Sunday, 2 March 2025

خلاصۂ مضامین قرآن


قرآن کا تعارف:

*(1)قرآن۔۔۔یعنی بہت زیادہ/باربار۔۔۔پڑھی جانے والی*

[سورۃ یوسف:2](طٰہٰ:2، 113، الحشر:21، الانسان:23)


*کتاب۔۔۔یعنی لکھا ہوا مخصوص صحیفہ ہے۔*

[ابراھیم:1 النحل:64، 89، العنکبوت:47،ص:29]


*جس میں کوئی شک نہیں(کہ وہ تمام جہانوں کے رب کی طرف سے ہے).*

[البقرۃ:2(یونس:37)]


جو۔۔۔اُم الکتاب میں(درج)ہے۔

[الزخرف:4]

یعنی لوحِ محفوظ میں(درج)ہے۔

[البروج:22]


جو نازل کی ہے اللہ نے

[البقرۃ:174، 176]

جسے تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا گیا۔

[الاسراء:106]


۔۔۔جو اس(تورات)کی تصدیق کرتی ہے جو پہلے سے ان(کتاب والوں)کے پاس ہے

[البقرۃ:89، 101]


...جو کاغذ میں لکھی ہوئی نازل نہیں ہوئی

[الانعام:7]

جسے تم نے کاغذوں میں (محفوظ) رکھا ہوا ہے۔

[الانعام:91]

لوگوں کیلئے

[الزمر:41]


...جو ان سب پر پڑھی جاتی ہے

[العنکبوت:55]


ہم نے اتاری ہے (اے محمد ﷺ!) آپ پر تاکہ آپ نکالیں لوگوں کو اندھیرے سے روشنی کی طرف

[ابراھیم:1]


...حق پر مشتمل ہے

[النساء:104، المائدہ:48، الزمر:2]


...برکت (دائمی خیر) والی ہے

[الانعام:92، 155]


ھدایت ہے۔

[البقرۃ:2 المائدہ:46، النحل:44]


الفرقان۔۔۔یعنی حق وباطل میں فرق کرنے والا۔

[الفرقان:1](البقرۃ:185، آل عمران:4)


خیر وبھلائی ہے

[البقرۃ:105]


نشانی ہے

[آل عمران:50]


واضح بیان ہے

[آل عمران:138]


برھان۔۔۔کھلی دلیل ہے

اور راستہ واضح کردینے والی روشنی ہے۔

[النساء:174]


بصائر۔۔۔آنکھیں کھولدینے والی باتیں

[الانعام:104]


وضاحت، ہدایت اور رحمت ہے۔

[الانعام:157]


دلوں کی بیماریوں کی شفاء ہے۔۔۔مومنوں کیلئے

[یونس:57]


ذکر۔یاددہانی ہے

[الاعراف:63،69 ص:49]


موعظہ۔۔۔نصیحت ہے

[یونس:57]


حق۔سچ ہے

[یونس:108، الکھف:29]


ایک حکم نامہ

[الرعد:37]


پیغامِ الٰہی ہے لوگوں کیلئے

[ابراھیم:52]


بشارت۔۔۔یعنی خوشخبری ہے۔۔۔مومنوں کیلئے

[البقرۃ:97، النمل:2]


آیاتّ بینات۔۔۔روشن نشانیاں۔

[البقرۃ:99الحج:16، المجادلہ:5(الطلاق:11)]


(خاص)نور ہے

[التغابن:8]

واضح(روشنی)ہے۔

[النساء:174]


جس میں ہر مثال(مضمون)ہے لوگوں کیلئے

[الاسراء:89، الکھف:54، النور:35، الروم:58، الزمر:27]

مثال حکمت وبصیرت کی

[الاعراف:203، الجاثیہ:20]

مثال حق اور باطل کی

[الرعد:17]

مثال ان(دونوں)کے پیچھے چلنے والوں کی

[محمد:3]

مثال پاکیزہ کلمہ کی

[ابراھیم:24]

مثال ظالموں کے ساتھ ہمارے سلوک(عذاب۔پکڑ)کی

[ابراھیم:45]

مثال اللہ کی

[النور:35]

مثال اللہ کے علاؤہ جن اولیاء(رکھوالوں)کو(مشر

کین)پکارتے ہیں

[العنکبوت:41- [43

مثال قرآن کی

[الحشر:21]

مثال جس کی سمجھ صرف عالم ہی رکھتے ہیں۔

[العنکبوت:43]


Saturday, 1 March 2025

رؤیتِ ہلال(کی اہمیت)کیا ہے

 

رؤیتِ ہلال کیا ہے؟

رؤیتِ ہلال سے مراد چاند کا نظر آنا ہے، خاص طور پر اسلامی مہینوں کی ابتدا اور اختتام کے لیے نئے چاند (ہلال) کا مشاہدہ کرنا۔ اسلامی تقویم قمری ہے، جس میں ہر مہینہ چاند کے طلوع ہونے پر شروع ہوتا ہے۔ رمضان المبارک، شوال (عید الفطر)، اور ذوالحجہ جیسے اہم مہینوں کی شروعات کے لیے ہلال کا مشاہدہ شرعی اہمیت رکھتا ہے۔


---


رؤیتِ ہلال کیوں ضروری ہے؟

1. قرآن و سنت کی تصریح:  

   - قرآن میں ارشاد ہے:  

     **﴿فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهرَ فَليَصُمهُ﴾** (البقرة: 185)  

     (ترجمہ: جو شخص اس مہینے کو پائے، وہ روزے رکھے)۔  

   - حدیث میں ہے:  

     "صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ" (صحیح بخاری: 1909)  

     (ترجمہ: چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو، اگر بدلی ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کرو)۔  


2. اجتماعی نظام کی حفاظت:  

   ہلال کی رؤیت سے امت کا اتحاد قائم رہتا ہے، کیونکہ ایک ہی دن میں عبادات (جیسے روزہ، عید) کا آغاز ہوتا ہے۔  


---


اختلافات کیوں ہوتے ہیں؟ 

1. طبیعی رؤیت vs نجومی حساب:  

   - اہلِ حدیث اور بعض فقہاء کے نزدیک صرف آنکھ سے چاند دیکھنا معتبر ہے، کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:  

     "لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ" (سنن نسائی: 2117)۔  

   - بعض جدید علماء (جیسے شیخ ابن عثیمین) نجومی حساب کو بھی جائز سمجھتے ہیں اگر چاند ممکنہ طور پر نظر آنے کے قابل ہو (فتح الباری: 4/123)۔  


2. مقامی vs عالمی رؤیت:  

   - "حنفیہ اور شوافع" کے نزدیک مقامی رؤیت ضروری ہے، جبکہ "امام مالک" عالمی رؤیت کو بھی کافی سمجھتے ہیں۔ (بدائع الصنائع: 2/79)۔  


3. علمی و فنی اختلافات:  

   - جدید ٹیکنالوجی (جیسے دوربین) سے مشاہدہ کرنے پر بھی اختلاف ہے۔ بعض اسے "رؤیت" میں شامل سمجھتے ہیں، جبکہ دوسرے اسے "حساب" کہتے ہیں۔  


---


اختلاف کرنا کیسا ہے؟ 

1. اجتہادی اختلاف جائز ہے:  

   فقہی مسائل میں اختلاف رحمت ہے، جب تک کہ دلائل شرعیہ کی بنیاد پر ہو۔ امام ابن تیمیہ کہتے ہیں:  

   "اختلافِ امت رحمت ہے جب تک کہ وہ کتاب و سنت کی طرف لوٹایا جائے۔" (مجموع الفتاوی: 20/164)۔  


2. وحدتِ امت کا خیال رہے:  

   اگرچہ اختلاف جائز ہے، لیکن اتحاد کو نقصان پہنچانے والا اختلاف ناپسندیدہ ہے۔ شیخ ابن باز فرماتے ہیں:  

   "ہر ملک کو اپنی رؤیت پر عمل کرنا چاہیے، لیکن دوسروں کے لیے تنقید نہیں کرنی چاہیے" (فتاوى نور على الدرب: 10/101)۔  


3. شرط: دلیل پر مبنی ہو:  

   اختلاف کرتے وقت قرآن و سنت کے دلائل اور فقہی اصولوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ امام  ابوحنیفہ اور امام شافعی فرماتے ہیں:  

 "جب حدیث صحیح ہو تو وہ میرا مذہب ہے۔" (کتاب الاُمّ: 7/271)


---


نتیجہ:

رؤیتِ ہلال سنتِ نبوی ﷺ اور امت کے اتحاد کا ذریعہ ہے۔ اختلافات فقہی تفریعات ہیں، جن میں نرمی اور برداشت کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ہر مسلم ملک یا جماعت کو چاہیے کہ وہ اپنے علماء اور مقامی کمیٹیوں کے فیصلوں پر عمل کرے، بشرطیکہ وہ شرعی دلائل سے ہم آہنگ ہوں۔