القرآن:
اور یہود و نصاری تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے۔ کہہ دو کہ حقیقی ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے۔ اور تمہارے پاس (وحی کے ذریعے) جو علم آگیا ہے اگر کہیں تم نے اس کے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرلی تو تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے نہ کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار۔ (77)
[سورة البقرة:120]
(77) اگرچہ حضور رسالت مآب ﷺ سے یہ بات ناقابل تصور تھی کہ آپ کفار کی خواہشات کے پیچھے چلیں، لیکن اس آیت نے فرض محال کے طور پر یہ بات کہہ کر اصول یہ بتلادیا کہ اللہ کے نزدیک شخصیات کی اہمیت ان کی ذات کی وجہ سے نہیں ؛ بلکہ اللہ کی اطاعت کی وجہ سے ہوتی ہے، آنحضرت ﷺ ساری مخلوقات میں سب سے افضل اسی بنا پر ہیں کہ اللہ کے سب سے زیادہ فرمانبردار ہیں۔
القرآن:
اے ایمان والو ! یہودیوں اور نصرانیوں کو یار ومددگار نہ بناؤ (43) یہ خود ہی ایک دوسرے کے یارومددگار ہیں اور تم میں سے جو شخص ان کی دوستی کا دم بھرے گا تو پھر وہ انہی میں سے ہوگا۔ یقینا اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
[سورة المائدة:51]
مومن لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا یارومددگار نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، الا یہ کہ تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لیے بچاؤ کا کوئی طریقہ اختیار کرو، (9) اور اللہ تمہیں اپنے (عذاب) سے بچاتا ہے، اور اسی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے۔
[آل عمران:28]
تشریح:
(9)”یار و مددگارـ“ عربی لفظ ”ولی“ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ”ولی“ بنانے کو ”موالات“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی دوستی اور قلبی محبت کا تعلق ہے جس کے نتیجے میں دو آدمیوں کا مقصد زندگی اور ان کا نفع و نقصان ایک ہوجائے۔ اس قسم کا تعلق مسلمان کا صرف مسلمان ہی سے ہوسکتا ہے اور کسی غیر مسلم سے ایسا تعلق رکھنا سخت گناہ ہے اور اس آیت میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے، یہی حکم سورة نساء (4: 139) سورة مائدہ (5: 51) سورة توبہ (9: 23) سورة مجادلہ (28: 22) اور سورة ممتحنہ (60: 1) میں بھی دیا گیا ہے، البتہ جو غیر مسلم جنگ کی حالت میں نہ ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے، جیسا کے خود قرآن کریم نے سورة ممتحنہ (60: 8) میں واضح فرمادیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت پوری حیات طیبہ میں یہ رہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا، اسی طرح ان کے ساتھ سیاسی اوراقتصادی تعاون کے وہ معاہدہ اور تجارتی معاملات بھی کئے جاسکتے ہیں جن کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں دوستی کے معاہدے کہا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ معاہدے یا معاملات اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف نہ ہوں اور ان میں کسی خلاف شرع عمل کا ارتکاب لازم نہ آئے، چنانچہ خود آنحضرت ﷺ نے اور آپ کے بعد صحابہ کرام نے ایسے معاہدات اور معاملات کیے ہیں، غیر مسلموں کے ساتھ موالات کی ممانعت کرنے کے بعد قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ : الا یہ کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لئے بچاؤ کا کوئی طریقہ احتیار کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار کے ظلم وتشدد سے بچاؤ کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے جس سے بظاہرموالات معلوم ہوتی ہو تو اس کی گنجائش ہے۔
یہود کی چالیس بیماریاں
”یہودی پروٹوکولز“ کے بارہویں باب میں درج ہے کہ ”ہماری منظوری کے بغیر کوئی ادنی سے ادنی خبر کسی سماج تک نہیں پہنچ سکتی ، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہم یہودیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ خبر رساں ایجنسیاں قائم کریں جن کا بنیادی کام ساری دنیا کے گوشے گوشے سے خبروں کا جمع کرنا ہو ،اس صورت میں ہم اس بات کی ضمانت حاصل کرسکتے ہیں کہ ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی خبر شائع نہ ہو“۔
یہود کے خفیہ دستاویزات اور اس کے تاریخی شواہد:
یہود کی خفیہ دستاویز کا نام ’’ وثائق یہودیت ‘‘ یا ’’ صہیونیت کے دانا بزرگوں کی دستاویزات
’’ The Protocols of the Learned Elders of Zion‘‘ تسخیر عالم کا عالمی یہودی منصوبہ ہے۔ یہ دستاویزات بہت سے حقائق سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ عام آدمی کیلئے یہ ایک بے ربط سا کتابچہ ہے مگربین الاقوامی صہیونی تنظیم ’’ فری میسن ‘‘اور’’ ایلیومیٹینسILLUMINATIS‘‘ کیلئے یہ ایک مقدس دستاویزہے جس پر عمل کرنا ان کیلئے فرض عین ہے۔اس خطرناک تنظیم کی جڑیں سرطان کی طرح ملکوں کی انتظامیہ میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس کا اصل مقصد مختلف ممالک میں بالعموم اور بالخصوص ملت اسلامیہ میں سازش اور جاسوسی کرانا ہے۔
ان تعلیمات کے پس منظر میں تھیورڈ ہرزل کے مرتب کردہ پروٹوکولز کا مطالعہ کیا جائے تو دہشت گردی کے حوالے سے یہود کے ماضی اور حال کی سرگرمیاں واضح ہو جاتی ہیں اور ان کے مستقبل کے عزائم بے نقاب ہو جاتے ہیں۔ یہود کے دجل و فریب پر مبنی ہر منصوبے کا مقصد عالمی اقتدار کا حصول ہے اور وہ اپنے طے کردہ منصوبوں پر خود سامنے آنے کی بجائے اپنے ہداف کی تکمیل اپنے زر خرید ایجنٹوں اور مہروں وغیرہ سے کرواتے ہیں ، بعض محض اقتدار کے حصول یااستحکام اقتدار کی خاطر ان کے کام سر انجام دیتے ہیں۔
میں یہ بات کسی مفروضے کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا بلکہ یہ صہیونیت کے ان بڑوں کی اتھارٹی پر کہہ رہا ہوں جنہوں نے یہود کی راہنمائی کیلئے پروٹوکولز (Protocols)جیسی مربوط منصوبہ بندی کی۔ پروٹوکولز ( جس کی منصوبہ بندی کو ہر دور کے سیانے بدلتے ہوئے عالمی حالات سے ہم آئنگ کرتے آئے )کو یہود کے اجداد نے 929ء قبل مسیح یہ سوچا کہ دنیا پر حکمرانی کا حق صرف یہود کو ہے اور ہمیں ایسی مربوط منصوبہ بندی کرنی چاہیے کہ ہم زیر ز مین سرگرمیوں سے لمحہ بہ لمحہ منزل سے قریب ہوتے ہوئے اپنی ایک ایسی مملکت وجود میں لائیں جو اس عالمی حکمرانی کیلئے ہمارا پایہ تخت ہو۔ ‘‘ انہیں مکمل شعور وادارک تھاکہ یہ کام ما ہ و سال کا نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ہے اس لیے انہوں نے طویل المعیاد منصوبہ بندی کی۔
صہیونیت کے خفیہ تاریخی شواہد کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام اور دوسرے یہودی بزرگوں نے 929ء قبل مسیح میں ہی تسخیر عالم کا ایک تصوراتی خاکہ مرتب کر لیا تھا۔ جوں جوں تاریخ کے اوراق پلٹتے گئے، اس منصوبے کی جزئیات واضح ہوتی گئیں اور آئندہ آنے والی نسلوں میں سے ان لوگوں نے (جنہیں ان خفیہ رازوں میں شریک کیا گیا تھا)اس منصوبے کے خدوخال واضح کر کے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ان داناؤں نے سانپ (جو صہیونیت کا علامتی نشان ہے) کی روایتی عیاری اور مکاری کے ساتھ پرامن ذرائع استعمال کرتے ہوئے ساری دنیا پر صہیونی تسلط کا منصوبہ بنایا۔
صہیونیت کے ان بڑوں نے بڑی عرق ریزی سے عملی زندگی کے ہر شعبے میں منصوبہ بندی کی اور یہ طے پایا کہ اسے ہر دور کے چند مخصوص و معتمد لوگوں کے علاوہ کسی عام شخص تک نہیں پہنچنے دیا جائے گا اوران حضرات کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ اسے ہر زمانے کے بدلتے ہوئے عالمی حالات کے ساتھ ہم آئنگ کرتے آئیں گے اور بلا شبہ ہر دور کے سیانوں نے یہ فرض نبھایا بھی ہے۔ قرآن مجید بھی ان (یہود و نصاریٰ )کے اس فعل، رویے پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے ہر دور میں اللہ تعالیٰ کے حکم ( تورت و انجیل ) میں من مانیاں کیں اور انہیں اپنی سوچ، خواہش اور تمنا کے مطابق ڈھالا اور ترتیب دیا تا کہ اپنے مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
یہ دستاویزات (Protocols) کیا ہیں ؟ عوام الناس کو ان سے آگاہی دلانے کیلئے ذیل میں ان سب سے مختصر اقتباس (Hit Point ) لیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
1۔ سیاست کے میدان میں دوسروں کا اپنا محکوم بنانے اور اپنی مطلق العنانی قائم کرنے کے لئے دوسروں کی املاک پر بلا ترود قبضہ کر لینا بالکل جائز ہیں۔ اس عمل پر مہر ثبت کرنے کے لیے ہمارے پاس دو چیزیں ہیں۔ طاقت اور عوام فریبی۔کامیابی حاصل کرنے کیلئے ہمیں تشدد اور عوام فریبی کے لائحہ کار پر عمل کرنا ہے۔ تشدد کے اصول کے پیش نظر، ذرائع سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم ضرور کامیاب ہوں گے اور تمام حکومتوں کو اپنی سپر گورنمنٹ کے تابع کر لیں گے۔ انہیں صرف یہ اندازہ کرانے کی ضرورت ہے کہ حکم عدولی کی صورت میں ہم کتنے بے رحم اور سفاک ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ہماری حکم عدولی کی جرات نہیں کر سکیں گے۔ ( Protocols # 1 بنیادی اصول طاقت، سیاسیات بمقابلہ اخلاقیات، نتائج ذرائع کو حق بجانب بناتے ہیں۔ ’’آزادی، مساوات اور اخوت‘‘ نئی اشرافیہ)
2۔ ہمارے مقاصد کے حصول کیلئے یہ اشد ضروری ہے کہ جنگوں کے نتیجہ میں علاقے فتح نہ ہونے دئیے جائیں اور جنگ کا رخ معاشی میدان کی طرف موڑ دیا جائے۔ متحارب ملکوں کو جو امداد فراہم کی جائے گی وہ ان ملکوں سے ہماری طاقت کا اعتراف کرائے بغیر نہیں رہے گی اور یہ صورت حال دونوں متحارب ملکوں کو ہمارے بین الاقوامی گماشتوں کے رحم کرم پر ڈال دے گی۔ ان بین الاقوامی گماشتوں کے پاس لاکھوں دیکھنے والی آنکھیں اور بیشمار وسائل ہیں۔ اور اس طرح ہم ان قوموں پر بالکل اسی طرح حکومت کریں گے جیسے کسی ملک کا دیوانی قانون اس ملک میں ہونے والے مقدمات کا فیصلہ کرتا ہے۔ ( Protocols # 2۔ معاشی جنگیں۔ دستوری حکومتیں۔ ڈارونیت۔ مارکسیت۔ نطشائیت۔ پریس سے متاشرہ ذہنیت)
3۔ غیر یہود کی تعداد میں کمی اور ان کی نسل کشی سے ہمارا مفاد وابستہ ہے۔ہم اپنی قوت، دائمی غذائی قلت اور مزدوروں کی جسمانی کمزوری سے حاصل کرتے ہیں۔ کمزور ہونے کی وجہ سے مزدور ہماری مرضی کا غلام بنتا ہے۔ اس کے اپنے ذی اقتدار افراد میں وہ قوت اور طاقت نہیں ہے کہ وہ مزدوروں کو ہماری مرضی کے خلاف صف آراء کر سکیں۔ بھوک، سرمایہ دار کو، مزدور پر حکومت کرنے کا اس سے زیادہ حق دیتی ہے جتنا شاہی اقتدار نے قانون کے ذریعہ اشرافیہ کو دیا تھا۔ ہم احتیاج، نفرت اور حسد کے ذریعہ جو اس عمل سے وجود میں آتے ہیں ، عوام کو اکسائیں گے اور جب ہماری مطلق العنان حکمران عالم کی تاجپوشی کا وقت آئے گاتو یہی لوگ ہوں گے جو ہمارے راستے میں حائل ہونے والی تمام رکاوٹوں کو تہس نہس کریں گے۔۔۔۔۔ غیر یہود تفکر کی صلاحیت سے محروم ہیں اور اس وقت تک نہیں سوچتے جب تک ہمارے ماہرین اپنی کوئی تجویز پیش کر کے ان کے ذہنوں میں تحریک پیدا نہ کر دیں۔ ۔۔ ۔۔آزادی کا لفظ لوگوں کو ہر طاقت سے نبردآزمائی پر اکساتا ہے۔ ہر قسم کے اقتدار کی نفی کرتا ہے۔یہاں تک کہ خدا اور قانون قدرت سے بھی بغاوت کراتا ہے۔ اس لئے جب ہماری حکومت قائم ہو گی تو ہم اس لفظ کو زندگی کی لغت سے یکسر خارج کر دیں گے۔ ہمارے ہاں یہ لفظ ایک ظالم اور بے ضمیر طاقت کے مترادف ہو گا۔ ایسی طاقت جو انسانوں کو خون آشام درندوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ ( Protocols # 3۔ تسخیر کا طریقہ کار۔روایتی سانپ۔ عوام کے حقوق۔ غیر یہودیوں کی نسل کشی۔ دنیا کا مطلق العنان فرمانروا۔عالمی معاشی بحران)
4۔ ایسی قوت جو نظر ہی نہ آتی ہو، اسے کون اور کس طرح شکست دے سکتا ہے۔ ہماری قوت بعینہ یہی ہے۔ فری میسن کے غیر یہودی افراد جنہیں علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس کے لئے کام کر رہے ہیں ، اپنی لاعلمی کی وجہ سے، اندھوں کی طرح ہماری اور ہمارے مقاصد کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ ہماری تنظیم کے عملی منصوبے، یہاں تک کہ تنظیم کے مستقر کا محل وقوع تک ان لوگوں کے لئے ایک نامعلوم سربستہ معمہ ہی رہتا ہے۔۔۔۔۔ ہمارے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ ہم تمام مذاہب کو شبہ اور تذبذب کا شکار کر دیں اور غیر یہود کے دماغ سے خدا اور روح کا تصور نوچ کر پھینک دیں اور اس کے بدلے ان کے دماغوں میں حساب کی جمع تفریق اور مادی ضروریات کی خواہش بھر دیں۔ غیر یہود کو سوچنے سمجھنے کا وقت نہ دینے کے لئے ان کے ذہنوں کا رخ صنعت اور تجارت کی طرف موڑ دینا چاہیے۔ اس طرح ساری قومیں مالی منفعت کی دوڑ میں مصروف ہو جائیں گی اور اس تگ ودو میں لگ کر اپنے مشترکہ دشمن کو نظر انداز کر دیں گی۔ ( Protocols # 4۔ مادیت مذہب کی جگہ لیتی ہے۔ عوامی حکومت کے مراحل۔ غیر یہود کی فری میسن ایک نقاب۔صنعت میں بین الاقوامی قیاس اندازی ’’ SPECULTION‘‘ زرپرستی کا مسلک)
5۔ اگر ساری دنیا کے غیر یہود جمع ہو جائیں تو شاید کچھ عرصہ کیلئے ہمارے مقابلے میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اس خطرے سے ہم اس لئے محفوظ ہیں کہ خود ان میں آپس میں شدید اختلافات ہیں اور ان اختلافات کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ انہیں کبھی بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے گزشتہ بیس صدیوں میں غیر یہود کے ذاتی اور قومی اختلافات کو اتنی ہوا دی ہے اور ان میں عقائد کے اختلافات اور نسلی نفرتوں کو اتنا بھڑکادیا ہے کہ اب انہیں ختم کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔۔۔۔۔ ہم بے اندازہ قوت کے مالک ہیں۔ ہماری طاقت سے صرفِ نظر کرنا ممکن ہی نہیں ہے اور جب تک اس میں ہمارا خفیہ ہاتھ نہ ہو کوئی ملک کسی دوسرے ملک سے کوئی ادنیٰ سا بھی معاہدہ نہیں کر سکتا۔ ’’ PER ME REGES REGNSNT ‘‘ ہمارے توسط سے ہی بادشاہ حکومت کرتے ہیں۔ انبیاء کے قول کے موجب خدا نے ہمیں د نیا پر حکمرانی کرنے کے لئے خود منتخب کیا ہے۔خدا نے ہمیں غیر معمولی ذہانت بھی اسی لئے بخشی ہیں تاکہ ہم اس منصب کے اہل ہو سکیں جس کیلئے ہمارا انتخاب کیا گیا ہے۔اب اگر یہ دوسرے بھی اتنے ہی ذی عقل ہو جائیں تو وہ ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے لیکن اگر ایسا ہوا بھی تو ہم چونکہ پہلے ہی سے مستحکم ہو چکے ہیں ، یہ نئے لوگ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ مقابلہ بڑا شدید ہو گا۔ یہ ایسی جنگ ہو گی جو چشم فلک نے آج تک نہ دیکھی ہوگی۔۔۔۔۔دنیا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کاحکمران اعلیٰ کون ہے؟ اس کا تعلق رومن کیتھولک فرقے سے ہے یا وہ صہیونی النسل ہے۔ لیکن ہم خدا کی منتخب کردہ امت ہیں اس بات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔۔ ۔۔۔ تمام ملکوں کے نظام کے پہئیے ایک انجن کی طاقت کے گرد گھومتے ہیں اور وہ انجن ہمارے قبضے میں ہے۔ وہ انجن جو ملکوں کی انتظامی مشین چلاتا ہے وہ ہے سرمایہ۔ سیاسی اور معاشیات کا علم ہمارے دانا بزرگوں نے ایجاد کیا تھا، مدت سے ہمارا سرمایہ شاہوں کو عظمتوں سے ہمکنار کر رہا ہے۔۔۔۔۔ان تمام باتوں سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم غیر یہودیوں کو تھکا کر اتنا مضمحل کر دیں کہ وہ آخر کار ہمیں اس قسم کی بین الاقوامی طاقت پیش کرنے پر مجبور ہو جائیں جو ہمیں اس قابل کر دے کہ بغیر کوئی تشدد کئے ہم دنیا کے ملکوں کی ساری طاقت رفتہ رفتہ چوس کر ایک سپر گورنمنٹ بنا سکیں۔ موجودہ حکمرانوں کی بجائے ہم ان پر ایک ایسا عفریت مسلط کر دیں گے جو اس سپر گورنمنٹ کی انتظامیہ کہلائے گی۔ اس کے پنجے ہر سمت گڑے ہوئے ہوں گے اور اس کی تنظیم اتنی وسیع و عریض ہو گی کہ ہمارے لئے ساری دنیا کی قوموں کی تسخیر میں ناکامی، ناممکن ہو گی۔ ( Protocols # 5۔ مطلق العنانیت اور جدید ترقی۔ حکومت کی مرکزیت۔ ملکوں کے درمیان خلیجیں۔ رائے عامہ کو ہموار کرنے کیلئے لفاظی کا استعمال۔ سپر گورنمنٹ کا انتظامی ڈھانچہ)
6۔ عنقریب ہم بڑی بڑی اجارہ داریاں قائم کرنا شروع کریں گے۔ دولت کی کانیں ہوں گی اور ان پر غیر یہودی سرمایہ کا اتنا انحصار ہو گا کہ سیاسی تباہی کے اگلے دن ملکوں کے قرضوں کے ساتھ ساتھ ان کا سرمایہ بھی ڈوب جائے گا۔۔۔۔۔ غیر یہودی اشرافیہ کا بحیثیت ایک سیاسی قوت کے، جنازہ نکل چکا ہے۔ اب ہمیں اس کی چنداں پرواہ نہیں کرنی چاہیے لیکن زمیندار چونکہ خود کفیل ہیں اس لئے وہ ہمیں کسی حد تک نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لہٰذا خواہ اس کی کوئی قیمت بھی ادا کرنی پڑے، یہ انتہائی ضروری ہے کہ انہیں ان کی زمینوں سے محروم کر دیا جائے۔ یہ مقصد آراضی کی ملکیت پر قرضوں کا بوجھ ڈال کر بہ آسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ قرضے آراضی کی ملکیت پر بند باندھیں گے اور ان کے ہاتھ میں کاسہ گدائی دیکر ہم انہیں اپنی غیر مشروط اطاعت کی حالت میں رکھیں گے۔۔۔۔۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ محنت اور سرمایہ دونوں آراضی سے کھنچ کر صنعت میں آ جائیں اور اس کے نتیجہ میں قیاس اندازی کے ذریعہ دنیا کی ساری دولت سمٹ کر ہمارے قدموں تلے آ جائے اور یوں سارے غیر یہودیوں کو ادنیٰ طبقے میں دھکیلا جا سکے۔ اس کے بعد سارے غیر یہود، اگر کسی وجہ سے نہیں تو صرف اپنے زندہ رہنے کا حق لینے کے واسطے ہمارے سامنے سر بسجود ہوں گے۔ ( Protocols # 6۔ جانشینی کا طریقہ۔ دولت کے انبار، غیر یہود ی اشرافیہ کا خاتمہ، قیمتوں میں اضافے کا لامتناہی سلسلہ)
7۔ مذکورہ بالا منصوبوں کی تکمیل کیلئے ہتھیاروں کا پھیلاؤ اور پولیس کی نفری میں اضافہ ناگزیر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تمام ملکوں میں ہمارے علاوہ صرف ادنیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام ہوں ، ہمارے لئے کام کرنے والے چند کروڑ پتی ہوں ، پولیس ہو اور فوج ہو۔۔۔۔۔پورے یورپ میں اور یورپ کی وساطت سے دوسرے براعظموں میں بھی ہمیں ہنگامہ، فساد، اختلافات اور باہمی عداوتوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ اس سے ہمیں دو فوائد حاصل ہوں گے۔ اول تو اس طرح ہم تمام ملکوں کو اپنے قابو میں رکھ سکیں گے اور دوسرے ہم اپنی ریشہ دوانیوں کے ذریعہ سے مختلف ملکوں کے گردسیاسی اور معاشی معاہدوں اور قرضوں کے بوجھ کا تانا بانا بن سکیں گے۔اگر معاہدہ کرنے والے ملک کا کوئی پڑوسی ملک ان معاہدوں میں ہماری مخالفت کی جرات کرے تو ہمیں اس قابل ہوناچاہیے کہ بزور شمشیر اس مخالفت کی سزا دلوا سکیں اور اگر تمام پڑوسی ممالک ہمارے خلاف ہوجائیں تو ہمیں عالمگیر جنگ چھیڑکر اس کی مزاحمت کرنی چاہیے۔ ( Protocols # 7۔ عالمگیر جنگیں۔ ہتھیاروں کی دوڑ کی حوصلہ افزائی، غیر یہودی مخالفت کے سد باب کیلئے عالمی جنگ، امریکہ، چین اور جاپان کی عسکری قوت)
8۔ ہمیں اپنے آپ کو ان تمام ہتھیاروں سے لیس کر لینا چاہیے جو ہمارے دشمن ہمارے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ ہمیں قانونی جوازی کی لغت کو کھنگال کر، ان اقدامات کو درست ثابت کرنے کیلئے جو غیر ملکی بیباک اور غیر قانونی نظر آتے ہوں ، طرح طرح کے خوشنما الفاظ اور دقیق نکات تلاش کرنے چاہیں۔ یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ ان اقدامات کو الفاظ کا وہ جامہ پہنایا جائے جو اعلیٰ ترین اخلاقی قدروں اور قانون کے قالب میں ڈھلے ہوئے ہوں۔ ۔۔۔۔ ہم اپنی حکومت کے گرد ساری دنیا کے ماہرین معاشیات کو اکٹھا کر لیں گے۔ ہمارے گرد بینکاری، صنعت، اور سرمایہ کاری کے درخشاں ستاروں کی کہکشاں ہو گی اور سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہمارے گرد کروڑ پتی ہوں گے چونکہ ہر چیز کا آخری فیصلہ دولت ہی سے کیا جائے گا۔ (Protocols # 8۔ عارضی ہنگامی حکومت۔ بینکاروں ، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو قابو میں رکھنا)
9۔ آزاد خیالوں کے اقوال یعنی ’’ آزادی ‘‘ ’’مساوات‘‘ اور ’’ اخوت‘‘ عملاً ہمارے فری میسن ہی کے دئیے ہوئے نعرے ہیں۔ جب ہم اپنی بادشاہت قائم کریں گے تو ان نعروں کی اتنی قلب ماہیت کر دیں گے کہ یہ ہمارے نعرے نہیں رہیں گے۔اس کی بجائے یہ صرف خیالی تصور (IDELISM ) کا ذریعہ اظہار رہ جائیں گے۔یعنی ان کے معنی بدل کر ’’ آزادی کا حق‘‘ مساوات کا فرض‘‘ اور ’’اخوت کا تصور‘‘ رہ جائیں گے۔ یہ ہیں وہ معنی جو ہم ان الفاظ کو دیں گے اور اس طرح ہم ان نظریات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے۔۔۔۔۔یہ ہم ہی ہیں جو ہمہ جہت دہشت گردی پھیلاتے ہیں۔ ہمارے تنخواہ داروں میں ہر مکتبہ فکر کے افراد شامل ہیں۔ ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے، شاہ پسند، شورش پسند، مجمع لگانے والے تقریر باز، اشتراکی، اشتمالی اور خوابوں کی دنیا میں بسنے والے۔ ہم نے سب کو کام پر لگایا ہوا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے طور پر اقتدار کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ ہر مستحکم نظام کو تہ و بالا کرنے میں لگا ہوا ہے۔ (Protocols # 9۔ تعلیم کے بعد تعلیم، دہشت گردی کا منبع)
10۔ نادان عوام سیاستدانوں کی ذہانت اور فطانت کو بڑی عقیدت اور ا حترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے تشدد تک کو مستحسن سمجھتے ہیں۔ یہ شیطانیت ہی ہے لیکن ہے کتنی ذہانت کے ساتھ۔ آپ اگر چاہیں تو اسے ایک چال کہہ سکتے ہیں لیکن ذرا سوچئے تو سہی یہ چال کتنی عیاری اورمکاری سے ساتھ چلی گئی۔اور کتنے شاندار طریقے سے مکمل کی گئی ہے۔ کتنی دیدہ و دلیری اور بیباکی کے ساتھ۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام ممالک یہ جدید ڈھانچہ قائم کرنا چاہیں گے جس کا منصوبہ ہم نے تیار کیا ہے۔۔۔۔۔ انتخابات، جنہیں ہم نے بڑی محنت اور جانفشانی سے بنی نوع انسان کی چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں جلسے کرا کرا کے اور گروہوں کے درمیان معاہدے کرا کے ذہین نشین کروایا ہے یہی انتخابات دنیا کی تخت نشینی کے حصول میں ہماری مدد کریں گے۔۔۔۔۔ دنیا کے عوام کو ان کی حکومتوں کے خلاف صف آراء کیا جائے اور باہمی اختلافات، نفرت، جدوجہد، جسمانی اذیت، بھوک، امراض و احتیاج اتنی بڑھا دی جائیں کہ انسانیت تھک کر چور ہو جائے اور غیر یہودیوں کیلئے ہماری دولتمند اور وسائل سے مالا مال حکومت کی محکومی کے علاوہ اور کوئی جائے قرار باقی نہ رہے۔ (Protocols # 10۔ اقتدار کی تیاری، عام رائے دہندگی)
11۔ خدانے ہمیں ، جو اس کی منتخب امت ہیں۔ منتشر ہونے کی صلاحیت سے نوازا ہے اور اس صلاحیت میں جو دوسروں کی نظر میں ہماری کمزوری ہے، اصل میں ہماری طاقت مضمر ہے۔ ایسی طاقت جس نے ہمیں اب ساری دنیا کی مطلق العنان بادشاہت کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے۔ ہم نے جو بنیادیں استوار کی ہیں اس پر عمارت تعمیر کرنا اب کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ (Protocols # 11۔ مکمل مطلق العنان حکومت، نیا آئین،انسانی حقوق کا تعطل)
12۔ آزادی کے لفظ کی مختلف طرح سے تشریح کی جا سکتی ہے۔ ہم اس کی تعریف یوں کریں گے کہ ’’آزادی وہ کام کرنے کا حق ہے جس کی قانون اجازت دے‘‘۔ آزادی کے لفظ کی یہ تشریح مناسب وقت پر ہمارے کام آئے گی۔۔۔ ۔۔ ہم دنیا بھر کے پریس میڈیا کو مکمل طور پر اپنے قابو میں لیں گے۔ ہماری اجازت کے بغیر کوئی خبر عوام تک نہیں پہنچ پائے گی۔ آج کل بھی یہ مقصد اسی طرح حاصل ہو رہا ہے۔ چونکہ تمام خبریں چند خبر رساں اداروں کے ذریعہ سے ہی ملتی ہیں جن کے دفتروں میں یہ ساری دنیا سے آکر جمع ہوتی ہیں۔ اس وقت یہ سارے خبر رساں ادارے ہماری ملکیت ہوں گے اور صرف وہ خبر شائع کریں گے جن کے شائع کرنے کا ہم حکم دیں گے۔۔۔۔۔ کچھ اخبار اور رسائل ہم بذات خود اپنی مخالفت یا تنقید کرنے کے لئے جاری کریں گے جو بظاہر کلی طور پر ہماری حکمت عملی کی شدید مخالفت کریں گے۔اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ہمارے ازلی دشمن اس مصنوعی مخالفت کو اپنی آواز سمجھ کر اپنا باطن ہمارے سامنے کھولتے رہیں گے۔ ( Protocols # 12۔ پریس کو قابو میں لانا۔ ذرائع نشر و اشاعت پر قبضہ)
13۔ آزاد خیال اور خیالی پکاؤ پکانے والوں کا کردار اس ڈرامے میں اس وقت ختم ہو جائے گا جب ہماری مطلق العنان حکومت کو تسلیم کر لیا جائے گا۔ وہ وقت آنے تک یہ ہماری مفید خدمت انجام دیتے رہیں گے اور اس وقت تک ہم ان کی فکر کا رخ بھانت بھانت کے سنکی نظریات کے موہوم تصورات کی طرف، جو نئے اور ترقی پسند کہلائیں گے، موڑتے رہیں گے۔۔۔۔۔ جب ہماری بادشاہت قائم ہو گی تو ہمارے مقررنین ان اہم مسائل کی نشاندہی کریں گے جنہوں نے انسانیت کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا اور یہ بتائیں گے کہ ہماری فلاحی اور کریم النفس حکومت ان مسائل کا خاتمہ کرنے کیلئے وجودمیں آئی ہے۔ اس کے بعد اس پر کون شبہ کرے گاکہ یہ تمام لوگ سیاسی حکمت عملی کے اسٹیج پر ہمارے سدھائے ہوئے کردار تھے جن کا ان تمام پچھلی صدیوں میں کوئی اندازہ تک نہیں لگا سکا۔(Protocols # 13۔ توجہ بھٹکانا۔ نان شبینہ، تفریحی مراکز، شبہ سے بالا تر منصوبہ)
14۔ جب ہماری بادشاہت قائم ہو جائے گی تو ہمیں اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کا وجود ناقابل قبول ہو گا۔ایک خدا، جس کے ساتھ ہماری تقدیر، منتخب امت ہونے کی وجہ سے وابستہ ہے، اور اس کے توسط سے ہماری تقدیر دنیا کی تقدیر سے وابستہ ہے۔ اس کے پیش نظر میں تمام عقائد کو حرف غلط کی طرح مٹانا پڑے گا۔ (Protocols # 14۔ مذہب پر حملہ۔ موجودہ تمام مذاہب کو نیست و نابود کرنا، غلامی کا نیا دور، ترقی پسند ممالک میں فحش نگاری کی ہمت افزائی)
15۔ اگر کہیں کوئی منصوبہ بندی ہورہی ہو تو اس منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کرنے والا ہمارا کوئی مخصوص اور قابل اعتبار بندہ ہونا چاہیے۔ فطر ی بات یہ ہے کہ فری میسن کے علاوہ اور کون یہ حق رکھتا ہے کہ اہم معاملات کو اپنے ہاتھوں میں رکھے کیونکہ یہ صرف ہم جانتے ہیں کہ معاملات کو کیا شکل دینی ہے اور کس انجام تک پہنچنا ہے۔۔ ۔ ۔۔ غیر یہود کا اجڈ دماغ تجربے اور مشاہدے کی صلاحیت سے عاری ہے اور اس سیاق و سباق میں پیش بینی کا تو بالکل ہی اہل نہیں ہے۔ ہم میں اور غیر یہود میں فکری استعداد کا یہ فرق ہمارے منتخب امت ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرنے کیلئے کافی ہے۔ اعلیٰ انسانی صفات اگر ہمارہ وطرہ امتیاز ہیں تو غیر یہود اپنے اجڈ دماغ کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں لیکن سامنے کی چیز نظر نہیں آتی۔ وہ کوئی اختراع نہیں کر سکتے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ خود قدرت نے ہمارے لئے قیادت کرنا اور دنیا پر حکومت کرنا مقدر کر دیا ہے۔ (Protocols # 15۔ استیصال۔ بیک وقت عالمی انقلاب، فری میسن کا مقصد، منتخب امت، طاقتور کا غیر استدلالی حق، اسرائیل کا بادشاہ)
16۔ تمام اجتماعی قوتوں کا (سوائے اپنے آپ کے) استعمال کرنے کیلئے ہم سب سے پہلے اجتماعیت کے پہلے مرحلے یعنی تعلیمی درسگاہوں کو خصی کریں گے۔ ہم تعلیم کے شعبے میں ہر قسم کی آزادی کو ختم کر دیں گے۔ ہر شعبہ زندگی کیلئے ایک علیحدہ منصوبہ ترتیب دیا جائے گا اور ہر ایک کو یکساں تعلیم نہیں دی جائے گی۔ فکر کو لگام دینے کا طریقہ، معروضی سبق پڑھانے کے نام نہاد طریقے کے ذریعہ پہلے ہی سے کام کر رہا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ غیر یہودیوں کو تفکر سے عاری اجڈ اطاعت شعاروں میں تبدیل کر دیا جائے۔ (Protocols # 16۔ ذہنی تطہیر)
17۔ دنیا بھر میں مذہب کے تبلیغی مراکز کو تباہ کرنے کیلئے جو اس زمانے میں بھی ہماری راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ، ہم عرصہ دراز سے کوشش کر رہے ہیں کہ عوام کے دل سے علماء کا احترام ختم کر دیا جائے۔ اب روز بروز عوام میں ان کا اثر ختم ہو رہا ہے۔ ہر جگہ ضمیر کی آزادی کو قبول عام حاصل ہورہا ہے اور اب چند سالوں کی بات ہے کہ نصرانی مذہب صفحہ ہستی سے بالکل نیست و نابود ہوجائے گا۔ جہاں تک دوسرے مذاہب کا تعلق ہے انہیں ختم کرنے میں ہمیں اتنی دشواری نہیں ہو گی۔ تمام مذاہب کو تہہ و بالاکرنے کے بعد یہودی بادشاہ ساری دنیا کا پاپائے اعظم ہو گااور اسی کا طریقہ دنیا میں راج ہو گا۔ ہم اپنی مطلق العنان حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک اور آواز کو کچلنے اور خفیہ معلومات اکٹھی کرنے کیلئے پولیس میں خفیہ مخبروں کی بھرتی کریں گے۔
(Protocols # 17۔ اختیارات کا ناجائز استعمال۔ انصاف سے بد دلی، نصرانی مذہب کا استیصال، یہودی سردار ساری دنیا کا پاپائے اعظم، خفیہ پولیس میں مخبروں کی بھرتی)
18۔ ہم نے اپنے گماشتوں کے ذریعہ جو ہمارے ریوڑ کی نابینا بھیڑیں ہیں ، غیر یہودی بادشاہوں پر بار بار حملے کروا کر ان کے وقار کے پندار کو توڑ دیا ہے۔ یہ بھیڑیں آزاد خیالی کے چند نعروں کے فریب میں آسانی سے پھنس جاتی ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ اسے سیاسی رنگ دے دیا جائے۔ ہم نے حکمرانوں کی خفیہ حفاظت کے اقدامات کو طشت ازبام کر کے حکمرانوں کو اپنی کمزوری تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور بالآخر اسی طرح ہم ان کے اقتدار کو بالکل تباہ کر دیں گے۔ (Protocols # 18۔ سیاسی حریفوں کی گرفتاری، خفیہ حفاظتی اقدامات، اقتدار کو کمزور کرنا)
19۔ سیاسی و قومی ہیروز، الوالعزموں کے وقار اور مقبولیت کا جنازہ نکالنے کیلئے ہم ان پر چوری، قتل، زنا اور اس قسم کے دوسرے مکروہ اور گندے الزامات کے مقدمات چلائیں گے۔ ان مقدموں کے چلنے کے بعد رائے عامہ انتشار کا شکار ہو کران مجرموں کو اسی طرح دیکھے گی جیسے دوسرے جرائم میں ملوث افراد کو دیکھا جاتا ہے۔اور ان کی اتنی ہی بے عزتی ہو گی جتنی کہ عام مجرموں کی ہوتی ہے۔ ہم اپنا کام جتنا بہتر طریقہ سے کر سکتے تھے، کر چکے ہیں اور ہمیں قوی امید ہے کہ ہم غیر یہودیوں کو بغاوت کا حربہ استعمال کرنے سے باز رکھنے میں کامیاب ہو رہیں گے۔ صرف اسی وجہ سے ہم نے پریس و الیکٹرونک میڈیا پر بالواسطہ تقریروں اور تاریخ کے موضوع پر عیاری سے لکھی ہوئی کتابوں کے ذریعہ اتنا مشتہر کیاکہ اس سے آزاد خیالوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے اور ہزاروں غیر یہودی جوق در جوق ہمارے ریوڑ میں شامل ہو گئے۔ (Protocols # 19۔ حکمران اور عوام۔ الوالعزمی (HEROSM)کی تذلیل، باغیوں کی شہادت)
20۔ ہماری مطلق العنان حکومت، جس میں ملک کی ہر چیز بادشاہ کی ملکیت تصور کی جائے گی ( جسے بعد میں آسانی سے حقیقت میں بدل دیا جائے گا)۔ بادشاہ کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ تمام سرمایہ ضبط کر کے اسے ملک میں گردش دینے کے لئے استعمال کرے۔ (Protocols # 20۔ مالیاتی لائحہ کار، جامد سرمایہ، سونے کا تباہ کن معیار)
21۔ جب ساری دنیا پر ہماری حکمرانی قائم ہوجائے گی تو تمام مالی اور اس قسم کی دوسری چال بازیاں جو ہمارے مفاد میں نہیں ہوں گی اس طرح ختم کر دی جائیں گی کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہے گا۔ اور اس کے ساتھ ہی سارے بازارِ زر (MONEY MARKETS ) بھی بند کر دی جائیں گی۔ چونکہ ہم ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ ہماری مقرر کردہ قدروں کی قیمتوں کے ردوبدل سے ہماری قوت کا وقار مجروع ہو۔ (Protocols # 21۔ قرض کا لین دین۔ دیوالیہ ہونا، بازارِ زر (MONEY MARKETS )کا خاتمہ)
22۔ ہمارے ہاتھوں میں اس وقت دنیا کی عظیم ترین قوت ہے اور وہ قوت ہے سونا۔ دو دن کی قلیل مدت میں ہم اپنے ذخیروں سے جتنا چاہیں سونا حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد یقیناًاب کوئی مزید ثبوت پیش کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم خد کی منتخب کردہ امت ہیں اور خدا نے اقتدار اعلیٰ ہمارے لئے طے کر دیا ہے، ہماری ملکیت میں بے بہا سونا یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ صدیوں پر محیط ماضی سے حال تک ہم سے جو خباثتیں اور خرابیاں سرزد ہوئیں ان میں فلاح وبہبود کا راز پنہاں تھا اورہر چیز کو ایک نظم کی لڑی میں پرونے کیلئے تھا، اب ناگزیر تشدد بھی قیام حکومت کی خا طر ہو گا۔ (Protocols # 22۔ سونے کی قوت )
23۔ جب ہماری مطلق العنان بادشاہت قائم ہو گی تو موجودہ بادشاہوں کا کھیل ختم ہو جائے گا اور یہ ضروری ہو گا کہ یہودیوں کا بادشاہ انہیں اپنے راستے سے بالکل صاف کر دے تاکہ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ اور اس پرانے نظام کا کوئی بچا کچھا روڑا تک باقی نہ رہے۔ (Protocols # 23۔ دلوں میں اطاعت شعاری کا جذبہ پیدا کرنا، اشیائے تعیش میں کمی، موجودہ حکمرانوں کی بجائے ایک حکمران اعلیٰ)
Protocols # 24۔ مطلق العنان بادشاہی کیلئے آل داؤد میں سے ایک فرد کا انتخاب اور اس کی تربیت۔ طریقہ کار یہ ہو گا کہ دنیا کے آخری طبقے تک آل داؤد کی نسل کی تصدیق کی جائے گی۔ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اہم تصدیق وہ ہے جس کے ذریعہ ہمارے دانا برزگوں نے آج تک دنیا کے امور چلانے اور بنی نوع انسان کی فکری تربیت اور رہنمائی کرنے کیلئے قدامت پرستی کی قوت قائم رکھی ہے۔
یہ یہود کی انتہائی اہم خفیہ دستاویزات میں اہم انتباس آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ اب آپ کو یہ بتاتے ہیں یہود کی یہ اہم خفیہ معلومات لیک کیسے ہوئیں اور کب منظر عام پے آئیں۔
وہ کتاب جس کے ذریعہ یہ دستاویزات سب سے پہلے منظر عام پر آئیں۔ پروفیسرسرجی نیلس (NILUS)نے 1905۱ء کو روس میں شائع کی تھی۔اس کتاب کا ایک نسخہ10اگست 1906ء کو برٹش میوزیم سے موصول ہوا۔پروفیسر نیلس کا اس کتاب کو چھاپنے کا مقصد یہ تھا کہ اس بھیانک سازش کو بے نقاب کیا جائے جو دنیا کا امن تباہ کرنے کیلئے تیار کی گئی تھی۔ اس کتاب کی اشاعت سے پہلے اگست اور ستمبر1903ء میں روسی اخبار سنامیا (SNAMIA) یہ دستاویزات شائع کر چکا تھا۔روس کی باہر کی دنیا کو ان دستاویزات کا علم اس وقت ہوا جب بالشویک انقلاب کے بعد روسی تارکین وطن پروفیسر نیلس کی کتاب اپنے ساتھ شمالی امریکہ اور جرمنی لائے۔کتاب کی اشاعت کے وقت تواسے کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی تھی لیکن جب بالشویک دور میں واقعات بالکل اسی طرح پیش آتے گئے جیسے کہ اس کتاب میں پیش گوئی کی گئی تھی تو یہ دستاویزات جو اب تک بالکل غیر اہم اور معمولی سمجھی جا رہی تھیں یکایک ساری دنیا میں اہمیت اختیار کر گئیں۔
ڈسرائیلی(وزیر اعظم برطانیہ) کی کتاب ’’دی لائف آف جارج بنئک‘‘ میں جو1852ء میں لکھی گئی تھی، ان صیہونی دستاویزات کی طرف مندرجہ ذیل حوالہ محل نظر ہے۔
’’یورپ کو تباہ کرنے کی پچھلی سازش میں یہودی ہاتھ واضح طور پر کارفرما نظر آتا ہے۔ یہ بغاوت، روایت، اشرافیت، مذہب اور حق ملکیت کے خلاف تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ سامی وسیب کے تمام نقوش کو صفحہ ہستی سے نیست ونابود کر دیاجائے خواہ وہ موسوی شریعت کی شکل میں ہوں یا عیسیٰ کی۔ خفیہ تنظیمیں ، مساوات کے نام پر انفرادی حق ملکیت کے خلاف اعلان جنگ کر رہی ہیں۔ ان خفیہ تنظیموں کے اوپر ایک یہودی النسل سربراہ بیٹھا ہوا ہے۔ خدا کو ماننے والے بے دینوں سے تعاون کر رہے ہیں۔ جن لوگوں نے انتہائی عیاری سے دولت سمیٹی ہے اور جائیدادیں بنائی ہیں وہ اشتمالیوں (کمیونسٹوں ) کا ساتھ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ قوم جو اپنے آپ کو خدا کی افضل ترین امت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے یورپ کی پست ترین اقوام کے ساتھ شیر و شکر ہو رہی ہے۔‘‘
ہنری فورڈ سینئر (فورڈ موٹر کمپنی کے بانی) نے مندرجہ ذیل الفاظ میں اختصار سے بیان کیا ہے۔ 17 فروری 1921ء کو انہوں نے نیویارک کے اخبار ’’ورلڈ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
’’ان دستاویزات کے بارے میں ، میں صرف ایک بیان دینا چاہتا ہوں کہ یہ دستاویزات صد سالہ پرانی ہیں لیکن واقعات من و عن اسی طرح رونما ہو رہے ہیں جیسے کہ ان دستاویزات میں منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ آج کے حالات بھی ان کے عین مطابق ہیں۔ ‘‘
والٹر ریتھنو (Walter Rethenau) یہودی بینکار، قیصر جرمنی کا پشت پناہ تھا، اس کا ایک جرمن اخبار (Weiner Frei Prdsse)میں 24 دسمبر 1912ء میں یہ بیان شائع ہوا۔
’’صرف تین سو افراد جن میں سے ہر ایک دوسروں سے بخوبی واقف ہے، یورپ کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں اور وہ اپنے جانشینوں کا انتخاب اپنے ساتھیوں میں سے کرتے ہیں۔ ‘‘
ریتھنو کے اس قول کی تصدیق بیس سال بعد 1931ء میں اس وقت ہوئی جب ژاں ازولے(Jean Izoulet) نے، جو عالمی اسرائیلی گروہ (Israelite Uninerselle Alliance)کا ایک سرگرم رکن تھا۔ اپنی کتاب ’’پیرس، مذاہب کا پایہ تخت (Parisla Capital Des Religions)میں لکھا:
’’ پچھلی صدی کی تاریخ کا ماحصل یہ ہے کہ تین سو یہودی سرمایہ کار جو فری میسن لاجوں کے ماسٹر ہیں ، ساری دنیا پر حکومت کرتے رہے ہے۔‘‘
1934ء میں برطانیہ کی لیبر پارٹی کے لیڈر ( کلیمنٹ ایٹلی) نے جب پارٹی کی سالانہ کانفرنس کو بتایا تھا کہ ’’ ہم دانستہ طور پر اپنی وفاداری اپنے ملک کی بجائے ایک عالمی تنظیم کو منتقل کر رہے ہیں۔ ‘‘
تو بیشتر لوگوں نے بڑے بُرے بُرے منہ بنائے تھے۔تےئس سال کا مستقل پروپیگنڈا بہر حال اپنا رنگ لائے بغیر نہ رہ سکا اور جب 1957ء میں برطانیہ کے ایک قدامت پسند وزیر اعظم (Conservative) نے برطانوی عوام کو بتایا کہ انہیں اپنی خود مختاری کی تھوڑی سی قربانی ایک نامعلوم بین الاقوامی ٹولے کو دینی پڑے گی تو اس وقت احتجاج کی ایک آواز بھی نہ اٹھ سکی۔
میکس نورد (Max Nordau) نامی ایک یہودی نے اگست 1903ء میں باسل (Basle) میں صہیونی کانگریس میں تقریر کرتے ہوئے یہ حیرت انگیز پیش گوئی کی تھی:
’’مجھے یہ الفاظ کہنے کی اجازت دیجئے کہ میں آپ کو وہ زینہ دکھاؤں جس کی سیڑھیاں صرف اوپر کی طرف اٹھتی چلی جا رہی ہیں۔ ہرٹزل صیہونی کانگریس منعقد ہو چکی ہے۔ اب برطانوی یوگنڈا کی تجویز پیش کی جائے گی، پھر جنگ عظیم ہو گی۔ اس کے بعد امن کانفرنس ہوگی جس میں انگلستان کی مدد سے فلسطین میں ایک آزاد یہودی ریاست وجود میں آئے گی۔‘‘
1957ء کے اختتام پر برطانوی حکومت نے ایک ایسے منصوبے کا سرکاری اعلان کیا جس کی پیش گوئی ساٹھ سال قبل کی صیہونی دستاویزات میں کی گئی تھی۔ ارل آف گاسفورڈ، جوائنٹ پارلیمنٹری انڈر سیکرٹری آف اسٹیٹ برائے امور خارجہ نے 7 نومبر 1957ء کو برطانیہ کے دار الامراء میں اعلان کیا:
’’مکہ معظمہ کی حکومت عالمی حکومت کے قیام کے منصوبے کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ ہم اسے اپنی منزل مقصود تصور کرتے ہیں اور اس منزل پر پہنچنے کیلئے ہر امکانی کوشش جو ہمارے بس میں ہے، کریں گے۔‘‘
آج ان دستاویزات کے متعلق بتایا جا رہا ہے کہ یہ جعلی ہیں۔ یہ بات محض ہمیں دھوکہ دینے اور ہماری آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔کیا یہ سب اتفاقی حادثات ہو سکتے ہیں ؟ کیا کسی جعلساز کے لئے اتنی بیش بینی ممکن تھی؟ یہ دستاویزات اس عالمی سازش کا خاکہ ہیں جس کے متعلق پروفیسر نیلس(NILUS) اور دوسرے لوگوں کو یقین تھا کہ یہ سامی وسیب و مذاہب کو تباہ و برباد کر کے دنیا پر ایک چھوٹے سے مخصوص ٹولے کی حکمرانی اور تسلط قائم کرنے کے لئے تیار کی گئی ہیں۔
ایک طویل مدت تک دنیا یہی سوچتی ،سمجھتی اور نشر کرتی رہی کہ جنگ عظیم کا سبب آسٹریا کے ولی عہد کا قتل تھا،اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ اتفاقیہ طور پر ہوتا چلا گیا۔ بعض اہلِ خرد نے، اس خیال کو کمزور محسوس کیا تو اتنا کہہ دیا کہ دنیا کے بڑے حصے کو زیر کرنے کے بعد استعماری طاقتوں کی جولان گاہ تنگ ہوچکی تھی۔ ان میں سے ہر ملک پوری دنیا کا تنہا مالک بننا چاہتا تھا جو زمینی حقائق کے تحت ممکن نہ تھا۔ اس لیے مفادات کی امید وںاور معاہدوں نے ان کے دو گروہ بنادیے جو آپس میں لڑ پڑے۔مذکورہ تجزیہ اپنی جگہ درست سہی ،مگر سب حقائق سے ماوراء حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کے اصل کھلاڑی وہ یہودی سرمایہ دار اور سیاست دان تھے ، جو عالمگیر صہیونیت کے لیے سرگرم تھے۔ جنگ کے کئی سالوں بعدصہیونی خفیہ پروٹوکولز اور تلمود کے مندرجات کے ذریعے یہ حقائق پہلی بار منظر عام پر آئے مگرچونکہ ذرائع ابلاغ پر یہودکی اجارہ داری چلی آرہی ہے ، اس لیے یہ حقائق چھپائے جاتے رہے۔ جنگ عظیم کے پیچھے صہیونی لابی کی وہ خاص ذہنیت کام کررہی تھی جوان کی مذہبی کتاب ’تلمود‘ نے انہیں دی ہے،اس کے مطابق بنی اسرائیل کے سوا، تما م لوگ (چاہے وہ مسلم ہوں یا نصرانی ، ہندو ہوں یا بدھسٹ ) بھیڑ بکریوں بلکہ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ کچھ نہیں، اس لیے یہودی اپنی اغراض کے لیے جنگیں بھڑکانے، حکومتیں گرانے اور لاکھوں کروڑوں انسانوں کو مروانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ ان تمام معاملات کو وہ’’ بزنس‘‘ تصورکرتے ہیں ۔ اپنی کسی معمولی غرض کے لیے وہ ہزاروں لاکھوں انسانوں کی بھینٹ دینے میں دریغ نہیں کرتے۔ان کے نزدیک دوسری قوموں کے جانی ومالی نقصانات کی حیثیت صفرہے۔ ہاں اپنے مفاد پر زدپڑناوہ برداشت نہیں کرتے ۔رہایہ سوال کہ آخر یہودی دنیا کو اتنی بڑی جنگ میں جھونک دینے پرقادر کیسے ہوگئے ؟تواس کے جواب میں ہمیں جنگِ عظیم سے دوعشرے پہلے کی تاریخ دیکھنی چاہیے۔انیسویں صدی عیسو ی کے اواخر اوربیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں عالمی صہیونی تحریک پوری دنیا میں سرگرم تھی۔ برطانیہ ، امریکا اوریورپی ممالک کی تجارت،سیاست اورمعیشت میں ان کابہت بڑا ہاتھ تھا۔ ان کے افراد ،نہ صرف سرکاری اعلیٰ مناصب پرفائز تھے بلکہ کلیسا میں بھی ان کے نمائندے گھس چکے تھے۔امریکن ارکانِ کانگریس، ارکانِ کابینہ اورمشیرانِ صدرمیں یہودیوںیایہودیوں کے لیے کام کرنے والے کی تعداد اچھی خاصی تھی۔یہود کی ہزارہابرس قدیم آرزو محض ایک آزادوطن حاصل کرنانہیں تھی۔ بلکہ انہیں فلسطین چاہیے تھا جسے مرکز بناکروہ پوری دنیا پر راج کرنے کاخواب دیکھتے آئے تھے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ایک عالمگیر یہودی بادشاہ کے ظہورکے بعد پوری دنیا ان کی غلام ہوگی مگراس بادشاہ کا ظہور تب ہوگاجب وہ بیت المقدس فتح کرکے وہاں ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرلیں گے۔ یہودیوں کے ساتھ ایک بڑامسئلہ باربارکی نقل مکانی کاتھا۔ اس کی وجہ بھی وہ خود تھے۔وہ دنیا کے جس ملک میں آباد ہوتے ،وہاں کی معیشت وتجارت ہی نہیں بلکہ سیاسی تانے بانے پر بھی اثر ہونے لگتے تھے اور حکومتوں کو بنانے اور گرانے میں خفیہ سازشوں کے ذریعے اہم کرداراداکرتے تھے ،اس لیے دنیا کی مختلف حکومتیں انہیں جلاوطن کرتی رہیں۔انیسویں صدی کے اواخر میں روس کا بادشاہ مقامی یہودیوں کی ایسی ہی ایک سازش کاشکارہوکرقتل ہوااورروس میںیہودیوں کی پکڑدھکڑ شروع ہوگئی ۔اس لیے بہت سے یہودی روس سے بھاگ کر دربدر ہوگئے۔ ایسے میں یہودیوں کاایک مہرہ ان کے بہت کام آیا جسے دنیا’’ ڈزرائیلی‘‘(بنیامین ڈزرائیلی)کے نام سے جانتی ہے۔یہ یہودی دو مرتبہ منتخب ہوکربرطانیہ کا وزیراعظم بنا۔ وہ ایک مفکر، ادیب اورسیاست دان تھا۔1804ء میں پیدا ہوا اور 1881ء میں وفات پائی۔اس کاناول’’ کو ننگزبی‘‘(Commimgsby) دنیاکے مشہورترین ناولوںمیںسے ایک ہے۔وہ ملکہ وکٹوریہ کا چہیتا تھا ،ملکہ ہی نے اسے’’ لارڈ بیکسنز فیلڈ ‘‘کا خطاب دیاتھا۔وہ1837ء میں پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا۔1867 ء میں برطانوی وزیرا عظم مقررہوا۔ دوسری مرتبہ اس کی وزارت عظمیٰ 1874ء سے 1880ء تک رہی۔ ڈزرائیلی نے ،امریکہ کے دو مشہورترین یہودی سرمایہ داروں مونیٹوری اور روتھ شیلڈ کے ساتھ مل کر فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کی سرتوڑ کوشش کی ۔ڈزرائیلی نے اپناسیاسی اثرورسوخ پوری طرح استعمال کیااوریہودی سرمایہ داروں نے پانی کی طر ح دولت بہائی مگر اس وقت یہود کی فلسطین میں آبادکاری کاخواب پورانہ ہوسکا۔1896ء میں عالمگیر صہیونی تحریک کا بانی آسٹریاکاصحافی ’’تھیوڈورہرٹزل‘‘ (1860ء تا 1904ء )ابھر کر سامنے آیا۔ اس نے اپنی تصنیف’’الدولۃ الیھودیۃ‘‘ میں دریائے نیل سے لے کردریائے فرات تک ایک عظیم یہودی ریاست قائم کرنے، فلسطین کو مرکزبنانے اورعالمگیریہودی بادشاہ کے اقتدارکی راہیںہموارکرنے کا تفصیلی منصوبہ پیش کیا۔ہرٹزل ہی نے صہیونیوں کی سالانہ کانفرنس کی داغ بیل ڈالی۔پہلی مشہور کانفرنس 1897ء میں سوئزرلینڈ کے شہرباسل میں منعقد ہوئی۔ اس میں تین سوایسے منتخب یہودی رہنماؤںکو بُلایاگیاجودنیابھرمیںیہود کے غلبے کے لیے سرگرم تھے۔اس کانفرنس میں ہرٹزل نے اعلان کیا کہ ہم نے یہودیت کے غلبے کا پہلا پتھر نصب کر دیا ہے، اور عن قریب دنیا ہمارے تابع ہوگی۔اسی کانفرنس میں پہلی بار’’حکمائے صہیون کے پروٹوکولز‘‘ پیش کیے گئے اور نہایت اہم قراردادیں منظور کی گئیں جن کا خلاصہ تین نکات تھے:1۔ہم فلسطین میں آزاد یہود مملکت قائم کریں گے۔2۔ہم دنیا کی اقتصادیات میں یہود کو غالب کریں گے یعنی دولت کے تمام سرچشمے ہمارے ہاتھ میں ہوںگے۔3۔ قدیم عبرانی زبان و ثقافت جو دنیا میں ناپید ہو گئی تھی،پھر سے زندہ کی جائے گی۔ہرٹزل نے جرمنی،آسٹریا ،روس ،اٹلی اوربرطانیہ کے اعلیٰ عہدے داروں کو بھی اپنے منصوبے کاحامی بنالیااورپھر اپنے معتمد، نیولنسکی کوجس کے دربارِ خلافت سے مراسم تھے،سلطان عبد الحمیدکے پاس بھیج کر درخواست کی کہ یہودیوں کو آباد کاری کے لیے فلسطین میں اراضی دے دی جائیں جس کا معقول معاوضہ ادا کیا جائے گا۔مگرسلطان نے دنیائے یہودیت کی پیش کش کوٹھکراتے ہوئے نیولنسکی کوصاف صاف کہہ دیا:’’اپنے دوست ہرٹزل کوسمجھادوکہ اس معاملے میں بے سودکوشش نہ کرے۔ میں فلسطین کی بالشت بھر زمین دینے کابھی روادار نہیں ہوں۔یہ زمین میری ملکیت نہیں،اُمتِ مسلمہ کی امانت ہے۔ میری قوم نے اس سرزمین کوحاصل کرنے کے لیے جہاد کیا اور اسے اپنے لہوسے سیراب کیا۔یہودی اپنے کروڑوں ڈالراپنے پاس سنبھال کررکھیں۔ ہاں اگرخلافت مٹ گئی تو پھر یہودی ،اس زمین کو بلاقیمت لے لیں گے۔مگر جب تک میں زندہ ہوں تو مجھے اپنے بدن کا پارہ پارہ ہونا منظور ہوگا مگرمجھ سے یہ نہیں دیکھاجائے گاکہ فلسطین،خلافت سے الگ ہوجائے ۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔میں جیتے جی کبھی بھی اپنے وجود کو پاش پاش کرنے کی حمایت نہیں کرسکتا۔‘‘یہ جواب سن کر ہرٹزل نے سلطان سے خودملنے کی کوشش کی ۔دوسال تک کوشش کے بعد 1901ء(1889ھ) میںوہ سلطان سے ملاقات کا وقت لینے میں کامیاب ہوگیا۔سلطان عبدالحمیدنے خاموشی سے ہرٹزل کی طویل تقریرسنی مگر جب آخر میں سلطان نے زبان کھولی توفیصلہ وہی تھا ،جو پہلے تھا۔ بعدمیںسلطان نے ہرٹز ل سے ملاقات پر درج ذیل تبصرہ کیا:’’صہیونی پیشوا ہرٹزل مجھے اپنے خیالات سے متفق کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔صہیونی فلسطین میں صرف زراعت نہیں کرناچاہتے بلکہ وہ ایک باقاعدہ حکومت بنانے کاعزم کیے ہوئے ہیں۔میں ان کے مقاصد کواچھی طرح سمجھتاہوں۔یہ یہودیوں کی خوش فہمی ہے کہ میں ان کی باتیں مان لوں گا۔‘‘سلطان نے واضح طورپرکہا:’’ہم بیت المقدس سے کیوں دست کش ہوں۔یہ ہروقت اور ہر دور میں ہماری سرزمین رہی ہے اوررہے گی۔یہ ہمارے مقاماتِ مقدسہ میں سے ہے،اسلامی دنیا میں واقع ہے۔ضروری ہے کہ ارضِ القدس ہماری ہی رہے۔اس کے بعد ہرٹزل نے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کی منصوبہ بندی شروع کردی۔ اس کا کہنا تھا : ’’سلطان عبدالحمید سے گفتگو کی روشنی میں یہ واضح ہوگیاہے کہ ترکی سے فائدہ اٹھانا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک اس کی سیاسی حالت نہ بدل دی جائے یااسے ایسی جنگ میں دھکیلاجائے جس میں اسے شکست ہوجائے یایہ دونوں باتیں ایک ساتھ واقع ہوں۔ ‘‘صہیونیوں نے عثمانی خلافت کوسبوتاژکرکے فلسطین پرقبضے کامنصوبہ بنایااوراس مقصد کے لیے دنیا کی سب سے بڑی طاقت اورمسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن برطانیہ سے مددلینے کافیصلہ کیا۔1903ء کی چھٹی عالمی یہودی کانفرنس میںیہودی رہنما ماکس نورڈنے اعلان کیا تھا:’’ عنقریب ہم ایک عالمی اجتماع کی دعوت دیں گے ۔میں آپ کو ایک سیڑھی کے پائے دکھارہاہوں جو ہمیں یک دم بلندی پہ لے جائے گی …برطانیہ کی مدد سے فلسطین میں ایک آزاد یہودی مملکت کا وجود ہوگا۔ ‘‘اسی دوران دشمنوںنے سلطان کو قتل کرنے کی ایک گھناؤنی سازش ترتیب دی۔ بلجیم کے ایک جاسوس ’جوریس‘ کو،جو بم سازی کاماہرتھا، اس مقصد کے لیے تیار کیا گیا۔ وہ 1905ء میں استنبول پہنچا اورسلطان کی نقل وحرکت دیکھنے کی کوشش کرتارہا۔ سلطان کے محل میں حفاظتی انتظامات اتنے سخت تھے کہ اسے اندر گھسنے کی کوئی راہ نہ ملی۔آخر اس نے دیکھاکہ سلطان نمازِجمعہ کے لیے جامع مسجد یلدز جاتا ہے اور واپسی میں مسجد کے دروازے کے باہر چند سیکنڈ کے لیے رک کرلوگوں کو دیدارکراتاہے اورپھر اپنی بگھی میں سوارہوجاتاہے۔سلطان وقت کااتنا پابند تھا کہ مسجد سے نکلنے اوربگھی میں بیٹھنے کاوقت کبھی آگے پیچھے نہیں ہوتاتھا۔یہ ہمیشہ 42سیکنڈکاوقفہ ہوتاتھا۔ جوریس نے انہی لمحات سے فائدہ اٹھاناطے کرلیا۔ یورپ سے ایک خصوصی قسم کی گھوڑاگاڑی بھیجی گئی،جورس نے اس کے خفیہ حصوں میں ایک سوکلو گرام دھماکہ خیز مواد کا ٹائم بم نصب کردیا۔یہ گھوڑا گاڑی جامع مسجد کے درواز ے کے پاس اس جگہ لگادی گئی جہاں نماز ِ جمعہ وقت بگھیاں کھڑی کی جاتی تھیں۔سلطان نماز سے فارغ ہوکر مسجد کے دروازے پر پہنچاہی تھاکہ اچانک شیخ الاسلام جمال الدین سامنے آگئے اور ان سے کسی مسئلے پر بات چیت شروع کردی۔ اسی دوران اچانک کان پھاڑنے والا دھماکہ ہوا،کچھ دیر کے لیے سب کچھ دھویں اور گرد وغبارمیں چھپ گیا۔ جب مطلع صاف ہواتو لوگوںنے سلطان کو انسانی لاشوں اورمرے ہوئے گھوڑوں کے بیچ سے اٹھتے دیکھا۔ اس کاچہر ہ حسبِ معمول بالکل پرسکون تھا۔اللہ نے اسے بال بال بچالیاتھا ۔یہ سازش توناکام ہوگئی مگر چند سال بعد1909ء میں ترک جرنیلوں کے ذریعے بغاوت کراکے سلطان عبدالحمید ثانی کاتختہ الٹ دیاگیا۔اس کے بعدجوقیاد ت آئی ،وہ سیاسی ادارک وبصیرت سے تہی دست تھی ،اس لیے جنگِ عظیم اول کاحصہ بن کر ترکی کی شکست وریخت کاسبب بن گئی ۔(اس کی تفصیل گزشتہ کالم بدھ20جنوری تا ہفتہ 23جنوری تک میں آچکی ہے۔)ا س دوران یہودی تسخیرِ عالم کے عالمی منصوبے پرایک اور رُخ سے بھی کام شروع کرچکے تھے ۔وہ ایک ایسی لادینی حکومت قائم کرنے کی تیاریاں کرنے لگے تھے جوبظاہر دہریہ اور اندرونِ خانہ یہود نواز رہے۔ اس مقصد کے لیے یہودی مفکرین نے لادینیت اور لامذہبیت کو کمیونزم اور سوشلزم کا جامہ پہناکر دنیا کے سامنے پیش کرنا شروع کیا۔ ان میں سب سے بڑا مفکر مارکس تھاجس نے The Capital نامی کتاب لکھ کراشتراکی نظام کاخاکہ پیش کیا۔مارکس ،اپنے منصوبے کی عملی شکل دیکھنے سے پہلے مرگیاالبتہ بعض یہودیوںنے اپنی آبادیوں کو تجرباتی طورپرمارکسی افکار سے مستفاد ایک نظام کے تحت چلاناشروع کیاجسے کِبوٹز(kibbutz) کہا جاتا تھا،اس میں زمین اورجائدادیں کسی فرد کی ملکیت میںنہیں ہوتی تھیں۔انتظامیہ ہی اصل مالک ہوتی تھی ۔تمام لوگ مل کرکام کرتے تھے اور انتظامیہ ملنے والی آمدن سے ان کی ضروریات پوری کرتی تھی۔گویایہ ایک محدودجگہ پر سوشلز م کاابتدائی تجربہ تھا۔آبادی کی حفاظت کے لیے ایک پہرے دارفوج بھی بنائی گئی۔اس محدودتجربے کے بعدایک اوریہودی سیاست دان لینن نے اسے روس میں نافذ کرنے کی مہم شروع کی۔ زار نے اس کے انقلابی خیالات سے خطرہ محسوس کرکے اسے 1900ء میں سائیبیریا جلاوطن کردیا مگر وہ فرار ہوکر یورپ چلا گیا اور صحافت کے ذریعے اپنے انقلابی نظریات کا پرچار کرتا رہا۔ چونکہ روس کے عوام ’’زار‘‘ کے ظلم و ستم سے تنگ آئے ہوئے تھے، اس لیے ’’لینن‘‘ کو اپنا نجات دہندہ تصور کرکے وہ اس کے خیالات سے متاثر ہونے لگے۔
یہودی اپنی قدیم منصوبہ بندی کے مطابق زارِروس کاتختہ الٹ کروہاں سوشلزم کاتجربہ کرنا چاہتے تھے ،اس لیے 1904ء میں انہوںنے ایک بارپھرزارکے قتل کی سازش کی جوناکام رہی ۔ اس بارروسی حکومت نے یہودیوں سے زیادہ سختی برتی جس کی وجہ سے یہودیوںکی بڑی تعدادکو روس سے بھاگناپڑا۔ یوں روسی شاہی خاندان سے یہودیوں کی دشمنی مزید پختہ ہوگئی۔ادھر لینن نے 1910ء میں سوشلسٹ پارٹی تشکیل دے دی اور پیرس منتقل ہوگیا۔1913ء میں لینن نے ’’بالشویک کانفرنس‘‘ کا پہلا اجلاس ’’پراگ‘‘ میں طلب کیا۔ یہ کانفرنس اللہ کی زمین پر اللہ کے تصوّر کے خلاف ایک اعلانِ جنگ کی تمہید تھی۔اس سیاسی منظرنامے کو سامنے رکھنے کے بعد ہمیں یہ صاف دکھائی دیتاہے کہ بیسیویں صدی کے اس دوسرے عشرے میں یہودیوں کے تین بڑے دشمن تھے۔پہلادشمن زارِ روس تھا ۔یہودی لینن کی قیادت میں سوشلزم کی تحریک چلاکر زارِ شاہی کی حکومت کاخاتمہ کرنااوروہاں ایک بظاہر لادینی اور درونِ خانہ صہیونیت نوازحکومت بنانا چاہتے تھے ۔دوسرا دشمن جرمنی کاشاہی خانوادہ تھا جس نے یہودیوں کی سازشوں سے تنگ آکر انہیں سزائیں دی تھیں اوربڑی تعداد میں جلا وطن کیاتھا۔یہ خاندان دنیا کی عظیم ترین طاقت بننے والاتھا جو یہودیوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔تیسرادشمن ترکی تھا جہاںجمہوری حکومت قائم ہونے کے بعد بھی خلافت باقی تھی جو فلسطین کے متعلق صہیونی عزائم کی تکمیل میں رکاوٹ تھی۔یہ تینوں بڑی مہیب طاقتیں تھیں جنہیں آسانی سے ہلایانہیں جاسکتاتھا۔جبکہ یہودی نہ صرف ان کے سیاسی نظام کو بلکہ ان کی تہذیب وتمدن اورنظریات کوبھی مٹادینے کاتہیہ کیے ہوئے تھے ۔یہ مقاصد کسی ایسی بہت بڑی جنگ کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے تھے جس میں یہ تینوں طاقتیں پوری قوت سے شریک ہوکر تھک ہارجائیں۔ایک بڑی جنگ کی آگ لگانے کے لیے بلقان سب سے مناسب جگہ تھی جہاںچندسالوں میں دو جنگیں ہوچکی تھیں اوروہاں کی ریاستوں پر اجارہ داری قائم کرنے میں روس کی آسٹریا سے چپقلش چل رہی تھی ۔ترکی سلطان عبدالحمید کی معزولی،جمعیت اتحادوترقی کے اقتداراور بلقان اورلیبیاکے سقوط کے بعدبیرونی دنیامیں سابقہ آن بان کھوچکاتھا اوراندرونی طورپر اس کے مختلف صوبوں میں علیحدگی پسندی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔جنگ سے پہلے 1913ء تک یہودی سرمایہ داروں،صہیونی زعماء اوران کے حلیف برطانوی سیاست دانوںنے دنیا کی حالت اس عمارت جیسی کردی تھی جس میں جگہ جگہ بارود کے ڈھیر چھپا دیے گئے ہوں ، بس انہیں تاروں کے ذریعے آپس میں جوڑنا اورشعلہ دکھاناباقی ہو۔روس کو ترکی کے مقابلے میں لانے یا جرمنی اورروس کوباہم جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے کوئی بہانہ پیداکرنامشکل تھا۔ البتہ آسٹریا اورروس کی بلقان کے مسئلے پر کشیدگی چل رہی تھی ،لہٰذا وہ کسی بھی وقت لڑسکتے تھے۔ آسٹریاکی حمایت میں جرمنی کو شریکِ جنگ کرنا مشکل نہیں تھا ،کیونکہ روس کو جرمنی بھی اپنادشمن سمجھتاتھا۔نیزجرمنی سے یہودیوں کے بڑی تعداد میں انخلاء کے باوجودصہیونی لابی خفیہ طورپر فوج کے اعلیٰ افسران کواستعمال کرنے کے قابل تھی اوریہودیوں کا سیاسی عسکری امورمیںخاصا اثر ورسوخ اب بھی باقی تھا۔جرمنی کی خاطر ترکی کا جنگ میں کودنامشکل مگر امکان سے باہر نہ تھا ،کیونکہ وہاںجن جرنیلوں کاحکم چلتا تھا ،وہ سیاسی تجربے اور دوراندیشی سے عاری مگرجوش وجذبات سے بھرپور تھے ۔انہیں غلط معلومات دے کراورسبزباغ دکھا کے ، مستقبل کے متعلق گمراہ کرنافری میسنری کارندوں اورصہیونی ذرائعِ ابلاغ کے لیے کوئی بڑی بات نہ تھی۔ یہ بھی بعید نہیں کہ ترکی کا وزیرِ دفاع انورپاشا جس نے ترکی کو جنگ کی آگ میں دھکیلاتھا، فری میسنری یااسی قسم کی کسی خفیہ یہودی تنظیم کے زیرِاثرآکر دھوکے کا شکار ہواہو،ادنیٰ امکان یہ بھی ہے کہ وہ انہی کاکارندہ ہو،اگرچہ اس کاثبوت نہیں ملتا ۔ انورپاشا کا ظاہری کرداریہی گواہی دیتاہے کہ وہ سلام پسنداورمحب ِ وطن تھامگر فریبِ فکرونظر میں مبتلاہوگیاتھا۔صہیونی لابی کے لیے برطانیہ اورفرانس اورامریکا کو جنگ میںشامل کرنا بہت آسان تھا کیونکہ وہاں یہودی سرمایہ داروںکے وزرائے اعظم ،صدوراورافواج کے سربراہوں تک سے گہرے روابط تھے۔یہودیوں نے جنگ سے درج ذیل اغراض وابستہ کررکھی تھیں:٭اپنے دشمن روس کی زارشہنشاہیت کاخاتمہ اوروہاں کیمونسٹ نظام کاتجربہ٭اپنے دشمن جرمنی کی شکست وریخت٭خلافت کاسقوط اورسلطنتِ عثمانیہ کی تقسیم وتحلیل٭ فلسطین میں اپنے لیے وطن کی راہ ہموارکرناچونکہ یہ تمام امور جرمنی اورترکی کی شکست اور زارِ شاہی کی طاقت مضمحل ہونے پر منحصرتھے۔اس لیے یہ بھی طے تھا کہ پہلے جرمنی کو کھل کر لڑنے دیاجائے گاتاکہ روس کمزورتر ہوجائے اورلینن وہاں کامیاب بغاوت کرسکے۔ یہ بھی طے تھا کہ جرمنی کو آخرمیں شکست دلواناہوگی۔ اس کے لیے جرمنی کے کچھ کمانڈرخریدلیے گئے تھے جن سے جنگ کے آخری مرحلے میں کام لیاگیا حالانکہ جرمنی بظاہر فتح حاصل کرنے والاتھا۔ترکی سے جنگ کواس حدتک طول دینے کافیصلہ کرلیا گیا تھا کہ اس کی طاقت بالکل فنا ہوجائے اور وہ اتحادیوں کے ہر فیصلے کے سامنے سرجھکادے، چاہے اس طرح انسانی جانوں کا ضیاع کئی گنابڑھ جائے۔جنگ کے تیسرے سال ا س کے نتائج سامنے آگئے۔ اکتوبر 1917ء میں لینن جلاوطنی ترک کرکے ماسکوپہنچااورانقلابی تحریک چلاکر نومبرمیںزار شہنشاہیت کاخاتمہ کردیا۔ مارچ 1918ء میں ’’کریملین‘‘ کو مرکز بناکر سوویت حکومت تشکیل دے دی گئی۔یہ دراصل یہودیوں کی فتح تھی جواس تحریک کے قائدبھی تھے اوراس کے لیے مالی وسائل بھی مہیا کرتے رہے تھے۔ لینن کا قریبی دوست اور مشہور امریکی مصنف لوئی فشر اپنی تصنیف ’’لائف آف لینن‘‘ میں انکشاف کرتا ہے کہ لینن یہودی تھا۔ یہودی اسے اس حیثیت سے خوب جانتے ہیں۔ اس کی بیوی بھی یہودن تھی۔ماسکو کے سرخ انقلاب سے چند ماہ پہلے جون1917 میں جب کہ جنگ کے نتائج کااندازہ ہوچکاتھا،یہودکی عالمی کانفرنس میں کہا گیا:’’ہم نے ظالم عسکری طاقتوں کو لڑواکر اُن کی طاقتوں کو توڑ دیا ہے(ظالم عسکری طاقتوں سے مراد مسلمانوں کی خلافتِ عثمانیہ ،،روس اور جرمنی ہیں)ہم نے قیصری طاقتوں کو توڑ دیا ہے،اور چند بقیہ حکومتوں کو بھی اُکھاڑ دیں گے ، یعنی پوری دنیا میں نو آبادیات قائم ہوں گی، دنیا کا نقشہ اور جغرافیہ تبدیل ہو جائے گا، اب ایک بالا دست عالمی اقتدار وجود میں لایا جاسکتا ہے‘‘۔
ایساہی ہوا۔پہلی عالمگیر جنگ کے بعد دنیا میں بڑے بڑے انقلابات آئے ۔صہیونیوںنے حسبِ منصوبہ پوری دنیاکو ’’ لیگ آف نیشنز‘‘ پر متفق کیا جس کا ڈھانچہ امریکی صدر ’’ولسن‘‘ کے سیاسی مشیر ’’کرنل مانڈیل ہاؤس‘‘ نے اپنے رفقا ء کی مدد سے تیار کیا۔پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر لیگ آف نیشنز(League of Nations) کے ذریعے ہی وہ معاہدے ہوئے،جن کے ذریعے خلافتِ عثمانیہ ختم ہوئی،خلافت کے وسیع علاقے کی بندر بانٹ ہوئی۔ اس طرح شام اور عرب ممالک پر جوافرادمسلط ہوئے ان میں سے اکثربرطانوی اوریہودی ایجنٹ تھے، اُن کی موجودگی میں یہود کو مشرق وسطیٰ لے جا کر بسانا کوئی مشکل کام نہیں رہاتھا۔ جدید تُرکی وجود میں آیا، نو آبادیات اورنئی اقتصادیات کا نظام قائم ہوا۔دوسری جنگِ عظیم ،دراصل پہلی جنگِ عظیم ہی کاردعمل تھی اورجن اہداف کی تکمیل میں کمی رہ گئی تھی ، انہیں دوسری جنگ عظیم (1939ء تا 1945ء) میں حاصل کرلیاگیا۔ماضی قریب کے ان تجربات کوسامنے رکھتے ہوئے دورِ حاضرکاجائزہ لیں تواس وقت یہودی لابی اپنے اہداف کی تکمیل کے لیے ایک نئی عالمی جنگ کے بہانے تلاش کرتی دکھائی دے رہی ہے۔یہ اہداف کیا ہیں ؟یہودی اپنی آزادمملکت کے قیام کوتقریباً سات عشرے گزرنے کے بعد بھی اب تک ایک مختصر سی ریاست کے مالک ہیں جبکہ وہ 1896ء کی عالمی کانفرنس میں یہ اعلان کرچکے تھے کہ ہر وہ علاقہ یہودی مملکت کاحصہ بنے گا،جہاں قدیم دورمیں ان کے آباؤاجداد آباد تھے۔اسرائیل کے نقشے میں مدینہ منورہ تک کاعلاقہ شامل ہے جہاں چودہ صدیاں قبل بنو نضیر اوربنوقریظہ بستے تھے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ2002ء میں امریکن کانگریس میں سعودی عرب کی تقسیم کی تجویز پیش کی کردی گئی تھی۔یہ ہدف سعودی عرب پر جنگ مسلط کیے بغیر حاصل نہیں ہوسکتااورسعودی عرب کی تقسیم کا فیصلہ کرانے کے لیے کوئی معمولی جنگ کافی نہیں ہوسکتی ۔اسرائیل کادوسرااہم ترین ہدف مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کواس کی عسکری قوت سے محروم کرنا ہے۔یہ بات کسی سے بھی مخفی نہیں کہ پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کوتباہ کرنا موساد کاترجیحی ہدف چلا آ رہا ہے۔اس ہدف میں موساد کا’را‘کے ساتھ اشتراک بھی اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔اسی طرح پاکستان کوتوڑکر گریٹ بلوچستان،سندھو دیش اورجناح پور (کراچی)میں تحلیل کرنا بھی 80ء،90 کی دھائیوں میں عالمی طاقتوں کے پیشِ نظر رہا ہے۔یہ ہدف اب بھی پوری طرح متروک نہیں ہوا۔یہودیوں کا تیسرا ہدف ترکی کی نئی اسلام پسند حکومت کو ناکام ثابت کرنااوراس کی بڑھتی ہوئی اس عسکری طاقت کو توڑناہے ،جس پر اعتماد کے باعث ترکی نے روسی طیارہ مارگرایا۔یہ اہداف بھی کسی بڑی جنگ کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتے۔یہودی اورنصرانی اسی بڑی جنگ کی آگ سلگانے کی کوشش کررہے ہیں اوریہ تیسری عالمی جنگ ماضی سے بہت مختلف ہوگی ۔ اس جنگ کے میدان یورپ اورمغربی دنیامیں نہیں ،عالم اسلام کے حساس ترین خطوں میں ہوں گے۔لڑنے والے صرف مسلم ممالک ہوں گے جبکہ لڑانے والے یہودی زعماء اورنصرانی ممالک۔ عالم اسلام میں ایسی جنگ کی آگ لگانے کے لیے سرِ دست سب سے سلگتا ہوا پوائنٹ ’’شیعہ سنی کشیدگی ‘ ‘ ہے ،جو بڑھتے بڑھتے حالتِ جنگ تک آچکی ہے۔اگریہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ 34سنی ممالک کا عسکری اتحاد،جس سے ہم مسلمانوں کے مشترکہ مفادات کے تحفظ کی امید کررہے ہیں ،مستقبل کی ایسی جنگ میں مسلم ممالک خصوصاً پاکستان اورترکی کو پوری طرح ملوث کرنے کے لیے ترتیب دیاگیاہے۔ اگر خدانخواستہ امریکی یہودی سازش کے مطابق ایران اورسعودی عرب میں جنگ چھڑی تو پاکستان سمیت 34سنی ممالک کااتحاد پیچھے نہیں رہ سکے گا۔اس کے بعد کیا ہوگاـ؟…٭عالمی طاقتوں میں سے جو کھل کر ایران کی حامی ہیں ،وہ سنی ممالک کی سعودی عرب کے ساتھ عسکری مشارکت کو ان ممالک پر چڑھائی کابہانہ بنالیں گی۔٭ روس جو ایران کاپرانامددگاراورشام کی شیعہ سنی جنگ میں ،شیعوں کے ساتھ شریک بھی ہے ،اس محاذمیں بھی ایران کاکھل کرساتھ دے گا۔٭روسی فوجیں،بحیرۂ اسود سے ترکی کی طرف اورپاک ایران سرحدوں سے ،ایرانی فوج کے ساتھ مل کر بلوچستان میں پیش قدمی کرسکتی ہیں۔ ٭ عراق سے ان اتحادی افواج کارُخ براہِ راست جزیرۃ العرب کی طرف ہوسکے گا۔یوں روسی افواج تین محاذوں سے آگے بڑھ کرتین اہم اہداف کی تکمیل میں مدد دے سکیں گی۔٭بھارت ،پاکستان دشمنی کی وجہ سے ایران کے بہت قریب ہے ۔وہ اسی بہانے پاکستان کی مغربی سرحدوںپر محاذ کھول دے گا۔افغان حکومت جو بھارت کے زیرِ اثر ہے ،پاکستان کی مشرقی سرحدوں کو زک پہنچانے میں دیرنہیں لگائے گی۔٭ ممکن ہے امریکا جنگ کے شدت اختیار کرنے تک غیرجانبداری یا سنی اتحاد کی طرف میلا ن ظاہرکرتارہے، اوراسلحے کی فروخت کے ذریعے انہیں مضبوط کرے ،صرف اس لیے تاکہ وہ اطمینان سے جنگ میں کود سکیں ۔لیکن جب جنگ اس حدتک پہنچ جائے گی کہ اس کے شعلوں کوسرد کرنا کسی بھی فریق کے لیے ممکن نہ ہو،توامریکاکی پالیسی تبدیل ہوجائے گی ،جیساکہ اس کی عادت رہی ہے۔٭ اگرکوئی جنگ صر ف ایران یاسنی ممالک میں ہو،توایران کی شکست کے امکانات غالب ہوں گے۔ لیکن اس جنگ میں عالمی طاقتیں علانیہ یاخفیہ کسی بھی طرح ایران کی پشت پناہ ہوں گی اوراسے کبھی بھی ہارنے نہیں دیں گی ۔٭اس جنگ میں جلد کسی کی برتری نہیں ہونے دی جائے گی،لڑائی کو جلد ختم نہیں ہونے دیاجائے گا بلکہ شاید یہ ایران عراق جنگ کی طرح آٹھ دس سال تک چلتی رہنے دی جائے گی تاکہ اس دوران عالم اسلام عسکری ،اقتصادی اورافرادی قوت کے لحاظ سے دیوالیہ ہوجائے٭ممکن ہے زمینی سطح پر سنی افواج کو فتوحات بھی ہوں مگر آخر میں جب سب تھک ہار کر اپنی اپنی طاقت گنوابیٹھیں گے توزخموں سے چورعالم اسلام کے فیصلے کرنے حسبِ معمول طاقتیں مذاکرات کا دسترخوان بچھائیں گی۔ اورآخر میں متحارب فریق کسی بھی قیمت پرجنگ ختم کرنے پر راضی ہوجائیں، ایسے میں عالمی طاقتیں پاکستان،سعودی عرب اورترکی کے بارے میں من مانے فیصلے کریں گی جس کے نتیجے میں عالم اسلام ایک صدی مزید پیچھے چلا جائے گا۔یہ پیش گوئیاں نہیں ،کھلے حقائق پر تھوڑاساغورکرنے سے سمجھ آنے والے واضح حقائق ہیں۔ ان کی حیثیت قوی خدشات کی ہے جنہیں نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔،ماضی وحال کاموازنہ کچھ اسی قسم کامنظر دکھا رہا ہے۔ ان خطرات سے نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ کسی بھی قیمت پر عالم اسلام میں کوئی جنگ نہ چھڑنے دی جائے۔ الحمد للہ حکومت پاکستان اس بارے میں اپنا کرداراچھی طرح نبھا رہی ہے ، مگر ہمارے حکمرانوں کو اس سلسلے میں مزید طویل اورگہری منصوبہ بند ی کے ساتھ چلناہوگا ۔ملک کے بہترین دماغوں کواس منصوبہ بندی کے لیے استعمال کرناہوگا۔عالم اسلام کے ممالک میں رابطہ کاری اورسفارت کاری مثبت ،متواز ن اورتیز ترانداز میں جاری رکھناہوگی۔یہ کام ہمارے حکمرانوں کاہے جبکہ میرااورآپ کاکام یہ ہے کہ ہم اس کرداراورپالیسی کوسراہیں اورعالم اسلام کو کسی نئی جنگ کاایندھن نہ بننے دیں۔
یہودیت قرآن کی روشنی میں (مصنف : یوسف ظفر) اسلام ایک امن و سلامتی کا عالمگیر مذہب ہے۔ خاتم النبیین کی بعثت سے پہلے دنیا میں شرک و الحاد باہمی انتشار و فساد کا دور دورہ تھا۔ اللہ رب العزت نے آفتاب رسالت ﷺ کے ذریعے انوار توحید و سنت عالم انسانی کو منور و مزین کیا۔ آپﷺ کی ذات بابرکات و اعلیٰ صفات، امن و عافیت اور شفقت و محبت کا مجمع، حلم و سکینت کا مرقع ہے۔ آپﷺ گفتار و کردار کے اعلیٰ منصب پر فائز تھے۔ آپ کی ہر دم عفو و درگزری اور نرم دم گفتگو نے عرب کے خانہ بدوش قبیلوں کو پوری دنیا کے لیے ایک ماڈل و نمونہ بنایا۔ لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے اور یہ بات جہاں مشرکین مکہ کو کھٹکتی تھی وہاں یہودیوں اور نصرانیوں کو بھی نا پسند تھی، جبکہ آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی پیش گوئی ان کی مذہبی کتابوں میں مختلف انداز سے موجود تھی۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب بھی تاریخ اسلام میں کوئی سانحہ رو نما ہوا ہے یہودی اس میں بالاواسطہ یا بالواسطہ ملوث رہے ہیں۔ ان کی اسلام دشمنی ہجرت مدینہ سے شروع ہوتی ہے۔ زیر نظر کتاب"یہودیت تاریخ، فطرت و عزائم" یوسف ظفر مرحوم کی ایک تاریخی تصنیف ہے۔ موصوف نے اپنی کتاب ہذا میں یہودیت کی تاریخ، سانحہ بیت المقدس، یہودی اور ان کے پیغمبر، اسرائیل کا قیام اور یہودیوں کے مستقبل کے عزائم کو احاطہ تحریر میں لائے ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت فرمائے اور ان کو اجر عظیم سے نوازے۔ آمین
https://kitabosunnat.com/kutub-library/yahoodiyat-tareekh-fitrat-aur-azaem
القرآن:
تم یہ بات ضرور محسوس کرلو گے کہ مسلمانوں سے سب سے سخت دشمنی رکھنے والے ایک تو یہودی ہیں، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو (کھل کر) شرک کرتے ہیں۔ اور تم یہ بات بھی ضرور محسوس کرلو گے کہ (غیر مسلموں میں) مسلمانوں سے دوستی میں قریب تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو نصرانی کہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں بہت سے علم دوست عالم اور بہت سے تارک الدنیا درویش ہیں (56) نیز یہ وجہ بھی ہے کہ وہ تکبر نہیں کرتے۔
[سورة المائدة:82]
(56) مطلب یہ ہے کہ عیسائیوں میں چونکہ بہت سے لوگ دنیا کی محبت سے خالی ہیں، اس لئے ان میں قبول حق کا مادہ زیادہ ہے اور کم از کم انہیں مسلمانوں سے اتنی سخت دشمنی نہیں ہے، کیونکہ دنیا کی محبت وہ چیز ہے جو انسان کو حق کے قبول کرنے سے روکتی ہے، اس کے برعکس یہودیوں اور مشرکین مکہ پر دنیا پرستی غالب ہے، اس لئے وہ سچے طالب حق کا طرز عمل اختیار نہیں کرپاتے، عیسائیوں کے نسبۃً نرم دل ہونے کی دوسری وجہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ تکبر نہیں کرتے ؛ کیونکہ انسان کی انا بھی اکثر حق قبول کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے، عیسائیوں کو جو مسلمانوں سے محبت میں قریب تر فرمایا گیا ہے اسی کا اثر یہ تھا کہ جب مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر ظلم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو بہت سے مسلمانوں نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس پناہ لی، اور نہ صرف نجاشی بلکہ اس کی رعایا نے بھی ان کے ساتھ بڑے اعزاز و اکرام کا معاملہ کیا ؛ بلکہ جب مشرکین مکہ نے اپنا ایک وفد نجاشی کے پاس بھیجا اور اس سے درخواست کی کہ جن مسلمانوں نے اس کے ملک میں پناہ لی ہے انہیں اپنے ملک سے نکال کر واپس مکہ مکرمہ بھیج دے تاکہ مشرکین ان کو اپنے ظلم کا نشانہ بناسکیں، تو نجاشی نے مسلمانوں کو بلا کر ان سے ان کا موقف سنا اور مشرکین مکہ کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا اور جو تحفے انہوں نے بھیجے تھے وہ واپس کردئے ؛ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عیسائیوں کو جو مسلمانوں سے قریب تر کہا گیا ہے یہ ان عیسائیوں کی اکثریت کے اعتبار سے کہا گیا ہے جو اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے دنیا کی محبت سے دور ہوں اور ان میں تکبر نہ پایا جاتا ہو ؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر زمانے کے عیسائیوں کا یہی حال ہے ؛ چنانچہ تاریخ میں ایسی بہت مثالیں ہیں جن میں عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ بدترین معاملہ کیا۔
یہود و نصاریٰ کی اسلام کے خلاف سازشیں
(مصنف : علی بن عبد الرحمن الحذیفی)
یہود ونصاری پہلے دن ہی سے دین اسلام سے حسد کرتے چلے آرہے ہیں۔ دونوں قوموں کو شروع سے "اہلِ کتاب" ہونے کا زعم تھا۔ یہود بنی اسرائیل میں آخری نبی کی آرزو لیے بیٹھے تھے۔ لیکن بنی اسماعیل میں آخری نبی کے ظہور نے انہیں اسلام کا بدترین دشمن بنادیا ۔ مدینہ میں انہوں نے غزوہ خندق میں معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئےمسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی ۔نبی کریمﷺ نے انہیں مدینہ سے نکال دیا۔ سیدنا عمر ؓ نے ان کی سازشوں کی وجہ سے انہیں آخر جزیرۃ العرب سےہی نکال باہرکیا ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنے محبوب ﷺ کا جملہ اچھی طرح یاد ہے۔" یہود ونصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکال دو۔ (ابوداود:2635)ان دونوں قوموں نے مسلسل اپنی سازشیں جاریں رکھیں اور مسلمانوں کو بڑا نقصان پہچانے کی کوششوں میں رہے اورمسلمانوں کو ان سے بعد میں بہت سی جنگیں لڑنی پڑیں۔ان کے ان سب تخریبی کاموں کے باوجود مسلم اقوام میں کبھی تذبذب، اضطراب اور جذبہ شکستگی کا احساس تک نہ پیدا ہوا، بلکہ انہوں نے ہر میدان میں ثابت قدمی کا ثبوت پیش کیا،اور ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا۔زیر تبصرہ کتاب" یہود ونصاری کی اسلام کے خلاف سازشیں "امام مسجد نبوی فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن الحذیفی کے خطبہ جمعہ کے اردو ترجمہ پر مشتمل ہے جو انہوں نے مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا تھا۔اس خطبہ میں انہوں نے مسلمانوں کو یہود و نصاری کی عالم اسلام کے خلاف سازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے ہوشیار رہنے کی ترغیب دی ہے،کہ آج عالم اسلام ہر طرح کے وسائل ہونے کے باوجود کس طرح تنزلی اور محکومی کی زندگی گزار رہا ہے۔امت مسلمہ کا درد رکھنے والے اہم دل حضرات کے لئے یہ ایک شاندار اور مفید ترین کتابچہ ہے۔بارگاہ الہی میں دعا ہے کہ وہ امت مسلمہ کو تمام میدانوں میں رہبر اور راہنما بنائے۔آمین
https://kitabosunnat.com/kutub-library/yahood-w-nasara-ki-islam-k-khilaf-sazshain
یہودی ریاست کے قیام کا پسِ منظر:
القرآن:
اے ایمان والو ! یہودیوں اور نصرانیوں کو یارومددگار نہ بناؤ (43) یہ خود ہی ایک دوسرے کے یارومددگار ہیں اور تم میں سے جو شخص ان کی دوستی کا دم بھرے گا تو پھر وہ انہی میں سے ہوگا۔ یقینا اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
[سورة المائدة:51]
مومن لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا یارومددگار نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، الا یہ کہ تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لیے بچاؤ کا کوئی طریقہ اختیار کرو، (9) اور اللہ تمہیں اپنے (عذاب) سے بچاتا ہے، اور اسی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے۔
[آل عمران:28]
تشریح:
(9)”یار و مددگارـ“ عربی لفظ ”ولی“ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ”ولی“ بنانے کو ”موالات“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی دوستی اور قلبی محبت کا تعلق ہے جس کے نتیجے میں دو آدمیوں کا مقصد زندگی اور ان کا نفع و نقصان ایک ہوجائے۔ اس قسم کا تعلق مسلمان کا صرف مسلمان ہی سے ہوسکتا ہے اور کسی غیر مسلم سے ایسا تعلق رکھنا سخت گناہ ہے اور اس آیت میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے، یہی حکم سورة نساء (4: 139) سورة مائدہ (5: 51) سورة توبہ (9: 23) سورة مجادلہ (28: 22) اور سورة ممتحنہ (60: 1) میں بھی دیا گیا ہے، البتہ جو غیر مسلم جنگ کی حالت میں نہ ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے، جیسا کے خود قرآن کریم نے سورة ممتحنہ (60: 8) میں واضح فرمادیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت پوری حیات طیبہ میں یہ رہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا، اسی طرح ان کے ساتھ سیاسی اوراقتصادی تعاون کے وہ معاہدہ اور تجارتی معاملات بھی کئے جاسکتے ہیں جن کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں دوستی کے معاہدے کہا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ معاہدے یا معاملات اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف نہ ہوں اور ان میں کسی خلاف شرع عمل کا ارتکاب لازم نہ آئے، چنانچہ خود آنحضرت ﷺ نے اور آپ کے بعد صحابہ کرام نے ایسے معاہدات اور معاملات کیے ہیں، غیر مسلموں کے ساتھ موالات کی ممانعت کرنے کے بعد قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ : الا یہ کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لئے بچاؤ کا کوئی طریقہ احتیار کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار کے ظلم وتشدد سے بچاؤ کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے جس سے بظاہرموالات معلوم ہوتی ہو تو اس کی گنجائش ہے۔
ڈاکٹر گوہن نے اپنے مرتب کردہ صحیفہ تالمود کے انتخابہ مضامین کے مجموعہ "everymans library services" کے صفحہ نمبر 405 پر لکھا ہے کہ قیامت کے دن ابراہیم دوزخ پر تشریف رکھتے ہوں گے اور کسی گنہگار یہودی کو اس میں گرنے نہ دیں گے۔ انہی خود ساختہ خوش فہمیوں نے اس قوم کو سرکش بنا یا ہوا ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ انہوں نے یہ خوش فہمیاں قوم میں خود ہی پھلائی ہیں تا کہ اپنی قوم سے اپنی منشا کے مطابق کام لے سکیں۔
ہنگامی منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے! ,,,, کارزار… انور غازی
یہ پروٹوکولز بنیادی طورپر چار اصولوں پر قائم کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک عالمی میڈیا اور پریس کا یہودیوں کے کنٹرول میں ہونا ہے۔ 1920ء میں امریکا کے مشہور صنعت کار ”ہنری فورڈ اوّل“ نے یہودیوں سے متعلق ”بین الاقوامی یہودیت“ کے نام سے کتاب لکھی۔ یہ کتاب درحقیقت ”پروٹوکولز“ کی تشریح ہی سمجھی جاتی ہے۔ اس کتاب میں یہودیوں کے بارے میں ایسے حقائق بیان کیے گئے ہیں جو عام طور سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے اب امریکا مکمل طورپر یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہاں پر یہودی اس قدر طاقت ور ہوچکے ہیں کہ سابق صدر ”نکسن“ نے جب یہودی اثر سے ہٹ کر اپنی آزاد خارجہ پالیسی چلانا چاہی تو انہیں ذلیل ورسوا کرکے نکلوادیا گیا۔ اس کام میں ان کے اپنے وزیر خارجہ ”ہنری کسنجر“… جو کٹر یہودی ہیں… نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ہنری فورڈ اول نے اپنی کتاب ”بین الاقوامی یہودیت“ میں جابجا پروٹوکولز کے حوالے دیے ہیں۔ چونکہ یہ قدیم خفیہ یہودی دستاویز ہے جس میں بلاشرکت غیرے پوری دنیا پر حکمرانی کا خوفناک منصوبہ تیار کیا گیا ہے، اس میں مسلم دنیا کے لیے چند اصول وضع کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک ”لڑاؤ اور حکومت کرو“ بھی ہے۔ جبکہ دوسرا اصول سازشیں کرنا ہے۔ اس کا ذکر مذکورہ کتاب کے باب 15 میں خود یہودیوں کا لکھا ہوا موجود ہے: ”ہماری تکنیک یہ ہوگی کہ پہلے مخالف کے خلاف کانا پھوسی کی مہم چلائی جائے گی۔ اس کے متعلق افواہیں پھیلائی جائیں گی۔“ اور پھر ”ہم اس کا بندوبست کرنے والے ہیں“، ”ہم نے ہنگامی منصوبہ تیار کرلیا ہے۔“ قسم کی باتیں شروع کردیں گے۔ چونکہ امریکا میں تمام بڑی خبر رساں ایجنسیاں اور ادارے یہودیوں کے قبضے میں ہیں، اس لیے یہودی اخبارات میں یہودی صحافی مطلوبہ باتیں اور منصوبے آگے منتقل کرنا شروع کردیتے ہیں۔
اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے امریکا کے کٹر یہودی صحافی ”سیمور ہرش“ کے انکشافات کو دیکھیے تو بات سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی۔ سیمور ہرش نے گزشتہ ہفتے امریکی جریدے ”نیویارکر“ میں "Defending the Arsenal" کے عنوان سے کالم لکھا۔ اس میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں۔ سیمور ہرش کی رپورٹ میں اعلیٰ امریکی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے پاکستان اور امریکا ایک ایسی باہمی مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے تحت کسی بحران کی صورت میں امریکا ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کے لیے پاکستان سے تعاون کرسکے گا۔ اس رپورٹ پر بحث جاری تھی کہ انہوں نے مزید انکشافات کرڈالے:
”پاکستان میں ایٹمی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے امریکا کا خصوصی اسکواڈ پاکستان پہنچ بھی چکا ہے۔ ٹیم میں انسداد دہشت گردی، ایٹمی عدم پھیلاؤ، سی آئی اے، ایف بی آئی کے ماہرین شامل ہیں۔ یہ امریکی سفارت خانے یا پھر اسلام آباد میں ہی اِدھر اُدھر کہیں بھی ہوسکتے ہیں۔“ اب اس کی گرد بھی نہیں چھٹی تھی کہ واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کردیا ہے: ”1982ء میں چین نے دو بموں کی تیاری کے لیے پاکستان کو اس سطح کا افزودہ یورینیم فراہم کیا تھا جو ہتھیاروں میں استعمال ہوسکتا ہے۔“ قارئین! یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ طاغوتی قوتیں پاکستان کے خلاف اس قسم کی شرانگیزیاں پھیلارہی ہیں۔ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی بدشگونیاں شروع ہوگئی تھیں۔ ہر کچھ عرصے بعد پاکستان کے بدخواہوں کی یہ مہم چلتی رہتی ہے۔ 1986ء میں امریکا میں ایک کتاب ”Twin Era Of Pakistan“ کے ذریعے اسی طرح کا تنازع کھڑا کیا گیا تھا۔ اس میں پاکستان کے حصے بخرے ہونے کی ہرزہ سرائی کی گئی تھی۔ چند سال قبل بھی امریکی تھنک ٹینک ”رالف پیٹرز“ کا ترتیب دیا ہوا نقشہ موضوعِ بحث بنا تھا۔ اس نقشے میں نہ صرف پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی بلکہ سعودی عرب اور عراق سمیت کئی اسلامی ممالک کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کرکے متعدد حصوں میں تقسیم دکھایا گیا تھا۔ رالف پیٹرز کا جو مضمون چھپا، اس کا عنوان تھا: ”Blood Borders“ جبکہ امریکی فوج کے جریدہ ”آرمڈ فورسز جرنل“ میں یہ نقشہ شامل کیا گیا تھا۔ گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ نے لکھا تھا: ”پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔“
اصل پریشانی یہود وہنود کو یہ ہے کہ اس خطے میں کس طرح پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کیا جائے اور ایران کو ایٹمی طاقت بننے ہی نہ دیا جائے۔ بصورتِ دیگر اسرائیل کا وجود ہمیشہ خطرے میں ہی رہے گا۔ امریکا میں اثرورسوخ رکھنے والا یہودی ٹولہ ذرائع ابلاغ کا سہارا لے کر پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے اور ایٹمی پروگرام کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتا چلا آرہا ہے۔ حالانکہ اس کی پریشانی بلاجواز ہے۔ نہ تو پاکستان ناکام ریاست ہے اور نہ ہی ہمارا ایٹمی پروگرام غیر محفوظ ہے۔ ان شاء اللہ پاکستان تاقیامت جگمگاتا رہے گا اور پاکستان کے 17 کروڑ محب وطن باہمی اتفاق واتحاد سے یہودیوں کی سازشوں کو ناکام بنادیں گے۔ یہودیوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے انجام کار کے اعتبار سے مسلمان ہی فاتح اور اسلام ہی غالب آکر رہے گا۔ سامراجی قوتیں جو چاہیں، کرلیں۔ یہودی جیسے چاہیں منصوبے بنالیں۔ یہودی داناؤں نے آج سے تین سو سال پہلے جو بھیانک منصوبہ بنایا تھا وہ کس حد تک کامیاب ہوا؟ امریکی پالیسی ساز اداروں کے مطابق اگر امریکا اپنی شکست وریخت سے بچنا چاہتا ہے تو پھر 2010ء تک چھ بڑے اسلامی ممالک پر شب خون مارکر فارغ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے امریکا نے نائن الیون کا ڈرامہ رچایا۔ ڈرامہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بہت پہلے یہ منصوبہ تیار ہوچکا تھا۔ بدنام زمانہ یہودی تنظیم ”فری میسن“ کی جو پُراسرار علامتیں ہیں ان میں سے ایک ایسی بھی ہے جس میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو جلتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے نائن الیون کا واقعہ… جس کو بہانہ بناکر افغانستان پر شب خون مارا گیا… دراصل یہودیوں ہی کا ”کارنامہ“ ہے۔ یہ حملے خودساختہ تھے تاکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے بھیانک مقاصد کی تکمیل کی جائے۔ چنانچہ پہلا ٹارگٹ افغانستان، دوسرا عراق، تیسرا ایران، چوتھا پاکستان اور آخری سعودی عرب کا تھا، لیکن تاحال ایران کو بائی پاس کرکے ان کا سارا زور پاکستان کے خلاف ہے۔ شاید حق وباطل کا آخری اور فیصلہ کن معرکہ ریاست مدینہ کے بعد قائم ہونے والی ریاست پاکستان کی سرزمین پر ہی لڑا جائے گا۔ اس لیے امریکا ویورپ بار بار اعلان کررہے ہیں کہ ہم نے ہنگامی منصوبہ تیار کرلیا ہے۔
ڈیوڈ بن گوریان (متوفی 1973 ء)یہودی ریاست اسرائیل کا بانی کہلاتا ہے۔پہلا اسرائیلی وزیراعظم رہا۔اس کا قول ہے:’’زیادہ سے زیادہ رقبہ اور کم سے کم عرب۔‘‘معنی یہ کہ اسرائیلی حکومت کو فلسطین کے زیادہ سے زیادہ رقبے پر قبضہ کر لینا چاہیے اور وہاں کم سے کم عرب فلسطینی مسلمان آباد ہوں۔پچھلے چوہترسال سے اسرائیلی حکمران طبقہ اسی پالیسی پہ عمل پیرا ہے۔
اس دوران اسرائیلی حکومت ایسے کئی سخت قوانین بنا چکی جن کے باعث اب اسرائیل میں مقیم کوئی فلسطینی مسلمان گھر نہیں بنا سکتا اور نہ ہی کوئی زمین خرید پاتا ہے۔جبکہ دنیا بھر میں مقیم یہود کو اسرائیل میں زمین یا گھر خریدنے کی خاطر ہر ممکن سہولت دی جاتی ہے۔
اسرائیل میں مسلمانوں کے ساتھ یہودی حکمران طبقے کا سلوک نہایت ظالمانہ اور شرمناک ہے۔خصوصاً یہ سچائی مدنظر رکھتے ہوئے کہ مسلمان ہی تھے جنھوں نے پچھلی کئی صدیوں سے رومیوں اور عیسائیوں کے ظلم وستم کا شکار یہودی قوم کو خلافت اسلامیہ میں نہ صرف پناہ دی بلکہ انھیں ترقی کرنے،پھلنے پھولنے اور خوشحال ہونے کے مواقع بھی فراہم کیے۔دور جدید کے یہود مگر مسلمانوں کے تمام احسانات بھول کر فلسطینیوں پہ ایسے خوفناک مظالم ڈھا رہے ہیں جنھیں دیکھ کر انسان خون کے آنسو روتا ہے۔
آج کے احسان فراموش یہود مگر انہی ایرانیوں کے درپے ہیں اور ایران کو تباہ کرنے کے خواہشمند۔ 63 ق م میں رومی فوج نے فلسطین پہ قبضہ کر لیا۔رومی بھی ہزارہا یہود کو غلام بنا کر روم لے گئے جہاں ان سے پست ورزیل کام کرائے گئے۔یوں رومیوں اور یہود کے مابین طویل تصادم شروع ہوا۔یہود نے کئی بار بغاوتیں کیں جو رومی فوج نے کچل دیں۔ 70ء میں آخر رومیوں نے یہود کا مرکز،دوسرا ہیکل برباد کر ڈالا۔اسی سال یہود پہ ٹیکس لگ گیا۔اب وہ ٹیکس دے کر ہی مذہبی رسومات ادا کر پاتے۔135ء میں رومی حکومت نے یہود کو یروشلم سے نکال دیا۔اب وہ سال میں صرف ایک دن اپنا مذہبی یوم منانے آ سکتے تھے۔
یہود بار بار بغاوتیں کرنے کے باعث مسئلہ بن چکے تھے۔رومی حکمرانوں نے انھیں گروہوں کی صورت زبردستی مختلف علاقوں میں بھجوا دیا۔اس طرح یہود تتّربتّر ہو گئے ۔ان پہ یہ عذاب اسی لیے آیا کہ انھوں نے اللہ کے نبی،حضرت عیسیؑ کو اذیتیں دیں اور اپنی دانست میں انھیں شہید کر ڈالا۔انجیل یوحنا(8-37 to 45)میں حضرت عیسیؑ یہودی ربیّوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ تم لوگ شیطان کی اولاد ہو،اسی لیے مجھے قتل کرنا چاہتے ہو۔ان کی پیشن گوئی درست ثابت ہوئی۔اسی لیے جب رومی بادشاہ،قسطنطین اعظم نے 312ء میں عیسائیت کو اپنی سلطنت کا سرکاری مذہب بنایا تو عیسائی یہود کے درپے ہو گئے۔وہ یہود کو یسوع مسیحؑ کا قاتل سمجھتے تھے۔
یہی وجہ ہے،قسطنطین اعظم کی والدہ،ملکہ ہیلینا کے حکم پہ ہیکل کے مقام پر شہر کا کوڑا پھینکا جانے لگا۔گویا یہود کے مقدس ترین مقام کو عیسائیوں نے کوڑا گھر بنا لیا۔انتہائی تعجب خیز بات یہ ہے کہ آج امریکا اور یورپ میں لاکھوں عیسائی یہود کو اپنا بھائی بند بنا چکے ہیں۔یہ انقلاب کیونکر آیا،اس کے پس پشت ایک طویل مذہبی داستان پوشیدہ ہے۔مختصر یہ کہ یہود نے بڑی عیاری وچالاکی سے بائیبل کی تفسیر میں ردوبدل کر کے عیسائی عوام کو گمراہ کیا اور یوں اپنا دوست بنا لیا۔
فلسطین میں یہود کی اکثریت رہائش پذیر رہی مگر انھیں یروشلم میں رہنے کی اجازت نہ تھی۔مذید براں عیسائی حکومتوں نے انھیں نئے کنیسہ بنانے سے روک دیا۔وہ کوئی سرکاری عہدہ بھی نہیں رکھ سکتے تھے۔معمولی واقعات پر یہود کو مارا پیٹا جاتا۔غرض عیسائی حکمرانوں نے یہود کے ساتھ جانوروں جیسا ذلت آمیز سلوک روا رکھا۔ عرب میں آباد یہودی مگر پُرامن اور خوشحال زندگی بسر کرتے رہے۔ان کے عربوں سے اچھے تعلقات تھے۔
اسی دوران عرب میں اسلام کا سورج طلوع ہوا۔ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ مدینہ تشریف لائے تو مسلمانوں اور یہود کا ربط ضبط بڑھ گیا۔یہود میں اچھے برے،دونوں قسم کے لوگ موجود تھے۔اسی لیے تعلقات بھی اونچ نیچ کا شکار رہے۔عیار ومکار یہود کو حضور اکرمﷺ نے سزائیں دیں۔جبکہ غریب امن پسند یہود کو اسلامی حکومت سے وظائف ملتے رہے۔گویا نبی کریمﷺ اور مسلمانوں نے عیسائیوں کی طرح تمام یہود کو حضرت عیسیؑ کا قاتل گردان کر ان سے تحقیر آمیز سلوک نہیں کیا بلکہ ہر یہودی سے انفرادی طور پہ پیش آئے۔یہی وجہ ہے،کئی یہود مسلمانوں کے حُسن سلوک سے متاثر ہو کر اسلام لے آئے۔
حیران کن بات یہ کہ لاکھوں عیسائی بھی یہود کے جھوٹ پر یقین رکھتے ہیں کہ دیوار ہیکل کی نشانی ہے۔ وجہ یہ کہ حضرت عیسیؑ نے واضح طور پر پیشگوئی فرمائی تھی کہ دوسرا ہیکل ’’مکمل‘‘طور پر تباہ ہو جائے گا۔ حتی کہ ایک پتھر پر دوسرا پتھر بھی باقی نہیں رہے گا۔ (انجیل مرقس۔ 13-1 to 2)۔ جو عیسائی مغربی دیوار کو ہیکل کی یادگار کہتے ہیں،گویا وہ اپنے ہی رسولؑ کی بات جھٹلا دیتے ہیں۔یہ بڑا انوکھا امر ہے۔
یوں امت مسلمہ کا تیسرا مقدس مقام، حرم الشریف وجود میں آیا۔حضرت عمر فاروقؓ نے ایک اور انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے ساٹھ ستر یہودی گھرانوں کو یروشلم کے قرب وجوار میں رہنے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔نیز یہ بھی اعلان فرمایا کہ یہود جب چاہیں،یروشلم میں آ جا سکتے ہیں۔یہود کو فلسطین میں کنیسہ اور گھر بنانے کی اجازت بھی مل گئی۔اس طرح عیسائیوں نے یہود کی نقل وحرکت پر جو کڑی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں،اسلامی حکومت نے ان کا خاتمہ کر دیا۔اس نے یہود سے عمدہ سلوک کیا۔جبکہ آنے والی صدیوں میں تو خلافت اسلامیہ یہود کے لیے مسیحا اور نجات دہندہ ثابت ہوئی۔یہ سچائی مسلم نہیں غیر مسلم محقق ہی بیان کرتے ہیں۔
محقق درج بالا کتا ب میں لکھتے ہیں کہ دو ہزار سال قبل فلسطین میں آباد یہود کی زندگیاں دو اعمال پر استوار تھیں۔اول یروشلم میں واقع ٹیمپل مائونٹ پر بنے ہیکل میں قربانی دینا۔دوسرے توریت کی تعلیم پانا۔مگر اس وقت یہ دونوں اعمال یہودی عوام کی طرف سے ربیّوں(مذہبی رہنمائوں) کا چھوٹا ساایلیٹ طبقہ انجام دیتا تھا۔معنی یہ کہ کسی عام یہودی کو ہیکل میں قربانی دینے یا توریت پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ان دونوں اعمال پر ربیّوں کا ایلیٹ طبقہ قابض تھا۔
(اسی طبقے کی آمریتاور کرپشن کے خلاف ایک یہودی نوجوان،یسوع بن یوسف المعروف بہ حضرت عیسی ؑ نے جہاد کیا)70ء میں رومی فوج نے دوسرا ہیکل تباہ کر دیا۔یروشلم سے سبھی یہودی نکال دئیے گئے جو گروہوں کی صورت مختلف مقامات پر جا بسے۔اب یہودی ربیّوں کو احساس ہوا کہ اگر انھوں نے عام یہودی تک توریت اور دیگر مذہبی کتب کی رسائی نہ دی تو وہ رفتہ رفتہ اپنے مذہب سے کٹ جائے گا۔مذہب سے تعلق برقرار رکھنے کی خاطر انھوں نے ہر یہودی پہ یہ لازم کر دیا کہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا،غریب ہو یا امیر، توریت کی تعلیم لازماً حاصل کرے گا۔
اس وقت ایشیا،افریقا اور یورپ کے مختلف علاقوں میں بسے سبھی یہود زراعت پیشہ تھے۔ان کی اکثریت کا خیال تھا کہ بچوں کو تعلیم دلوانے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ انھوں نے آخرکار کاشت کار ہی بننا ہے۔یہی وجہ ہے،بہت سے یہود نے اپنے بچوں کو کنسیہ نہیں بھجوایا۔یہ بچے جب بڑے ہوتے تو اپنی مذہبی تعلیمات سے نابلد ہوتے۔اسی لیے معاشی فوائد پانے کی خاطر وہ عیسائی بن جاتے کہ تب تک عیسائیت رومی سلطنت کا سرکاری مذہب بن چکا تھا۔محققین لکھتے ہیں کہ 65ء میں دنیا میں پچاس سے پچپن لاکھ کے مابین یہودی موجود تھے۔650ء تک مگر ان کی تعداد صرف بارہ تیرہ لاکھ رہ گئی۔یہود کی آبادی کم ہونے جانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت نے کسی نہ کسی وجہ سے عیسائیت یا دیگر مذاہب اختیار کر لیے۔اس کے بعد بچے کھچے یہود کی زندگیوں میں ایک اور بڑا انقلاب برپا ہوا…اور اس کا سبب دین اسلام کی آمد تھی۔
850ء تک مسلمانوں کی سعی سے ایسی زبردست خلافت اسلامیہ وجود میں آ گئی جو ایک طرف چین وہندوستان ،دوسری سمت روس اور تیسری طرف مراکش و اسپین تک پھیلی ہوئی تھی۔اس سلطنت میں زراعت،صنت وتجارت اور کاروبار نے بھرپور ترقی کی۔نئے کارخانے لگے اور نت نئے پیشے ظہور میں آئے۔نئے شہروں اور قصبوں کی بنیاد بھی رکھی گئی۔قابل ذکر بات یہ کہ ان ڈرامائی تبدیلیوں کی وجہ سے خلافت میں ایسے افراد کی مانگ بڑھ گئی جو تعلیم یافتہ،مختلف علوم وفنون میں طاق اور ہنرمند ہوں۔
اس زمانے میں بارہ تیرہ لاکھ میں سے ’’75‘‘یہود ایشیائی،افریقی اور قرب وجوار کے ممالک میں مقیم تھے۔ان سبھی یہود نے اسلامی خلافت کے کسی نہ کسی نجی و سرکاری شعبے میں ملازمت کر لی۔انھیں ملازمت اس لیے ملی کہ وہ تعلیم یافتہ اور ہنرمند تھے۔جبکہ یہود اس لیے ملازمتوں کی جانب مائل ہوئے کیونکہ انھیں کھیتی باڑی سے زیادہ ملازمت میں آمدن ہو رہی تھی۔لہذا چند عشروں میں لاکھوں یہود نے زراعت کو خیرباد کہا اور اسلامی سلطنت میں صنعت وتجارت،کاروبار،درس وتدریس اور سرکاری شعبوں سے وابستہ ہو گئے۔
مارسٹیلا بوتسینی اور تسفی ایکسٹین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :’’دور جدید کے مغربی ماہرین کی اکثریت سمجھتی ہے کہ یہود جب دنیا بھر میں بکھرنے کے بعد مختلف علاقوں میں قیام پذیر ہوئے تو وہاں لگی معاشی پابندیوں کے باعث کھیتی باڑی چھوڑ کر دکاندار، تاجر، ہنرمند، ساہوکار، طبیب، بینکار، سائنس داں، دانشور وغیرہ بن گئے۔ مگر تاریخ کے مطالعے سے یہ نظریہ باطل قرار پاتا ہے۔زراعت چھوڑنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہیکل کی تباہی کے بعد ہر یہودی مذہبی ودنیاوی تعلیم پانے لگا۔اور جب اسلامی سلطنت وجود میں آئی تو اسی تعلیم ہی نے یہود کی قدر وقیمت بڑھا دی۔چناں چہ نئی سلطنت کے صنعتی،تجارتی اور کاروباری شعبوں میں یہود کی مانگ بڑھ گئی۔تب وہ کاشت کاری چھوڑ کر ان شعبوں میں چلے آئے کیونکہ وہاں انھیں زیادہ آمدن ہو رہی تھی۔‘‘
جب اندلس میں اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوا تو عیسائی حکمرانوں نے تمام یہود کو اسپین سے نکال دیا اور ان پہ ظلم و ستم کیے۔امیرکبیر یہود افریقی وایشائی ممالک ہجرت کر گئے۔آہستہ آہستہ انھوں نے یورپی ملکوں خصوصاً اٹلی،جرمنی،فرانس،ہالینڈ اور برطانیہ کا رخ کر لیا۔انھیں خوش آمدید نہیں کہا گیا مگر امیر یہود بتدریج یورپی معاشروں میں قبول کر لیے گئے۔ان کی اہمیت تب بڑھی جب وہ مغربی بادشاہوں کو جنگیں شروع کرنے اور جاری رکھنے کی خاطر سرمایہ فراہم کرنے لگے۔ایسٹ انڈیا کمپنی اور ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی جیسی استعماری کمپنیاں کھولنے کے لیے بھی انھوں نے وافر سرمایہ فراہم کیا۔اس طرح یک دم یہودی بنیوں کی اہمیت بڑھ گئی۔آگے چل کر وہ بینکار بن گئے اور انھوں نے بینک و مالیاتی ادارے قائم کیے۔
گویا پس پشت یہود نے مغربی حکومتوں کے معاشی و سیاسی نظام میں بڑی اہمیت حاصل کر لی۔اسی اثرورسوخ سے فائدہ اٹھا کر یہود نے انیسویں صدی کے اواخر میں فیصلہ کیا کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کر دی جائے۔اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امیریہود فلسطین میں زمینیں خریدنے لگے۔ان زمینوں پر یہودی بستیاں بسا دی جاتیں۔1918ء میں برطانیہ نے فلسطین پہ قبضہ کر لیا۔
برطانوی حکومت میں یہود کا بڑا اثرورسوخ تھا۔چناں چہ ان کی ایما پر یورپ سے دھڑا دھڑ یہودی فلسطین لائے گئے۔تمام تر سعی کے باوجود 1947ء میں یہود فلسطین میں صرف’’ 7‘‘فیصد زمین کے مالک بن سکے تھے۔ نیز کل آبادی میں یہود کا حصہ صرف ’’ 33 ‘‘فیصد تھا۔اس کے باوجود امریکا وبرطانیہ کے دبائو پر اقوام متحدہ نے جب فلسطین کو تقسیم کیا تو اس کا ’’56‘‘فیصد رقبہ یہود کو دے ڈالا۔یہ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ہوئی بہت بڑی ناانصافی تھی جو طاقت کے بل پر کی گئی۔یوں مسلمانوں نے جن یہود کو پناہ دی تھی،دودھ پلایا تھا، انھوں نے سانپ بن کر اپنے محسنوں کو ہی ڈس لیا۔
اسرائیل کا ایک قانون خصوصاً حقوق انسانی اور عالمی قوانین کو پیروں تلے کچلنے کے مترادف اور ظالمانہ ہے۔ قانون یہ ہے کہ کوئی بھی یہودی یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے کہ وہ ماضی میں کسی بھی وقت فلسطین کے کسی بھی حصّے میں بطور مالک یا کرایہ دار مقیم تھا،تو وہ وہاں کی زمین کی ملکیت کا دعوی اسرائیلی عدالت میں کر سکتا ہے۔اس قانون نے کئی یہود کو چور ڈاکو بنا دیا۔زمین کے لالچ نے ان کی ساری اخلاقایات مردہ کر دی۔وہ مختلف طریقے اپنا کر بے بس و مقہور فلسطینیوں سے زمینیں ہتیھانے لگے۔
یہود کا پسندیدہ طریق واردات یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے کسی فلسطینی گھرانے کو تاک لیتے ہیں۔پھر اسرائیلی وکلا کی مدد سے اس گھرانے کی زمین کے جعلی کاغذات تیار کیے جاتے ہیں۔اس کام کی تکمیل پر یہود اسرائیلی عدالت میں یہ مقدمہ دائر کر دیتے ہیں کہ فلاں زمین ان کی ملکیت ہے جس پر عربوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ عدالت جعلی دستاویزات کی بنیاد پر یہود کے حق میں فیصلہ دیتی ہے۔گویا اس معاملے میں ظالم اور منصف، دونوں ہی یہود ہیں۔اس طریق واردات سے یہودی خصوصاً مشرقی یروشلم اور دیگر اسرائیلی شہروں میں مجبور فلسطینیوں سے ہزارہا ایکڑ زمین چھین چکے ۔اور مظلوموں کی دہائی سننے اور انھیں انصاف دینے والا کوئی نہیں!
اسرائیل میں واقع فلسطینی بستیوں میں ضروریات زندگی کا فقدان ہے۔صاف پانی کی شدید کمی رہتی ہے۔اسپتال اور اسکول کم ہیں۔گندے پانی کے نکاس کا کوئی انتظام نہیں۔بیروزگاروں کو ملازمتیں دینے کی خاطر کوئی منصوبہ نہیں بنایا جاتا۔سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں۔سب سے بڑھ کر ان بستیوں میں آبادی بہت زیادہ بڑھ چکی۔ایک ایک گھر میں کئی خاندان مقیم ہیں۔اس سے بستیوں میں مختلف معاشرتی ومعاشی مسائل جنم لے چکے۔جرائم کی شرح بھی بڑھ چکی۔ درحقیقت ان بستیوں میں فلسطینی بڑی تکلیف دہ زندگی گذار رہے ہیں۔
دوسری طرف یہود کی سبھی بستیاں،قصبے اور شہر ضروریات زندگی سے لیس ہیں۔ وہاں پانی کی فراوانی ہے۔نکاسی آب کا بہترین بندوبست ملتا ہے۔سڑکیں کشادہ اور صاف ستھری ہیں۔جا بجا اسپتال اور اسکول دکھائی دیتے ہیں۔جرائم کی شرح بہت کم ہے۔پولیس مستعد اور سرگرم ہے۔غرض ان علاقوں میں یہود بڑی آرام دہ اور خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کا بھی یہی چلن ہے۔اسرائیل و بھارت نے مل کر عالمی قوانین کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔وہ فلسطینی و کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہیں۔مگر معاشی مفادات کے سبب حقوق انسانی کی چیمپین مغربی دنیا ہی نہیں بہت سے اسلامی ملک بھی دونوں ملکوں کے جرائم سے نگاہیں پھیر لیتے ہیں۔یہ طرزعمل انسانیت کے خلاف سنگین جرم اور مجرموںکے جرائم میں شرکت کے مترادف ہے۔
یہودی ریاست اور اس کی تباہ کاریاں
(مصنف : عبد المعید مدنی)
14 مئی 1948ء وہ المناک دن تھا، جس نے مشرقِ وُسطیٰ کو ہلا کر رکھ دیا۔ اُس روز شہر تل ابیب کے ایک عجائب گھر میں ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ محض چند ایک غیر واضح بلیک اینڈ وائٹ تصاویر، ہلتے ہوئے کیمرے سے بنی ایک مختصر سی فلم اور انتہائی خراب کوالٹی کا صوتی ریکارڈ ہی اِس واقعے کے گواہ ہیں۔ ان تصاویر میں یہودیوں کی خود مختار فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان کو بھی دیکھا جا سکتا ہے، جن کے پیچھے دیوار پر صیہونیت کے بانی تھیوڈور ہیرسل کی تصویر آویزاں ہے۔ بن گوریان کے بائیں ہاتھ میں وہ دستاویز ہے، جس پر اعلانِ آزادی کی عبارت درج ہے۔ بن گوریان نے کہا تھا: ’’اسرائیل ہی میں یہودی قوم نے جنم لیا تھا اور یہیں اُس کے فکری، مذہبی اور سیاسی وجود کی آبیاری ہوئی۔‘‘ اور یہ کہ طاقت کے زور پر در بدر کی جانے والی یہودی قوم جلا وطنی کے دور میں بھی اپنے آبائی وطن کے ساتھ وفاداری کا دم بھرتی رہی۔ مزید یہ کہ اُس کی اپنے وطن واپسی کی امید ہمیشہ زندہ رہی۔ پھر بن گوریان نے بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ اعلان کیا:’’ہم یہاں اسرائیلی سرزمین پر یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ ہے ریاست اسرائیل۔‘‘زیر تبصرہ کتاب" یہودی ریاست اور اس کی تباہ کاریاں " شیخ عبد المعید مدنی صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے اسی ناجائز ریاست اور تباہ کاریوں کا تذکرہ کیا ہے۔
https://kitabosunnat.com/kutub-library/yahudi-riyasat-aur-us-ki-tabaah-kaariyaan
عالمی معیشت پر یہودی اجارہ داری
پچھلے دنوں اس موضوع پر محمد ندیم اعوان کا ایک تحقیقی مقالہ پڑھنے کا اتفاق ہوا، جس کے مطابق آج عالمی سطح پر جو معاشی بحران پایا جاتا ہے وہ گریٹر اسرائیل کے عالمی صیہونی منصوبے کی خفیہ دستاویز پر مشتمل ’’یہودی پروٹوکولز‘‘ کا مرہون منت ہے۔
بحران پیدا کرنے کے لیے تمام ممالک سے سونا چاندی ہتھیا کر بدلے میں کاغذ کے استعمال پر مجبورکیا گیا،کیونکہ جب تک لین دین، معاملات و تجارت سکوں پر سونا چاندی کے وزن کے لحاظ سے ہوا کرتے تھے، اس وقت تک عالمی معیشت کوکنٹرول کرنا ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ گولڈ اسٹینڈرڈ،گولڈ ایکسچینج اسٹینڈرڈ، سلور سرٹیفیکیٹ اور بریٹن ووڈز جیسے معاہدوں کے ذریعے کاغذی کرنسی (خصوصاً ڈالر جس کے پیچھے نجی یہودی بینکاروں کی سوچ کار فرما ہے) کو فروغ دیا گیا، جس کے بارے میں امریکا کے تیسرے صدر جیفرسن نے 1788ء میں کہا تھا:
‘‘Paper is poverty, it is only the ghost of money, and not money itself.’’
یعنی کاغذی کرنسی رقم نہیں، محض رقم کا بھوت ہے اور غربت ہے ۔کرنسی محض ایک خیال کا نام ہے ، جس پر سب کو اعتبار ہوتا ہے اور لوگوں کا یہی اعتبار پلاسٹک، دھات یا کریڈٹ کارڈ کوکرنسی کا درجہ دیتا ہے ۔ 1450ء سے 1530ء تک عالمی تجارت پر پرتگال کا سکہ چھایا رہا۔ 1530ء سے 1640ء تک عالمی تجارت پر ہسپانیہ کا سکہ حاوی رہا۔ 1640ء سے 1720ء تک عالمی تجارت ولندیزی سکے کے زیر اثر رہی۔ 1720ء سے 1815ء تک فرانس کے سکے کی حکومت رہی۔
1815ء میں فرانس کے بادشاہ نپولین کی شکست کے بعد 1920ء تک برطانوی پاؤنڈ حکمرانی کرتا رہا اور تب سے لے کر آج تک امریکی ڈالر راج کر رہا ہے، لیکن اب اس کی مقبولیت تیزی سے گرتی جا رہی ہے، جو محض امریکی حکومت پراعتماد اور اس کی فوجی دھونس کی وجہ سے قائم ہے۔اس دوران جس نے بھی عالمی سطح پر ڈالرکی حیثیت کوکم کرنے کی کوشش کی یا سونے، تیل اور تجارت کی خرید وفرخت کے لیے ڈالرکے مقابلے میں کسی دوسری کرنسی کو رواج دینے کا سوچا بھی تو اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ پرائے تو رہے ایک طرف ،اپنوں کو بھی نہیں بخشا گیا ۔امریکا کے ساتویں صدر اینڈریو جیکسن نے فروری 1834ء میں ایک تقریرکے دوران بینک ریاست ہائے متحدہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔
’’ میں بڑے غور سے مشاہدہ کررہا ہوں کہ بینک ریاست ہائے متحدہ کیا کررہا ہے۔ میرے آدمی کافی عرصے سے تم پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اب میں قائل ہوچکا ہوں کہ تم لوگوں نے بینک میں جمع شدہ رقم سے اشیائے خور و نوش پر سٹہ کھیلنا شروع کردیا ہے۔ جب تم جیتتے ہوتو رقم آپس میں بانٹ لیتے ہو اور جب تمہیں نقصان ہوتا ہے تو اسے بینک کے کھاتے میں ڈال دیتے ہو۔ تم مجھے بتاتے ہوکہ اگر میں تمہارے بینک کا سرکاری اجازت نامہ منسوخ کردوں تو دس ہزارگھرانے بر باد ہوجائیں گے ۔ معززین ! ہو سکتا ہے یہ درست ہو، لیکن یہ تمہارا گناہ ہے، اگر میں نے تمہیں اسی طرح کام کرنے دیا تو تم لوگ پچاس ہزار خاندان تباہ کردوگے اور یہ میرا گناہ ہوگا۔ تم لوگ زہریلے سانپوں اور چوروں کا گروہ ہو اور میں تمہیں ہر حال میں ختم کرکے رہوں گا ۔‘‘
اگرچہ کانگریس نے بینک ریاست ہائے متحدہ کی دوبارہ بحالی کا بل منظورکر لیا تھا مگر بعد میں اینڈریو جیکسن نے اسے ویٹوکردیا تھا۔ 30 جنوری 1835ء کو اینڈریو جیکسن پر قاتلانہ حملہ ہوا لیکن اس پر چلائی گئی دونوں گولیاں اسے نہیں لگیں۔
امریکا کے سولہویں صدر ابراہم لنکن نے 21 نومبر 1864ء کو اپنے ایک خط میں عالمی بحران کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا تھا ’’ میں دیکھ رہا ہوں کہ عنقریب ایک بڑا بحران آنے والا ہے جو مجھے پریشان کر دیتا ہے اور میں اپنے ملک کی حفاظت کے خیال سے لرزنے لگتا ہوں۔ کارپوریشنوں کو بادشاہت مل گئی ہے اور اعلیٰ سطح پرکرپشن آنے والی ہے۔ دولت کی طاقت لوگوں کی سوچ پر حاوی ہوکر اپنا راج جاری رکھنے کی پوری کوشش کرے گی یہاں تک کہ ساری دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جائے اور جمہوریت تباہ ہو جائے گی۔‘‘ چند ہی مہینوں بعد 1865ء میں ابراہم لنکن کوگولی مار کرموت کی نیند سلا دیا گیا۔
امریکا کے بیسویں صدر جیمزگارفیلڈ نے عالمی سطح پرعوام کا خون چوسنے والے مالیاتی اداروں کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے کہا تھا۔ ’’جوکوئی بھی کسی ملک میں کرنسی کوکنٹرول کرتا ہے وہ دراصل ساری معیشت اور ساری صنعت کا مالک ہوتا ہے ۔‘‘ اس صدر کو صدارت کے ساتویں مہینے میں 2 جولائی 1881ء کوگولی مار دی گئی تھی۔ یکم جنوری 1974ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے بینکوں کو حکومتی تحویل میں لے لیا، جنھیں عالمی بینکارکنٹرول کرتے تھے۔ عالمی بینکاروں نے ہنری کسنجرکے کندھے پر بندوق رکھ کر انڈیا کے تفصیلی دورے سے واپسی پر کچھ دیرکے لیے پاکستان بھیج دیا اور وہ ہمیں للکارکر چلے گئے۔ تاریخ میں ان کے کہے ہوئے الفاظ آج بھی محفوظ ہیں:
‘‘Then we will make a horrible example of you!’’
یعنی پھر ہم تمہیں ایک دہشتناک مثال بنا دیں گے۔ عالمی یہودی بینکاروں کو للکارنے کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ 1997ء میں ایک سازش کے تحت ملائیشیا کی کرنسی رنگٹ کی قدر اچانک گرکر تقریباً آدھی رہ گئی۔ اس پر ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ تمام اسلامی ممالک کو آپس میں لین دین اور تجارت کے لیے امریکی ڈالر پر انحصارکی بجائے اپنی ایک کرنسی بنانی چاہیے یا سونے کے دینار پر لین دین کو فروغ دینا چاہیے تاکہ عالمی معیشت پر امریکا کے پشت پناہ یہودیوں کی اجارہ داری کو ختم کیا جا سکے، اور انھوں نے 2003ء کے وسط تک مجوزہ سونے کا دینار جاری کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔
ظاہر ہے سونے کے دینار میں لین دین سے شرح تبادلہ کی ضرورت ختم ہو جائے گی جس پر مغربی ممالک کی معیشت کا انحصار ہے۔ اس لیے مہاتیر محمد کو 2003ء میں ہی اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا اور عبداللہ احمد بداوی کو وزیر اعظم بنا دیا گیا، جس نے ملکی سطح پر سونے کا دینار جاری ہونے سے روک دیا۔ لیکن ملائیشیا کی ایک اسٹیٹ کیلانتن نے پھر بھی 20 ستمبر 2006ء کو سونے کے دینار جاری کیے جن کا وزن 25ء 4 گرام ہے اور یہ 22 قیراط سونے سے بنے ہوئے ہیں۔
صدام حسین نے بھی ایسی ہی جسارت کی تھی۔ 2000ء میں انھوں نے یہ کوشش کی تھی کہ عراق کو تیل کا معاوضہ امریکی ڈالرکی بجائے کسی اورکرنسی میں دیا جائے۔ صدام کا یہ مطالبہ امریکی ڈالرکی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر براہ راست ایک مضبوط وار تھا۔ صدام کا یہ ناقابل معافی جرم آخرکار انھیں لے ڈوبا۔ لیبیا کے معمر قذافی بھی صدام حسین کی راہ پر چل پڑے اور سال 2009ء میں افریقہ سے لین دین اور تجارت کے لیے سونے کا دینار نافذ کرنے کا ارادہ کیا اس لیے انھیں بھی نشان عبرت بنا دیا گیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دنیا کے تقریباً ہر چھوٹے ملک میں وہاں کی کاغذی کرنسی حکومت جاری کرتی ہے تاکہ حکومتی آمدنی میں اضافہ ہو، لیکن اس وقت دنیا کی سب سے بڑی کاغذی کرنسی ڈالر امریکی حکومت جاری نہیں کرتی بلکہ ایک نجی ادارہ فیڈرل ریزرو (سینٹرل بینک) جو دسمبر 1913ء میں وجود میں آیا تھا، جاری کرتا ہے ۔
عام طور پر فیڈرل ریزروکو حکومتی ادارہ سمجھا جاتا ہے جب کہ حقیقتاً یہ ایک نجی ادارہ ہے، جو چند یہودی کرتا دھرتاؤں کی محنتوں کا نتیجہ ہے، جو ڈالر چھاپ چھاپ کر امریکی حکومت کو نہ صرف قرض دیتا ہے بلکہ سود سمیت وصول بھی کرتا ہے۔ اپنی بے تحاشا دولت کے باعث یہودیوں کا یہ ادارہ امریکی حکومت کوکنٹرول کرتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 1865ء میں مقبول امریکی صدر ابراہم لنکن کے قتل کے ٹھیک سو سال بعد 35 ویں صدر جان ایف کینیڈی کو ان کی اس جسارت پر قتل کروا دیا گیا کہ انھوں نے 4 جون 1963ء کو ایک فرمان کے ذریعے خود امریکی حکومت کی طرف سے اپنے پاس موجود چاندی کے عوض ڈالر چھاپنے کا اعلان کیا تھا۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور اسکی حیثیت
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بارے میں یہ بات بالکل بجا ہے کہ قرآن کریم کی جس آیت کریمہ میں یہود ونصاریٰ کے ساتھ ’’ولایت‘‘ کے درجہ کی دوستی سے منع کیا گیا ہے، وہ یہود ونصاریٰ کے ساتھ معمول کے تعلقات میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی ممالک کے ساتھ تعلقات اور معاملات میں ملت اسلامیہ نے کبھی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا اور خلافت راشدہ سے لے کر اب تک مسیحی ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اور معاملات مسلسل چلے آ رہے ہیں۔ البتہ یہودیوں کی دو ہزار سال بعد تشکیل پانے والی ریاست ’’اسرائیل‘‘ کے ساتھ تعلقات کا مسئلہ قدرے مختلف نوعیت کا ہے اور اس کی وجہ یہ آیت کریمہ نہیں، بلکہ اگر اس آیت کریمہ کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی ممانعت میں پیش کیا جائے تو میرے خیال میں یہ خلط مبحث ہوگا اور مسئلہ کو زیادہ الجھا دینے کی صورت ہوگی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات سے اختلاف کی وجوہ مختلف ہیں۔
- مثلاً سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری وہاں کی صدیوں سے چلی آنے والی آبادی یعنی فلسطینیوں کی رضامندی کے ساتھ نہیں ہوئی، بلکہ پہلے برطانیہ نے اس خطہ پر ۱۹۱۷ء میں باقاعدہ قبضہ کر کے فوجی طاقت کے بل پر یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا ہے، اور اب امریکہ اور اس کے اتحادی پوری فوجی قوت استعمال کر کے فلسطینیوں کو یہودیوں کی اس جبری آباد کاری کو تسلیم کرنے پر مجبور کر رہے ہیں جس پر فلسطینی راضی نہیں ہیں کیونکہ یہ دھونس اور جبر کا راستہ ہے جسے دنیا کی کوئی مہذب اور متمدن قوم قبول نہیں کر سکتی۔ میرا خیال ہے کہ جس طرح ہم کشمیر کے بارے میں اصولی موقف رکھتے ہیں کہ بھارتی فوج وہاں سے چلی جائے اور کشمیریوں کو کسی دباؤ کے بغیر اقوام متحدہ کے نظم کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے، اسی طرح فلسطین بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے بارے میں ہمارا اصولی موقف یہ ہونا چاہیے کہ امریکہ اپنی فوجیں اس خطہ سے نکالے اور نہ صرف فلسطین بلکہ خلیج کے دیگر ممالک کو بھی فوجی دباؤ سے آزاد کر کے وہاں کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا آزادانہ موقع فراہم کرے۔ انصاف اور مسلمہ اصولوں کا تقاضا تو بہرحال یہی ہے اور اگر بالادست قوتیں طاقت کے نشے میں اس اصول پر نہیں آتیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے موقف سے دستبردار ہو جائیں اور بے اصولی اور دھونس کو اصول و قانون کے طور پر تسلیم کر لیں۔
- پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ایک عملی رکاوٹ یہ بھی ہے جسے دور کیے بغیر اسے تسلیم کرنا قطعی طور پر نا انصافی کی بات ہوگی۔ وہ یہ کہ اسرائیل کی سرحدی حدود اربعہ کیا ہیں؟ یہ بات ابھی تک طے نہیں ہو سکی۔ بہت سے عرب ممالک اور فلسطینی عوام کی اکثریت سرے سے فلسطین کی تقسیم کو قبول نہیں کررہی۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جو سرحدات اپنی قراردادوں میں طے کر رکھی ہیں، انہیں اسرائیل تسلیم نہیں کر رہا۔
- اسرائیل کی اقوام متحدہ کی طرف سے طے کردہ سرحدات اور ہیں،
- اس وقت اس کے زیر قبضہ علاقے کی حدود اربعہ اور ہیں،
- کسی اصول اور قانون کی پروا کیے بغیر پورے فلسطین میں دندناتے پھرنے سے اس کی سرحدوں کا نقشہ بالکل دوسرا دکھائی دیتا ہے،
- اور اسرائیلی حکمرانوں کے عزائم پر مشتمل ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا جو نقشہ ریکارڈ پر موجود ہے، وہ ان سب سے مختلف ہے۔
- اس کے ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم شیرون کا یہ اعلان کئی بار سامنے آ چکا ہے کہ وہ فلسطین کی مجوزہ ریاست کو صرف اس شرط پر تسلیم کریں گے کہ اس کی سرحدات کا تعین نہیں ہوگا اور اس کی الگ فوج نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ اسرائیل پورے فلسطین پر حکمرانی کے حق کا اعلان کر رہا ہے اور فلسطینیوں کو سرحدات کے تعین کے ساتھ کوئی چھوٹی سی برائے نام ریاست دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔
- اس کے ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے قبل آپ کو بیت المقدس کے بارے میں بھی اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور اس کی دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو اسرائیل کو بیت المقدس سے دستبرداری پر آمادہ کر لیں اور یا خود ’’یو ٹرن‘‘ لے کر بیت المقدس سے دستبرداری کا فیصلہ کر لیں۔
یہ تینوں رکاوٹیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے، پریکٹیکل ہیں، عملی ہیں اور معروضی ہیں، ان کا کوئی باوقار اور قابل عمل حل نکال لیں اور بے شک اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر اسی طرح تسلیم کر لیں جس طرح ہم بہت سے مسیحی ممالک کو تسلیم کرتے آ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس حوالے سے بات عملی مسائل پر ہونی چاہیے اور معروضی حقائق پر ہونی چاہیے، نظری اور علمی مباحث میں الجھا کر اس مسئلہ کو مزید پیچیدہ نہیں بنانا چاہیے۔
قدس کو یہودی شہر بنانے کی کوشش نصوص ، وثائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں
(مصنف : ڈاکٹر انور محمود زناتی)
بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے ہجرت کےبعد 16 سے 17 ماہ تک مسلمان بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔ مسجد اقصٰی خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصیٰ یا حرم قدسی شریف کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔نبی کریم ﷺسفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور بیت المقدس میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے‘‘ (سورہ الاسراء )۔ احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام، مسجد اقصٰی اور مسجد نبوی شامل ہیں۔سیدنا عمر فاروق کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کیا تو سیدنا عمر نے شہر سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ہمراہیوں سمیت نماز ادا کی تھی۔ یہی مسجد بعد میں مسجد اقصٰی کہلائی کیونکہ قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصٰی کہا گیا ہے۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغِ اسلام اور اشاعتِ دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہو گیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ ساتھ گرجا بھی بنا لیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔صلاح الدین نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16 جنگیں لڑیں ۔اسلام اور ملتِ اسلامیہ کے خلاف یہودیوں کی دشمنی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے ۔یہودِ مدینہ نے عہد رسالت مآب میں جو شورشیں اور سازشیں کیں ان سے تاریخِ اسلام کا ہر طالب علم آگاہ ہے ۔ گزشتہ چودہ صدیوں سے یہود نے مسلمانوں کےخلاف بالخصوص اور دیگر انسانیت کے خلاف بالعموم معادانہ رویہ اپنا رکھا ہے ۔بیسویں صدی کےحادثات وسانحات میں سب سے بڑا سانحہ مسئلہ فلسطین ہے ۔ یہود ونصاریٰ نےیہ مسئلہ پیدا کر کے گویا اسلام کےدل میں خنجر گھونپ رکھا ہے ۔1948ء میں اسرائیل کے قیام کےبعد یورپ سے آئے ہو غاصب یہودیوں نے ہزاروں سال سے فلسطین میں آباد فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور جائدادوں سے بے دخل کر کے انہیں کمیپوں میں نہایت ابتر حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا ہے۔21 اگست 1969ء کو ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلۂ اول کو آگ لگادی جس سے مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ گر پڑا۔ محراب میں موجود منبر بھی نذر آتش ہوگیا جسے صلاح الدین ایوبی نے فتح بیت المقدس کے بعد نصب کیا تھا۔ ۔ دراصل یہودی اس مسجد کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گراکر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا ۔گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ کے دوران اسرائیلی یہودیوں کی جارحانہ کاروائیوں اور جنگوں میں ہزاروں لاکھوں فلسطینی مسلمان شہید ، زخمی یا بے گھر ہوچکے ہیں اورلاکھوں افراد مقبوضہ فلسطین کے اندر یا آس پاس کےملکوں میں کیمپوں کے اندر قابلِ رحمت حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں۔اوراقوام متحدہ اوراس کے کرتا دھرتا امریکہ اور پورپ کےممالک یہودیوں کے سرپرست اور پشتیبان بنے ہوئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’قدس کویہودی شہر بنانےکی کو شش ‘‘ ڈاکٹر انور محمد زناتی کی تصنیف ہے ۔ یہ کتاب اسرائیل کے ارض فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم کے سلسلے میں ایک معتبر، مفصل، حقیقت پر مبنی اوراسرائیل سازش کودوپہر کی دھوپ کی طرح واضح کرنے دینے والی دستاویزی تالیف ہے ۔ جس میں سرکاری وثائق ، تصویروں اور نقشوں کے ذریعے اسرائیل کی تاریخی دہشت گردی کو واضح کیاگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو عالمِ اسلام کی غیرت کو بیدار کرنے کاذریعہ بنائے اور بیت المقدس جلد اس کےحقداروں کے ہاتھ آجائے ۔ (آمین)
https://kitabosunnat.com/kutub-library/qudas-ko-yahodi-shehar-banane-ki-koshash
8 دجالی پروٹوکولز
The Protocols of the Elders of Zion
Protocol | Title | Themes |
---|---|---|
1 | The Basic Doctrine: "Right Lies in Might" | Freedom and Liberty; Authority and power; Gold = money |
2 | Economic War and Disorganization Lead to International Government | International Political economic conspiracy; Press/Media as tools |
3 | Methods of Conquest | Jewish people, arrogant and corrupt; Chosenness/Election; Public Service |
4 | The Destruction of Religion by Materialism | Business as Cold and Heartless; Gentiles as slaves |
5 | Despotism and Modern Progress | Jewish Ethics; Jewish People's Relationship to Larger Society |
6 | The Acquisition of Land, The Encouragement of Speculation | Ownership of land |
7 | A Prophecy of Worldwide War | Internal unrest and discord (vs. Court system) leading to war vs Shalom/Peace |
8 | The transitional Government | Criminal element |
9 | The All-Embracing Propaganda | Law; education; Masonry/Freemasonry |
10 | Abolition of the Constitution; Rise of the Autocracy | Politics; Majority rule; Liberalism; Family |
11 | The Constitution of Autocracy and Universal Rule | Gentiles; Jewish political involvement; Masonry |
12 | The Kingdom of the Press and Control | Liberty; Press censorship; Publishing |
13 | Turning Public Thought from Essentials to Non-essentials | Gentiles; Business; Chosenness/Election; Press and censorship; Liberalism |
14 | The Destruction of Religion as a Prelude to the Rise of the Jewish God | Judaism; God; Gentiles; Liberty; Pornography |
15 | Utilization of Masonry: Heartless Suppression of Enemies | Gentiles; Masonry; Sages of Israel; Political power and authority; King of Israel |
16 | The Nullification of Education | Education |
17 | The Fate of Lawyers and the Clergy | Lawyers; Clergy; Christianity and non-Jewish Authorship |
18 | The Organization of Disorder | Evil; Speech; |
19 | Mutual Understanding Between Ruler and People | Gossip; Martyrdom |
20 | The Financial Program and Construction | Taxes and Taxation; Loans; Bonds; Usury; Moneylending |
21 | Domestic Loans and Government Credit | Stock Markets and Stock Exchanges |
22 | The Beneficence of Jewish Rule | Gold = Money; Chosenness/Election |
23 | The Inculcation of Obedience | Obedience to Authority; Slavery; Chosenness/Election |
24 | The Jewish Ruler | Kingship; Document as Fiction |
The International Jew
- Volume 1: The International Jew: The World's Foremost Problem (1920)
- Volume 2: Jewish Activities in the United States(1921)
- Volume 3: Jewish Influence in American Life (1921)
- Volume 4: Aspects of Jewish Power in the United States (1922)
List of conspiracy theories
قائمة من نظريات المؤامرة
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_conspiracy_theories
- 2 False flag operations
- 3 Wars
- 4 Coups d'état
- 5 Official Conspiracy Theories
- 6 Assassinations
- 8.1 Armenian International Conspiracy
- 8.2 Arab–Israeli relations
- 8.3 "Babylon" and racist oppression
- 8.4 Eurabia
- 8.5 Arab-fascist axis
- 8.6 La Reconquista (Mexico)
- 8.7 Baha'i
- 8.8 Apocalyptic prophecies
- 8.9 Bible conspiracy theory
- 8.10 Catholicism as a veiled continuation of Babylonian paganism
- 8.11 Dominionism
- 8.12 Jerusalem Temple Candelabrum in the Vatican cellars
- 8.13 Jewish world domination
- 12 Peak oil
- 15 Miscellaneous
- 8.1 Armenian International Conspiracy
- 8.2 Arab–Israeli relations
- 8.3 "Babylon" and racist oppression
- 8.4 Eurabia
- 8.5 Arab-fascist axis
- 8.6 La Reconquista (Mexico)
- 8.7 Baha'i
- 8.8 Apocalyptic prophecies
- 8.9 Bible conspiracy theory
- 8.10 Catholicism as a veiled continuation of Babylonian paganism
- 8.11 Dominionism
- 8.12 Jerusalem Temple Candelabrum in the Vatican cellars
- 8.13 Jewish world domination
Zionism-Palistine الصهيونية وفلسطين
- http://peace-forum.blogspot.com
- http://FaithForum.Wordpress.Com
- http://Islamphobia.Wordpress.com
- http://Pakistan-posts.blogspot.com
- http://twitter.com/AbrahamsFaith
- http://www.youtube.com/user/Abbujak
2-JERUSALEM: The Blessed Land, Through Bible, Qur’an & History-PDF Book
Protocols of the Zion: Read online or download WebDoc, PDF
Related:
Zionist Christians: Useful tool for Zionist Jews
Trump’s decision to shift US embassy to Jerusalem points to that he could be Zionist Christian. Christian Zionism is a belief among some Christians that the return of the Jews to the Holy Land, and the establishment of the State of... [Continue reading...]Zionism contrary to Torah teachings: Torah Jews, Rabbi
What is Zionism? Zionism is a movement founded by Theodor Herzl in 1896 whose goal is the return of Jews to Eretz Yisrael, or Zion, the Jewish synonym for Jerusalem and the Land of Israel. The name of “Zionism” comes from... [Continue reading...]Jerusalem, The Blessed Land: An Insight Through Bible, Qur’an & History – Salaam One سلام
US President Mr.Donald Trump has announced to shift US embassy to Jerusalem, supporting illegal occupation, against spirit of UN resolutions and world opinion. Palestine is the most complex geopolitical and religious issue, confronted by the humanity, which if left unresolved will... [Continue reading...] or Download pdfhttp://peace-forum.blogspot.com/2015/09/the-contradiction-at-heart-of-christian.html
The Protocols of the elders of Zion
SalaamOne, سلام is a nonprofit e-Forum to promote peace among humanity, through understanding and tolerance of religions, cultures & other human values. The collection is available in the form of e-Books. articles, magazines, videos, posts at social media, blogs & video channels. .Explore the site English and Urdu sections at Indexعلم اور افہام و تفہیم کے لئے ایک غیر منافع بخش ای فورم ہے. علم،انسانیت، مذہب، سائنس، سماج، ثقافت، اخلاقیات اورروحانیت امن کے لئے.اس فورم کو آفتاب خان، آزاد محقق اور مصنف نے منظم کیا ہے. تحقیقی کام بلاگز، ویب سائٹ، سوشل میڈیا، میگزین، ویڈیو چننل اور برقی کتابوں کی صورت میں دستیاب ہے.اس نیٹ ورک کو اب تک لاکھوں افراد وزٹ کر چکے ہیں, مزید تفصیلات>>> Page Index - Salaam One
- مسلما نوں اور علماء کے نام کھلا خط : آج کے حالات میں مسلم معاشرہ نظریاتی ابتری اور انحطاط کا شکار ہے. مادہ پرستی، دہشت گردی، عدم برداشت، اور جہالت انسانیت، امن اور مذھب کے لیے خطرہ بن چکے ہیں- ان حالات میں صاحب علم و ذی فہم حضرات سے ممکنہ حل کی توقع کی جا سکتی ہے. ہمارا مقصد ہے کہ آپ کی توجہ ضروری حل پذیر مسائل کی طرف مبذول کرنا ہے تاکہ جلد حل تلاش کیا جا سکے- آپ کی توجہ اور مدد سے ہم کوشش کر سکتے ہیں کہ معاشرہ کو اس گہری دلدل سے نکال سکیں. مکمل خط اس <<< لنک پر پڑھیں>>
نظریاتی اور فکری کنفیوژن اور ممکنہ حل
- خطبات اقبال - اسلام میں تفکر کا انداز جدید Reconstruction of Religious Thought in Islam- http://goo.gl/lqxYuw
کیا اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے؟
ادارہ
(۱)
علمائے دین کے حضور میں
(جاوید چودھری)
زاہد صاحب میرے دوست ہیں۔ انہوں نے میرے کالم ’’تالاب میں کودنے سے پہلے‘‘ کے جواب میں مجھے پروفیسر ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے ایک لیکچر کی کاپی بھجوائی۔ پروفیسر صاحب اپریل ۱۹۹۲ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی دعوت پر دس روز کے لیے پاکستان تشریف لائے تھے۔ لاہور میں پائنا نے ان کے ایک خطاب کا اہتمام کیا۔ اس محفل میں عام شہریوں کے علاوہ ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک، ڈاکٹر صفدر محمود، مولانا صلاح الدین، چیف جسٹس انوار الحق، جسٹس محبوب احمد، ایس ایم ظفر، ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر رضاء الحق، پروفیسر جمیلہ شوکت، نذیر نیازی، اسماعیل قریشی، ڈاکٹر امین اللہ دثیر، ممتاز احمد خان، ڈاکٹر اقتدا حسن اور عبد الکریم عابد صاحب جیسے ممتاز عالم، دانش ور اور صحافی بھی موجود تھے۔ خطاب کے آخر میں جب سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک صاحب نے سورہ مائدہ کی آیت: یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی اَوْلِیَآءَ پڑھی اور پوچھا: ’’ارشاد خداوندی ہے، یہودیوں کو دوست اور ولی نہ بناؤ۔ اس حکم کے حوالے سے یہ بھی ارشاد فرمائیں، اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں آپ کا خیال کیا ہے؟‘‘ پروفیسر صاحب نے اس سوال کے جواب میں فرمایا: (میں ان کے الفاظ یہاں لفظ بہ لفظ لکھ رہا ہوں) ’’قرآن مجید میں ولی کا لفظ ہے، دوست کا نہیں، ..... جس کا مطلب میرے خیال میں یہ ہے کہ انہیں حاکم کے طور پر قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اب رہی تعلقات قائم کرنے اور تسلیم کرنے کی بات تو یہ کسی قدر پیچیدہ مسئلہ ہے، اس معنی میں کہ اس معاملے کے کئی پہلو پیش نظر رکھنے ہوں گے اور فیصلہ فلسطینی مسلمانوں کی رائے پر ہونا چاہیے کیونکہ بنیادی طور پر یہ مسئلہ اہل فلسطین کا ہے۔ اگر وہ کسی مصلحت کی بنا پر یا کسی دوسرے فائدے کے پیش نظر یا قومی دشمن کی دشمنی کم کرنے کی کوشش کے طور پر اپنے موقف میں کچھ لچک پیدا کریں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ میرا مشورہ اس بارے میں صرف اتنا ہے کہ جو بات ممکن اور قابل حصول ہو، وہ کریں۔ انہونی باتوں کا مطالبہ نہ کریں۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کا یہ خطاب ان کی رحلت کے بعد ایک معروف اردو ماہنامے کے فروری ۲۰۰۳ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ یہ خطاب ادریس صدیقی کے قلم سے قارئین تک پہنچا۔ ’ولی‘ کی تشریح پر مبنی اقتباس اس کے صفحہ ۲۹ پر درج ہے۔ پروفیسر حمید اللہ صاحب اسلام کے جید عالم، مفکر اور دانش ور تھے۔ انہیں اردو اور انگریزی کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی، فرانسیسی، جرمنی، ہندی اور اطالوی زبانوں پر بھی عبور تھا۔ انہوں نے قرآن مجید کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا، حیات رسول پر ترکی اور فرانسیسی میں کتب لکھیں۔ انہوں نے ایک سو بیس زبانوں میں قرآنی تراجم کی ایک ببلیو گرافی بھی مرتب کی۔ یہ انہی کی تحقیق ہے کہ آج دنیا کو معلوم ہے کہ اردو میں قرآن مجید کے تین سو، انگریزی میں ڈیڑھ سو اور فرانسیسی میں ستر ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اردو میں ۱۲ اور انگریزی میں ۶ شاندار کتب تحریر کیں۔ ۱۹۴ ممالک میں آباد ایک ارب ۴۵ کروڑ مسلمانوں میں شاید ہی کوئی شخص ہو جو ان کے نام اور کام سے واقف نہ ہو۔ انہیں ۶۱ اسلامی ممالک میں وہ توقیر، وہ عزت حاصل ہے جو ایک جید عالم کو حاصل ہونی چاہیے۔ لہٰذا جب پروفیسر صاحب اپنے خطاب میں ’ولی‘ کو دوست کے بجائے حکمران قرار دیتے ہیں تو پھر سارا ’’سیناریو‘‘ ہی بدل جاتا ہے۔ مجھے اپنی کوتاہ علمی اور کم فہمی کا ادراک ہے۔ میں تو شاید قرآن مجید کے مفاہیم تک کبھی نہ پہنچ پاؤں، لہٰذا میں یہ آیت اور اس آیت میں درج ’’اولیاء‘‘ کے لفظ کو علماے کرام کی بارگاہ میں پیش کرتا ہوں اور ان سے درخواست کرتا ہوں۔ معاملہ بہت ہی حساس اور علمی نوعیت کا ہے کیونکہ صرف ایک لفظ کی تشریح پر نہ صرف آئندہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی جائے گی بلکہ عالم اسلام کے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ تعلقات بھی طے ہوں گے۔ چنانچہ علماے دین آگے بڑھیں اور قوم کی مشکل آسان فرمائیں۔ ہم سب آپ کی رہنمائی چاہتے ہیں لیکن اتنا یاد رہے پروفیسر ڈاکٹر حمید اللہ صاحب اس پر کیا فرما چکے ہیں۔
معزز قارئین، میں نے کبھی یہ کالم عام بحث اور خطوط کے لیے عام نہیں کیا۔ میری کس تحریر، کس جسارت پر کیا کیا رد عمل ہوا، میں نے کبھی اس کا اظہار تک نہیں کیا۔ میں سمجھتا ہوں، انسان کو پوری ایمان داری سے اپنا فرض ادا کر دینا چاہیے اور اس کے بعد اس کا کیا رد عمل ہوتا ہے، اسے اس سے لاتعلق ہو جانا چاہیے لیکن میں پہلی بار اس کالم میں علماے کرام کو سورۂ مائدہ کی یہود ونصاریٰ والی آیت پر اظہار خیال کی دعوت دیتا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ ہمارے وہ علماے کرام جو ایسے قومی معاملات پر ہمیشہ چپ سادھ لیتے ہیں، وہ اس بار ضرور کوئی نہ کوئی واضح اور دوٹوک موقف اختیار کریں گے۔ آخر علماے دین پر بھی اس ملک کو اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا فوج، بیوروکریسی، سیاست دانوں اور عوام پر حاصل ہے۔ اگر ہم سب اس ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں تو اس ملک کی فکری اور مذہبی سرحدوں کی حفاظت علماے کرام کا فرض ہے تو اے علماے دین، فرض نبھانے کا وقت آن پہنچا ہے۔
(روزنامہ جنگ، لاہور۔ ۱۲ جولائی ۲۰۰۳ء)
(۲)
باسمہ سبحانہ
محترمی جاوید چودھری صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مزاج گرامی؟
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ صاحب کے ارشاد کے حوالہ سے آپ کا کالم نظر سے گزرا۔ میری طالب علمانہ رائے میں ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمۃ کا ارشاد بالکل بجا ہے کہ قرآن کریم کی جس آیت کریمہ میں یہود ونصاریٰ کے ساتھ ’’ولایت‘‘ کے درجہ کی دوستی سے منع کیا گیا ہے، وہ یہود ونصاریٰ کے ساتھ معمول کے تعلقات میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی ممالک کے ساتھ تعلقات اور معاملات میں ملت اسلامیہ نے کبھی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا اور خلافت راشدہ سے لے کر اب تک مسیحی ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اور معاملات برابر چلے آ رہے ہیں، البتہ یہودیوں کی ہزاروں سال بعد تشکیل پانے والی ریاست ’’اسرائیل‘‘ کے ساتھ تعلقات کا مسئلہ قدرے مختلف نوعیت کا ہے اور اس کی وجہ یہ آیت کریمہ نہیں بلکہ اگر اس آیت کریمہ کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی ممانعت میں پیش کیا جائے تو میرے خیال میں یہ خلط مبحث ہوگا اور مسئلہ کو زیادہ الجھا دینے کی صورت ہوگی۔
اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات سے اختلاف کی وجوہ مختلف ہیں۔ مثلاً سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری وہاں کی صدیوں سے چلی آنے والی آبادی یعنی فلسطینیوں کی رضامندی کے ساتھ نہیں ہوئی بلکہ پہلے برطانیہ نے اس خطہ پر ۱۹۱۷ء میں باقاعدہ قبضہ کر کے فوجی طاقت کے بل پر یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا ہے اور اب امریکہ پوری فوجی قوت استعمال کر کے فلسطینیوں کو یہودیوں کی اس جبری آباد کاری کو تسلیم کرنے پر مجبور کر رہا ہے جس پر فلسطینی راضی نہیں ہیں اور یہ دھونس اور جبر کا راستہ ہے جسے دنیا کی کوئی مہذب اور متمدن قوم قبول نہیں کر سکتی۔ میرا خیال ہے کہ جس طرح ہم کشمیر کے بارے میں اصولی موقف رکھتے ہیں کہ بھارتی فوج وہاں سے چلی جائے اور کشمیریوں کو کسی دباؤ کے بغیر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے، اسی طرح فلسطین بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے بارے میں ہمارا اصولی موقف یہ ہونا چاہیے کہ امریکہ اپنی فوجیں اس خطہ سے نکالے اور نہ صرف فلسطین بلکہ خلیج کے دیگر ممالک کو بھی فوجی دباؤ سے آزاد کر کے وہاں کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا آزادانہ موقع فراہم کرے۔ انصاف اور مسلمہ اصولوں کا تقاضا تو بہرحال یہی ہے اور اگر بالادست قوتیں طاقت کے نشے میں اس اصول پر نہیں آتیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے موقف سے دست بردار ہو جائیں اور بے اصولی اور دھونس کو اصول وقانون کے طور پر تسلیم کر لیں۔
پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ایک عملی رکاوٹ بھی ہے جسے دور کیے بغیر اسے تسلیم کرنا قطعی طور پر نا انصافی کی بات ہوگی۔ وہ یہ کہ اسرائیل کی سرحدی حدود اربعہ کیا ہے؟ یہ بات ابھی تک طے نہیں ہو سکی۔ بہت سے عرب ممالک اور فلسطینی عوام کی اکثریت سرے سے فلسطین کی تقسیم کو قبول نہیں کررہی۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جو سرحدات اپنی قراردادوں میں طے کر رکھی ہیں، انہیں اسرائیل تسلیم نہیں کر رہا۔ اسرائیل کی اقوام متحدہ کی طرف سے طے کردہ سرحدات اور ہیں، اس وقت اس کے زیر قبضہ علاقے کی حدود اربعہ اور ہیں، کسی اصول اور قانون کی پروا کیے بغیر پورے فلسطین میں دندناتے پھرنے سے اس کی سرحدوں کا نقشہ بالکل دوسرا دکھائی دیتا ہے اور اسرائیلی حکمرانوں کے عزائم پر مشتمل ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا جو نقشہ ریکارڈ پر موجود ہے، وہ ان سب سے مختلف ہے۔ اس کے ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم شیرون کا یہ اعلان کئی بار سامنے آ چکا ہے کہ وہ فلسطین کی مجوزہ ریاست کو صرف اس شرط پر تسلیم کریں گے کہ اس کی سرحدات کا تعین نہیں ہوگا اور اس کی الگ فوج نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ اسرائیل پورے فلسطین پر حکمرانی کے حق کا اعلان کر رہا ہے اور فلسطینیوں کو سرحدات کے تعین کے ساتھ کوئی چھوٹی سی برائے نام ریاست دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔
اس کے ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے قبل آپ کو ’’بیت المقدس‘‘ کے بارے میں بھی اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور اس کی دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو اسرائیل کو بیت المقدس سے دست برداری پر آمادہ کر لیں اور یا خود ’’یو ٹرن‘‘ لے کر ’’بیت المقدس‘‘ سے دست برداری کا فیصلہ کر لیں۔
یہ تینوں رکاوٹیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے، پریکٹیکل ہیں، عملی ہیں اور معروضی ہیں۔ ان کا کوئی باوقار اور قابل عمل حل نکال لیں اور بے شک اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر اسی طرح تسلیم کر لیں جس طرح ہم بہت سے مسیحی ممالک کو تسلیم کرتے آ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس حوالے سے بات عملی مسائل پر ہونی چاہیے اور معروضی حقائق پر ہونی چاہیے۔ نظری اور علمی مباحث میں الجھا کر اس مسئلہ کو مزید پیچیدہ نہیں بنانا چاہیے۔
شکریہ! والسلام
ابو عمار زاہد الراشدی
پاکستان، اسرائیل اور مسئلہ فلسطین
پروفیسر میاں انعام الرحمن
1897 کی بیسل کانفرس میں یہودیوں نے اپنی جدا گانہ آزاد ریاست کے قیام کے لیے منصوبہ بندی کر لی تھی اوراس کے بعد سے وہ اسے عملی شکل دینے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ انہی دنوں انگریزوں نے پہلی عالمی جنگ میں ترکوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے ’انعام کے طور پر عربوں کو آزاد اور خود مختار علاقے دینے کا وعدہ کر رکھا تھا، لیکن سلطنتِ عثمانیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر نے میں عربوں کے تعاون کے باوجود برطانوی وزیرِ خارجہ بالفور نے ۱۹۱۷ء میں یہودیوں سے فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا وعدہ کر لیا۔ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ادھر برِ صغیر پاک و ہند میں مسلمان اپنے ہم وطن ہندوؤں کے ہمراہ سلطنتِ عثمانیہ کی حمایت میں انگریزوں کے خلاف انتہائی جوش و جذبے سے تحریکِ خلافت چلا رہے تھے اور اُدھر عرب موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے ہم مذہب مسلمان ترکوں کے خلاف بر سرِ پیکار تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے نام رشید رضا کا خط ملاحظہ کیجئے:
’’ مسئلہ بیداری عرب کے متعلق آپ کی رائے معلوم ہوئی ۔ آپ کے خیال میں عجلت کی ضرورت نہیں ، تامل درکار ہے۔ یورپ کے بھوت سے خوف لازم ہے۔ یہ خیال کہ اہلِ عرب ترکی کی حالت سے واقف نہیں، اس لیے درست ہے کہ اہلِ ہند عربوں کی حالت سے واقف نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ رہی یہ بات کہ یورپ کے خوف سے اہلِ عرب کو اپنے مطالبات میں جلدی نہیں کرنی چاہیے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم کہیں کہ یورپ کے خوف سے اہلِ عرب کو مطالبہ اصلاح میں جلدی کرنی چاہیے تو یہ زیادہ موزوں ہو گا ۔ ۔۔‘‘
صرف اسی اقتباس سے عالمی سیاست کی سفاکی معلوم ہو جاتی ہے۔ 9 جون 1916 کو فلسطینی عربوں نے ترکوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ عربوں کی بغاوت جب زور پکڑ گئی تو ترکوں نے 8 اور 9 دسمبر 1917 کی درمیانی شب میں بیت المقدس خالی کر دیا تاکہ اس مقدس شہر میں خون خرابہ نہ ہو۔ 10 دسمبر 1917 کو عربوں کے دوست اور مسیحا برطانیہ نے اس شہر پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت یہودیوں کی تعداد کل آبادی کا پانچ فیصد یعنی 2600 تھی لیکن کچھ ماہ بعد ہی ان کی آبادی 83000 ہوگئی ،جبکہ فلسطینی عربوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی ۔ جنگ کے اختتام پر فلسطین برطانوی کنٹرول میں آیا اور برطانیہ نے حسبِ وعدہ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری کی مہم شروع کر دی۔ یہودی 1922 میں مجموعی آبادی کا 12 فیصد، 1931 میں 17فیصداور 1944 میں 31 فیصد ہوگئے۔ 1937 میں جب برطانیہ کی طرف سے فلسطین کی تقسیم کی تجویز سامنے آئی تو محمد علی جناح ؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اس کی مذمت کی ۔ دوسری عالمی جنگ میں لاکھوں یہودی ہٹلر کے نازی ازم کا شکار ہوئے۔ بچ جانے والوں کو نازی کیمپوں سے نکال کر سر زمین فلسطین میں منتقل کر دیا گیا جس سے اس خطے میں یہودیوں کی عددی قوت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ خیال رہے کہ عربوں نے اپنے بہت سے علاقے یہودیوں کو فروخت بھی کیے تھے۔ 1943 میں یہودیوں نے یورپ اور امریکہ میں پراپیگنڈا مہم چلا کر اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ انہی دنوں 1944 میں علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے محمد علی جناح ؒ نے کہا:
’’اگر یہودی عناصر کے دباؤ کے تحت ( امریکی) صدر روزویلٹ ، برطانیہ کو فلسطین کے سوال پر عربوں سے نا انصافی کرنے پر مجبور کرتے ہیں تو یہ فیصلہ مسلم دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آگ لگا دے گا۔ اگر یہودیوں کی آباد کاری کا سلسلہ جاری رہا تو پوری اسلامی دنیا اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہو گی۔ ‘‘
برطانیہ نے 1947 میں فلسطین کو اپنے انتداب سے نکال کر اس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری اقوامِ متحدہ پر ڈال دی۔ اس وقت اقوامِ متحدہ کے صرف 56 ارکان تھے۔ مسئلے کے حل کے لیے جنرل اسمبلی کی ایک سب کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا چےئرمین پاکستان تھا۔ افغانستان اور چھ عرب ریاستوں کو بھی کمیٹی کی رکنیت دی گئی ۔ کمیٹی نے رپورٹ میں سفارش کی کہ فلسطین میں ایسا وحدانی نظام اپنایا جائے جس میں یہودی اقلیت کے حقوق کی ضمانت موجود ہو اور باہر سے آنے والے یہودیوں کو یورپ میں یا پھر ان کے ابتدائی علاقوں میں آباد کیا جائے۔ مسئلہ فلسطین کو بین الاقوامی عدالت انصاف کے سپرد کرنے کی بات بھی چلائی گئی۔ بہرحال یہ رپورٹ جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی۔ تقسیم کے سوال پر ووٹنگ ہوئی تو 13 ووٹ مخالفت میں اور 33 حق میں آئے، جبکہ 10 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہ لیا ۔ اہم بات یہ ہے کہ فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والی ریاستوں کی اکثریت ان علاقوں سے تعلق رکھتی تھی جن کا مشرقِ وسطی سے کسی قسم کا بالواسطہ یا بلاواسطہ رشتہ موجود نہیں تھا۔ اس طرح پاکستان سمیت مسلم دنیا کی شدید مخالفت کے باوجود مئی 1948 میں اسرائیل کا قیام عمل میں آگیا۔ اس کے بعد بھی پاکستان نے اسرائیل کی حقیقت کو قانونی طور پر تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد میں فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھی ۔
قیامِ اسرائیل کے بعد مشرقِ وسطی کے حالات
اسرائیل کے قیام کے بعد مشرقِ وسطی کے حالات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ 14 مئی 1948 کو فلسطین سے برطانوی دستبرداری کے صرف 7 گھنٹے بعد یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تھا ۔ یہ بات حیران کن ہے کہ 10 منٹ بعد امریکہ نے اور 15 منٹ بعد سوویت یونین نے اسے تسلیم کر لیا ۔ اس وقت 6 لاکھ سے زائد عرب بے گھر ہو چکے تھے ۔ اس صورتِ حال میں پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی ۔عربوں نے جرات سے مقابلہ کیا اور بیت المقدس کے قدیم حصے پر قبضہ کر کے تل ابیب تک پہنچ گئے۔ بڑی طاقتوں کی مداخلت پر اقوامِ متحدہ نے عارضی صلح کرا دی۔17 ستمبر کو یہودیوں نے اقوامِ متحدہ کے ثالثی نمائندے کاؤنٹ برنا ڈوٹ کو ہلاک کر دیا جس سے دوبارہ جنگ چھڑ گئی ۔ اسرائیلی فتوحات کے بعد جب اسرائیل کو مار پڑنے لگی تو اقوامِ متحدہ نے مصالحت کراتے ہوئے مارچ 1949 میں جنگ بند کرا دی۔ جنگ کے خاتمے پر فلسطین کا 78 فیصد علاقہ اسرائیل کے قبضے میں تھا ۔ جنگ کے نتیجے میں تقریباً 10 لاکھ فلسطینی بے گھر ہوئے۔ 70 فیصد عربوں کو ان کے قدیم آبائی گھروں سے نکال دیا گیا۔ 1948 کی سنگین صورتِ حال کے بعد حالات ابھی معمول پر نہ آئے تھے کہ 1956 میں جنگ کے شعلے پھر بھڑک اٹھے ۔ مصر نے نہر سوئز کا نظام چلانے والی کمپنی کو قومی تحویل میں لیا تو برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے اس پر حملہ کر دیا ۔ اسرائیلی فوج نہر سوئز کی حدود کے 40 میل اندر تک اتاری گئی۔ اس چھ روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے نہ صرف 6 ہزار مصری فوجیوں کو گرفتار کر لیا بلکہ سینائی کے مصری علاقے پر بھی قبضہ کر لیا۔ جنگ میں شدید نقصان کے باوجود جمال ناصر نے اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا۔ سوویت یونین کے خروشیف کی طرف سے فرانس ، برطانیہ اور اسرائیل کو دی جانے والی دھمکی شاید اس لیے کام کر گئی کہ امریکہ اس جنگ سے لاتعلق بلکہ قدرے ناراض تھا کہ تینوں ممالک نے امریکی عندیے کے بغیر یہ جنگ چھیڑ دی تھی۔ اس طرح جنگ بند ہو گئی ۔ بعد ازاں امریکی دباؤ پر اسرائیل کو مارچ 1957 میں غزہ کا علاقہ خالی کرنا پڑا جس پر اس نے دورانِ جنگ قبضہ کر لیا تھا ۔ اس جنگ میں عالمی طاقتوں کے کردار سے اسرائیل نے بھانپ لیا کہ اب برطانیہ کی عالمی شہنشاہیت قصہ ماضی ہے اور امریکہ اس کا حقیقی جانشین ہے۔ اس کے بعد اسرائیل نے امریکہ میں اپنی جڑیں مضبوط کرنی شروع کر دیں ۔ جون 1967 کی جنگ میں عربوں کو یقین تھا کہ وہ بآسانی اسرائیل کو شکست دے لیں گے لیکن اسرائیل نے 5 جون کو حملہ کر کے پوری مصری فضائیہ کو زمین پر ہی تباہ کر ڈالا اور 7 جون کو یروشلم کے تاریخی شہر کو فتح کر لیا ۔ اس جنگ میں اسرائیل نے عربوں کے بہت سے علاقے ہتھیا لیے اور عربوں کو ہر میدان میں شکست فاش دی۔ 1948 میں اسرائیل کا رقبہ آٹھ ہزار مربع میل تھا ۔ 1967 کی جنگ کے بعد یہ چار گنا ہو گیا۔ نومبر 1967 میں اقوامِ متحدہ نے قرارداد 242 کے تحت اسرائیل سے کہا کہ وہ اپنی سرحدیں جنگ سے پہلے والے مقامات پر لے جائے، لیکن اسرائیل نے اس پر عمل نہیں کیا اور ان علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اس سے پہلے 19 اگست 1967 کو خرطوم کانفرنس میں عربوں نے اپنے تین مشہور ’’ نہیں ‘‘ کا اعلان کر دیا تھا: (۱) اسرائیل کے ساتھ امن نہیں ہو گا، (۲) اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، (۳) کسی فلسطینی علاقے کے حوالے سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے جائیں گے ۔
1971 میں مصر کے جمال ناصر کے جانشین انور سادات کی آفر سے خطے میں ڈرامائی تبدیلی رونماہوئی ۔ سادات نے کہا کہ اگر اسرائیل جزیرہ نمائے سینائی سے اپنی فوجیں نکال لے تو مصر اسرائیل کے لیے نہر سوئز کھول دے گا ، نہر کے مشرقی کنارے سے مصری فوجیں ہٹا لی جائیں گی اور اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات شروع کر دیے جائیں گے ، لیکن اسرائیل نے انور سادات کی یہ پیشکش ٹھکرا دی ۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں نے اسرائیل سے حساب چکانے کی کوشش کی ۔سادات کی قیادت میں مصر ، نہر سوئز آزاد کرانے میں کامیاب ہوگیا ۔ امریکی مداخلت اور سوویت یونین کی غیر جانبداری کے باوجود اس جنگ سے عربوں کے اعتماد میں بھی قدرے بہتری آئی ۔ اس وقت تک سوویت یونین کی منافقانہ پالیسیوں کے باعث عربوں کے مسائل جوں کے توں قائم تھے ۔ یہ دیکھتے ہوئے انور سادات نے امریکی راہنماؤں سے تعلقات قائم کیے۔ امریکی تعاون سے نہر سوئز کُھل گئی۔ انور سادات نے 9 نومبر 1977 کو مصری پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ امن کی خاطر زمین کے آخری سرے تک جانے کو تیار ہے ۔ 15 نومبرکو بیجن نے سادات کو یروشلم کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ عرب لیڈروں کی شدید مخالفت کے باوجود سادات عیدالاضحی کے دن یروشلم گیا اور مسجدِ اقصیٰ میں نماز ادا کی۔ سادات نے کنیسٹ ( اسرائیلی پارلیمنٹ) سے بھی خطاب کیا اور مذہبی بقائے باہمی کی بات کی ۔ سادات نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ صلیبی جنگوں کی عدم روادار ی کو ترک کر دیا جائے اور حضرت عمرؓ اور صلاح الدین ایوبی کے جذبے کی طرف واپسی اختیار کی جائے جنہوں نے مقدس شہر میں پر امن بقائے باہمی کی حوصلہ افزائی کی تھی ۔ستمبر 1978 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا جس کی پاداش میں مصر کو عرب لیگ سے نکال دیا گیا اور لیگ کا صدر مقام قاہرہ سے تیونس منتقل کر دیا گیا ۔مصر کو او آئی سی کی رکنیت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ۔ بیجن نے 1979 میں معاہدے پر دستخط کیے ۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے خود کو تسلیم کرا لیا لیکن اسے سینائی چھوڑنا پڑا ۔ اس معاہدے کے بعد بھی بیجن نے توسیع پسندانہ پالیسی جاری رکھتے ہوئے مغربی کنارے میں مزید بستیاں بسانے کا اعلان کیا ۔ بیجن کے اس اقدام کے باوجود معاہدے کے خلاف احتجاج کے طور پر یہودیوں نے ’’ تہیہ ‘‘ پارٹی قائم کی، جس کے تین اہم اصول یہ تھے:
(۱) اسرائیل کی بقا کے لیے جنگ نا گزیر ہے ۔
(۲) اسرائیل کو کسی بھی مقبوضہ علاقے سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔
(۳) کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو لازماً مسترد کر دینا چاہیے اور مقبوضہ علاقوں میں نئی بستیاں قائم کی جانی چاہئیں ۔
اسرائیل کے خلاف اکتوبر 1973 کی جنگ میں فتح کی خوشی میں منعقدہ پریڈ میں 6 اکتوبر 1981کومصر کے صدر سادات کو قتل کر دیا گیا ۔ دن عید الاضحی کا تھا ۔ سادات نے اسی دن 1977 میں یروشلم کا تاریخی دورہ کرکے اپنی موت کے وارنٹ پر دستخط کیے تھے اور کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرکے اس نے اس وارنٹ پر باقاعدہ مہر تصدیق ثبت کر دی تھی ۔ سادات پر گولیاں برسانے والا فرسٹ لیفٹیننٹ خالد چیختا رہا: ’’ یہ کتا ، یہ کافر میرے حوالے کر دو‘‘۔
پچاس سیکنڈ کے اس حملے میں سات افراد ہلاک اور اٹھائیس زخمی ہوئے ۔ مصری عوام سادات کے قتل پر نہ تو روئے اور نہ اس کے جنازے کے انتظار میں دو رویہ قطار باندھ کر کھڑے ہوئے ۔ سادات کے قتل کی رات قاہرہ کی سڑکیں بھی بالکل خاموش تھیں ۔ سادات کو دفن کرتے ہی امن خاک آلود ہو گیا ۔
فلسطین کاز ، عرب اور فلسطینی
مصر نے اسرائیلی ریاست کے قیام کے چار ماہ بعد ہی غزہ کے علاقے میں فلسطینی ریاست قائم کرنے کی کوشش کی اور 20 ستمبر 1948 کو مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی کی قیادت میں فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا، مگر اردن کے امیر عبداللہ نے نہ صرف اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا بلکہ فلسطین کے ان علاقوں کو جن پر ان کی فوج نے 1948 کی جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا ، اردن میں ضم کر لیا ۔ 24 اپریل 1950 کو اردن کی پارلیمنٹ نے بھی دریائے اردن کے مشرقی اور مغربی علاقوں کو اردن میں باقاعدہ ضم کرنے کی منظوری دے دی ۔ اردن کو عرب لیگ سے خارج کر دیا گیا ۔ اسرائیل سے مذاکرات کا حامی ہونے اور برطانیہ کی طرف بے جا جھکاؤ کے باعث 20 جولائی 1951 کو بیت المقدس کی مسجد عمر فاروقؓ میں دوران نماز ، امیر عبداللہ کو کسی نامعلوم عرب نے گولی مار دی ۔ اس طرح آزاد و خود مختار فلسطین کا مصری منصوبہ عربوں کی باہمی منافرت کی نذر ہو گیا ۔ 1952 میں مصر کے شاہ فاروق کا تختہ جنرل نجیب اور کرنل ناصر نے الٹ دیا۔ 1958 میں عراق میں خونی انقلاب آیا۔ 1961 میں شامی فوج میں بعث پارٹی کے غلبے کے بعد شام ، مصر سے علیحدہ ہو گیا ۔ 1963 میں عراق میں انقلاب در انقلاب آئے ۔ ان واقعات نے مصر ، شام اور عراق میں قوم پرستانہ رجحانات کو فروغ دیا ۔ عالمِ عرب کی قیادت کے لیے تینوں ملکوں کی رقابت نے فلسطین کاز کو بے حد نقصان پہنچایا ۔
1964 میں مصر کے جمال ناصر نے پہلی عرب سر براہ کانفرنس کے دوران معروف فلسطینی راہنما احمد شکیری کی قیادت میں تنظیم آزادی فلسطین (P.L.O) کی بنیاد رکھی، لیکن یاسر عرفات کی فدائی تنظیم ’’ الفتح ‘‘ نے دنیا کو اپنی طرف زیادہ متوجہ کر لیا۔ 1965 میں اس تنظیم نے اسرائیل کے اندر 35 کامیاب کارروائیاں کیں ۔ 1967 تک اس تنظیم نے پوری عرب دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ جون 1967 کی جنگ میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست کے بعد مصر کے جمال ناصر نے P.L.O کی قیادت عبدالرحمان یاسر عرفات کے سپرد کر دی ، جس سے آزادی فلسطین کی سیاسی اور عسکری جدوجہد ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہو گئی۔ اگست 1969 میں مقبوضہ بیت المقدس میں مسجدِ اقصیٰ کو آگ لگا دی گئی ۔ اس واقعہ سے مسلم اتحاد کو مہمیز ملی اور ستمبر 1969 میں (O.I.C) کا قیام عمل میں آگیا ۔1970 میں فلسطینی گوریلوں نے اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر اور اس کے اندر غیر معمولی کارر وائیاں کیں ، جس سے تنظیم کو عالمی شہرت حاصل ہوئی ۔ فلسطینیوں کی جدوجہد کو اس وقت سخت دھچکا لگا جب اردن کے شاہ حسین نے ان کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ خیال کرتے ہوئے 1971 میں ان کو اردن سے نکالنے کے لیے بڑے پیمانے پر فوج کشی کی ۔ اردنی فوج اور فلسطینیوں میں دست بدست جنگ ہوئی ۔ فلسطینیوں کے انخلا کے لیے اردن نے بیرون ممالک سے فوجی امداد بھی حاصل کی۔ اردن سے نکالے جانے پر فلسطینیوں نے لبنان کے شہر بیروت کو اپنا مسکن بنایا ۔ 1974 میں اردن کے شاہ حسین سمیت تمام عرب حکمرانوں نے پی ایل او اور اس کے سربراہ یاسر عرفات کو فلسطینیوں کی واحد نمائندہ تنظیم اور لیڈر تسلیم کر لیا ۔ یاسر عرفات کو اس کے بعد کانفرنسوں میں سر براہ مملکت کا درجہ دیا جانے لگا۔ اسرائیل نے لبنانی عیسائیوں میں فلسطینیوں کے خلاف پراپیگنڈا مہم شروع کر دی ۔ انہیں گوریلا تربیت دی اور بڑے پیمانے پر اسلحہ تقسیم کیا ۔ اسرائیلی پالیسی کے نتیجے میں لبنانی عیسائیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مسلح جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ شامی لیڈر جو یاسر عرفات سے خائف تھے، انھوں نے بھی در پردہ عیسائیوں کی مدد کی ۔ 1976 میں جب عیسائیوں کی نیم فوجی تنظیم ’’عیسائی ملیشیا ‘‘ اور فلسطینی مجاہدین میں لڑائی جاری تھی، شامی فوج عیسائیوں کی مدد کو آگئی ۔ شامی فوج نے زبردست کارروائی کر کے فلسطینی مجاہدین کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ یوں اردن کے بعد شام نے بھی فلسطینیوں کے خلاف ’’ جہاد ‘‘ کا علم بلند کر کے فلسطین کاز کو شدید نقصان پہنچایا ۔ اس کے بعد تنظیم کے مختلف متحارب گروپوں پر پی ایل او کا کنٹرول کمزور پڑ گیا۔ اب کوئی گروپ شام کے حافظ الاسد کے زیرِ اثر تھا تو کوئی لیبیا کے کرنل قذافی کا احسان مند تھا ۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مصر ، فلسطینی کاز سے لا تعلق ہوچکا تھا ۔ ایسے ماحول میں ایک اسرائیلی سفیر پر قاتلانہ حملے کے الزام میں جون 1982 میں اسرائیل نے لبنان کے فلسطینی کیمپوں پر شدید حملہ کر دیا ۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کی خوب دھلائی کی لیکن کوئی عرب ریاست فلسطینیوں کی ’’ عملی مدد ‘‘ کو نہیں پہنچی ۔ امریکہ حسبِ روایت ’’ امن کا علم ‘‘ تھامے میدان میں کود پڑا اور اس نے بیروت سے فلسطینی انخلا کو مسئلے کا شاندار حل بتایا۔ جولائی 1982 میں برطانیہ ، امریکہ ، اٹلی اور فرانس کی مشترکہ فوج قیام امن کے لیے بیروت میں آئی ۔ اس فوج کا مقصد لبنان سے فلسطینی گوریلا فوج کا مکمل انخلا تھا ۔ لہٰذا ان طاقتوں نے عربوں کی پسِ پردہ حمایت کے ساتھ فلسطینی ہیڈ کوارٹر بیروت سے تیونس منتقل کر دیا۔ اسرائیلی، فلسطینی تنظیم کے ہیڈ کوارٹر کو اپنے پڑوس میں برداشت نہیں کر سکتے تھے، اس لیے ان کی کوششوں اور عربوں کی بے وفائی سے پی ایل او کو اپنے مرکزی دفاتر با ر بار مختلف مقامات پر منتقل کرنے پڑے ۔
4 جولائی 1988کو مغربی کنارے اور غزہ پر قبضہ کے اکیسویں سال کے موقع پر اسرائیل میں عسکری گروپس نے جلوس نکالا ۔ اس میں دس ہزار اسرائیلی شریک ہوئے ۔ اسی دن تل ابیب میں امن پسندوں نے بھی جلوس نکالا اور قبضہ ختم کرنے، فلسطینیوں کے ساتھ امن قائم کرنے اور فوج کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا ۔14 نومبر 1988کو اسرائیل میں الیکشن ہوئے ۔ 15 نومبر کو فلسطین تحریکِ آزادی کے ہیرو یاسر عرفات نے فلسطینی آزادی اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ ساری دنیا میں عرفات کے اس اقدام کی دھوم مچ گئی ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کے ہاں دہشت گرد قرار پانے والا یاسر عرفات قلابازی کھا کر سادات کے مقام پر کیوں جا کھڑا ہوا ؟ اس کا دو لفظی جواب ہے: ’عربوں کی باہمی مناقشت‘۔
دسمبر1987 میں غزہ میں انتفاضہ کے نام سے ایک انقلابی فلسطینی تحریک منظرِ عام پر آئی جو مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم تک پھیل گئی ۔ اس تحریک سے عرب دنیا اور بین الاقوامی برادری کافی متاثر ہوئی ۔ انتفاضہ کے آغاز میں ہی ایک نئی تنظیم ’’ حماس ‘‘ بنائی گئی جس نے فلسطینیوں کی جدوجہد کو اسلامی رخ دے دیا ۔ یہ اسرائیلیوں اور فلسطینی قوم پرستوں ، دونوں کے خلاف کمر بستہ تھی ۔ 1992 میں جب اسحاق رابن اسرائیل کا وزیر اعظم بنا تو وہ انہی تنظیموں کو مدِ نظر رکھ کر پی ایل او کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہو گیا۔ 1993 میں اسرائیل اور پی ایل او نے معاہدہ اوسلو پر دستخط کیے ۔ 4 نومبر1995 کو تل ابیب میں ایک امن ریلی کے دوران رابن کو امن معاہدے کرنے کے پاداش میں قتل کر دیا گیا۔ قاتل کے بقول رابن ایک ’’روڈیف ‘‘ یعنی یہودیوں کا دشمن تھا، اس لیے اس کا قتل اس پر فرض تھا ۔اس طرح مصر کے سادات کی طرح ، اسرائیل کے رابن کے قتل نے واضح کر دیا کہ اس خطے میں ایک نہیں، بلکہ دو جنگیں لڑی جا رہی ہیں ۔ ایک وہ جس کا دنیا میں چرچا ہے یعنی عرب اسرائیل جنگ، اور دوسری قدرے ڈھکی چھپی ہے لیکن اب منظرِ عام پر آ چکی ہے ۔ یہ جنگ اسرائیل اور عرب ممالک میں سیکولر اور مذہبی قوتوں کے درمیان زور پکڑ رہی ہے ۔
مشرقِ وسطی کی موجودہ صورتِ حال
اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم ایریل شیرون ، مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری کی پالیسی کے بانی ہیں۔ غزہ کی پٹی سے یہودی نو آبادیوں کے خاتمہ کا اعلان بھی انھی کی طرف سے آیا ہے ۔ ان کی اپنی پارٹی ’ لکوڈ ‘ اس مسئلے پر انتشار کا شکار ہو گئی ہے اور انتہا پسند یہودی عناصر ان کے خلاف ہو گئے ہیں۔ جب انخلا کی پالیسی منظوری کے لیے کابینہ میں پیش کی گئی تو وزیر خزانہ اور لکوڈ پارٹی کے اہم راہنما نیتن یاہو نے احتجاجاً استعفا دے دیا ۔ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے یا نہ کیا جائے، لیکن یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اسرائیل کی موجودہ قیادت نے انخلا کے ڈرامے کو بڑی خوبصورتی سے سٹیج کیا ہے ۔ بین الاقوامی میڈیا اس وقت شیرون کو ’ امن کا ہیرو‘ بنا کر پیش کر رہا ہے ، حالانکہ غزہ کی پٹی میں بمشکل آٹھ نو ہزار یہودی آباد کار ہیں جو دس لاکھ فلسطینیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہ پٹی حماس اور اسلامی جہاد جیسی عسکریت پسند تنظیموں کی آماجگاہ ہے ۔ اسرائیل کو اپنی ان نوآبادیوں کی حفاظت کے لیے جدید اسلحہ سے لیس فوج رکھنی پڑ رہی ہے جس پر کثیر اخراجات آرہے ہیں۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم غزہ کی پٹی سے نکل کر ایک طرف دنیا کی ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں اور دوسری طرف اوسلو معاہدے کو سبوتاژ کرتے ہوئے ’’ زمین برائے امن ‘‘ کے عمل کو تج کر اپنی شرائط پر امن کے خواہاں ہیں ۔ اقوامِ متحدہ ، امریکہ ، یورپی یونین اور دیگر عالمی طاقتوں کی کوششوں سے جو ’’ امن روڈ میپ ‘‘ تشکیل پایا تھا، فلسطینیوں کی طرف سے مثبت ردعمل کے باوجود وہ اسرائیلی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کاغذوں میں بند پڑا ہے۔عالمی برادری کے نزدیک اسرائیلی انخلا امن روڈ میپ کی طرف پیش قدمی ہے ، لیکن شاید عالمی برادری کی نگاہوں سے یہ امر پوشیدہ ہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے (West Bank) میں حفاظتی دیوار کے نام پر پورے علاقے کو بھول بھلیاں میں بدل دیا ہے ۔ یہ دیوار جان بوجھ کر اس طرح اٹھائی گئی ہے کہ متصل اور یکجا علاقے کا وجود ہی غائب ہو جائے ۔عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کے دیوار تعمیر کرنے کے عمل کوجولائی 2004 میں خلافِ قانون اور ناجائز قرار دیا ہے لیکن اسرائیل نے عدالت کے فیصلے کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ستمبر 2005 میں اسرائیلی سپریم کورٹ نے عالمی عدالت کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے فیصلے میں سقم پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ عالمی عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اسرائیل کی سکیورٹی ضروریات کو مدِ نظر نہیں رکھا۔ امریکی صدر بش نے بھی جب اس دیوار کا نقشہ دیکھا تو اس کی زبان سے بے ساختہ نکلا تھا کہ: ’’ پھر فلسطینی ریاست کہاں ہوگی ؟ ‘‘
بدیہی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا غزہ کی پٹی سے انخلا فلسطینی ریاست کے قیام کو التوا میں ڈالنے کے لیے کیا جا رہا ہے ؟ کیا یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ڈالنے والی بات نہیں کہ مغربی کنارے کے چار لاکھ یہودی آباد کاروں سے آنکھیں بند کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کے آٹھ ہزار آباد کاروں کے انخلا کو فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف جرات مندانہ اہم قدم سمجھا جائے۔ موجودہ صورتِ حال میں Demographic Balance اسرائیل کے حق میں ہے ۔اسرائیلی وزیر دفاع کے مطابق غزہ کی پٹی کے ساتھ سیکورٹی زون قائم کیاجائے گا۔ اس سیکورٹی زون میں یورپی یونین کی فوج کی تعیناتی کی بات چل رہی ہے ۔ یورپی یونین کی ابھرتی ہوئی طاقت دیکھتے ہوئے اب اسرائیل شاید امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں توازن رکھنا چاہ رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ غزہ سے انخلا کے باوجود اس علاقے پر اسرائیل کا تزویراتی کنٹرول باقی رہے گا ۔ ایریل شیرون یہ بات بھی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ یروشلم تقسیم نہیں ہو گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر مغربی یروشلم فلسطینی ریاست کا دارالحکومت کیسے بنے گا ؟ شیرون مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں سے بھی پسپائی اختیار کرنے کو تیار نہیں۔کثیر الاشاعت عبرانی اخبار ’’ یدیعوت احرنوت ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق غزہ سے انخلا ہی بہت بڑا زخم ہے اور اسرائیل آئندہ کسی علاقے سے دستبردار نہیں ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل کا ایک اعلیٰ فوجی افسرجنرل عودید تیرہ اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتا ہے کہ ’’ غربِ اردن ‘‘ کے بارے میں اسرائیل کا موقف وہی ہے جو 1967 میں اس پر قبضے کے وقت تھا ۔ عودید کے مطابق غربِ اردن کی اسرائیل کے لیے علیحدہ سے دفاعی اہمیت ہے لہٰذا اسرائیل کسی ایسے منصوبے پر غور نہیں کرے گا جس سے اس کے دفاع میں کمزوری آتی ہو ۔ ایریل شیرون اور عودید کے بیانات سے یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں رہتی کہ فلسطینی مزاحمت کی وجہ سے ہی اسرائیل غزہ کی پٹی چھوڑ رہا ہے ۔ اندریں صورت حماس جیسی تنظیموں کا یہ کہنا کہ موجودہ انخلا مکمل آزادی کی طرف پہلا قدم ہے اور ہم مکمل آزادی تک لڑتے رہیں گے ، درست معلوم ہوتا ہے۔
پاکستان / اسرائیل روابط کی تاریخ
جہاں تک پاکستان کے اسرائیل سے روابط کا تعلق ہے، یہ دو چار روز کی بات نہیں بلکہ نصف صدی کا قصہ ہے ۔ بانی پاکستان محمد علی جناح ؒ کواسرائیل کی طرف سے تسلیم کر لینے کی درخواست موصول ہوئی ۔ پاکستان کے پہلے وزیرِ خارجہ ظفر اللہ (جو قادیانی تھے) تقسیم ہند سے قبل فلسطین کی تقسیم کو غیر قانونی اور عربوں کے ساتھ نا انصافی خیال کرتے تھے ۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد ظفر اللہ نے بھی پنیترہ بدلا اور عربوں کو عملیت پسند (Pragmatic) ہونے کا مشورہ دیا ۔ ایک وقت میں یہ قیاس آرائیاں بھی شروع ہو گئیں کہ پاکستان ،انڈیا کی مخالفت میں انڈیا پر سبقت لے جاتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والا ہے ۔ان دنوں قاہرہ میں پاکستانی وزیرِ خارجہ نے بیان دیا کہ عربوں کواسرائیل سے اپنے معاملے پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔ اس کے نتیجے میں اپریل 1952 میں ظفراللہ اور واشنگٹن میں اسرائیلی سفیر Abba Eban کے درمیان ایک اعلیٰ سطحی نشست ہوئی۔ اس کے بعد جنوری 1953 میں ایک اور ملاقات کا اہتمام کیا گیا ۔ 1956 کے نہر سوئز کے بحران میں پاکستان تیسری دنیا کا غالباً سب سے اہم ملک تھا جس نے عوامی خواہشات کے بر عکس مصر کے بجائے مغربی طاقتوں کا ساتھ دیا۔ اسرائیل کے ہاتھوں جمال ناصر کی حواس باختگی پر پاکستانی سفارت کار نجی محفلوں میں خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ اوٹاوہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر مرزا عثمان علی نے اسرائیلی سفارت کار کوکچھ یوں مبارک باد دی:
''Wonderful show! Your splendid little army put up in beating the Egyptian.''
’’زبردست! آپ کی شاندار فوج مصریوں کو شکست دینے میں ثابت قدم رہی۔‘‘
اور پھر عثمان صاحب نے افسوس کا بھی اظہار کیا کہ اگر برطانوی اور فرانسیسی مداخلت نہ ہوتی تو اسرائیلی فوج قاہرہ میں مارچ کر رہی ہوتی۔ جنرل ضیاء الحق، جنہیں اپنے ’’ امیر المومنین ‘‘ ہونے کا بہت زعم تھا ، 1970 میں فلسطینی مجاہدین کے خلاف اردنی حکومت کی شدید فوجی کارروائی میں بطور بریگیڈےئر شریک تھے۔ اس کارروائی کو بعد میں Black September Massacre of 1970 کا نام دیا گیا ۔ ظاہر ہے یہ عمل اردن کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے بھی مفاد میں تھا کیونکہ یہودی لیڈر ہر اس کارrوائی کے حامی تھے جس سے پی ایل او کمزور ہوتی اور فلسطین کاز کوزیادہ سے زیادہ نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ۔ شاہ حسین نے ’’ گراں قدر خدمات ‘‘ کے اعتراف میں ضیاء الحق کو خوب نوازا۔ عربوں سے الگ راہ اپنا کر مصرنے اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کیا تھا جس کی وجہ اسے عرب لیگ ( جس کا وہ بانی ممبر تھا ) اور او آئی سی سے نکال دیا گیا تھا - 1984 میں او آئی سی کی سربراہی کانفرنس منعقدہ کاسا بلانکا میں جنرل ضیاء الحق نے بڑی مہارت سے مصر کے حق میں راہ ہموار کی۔ اس کے بعد مصر کے لیے اسلامی دنیا کے دروازے کُھل گئے ۔ ظاہر ہے یہ ایک بڑی پیش رفت تھی کہ کوئی اسلامی ملک اسرائیل کے ساتھ دیرینہ مراسم رکھتے ہوئے بھی اسلامی بلاک میں رہ سکتا ہے ۔ جنرل ضیاء الحق کا یہ عمل، بالواسطہ ہی سہی، واضح طور پر پاکستان / اسرائیل رابطے کا غماز ہے اور طرفین کے نرم رویوں کا آئینہ دار بھی۔
بیسویں صدی کے آخری عشرے میں سرد جنگ کے خاتمے، بھارت اسرائیل سفارتی تعلقات اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی سے اسرائیل کے ساتھ روابط کا ایک نیا دور آیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف ، دونوں نے کئی بار اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان مخصوص حالات میں اپنی اسرائیل پالیسی پر نظر ثانی کر سکتا ہے ۔ بیگم عابدہ حسین نے، جو امریکہ میں پاکستان کی سفیر تھیں، اسرائیل سے مکالمہ کرنے پر زور دیا ۔ ان دنوں اقوامِ متحدہ کے مشن میں پاکستانی نمائندے نے ایک ایسے سفارتی استقبالیہ میں شرکت کی جس کا میزبان نیویارک میں متعین اسرائیلی سفیر تھا ۔پاکستانی وزیرِ خارجہ سردار آصف احمد علی اوران کے اسرائیلی ہم منصب شمعون پیریز کے درمیان بھی خفیہ روابط قائم رہے ۔ محترمہ بے نظیربھٹو نے اسرائیل سے معاملات طے کیے بغیر اگست 1994 میں فلسطینی اتھارٹی کے تحت غزہ کی پٹی میں جانے کی کوشش کی تو اسرائیلی وزیرِ اعظم نے کہا:
''The lady from Pakistan should be taught some manners.''
’’اس پاکستانی خاتون کو کچھ آداب واطوار سکھائے جانے چاہییں۔‘‘
اس کے باوجود چند ہفتوں بعد ہی پاکستان Arava میں اسرائیل/ اردن امن معاہدے کی تقریب میں شریک تھا۔ نومبر1995 میں اسحاق رابن کے قتل پر ایسی تمام دہشت گرد کارروائیوں کی پاکستان نے سرکاری سطح پر مذمت کی ۔ محترمہ بے نظیر نے تو رابن کے قتل اور ضیاء الحق کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی میں مشابہت تلاش کرنے کی بھی کوشش کی ۔ جنوری 1996 میں ایک ممتاز اسرائیلی روز نامہYediot Ahronot کو انٹر ویو دیتے ہوئے محترمہ نے کہا کہ امن کے عمل میں پیش رفت اور دوسرے عرب ممالک کی رضا مندی سے پاکستان اپنی پالیسی تبدیل کر سکتا ہے ۔ محترمہ نے اسرائیل اور امریکہ میں اس کے دوستوں کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے F-16 کی سپلائی کی بحالی اور اسلحہ کی پابندی ختم کرانے میں پاکستان کی مدد کی ۔مئی 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد اسرائیل نے پاکستان کو ذمہ دار ملک قرار دیا اور توقع ظاہر کی کہ پاکستان اسے کسی Third Country or Entity کو منتقل نہیں کرے گا ۔ غالباً Entity کا لفظ اسرائیل Palestinian Entity کے تناظر میں استعمال کرتا ہے ۔ان دنوں پاکستانی وزرا اسرائیلی ٹیلی ویژن پر خدشات دور کراتے پائے گئے ۔ اسرائیل نے بھی پاکستانی بم کو جنوب ایشیائی حوالے سے دیکھا اور اس کے دفاعی ماہرین نے اسے اسلامی بم کی بجائے چینی بم قرار دیا۔ انہی دنوں اسرائیلی میڈیا نے انکشاف کیا کہ پاکستان سے باقاعدہ تعلقات نہ ہونے کے باوجود ، سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کے زمانہ عروج میں اسرائیل اسلام آباد میں مستقلاً موجود رہا ۔ جنرل پرویز مشرف نے جون2003 میں پاکستانیوں سے کہا تھا کہ:
''We should not overreact on this issue. We should give serious consideration. It is a very sensitive issue. We fought three wars with India but still had diplomatic relations.''
’’ہمیں اس مسئلے پر ضرورت سے زیادہ رد عمل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ یہ ایک بہت حساس معاملہ ہے۔ ہم نے بھارت سے تین جنگیں لڑی ہیں، لیکن اس کے باوجود ہمارے مابین سفارتی تعلقات بھی قائم رہے ہیں۔‘‘
جنرل پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اسرائیل سے کبھی کوئی جنگ نہیں ہوئی ۔ اگر انڈیا سے تعلقات قائم رہ سکتے ہیں تو اسرائیل سے تعلقات قائم کیوں نہیں کیے جا سکتے ؟ جرمن ہفت روزہ Der Spiegel سے بات کرتے ہوئے جنرل پرویز نے اسرائیلی وزیرِ اعظم شیرون کے بارے میں کہا تھا: A great soldier and a courageous leader ( ایک عظیم سپاہی اور جرات مند لیڈر) ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم جناب شوکت عزیز نے بھی اس سال جنوری میں ورلڈ اکنامک فورم ڈیوس میں اسرائیلی ڈپٹی وزیرِ اعظم شمعون پیریز سے ہیلو ہائے کی ۔ حال ہی میں پاکستانی اور اسرائیلی وزراے خارجہ نے انقرہ میں با ضابطہ ملاقات کی ہے۔ جنرل پرویزمشرف نے امریکہ کے حالیہ دورے کے دوران میں اسرائیلی وزیرِ اعظم شیرون سے مصافحہ کرنے کے علاوہ جیوش نیشنل کانگرس سے خطاب بھی کیا۔
جنوبی ایشیامیں پاک بھارت کشمکش اور اسرائیل
جنوبی ایشیا میں پاک بھارت کشمکش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دونوں ممالک میں اب تک تین باقاعدہ جنگیں ہو چکی ہیں ۔1971 کی جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ، بنگلہ دیش بن گیا ۔ ان جنگوں کے علاوہ چھوٹی موٹی جھڑپیں بھی تاریخ کا حصہ ہیں اور حالتِ جنگ(State of War) کی نوبت بھی کئی بار آئی ہے ۔ بھارت نے پاکستان سے معاندانہ تعلقات کے باوجود اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں عربوں کو ناراض کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی ۔ 1956 کے نہر سوئز بحران میں بھارت نے امریکی تجاویز کو رد کرتے ہوئے کھلم کھلا مصر کا ساتھ دیا تھا۔ سوئز کو قومیانے سے مصر کا جمال ناصر عرب دنیا کا لیڈر بن کر ابھرا تھا، ایسے میں پاکستان کا معذرت خواہانہ رویہ اور بھات کا دو ٹوک موقف پاکستان کی رسوائی کا سبب بنا ۔ جب پی ایل او قائم کی گئی تو بھارت پہلی غیر عرب ریاست تھی جس نے اسے تسلیم کیا اور پوری طرح سپورٹ کیا ۔ عربوں کی طرف بھارت کے واضح جھکاؤ کے باوجود اسرائیل بھارت کو کیسے دیکھ رہا تھا؟ اس کا اندازہ جون 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد بننے والے اسرائیلی وزیرِ اعظم بن گوریان کی Sorbone (پیرس) میں تقریرسے ہوتا ہے ۔ اس کی ایک جھلک 19 اگست 1967 کے برطانوی ہفت روزہ The Jewish Chronicle کے اس اقتباس میں دیکھی جا سکتی ہے:
’’ عالمی صیہونی تحریک کو پاکستان کے خطرہ سے غافل نہیں رہنا چاہیے ۔ اب پاکستان اس کا پہلا نشانہ ہونا چاہیے ، کیونکہ یہ نظریاتی ریاست ہمارے وجود کے لیے ایک چیلنج ہے ۔ پاکستان یہودیوں سے نفرت اور عربوں سے محبت کرتا ہے ۔ عرب ہمارے لیے اتنے خطرناک نہیں ہیں جتنا عربوں کے ساتھ محبت کرنے والا پاکستان خطرناک ہے ۔ اس خطرے کے پیشِ نظر صہیونیت کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوری قدم اٹھائے ۔اس کے بر خلاف ہندوستان کے ہندو تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں سے نفرت کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف جدوجہد کرنے اور تحریک چلانے کے لیے ہندوستان ہی ہمارے لیے سب سے اہم Base ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اسے استعمال کریں اور بھیس بدل کر یا خفیہ پلان کے ذریعے یہیں سے یہودیوں اور صہیونیت سے نفرت کرنے والے پاکستانیوں پر کاری ضرب لگائیں اور انہیں فنا کر دیں‘‘۔
اسرائیلی موقف میں یہ سختی شاید اس لیے آئی کہ اس سے قبل پاکستان کے اسرائیل سے روابط معمول کے تھے اور سفارتی تعلقات قائم ہونے کی بھی توقع تھی ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فلسطین پالیسی واضح ہوتی چلی گئی جس میں اسرائیل کو دیوار سے لگا دیا گیا تھا ۔ پاکستان میں عوامی سطح پر فلسطین تحریک کو ، جو در حقیقت قوم پرستی پر مبنی تھی ، اسلامی زاویے سے لیا جا رہا تھا۔ خیال رہے، ماضی میں بھارت اسرائیل تعلقات خیر سگالی پر مبنی نہیں رہے ۔1966 میں جب اسرائیلی صدر Shazar کا جہاز نیپال جاتے ہوئے غیر متوقع طور پر کلکتہ میں ایندھن لینے اترا اور اسرائیلی صدر نے رات کلکتہ میں ٹھہرنے کا عندیہ دیا تو بھارت سرکار نے صاف انکار کر دیا اور کسی افسر کو استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہ بھیجا ۔ اسرائیل سے لاتعلقی کی بھارتی پالیسی اس وقت مزید کھچاؤ کا شکار ہو گئی جب 1975 میں بھارت نے اقوامِ متحدہ کی ایک قراردادکے حق میں ووٹ دیا جس کے مطابق صیہونیت اور نسل پرستی کو مساوی قرار دیا گیا تھا ۔
بہر حال، یہ بھار ت کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو تھے جنھوں نے اسرائیلی ریاست کی de jure حیثیت تسلیم کر لی تھی۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات قائم رہے اور 1953 سے ممبئی میں اسرائیلی کونسلیٹ کام کرتا رہا جبکہ اسرائیل میں بھارت نے اپنا کونسلیٹ نہ کھولا۔ کانگرس پارٹی کے سرد رویے سے خائف ہو کربھی اسرائیل نے بھارت سے دیرینہ مراسم قائم کرنے کی جدوجہد ترک نہ کی۔ 1977 میں جب پہلی غیر کانگرس حکومت ( جنتا پارٹی ) قائم ہوئی تو اس وقت کے اسرائیلی وزیرِ خارجہ موشے دایان نے اگست1977 میں بھارت کا خفیہ دورہ اس امید کے ساتھ کیا کہ اب اسرائیل کو عربوں کے خلاف بھارت کی سفارتی سپورٹ مل جائے گی، لیکن موشے دایان کو ناکام لوٹنا پڑا ، کیونکہ ابھی سوویت یونین( جو اسرائیل مخالف تھا ) پورے دم خم میں تھا اور بھارت کے اس کے ساتھ تزویراتی مفادات وابستہ تھے۔ اس وقت اٹل بہاری واجپائی بھارت کے وزیرِ خارجہ تھے۔ انھوں نے واضح الفاظ میں موشے دایان سے کہہ دیا کہ عربوں کے حقوق کی بازیابی تک بھارت ، اسرائیل کے ساتھ تعاون اور سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا۔ 80 کے عشرے میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت پر پاکستان کو اسلام کے نام پر عربوں کی امداد پاتے دیکھ کر بھی اس وقت کی بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے فلسطین کاز کی حمایت جاری رکھی، لیکن عربوں کو خبردار کیا کہ افغانستان میں مقدس جنگ کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس سے بالآخر جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطی کے خطے عدم استحکام کا شکار ہو جائیں گے ۔
جنوری 1992 میں بھارت نے اسرائیل سے’’ سفارتی تعلقات‘‘ قائم کیے تو پاکستان کے مقتدر حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ۔ بھارت نے یہ دیکھتے ہوئے کہ سوویت یونین کی طاقت پارہ پارہ ہو چکی ہے اور دنیا میں unipolar system رائج ہو چکا ہے ، فوراً اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی اور ایک تو براہ راست امریکہ سے قربت کی پینگیں بڑھائیں اور دوسرا اسے خوش کرنے کے لیے ( اور امریکہ میں یہودی لابی کے بے پناہ اثرات دیکھتے ہوئے ) اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے میں دیر نہیں لگائی ۔ غالباً بھارتی پالیسی سازوں نے بھانپ لیا تھا کہ عرب اسرائیل کشمکش مفاہمت کی طرف بڑھ رہی ہے کیونکہ بھارت کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعد ہی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان اوسلو معاہدہ ہو گیا۔بھارت کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے میں عربوں نے بھی بالواسطہ اہم کردار ادا کیا ۔ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے بعد ایسے عرب مجاہدین جو افغانستان میں تھے ، پاکستان کے کشمیر کازکی حمایت میں کشمیر چلے آئے ۔ اب بھارت کے سامنے واضح راستہ تھا کہ ایک تو سوویت یونین ٹوٹ چکا ہے، دوسرے عرب مجاہدین پاکستان کی حمایت میں باقاعدہ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اس لیے آپشن صرف ایک ہی ہے کہ اسرائیل سے تعلقات استوار کیے جائیں تاکہ جنوبی ایشیا میں عرب فیکٹر کو بیلنس کیا جا سکے۔بین الاقوامی میڈیا نے بھارتی پالیسی کو پاکستان کی سفارتی ناکامی پر محمول کیا ۔1998 میں بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے سے بھارت اسرائیل تعلقات میں گرم جوشی آئی ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسرائیل نواز بھارتی پالیسی کے باوجود مشرقِ وسطی میں بھارتی مفادات پر کوئی ضرب نہیں لگی ۔ غالباً اس کی وجہ عربوں کی داخلی سیاست میں مسئلہ فلسطین کی مسلسل زوال پذیر اہمیت ہے ۔ 2000 میں فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھانے پر بھارت کی بائیں بازو کی جماعتوں نے اسرائیل نواز بھارتی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی ، تل ابیب سے سفیر واپس بلانے کا مطالبہ کیا اور اسرائیلی سفیر کو بھارت سے نکالنے کے لیے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالا۔ اسرائیل مخالف ، کمیونسٹوں کی آواز پر کان نہیں دھرا جا رہا ۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد بھارت نے اپنے تزویراتی مفادات( Strategic Interests ) اسرائیل سے وابستہ کر لیے ہیں ۔ ستمبر 2003 میں شیرون نے بھارت کا متنازعہ دورہ کیا تو عالمی سطح پر ہلچل مچ گئی ۔ یاسر عرفات کی وفات کے بعد اس کی آخری رسومات میں بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ اور کانگرس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی کی عدم موجودگی کو اسرائیل کی طرف بھارت کے واضح جھکاؤ پر محمول کیا گیا۔ یاسر عرفات کی وفات سے صرف اسرائیل عرب تعلقات میں ہی تبدیلی نہیںآئی بلکہ فلسطینیوں اور عربوں کے تعلقات بھی از سرِ نو ترتیب پا رہے ہیں ، جس سے بھارتی حکومت کو اسرائیل سے دوطرفہ تعلقات قائم کرنے میں مزید سہولت مل گئی ہے ۔ 2004 میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان Phalcon spy planes کی فراہمی کا معاہدہ ہوا ، جسے پاکستان نے روکنے کی ناکام کوشش کی۔ یہ معاہدہ اس اعتبار سے بھی اہم تھا کہ امریکہ نے اسرائیل کو انہی طیاروں کی چین کو فراہمی سے روک دیا تھا ۔ اس تناظر میں مبصرین نے بھارت اسرائیل اور امریکہ کو عالمی سیاست میں ایک نئی ٹرائیکا قرار دیا ۔ بھارت اس وقت اسلحہ درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اسرائیل کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ بھی ۔ ان کے مابین اسلحہ ڈیل 2.8 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہے ۔ دونوں ممالک انٹیلی جینس معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں ۔ اسرائیل کے دفاعی ماہرین نے بھارتی سیکورٹی فورسز کی تربیت بھی کی ہے جو پاکستان کے خلاف کشمیر میں نبرد آزما ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل ، کشمیر میں بھارتی پوزیشن کی پوری حمایت کرتا ہے ، جبکہ پاکستان کشمیر کو ہی بھارت کے ساتھ مخاصمت کی بنیادی وجہ قرار دیتا ہے ۔ ایسے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات پاکستان کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں ؟ ہاں، اگر پاکستان نے اپنی کشمیر پالیسی پر بھی یو ٹرن لے لیا ہے تو پاک اسرائیل تعلقات میں معنویت بآسانی تلاش کی جا سکتی ہے ۔
پاک / اسرائیل تعلقات میں مذہبی سوال
بعض حلقے اسرائیل / پاکستان روابط کو مذہبی تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ ان کے نزدیک اسرائیل سے رابطے قائم کرنا مذہبیات کے خلاف ہے۔ ایسے حلقے قرآن مجید کی کچھ آیات اپنے موقف کی تائید میں پیش کرتے ہیں ۔ مثلاً:
’’ اے ایمان والو ! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ ۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے خلاف اللہ کو کھلا ثبوت دے دو؟ ‘‘ ( النساء : ۱۴۴)
’’ اے ایمان والو ! تم یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناؤ۔ وہ ( آپس میں ) ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ اور جو کوئی تم میں سے ان کو دوست بنائے گا، وہ بلا شبہ انھیں میں سے ہو جائے گا ۔ بلاشبہ اللہ ظالم لوگوں کی راہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘ ( المائدہ : ۵۱)
ہم گزارش کریں گے کہ قرآن مجید کی ایسی تمام آیات میں خدائی منشا بہت واضح ہے ، لیکن ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ایک تو ان آیات میں کفاراور یہود و نصاریٰ کو ’’ دوست ‘‘ بنانے سے منع کیا گیا ہے اور دوسرا وہ بھی ایسی دوستی جو مسلمانوں کے خلاف ہو ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیل سے رابطے قائم کرنے میں ’’ دوستی ‘‘ کا عنصر شامل نہیں ہے اور یہ رابطے مسلمانوں کے خلاف ہر گز نہیں ہیں کیونکہ مسلم دنیا کے اسرائیل کے ساتھ پہلے سے روابط قائم ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسرائیل کے ساتھ روابط کا تعلق عقیدے یا ایمانیات سے نہیں ہے، بلکہ اس کی جڑیں خارجہ پالیسی کی مابعد الطبیعات میں پیوست ہیں۔
اسرائیل کئی برسوں سے پاکستان کے ساتھ روابط کا خواہاں ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے اب تک اس وجہ سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کیے کہ اسرائیل نے عربوں کے بہت سے علاقے ہتھیا رکھے ہیں، اور چونکہ یہ صورت حال آج بھی برقرار ہے، اس لیے ایک غاصب کی طرف سے تعلقات کی پیش کش کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ہم عرض کریں گے کہ بین الاقوامی سیاسی تعلقات کی اصل بنیاد اس طرح کے اخلاقی اصولوں پر نہیں ہوتی، بلکہ ان کا حوالہ کسی سیاسی پالیسی کو محض اضافی جواز فراہم کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ یہ خالصتاً خارجہ پالیسی کا داؤ پیچ تھا تاکہ اسرائیل پر دباؤ ڈالا جاسکے ۔ اب اگر معروضی حالات نئے داؤ پیچ کے متقاضی ہیں تو ہم اس سے محترز نہیں ہو سکتے۔
پاکستان / اسرائیل روابط کے سلسلے میں مذہبی سوال اٹھاتے وقت ہمیں یہ تاریخی حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ خود عربوں نے، بشمول فلسطینیوں کے، اپنے ’’ قومی حقوق ‘‘ پانے کے لیے ترکوں کی مخالفت میں اسلامی پہلو کا لحاظ نہیں رکھا تھا اور انگریزوں کا ساتھ دیاتھا ۔عربوں کے اسی کردار کی وجہ سے اسرائیلی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوئی اور عرب / اسرائیل مسئلہ پیدا ہوا ۔ یہ عرب ہی ہیں جنھوں نے اسلامی دنیا کی وحدت کی علامت ’’ خلافت ‘‘ کے ادارے کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا۔ یہ عجیب تضاد ہے کہ آج عرب اور فلسطینی اپنے حقوق کے حصول کے لیے اسی ’’ وحدت ‘‘ کو تلاش کر رہے ہیں ۔ آج اگر مسلم دنیا عربوں اور فلسطینیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونے سے قاصر ہے تو اس کی وجہ ’’ قومی مسائل ‘‘ ہیں جن سے مسلم ریاستیں بر سر پیکار ہیں ۔
حاصل مطالعہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل ، فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سنجیدہ نہیں ہے ۔ تمام عرب مقبوضات کے پیشِ نظر ، غزہ سے اس کاانخلا اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے ۔ لیکن مسئلہ فلسطین کا اونٹ آخر کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے ۔ آج اسے جس کروٹ بٹھایا جا رہا ہے، وہ بلاشبہ اسرائیل کے مفاد میں ہے لیکن اس کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری ہم مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ 1948-49 میں اگر واقعیت پسندی کا مظاہرہ کیا جاتا اور اسرائیل کو تسلیم کر لیا جاتا تو یروشلم ، مغربی کنارے کا علاقہ اور غزہ کی پٹی بدستور فلسطین کے قبضے میں ہوتے ۔ ان علاقوں کو اسرائیلی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے کئی سالوں سے جو جدوجہد ہو رہی ہے، اس کی نوبت ہی نہ آتی ۔ 1948 سے لے کر اب تک اگر اسرائیلی ریاست قائم ہے اور اس کی قوت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اسرائیل کو کارنر کرنے کی ہماری پالیسی بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ اسرائیل کا قیام عالمی طاقتوں کے ہاتھوں عمل میں آیا ہے اور اس کی بقا اور قوت کے پیچھے بھی وہی طاقتیں کارفرماہیں ۔ ایک محدود آبادی والے چھوٹے سے ملک کو ساری مسلم دنیا مل کر بھی ہڑپ کیوں نہ کر سکی ؟ کیا اس کی وجہ یہی نہیں کہ ہمارا اصل مقابلہ صرف اسرائیل کے ساتھ نہیں بلکہ اس کی پشت پناہی کرنے والی طاقتور ریاستوں سے بھی ہمیں نبرد آزما ہو نا ہے۔ کیا ہم کبھی اس قابل ہوئے ہیں کہ ہتھیاروں کی اپنی سپلائی لائن کے ساتھ ان طاقتوں کو چیلنج کر سکیں؟ ہم اکثر اوقات دیکھتے ہیں کہ کوئی چڑیا دانہ ڈالے جانے پر فوراً ہی اس پر نہیں جھپٹتی۔ وہ شروع میں بہت محتاط انداز میں دانوں کی طرف بڑھتی ہے ۔ دانہ چگنے کے دوران یہ احساس ہو جانے کے باوجود کہ اب سر پر کوئی خطرہ نہیں ، وہ غافل نہیں ہوتی اور ادھر اُدھر نظریں دوڑاتی رہتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ غزہ سے اسرائیلی انخلا کا دانہ چگنے میں کوئی مضائقہ نہیں ، البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہم غافل نہ ہوں۔عسکریت کی ایک اپنی کیمسٹری ہوتی ہے اور خارجہ پالیسی کی اپنی ایک ما بعد الطبیعیات ہے اور وہ وہی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے ۔ ہمیں اسی کی پیروی کرنی چاہیے ۔
1990کی دہائی میں صورتِ حال 1948-49 والی تھی ۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے ساتھ ہی دوقطبی نظام ختم ہوگیا اور یک قطبی نظام ابھر کر سامنے آیا۔ بھارت نے فوراً اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی اور سوویت یونین کی زندگی میں اس کی وفادار ی کا دم بھرتے ہوئے اس سے مفاد اٹھانے والا اس کے خاتمے سے بھی فوائد سمیٹ گیا۔ یہی خارجہ سیاست کا بنیادی اصول ہے ۔ شخصی اخلاقیات، قومی معاملات میں پوری طرح لاگو نہیں کی جاسکتی۔ کوئی شخص نقصان اٹھا کر بھی اپنے دوست کا وفادار رہ سکتا ہے، لیکن ریاست کے لیے ایسا ممکن نہیں ہوتا ۔ آج پاکستان میں اسرائیل کے حوالے سے جو بحث ہو رہی ہے، ہماری رائے میں اس کا آغاز سوویت یونین کے خاتمے کے فوراً بعد ہو جانا چاہیے تھا ۔ ہمیشہ کی طرح ہم اس بار بھی واقعات کی رفتار سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ایران جیسے ملک نے بھی، جس کے بھارت کے ساتھ گہرے مراسم ہیں اور وہ اسرائیل کے شدید خلاف ہے ، بھارت / اسرائیل گٹھ جوڑ پر بھار ت سے احتجاج نہیں کیا۔ عالمی اور علاقائی سیاست میں تبدیلی آنے کے بعد بھارت کے یہ انداز و اطوار ایران کے لیے قابلِ فہم ہو گئے ہیں۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ درحقیقت ایران نے بھی اسرائیلی ریاست کے بارے میں پہلے کے سے رومانوی رویے کے بجائے ٹھوس حقائق کی روشنی میں معتدل راہ اپنائی ہے ۔ یقیناً امریکہ ، اسرائیل اور بھارت پر مشتمل ٹرائیکا کے تینوں ممالک سے بگاڑ رکھنا ایران کے مفادمیں نہیں تھا ۔ اندریں صورت بھارت پر ایرانی دباؤ ایران کے مفادات کے خلاف ہوتا۔ ایران کا یہ کہنا کہ روس، چین اور پاکستان مشترکہ کوشش سے عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کو ٹریک پر لا سکتے ہیں، کچھ ایسا بھی غلط نہیں تھا، لیکن روس اور چین کے بدلتے ہوئے موقف کے باعث ایران کی توقعات نہیں ہوئیں اور بھارت نے تو ایٹمی تنازع پر واضح طور پر امریکا کی حمایت میں ایران کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ اس کے باوجود ایران بھارت مراسم تناؤ کا شکار نہیں ہوئے۔ بھارت کے ائر چیف مارشل ایس پی تائیگی کے مطابق اس سال نومبر میں بھارتی فضائیہ امریکی فضائیہ کے ساتھ ’’ مقبوضہ کشمیر ‘‘ میں مشترکہ فضائی مشقیں کرے گی ۔ مقبوضہ کشمیر میں ہی برطانوی فضائیہ کے ساتھ مشترکہ مشقیں نئے سال کے شروع میں ہوں گی ۔ بھارت / امریکہ دفاعی و ایٹمی معاہدہ ہو چکا ہے ۔اگست میں روس / چین جنگی مشقیں ہوئیں ۔ یورپی یونین میں داخلی کشمکش اور Old Europe, New Europe کی بحث نے امریکہ کے لیے ممکن بنایا ہے کہ وہ یورپی یونین کو علاقائی طاقت کے طور پر ابھرنے سے روک سکے ۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں لیکن اس مختصر سے تعارف سے عالمی سیاست کی نئی صف بندی کے متوقع خط و خال نمایاں ہو جاتے ہیں۔ یک قطبی نظام (Unipolar System)م یں ضعف کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں ۔ امریکی قیادت کی دھول بیٹھنی شروع ہو گئی ہے اور Power Vacuum کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں ۔ ایک طویل المیعاد کثیر قطبی نظام ( Multipolar System ) ظہور پذیر ہے ۔ اس نظام میں یورپی یونین ، رشین فیڈریشن ، امریکی فیڈریشن کی نئی ہیئت، بھارت اور چین طاقت کے مختلف منطقوں کی نشاندہی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں ہمارے لیے ایک پیغام موجود ہے ۔
یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ امن معاہدے امن قائم نہیں کرتے ، اگرچہ وہ اس بات کی علامت ضرور ہوتے ہیں کہ ’’فی الحال ‘‘ امن قائم ہو گیا ہے۔ روسیوں کی ایک پرانی ضرب المثل ہے کہ ’دائمی امن صرف اگلے برس تک ہی قائم رہتا ہے‘۔ ایک اندازے کے مطابق 1500 قبل مسیح اور 1860 کے درمیانی عرصہ میں امن کے 8000 معاہدے ہوئے ۔ ہر معاہدے کو ہمیشہ کے لیے نافذ اور دائمی امن کا ضامن تصور کیا گیا ، لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ یہ معاہدے اوسطاً دو برس سے زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکے۔موجودہ عہد کی معروف مصنفہ کیرن آرم سٹرانگ اپنی کتاب Holy War میں لکھتی ہیں کہ:
’’جب صدر جمی کارٹر ، وزیرِ اعظم میناحم بیجن اور صدر انور سادات نے 1979 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کیے تھے تو ہم میں سے بیشتر لوگوں نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ عرب اسرائیل مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ تاہم اب ہمیں ادراک ہو گیا ہے کہ ہم غلطی پر تھے۔ ۔۔۔۔یہ مسئلہ عام علاقائی معاہدوں سے حل نہیں ہو سکتا ، اس میں بہت گہرے مذہبی جذبات ملوث ہیں جنہوں نے ایک ملک میں مل جل کر رہنے کو نا ممکن بنا دیا ہے ۔۔۔۔‘‘
اگر اوپر کی سطریں قارئین کے ذہن میں تازہ ہیں تو وہ یقیناًنہیں بُھولے ہوں گے کہ عربوں کے تین مشہور ’’ نہیں ‘‘ اوراسرائیلی تہیہ پارٹی کے تین اصول دو انتہاؤں کے غماز ہیں۔ایسی تشویش ناک صورتِ حال میں امن کے عارضی معاہدے بھی آس کی کرن بن کر کسی نہ کسی راستے کی نشاندہی ضرور کرتے رہتے ہیں ۔ ہمیں ایسی کرنوں کی قدر کرنی چاہیے ۔
ایک اندازے کے مطابق 1500 قبل مسیح اور 1860 کے درمیان معلوم دنیا میں جنگ اور امن کے برسوں کی شرح 1:13 رہی ، یعنی جنگ کے تیرہ برسوں کے مقابلے میں امن کا صرف ایک سال ۔ 1820 اور 1970 کے درمیان دنیا کی بڑی اقوام ہر بیس سال میں اوسطاً ایک مرتبہ جنگ میں ملوث ہوئیں ، یعنی فی پشت ایک بار ۔ ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف کر لینا چاہیے کہ دنیا میں دائمی امن کبھی قائم نہیں گا ۔ ایسی امید صرف اسی وقت کی جا سکتی ہے جب سائنس موت کو شکست دینے کے قابل ہو جائے۔ موت میں تاخیر ایک الگ بات ہے اور موت کی موت ایک بالکل جداگانہ تصور ہے ۔ اگر سائنس موت کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ اس نے زندگی کے اسرار و رموز تک رسائی پا لی ہے ۔ پھر ان اسرار و رموز کی شناسائی کے طفیل ہی وہ انسانی نفسیات میں بنیادی تبدیلی لا کر انسانی زندگی میں جنگ کے عنصر کو مکمل طور پر ختم کر سکے گی ۔ ہم یہ کہہ کر ’’ انسان دوست ‘‘ سیکولر حلقوں کو پھبتی کسنے کا موقع نہیں دینا چاہتے کہ ایسا ہونا نا ممکن ہے ۔ ہم تو ان سے درخواست کریں گے کہ وہ ’’انسان دوستی ‘‘ کے نام پر اپنے انسانیت سوز تجربات جاری رکھیں کہ بقول شخصے ہر چیز کی انتہاسے اس کی نفی ہو جاتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موت کی موت کے لیے زندگی پر قابو پانا پہلی شرط ہے ۔ ہمیں اپنی محدود زندگی پر کتناقابو حاصل ہے، یہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ پھر لامحدود زندگی پانے کے بعد ہمارا اس پر کتنا کنٹرول ہو گا ، یہ ہمیں ضرور سوچنا چاہیے ۔ لا محدود زندگی کی لاحاصل تگ و دو کرنے کے بجائے اگر ہم اپنی محدود زندگی پر ہی کنٹرول حاصل کرنا سیکھ لیں تو دیر پا امن قائم ہو سکتا ہے، اگرچہ دائمی نہ سہی ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امن کی عمر غالب فریق کے اخلاقی رویے پر منحصر ہوتی ہے ۔ اگر دنیا میں امن کی مدت قلیل رہی ہے تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ غالب فریق اکثر اوقات غیر اخلاقی رویے کا مظاہرہ کرتا رہا ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ اسرائیلیوں اور دیگر سامراجی قوتوں کے پاس عسکری و اقتصادی طاقت ہونے کے باوجود ایسی اخلاقی قوت کی انتہائی کمی ہے جو دیرپا امن کی ضامن بن سکے ۔وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے جب اسرائیل خود ہی موجودہ امن روڈ میپ کی دھجیاں بکھیر دے گا ۔ غالب قوتوں کا اخلاقی انحطاط ہمیں بارہا ایسے مواقع فراہم کرے گا کہ ہم ٹیبل کے بجائے میدان کا رخ اختیار کریں ۔ ہمیں ایک بڑی جنگ لڑنی ہے ۔ اگر ہم مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے تو ہمیں غالب آنے کے لوازمات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ ، اپنی زندگیوں میں ان اخلاقی معیارات کی بازیابی کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے جو عالمی امن کی پائیداری کے حقیقی ضامن ثابت ہو سکتے ہیں ۔
جہاں تک اسلامی حمیت کا تعلق ہے ، یہ تحت الشعوری کیفیت ہے جو ہمیں شعوری سطح پر مضطرب رکھتی ہے ۔ہمیں اس کا علاج کرنا چاہیے ۔ ہم تاریخی ناولوں کی خیالی دنیاؤں میں رہتے ہیں جن میں گھوڑوں کی ٹاپیں ہیں ، شمشیروں کی جھنکاریں ہیں اور اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے ۔ یہ ’’فقط اللہ ہو اللہ ہو‘‘ والی کیفیت ہے ۔ شاید ہم لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے تصور کرنے سے ہی فتوحات حاصل ہو جائیں گی اور دودھ کی نہریں بہنی شروع ہو جائیں گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم (نعوذ باللہ ) خدا ہیں کہ کہا ہو جا اور ہو گیا؟ کیا ہم ان تصورات کو عملی شکل دینے کے لیے اس تگ و دو کے پابند نہیں ہیں جو رب العزت نے انسانوں کے لیے مقدر کر رکھی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ بغیر کسی مادی تیاری کے صرف ایک ذہنی کیفیت کے زیرِ اثر کوئی ہاری ہوئی لڑائی لڑنا اور مسیحی اخلاقیات کے مطابق تھپڑ مارنے والے کو دوسرارخسار پیش کرنا ، ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
اس وقت موجودہ عالمی سیاق و سباق میں اسرائیل سے رابطے قائم کرنا بحث طلب نہیں ہے ۔ اس سے زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ روابط قائم کرنے کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے اس ایشو پر قومی بحث و مباحثہ کرانے کے بجائے جس طرح آمرانہ انداز میں پیش رفت کی ہے، اس سے تحفظات جنم لیتے ہیں ۔ نماز کی بے وضو ادائیگی کے بعد وضو کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے حساس معاملات ، جن کی بابت قوم حد سے زیادہ جذباتی ہو ، ان سے متعلق عوام سے بالاتر ہو کر آمرانہ فیصلے کرنے سے خارجی حقائق کو صحیح تناظر میں دیکھنے کی قومی نفسیات پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے۔
جنرل پرویز مشرف نے جیوش نیشنل کانگرس سے اپنے خطاب میں دہشت گردی اور انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے جرات اور مصالحت کی طرف رجوع کرنے کی بات کی ہے ۔ ہم جنرل صاحب سے یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ ایک دہشت گردی 12 اکتوبر 1999 کو بھی ہوئی تھی ، انھیں جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے بھی سختی سے ختم کر دینا چاہیے ۔ اسی طرح دو مقبول جماعتوں کے قائدین اور سابق وزراے اعظم کو ملک سے باہر رکھ کر ’’ انتہا پسندی ‘‘ سے کام لیا رہا ہے۔ جنرل صاحب کو ’’مصالحت ‘‘ کی لاج رکھتے ہوئے انھیں ملک میں آنے اور آزادانہ الیکشن میں حصہ لینے کا موقع دینا چاہیے تاکہ پاکستانی قوم اپنے ’’ قومی مسائل ‘‘ حل کرنے کے قابل ہو سکے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے اگر جنرل صاحب اپنے ہی بتائے ہوئے اصولوں ’’ جرات اور مصالحت ‘‘ کو اپنی شخصی سطح پر بھی نافذ کرنے سے قاصر ہیں تو وہ اسرائیلیوں سے ان اصولوں کی پیروی کی توقع کیسے کر سکتے ہیں ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب بے نظیر اور نواز شریف ہیں ، ہم سب جنرل پرویز مشرف ہیں ، ہم سب بھٹو اور ضیا ہیں ۔ ہم سب اپنے اپنے سچ کے دائروں میں قید ہیں ۔ ہم سب دوہرے انسان ہیں ، منتشر ہیں ، بٹے ہوئے ہیں۔ ہاں ! ہم سب اکائی سے محروم ہیں۔
یہود ونصاری ٰ کے ساتھ تعلقات اور اسرائیل کی حیثیت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بارے میں یہ بات بالکل بجا ہے کہ قرآن کریم کی جس آیت کریمہ میں یہود ونصاریٰ کے ساتھ ’’ولایت‘‘ کے درجہ کی دوستی سے منع کیا گیا ہے، وہ یہود ونصاریٰ کے ساتھ معمول کے تعلقات میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی ممالک کے ساتھ تعلقات اور معاملات میں ملت اسلامیہ نے کبھی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا اور خلافت راشدہ سے لے کر اب تک مسیحی ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اور معاملات مسلسل چلے آ رہے ہیں۔ البتہ یہودیوں کی دو ہزار سال بعد تشکیل پانے والی ریاست ’’اسرائیل‘‘ کے ساتھ تعلقات کا مسئلہ قدرے مختلف نوعیت کا ہے اور اس کی وجہ یہ آیت کریمہ نہیں، بلکہ اگر اس آیت کریمہ کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی ممانعت میں پیش کیا جائے تو میرے خیال میں یہ خلط مبحث ہوگا اور مسئلہ کو زیادہ الجھا دینے کی صورت ہوگی۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات سے اختلاف کی وجوہ مختلف ہیں۔
- مثلاً سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری وہاں کی صدیوں سے چلی آنے والی آبادی یعنی فلسطینیوں کی رضامندی کے ساتھ نہیں ہوئی، بلکہ پہلے برطانیہ نے اس خطہ پر ۱۹۱۷ء میں باقاعدہ قبضہ کر کے فوجی طاقت کے بل پر یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا ہے، اور اب امریکہ اور اس کے اتحادی پوری فوجی قوت استعمال کر کے فلسطینیوں کو یہودیوں کی اس جبری آباد کاری کو تسلیم کرنے پر مجبور کر رہے ہیں جس پر فلسطینی راضی نہیں ہیں کیونکہ یہ دھونس اور جبر کا راستہ ہے جسے دنیا کی کوئی مہذب اور متمدن قوم قبول نہیں کر سکتی۔ میرا خیال ہے کہ جس طرح ہم کشمیر کے بارے میں اصولی موقف رکھتے ہیں کہ بھارتی فوج وہاں سے چلی جائے اور کشمیریوں کو کسی دباؤ کے بغیر اقوام متحدہ کے نظم کے تحت اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے، اسی طرح فلسطین بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے بارے میں ہمارا اصولی موقف یہ ہونا چاہیے کہ امریکہ اپنی فوجیں اس خطہ سے نکالے اور نہ صرف فلسطین بلکہ خلیج کے دیگر ممالک کو بھی فوجی دباؤ سے آزاد کر کے وہاں کے عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا آزادانہ موقع فراہم کرے۔ انصاف اور مسلمہ اصولوں کا تقاضا تو بہرحال یہی ہے اور اگر بالادست قوتیں طاقت کے نشے میں اس اصول پر نہیں آتیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے موقف سے دستبردار ہو جائیں اور بے اصولی اور دھونس کو اصول و قانون کے طور پر تسلیم کر لیں۔
- پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ایک عملی رکاوٹ یہ بھی ہے جسے دور کیے بغیر اسے تسلیم کرنا قطعی طور پر نا انصافی کی بات ہوگی۔ وہ یہ کہ اسرائیل کی سرحدی حدود اربعہ کیا ہیں؟ یہ بات ابھی تک طے نہیں ہو سکی۔ بہت سے عرب ممالک اور فلسطینی عوام کی اکثریت سرے سے فلسطین کی تقسیم کو قبول نہیں کررہی۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جو سرحدات اپنی قراردادوں میں طے کر رکھی ہیں، انہیں اسرائیل تسلیم نہیں کر رہا۔
- اسرائیل کی اقوام متحدہ کی طرف سے طے کردہ سرحدات اور ہیں،
- اس وقت اس کے زیر قبضہ علاقے کی حدود اربعہ اور ہیں،
- کسی اصول اور قانون کی پروا کیے بغیر پورے فلسطین میں دندناتے پھرنے سے اس کی سرحدوں کا نقشہ بالکل دوسرا دکھائی دیتا ہے،
- اور اسرائیلی حکمرانوں کے عزائم پر مشتمل ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا جو نقشہ ریکارڈ پر موجود ہے، وہ ان سب سے مختلف ہے۔
- اس کے ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم شیرون کا یہ اعلان کئی بار سامنے آ چکا ہے کہ وہ فلسطین کی مجوزہ ریاست کو صرف اس شرط پر تسلیم کریں گے کہ اس کی سرحدات کا تعین نہیں ہوگا اور اس کی الگ فوج نہیں ہوگی۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ اسرائیل پورے فلسطین پر حکمرانی کے حق کا اعلان کر رہا ہے اور فلسطینیوں کو سرحدات کے تعین کے ساتھ کوئی چھوٹی سی برائے نام ریاست دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔
- اس کے ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے قبل آپ کو بیت المقدس کے بارے میں بھی اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور اس کی دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو اسرائیل کو بیت المقدس سے دستبرداری پر آمادہ کر لیں اور یا خود ’’یو ٹرن‘‘ لے کر بیت المقدس سے دستبرداری کا فیصلہ کر لیں۔
یہ تینوں رکاوٹیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے، پریکٹیکل ہیں، عملی ہیں اور معروضی ہیں، ان کا کوئی باوقار اور قابل عمل حل نکال لیں اور بے شک اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر اسی طرح تسلیم کر لیں جس طرح ہم بہت سے مسیحی ممالک کو تسلیم کرتے آ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس حوالے سے بات عملی مسائل پر ہونی چاہیے اور معروضی حقائق پر ہونی چاہیے، نظری اور علمی مباحث میں الجھا کر اس مسئلہ کو مزید پیچیدہ نہیں بنانا چاہیے۔
بیت المقدس کو اسرائیلی دار الحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
امریکی صدر ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور اس مسئلہ پر عالم اسلام کے ساتھ ساتھ اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری کے اب تک چلے آنے والے اجتماعی موقف کو بھی مسترد کر دیا ہے جس پر دنیائے اسلام اس کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ اس مذمت و احتجاج میں عالمی رائے عامہ کے سنجیدہ حلقے برابر کے شریک ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم او آئی سی اور عرب لیگ اس سلسلہ میں مذمت و احتجاج سے آگے بڑھ کر عملی طور پر کیا اقدامات کرتی ہے؟ مذمت و احتجاج کا سلسلہ تو ایک صدی سے جاری ہے، ضرورت عملی اقدامات کی ہے اور اس کے لیے پوری دنیا کی نظریں مسلمان حکمرانوں اور عرب حکومتوں پر ہیں۔ خدا کرے کہ وہ ’’ٹرمپائزیشن‘‘ کے سحر سے نکل کر اس طرف کوئی عملی پیش رفت کر سکیں۔
اب سے چودہ برس قبل فلسطین کو اسرائیل میں تبدیل کرنے کے حوالہ سے برطانیہ کے کردار کا ہم نے مختصراً ایک مضمون میں ذکر کیا تھا جبکہ امریکہ اسی برطانوی کردار کے تسلسل کو آگے بڑھانے میں مصروفِ عمل ہے۔ یہ مضمون دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے جس سے بیت المقدس اور فلسطین کے بارے میں اسرائیل، امریکہ اور اس کے حواریوں کے مستقبل کے عزائم کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ربع صدی کے دوران عالمی استعمار کی گرفت دنیا کے معاملات پر جس طرح مضبوط سے مضبوط تر ہوئی ہے اور وہ جس دیدہ دلیری اور بے فکری سے اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کو تیز سے تیز تر کرتے چلے جا رہے ہیں اور مسلم قیادت جس طرح خوابِ غفلت میں مدہوش دکھائی دے رہی ہے اس پر ہم اپنے جذبات و احساسات عالمِ تصور میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اس درخواست کی صورت میں ہی کر سکتے ہیں کہ
اے خاصہ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
امت پر تری آکے عجب وقت پڑا ہے
’’روزنامہ نوائے وقت لاہور نے 5 مارچ 2003ء کو ایک اسرائیلی اخبار کے حوالہ سے خبر دی ہے کہ اسرائیل کے وزیر دفاع جنرل موفاذ نے کہا ہے کہ چند روز تک عراق پر ہمارا قبضہ ہوگا اور ہمارے راستے میں جو بھی رکاوٹ بنے گا اس کا حشر عراق جیسا ہی ہوگا۔ جنرل موفاذ نے خلافت عثمانیہ کا حوالہ بھی دیا ہے کہ عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید نے ہمیں فلسطین میں جگہ دینے سے انکار کیا تھا جس کی وجہ سے ہم نے نہ صرف ان کی حکومت ختم کر دی بلکہ عثمانی خلافت کا بستر ہی گول کر دیا۔ اب جو اسرائیل کی راہ میں مزاحم ہوگا اسے اسی انجام سے دو چار ہونا پڑے گا۔
اسرائیلی وزیر دفاع کے اس بیان سے یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہوگئی ہے کہ عراق پر امریکی حملے کا منصوبہ در اصل صیہونی عزائم کی تکمیل کے لیے ہے اور اس عالمی پروگرام کا حصہ ہے جو عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ اور اسرائیلی سرحدوں کو وسیع اور مستحکم کرنے کے لیے گزشتہ ایک صدی سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور اس میں امریکہ، برطانیہ اور ان کے اتحادی مسلسل سرگرم عمل ہیں۔
آج سے ایک صدی قبل سلطان عبدالحمید (ثانی) خلافت عثمانیہ کے تاجدار تھے جن کا تذکرہ جنرل موفاذ نے اپنے مذکورہ بیان میں کیا ہے۔ خلافت عثمانیہ کا دار السلطنت استنبول ( قسطنطنیہ) تھا اور فلسطین، اردن، عراق، شام، مصر اور حجاز سمیت اکثر عرب علاقے ایک عرصہ سے خلافت عثمانیہ کے زیر نگین تھے۔ فلسطین خلافت عثمانیہ کا صوبہ تھا اور بیت المقدس کا شہر بھی عثمانی سلطنت کے اہم شہروں شمار ہوتا تھا۔ یہودی عالمی سطح پر فلسطین میں آباد ہونے اور اسرائیلی ریاست کے قیام کے ساتھ ساتھ بیت المقدس پر قبضہ کر کے مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیرکرنے کا پروگرام بنا چکے تھے اور اس کے لیے مختلف حوالوں سے راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ یہودیوں کی عالمی تنظیم کا وفد ان کے پاس آیا اور ان سے درخواست کی کہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے۔ چونکہ عثمانی سلطنت کے قانون کے مطابق یہودیوں کو فلسطین میں آنے کی اور بیت المقدس کی زیارت کی اجازت تو تھی مگر وہاں زمین خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ چنانچہ بیسویں صدی کے آغاز تک پورے فلسطین میں یہودیوں کی کوئی بستی نہیں تھی، یہودی دنیا کے مختلف ممالک میں بکھرے ہوئے تھے اور کسی ایک جگہ بھی ان کی ریاست یا مستقل شہر نہیں تھا۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے یہ درخواست منظور کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اسرائیل، بیت المقدس اور فلسطین کے بارے میں یہودیوں کا عالمی منصوبہ ان کے علم میں آچکا تھا اس لیے ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اس صورتحال میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دیتے۔
سلطان مرحوم کا کہنا ہے کہ دوسری بار یہودی لیڈروں کا وفد ان سے ملا تو یہ پیشکش کی کہ ہم سلطنت عثمانیہ کے لیے ایک بڑی یونیورسٹی بنانے کے لیے تیار ہیں جس میں دنیا بھر سے یہودی سائنس دانوں کو اکٹھا کیا جائے گا اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے لیے یہودی سائنسدان خلافت عثمانیہ کا ہاتھ بٹائیں گے، اس کے لیے انہیں جگہ فراہم کی جائے اور مناسب سہولتیں مہیا کی جائیں۔ سلطان عبدالحمید مرحوم نے وفد کو جواب دیا کہ وہ یونیورسٹی کے لیے جگہ فراہم کرنے اور ہر ممکن سہولتیں دینے کو تیار ہیں بشرطیکہ یہ یونیورسٹی فلسطین کی بجائے کسی اور علاقہ میں قائم کی جائے۔ یونیورسٹی کے نام پر وہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن وفد نے یہ بات قبول نہ کی۔
سلطان عبدالحمید مرحوم نے لکھا ہے کہ تیسری بار پھر یہودی لیڈروں کا وفد ان سے ملا اور یہ پیشکش کی کہ وہ جتنی رقم چاہیں انہیں دے دی جائے گی مگر وہ صرف یہودیوں کی ایک محدود تعداد کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دیں۔ سلطان مرحوم نے اس پر سخت غیظ و غضب کا اظہار کیا اور وفد کو ملاقات کے کمرے سے فوراً نکل جانے کی ہدایت کی نیز اپنے عملہ سے کہا کہ آئندہ اس وفد کو دوبارہ ان سے ملاقات کا وقت نہ دیا جائے۔
اس کے بعد ترکی میں خلافت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان عبد الحمید مرحوم کے خلاف سیاسی تحریک کی آبیاری کی گئی اور مختلف الزامات کے تحت عوام کو ان کے خلاف بھڑکا کر ان کی حکومت کو ختم کرا دیا گیا۔ چنانچہ حکومت کے خاتمہ کے بعد انہوں نے بقیہ زندگی نظر بندی کی حالت میں بسر کی اور اسی دوران مذکورہ یادداشتیں تحریر کیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انہیں خلافت سے برطرنی کا پروانہ دینے کے لیے جو وفد آیا اس میں ترکی پارلیمنٹ کا یہودی ممبر قرہ صو بھی شامل تھا جو اس سے قبل مذکورہ یہودی وفد میں بھی شریک تھا۔ اور یہ اس بات کی علامت تھی کہ سلطان مرحوم کے خلاف سیاسی تحریک اور ان کی برطرنی کی یہ ساری کارروائی یہودی سازشوں کا شاخسانہ تھی جس کی تصدیق اب تقریباً ایک صدی گزر جانے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع جنرل موفاذ نے بھی مذکورہ بیان میں کر دی۔
سلطان عبد الحمید مرحوم ایک باغیرت اور باخبر حکمران تھے جنہوں نے اپنی ہمت کی حد تک خلافت کا دفاع کیا اور یہودی سازشوں کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے لیکن ان کے بعد بننے والے عثمانی خلفاء کٹھ پتلی حکمران ثابت ہوئے جن کی آڑ میں مغربی ممالک اور یہودی اداروں نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے ایجنڈے کی تکمیل کی اور 1924ء میں خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔ ترکوں نے عرب دنیا سے لاتعلقی اختیار کر کے ترک نیشنلزم کی بنیاد پر سیکولر حکومت قائم کرلی، جبکہ مکہ مکرمہ کے گورنر حسین شریف مکہ نے، جو اردن کے موجودہ حکمران شاہ عبد اللہ کے پردادا تھے، خلافت عثمانیہ کے خلاف مسلح بغاوت کر کے عرب خطہ کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ انہیں یہ چکمہ دیا گیا تھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد ان کی خلافت عالم اسلام میں قائم ہو جائے گی مگر ان کے ایک بیٹے کو عراق اور دوسرے بیٹے کو اردن کا بادشاہ بنا کر ان کی عرب خلافت کا خواب سبو تاڑ کر دیا گیا۔ جبکہ حجاز مقدس پر آل سعود کے قبضہ کی راہ ہموار کر کے حسین شریف کو نظر بند کر دیا گیا جنہوں نے باقی زندگی اسی حالت میں گزاری۔
اس دوران فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر کے اپنا گورنر بٹھا دیا جس نے یہودیوں کو اجازت دے دی کہ وہ فلسطین میں آکر جگہ خرید سکتے ہیں اور آباد ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ دنیا کے مختلف ممالک سے منظم پروگرام کے تحت یہودیوں نے فلسطین میں آکر آباد ہونا شروع کیا۔ وہ فلسطین میں جگہ خریدتے تھے اور اس کی دوگنی چوگنی قیمت ادا کرتے تھے۔ فلسطینی عوام نے اس لالچ میں جگہیں فروخت کیں اور علماء کرام کے منع کرنے کے با وجود محض دگنی قیمت کی لالچ میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اس وقت مفتی اعظم فلسطین الحاج سید امین الحسینی اور ان کی حمایت میں عالم اسلام کے سرکردہ علماء کرام نے فتویٰ صادر کیا کہ چونکہ یہودی فلسطین میں آباد ہو کر اسرائیلی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور بیت المقدس پر قبضہ ان کا اصل پروگرام ہے اس لیے یہودیوں کو فلسطین کی زمین فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ یہ فتویٰ دیگر بڑے علماء کرام کی طرح حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی جاری کیا جو ان کی کتاب ’’ بوادر النوادر‘‘ میں موجود ہے۔ مگر فلسطینیوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی اور دنیا کے مختلف اطراف سے آنے والے یہودی فلسطین میں بہت سی زمینیں خرید کر اپنی بستیاں بنانے اور آباد ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ حتیٰ کہ 1945ء4 میں اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین کے ایک حصے کا حقدار تسلیم کر کے ان کی ریاست کے حق کو جائز قرار دے دیا اور فلسطین میں اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو الگ الگ ریاستوں کے قیام کی منظوری دے دی جس کے بعد برطانوی گورنر نے اقتدار یہودی حکومت کے حوالہ کر دیا۔
یہ اس بیان کا مختصر سا پس منظر ہے جس میں اسرائیلی وزیر دفاع کے جنرل موفاذ نے خلافت عثمانیہ کے فرمانروا سلطان عبد الحمید مرحوم کی معزولی اور خلافت عثمانیہ کے خاتمہ میں یہودی کردار کا ذکر کیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالم اسلام کے دشمن کس قدر چوکنا، با خبر اور مستعد ہیں اور اس کے مقابلہ میں ہماری بے حسی، بے خبری اور نا عاقبت اندیشی کی سطح کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں،آمین یا رب العالمین۔‘‘
(روزنامہ اسلام، لاہور۔ ۱۷ مارچ ۲۰۰۳)
مسئلہ فلسطین اور مغربی ممالک کا کردار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش مشرق وسطیٰ کادورہ کر کے واپس جا چکے ہیں۔ اس دوران انہوں نے سعودی عرب، کویت، مصر، متحدہ عرب امارات، فلسطین اور اسرائیل وغیر ہ کا دورہ کیا اور اسرائیل اور فلسطین کے راہنماؤں سے بھی تبادلہ خیالات کیا۔ ان کے اس دورے کے مقاصد کیا تھے؟ اس کی ایک جھلک بعض عرب اخبارات کے مندرجہ ذیل تبصروں سے دیکھی جا سکتی ہے :
ایک عرب اخبار ’’الحیاۃ ‘‘ کا کہنا ہے کہ : ’’امریکی صدر کایہ دورہ ایک شہنشاہ کا دورہ تھا۔ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک مغربی اور امریکی صدور اور وزراے اعظم کے نظارے دیکھتے رہتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی مسئلہ فلسطین حل کر سکا ہے اور نہ ہی مشرق اوسط کے عوام کے سنگین مصائب کوکم کرسکاہے ۔ عرب ممالک کے تعلیم یافتہ عوام بادشاہوں اورشہزادوں کے زیرنگیں رہنے کی بجائے جمہوریت کی فضامیں زندگی گزارناچاہتے ہیں، لیکن انہیں یہ مواقع فراہم نہیں کیے جا رہے ۔ اس کا قصوروار امریکہ بھی ہے۔‘‘
’’عرب نیوز‘‘ کاکہناہے کہ: ’’امریکی صدر کے اس دورے کے دوران مشرق وسطیٰ کے سلگتے مسائل میں سے ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوا ہے اور عراق میں جگہ جگہ لگی ہوئی آگ میں سے کوئی آگ بجھ نہ سکی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ مشرق وسطیٰ کے اس دورے کے دوران امریکی صدر ایران کے خلاف شعلہ فشانیاں کرتے رہے، حالانکہ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل واشنگٹن میں کہاتھا کہ میں فلسطین کے مسائل کم کرنے کے لیے اسرائیل کو مقبوضات خالی کرنے پر مجبور کروں گا۔ لیکن ایک ہفتہ گزرگیا، امریکی صد ر اسرائیلی حکمرانوں کواس طرف مائل نہ کرسکے۔‘‘
’’الشر ق الاوسط ‘‘نے لکھا ہے کہ : ’’امریکی صدر جارج بش نے جس بے فکری اور غیر سنجیدگی سے اسرائیل، کویت، فلسطین اورعرب امارات کادورہ کیاہے اور آج وہ سعودی عرب آرہے ہیں، یوں محسو س ہوتاہے کہ جیسے پکنک پر آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کسی ایک جگہ بھی درپیش سنگین مسائل کے حل کی طر ف توجہ دی، نہ فریقین کو ایک جگہ بٹھانے کا اہتمام ہی کیا ..... امریکہ چونکہ اکلوتی سپر پاور ہے اور محض اکلوتی سپر سے تمام ترتوقعات وابستہ کیے رکھنا عالمی سطح پر اپنے تعلقات کو گرانے اور زک پہنچانے کے مترادف ہے، عرب ممالک سے غلطی یہ ہوئی کہ ا نہوں نے گزشتہ پچاس سال میں صرف امریکہ کو اپنا نجات دہندہ خیال کیا ہے، لیکن یہ خیال باربار غلط اور غیر مفید ثابت ہوا۔‘‘
’’گلف نیوز‘‘ کاتبصرہ اس طرح ہے کہ : ’’مشرق وسطیٰ کے اس دورے کے دوران امریکی صدر کی اولین ترجیح ایران رہی ہے۔ وہ ایران کے بارے میں جوپالیسی بیان دیتے رہے، ان سے یہی عیاں ہوتاہے کہ یہ دورہ محض ایران کے لیے تھا کیونکہ جن ممالک کاموصوف نے دورہ کیا، ان کے بالکل ہمسایے میں ایران واقع ہے۔ گویایہ بات بجا طورپر کہی جاسکتی ہے کہ ایران کے معاملات سے براہ راست آگاہی حاصل کرنے او رعرب حکمرانوں اور عوام کی نفسیات سے آگاہی کے لیے ہی مشرق وسطیٰ کے دورے کاڈول ڈالاگیا۔ ...... اگرایران اس خطہ کے لیے خطرہ ہے بھی تو ہم سعودی عرب کے وزیرخارجہ سعود الفیصل کے اس قول پر عمل کر کے خطرے کا مقابلہ کرسکتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ایران سے ہمارے تعلقات ہیں، ہماری اس کے ساتھ کھلی بول چال ہے، اگرہمیں اس سے کبھی خطرہ محسوس ہوا تو ہم ایران سے براہ راست بات چیت کر کے معا ملات حل کر لیں گے۔ امریکی صدر نے اس دورہ کے دوران اس خطے کے لیے باربار انصاف اور آزادی کی بات کی۔ اگر امریکی صدر ان دونو ں الفاظ کی معنو یت سے آگاہ ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کوبھی انصاف اور آزادی فراہم کرنے میں فوری اور طاقت ور امداد دیں۔‘‘
یہ تو وہ تبصرے ہیں جو معروف عرب اخبارات نے امریکی صدر کے دورۂ مشرق وسطیٰ کے اہداف اور دورے کے درمیان ان کی سرگرمیوں اور ارشادات کے حوالہ سے کیے ہیں۔ ا ب ایک جھلک اس صورت حال کی بھی دیکھ لی جائے جو ان کے دورے کے فوراً بعد مشرق وسطیٰ میں سامنے آئی ہے اور جس نے لاکھوں فلسطینیوں کو اسرائیل کے ہاتھوں جبر اور استبداد کے ایک اور مرحلے سے دوچار کر دیا ہے۔ روزنامہ’’ پاکستان‘‘ لاہور میں ۲۴؍ جنوری ۲۰۰۸ کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطا بق اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس اور ملحقہ علاقے میں یہودی آبادیوں کے لیے نئے مکانات تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیلی انتظامیہ کے ترجمان نے بتایاکہ آٹھ ہزار میں سے تقریباً اڑھائی ہزار مکانات مشرقی مقبوضہ بیت المقدس اور ملحقہ علاقوں میں بنائے جائیں گے، جبکہ فلسطینی صدر محمود عباس نے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیر سے مشرق وسطیٰ میں امن کا عمل متاثر ہوگا۔
’’پاکستان ‘‘ میں ہی ۱۶؍ جنوری ۲۰۰۸ کو شائع ہونے والی خبر کے مطا بق غزہ میں اسرائیلی فوج کی تازہ کارروائی میں جاں بحق ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد سترہ ہوگئی ہے جن میں حماس کے ایک اہم رہنما اور سا بق وزیر خارجہ محمود الزہار کا بیٹا بھی شامل ہے۔ ا س کارروائی کے بعد اسرائیلی فوج اور فلسطینیوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں چالیس دیگر شہری بھی زخمی ہوئے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطا بق اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کررکھی ہے جس سے نہ صرف بجلی بلکہ خوراک کی ترسیل کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے اور عالمی رائے عامہ کے مسلسل احتجاج کے باوجود اسرائیل ابھی تک اس ناکہ بندی میں نر می کرنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ پاکستان میں ۲۴ جنوری کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرت نے کہا ہے کہ اگر فلسطینی عوام امن چاہتے ہیں تو حماس کے خلاف بغاوت کریں اوران کے تحفظ کاایک ہی راستہ ہے کہ فلسطین سے عسکریت پسندی کاخاتمہ کر دیا جائے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے یہ بھی کہاہے کہ غزہ کے شہری اگر اسرائیل پر حملہ کرتے ہیں تووہ گاڑیوں کے بجائے پیدل چلیں، روشنی کی بجائے اندھیرے میں رہیں اور بھوک وافلاس سے مرتے رہیں۔
یہ ہے ایک منظر امریکی صدر کے دورۂ مشرق وسطی اور اس کے فوراً بعد رونما ہونے والی صورت حال کا، جبکہ امریکہ دنیا کو یہ تاثر دینے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن کی بحالی اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کام کر رہا ہے اور صدر بش چاہتے ہیں کہ ان کا دور اقتدار ختم ہونے سے پہلے آزاد فلسطینی ریاست کے اعلان کی کوئی شکل سامنے آجائے۔
اس پس منظر میں اس حوالے سے ایک اور رپورٹ پر بھی نظر ڈال لی جائے جو نئی دہلی سے شائع ہونے والے سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نے ۷ جنوری ۲۰۰۷کی اشاعت میں شائع کی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دنوں لبنان میں برطانیہ کی سفیر محترمہ فرانسز گائی نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’فلسطین میں ہمارے پیش روؤں نے جو غلطیاں کی ہیں، ان کو سدھارنا ہمارے لیے ناممکن ہے، لیکن ’’عدل وانصاف‘‘ پر مبنی امن وسلامتی کے لیے کوشش کرنا ہمارے لیے یقیناًممکن ہے، تاہم مسئلہ یہ ہے کہ برطانیہ کوایک موثر طاقت نہیں سمجھاجاتا۔‘‘ ا ب اس بات کی وضاحت محترمہ فرانسز گائی ہی کرسکیں گی کہ ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کیے بغیر ’’عدل وانصاف‘‘ پر مبنی امن وسلامتی کے قیام کے لیے ان کے پاس کون سا فارمولا ہے، البتہ اس حوالے سے ان کاخیال توجہ طلب ہے کہ ’’دیگر ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ فلسطین کا دورہ وہاں کے عوام کی ذلت وخواری کو دیکھنے اور سمجھنے کی نیت سے اور اس نیت سے کریں کہ ایسی پالیسی اختیار کی جا سکے جس سے اہل فلسطین اس صورت حال سے باہر آ جائیں۔‘‘
مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر یہ تبصرہ کسی عرب راہنما یا فلسطینی لیڈر کانہیں بلکہ برطانیہ کی ایک سفارت کار خاتو ن کا ہے جسے سامنے رکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اس کی قیادت میں مغربی حکمران مشرق وسطیٰ میں صرف ایسا امن چاہتے ہیں جس میں اسرائیل کے ا ب تک کے تمام اقدامات اور اس کے موجودہ کردار کو جائز تسلیم کر لیا جائے اور اس کی بالادستی کے سامنے سرخم تسلیم کرتے ہوئے فلسطینی عوام خود کو اس کے رحم وکرم پرچھوڑدیں اور اسرائیل جوکچھ بھی کرے، فلسطینی عوام اس کے خلاف کسی بھی قسم کی مزاحمت کے حق میں ہمیشہ کے لیے دست برداری کا اعلان کردیں۔ اگر صدر بش فلسطینیوں کو امن وسلامتی کے اسی نکتے پر لاناچاہتے ہیں تو ایسا ہونا ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ قوموں کواس طرح دبانے اورد بائے رکھنے کی کوئی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہواکرتی اور آزادی، خودمختاری اور اقوام عالم میں باوقار حیثیت دنیا میں ہر قوم کی طرح فلسطینیوں کا بھی حق ہے جو جلد یا بدیر وہ ان شاء اللہ تعالیٰ حاصل کر کے رہیں گے۔
فلسطینی عوام، عالمی ضمیر اور مسلمان حکمران
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
فلسطینی عوام ایک بار پھر صہیونی جارحیت کی زد میں ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کی فضائی اور زمینی کاروائیوں نے سینکڑوں فلسطینیوں کو خون میں نہلا دیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ کے غیور اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی آزادی کی اور تشخص کو مکمل طور پر پامال کر دینے پر تل گیا ہے اور اسے حسب سابق مغربی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان فلسطینی عوام کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ فلسطین کے باشندے ہیں۔ اپنے اس حق سے دستبردار ہونے کے لیے کسی صورت تیار نہیں ہیں اور اس کے لیے مسلسل قربانیاں دیتے چلے جا رہے ہیں۔ اب سے ایک صدی قبل برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرتے ہوئے انہیں دنیا بھر سے وہاں لا کر بسانے اور ان کی ریاست قائم کرانے کا جو معاہدہ کیا تھا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک نے ہر قسم کی انسانی، اخلاقی اور سیاسی حدود کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اسے نہ صرف پورا کیا ہے بلکہ وہ اس کی مکمل پاسداری کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ نے فلسطین کو تقسیم کر کے فلسطین کو الگ اور آزاد وطن دینے کا جو وعدہ کر رکھا ہے، اقوام متحدہ کے اصولوں اور بین الاقوامی معاہدات کی دنیا بھر میں دہائی دینے والے مغربی ممالک کو اس کا بھی کوئی پاس نہیں ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ نے فلسطین کو تقسیم کر کے فلسطین اور اسرائیل کے نام سے دو آزاد ریاستیں قائم کی تھیں اور ان کی سرحدوں کا تعین بھی کر دیا تھا۔ اگرچہ اس حوالہ سے مسلم ممالک میں دو الگ الگ موقف پائے جاتے ہیں۔ سعودی عرب اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے اس تقسیم کو تسلیم نہیں کیا اور وہ اسرائیل کو ایک جائز ریاست کے طور پر قبول نہیں کر رہے، مگر مصر، اردن اور بعض دیگر مسلم ممالک نے اس تقسیم کو تسلیم کر رکھا ہے اور اسرائیل کو ایک قانونی ریاست کا درجہ دیا ہوا ہے، بلکہ خود فلسطینیوں میں الفتح اور حماس کے موقف اس سلسلہ میں الگ الگ ہیں۔ لیکن فلسطین کی تقسیم کو بالفرض تسلیم کرتے ہوئے بھی اقوام متحدہ کے فیصلے کے مطابق جس آزاد فلسطین ریاست کو قائم ہونا چاہیے تھا، اس کا دنیا کے نقشے پر کوئی وجود نہیں ہے اور میونسپلٹی طرز کی فلسطینی اتھارٹی قائم کر کے فلسطینیوں کو ان کی اپنی حکومت کے لالی پاپ پر بہلانے کی فریب کاری تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ بلکہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی مقرر کردہ بین لااقوامی سرحدوں کو پامال کر کے جن علاقوں پر گزشتہ نصف صدی سے قبضہ کر رکھا ہے، ان میں بیت المقدس بھی شامل ہے۔ انہیں اسرائیل سے واگزار کرانے میں کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔
جو لوگ اسرائیل کو ایک جائز ریاست تسلیم نہیں کرتے اور فلسطین کی تقسیم کے فیصلے کو منصفانہ نہیں سمجھتے، ہم بھی ان میں شامل ہیں، لیکن اسے ایک طرف رکھتے ہوئے خود تقسیم فلسطین کے اس بین الاقوامی فیصلے کے دو بنیادی تقاضے ہیں۔ ایک یہ کہ فلسطینیوں کی آزاد اور خود مختار ریاست تسلیم کی جائے جو کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت اور نگرانی سے پاک ہو۔ دوسرا یہ کہ اقوام متحدہ کی مقرر کردہ سرحدوں کو پامال کر کے اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے، انہیں اس سے واگزار کرایا جائے۔ عراق نے بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی کر کے کویت پر قبضہ کیا تھا تو ہر طرف ہاہاکار مچ گئی تھی اور امریکہ نے اقوام متحدہ کی چھتری تلے فوجی کاروائی کر کے کویت کی خود مختاری کو بین الاقوامی سرحدات کے تقدس کے نام پر بحال کرا دیا تھا، لیکن اسرائیل نے دن دہاڑے بیت المقدس پر ناجائز قبضہ کیا اور مصر، شام اور اردن کی مسلمہ سرحدوں کو روند ڈالا مگر اقوام متحدہ خود بھی اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے مغربی ممالک بھی نصف صدی سے منقار زیر پر ہیں۔
سوال یہ ہے کہ دنیا پر اپنی چودھراہٹ کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مغربی ممالک فلسطینیوں اور عرب ممالک کے اس جائز حق کی بحالی کے لیے سنجیدگی کیوں اختیار نہیں کر رہے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں فلسطینی مہاجرین اور فلسطین کے اندر اسرائیل کی بار بار جارحیت کا نشانہ بننے والے مظلوم فلسطینی انہیں دکھائی کیوں نہیں دے رہے؟ اس سے زیادہ ستم ظریفی کا منظر یہ ہے کہ عالم اسلام اور عرب ممالک میں بھی اس حوالہ سے کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی۔ یوں لگتا ہے جیسے عالم عرب اور مسلم امہ نے بھی فلسطینیوں کو حالات بلکہ اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مسلم حکومتوں کو اپنی داخلی حدود میں شدت پسندی اور بغاوت تو دکھائی دیتی ہے اور اسے کچلنے کے لیے وہ اپنی پوری قوت صرف کر رہی ہیں، لیکن اس شدت پسندی اور بغاوت کا باعث بننے والی بین الاقوامی دہشت گردی اور اسرائیلی جارحیت ان کو دکھائی نہیں دیتی اور انہوں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ حالانکہ اگر مسلم ممالک متفق ہو کر اسرائیل، کشمیر، اراکان اور اس جیسے دیگر سلگتے ہوئے مسائل پر جرأت مندانہ موقف اور کردار اختیار کرنے کا حوصلہ کر لیں تو یہ داخلی شدت پسندی اور بغاوت خود ان مسلم ممالک کی اپنی قوت کا رخ بھی اختیار کر سکتی ہے۔
مسلم حکمران تھوڑی دیر کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچیں کہ مسلم دنیا کے کسی حصے میں ’’خلافت‘‘ کا نعرہ ابھرتا ہے تو دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کی آنکھوں میں چمک کیوں آجاتی ہے اور ان کے دلوں کی دھڑکن کیوں تیز ہو جاتی ہے؟ دراصل مسلم امہ خلافت کے اس کردار کو زندہ ریکھنا چاہتی ہے کہ سندھ میں راجہ داہر کی قید میں ایک مسلم خاتون اپنی بے بسی پر فریاد کرتی ہے تو عراق میں خلیفۂ وقت کا مقرر کردہ گورنر حجاج بن یوسفؒ اس کی مدد کے لیے بے چین ہو جاتا ہے اور اپنے بھتیجے محمد بن قاسمؒ کی کمان میں فوج روانہ کر دیتا ہے۔ یہ کردار امت مسلمہ کی ضرورت ہے اور وقت کا تقاضا ہے۔ اگر مسلم حکمرانوں میں یہ کردار اختیار کرنے کی سوچ اور حوصلہ موجود ہے اور وہ اسے روبہ عمل لانے کی کوئی صورت نکال سکتے ہیں تو شاید حالات کچھ سنبھل جائیں۔ ورنہ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ خلا اور حبس زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتے اور حبس جس قدر شدید ہو اس کی طرف بڑھنے والی آندھیوں کی رفتار بھی اسی حساب سے تیز ہوا کرتی ہے۔
درس تفسیر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ۔ سورۂ بنی اسرائیل (آیات ۱ تا ۲۲)
محمد عمار خان ناصر
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرٰی بِعَبْدِہِ لَیْْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصٰی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ (۱) وَآتَیْْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَجَعَلْنَاہُ ہُدًی لِّبَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ أَلاَّ تَتَّخِذُواْ مِن دُونِیْ وَکِیْلاً (۲) ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّہُ کَانَ عَبْداً شَکُوراً (۳) وَقَضَیْْنَا إِلَی بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ فِیْ الْکِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِیْ الأَرْضِ مَرَّتَیْْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوّاً کَبِیْراً (۴) فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولاہُمَا بَعَثْنَا عَلَیْْکُمْ عِبَاداً لَّنَا أُوْلِیْ بَأْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّیَارِ وَکَانَ وَعْداً مَّفْعُولاً (۵) ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْْہِمْ وَأَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ وَجَعَلْنَاکُمْ أَکْثَرَ نَفِیْراً (۶) إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِکُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَہَا فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الآخِرَۃِ لِیَسُوؤُوا وُجُوہَکُمْ وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوہُ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَلِیُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِیْراً (۷) عَسٰی رَبُّکُمْ أَن یَرْحَمَکُمْ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَہَنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ حَصِیْراً (۸) إِنَّ ہٰذَا الْقُرْآنَ یِہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ أَجْراً کَبِیْراً (۹) وأَنَّ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِالآخِرَۃِ أَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَاباً أَلِیْماً (۱۰) وَیَدْعُ الإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَ ہُ بِالْخَیْْرِ وَکَانَ الإِنسَانُ عَجُولاً (۱۱) وَجَعَلْنَا اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ آیَتَیْْنِ فَمَحَوْنَا آیَۃَ اللَّیْْلِ وَجَعَلْنَا آیَۃَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃً لِتَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّکُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ وَکُلَّ شَیْْءٍٍ فَصَّلْنَاہُ تَفْصِیْلاً (۱۲) وَکُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَآءِرَہُ فِیْ عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کِتَاباً یَلْقَاہُ مَنشُورًا (۱۳) اقْرَأْ کَتَابَکَ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْْکَ حَسِیْباً (۱۴) مَّنِ اہْتَدَی فَإِنَّمَا یَہْتَدیْ لِنَفْسِہِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْْہَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرٰی وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُولاً (۱۵) وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّہْلِکَ قَرْیَۃً أَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا فَفَسَقُوا فِیْہَا فَحَقَّ عَلَیْْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاہَا تَدْمِیْراً (۱۶) وَکَمْ أَہْلَکْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِن بَعْدِ نُوحٍ وَکَفٰی بِرَبِّکَ بِذُنُوبِ عِبَادِہِ خَبِیْرَاً بَصِیْراً (۱۷) مَّن کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہُ فِیْہَا مَا نَشَاءُ لِمَن نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہُ جَہَنَّمَ یَصْلاَہَا مَذْمُوماً مَّدْحُوراً (۱۸) وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَۃَ وَسَعٰی لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَءِکَ کَانَ سَعْیُہُم مَّشْکُورًا (۱۹) کُلاًّ نُّمِدُّ ھٰؤُلاءِ وَہٰؤُلاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحْظُورًا (۲۰) اُنظُرْ کَیْْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَلَلآخِرَۃُ أَکْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَکْبَرُ تَفْضِیْلاً (۲۱) لاَّ تَجْعَل مَعَ اللّہِ إِلٰہاً آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوماً مَّخْذُولاً (۲۲)
ترجمہ:
’’پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، وہ کہ ہم نے برکت ڈالی اس کے آپس پاس تاکہ ہم دکھائیں اس کو اپنی نشانیوں میں سے بعض۔ بے شک وہ سمیع ہے بصیر ہے۔ اور دی ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب اور بنایا ہم نے اس کو ہدایت بنی اسرائیل کے لیے، یہ کہ نہ بناؤ تم میرے سوا کارساز۔ اولاد ان کی جن کو ہم نے سوار کیا نوح علیہ السلام کے ساتھ، بے شک تھے وہ بندے شکرگزار۔
اور فیصلہ سنا دیا ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب کے ذریعے کہ البتہ تم ضرور فساد کرو گے زمین میں دو مرتبہ اور البتہ تم سرکشی کرو گے سرکشی بڑی۔ پس جس وقت آیا ان میں سے پہلی دفعہ کا وعدہ، بھیجا ہم نے تم پر اپنے بندوں کو جو سخت گرفت والے تھے۔ پس گھس گئے وہ شہروں کے درمیان۔ اور تھا یہ وعدہ طے شدہ۔ پھر ہم نے لوٹائی تمہارے لیے باری ان پر اور مدد کی ہم نے تمہاری مالوں او ربیٹوں سے اور کیا ہم نے تمہیں نفری اور تعداد میں زیادہ۔ اگر نیکی کرو گے تو نیکی کرو گے اپنے نفوس کے لیے، اور اگر تم برائی کرو گے تو انھی نفوس کے لیے ہے۔ پس جس وقت آیا وعدہ دوسری مرتبہ کا تاکہ وہ اداس اور پریشان کر دیں تمہارے چہروں کو اور تاکہ وہ داخل ہوں مسجد میں جس طرح وہ داخل ہوئے اس میں پہلی مرتبہ، اور تاکہ وہ ہلاک کر دیں اس چیز کو جس پر غالب آجائیں ہلاک کرنا۔ قریب ہے کہ رب تمہارا تم پر رحم فرمائے، اور اگر تم لوٹو گے، ہم لوٹیں گے۔ اور بنائی ہم نے جہنم کافروں کے لیے قید خانہ۔ بے شک قرآن رہنمائی کرتا ہے اس طریقے کی جو درست ہے اور خوشخبری دیتا ہے مومنین کو وہ جو عمل کرتے ہیں اچھے کہ بے شک ان کے لیے اجر ہوگا بڑا۔ اور بے شک وہ لوگ جو نہیں ایمان لاتے آخرت پر، تیار کیا ہم نے ان کے لیے عذاب دردناک۔
اور مانگتا ہے انسان شر جیسے مانگتا ہے خیر اور ہے انسان جلد باز۔ او ربنائیں ہم نے رات اور دن دو نشانیاں۔ پس مٹائی ہم نے نشانی رات کی اور بنائی ہم نے نشانی د ن کی روشن تاکہ تم تلاش کرو فضل اپنے رب کی طرف سے اور تاکہ تم جان لو گنتی سالوں کی اور حساب۔ اور ہر چیز کو ہم نے تفصیل سے بیان کیا تفصیل سے بیان کرنا۔
اور ہر انسان کو ہم نے لازم کر دیا ہے پروانہ اس کا اس کی گردن میں۔ اور نکالیں گے ہم اس کے لیے قیامت کے دن کتاب، ملے گا اس کو (اس حال میں کہ) کھلی ہوئی ہوگی۔ پڑھ اپنی کتاب کو۔ کافی ہے تیرا نفس آج کے دن تجھ پر حساب دان۔
جس نے ہدایت حاصل کی، پس پختہ بات ہے ہدایت حاصل کرے گا اپنے نفس کے لیے اور جس نے گمراہی اختیار کی، پس پختہ بات ہے اس کی گمراہی اس کے نفس پر پڑے گی۔ او رنہیں اٹھائے گا کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کے بوجھ کو۔ اور نہیں ہم سزا دینے والے یہاں تک کہ بھیجیں ہم پیغمبر۔
اور جس وقت ارادہ کرتے ہیں ہم اس کا کہ ہلاک کریں کسی بستی کو تو حکم دیتے ہیں وہاں کے آسودہ حال لوگوں کو، پس وہ نافرمانی کرتے ہیں اس بستی میں۔ پس لازم ہو جاتا ہے اس پر فیصلہ، پس ہلاک کرتے ہیں ہم اس کو ہلاک کرنا۔
اور کتنی ہلاک کیں ہم نے جماعتیں نوح علیہ السلام کے بعد۔ اور کافی ہے تیرا رب اپنے بندوں کے گناہوں سے خبردار بھی اور دیکھنے والا۔ جو شخص ارادہ کر تا ہے جلدی کے گھر کو، ہم اس کے لیے جلدی کر دیں گے اس میں جو ہم چاہیں، جس کے لیے چاہیں۔ پھر ہم بناتے ہیں اس کے لیے جہنم۔ داخل ہوگا اس میں مذمت کیا ہوا، پھٹکارا ہوا۔ اور جس نے ارادہ کیا آخرت کا، اور کوشش کی اس کے لیے کوشش کرنا اور ہے وہ مومن، پس وہ لوگ ہیں کہ ان کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔ ہر ایک کو ہم امداد دیتے ہیں، ان کو بھی اور ان کو بھی، تیرے رب کے عطیے سے۔ اور نہیں ہے تیرے رب کا عطیہ روکا ہوا۔ دیکھ، کیسے ہم نے فضیلت دی ان میں سے بعض کو بعض پر، اور البتہ آخرت بڑی ہے ازروے درجوں کے اور بڑی ہے ازروے فضیلت کے۔ نہ بنا الٰہ ساتھ اللہ تعالیٰ کے، تو بیٹھا رہے مذمت کیا ہوا رسوا کیا ہوا۔‘‘
سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی
ربط: کل آپ نے پڑھا تھا: وَلاَ تَکُ فِیْ ضَیْْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُونَ (النحل آیت ۱۲۷) کہ یہ کافر جو مکر کرتے ہیں، تدبیریں کرتے ہیں، آپ ان کی وجہ سے تنگ دل نہ ہوں۔ اسی تنگ دلی کے سلسلے میں یہ واقعہ پیش آیا کہ معراج سے آپ جب واپس تشریف لائے تو کافروں نے آپ کا امتحان لیا کہ مسجد اقصیٰ کے دائیں طرف، بائیں طرف اور آگے پیچھے کیا عمارت تھی۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ لم اثبتہ، میں ان چیزوں کی طرف توجہ نہیں کر سکا، نہ مجھے معلوم تھا۔ انھوں نے کہا کہ تو معاذ اللہ جھوٹ کہتا ہے۔ فکربت کربۃ لم اکرب مثلہ۔ اتنا پریشان ہواکہ مجھے اتنی پریشانی کبھی بھی نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ میرے سامنے کردی۔ فطفقت اخبرہم، میں اس کو دیکھ کر ان کو بتاتا۔ تو ان تنگی کے مقامات میں ایک یہ واقعہ معراج کا بھی تھا جس کا ذکر آ رہا ہے۔
نام ہے اس کا سورۂ بنی اسرائیل۔ بنی اسرائیل کا ذکر اس میں ہے۔ معراج کے متعلق بحث تو بڑی طویل ہے۔ میں مختصر سی بات عرض کرتا ہوں۔ رجب کا مہینہ تھا اور مشہور روایات کے مطابق ۲۷ رجب تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر آرام فرما تھے۔ آپ کے ایک طرف حضرت حمزہ اور دوسری طرف حضرت عقیل تھے۔ درمیان میں آپ تھے۔ نیچے سوئے ہوئے تھے۔ فرشتے آئے۔ آپس میں انھوں نے گفتگو کی کہ ہمارا مطلوب کون سا ہے؟ کہنے لگے: اوسطہم وہو افضلہم۔ یہ درمیان میں جو لیٹے ہوئے ہیں، یہ ہیں ہمارے مطلوب۔ مجھے اٹھایا گیا اور مکان کی چھت کو پھاڑا گیا۔ وہاں سے مجھے حجر اور حطیم میں بٹھایا گیا۔ حجر اور حطیم کعبے کا حصہ ہے۔ وہاں میرے سینے کو چاک کیا گیا اور سونے کی رکابی میں رکھ کر زم زم کے پانی سے دھویا گیا اور ملئ حکمۃ وایمانا، حکمت اور ایمان کی دولت اس میں بھر دی گئی۔ ایک جانور لایا گیا جو گدھے سے بھاری تھا اور خچر سے ذرا ہلکا تھا۔ اس کو براق کہتے ہیں۔ برق کے معنی بجلی کے ہیں۔ یہ بجلی انسانوں کی ایجا د ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ جو بجلی ہے، یہ ایک منٹ میں زمین کے ارد گرد پانچ سو مرتبہ چکر لگا سکتی ہے۔ یہ تو انسانوں کی ایجاد ہے تو جو رب کی برق ہے، اس کا کیا کہنا؟ آناً فاناً وہاں مسجد اقصیٰ پہنچا دیا گیا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ جاتے ہوئے آپ نے مسجد اقصیٰ میں تنہائی میں نماز تحیۃ المسجد پڑھی۔ پھر پہلے آسمان پر گئے۔ جبریل علیہ السلام نے دستک دی۔ پوچھا گیا کہ کون ہے؟ کہا، میں جبریل ہوں۔ ساتھ کون ہے؟ کہا محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔ پوچھا گیا کہ ارسل الیہ؟ کیا ان کی طرف پیغام گیا ہے؟ بلوائے گئے ہیں؟ فرمایا، ہاں۔ دروازہ کھولا تو سب نے مرحبا مرحبا کہی۔
پہلے آسمان کے اوپر دیکھا تو ایک بابا جی تشریف فرما ہیں۔ ان کے دائیں طرف اسودۃ، کچھ نشانات سے ہیں۔ ان کو دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں، ہنس پڑتے ہیں۔ بائیں طرف بھی کچھ نشانات ہیں۔ ان کو دیکھتے ہیں تو رو پڑتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ بابا جی کون ہیں؟ کہا گیا کہ آدم علیہ السلام ہیں۔ جا کر ان کو سلام کہیں۔ میں نے آدم علیہ السلام کو سلام کیا۔ انھوں نے کہا: مرحبا بالابن الصالح والنبی الصالح۔ میں نے کہا کہ وہ دائیں طرف والی مخلوق کیا ہے اور بائیں طرف والی کیا ہے؟ تو کہا کہ یہ دائیں طرف اصحاب الیمین ہیں، ان کی مثالی شکلیں ہیں۔ بائیں طرف والے اصحاب الشمال ہیں۔ باپ ہونے کی وجہ سے شفقت ان پر بھی ہے، افسوس ان پر بھی ہے۔ پھر دوسرے آسمان ، پھر تیسرے، پھر چوتھے، پانچویں، چھٹے، ساتویں آسمان پر گئے۔ سدرۃ المنتہی اور جنت دوزخ کی سیر کی گئی۔ یہ سارا کچھ جسم مبارک کے ساتھ بیداری میں ہوا۔ خواب کا واقعہ نہیں، کشف کا واقعہ نہیں اور کوئی الہامی بات نہیں، حقیقت ہے۔
پھر وہاں اللہ تعالیٰ نے تین تحفے دیے۔ ایک تو سورۂ بقرہ کا آخری حصہ آمن الرسول سے آخر تک بغیر جبریل علیہ السلام کی وساطت کے۔ دوسرا پچاس نمازیں۔ تیسرا تحفہ یہ کہ آپ کی امت میں جو میرے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہرائے گا، میں اس کو بخش دوں گا۔ نمازیں پچاس لے کر آپ آئے تو چھٹے آسمان پر موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ کیا تحفے لائے؟ فرمایا، یہ تحفے ہیں۔ کہنے لگے حضرت! انی قد بلوت بنی اسرائیل۔ میں نے بنی اسرائیل کا بڑا تجربہ کیا ہے، وہ تو دو نمازیں پوری نہیں پڑھ سکے دن رات میں۔ تو آپ کی امت میں کمزو رلوگ بھی ہوں گے، پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکیں گے۔ آپ میرے تجربے سے فائدہ اٹھائیں۔ ابھی اللہ تعالیٰ مہربان ہے۔ آپ جا ئیں، جا کر اللہ تعالیٰ سے درخواست کریں اور نمازوں میں تخفیف کرائیں۔ ابو عوانہ کی روایت میں ہے کہ ایک چکر میں نے لگایا۔ فحط عنی خمسا۔ ایک چکر میں پانچ نمازیں معاف ہو گئیں۔ دوسرا چکر لگایا، پانچ مزید معاف ہو گئیں۔ نو چکر لگائے تو پینتالیس نمازیں معاف ہو گئیں، پانچ رہ گئیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک چکر اور لگائیں تو بخاری کی روایت ہے، آپ نے فرمایا: استحییت من ربی، مجھے رب سے شرم اور حیا آتی ہے۔ کس بات کی شرم؟ کہ ہر چکر میں پانچ نمازیں معاف ہوتی رہیں۔ اب اگر ایک چکر اور لگائیں تو وہ پانچ بھی معاف ہو جائیں گی تو میں تحفہ کیا لے کر جاؤں گا؟ خالی ہاتھ تو جانا اچھی بات نہیں۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی تحقیق ہے جو اس مقام پر تفسیر ابن کثیر میں ہے اور البدایہ والنہایہ میں بھی ہے کہ واپسی پر فجر کی نماز آپ نے انبیاء علیہم السلام کو جماعت کے ساتھ پڑھائی تھی۔ وہاں سے آپ آئے تو اندھیرا ہی تھا۔ آپ غلس میں، اندھیرے میں ہی فجر کی نماز پڑھتے تھے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا، حضرت دروازہ ویسے تو بند تھا۔ پیچھے سے کنڈی نہیں لگی ہوئی تھی اور میں نے دیکھا، فالتمستک علی فراشک فلم اجدک۔ میں نے آپ کی چارپائی پر دیکھا تو آپ نہ تھے؟ کہاں تھے؟ فرمایا کہ مجھے اللہ معراج پرلے گیا تھا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا آمنت وصدقت۔ کفار نے نہیں مانا۔ یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو بستر پر تو آپ کا وجود پڑا ہوتا۔ وہ کہتے ہیں: التمستک فلم اجدک۔ میں نے تلاش کیا تو آپ بستر پر نہ تھے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب کوئی نرالی بات ہوتی ہے تو وہاں ہم بھی کہتے ہیں: سبحان اللہ۔ جب رب تعالیٰ سبحان کے لفظ سے کوئی بات بیان کریں تو وہ بڑی نرالی چیز ہوگی۔ اگر خواب کا واقعہ ہوتا تو کوئی نرالا نہ ہوتا۔ یہ لفظ سبحان اس بات کی الگ دلیل اور قرینہ ہے کہ معراج جسم اور روح دونوں کے ساتھ ہوا۔ آگے فرماتے ہیں کہ بعبدہ میں لفظ عبد جسم اور روح دونوں کا نام ہے۔ باقی معراج کے متعلق عقلی ونقلی شبہات خاصے ہیں۔ اس پر ہماری ایک مستقل کتاب ہے ’’ضوء السراج فی تحقیق المعراج یعنی چراغ کی روشنی‘‘۔ اس میں ہم نے وہ عقلی ونقلی شبہات جو ہمارے سامنے آئے ہیں، ان سب کے جوابات دیے ہیں۔
الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ۔ وہ مسجد اقصیٰ جس کے ارد گرد ہم نے برکت کی ہے۔ مسجد اقصیٰ کے اردگرد ظاہر ی برکت بھی ہے، باطنی برکت بھی ہے۔ ظاہری یہ کہ بڑا زرخیز علاقہ ہے، سرسبز علاقہ ہے، پانی کے چشمے ہیں، باغات ہیں۔ اور باطنی یہ کہ بے شمار پیغمبر یہاں آئے ہیں اور ان کی وہاں قبریں ہیں۔
لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا۔ تاکہ ہم دکھائیں اس کو اپنی نشانیوں میں سے بعض۔ من تبعیضیہ ہے۔
إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ۔ جمہور مفسرین کرام تو فرماتے ہیں کہ انہ کی ضمیر اللہ کی طرف راجع ہے، یعنی وہ ذات سمیع اور بصیر ہے۔ روح البیان والے اسماعیل حقی رحمہ اللہ مفسر ہیں، رطب ویابس سب کچھ لکھ دیتے ہیں۔ انھوں نے انہ کی ضمیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹائی ہے کہ بے شک وہ بندہ سمیع ہے بصیر ہے۔ اس کا یہ معنی نہیں ہے معاذ اللہ کہ جس معنی میں رب سمیع اور بصیر ہے، اسی میں آپ بھی ہیں۔ نہیں۔ جو آپ کے شان کے لائق سمیع ہے کہ وہاں جو باتیں ہوئیں، وہ بھی سنیں اور جو کچھ ہوا، وہ بھی دیکھا۔ وہ لوگ بڑے صاف عقیدے والے ہوتے تھے۔ ایسے لفظ بول کر وہ معانی نہیں لیتے تھے جو آج کل کے غالی مبتدعین اور مشرکین لیتے ہیں۔ تو اگرچہ یہ تفسیر مرجوح ہے، لیکن اس کا معنی بھی صحیح ہے کہ وہ بندہ سمیع ہے، اس نے سنا بھی ہے دیکھا بھی ہے۔
وَآتَیْْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَجَعَلْنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیْ إِسْرَائیْلَ أَلاَّ تَتَّخِذُواْ مِن دُونِیْ وَکِیْلاً
ربط: اوپر ذکر تھا مسجد اقصیٰ کا۔ اب اس پیغمبر کا ذکر آیا جو مسجد اقصیٰ میں رہنے والی مخلوق کی طرف بھیجے گئے۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے ۔ فرمایا ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو تورات دی۔
وَجَعَلْنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیْ إِسْرَائیْلَ۔ اور بنایا ہم نے اس کو ہدایت بنی اسرائیل کے لیے۔ بعض وجعلنہ کی ضمیر کتاب کی طرف لوٹاتے ہیں کہ کتاب ہدایت تھی بنی اسرائیل کے لیے۔ یہ بھی صحیح ہے۔ اور بعض اس ضمیر کو موسیٰ علیہ السلام کی طرف لوٹاتے تھے کہ وہ ہدایت تھے بنی اسرائیل کے لیے۔ أَلاَّ تَتَّخِذُواْ مِن دُونِیْ وَکِیْلا، یہ کہ میرے بغیر تم کسی کو کارساز نہ بناؤ۔ کارساز، کام بنانے والا صرف پروردگار ہے۔
ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّہُ کَانَ عَبْداً شَکُوراً
ذُرِّیَّۃَ کا نصب ہے یا سے ہے جو محذوف ہے، ای یا ذریۃ۔ اے اولاد ان کی جن کو ہم نے کشتی میں نوح علیہ السلام کے ساتھ سوار کیا۔ نوح علیہ السلام تو بڑے شکر گزار بندے تھے تو تم کیوں ناشکری پر کمر بستہ ہو!
وَقَضَیْْنَا إِلَی بَنِیْ إِسْرَائیْلَ فِیْ الْکِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِیْ الأَرْضِ مَرَّتَیْْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوّاً کَبِیْراً۔
ربط: بنی اسرائیل کا ذکر تھا تو اب بنی اسرائیل کی شرارتوں کا ذکر ہے۔ ہم نے فیصلہ اپنا سنا دیا بنی اسرائیل کو کتاب کے ذریعے کہ تم زمین میں فساد مچاؤ گے دو مرتبہ اور سرکشی کرو گے تم سرکشی بڑی۔ تفسیر کبیر، ابن کثیر، خازن، معالم، وغیرہ تفسیروں میں یہاں بڑی بحث ہے، لیکن جتنی بسط سے بحث صاحب تفسیر حقانی نے کی ہے، شاید کسی اور نے نہیں کی۔ خلاصہ یہ ہے کہ دو دفعہ بنی اسرائیل کی شرارتوں کا بدلہ رب نے ان کو دیا۔ ایک دفعہ بخت نصر (بُخْتَ نَصَّرَ) ایرانی کے دور میں، جو ایران کا بادشاہ تھا اور بڑا جابر وظالم تھا۔ اس کی فوجیں وہاں داخل ہوئیں اور لوگوں کو قتل کیا۔ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی اور اس سلسلے میں بڑا کچھ ہوا۔ تو پہلی دفعہ یہ ہے۔
فَإِذَا جَاء وَعْدُ أُولاہُمَا بَعَثْنَا عَلَیْْکُمْ عِبَاداً لَّنَا أُوْلِیْ بَأْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّیَارِ۔ ان مرتین میں سے جب پہلی بار کا وعدہ آیا تو ہم نے اپنے بندے بھیجے، یعنی بخت نصر ایرانی اور اس کی فوجیں۔ وہ گھروں میں گھس گئے۔ وَکَانَ وَعْداً مَّفْعُولاً، اور یہ وعدہ طے شدہ تھا۔ ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْْہِمْ، پھر ہم نے تمہارے لیے باری ان پر لوٹائی۔ وَأَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْن، اور ہم نے تمہاری مدد کی۔ مال بھی دیے، پیسے بھی دیے۔َ وَجَعَلْنَاکُمْ أَکْثَرَ نَفِیْراً، اور ہم نے تمہیں برادری کے لحاظ سے، نفری کے لحاظ سے، تعداد کے لحاظ سے زیادہ کر دیا۔ ہم نے کہہ دیا، إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِکُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَہَا۔ اگر نیکی کرو گے تو اپنے نفوس کے لیے کرو گے۔ برائی کرو گے تو وہ برائی تمہارے نفوس کے لیے مختص ہے۔
فَإِذَا جَاء وَعْدُ الآخِرَۃِ۔ اب دوسری دفعہ کا وعدہ آیا۔ دوسری دفعہ طیطس (طَیْطَس) رومی کا دور تھا۔ طیطس رومی بھی لکھ دیتے ہیں، طیطاؤس رومی بھی لکھتے ہیں۔ بعض نے کہا کہ یہ عیسائی تھا، بعض کہتے ہیں کہ نہیں، مشرک تھا۔ اس طیطس رومی کے دور میں پھر ارض مقدسہ پر، بیت المقدس پر حملہ ہوا اور بے پناہ لوگ قتل کیے گئے، مسجد کی بے حرمتی ہوئی۔ اس کا ذکر ہے کہ جب وعدہ دوسری مرتبہ کا آیا۔ لِیَسُوؤُواْ وُجُوہَکُمْ۔ یہ لام عاقبت ہے۔ انجام یہ ہے کہ انھوں نے اداس کر دیے، پریشان کر دیے تمہارے چہرے، اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مسجد میں داخل ہوئے جیسے پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے، اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہلاک کر دیں جس پر وہ غالب آئے ہیں ہلاک کرنا۔ ما علوا ای ما غلبوا۔
رب تعالیٰ نے فرمایا: عَسَی رَبُّکُمْ أَن یَرْحَمَکُمْ۔ قریب ہے کہ رب تم پر رحم فرمائے گا۔ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا، اگر تم لوٹو گے شرارتوں کی طرف، فساد کی طرف، تو ہم لوٹیں گے سزا دینے کی طرف۔ تم شرارتیں کرو، ہم سزا دیں گے۔ یہ تو دنیا کی سزا ہے۔ آخرت کی سزا الگ ہے۔ وَجَعَلْنَا جَہَنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ حَصِیْراً۔ ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا رکھا ہے۔ محاصرہ کا لفظ اسی سے بنا ہے۔
إِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ یِہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَمُ
ربط: پہلے تورات کا ذکر تھا۔ اب اس کتاب کی مناسبت سے قرآن پاک کا ذکر فرماتے ہیں کہ یہ قرآن کریم رہنمائی کرتا ہے۔ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَمُ، بعض کہتے ہیں: للطریقہ التی ہی اقوم، یعنی طریقۃ کو موصوف نکالتے ہیں۔ بعض خصلۃ نکالتے ہیں، للخصلۃ التی ہی اقوم۔ اس خصلت کی طرف، اس طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو درست ہے۔ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ أَجْراً کَبِیْراً، اور مومنوں کو خوشخبری دیتا ہے جو نیک کام کرتے ہیں، اس بات کی کہ ان کے لیے اجر کبیر ہے۔ وأَنَّ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِالآخِرَۃِ أَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَاباً أَلِیْماً، اور جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے، ان کے لیے ہم نے عذاب الیم تیار کیا ہے۔
وَیَدْعُ الإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاء ہُ بِالْخَیْْرِ وَکَانَ الإِنسَانُ عَجُولاً
ربط: اوپر ذکر تھا کہ ہم نے کافروں کے لیے جہنم بنائی۔ جو قیامت کے منکر تھے ، وہ کہتے تھے کہ لاؤ نا وہ جہنم جو تم نے ہمارے لیے قید خانہ تیار کر رکھا ہے۔ کیوں نہیں لاتے؟ کاہے کی دیر ہے۔ رب تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مانگتا ہے انسان شر کو جیسے مانگتا ہے خیر کو۔ یہیں نوٹ کر لینا۔َ یَدْعُ جو ہے، یہ واؤ اس میں گر گیا۔ صرف تخفیف کے لیے۔ نہ کوئی ناصب ہے اور نہ کوئی جازم ہے۔ ایک یہ مقام ہے اور ایک آگے پچیسویں پارے میں آئے گا: وَیَمْحُ اللَّہُ الْبَاطِلَ (الشوریٰ، آیت ۲۴) وہاں یمحو سے واؤ گرا ہے، لیکن ناصب جازم کوئی نہیں۔ تیسرا سورۂ علق میں آئے گا: سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃَ (العلق، آیت ۱۸)۔ وہاں بھی واؤ گرا ہے صرف تخفیف کے لیے، ناصب جازم وہاں بھی کوئی نہیں۔ روح المعانی وغیرہ میں اس کی تصریح ہے۔
دُعَاء ہُ بِالْخَیْْرِ۔ یہ جو نصب ہے، نزع خافض کی وجہ سے ہے، ای کدعاءہ بالخیر۔ جیسے خیر کو مانگتا ہے، ویسے ہی عذاب کو بھی مانگتا ہے۔ وَکَانَ الإِنسَانُ عَجُولاً، اور ہے انسان جلد باز۔
فرمایا : وَجَعَلْنَا اللَّیْْلَ وَالنَّہَارَ آیَتَیْْنِ فَمَحَوْنَا آیَۃَ اللَّیْْلِ وَجَعَلْنَا آیَۃَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃً لِتَبْتَغُواْ فَضْلاً مِّن رَّبِّکُمْ وَلِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ وَکُلَّ شَیْْءٍ فَصَّلْنَاہُ تَفْصِیْلاً۔ اور ہم نے رات اور دن کی دو نشانیاں بنائی ہیں۔ رات کی نشانی ہم نے مٹائی اور دن کی نشانی کو ہم نے روشن کیا، تاکہ دن کو تم اللہ کا فضل تلاش کرو۔ مزدوری کرو ، محنت کرو، کماؤ۔ اور رات او ردن کے ذریعے تم سالوں کی گنتی اور حساب جانتے ہو۔ ہر چیز کو ہم نے تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا۔
وَکُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَآئرَہُ فِیْ عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کِتَاباً یَلْقَاہُ مَنشُوراً
وَکُلَّ إِنسَانٍ۔ کُلَّ کی نصب أَلْزَمْنَا کے ساتھ ہے۔ یہ نصب علیٰ شریطۃ التفسیر ہے، ای الزمنا کل انسان۔ ہر انسان کو لازم کر دیا ہم نے پروانہ اس کا۔ قیامت کے دن جب نکلے گا تو ہر آدمی کا جو نامہ عمل ہوگا، اس کے گلے میں لٹکا ہوگا۔ تو ہر آدمی کا جو پروانہ ہے، وہ اس کی گردن میں ہے۔ آپ نے وہ قرآن کریم دیکھا ہوگا جو ایک ہی ورق پر لکھا ہوا ہے۔ گو کہ ہر آدمی پڑھ نہیں سکتا، یا حفاظ پڑھیں گے یا خورد بین کے ساتھ پڑھا جائے گا، لیکن ایک ہی کاغذ پر لکھا ہوا آپ نے دیکھا ہوگا۔ اسی طرح تمام نامہ عمل انسان کا کھلا ہوا اس کے سامنے ہوگا۔ اور دنیا میں کوئی پڑھا ہو اہے یا ان پڑھ ہے، وہاں اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اتنی بصیرت عطا فرمائیں گے کہ خود پڑھ لے گا۔ اقْرَأْ کَتَابَکَ، خود پڑھ۔ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْْکَ حَسِیْباً، کافی ہے تیرا نفس آج کے دن تجھ پر حساب دان۔
اوپر ذکر ہے کہ ہم نے قران ہدایت کے لیے بھیجا یعنی نازل کیا۔ آگے فرماتے ہیں کہ جس طرح اس قرآن پاک کے ذریعے ہم نے ہدایت کی، پیغمبر بھیجنے سے پہلے ہم سزا نہیں دیتے۔ کیوں؟ اگر پیغمبروں کے آنے سے پہلے سزا ہوتی تو اس سلسلے میں لوگ کہہ سکتے تھے کہ ہم بے خبر ہیں۔ چھٹے پارے میں آپ پڑھ چکے ہیں: لِئلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (النساء آیت ۱۶۵)
آگے فرماتے ہیں کہ: وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّہْلِکَ قَرْیَۃً أَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا فَفَسَقُواْ فِیْہَا فَحَقَّ عَلَیْْہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاہَا تَدْمِیْراً۔ جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہاں کے آسودہ حال لوگوں کو حکم کرتے ہیں، پس وہ نافرمانی کرتے ہیں۔ پس ان پر بات لازم ہوتی ہے اور ہم انھیں ہلاک کر دیتے ہیں۔ یہاں أَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا، اس جملے کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب خود رب نافرمانی کا حکم دے تو ان کا گناہ کیا ہے کہ ان کو ہلاک کیا گیا۔ جب رب حکم دیتا ہے تو ان بے چاروں کا قصور کیا ہے؟ وہ رب سے زیادہ قوت والے تو نہیں کہ رب کے حکم کو ٹال سکیں۔ اس اشکال کے تین جواب ہیں:
ایک جواب بخاری کتاب التفسیر میں اور تمام تفسیروں میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امرنا کے معنی ہیں کثرنا، جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو زیادہ کر دیتے ہیں آسودہ حال لوگوں کو۔ جب وہ زیادہ ہوتے ہیں تو نافرمانی کرتے ہیں، کیونکہ دولت کا یہ خاصہ ہے کہ: وَلَوْ بَسَطَ اللَّہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہِ لَبَغَوْا فِیْ الْأَرْضِ (الشوریٰ، آیت ۲۷)۔
دوسری تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ابن کثیر، ابن جریر، معالم التنزیل، در منثور، روح المعانی وغیرہ میں مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ امرنا مترفیہا بالطاعۃ، ہم وہاں کے آسودہ حال لوگوں کو طاعت کا حکم دیتے ہیں، لیکن وہ نافرمانی کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر عذاب لازم ہو جاتا ہے۔
تیسری تفسیر یہ ہے کہ امر سے امر ہی مراد ہے، لیکن امر تشریعی نہیں، بلکہ امر تکوینی۔ امر تشریعی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ حکم کریں کہ بدی کرو۔ یہ مراد نہیں۔ امر تکوینی کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خیر اور شر کرنے کی قوت دی ہے۔ اگر کوئی شخص شر کی طرف چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہ ہے کہ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّہُ قُلُوبَہُمْ (الصف آیت ۵) اور نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی (النساء آیت ۱۱۵)۔ تو أَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا سے مراد تکوینی امر ہے کہ اچھا اس راستے کو تم اختیار کرتے ہو تو کرو۔
آگے رب تعالیٰ فرماتے ہیں: مَّن کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہُ فِیْہَا مَا نَشَاء لِمَن نُّرِیْدُ
العاجلۃ، یہ صفت ہے الدار کی۔ دار عربی میں مونث ہوتا ہے۔ جو شخص دار عاجلہ چاہتا ہے، جلدی والا گھر، یعنی دنیا تو ہم اس کے لیے جلدی کر دیتے ہیں، جو چاہیں جس کے لیے چاہیں۔ یہ نہیں کہ ہر ایک ہی چیز مل جاتی ہے،بلکہ جس کے لیے ہم چاہیں، اس کو دے دیتے ہیں۔ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہُ جَہَنَّمَ یَصْلاہَا مَذْمُوماً مَّدْحُوراً۔ پھر اس کے لیے جہنم ہے۔ اس میں داخل ہوگا مذمت کیا ہوا پھٹکارا ہوا۔
وَمَنْ أَرَادَ الآخِرَۃَ ای الدار الآخرۃ۔ اور آخرت کے گھر کا ارادہ کرے گا اور نرا ارادہ ہی نہیں، وَسَعَی لَہَا سَعْیَہَا، اس آخرت کے لیے کوشش بھی کرے گا۔ نری کوشش ہی نہیں، وَہُوَ مُؤْمِنٌ، ایمان کی صفت سے موصوف بھی ہو۔ مومن آخرت کی کوشش کرے تو اس کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔ باقی رہا دنیا کا معاملہ تو کُلاًّ نُّمِدُّ ہَؤُلاء وَہَؤُلاء مِنْ عَطَاء رَبِّکَ۔ کُلاًّ میں تنوین عوض مضاف الیہ کے ہے، ای کل واحد منہما۔ یہ جو طالب دنیا ہے اس کو بھی اور جو طالب آخرت ہے اس کو بھی، ہر ایک کو ہم مدد دیتے ہیں۔ تیرے رب کے عطیے سے دنیا میں ان کو بھی رزق ملتا ہے اور ان کو بھی۔ وَمَا کَانَ عَطَاء رَبِّکَ مَحْظُورًا۔ تیرے رب کا عطیہ محظور نہیں۔ حظر یحظر کا معنی ہے روکنا۔ فقہ میں آپ نے الحظر والاباحۃ کا جو باب پڑھا ہے، وہ اسی سے ہے، یعنی ممانعت اور اباحت کا باب۔
انظُرْ کَیْْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَلَلآخِرَۃُ أَکْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَکْبَرُ تَفْضِیْلاً
اللہ نے انسانوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، شکل میں، قد میں، علم میں، مال میں، اولاد میں اور بہت سی چیزوں میں۔
لاَّ تَجْعَل مَعَ اللّہِ إِلَہاً آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوماً مَّخْذُولاً
ربط: اوپر ذکر تھا کہ آخرت کی کوشش کریں۔ اب آخرت کی کوشش میں سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ لاَّ تَجْعَل مَعَ اللّہِ إِلَہاً آخَرَ۔ اگر بالفرض تم نے الہ بنایا تو تمہاری مذمت کی ہوگی اور رسوا اور ذلیل ہو کر بیٹھے رہو گے۔
No comments:
Post a Comment