Wednesday, 12 July 2023

نماز میں صف بندی کی ترتیب اور پاؤں ٹخنے کندھے ملانے کا مطلب

صفیں برابر کرنے کا بیان:
‏‏‏‏‏‏سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«سَوُّوا صُفُوفَكُمْ فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ...مِنْ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ»
(وفي رواية)
«...من تمام الصلاة»
ترجمہ:
صفیں درست کرو، بے شک صفوں کی درستی...
اقامت صلوٰۃ میں سے ہے۔
[صحيح البخاري:433]
(دوسری روایت میں ہے)
نماز کے پورا کرنے میں سے ہے۔
[صحيح مسلم:433(975)، سنن أبي داود:668، سنن ابن ماجه:993]



صف محاذاۃ (سیدھی-برابری) میں رکھنا ہے:
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیزہ یا تیر کی طرح صف سیدھی کرتے تھے، ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا دیکھا تو فرمایا:
”اپنی صفیں برابر کرو، یا اللہ تمہارے چہروں کے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا“۔
[صحيح البخاري:717، صحيح مسلم:978+979، جامع الترمذي:227، سنن أبي داود:663+662، سنن النسائى الصغرى:811، سنن ابن ماجه:994]




‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رُصُّوا صُفُوفَكُمْ وَقَارِبُوا بَيْنَهَا وَحَاذُوا بِالْأَعْنَاقِ، ‏‏‏‏‏‏فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَرَى الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ مِنْ خَلَلِ الصَّفِّ كَأَنَّهَا الْحَذَفُ.
ترجمہ:
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہو، اور ایک صف دوسری صف سے نزدیک رکھو، اور گردنوں کو بھی ایک دوسرے کے مقابل میں رکھو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں شیطان کو دیکھتا ہوں وہ صفوں کے بیچ میں سے گھس آتا ہے، گویا وہ بکری کا بچہ ہے۔
[سنن أبي داود:667، سنن النسائى الصغرى:816]




عن انس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «رصوا صفوفكم وقاربوا بينها وحاذوا بالاعناق».
ترجمہ:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ”اپنی صفوں کو مضبوطی سے ملاؤ اور ان کے درمیان فاصلہ کم رکھو اور اپنی گردنوں کو ایک محاذ پر (یعنی برابر برابر) رکھو۔“
[صحیح ابن حبان (الإحسان):2163، صحیح ابن خزيمة:1545]

نماز میں ٹخنے کا ٹخنے سے - کندھے کا کندھا سے ملانے کا حکم:

واضح رہے کہ جیسے احادیث میں کندھوں اور ٹخنوں کے ملانے کا ذکر ہے، اسی طرح گھٹنوں کے ملانے کا بھی ذکر ہے۔[ابوداؤد:662]۔ اور ان احادیث میں  کندھوں، ٹخنوں اور گھٹنوں کے ملانے سے مراد ’’محاذاۃ‘‘ یعنی ان کو ایک سیدھ میں رکھنا ہے، حقیقی  معنیٰ مراد نہیں ہے، مقتدیوں پر لازم ہے کہ جماعت کی نماز میں آپس میں مل مل کر کھڑے ہوں، کندھوں کو کندھوں سے ملا کر رکھیں، ٹخنوں کی سیدھ میں ٹخنے رکھیں، صفوں  کے درمیان خلاء نہ چھوڑیں تاکہ درمیان میں شیطان داخل نہ ہو۔


نماز میں پاؤں ملانے کا حکم:

نماز میں کھڑے ہوتے وقت پاؤں سے پاؤں ملانا ضروری نہیں ہے؛ ہاں صفیں اچھی طرح سیدھی کرنی چاہیے بایں طور کہ درمیان میں کوئی خالی جگہ نہ رہے، نیز ایسا بھی نہ ہو کہ کوئی آگے کوئی پیچھے کھڑا ہو ؛ بلکہ سارے لوگ اعتدال کے ساتھ خالی جگہوں کو پُر کرتے ہوئے صف میں کھڑے ہوں، جن احادیث میں تسویة الصفوف پاؤں سے پاؤں ملانے کی بات آئی ہے، اس سے یہی مراد ہے، حافظ ابن حجر نے یہ صراحت کی ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ مقتدی حضرات حقیقتًا پاؤں سے پاؤں ملاکر کھڑے ہوں۔

احادیث میں ٹخنے سے ٹخنے، کندھے سی کندھے ملانا اپنی حقیقت پر محمول نہیں ہے۔

شارحِ بخاری علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ رحمة واسعہ اپنی مشہور کتاب فتح الباری میں فرماتے ہیں:
والمراد بذالک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ
(فتح الباری: باب الأذان، رقم الحدیث، ص: ۷۲۵)

حدیث شریف کی مشہور کتاب ابوداؤد شریف میں صف سیدھی کرنے اور خلل کو بند کرنے سے متعلق کئی الفاظ وارد ہوئے ہیں، ان سب کو ملاحظہ فرمالیں۔

نیز اعلاء السنن میں (باب سنة تسویة الصف) اور فیض الباری شرح صحیح البخاری میں (باب الزاق المنکب بالمنکب (فی باب الاذان) کو بھی مطالعہ کرلیں۔

حوالہ
والمراد بتسویة الصفوف اعتدال القائمین بہا علی سمت واحد أو یراد بہا سد الخلل الذی فی الصف إلخ 
(فتح الباری لابن حجر، /207، باب تسویة الصفوف عند الإقامة وبعدہا، ط:المملکة العربیة السعودیة)....
(قولہ باب إلزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف)
المراد بذلک المبالغة فی تعدیل الصف وسد خللہ وقد ورد الأمر بسد خلل الصف والترغیب فیہ فی أحادیث کثیرة أجمعہا حدیث بن عمر عند أبی داود وصححہ بن خزیمة والحاکم ولفظہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال أقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسدوا الخلل ولا تذروا فرجات للشیطان ومن وصل صفا وصلہ اللہ ومن قطع صفا قطعہ اللہ۔
(فتح الباری لابن حجر : باب إلزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف 2/ 211،ط: السعودیة)




واضح رہے کہ جیسے احادیث میں کندھوں اور ٹخنوں کے ملانے کا ذکر ہے، اسی طرح گھٹنوں کے ملانے کا بھی ذکر ہے اور جماعت کی نماز میں اگر بتکلف کندھوں اور ٹخنوں کو ملا بھی لیا جائے تو بھی گھٹنوں کو ملا کر صف میں کھڑا ہونا تقریباً محال ہے،  اسی طرح بہت زیادہ پیر کھول کر ٹخنے سے ٹخنے ملانے کی صورت میں کاندھے ملانا بھی تقریباً ناممکن ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی احادیث میں کندھوں، ٹخنوں اور گھٹنوں کے ملانے سے مراد ’’محاذاۃ‘‘ یعنی ان کو ایک سیدھ میں رکھنا ہے۔

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ صف سیدھی کرنے کا طریقہ  یہ ہے کہ  ٹخنے  اور ایڑھیاں پیچھے سے برابر کرکے کھڑے ہوجائیں،  صف سیدھی ہوجائے گی، ایڑھیاں برابر کرنے سے ٹخنے خود ہی تقریباً برابر ہوجائیں گے اور اس کے ساتھ مونڈھا مونڈھے (کندھے) کی سیدھ میں رکھیں۔



واضح رہے کہ جماعت کی نماز میں صفوں کے درمیان اتصال سنت مؤکدہ ہے ، مقتدیوں پر لازم ہے کہ جماعت کی نماز میں آپس میں مل مل کر کھڑے ہوں، کندھوں کو کندھوں سے ملا کر رکھیں، صفوں  کے درمیان خلاء نہ چھوڑیں تاکہ درمیان میں شیطان داخل نہ ہو، اگر مقتدی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے نہ ہوں بلکہ فاصلہ سے کھڑے ہوں تو جماعت کی فضیلت تو حاصل ہوجائے گی البتہ یہ خلافِ سنت اور مکروہ عمل ہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"يقول: أقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس بوجهه، فقال: «أقيموا صفوفكم» ثلاثاً، «والله لتقيمن صفوفكم أو ليخالفن الله بين قلوبكم» قال: فرأيت الرجل يلزق منكبه بمنكب صاحبه وركبته بركبة صاحبه وكعبه بكعبه."
ترجمہ:
ابوالقاسم جدلی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف اپنا رخ کیا اور فرمایا ”اپنی صفیں برابر کر لو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا۔“ قسم اللہ کی! (ضرور ایسا ہو گا کہ) یا تو تم اپنی صفوں کو برابر رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں مخالفت پیدا کر دے گا۔“ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے کے ساتھ، اپنے گھٹنے کو اپنے ساتھی کے گھٹنے کے ساتھ اور اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ ملا کر اور جوڑ کر کھڑا ہوتا تھا۔
[سنن أبي داود:662]

البحرالرائق میں ہے:

"وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ‌ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف."

(کتاب الصلاۃ ،باب الامامۃ ج:1،ص:375 ط:دارالکتاب الاسلامی)

وفی حاشية ابن عابدين :

"ولو صلى على رفوف المسجد إن وجد في صحنه مكانا كره كقيامة في صف خلف صف فيه فرجة. قلت: وبالكراهة أيضا صرح الشافعية. قال السيوطي في [بسط الكف في إتمام الصف] : وهذا الفعل مفوت لفضيلة الجماعة الذي هو التضعيف لا لأصل بركة الجماعة، فتضعيفها غير بركتها، وبركتها هي عود بركة الكامل منهم على الناقص. اهـ

قوله وهذا الفعل مفوت إلخ) هذا مذهب الشافعية لأن شرط فضيلة الجماعة عندهم أن تؤدى بلا كراهة، وعندنا ينال التضعيف ويلزمه مقتضى الكراهة أو الحرمة كما لو صلاها في أرض مغصوبة رحمتي ونحوه في ط"

 (‌‌‌‌كتاب الصلاة،باب الإمامة،1/ 570،ط:سعید )

وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح:  


"فيأمرهم الإمام بذلك وقال صلى الله عليه وسلم: "استووا تستوي قلوبكم وتماسوا تراحموا" وقال صلى الله عليه وسلم: "أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدي إخوانكم.


قوله: "فيأمرهم الإمام بذلك" تفريع على الحديث الدال على طلب الموالاة واسم الإشارة راجع إليها ويأمرهم أيضا بأن يتراصوا ويسدوا الخلل ويستووا مناكبهم وصدورهم كما في الدر عن الشمني وفي الفتح ومن سنن الصف التراص فيه والمقاربة بين الصف والصف والاستواء فيه قوله: "استووا" أي في الصف قوله: "تستو" بحدف الياء جواب الأمر وهذا سر علمه الشارع صلى الله عليه وسلم كما علم أن اختلاف الصف يقتضي اختلاف القلوب قوله: "أقيموا الصفوف" أي عدلوهها قوله: "وحاذوا بين المناكب" ورد كأن أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه."

(ص: 306,ط: دار الكتب العلمية بيروت)


ـ’’اس باب میں مختلف الفاظ سے روایات آئی ہیں، بخاری کے الفاظ تو سوال ہی میں مذکور ہیں اور سنن ابو داؤد میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ آئے ہیں: قال فرأیت الرجل یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ و رکبتہ برکبة صاحبہ و کعبہ بکعبہ۔ اور حضرت انس رضی  اللہ عنہ سے مرفوعا یہ الفاظ ہیں: قاربو بینہما و حاذوا بالاعناق۔اور عبداللہ  بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا یہ الفاظ ہیں: حاذوا بالمناکب۔ اور یہ امر یقنی ہے کہ ان سب عبارات کا معبر عنہ ایک ہی ہے، اسی کو کہیں الزاق سے تعبیر کردیا، کہیں مقاربت سے کہیں محاذاۃ سے، اس سے معلوم ہوا کہ محاذاۃ و مقاربت ہی کو الزاق  کہہ دیا ہے مبالغۃ فی المقاربۃ۔ دوسرے اگر الزاق کے معنی حقیقی  لئے جاویں تو الزاق المناکب اور الزاق الکعب  اس صورت متعارفہ معتادہ میں مجتمع نہیں ہوسکتے کہ مصلی اپنے قدمین میں خوب انفراج رکھے، کیونکہ اس میں الزاق الکعاب تو ہوگا لیکن الزاق  المناکب نہ ہوگا ، جیسا کہ ظاہر اور مشاہد ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ الزاق الکعب کو مقصود سمجھا جاوے اور الزاق المناکب کی رعایت نہ کی جاوے، کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ الزاق المناکب اصل ہے اور الزاق الکعاب  غیر مقصود۔ تیسرے الزاق الکعاب کی جو صورت  بھی  لی جاوے الزاق الرکب کے ساتھ اس کے تحقیق کی کوئی صورت نہیں، کیونکہ رکبہ بمعنی زانو کا الزاق دوسرے رکبہ سے جب ہوسکتا ہے کہ دو شخص باہم متقابل اور متواجہ ہوں جیسا کہ ظاہر ہے، البتہ محاذاۃ  رکب میں ہر حال میں ممکن ہے ان وجوہ سے ثابت ہوا کہ  جس الزاق کا دعوی کیا جاتا ہے، حدیث  اس پر دلالت نہیں کرتی بلکہ فرجات چھوڑنے کی ممانعت سے اس کی نفی ہوتی ہے۔ واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم ۔‘‘

(امداد الفتاوی: ج:1 ص:326 ط:مکتبہ دار العلوم کراچی )


فتاوی محمودیہ میں ہے:

علامہ شرنبلالی نے مراقی الفلاح میں تصریح کی ہے کہ دونوں قدموں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ رکھے، اس سے معلوم ہوا کہ ٹخنہ سے ٹخنہ نہیں ملایا جائے گا، علاوہ ازیں   ٹخنہ سے ٹخنہ ملا کر نماز پڑھنا  بہت دشوار ہے اور قعدہ تو اس حالت میں ممکن بھی نہیں، البتہ ایک نمازی دوسرے نمازی کے ساتھ صف میں کھڑا ہو کر اپنا ٹخنہ دوسرے کے ساتھ سیدھ میں رکھے، آگے پیچھے نہ رکھے، تاکہ صف سیدھی رہے، یہی حکم حدیث وفقہ سے ثابت ہے، یہ نہیں کہ ایک نمازی ٹخنہ کو دوسرے نمازی کے ٹخنہ سے ملالے ۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔

(باب صفۃ الصلاۃ ج:21 ص:508 ط:جامعہ فاروقیہ)











صف بندی کی ترتیب:

احادیث اور فقہ کی کتابوں میں صف بندی کی ترتیب یہ بیان کی گئی ہے کہ پہلا مقتدی امام کے پیچھے کھڑا ہو، اس کے بعد آنے والا شخص پہلے مقتدی کی دائیں جانب سے، پھر بائیں جانب، پھر دائیں جانب پھر بائیں جانب، اس طرح جب پہلی صف مکمل ہوجائے تو دوسری صف بنائی جائے ، اس میں بھی پہلا مقتدی امام کے بالمقابل کھڑا ہو، دوسرا پہلے کی دائیں جانب، تیسرا پہلے کی بائیں جانب، اس طرح دوسری صف مکمل ہونے کے بعد تیسری صف بنائی جائے۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رحمت خداوندی کے پہلے یا بعد میں یا زیادہ اور کم نازل ہونے کا دخل ہے۔ صف بندی کے سلسلہ میں دار العلوم دیوبند کا ایک مفصل فتوی (۲۷۲/ ن، ۲۵۳/ ن،۱۴۳۷ھ)ارسال ہے ، اس میں صف بندی کے دلائل بھی تفصیل کے ساتھ آ گئے ہیں؛ لہٰذا اسے ملاحظہ فرمالیں۔ صف بندی كے سلسے میں ایك اور فتوی بعض حضرات مسجد میں صف کے دائیں طرف بیٹھنے ارو نماز پڑھنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جب کہ بائیں طرف جگہ خالی رہتی ہے، حالانکہ دائیں اور بائیں دونوں طرح نماز پڑھنے کی مستقل فضیلتیں احادیث میں آئی ہیں۔

حدیث نمبر (۱)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ صفوں کے دائیں جانب کھڑے ہونے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں اور فرشتے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (ابوداوٴد)

حدیث نمبر (۲)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مسجد میں صف کے بائیں جانب اس لیے کھڑا ہوتا ہے کہ وہاں لوگ کم کھڑے ہیں تو اسے دو اجر ملتے ہیں (طبرانی، مجمع الزوائد)

آپ سے درخواست ہے کہ صف میں بیٹھنے اور نماز کے وقت صف بنانے کی ترتیب اور اس پر ملنے والے اجر کے متعلق تفصیلی جواب تحریر فرمائیں نیز حدیث نمبر (۲) میں ذکر کئے کئے ”دو اجر“ کی بھی وضاحت فرمائیں، نوازش ہوگی۔

Fatwa ID: 272-253/N=1/1438

الجواب وباللہ التوفیق :۔

(۱):صف بندی کی ترتیب یہ ہے کہ اولاً پہلی صف مکمل کی جائے، اس کے بعد دوسری صف بنائی جائے ، اس کے بعد تیسری ،چوتھی صف بنائی جائے ،اور ہر صف کی ترتیب میں شرعی طریقہ یہ ہے کہ پہلے آنے والا شخص امام کے پیچھے کھڑا ہو، دوسرے نمبر پر آنے والا پہلے کی دائیں جانب اور تیسرے نمبر پر آنے والا پہلے کی بائیں جانب ، اس کے بعد چوتھے نمبر پر آنے والا دوسرے کی دائیں جانب اور پانچویں نمبر پر آنے والا تیسرے کی بائیں جانب کھڑا ہو اور اس طرح پوری صف بنائی جائے، یہ نہ ہو کہ امام کی ایک جانب مقتدی زیادہ ہوں اور دوسری جانب کم ہوں، البتہ اگر امام سے قرب یا بعد میں دونوں جانب برابر ہوں تو ایسی صورت میں دائیں جانب کو بائیں پر ترجیح ہوگی،یعنی: نیا آنے والا شخص صف میں دائیں جانب کھڑا ہو، حدیث میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی پہلی صف والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں اور فرشتے ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور دوسری صف والوں پر؟ آپ نے پھر یہی فرمایا کہ اللہ تعالی پہلی صف والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں اور فرشتے ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں، صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور دوسری صف والوں پر؟ تو آپ نے پھر یہی فرمایا: اور چوتھی مرتبہ آپ نے فرمایا: اور دوسری صف والوں پر۔اور پہلی، دوسری اور تیسری صف وغیرہ میں بھی فضیلت صف کی دائیں جانب کو ، جیسا کہ حضرت عائشہ کی روایت میں ہے، لیکن اگر دائیں جانب مقتدی زیادہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں جانب کھڑے ہونے والوں کو دوہرے اجر کی بشارت دی ہے، پس دائیں جانب کھڑے ہونے کی فضلیت اس صورت میں ہے جب کہ بائیں جانب مقتدیوں کی تعداد کم نہ ہو ، دونوں جانب برابر مقتدی ہوں، ورنہ بائیں جانب کھڑا ہونا ،دائیں جانب کھڑے ہونے سے افضل ہوگا اور اس پر دوہرا اجر ملے گا، عن أنس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أتموا الصف المقدم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن فی الصف الآخر رواہ بو داود(مشکوة شریف ص ۹۸، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)،وعن عائشة  قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ وملائکتہ یصلون علی میامن الصفوف رواہ أبو داود(حوالہ بالا)،وعن أبي أمامة قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ وملائکتہ یصلون علی الصف الأول، قالوا: یا رسول اللہ! وعلی الثاني، قال:إن اللہ وملائکتہ یصلون علی الصف الأول، قالوا: یا رسول اللہ! وعلی الثانی، قال:إن اللہ وملائکتہ یصلون علی الصف الأول، قالوا: یا رسول اللہ! وعلی الثاني، قال: وعلی الثاني، الحدیث رواہ أحمد(حوالہ بالا، ص ۹۸،۹۹)،

وعن أبي ھریرة قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:توسطوا الإمام وسدوا الخلل رواہ أبو داود(حوالہ بالا ص ۹۹)،،

عن ابن عمر قال: قیل للنبي صلی اللہ علیہ وسلم: إن میسرة المسجد تعطلت فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: من عمر میسرة المسجد کتب لہ کفلان من الأجر

(سنن ابن ماجہ ص ۷۱، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)،

قولہ:”من عمر میسرة المسجد الخ لما بین النبي صلی اللہ علیہ وسلم فضیلة ترک الناس قیامھم بالمیسرة فتعلطت المیسرة فأعلمھم أن فضیلة المیمنة إذا کان القوم سواء في جانبي الإمام، وأما إذا کان الناس فی المیمنة أکثر لکان لصاحب المیسرة کفلان من الأجر ، والحاصل أنہ یستحب توسط الإمام

(انجاح الحاجہ حاشیہ سنن ابن ماجہ ص ۷۱)،

وفی القھستاني:وکیفیتہ أن یقف أحدھما بحذائہ والآخر بیمینہ إذا کان الزائد اثنین ،ولو جاء ثالث وقف عن یسار الأول والرابع عن یمین الثاني والخامس عن یسار الثالث وھکذا اھ

(شامی ۲: ۳۰۹، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)،

ومتی استوی جانباہ یقوم عن یمین الإمام إن أمکنہ

(شامی ۲:۳۱۰)

قولہ:”وخیر صفوف الرجال أولھا“:لأنہ روي فی الأخبار ”أن اللہ تعالی إذا أنزل الرحمة علی الجماعة ینزلھا أولاً علی الإمام ، ثم تتجاوز عنہ إلی من بحذائہ فی الصف الأول،ثم إلی المیامن، ثم إلی المیاسر، ثم إلی الصف الثاني“، وتمامہ فی البحر

(حوالہ بالا)۔

(۲): اور دوہرے اجر کا مطلب یہ ہے کہ دائیں طرف کھڑے ہونے والوں کو جتنا اجر ملے گا،اسے اس کا ڈبل ملے گا؛کیوں کہ امام کا صفوں کے بیچ میں ہونا اور اس کی دونوں جانب مقتدیوں کا برابر ہونا دائیں جانب کھڑے ہونے کی فضیلت سے زیادہ اہم ہے۔







No comments:

Post a Comment