یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
ظلم یہ نہیں ہے کہ مجرم کو (حق) سزا دی جائے یا کسی کی ناحق بات پوری نہ کر کے اسے دُکھی یا محروم کیا جائے، بلکہ ظلم تو یہ ہے کہ کسی کی حق بات کو اپنی طاقت کے مطابق پوری کرنے کی نہ کوشش کی جائے اور نہ ہی دل سے (توبہ کا) ارادہ کیا جائے۔
ناانصافی (ظلم) یہ ہے کہ
- دوسروں کو ناحق جسمانی، جذباتی یا ذہنی طور پر تکلیف پہنچانا یا نقصان پہنچانا۔
- کسی کو ان کے جائز حقوق، آزادیوں یا وقار سے محروم کرنا۔
- ذاتی فائدے یا ستانے کے لیے دوسروں کا حصہ ہتھایا یا زبردستی وزیادتی کرنا۔
- دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، یا چالبازی کرنا۔
ناانصافی(ظلم) یہ نہیں کہ:
- حدود طے کرنا یا غیر منصفانہ درخواستوں کو نہ ماننا۔
- لوگوں کو ان کے اعمال کے لیے جوابدہ بنانا۔
- ایسے فیصلے کرنا جن سے زیادہ/اجتماعی فائدہ ہو، چاہے وہ فائدہ کم/انفرادی خواہشات کے موافق نہ ہوں۔
- کسی کو بڑھنے/ترقی میں مدد کے لیے تعمیری تنقید یا آراء فراہم کرنا۔
- نقصاندہ یا زہریلے شخص سے خود کی دیکھ بھال کرنا اور حفاظت کو ترجیح دینا۔
ذہن میں رکھیں کہ یہ عمومی رہنما خطوط اور سیاق و سباق کے معاملات ہیں۔ ہمدردی، افہام و تفہیم، اور انصاف اور خیرخوہانہ عزم کے ساتھ ہر صورتحال سے رجوع کرنا ضروری ہے۔
حضرت سمرہ ابو عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے حیرہ میں ایک آدمی کو دیکھا جس کا جوڑ سے پاؤں کٹا ہوا تھا میں نے پوچھا: کس نے کاٹا؟ اس نے کہا: نیک آدمی حضرت علی نے میرا پاؤں کاٹا، بہرحال انھوں نے مجھ پر ظلم نہیں کیا۔
[مصنف ابن ابی شیبہ: کتاب:سزاؤں کا بیان، جو لوگ یوں کہیں:کہاں سے کاٹا جائے گا۔ حدیث نمبر: 29192(29193)]
کئی وجوہات کی بنا پر مجرم کو سزا دینا ناانصافی (ظلم) نہیں سمجھا جاتا:
1. بدلہ:
سزا مجرم کو ان کے اعمال کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کا ایک ذریعہ ہے، جس سے متاثرہ اور معاشرے کے لیے انصاف کا احساس ہوتا ہے۔
2. روک تھام:
سزا دوسروں کو اسی طرح کے جرائم کے ارتکاب سے روکنے، سماجی نظم و ضبط اور حفاظت کو برقرار رکھنے کے لیے ایک رکاوٹ کے طور پر کام کرتی ہے۔
3. بحالی:
سزا کا مقصد مجرم کی اصلاح کرنا ہو سکتا ہے، انہیں اپنے اعمال پر غور کرنے اور معاشرے کا ایک نتیجہ خیز رکن بننے میں مدد کرنا ہے۔
4. انصاف:
سزا قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھتی ہے، اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ افراد کو ان کے اعمال کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے، اور متاثرین اور ان کے خاندانوں کے لیے بندش فراہم کی جائے۔
تاہم، یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ:
- سزا شرعی تقاضوں کے مطابق منصفانہ، جرم کے متناسب ہونی چاہیے، اور انسانی حقوق یا وقار کی خلاف ورزی نہ ہو۔
- قانونی عمل کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ملزم کو منصفانہ ٹرائل ملے، جرم ثابت ہونے تک بے گناہی کے قیاس کے ساتھ۔
- صرف سزا دینے کے بجائے بحالی اور بحالی انصاف پر توجہ دی جانی چاہیے۔
اسلامی فقہ میں، "HUDOOD" (حدود یعنی شرعی سزاؤں) کا تصور سماجی انصاف کو برقرار رکھنے اور معاشرے کی حفاظت کے لیے سزا کی اہمیت پر زور دیتا ہے، جب کہ ممکن ہو تو رحم اور معافی کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔
مکککک
م
بدلہ لینے میں بھی ظلم (زیادتی) جائز نہیں۔
القرآن:
اور کسی برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے۔ پھر بھی جو کوئی معاف کردے، اور اصلاح سے کام لے تو اس کا ثواب اللہ نے ذمے لیا ہے۔ یقینا وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
[سورۃ الشوریٰ:40]
یہ بات طے ہے اور (آگے یہ بھی سن لو کہ) جس شخص نے کسی کو بدلے میں اتنی ہی تکلیف پہنچائی جتنی اس کو پہنچائی گئی تھی، اس کے بعد پھر اس سے زیادتی کی گئی، تو اللہ اس کی ضرور مدد کرے گا۔ یقین رکھو کہ اللہ بہت معاف کرنے والا، بہت بخشنے والا ہے۔
[سورۃ الحج:60][سورۃ التوبہ:13]
کککک
کککک
کککک
کککک
کککک
پہل کرنے والا(حقیقی)ظالم ہوتا ہے۔
القرآن:
کیا تم ان (مکہ کے مشرک) لوگوں سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قسموں (یعنی صلحِ حدیبیہ) کو توڑا، اور پیغمبر کو (اسی کے وطن سے) نکالنے کا ارادہ کیا، اور وہی ہیں جنہوں نے تمہارے خلاف (چھیڑ چھاڑ کرنے میں بھی) پہل کی؟ (12) کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ (اگر ایسا ہے) تو اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تم اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔
[سورۃ التوبہ:13]
اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے مکہ مکرمہ میں ظلم شروع کیا اور یہ بھی کہ انہوں نے صلح حدیبیہ کو توڑنے میں پہل کی۔
ظلم کی تعریف:
ظلم کہتے ہیں ناحق کسی کے حق میں عمل دخل کرنا
یا
کسی کے حق سے زیادتی کرنا۔
[نضرۃ النعیم:10/4872]
چاہے تھوڑی ہو یا زیادہ۔
[مفردات،امام راغب:1/537]
ظلم
ظُلمت(تاریکی): روشنی کی عدم موجودگی، اور اس کی جمع: ظُلُمات(تاریکیاں)ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یا جیسے گہرے سمندر میں اندھیرا
[سورۃ النور:40]
دوسروں کے اوپر اندھیرے
[سورۃالنور:40]
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تمہاری رہنمائی کرتا ہے۔
[سورۃ النمل:63]
اور تاریکیوں اور روشنی کو بنایا؟
[سورۃالانعام:1]
اور اس سے جہالت، شرک اور بے حیائی کا اظہار ہوتا ہے، جس طرح روشنی ان کے مخالف کو ظاہر کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وہ ان کو اندھیروں سے روشنی میں لاتا ہے۔
[البقرہ:257]
اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے کے لیے۔
گویا وہ اندھا ہے۔
[تھنڈر:19]
اور سورۃ الانعام میں اس کا فرمان ہے:
اور ہماری آیتوں کو جھٹلانے والے بہرے اور اندھیرے میں گونگے ہیں۔
چنانچہ فرمایا:
وہ مر گیا سائے میں۔
یہاں ان کے اس قول میں اندھے پن کا موضوع ہے:
بہرا گونگا اندھا
[البقرہ:18]
اور اس کا قول:
تین اندھیروں میں
[الزمر:6]
یعنی:
پیٹ، بچہ دانی، نال، اور تاریک ترین فلاں: یہ اندھیرے میں ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
پھر ان پر ظلم کیا گیا۔
[یٰس:37]
ظلم کی لغوی تعریف:
اور اہل زبان اور بہت سے علماء کے نزدیک ناانصافی: کسی چیز کو اس کی مناسب جگہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر رکھنا، یا تو اسے گھٹا کر یا بڑھا کر، یا اس کے وقت یا جگہ سے ہٹ کر۔
ظلم تین ہیں:
پہلا: انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ظلم، جس میں سب سے بڑا کفر، شرک اور نفاق ہے، اور اسی لیے فرمایا:
شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
[سورۃ لقمان:13]
اور وہ (کسی چیز کو اس کی جگہ کے علاوہ جگہ میں رکھنا) ہے، زیادتی کرنا، حد سے آگے بڑھ جانا اور درمیاں سے ہٹ جانا۔ پھر اس کا استعمال بڑھتا گیا یہاں تک کہ ہر زیادتی کا نام ظلم رکھ دیا گیا۔
ظلم کی اقسام:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ظلم تین قسم كے ہیں:
ایک ظلم كو اللہ تعالیٰ نہیں چھوڑے گا، اور ایک ظلم كو بخش دے گا اور تیسرا ظلم بخشا نہیں جائے گا۔
وہ ظلم جو بخشا نہیں جائے گا وہ شرک ہے، جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں كرے گا۔
اور وہ ظلم جسے اللہ تعالیٰ بخش دے گا تو وہ یہ ظلم ہے جو بندے اور اس كے رب كے درمیان ہے،
اور وہ ظلم جسے چھوڑا نہیں جائے گا وہ بندوں كے ظلم ہیں، اللہ تعالیٰ ایک دوسرے كو بدلہ لے كر دے گا۔
[الصحيحة:1927، مسند الطيالسي:2223]
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اعمال نامے تین قسم کے ہیں، ایک وہ اعمال نامہ جسے اللہ معاف نہیں فرمائے گا، وہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا ہے، اللہ عزوجل فرماتا ہے:’’ بے شک اللہ معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے۔‘‘ ایک وہ اعمال نامہ ہے جسے اللہ نہیں چھوڑے گا، وہ ہے بندوں کا آپس میں ظلم کرنا حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے سے بدلہ لے لیں، اور ایک وہ نامہ اعمال ہے جس کی اللہ پرواہ نہیں کرے گا، وہ ہے بندوں کا اپنے اور اللہ کے درمیان ظلم کرنا، یہ اللہ کے سپرد ہے، اگر وہ چاہے تو اسے عذاب دے دے اور اگر چاہے تو اس سے درگزر فرمائے۔‘‘
[مسند أحمد:26031(24882)]
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:8717]
[شعب الإيمان-البيهقي:7069+7070]
[المجالسة وجواهر العلم -الدِّينَوري:6]
[الدر المنثور في التفسير بالمأثور-السيوطي:2/ 558، سورۃ النساء:48]
[تفسير ابن كثير:3/ 142،سورۃ المائدہ:72]
ظالم کب قابلِ معافی ہے؟
القرآن:
پھر جو شخص اپنی ظالمانہ کاروائی سے (1)توبہ کرلے، اور معاملات (2)درست کرلے، تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلے گا بیشک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 39]
تشریح:
اصلاح ودرستگی یہ ہے کہ جو قرض باقی ہے اسے ادا کرے، جو(چوری/ڈاکہ/سود/رشوت سے) چھینا یا بغیررضامندگی لیا ہے وہ واپس کرے۔ زنا/قتل کیا ہے تو سزا قبول کرے۔۔۔پھر شاید اسے آخرت کی شدید دردناک سزا سے بخشش نصیب ہو۔
ہر ظلم ناقابلِ معافی نہیں۔
اللہ کے سب سے بڑے حق میں ظلم-قصور ناقابلِ معافی ہے۔
القرآن:
بیشک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر بات کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے وہ ایسا بہتان باندھتا ہے جو بڑا زبردست گناہ ہے۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 48]
حضرت آدم وحوا کی توبہ کی کلمات
القرآن:
دونوں بول اٹھے کہ: اے ہمارے پروردگار! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔
[سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 23]
حضرت یونس کی توبہ کے کلمات
القرآن:
اور مچھلی والے (پیغمبر یعنی یونس ؑ) کو دیکھو! جب وہ خفا ہو کر چل کھڑے ہوئے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہم ان کی کوئی پکڑ نہیں کریں گے۔ پھر انہوں نے اندھیریوں میں سے آواز لگائی کہ : (یا اللہ!) تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو ہر عیب سے پاک ہے، بیشک میں قصور وار ہوں۔
[سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 87]
تفسیر:
حضرت یونس ؑ کا واقعہ پیچھے سورة یونس:97 میں گذر چکا ہے کہ اللہ کا حکم آنے سے پہلے وہ اپنی بستی کو چھوڑ گئے تھے، اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی، اور اس کی وجہ سے ان پر یہ آزمائش آئی کہ جس کشتی میں وہ سوار ہوئے تھے۔ انہیں اس میں سے دریا میں اتار دیا گیا۔ اور ایک مچھلی انہیں نگل گئی، جس کے پیٹ میں وہ تین دن رہے، اس آیت میں اندھیریوں سے مراد مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیں ایک کنارے پر لا کر پھینک دے، اور اس طرح انہیں اس گھٹن سے نجات ملی، واقعے کی مزید تفصیل انشاء اللہ سورة صافات:139 تا 148 میں گذر چکی ہے۔
اللہ کی کتاب کے بعض وارثوں کا اپنی جان پر ظلم۔
القرآن:
پھر ہم نے اس کتاب کا وارث اپنے بندوں میں سے ان کو بنایا جنہیں ہم نے چن لیا تھا، پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جو اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں، اور انہی میں سے کچھ ایسے ہیں جو درمیانے درجے کے ہیں، اور کچھ وہ ہیں جو اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں بڑھے چلے جاتے ہیں۔ اور یہ (اللہ کا) بہت بڑا فضل ہے۔
[سورۃ نمبر 35 فاطر، آیت نمبر 32]
تفسیر:
اس سے مراد مسلمان ہیں، مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن براہ راست تو حضور سرور عالم ﷺ پر نازل ہوا، لیکن پھر اس کا وراث ان مسلمانوں کو بنایا گیا جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے چن لیا تھا کہ وہ اللہ کی کتاب پر ایمان لائیں، لیکن ایمان لانے کے بعد ان کی تین قسمیں ہوگئیں، ایک وہ تھے جو ایمان تو لے آئے لیکن اس کے تقاضوں پر پوری طرح عمل نہیں کیا، چنانچہ اپنے بعض فرائض چھوڑدئیے، اور گناہوں کا بھی ارتکاب کرلیا، ان کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، کیونکہ ایمان کا تقاضا تو یہ تھا کہ انہیں جنت میں فوری داخلہ نصیب ہوتا، لیکن انہوں نے گناہ کرکے اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنالیا، جس کے نتیجے میں قانون کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے شخص کو پہلے اپنے گناہوں کا عذاب بھگتنا ہوگا، دوسری قسم جس کو درمیانے درجے کا کہا گیا ہے، اس سے مراد وہ مسلمان ہیں جو فرائض وواجبات پر تو عمل کرتے ہیں اور گناہوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں ؛ لیکن نفلی عبادتیں اور مستحب کاموں پر عمل نہیں کرتے، اور تیسری قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جو صرف فرائض وواجبات پر اکتفا کرنے کے بجائے نفلی عبادتوں اور مستحب کاموں کا بھی پورا اہتمام کرتے ہیں، یہ تینوں قسمیں مسلمانوں ہی کی بیان کی ہوئی ہیں، اور آخر کار مغفرت کے بعد جنت میں انشاء اللہ تینوں قسمیں داخل ہوں گی۔
ظالم کیلئے بخشش کا بندوبست، مظلوم کو جنت دے کر۔
حضرت عباس بن مرداس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وقوفِ عرفات میں اپنی امت کی مغفرت کے لیے دعا فرمائی تو قبولیت کا جواب آیا کہ ’’ میں نے حقوق العباد کے سوا باقی سب گناہ معاف کر دیے، کیونکہ میں اس سے مظلوم کا حق لوں گا۔‘‘ آپ ﷺ نے عرض کیا:
’’اے رب! اگر آپ چاہیں تو مظلوم کو جنت میں سے عطا کر دیں اور ظالم کو بخش دیں۔‘‘
لیکن اس قیام میں آپ کی دعا قبول نہ ہوئی، تو جب مزدلفہ میں صبح کی تو آپ ﷺ نے دعا دہرائی تو آپ کی دعا قبول کر لی گئی۔ راوی بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ہنسے یا تبسم فرمایا تو ابوبکر ؓ اور عمر ؓ نے عرض کیا: میرے والدین آپ پر قربان ہوں یہ تو ایسا وقت ہے کہ اس وقت آپ ہنسا نہیں کرتے تھے، آپ کو کس چیز نے ہنسایا، اللہ تعالیٰ آپ کو خوش و خرم رکھے، آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے دشمن ابلیس کو جب پتہ چلا کہ اللہ عزوجل نے میری دعا قبول فرما کر میری امت کو بخش دیا ہے تو وہ اپنے سر میں مٹی ڈالنے لگا اور تباہی و ہلاکت کو پکارنے لگا، جب میں نے اس کی بے صبری دیکھی تو مجھے ہنسی آ گئی۔‘‘
[سنن ابن ماجہ:3013، مسند احمد:16207، الأحاديث المختارة:493، مسند أبي يعلى الموصلي:1578، السنن الكبرى للبيهقي:9481]
القرآن:
ایک وقت آئے گا جب یہ کافر لوگ بڑی تمنائیں کریں گے کہ کاش وہ مسلمان(موحد) ہوتے۔
[سورۃ نمبر 15 الحجر، آیت نمبر 2]
یعنی مشرک نہ ہوتے۔
القرآن:
۔۔۔آج کافر لوگ تمہارے دین (کے مغلوب ہونے) سے ناامید ہوگئے ہیں۔۔۔
[سورۃ المائدۃ:3,تفسیر المظھری]
ظالم ومظلوم دونوں زیادتی کریں تو گناہگار کون؟
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
باہم گالی گلوچ کرنے والے جو کچھ کہتے ہیں اس کا گناہ اس شخص پر ہوگا جس نے ابتداء کی ہوگی، جب تک کہ مظلوم اس سے تجاوز نہ کرے۔
[صحيح مسلم:2587، سنن أبي داود:4894، سنن الترمذي:1981]
ظلم پر احتجاج:
ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اپنے پڑوسی کی شکایت کر رہا تھا، آپ نے فرمایا: جاؤ صبر کرو پھر وہ آپ کے پاس دوسری یا تیسری دفعہ آیا، تو آپ نے فرمایا: جاؤ اپنا سامان نکال کر راستے میں ڈھیر کر دو تو اس نے اپنا سامان نکال کر راستہ میں ڈال دیا، لوگ اس سے وجہ پوچھنے لگے اور وہ پڑوسی کے متعلق لوگوں کو بتانے لگا، لوگ (سن کر) اس پر لعنت کرنے اور اسے بد دعا دینے لگے کہ اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے، ایسا کرے، اس پر اس کا پڑوسی آیا اور کہنے لگا: اب آپ (گھر میں) واپس آجائے آئندہ مجھ سے کوئی ایسی بات نہ دیکھیں گے جو آپ کو ناپسند ہو۔
[سنن ابو داؤد:5153، صحيح ابن حبان:520]
اور اگر ظالم میں حیاء(لوگوں کا خوف) نہ ہو تو۔۔۔۔
حضرت مخارق سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور میرا مال چھیننا چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا: اسے اللہ تعالیٰ سے نصیحت کر۔‘‘ اس نے کہا: اگر وہ نصیحت نہ مانے تو؟ آپ نے فرمایا: اپنے آس پاس کے مسلمانوں سے مدد حاصل کر۔ اس نے کہا: اگر میرے آس پاس کوئی مسلمان نہ ہوں تو؟ آپ نے فرمایا: سلطان سے مدد طلب کر۔ اس نے کہا: اگر سلطان بھی مجھ سے دور ہو؟ فرمایا: پھر اپنے مال کی حفاظت کے لیے لڑائی کر حتی کہ تو آخرت میں شہید بن جائے یا اپنے مال کو بچالے۔
[سنن النسائی:4086]
اور اگر حکمران ہی ناانصافی کرے تو۔۔۔
حضرت عوف بن مالک اشجعی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: تمہارے بہترین امام(leader)وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں، تم ان کے لیے دعا کرو(جنازہ پڑھو) اور وہ تمہارے لیے دعا کریں(جنازہ میں شریک ہوں)۔ اور تمہارے بدترین امام وہ ہیں جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے بغض رکھیں، تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔
[ترمذی:2264]
عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ان کو تلوار کے زور سے پھینک(ہٹا)نہ دیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک کہ وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں۔
[احمد:11224]
اور جب تم اپنے حکمرانوں میں کوئی ایسی چیز دیکھو جسے تم ناپسند کرتے ہو تو اس کے عمل کو ناپسند کرو لیکن اس کی(دیگر جائز باتوں میں)اطاعت سے نہ جھگڑو۔
No comments:
Post a Comment