تحقیقِ حدیث»
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِيقٍ فَإِذَا لَحِقَتْهُ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيُدْخِلُ عَلَى أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ وَإِنَّ هَدِيَّةَ الْأَحْيَاءِ إِلَى الْأَمْوَاتِ الِاسْتِغْفَارُ لَهُمْ» .
ترجمہ:
میت قبر میں، ڈوبتے ہوئے فریاد کرنے والے کی طرح ہے، وہ باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہنچنے والی دعا کی منتظر رہتی ہے، جب وہ اسے پہنچ جاتی ہے تو وہ اس کے لیے دنیا و مافیہا سے بہتر ہوتی ہے، اور بے شک اللہ تعالیٰ (دنیا) والوں کی دعاؤں سے اہل قبور پر پہاڑوں جتنی رحمتیں نازل فرماتا ہے، اور زندوں کا مردوں کے لئے تحفہ ان کے لئے مغفرت طلب کرنا ہے۔
[مسند الدیلمي:6232، کنزالعمال:42796، مشكاة:2355]
حکم الحدیث:
امام بیھقی نے فرمایا کہ:
اس(روایت) کی سند بہت کمزور بلکل منکر ہے۔
[شعب الإيمان:7905، نسخة محققة: 7526]
امام ذھبی نے فرمایا کہ:
اس میں راوی ﴿الفضل بن محمد بن عبد الله بن الحارث بن سليمان الانطاکي﴾ ہے جو مجروح متھم ہے۔
[ميزان الاعتدال: 396/3]
ضعیف حدیث پر عمل کے شرائط:
جمہور کے مطابق ثابت شدہ اعمال مثلاً: دعا واستغفار اور صدقہ وغیرہ کے شوق دلانے میں ضعیف روایات بیان (کرکے اللہ کی رحمت سے ثواب کی امید)کی جاسکتی ہیں۔
اور بعض ائمہ کے مطابق حدیث کے کمزور ثبوت کو واضح کرکے بیان کرنا جائز ہے، تاکہ اس روایت(خبر) پر پختہ یقین(عقیدہ) نہ بن جائے۔
http://raahedaleel.blogspot.com/p/blog-page.html
نوٹ:
اس پوسٹ کردہ منگھڑت حدیث میں»
(1)قبر کے قریب بیٹھ کر ذکر کرنے
(2)اونٹ ذبح کرنے جتنا وقت بیٹھنے
(3)صرف والدین کیلئے کرنے
(4)حق ادا ہو جانے جیسی منگھڑت باتیں رسول اللہ ﷺ کے نام پھیلائی جارہی ہیں۔
No comments:
Post a Comment