻴﺎﺙ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﺟﺮﻳﺞ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﺳﺎﺑﻂ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻣﺎﻣﺔ ﻗﺎﻝ: ﻗﻠﺖ: ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، ﺃﻱ اﻟﺪﻋﺎء ﺃﺳﻤﻊ؟ ﻗﺎﻝ: «ﺟﻮﻑ اﻟﻠﻴﻞ اﻵﺧﺮ، ﻭﺩﺑﺮ اﻟﺼﻠﻮاﺕ اﻟﻤﻜﺘﻮﺑﺎﺕ

(رقم الحديث : 9856)

کذا فی سنن الترمذی :

ﻋﻦ اﻟﻔﻀﻞ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: اﻟﺼﻼﺓ ﻣﺜﻨﻰ ﻣﺜﻨﻰ، ﺗﺸﻬﺪ ﻓﻲ ﻛﻞ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ، ﻭﺗﺨﺸﻊ، ﻭﺗﻀﺮﻉ، ﻭﺗﻤﺴﻜﻦ، ﻭﺗﻘﻨﻊ ﻳﺪﻳﻚ، ﻳﻘﻮﻝ: ﺗﺮﻓﻌﻬﻤﺎ ﺇﻟﻰ ﺭﺑﻚ، ﻣﺴﺘﻘﺒﻼ ﺑﺒﻄﻮﻧﻬﻤﺎ ﻭﺟﻬﻚ، ﻭﺗﻘﻮﻝ: ﻳﺎ ﺭﺏ ﻳﺎ ﺭﺏ، ﻭﻣﻦ ﻟﻢ ﻳﻔﻌﻞ ﺫﻟﻚ ﻓﻬﻮ ﻛﺬا ﻭﻛﺬا۔

(رقم الحدیث : 385)

کذا فی سنن ابی داؤد :

ﻋﻦ ﻣﻌﺎﺫ ﺑﻦ ﺟﺒﻞ، ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﻰ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﺧﺬ ﺑﻴﺪﻩ، ﻭﻗﺎﻝ: «ﻳﺎ ﻣﻌﺎﺫ، ﻭاﻟﻠﻪ ﺇﻧﻲ ﻷﺣﺒﻚ، ﻭاﻟﻠﻪ ﺇﻧﻲ ﻷﺣﺒﻚ»، ﻓﻘﺎﻝ: " ﺃﻭﺻﻴﻚ ﻳﺎ ﻣﻌﺎﺫ ﻻ ﺗﺪﻋﻦ ﻓﻲ ﺩﺑﺮ ﻛﻞ ﺻﻼﺓ ﺗﻘﻮﻝ: اﻟﻠﻬﻢ ﺃﻋﻨﻲ ﻋﻠﻰ ﺫﻛﺮﻙ، ﻭﺷﻜﺮﻙ، ﻭﺣﺴﻦ ﻋﺒﺎﺩﺗﻚ "، ﻭﺃﻭﺻﻰ ﺑﺬﻟﻚ ﻣﻌﺎﺫ اﻟﺼﻨﺎﺑﺤﻲ، ﻭﺃﻭﺻﻰ ﺑﻪ اﻟﺼﻨﺎﺑﺤﻲ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ.

(رقم الحدیث : 152، باب من رفع یدیہ فی الدعاء ومسح بھما وجھہ،رقم الحدیث:۱۱۸۱]

کذا فی صحیح المسلم:

حدثنا محمد بن حاتم بن ميمون، حدثنا بهز، حدثنا وهيب، حدثنا سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن لله تبارك وتعالى ملائكة سيارة، فضلا يتتبعون مجالس الذكر، فإذا وجدوا مجلسا فيه ذكر قعدوا معهم، وحف بعضهم بعضا بأجنحتهم، حتى يملئوا ما بينهم وبين السماء الدنيا، فإذا تفرقوا عرجوا وصعدوا إلى السماء، قال: فيسألهم الله عز وجل، وهو أعلم بهم: من أين جئتم؟ فيقولون: جئنا من عند عباد لك في الأرض، يسبحونك ويكبرونك ويهللونك ويحمدونك ويسألونك، قال: وماذا يسألوني؟ قالوا: يسألونك جنتك، قال: وهل رأوا جنتي؟ قالوا: لا، أي رب قال: فكيف لو رأوا جنتي؟ قالوا: ويستجيرونك، قال: ومم يستجيرونني؟ قالوا: من نارك يا رب، قال: وهل رأوا ناري؟ قالوا: لا، قال: فكيف لو رأوا ناري؟ قالوا: ويستغفرونك، قال: فيقول: قد غفرت لهم فأعطيتهم ما سألوا، وأجرتهم مما استجاروا، قال: فيقولون: رب فيهم فلان عبد خطاء، إنما مر فجلس معهم، قال: فيقول: وله غفرت هم القوم لا يشقى بهم جليسهم.

[باب فضل مجالس الذکر،رقم الحدیث:۲۶۸۹]

کذا فی معجم الکبیر،للطبرانی:

حدثنا سليمانُ بن الحسنِ العطّارُ، قال: دثنا أبو كاملٍ الجحدريُّ ، قال: دثنا الفضَيلُ بن سليمانَ، قال: دثنا محمد بن أبي يحيى، قال: رأيتُ عبدَالله بن الزُّبيرِ ورأى رجلاً رافعًا يديه يدعو قبل أن يَفْرُغَ من صلاتِهِ، فلما فَرَغَ منها قال: إنَّ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم لم يكنْ يرفعُ يديه حتى يَفرُغَ من صلاتِهِ.

[عبد اللہ ابن زبیر العوام،رقم الحدیث:۱۴۹۰۷]


خلاصہ:

فرض نماز کے بعد دعا کرنا اور ایسی دعا کا مقبول ہونا احادیث میں وارد ہے جس کا تقاضہ ہے کہ ہر فرض پڑھنے والا اپنی نماز کے بعد دعا کرے اب اگر جماعت سے نماز ادا کی جارہی ہوگی تو ہر ایک کے انفراداً دعا کرنے سے اجتماعی ہیئت معلوم ہوگی، اس میں مضائقہ نہیں، کیونکہ جماعت کی نماز پوری ہوجانے کے بعد امام کے ساتھ مقتدیوں کے اقتداء کا تعلق ختم ہوجاتا ہے، مقتدی اس بات کے پابند نہیں کہ جتنی دیر امام دعا مانگے مقتدی لوگ بھی اس کی اتباع کریں بلکہ مقتدی پہلے بھی ختم کرسکتے ہیں اور امام کے بعد تک بھی مانگ سکتے ہیں۔

(۲) اجتماع کو ضروری سمجھنا اور اس کا اہتمام والتزام کرنا بدعت ہوگا، اکابر کے فتاوی ماننے کے تقاضہ سے دعا کا ترک کرنا کہاں لازم آتا ہے، بلکہ ہرشخض انفراداً دعا کرے جس سے اجتماعی ہیئت بن جائے مضائقہ نہیں یہ نکلتا ہے۔

فرض نمازوں کے بعد دعا مانگنا سنت سے ثابت ہے، یہ دعا ہاتھ اٹھاکر مانگنا اولیٰ ہے، امام کے سلام پھیرنے کے بعد اقتداء کا تعلق ختم ہو جاتا ہے اس لئے اجتماعی ہیئت لازم نہیں، ہاں دعا مانگنے میں اجتماعی ہیئت ازخود بن جائے تو مضایقہ نہیں۔ عن معاذ بن جبل أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أخذ بیدہ قال یا معاذ واللہ إني لأحبک فقال: أوصیک یامعاذ لاتدعن فی دبر کل صلاة تقول: اللہم أعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک۔

(سنن أبي داوٴد، باب فی الاستغفار)


عن مغیرة بن شعبة رضی اللہ عنہ ان النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول دبر کل صلاة مکتوبة: لا إلہ إلا اللہ وحدہ لاشریک لہلہالملک ولہ الحمد الخ

(صحیح بخاری)

-----------------------------

البتہ یہ واضح رہے کہ ہر نماز کے بعد اجتماعی دعا کہ جب تک امام ہاتھ نہ اٹھائے مقتدی حضرات بھی نہ اٹھائیں۔ نیز جب تک امام دعا ختم نہ کرے مقتدی بھی ختم نہ کریں، ایسا کرنا احادیث اور صحابہ کرام کے عمل سے ثابت نہیں ہے، اگر کسی جگہ اس کا عرف ہو تو یہ قابل ترک ہے، مقتدیوں کو چاہئے کہ بعد سلام انفراداً دعا کرلیں۔


فرض نماز کے بعد دعا کرنا ثابت ہے اور  فرض نمازوں کے بعد کے اوقات حدیث شریف کے مطابق قبولیتِ دعا کے اوقات ہیں،  فرائض کے بعد دعا کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین سے ثابت ہے اور دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے  اور آں حضرت ﷺ سے بھی  دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔


'المعجم الکبیر ' میں  علامہ طبرانی رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی سے ایک روایت ذکر کی ہے کہ  محمد بن یحیی اسلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن  زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا  ،انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ  وہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا کررہا تھا تو جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو  حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے  اس وقت تک (دعا کے لیے) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ( لہذا تم بھی ایسا ہی کرو)۔


'حدثنا محمد بن أبي يحيى، قال: رأيت عبد الله بن الزبير ورأى رجلاً رافعاً يديه بدعوات قبل أن يفرغ من صلاته، فلما فرغ منها، قال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلاته»۔ (المعجم الكبير للطبرانی 13/ 129، برقم: 324)


 اسی طرح ' کنزالعمال' میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوبندہ نمازکے بعدہاتھ اٹھاکراللہ تعالیٰ سے دعاکرتاہے اورکہتاہے کہ اے میرے معبود....اللہ تعالیٰ اس کی دعا کوضرورقبول فرماتے ہیں ،اسے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے۔


حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا: تمہارا رب حیا والا اور کریم ہے، اپنے بندے سے حیا کرتاہے ،جب وہ اپنے ہاتھوں  کو اس کے سامنے اٹھاتا ہے کہ ان کو خالی واپس لوٹا دے ۔


حضرت مالک بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا : جب تم اللہ سے دعا کرو تو ہاتھوں  کی ہتھیلیوں  سے کرو، ہاتھوں  کی پشت سے نہ کرو ۔


حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں  ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں  سے سوال کیا کرو اور ہاتھوں  کی پشت سے نہ کرو ،پس جب دعا سے فارغ ہوجاؤ تو  ہاتھوں  کو اپنے چہرے پر پھیر لو ۔


دعا میں  ہاتھ اٹھانا حضور ﷺکی عادتِ شریفہ تھی ، حضرت سائب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺجب دعا فرماتے تھے تو اپنے دونوں  ہاتھ مبارک اٹھاتے اور فارغ ہوتے تو ان دونوں  کو اپنے چہرے پر پھیرتے۔


اس طرح کی روایات فرض نمازوں کے بعدہاتھ اٹھاکراجتماعی دعاکے ثبوت واستحباب کے لیے کافی ہیں ؛ اس لیے نماز کے بعد دعاپر نکیر کرنا یا اسے بدعت کہنا درست نہیں۔ تاہم اسے سنتِ مستمرہ دائمہ کہنا مشکل ہے،اس بنا پراس کو ضروری اورلازم سمجھ کرکرنا،اورنہ کرنے والوں پرطعن وتشنیع کرنا بھی درست نہیں۔ اور یہ دعا سر اً افضل ہے، البتہ تعلیم کی غرض سے  کبھی کبھار امام  جہراً بھی دعا کرا سکتا ہے۔


حضرت علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے ' فیض الباری' میں اور محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھاہے کہ فرائض کے بعد موجودہ ہیئت کے مطابق اجتماعی دعا کرنا سنت مستمرہ تو نہیں ہے، لیکن اس کی اصل ثابت ہے ؛ اس لیے یہ بدعت  نہیں ہے، اسے بدعت کہنا غلو ہے۔


البتہ جن فرض نمازوں (ظہر، مغرب اور عشاء) کے بعد سنن مؤکدہ ہیں ان فرض نمازوں کے بعد مختصر دعا پر اکتفا کر کے سنن و نوافل میں مشغول ہو جانا زیادہ بہتر ہے، فرض نماز کے بعد جو دعائیں یا اذکار احادیث میں وارد ہیں وہ اذکار پڑھے جائیں یا مختصر دعا کی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، لمبی دعا مانگنی ہو یا طویل اذکار کرنے ہوں تو سنن مؤکدہ ادا کرنے کے بعد کریں۔ اور جن فرض نمازوں کے بعد سنن نہیں ہیں، جیسے فجر اور عصر ان کے بعد طویل دعا مانگنے اور طویل ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔


واضح رہے کہ فرض نمازوں کے بعد مطلق دعا مانگنے میں تو کسی بھی ذی قدر صاحبِ علم کا اختلاف نہیں ہے، البتہ فرض نمازوں کے بعد اجتماعی ہیئت کے ساتھ دعا کرنی چاہیے یا نہیں؟ اس میں جو تفصیل ہے وہ سابقہ سطور میں بیان کردی گئی ہے،  مزید دلائل کے لیے ”النفائس المرغوبة في الدعاء بعد المکتوبة “ مؤلفہ حضرت مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ،اور شیخ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی ؒ کے رسالے "التحفة المرغوبة في أفضلیة الدعاء بعد المکتوبة" کا مطالعہ فرمائیں





فرض نمازوں کے بعد دُعا کا ثبوت

س… پانچوں نمازوں کے بعد امام کے ساتھ تمام نمازی بھی ہاتھ اُٹھاکر دُعا مانگتے ہیں، لیکن اب کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہاتھ اُٹھاکر ہر نماز کے بعد دُعا مانگنا بدعت ہے، اور یہ کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں، اب ہم اس اُلجھن میں مبتلا ہیں کہ دُعا مانگیں یا نہ مانگیں؟ اُمید ہے آپ ہماری رہنمائی فرمائیں گے۔

ج… پہلے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ ”بدعت“ کسے کہتے ہیں؟ ”بدعت“ اس عمل کا نام ہے جس کی صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو قولاً تعلیم دی ہو، نہ عملاً کرکے دِکھایا ہو، نہ وہ عمل سلف صالحین کے درمیان معمول و مروّج رہا ہو، لیکن جس عمل کی صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی ہو یا خود کبھی اس پر عمل کرکے دِکھایا ہو، وہ ”بدعت“ نہیں، بلکہ سنت ہے۔

اس کے بعد مندرجہ ذیل اُمور پیشِ نظر رکھئے:

۱:… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدّد احادیث میں نمازِ فرض کے بعد دُعا کی ترغیب دی ہے اور اس کو قبولیتِ دُعا کے مواقع میں شمار فرمایا ہے۔

۲:… صحیح احادیث میں دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھانے اور دُعا کے بعد ان کو چہرے پر پھیرنے کو آدابِ دُعا میں ذکر فرمایا ہے۔

۳:… متعدّد احادیث میں فرض نماز کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دُعا کرنا ثابت ہے، یہ تمام اُمور ایسے ہیں کہ کوئی صاحبِ علم جس کی احادیثِ طیبہ پر نظر ہو، ان سے ناواقف نہیں، اس لئے فقہائے اُمت نے فرض نمازوں کے بعد دُعا کو آداب و مستحبات میں شمار کیا ہے۔ امام نووی شرح مہذب (ج:۳ ص:۴۴۸) میں لکھتے ہیں:

”الدعاء للامام والمأموم والمنفرد مستحب عقب کل الصلوات بلا خلاف۔“

یعنی نمازوں کے بعد دُعا کرنا بغیر کسی اختلاف کے مستحب ہے، امام کے لئے بھی، مقتدی کے لئے بھی اور منفرد کے لئے بھی۔ علومِ حدیث میں امام نووی کا بلند مرتبہ جس کو معلوم ہے، وہ کبھی اس متفق علیہ مستحب کو بدعت کہنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔ اور فرض نماز جب باجماعت ادا کی گئی ہو تو ظاہر ہے کہ اس کے بعد دُعا صورةً اجتماعی ہوگی، لیکن امام اور مقتدی ایک دُوسرے کے پابند نہیں، بلکہ اپنی اپنی دُعا کر رہے ہیں، اس لئے امام کا پکار پکار کر دُعا کرنا اور مقتدیوں کا آمین، آمین کہنا صحیح نہیں، ہر شخص کو اپنی اپنی دُعا کرنی چاہئے، اور سنن و نوافل کے بعد امام کا مقتدیوں کے انتظار میں بیٹھے رہنا اور پھر سب کا مل کر دُعا کرنا یہ بھی صحیح نہیں۔






No comments:

Post a Comment