Friday, 15 July 2022

اللہ کی ماننے کے دنیاوی فوائد


(1)اجتماعی اطاعت سے دنیا میں بھی اجتماعی خیر ونجات:
حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:

«إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا، مَالِكُ الْمُلُوكِ وَمَلِكُ الْمُلُوكِ، قُلُوبُ الْمُلُوكِ فِي يَدِي، وَإِنَّ الْعِبَادَ إِذَا أَطَاعُونِي حَوَّلْتُ قُلُوبَ مُلُوكِهِمْ عَلَيْهِمْ بِالرَّأْفَةِ وَالرَّحْمَةِ، وَإِنَّ الْعِبَادَ إِذَا عَصَوْنِي حَوَّلْتُ قُلُوبَهُمْ عَلَيْهِمْ بِالسَّخْطَةِ وَالنِّقْمَةِ فَسَامُوهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ، فَلَا تَشْغَلُوا أَنْفُسَكُمْ بِالدُّعَاءِ عَلَى الْمُلُوكِ، وَلَكِنِ اشْتَغِلُوا بِالذِّكْرِ وَالتَّضَرُّعِ إِلَيَّ أَكْفِكُمْ مُلُوكَكُمْ»

ترجمہ:
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ : میں اللہ ہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، میں بادشاہ ہوں کا مالک ہوں بلکہ بادشاہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے قبضہ میں ہیں جب بندے میری فرماں برداری کرتے ہیں تو میں ان کے بادشاہوں کے دلوں کوان کی طرف رحمت وشفقت کرنے کے لیے پھیر دیتا ہوں اور میرے بندے جب میری نافرمانی پر اترجاتے ہیں تو میں ان کی طرف بادشاہوں کے دلوں کو غصہ اور انتقام کے لیے متوجہ کردیتا ہوں، پس وہ ان کو سخت عذاب اور تکالیف میں مبتلا کردیتے ہیں اس لیے خود کو بادشاہوں پر بددعا میں مشغول نہ کرو بلکہ خود کو ذکر، عجز تضرع میں مشغول رکھو تاکہ میں تمھارے بادشاہوں کے مظالم سے تم کو محفوظ رکھوں۔

[المعجم الأوسط للطبراني:8962، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء:2/ 388، فوائد تمام:657]


القرآن:

 کہو کہ : اے اللہ ! اے اقتدار کے مالک ! تو جس کو چاہتا ہے اقتدار بخشتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے رسوا کردیتا ہے، تمام تر بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔

[سورۃ آل عمران:26-غرائب التفسير وعجائب التأويل-الكرماني:1/ 249]

اور اے تم اللہ کے سامنے توبہ کرو سب کے سب اے مومنو! تاکہ تم کامیاب ہو۔

[سورۃ النور:31]


حکمرانوں کو برا بھلا کہنے کے بجاۓ اپنی اصلاح پر مشغول رہنا:

خلاصہ یہ ہے  کہ رعایا کے  ساتھ  حکمرانوں کے رویہ کا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال وکردار سے ہوتا ہے کہ اگر رعایا کے لوگ اللہ کی اطاعت و فرمان برداری کرتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات بالعموم راست بازی ونیک کرداری کے پابند ہوتے ہیں تو ان کا ظالم حکم ران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور شفیق بن جاتا ہے اور اگر رعایا کے لوگ اللہ کی سرکشی وطغیانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات عام طور پر بد کر داری کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان کا عادل ونرم خو حکم ران بھی ان کے حق میں غضب ناک اور سخت گیر ہو جاتا ہے؛ لہٰذا حکم ران کے  ظلم وستم اور اس کی سخت گیری وانصافی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لیے بدعا کرنے کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، ایسے حالات میں اپنی بداعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ استغفار کیا جائے ، اللہ تعالیٰ کے دربار میں عاجزی وزاری کے ساتھ التجا و  فریاد کی جائے اور اپنے اعمال و اپنے معاملات کو مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع کر دیا جائے تاکہ رحمتِ الٰہی متوجہ ہو اور ظالم حکم ران کے دل کو عدل وانصاف اور نرمی وشفقت کی طرف پھیر دے ۔





















(2) آسمان سے رحمتوں کا نزول:

رحمتوں والی بارش کی علامات:

عَنْ ‌أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ رَبُّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ: «لَوْ أَنَّ عِبَادِي ‌أَطَاعُونِي لَأَسْقَيْتُهُمُ الْمَطَرَ بِاللَّيْلِ، وَلَأَطْلَعْتُ عَلَيْهِمُ الشَّمْسَ بِالنَّهَارِ، وَلَمَا أَسْمَعْتُهُمْ صَوْتَ الرَّعْدِ»

ترجمہ:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم سب کے غالب وبزرگ رب نے فرمایا: اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تو میں انہیں رات میں بارش سے سیراب کروں گا (تاکہ معمولاتِ زندگی متاثر نہ ہوں)، دن میں ان پر سورج کو طلوع کروں گا (تاکہ کیچڑ اور دلدل پیدا نہ ہو) اور انہیں کڑک کی آواز تک نہ سناؤں گا۔

[مسند أبي داود الطيالسي:2709، مسند أحمد:8708، المنتخب من مسند عبد بن حميد:1422، المطر والرعد والبرق لابن أبي الدنيا:43، مسند البزار:9569، معجم ابن الأعرابي:1139، المستدرك على الصحيحين للحاكم:3331، 7657، الزهد الكبير للبيهقي:719]

[التفسير الوسيط للواحدي: ج3/ ص9، تفسير البغوي:1191، 4/ 303، الدر المنثور-امام السيوطي:4/623﴿سورۃ الرعد:12﴾]




حضرت ابوسعید الخدریؓ سے بھی یہی روایت مروی ہے۔

[الزهد الكبير للبيهقي:718، باب امیدوں کے گھٹانے اور مدتِ حیات پوری ہونے سے پہلے عمل کرنے میں پہل کرنے کے بیان میں۔]



القرآن:

وہی ہے جو تمہیں بجلی کی چمک دکھلاتا ہے جس سے تمہیں (اس کے گرنے کا) ڈر بھی لگتا ہے، اور (بارش کی) امید بھی بندھتی ہے اور وہی (پانی سے) لدے ہوئے بادل اٹھاتا ہے۔

اور بادلوں کی گرج اسی(اللہ) کی تسبیح اور حمد کرتی ہے (17) اور اس کے رُعب سے فرشتے بھی (تسبیح میں لگے ہوئے ہیں) اور وہی کڑکتی ہوئی بجلیاں بھیجتا ہے۔ پھر جس پر چاہتا ہے انہیں مصیبت بنا کر گرا دیتا ہے، اور ان (کافروں) کا حال یہ ہے کہ اللہ ہی کے بارے میں بحثیں کر رہے ہیں، حالانکہ اس کی طاقت بڑی زبردست ہے۔

[سورۃ نمبر 13 الرعد، آیت نمبر 13]

تفسیر:

(17): بادلوں کی گرج کا حمد اور تسبیح کرنا حقیقی معنی میں بھی ہوسکتا ہے ؛ کیونکہ کائنات کی ہر چیز کے بارے میں قرآن کریم نے سورة بنی اسرائیل میں فرمایا ہے کہ وہ اپنے اپنے انداز میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح کرتی ہے مگر لوگ ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہیں (15۔ 44) اور اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جو شخص بھی بادلوں کی گرج، چمک اس کے اسباب اور اس کے نتائج پر غور کرے گا، وہ دنیا کے کونے کونے تک پانی پہنچانے کے اس حیرت انگیز نظام کو دیکھ کر اس خالق ومالک کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا جس نے یہ نظام بنایا ہے، نیز وہ اس نتیجے تک ضرور پہنچے گا جس ذات نے یہ محیرا لعقول نظام بنایا ہے، وہ ہر عیب سے پاک ہے اور اس کو اپنی خدائی میں کسی شریک یا مددگار کی ضرورت نہیں، یہی تسبیح کے معنی ہیں۔



ایمان کی فضیلت» الله کے فیصلوں کو حکمت پر مبنی ماننا۔

الله کے رسول ﷺ نے فرمایا:

مجھے "مؤمن" کے معاملے پر تعجب ہوتا ہے کہ الله اس کیلئے جو بھی فیصلہ فرماتا ہے وہ اس کے حق میں بہتر ہی ہوتا ہے۔

[جامع الاحادیث(امام)السیوطی» حدیث#14065]


مومن کا معاملہ بھی بڑا عجیب ہے، اس کے ہر کام میں بھلائی ہے، اور یہ خصوصیت صرف مومن کو ہی حاصل ہے، اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو شکر کرنا اس کے حق میں بہتر ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے، اور صبر کرنا بھی اس کے حق میں بہتر ہے۔

[مسلم:2999]

تفسیر سورۃ(الاحزاب:35)النحل:30+97، التوبۃ:51،ھود:1


تشریح:

شکر یہ ہے کہ تھوڑے پر راضی رہا جائے اور فرائض کے ساتھ ساتھ نفل عبادت کی کثرت کی جائے۔

صبر یہ ہے کہ نافرمانی سے بچا جائے اور حق(دین) پر ثابت قدم رہا جائے اگرچہ ملامت کرنے والے ملامت کریں۔





No comments:

Post a Comment