یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
بےشک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ (1) اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا چیز ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں۔ (3) وہ رات سراپا سلامتی ہے فجر کے طلوع ہونے تک۔
[سورۃ نمبر 97 القدر، آیت نمبر 1-5]
تفسیر:
(1)اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ پورا قرآن لوحِ محفوظ سے اس رات میں اتارا گیا، پھر حضرت جبرئیل ؑ اسے تھوڑا تھوڑا کرکے تئیس سال تک آنحضرت ﷺ پر نازل کرتے رہے، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ پر قرآن کریم کا نزول سب سے پہلے شبِ قدر میں شروع ہوا، شبِ قدر رمضان کی آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے کسی رات میں ہوتی ہے، یعنی اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں، یا انتیسویں رات میں۔
(2) اس ایک رات میں عبادت کرنے کا ثواب ایک ہزار مہینوں میں عبادت کرنے سے بھی زیادہ ہے۔
(3) اس رات میں فرشتوں کے اترنے کے دو مقصد ہوتے ہیں: ایک یہ کہ اس رات جو لوگ عبادت میں مشغول ہوتے ہیں فرشتے ان کے حق میں رحمت کی دعا کرتے ہیں، اور دوسرا مقصد آیتِ کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رات میں سال بھر کے فیصلے فرشتوں کے حوالے فرما دیتے ہیں، تاکہ وہ اپنے اپنے وقت پر ان کی تعمیل کرتے رہیں ”ہر کام کے لئے اترنے“ کا یہی مطلب مفسرین نے بیان فرمایا ہے۔
جو عشاء کی نماز"باجماعت"رمضان میں ادا کرے تو وہ شبِ قدر پاچکا۔
[صحیح ابن خزیمۃ:2195]
جو شبِ قدر میں عشاء اور فجر نماز"باجماعت"ادا کرے تو اسے شبِ قدر کا بڑا حصہ نصیب ہوچکا۔
[جامع الاحادیث:24089]
جو مغرب اور عشاء نماز"باجماعت"ادا کرتا رہے حتی کہ ماہِ رمضان پورا ہو تو اسے شبِ قدر کا وافر حصہ نصیب ہوچکا۔
رمَضانُ المبارک کی راتوں میں سے ایک رات ’’شبِ قدر‘‘ کہلاتی ہے جو بہت ہی برکت اور خیر کی رات ہے، کلامِ پاک میں اِس کو ہزار مہینوں سے افضل بتلایا ہے، ہزار مہینے کے تِراسِی برس چار ماہ ہوتے ہیں۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جس کو اِس رات کی عبادت نصیب ہوجائے، کہ جو شخص اِس ایک رات کو عبادت میں گزار دے اُس نے گویا تِراسِی برس چار ماہ سے زیادہ زمانے کو عبادت میں گزار دیا، اور اِس زیادتی کا بھی حال معلوم نہیں کہ ہزار مہینے سے کتنے ماہ زیادہ افضل ہے۔ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کا حقیقتاً بہت ہی بڑا اِنعام ہے، کہ قدر دَانوں(قدر کرنے والوں) کے لیے یہ ایک بے نہایت نعمت مَرحَمت(عطا) فرمائی۔ ’’دُرِّ مَنثور‘‘ میں حضرت انسؓ سے حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ: شبِ قدر حق تَعَالیٰ جَلَّ شَانُہٗ نے میری اُمَّت کو مَرحَمَت(عطا) فرمائی ہے، پہلی اُمَّتوں کو نہیں ملی۔
[الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس:702]
اِس بارے میں مختلف روایات ہیں کہ اِس انعام کا سبب کیا ہوا؟ بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ: نبیٔ کریم ﷺ نے پہلی اُمَّتوں کی عمروں کو دیکھا کہ بہت بہت ہوئی ہیں، اور آپ کی اُمَّت کی عمریں بہت تھوڑی ہیں،اگر وہ نیک اعمال میں اُن کی برابری بھی کرنا چاہیں تو ناممکن، اِس سے اللہ کے لاڈلے نبی کو رَنج(غم) ہوا، اِس کی تَلافِی(کمی کو پورا کرنے) میں یہ رات مَرحَمت(عطا) ہوئی
[شعب الإيمان البيهقي:3395]
کہ اگر کسی خوش نصیب کو دَس راتیں بھی نصیب ہوجائیں اور اُن کو عبادت میں گزار دے، تو گویا آٹھ سو تینتیس(۸۳۳) برس چار ماہ سے بھی زیادہ زمانہ کامِل عبادت میں گزار دیا۔ بعض رِوایات سے معلوم ہوتا ہے کہ: نبیٔ کریم ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ: ایک ہزار مہینے تک اللہ کے راستے میں جہاد کرتا رہا، صحابہؓ کو اِس پر رَشک آیا، تو اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ وَعَمَّ نَوَالُہ نے اِس کی تَلافِی(کمی کو پورا کرنے) کے لیے اِس رات کا نزول فرمایا۔
[تفسير ابن أبي حاتم:19424، السنن الكبرى للبيهقي:8524]
ایک روایت میں ہے کہ: نبیٔ کریم ﷺ نے بنی اسرائیل کے چار حضرات کا ذکر فرمایا: حضرت ایوبؑ، حضرت زکریاؑ، حضرت حِزقِیلؑ، حضرت یوشَعؑ؛ کہ اَسّی اَسّی برس تک اللہ کی عبادت میں مشغول رہے، اور پَل جھپکنے کے برابر بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کی، اِس پر صحابۂ کرامؓ کو حیرت ہوئی، تو حضرت جبرئیلؑ حاضرِ خدمت ہوئے اور سورۃُ القَدر سنائی۔
[تفسير ابن أبي حاتم:19426]
اِس کے عِلاوہ اَور بھی روایات ہیں۔ اِس قِسم کے اختلافِ روایات کی اکثر وجہ یہ ہوتی ہے کہ، ایک ہی زمانے میں جب مختلف واقعات کے بعد کوئی آیت نازل ہوتی ہے تو ہر واقِعے کی طرف نسبت ہوسکتی ہے۔ بہر حال سببِ نزول جو کچھ بھی ہوا ہو؛ لیکن اُمَّتِ محمدیہ کے لیے یہ اللہ جَلَّ شَانُہٗ کا بہت ہی بڑا انعام ہے، یہ رات بھی اللہ ہی کا عَطِیَّہ(انعام) ہے اور اِس میں عمل بھی اُسی کی توفیق سے مُیسَّر(حاصل) ہوتا ہے؛ ورنہ:
تَہِی دَستانِ قِسمَت رَاچہ سُود اَز رَہبرِ کامِل
کہ خِضر اَز آبِ حَیواں تِشنہ مِی آرَد سِکندر را (قِسمت کے مَحروموں کو رہبرِ کامل سے کیا فائدہ ہوتا ہے! اِس لیے کہ خضرؑ آبِ حیات کے چشمے سے سکندر کو پیاسا واپس لے آئے۔)
کس قدر قابلِ رَشک ہیں وہ مَشائخ جو فرماتے ہیں کہ: بُلوغ کے بعد سے مجھ سے شبِ قدر کی عبادت کبھی فوت نہیں ہوئی۔ البتہ اِس رات کی تعیین میں عُلَمائے اُمَّت کے درمیان میں بہت ہی کچھ اختلاف ہے، تقریباً پچاس کے قریب اَقوال ہیں، سب کا اِحاطہ دُشوار ہے؛ البتہ مشہور اَقوال کا ذِکر عَن قَریب آنے والا ہے۔
کُتُبِ اَحادِیث میں اِس رات کی فضیلت مُختلِف اَنواع اور مُتعدِّد رِوایات سے وَارِد ہوئی ہے، جن میں سے بعض کا ذکر آتا ہے؛ مگر چوںکہ اِس رات کی فضیلت خود قرآنِ پاک میں بھی مذکور ہے، اور مُستَقِل ایک سورۃ اِس کے بارے میں نازل ہوئی ہے؛ اِس لیے مناسب ہے کہ، اوَّل اِس سورۃِ شرِیفہ کی تفسیر لکھ دی جائے۔ ترجَمہ حضرت اقدس حکیمُ الاُمَّت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نَوَّرَ اللہُ مَرْقَدَہٗ کی تفسیر ’’بیانُ القرآن‘‘ سے ماخوذ ہے، اور فوائد دوسری کُتب سے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ ﴿إِنَّآ أَنزَلۡنَٰهُ فِي لَيۡلَةِ ٱلۡقَدۡرِ﴾ : بے شک ہم نے قرآن پاک کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔
فائدہ: یعنی: قرآنِ پاک لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اِسی رات میں اُترا ہے، یہی ایک بات اِس رات کی فضیلت کے لیے کافی تھی کہ قرآن جیسی عظمت والی چیز اِس میں نازل ہوئی، چہ جائے کہ اِس میں اَور بھی بہت سے برکات وفضائل شامل ہوگئے ہوں۔ آگے زیادتیِٔ شوق کے لیے ارشاد فرماتے ہیں:
﴿وَمَآ أَدۡرَىٰكَ مَا لَيۡلَةُ ٱلۡقَدۡرِ﴾: آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ شب قدر کیسی بڑی چیز ہے؟ یعنی: اِس رات کی بَڑائی اور فضیلت کا آپ کو علم بھی ہے، کہ کتنی خوبیاں اور کس قدر فضائل اِس میں ہیں؟۔ اِس کے بعد چند فضائل کا ذکر فرماتے ہیں:
﴿لَيۡلَةُ ٱلۡقَدۡرِ خَيۡرٞ مِّنۡ أَلۡفِ شَهۡرٖ﴾: شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یعنی: ہزار مہینے تک عبادت کرنے کا جس قدر ثواب ہے اِس سے زیادہ شبِ قدر میں عبادت کرنے کا ثواب ہے، اور اِس زیادتی کا علم بھی نہیں کہ کتنی زیادہ ہے؟۔
﴿تَنَزَّلُ ٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ﴾:اِس رات میں فرشتے اُترتے ہیں۔
عَلَّامہ رازیؒ لکھتے ہیں کہ: ملائکہ نے جب ابتدا میں تجھے دیکھا تھا تو تجھ سے نفرت ظاہر کی تھی، اور بارگاہِ عالی میں عرض کیا تھا کہ: ایسی چیز کو آپ پیدا فرماتے ہیں جو دنیا میں فساد کرے اور خون بہاوے؟ اِس کے بعد وَالدین نے جب تجھے اوَّل دیکھا تھا جب کہ تُو مَنی کا قطرہ تھا تو تجھ سے نفرت کی تھی، حَتیٰ کہ کپڑے کو لگ جاتا تو کپڑے کو دھونے کی نوبت آتی؛ لیکن جب حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نے اِس قَطرے کو بہتر صورت مَرحَمت(عطا) فرمادی تو والدین کو بھی شَفقَت اور پیار کی نوبت آئی، اور آج جب کہ توفیقِ الٰہی سے تُو شبِ قدر میں مَعرفتِ اِلٰہی اور طاعتِ رَبَّانی میں مشغول ہے تو ملائکہ بھی اپنے اُس فِقرے(جملہ) کی مَعذِرَت(عُذر) کے لیے اُترے ہیں۔
﴿وَٱلرُّوحُ فِيهَا﴾: اور اِس رات میں رُوحُ القُدْس -یعنی حضرت جبرئیلؑ- بھی نازل ہوتے ہیں۔ ’’رُوح‘‘ کے معنیٰ میں مُفسِّرین کے چند قول ہیں: جَمہُور کا یہی قول ہے جو اوپر لکھا گیا کہ: اِس سے حضرت جبرئیلؑ مراد ہیں، علامہ رازی ؒ نے لکھا ہے کہ: یہی قول زیادہ صحیح ہے، اور حضرت جبرئیلؑ کی اَفضَلِیَّت کی وجہ سے مَلائکہ کے ذکر کے بعد خاص طور سے اُن کا ذکر فرمایا۔ بعض کا قول ہے کہ: رُوح سے مراد ایک بہت بڑا فرشتہ ہے کہ تمام آسمان وزَمین اُس کے سامنے ایک لُقمے کے بہ قدر ہیں۔ بعضوں کا قول ہے کہ: اِس سے مراد فرشتوں کی ایک مخصوص جماعت ہے جو اَور فرشتوں کو بھی صرف لَیلَۃُ القَدر ہی میں نظر آتے ہیں۔ چوتھا قول یہ ہے کہ: یہ اللہ کی کوئی مخصوص مخلوق ہے جو کھاتے پیتے ہیں؛ مگر نہ فرشتے ہیں نہ انسان۔ پانچواں یہ کہ: حضرت عیسیٰؑ مراد ہیں جو اُمَّتِ محمدیہ کے کارنامے دیکھنے کے لیے ملائکہ کے ساتھ اُترتے ہیں۔ چھٹا قول یہ ہے کہ: یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے، یعنی اِس رات میں ملائکہ نازل ہوتے ہیں، اور اُن کے بعد میری رحمت خاص نازل ہوتی ہے۔ اِن کے عِلاوہ اَور بھی چند اقوال ہیں؛ مگر مشہور قول پہلا ہی ہے۔ ’’سُننِ بَیہَقِی‘‘ میں حضرت اَنسؓ کے واسطے سے نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد منقول ہے کہ: شبِ قدر میں حضرت جبرئیلؑ فرشتوں کے ایک گِروہ(جماعت) کے ساتھ اُترتے ہیں، اور جس شخص کو ذکر وغیرہ میں مشغول دیکھتے ہیں اُس کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔
[شعب الإيمان البيهقي:3444]
﴿بِإِذۡنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمۡرٖ﴾: اپنے پروردگار کے حکم سے ہر اَمرِ خیر کولے کر زمین کی طرف اُترتے ہیں۔
’’مَظاہرِحَق‘‘ میں لکھا ہے کہ: اِسی رات میں ملائکہ کی پیدائش ہوئی، اور اِسی رات میں آدم ں کا مادَّہ(جس سے کوئی چیز بنائی جائے) جمع ہونا شروع ہوا۔
[عمدۃ القاری:11/ 134]
اِسی رات میں جنت میں درخت لگائے گئے۔ اور دعا وغیرہ کا قبول ہونا بہ کثرت روایات میں وَارِد ہے۔ ’’دُرِّ مَنثُور‘‘ کی ایک روایت میں ہے کہ: اِسی رات میں حضرت عیسیٰؑ آسمان پر اُٹھا لیے گئے۔
[مسند ابویعلیٰ:6757]
اور اِسی رات میں بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی۔
[مسند ابویعلیٰ:6757]
﴿سَلَامٌ﴾:وہ رات سراپا سَلام ہے۔
یعنی: تمام رات ملائکہ کی طرف سے مُومِنین پر سلام ہوتا رہتا ہے، کہ ایک فوج آتی ہے دوسری جاتی ہے، جیسا کہ بعض رِوایات میں اِس کی تَصرِیح(وضاحت) ہے، یا یہ مراد ہے کہ: یہ رات سَراپا سلامتی ہے، شَر وفَساد وغیرہ سے اَمَن ہے۔
﴿هِيَ حَتَّىٰ مَطۡلَعِ ٱلۡفَجۡرِ﴾: وہ رات (اِن ہی برکات کے ساتھ)تمام رات طلوعِ فجر تک رہتی ہے۔ یہ نہیں کہ رات کے کسی خاص حصے میں یہ برکت ہو اور کسی میں نہ ہو؛ بلکہ صبح ہونے تک اِن برکات کا ظہور رہتا ہے۔
اِس سورۃ شریفہ کے ذکر کے بعد - کہ خود اللہ جَلَّ شَانُہٗ کے کلام پاک میں اِس رات کی کئی نوع کی فضیلتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں- احادیث کے ذکر کی ضرورت نہیں رہتی؛ لیکن اَحادیث میں بھی اِس کی فضیلت بہ کثرت وَارِد ہوئی ہے، اُن میں سے چند احادیث ذکر کی جاتی ہے:
حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص لیلۃُ القَدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لیے کھڑا ہو، اُس کے پچھلے تمام گناہ مُعاف کردیے جاتے ہیں۔
[صحيح البخاري:37، صحيح مسلم:759، سنن أبي داود:1371، سنن الترمذي:808، سنن النسائي:1602]
فائدہ:
کھڑا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھے، اور اِسی حکم میں یہ بھی ہے کہ کسی اَور عبادت: تلاوت اور ذکر وغیرہ میں مشغول ہو۔ اور ثواب کی اُمید رکھنے کامطلب یہ ہے کہ، رِیا(دِکھلاوا) وغیرہ کسی بدنِیَّتی سے کھڑا نہ ہو؛ بلکہ اخلاص کے ساتھ مَحض اللہ کی رَضا اور ثواب کے حُصول کی نیت سے کھڑا ہو۔ خَطَّابیؒ کہتے ہیں: اِس کامطلب یہ ہے کہ، ثواب کایقین کرکے بَشاشتِ قَلب(دلی خوشی) سے کھڑا ہو، بوجھ سمجھ کر بددِلی کے ساتھ نہیں۔ اورکھلی ہوئی بات ہے کہ جس قدر ثواب کا یقین اور اعتماد زیادہ ہوگا اُتنا ہی عبادت میں مَشقَّت کا برداشت کرنا سَہَل(آسان) ہوگا، یہی وجہ ہے کہ جو شخص قُربِ اِلٰہی میں جس قدر ترقی کرتا جاتا ہے عبادت میں اِنہِماک زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ نیز یہ معلوم ہوجانا بھی ضروری ہے کہ، حدیثِ بالا اور اِس جیسی احادیث میں گناہوں سے مراد عُلَماء کے نزدیک صَغِیرہ(چھوٹے) گناہ ہوتے ہیں؛ اِس لیے کہ قرآنِ پاک میں جہاں کَبیرہ(بڑے) گناہوں کا ذکر آتا ہے اُن کو
﴿إلَّا مَنْ تَابَ﴾ (یعنی مگر جو شخص توبہ کرے)
[سورۃ الفرقان:70]
کے ساتھ ذکر کیا ہے، اِسی بِنا پر عُلَماء کا اِجماع ہے کہ، کبیرہ گناہ بغیرتوبہ کے مُعاف نہیں ہوتا۔ پس جہاں احادیث میں گناہوں کے مُعاف ہونے کا ذکر آتا ہے، عُلماء اُس کو صَغائِر کے ساتھ مُقیَّد فرمایا کرتے ہیں۔ میرے والد صاحب - نَوَّرَ اللہُ مَرقَدَہٗ وَبَرَّدَ مَضجَعَہٗ - کا ارشاد ہے کہ: احادیث میں صَغائِر کی قید دو وجہ سے مذکور نہیں ہوتی: اوَّل تو یہ کہ مسلمان کی شان یہ ہے ہی نہیں کہ اُس کے ذمَّے کَبیرہ گناہ ہو؛ کیوںکہ جب کبیرہ گناہ اُس سے صَادِر ہوجاتا ہے تو مسلمان کی اَصل شان یہ ہے کہ اُس وقت تک چین ہی نہ آوے جب تک کہ اُس گناہ سے توبہ نہ کرلے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ: جب اِس قِسم کے موقع ہوتے ہیں مثلاً: لیلۃُ القَدر ہی میں جب کوئی شخص بہ اُمیدِ ثواب عبادت کرتا ہے تو اپنی بداعمالیوں پر نَدامَت(اَفسوس) اُس کے لیے گویا لازم ہے، اور ہوہی جاتی ہے؛ اِس لیے توبہ کا تحقُّق(پایا جانا) خود بہ خود ہوجاتا ہے، کہ توبہ کی حقیقت گذشتہ پر نَدامَت(اَفسوس) اور آئندہ کونہ کرنے کا عَزم(پَکّا ارادہ) ہے؛ لہذا اگر کوئی شخص کَبائِر کا مُرتکِب(عمل کرنے والا) بھی ہو تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ، لَیلَۃُ القَدر ہو یا کوئی اَور اِجابت کا موقع ہو، اپنی بداعمالیوں سے سچے دل سے پُختگی کے ساتھ دِل و زبان سے توبہ بھی کرلے؛ تاکہ اللہ کی رحمتِ کامِلہ مُتوجَّہ ہو، اور صغیرہ کبیرہ سب طرح کے گناہ مُعاف ہوجاویں، اور یاد آجاوے تو اِس سِیاہ کار(گنہ گار) کو بھی اپنی مُخلِصانہ(خُلوص والی) دُعاؤں میں یاد فرمالیں۔
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ: ایک مرتبہ رمَضانُ المبارک کا مہینہ آیا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ: تمھارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے، جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو شخص اِس رات سے محروم رہ گیا گویا ساری ہی خَیر سے محروم رہ گیا، اور اِس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا؛ مگر وہ شخص جو حقیقتاً محروم ہی ہے۔
[مصنف عبد الرزاق:7383، سنن ابن ماجه:1644، مسند البزار:7273، المعجم الأوسط:1444]
فائدہ:
حقیقتاً اُس کی محرومی میں کیا تَامُّل(شک) ہے جو اِس قدر بڑی نعمت کو ہاتھ سے کھو دے۔ ریلوے مُلازِم چند کوڑیوں کی خاطر رات رات بھر جاگتے ہیں، اگر اَسّی برس کی عبادت کی خاطر کوئی ایک مہینے تک رات میں جاگ لے تو کیا دِقَّت(حَرج، تکلیف) ہے؟ اصل یہ ہے کہ دِل میں تڑپ ہی نہیں، اگر ذرا سا چَسکا(عادت، شوق) پڑجائے تو پھر ایک رات کیا، سیکڑوں راتیں جاگی جاسکتی ہے:
اُلفت میں برابر ہے وَفا ہو کہ جَفا(بے وفائی) ہو ہر چیز میں لَذَّت ہے اگر دل میں مَزا ہو
آخر کوئی تو بات تھی کہ نبیٔ کریم ﷺ باوجود ساری بَشارتوں اور وعدوں کے -جن کا آپ کو یقین تھا- پھر اِتنی لمبی نماز پڑھتے تھے کہ پاؤں وَرَم(سُوجن) کرجاتے تھے۔
[صحیح مسلم:2819]
اُن ہی کے نام لیوا اور اُمَّتی آخر ہم بھی کہلاتے ہیں۔ ہاں! جن لوگوں نے اِن اُمور کی قدر کی وہ سب کچھ کرگئے، اور نمونہ بن کر اُمَّت کو دِکھلا گئے، کہنے والوں کو یہ موقع بھی نہیں رہا کہ: حضور ﷺ کی حِرص(تمنا) کون کرسکتا ہے اور کس سے ہوسکتی ہے؟ دل میں سَما جانے کی بات ہے، کہ چاہنے والے کے لیے دودھ کی نہر پہاڑ سے کھودنی بھی مشکل نہیں ہوتی؛ مگر یہ بات کسی کی جوتیاں سیدھی کیے بغیر مشکل سے حاصل ہوتی ہے:
تمنَّا دَردِ دل کی ہے تو کر خدمت فقیروں کی نہیں مِلتا یہ گوہر(موتی) بادشاہوں کے خَزِینے میں
آخر کیا بات تھی کہ حضرت عمرؓ عشاء کی نماز کے بعد گھر میں تشریف لے جاتے اور صبح تک نماز میں گزار دیتے تھے۔ حضرت عثمانؓ دن بھر روزہ رکھتے اور رات بھر نماز میں گزار دیتے، صرف رات کے اوَّل حصے میں تھوڑا سا سوتے تھے، رات کی ایک ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھ لیتے تھے۔ شرح اِحیاء العلوم میں اَبوطالب مَکِّیؒ سے نقل کیا ہے کہ: چالیس تابعین سے بہ طریقِ تواتُر یہ بات ثابت ہے کہ: وہ عشاء کے وُضو سے نمازِ صبح پڑھتے تھے۔
[إحياء علوم الدين،ج1،ص359، دار المعرفة]
حضرت شَدَّادؒ رات کو لیٹتے اور تمام رات کَروَٹیں بدل کر صبح کردیتے، اور کہتے: یا اللہ! آگ کے ڈر نے میری نیند اُڑا دی۔ اور اَسود بن یزیدؒ رمَضان میں مغرب عشاء کے درمیان تھوڑی دیر سوتے اور بس۔ سعید بنُ المُسیِّبؒ کے مُتعلِّق مَنقُول ہے کہ: پچاس برس تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھی، صِلہ بن اَشیَمؒ رات بھر نماز پڑھتے اور صبح کو یہ دعا کرتے کہ: یا اللہ! مَیں اِس قابل تو نہیں ہوں کہ جنَّت مانگوں، صرف اِتنی درخواست ہے کہ: آگ سے بچا دیجیو۔ حضرت قَتادہؓ تمام رمَضان تو ہر تین رات میں ایک ختم فرماتے؛ مگر عشرۂ اخیرہ میں ہر رات میں ایک قرآن شریف ختم کرتے۔ امام ابوحنیفہؒ کا چالیس سال تک عشاء کے وُضو سے صبح کی نماز پڑھنا
[امام نووی شافعی ؒنے تہذیب الاسماء صفحہ 704 پہ،علامہ دمیریؒ نے حیات الحیوان جلد 1 صفحہ 122 پہ،حافظ ابن حجر عسقلانی شافعیؒ نے تہذیب التہذیب جلد 10 صفحہ450 پہ،علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے تبیض الصحیفہ صفحہ 15 پہ،قاضی حسین بن محمد دیار مالکیؒ نے تاریخ الخمیس جلد 2 صفحہ 366 پہ،عبد الوہاب شعرانی حنبلیؒ نے کتاب المیزان جلد 1 صفحہ 61 پہ، ابن حجر مکی شافعیؒ نے الخیرات الحسان صفحہ 36 پہ امام صاحبؒ کا یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی۔]
اِتنا مشہور ومعروف ہے کہ، اِس سے اِنکار تاریخ کے اِعتماد(بھروسہ) کو ہٹاتا ہے، جب اُن سے پوچھا گیا کہ: آپ کو یہ قوَّت کس طرح حاصل ہوئی؟ تو اُنھوں نے فرمایا کہ: مَیں نے اللہ کے ناموں کے طُفیل ایک مخصوص طریق پر دُعا کی تھی۔ صرف دوپہر کو تھوڑی دیر سوتے اور فرماتے کہ: حدیث میں قَیلُولہ(دوپہر کے سونے) کا ارشاد ہے۔
[ابن ماجہ:1603]
گویا دوپہر کے سونے میں بھی اِتِّباعِ سنَّت کا اِرادہ ہوتا۔ قرآن شریف پڑھتے ہوئے اِتنا روتے کہ پڑوسیوں کو تَرَس(رحم آنے لگتا تھا، ایک مرتبہ ساری رات اِس آیت کو پڑھتے اور روتے گذار دی:
﴿بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُہُمْ﴾
[سورۃ القمر، آیۃ 46]
ابراہیم بن اَدہَمؒ رمَضانُ المبارک میں نہ تو دن کو سوتے نہ رات کو۔ امام شافعیؒ رمَضانُ المبارک میں دن رات کی نمازوں میں ساٹھ قرآن شریف ختم کرتے۔ اور اِن کے عِلاوہ سیکڑوں واقعات ہیں جنھوں نے
(اور نہیں پیدا کیا میں ن ےجنوں اور انسانوں کو سوائے اپنی عبادت کے۔)
[سورۃ الذاریات، آیۃ 26]
پر عمل کرکے بتلادیا، کہ کرنے والے کے لیے کچھ مشکل نہیں۔
یہ سَلَف(اَگلے) کے واقعات ہیں، اب بھی کرنے والے موجود ہیں، اِس درجے کامُجاہَدہ نہ سہی؛ مگر اپنے زمانے کے موافق، اپنی طاقت وقُدرت کے موافق نمونۂ سَلَف اب بھی موجود ہیں، اور نبیٔ کریم ﷺ کا سچا اِقتِدا کرنے والے اِس دَورِ فساد میں بھی موجود ہیں، نہ راحت وآرام اِنہِماکِ(مشغولی) عبادت سے مانع(رُکاوَٹ) ہوتا ہے نہ دُنیوی مَشاغِل سَدِّ راہ(حائل) ہوتے ہیں، نبیٔ کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ: اللہ کا ارشاد ہے: اے ابنِ آدم! تُومیری عبادت کے لیے فارغ ہوجا، مَیں تیرے سینے کو غِنا سے بھر دُوںگا اور تیرے فَقر کوبند کر دُوںگا، ورنہ تیرے سینے کومَشاغِل سے بھر دُوںگا اور فَقر زَائل(ختم) نہیں ہوگا۔
[ابن ماجہ:4107]
روز مَرَّہ(روزانہ) کے مُشاہَدات اِس سچے ارشاد کے شاہدِ عَدل(سچے گواہ) ہیں۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: شبِ قدر میں حضرت جبرئیلؑ ، ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ آتے ہیں، اور اُس شخص کے لیے جو کھڑے یا بیٹھے اللہ کا ذکر کررہا ہے اور عبادت میں مشغول ہے دُعائے رحمت کرتے ہیں، اور جب عیدُالفِطر کا دن ہوتا ہے تو حق تَعَالیٰ جَلَّ شَانُہٗ اپنے فرشتوں کے سامنے بندوں کی عبادت پر فَخر فرماتے ہیں- اِس لیے کہ اُنھوں نے آدمیوں پر طَعَن(مَلامت) کیا تھا- اور اُن سے دریافت فرماتے ہیں کہ: اے فرشتو! اُس مزدُور کا جو اپنی خدمت پوری پوری ادا کردے کیا بدلہ ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ: اے ہمارے رب! اُس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی اُجرت پوری دے دی جائے، تو ارشاد ہوتا ہے کہ: فرشتو! میرے غلاموں نے اور باندیوں نے میرے فرِیضے کو پورا کردیا، پھر دُعا کے ساتھ چِلَّاتے ہوئے (عیدگاہ کی طرف) نکلے ہیں، میری عزت کی قَسم! میرے جَلال کی قَسم! میری بخشش کی قَسم! میرے عُلُوِّ شان(بلند مرتبہ) کی قَسم! میرے بُلندیٔ مَرتبہ کی قَسم! مَیں اُن لوگوں کی دُعا ضرور قبول کروں گا، پھر اُن لوگوں کو خِطاب فرماکر ارشاد ہوتا ہے کہ: جاؤ! تمھارے گناہ معاف کردیے ہیں اور تمھاری بُرائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے، پس یہ لوگ عیدگاہ سے ایسے حال میں لوٹتے ہیں کہ اُن کے گناہ مُعاف ہوچکے ہوتے ہیں۔
حضرت جبرئیلؑ کا ملائکہ کے ساتھ آنا خود قرآنِ پاک میں بھی مذکور ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا، اور بہت سی احادیث میں بھی اِس کی تَصرِیح(وَضاحت) ہے۔ رسالے کی سب سے اخیر حدیث میں اِس کا مُفصَّل ذکر آرہا ہے کہ: حضرت جبرئیلؑ تما م فرشتوں کو تقاضا فرماتے ہیں کہ: ہر ذَاکر وشَاغِل(مشغول رہنے والا) کے گھرجاویں اور اُن سے مُصافَحہ کریں۔ ’’غَالِیَۃُ المَواعِظ‘‘ میں حضرتِ اقدس شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی ’’غُنیۃ‘‘ سے نقل کیا ہے کہ: ابنِ عباسص کی حدیث میں ہے کہ: فرشتے حضرت جبرئیلؑ کے کہنے سے مُتفَرِّق ہوجاتے ہیں، اور کوئی گھر چھوٹا بڑا، جنگل یا کشتی ایسی نہیں ہوتی جس میں کوئی مومن ہو اور وہ فرشتے مصافحہ کرنے کے لیے وہاں نہ جاتے ہوں؛ لیکن اُس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتَّا یا سُوَّر ہو، یا حَرام کارِی(زِنا) کی وجہ سے جُنُبی(یعنی وہ آدمی جسے جماع یا اَحتلام کی وجہ سے غُسل واجب ہو) یا تصویر ہو۔ مسلمانوں کے کتنے گھرانے ایسے ہیں جن میں خَیالی زِینت کی خاطر تصویریں لَٹکائی جاتی ہیں اور اللہ کی اِتنی بڑی نعمتِ رحمت سے اپنے ہاتھوں اپنے کو محروم کرتے ہیں! تصویر لَٹکانے والا ایک آدھ ہوتا ہے؛ مگر اُس گھر میں رحمت کے فرشتوں کے داخل ہونے سے روکنے کا سبب بن کر سارے ہی گھر کواپنے ساتھ محروم رکھتا ہے۔
حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا رسول اللہ ﷺ سے نقل فرماتی ہیں کہ: لَیلۃُ القدر کو رمَضان کے اَخیر عَشرے کی طاق راتوں میں تلاش کیا کرو۔
[صحيح البخاري:2017، صحيح مسلم:1169، سنن الترمذي:792]
فائدہ:
جَمہُور عُلَماء کے نزدیک اخیرعشرہ(ّیعنی خری دس دنوں) اِکیسویں رات سے شروع ہوتا ہے، عام ہے کہ مہینہ ۲۹؍ کا ہو یا ۳۰؍ کا، اِس حساب سے حدیثِ بالا کے مطابق شبِ قدر کی تلاش ۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷، ۲۹؍ راتوں میں کرنا چاہیے، اگر مہینہ ۲۹؍ کا ہوتب بھی اَخیر عشرہ یہی کہلاتا ہے؛ مگر ابنِ حَزمؒ کی رائے ہے کہ: عشرہ کے معنیٰ دس کے ہیں؛ لہذا اگر تیس کا چاند رمَضانُ المبارک کا ہو تب تو یہ ہے؛ لیکن اگر ۲۹؍ کا چاند ہو تو اِس صورت میں اَخیر عشرہ بیسویں شب سے شروع ہوتا ہے، اور اِس صورت میں وِتر راتیں یہ ہوںگی: ۲۰، ۲۲، ۲۴، ۲۶، ۲۸؛ لیکن نبیٔ کریم ﷺ لیلۃُ القَدر ہی کی تلاش میں رمَضان المبارک کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔
[صحیح البخاری:2025]
اور وہ بالاتفاق اکیسویں شب سے شروع ہوتا تھا؛ اِس لیے بھی جَمہور کا قول: ’’اکیسویں رات سے طاق راتوں میں قوِی احتمال ہے‘‘ زیادہ راجح ہے، اگرچہ احتمال اَور راتوں میں بھی ہے، اور دونوں قولوں پر تلاش جب ممکن ہے کہ، بیسویں شَب سے لے کرعید کی رات تک ہر رات میں جاگتا رہے اور شبِ قدر کی فکر میں لگا رہے، دس گیارہ راتیں کوئی ایسی اہم یا مشکل چیز نہیں جن کو گزار دینا اُس شخص کے لیے کچھ مشکل ہو جو ثواب کی امید رکھتا ہو: عُرفی اگر بگِریہ مُیسَّر شُدے وِصال صَد سال می تَواں بہ تمنَّا گِریستَن
(اے عرفی! اگر محض رونے سے محبوب کی ملاقات ہوجایا کرتی، تو سینکڑوں سال اِس تمنا میں رَویا جاسکتا ہے۔)
حضرت عُبادَہؓ کہتے ہیں کہ: نبیٔ کریم ﷺ اِس لیے باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں شبِ قدر کی اِطِّلاع فرماویں؛ مگر دو مسلمانوں میں جھگڑا ہورہا تھا، حضرت ﷺ نے فرمایا کہ: مَیں اِس لیے آیا تھا کہ تمھیں شبِ قدر کی خبر دوں؛ مگر فلاں فلاں شخصوں میں جھگڑا ہورہا تھا کہ جس کی وجہ سے اِس کی تعیین اُٹھا لی گئی، کیا بعید ہے کہ یہ اُٹھالینا اللہ کے علم میں بہتر ہو؛ لِہٰذا اب اِس رات کو نوِّیں اور ساتوِیں اور پانچوِیں رات میں تلاش کرو۔
[السنن المأثورة للشافعي:329، مسند أحمد:22721، صحيح البخاري:2023+6049، السنن الكبرى للنسائي:3381، شرح معاني الآثار،الطحاوي:4631، شعب الإيمان:3405،فضائل الأعمال للمقدسي:221]
فائدہ:
اِس حدیث میں تین مضمون قابلِ غور ہیں: اَمرِ اوَّل جو سب سے اہم ہے وہ جھگڑا ہے، جو اِس قدر سخت بُری چیز ہے کہ اِس کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے شبِ قدر کی تَعیین اُٹھالی گئی، اور صرف یہی نہیں؛ بلکہ جھگڑا ہمیشہ برکات سے محرومی کا سبب ہوا کرتا ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: تمھیں نماز، روزہ، صدقہ وَغیرہ سب سے اَفضل چیز بتلاؤں؟ صحابہؓ نے عرض کیا: ضرور، حضور ﷺ نے فرمایا کہ: آپس کا سُلوک سب سے اَفضل ہے، اور آپس کی لڑائی دِین کو مُونڈنے والی ہے، یعنی: جیسے اُسترے سے سَر کے بال ایک دَم صاف ہوجاتے ہیں آپس کی لڑائی سے دِین بھی اِسی طرح صاف ہوجاتا ہے۔
[سنن ابوداؤد:4919]
دنیا دار، دِین سے بے خبر لوگوں کا کیا ذکر! جب کہ بہت سی لمبی لمبی تسبیحیں پڑھنے والے، دِین کے دعوے دار بھی ہر وَقت آپس کی لڑائی میں مُبتَلا رہتے ہیں، اوَّل حضور ﷺ کے ارشاد کو غور سے دیکھیں اور پھر اپنے اُس دین کی فکر کریں جس کے گھمنڈ میں صُلح کے لیے جھکنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ فصلِ اوَّل میں روزے کے آداب میں گزر چکا ہے کہ: نبیٔ کریم ﷺ نے مسلمانوں کی آبروریزی(بے عزتی) کو بَدترین سُود اور خَبیث ترین سود ارشاد فرمایا ہے؛ لیکن ہم لوگ لڑائی کے زور میں نہ مسلمان کی آبرو(عزت) کی پرواہ کرتے ہیں نہ اللہ اور اُس کے سچے رسول ﷺکے اِرشادات کا خَیال، خود اللہ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَاتَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ﴾ (سورۃ الانفال:46) : اور نِزاع(جھگڑا) مت کرو، ورنہ کم ہِمَّت ہوجاؤ گے اور تمھاری ہَوا اُکھڑ جائے گی۔ (بیانُ القرآن) آج وہ لوگ جو ہر وقت دوسروں کا وَقار گھٹانے کی فکر میں رہتے ہیں تنہائی میں بیٹھ کر غور کریں کہ، خود وہ اپنے وَقار کو کتنا صدمہ پہنچا رہے ہیں! اور اپنی اِن ناپاک اور کمینہ حرکتوں سے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کتنے ذَلیل ہورہے ہیں! اور پھر دُنیا کی ذِلَّت بدیہی(بالکل واضح)۔
نبیٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ چھوٹ چھُٹاؤ رکھے، اگر اِس حالت میں مرگیا تو سیدھا جہنَّم میں جاوے گا۔
[سنن ابوداؤد:4919]
ایک حدیث میں اِرشاد ہے کہ: ہر پیر و جمعرات کے دن اللہ کی حُضوری میں بندوں ے اعمال پیش ہوتے ہیں، اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی رَحمت سے (نیک اَعمال کی بہ دولت) مُشرکوں کے عِلاوہ اَوروں کی مغفرت ہوتی رہتی ہے؛ مگر جن دو میں جھگڑا ہوتا ہے اُن کی مغفرت کے متعلِّق ارشاد ہوتا ہے کہ: اِن کو چھوڑے رکھو جب تک صلح نہ ہو۔
[صحیح مسلم:2565]
ایک حدیثِ پاک میں ارشاد ہے کہ: ہر پیر جمعرات کو اعمال کی پَیشی(حضوری) ہوتی ہے اُس میں توبہ کرنے والوں کی توبہ قَبول ہوتی ہے، اور اِستِغفار کرنے والوں کی اِستغفار قَبول کی جاتی ہے؛ مگر آپس میں لڑنے والوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
[المعجم الاوسط:7419]
ایک جگہ ارشاد ہے کہ: شبِ براء ت میں اللہ کی رَحمتِ عامّہ خَلقَت(مخلوق) کی طرف مُتوجَّہ ہوتی ہے، اور (ذرا ذرا سے بہانے سے) مخلوق کی مغفرت فرمائی جاتی ہے؛ مگر دوشخصوں کی مغفرت نہیں ہوتی: ایک کافر، دوسرا: وہ جو کسی سے کِینہ رکھے۔
[ابن ماجہ:1319]
دوسرا اَمر جو حدیثِ بالا میں معلوم ہوتا ہے وہ حِکمتِ اِلٰہی کے سامنے رَضا اور قَبول وتَسلِیم ہے، کہ باوجود اِس کے کہ شبِ قَدر کی تعیین کا اُٹھ جانا صورتاً بہت ہی بڑی خَیر کا اُٹھ جانا تھا؛ لیکن چوںکہ اللہ کی طرف سے ہے؛ اِس لیے حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ: ’’شاید ہمارے لیے یہی بہتر ہو‘‘۔ نہایت عبرت اور غور کامقام ہے، اللہ جَلَّ شَانُہٗ کی رَحیم وکَرِیم ذات بندے پر ہر وقت مہربان ہے، اگر بندہ اپنی بداعمالی سے کسی مصیبت میں مُبتَلا ہوجاتا ہے تب بھی اللہ کی طرف سے تھوڑی سی توجُّہ اور اِقرارِ عِجز(عاجزی کا اقرار) کے بعد اللہ کا کرم شاملِ حال ہوجاتا ہے، اور وہ مصیبت بھی کسی بڑی خیر کا سبب بنادی جاتی ہے، اوراللہ کے لیے کوئی چیز مشکل نہیں؛ چناںچہ عُلَمانے اِس کے اِخفاء(پوشیدہ ہونا) میں بھی چند مَصالِح(مَصلَحتیں) ارشاد فرمائے ہیں:
اوَّل یہ کہ، اگر تعیین باقی رہتی تو بہت سی کوتاہ طَبائِع(سُست طبیعتیں) ایسی ہوتیں کہ اَور راتوں کا اہتمام بِالکل تَرک کردیتیں، اور اِس صورتِ موجودہ میں اِس احتمال پر کہ آج ہی شاید شبِ قدر ہو متعدِّد راتوں میں عبادت کی توفیق طلب والوں کو نصیب ہوجاتی ہے۔
دوسری یہ کہ، بہت سے لوگ ہیں کہ مَعاصی کے بغیر اُن سے رَہا ہی نہیں جاتا، تعیین کی صورت میں اگر باوجود معلوم ہونے کے اِس رات میں مَعصِیت کی جُرأت(ہمت) کی جاتی تو سخت اَندیشہ ناک(خوفناک) تھا۔ نبیٔ کریم ﷺ ایک مرتبہ مسجد میں تشریف لائے کہ ایک صحابی سورہے تھے، آپ ﷺ نے حضرت علی صسے ارشاد فرمایا کہ: اِن کو جَگا دو؛ تاکہ وُضو کرلیں، حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہٗ نے جگا تو دیا؛ مگر حضور ﷺ سے پوچھا کہ: آپ توخیر کی طرف بہت تیزی سے چلنے والے ہیں، آپ نے خود کیوں نہیں جگا دیا؟ حضورﷺ نے فرمایا: مَبادَا(ایسا نہ ہو) انکار کر بیٹھتا، اور میرے کہنے پر اِنکار کُفر ہوجاتا، تیرے کہنے سے اِنکار پر کفر نہیں ہوگا۔
[تفسیر کبیر: سورۃ القدر]
تو اِسی طرح حق سُبْحَانَہٗ وَتَقَدُّس کی رحمت نے گَوارا(پسند) نہ فرمایا کہ اِس عظمت والی رات کے معلوم ہونے کے بعد کوئی گناہ پر جرأت کرے۔ تیسری یہ کہ، تعیین کی صورت میں اگر کسی شخص سے وہ رات اِتِّفاقاً چھوٹ جاتی تو آئندہ راتوں میں اَفسُردگی(غمگینی) وغیرہ کی وجہ سے پھر کسی رات کابھی جاگنا نصیب نہ ہوتا، اور اب رمَضان کی ایک دو رات تو کم از کم ہر شخص کو مُیسَّر(حاصل) ہوہی جاتی ہیں۔
چوتھی یہ کہ، جتنی راتیں طلب میں خرچ ہوتی ہیں اُن سب کا مُستَقِل ثواب علاحدہ ملے گا۔
پانچویں یہ کہ، رمَضان کی عبادت میں حق تَعَالیٰ شَانُہٗ ملائکہ پر تفاخُر فرماتے ہیں - جیسا کہ پہلی روایات میں معلوم ہوچکا-، اِس صورت میں تفاخُر کا زیادہ موقع ہے، کہ بندے باوجود معلوم نہ ہونے کے مَحض اِحتمال اور خَیال پر رات رات بھر جاگتے ہیں اور عبادت میں مشغول رہتے ہیں، کہ جب اِحتمال پر اِس قدر کوشش کررہے ہیں تو اگر بتلا دیا جاتا کہ یہی رات شبِ قدر ہے تو پھر اُن کی کوششوں کا کیا حال ہوتا! ۔ اِن کے عِلاوہ اَور بھی مَصالِح(مَصلَحتیں) ہوسکتی ہیں، ایسے ہی اُمور کی وجہ سے عادۃُ اللہ یہ جاری ہے کہ، اِس نَوع(قِسم) کی اَہم چیزوں کو مََخفِی(پوشیدہ) فرمادیتے ہیں؛ چناںچہ اسمِ اعظم کو مَخفی فرمادیا، اِسی طرح جمعہ کے دِن ایک وَقتِ خاص مَقبُولِیتِ دُعا کا ہے، اُس کو بھی مَخفی فرمادیا، ایسے ہی اَور بہت سی چیزیں اِس میں شامل ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ جھگڑے کی وجہ سے اُس خاص رمَضانُ المبارک میں تعیین بھُلا دی گئی ہو، اور اِس کے بعد دِیگرمَصالِحِ مَذکورَہ کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے تعیین ہٹادی ہو۔
تیسری بات جو اِس حدیثِ پاک میں وارِد ہے وہ شبِ قدر کی تلاش کے لیے تین راتیں ارشاد فرمائی ہیں: نوِیں، ساتوِیں، پانچوِیں؛ دوسری روایت کے ملانے سے اِتنا تو مُحقَّق(ثابت) ہے کہ یہ تینوں راتیں اَخیر عَشرے(دس دن) کی ہیں؛ لیکن اِس کے بعد پھر چند اَحتمال ہیں کہ: اَخیر عَشرے میں اگر اوَّل سے شمار کیاجاوے تو حدیث کا مَحمِل(مصداق) ۲۹،۲۷، ۲۵؛ رات ہوتی ہے، اور اگر اخیر سے شمار کیا جائے جیسا کہ بعض اَلفاظ سے مُترشِّح(نکلنا) ہے تو پھر ۲۹؍ کے چاند کی صورت میں ۲۱، ۲۳، ۲۵؛ اور ۳۰؍ کے چاند کی صورت میں ۲۲، ۲۴، ۲۶ ہے۔ اِس کے عِلاوہ بھی تعیین میں رِوایات بہت مختلف ہیں، اور اِسی وجہ سے عُلماء کے درمیان میں اِس کے بارے میں بہت کچھ اختلاف ہے، جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ پچاس کے قریب عُلَماء کے اَقوال ہیں۔
رِوایات کے بہ کثرت اختلاف کی وجہ مُحقِّقِین کے نزدیک یہ ہے کہ، یہ رات کسی تاریخ کے ساتھ مخصوص نہیں؛ بلکہ مختلف سالوں میں مختلف راتوں میں ہوتی ہے، جس کی وجہ سے روایات مختلف ہیں، کہ ہر سال نبیٔ کریم ﷺ نے اُس سال کے مُتعلِّق مختلف راتوں میں تلاش کا حکم فرمایا، اور بعض سالوں میں متعیَّن طور سے بھی ارشاد فرمایا، چناںچہ ابوہریرہؓ کی روایت میں ہے کہ: حضور ﷺ کی مجلس میں ایک مرتبہ شبِ قدر کا ذکر آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: آج کونسی تاریخ ہے؟ عرض کیا گیا کہ: ۲۳؍ ہے، حضورﷺ نے فرمایا کہ: آج ہی کی رات میں تلاش کرو
[تفسیر الدر المنثور: سورۃ القدر]۔
حضرت ابوذَرؓ کہتے ہیں کہ: مَیں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ: شبِ قدر نبی کے زمانے کے ساتھ خاص رہتی ہے یا بعد میں بھی ہوتی ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ: قِیامت تک رہے گی، مَیں نے عرض کیا کہ: رمَضان کے کس حصے میں ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: عشرۂ اول اور عشرۂ آخر میں تلاش کرو، پھر حضورﷺ اَور باتوں میں مشغول ہوگئے، مَیں نے موقع پاکر عرض کیا: اجی! یہ تو بتلاہی دیجیے کہ عشرے کے کونسے حصَّے میں ہوتی ہے؟ حضورﷺ اِتنے ناراض ہوئے کہ نہ اِس سے قَبل مجھ پر اِتنے خَفا(ناراض) ہوئے تھے نہ بعد میں، اور فرمایا کہ: اگر اللہ تَعَالیٰ شَانُہٗ کا یہ مقصود ہوتا تو بتلانہ دیتے، آخر کی سات رات میں تلاش کرو، پس اِس کے بعد اَور کچھ نہ پوچھیو۔
[شعب الإيمان البيهقي:3398]
ایک صحابی کو حضورﷺ نے ۲۳؍ کی شب متعیَّن طور پر ارشاد فرمائی۔
[المعجم الكبير للطبراني:338]
ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ: مَیں سورہا تھا، مجھے خواب میں کسی نے کہا کہ: اُٹھ! آج شبِ قدر ہے، مَیں جلدی سے اُٹھ کر نبیٔ کریم ﷺ کی خدمت میں گیا، تو آپ کی نماز کی نیت بندھ رہی تھی، اور یہ رات ۲۳؍ کی شب تھی۔
[مسند احمد:2302]
بعض روایات میں متعیَّن طور سے ۲۴؍ کی شب کا ہونا بھی معلوم ہوتا ہے۔
[مسند احمد:23890]
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا ارشاد ہے کہ: جو شخص تمام سال رات کو جاگے وہ شبِ قدر کو پاسکتا ہے، (یعنی: شبِ قدر تمام سال میں دَائِر(گھومنے والی) رہتی ہے۔) کسی نے ابنِ کَعبؓ سے اِس کونقل فرمایا، تو وہ فرمانے لگے کہ: ابن مسعودؓ کی غرض یہ ہے کہ لوگ ایک رات پر قَناعت کرکے نہ بیٹھ جائیں، پھر قَسم کھاکر یہ بتلایا کہ وہ ۲۷؍ رمَضان کو ہوتی ہے۔
[صحيح مسلم:762]
اور اِسی طرح سے بہت سے صحابہؓ اور تابعینؒ کی رائے ہے کہ: وہ ۲۷؍ کی شب میں ہوتی ہے۔ اُبَی بن کَعبؓ کی تحقیق یہی ہے؛ ورنہ ابن مسعودؓ کی تحقیق وہی ہے کہ جو شخص تمام سال جاگے وہ اِس کو معلوم کرسکتا ہے۔ اور ’’دُرِّمَنثور‘‘ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ: وہ نبیٔ کریم ﷺ سے یہی نقل کرتے ہیں۔ اَئمہ میں سے بھی امام ابوحنیفہؒ کامشہور قول یہ ہے کہ: تمام سال میں دائر(گھومنے والی) رہتی ہے۔ دوسرا قول امام صاحب کا یہ ہے کہ: تمام رمَضان میں دائر رہتی ہے۔ صاحبین کا قول ہے کہ: تمام رمَضان کی کسی ایک رات میں ہے جومتعیَّن ہے؛ مگر معلوم نہیں۔ شافِعِیَّہ کا رَاجِح قول یہ ہے کہ: ۲۱؍ کی شب میں ہونا اَقرب(غالب گمان) ہے۔ امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کا قول یہ ہے کہ: رمَضان کے آخر عشرے کی طاق راتوں میں دائر رہتی ہے، کسی سال کسی رات میں اور کسی سال کسی دوسری رات میں۔ جَمہُور عُلَماء کی رائے یہ ہے کہ: ستائیسویں رات میں زیادہ اُمید ہے۔ شیخُ الْعَارِفِین مُحیُ الدِّین ابنِ عربی کہتے ہیں کہ: میرے نزدیک اُن لوگوں کا قول زیادہ صحیح ہے جو کہتے ہیں کہ: تمام سال میں دائر رہتی ہے؛ اِس لیے کہ مَیں نے دومرتبہ اِس کو شعبان میں دیکھا ہے: ایک مرتبہ پندرہ کو اور ایک مرتبہ ۱۹؍ کو، اور دومرتبہ رمَضان کے درمیان عشرے میں: ۱۳؍ کو اور ۱۸؍ کو، اور رمَضان کے اخیر عشرے کی ہر طاق رات میں دیکھا ہے؛ اِس لیے مجھے اِس کا یقین ہے کہ وہ سال کی راتوں میں پھرتی رہتی ہے؛ لیکن رمَضانُ المبارک میں بہ کثرت پائی جاتی ہے۔ ہمارے حضرت شاہ وَلیُ اللہ صاحبؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ: شبِ قدر سال میں دومرتبہ ہوتی ہے: ایک وہ رات ہے جس میں احکامِ خداوَندی نازل ہوتے ہیں، اور اِسی رات میں قرآن شریف لوحِ محفوظ سے اُترا ہے، یہ رات رمَضان کے ساتھ مخصوص نہیں، تمام سال میں دَائر رہتی ہے؛ لیکن جس سال قرآن پاک نازل ہوا اُس سال رمَضانُ المبارک میں تھی، اور اکثر رمَضانُ المبارک ہی میں ہوتی ہے۔ اور دوسری شبِ قدر وہ ہے جس میں رُوحانِیت کا ایک خاص اِنتِشار(پھیلنا) ہوتا ہے اور ملائکہ بہ کثرت زمین پر اُترتے ہیں، اور شیاطِین دُور رہتے ہیں، دُعائیں اور عبادتیں قَبول ہوتی ہیں، یہ ہر رمَضان میں ہوتی ہے، اور اخیر عشرے کی وِتر راتوں میں ہوتی ہے اور بدلتی رہتی ہے۔ میرے والد صاحب -نَوَّرَ اللہُ مَرَقَدَہٗ وَبَرَّدَ مَضْجَعَہٗ- اِسی قول کو راجح فرماتے تھے۔
بہرحال شبِ قدر ایک ہو یا دو، ہر شخص کو اپنی ہِمَّت ووُسعَت کے موافق تمام سال اِس کی تلاش میں سَعِی(کوشش) کرنا چاہیے، نہ ہوسکے تو رمَضان بھر جُستجو(تلاش) کرنا چاہیے، اگر یہ بھی مشکل ہو تو عشرۂ اخیرہ کوغنیمت سمجھنا چاہیے، اِتنا بھی نہ ہوسکے تو عشرۂ اخیرہ کی طاق راتوں کوہاتھ سے نہ دینا چاہیے، اور اگر خدانہ خواستہ(اللہ نہ کرے) یہ بھی نہ ہوسکے تو ستائیسویں شب کو تو بہر حال غنیمتِ بارِدہ(قابلِ قدر) سمجھنا ہی چاہیے، کہ اگر تائیدِ اَیزدی(یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد) شاملِ حال ہے اورکسی خوش نصیب کو مُیسَّر ہوجائے، تو پھر تمام دنیا کی نعمتیں اور راحتیں اِس کے مقابلے میں ہَیچ(کچھ نہیں) ہیں؛ لیکن اگر مُیسَّر نہ بھی ہوتب بھی اَجر سے خالی نہیں، بِالخُصوص مغرب وعشاء کی نماز جماعت سے مسجد میں ادا کرنے کا اہتمام تو ہر شخص کو تمام سال بہت ہی ضرور ہونا چاہیے، کہ اگر خوش قِسمتی سے شبِ قدر کی رات میںیہ دو نمازیں جماعت سے مُیسَّر ہوجائیں توکس قدر باجماعت نمازوں کا ثواب ملے!۔ اللہ کا کس قدر بڑا انعام ہے کہ، کسی دِینی کام میں کوشش کی جائے تو کامیابی نہ ہونے کی صورت میں بھی اُس کوشش کا اَجر ضرور ملتا ہے؛ لیکن اِس کے باوجود کتنے ہِمَّت والے ہیں جو دِین کے دَرپے(چاہنے والے، پیچھے) ہیں، دِین کے لیے مرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں؛ اور اِس کے بالمقابل اغراضِ دُنیویہ میں کوشش کے بعد اگر نتیجہ مُرتَّب نہ ہو تو وہ کوشش بے کار اور ضائع؛ لیکن اِس پر بھی کتنے لوگ ہیں کہ دُنیوی اَغراض اور بے کار لَغو اُمور کے حاصل کرنے کے لیے جان ومال دونوں کو برباد کرتے ہیں۔ ع
حضرت عُبادہؓ نے نبیٔ کریم ﷺ سے شبِ قدر کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: رمَضان کے اخیر عشرے کی طاق راتوں میں ہے: ۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷، ۲۹ یا رمَضان کی آخر رات میں؛ جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے اِس رات میں عبادت کرے اُس کے پِچھلے سب گناہ مُعاف ہوجاتے ہیں۔ اِس رات کی مِن جُملہ اَور علامتوں کے یہ ہے کہ: وہ رات کھلی ہوئی چمک دار ہوتی ہے، صاف شَفَّاف، نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی؛ بلکہ مُعتَدِل، گویا کہ اُس میں (اَنوار کی کثرت کی وجہ سے) چاند کھلا ہوا ہے، اِس رات میں صبح تک آسمان کے سِتارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے۔ نیز اِس کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ: اِس کے بعد کی صبح کو آفتاب بغیر شُعاع کے طلوع ہوتا ہے، ایسا بالکل ہموار ٹِکیہ کی طرح ہوتا ہے جیسا کہ چودھویں رات کا چاند، اللہ جَلَّ شَانُہٗ نے اِس دن کے آفتاب کے طلوع کے وقت شیطان کو اُس کے ساتھ نکلنے سے روک دیا(بہ خلاف اَور دنوں کے، کہ طلوعِ آفتاب کے وقت شیطان کا اُس جگہ ظُہور ہوتا ہے۔)
[تفسیر الدر المنثور:8/ 571، مسند أحمد:22714، مختصر قيام الليل: ص258، جامع المسانيد لابن الجوزي:2702، الأحاديث المختارة:342،شعب الإيمان:3419]
وَهَذَا إِسْنَادٌ حَسَنٌ۔
[تفسير ابن كثير:8/ 445،جامع المسانيد والسنن:5731، مجمع الزوائد:5041]
فائدہ:
اِس حدیث کا اوّل مضمون تو سابِقہ روایات میں ذکر ہوچکا ہے، آخر میں شبِ قدر کی چند علامات ذکر کی ہیں، جن کا مطلب صاف ہے، کسی توضیح کا محتاج نہیں۔ اِن کے عِلاوہ اَور بھی بعض علامات روایات میں اور اُن لوگوں کے کلام میں ذکر کی گئی ہیں جن کو اِس رات کی دولت نصیب ہوئی ہے، بِالخُصوص اِس رات کے بعد جب صبح کو آفتاب نکلتا ہے تو بغیر شُعاع کے نکلتا ہے، یہ علامت بہت سی روایاتِ حدیث میں وارد ہوئی ہے اور ہمیشہ پائی جاتی ہے۔ اِس کے عِلاوہ اَور علامتیں لازمی اور لاَبُدِّی(یعنی ضروری) نہیں ہیں۔ عَبدہ بن اَبی لُبابہؓ کہتے ہیں کہ: مَیں نے رمَضان المبارک کی ستائیس شب کو سمندر کا پانی چکھا تو پانی بالکل میٹھا تھا۔ ایوب بن خالدؒ کہتے ہیں کہ: مجھے نہانے کی ضرورت ہوگئی، مَیں نے سمندر کے پانی سے غسل کیا تو بالکل میٹھا تھا، اور یہ تیئیسویں شب کا قصہ ہے۔
مشائخ نے لکھا ہے کہ: شبِ قدر میں ہر چیز سجدہ کرتی ہے، حتیٰ کہ درخت زمین پر گرجاتے ہیں اور پھر اپنی جگہ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مگر ایسی چیزوں کا تعلُّق اُمورِ کَشفِیَّہ سے ہے جو ہر شخص کو محسوس نہیں ہوتے۔
حضرت عائشہ رَضِيَ اللہُ عَنْہَا نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ: یا رسولَ اللہ! اگر مجھے شبِ قدر کا پتہ چل جاوے توکیا دعا مانگوں؟ حضور ﷺ نے (اَللّٰہُمَّ سے اخیر تک) دُعا بتلائی: اللهُمَّ إِنَّكَ تُحِبُّ الْعَفْوَ، فَاعْفُ عَنِّي، (جس کا ترجَمہ یہ ہے کہ: اے اللہ! تُو بے شک مُعاف کرنے والا ہے، اور پسند کرتا ہے مُعاف کرنے کو، پس مُعاف فرمادے مجھ سے بھی۔)
[مسند أحمد:25505، سنن ابن ماجه:3850، سنن الترمذي:3513]
فائدہ:
نہایت جامع دُعا ہے، کہ حق تعالیٰ اپنے لُطف وکرم سے آخرت کے مُطالبے سے مُعاف فرمادیں تو اِس سے بڑھ کر اَور کیا چاہیے؟:
مَن نگویَم کہ طاعَتَم بِپَذِیر قلمِ عَفو بَر گُناہَم کَش
(اے اللہ! مَیں یہ نہیں کہتا کہ: تُو میری عبادت قبول کر،(بلکہ یہ کہتا ہوں:) مُعافی کا قلم میرے گناہوں پر پھیر دے۔)
حضرت سفیان ثَورِیؒ کہتے ہیں کہ: اِس رات میں دعا کے ساتھ مشغول ہونا زیادہ بہتر ہے بہ نسبت دوسری عبادات کے۔ ابنِ رَجبؒ کہتے ہیں کہ: صرف دعا نہیں، بلکہ مختلف عبادات میں جمع کرنا افضل ہے، مثلاً: تلاوت، نماز، دعا اور مُراقَبہ وغیرہ؛ اِس لیے کہ نبیٔ کریم ﷺ سے یہ سب اُمور مَنقُول ہیں، یہی قول زیادہ اَقرب ہے، کہ سابِقہ(اگلی) اَحادیث میں نماز، ذکر وغیرہ کئی چیزوں کی فضیلت گزر چکی ہیں۔
No comments:
Post a Comment