Wednesday 26 September 2012

معرفتِ خالق اور خالق و مخلوق کا تعلق

عالم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا تعلق

فلاسفہ کہتے ہیں کہ ابتدا میں خدا کے ساتھ ایک اور شے بھی تھی جس کا نام انہوں نے مادہ اور ہیولی رکھا ہے اور اس سے تمام کائنات کا ظہور ہوا ہے۔یہ سب غلط ہے۔حق یہ ہے کہ ازل میں صرف حق تعالیٰ تھا اور اس کے سوا کوئی شے نہ تھی اس نے اپنے علم اور قدرت اور ارادہ سے جس طرح چاہا کائنات کو پیدا کیا۔


اس کائنات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کیا تعلق ہے اس کو شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے "عبقات" میں خوب واضح کیا ہے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الدین القیم" میں اس کو سہل انداز میں یوں بیان کیاہے۔
''فلاسفہ اسلام اور صوفیہ کا نظریہ ہے کہ انسان کو جب کسی چیز کا علم حواس کے ذریعہ سے ہوتا ہے تو اس علمی اثر کے بعد انسان میں اس کی قدرت پیدا ہو جاتی ہے کہ اپنی معلوم کی ہوئی شے کو اپنی خیالی قوت سے پیدا کرے۔


فتوحات مکیہ" میں شیخ ابن عربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "بالوھم یخلق کل انسان فی قوة خیالہ ما لا وجود لہ الا فیھا" (یعنی وہم سے" آدمی اپنی قوت خیال میں وہ چیزیں پیدا کر سکتا ہے جن کا وجود صرف اسی میں ہے۔ اس کوہم (مجازا) انسان کا تخلیقی عمل کہتے ہیں۔


انسان جب عالم خیال میں عمل کرتا ہے اور مثلاً یہ ارادہ کرتا ہے کہ میں ذہن کی دنیا میں بادشاہی مسجد کوپیدا کروں تو وہ اس کا خیال کرنے کے بعد ہر چیز سے منقطع ہو کر انتہائی یکسوئی کے ساتھ خیال میں قائم کی ہوئی اس عمارت کے تصور میں کچھ اس طرح منہمک اور مستغرق ہو جاتا ہے کہ وہ باتیں جو اب تک اس کے تحت الشعور میں پوشیدہ تھیں وہ اس درجہ سے نکل کر اس کے تفصیلی شعور کے سامنے آجاتی ہیں یعنی بجائے معقول ہونے کے متخیل ہوجاتی ہیں ٹھیک جیسے نیند میں آدمی بیرونی محسوسات سے منقطع ہو کر ان ہی چیزوں کے مشاہدے میں ڈوب جاتا ہے جو اس کے خزانہ خیال میں محفوظ ہوتی ہیں۔
اپنی اس خیالی اور ذہنی تخلیق سے جس قسم کے تعلقات انسان کے ہوتے ہیں قرآن پاک نے ان سارے تعلقات کو خدا اور عالم کے درمیان ثابت کیا ہے مثلاً


١)۔ پہلا تعلق: قرآن کا دعویٰ ہے کہ حق تعالیٰ نے عالم کو بغیر مادہ کے پیدا کیا ہے جیسا کہ "بَدِیْعُ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِ"{2/117;6/101} کے قرآنی الفاظ کا تقاضا ہے۔ اسی کی تفسیر حدیث میں ہے کہ کان اللہ ولم یکن معہ شیٔ (عالم کو بنانے سے پہلے صرف اللہ موجود تھا اور اس کے ساتھ کوئی اور شے موجود نہ تھی) جس کے معنی یہی ہیں کہ آسمان وزمین کچھ نہ تھے اور پھر پیدا ہوگئے۔

صحیح بخاری۔ جلد:۲/ چھبیسواں پارہ/ حدیث نمبر:۶۰۶۹/ حدیث مرفوع

۶۰۶۹۔ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَصْدَقُ بَيْتٍ قَالَهُ الشَّاعِرُ أَلَا کُلُّ شَيْئٍ مَا خَلَا اللہَ بَاطِلُ۔

۶۰۶۹۔ محمد بن مثنی، غندر، شعبہ، عبد الملک بن عمیر، ابوسلمہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شاعر کے شعروں میں یہ مصرعہ سب سے زیادہ سچا ہے:  آگاہ ہو جاؤ! اللہ کے سوا تمام چیزیں باطل ہیں۔
حاصل یہ ہے کہ ابتداء میں خدا کے سوا کچھ نہ تھا یعنی مادہ وغیرہ کچھ نہیں تھا پھر خدا نے قوت کن (یعنی اپنی تخلیقی قوت) سے اس عالم کو پیدا کیا۔ ٹھیک جس طرح ہمارے خیال میں کچھ نہیں ہوتا پھر محض اپنے ارادہ سے اپنی معلومات کو ہم وجود عطاکرتے ہیں۔

٢)۔ دوسرا تعلق: اسی طرح قرآن کا بیان ہے کہ "وَمَا اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا کَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْھُوَ اَقْرَبُ"{16:77} (یعنی موجودہ نظام عالم کی بربادی کے لئے یا قیام قیامت کے لئے پلک جھپکانے بلکہ اس سے بھی کم زمانہ کی ضرورت ہے) ہم بھی جب اپنی خیالی اور علمی مخلوق مثلاً اسی بادشاہی مسجد کو جسے خیال میں پیدا کرتے ہیں اگر برباد کرنا چاہیں تو اس کے لئے لمح بصر (پلک جھپکانے) سے زیادہ وقت کی ضرورت نہیں صرف توجہ ہٹا لینا کافی ہے توجہ ہٹا لینے کے ساتھ ہی ہماری خیالی مخلوقات معدوم ہو جاتی ہیں اور بغیر کسی مادہ چھوڑنے کے معدوم ہو جاتی ہیں۔

٣) تیسرا تعلق: ہماری خیالی اور علمی مخلوق مثلاً بادشاہی مسجد جس طرح پیدا ہونے میں ہمارے ارادہ اور توجہ کی محتاج ہے ٹھیک اس طرح ہر لحظہ اور ہر لمحہ اپنے قیام و بقا میں بھی ہماری توجہ اور التفات کی وہ دست نگر ہے۔ یہی قرآن کا بھی بیان ہے کہ خدائے تعالیٰ عالم کا صرف خالق ہی نہیں ہے۔ بلکہ قیوم بھی ہے یعنی وہی اسے تھامے ہوئے ہے (یعنی عالم اسی سے قائم ہے) اگر ادنیٰ التفات اس کی طرف سے ہٹا لے تو نظام عالم درہم برہم ہو جائے گا جیسا کہ ارشاد ہے۔
اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لَا تَأْ خُذُہ سِنَة وَلَا نَوْم{2:255}
 یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ زندہ ہے (یعنی مردہ مادہ نہیں ہے) قیوم ہے (یعنی عالم کو تھامے ہوئے ہے) اسے نہ غنودگی پکڑتی ہے اور نہ نیند چھوتی ہے۔ (کیونکہ اگر ایسا ہو تو نظام عالم قائم نہیں رہ سکتا)۔
اپنے خیال میں کسی مخلوق کو پیدا کر کے یعنی تصور قائم کر کے اگر کوئی اونگھ جائے یا سو جائے تو اس کی یہ پیدا کی ہوئی مخلوق کیا باقی رہ سکتی ہے ؟

٤) چوتھا تعلق: اب اس پر غور کیجئے کہ مثلاً زید اپنی تخلیقی قوت سے عالم خیال میں جس وقت بادشاہی مسجد کو پیدا کرتا ہے کیا زید خود بادشاہی مسجد بن جاتا ہے یا بادشاہی مسجد زید بن جاتی ہے ؟ ہم بلا غور و فکر کے جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ اس کو سوچئے کہ اس خیالی اور علمی بادشاہی مسجد کا وجود زید کے وجود اورارادہ سے کیا جدا ہے؟اس کے ہونے کے معنی بجز اس کے اور کیا ہیں کہ اس کا ارادہ اور اس کی توجہ اس کی طرف ہے یہ نہ ہو توبادشاہی مسجد کی نہ دیواریں ہوں نہ محراب اور نہ منبر۔تواسی طرح سمجھئے کہ نہ عالم خدا بن گیا ہے نہ خدا عالم بن گیا ہے اور عالم کا وجود اللہ کے وجود اور ارادہ کے بغیر کچھ نہیں۔

٥)۔ پانچواں تعلق:اس پر بھی غور کیجئے کہ آپ جس وقت اپنی خیالی مخلوق کو ذہن میں پیدا کرتے ہیں کیا اپنے آپ کو اس خیالی مخلوق کے کسی فوقانی، تحتانی، ظاہری وباطنی حصہ سے غائب پاتے ہیں؟غور کیجئے کہ آپ جس طرح اپنے آپ کو اس کی دیواروں کی جڑ کے پاس پاتے ہیں اسی طرح اس کے میناروں پر بھی یقینا پائیں گے ۔آپ کو جو نسبت اس کے ظاہر سے ہے اس کے باطن سے بھی وہی نسبت آپ کو ہوگی۔قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ خالق وقیوم اس عالم کے اول میں بھی ہے اور آخر میں بھی، ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی۔ارشاد ہوتا ہے۔
ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُوَالْبَاطِنُ وَھُوَ بِکُلِّ شَیٔ عَلِیْم (سورہ حدید:3)
وہی اول ہے وہی آخر ہے وہی ظاہر ہے وہی باطن ہے اور وہی ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
لیکن فرمایا جاتا ہے کہ خدا عرش پر ہے کہیں ارشاد ہوتا ہے کہ وہ انسان کی رگ گردن کے پاس بھی ہے۔خود ہی غور کیجئے ۔ایک خالق اور اس کی مخلوق میں اس کے سوا اور نسبت ہی کیا ہوتی ہے؟آخر آپ بھی تو اپنے آپ کو اپنی خیالی بادشاہی مسجد کے میناروں پر بھی پاتے ہیں اور اس کی دیوار کی جڑوں کے پاس بھی۔پھر اگر اس عالم کا خالق اگر عرش پر بھی ہو اور آپ کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہو تو اس کے سوا اور عقل سوچ ہی کیا سکتی ہے۔
6۔ چھٹا تعلق : اب دیکھئے بادشاہی مسجد ایک طویل وعریض عمارت ہے۔ آپ اپنے ذہن میں جس وقت اسے پیدا کرتے ہیں اس طول وعرض کے ساتھ پیدا کرتے ہیں۔اس لمبائی اور چوڑائی کے باوجود آپ اپنے آپ کو کیا اس کے ذرہ ذرہ پر محیط نہیں پاتے؟قرآن بھی یہی کہتا ہے وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ مُحيطًا {4:126} (اللہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے)

٧)۔ ساتواں تعلق:آپ جس وقت اپنے ذہن میں کسی پہاڑ یا کسی شہر کو پیدا کرتے ہیں کیا اس ذہنی خیال یا علمی مخلوق میں کسی دوسرے کے ارادے سے کوئی چیز اپنی جگہ سے ہل سکتی ہے۔ غور کیجئے اس کا ہر ذرہ آپ ہی کی مرضی اور آپ ہی کے ارادہ کا پابند ہے دوسرے کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔قرآن بھی یہی کہتا ہے۔
اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہ اِلَّا ھُوَ وَاِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہ(سورہ یونس:107)
اگر چھوئے اللہ تجھے کسی ضرر کے ساتھ تو اسے کوئی کھولنے والا نہیں لیکن وہی۔اور وہ اگر ارادہ کرے تیرے ساتھ بھلائی کا کوئی اس کی مہربانی کا پلٹا نے والا نہیں ہے۔
یعنی اس عالم کے کسی حصہ میں کوئی واقعہ بھی ہو اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور اذن کے بغیر نہیں ہو سکتا اور کسی دوسرے کا تصور یا ارادہ یا فعل اس میں قطعاً موثر نہیں ہو سکتا ۔

٨)۔ آٹھواں تعلق:آپ جب خیالی بادشاہی مسجد کو پیدا کرتے ہیں تو جہاں آپ ہوتے ہیں کیا بادشاہی مسجد بھی وہیں نہیں ہوتی۔جب ایسا ہے تو خدا نے جب عالم کو پیدا کیا اور خدا اس کا خالق اور وہ اس کا مخلوق ہے تو اس کے بعد یہ سوال کتنا بے معنی ہو جاتا ہے کہ عالم کہاں ہے اورخدا کہاں ہے؟جب قرآن میں فرمایا گیا ھو مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ{57:4} یعنی "اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔" تو لوگوں کو تعجب ہوا کہ جہاں ہم ہوتے ہیں وہیں خدا کس طرح ہو سکتا ہے لیکن لوگ اپنی ذہنی تخلیق کے متعلق نہیں سوچتے کہ جہاں وہ ہوتے ہیں وہیں ان کی وہ تخلیق بھی ہوتی ہے ۔
اسی کے ساتھ اگرآدمی اپنی ذہنی مخلوقات کے متعلق غور کرے تو کیا اپنے آپ کو ان کے نیچے یا اوپر یا کسی اور سمت میں پاتا ہے؟یقیناً خالق ومخلوق میں کوئی ایسی سمتی نسبت نہیں ہوتی۔ پھر کیا ہوا اگر قرآن میں اعلان کیا گیا کہ اَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ {2:115} یعنی جدھر تم رخ کرو گے وہیں خدا ہے۔


الله تعالیٰ ئی حقیقی معبود (عبادت کے لائق) کیوں؟؟؟

قرآن مجید:
أَمَّن خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالأَرضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَنبَتنا بِهِ حَدائِقَ ذاتَ بَهجَةٍ ما كانَ لَكُم أَن تُنبِتوا شَجَرَها ۗ أَءِلٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ بَل هُم قَومٌ يَعدِلونَ {27:60} 
بھلا کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور (کس نے) تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا۔ (ہم نے) پھر ہم ہی نے اس سے سرسبز باغ اُگائے۔ تمہارا کام تو نہ تھا کہ تم اُن کے درختوں کو اگاتے۔ تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے؟ (ہرگز نہیں) بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہو رہے ہیں.

١) آسمان و زمین کے پیدا کرنے کی طاقت
٢) آسمان سے بارش برسانے کی طاقت
٣) (اور اس سے) درختوں کو پیدا کرنے کی طاقت

تفسیر روح المعانی: "ما کان لکم" سے مراد عام ہے یعنی جن ہو یا انسان(پیر و پیمبر) یا فرشتے کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا.
حالانکہ الله تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ایسے کام نہیں کر سکتا، اسی لئے الله تعالیٰ کے سوا کوئی بھی "سچا-حقیقی-خدا" نہیں بن سکتا.
-----------------------------
أَمَّن جَعَلَ الأَرضَ قَرارًا وَجَعَلَ خِلٰلَها أَنهٰرًا وَجَعَلَ لَها رَوٰسِىَ وَجَعَلَ بَينَ البَحرَينِ حاجِزًا ۗ أَءِلٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ بَل أَكثَرُهُم لا يَعلَمونَ {27:61} 
بھلا کس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے بیچ نہریں بنائیں اور اس کے لئے پہاڑ بنائے اور (کس نے) دو دریاؤں کے بیچ اوٹ بنائی (یہ سب کچھ خدا نے بنایا) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں) بلکہ ان میں اکثر دانش نہیں رکھتے.

شرح: زمین تو پیدا کرے مگر پہاڑوں کے سوا وہ قرار نہیں لیگی سو پہاڑوں کو پیدا کرے، بارش تو برساۓ مگر اس کا پانی دریاؤں کے سوا دور پہچانے اور دور کی مخلوق کے فائدے کا انتظام کرے
٤) زمین کو پیدا کرنے کے بعد اس کو برقرار رکھنے کی طاقت
٥) زمین سے دریاء نکال بہانے کی طاقت
٦) زمین (کو برقرار رکھنے کو اس) پر پہاڑ رکھنے کی طاقت
٧) مختلف مزے اور ذائقے رکھنے-والے دریاؤں کو ملاکر بہانے اور دونوں کے درمیاں پردہ رکھنے کی طاقت

حالانکہ الله تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ایسے کام نہیں کر سکتا، اسی لئے الله تعالیٰ کے سوا کوئی بھی "سچا-حقیقی-خدا" نہیں بن سکتا.
------------------------------
أَمَّن يُجيبُ المُضطَرَّ إِذا دَعاهُ وَيَكشِفُ السّوءَ وَيَجعَلُكُم خُلَفاءَ الأَرضِ ۗ أَءِلٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قَليلًا ما تَذَكَّرونَ {27:62} 
بھلا کون بیقرار کی التجا قبول کرتا ہے۔ جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو.

٨) پریشان آدمی کی فریاد (سننا اور) قبول کرنے کی طاقت
٩) اس پر سے سختی ہٹانے (تکلیف دور کرنے) کی طاقت
١٠) زمانہ میں اگلوں کا نائب (جانشین) بنانے والا
حالانکہ الله تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ایسے کام نہیں کر سکتا، اسی لئے الله تعالیٰ کے سوا کوئی بھی "سچا-حقیقی-خدا" نہیں بن سکتا.
-------------------------------
أَمَّن يَهديكُم فى ظُلُمٰتِ البَرِّ وَالبَحرِ وَمَن يُرسِلُ الرِّيٰحَ بُشرًا بَينَ يَدَى رَحمَتِهِ ۗ أَءِلٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ تَعٰلَى اللَّهُ عَمّا يُشرِكونَ {27:63} 
بھلا کون تم کو جنگل اور دریا کے اندھیروں میں رستہ بناتا ہے اور (کون) ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے خوشخبری بناکر بھیجتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں)۔ یہ لوگ جو شرک کرتے ہیں خدا (کی شان) اس سے بلند ہے.

١١) دریاؤں اور خشکی میں (بھی ظاہری کسی مدد کرنے والے کے سوا) گم-راہ کو راہ دکھانے-والا
١٢) بارش (رحمت) برسانے سے پہلے خوشخبری دینے والی ہواؤں کو بھیجنے والا
حالانکہ الله تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ایسے کام نہیں کر سکتا، اسی لئے الله تعالیٰ کے سوا کوئی بھی "سچا-حقیقی-خدا" نہیں بن سکتا.
-------------------------------
أَمَّن يَبدَؤُا۟ الخَلقَ ثُمَّ يُعيدُهُ وَمَن يَرزُقُكُم مِنَ السَّماءِ وَالأَرضِ ۗ أَءِلٰهٌ مَعَ اللَّهِ ۚ قُل هاتوا بُرهٰنَكُم إِن كُنتُم صٰدِقينَ {27:64} 
بھلا کون خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا۔ پھر اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے اور (کون) تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے (یہ سب کچھ خدا کرتا ہے) تو کیا خدا کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں) کہہ دو کہ (مشرکو) اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو 

١٣) پہلی بار جو مخلوق کو پیدا کرے
١٤) موت کے بعد پھر زندہ کرنے والا
آسمان سے بارش برسانے والا اور اس سے
١٥) زمین سے اناج اور میواجات وغیرہ پیدا کرنے والا
حالانکہ الله تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ایسے کام نہیں کر سکتا، اسی لئے الله تعالیٰ کے سوا کوئی بھی "سچا-حقیقی-خدا" نہیں بن سکتا.

مذکورہ بالہ (عقلی دلائل سے بات سمجھانے والی) آیتوں سے معلوم ہوا کہ "متصرف الامور" (کاموں کا قبضہ/کنٹرول) کرنے والا الله تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نہیں، مگر کوئی شخص "مافوق الاسباب" (ظاہری اسباب سے بالا) الله تعالیٰ کے سوا کسی اور کو "متصرف الامور" (کاموں کا قبضہ/کنٹرول) کرنے والا سمجھے(مانے) گا تو وہ شخص مشرک ہے اور مشرک کی جگہ جہنم ہے:
إِنَّهُ مَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَد حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيهِ الجَنَّةَ وَمَأوىٰهُ النّارُ ۖ وَما لِلظّٰلِمينَ مِن أَنصارٍ {5:72}
(اور جان رکھو کہ) جو شخص خدا کے ساتھ شرک کرے گا خدا اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں.
مگر امور میں تصرف کرنا موقوف ہے "علم" پر. اگر کسی کو ملک کی خبر نہیں تو وہ ملک بھی نہیں چلا سکتا، اس سے معلوم ہوا کہ "غیب کا علم" بھی خدا کے سوا کسی کو بھی نہیں اور مذکورہ بالا آیات کے بعد ان سارے کاموں کو (کسی کے) نہ کرنے کا سبب بیان کیا گیا کہ الله تعالیٰ کے سوا "آسمانوں" میں کوئی فرشتہ اور "زمین" میں کوئی بھی ولی یا پیغمبر غیب نہیں جانتا، اس لئے وہ مکورہ بالا امور کرنے ولی شرط (عالم الغیب ہونا) ان میں نہیں، دیکھئے آیت:
قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَما يَشعُرونَ أَيّانَ يُبعَثونَ {27:65} 
کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں خدا کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے۔ اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کب (زندہ کرکے) اٹھائے جائیں گے.

١٦) غیب کا جاننے والا
حالانکہ الله تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ایسے کام نہیں کر سکتا، اسی لئے الله تعالیٰ کے سوا کوئی بھی "سچا-حقیقی-خدا" نہیں بن سکتا.

قانون لفظ "اله" (خدا)::
جہاں کہیں قرآن مجید میں "اله" کا لفظ آجاۓ، اور غیر الله سے اله ہونے کی نفی کی جارہی ہو، وہاں غیر الله سے (خواہ نبی ہو یا ولی) غائبانہ حاجات میں "ما فوق الاسباب متصرف فی الامور" (ظاہری اسباب سے بالا کاموں میں قابض) ہونے کی نفی کی جاۓ گی. اور علمِ غیب کی بھی نفی کی جاۓ گی، مگر زیادہ تر متصرف فی الامور ہونے کی نفی کی جاۓ گی، کیونکہ اس سے علمِ غیب کی نفی لازم آجاتی ہے.

خلاصہ: ١٦ تصرفاتِ خدائی کی بنیادی شرط "عالم الغیب اور ما فوق الاسباب متصرف فی الامور (ظاہری اسباب سے بالا کاموں میں قابض) ہونا
[ماخوذ از تحفة الموحدين: صفحة # ١٥٥-١٦٠]

No comments:

Post a Comment