نماز میں پاؤں ملانے کا حکم:
وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح:
"فيأمرهم الإمام بذلك وقال صلى الله عليه وسلم: "استووا تستوي قلوبكم وتماسوا تراحموا" وقال صلى الله عليه وسلم: "أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدي إخوانكم.
قوله: "فيأمرهم الإمام بذلك" تفريع على الحديث الدال على طلب الموالاة واسم الإشارة راجع إليها ويأمرهم أيضا بأن يتراصوا ويسدوا الخلل ويستووا مناكبهم وصدورهم كما في الدر عن الشمني وفي الفتح ومن سنن الصف التراص فيه والمقاربة بين الصف والصف والاستواء فيه قوله: "استووا" أي في الصف قوله: "تستو" بحدف الياء جواب الأمر وهذا سر علمه الشارع صلى الله عليه وسلم كما علم أن اختلاف الصف يقتضي اختلاف القلوب قوله: "أقيموا الصفوف" أي عدلوهها قوله: "وحاذوا بين المناكب" ورد كأن أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه."
(ص: 306,ط: دار الكتب العلمية بيروت)
ـ’’اس باب میں مختلف الفاظ سے روایات آئی ہیں، بخاری کے الفاظ تو سوال ہی میں مذکور ہیں اور سنن ابو داؤد میں نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ آئے ہیں: قال فرأیت الرجل یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ و رکبتہ برکبة صاحبہ و کعبہ بکعبہ۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعا یہ الفاظ ہیں: قاربو بینہما و حاذوا بالاعناق۔اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا یہ الفاظ ہیں: حاذوا بالمناکب۔ اور یہ امر یقنی ہے کہ ان سب عبارات کا معبر عنہ ایک ہی ہے، اسی کو کہیں الزاق سے تعبیر کردیا، کہیں مقاربت سے کہیں محاذاۃ سے، اس سے معلوم ہوا کہ محاذاۃ و مقاربت ہی کو الزاق کہہ دیا ہے مبالغۃ فی المقاربۃ۔ دوسرے اگر الزاق کے معنی حقیقی لئے جاویں تو الزاق المناکب اور الزاق الکعب اس صورت متعارفہ معتادہ میں مجتمع نہیں ہوسکتے کہ مصلی اپنے قدمین میں خوب انفراج رکھے، کیونکہ اس میں الزاق الکعاب تو ہوگا لیکن الزاق المناکب نہ ہوگا ، جیسا کہ ظاہر اور مشاہد ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ الزاق الکعب کو مقصود سمجھا جاوے اور الزاق المناکب کی رعایت نہ کی جاوے، کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ الزاق المناکب اصل ہے اور الزاق الکعاب غیر مقصود۔ تیسرے الزاق الکعاب کی جو صورت بھی لی جاوے الزاق الرکب کے ساتھ اس کے تحقیق کی کوئی صورت نہیں، کیونکہ رکبہ بمعنی زانو کا الزاق دوسرے رکبہ سے جب ہوسکتا ہے کہ دو شخص باہم متقابل اور متواجہ ہوں جیسا کہ ظاہر ہے، البتہ محاذاۃ رکب میں ہر حال میں ممکن ہے ان وجوہ سے ثابت ہوا کہ جس الزاق کا دعوی کیا جاتا ہے، حدیث اس پر دلالت نہیں کرتی بلکہ فرجات چھوڑنے کی ممانعت سے اس کی نفی ہوتی ہے۔ واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم ۔‘‘
(امداد الفتاوی: ج:1 ص:326 ط:مکتبہ دار العلوم کراچی )
فتاوی محمودیہ میں ہے:
علامہ شرنبلالی نے مراقی الفلاح میں تصریح کی ہے کہ دونوں قدموں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ رکھے، اس سے معلوم ہوا کہ ٹخنہ سے ٹخنہ نہیں ملایا جائے گا، علاوہ ازیں ٹخنہ سے ٹخنہ ملا کر نماز پڑھنا بہت دشوار ہے اور قعدہ تو اس حالت میں ممکن بھی نہیں، البتہ ایک نمازی دوسرے نمازی کے ساتھ صف میں کھڑا ہو کر اپنا ٹخنہ دوسرے کے ساتھ سیدھ میں رکھے، آگے پیچھے نہ رکھے، تاکہ صف سیدھی رہے، یہی حکم حدیث وفقہ سے ثابت ہے، یہ نہیں کہ ایک نمازی ٹخنہ کو دوسرے نمازی کے ٹخنہ سے ملالے ۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔
(باب صفۃ الصلاۃ ج:21 ص:508 ط:جامعہ فاروقیہ)
صف بندی کی ترتیب:
احادیث اور فقہ کی کتابوں میں صف بندی کی ترتیب یہ بیان کی گئی ہے کہ پہلا مقتدی امام کے پیچھے کھڑا ہو، اس کے بعد آنے والا شخص پہلے مقتدی کی دائیں جانب سے، پھر بائیں جانب، پھر دائیں جانب پھر بائیں جانب، اس طرح جب پہلی صف مکمل ہوجائے تو دوسری صف بنائی جائے ، اس میں بھی پہلا مقتدی امام کے بالمقابل کھڑا ہو، دوسرا پہلے کی دائیں جانب، تیسرا پہلے کی بائیں جانب، اس طرح دوسری صف مکمل ہونے کے بعد تیسری صف بنائی جائے۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رحمت خداوندی کے پہلے یا بعد میں یا زیادہ اور کم نازل ہونے کا دخل ہے۔ صف بندی کے سلسلہ میں دار العلوم دیوبند کا ایک مفصل فتوی (۲۷۲/ ن، ۲۵۳/ ن،۱۴۳۷ھ)ارسال ہے ، اس میں صف بندی کے دلائل بھی تفصیل کے ساتھ آ گئے ہیں؛ لہٰذا اسے ملاحظہ فرمالیں۔ صف بندی كے سلسے میں ایك اور فتوی بعض حضرات مسجد میں صف کے دائیں طرف بیٹھنے ارو نماز پڑھنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جب کہ بائیں طرف جگہ خالی رہتی ہے، حالانکہ دائیں اور بائیں دونوں طرح نماز پڑھنے کی مستقل فضیلتیں احادیث میں آئی ہیں۔
حدیث نمبر (۱)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ صفوں کے دائیں جانب کھڑے ہونے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں اور فرشتے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (ابوداوٴد)
حدیث نمبر (۲)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مسجد میں صف کے بائیں جانب اس لیے کھڑا ہوتا ہے کہ وہاں لوگ کم کھڑے ہیں تو اسے دو اجر ملتے ہیں (طبرانی، مجمع الزوائد)
آپ سے درخواست ہے کہ صف میں بیٹھنے اور نماز کے وقت صف بنانے کی ترتیب اور اس پر ملنے والے اجر کے متعلق تفصیلی جواب تحریر فرمائیں نیز حدیث نمبر (۲) میں ذکر کئے کئے ”دو اجر“ کی بھی وضاحت فرمائیں، نوازش ہوگی۔
Fatwa ID: 272-253/N=1/1438
الجواب وباللہ التوفیق :۔
(۱):صف بندی کی ترتیب یہ ہے کہ اولاً پہلی صف مکمل کی جائے، اس کے بعد دوسری صف بنائی جائے ، اس کے بعد تیسری ،چوتھی صف بنائی جائے ،اور ہر صف کی ترتیب میں شرعی طریقہ یہ ہے کہ پہلے آنے والا شخص امام کے پیچھے کھڑا ہو، دوسرے نمبر پر آنے والا پہلے کی دائیں جانب اور تیسرے نمبر پر آنے والا پہلے کی بائیں جانب ، اس کے بعد چوتھے نمبر پر آنے والا دوسرے کی دائیں جانب اور پانچویں نمبر پر آنے والا تیسرے کی بائیں جانب کھڑا ہو اور اس طرح پوری صف بنائی جائے، یہ نہ ہو کہ امام کی ایک جانب مقتدی زیادہ ہوں اور دوسری جانب کم ہوں، البتہ اگر امام سے قرب یا بعد میں دونوں جانب برابر ہوں تو ایسی صورت میں دائیں جانب کو بائیں پر ترجیح ہوگی،یعنی: نیا آنے والا شخص صف میں دائیں جانب کھڑا ہو، حدیث میں ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی پہلی صف والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں اور فرشتے ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور دوسری صف والوں پر؟ آپ نے پھر یہی فرمایا کہ اللہ تعالی پہلی صف والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں اور فرشتے ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں، صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور دوسری صف والوں پر؟ تو آپ نے پھر یہی فرمایا: اور چوتھی مرتبہ آپ نے فرمایا: اور دوسری صف والوں پر۔اور پہلی، دوسری اور تیسری صف وغیرہ میں بھی فضیلت صف کی دائیں جانب کو ، جیسا کہ حضرت عائشہ کی روایت میں ہے، لیکن اگر دائیں جانب مقتدی زیادہ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں جانب کھڑے ہونے والوں کو دوہرے اجر کی بشارت دی ہے، پس دائیں جانب کھڑے ہونے کی فضلیت اس صورت میں ہے جب کہ بائیں جانب مقتدیوں کی تعداد کم نہ ہو ، دونوں جانب برابر مقتدی ہوں، ورنہ بائیں جانب کھڑا ہونا ،دائیں جانب کھڑے ہونے سے افضل ہوگا اور اس پر دوہرا اجر ملے گا، عن أنس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أتموا الصف المقدم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن فی الصف الآخر رواہ بو داود(مشکوة شریف ص ۹۸، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)،وعن عائشة قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ وملائکتہ یصلون علی میامن الصفوف رواہ أبو داود(حوالہ بالا)،وعن أبي أمامة قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ وملائکتہ یصلون علی الصف الأول، قالوا: یا رسول اللہ! وعلی الثاني، قال:إن اللہ وملائکتہ یصلون علی الصف الأول، قالوا: یا رسول اللہ! وعلی الثانی، قال:إن اللہ وملائکتہ یصلون علی الصف الأول، قالوا: یا رسول اللہ! وعلی الثاني، قال: وعلی الثاني، الحدیث رواہ أحمد(حوالہ بالا، ص ۹۸،۹۹)،
وعن أبي ھریرة قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:توسطوا الإمام وسدوا الخلل رواہ أبو داود(حوالہ بالا ص ۹۹)،،
عن ابن عمر قال: قیل للنبي صلی اللہ علیہ وسلم: إن میسرة المسجد تعطلت فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: من عمر میسرة المسجد کتب لہ کفلان من الأجر
(سنن ابن ماجہ ص ۷۱، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)،
قولہ:”من عمر میسرة المسجد الخ لما بین النبي صلی اللہ علیہ وسلم فضیلة ترک الناس قیامھم بالمیسرة فتعلطت المیسرة فأعلمھم أن فضیلة المیمنة إذا کان القوم سواء في جانبي الإمام، وأما إذا کان الناس فی المیمنة أکثر لکان لصاحب المیسرة کفلان من الأجر ، والحاصل أنہ یستحب توسط الإمام
(انجاح الحاجہ حاشیہ سنن ابن ماجہ ص ۷۱)،
وفی القھستاني:وکیفیتہ أن یقف أحدھما بحذائہ والآخر بیمینہ إذا کان الزائد اثنین ،ولو جاء ثالث وقف عن یسار الأول والرابع عن یمین الثاني والخامس عن یسار الثالث وھکذا اھ
(شامی ۲: ۳۰۹، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)،
ومتی استوی جانباہ یقوم عن یمین الإمام إن أمکنہ
(شامی ۲:۳۱۰)
قولہ:”وخیر صفوف الرجال أولھا“:لأنہ روي فی الأخبار ”أن اللہ تعالی إذا أنزل الرحمة علی الجماعة ینزلھا أولاً علی الإمام ، ثم تتجاوز عنہ إلی من بحذائہ فی الصف الأول،ثم إلی المیامن، ثم إلی المیاسر، ثم إلی الصف الثاني“، وتمامہ فی البحر
(حوالہ بالا)۔
(۲): اور دوہرے اجر کا مطلب یہ ہے کہ دائیں طرف کھڑے ہونے والوں کو جتنا اجر ملے گا،اسے اس کا ڈبل ملے گا؛کیوں کہ امام کا صفوں کے بیچ میں ہونا اور اس کی دونوں جانب مقتدیوں کا برابر ہونا دائیں جانب کھڑے ہونے کی فضیلت سے زیادہ اہم ہے۔
No comments:
Post a Comment