احادیث غدیر خم:
(1)حضرت جابر بن عبدللہ ؓ کی روایت:
حَدَّثَنَا مُطَّلِبُ بْنُ زِیَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِیلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللہِ، قَالَ: کُنَّا بِالْجُحْفَۃِ بِغَدِیرِ خُمٍّ إذْ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ بِیَدِ عَلِیٍّ ، فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہُ۔
ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم غدیر خُمّ (یعنی خُمّ نام کے تالاب) کے موقع پر حجفہ مقام میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے پھر حضرت علی ؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: میں جس کا دوست ہوں پس علی بھی اس کا دوست ہے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ» کتاب: فضائل کا بیان» باب:-حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کا بیان، حدیث نمبر: 32734]
حديث متواتر نصّ على تواتره عدد من الأئمة الكرام منهم الحافظ ابن حجر رحمه الله فقد قال في الفتح (٧/ ٩٣)
(2)حضرت براء بن عاذب ؓ کی روایت:
حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ : حدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَۃَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَلِیُّ بْنُ زَیْدٍ ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ الْبَرَائِ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ ، قَالَ : فَنَزَلْنَا بِغَدِیرِ خُمٍّ ، قَالَ : فَنُودِیَ : الصَّلاۃُ جَامِعَۃٌ ، وَکُسِحَ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَحْتَ شَجَرَۃٍ فَصَلَّی الظُّہْرَ فَأَخَذَ بِیَدِ عَلِیٍّ ، فَقَالَ : أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّی أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ ، قَالُوا : بَلَی ، قَالَ : أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّی أَوْلَی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِہِ ، قَالُوا : بَلَی ، قَالَ : فَأَخَذَ بِیَدِ عَلِیٍّ ، فَقَالَ : اللَّہُمَّ مَنْ کُنْتُ مَوْلاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاہُ ، اللَّہُمَّ وَالِ مَنْ وَالاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہُ ، قَالَ : فَلَقِیَہُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِکَ ، فَقَالَ : ہَنِیئًا لَکَ یَا ابْنَ أَبِی طَالِبٍ ، أَصْبَحْت وَأَمْسَیْت مَوْلَی کُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَۃٍ۔
ترجمہ:
حضرت عدی بن ثابت ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت براء (بن عاذب) ؓ نے ارشاد فرمایا: ہم لوگ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے۔ ہم لوگوں نے غدیر خُمّ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ پس ندا لگائی گئی کہ نماز کے لیے جمع ہو جاؤ۔ اور ایک درخت کے نیچے رسول اللہ ﷺ کے لیے جگہ صاف کی گئی پس آپ ﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ اور پھر حضرت علی ؓ کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا: کیا تم لوگوں کو علم نہیں کہ میں سب مومنین پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ مقدم ہوں؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا: کیوں نہیں! راوی فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: اے اللہ! میں جس کا دوست ہوں پس علی بھی اس کا دوست ہے۔ اے اللہ! جو شخص اس کو دوست رکھے پس تو بھی اس کو دوست رکھ۔ اور جو اس سے دشمنی کرے تو بھی اس سے دشمنی فرما۔ راوی فرماتے ہیں: اس کے بعد حضرت عمر ؓ ان سے ملے اور فرمایا: اے ابو طالب کے بیٹے! تمہیں مبارک ہو۔ تم نے ہر مومن مرد اور مومن عورت کا دوست ہونے کی حالت میں صبح و شام کی۔
[مصنف ابن ابی شیبہ» کتاب:-فضائل کا بیان، باب:-حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کا بیان، حدیث نمبر: 32780]
[مسند احمد»حدیث نمبر: 17753]
[سنن ابنِ ماجہ - سنت کی پیروی کا بیان - حدیث نمبر 116 (تحفة الأشراف: ١٧٩٧، ومصباح الزجاجة: ٤٨)]
وضاحت:
یہ حدیث نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع سے لوٹتے وقت غدیرخم میں بیان فرمائی، یہ مکہ اور مدینہ کے بیچ جحفہ میں ایک مقام کا نام ہے، اس حدیث سے علی ؓ کی خلافت بلافصل پر استدلال درست نہیں:
(١) کیونکہ اس کے لئے شیعہ مذہب میں حدیث متواتر چاہیے، اور یہ متواتر نہیں ہے۔
(٢) ولی اور مولیٰ مشترک المعنی لفظ ہیں، اس لئے کوئی خاص معنی متعین ہو یہ ممنوع ہے۔
(٣) امام معہود و معلوم کے لئے مولیٰ کا اطلاق اہل زبان کے یہاں مسلم نہیں۔
(٤) خلفاء ثلاثہ (ابوبکر، عمر، عثمان ؓ) کی تقدیم اجماعی مسئلہ ہے، اور اس اجماع میں خود حضرت علی ؓ شامل ہیں۔
(٥) اگر اس سے خلافت بلافصل مراد ہوتی تو صحابہ کرام ؓ ہرگز اس سے عُدُول(نافرمانی، سرتابی، انکار، روگردانی) نہ کرتے، وہ اہل زبان اور منشاء نبوی کو ہم سے بہتر جاننے والے تھے۔
(٦) اس حدیث میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ علی ؓ سے محبت کی جائے اور ان کے بغض سے اجتناب کیا جائے، اور یہ اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ سارے صحابہ کرام ؓ بالخصوص امہات المومنین اور آل رسول سے محبت کی جائے، اور ان سے بغض و عداوت کا معاملہ نہ رکھا جائے۔
تشریح:
یہ واقعہ جس کا ذکر اس روایت میں کیا گیا، حجۃ الوداع کے سفر سے واپسی کا ہے۔ "غدیر" کے معنی تالاب کے ہیں اور خم ایک مقام کا نام ہے جس کے قریب یہ تالاب تھا، یہ مقام مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جاتے ہوئے مشہور بستی "الجحفہ" سئ تین چار میل کے فاصلہ پر واقع تھا۔ آنحضرت ﷺ حجۃ الوداع سے واپس ہوتے ہوئے اپنے فرقاء سفر کے پورے قافلہ کے ساتھ جس میں مدینہ منورہ اور قرب و جوار کے تمام ہی وہ صحابہ کرامؓ تھے جو اس مبارک سفر میں آپ ﷺ کے ساتھ تھے، ۱۸؍ ذی الحجہ کو اس مقام پر پہنچے تھے، اور قیام فرمایا تھا، یہاں آپ ﷺ نے ان رفقاء سفر کو جمع کر کے ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ سے متعلق حدیث کی کتابوں میں جو روایات ہیں۔ ان سے کو جمع کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اس خطاب میں کچھ اہم باتیں ارشاد فرمائی تھی جن میں سے ایک بات حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے بارے میں وہ بھی تھی جو اس روایت میں ذکر کی گئی ہے۔ یہ بات آپ ﷺ نے ایک تمہید کے ساتھ خاص اہمیت سے بیان فرمائی۔
سورہ احزاب کے آیت نمبر 6 میں ارشاد فرمایا گیا ہے: "النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ" اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کو فطری طور پر سب سے زیادہ محبت و خیرخواہی اپنے نفس اور اپنی عزیز جان کے ساتھ ہوتی ہے، ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کا حق ہے کہ اہل ایمان اپنے نفس اور اپنی جان عزیز سے بھی زیادہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت رکھیں۔ قرآن پاک کی اس آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور ﷺ نے حاضرین سے فرمایا کہ کیا تم یہ بات نہیں جانتے کہ میں سب ایمان والوں کی دوستی اور محبت کا ان کے نفسوں اور ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق دار ہوں۔ سب حاضرین نے بیک زبان عرض کیا کہ ہاں! بےشک ایسا ہی ہے، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ "کیا تم یہ بات نہیں جانتے کہ ہر مومن کو اپنے نفس اور اپنی عزیز جان سے جو محبت اور تعلق ہے اس سے زیادہ محبت اور تعلق اس کو میرے ساتھ ہونا چاہئے۔ سب حاضرین نے عرض کیا کہ ہاں بےشک ایسا ہی ہے، آپ ﷺ کا ھق ہم میں سے ہر ایک پر یہ ہے کہ اپنے نفس اور اپنی جان عزیزسے بھی زیادہ محبت آپ ﷺ کے ساتھ ہو ..... اس کے بعد آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا۔
«اَللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»
ترجمہ:
اے اللہ! (تو گواہ رہ کہ) میں جس کا دوست اور محبوب ہوں تو یہ علی بھی اس کے دوست اور محبوب ہیں، تو اے اللہ! میری تجھ سے دعا ہے کہ جو علیؓ سے محبت رکھے تو اس سے محبت کا معاملہ فرما اور جو اس سے عداوت رکھے تو اس کے ساتھ عداوت کا معاملہ فرما۔
.....حضور ﷺ کے اس خطاب کے بعد حضرت عمرؓ، حضرت علی مرتضیٰؓ سے ملے اور مبارک باد دیتے ہوئے فرمایا اے ابن ابی طالب! تم کو مبارک اور خوشگوار ہو کہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق ہر ایمان والے اور ہر ایمان والی کے تم محبوب ہو گئے، ہر ایک تم سے ہمیشہ محبت کا تعلق رکھے گا۔
یہاں تک صرف حدیث کے مضمون کی تشریح کی گئی، اس موقع پر راقم سطور ناظرین کو یہ بتلانا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ شیعہ علماء و مصنفین اس حدیث کو اپنے اس عقیدہ اور دعوے کی مضبوط ترین اور سب سے زیادہ وزنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، غدیر خم کے خطاب میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد کے لئے حضرت علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ و جانشین اور امت کا امام و حاکم بنا دیا تھا اور اس خطاب کا خاص مقصد یہی تھا، وہ کہتے ہیں کہ مولیٰ کے معنی آقا، مالک اور حاکم کے ہیں اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ میں جن لوگوں کا آقا اور حاکم ہوں علیؓ ان سب کے آقا اور حاکم ہیں، پس یہ حضرت علی مرتضیٰؓ کی خلافت اور امت پر ان کی حاکمیت کا اعلان تھا ..... ان شاء اللہ آئندہ سطور سے ناظرین کرام کو معلوم ہو جائے گا کہ شیعہ علماء کا یہ دعویٰ اور ان کی یہ دلیل کس قدر لچر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان میں بہت سے الفاظ ایسے جو بیس بیس یا اس سے بھی زیادہ معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ لفظ مولیٰ بھی انہیں الفاظ میں سے ہے۔ عربی لغت کی مشہور و مستند ترین کتاب "القاموس المحیط" میں اس لفظ مولیٰ کے مندرجہ ذیل ۲۱ معنی لکھے ہیں۔
مولیٰ کی ایک بھی معنیٰ خلیفہ نہیں:
المولى:
(1) المالك(2) والعبد(3) والعتق(4) والمعتق(5) والصاحب(6) والقريب كابن العم ونحوه(7) والجار(8) والحليف(9) والابن(10) والعم(11) والنزيل(12) والشريك(13) وابن الاخت(14) والولى(15) والرب(16) والناصر(17) والمنعم(18) والمنعم عليه(19) والمحب(20) والتابع(21) والصهر.
[القاموس المحیط: صفحه 1781. ولي-10257]
(ان تمام الفاظ کا ترجمہ مصباح اللغات کی عبارت میں ناظرین کرام ملاحظہ فرمائیں گے جو آگے نقل کی جا رہی ہے)
اور عربی لغت کی دوسری مستند و معروف کتاب "اقرب الموارد" میں بھی لفظ مولیٰ کے یہی سب معنی لکھے گئے ہیں۔
لغت حدیث کی مشہور و مستند ترین کتاب "النهاية لابن الاثير الجزري فى غريب الحديث والاثر" میں بھی قریبا یہ سب معنی لکھے گئے ہیں، علامہ طاہر پٹنی نے مجمع بحار الانوار میں نہایہ ہی کے حوالہ سے اس کی پوری عبارت نقل کر دی ہے۔
[مصباح اللغات:صفحه 926. المنجد: صفحه 987] جس میں عربی الفاظ کے معنی اردو زبان میں لکھے گئے ہیں، اس میں قریب قریب ان سب الفاظ کا ترجمہ آ گیا ہے جو "القاموس المحیط" اور "اقرب الموارد" وغیرہ مندرجہ بالا کتابوں میں لکھے گئے ہیں، ہم اس کی عبارت بعینہٖ ذیل میں درج کرتے ہیں۔
المولی = مالک و سردار، غلام آزاد کرنے والا، آزاد شدہ، انعام دینے والا جس کو انعام دیا جائے، محبت کرنے والا، ساتھی۔ حلیف پڑوسی، مہمان، شریک، بیٹا، چچا کا بیٹا، بھانجا، چچا، داماد، رشدہ دار، والی، تابع۔
معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن پاک کی کسی آیت یا حضور ﷺ کے کسی ارشاد میں یا کسی بھی فصیح و بلیغ کلام میں جب کوئی کثیر المعنی لفظ استعمال ہو تو خود اس میں یا اس کے سیاق و سباق میں ایسا قرینہ موجود ہوتا ہے جو اس لفظ کے معنی اور اس کی مراد متعین کر دیتا ہے .... اس زیر تشریح حدیث میں خود قرینہ موجود ہے، جس سے اس حدیث کے لفظ مولیٰ کے معنی متعین ہو جاتے ہیں، حدیث کا آخری دعائیہ جملہ ہے:
"اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ"
ترجمہ:
(اے اللہ! جو علی سے دوستی اور محبت رکھے تو اس سے دوستی اور محبت فرما، اور جو اس سے دشمنی رکھے، تو اس کے ساتھ دشمنی کا معاملہ فرما)۔
اس سے متعین طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ حدیث میں لفظ مولیٰ دوست اور محبوب کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اور "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" کا مطلب وہی ہے جو اوپر تشریح میں بیان کیا گیا ہے۔
پھر آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جو کچھ ہوا، وہ اس بات کی روشن اور قطعی دلیل ہے کہ غدیر خم کے ہزاروں صحابہ کرام کے اس مجمع میں کسی فرد نے، خود حضرت علی مرتضیٰؓ اور ان کے قریب ترین حضرات نے بھی حضور کے اس ارشاد کا مطلب یہ نہیں سمجھا تھا کہ آنحضرت ﷺ اپنے بعد کے لئے ان کی خلافت و حاکمیت اور امت کی امامت عامہ کا اعلان فرما رہے ہیں، اگر خود حضرت علی مرتضیٰؓ نے اور ان کے علاوہ جس نے بھی ایسا سمجھا ہوتا، تو ان کا فرض تھا کہ جس وقت خلافت کا مسئلہ طے ہو رہا تھا تو یہ لوگ کہتے کہ ابھی صرف ستر (۷۰) بہتر (۷۲) دن پہلے غدیر خم کے موقعہ پر حضور ﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنا خلیفہ اور جانشین بنا دیا تھا اور اہتمام سے اس کا اعلان فرمایا تھا الغرض یہ مسئلہ خود حضور ﷺ طے فرما گئے ہیں اور حضرت علیؓ کو اپنے بعد کے لئے خلیفہ نامزد فرما گئے ہیں، اب وہی حضور ﷺ کے خلیفہ اور آپ ﷺ کی جگہ امت کے حکمران اور سربراہ ہیں .... لیکن معلوم ہے کہ نہ حضرت علیؓ نے یہ بات کہی اور نہ کسی اور نے، سبھی نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو آنحضرت ﷺ کا خلیفہ اور جانشین تسلیم کر کے بیعت کر لی۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر شیعہ علماء کی یہ بات مان لی جائے کہ حضور ﷺ نے غدیر خم کے اس خطبہ میں "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" فرما کر حضرت علی مرتضیٰؓ کی خلافت و جانشینی صاف صاف اعلان فرمایا تھا تو معاذ اللہ حضرت علی ؓ سب سے بڑے مجرم ٹھہریں گے کہ انہوں نے حضور ﷺ کی وصال کے بعد اس کی بنیاد پر خلافت کا دعویٰ کیوں نہیں فرمایا؟ ان کا فرض تھا کہ حضور ﷺ کی اس تجویز کی تنقید اور اس فرمان و اعلان کو عمل میں لانے کے لئے میدان میں آتے اگر کوئی خطرہ تھا تو اس کا مقابلہ فرماتے۔
یہی بات حضرت حسن ؓ کے پوتے حسن مثلث نے اس شخص کے جواب میں فرمائی تھی جو حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں رافضیوں والا غالیانہ عقیدہ رکھتا تھا اور حضور ﷺ کے ارشاد: من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے بارے میں کہتا تھا کہ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ نامزد فرمایا تھا، تو حضرت حسن مثلث نے اس شخص سے فرمایا تھا۔
”لو كان الأمر كما تقولون: أن النبي صلى الله عليه وسلم اختار عليا لهذا الأمر والقيام على الناس بعده – كان عليّ أعظم الناس جرما وخطيئة، إذ ترك أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يقوم به، ويُعذر إلى الناس“.
ترجمہ:
اگر بات وہ ہو جو تم لوگ کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام نے علیؓ کو رسول کے بعد خلافت کے لئے منتخب اور نامزد فرما دیا تھا تو علیؓ سب سے زیادہ خطاکار اور مجرم ٹھہریں گے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل نہیں کی۔
[سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي-لعبد الملك المعصمي:2/ 341]
اور جب اس شخص نے حضرت حسن مثلث سے یہ بات سن کر اپنے عقیدہ کی دلیل میں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" کا حوالہ دیا تو حضرت حسن مثلث نے فرمایا۔
أما والله إن رسول الله صلى الله عليه وسلم إن كان يعني بذلك الأمرة والسلطان والقيام على الناس بعده لأفصح لهم بذلك كما أفصح لهم بالصلاة والزكاة وصيام رمضان وحج البيت، ولقال لهم إن هذا ولي أمركم من بعدي فاسمعو له وأطيعوا.
ترجمہ:
سن لو! میں اللہ کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کا مقصد علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ اور حاکم بنانا ہوتا تو یہ بات آپ ﷺ اسی طرح صراحت اور وضاحت سے فرماتے جس طرح آپ ﷺ نے نماز، زکوٰۃ، روزوں اور حج کے بارے میں صراحت اور وضاحت سے فرمایا ہے اور صاف صاف یوں فرماتے کہ اے لوگو! یہ علی میرے بعد ولی الامر اور حاکم ہوں گے لہٰذا تم ان کی بات سننا اور اطاعت و فرمانبرداری کرنا۔
[الأعتقاد-للبيهقي: صفحه 182 -183 ، تفسير روح المعاني-الآلوسي:6 /195]
اس کے بعد یہ بات وضاحت طلب رہ جاتی ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ کا مقصد اس ارشاد سے کیا تھا اور حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں اس خطاب میں آپ ﷺ نے یہ بات کس خاص وجہ سے اور کس غرض سے فرمائی۔
واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع سے کچھ عرصہ پہلے حضرت علی مرتضیٰؓ کو قریبا تین سو افراد کی جمیعت کے ساتھ یمن بھیج دیا تھا، وہ حجۃ الوداع میں یمن سے مکہ مکرمہ آ کر ہی رسول اللہ ﷺ سے ملے تھے، یمن کے زمانہ قیام میں ان کے چند ساتھیوں کو ان کے بعض اقدامات سے اختلاف ہوا تھا، وہ لوگ بھی حجۃ الوداع میں شرکت کے لئے ان کے ساتھ ہی مکہ مکرمہ آئے تھے، یہاں آ کر ان میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے بھی اپنے احساس و خیال کے مطابق حضرت علیؓ کی شکایت کی (2) اور دوسرے لوگوں نے بھی ذکر کر دیا ..... بلا شبہ یہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ آنحضرت ﷺ سے جن لوگوں نے شکایت کی، حضور ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کا عنداللہ اور دین میں جو مقام و مرتبہ ہ ان کو بتلا کر اور ان کے اقدامات کی تصویب اور توثیق فرما کر ان کے خیالات کی اصلاح فرما دی، لیکن بات دوسرے لوگوں تک بھی پہنچ چکی تھی، شیطان ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھا کر دلوں میں کدورت اور افتراق پیدا کر دیتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کو جب اس صورت حال کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے ضرورت محسوس فرمائی کہ حضرت علی مرتضیٰؓ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبوبیت اور مقبولیت کا جو مقام حاصل ہے اس سے عام لوگوں کو آگاہ فرما دیں اور اس کے اظہار و اعلان کا اہتمام فرمائیں .... اسی مقصد سے آپ ﷺ نے غدیر خم کے اس خطبہ میں جس کے لئے آپ ﷺ نے اپنے تمام رفقاء سفر صحابہ کرامؓ کو جمع فرما دیا تھا، خاص اہتمام سے حضرت علیؓ کا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر ارشاد فرمایا تھا: "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ"
جیسا کہ تفصیل سے اوپر ذکر کیا جا چکا ہے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ میں جس کا محبوب ہوں یہ علیؓ بھی اس کے محبوب ہیں لہذا جو مجھ سے محبت کرے اس کو چاہئے وہ ان علی سے بھی محبت کرے، آگے آپ ﷺ نے دعا فرمائی، اے اللہ جو بندہ علی سے محبت و موالاۃ کا تعلق رکھے اس سے تو محبت و موالاۃ کا معاملہ فرما اور جو کوئی علی سے عداوت رکھے اس کے ساتھ عداوت کا معاملہ فرما، جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا یہ دعائیہ جملہ اس کا واضح قرینہ ہے کہ اس حدیث میں مولیٰ کا لفظ محبوب ہے اور دوست کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد: "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ..... الخ" کا مسئلہ امامت و خلافت سے کوئی تعلق نہیں۔
امید ہے کہ یہاں تک جو کچھ اس مسئلہ کے بارے میں عرض کیا گیا وہ ہر صاحب ایمان سلیم القلب کے لئے ان شاء اللہ کافی و شافی ہو گا۔
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ.
ترجمہ:
یقینا اس میں اس شخص کے لیے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے۔
[معارف الحدیث»حدیث نمبر: 2068]
[مشکوٰۃ المصابیح» کتاب:-كتاب المناقب» باب:-علی بن ابی طالب ؓ کے مناقب کا بیان» خج حدیث نمبر: 6103]
نوٹ:
(١) 9 ذی الحج کو یوم عرفہ کہتے ہیں، 18 ذی الحج کو نہیں جب غدیر خم کا خطبہ فرمایا گیا.
(٢) عرفہ میں وقوف کرنے والوں کے لیے عید(الأضحى) کا دن ہے:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یوم عرفہ اور یوم النحر(يعني قربانی کا دن) اورایام تشریق (یعنی ١١ ، ١٢ ، ١٣ ذی الحجہ کے دن) ہم اہل اسلام کی عید کےدن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں ۔
[سنن نسائی:3007، سنن ابی داود:2419، سنن الترمذی:773]
(3)حضرت علی بن ابی طالب ؓ کی روایت:
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحِيمِ الْكِنْدِيِّ عَنْ زَاذَانَ أَبِي عُمَرَ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيًّا فِي الرَّحْبَةِ وَهُوَ يَنْشُدُ النَّاسَ مَنْ شَهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ وَهُوَ يَقُولُ مَا قَالَ فَقَامَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا فَشَهِدُوا أَنَّهُمْ سَمِعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ
ترجمہ:
زاذان کہتے ہیں کہ میں نے صحن مسجد میں حضرت علی ؓ کو لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر یہ پوچھتے ہوئے سنا کہ غدیر خُمّ کے موقع پر نبی ﷺ کی خدمت میں کون حاضر تھا اور کس نے نبی ﷺ کا فرمان سنا تھا؟ اس پر تیرہ آدمی کھڑے ہوگئے اور ان سب نے گواہی دی کہ انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں۔
[مسند احمد» حدیث نمبر: 606]
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي صَالِحٍ الْأَسْلَمِيَّ حَدَّثَنِي زِيَادُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَنْشُدُ النَّاسَ فَقَالَ أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا مُسْلِمًا سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ مَا قَالَ فَقَامَ اثْنَا عَشَرَ بَدْرِيًّا فَشَهِدُوا
ترجمہ:
زاذان کہتے ہیں کہ میں نے صحن مسجد میں حضرت علی ؓ کو لوگوں کو اللہ کی قسم دے کر یہ پوچھتے ہوئے سنا کہ غدیر خُمّ کے موقع پر نبی ﷺ کی خدمت میں کون حاضر تھا اور کس نے نبی ﷺ کا فرمان سنا تھا؟ اس پر بارہ بدری صحابہ ؓ کھڑے ہوگئے اور ان سب نے گواہی دی۔
[مسند احمد»حدیث نمبر: 633]
رسول الله ﷺ نے مجمعے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:
جس کا میں مولا، اسکا علی مولا۔
یہ صرف رسول اللہ ﷺ نے ہی نہیں فرمایا بلکہ صحابہ میں بھی آپ کو مولا کہا جاتا تھا، چنانچہ:
رباح بن الحارث فرماتے ہیں ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایک کھلی جگہ پر تشریف فرما تھے پر کہ ایک قافلہ آیا اور کہنے لگا:
السلام علیک یا مولانا (اے ہمارے مولا آپ پر سلام ہو)۔
حضرت علی نے کہا:
میں تمھارا مولا کیسے ہوسکتا ہوں جبکہ تم قوم ِعرب ہو۔
انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے غدیر خوم کے موقع پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا:
جسکا میں مولا اسکا علی مولا۔
راوی کہتا میں نے اس قافلے کے جانے کے بعد اسے قافلے کا پیچھا کیا اور پوچھا یہ کون ہیں معلوم ہوا کہ یہ انصار کا ایک گروہ ہے جس میں ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔
مسند احمد 23563، 38/541-542، شیخ ارناوط نے اسکی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ امام ھیثمی اس واقعہ کے مختلف طرق نقل کرنے بعد فرماتے ہیں:
وَرِجَالُ أَحْمَدَ ثِقَاتٌ (مسند احمد کے راوی ثقہ ہیں)۔
[مجمع الزوائد: 14610، 9/104-105]
یہ روایت معجم الصحابة 4/364 للبغوي میں بھی صحیح سند سے مروی ہے۔
نیز بعض علماء کا یہ کہنا اس میں سیدنا زید رضی اللہ عنہ بھی شامل ہے، تو یہ نہات مظالطہ آمیز اور سطحی قسم کی بات ہے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا جس کا میں مولا ہوں اسکا علی مولا ہے تو نبی کریم ﷺ کو مولا بنانا واجب ہے اسکے بغیر چارہ ہی نہیں۔ جبکہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا آپ ہمارے مولا ہے جو کہ سیدنا علی والے معاملے سے کم درجہ کا معاملہ ہے۔ تو یہ وجوب کا درجہ رکھتا ہے۔ من کنت مولاہ میں یہ شرط ہے اور فھذا علي مولاہ اسکی جزا ہے جس سے اس میں لزوم کا معنی پیدا ہوجاتا ہے۔
امام ابن شاھین فرماتے ہیں:
تَفَرَّدَ عَلِيٌّ بِهَذِهِ الْفَضِيلَةِ، لَمْ يَشْرَكْهُ فِيهَا أَحَدٌ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس فضیلت میں منفرد ہیں اس میں کوئی انکے ساتھ شریک نہیں۔
[شرح مذاھب اھل السنة 1/103]
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ وَعَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ قَالَا نَشَدَ عَلِيٌّ النَّاسَ فِي الرَّحَبَةِ مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ إِلَّا قَامَ قَالَ فَقَامَ مِنْ قِبَلِ سَعِيدٍ سِتَّةٌ وَمِنْ قِبَلِ زَيْدٍ سِتَّةٌ فَشَهِدُوا أَنَّهُمْ سَمِعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ أَلَيْسَ اللَّهُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ قَالُوا بَلَى قَالَ اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ عَمْرٍو ذِي مُرٍّ بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاقَ يَعْنِي عَنْ سَعِيدٍ وَزَيْدٍ وَزَادَ فِيهِ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا عَلِيٌّ أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ
ترجمہ:
سعید بن وہب اور زید بن یثیع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی ؓ نے صحن کوفہ میں لوگوں کو قسم دے کر فرمایا کہ جس شخص نے غدیر خُمّ کے موقع پر نبی ﷺ کا میرے حوالے سے کوئی ارشاد سنا ہو تو وہ کھڑا ہوجائے، اس پر سعید کی رائے کے مطابق بھی چھ آدمی کھڑے ہوگئے اور زید کی رائے کے مطابق بھی چھ آدمی کھڑے ہوگئے اور ان سب نے اس بات کی گواہی دی کہ انہوں نے نبی ﷺ کو غدیر خم کے موقع پر حضرت علی ؓ کے متعلق یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ کیا اللہ کو مومنین پر کوئی حق نہیں؟ سب نے عرض کیا کیوں نہیں! فرمایا: اے اللہ! جس کا میں مولیٰ ہوں، علی بھی اس کے مولیٰ ہیں اے اللہ جو علی سے دوستی کرے تو اس سے دوستی فرما اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی فرما۔ گذشتہ روایت ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے کہ جس کے آخر میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جو علی کی مدد کرے تو اس کی مدد فرما اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی فرما۔ گذشتہ روایت اس دوسری سند سے حضرت زید بن ارقم ؓ سے بھی مروی ہے۔
[مسند احمد»حدیث نمبر: 906]
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَرْقَمَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى قَالَ شَهِدْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الرَّحَبَةِ يَنْشُدُ النَّاسَ أَنْشُدُ اللَّهَ مَنْ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ لَمَّا قَامَ فَشَهِدَ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَامَ اثْنَا عَشَرَ بَدْرِيًّا كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَحَدِهِمْ فَقَالُوا نَشْهَدُ أَنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجِي أُمَّهَاتُهُمْ فَقُلْنَا بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ
ترجمہ:
عبدالرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی ؓ نے صحن کوفہ میں لوگوں کو قسم دے کر فرمایا کہ جس نے غدیر خُمّ کے موقع پر نبی ﷺ کا یہ ارشاد مبارک سنا ہو تو وہ کھڑا ہوجائے، کہ جس کا میں مولیٰ ہوں، علی بھی اس کے مولیٰ ہیں، اس پر بارہ بدری صحابہ ؓ کھڑے ہوگئے اور ان سب نے اس بات کی گواہی دی کہ ہم سب نے نبی ﷺ کو غدیر خم کے موقع پر حضرت علی ؓ کے متعلق یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ کیا اللہ کو مومنین پر کوئی حق نہیں؟ سب نے عرض کیا کیوں نہیں! فرمایا جس کا میں مولیٰ ہوں، علی بھی اس کے مولیٰ ہیں اے اللہ جو علی سے دوستی کرے تو اس سے دوستی فرما اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی فرما۔
[مسند احمد»حدیث نمبر: 915]
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ الْوَكِيعِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عُقْبَةَ بْنِ نِزَارٍ الْعَنْسِيُّ حَدَّثَنِي سِمَاكُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ الْوَلِيدِ الْعَبْسِيُّ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى فَحَدَّثَنِي أَنَّهُ شَهِدَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الرَّحَبَةِ قَالَ أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَهِدَهُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ إِلَّا قَامَ وَلَا يَقُومُ إِلَّا مَنْ قَدْ رَآهُ فَقَامَ اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا فَقَالُوا قَدْ رَأَيْنَاهُ وَسَمِعْنَاهُ حَيْثُ أَخَذَ بِيَدِهِ يَقُولُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ فَقَامَ إِلَّا ثَلَاثَةٌ لَمْ يَقُومُوا فَدَعَا عَلَيْهِمْ فَأَصَابَتْهُمْ دَعْوَتُهُ
ترجمہ:
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی ؓ نے صحن کوفہ میں لوگوں کو قسم دے کر فرمایا: جس نے غدیر خم کے موقع پر نبی ﷺ سے میرے حوالے سے کوئی ارشاد سنا ہو تو وہ کھڑا ہوجائے اور وہی کھڑا ہو جس نے نبی ﷺ کو دیکھا ہو، اس پر بارہ آدمی کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ ہم نے خود دیکھا کہ نبی ﷺ نے حضرت علی ؓ کا ہاتھ پکڑا اور ہم نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا، اے اللہ جو علی سے دوستی کرے تو اس سے دوستی فرما اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی فرما جو علی کی مدد کرے تو اس کی مدد فرما اور جو اسے تنہا چھوڑے تو اسے تنہا فرما، اس موقع پر تین آدمی ایسے بھی تھے جو کھڑے نہیں ہوئے، حضرت علی ؓ نے انہیں بد دعا دی اور وہ اس کا شکار ہوگئے۔
[مسند احمد»حدیث نمبر: 918]
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَأَبُو نُعَيْمٍ الْمَعْنَى قَالَا ثَنَا فِطْرٌ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ جَمَعَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ النَّاسَ فِي الرَّحَبَةِ ثُمَّ قَالَ لَهُمْ أَنْشُدُ اللَّهَ كُلَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ مَا سَمِعَ لَمَّا قَامَ فَقَامَ ثَلَاثُونَ مِنْ النَّاسِ وَقَالَ أَبُو نُعَيْمٍ فَقَامَ نَاسٌ كَثِيرٌ فَشَهِدُوا حِينَ أَخَذَهُ بِيَدِهِ فَقَالَ لِلنَّاسِ أَتَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ قَالُوا نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ قَالَ فَخَرَجْتُ وَكَأَنَّ فِي نَفْسِي شَيْئًا فَلَقِيتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ فَقُلْتُ لَهُ إِنِّي سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا قَالَ فَمَا تُنْكِرُ قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَلِكَ لَهُ۔
ترجمہ:
ابوالطفیل (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی ؓ نے صحن کوفہ میں لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا جس مسلمان نے غدیرخم کے موقع پر نبی کریم ﷺ کا ارشاد سنا ہو میں اسے قسم دے کر کہتاہوں کہ اپنی جگہ پر کھڑا ہوجائے چناچہ تیس آدمی کھڑے ہوگئے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ مجھے مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق حاصل ہے؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا کیوں نہیں پھر نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ کا ہاتھ دبا کر فرمایا جس کا میں محبوب ہوں علی بھی اس کے محبوب ہونے چاہئیں اے اللہ، اے اللہ! جو علی ؓ سے محبت کرتا ہے تو اس سے محبت فرما اور جو اس سے دشمنی کرتا ہے تو اس سے دشمنی فرما میں وہاں سے نکلا تو میرے دل میں اس کے متعلق کچھ شکوک و شبہات تھے چناچہ میں حضرت زید بن ارقم ؓ سے ملا اور عرض کیا کہ میں نے حضرت علی ؓ کو اس اس طرح کہتے ہوئے سنا ہے انہوں نے فرمایا تمہیں اس پر تعجب کیوں ہورہا ہے؟ میں نے خود نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔
[مسند احمد»حدیث نمبر: 18501]
(4)حضرت زید بن ارقم ؓ کی روایت:
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ قَالَ سَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ خَتَنًا لِي حَدَّثَنِي عَنْكَ بِحَدِيثٍ فِي شَأْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْكَ فَقَالَ إِنَّكُمْ مَعْشَرَ أَهْلِ الْعِرَاقِ فِيكُمْ مَا فِيكُمْ فَقُلْتُ لَهُ لَيْسَ عَلَيْكَ مِنِّي بَأْسٌ فَقَالَ نَعَمْ كُنَّا بِالْجُحْفَةِ فَخَرْجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْنَا ظُهْرًا وَهُوَ آخِذٌ بِعَضُدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ قَالُوا بَلَى قَالَ فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ قَالَ فَقُلْتُ لَهُ هَلْ قَالَ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ قَالَ إِنَّمَا أُخْبِرُكَ كَمَا سَمِعْتُ۔
ترجمہ:
عطیہ عوفی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت زید بن ارقم ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ میرے ایک داماد نے حضرت علی ؓ کی شان میں غدیرخم کے موقع کی حدیث آپ کے حوالے سے میرے سامنے بیان کی ہے، میں چاہتا ہوں کہ براہ راست آپ سے اس کی سماعت کروں؟ انہوں نے فرمایا اے اہل عراق! مجھے تم سے اندیشہ ہے میں نے عرض کیا کہ میری طرف سے آپ بےفکر رہیں انہوں نے کہا اچھا ایک مرتبہ ہم لوگ مقام جحفہ میں تھے کہ ظہر کے وقت نبی کریم ﷺ حضرت علی ؓ کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا لوگو! کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ مجھے مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق حاصل ہے؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کیوں نہیں، پھر نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ کا ہاتھ دبا کر فرمایا جس کا میں محبوب ہوں علی بھی اس کے محبوب ہونے چاہئیں میں نے عرض کیا کہ نبی کریم ﷺ نے یہ فرمایا تھا اے اللہ! جو علی ؓ سے محبت کرتا ہے تو اس سے محبت فرما اور جو اس سے دشمنی کرتا ہے تو اس سے دشمنی فرما؟ انہوں نے فرمایا میں نے جو سنا تھا وہ تمہیں بتادیا۔
[مسند احمد»حدیث نمبر: 18480]
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنِ الْمُغِيرَةِ عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ وَأَنَا أَسْمَعُ نَزَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَادٍ يُقَالُ لَهُ وَادِي خُمٍّ فَأَمَرَ بِالصَّلَاةِ فَصَلَّاهَا بِهَجِيرٍ قَالَ فَخَطَبَنَا وَظُلِّلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَوْبٍ عَلَى شَجَرَةِ سَمُرَةٍ مِنْ الشَّمْسِ فَقَالَ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَوَلَسْتُمْ تَشْهَدُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ قَالُوا بَلَى قَالَ فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَإِنَّ عَلِيًّا مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَوَالِ مَنْ وَالَاهُ۔
ترجمہ:
حضرت زید بن ارقم ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی سفر میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے ہم نے "غدیر خم" کے مقام پر پڑاؤ ڈالا، کچھ دیر بعد " الصلوٰۃ جامعۃ " کی منادی کردی گئی دو درختوں کے نیچے نبی کریم ﷺ کے لئے جگہ تیار کردی گئی نبی کریم ﷺ نے نماز ظہر پڑھائی اور حضرت علی ؓ کا ہاتھ پکڑ کردو مرتبہ فرمایا کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ مجھے مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق حاصل ہے؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا کیوں نہیں پھر نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ کا ہاتھ دبا کر فرمایا جس کا میں محبوب ہوں علی بھی اس کے محبوب ہونے چاہئیں اے اللہ، اے اللہ! جو علی ؓ سے محبت کرتا ہے تو اس سے محبت فرما اور جو اس سے دشمنی کرتا ہے تو اس سے دشمنی فرما۔
[مسند احمد»حدیث نمبر: 18523]
خطبہ غدیرِ خُمّ» حدیثِ ثقلین(دو بھاری چیزیں)۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَشُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ جَمِيعًا عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنِي أَبُو حَيَّانَ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَيَّانَ قَالَ انْطَلَقْتُ أَنَا وَحُصَيْنُ بْنُ سَبْرَةَ وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ إِلَی زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ فَلَمَّا جَلَسْنَا إِلَيْهِ قَالَ لَهُ حُصَيْنٌ لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا کَثِيرًا رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ وَغَزَوْتَ مَعَهُ وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا کَثِيرًا حَدِّثْنَا يَا زَيْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَا ابْنَ أَخِي وَاللَّهِ لَقَدْ کَبِرَتْ سِنِّي وَقَدُمَ عَهْدِي وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي کُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا حَدَّثْتُکُمْ فَاقْبَلُوا وَمَا لَا فَلَا تُکَلِّفُونِيهِ ثُمَّ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا بِمَائٍ يُدْعَی خُمًّا بَيْنَ مَکَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ وَوَعَظَ وَذَکَّرَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِکُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ وَأَنَا تَارِکٌ فِيکُمْ ثَقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا کِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَی وَالنُّورُ فَخُذُوا بِکِتَابِ اللَّهِ وَاسْتَمْسِکُوا بِهِ فَحَثَّ عَلَی کِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ ثُمَّ قَالَ وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَکِّرُکُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَکِّرُکُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَکِّرُکُمْ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ يَا زَيْدُ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ قَالَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ وَلَکِنْ أَهْلُ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ قَالَ وَمَنْ هُمْ قَالَ هُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيلٍ وَآلُ جَعْفَرٍ وَآلُ عَبَّاسٍ قَالَ کُلُّ هَؤُلَائِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ قَالَ نَعَمْ
ترجمہ:
زہیر بن حرب، شجاع بن مخلد ابن علیہ، زہیر اسماعیل بن ابراہیم، ابوحیان حضرت یزید بن حیان ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلمہ ؓ، حضرت زید بن ارقم ؓ کی طرف چلے تو جب ہم ان کے پاس جا کر بیٹھ گئے تو حضرت حصین ؓ نے حضرت زید ؓ سے کہا اے زید! تو نے بہت بڑی نیکی حاصل کی ہے کہ تو نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے اور آپ سے یہ حدیث سنی ہے اور تو نے آپ کے ساتھ مل کر جہاد کیا ہے اور تو نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی ہے، اے زید! آپ نے رسول اللہ ﷺ سے احادیث سنی ہیں، وہ ہم سے بیان کرو، حضرت زید بن ارقم ؓ نے فرمایا: اے میرے بھتیجے! اللہ کی قسم میری عمر بڑھاپے کو پہنچ گئی ہے اور ایک زمانہ گزر گیا (جس کی وجہ سے) میں بعض وہ باتیں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کو یاد رکھی تھیں، بھول گیا ہوں، اس وجہ سے میں تم سے بیان کروں تو تم اسے قبول کرو اور جو میں تم سے بیان نہ کروں تو تم اس کے بارے میں مجھے مجبور نہ کرنا، حضرت زید ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن ایک پانی کہ جسے خم کہہ کر پکارا جاتا ہے جو کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ہے پر ہمیں خطبہ ارشا فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے تو آپ نے فرمایا: بعد حمد و صلوٰہ! آگاہ رہو اے لوگو! میں ایک آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا میرے پاس آئے تو میں اسے قبول کروں اور میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی اللہ کی کتاب ہے، جس میں ہدایت اور نور ہے تو تم اللہ کی اس کتاب کو پکڑے رکھو اور اس کے ساتھ مضبوطی سے قائم رہو اور آپ نے اللہ کی کتاب (قرآن مجید) کی خوب رغبت دلائی، پھر آپ نے فرمایا (دوسری چیز) میرے اہل بیت ہیں، میں تم لوگوں کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تم لوگوں کو اللہ یاد دلاتا ہوں، حضرت حصین ؓ نے حضرت زید ؓ سے عرض کیا اے زید! آپ کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ کی ازواج مطہرات ؓ اہل بیت میں سے نہیں ہیں؟ حضرت زید ؓ نے فرمایا: آپ کی ازواج مطہرات ؓ آپ کے اہل بیت میں سے ہیں اور وہ سب اہل بیت میں سے ہیں کہ جن پر آپ کے بعد صدقہ (زکوٰہ، صدقہ و خیرات وغیرہ) حرام ہے، حضرت حصین ؓ نے عرض کیا وہ کون ہیں؟ حضرت زید ؓ نے فرمایا حضرت علی ؓ کا خاندان، حضرت عقیل کا خاندان، آل جعفر، آل عباس، حضرت حصٰین نے عرض کیا ان سب پر صدقہ وغیرہ حرام ہے؟ حضرت زید ؓ نے فرمایا ہاں! ان سب پر صدقہ، زکوٰۃ وغیرہ حرام ہے۔
[صحیح مسلم»کتاب: فضائل کا بیان» باب: حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے فضائل کے بیان میں» حدیث نمبر: 6225]
عن على: أن النبى - صلى الله عليه وسلم - حضر الشجرة بخم ثم خرج آخذا بيد على فقال يا أيها الناس ألستم تشهدون أن الله ربكم قالوا بلى قال ألستم تشهدون أن الله ورسوله أولى بكم من أنفسكم وأن الله ورسوله مولاكم قالوا بلى قال فمن كان الله ورسوله مولاه فإن هذا مولاه وقد تركت ما إن أخذتم به فلن تضلوا بعده كتاب الله سببه بيده وسببه بأيديكم وأهل بيتى
[جامع الاحادیث:32347، كنز العمال:36441، أخرجه ابن أبى عاصم فى السنة (٢/٦٠٥، رقم ١٣٦١) ، والمحاملى فى أماليه (١/٨٥، رقم ٣٥) .]
لكن هذا الحديث يرتقي بشواهده الكثيرة، وقد سبق بيان أن الحديث متواتر في الجملة، وعليه فحديث علي رضي الله عنه هذا صحيح لغيره.
[المطالب العالية محققا-ابن حجر العسقلاني: حدیث نمبر 3943، 16 / 144]
عترت/اھل بیت کا مطلب، شیعہ کتب سے:
(1)
فلم ندر ما الثقلان حتّى قام رجل من المهاجرين فقال: بأبي أنت و امّي ما الثقلان؟ قال: الأكبر منهما كتاب اللّه سبب طرف بيد اللّه عزّ و جلّ و طرف بأيديكم فتمسّكوا به لا تزلّوا و لا تضلّوا. و الأصغر منهما عترتي لا تقتلوهم و لا تقهروهم، فإنّي سألت اللطيف الخبير أن يردّوا عليّ الحوض فأعطاني، فقاهر هما قاهري و خاذلهما خاذلي، و وليّهما وليّي، و عدوّ هما عدوّي.
ترجمہ:
نبی ﷺ نے جب ثقلین(دو بھاری چیزوں)کا بیان فرمایا تو ہم ثقلین کا مطلب نہ سمجھ سکے، حتیٰ کہ مہاجرین میں سے ایک شخص کھڑا ہوا، اس نے عرض کیا: آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، ثقلین کیا چیز ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں میں سے بڑی چیز تو اللہ کی کتاب ہے، اس کا ایک سِرا تو الله کے دستِ قدرت میں ہے اور دوسرا تمہارے ہاتھوں میں ہے، بس اس سے تمسّک کرو گے تو نہ پھسلوگے اور نہ ہی گمراہ ہوگے۔
اور ان دونوں بھاری چیزوں میں سے جو چھوٹی ہے، وہ نبی کی اولاد ہے، ان کو قتل نہ کرنا، ان پر قہر و تشدد نہ کرنا، میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ یہ مجھے حوض پر ملیں، تو یہ سوال منظور ہوا۔ ان پر قہر کرنا، رسوا و ذلیل کرنا گویا میرے ساتھ یہ معاملہ کرنا ہے، جو دونوں بھاری چیزوں کا دوست ہے، وہ ہمارا دوست ہے جو ان کا دشمن ہے وہ بھی دشمن ہے۔
[كشف الغمه:١/٦٧ مع ترجمہ فارسی، ترجمہ المناقب، طبع جدید،ایران]
(2)
ثُمَّ تَرِدُ عَلَيَّ رَايَةٌ مَعَ سَامِرِيِّ هَذِهِ الْأُمَّةِ فَأَقُولُ لَهُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِالثَّقَلَيْنِ مِنْ بَعْدِي- فَيَقُولُونَ أَمَّا الْأَكْبَرُ فَعَصَيْنَاهُ وَ تَرَكْنَاهُ- وَ أَمَّا الْأَصْغَرُ فَخَذَلْنَاهُ وَ ضَيَّعْنَاهُ- وَ صَنَعْنَا بِهِ كُلَّ قَبِيحٍ- فَأَقُولُ رِدُوا النَّارَ ظِمَاءً مُظْمَئِينَ مُسْوَدَّةً وُجُوهُكُمْ- ثُمَّ تَرِدُ عَلَيَّ رَايَةُ ذِي الثُّدَيَّةِ مَعَ أَوَّلِ الْخَوَارِجِ وَ آخِرِهِمْ- فَأَسْأَلُهُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِالثَّقَلَيْنِ مِنْ بَعْدِي- فَيَقُولُونَ أَمَّا الْأَكْبَرُ فَفَرَّقْنَاهُ [فَمَزَّقْنَاهُ] وَ بَرِئْنَا مِنْهُ- وَ أَمَّا الْأَصْغَرُ فَقَاتَلْنَاهُ وَ قَتَلْنَاهُ، فَأَقُولُ رِدُوا النَّارَ ظِمَاءً مُظْمَئِينَ مُسْوَدَّةً وُجُوهُكُمْ، ثُمَّ تَرِدُ عَلَيَّ رَايَةٌ مَعَ إِمَامِ الْمُتَّقِينَ وَ سَيِّدِ الْوَصِيِّينَ- وَ قَائِدِ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ وَ وَصِيِّ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَأَقُولُ لَهُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِالثَّقَلَيْنِ مِنْ بَعْدِي- فَيَقُولُونَ أَمَّا الْأَكْبَرُ فَاتَّبَعْنَاهُ وَ أَطَعْنَاهُ- وَ أَمَّا الْأَصْغَرُ فَأَحْبَبْنَاهُ وَ وَالَيْنَاهُ- وَ وَازَرْنَاهُ وَ نَصَرْنَاهُ- حَتَّى أُهْرِقَتْ فِيهِمْ دِمَاؤُنَا، فَأَقُولُ رِدُوا الْجَنَّةَ رِوَاءً مَرْوِيِّينَ مُبْيَضَّةً وُجُوهُكُمْ- ثُمَّ تَلَا رَسُولُ اللَّهِ ص «يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَ تَسْوَدُّ وُجُوهٌ
ترجمہ:
(حضور علیہ السلام نے فرمایا) پھر پانچواں جھنڈا امام المتقین، سید الوصیین، قائد غر المحجلیں، وصی رسول رب العالمین کا میرے پاس وارد ہوگا۔ میں ان سے دریافت کروں گا کہ تم میرے بعد "ثقلین(یعنی دو بھاری چیزوں)" کے ساتھ کس طرح پیش آۓ؟ وہ جواب میں عرض کریں گے کہ ثقل اکبر(یعنی بڑی بھاری چیز) کی ہم نے پیروی اور اطاعت کی اور ثقل اصغر(یعنی چھوٹی بھاری چیز) سے ہم نے محبت اور موالات کی اور ان کو یہاں تک مدد دی کہ ان کے بارے میں ہمارے خوں تک بھادیئے گئے، پس ان سے میں کہوں گا کہ تم سیر وسیراب ہوکر سفید رو(یعنی چہروں والے) بن کر جنت میں چلے جاؤ. اس کے بعد رسول الله ﷺ نے یہ آیتیں (سورہ آل عمران:106) تلاوت فرمائیں.
[تفسیر قمی عربی : صفحہ ٥٩ ایران (ضمیمہ: صفحہ ٥٨ مولوی مقبول احمد صاحب)]
(3)
ثم قال: أنشدكم بالله أتعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وآله قال في حجة الوداع: أيها الناس إني قد تركت فيكم ما لم تضلوا بعده: كتاب الله وعترتي أهل بيتي فأحلوا حلاله، وحرموا حرامه، واعملوا بمحكمه، وآمنوا بمتشابهه، وقولوا: آمنا
ترجمہ:
پھر آپ (امام حسن رضی الله عنہ) نے (اپنے مخاطبین کو قسم دے کر) فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا: اے لوگو! میں نے تم میں اس چیز کو چھوڑا ہے جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو گے، وہ کتاب اللہ ہے اور میری اولاد ہے۔ کتاب اللہ کے حلال کو حلال جانو اور اس کے حرام کو حرام جانو اور اسکے محکم (واضح حکموں) کے ساتھ عمل کرو اور متشابہ(غیرواضح آیات)پر ایمان رکھو اور کہو کہ اللہ نے جو کتاب اتاری ہے اس کے ساتھ ایمان لائے۔ اور اہل بیت کے ساتھ محبت رکھو اور جو شخص ان کے ساتھ دوستی رکھے تم اس کے ساتھ دوستی رکھو، اور جو ان کے ساتھ دشمنی رکھے تم اس کا خلاف کرو، اور یہ دونوں تم میں رہیں گے حتیٰ کہ قیامت کے روز میرے پاس حوض پر پہنچیں۔
[الاحتجاج طبرسی: ص139]
(5)حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کی روایت:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا حَنَشُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ لَقِيطٍ النَّخَعِيُّ الْأَشْجَعِيُّ عَنْ رِيَاحِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ جَاءَ رَهْطٌ إِلَى عَلِيٍّ بالرَّحْبَةِ فَقَالُوا السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مَوْلَانَا قَالَ كَيْفَ أَكُونُ مَوْلَاكُمْ وَأَنْتُمْ قَوْمٌ عَرَبٌ قَالُوا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ يَقُولُ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَإِنَّ هَذَا مَوْلَاهُ قَالَ رِيَاحٌ فَلَمَّا مَضَوْا تَبِعْتُهُمْ فَسَأَلْتُ مَنْ هَؤُلَاءِ قَالُوا نَفَرٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا حَنَشٌ عَنْ رِيَاحِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ رَأَيْتُ قَوْمًا مِنْ الْأَنْصَارِ قَدِمُوا عَلَى عَلِيٍّ فِي الرَّحْبَةِ فَقَالَ مَنْ الْقَوْمُ قَالُوا مَوَالِيكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ۔
ترجمہ:
ریاح بن حارث کہتے ہیں کہ ایک گروہ " رحبہ " میں حضرت علی ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا " السلام علیک یا مولانا " حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ میں تمہارا آقا کیسے ہوسکتا ہوں جبکہ تم عرب قوم ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کو غدیر خُمّ کے مقام پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں جس کا مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں جب وہ لوگ چلے گئے تو میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا اور میں نے پوچھا کہ یہ لوگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ کچھ انصاری لوگ ہیں جن میں حضرت ابوایوب انصاری ؓ بھی شامل ہیں۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
[مسند احمد»حدیث نمبر: 22465]
خلاصہ:
(1)کسی بھی حدیث میں غدیر کے دن کو عید کہنے اور منانے کا ذکر یا حکم نہیں ملتا۔
(2)مولا کے معنیٰ خلیفہ نہیں۔
ہمارے سامنے ہمارے اکابرین کی تعلیمات موجود ہیں کہ وہ حدیث غدیر سے کیا معنی اخذ کرتے تھے ۔صرف چار حوالوں پہ اکتفاء کرتا ہوں ۔
1– امام بزدوی علیہ الرحمہ المتوفی 493ء عقیدہ اہل سنت پر مشتمل اپنی مشہور کتاب "اصول الدین ” میں من کنت مولاہ فعلی مولاہ کے تحت لکھتے ہیں :
رہی بات حدیث ولایت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی تو اس سے بھی استدلال کرنا درست نہیں ، اس لئے اس میں لفظ مولیٰ کو ذکر کیا گیا ہے اور عربی کلام میں ایسا ہوتا ہے کہ لفظ مولی کوذکر کرکے اس سے مدد گار مراد لیا جاتا ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔اس حدیث میں لفظ مولیٰ سے آقا اور غلام آزاد کرنے والا تو مراد نہیں لیا جا سکتا ، ہاں البتہ مددگار اور مُحبّ مراد لیا جاسکتا ہے ، اور محب و محبوب کے الفاظ سے استحقاق خلافت کا ثبوت نہیں فراہم ہوتا ، اسی وجہ سے ہم بھی یہی کہتے ہیں: اس حدیث سے جناب علی المرتضی کی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا استحقاق ثابت نہیں ہوتا۔
(اصول الدین مترجم: ص 512، پروگریسو بکس لاہور)
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے بھی اپنی رفض توڑ کتاب ” تحفہ اثناء عشریہ ” میں اس روایت کا مطلب حضرت علی کی دوستی کو واجب ٹھہرانا اور دشمنی سے ڈرانا لکھا ہے ۔
(تحفہ اثناء عشریہ مترجم: ص418)
2– قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
حدیث مذکورہ میں مولا سے مراد محبوب ہے حدیث کے آخری دعائیہ الفاظ اس پر قرینہ ہیں ، حدیث میں کوئی لفظ ایسا موجود نہیں ، جو اس بات کا قرینہ بن سکے کہ مولا سے مراد امام ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا: کہ "میں جس کا مولا ہوں” اس سے بعد والی بات کو سامعین کے ذہن میں پختہ کرنے کی غرض سے ہے ، اگر آپ اس موقع پر امامت علی ہی کا اعلان فرما رہے ہوتے ، تو اس سے صریح اور واضح تر لفظ میں امامت کا اعلان کر سکتے تھے۔
(السیف المسلول مترجم: ص 244، فاروقی کتب خانہ ملتان)
ان حوالہ جات سے پتا چلا کہ اس حدیث سے مولا علی کی محبت کا درس ملتا ہے نہ کہ کسی قسم کی خلافت یا جانشینی کا ۔۔۔۔جیسا کہ رافضی سمجھتے ہیں اور منہاجی بھی جشن منا کر اس کی بھرپور تائید کررہے ہیں۔
پس منظر:
(یعنی وہ علم، حالات و اسباب جو کسی بات یا واقعہ کو ظہور میں لانے کا باعث ہوں یا اسے سمجھنے میں مدد دیں، کسی شخص کے خاندانی حالات، تعلیم و تربیت اور تجربات وغیرہ بحیثیت مجموعی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’حجۃ الوداع‘‘سے مدینہ منورہ واپسی کے موقعہ پر غدیرخُم (جومکہ اورمدینہ کے درمیان ایک مقام ہے) پر خطبہ ارشاد فرمایا تھا، اور اس خطبہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت ارشاد فرمایا تھا: "من کنت مولاه فعلي مولاه" یعنی جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے۔
اس کا پس منظر یہ تھا کہ ’’حجۃ الوداع‘‘ سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف والی/عامل بناکر بھیجا تھا، وہاں کے محصولات وغیرہ وصول کرکے ان کی تقسیم اور بیت المال کے حصے کی ادائیگی کے فوراً بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے پاس حج کی ادائیگی کے لیے پہنچے۔ اس موقع پر محصولات کی تقسیم وغیرہ کے حوالے سے بعض حضرات نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا، اور یہ اعتراض براہِ راست نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر دوہرایا، آپ ﷺ نے انہیں اسی موقع پر انفرادی طور پر سمجھایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تصویب فرمائی، بلکہ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ علی کا اس سے بھی زیادہ حق تھا۔[صحيح البخاري:4350]، نیز آپ ﷺ نے انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا حکم دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں دل میں کدورت اور میل رکھنے سے منع فرمایا، چناں چہ ان حضرات کے دل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بالکل صاف ہوگئے، وہ خود بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کے بعد ہمارے دلوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ محبوب ہوگئے۔
[مسند احمد:22967(21893)]
البتہ اسی حوالے سے کچھ باتیں سفرِ حج سے واپسی تک قافلے میں گردش کرتی رہیں، آپ ﷺ نے محسوس فرمایا کہ اس حوالے سے آپ ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت اور ان کا حق ہونا بیان فرمائیں، چناں چہ سفرِ حج سے واپسی پر مقام غدیرِ خم میں نبی کریم ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں بلیغ حکیمانہ اسلوب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق واضح فرمایا، اور جن لوگوں کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی شکوہ یا شبہ تھا اسے یوں ارشاد فرماکر دور فرمادیا:
البتہ اسی حوالے سے کچھ باتیں سفرِ حج سے واپسی تک قافلے میں گردش کرتی رہیں، آپ ﷺ نے محسوس فرمایا کہ اس حوالے سے آپ ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت اور ان کا حق ہونا بیان فرمائیں، چناں چہ سفرِ حج سے واپسی پر مقام غدیرِ خم میں نبی کریم ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں بلیغ حکیمانہ اسلوب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق واضح فرمایا، اور جن لوگوں کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی شکوہ یا شبہ تھا اسے یوں ارشاد فرماکر دور فرمادیا:
«اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالِاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»
یعنی
اے اللہ! جو مجھے دوست رکھے گا وہ علی کو بھی دوست رکھے گا/میں جس کا محبوب ہوں گا علی بھی اس کا محبوب ہوگا، اے اللہ! جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ، اور جو علی سے دشمنی رکھے تو اس کا دشمن ہوجا۔
فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَنِيئًا لَكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ"
آپ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملے تو فرمایا: اے ابن ابی طالب! آپ کو مبارک ہو! آپ صبح و شام ہر مؤمن مرد اور ہر مؤمنہ عورت کے محبوب بن گئے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ:32780، مسند احمد:17753]
حضراتِ شیخین سمیت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پہلے سے تھی، جن چند لوگوں کے دل میں کچھ شبہات تھے، آپ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد ان کے دل بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت سے سرشار ہوگئے۔ اس خطبہ سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ بتلانا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے محبوب اور مقرب بندے ہیں ، ان سے اور میرے اہلِ بیت سے تعلق رکھنا مقتضائے ایمان ہے، اور ان سے بغض وعداوت یا نفرت وکدورت ایمان کے منافی ہے۔
مذکورہ پس منظر سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غدیرخُم میں "من کنت مولاه فعلي مولاه" ارشاد فرمانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اعلان کے لیے نہیں، بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدرومنزلت بیان کرنے اور معترضین کے شکوک دور کرنے کے لیے تھا، نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طور پر امت کی ذمہ داری قراردینے کے لیے تھا۔ اورالحمدللہ! اہلِ سنت والجماعت اتباعِ سنت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت کو اپنے ایمان کا جز سمجھتے ہیں، اور بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اہلِ ایمان ہی محبت رکھتے ہیں۔
مذکورہ خطبے اور ارشاد کی حقیقت یہی تھی جو بیان ہوچکی۔ باقی ایک گم راہ فرقہ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت بلافصل ثابت کرتا ہے، اور چوں کہ یہ خطبہ ماہ ذوالحجہ میں ہی ارشاد فرمایا تھا، اس لیے ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو اسی خطبہ کی مناسبت سے عید مناتا ہے، اور اسے ’’عید غدیر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس دن عید کی ابتدا کرنے والا ایک حاکم معز الدولۃ گزرا ہے، اس شخص نے 18 ذوالحجہ 351 ہجری کو بغداد میں عید منانے کا حکم دیا تھا اور اس کا نام "عید خُم غدیر" رکھا۔
اولاً تو اس عیدِ (غدیر) کی شریعت میں کوئی حقیقت اور حکم نہیں، دوسری طرف ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو خلیفہ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہے۔ ان کی مخالفت میں بھی بعض بدنصیب لوگ اس دن اپنے بغض کا اظہار کرتے ہیں۔ اہلِ ایمان و اسلام کو چاہیے کہ اس طرح کی خرافات سے دور رہیں۔
الغرض! دینِ اسلام میں صرف دوعیدیں ہیں: ایک عیدالفطر اوردوسری عیدالاضحیٰ ۔ ان دوکے علاوہ دیگرتہواروں اورعیدوں کاشریعت میں کوئی ثبوت نہیں ، اس لیے نہ مناناجائزہے اورنہ ان میں شرکت درست ہے۔
حضرت عبداللہ بن بریدہ نے اور ان سے ان کے والد (بریدہ بن حصیب) نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جگہ علی رضی اللہ عنہ کو (یمن) بھیجا تاکہ غنیمت کے خمس (پانچواں حصہ) کو ان سے لے آئیں۔ مجھے علی رضی اللہ عنہ سے بہت بغض تھا اور میں نے انہیں غسل کرتے دیکھا تھا۔ میں نے خالد رضی اللہ عنہ سے کہا تم دیکھتے ہو علی رضی اللہ عنہ نے کیا کیا (اور ایک لونڈی سے صحبت کی) پھر جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے آپ سے بھی اس کا ذکر کیا۔ آپ نے دریافت فرمایا: (بریدہ) کیا تمہیں علی سے بغض ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں، فرمایا: علی سے دشمنی نہ رکھنا کیونکہ خمس (غنیمت کے پانچویں حصے) میں اس سے بھی زیادہ حق ہے۔
[صحيح البخاري:4350]
حضرت بریدہ ؓ سے مروی ہے کہ ابتداء مجھے حضرت علی ؓ سے اتنی نفرت تھی کہ کسی سے اتنی نفرت کبھی نہیں رہی تھی اور صرف حضرت علی ؓ سے نفرت کی وجہ سے میں قریش کے ایک آدمی سے محبت رکھتا تھا ایک مرتبہ اس شخص کو چند شہسواروں کا سردار بنا کر بھیجا گیا تو میں بھی اس کے ساتھ چلا گیا اور صرف اس بنیاد پر کہ وہ حضرت علی ؓ سے نفرت کرتا تھا ہم لوگوں نے کچھ قیدی پکڑے اور نبی کریم ﷺ کے پاس یہ خط لکھا کہ ہمارے پاس کسی آدمی کو بھیج دیں جو مال غنیمت کا خمس وصول کرلے چناچہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ کو ہمارے پاس بھیج دیا۔ ان قیدیوں میں " وصیفہ " بھی تھی جو قیدیوں میں سب سے عمدہ خاتون تھی حضرت علی ؓ نے خمس وصول کیا اور اسے تقسیم کردیا پھر وہ باہر آئے تو ان کا سر ڈھکا ہوا تھا ہم نے ان سے پوچھا اے ابوالحسن! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا تم نے وہ " وصیفہ " دیکھی تھی جو قیدیوں میں شامل تھی میں نے خمس وصول کیا تو وہ خمس میں شامل تھی پھر وہ اہل بیت نبوت میں آگئی اور وہاں سے آل علی میں آگئی اور میں نے اس سے مجامعت کی ہے اس شخص نے نبی کریم ﷺ کو خط لکھ کر اس صورت حال سے آگاہ کیا میں نے اس سے کہا یہ خط میرے ہاتھ بھیجو چناچہ اس نے مجھے اپنی تصدیق کرنے کے لئے بھیج دیا میں بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر خط پڑھنے لگا اور کہنے لگا کہ انہوں نے سچ کہا نبی کریم ﷺ نے اس خط پر سے میرے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا: کیا تم علی سے نفرت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم اس سے نفرت نہ کرو بلکہ اگر محبت کرتے ہو تو اس میں مزید اضافہ کردو کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے خمس میں آل علی کا حصہ " وصیفہ " سے بھی افضل ہے. چنانچہ اس فرمان کے بعد میری نظروں میں حضرت علی ؓ سے زیادہ کوئی شخص محبوب نہ رہا۔
[مسند احمد:22967(21893)]
"فضائل الصحابة لأحمد ابن حنبل" میں ہے:
"حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، نا عَفَّانُ قال: ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ: أنا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا بِغَدِيرِ خُمٍّ، فَنُودِيَ فِينَا: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، وَكُسِحَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ شَجَرَتَيْنِ، فَصَلَّى الظُّهْرَ وَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالِاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»، قَالَ: فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَنِيئًا لَكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ".
( رقم الحديث: ١٠١٦، فضائل علي رضي الله عنه ، ٢/ ٥٩٦،ط: مؤسسة الرسالة بيروت)
"حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ غَنَّامٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ح وَحَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: ثنا شَرِيكٌ، عَنْ حَنَشِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ رِيَاحِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: بَيْنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ جَالِسٌ فِي الرَّحَبَةِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ وَعَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مَوْلَايَ، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: أَبُو أَيُّوبَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»".
(المعجم الكبير للطبراني: رقم الحديث: ٤٠٥٢، ٤/ ١٧٣، ط: مكتبة ابن تيمية)
"شرح ابن ماجة للسيوطي" میں ہے:
"«من كنت مَوْلَاهُ فعلي مَوْلَاهُ» قَالَ فِي النِّهَايَة: الْمولى اسْم يَقع على جمَاعَة كَثِيرَة، فَهُوَ الرب الْمَالِك، وَالسَّيِّد، والمنعم، وَالْمُعتق، والناصر، والمحب التَّابِع، وَالْجَار، وَابْن الْعم، والحليف، والصهر، وَالْعَبْد، وَالْمُعتق، والمنعم عَلَيْهِ. وَهَذَا الحَدِيث يحمل على أَكثر الْأَسْمَاء الْمَذْكُورَة، وَقَالَ الشَّافِعِي: عَنى بذلك وَلَاء الْإِسْلَام، كَقَوْلِه تَعَالَى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾،[محمد:١١] وَقيل: سَبَب ذَلِك أن أُسَامَة قَالَ لعَلي رَضِي الله عنه: لستَ مولَايَ، إنما مولَايَ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك".
( باب اتباع السنة، ١/ ١٢ ،ط: قديمي)
"قوت المقتذي علي جامع الترمذي"میں ہے :
"من كُنْتُ مَوْلاَهُ فعَليٌّ مَوْلاهُ". أراد بذلك ولاء الإسلام، كقوله تعالى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِينَ اٰمَنُوا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾ [محمد:١١]وقيل: سبب ذلك أن أسَامة قال لعَلي: لسْتَ مولاي، إنما مولاي رسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقال صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذلك''.
(أبواب المناقب 2/1002 ط: رسالة الدكتوراة بجامعة أم القري)
"مرقاة المفاتيح"میں ہے:
"(وَعَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ) ذِكْرُهُ تَقَدَّمَ (أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» ") . قِيلَ: مَعْنَاهُ: مَنْ كُنْتُ أَتَوَلَّاهُ فَعَلِيٌّ يَتَوَلَّاهُ، مِنَ الْوَلِيِّ ضِدِّ الْعَدُوِّ أَيْ: مَنْ كُنْتُ أُحِبُّهُ فَعَلِيٌّ يُحِبُّهُ، وَقِيلَ مَعْنَاهُ: مَنْ يَتَوَلَّانِي فَعَلِّيٌّ يَتَوَلَّاهُ، كَذَا ذَكَرَهُ شَارِحٌ مِنْ عُلَمَائِنَا. وَفِي النِّهَايَةِ: الْمَوْلَى يَقَعُ عَلَى جَمَاعَةٍ كَثِيرَةٍ، فَهُوَ الرَّبُّ، وَالْمَالِكُ، وَالسَّيِّدُ، وَالْمُنْعِمُ، وَالْمُعْتِقُ، وَالنَّاصِرُ، وَالْمُحِبُّ، وَالتَّابِعُ، وَالْخَالُ، وَابْنُ الْعَمِّ، وَالْحَلِيفُ، وَالْعَقِيدُ، وَالصِّهْرُ، وَالْعَبْدُ، وَالْمُعْتَقُ، وَالْمُنْعَمُ عَلَيْهِ، وَأَكْثَرُهَا قَدْ جَاءَتْ فِي الْحَدِيثِ، فَيُضَافُ كُلُّ وَاحِدٍ إِلَى مَا يَقْتَضِيهِ الْحَدِيثُ الْوَارِدُ فِيهِ، وَقَوْلُهُ: « مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ» يُحْمَلُ عَلَى أَكْثَرِ هَذِهِ الْأَسْمَاءِ الْمَذْكُورَةِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -: يَعْنِي بِذَلِكَ وَلَاءَ الْإِسْلَامِ كَقَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِينَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾ [محمد:١١] وَقَوْلِ عُمَرَ لِعَلِيٍّ: أَصْبَحْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ [أَيْ: وَلِيَّ كُلِّ مُؤْمِنٍ]، وَقِيلَ: سَبَبُ ذَلِكَ أَنَّ أُسَامَةَ قَالَ لِعَلِيٍّ: لَسْتَ مَوْلَايَ إِنَّمَا مَوْلَايَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ». " قُضِيَ " قَالَتِ الشِّيعَةُ: هُوَ مُتَصَرِّفٌ، وَقَالُوا: مَعْنَى الْحَدِيثِ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَسْتَحِقُّ التَّصَرُّفَ فِي كُلِّ مَا يَسْتَحِقُّ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّصَرُّفَ فِيهِ، وَمِنْ ذَلِكَ أُمُورُ الْمُؤْمِنِينَ فَيَكُونُ إِمَامَهُمْ. أَقُولُ: لَا يَسْتَقِيمُ أَنْ تُحْمَلَ الْوِلَايَةُ عَلَى الْإِمَامَةِ الَّتِي هِيَ التَّصَرُّفُ فِي أُمُورِ الْمُؤْمِنِينَ، لِأَنَّ الْمُتَصَرِّفَ الْمُسْتَقِلَّ فِي حَيَاتِهِ هُوَ هُوَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا غَيْرُ، فَيَجِبُ أَنْ يُحْمَلَ عَلَى الْمَحَبَّةِ وَوَلَاءِ الْإِسْلَامِ وَنَحْوِهِمَا. وَقِيلَ: سَبَبُ وُرُودِ هَذَا الْحَدِيثِ كَمَا نَقَلَهُ الْحَافِظُ شَمْسُ الدِّينِ الْجَزَرِيُّ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ أَنَّ عَلِيًّا تَكَلَّمَ فيه بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهُ بِالْيَمَنِ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّهَ، خَطَبَ بِهَا تَنْبِيهًا عَلَى قَدْرِهِ، وَرَدًّا عَلَى مَنْ تَكَلَّمَ فِيهِ كَبُرَيْدَةَ، كَمَا فِي الْبُخَارِيِّ. وَسَبَبُ ذَلِكَ كَمَا رَوَاهُ الذَّهَبِيُّ، وَصَحَّحَهُ أَنَّهُ خَرَجَ مَعَهُ إِلَى الْيَمَنِ، فَرَأَى مِنْهُ جَفْوَةَ نَقْصِهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَتَغَيَّرُ وَجْهُهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَيَقُولُ: «يَا بُرَيْدَةُ أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟» قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ. وَفِي الْجَامِعِ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَهْ : عَنِ الْبَرَاءِ، وَأَحْمَدُ عَنْ بُرَيْدَةَ، وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالضِّيَاءُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ. فَفِي إِسْنَادِ الْمُصَنِّفِ الْحَدِيثَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ إِلَى أَحْمَدَ وَالتِّرْمِذِيِّ مُسَامَحَةٌ لَاتَخْفَى، وَفِي رِوَايَةٍ لِأَحْمَدَ وَالنَّسَائِيِّ وَالْحَاكِمِ عَنْ بُرَيْدَةَ بِلَفْظِ: «مَنْ كُنْتُ وَلِيُّهُ». وَرَوَى الْمَحَامِلِيُّ فِي أَمَالِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلَفْظُهُ: «عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ مَوْلَى مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ». وَالْحَاصِلُ أَنَّ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ لَا مِرْيَةَ فِيهِ، بَلْ بَعْضُ الْحُفَّاظِ عَدَّهُ مُتَوَاتِرًا؛ إِذْ فِي رِوَايَةٍ لِأَحْمَدَ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثُونَ صَحَابِيًّا، وَشَهِدُوا بِهِ لِعَلِيٍّ لَمَّا نُوزِعَ أَيَّامَ خِلَافَتِهِ، وَسَيَأْتِي زِيَادَةُ تَحْقِيقٍ فِي الْفَصْلِ الثَّالِثِ عِنْدَ حَدِيثِ الْبَرَاءِ".
(باب مناقب علي بن أبي طالب، ج:٩ ط: دار الفكر)
"شرح أصول اعتقاد أهل السنة و الجماعة"میں ہے:
" أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: أنا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ، قَالَ: نا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، قَالَ: نا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: نا هِلَالُ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّمْلِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي بِسْطَامٍ مَوْلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ: أَرَأَيْتَ قَوْلَ النَّاسِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَقَعَ بَيْنَ أُسَامَةَ وَبَيْنَ عَلِيٍّ تَنَازُعٌ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «يَا عَلِيُّ، يَقُولُ هَذَا لِأُسَامَةَ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّهُ» . وَقَالَ لِأُسَامَةَ: «يَا أُسَامَةُ، يَقُولُ هَذَا لِعَلِيٍّ، فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»".
(رقم الحديث: ٢٦٤٠، ٨/ ١٤٥٩، ط: دار طيبة)
"الاعتقاد للبيهقي"میں ہے:
"فَقَدْ ذَكَرْنَا مِنْ طُرُقِهِ فِي كِتَابِ الْفَضَائِلِ مَا دَلَّ عَلَى مَقْصودِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ أَنَّهُ لَمَّا بَعَثَهُ إِلَى الْيمَنِ كَثُرَتِ الشَّكَاةُ عَنْهُ، وَأَظْهَرُوا بُغْضَهُ، فَأَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَذْكُرَ اخْتِصَاصَهُ بِهِ وَمَحبَّتَهُ إِيَّاهُ، وَيَحُثُّهُمْ بِذَلِكَ عَلَى مَحَبَّتِهِ وَمُوَالِاتِهِ وَتَرْكِ مُعَادَاتِهِ، فَقَالَ: «مِنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ فَعَلِيٌّ وَلِيَّهُ»، وَفِي بَعْضِ الرُّوَايَاتِ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمْ وَالِ مِنْ وَالِاهُ وَعَادِ مِنْ عَادَاهُ». وَالْمُرَادُ بِهِ وَلَاءُ الْإِسْلَامِ وَمَودَّتُهُ، وَعَلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يوَالِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، وَلَا يُعَادِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا، وَهُوَ فِي مَعْنَى مَا ثَبَتَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ «أَنَّهُ لَا يُحِبُّنِي إِلَا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُنِي إِلَّا مُنَافِقٌ» . وَفِي حَدِيثِ بُرَيْدَةَ شَكَا عَلِيًّا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَبْغِضُ عَلِيًّا؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: لَا تُبْغِضْهُ، وَأَحْبِبْهُ وَازْدَدْ لَهُ حُبًّا، قَالَ بُرَيْدَةُ: فَمَا كَانَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبُّ إليَّ مِنْ عَلِيٍّ بَعْدَ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
فقط واللہ اعلم
*- یقیناً حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دوستی تمام مومنین سے مخفی اور پیچیدہ نہیں تھی لیکن بعض واقعات کو لیکر اس وضاحت کی ضرورت پڑی کیونکہ یمن کے غزوہ میں بعض معاملات کو لیکر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق بعض أصحاب کے دلوں میں بے چینی تھی جس کا ذکر انہوں نے برملا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے خاص أسلوب میں سمجھایا تو ان کی سمجھ میں بھی آ گیا اور بعض روایات کے مطابق انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اپنی اٹوٹ کا اقرار بھی کیا لیکن بات چونکہ چند افراد سے نکل کر آگے بڑھ چکی تھی اس لئے ضرورت تھی کہ اس غلط فہمی کا ازالہ سب کے سامنے ہو چنانچہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، عَنْ بُرَيْدَةَ ، قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْيَمَنَ، فَرَأَيْتُ مِنْهُ جَفْوَةً، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْتُ عَلِيًّا فَتَنَقَّصْتُهُ، فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَغَيَّرُ، فَقَالَ : " يَا بُرَيْدَةُ، أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ؟ " قُلْتُ : بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : " مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ".(مسند احمد بن حنبل :22945) یعنی حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کا غزوہ کیا تو میں نے ان کے اندر کچھ سختی دیکھی تو جب میں مدینہ آیا تو میں نے اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان کم کرکے بیان کی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو بدلتے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بریدہ کیا میں تمام مومنین کے نزدیک ان کی جانوں سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟ تو بریدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا میں دوست اس کا علی رضی اللہ عنہ بھی دوست،
تو جب روایات میں اس کی وجہ موجود ہے اور اہل تشیع کے مطابق ان روایات کی اسناد متواتر ہیں تو ہم اپنے من سے بنائی ہوئی باتوں کو کیسے مان لیں؟ اسی طرح جلال الدین سیوطی نے شرح إبن ماجہ میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے " وَقَالَ الشَّافِعِي: عَنى بذلك وَلَاء الْإِسْلَام، كَقَوْلِه تَعَالَى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾،[محمد:١١] وَقيل: سَبَب ذَلِك أن أُسَامَة قَالَ لعَلي رَضِي الله عنه: لستَ مولَايَ، إنما مولَايَ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك". ( باب اتباع السنة، ١/ ١٢ ،ط: قديمي) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث مبارکہ میں اسلامی بھائی چارہ مراد لیا ہے جیسا کہ سورہ محمد آیت گیارہ میں" یہ اس وجہ سے کہ اللہ مومنین کا دوست ہے اور کافروں کا کوئی دوست نہیں" اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا سبب ورود یہ بھی ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ میرے دوست نہیں میرے دوست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی،
*- یہ بات بھی مسلم ہے کہ حضرت علی کی دوستی عام نہیں تھی بلکہ اک خاص دوستی تھی اس کی پہلی وجہ تو یہی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سابقین اولین میں سے ہیں جو درجہ اور رتبہ کے اعتبار سے بہت بلندی کا مقام تھا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ خاص طور پر اہل بیت میں سے ہیں جن کی پاسداری کا اقرار الگ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرایا تھا جب معاملہ یہ ہے تو پھر یہ عام دوستی کہاں رہی؟ اس سے یہ استدلال کرنا کہ "جس طرح میں تمہارا رہبر و سر پرست ہوں علی بھی رہبر و سرپرست ہیں" بالکل غلط ہے صحیح احادیث اس کی تائید نہیں کرتیں یہ مفہوم تو متعصب ہی نکال سکتا ہے انصاف پسند سے بعید ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بہت سارے أصحاب سے متعلق خصوصی محبت اور دوستی کے وعدے اور اقرار لئے ہیں تو کیا وہ سب خلافت اور ولایت کے وعدے ہیں؟
*- اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خصوصی مبارکباد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دی جیسا کہ مسند احمد کی بعض روایات سے ثابت ہے لیکن اس سے خلافت علی رضی اللہ عنہ پر استدلال کرنا بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر معاملہ یہی ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کے لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام پیش نا کرتے؟ صرف مبارک باد پیش کرنے سے مسئلہ کیسے خلافت کا ثابت ہو گیا؟ ایسے مبارکبادیں تو اور بھی ثابت ہیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو ان کی توبہ کی قبولیت پر مبارکباد دی، آیت تیمم کے نزول پر صحابہ نے آل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مبارکباد پیش فرمائی ان کے علاوہ اور بھی مبارکبادیں ثابت ہیں، محض مبارکباد سے مسئلہ خلافت ثابت نہیں ہوتا، مبارکباد سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت ضرور ثابت ہوتی ہے جس کا ہمیں اقرار ہے اور اس سے مولی کے معنی زبردستی حاکم اور خلیفہ کے لینا محض غلط ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر مولی کا معنی حاکم یا خلیفہ لیا جائے تو یہ سیاق و سباق کے خلاف ہے ظاہر سی بات ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حاکم اور خلیفہ ہونا خلاف حقیقت ہے جبکہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کی چل رہی ہے الفاظ اس کی تائید نہیں کرتے، کیا یہ عجیب بات نہیں لگتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہیں " جس کا میں والی و حاکم ہوں، علی اس کے والی و حاکم ہیں"؟ لہذا مولی کا معنی والی و حاکم لینا کسی طرح مناسب نہیں ہے بلکہ اس کا وہی مفہوم ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے اور وہ دوست، مددگار وغیرہ ہے
*- اور جہاں تک حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب قصیدے کی بات ہے جو انہوں نے غدیر خم کے موقع کی مناسبت سے کہا اور جس میں خلافت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا ہے تو یہ سراسر باطل اور من گھڑت ہے اس کی سند حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ تک ثابت نہیں کی جا سکتی؟ پھر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے حضرت ابوبکر صدیق و عمر بن الخطاب اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہم کے مراثی ثابت ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت حسان ایسے لوگوں کی تعریفیں کریں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق غصب کر لیا ہو؟
(4) واقعہ غدیر خم کی بنیاد پر 18/ ذی الحجہ کو عید کا دن قرار دینا بالکل غلط ہے اس کا حکم نا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اور نا ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کا ثبوت ہے بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی کبھی اس کو بطور عید نہیں منایا جبکہ اس واقعہ کے تیس سال تک حضرت علی رضی اللہ عنہ با حیات رہے چھبیس سال بلا خلافت اور ساڑھے چار سال خلافت کے، کم از کم یہ خلافت کے ایام میں تو 18/ذی الحجہ کو بطور عید مناتے؟ ان کے بعد بھی صدیوں تک اس کو بطور عید نہیں منایا گیا 351 ہجری میں معز الدولہ نے بغداد میں سب سے پہلے اس کو منایا اور اس کا نام عید غدیر خم رکھا اور یہ سب جانتے ہیں بادشاہ نہایت بد کردار اور شیعہ تھا
(5) دراصل عید غدیر خم کی آڑ میں اہل تشیع شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کی تاریخ پر خوشیاں مناتے ہیں کیونکہ یہی تاریخ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کی ہے جس طرح حضرت معاویہ کی وفات پر کونڈوں کی رسم ادا کی جاتی ہے لیکن بعض نادان اہل سنت بھی ان کی چالوں سے نا واقف ہونے کی بنیاد پر ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اللہ ان کو ہدایت عطاء فرمائے آمین
تو جب روایات میں اس کی وجہ موجود ہے اور اہل تشیع کے مطابق ان روایات کی اسناد متواتر ہیں تو ہم اپنے من سے بنائی ہوئی باتوں کو کیسے مان لیں؟ اسی طرح جلال الدین سیوطی نے شرح إبن ماجہ میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے " وَقَالَ الشَّافِعِي: عَنى بذلك وَلَاء الْإِسْلَام، كَقَوْلِه تَعَالَى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾،[محمد:١١] وَقيل: سَبَب ذَلِك أن أُسَامَة قَالَ لعَلي رَضِي الله عنه: لستَ مولَايَ، إنما مولَايَ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك". ( باب اتباع السنة، ١/ ١٢ ،ط: قديمي) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث مبارکہ میں اسلامی بھائی چارہ مراد لیا ہے جیسا کہ سورہ محمد آیت گیارہ میں" یہ اس وجہ سے کہ اللہ مومنین کا دوست ہے اور کافروں کا کوئی دوست نہیں" اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا سبب ورود یہ بھی ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ میرے دوست نہیں میرے دوست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی،
*- یہ بات بھی مسلم ہے کہ حضرت علی کی دوستی عام نہیں تھی بلکہ اک خاص دوستی تھی اس کی پہلی وجہ تو یہی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سابقین اولین میں سے ہیں جو درجہ اور رتبہ کے اعتبار سے بہت بلندی کا مقام تھا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ خاص طور پر اہل بیت میں سے ہیں جن کی پاسداری کا اقرار الگ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرایا تھا جب معاملہ یہ ہے تو پھر یہ عام دوستی کہاں رہی؟ اس سے یہ استدلال کرنا کہ "جس طرح میں تمہارا رہبر و سر پرست ہوں علی بھی رہبر و سرپرست ہیں" بالکل غلط ہے صحیح احادیث اس کی تائید نہیں کرتیں یہ مفہوم تو متعصب ہی نکال سکتا ہے انصاف پسند سے بعید ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بہت سارے أصحاب سے متعلق خصوصی محبت اور دوستی کے وعدے اور اقرار لئے ہیں تو کیا وہ سب خلافت اور ولایت کے وعدے ہیں؟
*- اس موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خصوصی مبارکباد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دی جیسا کہ مسند احمد کی بعض روایات سے ثابت ہے لیکن اس سے خلافت علی رضی اللہ عنہ پر استدلال کرنا بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر معاملہ یہی ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کے لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام پیش نا کرتے؟ صرف مبارک باد پیش کرنے سے مسئلہ کیسے خلافت کا ثابت ہو گیا؟ ایسے مبارکبادیں تو اور بھی ثابت ہیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو ان کی توبہ کی قبولیت پر مبارکباد دی، آیت تیمم کے نزول پر صحابہ نے آل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مبارکباد پیش فرمائی ان کے علاوہ اور بھی مبارکبادیں ثابت ہیں، محض مبارکباد سے مسئلہ خلافت ثابت نہیں ہوتا، مبارکباد سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت ضرور ثابت ہوتی ہے جس کا ہمیں اقرار ہے اور اس سے مولی کے معنی زبردستی حاکم اور خلیفہ کے لینا محض غلط ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر مولی کا معنی حاکم یا خلیفہ لیا جائے تو یہ سیاق و سباق کے خلاف ہے ظاہر سی بات ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حاکم اور خلیفہ ہونا خلاف حقیقت ہے جبکہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کی چل رہی ہے الفاظ اس کی تائید نہیں کرتے، کیا یہ عجیب بات نہیں لگتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہیں " جس کا میں والی و حاکم ہوں، علی اس کے والی و حاکم ہیں"؟ لہذا مولی کا معنی والی و حاکم لینا کسی طرح مناسب نہیں ہے بلکہ اس کا وہی مفہوم ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے اور وہ دوست، مددگار وغیرہ ہے
*- اور جہاں تک حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب قصیدے کی بات ہے جو انہوں نے غدیر خم کے موقع کی مناسبت سے کہا اور جس میں خلافت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا ہے تو یہ سراسر باطل اور من گھڑت ہے اس کی سند حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ تک ثابت نہیں کی جا سکتی؟ پھر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے حضرت ابوبکر صدیق و عمر بن الخطاب اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہم کے مراثی ثابت ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت حسان ایسے لوگوں کی تعریفیں کریں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق غصب کر لیا ہو؟
(4) واقعہ غدیر خم کی بنیاد پر 18/ ذی الحجہ کو عید کا دن قرار دینا بالکل غلط ہے اس کا حکم نا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اور نا ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کا ثبوت ہے بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی کبھی اس کو بطور عید نہیں منایا جبکہ اس واقعہ کے تیس سال تک حضرت علی رضی اللہ عنہ با حیات رہے چھبیس سال بلا خلافت اور ساڑھے چار سال خلافت کے، کم از کم یہ خلافت کے ایام میں تو 18/ذی الحجہ کو بطور عید مناتے؟ ان کے بعد بھی صدیوں تک اس کو بطور عید نہیں منایا گیا 351 ہجری میں معز الدولہ نے بغداد میں سب سے پہلے اس کو منایا اور اس کا نام عید غدیر خم رکھا اور یہ سب جانتے ہیں بادشاہ نہایت بد کردار اور شیعہ تھا
(5) دراصل عید غدیر خم کی آڑ میں اہل تشیع شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کی تاریخ پر خوشیاں مناتے ہیں کیونکہ یہی تاریخ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کی ہے جس طرح حضرت معاویہ کی وفات پر کونڈوں کی رسم ادا کی جاتی ہے لیکن بعض نادان اہل سنت بھی ان کی چالوں سے نا واقف ہونے کی بنیاد پر ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اللہ ان کو ہدایت عطاء فرمائے آمین
No comments:
Post a Comment