یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
القرآن:
کیا کرے گا اللہ تمہیں عذاب دیکر، اگر تم شکر کرو، اور ایمان لاؤ؟ اور ہے اللہ قدردان خوب جاننے والا۔
[سورۃ النساء:147]
تشریح:
اس قدر رحمت ومحبت سے پُر نرم الفاظ ، عظیم اللہ کی طرف سے، جو ہر چیز کا خالق، مالک، رب، سب جاننے والا، مکمل قدرت والا، ہر کام بنانے والا ، سب پر رحم کرنے والا ہے۔
اس ذات کی عظمت ومنزلت جاننے-پہچاننے سے ہی شکر اور ایمان میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا
اور تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس جو بہترین باتیں نازل کی گئی ہیں، ان کی پیروی کرو، قبل اس کے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے، اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔
[سورۃ الزمر:55]
بہتر بات سے مراد قرآن کریم ہے۔ قرآن کی دل و جان سے پیروی کرو جو تمہارے خالق ومالک کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔
یعنی قرآنی ہدایت پر چل کر عذاب(آخرت) آنے سے پہلے اپنے مستقبل کی روک تھام کرلو۔ ورنہ معاً عذاب الٰہی اس طرح ایک دم آ دبائے گا کہ خبر بھی نہ ہوگی کہاں سے آگیا۔
اس کتاب کے احکام کی خلاف ورزی کی وجہ سے تمہیں حسرت و ندامت سے دو چار نہ ہونا پڑتے۔ اور قیامت کے دن یہ کہنے کا موقع ہی نہ آئے کہ ہائے افسوس ! میں اللہ کی اطاعت میں کوتاہی کی اور اللہ کے احکام کا مذاق ہی اڑاتا رہا۔ اور نہ یہ کہنے کا موقع آئے کہ کاش اگر اللہ مجھے سیدھی راہ دکھاتا تو میں راہ حق کو قبول کر کے اللہ کی نافرمانیوں سے بچتا اور نہ یہ آرزو کرنے کی ضرورت پیش آئے کہ اگر ایک بار پھر مجھے دنیا میں بھیج دیا جائے تو میں دل و جان سے اللہ کی فرمانبرداری کروں گا۔
قرآن کی اتباع یعنی اس کے حلال کردہ امور کو حلال، اور حرام کردہ باتوں کو حرام سمجھو، اور محکمات(واضح باتوں) پر عمل کرو، اس کے متشابہات(غیر واضح باتوں) پر ایمان لاؤ۔
حسن بصریؒ نے فرمایا ہے کہ اس کی فرمانبرداری کو لازم پکڑو اور اس کی نافرمانی سے بچوکیون کہ قرآن میں قبیح کا ذکر ہے تاکہ تو اس سے بچے اور گھٹیا کا ذکر ہے تا کہ تو اس میں رغبت نہ کرے اور احسن کا تذکرہ ہے تا کہ تو اس کو ترجیح دے۔
[تفسیر البغوی]
کیونکہ قرآن سب سے اچھی بات ہے اور اس کے احکام تمام کے تمام اچھے ہیں۔
کیونکہ اسی سورة کی آیت 23 میں قرآن کریم کو احسن الحدیث سے تعبیر کیا گیا ہے۔ وہی احسن الحدیث یہاں مراد ہے، یعنی قرآن کریم۔ اور پھر قرآن کریم کا تمام آسمانی کتابوں سے افضل اور احسن ہونا یہ ایسی بات نہیں جو آسمانی صحیفوں کو پڑھنے والے سے مخفی ہو۔ وہ تمام کتابیں اپنے اپنے دور میں انسان کی اصلاح کا بہترین نسخہ بن کر آئیں۔ لیکن اپنی طبعی عمر گزار کر منسوخ ہوگئیں اور افادیت کے لحاظ سے محدود ہوگئیں۔ لیکن یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جس کا زمانہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اور اس کی افادیت قیامت تک کے انسانوں کے لیے باقی رکھی گئی ہے اس لیے یہ سب سے کامل کتاب ہے۔ پہلی کتابوں کے صرف ترجمے باقی ہیں، اصل زبان میں صرف قرآن کریم باقی ہے۔ ترجمے کبھی تحریف سے محفوظ نہیں رہتے اور اصل زبان میں تحریف اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتی ہے۔ اور پھر قرآن کریم چونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس کی مثال لانا انسان کے لیے ممکن نہیں۔ بنابریں اس کے الفاظ میں تحریف اور ترمیم بھی ممکن نہیں۔ مختصر یہ کہ اس کے احسن اور سب سے بہتر ہونے کے بیشمار دلائل ہیں جن میں سے بعض کا ذکر خود قرآن کریم نے کیا ہے۔ اور بعض ایسے ہیں جو تاریخ نے ہمارے حوالے کیے ہیں۔ اور بعض قرآن کریم کے بیان کردہ نظام زندگی کے حوالے سے ہیں جو کسی بھی صاحب علم سے پوشیدہ نہیں۔
اس کے آخر میں فرمایا کہ اس قرآن کریم کی پیروی کرو اس سے پہلے کہ اچانک تم پر عذاب آجائے۔ اس میں تخویف کے پہلو کو مزید نمایاں کردیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر اس آخری ہدایت کو لوگ قبول نہیں کریں گے اور معذب قوموں کی طرح اس کی تکذیب کردیں گے تو پھر وہ عذاب ضرور آئے گا جو تکذیب کے نتیجے میں آیا کرتا ہے اور وہ اس طرح اچانک بھی آسکتا ہے جس کا کسی کو اندازہ نہ ہوسکے۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا عذاب کبھی دوپہر کو بھی اس طرح آتا ہے کہ لوگ کھیل کود میں مصروف ہوتے ہیں۔ اور کبھی رات کو آتا ہے جبکہ لوگ نیند کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے عافیت اسی میں ہے کہ اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لو اور اس سے فائدہ اٹھانے میں بالکل تاخیر نہ کرو۔
علوم القرآن کے امام الراغب الاصفہانیؒ(م502ھ) نے فرمایا:
العذاب: سخت تکلیف دینا۔ عَذَّبَهُ تَعْذِيباً:-اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا۔
قرآن میں ہے:۔
لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [سورۃ النمل:21]
میں اسے بہت سخت عذاب دوں گا۔
لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب (ض) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے، یعنی اس نے (پیاس کی شدت کی وجہ سے) کھانا اور نیند چھوڑدی، اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے، لہذا تعذیب کے اصل معنیٰ ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا۔
یعنی اللہ کا وہ عذاب جو وقتی اور ادنی ہوتا ہے،ہر قسم کے ظالم ونافرمان مسلم کافر کو، دنیا میں ہوتا ہے تاکہ وہ باز آجائیں، اور آخرت میں وقتی طور پر کچھ(نافرمان)مسلمانوں کو تاکہ جنت کیلئے پاک کردیئے جائیں۔
جیسے:
فتنے، زلزلے، قتل وغیرہ[ابوداؤد:4278]
باہمی اختلاف وتفرقہ[حوالہ سورۃ الانعام:65]
کیونکہ جنت وجہنم بلکہ ساری مخلوق کا خالق اللہ، سب کا مالک ہے۔ وہ اس شخص ہی کو جنت میں داخل کرتا ہے جو اسے راضی کرلیتا ہے، اور جو ناراض رکھتا ہے اسے جہنم میں داخل کرے گا۔ عدل وعقل دوںوں اس اصول کو تسلیم کرتی ہیں۔
موحد وہ مسلمان ہوتا ہے جو اللہ کی ذات، صفات، عبادت میں توحید(ایک ماننے) پر ایمان رکھتا ہے۔ اور جو سب سے بڑی ذات اللہ کے سب سے بڑے حق میں کسی دوسرے کو شریک-ساتھی بناتا ہے وہ مشرک سب سے بڑا ظالم اور اللہ کے سب سے اہم حکم کا کافر ہوتا ہے۔
(2)سب سے بڑا عذاب - ﴿الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ﴾ [حوالہ سورۃ الغاشیۃ:24]
یعنی اللہ کا وہ عذاب جو آخرت میں ہوگا، ہمیشہ۔
کفر اور اللہ کی راہ (ماننے) سے روکنے والوں کو[سورۃالنحل:88]
(5)﴿زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ﴾ [النحل:88] ہم بڑھا دیں گے انہیں عذاب پر عذاب
(6)﴿عَذَابًا نُكْرًا﴾ [الکھف:87، الطلاق:8]
تصور وپہچان سے بڑا (جہالت کے سبب انکار کیا جانے والا) عذاب
(7)﴿أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَى﴾ [طٰہٰ:71] سب سے سخت اور باقی رہنے والا
(8)﴿عَذَابًا كَبِيرًا﴾ [الفرقان:19] بہت بڑا عذاب
(9)﴿عَذَابًا صَعَدًا﴾ [الجن:17] چڑھتا ہوا عذاب
(10)﴿عَذَابًا قَرِيبًا﴾ [النبا:40] قریب آنے والا عذاب
اس سے موجودہ زمین اور آسمان مراد نہیں ہیں، کیونکہ یہ تو قیامت کے ساتھ ختم ہوجائیں گے، البتہ قرآن کریم ہی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آخرت میں وہاں کے حالات کے مطابق دوسرے زمین و آسمان پیدا کئے جائیں گے (دیکھئے سورة ابراہیم 14۔ 48، سورة زمر 24۔ 74) اور چونکہ وہ زمین و آسمان ہمیشہ رہیں گے اس لئے آیت کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لوگ بھی دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔
مگر تمہارے رب کو کچھ اور ہی منظور ہو
اسی قسم کا استثناء سورة انعام (6۔ 128) میں بھی گزرا ہے جیسا کہ وہاں ہم نے عرض کیا تھا، اس کی ٹھیک ٹھیک مراد تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، لیکن اس سے بظاہر ایک تو یہ حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ کسی کے عذاب وثواب کا تمام ترفیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے، کسی کی فرمائش یا سفارش کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے، دوسرے یہ کہ کافروں کو عذاب دینا اللہ تعالیٰ کی کوئی مجبوری نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے، وہ اگر کسی کو کفر کے باوجود عذاب سے نکالنا چاہے تو کوئی اسکا ہاتھ پکڑ نے والا نہیں ہے، یہ اور بات ہے کہ اسکی مشیت کافروں کو ہمیشہ عذاب ہی میں رکھے، جیسا کہ قرآن کریم کی اکثر آیات سے معلوم ہوتا ہے۔
اجتماعی عذاب سے امن کا نسخہ:
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ أَمَانَيْنِ لِأُمَّتِي وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ [سورة الأنفال، آية 33] فَإِذَا مَضَيْتُ تَرَكْتُ فِيهِمُ الِاسْتِغْفَارَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ".
ترجمہ :
نازل کی ہیں الله نے دو امان میری امّت کے لئے : "جب تک آپ ان میں موجود ہیں الله ان کو عذاب میں مبتلا نہ کرے گا اور جب تک وہ (اپنے گناہوں پر) استغفار کرتے رہیں گے تب بھی الله انھیں عذاب میں مبتلا نہ کرے گا". [سورة الأنفال، آية 33] سو جب میں گزر جاؤں گا تو قیامت تک کے لئے عذاب الہی سے امن کے واسطے تمہارے اندر استغفار (یعنی بخشش مانگنے کا طریقہ و تعلیم) چھوڑ جاؤں گا۔
[جامع الترمذي » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » بَاب وَمِنْ سُورَةِ الأَنْفَالِ ... رقم الحديث: 3082]
نوٹ:
گناہ ونافرمانی عذاب کا اصل سبب ہے، اور اس کا علاج گناہ چھوڑنا ورنہ بخشش مانگتے رہنا ہے۔ تفصیل کیلئے ملاحظہ فرمائیں:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب بجلی کی گرج اور کڑک سنتے تو فرماتے:
اے اللہ! تو اپنے غضب سے ہمیں نہ مار، اپنے عذاب کے ذریعہ ہمیں ہلاک نہ کر، اور ایسے برے وقت کے آنے سے پہلے ہمیں بخش دے۔
[سنن الترمذي: حديث نمبر 3450]
مقصدِ عذاب، اصلاح-درستگی، لغام دینا ہے۔
القرآن:
اور اس بڑے عذاب سے پہلے بھی ہم انہیں کم درجے کے عذاب کا مزہ بھی ضرور چکھائیں گے۔ (10) شاید یہ باز آجائیں۔
[سورۃ الم سجدۃ:21]
یعنی آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے اسی دنیا میں انسان کو چھوٹی چھوٹی مصیبتیں اس لئے پیش آتی ہیں کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرکے اپنے گناہوں سے باز آجائے، سبق یہ دیا گیا ہے کہ دنیا میں پیش آنے والی مصیبتوں کے وقت اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے اپنے گناہوں سے توبہ کرنی چاہیے، اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرنا چاہیے۔
حضرت عروہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ ہشام بن حکیم بن حزام ؓ نے حمص کے ایک عامل (محصل) کو دیکھا کہ وہ کچھ قبطیوں (عیسائیوں) سے جزیہ وصول کرنے کے لیے انہیں دھوپ میں کھڑا کر کے تکلیف دے رہا تھا، تو انہوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ اللہ عزوجل ایسے لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیا کرتے ہیں۔
[صحيح مسلم:2613، السنن الكبرى - النسائي:8718]
یعنی ظلم کرتے ہیں، اور لوگوں کو جرم اور قصور سے زیادہ یا ناحق سزا دیتے ہیں۔
فقہی نکات:
جزیہ(خراج ٹیکس وغیرہ) وصول کرنے میں سختی کرنے والوں کیلئے وعید
[سنن أبي داود:3045]
انسان کے چہرے کا احترام اور اس(انسان) کے حرمت کا بیان اور اسے عذاب واذیت پہنچانے والوں کی سزا کا بیان۔
[مستخرج أبي عوانة:11411]
خراج جمع کرنے میں سختی کی ممانعت
[السنن الكبرى - البيهقي:18735]
غیر ضمانتی جرائم کے متعلق بیان
[مصابيح السنة-البغوي:2646]
رعایا کے ساتھ حسن سلوک اور ان پر ظلم و ستم کی ممانعت اور ان کے ذمہ دار ہونے کا ذکر۔
[النصيحة للراعي والرعية للتبريزي: صفحہ]
عدلیہ اور دیگر کی کتاب:- جو سلطنت سنبھالنے، عدالتی فیصلے کرنے، اور انتظامی امور وحکمرانی کرنے والوں کو ڈرانے کے بیان میں۔ ان لوگوں کے لیے جو خود پر بھروسہ نہیں کرتے اور خود پر بھروسہ کرنے والے جو ان(عہدوں) میں سے کچھ مانگتے ہیں کو ڈرانے کے بیان میں۔
[الترغيب والترهيب للمنذري:3 /153]
اللہ کی مخلوق میں رعایا، بچوں، غلاموں اور دیگر لوگوں سے ہمدردی کی ترغیب (حوصلہ افزائی) کا بیان، ان سے شفقت اور مہربانی کرنے، اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف حوصلہ شکنی، اور غلام اور جانور اور ان دونوں کے علاوہ کو بغیر شرعی سبب کے عذاب دینے، اور جانوروں کے چہروں پر داغ ونشان لگانے کی ممانعت کا بیان۔
[صحيح الترغيب والترهيب:2292]
پچاسواں بڑا گناہ:- کمزوروں، غلاموں، باندی، بیوی اور جانور پر زیادتی کرنا۔
[الكبائر للذهبي: صفحہ202]
فخر اور حد سے بڑھنے کی ممانعت کا بیان
[دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين:1604]
دہشت گردی، بےاحترامی، تنگی، برا معاملہ، ظلم ۔۔۔ کرنے کی مذمت (نتائج) کا بیان
[نضرة النعيم في مكارم أخلاق الرسول الكريم: 9 / 3835، 9/ 4021، 9/ 4213، 10/ 4684، 10/ 4923]
غصے کی حالت میں اپنے آپ کو قابو میں رکھنا، چہرے پر نہ مارنا، بلاوجہ لوگوں کے مجمع میں کسی ہتھیار کو لیے اس کے پاس سے نہ گزرنا اور کسی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرنا۔
[الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم:24 /437]
اسلام میں انسانی حقوق
[مجلة الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة: 20 /71]
اسلام میں (کسی کا کسی کو) عذاب دینے کا حکم
[فتاوى الشبكة الإسلامية:33698 (1 /4075)]
قیدیوں پر رحم کریں اور ان پر تشدد نہ کریں۔
[التفسير والبيان لأحكام القرآن-عبد العزيز الطريفي:3/ 1481]
(سیاسی) معاملات کے (متعین کردہ)نگران پر (لازم) حقوق
[دروس للشيخ علي بن عمر بادحدح: 3/ 153]
لوگوں کی تکالیف وپریشانیاں دور کرنے کی فضیلت
اللہ کے احکام کی حفاظت کرنے والوں کو اللہ محفوظ رکھے گا۔
اللہ کی تعلیم پہنچانے والے پیغمبر، جہان والوں کیلئے رحمت ہے۔
نرمی کا اخلاق وعادت اپنانا۔
عوام کا عوام سے حکومتی نرخ سے زیادہ کسی چیز کی قیمت لینے سے حفاظت کی تعلیم۔
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے اور زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے، یا سولی پر چڑھا دیا جائے، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، (26) یا انہیں زمین سے دور کردیا جائے (27) یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے، اور آخرت میں ان کے لیے زبردست عذاب ہے۔
[سورۃ المائدۃ:33]
(26) پیچھے جہاں انسانی جان کی حرمت کا ذکر تھا وہاں یہ اشارہ بھی کردیا گیا تھا کہ جو لوگ زمین میں فساد مچاتے ہیں ان کی جان کو یہ حرمت حاصل نہیں ہے، اب ان کی مفصل سزا بیان کی جارہی ہے، مفسرین اور فقہاء کا اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ اس آیت میں ان لوگوں سے مراد وہ ڈاکو ہیں جو اسلحے کے زور پر لوگوں کو لوٹتے ہیں، ان کے بارے میں یہ جو کہا گیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان قوانین کی بےحرمتی کرتے ہیں اور ان کا لوگوں سے لڑنا گویا اللہ اور اس کے رسول سے لڑنا ہے، ان لوگوں کے لئے اس آیت میں چار سزائیں بیان کی گئی ہیں، ان سزاؤں کی تشریح امام ابوحنیفہ ؒ نے یہ فرمائی ہے کہ اگر ان لوگوں نے کسی کو قتل کیا ہو مگر مال لوٹنے کی نوبت نہ آئی ہو تو انہیں قتل کیا جائے گا، مگر یہ قتل کرنا حد شرعی کے طور پر ہوگا قصاص کے طور پر نہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر مقتول کو وارث معاف بھی کرنا چاہیں تو ان کی معافی نہیں ہوگی، اور اگر ڈاکوؤں نے کسی کو قتل بھی کیا ہو اور مال بھی لوٹا ہو تو انہیں سولی پر لٹکا کر ہلاک کیا جائے گا، اور اگر مال لوٹا ہو اور کسی کو قتل نہ کیا ہو تو ان کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹا جائے گا، اور اگر انہوں نے لوگوں کو صرف ڈرایا دھمکایا ہو، نہ مال لوٹنے کی نوبت آئی ہو، نہ کسی کو قتل کرنے کی، تو امام ابوحنیفہ ؒ نے أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ، کی تشریح یہ کی ہے کہ انہیں قید خانے میں بند کردیا جائے گا، یہ تشریح : حضرت عمر ؓ کی طرف بھی منسوب ہے، دوسرے فقہاء نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ انہیں جلا وطن کردیا جائے گا۔ یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم نے ان جرائم کی سزائیں اصولی طور پر بیان فرمائی ہیں نبی کریم ﷺ نے احادیث میں تفصیل بیان فرمائی ہے کہ ان سخت سزاؤں پر عمل درآمد کے لئے کیا شرائط ہیں، فقہ کی کتابوں میں یہ ساری تفصیل آئی ہے، یہ شرائط اتنی کڑی ہیں کہ کسی مقدمے میں ان کا پورا ہونا آسان نہیں ؛ کیونکہ مقصد ہی یہ ہے کہ یہ سزائیں کم سے کم جاری ہوں، مگر جب جاری ہوں تو دوسرے مجرموں کے لئے سامان عبرت بن جائیں۔
(27) یہ قرآنی الفاظ کا لفظی ترجمہ ہے۔ امام ابوحنیفہ ؒ نے ”زمین سے دور کرنے“ کی تشریح یہ کی ہے کہ انہیں قید خانے میں بند کردیا جائے گا۔ یہ تشریح حضرت عمر ؓ کی طرف بھی منسوب ہے۔ دوسرے فقہاء نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ انہیں جلا وطن کردیا جائے گا۔
فوری عذاب کا سبب (ظلم سے نہ روکنا) اور علاج
القرآن:
اور ڈرو اس وبال سے جو تم میں سے صرف ان لوگوں پر نہیں پڑے گا جنہوں نے ظلم کیا ہوگا (15) اور جان رکھو کہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔
[سورۃ الانفال:25]
اس آیت کریمہ میں ایک اور اہم حکم بیان فرمایا گیا ہے، اور وہ یہ کہ ایک مسلمان کی ذمہ داری صرف یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کی حد تک شریعت پر عمل کرلے، اس کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اگر معاشرے میں کوئی برائی پھیل رہی ہے تو اپنی طاقت کی حد تک اس کو روکنے کی کوشش کرے، اگر لوگ اپنے فریضے میں کوتاہی کریں اور اس برائی کا کوئی وبال آئے تو وہ وبال صرف ان لوگوں کی حد تک محدود نہیں رہے گا جو اس برائی میں براہ راست ملوث تھے ؛ بلکہ جو لوگ اس برائی کا خود تو ارتکاب نہیں کررہے تھے مگر دوسروں کو اس سے روکتے بھی نہیں تھے وہ بھی اس وبال کا شکار ہوں گے۔
حضرت ابوموسیٰ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری اس امت پر اللہ کی رحمت ہے آخرت میں اسے عذاب (دائمی) نہیں ہوگا اور دنیا میں اس کا عذاب: فتنوں، زلزلوں اور قتل کی شکل میں ہوگا ۔
[سنن أبي داود:4278]
یعنی آخرت کا ناقابلِ برداشت یعنی شدید-دائمی-دردناک-ذلیل کردینے والا-عظیم- عذاب کے تو منکروں اور منافقوں کیلئے ہے، لیکن وقتی-قریبی قابلِ برداشت عذاب گناہوں کی وجہ سے کافر اور مسلمانوں سب کو ہوتے ہیں، اور مسلمانوں کو آخرت کے حساب وعذاب سے بچانے کا سبب ورحمت ہیں۔
ایسے لوگ جو خود بھی کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی تلقین کرتے ہیں، اور اللہ نے ان کو اپنے فضل سے جو کچھ دے رکھا ہے اسے چھپاتے ہیں، اور ہم نے ایسے ناشکروں کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب تیار رکھا ہے۔
[سورۃ النساء:37]
یعنی اللہ تعالیٰ دوست نہیں رکھتا خود پسند اور تکبر کرنے والوں کو جو کہ بخل کرتے ہیں اور اپنے مال اور علم خدا داد کو لوگوں سے چھپاتے ہیں کسی کو نفع نہیں پہنچاتے اور قولاً اور عملاً دوسروں کو بھی بخل کی ترغیب دلاتے ہیں اور ان کافروں کے لئے ہم نے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
فائدہ :
یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جو اللہ کی راہ میں(یعنی اس کی محبت میں، اس کی تعلیم کے مطابق، مستحق مسکینوں پر) خرچ کرنے میں خود بھی بخل کرتے تھے اور مسلمانوں کو بھی روکنا چاہتے تھے۔
اور رسول اللہ ﷺ کے اوصاف(اخبار) جو تورات میں مذکور تھے اور حقانیت اسلام کی آیات جو موجود تھیں ان کو چھپاتے تھے۔ سو مسلمانوں کو اس سے احتراز لازم ہے۔
یاد رکھو کہ جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی مسلمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں پھٹکار پڑچکی ہے، اور ان کو اس دن زبردست عذاب ہوگا۔
[سورۃ النور:23]
القرآن:
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت وصول کرلیتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ کے سوا کچھ نہیں بھر رہے، قیامت کے دن اللہ ان سے کلام بھی نہیں کرے گا، اور نہ ان کو پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
حضرت ابوبکرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: (شرک کے بعد) تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے، مگر والدین کی نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں جلد ہی سزا دے دیتا ہے۔
[جزء فيه تفسير القرآن برواية أبي جعفر الترمذي:395]
[مساوئ الأخلاق للخرائطي:236]
[شعب الإيمان-البيهقي:7890(7506)]
[مشكاة المصابيح:4945]
تشریح :
مطلب یہ ہے کہ جو شخص ماں باپ کی نافرمانی کے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اسے اپنے اس گناہ کی سزا اپنی موت سے پہلے اسی دنیا میں بھگتنی پڑتی ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس دنیا کی زندگی کا تعلق ماں باپ سے ہو یعنی جو والدین اپنی اولاد کی طرف سے نافرمانی کا دکھ سہتے ہیں وہ اپنی زندگی ہی میں اس اولاد کو اپنے گناہ کی نافرمانی کی سزا بھگتتے دیکھ لیتے ہیں تاہم دونوں صورتوں میں آخرت کا عذاب بدستور باقی رہتا ہے کہ نافرمان اولاد محض اسی دنیا میں سزا نہیں پائے گی بلکہ آخرت میں بھی عذاب کی مستوجب ہوگی۔ اس حدیث کے سلسلہ میں ایک احتمال اور بھی ہے کہ وہ یہ کہ والدین کے حقوق کے مذکورہ بالا حکم میں تمام حقوق العباد شامل ہوں یعنی جس طرح ماں باپ کے حقوق ادا نہ کرنے والی اولاد اس گناہ کی سزا دنیا میں پاتی ہے اسی طرح ہر وہ شخص بھی اسی دنیا میں سزا یاب ہوتا ہے جو بندوں کے حقوق کو پامال کرتا ہے چناچہ حکومت وقت کے خلاف بلا کسی شرعی و قانونی وجہ کے بغاوت کرنے والے اور ناحق ظلم کرنے والے کے بارے میں مذکورہ بالا طرح کی منقول وعید سے یہی ثابت ہوتا ہے حاصل یہ ہے کہ مذکورہ بالا ارشاد گرامی کے ذریعہ والدین کے حقوق کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے اور ان کی نافرمانی کرنے کے گناہ کی شدت و سنگینی کو بڑے سخت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment