"امریکی سازشی ٹولہ think tank رینڈ کارپوریشن (Rand Corporation) نے امریکی حکومت کے لیے 9/11 سے بہت پہلے جو مسلم دشمن ایجنڈہ بناکر دیا تھا، اس میں اہم ترین مسلمانوں کو اندرونی محاذ (یعنی عوام اور علماء وحکام کے درمیان آپسی لڑائی) کے فروغ کے ذریعہ کمزور کرنا بھی تھا۔"
https://www.rand.org/pubs/monographs/MG574.html
اسلام کو بدلنے کی سازش کا ثبوت
امریکہ اسلام کو کس شکل میں ڈھالنے کا خواہاں ہے اور کن کن ذرائع، پالیسیوں اور سوچ کے ذریعے اپنے من پسند اسلام کو دنیا میں فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے، اس پر کسی سازشی تھیوری یا تجزیہ کی بجائے آئیں ذرا اُس دستاویز پر ہی نظر دوڑا لیتے ہیں جو امریکہ و یورپ کی پالیسی کا Focus ہے اور جسے امریکہ و یورپ اسلامی ممالک پر مسلط کرنے کے لیے پورے طریقے سے سرگرم ہیں۔
میری تو قارئین کرام کے ساتھ ساتھ سیاسی و مذہبی رہنماؤں، فوج اور سکیورٹی ایجنسیوں کے اعلیٰ افسروں، پارلیمنٹ کے ممبران اور حکمرانوں کے علاوہ میڈیا کے بڑوں سے بھی گزارش ہوگی کہ اس دستاویز کا ضرور مطالعہ کریں تاکہ لبرل ازم اور جدت پسندی کے اُس بخار کی وجہ کو بھی سمجھا جا سکے جو آج کل کئی دوسرے اسلامی ملکوں کے علاوہ ہمارے حاکم طبقات اور میڈیا کو بھی چڑھا ہوا ہے اور جہاں اسلام کے نفاذ اور شریعت کی بات کرنے والوں کو بنیاد پرستی اور شدت پسندی کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔
آپ اس رپورٹ کو اس لئے بھی پڑھ کر حیران ہوں گے کہ کس طرح ایک پالیسی کے تحت مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے تاکہ امریکہ کے ورلڈ آرڈر اور مغربی تہذیب کو اسلامی ممالک میں بھی لاگو کیا جا سکے، جس کے لئے اسلام کے اصل کو بدلنا شرط ہے۔ اِس رپورٹ کو پڑھ کر اپنے اردگرد اُن چہروں کو پہچاننے کی بھی کوشش کریں جو اسلام کو امریکہ کی خواہش کے مطابق بدلنا چاہتے ہیں۔
رینڈ کارپوریشن (Rand Corporation) امریکہ کا ایک اہم ترین تھنک ٹینک ہے جو امریکی حکومت کے لئے پالیسیاں بناتا ہے۔ 9/11کے بعد رینڈ کارپوریشن کے نیشنل سکیورٹی ریسرچ ڈویژن نے "CIVIL DEMOCRATIC ISLAM, PARTNERS, RESOURCES AND STRATEGIES" کے عنوان سے 72صفحات پر مشتمل ایک پالیسی پیپر تیار کیا جسے انٹرنیٹ پر اس تھنک ٹینک کی ویب سائٹ پر پڑھا جا سکتا ہے۔
اس پالیسی پیپر کے ابتدا ہی میں بغیر کسی لگی لپٹی کے لکھا گیا کہ امریکہ اور ماڈرن انڈسٹریل ورلڈ کو ایسی اسلامی دنیا کی ضرورت ہے جو مغربی اصولوں اور رولز کے مطابق چلے جس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں میں موجود ایسے افراد اور طبقہ کی پشت پناہی کی جائے جو مغربی جمہوریت اور جدیدیت کو ماننے والے ہوں۔
ایسے افراد کو کیسے ڈھونڈا جائے یہ وہ سوال تھا جس پر رینڈ کارپوریشن نے مسلمانوں کو چار Categoriesمیں تقسیم کیا۔ پہلی قسم بنیادپرست (Fundamentalists) جن کے بارے میں رینڈ کارپوریشن کہتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جومغربی جمہوریت اور موجودہ مغربی اقدار اور تہذیب کو ماننے کی بجائے اسلامی قوانین اور اسلامی اقدار کے نفاذ کے خواہاں ہیں۔
دوسری قسم قدامت پسند (Traditionalists) مسلمانوں کی ہے جو قدامت پسند معاشرہ چاہتے ہیں کیوں کہ وہ جدیدیت اور تبدیلی کے بارے میں مشکوک رہتے ہیں۔ رینڈ کارپوریشن کے مطابق تیسری قسم ایسے مسلمانوں کی ہے جنہیں جدت پسند (Modernists) کا نام دیا گیا جو بین الاقوامی جدیدیت (Global Modernity) کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں اسلام کو بھی جدید بنانے کے لئے اصلاحات کے قائل ہیں۔ چوتھی قسم ہے سیکولر (Secularists) مسلمانوں کی جو اسلامی دنیا سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی مغرب کی طرح دین کو ریاست سے علیحدہ کر دیں۔
پہلی قسم کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی تھنک ٹینک کا اسٹریٹجک پیپر لکھتا ہے کہ بنیادپرست امریکہ اور مغرب کے بارے میں مخالفانہ رویہ رکھتے ہیں۔ رپورٹ کے Footnotesمیں مرحوم قاضی حسین احمد اور جماعت اسلامی کا حوالہ بنیاد پرستوں کے طور پر دیا گیا اور یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ ضروری نہیں کہ Fundamentalists دہشتگردی کی بھی حمایت کرتے ہوں۔
اس رپورٹ نے امریکی حکمرانوں کو تجویز دی کہ بنیاد پرست مسلمانوں کی حمایت کوئی آپشن نہیں۔ قدامت پسند مسلمان رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ اعتدال پسند ہوتے ہیں لیکن ان میں بہت سے لوگ بنیادپرستوں کے قریب ہیں۔
امریکی پالیسی رپورٹ کے مطابق اعتدال پسندوں میں یہ خرابی ہے کہ وہ دل سے جدت پسندی کے کلچر اور مغربی ویلیوز کو تسلیم نہیں کرتے۔ جدت پسنداور سیکولر مسلمانوں کے بارے میں رپورٹ کا کہنا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مغربی اقدار اور پالیسیوں کے قریب ترین ہیں۔ لیکن، رینڈ پالیسی رپورٹ کے مطابق، یہ دونوں طبقے (Modernists and Secularists) مسلمانوں میں کمزور ہیں، ان کو زیادہ حمایت حاصل ہے اور نہ ہی ان کے پاس مالی وسائل اور موثر انفراسٹرکچر موجود ہے۔
پالیسی رپورٹ نے اسلامی دنیا میں مغربی جمہوریت، جدت پسندی اور ورلڈ آرڈر کے فروغ اور نفاذ کے لئے کئی تجاویز دیں اور کہا کہ امریکہ اور مغرب کو بڑی احتیاط کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اسلامی ممالک اور معاشروں میں کن افراد، کیسی قوتوں اور کیسے رجحانات کو مضبوط بنانے میں مدد دینی ہے تاکہ مقررہ اہداف حاصل ہو سکیں۔
ان اہداف کے حصول کے لئے امریکہ و یورپ کو پالیسی دی گئی کہ وہ جدت پسندوں (Modernists) کی حمایت کریں، اس طبقہ کے کام کی اشاعت اور ڈسٹری بیوشن میں مالی مدد کریں، اُن کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ عوام الناس اور نوجوانوں کے لئے لکھیں، ایسے جدت پسند نظریات کو اسلامی تعلیمی نصاب میں شامل کریں، جدت پسندوں کو پبلک پلیٹ فارم مہیا کریں،بنیادپرست اور قدامت پرست مسلمانوں کے برعکس جدت پسندوں کی اسلامی معاملات پر تشریحات، رائے اور فیصلوں کو میڈیا، انٹر نیٹ، اسکولوں کالجوں اور دوسرے ذرائع سے عام کریں، سیکولرازم اور جدت پسندی کو مسلمان نوجوانوں کے سامنے متبادل کلچر کے طور پر پیش کریں، مسلمان نوجوانوں کو اسلام کے علاوہ دوسرے کلچرز کی تاریخ پڑھائیں، سول سوسائٹی کو مضبوط کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ اس پالیسی میں امریکہ و یورپ کو یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ قدامت پسندوں کو بنیادپرستوں کے خلاف سپورٹ کریں، ان دونوں طبقوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دیں، پوری کوشش کی جائے کہ بنیاد پرست مسلمان اور قدامت پرست آپس میں اتحاد نہ قائم کر سکیں،
قدامت پسندوں کی دہشت گردی کے خلاف بیانات کو خوب اجاگر کریں، بنیاد پرستوں کو اکیلا کرنے کے لئے کوشش کریں کہ قدامت پسند اور جدت پسند آپس میں تعاون کریں، جہاں ممکن ہو قدامت پسندوں کی تربیت کریں تا کہ وہ بنیاد پرستوں کے مقابلہ میں بہتر مکالمہ کر سکیں، بنیاد پرستوں کی اسلام کے متعلق سوچ کو چیلنج کریں، بنیاد پرست طبقوں کے غیرقانونی گروہوں اور واقعات سے تعلق کو سامنے لائیں، عوام کو بتائیں کہ بنیاد پرست حکمرانی کر سکتے اور نہ اپنے لوگوں کو ترقی دلوا سکتے ہیں، بنیاد پرستوں میں موجود شدت پسندوں کی دہشتگردی کو بزدلی سے جوڑیں۔
اس پالیسی رپورٹ میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ بنیاد پرستوں کے درمیان آپس کے اختلافات کی حوصلہ افزائی کریں۔ بنیاد پرستوں کو مشترکہ دشمن کے طور پر لیا جائے۔ رینڈ کارپوریشن نے اپنی پالیسی رپورٹ میں امریکہ و یورپ کو یہ بھی تجویز دی کہ اس رائے کی حمایت کی جائے کہ ریاست اور مذہب کو جدا کیا جائے اور اسے اسلامی طور پر بھی صحیح ثابت کیا جائے اور یہ بھی مسلمانوں کو بتایا جائے کہ اسلام کو ریاست سے جدا کرنے سے اُن کا ایمان خطرے میں نہیں پڑے گا بلکہ مزید مضبوط ہو گا‘‘۔
https://www.rand.org/pubs/monographs/MG574.html
ترجمہ:
کافر لوگ خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے، یہ نہیں چاہتے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے کوئی بھلائی تم پر نازل ہو، حالانکہ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے مخصوص فرما لیتا ہے۔ اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 105]
القرآن:
اور یہود و نصاری تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے۔ کہہ دو کہ حقیقی ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے۔ اور تمہارے پاس (وحی کے ذریعے) جو علم آگیا ہے اگر کہیں تم نے اس کے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرلی تو تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے نہ کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 120]
یہ امریکہ کا ایک غیر منافع بخش ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ تھنک ٹینک ہے، جسے 1948ء میں وجود میں لایا گیا، یہ تنظیم امریکہ کے سرکار اور عسکری قیادت کو مختلف نوعیت کے ریسرچ اور تجزیہ پیش کرنے کے خدمات سرانجام دیتی ہے-
18 مارچ 2004ء کو اس تنظیم نے “مغرب کیسے بنیادی اسلام کا راستہ روک سکتی ہے” کے نام سے ایک ریسرچ پیپر شائع کیا، جو اب تک گوگل سیرچ انجن پر موجود ہے۔
اس تنظیم کے تجزیہ کار اور اس رپورٹ کے مصنف “چیرل بنارڈ” کے مطابق مسلمانوں کو مندرجہ زیل چار طبقوں میں سلسلہ وار تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1) فنڈمنٹلسٹ مطلب بنیاد پرست :
اس طبقے کے مسلمان اسلام کو صرف مذہب نہیں بلکہ دین اور زندگی گزارنے کا ایک بہترین نظام سمجھتے ہیں، یہ کٹر مسلمان اسلام کے نظام کو لاگو کرنا اور ہر صورت پھیلانا چاہتے ہیں۔ ان کی اہم خصوصیت ریاست ہائے متحدہ کے خلاف کھلم کھلا اور جارحانہ دشمنی اور جمہوری نظام کے اختتام کا عزم ہے۔
2) ٹریڈشنلسٹ یعنی روایت پرست:
ان کا رجحان اپنے خاندان اور سماج کو ایک پرہیزگار اسلامی ڈھانچے کے مطابق زندگی گزارنے تک محدود ہوتا ہے۔ یہ ریاست کو چیلنج نہیں کرتے، عدم تشدد کو پسند پر جدیدیت کو ناپسند کرتے ہیں ۔ یہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے، یہاں تک کہ اسلام کے بارے میں بھی زیادہ کچھ نہیں جانتے ، اپنے مقامی روایات پر زیادہ چلتے ہیں۔ یہ بس 24 گھنٹے اسلام کے مطابق گزارنا چاہتے ہیں جبکہ اپنے معاشرے کی ترقی میں بھی کچھ خاص کردار ادا نہیں کرتے۔
3) ماڈرنسٹ مطلب جدیدیت پسند: اس قسم کے مسلمان ماڈرن خیالات کے ہوتے ہیں، جن کو اسلام کا کچھ خاص علم نہیں ہوتا، یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ جدید دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے، اور اس قسم کے اصلاحات کے خواہاں ہیں۔ یہ اپنے اقدار اور پالیسیوں کے لحاظ سے مغرب کے قریب ترین ہوتے ہیں۔
4) سیکولرست یعنی غیر مذہبی:
یہ ماڈرنسٹ سے بھی دو قدم آگے ہوتے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ مغرب کی طرح دین کو حکومت سے الگ رکھا جائے، اور مذہب کو ہر کا ایک نجی معاملہ تصور کیا جائے۔
اس رپورٹ کے مصنف کے مطابق مغرب کو خطرہ صرف بنیاد پرست مسلمانوں سے ہے،جس کے لئے اس نے مغرب کو مختلف تجاویز پیش کی ہیں- جیسا کہ ہمیں سب سے پہلے ماڈرنسٹ مسلمانوں کی حمایت کرنا ہوگی- تاکہ بنیاد پرست مسلمانوں کے تشریح کئے ہوئے اسلام کے خلاف بڑے پیمانے پر آواز اٹھا کر نوجوانوں کو اپنے تیز طرار تقریروں اور سیمینارز کے ذریعے بددل کیا جا سکے۔ تعلیمی اداروں، کتابوں، میڈیا، ٹیلیوژن، ریڈیو، اخبارات، ویب سائٹس، بزنس، سول سوسائٹیز وغیرہ کے ذریعے بنیاد پرست مسلمانوں کے خلاف زہر اگل کر لوگوں کو ورغلایا جائے۔
جب بھی نوجوانوں کو اسلامی مسائل سننے کا موقع ملے، ماڈرن طبقہ کے ذریعے ان کو اسلام کی نئی متاثر کن تشریح کی جائے۔
اسی طرح روایت پسند مسلمانوں کی بھی بنیاد پرست مسلمانوں کے خلاف مدد کی جائے۔ ان میں بھی ماڈرن بننے کا مادہ پایا جا سکتا ہے۔
بنیاد پرست مسلمانوں کا راستہ طاقت کے ساتھ روکا جائے، ان کا دعوه ہے کہ وہ خالص اور سچے اسلام کے پیروکار ہیں۔ ان کے دعوے کو بھی مختلف کمزور جگہوں پر چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ عوام میں ان کے مذہبی اور باعزت امیج کو بد نام کیا جائے۔
روایت پسند مسلمانوں کے عدم تشدد اور بنیاد پرست مسلمانوں کے تشدد پسندی کو اجاگر کیا جائے،اور کٹر مسلمانوں کو دہشت گردی کا لیبل دیا جائے۔
اسی طرح مغرب غیر مذہبی طبقے کی حمایت کریں۔ یہاں تک کہ بعض مضبوط ایمان رکھنے والوں کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ مذہب کو ریاست سے الگ رکھا جائے، جسے ہم اپنے مقصد کے لئے بروئے کار لا سکتے ہیں۔
جون 2006ء میں ان نفرتوں اور اختلافات کی بنیاد پر امریکا کی افواج کے رسالے US Armed Forces Journal میں امریکی فوج کے کرنل رالف پیٹرز کا مضمون Blood Borders چھپا جس میں اس نے مشرق وسطیٰ کا نیا نقشہ مرتب کیا۔ یہ نقشہ ملت اسلامیہ کو نسلی اور مسلکی اختلاف کی بنیاد پر تقسیم کر کے بنایا گیا تھا۔ اس میں سب سے زیادہ توسیع ایران کو دی گئی جو کابل کے دروازہ تک اور عراق میں بغداد شہر تک پہنچ گیا۔
https://www.rand.org/pubs/monographs/MG574.html
https://youtu.be/c4D4kJqUq_s
القرآن:
اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 208]
Three Years After: Next Steps in the war on Terror" (تین سال بعد: دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آئندہ مراحل)، یہ رینڈ کارپوریشن کی تازہ ترین دستاویز کا عنوان ہے جس میں مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں سے بحث کی گئی ہے اور اس میں مناسب تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ رینڈ کارپوریشن دائیں بازو کا ایک تحقیقی ادارہ ہے جس کے امریکی حکومت اور امریکی محکمہ دفاع اور انٹیلی جنس کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ یہ ادارہ دنیا پر امریکی غلبے کے حوالے سے مشہور ہے اور، جیسا کہ اس دستاویز سے بھی نمایاں طور پر اس بات کا اظہار ہوتا ہے، اس کی تحقیقی کاوشوں کا ہدف بھی اسی مقصد کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ یہ امریکا کے موثر ترین نو قدامت پسند اور صہیونیت کے حامی تھنک ٹینکس میں سے ہے اور اس کی مطبوعات دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت، جو اس دستاویز کا موضوع ہے، بنیادی ایشوز پر امریکی حکومت کی پالیسیوں کی عکاس بھی ہوتی ہیں اور ان کی تشکیل میں بھی مددگار ہوتی ہیں۔
اگر کوئی شخص دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے امریکی انتظامیہ کا زاویہ نظر سمجھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے اس دستاویز کا مطالعہ ناگزیر ہے، جو اپنے آپ کو ’’متعدد اعلیٰ ترین اور تازہ مطالعات کا حاصل‘‘ قرار دیتی ہے۔ سرسری نظر ڈالنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ رپورٹ دہشت گردی کے اسباب کے ایک نہایت غلط اور ناقص فہم پر مبنی ہے۔ چنانچہ اصل اسباب کو قصداً نظر انداز کرتے ہوئے اس میں جو حل تجویز کیے گئے ہیں، ان سے صورت حال کے مزید الجھنے اور زیادہ پیچیدہ ہو جانے کا خطرہ ہے۔
دستاویز کے مصنفین رینڈ کے خود ساختہ ماہرین ہیں جو امریکی حکومت کے محکموں سے قریبی طور پرمتعلق ہیں اور ان میں سے بعض یہودی پس منظر کے حامل ہیں۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق دہشت گردی کی واحد قسم جو غور وفکر اور توجہ کی مستحق ہے، صرف وہ ہے جسے ذرائع ابلاغ میں عام طور پر ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ امریکی ریاستی دہشت گردی کا تو ذکر ہی کیا جس کا وحشیانہ اظہار آج عراق میں ہو رہا ہے، اس دستاویز میں لگے بندھے خیالات کا اظہار کرنے والے ماہرین دہشت گردی کی دوسری مختلف شکلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اسلامی دہشت گردی کو دہشت گردی کی واحد شکل سمجھتے ہیں اور اسے امریکی مفادات کے لیے ایک بنیادی چیلنج بھی قرار دیتے ہیں۔
اسلامی دہشت گردی کی تشخیص میں بھی رینڈ کے خود ساختہ ماہرین ایک ناقابل معافی جہالت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بھی نرم الفاظ ہیں، ورنہ اس کے لیے دھوکے کا لفظ زیادہ بہتر ہے۔ متعدد مسلم ممالک میں بے اطمینانی کے اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی اسباب کو نظر انداز کرتے ہوئے، جن میں امریکی حمایت کے بل بوتے پر فلسطین پر اسرائیلی قبضہ اور مسلم ممالک میں جابر پٹھو حکمرانوں کی امریکی حمایت بھی شامل ہیں، یہ ماہرین اسلامی تشدد پسندی کو محض ایک نظریاتی مظہر سمجھتے ہیں۔ دستاویز کے ایڈیٹر داؤد ہارون ، جو امریکی حکومت کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار ہیں اور اس وقت رینڈ کارپوریشن کے ساتھ سینئر فیلو کی حیثیت سے منسلک ہیں، کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ ایک نظریاتی جنگ ہے جس میں اسلامی تشدد پسندی کا کردار وہی ہے جو کسی زمانے میں امریکی تصورات کے مطابق کمیونزم ادا کر رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تشدد پسندی کا نظریہ عملی حالات واثرات سے بالکل مجرد ہے اور اس کا کوئی تعلق ان سماجی حقائق سے نہیں ہے جو اس کو پیدا کرنے اور اسے تسلسل دینے کے ذمہ دار ہیں۔ مسلم بے اطمینانی کے تمام اسباب اسلام کے ایک غلط اور گمراہ کن فہم کا نتیجہ ہیں اور امریکی پالیسیوں کا نہ اس سے کوئی تعلق نہیں اور نہ وہ رد عمل میں پیدا ہونے والی اسلامی انتہا پسندی کی ذمہ دار ہیں۔ اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ سرد جنگ کے زمانے میں امریکی بالادستی کی مخالف اور بائیں بازو کی قوتوں کے خلاف لڑنے کے لیے امریکہ نے اسلامی گروپوں کی امداد اور حمایت کی جو پالیسی اختیار کی تھی، وہ اب طاق نسیاں کی نذر ہو گئی ہے کیونکہ سابقہ دوست اب دشمن بن گئے ہیں۔
مسلم بے اطمینانی کے اصل وجوہ پر بحث کرنے کے بجائے، جس کے نتائج میں ایک حد تک اسلامی تشدد پسندی بھی شامل ہے، اس دستاویز کے مصنفین کے تجویز کردہ حل امریکی غلبے اور صہیونی مفادات کے تحفظ کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔ وہ اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ امریکی پالیسی بنیادی طور پر درست ہے اور امریکا کے لیے خود احتسابی یا مسلم دنیا اور اسرائیل کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ چنانچہ یہ بات باعث حیرت نہیں کہ دستاویز میں مسلم بے چینی کے ممکنہ اسباب کے تحت درج ذیل حقائق کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا: اسرائیلی مظالم، عراق پر امریکہ کی عائد کردہ پابندیاں جن کی وجہ سے لاکھوں بچے موت کی وادی میں جا پہنچے، سالہا سال تک اسلامی گروپوں کی حمایت کے بعد افغانستان پر امریکی بمباری ، عراق پر امریکی اور برطانوی فوجوں پر حملہ اور اس پر کا قبضہ۔ اس طرح کی کسی چیز کا کوئی ذکر نہیں اور مسلم رد عمل کو محض ایک نظریاتی انحراف اور بے راہ روی قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی تشدد پسندی کی توجیہ اس خلاف حقیقت تناظر میں کرنے کے باعث مصنفین نے مسئلے کے صرف دو حل پیش کیے ہیں۔ ایک، اسلام مخالف بحث ومباحثہ کے فروغ کے ذریعے انتہا پسند اسلام کا نظریاتی سطح پر مقابلہ اور دوسرا ہر طرح کی میسر طاقت کا بھرپور استعمال کر کے انتہا پسند مسلمانوں کا خاتمہ۔
پہلا حل رینڈ کارپوریشن کے ایک ماہر چیری بنارڈ نے، جو بش کے اعلیٰ سطحی معاون اور عراق میں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کی اہلیہ ہیں، اپنے مقالے ’’اسلام میں جمہوریت: اسلامی دنیا میں جدوجہد۔ امریکہ کے لیے حکمت عملی‘‘ میں پیش کیا ہے۔ یہ مقالہ بھی اسی بنیادی مفروضے پر مبنی ہے کہ امریکی پالیسیاں مسلم بے اطمینانی یا مخالفانہ رد عمل کو جنم دینے کی ذمہ دار نہیں ہیں اور اس کے بجائے انتہا پسند اسلام کی اصل وجوہ اسلام کی چند مخصوص تعبیرات میں پائی جاتی ہیں ، جسے انھوں نے ’’اسلام کی داخلی کشمکش‘‘ کا نام دیا ہے۔ بینارڈ نے مضمون کے آغاز میں جارج بش کے اس قول کا مثبت انداز میں حوالہ دیا ہے کہ ’’فی الحقیقت ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عنوان ہی غلط رکھا ہے۔ اس کو نظریاتی انتہا پسندوں کے خلاف جدوجہد کہنا چاہیے جو آزاد معاشروں کے قیام پر یقین نہیں رکھتے اور دہشت گردی کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔‘‘
بینارڈ نے ایک بہت بڑا اور پرتخیل منصوبہ پیش کیا ہے جس کی امریکا کو پیروی کرنی چاہیے تاکہ اسلام کے ایک ایسے ورژن کو فروغ دیا جا سکے جو امریکی ہدایات کا فرماں بردار ہو۔ وہ اس قسم کے اسلام کو ’ماڈرنسٹ’ یعنی جدیدیت پسند اسلام کہتی ہیں اور اس سے ان کی مراد ایسا اسلام ہے جو مغربی پروٹسٹنٹ ازم سے معمولی طور پر ہی مختلف ہے اور سرمایہ دارارانہ نظام میں مطمئن رہ سکتا ہے۔ یہ نکتہ ان کے اس جملے سے، جو زیادہ گہرے تجزیے پر مبنی نہیں، واضح ہے کہ ’’جدیدیت ہی وہ چیز ہے جس نے مغرب کے لیے مفید کردار ادا کیا۔‘‘ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ جن جدیدیت پسندوں کی حمایت کا وہ مشورہ دے رہی ہیں، ان کا اثر ورسوخ صرف اشرافیہ میں ہے اور عوامی سطح پر انھیں کوئی مقبولیت یا پیروی حاصل نہیں، بینارڈ تجویز کرتی ہیں کہ امریکہ کو جدیدیت پسندوں کے کاموں کی مختلف شکلوں میں طباعت کے لیے امداد دینی چاہیے مثلاً ویب سائٹس، نصابی کتب، پمفلٹس اور کانفرنسز وغیرہ۔ ان کی رائے میں ’’امریکہ کو جدیدیت پسندوں کو مثالی نمونے اور راہنما کے طور پر مقبول بنانا چاہیے اور ان کے پیغام کے ابلاغ کے لیے مواقع اور پلیٹ فارم مہیا کرنے چاہییں۔‘‘ ظاہر ہے کہ بینارڈ امریکہ کو جن جدیدیت پسندوں سے تعاون کا مشورہ دے رہی ہیں، انھیں امریکی تعاون اس وقت تک ہی حاصل رہے گا جب تک کہ ان کے غیظ وغضب کا رخ اسلام پسندوں کی طرف رہے گا، لیکن اگر وہ امریکی مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا چاہیں گے تو انھیں اس کی اجازت نہیں دی جائے گی، جیسا کہ تیسری دنیا کی بائیں بازو کی قوتوں کی مثال سے ظاہر ہے جنھیں کچل دینے میں امریکی تعاون اور سازباز بھی حصہ دار ہے۔
دستاویز میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے دوسرا حل عسکری قوت کا استعمال تجویز کیا گیا ہے۔ یہ بھی اس مفروضے پر مبنی ہے کہ امریکی پالیسیوں میں تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں، امریکہ بالکل معصوم ہے اور اسلامی تشدد پسندی محض مذہب کے ساتھ جنونی لگاؤ کا نتیجہ ہے۔ بش حکومت کا معیاری موقف بھی یہی ہے۔ دستاویز میں اس موقف کو سابق امریکی ڈپٹی سیکرٹری آف ڈیفنس اور ورلڈ بینک کے حالیہ صدر پال ولفووٹز نے پوری قوت سے پیش کیا ہے، جو عراق پر امریکی حملے کے بنیادی منصوبہ سازوں میں سے ایک ہیں۔ امریکہ کے ظالمانہ امپریلسٹ ماضی، افریقی غلامی کے داغ، مقامی باشندوں کی امریکی نوآباد کاروں کے ہاتھوں تباہی، اور نام نہاد تیسری دنیا میں بلامبالغہ لاکھوں انسانوں کی ہلاکت جس کا امریکہ بنیادی طور پر ذمہ دار ہے، ان تمام حقائق سے آنکھیں چراتے ہوئے ولفووٹز یہ معصومانہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور عراق پر حملہ نہ قبضے کی غرض سے ہے اور نہ امریکہ کی شہنشاہیت قائم کرنے کے لیے ، اس کے بجائے یہ ایک اصولی جنگ ہے اور اس کا محرک آزادی اور جمہوریت کے ساتھ وابستگی کا وہ تصور ہے جس نے امریکی تاریخ کے آغاز ہی سے امریکہ کو متحرک کیے رکھا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’’امریکی قوم شر کے مقابلے کے لیے ہمیشہ میدان میں رہی ہے۔‘‘ اسے ناواقفیت کہہ لیجیے یا صریح دھوکہ، لیکن اگر ولفووٹز کو یہ توقع ہے کہ ان کا یہ دعویٰ امریکہ کے دامن سے سنگین جرائم کا داغ دھو سکتا ہے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ امریکی پالیسیاں بہت بڑی حد تک مسلم بے اطمینانی کی ذمہ دار ہیں، لیکن ولفو وٹز اس کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ اس کا سبب ’’دہشت گردانہ جنونیت‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ نتیجتاً وہ عراق پر امریکی حملے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نمایاں طور پر اسی طرح جائز اور برحق قرار دیتے ہیں جس طرح سفید فام مغربی آباد کار امریکہ کی سیاہ فام آبادی پر حملہ کرنے اور ان کو محکوم وغلام بنانے کو قرار دیتے تھے۔ ان آباد کاروں کے نزدیک بھی یہ ایک مہذب مشن تھا اور پال وولفووٹز کے الفاظ میں امریکہ بھی ’’ایک منصفانہ اور پر امن دنیا‘‘ کی تشکیل کے لیے دہشت گردوں کے جبر، موت اور مایوسی کے مقابلے میں زندگی، امید اور آزادی کا وژن پیش کر رہا ہے ۔ وہ بش کی عراق پالیسی کا ذکر ’آزادی کی طاقت کی کہانی‘ کے الفاظ میں کرتے ہیں اور عراق میں امریکی فوجیوں کو ’’غیر معمولی بہادر جوان امریکی‘‘ قرار دیتے ہیں ’’جو اپنی زندگیوں کو اس لیے خطرے میں ڈال رہے ہیں تاکہ دوسرے لوگ آزادی سے مستفید ہو سکیں اور تاکہ خود ہمارے اپنے لوگ زیادہ حفاظت سے زندگی بسر کر سکیں‘‘ ۔
ولفووٹز کو اصرار ہے کہ جمہوریت عراقیوں پر نافذ کرنی چاہیے اور اگر وہ مزاحمت کریں تو انھیں موت کی دھمکی دے کر اسے قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ گویا عراق پر امریکی حملہ ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبے کے تحت کیا گیا ہے اور اس کا کوئی واسطہ سستے تیل کے حصول یا وسیع تر مسیحی بنیاد پرست صہیونی ایجنڈے سے نہیں۔ کم از کم ولفووٹز ہمیں یہی باور کرانا چاہتے ہیں۔ وہ امریکی حملے کو یوں پیش کرتے ہیں جیسے اس کا محرک جمہوریت کے فروغ کا ایک بے پایاں جذبہ ہے۔ تاہم اس نکتے پر ان کی خاموشی ہرگز باعث حیرت نہیں کہ امریکہ دنیا کی بعض بدترین غیر جمہوری حکومتوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔
عراق امریکی قابض فوجوں کی موجودگی کو انسانی واخلاقی جواز دینے کی غرض سے وہ ایک نا معلوم عراقی خاتون کا حوالہ دیتے ہیں جس نے مبینہ طور پر ایک جمہوری معاشرے کے روزوشب کو دیکھنے کے لیے امریکہ کا دورہ کیا اور وائٹ ہاؤس میں صدر بش سے ملاقات کے دوران میں کہا کہ ’’اگر امریکی افواج قربانی نہ دیتیں تو عراقی خواتین کو کبھی جمہوریت سے متعلق جاننے کا موقع میسر نہ آتا۔‘‘ یہاں نہ ان ہزاروں عراقیوں کا کوئی ذکر ہے جنھیں امریکی پابندیوں کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑے، نہ دس سال پر محیط عراق ایران جنگ میں عراق کی امریکی حمایت کا ، اور نہ ان ہزاروں عراقیوں کو جو امریکی حملے کے بعد سے اب تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ ولفووٹز ’’عراق میں امریکی فوجیوں کے عظیم کارناموں‘‘ کا ذکر تو بڑی فصاحت وبلاغت سے کرتے ہیں جو ان کے بیان کے مطابق اسکول قائم کر رہے ہیں، لوگوں کوان کے گھروں میں آباد کر رہے ہیں، حتیٰ کہ صرف پانچ پانچ ڈالر کی سائیکلیں عراقی بچوں میں تقسیم کر رہے ہیں، لیکن امریکی قبضے کے نتیجے میں مسلسل ہلاک ہونے والے ہزاروں عراقیوں سے متعلق انھوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
یہ بات نہیں کہ رینڈ رپورٹ کے مصنفین، جو سب کے سب اچھے عہدوں پر فائز اور پوری ط رح باخبر ہیں، اتنے ہی سادہ لوح، جاہل یا نرے احمق ہیں جتنے کہ وہ اپنی تحقیقی کاوشوں سے نظر آتے ہیں۔ بالکل واضح ہے کہ ان تجزیہ اور تجویز کردہ حل امریکی اور صہیونی غلبے کا تسلسل قائم رکھنے اور امریکی واسرائیلی مفادات کو لاحق کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔ اگرچہ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مذہب سے پھوٹنے والی تشدد پسندی اور دہشت گردی بہرحال ایک بہت نازک سوال ہے، لیکن رینڈ رپورٹ کے مصنفین اس معاملے کو صرف مسلم گروہوں تک محدود کرتے ہیں جو کہ سراسر حقائق کے منافی ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ مذہبی انتہا پسندی مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں ہے اور اگر ہم اس کا مقابلہ کرنے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں اس طرح کے تمام گروہوں کی طرف توجہ مبذول کرنی ہوگی۔ مسلمانوں کے علاوہ مسیحی، ہندو، یہودی اور دوسرے گروہ بھی ہیں جو مذہب کے نام پر نفرت اور دہشت پھیلا رہے ہیں۔ اسی طرح ریاستی دہشت گردی کو بھی، جس کو رینڈ رپورٹ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا عنوان دے کر جائز قرار دیتی ہے، مساوی درجے کا سنگین خطرہ سمجھنا ہوگا اور اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ مزید برآں مذہبی انتہا پسندی کو محض نظریاتی اصطلاحات میں نہیں سمجھا جا سکتا، جیسا کہ رینڈ رپورٹ میں کیا گیا ہے، بلکہ عالمی سطح پر امریکی بالادستی قائم کرنے کی کوششوں اور مغربی بالادستی کے نمائندہ سرمایہ دارانہ نظام کے تناظر میں اس کے پیچھے کار فرما پیچیدہ معاشی، ثقافتی اور سیاسی وجوہ و عوامل بھی زیر غور آنے چاہییں ۔ تب ہی ہم درست سوالات اٹھانے اور ان کے صحیح جواب دینے کے قابل ہوں گے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا کام ہے جو رینڈ کارپوریشن کے ماہرین اور اس قبیل کے لوگوں کو نہیں سونپا جا سکتا۔
https://www.rand.org/pubs/monographs/MG574.html
تفسیر امام القرطبی:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد : فالم یسجیبوالکم یعنی معارضیت (چیلنج) کے بارے میں اور یہ اس کے لیے تیار نہیں تو ان پر حجت قائم ہوچکی کیونکہ وہ بلیغ لغت اور فصیح زبان والے ہیں ۔ فاعلموٓاانمآانزل بعلم اللہ یعنی تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی کو جان لو ۔ اور جان لووان لا الٰہ الاھو ۚفھل انتم مسلمونیہ استفہام بمعنی امر ہے آیت کے معنی کے بارے میں گفتگو پہلے گزرچکی ہے اور یہ کہ قرآن معجز ہے (مقدمہ کتاب میں) والحمدللہ ۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قل فاتوا اور اس کے بعد فالم یستجیبوالکم (اس میں لکمکے بجائے) لک نہیں کہا ۔ ایک قول یہ ہے : یہ مخاطب کو بطور تعظیم وتفخیم مفرد سے جمع کی طرف پھیرنا ہے ۔ بعض اوقات رئیس کو (ایسے الفاظ کے ساتھ) خطاب کیا جاتا ہے جن ذریعے جماعت کو مخاطب ہوا جاتا ہے ۔ ایک قول یہ ہے لکم اور فاعلموٓا میں ضمیر تمام کے لئے ہے یعنی سب کو جان لینا چاہیے کہ انمآ انزل بعلم اللہ مجاہد نے یوں کہا ہے ، اور ایک قول یہ ہے لکما اور فاعلموٓا میں ضمیر مشرکین کے لیے ہے اور معنی یہ ہوگا اگر وہ جن کو تم نے معاونت کی دعوت دی وہ تمہاری دعوت کا جواب نہ دیں اور تمہارے لئے مقابلہ ممکن نہ ہو ۔ فاعلموا انمآ انزل بعلم اللہ تو پھر جان لو کہ یہ قرآن محض علم الہٰی سے اتارا گیا ہے ۔ اور ایک قول یہ ہے لکممیں ضمیر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہے اور فاعلموٓامیں مشرکین کے لیے ہے۔
تفسیر امام ابنِ کثیر:
کافروں کی تنقید کی پر اہ نہ کریں»
کافروں کی زبان پر جو آتا وہی طعنہ بازی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کرتے ہیں اسلیے اللہ تعالیٰ اپنے سچے پیغمبر کو دلاسا اور تسلی دیتا ہے کہ آپ نہ اس سے کام میں سستی کریں، نہ تنگ دل ہوں یہ تو ان کا شیوہ ہے۔ کبھی وہ کہتے ہیں اگر یہ رسول ہے تو کھانے پینے کا محتاج کیوں ہے؟ بازاوں میں کیوں آتا جاتا ہے؟ اس کی ہم نوائی میں کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتر؟ اسے کوئی خزانہ کیوں نہیں دیا گیا ؟ اس کے کھانے کو کوئی خاص باغ کیوں نہیں بنایا گیا ؟ مسلمانوں کو طعنہ دیتے ہیں کہ تم تو اس کے پیچھے چل رہے ہو ۔ جس پر جادو کردیا گیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے پیغمبر آپ ملول خاطر نہ ہوں، آزردہ دل نہ ہوں، اپنے کام سے نہ رکئے، انہیں حق کی پکار سنانے میں کوتاہی نہ کیجئے، دن رات اللہ کی طرف بلاتے رہیئے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان کی تکلیف دہ باتیں آپ کو بری لگتی ہیں، آپ توجہ بھی نہ کیجئے۔ ایسا نہ ہو آپ مایوس ہوجائیں یا تنگ دل ہو کر بیٹھ جائیں کہ یہ آوازے کستے ، پھبتیاں اڑاتے ہیں ۔ اپنے سے پہلے کے رسولوں کو دیکھئے سب جھٹلائے گئے ستائے گئے اور صابر و ثابت قدم رہے یہاں تک اللہ کی مدد آپہنچی۔
پھر قرآن کا معجزہ بیان فرمایا کہ اس جیسا قرآن لانا تو کہاں؟ اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک سورت بھی ساری دنیا مل کر بنا کر نہیں لا سکتی اس لیے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ جیسی اس کی ذات مثال سے پاک ، ویسے ہی اس کی صفتین بھی بےمثال۔ اس کے کام جیسا مخلوق کا کلام ہو یہ ناممکن ہے۔ اللہ کی ذات اس سے بلند بالا پاک اور منفرد ہے معبود اور رب صرف وہی ہے۔ جب تم سے یہی نہیں ہوسکتا اور اب تک نہیں ہو سکا تو یقین کرلو کہ تم اس کے بنانے سے عاجز ہو اور دراصل یہ اللہ کا کلام ہے اور اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اس کا علم ، اس کے حکم احکام اور اسکی روک ٹوک اسی کلام میں ہیں اور ساتھ ہی مان لو کہ معبود برحق صرف وہی ہے بس آؤ اسلام کے جھنڈے تلے کھڑے ہو جاؤ۔
یہ طرح طرح کے اسلام کون اور کیوں ایجاد کر رہا ہے؟
انسانیت کی تخلیق کے وقت سے ہی حق وباطل کی جو کشمکش ربّانی اور شیطانی طاقتوں کے درمیان شروع ہوئی ہے، اس کے مظاہر چاہے بدلتے رہے ہوں؛ مگر بنیادی طور پر دونوں طرح کے گروہوں کے دلائل اور کردار ایک ہی رہے ہیں۔ شیطان نے جس طرح اپنی نسلی برتری کے غرور میں حق سے بغاوت کی وہ آج تک اہل باطل کا شیوہ بنا ہوا ہے۔ اہل حق کو شکست دینے کے لیے ان کو لالچ اور خوف کے ساتھ اہل حق کے درمیان گروہی، نسلی، فروعی مسائل کی بنیاد پر جھگڑوں فسادوں اور کُشت وخون کو بڑھاوا دینا اہل باطل یا شیطانی ٹولہ کے ہمنواؤں یا علمبرداروں کا موٴثر ترین ہتھیار رہا ہے۔ اسلامی تاریخ اس کی گواہ بھی ہے اور مسلمان اس کے ہردور میں بری طرح شکار بھی ہوئے ہیں۔ شیطانی طاقتیں مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے کے لیے نظریہ یا عقیدہ اور عمل دونوں طرح سے حملہ آور رہے ہیں، اوّل الذکر حملہ کو وہ دل ودماغ کی جنگ (War of hearts and minds) کہتے ہیں، جو کہ کھلے حملہ کی شکل میں بھی ہورہی ہے اور اسلامی اصطلاحوں اور اسلام کے خیرخواہ بن کر بھی ہورہی ہے۔ امریکی سازشی ٹولہ رینڈ کارپوریشن (Rand Corporation) نے امریکی حکومت کے لیے 9/11سے بہت پہلے جو مسلم دشمن ایجنڈہ بناکر دیا تھا، اس میں اہم ترین مسلمانوں کو اندرونی محاذ یعنی مسلکی اختلاف کے فروغ کے ذریعہ کمزور کرنا بھی تھا۔
گذشتہ ماہ نومبر ۲۰۱۱/ سے پے درپے کچھ اس طرح کی خبریں میڈیا (اسلام دشمن) میں تواتراور تسلسل سے شائع ہورہی ہیں کہ صاف معلوم دیتا ہے کہ سب اچانک اپنے آپ نہیں ہورہا ہے، ”مرادآباد میں آ ل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ“ کے اجلاس میں ”صوفی اسلام“ اور ”وہابی اسلام“ کے حوالہ سے جو زبان استعمال کی گئی ”صوفی اسلام“ کے ماننے والے ہندوستان میں ٪۸۰ ہیں ٪۹۵ بھی بتایاگیا، ان کو نمائندگی نہیں ملتی، ہر جگہ ”وہابی مسلمانوں“ ”دیوبندی“ مسلمانوں کو نمائندگی ملتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ، معاملہ کی ابتداء ۵/۱۲/۲۰۱۱/ کے دی ہندو روزنامہ کی رپورٹنگ سے ہوئی جس میں ”راجستھان حکومت کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کو کنارے کیا“ کے عنوان سے خبر میں بتایا کہ رام گڈھ کے فساد کے بعد سرکار نے ”راجستھان مسلم فورم“ جیسے ملی اداروں کے سنی صوفی عقائد کے لوگوں کو مسلمانوں سے متعلق سرکاری اداروں کا ذمہ دار بنایا ہے۔ (۱) مدرسہ بورڈ، (۲) اردو اکاڈمی، (۳) راجستھان پبلک سروس کمیشن، (۴) وقف بورڈ اور جھنجنوں کے چیئرمین اور (۵) ریاستی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین سبھی اداروں کے ذمہ دار اور نمائندہ اسی طرز فکر کے لوگوں کو بنایاگیا ہے۔ اس خبر میں بتایاگیا ہے کہ اس خبر پر عام مسلمان ذمہ داروں کا خیال ہے کہ یہ گہلوت سرکار نے مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے اور مسلم فورم جیسے ملی اداروں کے خلاف سازش اور سزا کے طور پریہ حرکت کی ہے۔ (دی ہندو دہلی ۵/۱۲/۲۰۱۱/)۔
۲۰/دسمبر ۲۰۱۱/ کو ممبئی میں ”سنی مسلمان لاوارث“ آبادی کے تناسب سے نمائندگی دے حکومت کے عنوان سے خبر میں بتایاگیا کہ ممبئی میں آل انڈیا علماء ایسوسی ایشن اور متعدد اہلسنّت تنظیموں کی جانب سے ملک میں مسلمانوں خصوصاً اہلسنّت مسلمانوں کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بھی کم وبیش مندرجہ بالا باتیں دہرائی گئیں۔ مولانا توقیر رضا خاں نے کہا کہ ماضی کی نرسمہا راؤ کی کابینہ میں (جب شہادتِ بابری مسجد ہوئی) جعفرشریف، عبدالغنی خاں چودھری اور ڈاکٹر ابرار احمد سنی خیالات کے وزراء تھے؛ لیکن موجودہ مرکزی حکومت میں نظر انداز کرنے کی پالیسی کے گذشتہ تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ (صحافت دہلی UNI ، ۲۰/۱۲/۲۰۱۱/)۔
آل انڈیا علماء ومشائخ بورڈ نے ایک میمورنڈم کے ذریعہ وزیراعظم، وزیر داخلہ، گورنر دہلی، سلمان خورشید صاحب، شیلادکشت سے کہا ہے کہ: دہلی وقف بورڈ میں ایسے لوگوں کی تقرری کی جائے جو صوفی سنّی مسلمان ہیں اور اولیاء کرام کے سلسلوں میں داخل ہیں۔ دہلی ریاست میں صوفی سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے اور ایک بہت بڑی تعداد مساجد، مدارس، خانقاہیں اوردرگاہیں ہیں۔ اس کے باوجود ایک بار پھر وقف بورڈ کی تقرری میں اہل سنت والجماعت کی تقرری نہ کرنا حکومت کو مہنگا پڑسکتا ہے۔ وہابی مکتبہٴ فکر کے لوگ وقف بورڈ پر قبضہ کرنے کے بعد جائدادوں پر قبضہ کیے ہوئے ہیں اور سنی صوفی مسلمانوں کو ان کی جگہ سے ہٹاکر وہابیوں کو متعین کیا جارہا ہے۔ لگ بھگ سبھی مسجدوں میں وہابی، دیوبندی مکتبہٴ فکر کے اماموں کو رکھ کر وہاں دیوبندیت اور وہابیت کی تعلیم پھیلائی جاتی ہے اور صوفی سنی مسلمانوں کی امامت کے لیے تقرری بالکل نہیں لی جاتی۔ مطلب یہ کہ سرکاری مشنری،سرکاری مشنری کا استعمال وقف بورڈ کے ذریعہ اپنی خاص فکر کو پھیلانے کے لیے کیا جاتا ہے،اور صوفی سنی عقیدہ کو بالکل ختم کرنے کی سازش کی جاتی ہے۔ اس لیے بورڈ مطالبہ کرتا ہے کہ وقف بورڈ کا چیئرمین اور کارکنان صوفی سنی مسلمانوں کو بنایا جائے اورابھی حال میں ہی جتنی نامزدگیاں دیوبندیوں، وہابیوں کی ہوئی ہیں ان کو ردّ کرکے ان کی جگہ صوفی سنی مسلمانوں کی تقرریاں کی جائیں۔ (حالاتِ وطن دہرہ دون، ہمارا سماج نئی دہلی بحوالہ A.U.S. دہلی، دہرہ دون ۱۶/۱۲/۲۰۱۱/)۔
۲۱/دسمبر ۲۰۱۱/ کو سنی علماء فیڈریشن کے ذریعہ غالب اکیڈمی دہلی میں ملّی مسائل پر دیگر مسلمانوں سے بالکل الگ ہوکر لڑائی کی روایت زندہ کی گئی، جو مبینہ طور پر مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے والی ہے، سنی علماء فیڈریشن کے جنرل سکریٹری غلام عبدالقادر حبیبی نے منظم کیا تھا، جس میں مولانا توقیر رضا خاں، مفتی مکرم احمد صاحب، مولانا حسین صدیقی رضوی صاحب، مفتی عبدالمنان کلیمی صاحب، مولانا سہیل قادری صاحب وغیرہم موجود تھے۔ تمام علماء نے ملّی مسائل کو مسلک تک خاص رکھا اور سنی طبقہ کے مفاد اور حقوق کی لڑائی کی بات کی۔ اور مانگ کی کہ مرکزی وزارت میں ۶-مسلمانوں کو جگہ ملنی چاہیے، جن میں سے ۳ پر بریلوی طبقہ کا ریزرویشن ہونا چاہیے۔ راجیہ سبھا سرکار کے تحت مسلم اداروں، کمیشنوں، کمیٹیوں، مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن، وقف کونسل اور سرکاری ونیم سرکاری اداروں میں بریلوی طبقہ کی نمائندگی کا مطالبہ کیاگیا۔ (ہمارا سماج ۲۲/۱۲/۲۰۱۱/ نئی دہلی)
۲۳/۱۲/۲۰۱۱/ کے دہلی کے تمام اخباروں میں ”پاکستانی طالبان نے صوفیاء کے مزارات کو نفرت کا نشانہ بناکر دوسروں کے ساتھ اپنوں کو بھی دشمن بنالیا“ کے عنوان سے شائع خبر میں بتایاگیا کہ محض مسلکی اور فکری اختلاف کی وجہ سے صوفیوں کے مزارات کو حملوں کا نشانہ بنانا طالبان کا نیا حربہ ہے۔ انتہاپسند طالبان نے اسکولوں، موسیقی کی دوکانوں، مزارات کو تباہ کیا۔ شیخ بہادر بابا کے مزارکو دھماکوں سے اڑانا ایک ناقابلِ برداشت عمل رہا ہے۔ صوبہ خیبرکے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کے مطابق ان کی حکومت نے مزارات کی دوبارہ تعمیر کے لیے آٹھ لاکھ ڈالر مختص کیے ہیں۔ (ہمارا سماج نئی دہلی ۲۳/۱۲/۲۰۱۱/ بحوالہ UNI) اس کے دو تین روز کے بعد ہی ۲۴/۱۲/۲۰۱۱/ کو روزنامہ صحافت نے اے․ یو․ ایس کے حوالہ سے بنگلہ دیش میں انتہاپسندی کا رسوخ بڑھ رہا ہے کے عنوان سے خبرلگائی اور بتایا کہ پچھلے کئی سالوں سے بنگلہ دیش بھی انتہاپسندوں کے اثر میں آرہا ہے اور وہاں کے گنگاجمنی تہذیب پر اس کے اثرات پڑرہے ہیں۔ بنگال کی تقسیم سے پہلے اس خطہ میں صوفی اور سنتوں کا زبردست اثر رہا ہے، اسی وجہ سے ہندو اور بدھسٹ کے پیروکاروں کے علاوہ بہت سارے مذاہب کے لوگ ان کے زیراثر آگئے؛ لیکن اہل حدیث طبقہ اور جماعت اسلامی کا اثر ورسوخ پورے ملک میں بڑھ رہا ہے۔ اس تنظیم نے صوفی سنتوں کے خلاف ایک مہم بھی چلائی ہے اور لوگوں کو درگاہوں پر جانے سے منع بھی کیاہے، اس کی بدولت بنگلہ دیش میں بہت سی تنظیمیں وجود میں آگئی ہیں جنھوں نے مغرب اور اسرائیل کے خلاف اپنی مہم تیز کردی ہے، بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے اس ملک میں سیکولرزم اور اعتدال پسندی کو فروغ دینے کی کوشش کی، عوامی لیگ کے دوبارہ برسرِاقتدار آنے کے بعد ملک کی کچھ تنظیموں نے عوامی لیگ کو کنارہ کش کرنے کے لیے مذہب کا بھی استعمال کیا اور ہندوستان کو دشمن کے طور پر بھی پیش کیا؛ لیکن یہ طاقتیں انتخابات میں عوامی لیگ کو ہرانے میں ناکام رہیں۔ (صحافت دہلی ۲۴/۱۲/۲۰۱۱/)
ہمارے ملک کے اسلام دشمن میڈیا نے اس سلسلہ میں لگائی بجھائی کا پورا حق ادا کیاہے۔ T.Vاوراخبارات میں انتہاپسند اسلام، صوفی اسلام، روادار اسلام، اعتدال پسند اسلام اور روحانیت جیسے طرح طرح کی اجنبی اصطلاحیں وضع کرکے فروغ دی جارہی ہیں۔ ملک کے سب سے اہم انگریزی روزنامہ میں سے ایک ٹائمس آف انڈیا کی ۴/دسمبر کی اشاعت میں تقریباً آدھے صفحہ میں نامہ نگار راکھی چکرورتی نے ”صوفیوں کا جوابی حملہ“ اور ”وہ اسلام کو بھارت سے الگ کرنا چاہتے ہیں“ کے عنوانات سے ”وہابی اسلام“ پر مولانا وحیدالدین خاں، پروفیسر امتیاز احمد، مولانا سید محمد اشرف کچھوچھوی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے استاذ تاریخ ارشدعالم وغیرہ کے خیالات شائع کیے ہیں اور بتایا ہے کہ جنوری ۲۰۱۱/ میں نیویارک ٹائمز میں شائع شدہ خبر کے مطابق حکومت امریکہ نے مزارات کی مرمت کے لیے پاکستان میں ۱۵/لاکھ ڈالر کا تحفہ حکومتِ پاکستان کو دیا ہے۔
ارشدعالم صاحب جیسے استاذ اگر جامعہ ملیہ میں تاریخ پڑھاتے ہیں تو وہ یقینا طلباء کو تعصب آمیز علم بانٹ رہے ہوں گے۔ فرماتے ہیں دیوبندی مزاروں پر جانے کو منع کرتے ہیں، سعودی عرب وہابی ازم پھیلاتا ہے جس سے مسلمان اپنے مقامی تشخص سے کٹ جاتے ہیں، اسلامی اصلاح پسندی کا مطلب ہندوستانی اسلام میں سے ہندوستانیت کی تطہیر کرنا ہے جس کے خطرناک نتائج معاشرتی تکثیریت کے لیے نکل رہے ہیں، پروفیسر امتیاز احمد صاحب فرماتے ہیں دیوبندی درگاہوں اور مزاروں پر جانے اور برکت حاصل کرنے کو بدعت خیال کرتے ہیں؛ مگر عام ہندوستانی مسلمان اس فکر سے متاثر نہیں ہے وہ آج بھی مذہبی شخصیات والے اسلام میں سکون حاصل کرتے ہیں، دیوبندیت دراصل وہابیت کے باقیات کی مجسم شکل ہے۔ مولانا وحیدالدین خاں فرماتے ہیں کہ ہندوستان کے ٪۹۵ مسلمانوں کے اجداد ہندوتھے؛ اس لیے ان میں ہندو اثرات غالب ہیں، جس کی بنیاد برداشت اور رواداری ہے۔ انتہاپسندی کے فروغ کے لیے مسلم اکثریتی ملک ہی موزوں ہوسکتا ہے۔ (ٹائمس آف انڈیا، دہلی ۴/۱۲/۲۰۱۱/)
دنیا میں بدامنی اور تشدد کی اصل وجوہات کی طرف سے انصاف پسند انسانوں کی توجہ ہٹانے کے لیے اور اپنی غلامی اور لوٹ کھسوٹ دنیا پر مسلط رکھنے کے لیے اسلام کو صدیوں سے تختہٴ مشق بنایا جاتا رہا ہے، کہا یہ جاتا ہے کہ اسلامی عقیدہ میں، علیحدگی پسندی، انتشار تشددپسندی کی اصل وجہ ہے، اس کی تعلیمات کی وجہ سے مسلمان غیراقوام کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کرپاتے اور یہ سب ”وہابی اسلام“ سیاسی اسلام“ عسکری اسلام“ کی وجہ سے ہورہا ہے، مغربی اورہندوستانی اسلام دشمن مورخین، کالم نگار اور دفاعی ماہرین تسلسل سے اسلام پسندی کی بڑھتی لہر کے لیے شاہ ولی اللہ، سید قطب شہید اور مولانا مودودی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں کہ انھوں نے سیاسی اسلام کی فکر کو ہوادی اوراس کا مقابلہ کرنے کے لیے ”اعتدال پسند“ ”تکثیریت حامی اسلام“ اور ”صوفی اسلام“ کو فروغ دینا ضروری ہے۔ اسی غرض سے دنیا بھر میں اسلامی معاشروں میں ”مقامی کلچر“ اور رسومات کے فروغ کے نام پر مخالف اسلام تعلیمات اور رسوم ورواج کو بڑھاوا دیا جارہا ہے، انڈونیشیا، افریقی ممالک، عرب ممالک، ایشیا ہر جگہ ثقافت وتہذیب کے نام پر شرک، بے حیائی، بدعملی، جنسی اختلاط، ناچ گانے کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ”صوفی اسلام“ کو جس طرح صرف درگاہوں اورمزاروں اور قوالیوں تک محدود کیاجارہاہے، یہ خود ایک بہت بڑا مغالطہ ہے جو اصل ”صوفیت“ طریقہٴ سلوک اور احسان کی جڑ کاٹنے کے لیے دیا جارہا ہے، جو راہِ سلوک واحسان، دراصل اسلام پر غایت درجہ عمل، اللہ رب العالمین پر بے پناہ توکل اوراس سے شدید محبت اور دنیا سے بے رغبتی کی اعلیٰ تعلیمات واخلاق کے لیے جانا جاتا تھا، اسے صرف میلوں، ٹھیلوں اور قوالیوں کے مترادف قرار دینے کے پیچھے منشا صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ کی کامیابی جو کہ صرف اللہ کی مدد کے ساتھ مشروط ہے اور اللہ کی مدد دین پر عمل کرنے اور دین کی نصرت کرنے سے مشروط ہے، اُس بنیاد کو ڈھادیا جائے۔ امت کو اللہ تبارک وتعالیٰ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہٴ کرام اور اولیائے امت کے پسندیدہ عقیدہ اور اعمال سے منحرف کرکے خرافات، استیصال پسند رسومات و توہمات میں غرق کردیاجائے اور سیدھے سادھے عوام کو لوٹنے کھسوٹنے کے بہانہ ”مقامی تہذیب اور رسومات“ اور ثقافت کے نام پر ایجاد کرکے مشرکانہ مذاہب کی طرح ایک مذہبی پاپائیت یا برہمنیت قائم کردی جائے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا، اُس کو کرامت اور بزرگی عطا کی ، اللہ تعالیٰ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دین آسان ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عملاً کون سا دین آسان ہے؟ اسلام میں زندگی کے کسی بھی مرحلہ؛ پیدائش، ختنہ، عقیقہ، نکاح، موت میں کسی پنڈت کی ضرورت نہیں ہے، کان میں اذان کوئی بھی نیک انسان پڑھ سکتا ہے، عقیقہ ختنہ میں بھی کوئی بچولیا، درکار نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ جو لوگ خواتین کے حقوق ان کی عزت، حفاظت اور ا ٓزادی کی بات کرتے ہیں، انھیں غور کرنا چاہیے کہ منگنی، رخصتی، جہیز، تلک، جوتا چھپائی، چھوچھک جیسی خرافات اگر ”کلچر“ اور ”گنگاجمنی“ تہذیب والا اسلام مان لیا جائے تو ان خرافات کی منحوسیت سے ہی کروڑوں معصوم لڑکیوں اور خواتین کو ہر طرح کے استحصال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، انھیں رسومات کے بوجھ نے امت مسلمہ کے کروڑوں والدین کی زندگی کو زہربنادیا ہے ”سادہ اسلام“ میں نہ جہیز نہ تلک نہ چھوچھک اوپر سے مہر کی نقد ادائیگی اور وراثت میں خواتین کا حصہ ملتا ہے، سب کی زندگی میں اطمینان اور سکون اور معاشرہ کو ہزار طریقہ کے امراض، جرائم اور مسائل سے نجات دیتا ہے۔ حضرت ربعی بن عامر نے رستم کے دربار میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا مقصد بتایا کہ ”لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں اور دوسرے ادیان کے جور وظلم سے نکال کر اسلام کے عدل میں لانے کے لیے دعوت دیتے ہیں۔“ سورہ الاعراف میں آ یت نمبر ۱۵۶ میں بتایاگیا ہے کہ : ”حکم کرتا ہے ان کو نیک کام کا، منع کرتا ہے برے کام سے، حلال کرتا ہے پاک چیزیں اورحرام کرتا ہے ناپاک چیزیں اور اتارتا ہے ان پر سے ان کے بوجھ اور وہ قیدیں جو ان پر تھیں“۔ (الاعراف ۱۵۶) نصاریٰ نے دین کے نام پر اپنے آپ اپنے اوپر جو چیزیں حرام کرلی تھیں یا نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں، ان کے بارے میں قرآن کا کھلا اعلان ہے کہ ترک دنیا جو انھوں نے اپنی طرف سے ایجاد کرلیا تھا ہم نے نہیں لکھا تھا۔ (الحدید۲۷) حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری فرماتے ہیں ”اخلاق کی تکمیل یہ ہے کہ سالک اپنے ہر کردار میں شریعت کا پابند ہو جب اس سے کوئی بات خلاف شریعت نہ ہوگی تو وہ دوسرے مقام پر پہنچے گا جس کا نام طریقت ہے جب اُس میں ثابت قدم رہے گا تو معرفت کا درجہ حاصل کرے گا۔ جب اس میں بھی پورا ترے گا تو حقیقت کا رتبہ پائے گا۔ حضرت نے فرمایا نماز رکن دین ہے اور رکن وستون مترادف ہیں اگر ستون قائم رہے تو گھر کھڑا رہے گا اور جب ستون ہی گرجائے گا تو گھر بھی گرجائے گا۔ فرماتے ہیں حاجت مندوں کی مدد کرنے والا اللہ کا دوست ہے۔اگر کوئی شخص اوراد اور وظائف میں مشغول ہو اور کوئی حاجت مند آجائے تو لازم ہے کہ وہ اوراد ووظائف چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو اور اپنے مقدور کے مطابق اس کی حاجت پوری کرے۔ فرمایا افضل ترین زہد موت کو یاد کرنا ہے۔ جھوٹا، خیانت کرنے والا اور کنجوس جنت کی بوتک نہ پائیں گے۔ ”بزم صوفیہ“ از مولانا سید صباح الدین عبدالرحمن، نام نہاد صوفی اسلام جس کو رسول مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ پر کھڑا کیا جارہا ہے اس کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ اس میں بندوں سے محبت کا پیغام ہے یہ کسی سے تفریق نہیں کرتا؛ مگر یہ سب تو عام مسلمان بھی جانتا ہے کہ یہ تعلیمات اسلام کا بنیادی حصہ ہیں، اللہ رب العالمین اوراللہ رحمن ورحیم اور رسول رحمة للعالمین اورامت مسلمہ خیرامت برائیوں سے روکنے والی اور بھلائیوں کا حکم دینے والی ہے؛ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ شرک، کفر، ظلم، نافرمانی، سود، زنا پر سزا نہیں دے گا یا امت مسلمہ کو ان برائیوں پر گرفت نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ اور رسول کے احکامات چھوڑ کر بندوں کو خوش کرنے کے لیے دہلی کے مشہور صوفی شاعر مرزا بیدل کا واقعہ یاد آرہا ہے جب ان کے ایک ایرانی معتقد نے دہلی میں ان سے ملاقات کی اور انھیں حجام کی دوکان پر داڑھی منڈاتے دیکھا تو ان کے ذہن میں جو تصور تھا کہ جس شاعر کا کلام عرفانِ خدا سے اتنا معمور ہے، وہ داڑھی منڈارہا ہے تو انھوں نے مرزا سے کہا تو مرزا نے جواب دیا کہ داڑھی منڈا رہا ہوں کسی کے دل پر تو استرا نہیں چلا رہا ہوں اس پر ایرانی معتقد نے کہا: ہاں، مگر انسانیت کی سب سے حساس شخصیت کے دل پر تو استرا چلوارہے ہو، یہ سننا تھا کہ مرزا بیہوش ہوگئے اور جب ہوش میں آئے تو پھر سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کو ناقابل معافی جرم قرار دیا اور اس شرک کی بنیاد پر اٹھنے والی تہذیب کے ہر خلافِ شرع رسوم ورواج سے بچنے کی تاکید کی مثلاً ۱۰/محرم الحرام کے روزہ کو اپنایا مگر یہودیوں سے مخالفت کے لیے، ۹ یا۱۱/محرم الحرام کو بھی روزہ رکھنے کے لیے کہا اور خلاف شرع عنصر سے پرہیز کرایا۔
اس بحث میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا لوگوں کی خوشی یا ناراضگی کا لحاظ کرکے امت مسلمہ کو خیرامت کے تقاضے پورے نہیں کرنے چاہئیں، لوگوں کو برا لگے گا اس لیے شرک، بت پرستی، بے حیائی، سود، زنا، جوا، شراب، قتل اولاد اور نسل، وطن ، زبان وغیرہ کے نام پر پھیلائے گئے جنون کو بُرا نہ کہیں ان کی مشرکانہ رسوم میں شریک ہوں غیر اللہ کے نام پر چڑھائے گئے پرساد وغیرہ کھائیں اور انھیں ان کی گمراہیوں، بداعمالیوں، خرافات، رسوم ورواج میں مست رہنے دیں تو کیا یہ رویّہ ان کروڑوں بندگانِ خدا کے ساتھ ہمدردی اور بھلائی وخیرخواہی کا رویّہ ہوگا؟ جس پڑوسی، دوست، ہم سفر کے ساتھ ہمیں ہمدردی، محبت اوراس کی خوشی ناخوشی کا خیال ہے ہم اس کو ہمیشہ کی ناکامی، قبر کی ناکامی، جہنم کی ہولناکیوں، جنت کی نعمتوں اور اللہ کی رضا اور اُس کے دیدار کے مزہ اور سرور سے واقف نہیں کرائیں گے؛ کیوں کہ اس کو برا لگے گا؟ ہم شوگر کے مریض کو میٹھا کھلائیں گے ہم بلڈ پریشر والے کو قورمہ کھلائیں گے، ہم گڑھے کی طرف جانے والے کو نہیں بتائیں گے کہ آگے گڑھا ہے، ہم زنا کرنے والے کو شراب پینے والے کو جوا کھیلنے والے کو نہیں روکیں گے؛ کیوں کہ ان کو برا لگے گا تو کیا یہ رویّہ ہمارے صوفیائے کرام اور صلحائے عظام کا تھا؟ کیا اس روّیہ کو اسلامی، انسانی، ہمدردانہ، سوفیانہ رویّہ کہا جاسکتا ہے؟ کیا انبیاء کرام علیہم السلام اپنے اعزہ، اقرباء، رشتہ داروں، ہمسایوں سے تمام تر تعلقات کے باوجود ان کو حق کی دعوت بلا ان کی خوشی ناخوشی کا خیال کیے نہیں دیتے تھے؟ آج پروپیگنڈہ کے بل بوتے پر تکثیریت Pluralism ، رواداری Tolerance، اعتدال پسندی اور پرامن بقائے باہم Peactul co-existenceکے نام پر امت مسلمہ کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کی طرف، انسانی بھائی چارہ اور مساوات کی طرف توحید کی طرف نہ بلائے، اور یہ گلی سڑی مغربی، امریکی تہذیب امریکن طرز زندگی American way of life کے نام پر دنیا میں زنا، شراب، بے حیائی، عریانیت، سودخوری، قتل اولاد، ذخیرہ اندوزی، رشوت خوری کی تہذیب کو آزادی، جمہوریت، خوشحالی، مساوات، حقوق نسواں کے خوشنما ناموں کے پردہ میں اپنے نظام تعلیم، اطلاعات، تفریح کے ذریعہ عالم انسانیت پر تھوپتے رہیں اور حق پرستوں کو انتہاپسند، وہابی اور دہشت گرد بتاتے رہیں۔
https://www.rand.org/pubs/monographs/MG574.html
***
-----------------------------------------
No comments:
Post a Comment