Thursday, 27 September 2012

عقیدہِ ختمِ نبوت پر 148 آیات 45 احادیث، اجماعِ امت اور قادیانیت کے شبہات کے جواب



نبوت:

یعنی اللہ کا پیغام پہنچانے کی "ذمہ داری" جو اللہ پاک اپنے منتخب کردہ بندوں(مَردوں) پر  خود ڈالتا ہے۔

جو شخص ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نبوت کا دعویٰ کرے یا ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے اس نے کفر کا ارتکاب کیا اور جس نے ان پر ایمان لایا اس نے بھی کفر کیا۔



قرآن کریم میں ہے:
”ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول الله وخاتم النبیین“ ۔ 
ترجمہ:
․․․”(حضرت) محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں لیکن اللہ کے پیغمبر اور نبیوں کی مہر یعنی سلسلہ نبوت کو ختم کر دینے والے ہیں۔"
[سورۃ الاحزاب:40]

تفسیر:
(35)چونکہ حضرت زید بن حارثہ کو آنحضرت ﷺ نے اپنا بیٹا قرار دیا تھا، اس لئے لوگ ان کو زید بن محمد ﷺ کہہ کر پکارتے تھے، پچھلی آیتوں میں جب یہ حکم جاری ہوا کہ منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا قرار نہیں دیا جاسکتا، تو حضرت زید کو زید بن محمد ﷺ کہنے کی بھی ممانعت ہوگئی، چنانچہ اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ کسی مرد کے نسبی باپ نہیں ہیں (کیونکہ آپ کی زندہ رہنے والی اولاد میں صرف بیٹیاں تھیں) لیکن آپ الله تعالیٰ کے رسول ہونے کی وجہ سے پوری امت کے روحانی باپ ہیں، اور چونکہ آخری نبی ہیں اور قیامت تک کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں، اس جاہلیت کی رسموں کو اپنے عمل سے ختم کرنے کی ذمہ داری آپ ہی پر عائد ہوتی ہے۔
تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ ”خاتم النبیین“ کے معنیٰ ہیں کہ: آپ ا آخری نبی ہیں‘ آپ ا کے بعد کسی کو ”منصب نبوت“ پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہے‘ اسی طرح حضور علیہ السلام کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے۔







مُدّعِی نبوت سے دلیل طلب کرنا بھی کفر کیوں؟

فهذا الإمام أبو حنيفة رحمه الله تعالى تنبأ رجل في زمنه وطلب الإمهال حتى يأتي بالعلامات، يقول الإمام أبو حنيفة: "من طلب منه علامة فقد كفر لقوله صلى الله عليه وسلم: (لا نبى بعدي).

ترجمہ:

بے شک امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ(م150ھ) کے دور میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس نے (اپنے دعوے کی تصدیق کے لیے) نشانیاں پیش کرنے کے لیے مہلت مانگی۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
"جس شخص نے بھی اس سے (ثبوت کے طور پر) کوئی نشانی مانگی، وہ کافر ہو گیا، کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

 لَا نَبِيَّ بَعْدِي

نہیں ہے کوئی نبی میرے بعد۔

﴿ابوداؤد:4252،ترمذي:2219﴾





امام ابو حنيفہؒ کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا کہ مجھے مہلت دو تاکہ میں نشانیاں پیش کروں۔ تو امام ابو حنيفہؒ نے فرمایا:
جو شخص اس سے نشانی طلب کرے گا، وہ کافر ہو جائے گا، کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: ''میرے بعد کوئی نبی نہیں''۔
﴿ابوداؤد:4252،ترمذي:2219﴾

حوالہ

وتنبأ رجل فى زمن ابى حنيفة وقال أمهلوني حتى أجيء بالعلامات فقال ابو حنيفة: من طلب منه علامة فقد كفر لقوله عليه السلام (لا نبى بعدي)

[تفسیر روح البیان: ج7 ص188» ۔۔۔ آیت: اور میں ختم کرنے والا ہوں نبییوں(کے سلسلہ)کو۔۔۔(سورۃ الاحزاب:40)]

[امام:ابن حجر الهيتمي المكي(م973ھ) » کتاب:الخیرات الحسان في مناقب أبي حنيفة» ج1 ص161]

[امام:کردری(م642ھ) » کتاب:مناقب الإمام الأعظم أبی حنیفہ » باب 7: من طلب علامۃ من المتنبی فقد کفر » ج1 ص161]


نوٹ:

کیونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیم پر، جس میں حضرت محمد کا آخری نبی ہونا قرار دیا گیا ہے، دلیل پوچھنے والے کا ایمان(یقین) سچا ہوتا تو وہ دلیل پوچھتا ہی نہیں۔










ایمان اور کفر کیا ہے؟

اللہ نے جو ہدایت اپنے پیغمبر محمد ﷺ پر نازل کی ہے اسے ماننا ایمان ہے۔
[حوالہ»سورۃ البقرۃ:4 النساء:162]

اس کا انکار یا شک کرنا کفر ہے۔
[حوالہ»سورۃ البقرۃ:23 یونس:37]

اللہ کی پیغمبر پر نازل کردہ ہدایت پر ایمان لانے(ماننے)والے "شخص" کو مؤمن کہتے ہیں۔
[حوالہ»سورۃ النور:62]

اور اس کا انکار کرنے والے کو کافر کہتے ہیں۔
[حوالہ»سورۃ النساء:150-151]

مؤمن کو مؤمن نہ ماننا بھی آیات کا انکار وکفر ہے۔
[حوالہ»سورۃ الانفال:2-4، 74]

اور کافر کو کافر نہ ماننا بھی آیات کا انکار وکفر ہے۔
[حوالہ»سورۃ النساء:150-151]







محمد ﷺ آخری نبی اور آخری رسول ہیں:

حضرت انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ
ترجمہ:
رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، لہٰذا میرے بعد کوئی رسول اور کوئی نبی نہ ہوگا۔۔۔۔

[سنن الترمذي: حديث نمبر 2272]
[مسند احمد: حديث نمبر 13824]
[المستدرك الحاكم: حديث نمبر 8178]

[تفسیر ابن کثیر: جلد6 صفحہ428» سورۃ الاحزاب:40]
[تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی: جلد4 صفحہ376» سورۃ الاحزاب:40]









































گگگگگ





















عقیدہ ختم نبوت پر احادیث مبارکہ کا مجموعہ


آمد مصطفی ﷺسے قصر نبوت کی تکمیل:

1عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِیَاء مِنْ قَبْلِي، كمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِهِ وَیَعْجَبُوْنَ لَهُ وَیَقُوْلُوْنَ: ھَلَّا وُضِعَتْ ھَذِهِ اللَّبِنَةُ؟ قَالَ:فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتِمُ النَّبِيِّيْنَ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے گھر تعمیرکیا اور اس کو خوب آراستہ و پیراستہ کیا، لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آکر اس مکان کو دیکھنے لگے اورخوش ہونے لگے اور کہنے لگے! یہ اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی (پھر) آپز ﷺ نے فرمایا: پس میں وہی آخری اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیین ہوں۔

(مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ ﷺ خاتم النبیین، 4: 1791، رقم: 2286)


2 فَكانَ أَبُوْ ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَثَلِي وَمَثَلُ الأَنْبِیَاءِ كمثَلِ قَصْرٍ أَحْسَنَ بُنْیَانَهُ وَتَرَکَ مِنْهُ مَوْضِعَ لَبِنَةٍ فَطَافَ بِهِ نُظَّارٌ فَتَعَجَّبُوْا مِنْ حُسْنِ بُنْیَانِهِ إلَّا مَوْضِعَ تِلْکَ اللَّبِنَةِ لَا یَعِيْبُوْنَ غَيْرَھَا فَکُنْتُ أنَا مَوْضِعُ تِلْکَ اللَّبِنَةِ خُتِمَ بِيَ الرُّسُلُ

(ابن حبان، الصّحیح، 14: 316، رقم:6406)


3حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ أَبُ وَالْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي، كَمَثَلِ رَجُلٍ ابْتَنَى بُيُوتًا فَأَحْسَنَهَا وَأَجْمَلَهَا وَأَكْمَلَهَا، إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ مِنْ زَوَايَاهَا، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ وَيُعْجِبُهُمُ الْبُنْيَانُ، فَيَقُولُونَ: أَلَّا وَضَعْتَ هَاهُنَا لَبِنَةً، فَيَتِمَّ بُنْيَانُكَ، فَقَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَكُنْتُ أَنَا اللَّبِنَةَ

(مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ ﷺ خاتم النبیین، 4: 1791، رقم: 5960 )


4حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ، كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بُنْيَانًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ، فَجَعَلَ النَّاسُ يُطِيفُونَ بِهِ يَقُولُونَ: مَا رَأَيْنَا بُنْيَانًا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِلَّا هَذِهِ اللَّبِنَةَ، فَكُنْتُ أَنَا تِلْكَ اللَّبِنَةَ

(مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ ﷺ خاتم النبیین، 4: 1791، رقم: 5959)


5عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَي بِنَاءً فَأَحْسَنَهُ، وَأَكْمَلَهُ، وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يُطِيفُونَ بِهِ، فَيَقُولُونَ: مَا رَأَيْنَا بِنَاءً أَحْسَنَ مِنْ هَذَا لَوْلَا مَوْضِعُ هَذِهِ اللَّبِنَةِ، أَلَا وَكُنْتُ أَنَا تِلْكَ اللَّبِنَةَ

(مسند الحميدي،باب البیوع،رقم:1067)


6عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِیَاء، كمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی دَارًا فَأَتَمَّھَا وَأَكمَلَھَا إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَدْخُلُوْنَھَا وَیَتَعَجَّبُوْنَ مِنْھَا وَیَقُوْلُوْنَ: لَوْلاَ مَوْضِعُ اللَّبِنَةِ! قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : فَأَنَا مَوْضِعُ اللَّبِنَةِ جِئْتُ فَخَتَمْتُ الأَنْبِیَاء

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے کوئی گھر تعمیر کیا اور اسے ہر طرح سے مکمل کیا مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس میں داخل ہو کر اسے دیکھنے لگے اور اس کی خوبصورت تعمیر سے خوش ہونے لگے سوائے اس ایک اینٹ کی جگہ کے کہ وہ اس کے علاوہ اس محل میںکوئی کمی نہ دیکھتے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پس میں ہی وہ آخری اینٹ رکھنے کی جگہ ہوں، میں نے آکر انبیاء کی آمد کا سلسلہ ختم کر دیا۔

(بخاري، الصحیح، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین ﷺ ، 3: 130، رقم: 3334)

(مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ ﷺ خاتم النبیین، 4: 1791، رقم: 2287)


7 عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي، كَرَجُلٍ بَنَى دَارًا فَأَكْمَلَهَا وَأَحْسَنَهَا إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَدْخُلُونَهَا وَيَتَعَجَّبُونَ مِنْهَا وَيَقُولُونَ: لَوْلَا مَوْضِعُ اللَّبِنَةِ

(ترمذي، السنن، کتاب الأمثال، باب في مثل النبي والأنبیا قبلہ، 5: 147، رقم: 2862)


8عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷺ : مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِیَائِ، كمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی دَارًا فَأَكْمَلَهَا وَأَحْسَنَھَا إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ فَکَانَ مَنْ دَخَلَھَا وَأَنْظَرَ إِلَيْھَا قَالَ: مَا أَحْسَنَھَا إِلاَّ مَوْضِعَ ھَذِهِ اللَّبِنَةِ فَأَنَا مَوْضِعُ اللَّبِنَةِ خُتِمَ بِيَ الأَنْبِیَاءُ

(طیالسي، المسند، 1: 247، رقم: 1785)


9 عَنْ أَبَيِّ ابْنِ كعْبِ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَثَلِي فِي النَّبِيِّيْنَ كمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی دَارًا فَأَحْسَنَھَا وَأَكمَلَھَا وَأَجْمَلَھَا وَتَرَکَ مِنْھَا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِالْبِنَاءِ وَیَعْجَبُوْنَ مِنْهُ وَیَقُوْلُوْنَ لَوْ تَمَّ مَوْضِعُ تِلْکَ اللَّبِنَةِ وَأَنَا فِي النَّبِيِّيْنَ مَوْضِعُ تِلْکَ اللَّبِنَةِ

حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: انبیاء میں میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے کوئی گھر تعمیر کیا اور اسے ہر طرح سے مکمل کیا اور خوب آراستہ کیا مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس عمارت کو آکر دیکھنے لگے اور اس کی خوبصورت تعمیر سے خوش ہونے لگے اور کہنے لگے کاش اس اینٹ رکھنے کی جگہ کو بھی مکمل کر دیا جاتا! پس میں انبیاءمیں وہ آخری اینٹ رکھنے کی جگہ ہوں۔

(ترمذي، السنن، کتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ ، 5: 586، رقم: 3613)


10عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَثَلِي وَمَثَلُ النَّبِيِّيْنَ مِنْ قَبْلِيْ كمَثَلَ رَجُلٍ بَنٰی دَارًا فَأَتَمَّھَا إِلاَّ لَبِنَةً وَاحِدَةً فَجِئْتُ أَنَا فَأَتْمَمْتُ تِلْکَ اللَّبِنَةَ

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے کوئی گھر تعمیر کیا اور اسے ہر طرح سے مکمل کیا مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ میں نے اپنی بعثت کے ساتھ اس اینٹ کو مکمل کر دیا۔

(مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب: ذکر کونہ ﷺ خاتم النبیین، 4: 1791، رقم: 2286 )


اُمتِ محمدی ﷺ درجہ میں اَوّل اور وجود میں آخر:

1عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : نَحْنُ الْاٰخِرُونَ السَّابِقُونَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ أُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَأُوْتِینَاهُ مِنْ بَعْدِهِمْ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہم آخری ہیں اور قیامت کے روز سب سے پہلے ہوں گے۔ بات صرف اتنی ہے کہ انہیں ہم سے پہلے کتاب دی گئی اور ہمیں ان کے بعد دی گئی۔

(بخاري، الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب فرض الجمعۃ، 1: 299، رقم: 896)

(نسائي، السنن، کتاب الجمعۃ، باب إیجاب الجمعۃ، 3: 85، رقم: 1367)


2عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بَيْدَ كُلِّ أُمَّةٍ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، وَأُوتِينَا مِنْ بَعْدِهِمْ

(بخاری،كتاب احادیث الانبیاء ،باب۔۔۔حدیث نمبر:3486)


3أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَيْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا

(بخاری،کتاب الجمعۃ. باب فرض الجمعۃ ،حدیث نمبر:876)


4عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : نَحْنُ الْآخِرُونَ الْأَوَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَنَحْنُ أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ، بَيْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، وَأُوتِينَاهُ مِنْ بَعْدِهِمْ 

(مسلم،کتاب الجمعۃ، باب ھدایۃ ھذہ الامۃ لیوم الجمعۃ ،حدیث :1980 )


5عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَحْنُ الْآخِرُونَ وَنَحْنُ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بَيْدَ أَنَّ كُلَّ أُمَّةٍ أُوتِيَتِ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، وَأُوتِينَاهُ مِنْ بَعْدِهِمْ

(مسلم ،کتاب الجمعۃ، باب ھدایۃ ھذہ الامۃ لیوم الجمعۃ ،حدیث :1978)


6مَا حَدَّثَنَا بِهِ أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

(بخاری،كتاب الایمان والنذور،باب قول اللہ تعالی : {لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ۔۔۔)حدیث :6624)


7أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ هُرْمُزَ الْأَعْرَجَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ

(بخاري، الصحیح، کتاب الوضوء، باب البول في الماء الدائم، 1: 94، رقم: 238)


8عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قال: قَالَ: رَسُوْلُ اللهِ ﷺ نَحْنُ الْاٰخِرُوْنَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْیَا وَالْأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ الْمَقْضِيُّ لَهُمْ قَبْلَ الْخَـلَائِقِ

(ابن ماجہ، السنن، کتاب إقامۃ الصلاۃ، باب في فرض الجمعۃ، 1: 344، رقم: 1083)


9عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَنَحْنُ الآخِرُوْنَ مِنْ أَهل الدُّنْیَا، وَالأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، الْمُقْضِیُّ لَهمْ قَبْلَ الْخَلاَئِقِ

(صحیح مسلم، کتاب الجمعة، باب ھدایۃ ھذہ الامۃ لیوم الجمعۃ ، حدیث: 1982)


10عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : إِنَّ مُوْسٰی علیہ السلام لَمَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِ التَّوْرَاةُ وَ قَرَأَهَا فَوَجَدَ فِيْهَا ذِكرَ هٰذِهِ الْأُمَّةِ فَقَالَ: یَا رَبِّ، إِنِّي أَجِدُ فِي الْاَلْوَاحِ أُمَّةً هُمُ الْاٰخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ فَاجْعَلْهُمْ اُمَّتِي

(ابن عساکر، تاریخ دمشق، 61: 119)

(سیوطي، الدر المنثور، 3: 556 )


11 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: نَحْنُ آخِرُ الْأُمَمِ وَأَوَّلُ مَنْ یُّحَاسَبُ یُقَالُ: أَيْنَ الْأُمَّةُ الْأُمِّيَّةُ وَنَبِیُّهَا فَنَحْنُ الْاٰخِرُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہم سب اُمتوں کے آخر پرہیں اور سب سے پہلے حساب اس امت کا کیا جائے جائے گا۔ کہا جائے گا: امی امت اور اس کے نبی کہاں ہیں؟ سو ہم اول بھی ہیں اور آخر بھی۔

(ابن ماجہ، السنن، کتاب الزھد، باب صفۃ أمۃ محمد ﷺ ، 2: 1434، رقم: 4290)


12عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : نَحْنُ الْآخِرُوْنَ وَالْأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہم زمانہ کے اعتبار سے آخری اور روز قیامت (حساب کے اعتبار سے) پہلے ہوں گے۔

(ابن حبان، الصّحیح، 8: 11، رقم: 3217)


13عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ مَکْحُوْلٍ: قَالَ فِي حَدِيْثٍ طَوِيْلٍ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : بَلْ یَا یَهُوْدِيُّ، أَنْتُمُ الْاَوَّلُوْنَ وَ نَحْنُ الْاٰخِرُونَ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ

حضرت عبد اللہ بن مالک، حضرت مکحول سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بلکہ اے یہودی! تم زمانہ کے اعتبار سے پہلے ہو اور ہم آخری لیکن روزِ قیامت سبقت لے جانے والے ہم ہیں

(ا بن أبي شیبہ، المصنف، 6: 327، رقم: 31803)


14عَنْ أَبِيْ نَضْرَةَ قَالَ: خَطَبَنَا بْنُ عَبَّاسٍ عَلٰی مِنْبَرِ الْبَصْرَةِ فَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ … فَیَأْتُوْنَ عِيْسٰی فَیَقُوْلُوْنَ: یَا عِيْسٰی! اشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ فَلْیَقْضِ بَيْنَنَا فَیَقُوْلُ إِنِّي لَسْتُ ھُنَاكمْ إِنِّي اتُّخِذْتُ إِلٰـھًا مِنْ دُوْنِ اللهِ وَإِنَّهٗ لَا یَھُمُّنِيْ الْیَوْمَ إِلَّا نَفْسِي وَلٰـکِنْ أَرَأَيْتُمْ لَوْ كانَ مَتَاعٌ فِي وِعَاء مَخْتُوْمٍ عَلَيْهِ أَكانَ یُقْدَرُ عَلٰی مَا فِي جَوْفِهِ حَتّٰی یُفَضَّ الْخَاتَمُ قَالَ: فَیَقُوْلُوْنَ: لَا قَالَ: فَیَقُوْلُ: إِنَّ مُحَمَّدًا ﷺ خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَقَدْ حَضَرَ الْیَوْمَ وَقَدْ غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : فَیَأْتُوْنِي فَیَقُوْلُوْنَ: یَا مُحَمَّدُ! اشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ فَلْیَقْضِ بَيْنَنَا فَأَقُوْلُ: أَنَا لَھَا حَتّٰی یَأْذَنَ اللهُ عزوجل لِمَنْ يَّشَاء وَیَرْضٰی فَإِذَا أَرَادَ اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَنْ يَّصْدَعَ بَيْنَ خَلْقِهِ نَادٰى مُنَادٍ أَيْنَ أَحْمَدُ وَأُمَّتُهُ فَنَحْنُ الْآخِرُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ نَحْنُ آخِرُ الْأُمَمِ وَأَوَّلُ مَنْ یُّحَاسَبُ

حضرت ابو نضرہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بصرہ کے منبر پر ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: … پس لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے عیسیٰ! اپنے رب کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کر دیجئے کہ ہمارا فیصلہ فرمائے۔ اس پر وہ کہیں گے: میں اس کام کے لیے نہیں ہوں کیونکہ (دنیا میں) اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر مجھے معبود بنا یا گیا لیکن کیا تم جانتے ہو کہ اگر کسی برتن کو بند کر کے اس پر مہر لگا دی جائے تو کیا اس برتن کی چیز کو اس وقت تک لے سکتے ہیں جب تک کہ اس کی مہر نہ توڑی جائے۔ لوگ کہیں گے کہ ایسا تو نہیں ہو سکتا پھر عیسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے کہ پس محمد ﷺ جو انبیاء کے خاتمہ پر بمنزلہ مہر کے ہیں، آج تشریف فرما ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرما دیئے تھے۔ (تم ان کے پاس جاؤ) حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ لوگ یہ سن کر میرے پاس آئیں اور کہیں گے کہ یا محمد! آپ ہی ہماری شفاعت فرمائیے تاکہ ہمارا حساب ہو جائے میں کہوں گا کہ ہاں میں ہوں شفاعت کے لئے۔ پھر جب اللہ عزوجل فیصلہ کرنا چاہے گا ایک منادی پکارے گا، کہاں ہیں أحمد اور ان کی امت؟ پس ہم ہی سب سے آخری اور سب سے پہلے ہیں، ہم سب امتوں سے پیچھے آئے اور سب سے پہلے حساب ہمارا ہو گا۔

(احمد بن حنبل، المسند، 1: 281، رقم: 2546)

(ابو یعلی، المسند، 4: 216، رقم: 2328)


15عَنْ بَھْزِ بْنِ حَکِيْمٍ، عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : نُکَمِّلُ، یَوْمَ الْقِیَامَةِ، سَبْعِيْنَ أُمَّةً نَحْنُ آخِرُھَا، وَخَيْرُھَا

حضرت بہز بن حکیم بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہم قیامت کے دن ستر امتوں کی تکمیل کریں گے اور ہم ان سب سے آخری اور سب سے بہتر ہیں۔

(ابن ماجہ، السنن، کتاب الزھد، باب صفۃ أمۃ محمد ﷺ ، 2: 1433، رقم: 4287)


16 عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِنَّكُمْ وَفَّيْتُمْ سَبْعِينَ أُمَّةً , أَنْتُمْ خَيْرُهَا وَأَكْرَمُهَا عَلَى اللَّهِ

(ابن ماجہ، السنن، کتاب الزھد، باب صفۃ أمۃ محمد ﷺ ، 2: 1433، رقم: 4288)


17عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ سورة آل عمران آية 110، قَالَ: " إِنَّكُمْ تَتِمُّونَ سَبْعِينَ أُمَّةً أَنْتُمْ خَيْرُهَا وَأَكْرَمُهَا عَلَى اللَّهِ

(سنن الترمذی ، كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،باب وَمِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ،حدیث :3001)


18 عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ مِثْلَهٗ وَ فِيْهِ إِنَّکُمْ تُتِمُّوْنَ سَبْعِيْنَ أُمَّةً

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے، اس میں: تم ستر امتوں کو مکمل کرو گے کے الفاظ ہیں ۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 3: 61، رقم: 11604)


19عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ أُمَّتِي هَذِهِ تُوَفِّي سَبْعِينَ أُمَّةً نَحْنُ آخِرُهَا، وَخَيْرُهَا

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری یہ امت ستر امتوں کا تتمہ ہے۔ہم سب سے آخری اور ان سے بہتر ہیں۔

(مسند عبد اللہ بن عمر، 1: 27، رقم24)


َ20عنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاھِلِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَنَا اٰخِرُ الْأَنْبِیَاء وَأَنْتُمْ اٰخِرُ الْأُمَمِ

حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تمام انبیاء میں سے آخر میں ہوں اور تم بھی آخری اُمت ہو۔

(ابن ماجہ، السنن، کتاب الفتن، 2: 1359، رقم: 4077 )

(حاکم، المستدرک، 4: 580، رقم: 8620 )


21 عَنْ قَتَادَةَ كانَ النَّبِیُّ ﷺ إِذَا قَرَأَ {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُوْحٍ…}یَقُوْلُ بُدِئَ بِي فِي الْخَيْرِ وَكنْتُ اٰخِرَھُمْ فِي الْبَعْثِ

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب یہ آیت - {اور اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور خصوصاً آپ سے اور نوح سے …} - پڑھتے تو فرماتے کہ نبوت کی مجھ سے ابتداء کی گئی اور بعثت میں، میں تمام انبیاء کے بعد آیا۔

(ابن أبی شیبۃ، المصنف، 6: 322، رقم: 31762)

(سیوطي، الدر المنثور، 6: 570)


22عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي قَوْلِ اللهِ عزوجل {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُوْحٍ} قَالَ: كنْتُ أَوَّلَ النَّبِيِّيْنَ فِي الْخَلْقِ وَاٰخِرَهُمْ فِي الْبَعْثِ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے اللہ تعالی کے اس فرمان - {(اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے ان (کی تبلیغِ رسالت کا عہد لیا خصوصاً آپ سے اور نوح سے…}کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میں خلقت کے لحاظ سے سب سے پہلا اور بعثت کے لحاظ سے سب سے آخری نبی ہوں سو ان سب سے پہلے (نبوت) کی ابتداء مجھ سے ہی کی گئی۔

(الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمی، حدیث: ۴۸۵۰، ۳:۲۸۲، حدیث: 7190، 4411 )

(سیوطي، الدر المنثور، 6: 57)


23عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ تَقُوْلُ: صَعِدَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنٰی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: أُنْذِرُكمُ الدَّجَّالَ فَإِنَّهٗ لَمْ یَکُنْ نَبِيُّ قَبْلِي إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَهٗ أُمَّتَهٗ وَهُوَ كائِنٌ فِيْکُمْ أَيَّتُھَا الْأُمَّةُ إِنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ وَلَا أُمَّةَ بَعْدَكم

شعبی بیان کرتے ہیں کہ میں نے فاطمہ بنت قیس کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے، پس اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: میں تمہیں دجال سے ڈراتا ہوں، پس مجھ سے پہلے کوئی نبی نہیں گزرا مگر یہ کہ اس نے اپنی امت کو اس سے ڈرایا، اور اے امت محمدیہ! وہ تجھ میں پایا جائے گا۔ بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمت نہیں۔

(ابن حبان، الصحیح، 15: 195، 196، رقم: 6788 )


24عَنِ ابْنِ عُمَرَ (قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ): أَیُّهَا النَّاسُ، أَيُّ یَوْمٍ هٰذَا؟ قَالُوْا: یَوْمٌ حَرَامٌ۔ قَالَ: فَأَيُّ بَلَدٍ هٰذَا؟ قَالُوْا: بَلَدٌ حَرَامٌ۔ قَالَ: فَأَيُّ شَهْرٍ هٰذَا؟ قَالُوْا: شَهْرٌ حَرَامٌ۔ قَالَ: فَإِنَّ اللهَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی حَرَّمَ دِمَاء كمْ وَأَمْوَالَکُمْ وَأَعْرَاضَکُمْ كحرْمَةِ هٰذَا الْیَوْمِ وَهٰذَا الشَّهْرِ وَهٰذَا الْبَلَدِ أَلَا لِیُبَلِّغْ شَاهِدُكم غَائِبَکُمْ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا أُمَّةَ بَعْدَكمْ ثُمَّ رَفَعَ یَدَيْهِ فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ

حضرت عبد اللہ بن عمر رضي اللّہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: اے لوگو! یہ کون سا دن ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: حج کا دن۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یہ بلد حرام (مکہ مکرمہ) ہے۔ پھر حضور ﷺ نے دریافت فرمایا: یہ مہینہ کون سا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: حرمت والا مہینہ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتوں کو اس دن، اس ماہ اور اس شہر کی حرمت کی طرح حرام کیا ہے، آگاہ ہو جاؤ، تم میں سے جو حاضر ہے وہ غائب کو پہنچا دے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ تمہارے بعد کوئی امت ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: اے اللہ! گواہ رہنا۔

(ھیثمي، مجمع الزوائد، 3: 268)



25عَنِ ابْنِ زَمْلٍ الْجُهنِيِّ فِي حَدِيْثٍ طَوِيْلٍ فِي الرُّؤْیَا مَرْفُوْعًا فَالدُّنْیَا سَبْعَةُ آلَافِ سَنَةٍ وَ أنَا فِي اٰخِرِهَا اَلْفًا (إِلَی قَوْلِهِ) وَأَمَّا النَّاقَةُ الَّتِي رَأَيْتَ وَرَأيْتَنِي أَتَّقِيْھَا فَهِيَ السَّاعَةُ عَلَيْنَا تَقُوْمُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا اُمَّةَ بَعْدَ اُمتِي

ابن زمل جہنی خوابوں کے باب میں ایک طویل مرفوع حدیث بیان کرتے ہیں، جس میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے اور میں آخری ہزار سال میں ہوں … اور رہی وہ اونٹنی جسے تو نے دیکھا اور مجھے تو نے دیکھا کہ میں اس اونٹنی سے بچ رہا ہوں، تو اس سے مراد قیامت ہے، وہ ہمیں پر قائم ہوگی، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور نہ ہی میری امت کے بعد کوئی امت ہے۔

(طبراني، المعجم الکبیر، 8: 303، رقم: 8146)

(دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 2: 232، 233، رقم: 3118)

قیامت اور زمانہ نبوی ﷺ کا قرب:

1عن انس بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ

میں اور قیامت اس طرح ملے ہوئے بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔

(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی ﷺ : «بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ، حدیث: 6504)


2عَنْ سَهْلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ هَكَذَا"، وَيُشِيرُ بِإِصْبَعَيْهِ فَيَمُدُّ بِهِمَا

سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں اور قیامت اتنے نزدیک نزدیک بھیجے گئے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیوں کے اشارہ سے بتایا پھر ان دونوں کو پھیلایا۔

(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی ﷺ : «بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ، حدیث: 6503)


3قَالَ أَبُو حَازِمٍ سَمِعْتُهُ مِنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيّ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَذِهِ مِنْ هَذِهِ، أَوْ كَهَاتَيْنِ، وَقَرَنَ بَيْنَ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى                  

(بخاری،كتاب الطلاق ،باب اللعان ،حدیث : 5301 )


4سَهْلُ بْنُ سَعْدٍرضی الله عنه قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بِإِصْبَعَيْهِ هَكَذَا بِالْوُسْطَى وَالَّتِي تَلِي الإِبْهَامَ: بُعِثْتُ وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْن

(بخاری،كِتاب تفسیر القرآن،باب۔۔۔۔حدیث :4936)


5 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ"، يَعْنِي إِصْبَعَيْنِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں اور قیامت ان دو کی طرح بھیجے گئے ہیں۔ آپ کی مراد دو انگلیوں سے تھی۔

(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی ﷺ : «بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ، حدیث: 6505)


اسماء النبی ﷺ اور ختم نبوت :

1عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ ابیه اِنَّ لِیْ أَسْمَاءً، اَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَاَنَا الْمَاحِی یَمْعُو اللّه بِیَ الْکُفْرَ، وَاَنَا الْعَاشِرُ الَّذى یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمَیَّ، وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِى لَیْسَ بَعْدَہ اَحَدٌ

بے شک میرے کئی اسماء ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا، اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ شخص ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔

(صحیح مسلم، کتاب الفضائل،باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث: 6106 )


2عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيْهِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ : لِيْ خَمْسَةُ أَسْمَآء أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِيْ یَمْحُوْ اللهُ بِيَ الْکُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی قَدَمِي، وَاَنَا الْعَاقِبُ

(بخاري، الصحیح، کتاب المناقب، باب ما جاء في أسماء رسول اللہ ﷺ ، 3: 1299، رقم: 3339)

(بخاري، الصحیح، کتاب التفسیر، باب تفسیر سورۃ الصف، 4: 1858، رقم: 4614)


3عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ لِي أَسْمَائً أَنَا مُحَمَّدٌ، وَاَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي یَمْحُو اللهُ بِيَ الْکُفْرَ، وَاَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِي، وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ

(ترمذي، الجامع الصحیح، کتاب الأدب، باب ما جاء فی أسماء النبی ﷺ ، 5: 135، رقم: 2840)

(ابن أبي شیبۃ، المصنف، 6: 311، رقم: 31691)


4 أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ:إِنَّ لِي أَسْمَاء أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذي یَمْحُو اللهُ بِيَ الْکُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی قَدَمِي، وَأَنَا الْعَاقِبُ وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ أَحَدٌ

(دارمي، السنن، 2: 409، رقم: 2775)

(طبراني، المعجم الکبیر، 2: 121، رقم: 1525)


5 عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيْهِ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي یُمْحَی بِيَ الْکُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی عَقِبِيْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ، وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ

حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی ہوں یعنی میرے ذریعہ کفر کو مٹا دیا جائے گا اور میں حاشر ہوں یعنی میرے بعد ہی قیامت آجائے گی اور حشر برپا ہو گا (اور کوئی نبی میرے اور قیامت کے درمیان نہ آئے گا) اور میں عاقب ہوں اور عاقب اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے بعد اور کوئی نبی نہ ہو۔

(مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب في اسمائہ ﷺ ، 4: 1828، رقم: 2354)

(أحمد بن حنبل، المسند، 4: 80، رقم: 16780،16817)


6عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَالْمُقَفّٰی وَالْحَاشِرُ وَالْخَاتِمُ وَالْعَاقِبُ

حضرت نافع بن جبیر بن معطم رضی اللہ عنھما اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور احمد ہوں اور مقفی (آخری نبی) ہوں اور حاشر ہوں اور خاتم ہوں اور عاقب ہوں۔

(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 660، رقم: 4186 )

(أحمد بن حنبل، المسند، 4: 81، رقم: 16794)


7عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيْهِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ: إِنَّ لِي أَسْمَاء أَنَا مُحَمَّدٌ، وأَحْمَدُ، وَالْعَاقِبُ وَالْمَاحِي وَالْحَاشِرُ الَّذِي یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی عَقِبِي، وَالْعَاقِبُ اٰخِرُالْأَنْبِیَاءِ

(بزار، المسند، 8: 339، 340، رقم: 3413)


8عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ كانَ رَسُوْلُ اللّٰه صلى الله عليه وسلم یُسَمِّی لَنَا نَفْسَه أَسْمَاءَ، فَقَالَ أَنَا مُحَمَّدٌ، وأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّی، وَالْحَاشِرُ، وَنَبِیُّ التَّوْبَةِ، وَنَبِیُّ الرَّحْمَةِ

رسول اللہ صلى الله علیہ وسلم نے ہمارے لئے اپنے کئی نام بیان کئے، آپ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور احمد ہوں اور مقفی اور حاشر ہوں اور نبی التوبہ اور نبی الرحمہ ہوں۔

(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث:6108)


9عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَن ِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"أَنَا أَحْمَدُ، وَمُحَمَّدٌ، وَالْحَاشِرُ، وَالْمُقَفِّي، وَالْخَاتَمُ

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں احمد، محمد، حاشر، المقفی اور الخاتم ہوں۔

(معجم صغیر للطبرانی ، بَابُ مَا جَاءَ فِي أَسْمَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر :842)


10 عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه مَرْفُوْعًا فَوَاللهِ، إنِّي لَأَنَا الْحَاشِرُ وَأَنَا الْعَاقِبُ وَأَنَا الْمُقَفّٰی

حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے (حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا): اللہ کی قسم! بے شک میں ہی حاشر ہوں اور میں ہی عاقب ہوں اور میں ہی مقفی ہوں۔

(ابن حبان، الصحیح، 16: 119، رقم: 7162)

(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 3: 469، رقم: 5756)


11عَنْ أبِي مُوْسٰی قَالَ: سَمّٰی لَنَا رَسُوْلُ اللهِ نَفْسَه أَسْمَاءً فَمِنْھَا مَا حَفِظْنَاهُ وَمِنْھَا مَا نَسِيْنَاهُ قَالَ: أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَنَا أَحْمَدُ وَالْمُقَفّٰی وَالْحَاشِرُ وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ وَالْمَلْحَمَةِ

حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمارے لیے اپنے متعدد اسمائے گرامی بیان فرمائے جن میں سے کچھ ہمیں یاد رہے اور کچھ بھول گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور مقفی ہوں اور حاشر ہوں اور نبی التوبہ اور نبی الملحمہ ہوں۔

(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 659، رقم: 4185)


12عَنْ حُذَيْفَةَرضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ: أنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَأَنَا الْمُقَفّٰی

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور احمد ہوں اور مقفی ہوں۔

(بزار، المسند، 7: 212، رقم: 9212 )


13عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: أَنَا أَحْمَدُ وَمُحَمَّدٌ وَالْحَاشِرُ وَالْمُقَفّٰی وَالْخَاتِمُ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں احمد ہوں اور محمد ہوں اور حاشر ہوں اور مقفی ہوں اور خاتم ہوں۔

(طبراني، المعجم الأوسط، 2: 378، رقم: 2280)

(ہیثمي، مجمع الزوائد، 8: 284)


14عَنْ أَبِي الطُّفِيْلِ عَامِرِ بْنِ وَائِلَةَ (قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ :) أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَنَا أَحْمَدُ وَالْفَاتِحُ وَالْخَاتِمُ وَأَبُوْ الْقَاسِمِ وَالْحَاشِرُ وَالْعَاقِبُ وَالْمَاحِي وَطٰهَ وَیٰس

حضرت ابو الطفیل عامر بن وائلہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور احمد ہوں اور فاتح ہوں اور خاتم ہوں اور ابو القاسم ہوں اور حاشر ہوں اور عاقب ہوں اور ماحی ہوں اور طٰہ اور یٰس ہوں۔

(دیلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 1: 42، رقم: 97)


15عَنْ مُجَاهِدٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: أَنَا مُحَمَّدٌ وَّأَحْمَدُ وَأَنَا رَسُوْلُ الرَّحْمَةِ أَنَا رَسُوْلُ الْمَلْحَمَةِ أَنَا الْمُقَفّٰی وَالْحَاشِرُ

حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور احمد ہوں اور میں رسول الرحمہ ہوں میں رسول الملحمہ ہوں، میں مقفی ہوں اور حاشر ہوں۔

(ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1: 105 )

(سیوطی، الخصائص الکبریٰ، 1: 132)


جھوٹے نبیوں کا ورود :

1عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَيَكُونَ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ دَعْوَاهُمَا وَاحِدَةٌ، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كذَّابُونَ قَرِيبًا مِنْ ثَلَاثِينَ كلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو جماعتیں آپس میں جنگ نہ کر لیں۔ دونوں میں بڑی بھاری جنگ ہو گی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا نہ ہو لیں۔ ان میں ہر ایک کا یہی گمان ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔

(بخاري، الصحیح، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام، 3: 1320، رقم: 3609)


2عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ، حَتَّى يُبْعَثَ دَجَّالُونَ كذَّابُونَ قَرِيبٌ مِنْ ثَلَاثِينَ كلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ

(صحیح،كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ، باب لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ فَيَتَمَنَّى أَنْ يَكُونَ مَكَانَ الْمَيِّتِ مِنَ الْبَلاَءِ،حدیث:7342)


3عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْبَعِثَ دَجَّالُونَ كذَّابُونَ قَرِيبٌ مِنْ ثَلَاثِينَ كلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ

(ترمذي، الجامع الصحیح، کتاب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون، 4: 498، رقم: 2218 )


4 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ ثَلَاثُونَ كذَّابًا دَجَّالًا كلُّهُمْ يَكْذِبُ عَلَى اللَّهِ وَعَلَى رَسُولِهِ

(سنن ابو داؤد،كِتَاب الْمَلَاحِمِ، باب فِي خَبَرِ ابْنِ صَائِدٍ،حدیث:4334 )


5عَنْ ثَوْبَانَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهَ ﷺ : سَیَکُوْنُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُوْنَ كذَّابُوْنَ، كلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنهٗ نَبِيٌّ، وَأَنـَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَانَبِيَّ بَعْدِي

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک کا دعوی ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ سن لو! میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں

(ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون، 4:499، رقم: 2219 )

(أبو داود، السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلھا، 4: 97، رقم: 4252)


6عَنْ ثَوْبَانَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: سَیَخْرُجُ فِيْ أُمَّتِي كذَّابُوْنَ ثَلَاثُوْنَ كلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ الْأَنْبِیَاء لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ

(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 4: 496، رقم: 8390)

(ابن حبان، الصحیح، 15: 110، رقم: 6714)


7عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ: رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : سَیَکُوْنُ فِي أُمَّتِيْ ثَـلَاثُوْنَ كذَّابُوْنَ كلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَإِنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَانَبِيَّ بَعْدِي

(ابن حبان، الصحیح، 16: 221، رقم: 7238)

(بیہقي، السنن الکبری، 9: 181، رقم: 18398 )


8عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّ نَبِيَّ اللهِ ﷺ قَالَ: فِي أُمَّتِي كذَّابُوْنَ وَدَجَّالُوْنَ سَبْعَةٌ وَعَشْرُوْنَ مِنْھُمْ أَرْبَعُ نَسْوَةٍ وَإِنِّيْ خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں ستائیس جھوٹے اور دجال پیدا ہوں گے، ان میں سے چار عورتیں ہوں گی سن لو !میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 5: 396، رقم: 23406 )


9عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرِ اللَّيْثِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتَّی یَخْرُجَ ثَلَاثُوْنَ كذَّابًا كلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنَّهٗ نَبِيُّ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَةِ

حضرت عبید بن عمیر اللیثي رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تیس جھوٹے پیدا نہ ہو جائیں، ہر ایک کا دعوی ہو گا کہ وہ نبی ہے روز قیامت سے پہلے۔

(ابن أبي شیبۃ، المصنف، 7: 503، رقم: 37565 )


10عَنْ أَبِي بَکْرَةَ قَالَ: أَكثَرُ النَّاسِ فِي شَأْنِ مُسَيْلَمَةَ الکَذَّابِ قَبْلَ أَنْ یَقُوْلَ فِيْهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ثُمَّ قَامَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَأَثْنٰی عَلَی اللهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ: اَمَّا بَعْدُ فَقَدْ أَكثَرْتُمْ فِي شَأْنِ هٰذَا الرَّجُلِ وَأَنَّهُ كذَّابٌ مِّنْ ثَلَاثِيْنَ كذَّابًا یَخْرُجُوْنَ قَبْلَ الدَّجَّالِ

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب تک حضور نبی اکرم ﷺ نے مسیلمہ کذّاب کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار نہیں فرمایا تھا، لوگوں نے اس کے بارے میں بہت کچھ کہا، پھر ایک روز حضور نبی اکرم ﷺ لوگوں کے درمیان خطاب کے لیے تشریف فرما ہوئے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی شان کے لائق اس کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: یہ شخص جس کے متعلق تم بہت زیادہ گفتگو کر رہے ہو پس بے شک یہ دجال اکبر سے پہلے نکلنے والے تیس کذّابوں میں سے ایک ہے۔

(حاکم، المستدرک، 4: 583، 584، رقم: 8624، 8625 )


11عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی یَخْرُجَ ثَـلَاثُوْنَ كذَّابًا دَجَّالاً مِّنْهُمْ مُسَيْلَمَةُ وَالْعَنْسِيُّ وَالْمُخْتَارُ وَشَرُّ قَبَائِلِ الْعَرَبِ بَنُوْ أُمَيَّةَ وَبَنُوْ حَنِيْفَةَ وَثَقِيْفٌ

حضرت عبد اللہ بن الزبیر رضي اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تیس کذاب دجال نہ نکل آئیں، انہی میں سے مسیلمہ، عنسی، مختار، عرب کےشرپسند قبائل بنو امیہ، بنو حنیفہ اور ثقیف ہیں۔

(أبو یعلی، المسند، 12: 197، رقم: 6820)


12عَنْ أَیُّوْبَ عَنْ أَبِي قَلاَبَةَ یَرْفَعُهُ قَالَ إِنَّهُ سَیَکُوْنُ فِي أُمَّتِي كذَّابُوْنَ ثَـلاَثُوْنَ كلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنَّهُ نَبِيُّ وَأَنَّا خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ لَا نَبِيَّ بَعْدِي

حضرت ابو قلابہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: عنقریب میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک کا دعوی ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ سن لو! میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

(داني، السنن الواردۃ فی الفتن، 4: 861، رقم: 442 )


مبشرات اور ختم نبوت:

1أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُول ُلَمْ یَبْقَ مِنَ النَّبُوَّةَ اِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوْا، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ قَالَ: الرُّوٴْیَا الصَّالِحَةُ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبوت میں سے کچھ باقی نہ رہے گا مگر خوش خبریاں رہ جائیں گی۔ لوگوں نے عرض کیا خوشخبریاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا اچھے خواب۔

(صحیح بخاری، کتاب التعبیر، باب المبشرات، حدیث:6990)


2 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ

(صحیح ،کتاب الرؤیا، باب فِي كَوْنِ الرُّؤْيَا مِنَ اللهِ وَأَنَّهَا جُزءٌ مِّنَ النُّبُوَّةِ،حدیث:5911)


3عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رُؤْيَا الْمُسْلِمِ يَرَاهَا أَوْ تُرَى لَهُ "، وَفِي حَدِيثِ ابْنِ مُسْهِرٍ: الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ

(صحیح ،کتاب الرؤیا، باب فِي كَوْنِ الرُّؤْيَا مِنَ اللهِ وَأَنَّهَا جُزءٌ مِّنَ النُّبُوَّةِ،حدیث:5912)


4عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " رُؤْيَا الرَّجُلِ الصَّالِحِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ

(صحیح ،کتاب الرؤیا، باب فِي كَوْنِ الرُّؤْيَا مِنَ اللهِ وَأَنَّهَا جُزءٌ مِّنَ النُّبُوَّةِ،حدیث:5913)


5عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ

(سنن الترمذی،كتاب الرؤيا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب مَا جَاءَ فِي رُؤْيَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِيزَانَ وَالدَّلْوَ،حدیث:2291)


6عَنْ أَبِي سَعِيْدِنِ الْخُدْرِيِّ أَنَّهٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللهِ یَقُوْلُ: الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ جُزْءٌ مَنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِيْنَ جُزْئًا مِنَ الْنَّبُوَّةِ

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نیک خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔

(بخاري، الصحیح، کتاب التعبیر، باب الرویا الصالحۃ جزء من ستۃ وأربعین جزئا من النبوۃ، 6: 2564، رقم: 6588 )


7عَنْ أَنَسِ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَـلَا رَسُوْلَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ قَالَ: فَشَقَّ ذٰلِکَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ: لٰـکِنِ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ! وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: رُؤْیَا الْمُسْلِمِ وَهِيَ جَزْءٌ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: امامت و نبوت ختم ہو گئی پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ ہی کوئی نبی۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ بات لوگوں کے لیے باعثِ رنج ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: لیکن بشارتیں (باقی ہیں)۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بشارتیں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کا خواب اور یہ نبوت کا ایک حصہ ہے۔

(ترمذيِ، الجامع الصحیح، کتاب الرؤیا، باب ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات، 4: 533، رقم: 2272)

(أٔحمد بن حنبل، المسند، 3: 267، رقم: 13851 )


8 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الرُّؤْيَا الْحَسَنَةُ مِنَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ، جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ

(بخاری،کتاب التعبیر،بَابُ رُؤْيَا الصَّالِحِينَ،حدیث:6983)


9عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ:"الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ الصَّالِحَةُ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سچا اور اچھا خواب نبوت کے ستر اجزاء میں سے ایک حصہ ہے۔

(معجم صغیر للطبرانی،كِتَابُ الرُّؤْيَا،حدیث:1179)


10عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ كانَ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ یَقُوْلُ: هَلْ رَاٰى أَحَدٌ مِنْکُمُ اللَّيْلَةَ رُؤْیَا وَیَقُوْلُ: إِنَّهٗ لَيْسَ یَبْقٰی بَعْدِى مِنَ النَّبُوَّةِ إِلاَّ الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب صبح کی نماز ادا فرما لیتے تو آپ ﷺ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے) دریافت فرماتے: کیا تم میں سے رات کو کسی نے خواب دیکھا ہے؟ اور فرماتے: بے شک میرے بعد نبوت میں سے سوائے نیک خواب کے کچھ نہیں بچا۔

(أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء فی الرؤیا، 4: 304، رقم: 5017)

(مالک، الموطأ، 2: 956، رقم: 1714)


11عَنْ اُمِّ كرْزٍ الْکَعْبِيَّةِ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: ذَھَبَتِ النُّبُوَّةُ وَبَقِیَتِ الْمُبَشِّرَاتُ

حضرت ام کرز کعبیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ فرما رہے تھے: نبوت ختم ہوگئی صرف مبشرات باقی رہ گئے۔

(ابن ماجہ، السنن، کتاب تعبیر الرّؤیا، باب رؤیۃ النبي ﷺ في المنام، 2: 1283، رقم: 3896)

(أحمد بن حنبل، المسند، 6: 381، رقم: 27185 )


12عَنْ أَبِيْ الطُّفَيْلِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي إِلاَّ الْمُبَشِّرَاتِ قَالَ: قِيْلَ: وَمَا المُبَشِّرَاتُ یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: الرُّؤْیَا الْحَسَنَةُ أَوْ قَالَ الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ

حضرت ابو طفیل راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے بعد نبوت باقی نہیں رہے گی مگر مبشرات۔ آپ ﷺ سے عرض کیا گیا: یا رسول اللہ ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اچھے خواب؛ یا فرمایا: نیک خواب۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 5: 454، رقم: 23846)


13عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لاَ یَبْقٰی بَعْدِى مِنَ النُّبُوَّةِ شَيْئٌ إِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ! وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: الرَّؤْیَا الصَّالِحَةُ یَرَاھَا الرَّجُلُ أَوْ تُرَى لَهُ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے بعد نبوت کی کوئی چیز باقی نہیں بچے گی سوائے مبشرات کے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نیک خواب، جنہیں انسان دیکھتا ہے یا اسے دکھائے جاتے ہیں۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 6: 129، رقم: 25021)


14عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: لَنْ یَبْقٰی بَعْدِى مِنَ النُّبُوَّةِ إِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ، فَقَالُوْا: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: الرَّؤْیَا الصَّالِحَةُ یَرَاھَا الرَّجُلُ الصَّالِحُ أَوْ تُرَى لَهُ جَزْئٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِيْنَ جُزْءً ا مِنَ النُّبُوَّةِ

حضرت عطا بن یسار سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے بعد نبوت میں سے کوئی چیز نہیں بچے گی سوائے مبشرات کے، پس صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نیک خواب جنہیں نیک شخص دیکھتا ہے یا اسے دکھائے جاتے ہیں۔

(مالک، الموطأ، کتاب الجامع، باب ما جاء في الرؤیا، 2: 957، رقم: 1506 )


15عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: الرَّؤْیَا الصَّالِحَةُ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِيْنَ جُزْءً مِّنَ النُّبُوَّةِ

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نیک خواب نبوت کے ستر حصوں میں سے ایک ہے۔

(ابن أبي شیبۃ، المصنف، 6: 173، رقم: 30455)


16عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : ذَھَبَتِ النُّبُوَّةُ فَلَا نُبُوَّةَ بَعْدِي وَبَقِیَتِ الْمُبَشِّرَاتُ رُؤْیَا الْمُؤْمِنِ یَرَاھَا أَوْ تُرَى لَهُ

حضرت ابو طفیل سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نبوت ختم ہو گئی، اب میرے بعد نبوت باقی نہیں رہی مگر مبشرات یعنی مومن کے (اچھے) خواب جو وہ دیکھتا ہے یا اسے دکھائے جاتے ہیں۔

(مقدسي، الأحادیث المختارۃ، 8: 222، 223، رقم: 262، 263)


17عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ : ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ فَلاَ نُبُوَّةَ بَعْدِي إِلاَّ الْمُبَشِّرَاتِ الرُّؤْیَا یَرَاھَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرَى لَهٗ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نبوت چلی گئی، پس میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے مگر مبشرات، وہ خوابیں جنہیں مسلمان دیکھتا ہے یا اسے دکھائی جاتی ہیں۔

(دیلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 2: 247، رقم: 3162)


18 َعنْ حُذْيْفَةَ بْنِ أُسَيْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ فَلَا نُبُوَّةَ بَعْدِيِ إِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ۔ قِيْلَ: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ یَرَاهَا الرَّجُلُ أَوْ تُرَى لَهُ

حضرت حذیفہ بن اسید بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نبوت ختم ہو گئی، پس میرے بعد کوئی نبوت نہیں ہے مگر مبشرات۔ عرض کیا گیا کہ مبشرات کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نیک خواب جنہیں بندہ دیکھتا ہے یا اسے دکھائے جاتے ہیں۔

(طبراني، المعجم الکبیر، 3: 179، رقم: 3051 )

( ہیثمی، مجمع الزوائد، 7: 173)


19عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنه قَالَ: کَشَفَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ السِّتَارَةَ وَرَأْسُهُ مَعْصُوْبٌ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيْهِ والنَّاسُ صُفُوْفٌ خَلْفَ أَبِي بَکْرٍ فَقَالَ: اَیُّهَا النَّاسُ، اِنَّهُ لَمْ یَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّةِ اِلَّا الرُّؤْیَا الصَّالِحَةُ یَرَاهَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرَى لَهُ

{quote | translation | حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے (مرضِ وصال میں) حجرہ کا پردہ اٹھایا، اس وقت صحابہ کرام حضرت ابو بکر کی اقتداء میں صف باندھے کھڑے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! بشارات نبوت میں سے اب صرف اچھے خواب باقی رہ گئے ہیں جنہیں ایک مسلمان خود دیکھتا ہے یا اس کے لیے کوئی اور شخص دیکھتا ہے۔}}

(مسلم، الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب النھي عن قرائۃ القرآن في الرکوع والسجود، 1: 348، رقم: 479 )

(ابن حبان، الصحیح، 13: 410، رقم: 6045)


20عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ رَفَعَ السِّتْرَ وَأَبُوْ بَکْرٍ یَؤُمُّ النَّاسَ فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟ اَللّٰهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟ أَیُّهَا النَّاسُ! إِنَّهٗ لَمْ یَبْقَ بَعْدِي مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّةِ

(أبو عوانۃ، المسند، 1: 490، 491، رقم: 1824)


صاحبزادہ کی وفات اور ختم نبوت:

1عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ لَمَّا مَاتَ اِبْرَاہِیْمُ ابْنُ رَسُوْلِ اللّه صلى الله عليه وسلم صَلَّی رَسُوْلُ اللّه صلى الله عليه وسلم وَقَالَ: اِنَّ لَہ مُرْضِعًا فِی الْجَنَّةِ وَلَوْ عَاشَ لَكانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا

جب اللہ کے پیغمبر صلى الله عليه وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اس کے لئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی (کا انتظام) ہے۔ اگر وہ زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا۔

(سنن ابن ماجہ، ابواب ما جاء فی الجنائز، باب ما جاء فی الصلاة علی ابن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم وذکر وفاتہ، حدیث:1511 )


2حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى : رَأَيْتَ إِبْرَاهِيمَ ابْنَ رَسُولِ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَاتَ وَہهوَ صَغِیْرٌ وَلَوْ قُضِیَ أَنْ یَکُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم نَبِیٌّ لَعَاشَ ابْنُه ، وَلٰکِنْ لاَ نَبِیَّ بَعْدَہُ

اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے ابراہیم کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: ابراہیم بچپن ہی میں انتقال کر گئے، اور اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا نبی ہونا مقدر ہوتا تو آپ کے بیٹے زندہ رہتے، لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔

(سنن ابن ماجہ، ابواب ما جاء فی الجنائز، باب ما جاء فی الصلاة علی ابن رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم وذکر وفاتہ، حدیث:1510)

(البخاری،کتاب الادب،. بَابُ مَنْ سَمَّى بِأَسْمَاءِ الأَنْبِيَاءِ،حدیث نمبر:6194)


سیدنا علی رضی اللہ عنہ مثلِ ہارون علیہ السلام ہونے کے باوجود نبی نہ ہوئے:

1عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ خَلَّفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ، فِی غَزْوَةِ تَبُوْکَ، فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! تَخَلَّفْنِیْ فِی النِّسَآءِ وَالصِّبْیَانِ؟ فَقَالَ: اَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ هرُوْنَ مِنْ مُوْسٰی؟ غَیْرَ أَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِی

نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے غزوئہ تبوک میں حضرت علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه کو ساتھ نہیں لیا بلکہ گھر پر چھوڑدیا تو انھوں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑ دیا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم میرے ساتھ ایسے ہوجاؤ جیسے ہارون، موسیٰ کے ساتھ لیکن میرے بعد نبوت نہیں۔

(صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه ، حدیث:6218،6221 )


2عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ لَهُ خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيْهِ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَآء وَالصِّبْیَانِ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي

(مسلم، الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علي بن أبي طالب ص، 4: 1871، رقم: 2404)

(ترمذي، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب ص، 5: 638، رقم: 3724)


3عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، أن النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِيٍّ: " أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي

(الترمذی،كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم،باب۔۔۔۔حدیث :3731)


4عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيه أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم خَرَجَ اِلٰی تَبُوْك وَاسْتَخْلَفَ عَلِیًّا فَقَال: أَتُخَلِّفُنِیْ فِی الصِّبْیَانِ وَالنِّسَاءِ؟ قَالَ: أَلاَ تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ هارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ أَنَّہ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِى

 مصعب بن سعد نے اور ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم تبوک کی جانب روانہ ہوئے اور حضرت علی رضى الله تعالى عنه کو اپنی جگہ چھوڑا تو انھوں نے عرض کیا: کیا آپ صلى الله عليه وسلم مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جارہے ہیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کیا تو اس پر راضی نہیں کہ تجھے مجھ سے وہی مناسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوئہ تبوک، حدیث: 4416)


5عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي رِوَایَةٍ طَوِيْلَةٍ وَمِنْهَا عَنْهُ قَالَ: وَخَرَجَ بِالنَّاسِ فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ۔ قَالَ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: أَخْرُجُ مَعَکَ؟ قَالَ: فَقَالَ لَهُ نَبِيُّ اللهِ: لَا فَبَکٰی عَلِيٌّ فَقَالَ لَهُ: أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هٰرُوْنَ مِنْ مُوسٰی؟ إِلَّا أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ۔ إِنَّهُ لَا یَنْبَغِي أَنْ أَذْهَبَ إِلَّا وَأَنْتَ خَلِيْفَتِي

حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ لوگوں کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: کیا میں بھی آپ صلی اللہ علیک وسلم کے ساتھ چلوں؟ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نہیںاس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ رو پڑے تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تو میرے لیے ایسے ہو جیسے ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھے ؟ مگر یہ کہ تو نبی نہیں۔ تجھے اپنا نائب بنائے بغیر میرا کوچ کرنا مناسب نہیں۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 1: 330، رقم: 3062)


6عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: لَمَّا أَرَادَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَنْ یُخَلِّفَ عَلِیًّا رضي الله عنه قَالَ: قَالَ لَهُ عَلِیٌّ: مَا یَقُوْلُ النَّاسُ فِيَّ إِذَا خَلَّفْتَنِي قَالَ: فَقَالَ: أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ أَوْلَا یَکُوْنُ بَعْدِيْ نَبِيٌّ

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو (غزوہ تبوک کے موقع پر) پیچھے چھوڑنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ سے عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) اگر آپ مجھے پیچھے چھوڑ گئے تو لوگ میرے بارے میں کیا کہیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو اس بات سے راضی نہیں ہے کہ تیرا مجھ سے وہی مقام و مرتبہ ہو جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام سے تھا، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ یا فرمایا: میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 3: 338، رقم: 14679)


7عَنْ عَرامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيْهِ سَعْدٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ

حضرت عامر بن سعد رضي اللہ عنھما اپنے والد حضرت سعد علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تیرا مجھ سے وہی مقام و مرتبہ ہو جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام سے تھا، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

( أبو یعلی، المسند، 2: 99، رقم: 755)

( أحمد بن حنبل، فضائل الصحابۃ، 2: 633، رقم: 1079)


8عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ: أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَكوْنَ مِنِّي كمَا هَارُوْنُ مِنْ مُوْسَی غَيْرَ أَنَّهُ لَيْسَ بَعْدِى نَبِيٌّ

حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ تیرا مجھ سے وہی مقام و مرتبہ ہو جیسا حضرت ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام سے تھا سوائے یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

(طبراني، المعجم الکبیر، 23: 377، رقم: 892)


9عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ … أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَكوْنَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِى

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ تیرا مجھ سے وہی مقام و مرتبہ ہو جیسا حضرت ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام سے تھا سوائے یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 367، رقم: 3294)


10عَنْ عَلِيٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: خَلَّفْتُکَ أَنْ َتکُوْنَ خَلِيْفَتِي قَالَ: أَتُخَلِّفُ عَنْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ: أَلَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي

(ہیثمي، مجمع الزوائد، 9: 110)


11عَنْ عَائِشَةَ عَنْ أَبِيْهَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ: أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غزوہ تبوک کے موقع پر فرمایا: کیا تو اس بات پر مجھ سے راضی نہیں کہ تیرا مقام و مرتبہ بھی مجھ سے وہی ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھا۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

(بزار، المسند، 4: 38، رقم: 1200 )


12عَنْ أَبِي أَیُّوْبَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ: اَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِى

حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا: تو مجھ سے ایسے ہی ہے جیسا موسیٰ علیہ السلام سے ہارون علیہ السلام تھے، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

(ہیثمي، مجمع الزوائد، 9: 111)


13عَنْ أَسْمَاء بِنْتِ عُمَيْسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ

حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تیرا مجھ سے مقام و مرتبہ وہی ہے جو حضرت ہارون علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھا، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

(نسائي، السنن الکبری، 5: 125، رقم: 8448)


14عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لَعِلِيٍّ حِيْنَ أَرَادَ أَنْ یَغْزُوَ: إِنَّهُ لَا بُدَّ مِنْ أَنْ أُقِيْمَ أَوْ تُقِيْمَ فَخَلَّفَهُ فَقَالَ نَاسٌ: مَا خَلَّفَهُ إِلَّا شَيْئٌ کَرِهَهُ فَبَلَغَ ذٰلِکَ عَلِیًّا فَأَتٰی رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فَأَخْبَرَهُ فَتَضَاحَکَ ثُمَّ قَالَ: یَا عَلِيُّ، أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَكوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهٗ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي

حضرت براء بن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے جب غزوہ پر جانے کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ضروری ہے کہ میں رکوں یا تم رکو، پس آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے چھوڑا، لوگوں نے کہا: حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کسی ناخوشگوار چیز کی وجہ سے پیچھے چھوڑا ہے۔ پس جب یہ بات حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور انہیں واقعہ سے آگاہ کیا، یہ سن کر حضور نبی اکرم ﷺ مسکرا پڑے اور فرمایا: اے علی! کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تیرا مقام و مرتبہ مجھ سے وہی ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھا مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

(ہیثمي، مجمع الزوائد، 9: 111 )


15 عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ لَعِلِيٍّ: أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی غَيْرَ أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي وَلَا وَرَاثَةَ

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ تیرا مقام و مرتبہ مجھ سے وہی ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھا مگر یہ کہ میرے بعد نہ تو نبوت ہے اور نہ ہی میرا کوئی وارث ہے۔

(طبراني، المعجم الأوسط، 2: 126، رقم: 1465)

(ہیثمي، مجمع الزوائد، 9: 110)


16عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ السَّلُولِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ فِي الْجَنَّةِ:"أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلا أَنَّهُ لا نَبِيَّ بَعْدِي

سیدنا حبشی بن جنادہ سلولی کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا: ”تم مجھ سے اس طرح ہو جس طرح ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام سے تھے۔ صرف یہ فرق ہے کہ میرے بعد نبی نہیں ہو گا۔

(معجم صغير للطبراني،كِتَابُ الْمَنَاقِبُ،حدیث نمبر :895)


17عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ لِأُمِّ سَلَمَةَ: هٰذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِيْ طَالِبٍ لَحْمُهُ لَحْمِي وَدَمُهٗ دَمِي فَهُوَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنھا کو فرمایا: یہ علی بن ابی طالب ہے، اس کا گوشت میرا گوشت، اور اس کا خون میرا خون ہے، اور یہ مجھ سے ایسے ہی ہے جیسا کہ ہارون علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام سے تھے، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

(ہیثمي، مجمع الزوائد، 9: 111)


18عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا آخَی النَّبِيُّ ﷺ بَيْنَ أَصْحَابِهِ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ فَلَمْ یُؤَاخِ بَيْنَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه وَبَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ خَرَجَ عَلِيٌّ مُغْضَبًا حَتّٰی أَتٰی جَدْوَلًا فَتَوَسَّدَ ذِرَاعَهُ فَسَفَتْ عَلَيْهِ الرِّيْحُ فَطَلَبَهُ النَّبِيُّ ﷺ حَتّٰی وَجَدَهُ فَوَكزَهٗ بِرِجْلِهٖ فَقَالَ لَهُ: قُمْ فَمَا صَلَحْتَ أَنْ تَكوْنَ إِلَّا أَبَا تُرَابٍ أَغَضِبْتَ عَلَيَّ حِيْنَ أَخَيْتُ بَيْنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ وَلَمْ أُوَاخِ بَيْنَکَ وَبَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ بَعْدِى نَبِيٌّ

( طبراني، المعجم الکبیر، 11: 75، رقم: 11092،7894)


حضرت عمر فاروق کے نبی نہ ہونے سے استدلال:

1لَوْ كانَ نَبِیٌّ بَعْدِى لَكانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ

اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔

(جامع ترمذی، ابواب المناقب، باب قولہ صلى الله عليه وسلم: ”لو کان نبی بعدی لکان عمر“ حدیث:3886 )


مسجد نبوی ﷺ تمام انبیاء علیہم السلام کی مساجد کی خاتم ہے:

10۔  

1عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وأبى عبد الله الأغر ، مولى الجهنيين، وكان من أصحاب أبي هريرة، أنهما سمعا أبا هريرة ، يَقُولُ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ مَسْجِدَهُ آخِرُ الْمَسَاجِدِ

ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن اور جہینہ والوں کے آزاد کردہ غلام ابو عبداللہ اغر سے روایت ہے۔۔۔اور یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں (شاگردوں) میں سے تھے۔۔۔ان دونوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھےبے شک میں آخر الانبیاء ہوں، اور میری مسجد آخرالمساجد ہے۔

(صحیح مسلم،کتاب الحج، باب فضل الصلوٰة بمسجدی مکة والمدینة، حدیث:3376)


2وَكَانَا مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُمَا سَمِعَا أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُفَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَمَسْجِدُهُ آخِرُ الْمَسَاجِدِ

(سنن النسائی،کتاب المساجد ،فَضْلِ مَسْجِدِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَالصَّلاَةِ فِيهِ،حدیث:695)


3قالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ إِبْرَاهِيْمَ أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَإِنِّيْ آخِرُ الأَنْبِیَاء وَإِنَّ مَسْجِدِي آخِرُ الْمَسَاجِدِ
َ

(مسلم، الصحیح، کتاب الحج، باب فضل الصّلاۃ بمسجدي مکۃ و المدینۃ، 2: 1012، رقم: 1394)

(نسائي، السنن، کتاب المساجد، 2: 35، رقم: 694)


4عَنْ عَائِشَةَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَنَا خَاتِمُ الْأَنْبِیَاءِ وَمَسْجِدِي خَاتِمُ مَسَاجِدِ الْأَنْبِیَاءِ

حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد انبیاء کرام کی مساجد کی خاتم ہے۔

(دیلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 1: 45، رقم: 112)

(منذری، الترغیب والترھیب، 2: 139، رقم: 1831)


5 عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُا قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَنَا خَاتَمُ الأَنْبِیَاءِ وَمَسْجِدِي خَاتَمُ مَسَاجِدِ الْأَنْبِیَاءِ۔ أَحَقُّ الْمَسَاجِدِ أَنْ یُزَارَ وَتُشَدُّ إِلَيْهِ الرَّوَاحِلُ الْمَسْجِدُ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِي۔ صَـلَاةً فِي مَسْجِدِي اَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيْمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَسَاجِدِ إِلَّا الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ

ہیثمي، مجمع الزوائد، 4: 4


دنیا میں تشریف آوری کے اعتبار سے پہلے اور آخری نبی :

11۔

1یٰا أَبَا ذَرٍ أَوَّلُ الْاَنْبِیَاء آدَمُ وَآخِرُہ مُحَمَّدٌ

اے ابوذر! انبیاءِ کرام میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری حضرت محمد صلى الله عليه وسلم ہیں۔

(الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمی، عن ابوذر، حدیث: 85:1/39)


نبی ﷺ کے امتیازات:

12۔

1 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فُضِّلَتْ عَلٰی الأَنْبِیَآءِ بِسِتٍّ اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْكلِمْ ونُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِیَ الْمَغَانِمُ، وَجُعِلَتْ لِیْ الأَرْضُ طَہُوْرًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ اِلی الْخَلْقِ كافَّةً، وَخُتِمَ بِیَ النَّبیُّوْنَ

مجھے تمام انبیاء کرام پر چھ باتوں میں فضیلت دی گئی اوّل یہ کہ مجھے جوامع الکلم دئیے گئے اور دوسرے یہ کہ رُعب سے میری مدد کی گئی۔ تیسرے میرے لئے غنیمت کا مال حلال کردیاگیا۔ چوتھے میرے لئے تمام زمین پاک اور نماز پڑھنے کی جگہ بنادی گئی۔ پانچویں میں تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ چھٹے یہ کہ مجھ پر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیاگیا۔

(صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب المساجد وموضع الصلاة، حدیث:1167)


2عَنْ أَبِيْ ھُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَی سَائِرِ الْأَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِيْتُ جَوَامِعَ الْكلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَھُوْرًا، ومَسْجِدًا، واُرْسِلْتُ إِلَی النَّاسِ كافَّةً، وَخُتِمَ بِيَ الْأَنْبِیَاء

(أصبھاني، دلائل النبوۃ، 1: 193، رقم: 256)

(قزویني، التدوین في أخبار قزوین، 1: 178)


3عَنْ أَبِيْ ھُرَيْرَةَ (قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ): فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِیَاءِ بِسِتٍ: أُعْطِيْتُ جَوَامِعَ الْكلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ، مَسْجِدًا وَّطَھُوْرًا وَاُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ كافَّةً، وَخُتِمَ بِيَ النُّبُوَّةُ

دیلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 3: 123، رقم: 4334


4أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَتْ فِي يَدِي

(بخاری،کتاب التعبیر،بَابُ الْمَفَاتِيحِ فِي الْيَدِ،حدیث:7013)


5عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَبَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي أُتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ، فَوُضِعَتْ فِي يَدِي

(بخاری،كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ)،حدیث:7273 )


مہرِ نبوت سے ختمِ نبوت پر اِستدلال:

13۔

1عَنْ إِبْرَاهِیمَ بْنِ مُحَمَّدٍ مِنْ وَلَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ فِي حَدِيْثٍ طَوِيْلٍ: كانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا وَصَفَ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ … بَيْنَ كتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّینَ

حضرت ابراہیم بن محمد جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں، فرماتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے… آپ ﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی اور آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں۔

(ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، 5: 599، رقم: 3638)


2عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضي الله عنه، قَالَ فِي رِوَایَةٍ طَوِيْلَةٍ: خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ … فَخَرَجَ إِلَيْھِمُ الرَّاھِبُ فَقَالَ: … وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوْفِ كتِفِهِ مِثْلَ التُّفَاحَةِ

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابو طالب رؤسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم ﷺ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ راہب ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: … میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔

(ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب: ما جاء فی نبوۃ النبي ﷺ ، 5: 590، رقم: 3620)


3عَنْ وَھْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ قَالَ وَلَمْ یَبْعَثِ اللهُ نَبِیًّا إِلَّا وَقَدْ كانَتْ عَلَيْهِ شَامَةُ النُّبُوَّةِ فِيْ یَدِهِ الْیُمْنٰی إِلَّا أَنْ يَّکُوْنَ نَبِیُّنَا مُحَمَّدٌ ﷺ فَإِنَّ شَامَةَ النُّبُوَّةِ کَانَتْ بَيْنَ كتِفَيْهِ وَقَدْ سُئِلَ نَبِیُّنَا ﷺ عَنْ ذٰلِکَ فَقَالَ: هٰذِهِ الشَّامَةُ الَّتِيْ بَيْنَ كتِفَيَّ شَامَةُ الْأَنْبِیَائِ قَبْلِي لِأَنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا رَسُوْلَ

حضرت وہب بن منبہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں: اور اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ ان کے دائیں ہاتھ پر مہر نبوت ہوتی تھی مگر ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کے کہ آپ کی مہرِ نبوت آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان تھی۔ ہمارے نبی ا کرم ﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ میرے کندھوں کے درمیان وہ مہر نبوت ہے جو مجھ سے پہلے انبیاء کرام (علیہم السّلام) کی ہوتی تھی کیونکہ میرے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں۔

(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 631، رقم: 4105 )


4عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ سِمَاكٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ ، يَقُولُ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ شَمِطَ مُقَدَّمُ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ، وَكَانَ إِذَا ادَّهَنَ لَمْ يَتَبَيَّنْ، وَإِذَا شَعِثَ رَأْسُهُ تَبَيَّنَ، وَكَان كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ، فَقَالَ رَجُلٌ: وَجْهُهُ مِثْلُ السَّيْفِ، قَالَ: لَا، بَلْ كانَ مِثْلَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ،وَكانَ مُسْتَدِيرًا، وَرَأَيْتُ الْخَاتَمَ عِنْدَ كتِفِهِ، مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ، يُشْبِهُ جَسَدَهُ

اسرائیل نے سماک سے روایت کی کہ انھوں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور ڈاڑھی کا آگے کا حصہ سفید ہو گیا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیل ڈالتے تو سفیدی معلوم نہ ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی بہت گھنی تھی۔ ایک شخص بولا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک تلوار کی طرح یعنی لمبا تھا؟ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سورج اور چاند کی طرح اور گول تھا اور میں نے نبوت کی مہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر دیکھی جیسے کبوتر کا انڈا ہوتا ہے اور اس کا رنگ جسم کے رنگ سے ملتا تھا۔

(صحیح مسلم ،کتاب الفضائل ،باب إِثْبَاتِ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ وَصِفَتِهِ وَمَحِلِّهِ مِنْ جَسَدِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:6084)


5حَدَّثَنَا شُعْبَةُعَنْ سِمَاكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ ، قَالَ: " رَأَيْتُ خَاتَمًا فِي ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كأَنَّهُ بَيْضَةُ حَمَامٍ

شعبہ نے سماک سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پرمہر نبوت دیکھی، جیسے وہ کبوتری کا انڈا ہو۔

(صحیح مسلم ،کتاب الفضائل ،باب إِثْبَاتِ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ وَصِفَتِهِ وَمَحِلِّهِ مِنْ جَسَدِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:6085)


6عَنْ الْجَعْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ ، يَقُولُ: ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَ أُخْتِى وَجِعٌ، فَمَسَحَ رَأْسِى، وَدَعَا لِى بِالْبَرَكَةِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ، ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ

جعد بن عبدالرحمان نے کہا: میں نے حضرت سائب بن یزید سے سنا، وہ کہہ رہے تھے، کہ میری خالہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئی اور کہا کہ یا رسول اللہ! میرا بھانجا بہت بیمار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور برکت کی دعا کی۔ پھر وضو کیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی پی لیا۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ کے پیچھے کھڑا ہوا تو مجھے آپ کے د ونوں کندھوں کے درمیان آپ کی مہر (نبوت) مسہری کے لٹو کی طرح نظر آئی۔

(صحیح مسلم ،کتاب الفضائل ،باب إِثْبَاتِ خَاتَمِ النُّبُوَّةِ وَصِفَتِهِ وَمَحِلِّهِ مِنْ جَسَدِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،حدیث نمبر:6087 )


خصائص رسولﷺ:

14۔

1عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَمُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں رسولوں کا قائد ہوں اور (مجھے اس بات پر) فخر نہیں اور میں خاتم النبیین ہوں اور (مجھے اس بات پر) کوئی فخر نہیں ہے۔ میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور میں ہی وہ پہلا (شخص) ہوں جس کی شفاعت قبول ہو گی اور (مجھے اس بات پر) کوئی فخر نہیں ہے۔

(دارمي، السنن، 1: 40، رقم: 49)

(طبراني، المعجم الأوسط، 1: 61، رقم: 170)


2عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قاَلَ: كنا فِي حَلْقَةٍ فِي الْمَسْجِدِ نَتَذَاکرُ فَضَائِلَ الْأَنْبِیَاءِ أَیُّھُمْ أَفْضَلُ فَذَكرَنَا نُوْحًا وَطُوْلَ عِبَادَتِهِ رَبَّهُ وَذَكرْنَا إِبْرَاھِيْمَ خَلِيْلَ الرَّحْمٰنِ وَذَكرْنَا مُوْسَی كلِيْمَ اللہ وَذَكرْنَا عِيْسیَ بْنَ مَرْیَمَ وَذَکَرْنَا رَسُوْلَ اللهِ فَبَيْنَا نَحْنُ كذٰلِکَ إِذْ خَرَجَ عَلِيْنَا رَسُوْلُ اللهِ فَقَالَ مَا تَذَاكرُوْنَ بَيْنكمْ؟ قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللهِ! تَذَاكرْنَا فَضَائِلَ الْأَنْبِیِاءِ أَیُّھُمْ أَفْضَلُ؟ ذَكرْنَا نَوْحًا وَطُوْلَ عِبَادَتِهِ وَذَكرنَا إِبْرَاھِيْمَ خَلَيْلَ الرَّحْمَنِ وَذَكرْنَا مُوْسیٰ كلِيْمَ اللهِ وَذَکَرْنَا عَيْسیَ بْنَ مَرْیَمَ وَذَکَرْنَاکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ! قَالَ: فَمَنَ فَضَّلْتُمْ؟ قُلْنَا: فَضَّلْنَاکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ! بَعَثَکَ اللهُ إِلَی النَّاسِ كافَّةً وَغَفَرَ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ وَأَنْتَ خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ ہم مسجد میں ایک مجلس میں انبیاء علیھم السّلام کے فضائل پر گفتگو کر رہے تھے کہ ان میں سے کون زیادہ فضیلت والا ہے؟ پس ہم نے حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی اپنے رب کی طویل عبادت گزاری کا ذکر کیا اور ہم نے حضرت ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کا ذکر کیا اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کا ذکر کیا اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیھما السّلام کا ذکر کیا اور رسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا۔ ابھی ہم اسی حال میں تھے کہ اچانک ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے اور فرمایا: تم آپس میں کس چیز کا ذکر کر رہے ہو؟ ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ!ہم فضائلِ انبیاء کا ذکر کر رہے تھے کہ ان میں سے کون زیادہ افضل ہے؟ پس ہم نے حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی اپنے رب کی طویل عبادت گزاری کا ذکر کیا اور ہم نے حضرت ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کا ذکر کیا اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کا ذکر کیا اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیھما السّلام کا ذکر کیا اور یا رسول اللہ! آپ کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے کسے افضل قرار دیا؟ ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہم نے آپ کو افضل قرار دیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر مبعوث فرمایا اور اور آپ کی خاطر اگلوں پچھلوں کی سب خطائیں معاف فرما دیں اور آپ انبیاء کے خاتم ہیں۔

(طبراني، المعجم الکبیر، 12: 218، رقم: 12938)

( ہیثمي، مجمع الزوائد، 8: 208، 209)


3عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما، قَالَ: جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ یَنْتَظِرُوْنَهُ قَالَ: فَخَرَجَ، حَتَّی إِذَا دَنَا مِنْھُمْ سَمِعَھُمْ یَتَذَاكرُوْنَ فَسَمِعَ حَدِيْثَھُمْ، فَقَالَ بَعْضُھُمْ: عَجَبًا إِنَّ اللهَ عزوجل اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِهِ خَلِيْلًا، اتَّخَذَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلًا، وَقَالَ آخَرُ: مَاذَا بِأَعَجَبَ مِنْ كلَامِ مُوْسَی كلَّمَهُ تَکْلِيْمًا، وَقَالَ آخَرُ: فَعِيْسَی کَلِمَةُ اللهِ وَرُوْحُهُ، وَقَالَ آخَرُ: آدَمُ اصْطَفَاهُ اللهُ، فَخَرَجَ عَلَيْھِمْ فَسَلَّمَ وَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ كلَامَکُمْ وَعَجَبَکُمْ أَنَّ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلُ اللهِ وَھُوَ كذٰلِکَ وَمُوْسَی نَجِيُّ اللهِ وَهُوَ كذٰلِکَ، وَعِيْسَی رُوْحُ اللهِ وَکَلِمَتُهُ وَھُوَ كذٰلِکَ، وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللهُ وَھُوَ كذٰلِکَ، أَلَا وَأَنَا حَبِيْبُ اللهِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا حَامِلُ لِوَائِ الْحَمْدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ یُحَرِّکُ حِلَقَ الْجَنَّةِ فَیَفْتَحُ اللهُ لِي فَیُدْخِلُنِيْھَا وَمَعِي فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَكرَمُ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخِرِيْنَ وَلَا فَخْرَ

(ترمذي، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب فی فضل النبي ﷺ ، 5: 587، رقم: 3616)

(دارمی، السنن، 1: 39، رقم: 47)


4عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيٍّ الْمَكِّيِّ الْهِلَالِيِّ، عَنْ أَبِيهِ وَنَحْنُ أَھْلُ بَيْتٍ قَدْ أَعْطَانَا اللهُ سَبْعَ خِصَالٍ لَمْ یُعْطَ أَحَدٌ قَبْلَنَا وَلاَ یُعْطَی أَحْدٌ بَعْدَنَا أَنَا خَاتِمُ النَّبِيِّيْنَ وَأَكرَمُ النَّبِيِّيْنَ عَلَی اللهِ وَأَحَبُّ الْمَخْلُوْقِيْنَ إِلَی اللهِ عزوجل…

ہم اہل بیت کو اللہ تعالیٰ نے سات ایسے امتیازات عطا فرمائے ہیں جو ہم سے پہلے کسی کو عطا نہیں فرمائے گئے اور نہ ہمارے بعد کسی کو عطا کیے جائیں گے میں انبیاء کا سلسلہ ختم فرمانے والا ہوں اور انبیاء میں سے سب سے زیادہ معزز ہوں اور تمام مخلوقات میں سے اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ محبوب ہوں…

(طبراني، المعجم الکبیر، 3: 57، رقم: 2675)

(طبراني، المعجم الأوسط، 6: 327، رقم: 6540)


شق صدر سے اور ختم نبوت :

15۔

1وَأَخْرَجَ أَبُوْ نُعَيْمٍ عَنْ یُوْنُسَ بْنِ مَيْسَرَةَ بْنِ حَلَبَسٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَتَانِي مَلَکٌ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فَشَقَّ بَطَنِي فَاسْتَخْرَجَ حُشْوَةً فِي جَوْفِيْ فَغَسَلَهَا ثُمَّ ذَرَّ عَلَيْهِ ذَرُوْرًا ثُمَّ قَالَ قَلْبٌ وَکِيْعٌ یَعِيْ مَا وَقَعَ فِيْهِ عَيْنَاکَ بَصِيْرَتَانِ، وَأُذُنَاکَ تَسْمَعَانِ وَأَنْتَ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ الْمُقَفّٰی وَالْحَاشِرُ

حضرت یونس بن میسرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس ایک فرشتہ سونے کا ایک طشت لے کر آیا پس اس نے میرا شکم چاک کیا اور اس میں سے ایک لوتھڑا نکالا پھر اس کو دھویا اور اس پر کسی سفوف نما چیز کا خوب چھڑکاؤ کیا، پھر کہا: حفاظت کرنے والا دل ہے جس میں دو سننے والے کان ہیں اور دو دیکھنے والی آنکھیں ہیں، آپ محمد اللہ کے وہ رسول ہیں جو سب سے آخر پر ہیں آپ کے بعد انعقاد محشر ہو گا۔

(سیوطي، الخصائص الکبری، 1: 111)


2عَنِ ابْنِ غَنَمٍ قَالَ: نَزَلَ جِبْرِيْلُ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَشَقَّ بَطْنَهُ ثُمَّ قَالَ جِبْرِيْلُ: قَلْبٌ وَكيْعٌ فِيْهِ اُذُنَانِ سَمِيْعَتَانِ وَعَيْنَانِ بَصِيْرَتَانِ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ الْمُقَفّٰی الْحَاشِرُ

حضرت ابن غنم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کا شکم مبارک چاک کیا پھر کہا: حفا ظت کرنے والا دل ہے جس میں دو سننے والے کان ہیں اور دو دیکھنے والی آنکھیں ہیں، محمد ﷺ اللہ کے وہ رسول ہیں جو سب سے آخر پر ہیں ان کے بعد انعقاد محشر ہو گا۔

(دارمي، السنن، 1:42، 53)


تخلیق آدم علیہ السلام سے قبل وصف خاتم النبیین :

16۔

1عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إنِّي عِنْدَ الله مَکْتُوْبٌ بِخَاتِمِ النَّبِيِّيْنَ وَإنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کے ہاں خاتم النبیین لکھا جا چکا تھا جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کا پیکر خاکی ابھی تیار کیا جا رہا تھا۔

(ابن حبان، الصحیح، 14: 313، رقم: 6404)


2عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: إِنِّي عَبْدُ الله لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَإِنَّ آدَمَ علیه السلام لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ

(أحمد بن حنبل، المسند، 4: 127، 128 )

(ابن حبان، الصحیح 14: 313، رقم: 6404)


آدم علیہ السلام کی دعااور ختم نبوت:

17۔

1عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ :لَمَّا أَذْنَبَ آدَمُ الذَّنْبَ الَّذِي أَذْنَبَهٗ رَفَعَ رَأْسَهٗ إِلَی الْعَرْشِ فَقَالَ: أَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ أَلَا غَفَرْتَ لِى فَأَوْحَی اللهُ إِلَيْهِ وَمَا مُحَمَّدٌ وَمَنْ مَحَمَّدٌ؟ فَقَالَ: تَبَارَکَ اسْمُکَ لَمَّا خَلَقْتَنِي رَفَعْتُ رَأَسِى إِلَی عَرْشِکَ فَإِذَا ھُوَ مَكتُوْبٌ لَا اِلَهَ إِلاَّ الله مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ فَعَلِمْتُ أَنَّهٗ لَيْسَ أَحَدٌ أَعْظَمُ عِنْدَکَ قَدْرًا مِمَّنْ جَعَلْتَ إِسْمَهٗ مَعَ اسْمِکَ فَأَوْحَی اللهُ عزوجل إِلَيْهِ یَا آدَمُ إِنَّهٗ آخِرُ النَّبِيِّيْنَ مِنْ ذُرِّیَتِکَ وَإِنَّ أُمَّتَهٗ آخِرُ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّيَّتِکَ وَلَوْلاَ ه یَا آدَمُ، مَا خَلَقْتُکَ

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب حضرت آدم علیہ السلام سے (حکمت ومشیت ایزدی کے تحت) خطا سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض کرنے لگے: (اے میرے مولا!) میں تجھ سے محمد ﷺ کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں، کیا (پھر بھی) تو مجھے معاف نہیں فرمائے گا؟ پس اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ محمد کیا ہیں اور محمد کون ہیں؟ تو حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی: اے اللہ! تیرا نام بابرکت ہے جب تو نے مجھے خلعتِ تخلیق پہنائی تو میں نے اپنا سر اٹھا کر تیرے عرش کی طرف دیکھا، وہاں لکھا تھا: لا الٰہ إلا اللہ محمّد رسول اللہ ۔ سو میں نے جان لیا کہ یہ کوئی تیرے نزدیک عظیم قدر و منزلت والی ذات ہی ہے کہ جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملا کر لکھ رکھا ہے چنانچہ اللہ عزوجل نے میری طرف وحی فرمائی کہ اے آدم! یہ تیری اولاد میں سے خاتم النبیین ہیں اور اس کی امت تیری اولاد میں سے آخر الامم ہے اور اے آدم ! اگر یہ نہ ہوتا تو میں تجھے خلعتِ تخلیق سے نہ نوازتا۔

(طبراني، المعجم الصغیر، 2: 182، رقم: 992)

(طبراني، المعجم الأوسط، 6: 313، 314، رقم: 6502)


حضرت عباس کے لئے دعا اور ذکر ختم نبوت:

18۔

1عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ لِعَمِّهِ الْعَبَّاسِ: أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ ثُمَّ رَفَعَ یَدَهُ وَقَالَ: اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِلْعَبَّاسِ وَأَبْنَاء الْعَبَّاسِ وَأَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْعَبَّاسِ

حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میں خاتم النبیین ہوں پھر آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی اے اللہ ! تو عباس، عباس کے بیٹوں اور عباس کے پوتوں کی مغفرت فرما۔

(طبراني، المعجم الکبیر، 6: 205، رقم: 6020)

( ہیثمي، مجمع الزوائد، 9: 269)


نبی ﷺ کی بعثت تمام جہاں کے لئے :

19۔

1أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: كانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ إِلَی قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلٰی النَّاسِ عَامَّةً

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر نبی کو خاص اس کی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا جب کہ مجھے تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔

(بخاري، الصحیح، کتاب التیمم، باب قول اللہ تعالٰی: فلم تجدوا ماء فتیمموا صعیدا طیبا، 1: 128: رقم: 335)

(ابن حبان، الصحیح، 14: 308، رقم: 6398)


2حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ قَال: قَالَ رَسُولُ اللهﷺ : كانَ النَّبِيُّ یُبْعَثُ إِلَی قَوْمِهِ خَاصَّةً وَبُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ كافَّةً

(بخاری، الصحیح، کتاب الصّلاۃ، بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ جعلت لي الأرض مسجدا وطہورا، 1: 168، رقم: 438)

(نسائی، السنن، کتاب الغسل والتیمم، باب التیمم بالصعید، 1: 210، رقم: 432 )


3عَنِ ابْنِ عَبَّاس رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ كافَّةً الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں سرخ اور سیاہ تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔

(مسند احمد ،مسند عبداللہ بن عباس ، 1: 310، رقم: 4586 )


4عَنْ عَمْرِوْ بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَأُرْسِلْتُ إِلَی النَّاسِ كلِّهِمْ عَامَّةً وَكانَ مِنْ قَبْلِيْ إِنَّمَا یُرْسَلُ إِلَی قَوْمِهِ

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تمام لوگوں کی طرف عمومی طور پر رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور مجھ سے قبل رسول کو اس کی قوم کی طرف ہی مبعوث کیا جاتا تھا

(أحمد بن حنبل، المسند، 2: 222، رقم: 7068)

(ہندی، کنزالعمال، 11: 439، رقم: 31885)


5عَنْ أَبِيْ أُمَامَةَرضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بُعِثْتُ إِلَی كلِّ أَبْیَضَ وَأَسْوَدَ

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں ہر سفید اور سیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔

(طبراني، المعجم الکبیر، 8: 239، رقم: 7931)

(ہندی، کنز العمال، 11: 440)


6 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي حَدِيْثٍ طَوِيْلٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنِّي بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ كافَّةً أَحْمَرِھِمْ وَأَسْوَدِھِمْ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں سرخ اور سیاہ تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔

(طحاوي، مشکل الآثار، 4: 210، رقم: 1436، 10: 46، رقم: 3849 )


7عَنْ أَبِي ھُرَيْرَةَ فِي حَدِيْثِ الْإِسْرَاء فَقَالَ لَهُ رَبُّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی: أَرْسَلْتُکَ إِلَی النَّاسِ كافَّةً

(ھیثمی، مجمع الزوائد، 1: 71 )


8عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَال: قَالَ رَسُوْلُ اللهﷺ بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ كافَّةً الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَإِنَّمَا كانَ یُبْعَثُ كلُّ نَبِيٍّ إِلَی قَرْیَتِهِ

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں سرخ اور سیاہ تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں اور (مجھ سے پہلے) ہر نبی محض اپنی بستی کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا۔

(طبراني، المعجم الکبیر، 12: 413، رقم: 13522)

(ھیثمي، مجمع الزوائد، 8: 259)


9عَنْ عَلِيٍّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَرْسِلْتُ إِلَی الْأَبْیَضِ وَالْأَسْوَدِ وَالْأَحْمَرِ

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں سفید، سیاہ اور سرخ (تمام انسانوں) کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

(ہندی، کنز العمال، 11: 438، رقم: 32060 )


10 عَنْ زَمْلِ بْنِ عَمْرٍو الْعُذْرِيِّ عَنْ اٰبَائِهِ یَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ إِنِّي رَسُوْلُ اللهِ إِلَی الْأَنَامِ كافَّةً

حضرت زمل بن عمر العذری اپنے آباء سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے گروہ عرب! میں تمام مخلوق کی طرف رسول بنایا گیا ہوں۔

(ہندی، کنزالعمال، 1: 127، رقم: 358)


11عَنِ الْحَسَنِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ أَنَا رَسُوْلُ مَنْ أَدْرَکْتُ حَیًّا وَمَنْ یُّوْلَدُ بَعْدِى

حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں (ہر اس شخص کا) رسول ہوں جسے زندہ پاؤں گا اور جو میرے بعد پیدا ہوگا۔

(ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1: 101 )

(ہندی، کنز العمال، 11: 404، رقم: 31885)


تمام جہانوں کے لیے رحمت ہونے سے اِستدلال:

20۔

1عَنْ أَبِی أُمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ اللهَ عزوجل بَعَثَنِي رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ وَهُدًى لِّلْعَالَمِيْنَ

حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام جہانوں کے لیے رحمت اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 5: 268، رقم: 22361،23757)

(طبراني، المعجم الکبیر، 7: 217، رقم: 7708)


2عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ صقَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلٰی أَصْحَابِهِ، فَقَال: إِنَّ اللهَ عزوجل بَعَثَنِي رَحْمَةً لِّلنَّاسِ كافَّةً

حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ کرام کے پاس تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام لوگوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

(طبراني، المعجم الکبیر، 20: 8، رقم: 12)

(ہیثمي، مجمع الزوائد، 5: 305)


3عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ وَإِنَّمَا بَعَثَنِيَ اللهُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ

حضرت عمرو بن ابی قرہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام جہانوں کے لیے سراسر رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

(طبراني، المعجم الکبیر، 6: 259، رقم: 6156)


ختمِ ہجرت کی تمثیل میں ختمِ نبوت کا بیان:

21۔

1عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ: اسْتَأْذَنَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ النَّبِيَّ ﷺ فِي الْهِجْرَةِ فَقَالَ لَهُ یَا عَمِّ أَقِمْ مَکَانَکَ الَّذِيْ أَنْتَ بِهِ فَإِنَّ اللهَ عزوجل یَخْتِمُ بِکَ الْهِجْرَةَ كمَا خُتِمَ بِيَ النُّبُوَّةُ

حضرت سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں حضرت عباس بن عبد المطلب نے حضور نبی اکرم ﷺ سے ہجرت کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: اے چچا! آپ جہاں ہیں وہیں رہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ آپ پر ہجرت کو ختم فرمائے گا جیسے کہ مجھ پر نبوت ختم کردی گئی۔

أبو یعلی، المسند، 5: 55، رقم: 26246

طبراني، المعجم الکبیر، 6: 154، رقم: 5828


2عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مِنْ بَدْرٍ وَمَعَهٗ عَمُّهُ الْعَبَّاسُ قَالَ لَهٗ یَا رَسُوْلَ اللهِ، لَوْ أَذِنْتَ لِي فَخَرَجْتُ إِلَی مَکَّةَ فَهَاجَرْتُ مِنْهَا أَوْ قَالَ: فَأُهَاجِرُ مِنْهَا فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَا عَمِّ اطْمَئِنْ فَإِنَّکَ خَاتَمُ الْمُهَاجِرِيْنَ فِي الْهِجْرَةِ كمَا أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ فِي النُّبُوَّةِ

(احمد بن حنبل، فضائل الصحابۃ، 2: 941، رقم: 1812)

(ہندی، کنز العمال، 13: 483، رقم: 7340)


حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد نبوت نہیں خلافت ہے:

22۔

1عَنْ أَبِي حَازِمٍ قَالَ قَاعَدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ خَمْسَ سِنِيْنَ فَسَمِعْتُهٗ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: كانَتْ بَنُو إِسْرَائِيْلَ تَسُوْسُهُمُ الْأَنْبِیَاءُ كلَّمَا هَلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَتَکُوْنُ خُلَفَاءُ تَکْثُرُ قَالُوْا: فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ: فُوْا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ وَأَعْطُوْهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللهَ سَائِلَهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: پہلے بنی اسرائیل کے انبیاء لوگوں پر حکمران ہوا کرتے تھے۔ ایک نبی کا وصال ہوتا تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ ہوتا۔ لیکن یاد رکھو میرے بعد ہرگز کوئی نبی نہیں ہے، ہاں عنقریب خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔ لوگ عرض گزار ہوئے، آپ ہمیں ان کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں؟ فرمایا، یکے بعد دیگرے ہر ایک سے بیعت کرتے رہنا اور ان کی اطاعت کا حق ادا کرتے رہنا پس اللہ تعالیٰ جو انہیں حکمران بنائے گا وہی حقوق کے بارے میں ان سے بازپرس کرے گا۔

(بخاري، الصحیح، کتاب الأنبیاء، باب ما ذکر عن إسرائیل، 3: 1273، رقم: 3455)


2عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، قَالَ: قَاعَدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ خَمْسَ سِنِينَ فَسَمِعْتُهُ، يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ كلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِى وَسَتَكُونُ خُلَفَاءُ تَكثُرُ، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا، قَالَ: فُوابِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ وَأَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ

(مسلم، الصحیح، کتاب الامارۃ، باب وجوب الوفاء ببیعۃ الخلفاء الأول فالأول، 3: 471، رقم: 4773 )


3 عن أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَتْ تَسُوسُهُمْ أَنْبِيَاؤُهُمْ، كلَّمَا ذَهَبَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَأَنَّهُ لَيْسَ كائِنٌ بَعْدِى نَبِيٌّ فِيكمْ"، قَالُوا: فَمَا يَكُونُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ:" تَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكثُرُوا"، قَالُوا: فَكيْفَ نَصْنَعُ؟، قَالَ:" أَوْفُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ، فَالْأَوَّلِ أَدُّوا الَّذِي عَلَيْكُمْ، فَسَيَسْأَلُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنِ الَّذِي عَلَيْهمْ

ابن ماجہ، السنن، کتاب الجہاد، باب الوفاء بالبیعۃ، 2: 958، رقم: 2871


4عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إنَّ بَنِي إِسْرَائِيْلَ كانَتْ تَسُوْسُهُمُ الْأَنْبِیَاء كلَّمَا مَاتَ نَبِيٌّ قَامَ نَبِيٌّ وَ أَنَّهُ لَيْسَ بَعْدِى نَبِيٌّ

ابن حبان، الصحیح، 10، 418، رقم: 4555،6249


5عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: خَرَجْتُ تَاجِرًا إِلَی الشَّامِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَلَمَّا كنْتُ بِأَدْنی الشَّامِ لَقِیَنِيْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْکِتَابِ فَقَالَ: هَلْ عِنْدَكمْ رَجُلٌ تَنَبَّأَ قُلْتُ: نَعَمْ۔ قَالَ: هَلْ تَعْرِفُ صُوْرَتَهُ إِذَا رَأَيْتَهَا قُلْتُ: نَعَمْ فَأَدْخَلَنِي بَيْتًا فِيْهِ صُوَرٌ فَلَمْ أَرَ صُوْرَةَ النَّبِيِّ ﷺ فَبَيْنَا أَنَا كذٰلِکَ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْهمْ عَلَيْنَا فَقَالَ: فِيْمَ أَنْتُمْ فَأَخْبَرْنَا فَذَهَبَ بِنَا إِلَی مَنْزِلِهِ فَسَاعَةَ مَا دَخَلْتُ نَظَرْتُ إِلَی صَوْرَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَإِذَا رَجُلٌ آخِذٌ بِعَقِبِ النَّبِيِّ ﷺ قُلْتُ مَنْ هَذَا عَلَی عَقِبِهِ قَالَ: إِنَّهُ لَمْ یَكنْ نَبِيٌّ إِلَّا كانَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ إِلَّا هٰذَا فَإِنَّهٗ لَا نَبِيَّ بَعْدَه وَ هٰذَا الْخَلِيْفَةُ بَعْدَه وَإِذَا صِفَةُ أَبِيْ بَکْرٍ رضی الله عنه

حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں، میں تجارت کی غرض سے شام کی طرف گیا۔ جب شام کے انتہائی قریب پہنچا تو اہل کتاب میں سے ایک شخص مجھے ملا اور کہا: کیا تمہارے ہاں کوئی ایسا شخص ہے جو نبوت کا دعویدار ہے، میں نے کہا: ہاں! اس نے کہا اگر تم ان کی تصویر دیکھو تو انہیں پہچان لوگے؟ میں نے کہا: ہاں! پھر اس نے مجھے ایسے کمرے میں داخل کر دیا، جس میں تصویریں تھیں، اسی دوران ان میں سے ایک آدمی اس کمرے میں داخل ہوا اور کہا: تم کس چیز میں مشغول ہو؟ ہم نے اسے بتایا، پس وہ ہمیں اپنے گھر لے گیا۔ جونہی میں اس کے گھر میں داخل ہوا میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی تصویر دیکھی، جس میں ایک آدمی آپ ﷺ کی ایڑھی کو تھامے ہوئے ہے۔ میں نے کہا یہ شخص کون ہے جو آپ ﷺ کی ایڑھی کو تھامے ہوئے ہے؟ اس نے کہا: اس سے پہلے کوئی نبی نہیں گزرا مگر یہ کہ اس کے بعد کوئی اور نبی آجاتا سوائے حضور نبی اکرم ﷺ کے کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اور یہ آپ ﷺ کے بعد خلیفہ ہیں اور اس نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حلیہ بیان کیا۔

طبرانی، المعجم الکبیر، 2: 125، رقم: 1537


6قَالَ حُذَيْفَةُ: قَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ تَکُوْنُ النُّبُوَّةُ فِيْکُمْ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَّرْفَعَهَا ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَةٌ عَلٰی مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ فَتَکُوْنُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَّرْفَعَهَا ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْكا عَاضًّا فَیَکُوْنُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَّکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَّرْفَعَهَا ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبَرِيَّةً فَتَکُوْنُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَّرْفَعَهَا ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَةٌ عَلَی مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَکَتَ

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نبوت تم میں اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا کہ وہ تم میں رہے پھر جب اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ اسے اٹھا لے گا، پھر نبوت کے منھاج پر خلافت ہوگی، اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر جب چاہے گا اسے اٹھا لے گا۔ پھر ظالم ملوکیت ہوگی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا، پھر اللہ تعالیٰ اسے اٹھا لے گا۔ پھر جبری ملوکیت ہوگی اور تب تک رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا پھر وہ اسے اٹھا لے گا۔ پھر خلافت علی منھاج النبوۃ ہوگی، پھر آپ ﷺ خاموش ہوگئے۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 4: 273 )

(بزار، المسند، 7: 223)


7عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ قَالَ: لَقِيْتُ رَسُوْلَ اللهﷺ فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ الله، ادْفَعْنِيْ إِلَی رَجُلٍ حَسَنِ التَّعْلِيْمِ فَدَفَعَنِيْ إِلٰی أَبِي عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ ثُمَّ قَالَ قَدْ دَفَعْتُکَ إِلٰی رَجُلٍ یُحْسِنُ تَعْلِيْمَکَ وَأَدَبَکَ فَأَتَيْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ وَهُوَ وَبَشِيْرُ بْنُ سَعْدٍ أَبُو النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيْرٍ یَتَحَدَّثَانِ فَلَمَّا رَأَیَانِيْ سَکَتَا فَقُلْتُ یَا أَبَا عُبَيْدَةَ وَاللهِ مَا هٰکَذَا حَدَّثَنِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَقَالَ: إِنَّکَ جِئْتَ وَ نَحْنُ نَتَحَدَّثُ حَدِيْثًا سَمِعْنَاهُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَاجْلِسْ حَتّٰی نُحَدِّثَکَ فَقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِنَّ فِيْکُمُ النُّبُوَّةَ ثُمّ تَکُوْنُ خِلَافَةٌ عَلَی مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ یَکُوْنُ مُلْکًا وَجَبَرِيَّةً

حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ سے ملا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کسی ایسے شخص کے سپرد کیجئے جو اچھی تعلیم والا ہو، تو حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا، پھر فرمایا: میں نے تمہیں ایسے شخص کے حوالے کیا ہے جو تیری تعلیم و ادب کو سنوار دے گا، پس میں ابو عبیدہ بن الجراح کے پاس آیا، جبکہ وہ اور بشیر بن سعد جو کہ نعمان بن بشیر کے والد تھے آپس میں باتیں کر رہے تھے، جب ان دونوں نے مجھے دیکھا تو وہ خاموش ہوگئے۔ پس میں نے کہا: اے ابو عبیدہ! اللہ کی قسم! حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے اس طرح نہیں بتایا۔ انہوں نے کہا: جب تو آیا تو ہم وہ بات کر رہے تھے جو ہم نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنی، پس تو بھی بیٹھ کہ ہم تمہیں بھی وہ بات سنائیں۔ چنانچہ انہوں نے کہا: حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک نبوت تم میں ہے (یعنی میں تم میں موجود ہوں) پھر (میرے بعد) علی منھاج النبوۃ خلافت ہوگی، پھر (خلافت کے بعد) ملوکیت اور جبریت ہو گی۔

طبرانی، المعجم الکبیر، 1: 157، رقم: 368

ہیثمي، مجمع الزوائد، 5: 189


8عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ عَنْ سَفِيْنَةَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلاَثُوْنَ سَنَةً ثُمَّ یُؤْتِي اللهُ الْمُلْکَ أَوْ مُلْکَهٗ مَنْ يَّشَاء

حضرت سفینہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم نے فرمایا: نبوت کی خلافت تیس سال ہے اس کے بعدا للہ جس کو چاہے گا سلطنت یا اپنی سلطنت عطا فرمائے گا۔

(أبو داود، السنن، کتاب السنۃ، باب في الخلفائ، 4: 211، رقم: 4646 )


9عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ حَدَّثَنِي سَفِينَةُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْخِلَافَةُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ 

(الترمذی،كتاب الفتن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب مَا جَاءَ فِي الْخِلاَفَةِ،حدیث:2226)


10 عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ یُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ الْیَمَانِ یَقُوْلُ: یَآاَیُّھَا النَّاسُ، أَلاَ تَسْأَلُوْنِي فَإِنَّ النَّاسَ کَانُوْا یَسْأَلُوْنَ رَسُوْلَ الله ﷺ عَنِ الْخَيْرِ وَكنْتُ أَسْأَلُهٗ عَنِ الشَّرِّ أَنَّ اللهَ بَعَثَ نَبِيَّهُ ﷺ فَدَعَا النَّاسَ مِنَ الْكفْرِ إِلَی الإِيْمَانِ وَمِنَ الضَّلَالَةِ إِلَی الْهُدَی فَاسْتَجَابَ مَنِ اسْتَجَابَ فَحَيَّ مِنَ الْحَقِّ مَا كانَ مَيِّتاً وَمَاتَ مِنَ الْبَاطِلِ مَا كانَ حَیًّا ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ فَكانَتِ الْخِلَافَةُ عَلَی مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ

حضرت ابو طفیل بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت حذیفہ بن یمان کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ اے لوگو! کیا تم مجھ سے نہیں پوچھوگے، پس بے شک لوگ حضور نبی اکرم ﷺ سے خیر کے بارے سوال کرتے تھے اور میں آپ ﷺ سے شر کے بارے میں سوال کرتا تھا۔ بے شک اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضور ﷺ کو مبعوث فرمایا تو آپ ﷺ نے لوگوں کو کفر سے ایمان کی طرف اور گمراہی سے ہدایت کی طرف بلایا، پس جس نے دعوت قبول کی سو اس نے کی، اور حق سے مردہ شخص زندہ اور باطل سے زندہ شخص مردہ ہوگیا، پھر نبوت جاتی رہی اور خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 5: 404، رقم: 23479)

(أبو نعیم، حلیۃ الأولیائ، 1: 275)


11عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ الْعَبَّاسُ: یَا رَسُوْلَ الله! مَا لَنَا فِي هٰذَا الْأَمْرِ قَالَ: لِي النُّبُوَّةُ وَلَكمُ الْخِلَافَةُ بِکُمْ یُفْتَحُ هٰذَا الْأَمْرُ وَبِکُمْ یُخْتَمُ

حضرت عبد اللہ بن عباس رضي اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! اس دین کے معاملہ میں ہمارے لیے کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میرے لیے نبوت ہے اور تمہارے لیے خلافت۔ تم سے (یعنی امتِ محمدیہ) سے اس دین کے معاملہ کا آغاز ہو گا اور تم پر ہی ختم ہو گا۔

خطیب بغدادي، تاریخ بغداد، 3: 349


شبِ معراج جبریلِ امین علیہ السلام کا ملائکہ میں اعلانِ ختمِ نبوت:

23۔

1مِنْ حَدِيْثٍ طَوِيْلٍ فِي الإِسْرَاء عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: حَتّٰی أَتٰی بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَنَزَلَ فَرَبَطَ فَرَسَهٗ إِلٰی صَخْرَةٍ فَصَلّٰی مَعَ الْمَلَائِكةِ فَلَمَّا قُضِیَتِ الصَّلَاةُ قَالُوْا: یَا جِبْرِيْلُ! مَنْ هٰذَا مَعَکَ؟ قَالَ: هَذَا مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ (إلی أن قال:) فَقَالَ لَهُ رَبُّهٗ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: قَدِ اتَّخَذْتُکَ حَبِيْبًا وَمَكتُوْبٌ فِی التَّوْرَاةِ مُحَمَّدٌ حَبِيْبُ الرَّحْمٰنِ وَأَرْسَلْنَاکَ لِلنَّاسِ كافَّةً وَجَعَلْتُ أُمَّتَکَ ھُمُ الْأَوَّلُوْنَ وَھُمُ الْأَخِرُوْنَ وَجَعَلْتُ أُمَّتَکَ لَا تَجُوْزُ لَھُمْ خُطْبَةٌ حَتّٰی یَشْھَدُوْا أَنَّکَ عَبْدِى وَرَسُوْلِى وَجَعَلْتُکَ أَوَّلَ النَّبِيِّيْنَ خَلْقًا وَاٰخِرَھُمْ بَعْثًا وَأَعْطَيْتُکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَلَمْ أُعْطِھَا نَبِیًّا قَبْلَکَ وَأَعْطَيْتُکَ خَوَاتِيْمَ سُوْرَةِ الْبَقَرَةِ مِنْ كنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ لَمْ أُعْطِھَا قَبْلَکَ وَجَعَلْتُکَ فَاتِحًا وَخَاتِمًا

إسراء کے باب میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں سے ہے… یہاں تک کہ حضور نبی اکرم ﷺ بیت المقدس تشریف لائے۔ آپ ﷺ نیچے اترے اور اپنے گھوڑے کو ایک چٹان کے ساتھ باندھ دیا، پھر ملائکہ کے ساتھ نماز ادا فرمائی، جب نماز ادا کر لی گئی تو ملائکہ نے سوال کیا، اے جبریل! آپ کے ساتھ یہ کون ہیں؟ تو جبریل علیہ السلام نے جواب دیا: یہ اللہ کے رسول، نبیوں کے خاتم حضرت محمد ﷺ ہیں۔ (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ کی جانب سے مجھے ارشاد ہوا کہ میں نے تمہیں اپنا محبو ب بنایا ہے اور توریت میں بھی لکھا ہوا ہے کہ محمد اللہ کے محبوب ہیں۔ اور ہم نے تمہیں تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا ہے اور آپ کی امت کو اولین و آخرین بنایا، اور میں نے آپ کی امت کو اس طرح رکھا کہ ان کے لیے کوئی خطبہ جائز نہیں جب تک کہ وہ خالص دل سے گواہی نہ دیں کہ آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں، اور میں نے آپ کو باعتبار اصلِ خلقت کے سب سے اول اور باعتبار بعثت کے سب سے آخر بنایا ہے اور آپ کو سبع مثانی (سورہ فاتحہ) دی ہے جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی، اور آپ کو آخر سورۂ بقرہ کی آیتیں دی ہیں اس خزانہ سے جو عرش سے نیچے ہے اور آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیں، اور آپ کو فاتح اور خاتم بنایا۔

( ہیثمي، مجمع الزوائد، 1: 68۔ 72)


موسی علیہ السلام بھی ہوتے تو میری اقتدا کرتے:

24۔

1عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه قَالَ جَاءَ عُمَرُ رضی اللہ عنہ إِلَی النَّبِیِ ﷺ فَقَالُ: یَا رَسُوْلَ الله، إِنِّی مَرَرْتُ بِأَخٍ لِي مِنْ قُرَيْظَةَ فَكتَبَ لِي جَوَامِعَ مِنَ التَّوْرَاةِ أَ لَا أَعْرِضُهَا عَلَيْکَ فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ عَبْدُ اللهِ: فَقُلْتُ: أَلَا تَرٰى مَا بِوَجْهِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔ فَقَالَ عُمَرُ: رَضِيْنَا بِاللهِ رَبًّا وَ بِالإِسْـلَامِ دِيْنًا وَبمُحَمَّدِ ﷺ رَسُوْلًا۔ قَالَ: فَسُرِّى عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِى نَفْسِى بِیَدِه لَوْ أَصْبَحَ فِيْكمْ مُوْسٰی ثُمَّ اتَّبَعْتُمُوْهُ لَضَلَلْتُمْ إِنَّکُمْ حَظِّي مِنَ الْأُمَمِ وَأَنَا حَظُّکُمْ مِنَ النَّبِيِّيْنَ

حضرت عبد اللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں بنی قریظہ میں سے ایک اپنے بھائی کے پاس سے گزرا تو اس نے میرے لیے تورات کی بعض چیزیں لکھیں، کیا وہ چیزیں میں آپ پر پیش نہ کروں، پس حضور نبی اکرم ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا۔ حضرت عبد اللہ بیان کرتے کہ میں نے کہا: کیا آپ حضور ﷺ کے چہرہ اقدس کی کیفیت کو نہیں دیکھ رہے؟ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر راضی ہوئے۔ (آپ رضی اللہ عنہ کے اس قول سے) حضور نبی اکرم ﷺ کی کیفیت خوشگوار ہوگئی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر تم میں موسیٰ علیہ السلام بھی ہوتے اور تم ان کی اتباع بھی کرتے پھر بھی ضرور بضرور تم گمراہ ہوجاتے۔ بے شک امتوں میں سے تم میرا نصیب ہو اور انبیاء میں سے میں تمہارا نصیب ہو۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 3: 470، رقم: 15903،18361)


یہ گواہی دو کہ میں خاتمِ انبیاء و رُسل ہوں:

25۔

1عَنْ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ فِيْ قِصَّةٍ طَوِيْلَةٍ لَّهُ حِینَ جَائَتْ عَشِيْرَتُهُ یَطْلُبُوْنهُ مِنْ عِنْدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ بَعْدَ مَا أَسْلَمَ فَقَالُوْا لَهُ: إِمْضِ مَعَنَا یَا زَيْدُ فَقَالَ: مَا أُرِيْدُ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ بَدَلًا وَلَا غَيْرِهٖ أَحَدًا فَقَالُوْا: یَا مُحَمَّدُ! اِنَّا مُعْطُوْکَ بِهٰذَا الْغُلَامِ دِيَّاتٍ فَسَمِّ مَا شِئْتَ فَإِنَّا حَامِلُوْهُ إِلَيْکَ فَقَالَ: أَسْئَلُکُمْ أَنْ تَشْهَدُوْا أَنْ لَّا إِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَأَنِّي خَاتَمُ أَنْبِیَائِهِ وَرُسُلِهِ وَأُرْسِلُهُ مَعَکُمُ

حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ان کے ایک طویل واقعہ میں ہے کہ ان کے قبول اسلام کے بعد جب ان کا خاندان انہیں لینے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ تو انہوں نے حضرت زید سے کہا: اے زید! ہمارے ساتھ چلو تو انہوں نے کہا: میں نہ تو رسول اللہ ﷺ کے بدلہ میں کچھ لیناچاہتا ہوں اور نہ آپ ﷺ کے سوا کسی کے پاس جانا ہی چاہتا ہوں چنانچہ ان کے خاندان والوں نے کہا: اے محمد! ہم اس لڑکے کے بدلے آپ کو ہر طرح کا معاوضہ دیں گے۔ آپ جس چیز کا نام لیں گے ہم آپ کی خدمت میں حاضر کر دیں گے تو اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تم سے صرف اس بات کا مطالبہ کرتا ہوں کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کے انبیاء و رسل کا خاتم ہوں۔ پس میں اس لڑکے کو تمہارے ساتھ روانہ کر دوں گا۔

(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 3: 235، رقم: 4946)


حضرت آدم علیہ السلام کے شانوں پر ختمِ نبوت کی شہادت:

26۔

1 عَنْ جَابِرٍ قَالَ: بَيْنَ كتِفَيْ اٰدَمَ مَکْتُوْبٌ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام کے شانوں کے درمیان لکھا ہوا تھا: محمد رسول اللہ خاتم النبین۔

(حلبي، السیرۃ الحلبیۃ، 1: 360)


نبی ﷺ سب سے آخر میں بیت اللہ کو آباد کرینگے:

27۔

1 (مِنْ حَدِيْثٍ طَوِیلٍ عَنْ وَھْبِ بنِ مُنَبِّهٍ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ:) وتَعْمَرُهٗ یَا اٰدَمُ مَا كنْتَ حَیًّا تَعْمَرُهُ مِنْ بَعْدِکَ الْأُمَمُ وَالْقُرُوْنُ وَالْأَنْبِیَاء مِنْ وَلَدِکَ أُمَّةً بَعْدَ أُمَّةٍ وَقَرْنًا بَعْدَ قَرْنٍ وَنَبِیًّا بَعْدَ نَبِيٍّ حَتّٰی یَنْتَهِیَ ذٰلِکَ إِلٰی نَبِيٍّ مِنْ وَلَدِکَ یُقَالُ لَهٗ مُحَمَّدٌ وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ

حضرت وہب بن منبہ اور حضرت معاذ بن جبل رضي اللہ عنھما سے مروی ایک طویل حدیث قدسی میں ہے: اے آدم! جب تک آپ زندہ رہیں گے میرے اس گھر (خانہ کعبہ) کو آباد کریں گے اور آپ کے بعد آپ کی اولاد میں سے مختلف گروہ، طبقات اور انبیاء ایک گروہ کے بعد دوسرا گروہ اور ایک طبقے کے بعد دوسرا طبقہ اور ایک نبی کے بعد دوسرا نبی اسے آباد کریں گے۔ یہاں تک کہ یہ سلسلہ آپ کی اولاد میں سے حضرت محمد ﷺ تک پہنچے گا اور (ان کی شان یہ ہے کہ) وہ تمام نبیوں کے خاتم ہیں۔

(بیہقي، شعب الإیمان، 3: 433، رقم: 3985)

(طبرانی، المعجم الأوسط، 7: 264)


ختمِ نبوتِ محمدی ﷺ پر ایک راہب کی گواہی:

28۔

1عَنْ خَلِيْفَةَ بْنِ عَبْدَةَ بْنِ جَرْوَلٍ قَالَ سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَدِيِّ بْنِ رَبِيْعَةَ بْنِ سُوَاء ةَ بْنِ جُشْمٍ كيْفَ سَمَّاکَ أَبُوْکَ مُحَمَّدٌ فِي الْجَاھِلِيَّةِ قَالَ: أَمَا إِنِّيْ قَدْ سَأَلْتُ أَبِيْ عَمَّا سَأَلْتَنِيْ عَنْهُ فَقَالَ خَرَجْتُ رَابِعَ أَرْبَعَةٍ مِنْ بَنِيْ تَمِيْمٍ أَنَا أَحَدُھُمْ وَسُفْیَانُ بْنُ مُجَاشِعِ بْنِ دَارِمٍ وَأُسَامَةَ بْنُ مَالِکِ بْنِ جُنْدُبِ بْنِ الْعَنْبَرِ وَیَزِيْدُ بْنُ رَبِيْعَةَ بْنِ كنَابِيَّةَ بْنِ حَرْقُوْصِ بْنِ مَازِنٍ بِزَيْدِ بْنِ جِفْنَةَ بْنِ مَالِکِ بْنِ غَسَّانَ بِالشَّامِ فَلَمَّا قَدِمْنَا الشَّامَ نَزَلْنَا عَلَی غَدِيْرٍ عَلَيْهِ شَجَرَاتٌ لِدَيْرَانِيِّ یَعْنِيْ صَاحِبَ صَوْمَعَةٍ فَقُلْنَا لَوِ اغْتَسَلْنَا مِنْ هٰذَا الْمَائِ وَادَّھَنَّا وَلَبِسْنَا ثِیَابَنَا ثُمَّ أَتَيْنَا صَاحِبَنَا فَأَشْرَفَ عَلَيْنَا الدَّيْرَانِيُّ فَقَالَ إِنَّ هٰذِهِ لُغَّةٌ مَا هِيَ بِلُغَّةِ أَهْلِ الْبَلَدِ فَقُلْنَا نَعَمْ نَحْنُ قَوْمٌ مِنْ مُضَرَ قَالَ مِنْ أَيِّ مُضَرَ قُلْنَا مِنْ خِنْدِفٍ قَالَ أَمَا إِنَّهُ سَیُبْعَثُ مِنْکُمْ وَشِيْکًا نَبِيٌّ فَسَارِعُوْا وَخُذُوْا بِحَظِّکُمْ مِنْهُ تَرْشُدُوْا فَإِنَّهُ خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ فَقُلْنَا مَا اسْمُهُ؟ فَقَالَ مُحَمَّدٌ فَلَمَّا انْصَرَفْنَا مِنْ عِنْدِ ابْنِ جِفْنَةَ وُلِدَ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنَّا غُلَامٌ فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا قَالَ الْعَلَاءُ قَالَ قَيْسُ بْنُ عَاصِمٍ لِلنَّبِيِّ ﷺ تَدْرِيْ مَنْ أَوَّلُ مَنْ عَلِمَ بِکَ مِنَ الْعَرَبِ قَبْلَ أَنْ تُبْعَثَ قَالَ لَا قَالَ بَنُوْ تَمِيْمٍ وَقَصَّ عَلَيْهِ هٰذِهِ الْقِصَّةَ

خلیفہ بن عبدہ بن جرول کہتے ہیں میں نے محمد بن عدی بن ربیعہ بن سوائۃ بن جشم سے پوچھا: تمہارے باپ نے جاہلیت میں تمہارا نام محمد کیسے رکھا؟ انہوں نے کہا: میں نے اپنے باپ سے یہی سوال پوچھا جو تم مجھ سے پوچھا ہے تو انہوں نے کہا: ہم بنو تمیم سے چار افراد نکلے، میں ان میں چوتھا تھا۔ دیگر افراد میں سفیان بن مجاشع بن دارم اور اسامہ بن مالک بن جندب بن العنبر اور یزید بن ربیعہ بن کنابیہ بن حرقوص بن مازن، ہم زید بن جفنہ بن مالک بن غسان کے ساتھ شام کی طرف سفر کے لیے گئے۔ پس جب ہم شام پہنچ گئے تو ہم ایک تالاب کے پاس اترے جس پرایک راہب کے درخت تھے۔ ہم نے کہا: پہلے ہم اس پانی سے غسل کرتے ہیں، تیل لگاتے ہیں اور کپڑے پہنتے ہیں، پھر اپنے صاحب کے پاس آئیں گے۔ ہمیں راہب نے دیکھا تو کہا: تمہاری زبان اس ملک والوں کی زبان نہیں ہم نے کہا: ہاں ہم مضر قبیلے سے ہیں اس نے کہا کہ کس مضر سے ہم نے کہا خندف سے۔ اس نے کہا: تو سنو! عنقریب تمہاری قوم میں سے ایک نبی مبعوث ہوں گے۔ پس جلدی کرو اور (اس خوش بختی میں سے) اپنا حصہ لے لو۔ تم ان سے ہدایت پاؤ گے وہ خاتم النبیین ہیں۔ ہم نے کہا: ان کا نام کیا ہو گا؟ اس نے کہا: محمد ( ﷺ)۔ پس جب ہم ابن جفنہ سے لوٹے تو ہم میں سے ہر ایک کے گھر بیٹا پیدا ہوا، سو ہر ایک نے اس کا نام محمد رکھا۔ علاء کہتے ہیں، قیس بن عاصم نے حضور نبی اکرم ﷺ سے کہا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی بعثت سے پہلے عربوں میں سب سے پہلے آپ کو کون جانتا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں اس نے کہا: بنو تمیم اور پھر آپ ﷺ کو یہ قصہ سنایا۔

(طبراني، المعجم الکبیر، 17: 111، رقم: 273)

(ہیثمي، مجمع الزوائد، 8: 423، رقم: 13888)


بصریٰ کے بازار میں ایک راہب کا اعلان:

29۔

1عَنْ إِبْرَاهِيْمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ قَالَ: قَالَ لِيْ طَلْحَةُ بْنُ عَبْدِ اللهِ حَضَرْتُ سُوْقَ بُصْرٰى فَإِذَا رَاهِبٌ فِيْ صَوْمَعَتِهِ یَقُوْلُ سَلُوْا أَهْلَ هَذَا الْمَوْسَمِ أَ فِيْهِمْ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْحَرَمِ قَالَ طَلْحَةُ: قُلْتُ: نَعَمْ أَنَا فَقَالَ: هَلْ ظَهَرَ أَحْمَدُ بَعْدُ؟ قَالَ: قُلْتُ: وَمَنْ أَحْمَدُ؟ قَالَ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ هَذَا شَهْرُهُ الَّذِى یَخْرُجُ فِيْهِ وَهُوَ آخِرُ الْأَنْبِیَاء مَخْرِجُهُ مِنَ الْحَرَمِ وَمُهَاجِرُهٗ إِلَی نَخْلِ وَحَرَّةٍ وَسباح إِيَّاکَ أَنْ تَسْبِقَ إِلَيْهِ

ابراہیم بن محمد بن طلحہ کہتے ہیں کہ مجھے طلحہ بن عبد اللہ نے کہا: میں بصریٰ کے بازار میں تھا تو وہاں ایک راہب اپنے گرجے میں کہہ رہا تھا: اس اجتماع والوں سے پوچھو کیا ان لوگوں میں کوئی اہل حرم میں سے ہے؟ طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ہاں میں ہوں تو اس نے کہا: کیا احمد ظاہر ہو گئے ہیں؟ طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: یہ احمد کون ہیں؟ اس راہب نے کہا: یہ احمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہیں۔ یہ ان کا مہینہ ہے جس میں وہ اعلانِ نبوت فرمائیں گے اور وہ آخری نبی ہیں، وہ سر زمین حرم (مکہ مکرمہ) سے ہجرت فرمائیں گے اور ان کی ہجرت کھجوروںوالی، سنگلاح اور بنجر زمین (مدینہ منورہ) کی طرف ہو گی، پس تو ان سے کسی معاملے میں آگے نہ بڑھنا۔

(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 3: 416، رقم: 5586)


حضور نبی اکرم ﷺ کی ختمِ نبوت پر ایک گوہ کی گواہی:

30۔

1عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه فِيْ حَدِيْثٍ طَوِيْلٍ قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ (الْأَعْرَابِيُّ) عَلَی رَسُوْلِ الله ﷺ فَقَالَ: وَاللاَّتِ وَالْعُزّٰى، لَا اٰمَنْتُ بِکَ۔ وَقَدْ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَا أَعْرَابِيُّ! مَا حَمَلَکَ عَلٰی أَنْ قُلْتَ مَا قُلْتَ، وَقُلْتَ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَمْ تُکْرِمْ مَجْلِسِي؟ فَقَالَ: وَتُکَلِّمُنِي أَيْضًا؟ اِسْتِخْفَافًا بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَاللاَّتِ وَالْعُزّٰى، لَا آمَنْتُ بِکَ أَوْ یُؤْمِنُ بِکَ ھٰذَا الضَّبُّ۔ فَأَخْرَجَ ضَبًّا مِنْ کُمِّهِ وَطَرَحَهُ بَيْنَ یَدَيْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: إِنْ آمَنَ بِکَ ھَذَا الضَّبُ اٰمَنْتُ بِکَ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَا ضَبُّ! فَتَکَلَّمَ الضَّبُ بِکَلاَمٍ عَرَبِيٍّ مُبِيْنٍ فَھِمَهُ الْقَوْمُ جَمِيْعًا: لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ، یَا رَسُوْلَ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ تَعْبُدُ؟ قَالَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ عَرْشُهُ وَفِي الْأَرْضِ سُلْطَانُهُ وَفِي الْبَحْرِ سَبِيْلُهُ وَفِي الْجَنَّةِ رَحْمَتُهُ وَفِي النَّارِ عَذَابُهُ۔ قَالَ: فَمَنْ أَنَا، یَا ضَبُّ؟ قَالَ: أَنْتَ رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ صَدَّقَکَ، وَقَدْ خَابَ مَنْ کَذَّبَکَ۔ فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَنَّکَ رَسُوْلُ اللهِ حَقًّا

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث میں بیان کرتے ہیں: پھر وہ اعرابی حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: مجھے لات و عزیٰ کی قسم! میں تم پر ایمان نہیں رکھتا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا: اے اعرابی! کس چیز نے تمہیں اس بات پر ابھارا ہے کہ تم میری مجلس کی تکریم کو بالائے طاق رکھ کر ناحق گفتگو کرو؟ اس نے بے ادبی سے رسول اللہ ﷺ سے کہا: کیا آپ بھی میرے ساتھ ایسے ہی گفتگو کریں گے؟ اور کہا: مجھے لات و عزیٰ کی قسم! میں آپ پر اس وقت تک ایمان نہیں لاؤں گا جب تک یہ گوہ آپ پر ایمان نہیں لاتی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی آستین سے گوہ نکال کر حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے پھینک دی اور کہا: اگر یہ گوہ آپ پر ایمان لے آئے تو میں بھی ایمان لے آؤں گا۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے گوہ! پس گوہ نے ایسی واضح اور شستہ عربی میں کلام کیا کہ جسے تمام لوگوں نے سمجھا۔ اس نے عرض کیا: اے دوجہانوں کے رب کے رسول! میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا: تم کس کی عبادت کرتی ہو؟ اس نے عرض کیا: میں اس کی عبادت کرتی ہوں جس کا عرش آسمانوں میں ہے، زمین پر جس کی حکمرانی ہے اور سمندر پر جس کا قبضہ ہے، جنت میں جس کی رحمت ہے اور دوزخ میں جس کا عذاب ہے۔ آپ ﷺ نے پھر پوچھا: اے گوہ! میں کون ہوں؟ اس نے عرض کیا: آپ دو جہانوں کے رب کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ جس نے آپ کی تصدیق کی وہ فلاح پاگیا اور جس نے آپ کی تکذیب کی وہ ذلیل و خوار ہوگیا۔ اعرابی یہ دیکھ کر بول اٹھا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔

(طبراني، المعجم الأوسط، 6: 126-129، رقم: 5996)

(طبرانی، المعجم الصغیر، 2: 153-155، رقم: 948)


میں ایک ہز ار یا اس سے بھی زیادہ ا نبیاء کا خاتم ہوں:

31۔

1عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه مَرْفُوْعًا إِنِّي خَاتِمُ أَلْفِ نَبِيٍّ أَوْ أَكثَرَ

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میں ہزار یا اس سے زائد انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔

(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 2: 653، رقم: 4168)

(أحمد بن حنبل، المسند، 3: 79، رقم: 11769)


حلال و حرام وہی ہے جس کا اعلان حضور ﷺ نے فرمایا:

32۔

1عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ : یَا أَیُّهَا النَّاسُ! إِنَّ اللهَ أَنْزَلَ كتَابَهُ عَلٰی لِسَانِ نَبِيِّهٖ فَأَحَلَّ حَلَالَهٗ وَحَرَّمَ حَرَامَهٗ فَمَا أَحَلَّ فِيْ كتَابِهٖ عَلٰی لِسَانِ نَبِيِّهٖ فَهُوَ حَلَالٌ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَمَا حَرَّمَ فِيْ کِتَابِهٖ عَلٰی لِسَانِ نَبِيِّهِ فَهُوَ حَرَامٌ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اپنے نبی کی زبان پر نازل کی اور اس کے حلال کو حلال فرمایا اور اس کے حرام کو حرام فرمایا۔ پس اس نے اپنی کتاب میں اپنے نبی کی زبان پر جس چیز کوحلال فرمایا وہ قیامت تک حلال ہے اور جس چیز کو اس نے اپنی کتاب میں اپنے نبی کی زبان کے ذریعے حرام کر دیا وہ قیامت تک حرام ہے۔

(مقدسی، الأحادیث المختارہ، 6: 134، رقم: 2132 )

(ہندی، کنز العمال، 1: 346، رقم: 991)


قرآن کے حلال کو حلا ل اور حرام کو حرام جا ننے سے استدلال:

33۔

1عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ : اعْمَلُوْا بِالْقُرْاٰنِ أَحِلُّوا حَلَالَهُ وَحَرِّمُوْا حَرَامَهُ وَاقْتَدُوْا بِهِ وَلَا تَکْفُرُوْا بِشَيْئٍ مِنْهُ وَمَا تَشَابَهَ عَلَيْکُمْ فَرُدُّوْهُ إِلَی اللهِ وَإِلٰی أُولِی الْأَمْرِ مِنْ بَعْدِي كي مَا یُخْبِرُوْكمْ وَاٰمِنُوْا بِالتَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيْلِ وَالزَّبُوْرِ وَمَا أُوْتِيَ النَّبِّیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قرآن پر عمل کرو۔ اس کے حلال کو حلال جانو اور حرام کو حرام، اور اس کی پیروی کرو اور اس میں سے کسی چیز کا انکار نہ کرو اور جو چیز تم پر متشابہ ہو جائے اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف اور پھر اس کے بعد صاحبان اختیار کی طرف لوٹا دو تاکہ وہ تمہیں (اس شے کی نسبت) خبر دے سکیں (کہ وہ حلال ہے یا حرام)۔ تورات، انجیل اور زبور پر ایمان لاؤ اور ہر اس چیز پر جو انبیاء کرام علیہم السّلام کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئی۔

(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 1: 757، رقم: 2087)

(بیہقي، شعب الایمان، 2: 458، رقم: 2478)


2عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو یَقُوْلُ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ الله ﷺ یَوْمًا كالْمُوَدِّعِ فَقَالَ: أَنَا مُحَمَّدٌ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ قَالَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَلَا نَبِيَّ بَعْدِيْ أُوْ تِيْتُ فَوَاتِحَ الْکَلِمِ وَخَوَاتِمَهُ وَجَوَامِعَهُ وَعَلِمْتُ كمْ خَزَنَةُ النَّارِ وَحَمَلَةُ الْعَرْشِ وَتُجَوَّزُ بِي وَعُوْفِیَتْ أُمَّتِي فَاسْمَعُوْا وَأَطِيْعُوْا مَا دُمْتُ فِيْكمْ فَإِذَا ذُهِبَ بِي فَعَلَيْكمْ بِکِتَابِ اللهِ أَحِلُّوا حَلَالَهُ وَحَرِّمُوْا حَرَامَهُ

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں:ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس اس طرح تشریف لائے جیسے کوئی الوداع ہونے والا لاتا ہے۔ پس آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں محمد نبی امّی ہوں۔ آپ ﷺ نے یہ تین بار فرمایا، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ مجھے کلمات کا آغاز اختتام اور ان کی جامعیت عطا کی گئی ہے اور میں جانتا ہوں کہ دوزخ کے فرشتے کتنے ہیں اور عرش اٹھانے والے فرشتے کتنے ہیں اور میری امت سے میری وجہ سے درگزر کیا گیا اور معافی دے دی گئی ہے۔ پس میرے ارشادات سنو اور اطاعت کرو جب تک میں تمہارے درمیان موجود ہوں پس جب مجھے اس دنیا سے لے جایا جائے تو تم کتاب اللہ کو اپنے اوپر لازم کرلو اور اس کے حلال جانو اور اس کے حرام کو حرام جانو۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 2: 172، رقم: 6606)


اَنبیاء کرام میں سے آدم علیہ السلام کے سب سے آخری بیٹے:

34۔

1 عَنْ أَبِيْ ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ : نَزَلَ آدَمُ بِالْھِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرِيْلُ فَنَادى بِالْأَذَانِ: اللهُ أَكبَرُ اللهُ أَكبَرُ، أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مَرَّتَيْنِ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ اٰدَمُ: مَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ: آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِیَاء

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام ہند میں نازل ہوئے اور (نازل ہونے کے بعد) آپ نے وحشت محسوس کی تو (ان کی وحشت دور کرنے کے لئے) جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور اذان دی: اَللهُ اَکْبَرُ اللهُ اَکْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دو مرتبہ کہا، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ دو مرتبہ کہا تو حضرت آدم علیہ السلام نے دریافت کیا: محمد (ﷺ) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا: آپ کی اولاد میں سے آخری نبی ﷺ۔

(أبو نعیم، حلیۃ الأولیائ، 5: 107)

(دیلمي، مسند الفردوس، 4: 271، رقم: 6798)


عرش کے پائے پر ’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ خَاتَمُ الْأَنْبِیَاء:

35۔

1عَنْ مَيْسَرَةَ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ الله! مَتٰی كنْتَ نَبِیًّا؟ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللهُ الْأَرْضَ وَاسْتَوٰى إِلٰی السَّمَآءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَخَلَقَ الْعَرْشَ كتَبَ عَلَی سَاقِ الْعَرْشِ: مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللهِ خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ وَخَلَقَ اللهُ الْجَنَّةَ الَّتِيْ أَسْکَنَهَا آدَمَ وَحَوَّاءَ وَكتَبَ اسْمِي أَيْ مَوْصُوْفًا بِالنُّبُوَّةِ أَوْ بِمَا هُوَ أَخَصُّ مِنْهَا وَهُوَ الرِّسَالَةُ عَلٰی مَا هُوَ الْمَشْهُوْرُ عَلٰی الْأَبْوَابِ وَالْأَوْرَاقِ وَالْقِبَابِ وَالْخِیَامِ وَاٰدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ أَيْ قَبْلَ أَنْ تَدْخُلَ الرُّوْحُ جَسَدَهُ فَلَمَّا أَحْیَاهُ اللهُ نَظَرَ إِلٰی الْعَرْشِ فَرَأَى اسْمِي فَأَخْبَرَهُ اللهُ تَعَالَی أَنَّهُ سَيِّدُ وَلَدِکَ فَلَمَّا غَرَّهُمَا الشَّيْطَانُ تَابَا وَاسْتَشْفَعَا بِاسْمِي إِلَيْهِ أَيْ فَقَدْ وُصِفَ ﷺ بِالنُّبُوَّةِ قَبْلَ وُجُوْدِ اٰدَمَ

حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ کب نبی بنے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے زمین کو تخلیق فرمایا اور آسمان کی طرف متوجہ ہوا پس سات آسمانوں کو خوبصورتی سے تخلیق فرمایا اور عرش کو تخلیق فرمایا اور عرش کے پائے پر ’’محمد رسول اللہ خاتم الأنبیاء‘‘ لکھا اور اللہ نے جنت کو تخلیق فرمایا جس میں حضرت آدم اور حضرت حواء کو ٹھہرایا اور میرا نام جنت کے دروازوں، پتوں اور گنبدوں پر لکھا۔ وصف نبوت کے ساتھ متصف لکھا یا اس سے زیادہ خاص یعنی رسالت کے ساتھ لکھا۔ مصنف نے لکھا: جس طرح کہ مشہور ہے اور حضرت آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے یعنی روح کے جسم میں داخل ہونے سے پہلے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے ان کو حیات بخشی انہوں نے عرش کی طرف دیکھا تو میرا نام دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو خبر دی کہ یہ تیری اولاد کے سردار ہیں۔ پھر جب حضرت آدم و حواء کو شیطان نے بہکایا تو انہوں نے توبہ کی اور میرے نام سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت طلب کی۔ پس آدم علیہ السلام کے وجود میں آنے سے قبل حضور نبی اکرم ﷺ کو نبوت کے ساتھ متصف کیا گیا۔

(حلبي، السیرۃ الحلیۃ، 1: 355)


سوالِ قبر کے جواب میں ’خاتم النبیین‘ کے الفاظ:

36۔

1عَنْ تَمِيْمٍ الدَّارِيِّ رضی الله عنه فِي حَدِيْثٍ طَوِيْلٍ فِي سُؤَالِ الْقَبْرِ فَیَقُوْلُ (اَيْ الْمَيِّتُ): اَلإِسْلَامُ دِيْنِي وَمُحَمّدٌ نَبِيِّيْ وَهوَ خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ یَقُوْلُوْنَ لَه: صَدَقْتَ

تمیم داری، قبر میں سوال کے حوالے سے ایک طویل حدیث بیان کرتے ہیں پس میت کہے گی: اسلام میرا دین ہے اور محمد ﷺ ہمارے نبی ہیں اور آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ فرشتے اسے کہتے ہیں: تو نے درست کہا۔

سیوطی، الدر المنثور، 8: 34


اُمّت میں اَئمہ مجدّدین کے بھیجے جانے سے استدلال:

37۔

1عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه فِيْمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ اللهَ عزوجل یَبْعَثُ لِھٰذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ كلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَھَا دِيْنَھَا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس (علم) میں سے جو آپ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سیکھا، روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر صدی کے آخر میں کسی ایسے شخص (یا اشخاص) کو پیدا فرمائے گا جو اس (امت) کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔

(أبو داود، السنن، کتاب الملاحم، باب ما یذکر فی قرن المئۃ، 4: 109 رقم: 4291)

(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 4: 567، 568، رقم: 8592، 8593)


2عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِي عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِي فَلَهُ أَجْرُ مِائَةِ شَهِيْدٍ

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے اس وقت میری سنت کو مضبوطی سے تھاما جب میری امت فساد میں مبتلا ہو چکی ہو گی تو اس کے لئے سو شہیدوں کے برابر ثواب ہے۔

بیہقي، کتاب الزھد الکبیر، 2: 118، رقم: 207

أبو نعیم، حلیۃ الأولیاء 8: 200


3عَنْ كثيْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْمُزَنِيِّ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ الدِّيْنَ (أَوْ قَالَ: إِنَّ الإِسْلَامَ) بَدَأَ غَرِيْبًا وَسَیَعُوْدُ غَرِيْبًا كما بَدَأَ فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَائِ قِيْلَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! مَنِ الْغُرَبَائُ؟ قَالَ: اَلَّذِيْنَ یُحْیُوْنَ سُنَّتِيْ وَیُعَلِّمُوْنَهَا عِبَادَ اللهِ

حضرت کثیر بن عبد اللہ مزنی بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بیشک دین (یا فرمایا: اسلام) کی ابتداء غریبوں سے ہوئی اور غریبوں میں ہی لوٹے گا جس طرح کہ اس کا آغاز ہوا تھا، سو غریبوں کو مبارک ہو۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! غرباء کون ہیں؟ فرمایا: وہ لوگ جو میری سنتوں کو زندہ کرتے اور اللہ کے بندوں کو ان کی تعلیم دیتے ہیں۔

(قضاعي، مسند الشہاب، 2: 138، رقم: 1052، 1053)

(بیہقي، کتاب الزھد الکبیر، 2: 117، رقم: 205 )


4عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : رَحْمَةُ اللهِ عَلَی خُلَفَائِي ثلَاَثَ مَرَّاتٍ، قَالُوْا: وَمَنْ خُلَفَاؤُکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: اَلَّذِيْنَ یُحْیُوْنَ سُنَّتِي وَیُعَلِّمُوْنَهَا النَّاسَ

حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے خلفاء پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔ یہ تین مرتبہ فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے خلفاء کون لوگ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ (لوگ) جو میری سنتوں کو زندہ کرتے ہیں اور (دوسرے) لوگوں کو ان کی تعلیم دیتے ہیں۔

(ابن عبد البر، جامع بیان العلم وفضلہ، 1: 46)

(ہندی، کنز العمال، 10: 229، الرقم: 29209)


اہلِ بیت اَطہار کے ذریعہ نجات ہونے سے استدلال:

38۔

1عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنِّي تَارِکٌ فِيْكمْ خَلِيْفَتَيْنِ: كتَابَ اللهِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ۔ أَوْ مَا بَيْنَ السَّمَاء إِلَی الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَھْلَ بَيْتِي، وَإِنَّھُمَا لَنْ يَّتَفَرَّقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک میں تم میں دو نائب چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب جو کہ آسمان و زمین کے درمیان پھیلی ہوئی رسی (کی طرح) ہے اور میری عترت یعنی میرے اہلِ بیت اور یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہیں ہوں گے جب تک یہ میرے پاس حوض کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔

(أحمد بن حنبل، المسند، 5: 181، رقم: 21618)

( ہیثمي، مجمع الزوائد، 9: 162)


2عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضی الله عنه في رِوَایَةٍ طَوِيْلَةٍ: قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : انْظُرُوْا كيْفَ تَخْلُفُوْنِيْ فِي الثَّقَلَيْنِ۔ فَنَادٰى مُنَادٍ: وَمَا الثَّقَلاَنِ یَا رَسُوْلَ اللهِ؟ قَالَ: كتَابُ اللهِ طَرَفٌ بِیَدِ اللهِ وَطَرَفٌ بِأَيْدِيْكمْ فَاسْتَمْسِکُوْا بِهِ لاَ تَضِلُّوْا، وَالآخَرُ عِتْرَتِي وَإِنَّ اللَّطِيْفَ الْخَبِيْرَ نَبَّأَنِي أَنَّھُمَا لَنْ يَّتَفَرَّقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، سَأَلْتُ رَبِّي ذٰلِکَ لَھُمَا، فَلاَ تَقَدَّمُوْھُمَا فَتَھْلِکُوْا، وَلاَ تَقْصُرُوْا عَنْھُمَا فَتَھْلِکُوْا، وَلَا تُعَلِّمُوْھُمْ فَإِنَّھُمْ أَعْلَمُ مِنْکُمْ ثُمَّ أَخَذَ بِیَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ: مَنْ كنْتُ أَوْلَی بِهِ مِنْ نَفْسِي فَعَلِيٌّ وَلِیُّهٗ۔ اَللّٰهُمَّ، وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: پس یہ دیکھو کہ تم دو بھاری چیزوں میں مجھے کیسے باقی رکھتے ہو۔ پس ایک نداء دینے والے نے ندا دی کہ یا رسول اللہ ! وہ دو بھاری چیزیں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی کتاب جس کا ایک کنارا اللہ عزوجل کے ہاتھ میں اور دوسرا کنارا تمہارے ہاتھوں میں ہے پس اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رہو تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے اور دوسری چیز میری عترت ہے اور بے شک اس لطیف خبیر رب تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں چیزیں کبھی بھی جدا نہیں ہوں گی یہاں تک کہ یہ میرے پاس حوض پر حاضر ہوں گی اور ایسا ان کے لئے میں نے اپنے رب سے مانگا ہے۔ پس تم لوگ ان پر پیش قدمی نہ کرو کہ ہلاک ہو جاؤ اور نہ ہی ان سے پیچھے رہو کہ ہلاک ہو جاؤ اور نہ ان کو سکھاؤ کیونکہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں پھر آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا: پس میں جس کی جان سے بڑھ کر اسے عزیز ہوں تو یہ علی اس کا مولیٰ ہے اے اللہ ! جو علی کو اپنا دوست رکھتا ہے تو اسے اپنا دوست رکھ اور جو علی سے عداوت رکھتا ہے تو اس سے عداوت رکھ۔

(طبراني، المعجم الکبیر، 5: 166، رقم: 4971)


3عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنه قَالَ: إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَإَحْسِنُوْا الصَّـلَاةَ عَلَيْهِ فَإِنَّكمْ لاَ تَدْرُوْنَ لَعَلَّ ذٰلِکَ یُعْرَضُ عَلَيْهِ۔ قَالَ: فَقَالُوْا لَهُ: فَعَلِّمْنَا قَالَ: قُوْلُوْا: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ صَـلَا تَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَكاتِکَ عَلَی سَيِّدِ الْمُرْسَلِيْنَ وَإِمَامِ الْمُتَّقِيْنَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ إِمَامِ الْخَيْرِ وَقَائِدِ الْخَيْرِ وَرَسُوْلِ الرَّحْمَةِ، اَللّٰھُمَّ ابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا یَغْبِطُهُ بِهِ الْأَوَّلُوْنَ وَالْاٰخِرُوْنَ، اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كما صَلَّيْتَ عَلٰی إِبْرَاھِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ إِبْرَاھِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدُ مَجِيْدٌ اَللّٰھُمُّ بَارِکَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ كمَا بَارَكتَ عَلٰی إِبْرَاھِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ إِبْرَاھِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب تم حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں درودِ پاک کا نذرانہ پیش کرو تو نہایت خوبصورت انداز سے پیش کیا کرو کیونکہ شاید تم نہیں جانتے کہ یہ (ہدیہ درود) آپ ﷺ کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے تو بیان کیا کہ لوگوں نے ان سے عرض کیا: تو آپ ہی ہمیں (کوئی خوبصورت طریقہ) سکھا دیں تو انہوں نے فرمایا: تم اس طرح کہو: اے اللہ ! تو اپنے درود، رحمتیں اور (تمام) برکتیں تمام رسولوں کے سردار، تمام پرہیزگاروں کے امام اور انبیاء کے خاتم (یعنی سب سے آخری نبی) تیرے (خاص) بندے اور (سچے) رسول تمام خیر اور بھلائیوں کے امام و قائد (یعنی تمام بھلائیاں جن کے نقش پا سے جنم لیتی ہیں) اور رسول رحمت (وبرکت) کے لئے خاص فرما، اے اللہ ! حضور نبی اکرم ﷺ کو اس مقام محمود پر فائز فرما (جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور) جس پر تمام اولین و آخرین (یعنی تخلیق کائنات سے روزِ قیامت تک) کے تمام لوگ رشک کریں گے، اے اللہ ! تو درود بھیج حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کی آل پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر، بے شک تو تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا ہے، اے اللہ ! تو برکت عطا فرما حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کی آل کو جیسا کہ تو نے برکت عطا فرمائی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل کو بے شک تو بہت زیادہ تعریف کیا ہوا اور بزرگی والا ہے۔

(ابن ماجۃ، السنن، کتاب إقامۃ الصّلاۃ والسنۃ فیھا، باب الصلاۃ علی النبي ﷺ، 1: 293، رقم: 906 )

(عبد الرزاق، المصنف، 2: 214، رقم: 3112)


4عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنهما قَالَ: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فِي حَجَّتِهٖ یَوْمَ عَرَفَةَ وَھُوَ عَلٰی نَاقَتِهِ الْقَصْوَاء یَخْطُبُ فَسَمِعْتُهٗ یَقُوْلُ: یَا أَیُّھَا النَّاسُ! إِنِّيْ قَدْ تَرَكتُ فِيْكمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوْا، كتابَ اللهِ وَعِتْرَتِي أَھْلَ بَيْتِي

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو دورانِ حج عرفہ کے دن دیکھا کہ آپ ﷺ اپنی اونٹنی قصواء پرسوار خطاب فرما رہے ہیں۔ پس میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! میں نے تم میں وہ چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم اسے مضبوطی سے تھام لو تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ چیز کتاب اللہ اور میری عترت اہلِ بیت ہیں۔

(ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب مناقب أھل بیت النبي ﷺ، 5: 662، رقم؛ 3786 )

(طبراني، المعجم الأوسط، 5: 89، رقم: 4757)


5عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ : مَثَلُ أَھْلِ بَيْتِيْ مَثَلُ سَفِینَةِ نُوْحٍ عليه السلام، مَنْ ركبَ فِيْھَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْها غَرِقَ

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی سی ہے جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا۔

(طبراني، المعجم الکبیر، 12: 34، رقم: 2388 )

(طبراني، المعجم الصغیر، 1: 240، رقم: 391)


6عَنْ عَبْدِ اللهَ بْنِ الزُّبَيْرِ رضی الله عنهما قَالَ: مَنْ رَكبَها سَلِمَ، وَمَنْ تَرَكها غَرِقَ

حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو اس میں سوار ہوا وہ سلامتی پا گیا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ غرق ہو گیا۔

(طبراني، المعجم الصغیر، 2: 84، رقم: 825)


7عَنِ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَثَلُ أَھْلِ بَيْتِيْ مَثَلُ سَفِيْنَةِ نُوْحٍ علیہ السلام: مَنْ رَكبَ فِيْها نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْها غَرِقَ، وَمَنْ قَاتَلَنَا فِي آخِرِ الزَّمَانِ فَكأَنَّمَا قَاتَلَ مَعَ الدَّجَّالِ

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی سی ہے جو اس میں سوار ہو گیا نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہوگیا اور آخری زمانہ میں جو ہمیں (اہلِ بیت کو) قتل کرے گا گویا وہ دجال کے ساتھ مل کر قتال کرنے والا ہے (یعنی وہ دجال کے ساتھیوں میں سے ہے)۔

طبراني، المعجم الکبیر، 3: 45، رقم: 2637

ہیثمي، مجمع الزوائد، 9: 168


حدیثِ شفاعت میں ختم نبوت کا تذکرہ:

39۔

1عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه فِيْ حَدِيْثٍ طَوِيْلٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: فَیَأْتُوْنَ مُحَمَّدًا ﷺ فَیَقُولُونَ: یَا مُحَمَّدُ! أَنْتَ رَسُوْلُ اللهِ وَخَاتَمُ الْأَنْبِیَاء وَقَدْ غَفَرَ اللهُ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ اشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ حضور نبی اکر م ﷺ نے فرمایا: چنانچہ لوگ محمد (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوں گے، اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور انبیاء کرام میں سب سے آخری ہیں! اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرما دیئے تھے لهٰذا اپنے رب کے حضور!ہماری شفاعت فرمائیے۔

(بخاري، الصحیح، کتاب التفسیر، باب ذریۃ من حملنا مع نوح إنہ کان عبدا شکورا، 4: 1745۔ 1746، رقم: 4435 )

(مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب أدنی أھل الجنۃمنزلۃ فیھا، 1: 185، رقم: 194)


حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کی اقتداء کا حکم:

40۔

1 عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اقْتَدَوْا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِيْ مِنْ أَصْحَابِي أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ وَاهْتَدَوْا بِهَدْيِ عَمَّارٍ وَتَمَسَّکُوْا بِعَهْدِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ

حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے بعد میرے ساتھیوں ابو بکر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی اقتداء کرو عمار کی ہدایت پر عمل کرو اور عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما کے عہد کو مضبوطی سے پکڑ لو۔

(ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب مناقب عبد اللہ بن مسعود، 5: 672، رقم: 3805)


2 عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اقْتَدَوْا بِالَّلذَيْنِ مِنْ بَعْدِيْ أَبِيْ بَکْرٍ وَعُمَرَ

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے بعد ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی اقتداء کرو۔

(ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب أبي بکر وعمر کلیھما، 5: 609، رقم: 3662)

(حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 3: 79، رقم: 4452)


3حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " إِنِّي لَا أَدْرِي مَا بَقَائِي فِيكُمْ فَاقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي " , وَأَشَارَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ , وَعُمَرَ

حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا: ”میں نہیں جانتا کہ میں تمہارے درمیان کب تک رہوں گا، لہٰذا تم لوگ ان دونوں کی پیروی کرو جو میرے بعد ہوں گے اور آپ نے ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کی جانب اشارہ کیا

(ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب أبي بکر وعمر کلیھما، 5: 609، رقم: 3663)


4عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَا أَدْرِي مَا قَدْرُ بَقَائِي فِيكُمْ، فَاقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي، وَأَشَارَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ

(ابن ماجہ،باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم،بَابُ : فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،حدیث:97)


عَنْ أَبِيْ الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اقْتَدَوْا بِالَّلذَيْنِ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرُ فَإِنَّھُمَا حَبْلُ اللهِ الْمَمْدُوْدُ وَمَنْ تَمَسَّکَ بِھِمَا فَقَدْ تَمَسَّکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰی الَّتِيْ لَا انْفِصَامَ لَھَا

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ان لوگوں کی پیروی کرو جو میرے بعد آئیں گے اور وہ ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) ہیں۔ یہ دنوں اللہ تعالیٰ کی دراز و کشادہ رسیاں ہیں اور جس نے ان دونوں کو مضبوطی سے تھام لیا تحقیق اس نے ایسی مضبوط رسی کو تھام لیا جو کھلنے والی نہیں۔

(ہیثمي، مجمع الزوائد، 9: 53)


حضرت یعقوب علیہ السلام کی طرف بعثتِ خاتم الانبیاء کی وحی:

41۔

1 عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كعْبٍ الْقُرَظِيِّ قَالَ: أَوْحٰی اللهُ إِلٰی یَعْقُوْبَ أَنِّي أَبْعَثُ مِنْ ذُرِّيَّتِکَ مُلُوْكا وَأَنْبِیَاءَ حَتَّی أَبْعَثَ النَّبِيَّ الْحَرَمِيَّ الَّذِيْ تَبْنِي أُمَّتُهُ هَيْکَلَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَهُوَ خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ وَاسْمُهُ أَحْمَدُ

محمد بن کعب القرُظی سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمائی کہ میں تمہاری اولاد میں سے بادشاہ اور انبیاء کرام مبعوث فرماؤں گا یہاں تک کہ نبی حرمی کو مبعوث فرماؤں گا جن کی امت بیت المقدس کا ہیکل تعمیر کرے گی اور وہ خاتم الانبیاء ہیں اور ان کا نام احمد ہے۔

(ابن سعد، الطبقات الکبری، 1: 163)


حضرت علی سے نبوت کی نفی :

42۔

1عَنْ مُعَادٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَلِيُّ أَخَصَّمُكَ بِالنُّبُوَّةِ وَلَا نُبُوَّةَ بَعْدِي وَتُخَصَّمُ بِسَبْعٍ لَّا يُحَاجُّكَ فِيهَا أَحَدٌ، أَنْتَ أَوَّلُهُمْ إِيْمَانًا

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اے علی! میں نبوت میں تمہارے ساتھ مقابلہ کیا جاتا ہوں، مگر میرے بعد نبوت نہیں ہوسکتی ، اور تم سات چیزوں میں مقابلہ کئے جاؤ گے جن میں کوئی تم سے بڑھ نہ سکے گا، ان میں سے ایک یہ ہے کہ تم ان میں سب سے پہلے ایمان لانے والے ہو۔

(الكنز ج : 6، ص: 156 )


حضرت جبرائیل علیہ السلام کا پیغام:

43۔

1عَنْ سَلْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي حَدِيثٍ طَوِيلٍ قَالَ: قَالَ جِبْرِيلُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ رَبَّكَ يَقُولُ : إِنْ كُنتُ اصْطَفَيْتُ آدَمَ فَقَدْ خَتَمْتُ بِكَ الْأَنْبِيَاءَ وَمَا خَلَقْتُ خَلْقًا أَكْرَمَ مِنْكَ عَلَى

حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث میں روایت کیا ہے کہ جبریل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ: آپ کا کا پروردگار فرماتا ہے کہ: اگر ہم نے پ پر تمام انبیاء آدم کو صفی اللہ ہونے کا تمغہ امتیازی دے دیا ہے تو آپ کو ختم کر کے آپ کی شانِ امتیاز سب سے بڑھادی ہے، اور میں نے کوئی مخلوق ایسی پیدا نہیں کی جو میرے نزدیک آپ سے زیادہ عزیز ہو۔

(خصائص ج: 2، ص: 193)


روم کےایک نصرانی کی گواہی:

44۔

1عَنْ خَالِدِ بْنَ الْوَلِيدِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَأَلَهُ مَا هَانُ عَامِلُ مَلِكِ الرُّومِ عَلَى الشَّامِ : هَلْ كَانَ رَسُولُكُمْ أَخْبَرَكُمْ أَنَّهُ يَأْتِي بَعْدَهُ رَسُولٌ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ أَخْبَرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ وَأَخْبَرَ أَنَّ عِيسَى بْنَ مَرْيَمَ قَدْ بَشَّرَ بِهِ قَوْمَهُ. قَالَ الرُّؤْمِيُّ: وَأَنَا عَلَى ذَلِكَ مِنَ الشَّاهِدِينَ

حضرت ابو عبيدة بن الجراح رضی اللہ عنہ جب یرموک پہنچے تو لشکر روم کے سردار نے ایک قاصد بھیجا، قاصد نے کہا کہ: ملک شام کے گورنر ماہان کی طرف سے آیا ہوں، انہوں نے کہا ہے کہ: آپ ہمارے پاس اپنی جماعت میں سے ایک عقلمند کو بھیج دیجئے تاکہ ہم ان سے مکالمہ کریں، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اس کام کے لئے منتخب فرمایا، چنانچہ حضرت خالد تشریف لے گئے، دوران گفتگو ن گفتگو مایان نے دریافت کیا کہ: کیا تمہارے رسول نے تمہیں یہ خبر بھی دی ہے کہ ان کے بعد کوئی اور رسول آئے گا؟ حضرت خالد نے فرمایا کہ: نہیں! بلکہ یہ خبر دی ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، اور یہ خبر دی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے میرے وجود کی اپنی اُمت کو پہلے ہی سے بشارت دی تھی۔ ماہان رومی نے یہ سن کر کہا کہ: ہاں! میں بھی اس پر گواہ ہوں۔

(خصائص ج: 2، ص: 484)


لوح محفوظ اور ختم نبوت :

45۔

1اِنِّیْ عِنْدَالله فِیْ اُمِّ الْکِتَابِ خَاتَمُ النَّبِیِّیْن

میں لوح محفوظ میں اللہ کے پاس بھی خاتم النبیین ہوں۔

(کنزالعمال ،رقم :32141)






ختم نبوت پر آیات مبارکہ کا مجموعہ

 1۔

اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا31

 آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔


مختصر وضاحت :نبی اپنے بعد آنے والے نبی کی خوشخبری دیتے رہے، یہاں تک کہ آپ ﷺ مبعوث ہوئے، آپ ﷺ پر نزول وحی کے اختتام سے دین پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا تو آپ ﷺ کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا تمام نبیوں کی نبوتوں اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے پر مشتمل ہے، اسی لئے اس کے بعد واتممت علیکم نعمتی فرمایا، علیکم یعنی نعمت نبوت کو میں نے تم پر تمام کردیا، لہٰذا دین کے اکمال اور نعمت نبوت کے اتمام کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی آسکتا ہے اور نہ سلسلۂ وحی جاری رہ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اس آیت کے متعلق بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کےپاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا، اے امیرالمومنین ! رضی اللہ عنہ،آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے ،اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نازل ہونے کے دن عید مناتے ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا ’’ کون سی آیت؟ اس یہودی نے یہی آیت ا’’الیوم اکملت لکم‘‘ پڑھی۔ آپ  رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے نازل ہونے کے مقام کو بھی پہچانتا ہوں ، وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا۔2



مزید تفاسیر کے لئے


وَ ما اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا 283

اور اے محبوب ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا ۔


مختصر وضاحت:اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضورسیّد المرسلینﷺ وَسَلَّمَ کی رسالت عامّہ ہے، تمام انسان اس کے اِحاطہ میں  ہیں ،گورے ہوں  یا کالے، عربی ہوں  یا عجمی، پہلے ہوں  یابعد والے،سب کے لئے آپﷺ رسول ہیں  اور وہ سب آپ ﷺ کے اُمتی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی نہیں جس کو نبوت ملیں ۔


مزید تفاسیر کے لئے


قُلْ يَایُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا1584

تم فرماؤ اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں۔


مختصر وضاحت ۔یہ دونوں آیتیں صاف اعلان کررہی ہیں کہ حضور علیہ السلام تمام انسانوں کی طرف رسول ہوکر تشریف لائے ہیں جیسا کہ خود آپ ﷺ نے فرمایا ہے: انا رسول من ادرکت حیا و من یولد بعدی۔ترجمہ: میں اس کے لئے بھی اللہ کا رسول ہوں جس کو اس کی زندگی میں پالوں اور اس کے لئے بھی جو میرے بعد پیدا ہو۔5 پس ان آیتوں سے واضح ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا، قیامت تک آپ ﷺ ہی صاحب الزماں رسول ہیں۔ بالفرض اگر آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو حضور علیہ السلام کا فۃ الناس کی طرف اللہ تعالیٰ کے صاحب الزماں رسول نہیں ہوسکتے بلکہ براہ راست مستقل طور پر اسی نبی پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا اور اس کو اپنی طرف اللہ کا بھیجا ہوا اعتقاد کرنا فرض ہوگا، ورنہ نجات ممکن نہیں ۔


مزید تفاسیر کے لئے


وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِي اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِي مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗۤ اَحْمد66

اور (وہ وقت بھی یاد کیجئے) جب عیسیٰ بن مریم (علیھما السّلام) نے کہا: اے بنی اسرائیل! بیشک میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسولِ (معظّم ﷺ ) کی (آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد (ﷺ) ہے۔


مختصر وضاحت ۔قرآن حکیم میں مذکور انبیاء علیھم السلام اور ان پر نازل کردہ آسمانی کتب و صحائف کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء سابقین جہاں اپنے سے پہلے انبیاء اور ان کی طرف نازل ہونے والی وحی کی تصدیق کی وہاں آئندہ آنے والے نبی کی خوشخبری بھی سناتے رہے ہیں۔ اس کی مثال سورۃ الصف کی مذکورہ بالا آیت میں ہے جس میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ایک طرف وحی ماسبق کی تصدیق فرما رہے ہیں تو دوسری طرف اپنے بعد تشریف لانے والے نبی کا آسمانی نام لے کر خوشخبری بھی سنا رہے ہیں۔ قرآن حکیم میں اس مضمون کی آیات کثیر تعداد میں موجود ہیں جن میں سے چند آیات ہم گزشتہ صفحات میں بیان بھی کر چکے ہیں۔ لیکن قرآن اور صاحب قرآن اس باب میں فقط پہلے انبیاء اور وحی ماسبق کی تصدیق تو کرتے ہیں مگر اپنے بعد کسی نبی یا وحی کا سرے سے ذکر نہیں کرتے، لهٰذا اگر حضور ﷺ کے بعد سلسلہ نبوت کا اجراء مانا جائے تو اس کی تصدیق قرآن سے ہونی زیادہ اہم اور ضروری تھی کیونکہ کتب سابقہ کی تصدیق اگر اہلِ کتاب کو نعمت ِاسلام کی طرف راغب کرتی ہے تو زمانہ مابعد میں آنے والے انبیاء پر ایمان لانا آئندہ نسلوں کے لیے مدار نجات ہے۔قرآن اور صاحب قرآن کا انبیاء سابقین کے اسلوب کے برعکس اشد ضرورت کے باوجود اپنے بعد جدید نبی اور جدید وحی کا ذکر نہ کرنا بلکہ حتمی طور پر انقطاعِ وحی اور ختمِ نبوت کا اعلان کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی آمد منشائے ایزدی ہی نہیں۔


مزید تفاسیر کے لئے



وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ-وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ4،57

اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا اور آخرت پر یقین رکھیںوہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔


مختصر وضاحت ۔یہ آیت بڑی وضاحت سے ثابت کررہی ہے کہ ہم کو صرف حضور علیہ السلام کی نبوت اور آپ ﷺ کی وحی اور آپ ﷺ سے پہلے انبی اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ اگر بالفرض حضور علیہ السلام کے بعد کوئی بعہدئہ نبوت مشرف کیا جاتا تو ضرور تھا کہ قرآن کریم اس کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے کی بھی تاکید فرماتا، معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا۔


مزید تفاسیر کے لئے


یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِي نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِي اَنْزَلَ مِنْ قَبْل1368

اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اپنے اُن رسول پر اُتاری اور اُس کتاب پر جو پہلے اُتاری۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت میں بھی درج بالا حکم فرمایا گیا کہ اپنے سے ما قبل جو نازل ہوا اس پر ایمان لاؤ چونکہ آپ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں تو بعد کا حکم بھی نہیں دیا گیا۔


مزید تفاسیر کے لئے


 7۔

لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ1629

ہاں جو ان میں علم میں پکے اور ایمان والے ہیں وہ ایمان لاتے ہیں اُس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا۔


مختصر وضاحت ۔ یہ آیت صاف طور سے اعلان کررہی ہیں بلکہ قرآن شریف میں سینکڑوں جگہ اس قسم کی آیتیں ہیں جن میں آنحضرت ﷺ کی نبوت اور آپ ﷺ پر نازل شدہ وحی کے ساتھ آپ ﷺ سے پہلے کے نبیوں کی نبوت اور ان کی وحی پر ایمان رکھنے کے لئے حکم فرمایا گیا لیکن بعد کے نبیوں کا ذکر کہیں نہیں آتا۔ ان دو آیتوں میں صرف حضور علیہ السلام کی وحی اور حضور علیہ السلام سے پہلے نبی علیہم السلام کی وحی پر ایمان لانے کو کافی اور مدار نجات فرمایا گیا ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


8 ۔

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ910

بےشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بےشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔


مختصر وضاحت ۔ خداوندعالم نے اس آیت میں وعدہ فرمایا ہے کہ ہم خود قرآن کریم کی حفاظت فرمائیں گے یعنی محرفین کی تحریف سے اس کو بچائے رکھیں گے قیامت تک کوئی شخص اس میں ایک حرف اور ایک نقطہ کی بھی کمی زیادتی نہیں کرسکتا ،اور نیز اس کے احکام کو بھی قائم اور برقرار رکھیں گے اس کے بعد کوئی شریعت نہیں جو اس کو منسوخ کردے، غرض قرآن کے الفاظ اور معانی دونوں کی حفاظت کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضور علیہ السلام کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں ہوسکتا۔


مزید تفاسیر کے لئے


وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّه8111

اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا ۔


مختصر وضاحت ۔ اس سے بکمال وضاحت ظاہر ہے کہ اس رسول ﷺ مصدق کی بعثت سب نبیوں کے آخر میں ہوگی وہ آنحضرت ﷺ ہیں۔اس آیت کریمہ میں دو لفظ غور طلب ہیں’ ایک تو ”میثاق النبیین” جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہ عہد تمام دیگر انبیأ علیہم السلام سے لیا گیا تھا دوسرا ”ثم جاء کم”۔ لفظ ”ثم” تراخی کے لئے آتا ہے یعنی اس کے بعد جو بات مذکور ہے وہ بعد میں ہوگی اور درمیان میں زمانی فاصلہ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت سب سے آخر میں اور کچھ عرصہ کے وقفہ سے ہوگی۔ اس لئے آپ ﷺ کی آمد سے پہلے کا زمانہ’ زمانۂ فترت کہلاتا ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


10۔

هُوَ الَّذِي اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ912

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے۔


مختصر وضاحت ۔غلبہ اور بلند کرنے کی یہ صورت ہے کہ حضور ہی کی نبوت اور وحی پر مستقل طور پر ایمان لانے اور اس پر عمل کرنے کو فرض کیا ہے اور تمام انبی علیہم السلام کی نبوتوں اور وحیوں پر ایمان لانے کو اس کے تابع کردیا ہے اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ کی بعثت سب انبی کرام سے آخر ہو اور آپ ﷺ کی نبوت پر ایمان لانا سب نبیوں پر ایمان لانے کو مشتمل ہو۔ بالفرض اگر آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی باعتبار نبوت مبعوث ہو تو اس کی نبوت پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا فرض ہوگا جو دین کا اعلیٰ رکن ہوگا تو اس صورت میں تمام ادیان پر غلبہ مقصود نہیں ہوسکتا، بلکہ حضور علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لانا اور آپ ﷺ کی وحی پر ایمان لانا مغلوب ہوگا کیونکہ آنحضرت ﷺ پر اور آپ کی وحی پر ایمان رکھتے ہوئے بھی اگر اس نبی اور اس کی وحی پر ایمان نہ لایا تو نجات نہ ہوگی کافروں میں شمار ہوگا۔ کیونکہ صاحب الزمان رسول یہی ہوگا، حضور علیہ السلام صاحب الزماں رسول نہ رہیں گے۔(معاذاللہ)


مزید تفاسیر کے لئے


11۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِي اِلَیْهِمْ10913

اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب مرد ہی تھے جنہیں ہم وحی کرتے ۔


{p |مزید تفاسیر کے لئے }}



12۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِي اِلَیْهِمْ4314

اور ہم نے تم سے پہلے نہ بھیجےمگر مرد جن کی طرف ہم وحی کرتے۔


{p |مزید تفاسیر کے لئے }}


13۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِي اِلَیْهِمْ715

اور ہم نے تم سے پہلے نہ بھیجے مگر مرد جنہیں ہم وحی کرتے ۔


{p |مزید تفاسیر کے لئے }}


14۔

وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُؕاِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ5116

اور کسی آدمی کو نہیں پہنچتا کہ اللہ اس سے کلام فرمائے مگر وحی کے طور پر یا یوں کہ وہ بشر پردۂِ عظمت کے اُدھر ہو یا کوئی فرشتہ بھیجے کہ وہ اس کے حکم سے وحی کرے جو وہ چاہے بےشک وہ بلندی و حکمت والا ہے۔


مختصر وضاحت ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر نبی عَلَیْہِ السَّلَام پر وحی آتی تھی۔ نبوت کے لئے وحی لازم و ضروری ہے۔ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ہم نے آپ سے پہلے جس امت کی طرف کوئی رسول اور نبی بھیجا ،ہم اس کی طرف وحی فرماتےرہے کہ زمین و آسمان میں  میرے علاوہ کوئی معبود نہیں  جو عبادت کئے جانے کامستحق ہو، تو اخلاص کے ساتھ میری عبادت کرو اور صرف مجھے ہی معبود مانو۔17 ان تمام آیات کریمہ سے واضح ہے کہ وحی کے بغیر نبوت کا کوئی تصور نہیں ہے اور جب اس پر اجماع ہو چکا ہے کہ نزولِ قرآن کے بعد نزولِ وحی ممکن نہیں ہے تو پھر نبوت کیسے ممکن ہوئی؟تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی نبوت کا دعوٰی کرے گا وہ جھوٹ و فریب کاری کے سوا کچھ نہیں -

 دُوسر ی بات یہ ہے کہ اِس وحی (یعنی قرآن مجید ) کے ہوتے ہوئے قیامت تک کسی اور وحی کی ضرورت نہیں ہو گی اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس وحی کو یعنی قرآن مجید کو ہی قیامت تک کیلئے کافی قرار دیا گیا ہے، کیونکہ اِس وحی (قرآن مجید) میں قیامت تک کے لوگوں کی رہنمائی کیلئے مکمل سَامان موجود ہے،یہ آیت بڑی وضاحت سے ثابت کررہی ہے کہ ہم کو صرف حضور علیہ السلام کی نبوت اور آپ ﷺ کی وحی اور آپ ﷺ سے پہلے انبی اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ اگر بالفرض حضور علیہ السلام کے بعد کوئی بعہدئہ نبوت مشرف کیا جاتا تو ضرور تھا کہ قرآن کریم اس کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے کی بھی تاکید فرماتا، معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا۔


{p |مزید تفاسیر کے لئے }}


15۔

یُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَة2718

اللہ ثابت رکھتا ہے ایمان والوں کو حق بات پر دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں قولِ ثابت سے مراد وہ کلام ہے جو قبر میں ہر مسلمان قبر میں پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہے گا۔ احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ ہر مومن شخص قبر میں شہادت دے گا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے آقا و مولا حضرت محمد ﷺ کو پہچاننے کے بعد کہے گا کہ یہ میرے نبی ﷺ ہیں یہی قول ثابت ہے۔

اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قبر میں سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ ہی تشریف لائیں گے اور ہر شخص سے سوال بھی آپ ﷺ کے بارے میں کیا جائے گا۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر بالحدیث والآثار سے یہی ثابت ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ختمِ نبوت ہر مومن کے لیے دنیا سے لے کر قبر تک ایمان کا حصہ ہے اور وہاں سے حشر تک جاری و ساری ہے۔

اگر حضور ﷺ کے بعد کسی بھی قسم کا کوئی نبی مبعوث کیا جانا ہوتا اور اہلِ اسلام پر اس کی اتباع کو لازم ٹھہرایا جاتا تو لازمی طور قبر میں اس کی بھی پہچان کرائی جاتی اور امتی اس کا بھی نام لیتا لیکن اس کے بر عکس ہر مسلمان قبر میں نہ صرف اپنے آقا و مولا سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو نام لے کر پہچانتا ہے بلکہ خاتم النبیین کے الفاظ سے مرزائی اوہام کا رد بھی ہوتا ہے،نیز وہاں قادیانیوں کو بھی حق الیقین ہوجائیگا کہ ہم صریح غلطی پر تھے ۔


مزید تفاسیر کے لئے



16۔

اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَ8319

اے لوگو اس پر چلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اُترا (ف۳) اور اسے چھوڑ کر اور حاکموں کے پیچھے نہ جاؤ-


مختصر وضاحت ۔ اِس آیتِ کریمہ اور مفسرین کرام کی وضاحت سے یہ واضح ہوا کہ جب آپ (ﷺ) پر نازل ہونے والی وحی (قرآن) میں قیامت تک کے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی اور پند و نصیحت کا مکمل سامان موجود ہے اور اِس وحی (قرآن) کو ہر قسم کی تحریف و تبدیلی اور کمی و بیشی سے بھی ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیا گیا ہے -


مزید تفاسیر کے لئے


17۔

وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنْۢ بلغَؕ1920

اور میری طرف اس قرآن کی وحی ہوئی ہے کہ میں اس سے تمہیں ڈراؤں ۔


مختصر وضاحت ۔ یعنی میرے بعد قیامت تک آنے والے جن افراد تک یہ قرآنِ پاک پہنچے خواہ وہ انسان ہوں یا جن ان سب کو میں حکمِ الٰہی کی مخالفت سے ڈراؤں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جس شخص کو قرآنِ پاک پہنچا یہاں تک کہ اس نے قرآن سمجھ لیاتو گویا کہ اس نے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دیکھا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کلام مبارک سنا21 زیرِ نظر آیت کریمہ سے واضح ہے کہ یہ قرآن صر ف کسی ایک دور کے انسانوں کے لیے ہی حجت نہیں بلکہ قیامت تک ہر اس انسان کے لیے حجت ہے جس تک اس کا پیغام پہنچا۔ قرآن حکیم کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ کاانذار قیامت تک جاری ہے۔ اب قیامت تک صرف شریعتِ قرآن پر ہی عمل ہو گا کسی نئی شریعت کی ضرورت نہیں، یہی شریعت کافی و وافی ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


18۔

قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا الَّذِي لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ1922

تم فرماؤ اے لوگو میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں(ف۳۰۳) کہ آسمان وزمین کی بادشاہی اسی کو ہے۔


مختصر وضاحت ۔ یہ آیت اِس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ سیدنا حضرت محمد(ﷺ) تمام مخلوق کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں۔آقاکریم (ﷺ) کا جمیع خلق کی طرف مَبعوث کیا جانا اِس بات کو واضح کرتا ہے کہ آپ (ﷺ) کی رسالت کی دعوت قیامت تک تمام مخلوق کیلئے ہے اور تمام مخلوق آپ (ﷺ) کی رسالت پر ایمان لانے کی مکلف ہے یعنی کائنات انسانی میں خواہ اُس کا تعلق کسی بھی رنگ ،نسل ، قوم ،علاقہ اور زبان سے ہو آپ(ﷺ) اُس کے نبی اور رسول ہوں گے کیونکہ آپ (ﷺ) کی بعثت جمیع خلق کیلئے ہے -تو اس سے یہ واضح ہوا کہ کوئی بھی جھوٹی نبوت کا دعوی کرنے والا کذاب، دجال، مفتری، اگراللہ تعالیٰ کو خالق مانتا ہے اور اپنے آپ کو مخلوق اور انسانیت کی فہرست میں شمار کرتا ہے تو وہ آقا کریم (ﷺ) کی نبوت و رسالت کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا-یا تو آپ (ﷺ) کی نبوت و رسالت اور ختم نبوت پر ایمان لا کر مسلمان ہو جائےگا یا انکار کر کے کافر ہوجائے گا-اگر آپ (ﷺ) کی نبوت و رسالت پرایمان نہیں لاتا اور ختم نبوت کا انکار کرتا ہے تو انکار کرتے ہی کافر ہو جائے گا اب وہ مسلمان نہیں رہا، اب اگر وہ جھوٹی نبوت کا دعوٰی کرے گا تو کفر کی بنیاد پر کرے گا - تو کافر نبی کیسے ہو سکتا ہے؟ کیونکہ آقا پاک (ﷺ) کی نبوت و رسالت اور آپ (ﷺ) کی ختم نبوت کے انکار نے تو اُسے اسلام سے پہلے ہی باہر نکال دیا تھا - تو اِس سے واضح ہوا کہ جو بھی دجال، مفتری اور کذاب جھوٹی نبوت کا دعوٰی کرے گا تو وہ کفر کی بنیاد پر کرے گا اور کافر نبی نہیں ہو سکتا -


مزید تفاسیر کے لئے


19۔

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِين وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا4023

محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ 


مختصر وضاحت ۔ یعنی محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آخری نبی ہیں کہ اب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعدکوئی نبی نہیں آئے گا اورنبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتّٰی کہ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نازل ہو ں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں گے24 وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ نص ِقطعی قرآن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ملعون مُخَلَّد فِی النِّیْرَان (یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی) ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں شک و تَرَدُّد کو راہ دے وہ بھی کافر بَیِّنُ الْکَافِرْ جَلِیُّ الْکُفْرَانْ (یعنی واضح کافر اور اس کا کفر روشن) ہے۔25


مزید تفاسیر کے لئے


20۔

تَبٰرَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا126

بڑی برکت والا ہے وہ کہ جس نے اُتارا قرآن اپنے بندہ پر جو سارے جہان کو ڈر سُنانے والا ہو۔ 


مختصر وضاحت ۔اس آیت میں حضورسید المرسلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت عام ہونے کا بیان ہے کہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ساری مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے،خواہ جن ہوں یا بشر، فرشتے ہوں یا دیگر مخلوقات، سب آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اُمتی ہیں کیونکہ  اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز کو عالم کہتے ہیں اور اس میں یہ سب داخل ہیں ۔ نیز مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَآفَّۃً ‘‘ یعنی میں تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں 27علامہ علی قاری رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  اس کی شرح میں فرماتے ہیں :یعنی تمام موجودات کی طرف (رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، خواہ) جن ہوں یا انسان یا فرشتے یا حیوانات یا جمادات ۔28


مزید تفاسیر کے لئے


21۔

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ529

ہم کو سیدھا راستہ چلا۔


مختصر وضاحت ۔ بعض مفسرین کے نزدیک صراطِ مستقیم حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس اور آپ ﷺ کے دونوں وزیر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھما ہیں۔اس تفسیر کے مطابق اب قیامت تک حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ و اہل بیت ہی صراط مستقیم کہلائیں گے۔ آپ ﷺ کے بعد کسی کی ذات کو، اس کے گھر والوں اور اہل مجلس لوگوں کو صراط مستقیم نہیں کہا جاسکتا۔ صراط مستقیم وہ راستہ ہے جو منزل تک پہنچاتا ہے اور وہ راستہ حضور نبی اکرم ﷺ سے شروع ہوتا ہے اور آپ ﷺ کے اہلِ بیت و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعے سیدھا جنت کو جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے اہلِ بیت اور صحابہ کرام صراطِ مستقیم اس معنی میں ہیں کہ وہ براهِ راست آپ ﷺ کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے پھر آپ ﷺ کی سنت مطہرہ اور سیرت پاک کی تعلیمات کو آگے بیان کیا اور اس کی تشریح کا فریضہ سر انجام دیا۔ یہاں ختم نبوت کا نکتہ یہ ہے کہ اب قیامت تک حضور نبی اکرم ﷺ ہی ہر شخص کے لیے مینارۂ نور ہیں اور آپ ﷺ ہی کی راہ ہدایت دنیوی و اخروی کامیابی کی راہ ہے اس کے بعد کسی اور کو ہدایت کی راہ لانے کی ضرورت نہیں۔


مزید تفاسیر کے لئے


22۔

قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَاۤ اُوْتِیَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰى وَ مَاۤ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّهمْ13630

یوں کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اوراس پر جو ہماری طرف اُترا اور جو اُتارا گیا ابراہیم و اسمٰعیل و اسحق و یعقوب اور ان کی اولاد پر اور جو عطا کیے گئے موسیٰ وعیسٰی اور جو عطا کیے گئے باقی انبیاء اپنے رب کے پاس سے۔ 


مختصر وضاحت ۔ سورۃ البقرۃ کی اس آیت نمبر 136 میں مسلمانوں کو صرف نزولِ وحی کی دو قسموں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے، ایک اس وحی پر جو ان کی طرف بھیجی گئی یعنی قرآن حکیم اور دوسری وہ جو پہلے انبیاء کی طرف بھیجی گئی جن میں سے چند جلیل القدر انبیاء کے اسمائے گرامی بطور مثال درج کیے گئے۔ اس جگہ وَمَا اُوْتِیَ صیغہ ماضی اور النَّبِیُّوْنَ پر لامِ استغراق اس بات پر دلالت کر تے ہیں کہ انبیاء پر آسمانی وحی کا نزول تمام ہوچکا۔ اس کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوگی۔


مزید تفاسیر کے لئے


23۔

اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ-كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ۫-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۫ وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ28531

رسول ایمان لایا اس پر جو اس کے رب کے پاس سے اس پر اُترا اور ایمان والے سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو یہ کہتے ہوے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے اور عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا تیری معافی ہو اے رب ہمارے اور تیری ہی طرف پھرنا ہے۔


مختصر وضاحت ۔ سورۃ البقرہ، کی محولہ بالا آیت میں ختم نبوت سے متعلق دو چیزیں بطور خاص قابلِ توجہ مذکور ہیں۔

1۔ صرف اس وحی پر ایمان لانا کافی ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ سے پہلے انبیاء پر نازل ہوئی۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد وحی آنے کا کوئی امکان ہوتا توآیت میں اس پر ایمان لانے کو بھی لازم قرار دیا جاتا۔

2۔ تمام انبیاء پر ایمان لانا واجب ہے۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی کسی بھی رنگ میں (خواہ بقول مرزا قادیانی ظلی یا بروزی صورت میں) آنے والا تھا تو آیت میں ضرور بالضرور اس کی اطلاع دی جاتی اوراس پر ایمان لانے کا حکم دیا جاتا۔ عدم ذکر اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کا وجود خارج از امکان ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


24۔

اِنَّاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ كَمَاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖۚ-وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ عِیْسٰى وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ هٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰن-وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًاۚ13632

بے شک اے محبوب ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے وحی نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کو بھیجی اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں اور عیسٰی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کو وحی کی اور ہم نے داود کو زبور عطا فرمائی۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ کے ذریعے امتِ محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام کو خبردار کیا گیا ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جن کے بارے میں قرآن خاموش ہے کیونکہ اگر اس سے متعلق کوئی حکم نازل کر دیا گیا تو اس چیز میں ہمیشہ کے لیے تمہارا اختیار ختم ہوجائے گا کیونکہ قرآن حکیم سب سے آخری وحی ہے، اس کے بعد کوئی وحی نازل نہ ہو گی کہ جس کے ذریعے اس حکم میں ترمیم ممکن ہو۔


مزید تفاسیر کے لئے


25۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْۚ-وَ اِنْ تَسْـلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكمْؕ-عَفَا اللّٰهُ عَنْهَاوَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ10133

اے ایمان والو ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بُری لگیں (ف۲۴۳) اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اتررہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی اللہ انہیں معاف فرماچکا ہے اور اللہ بخشنے والا حِلم والا ہے۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ کے ذریعے امتِ محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام کو خبردار کیا گیا ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جن کے بارے میں قرآن خاموش ہے کیونکہ اگر اس سے متعلق کوئی حکم نازل کر دیا گیا تو اس چیز میں ہمیشہ کے لیے تمہارا اختیار ختم ہوجائے گا کیونکہ قرآن حکیم سب سے آخری وحی ہے، اس کے بعد کوئی وحی نازل نہ ہو گی کہ جس کے ذریعے اس حکم میں ترمیم ممکن ہو۔علامہ محمود آلوسی بغدادی روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ تبدلکم ای بالوحی کما یفیدہ تقییدہ بقولہ تعالی حین ینزل القرآن34یعنی بیان کرنے سے مراد یہ ہے کہ بذریعہ وحی بیان کردیا جائیگا جیسا کہ حین ینزل القرآن کی قید سے معلوم ہوا اس سے پتا چلا کہ یہ آیت نزول قرآن کے زمانے کے بعد انقطاع وحی کا اعلان کرتی ہے اور وہ انقطاع نبوت کو مستلزم ہے ۔)


مزید تفاسیر کے لئے


26۔

وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ4134

اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے اتارا اس کی تصدیق کرتا ہوا جو تمہارے ساتھ ہے۔


مختصر وضاحت ۔اہل کتاب کو صرف اس وحی پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا جو حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی، آپ ﷺ کے بعد کسی پر نازل کردہ وحی پر ایمان لانے کا حکم نہیں دیا گیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ وحی کا سلسلہ آپ ﷺ پر ختم ہو چکا ہے اور آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔


مزید تفاسیر کے لئے


27۔

وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَ یَكْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآءَه وَ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهمْ9135

اور جب ان سے کہا جائے کہ اللہ کے اتارے پر ایمان لاؤ تو کہتے ہیں وہ جو ہم پر اترا اس پر ایمان لاتے ہیں اور باقی سے منکر ہوتے ہیں حالانکہ وہ حق ہے ان کے پاس والے کی تصدیق فرماتا ہوا۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں صرف حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل کردہ وحی کو حق کہا گیا ہے، آپ کے بعد کسی نبی پر نازل کردہ وحی کو حق نہیں کہا گیا جو آپ ﷺ کے خاتم الوحی اور خاتم النبیین ہونے کا واضح ثبوت ہے۔


28۔

قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ9736

تم فرمادو جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو اس (جبریل)نے تو تمہارے دل پر اللہ کے حکم سے یہ قرآن اتارا اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتا۔


مختصر وضاحت ۔قرآن حکیم صرف ان آسمانی والہامی کتابوں کی تصدیق فرماتا ہے جو اس سے پہلے نازل ہوئیں، اپنے بعد کسی آسمانی کتاب کی تصدیق نہیں کرتا۔


مزید تفاسیر کے لئے


29۔

نَزَّلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ437

اس نے تم پر یہ سچی کتاب اتاری اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتی۔


مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالا آیات میں تسلسل کے ساتھ کتابِ حق کی شانِ مصدّقیت بیان ہوئی ہے۔ خاتم الانبیاء حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کی ایک واضح اور بین دلیل یہ ہے کہ آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب مبین اپنے سے پہلے نازل ہونے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔ اگر بعد میں کسی وحی کا نزول ہونا ہوتا تو اس کا تذکرہ بھی لازماً کیا جاتا۔ وہ وحی جو حضور نبی اکرم ﷺ سے پہلے نازل ہوئی اور جو وحی حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی دونوں اپنی شان اور مرتبہ میں وحی الٰہی ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ سابقہ کتبِ سماویہ اپنی صداقت و حقانیت کی تصدیق کے لیے قرآن کی محتاج ہیں۔ قرآن نے ان کی صداقت و حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ اس طرح منزل من اللہ کتابوں میں قرآن کریم نہ صرف خود وحی ہے بلکہ پہلے اترنے والی وحی کی تصدیق بھی کرنے والا ہے۔

ان آیات کریمہ سے دو چیزیں معلوم ہوئیں:

1۔ اللہ رب العزت نے اہل کتاب کو صرف قرآن مجید پر ایمان لانے کا حکم دیا اور اس کے بعد کسی اور وحی پر ایمان لانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ صراحتاً اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی اور وحی کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

2۔ قرآن مجید صرف اپنے ما قبل وحی کی تصدیق کرتا ہے اگر مابعد وحی بھی نازل ہونا ہوتی تو ضرور اس کی بھی تصدیق کی جاتی۔ قرآن کو یہ شان اس لیے عطا کی گئی کہ اس نے آخر پر آکر سلسلۂ وحی کے خاتمے کا اعلان کرنا تھا جبکہ باقی سب کتابیں اس سے پہلے آ چکی تھیں۔


مزید تفاسیر کے لئے


30۔

وَ لَمَّا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ9738

اور جب ان کے پاس اللہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے ساتھ والی کتاب (توریت) کی تصدیق فرماتی ہے۔


مختصر وضاحت ۔اس آیۂ کریمہ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ صرف ان الہامی کتابوں کے مصدق ہیں جو آپ ﷺ سے پہلے نازل ہوئیں۔ آپ ﷺ اپنے بعد کسی الہامی کتاب کے مصدق نہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں اور قرآن مجید آخری الہامی کتاب ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


31۔

وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ۪ وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا739

اور اے محبوب یاد کرو جب ہم نے نبیوں سے عہد لیا اور تم سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسٰی بن مریم سے اور ہم نے ان سے گاڑھا عہد لیا۔


مختصر وضاحت ۔یہ آیت کریمہ میثاق انبیاء کے بیان پر مشتمل ہے۔ اس میثاق میں حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ سے قبل آنے والے تمام انبیاء اپنی ارواح مبارکہ کی صورت میں شریک ہوئے۔ اللہ رب العزت نے سب سے پہلے اپنے حبیب مکرم ﷺ کا ذکر فرمایا جس کی وجہ خود زبان رسالت مآب نے بیان فرمائی ہے:عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ فی قولہ تعالیٰ {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیٖنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُّوحٍ} الاٰیۃ،قال النبي ﷺ : کنت أول النبیین في خلق وآخرھم فی البعث، فبدأ بي قبلھم قال النبي ﷺ : کنت أول النبیین في خلق وآخرھم فی البعث، فبدأ بي قبلھم 40


32۔

وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًاؕوَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًا7941

اور اے محبو ب ہم نے تمہیں سب لوگوں کے لیےرسول بھیجا اور اللہ کافی ہے گواہ۔


مختصر وضاحت ۔رسولِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام عرب و عجم اور ساری مخلوق کے لئے رسول بنائے گئے اور کل جہان آپ کا امتی کیا گیا۔ یہ سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جلیلُ القدر منصب اورعظیمُ الْمَرتَبَت قدر و مَنزِلَت کا بیان ہے۔ اَوّلین وآخرین سارے انسانوں کے آپ نبی ہیں ، حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کر یَوم قیامت تک سب انسان آپ کے امتی ہیں ، اسی لئے تمام نَبِیُّوں نے حضورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے نماز پڑھی۔

مزید تفاسیر کے لئے


33۔

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّكُمْ فَاٰمِنُوْا خَیْرًا لَّكُمْؕ17042

اے لوگو تمہارے پاس یہ رسول حق کے ساتھ تمہارے رب کی طرف سے تشریف لائے تو ایمان لاؤ اپنے بھلے کو اور اگر تم کفر کرو تو بے شک اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔


مختصر وضاحت ۔ تمام بنی نوعِ انسان کو عظیم خوشخبری سنائی جارہی ہے کہ اے لوگو! تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حق کے ساتھ تشریف لاچکے، وہ خود بھی حق ہیں اور ان کا ہر قول ، ہر ادا حق ہے، ان کی شریعت حق ہے، ان کی طبیعت حق ہے، ان کی تعلیم حق ہے، وہاں باطل کا گزر نہیں۔ لہٰذا ان پر ایمان لے آؤ، اس میں تمہارے لئے خیر ہی خیر ہے اور اگر تم 

رسخاتَمُ الْمُرْسَلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی رسالت کا انکار کروگے تو اس میں ان کا کچھ ضرر نہیں اور اللہ  عَزَّوَجَلَّ  تمہارے ایمان سے بے نیاز ہے۔قرآنِ حکیم نے اس آیت کریمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثتِ عامہ کا مضمون بیان کرتے ہوئے صرف آپ ﷺ ہی کی رسالت پر ایمان لانے کو تمام انسانیت کے لیے باعثِ خیر اور انکار کو غضب الٰہی کا باعث قرار دیا ہے۔ یہ حکم قیامت تک پیدا ہونے والی نسل انسانی کے لیے ہے۔ کوئی لمحہ اور کوئی فرد اس سے مستثنیٰ نہیں۔ لہذا حضور کی رسالت و نبوت ہی تا حشر تمام زمانوں اور تمام انسانوں کو محیط ہے۔ آپ پر ایمان لانے والے خیر سے اپنا دامن بھرتے رہیں گے اور منکرین غیض و غضبِ الٰہی کا شکار ہوتے رہیں گے۔ جب آپ ﷺ کی نبوت و رسالت قیامت تک جاری ہے توکسی اور نبی یا رسول کی آمد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔


مزید تفاسیر کے لئے


34

۔


هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ،وَّ اٰخَرِیْنَ مِنْهُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِهِمْؕ2،343

وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں (ف۶) اور بےشک وہ اس سے پہلے ضرور کُھلی گمراہی میں تھےاور ان میں سے اوروں کوپاک کرتے اور علم عطا فرماتے ہیں جو ان اگلوں سے نہ ملے۔


مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالا آیات میں حضور نبی اکرم ﷺ کی رسالت کے تمام عالمِ انسانیت پر محیط ہونے کا بیان ہے، جس سے یہ بات حتمی طور پر ثابت ہے کہ اس کائنات میں جب تک نسل انسانی کا ایک فرد بھی باقی ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی رنگ، نسل، قوم، علاقہ اور زبان سے ہو حضور نبی اکرم ﷺ بلاشرکت غیر اس کے نبی اور رسول ہوں گے نیز کائناتِ انسانی کے سارے افراد بلاامتیاز رنگ، نسل و قوم اور زمان و مکاں نبوت و رسالتِ محمدی ﷺ کے دائرے میں داخل ہیں۔


مزید تفاسیر کے لئے


3


یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا،فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ اعْتَصَمُوْا بِهٖ فَسَیُدْخِلُهُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ فَضْلٍۙ-وَّ یَهْدِیْهِمْ اِلَیْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاؕ174،17544

اے لوگو بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور اُتارا۔تو وہ جو اللہ پر ایمان لائے اور اس کی رسّی مضبوط تھامی تو عنقریب اللہ انہیں اپنی رحمت اور اپنے فضل میں داخل کرے گا اور انہیں اپنی طرف سیدھی راہ دکھائے گا۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ کی رُو سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آنے والی سب سے روشن اور واضح دلیل ہے۔ آپ ﷺ کی بعثت کے بعد کسی دلیل کی ضرورت نہ رہی۔ آفتابِ محمدی ﷺ آسمانِ نبوت پر کائنات میں قیامت تک یونہی چمکتا رہے گا، اس کی روشنی کبھی کم نہ ہوگی کہ کسی دوسرے آفتاب کی ضرورت محسوس ہو۔


مزید تفاسیر کے لئے


3


وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗۚ1745

 اور جو اس کا منکر ہو سارے گروہوں میں تو آگ اس کا وعدہ ہے ۔


مختصر وضاحت ۔سورہ ہود کی زیر نظر آیت میں اَحزاب سے مراد قیامت تک آنے والے انسانوں کے گروہ ہیں۔ ان میں سے جو بھی قرآن کا انکار کرے گا، اس کے پیغام کو جھٹلائے گا اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اس آیت سے درج ذیل اہم نکا ت اخذ ہوئے:

1۔ یہ آیت حضور نبی اکر م ﷺ کی رسالتِ عامہ کی دلیل ہے کیونکہ قرآن حکیم اور رسالتِ مصطفی ﷺ آپس میں لازم وملزوم ہیں۔ لهٰذا قیامت تک آنے والے انسانوں کے گروہوں میں سے جو کوئی رسالت مصطفی ﷺ کا انکا ر کرے وہ کافر اور جہنمی ہے۔

2۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ختمِ نبوت قرآن کا واضح پیغام ہے۔ لهٰذا منکرِ ختم نبوت صریحاً کافر ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


37۔

اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ9646

بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہان کا راہنما ۔


مختصر وضاحت ۔اس آیہ کریمہ میں قبلہ اوّل کعبۃ اللہ جسے اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ﷺ کی خاطر جملہ عالمِ اسلام کا قبلہ بنا دیا، کی اوّلیت کا بیان ہے۔ یہ امر ملحوظِ خاطر رہے کہ کعبۃ اللہ اسلام کا ایک مرکزی شعار ہے۔ یہ تمام دنیا کے اہلِ اسلام کا قبلہ ہے۔ وہ اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور حج و عمرہ میں اس کا طواف کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے قبلہ اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کی خواہش سے بنایا۔ اس آیت کریمہ سے ظاہر ہے کہ کعبۃ اللہ تمام اہلِ جہان کے لیے تا قیامت مرکز ہدایت ہے۔ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کا یہی قبلہ ہے کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ قبلہ مصطفی ﷺ کی عالمگیریت آپ ﷺ کی رسالتِ عامہ کی آئینہ دار ہے اور رسالتِ عامہ ختمِ نبوت کی مستقل دلیل ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


38

۔


یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ،وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا45،4647

اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکادینے والا آفتاب۔


مختصر وضاحت ۔العزت نے آپ ﷺ کی نبوت و رسالت اور رحمت کو جس طرح عالمگیر بنایا اور انہیں تمام زمان و مکان کی حدود و قیود سے  ماورا رکھا اسی طرح آپ ﷺ کو عطا کی گئی نعمتوں اور فضیلتوں کو بھی زمان و مکان کی حد بندیوں سے ماورا، مطلق اور غیر مقید رکھا۔ آپ ﷺ کے کسی منصب، فضیلت اور شان پر ربِّ کائنات نے کوئی قید نہیں لگائی بلکہ آپ ﷺ کی ہر شان کو مطلق اور زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد رکھا۔ ایسے عظیم اور عالم گیر نبی ﷺ کے ہوتے ہوئے کسی اور کی نبوت کا گمان بھی صریح گمراہی اور ازلی بدبختی کو دعوت دینا ہے، قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی آپ کے فضائل اور اعزازات کو بیان کیا گیا تو انہیں مطلق رکھا گیا مثلاً فضیلت شاہدیت کا بیان اس نکتے کو کھول دیتا ہے۔

جب کبھی ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص شاہد یعنی گواہ ہے تو فوراً ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ کس چیز کا گواہ؟ اس لیے کہ جب تک کوئی شے متعین نہ کی جائے اس وقت تک گواہی کا تصور واضح نہیں ہوتا۔ اب کائنات کی ساری شہادتیں متعین ہیں لیکن شہادت مصطفوی ﷺ کو غیر متعین رکھ دیا گیا ہے اس کا مفہوم اس کے سوا اور کیا ہے کہ ازل سے ابد تک کائنات کی جس شے پر بھی گواہی مطلوب ہوگی، آپ کو اس پر گواہ بنایا جائے گا جبکہ اوروں کی شہادتیں زمان و مکان کے ساتھ مقید ہیں مگر حضور ﷺ کی شہادت اور گواہی ان حدود و قیود سے ماورا، مطلق اور عالمگیریت کی شان لیے ہوئے ہے، قرآن مجید نے گواہی کے اس تصور کو بڑی وضاحت کے ساتھ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں بیان کردیا ہے۔اس آیت کریمہ میں حضور ختمی مرتبت علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی تین شانوں کا ذکر ہے جو آپ ﷺ کے تمام عالمِ خلق کے شاہد اور مبشر و نذیر ہونے سے عبارت ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


3


قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًاؕ-اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ۠9048

 تم فرماؤ میں قرآن پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا وہ تو نہیں مگر نصیحت سارے جہان کو 

۔


مختصر وضاحت ۔

 اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہمارے آقا و مولا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تمام مخلوق کی طرف مبعوث ہیں اور آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعوت تمام مخلوق کو عام ہے اور کل جہان آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُمت ہے49


مزید تفاسیر کے لئے


40۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ10750

اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔


مختصر وضاحت ۔ تاجدارِ رسالت صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نبیوں، رسولوں اور فرشتوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے رحمت ہیں ، دین و دنیا میں رحمت ہیں ، جِنّات اور انسانوں کے لئے رحمت ہیں ، مومن و کافر کے لئے رحمت ہیں ، حیوانات، نباتات اور جمادات کے لئے رحمت ہیں الغرض عالَم میں جتنی چیزیں داخل ہیں ، سیّدُ المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سب کے لئے رحمت ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا رحمت ہونا عام ہے، ایمان والے کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ لایا ۔ مومن کے لئے تو آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لئے آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دنیامیں رحمت ہیں کہ آپ صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بدولت اس کے دُنْیَوی عذاب کو مُؤخَّر کر دیا گیا اور اس سے زمین میں دھنسانے کا عذاب، شکلیں بگاڑ دینے کا عذاب اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا عذاب اٹھا دیا گیا۔51

اس اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عالَم ماسوائے  اللہ کو کہتے ہیں جس میں انبیاء وملائکہ سب داخل ہیں ۔ تو لاجَرم (یعنی لازمی طور پر) حضور پُر نور، سیّد المرسَلین صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سب پر رحمت و نعمت ِربُّ الارباب ہوئے ، اور وہ سب حضور کی سرکارِ عالی مدار سے بہرہ مند وفیضیاب ۔ اسی لئے اولیائے کاملین وعلمائے عاملین تصریحیں فرماتے ہیں کہ’’ ازل سے ابد تک ،ارض وسماء میں ، اُولیٰ وآخرت میں،دین ودنیا میں ، روح وجسم میں ، چھوٹی یا بڑی ، بہت یا تھوڑی ، جو نعمت ودولت کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی سب حضور کی بارگاہ ِجہاں پناہ سے بٹی اور بٹتی ہے اور ہمیشہ بٹے گی۔52 جب یہ رحمت اپنے پورے جوبن پر ہے اور اس رحمت نے پوری کائنات کو اپنے ضمن میں لیا ہوا ہے تو پھر اور نبی کی کیا ضرورت باقی رھ جاتی ہے آپ ﷺ کی رحمت عامہ آپ علیہ السلام کی ختم نبوت کی واضح دلیل ہے ۔


مزید تفاسیر کے لئے


41۔

اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ۠8753

وہ تو نہیں مگر نصیحت سارے جہان کے لیے۔


مختصر وضاحت ۔ قرآن پاک قیامت تک تمام جہانوں کے لئے نصیحت ہے جب ہر زمانے کے لئے نصیحت موجود ہے تو اب کسی نصیحت کی ضرورت نہیں یہی خدا کا آخری پیغام ہے اور آخری نصیحت ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


42۔

یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ 15754

وہ انہیں بھلائی کا حکم دے گا اور برائی سے منع فرمائے گا اور ستھری چیزیں ان کے لیے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں اُن پر حرام کرے گا ۔


مختصر وضاحت ۔اس آیۂ مقدسہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے دو بنیادی فرائض نبوت کا ذکر کرتے ہوئے آپ ﷺ کو احکامِ شریعت کی تبلیغ و دعوت، دین کی تجدید اور احیاء حتی کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے نظام کو جاری رکھنے کا منصب عطا کیا۔ ان امور کی انجام دہی کارِ نبوت ہے اور یہی منصب رسالت ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ کے فرائض منصبی کے دو حصے ہیں جو اس طرح ہیں:

1۔ حضور ﷺ امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا فریضہ ادا کرتے یعنی آپ ﷺ نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع فرماتے۔

2۔ حضور ﷺ نے اپنی امت کے لیے پاک چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام فرمایا۔ اب جس شے کو آپ ﷺ حلال کہہ دیں وہ حلال ہے اور جس کو حرام کہہ دیں وہ حرام ہے۔ چیزوں کو حلال اور ناپاک کو حرام قرار دینا، یہ نبی کا تشریعی اختیار ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


43۔

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ16455

بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہےاور انھیں پاک کرتااور انھیں کتاب و حکمت سکھاتاہے۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں کارِ نبوت کی انجام دہی کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کے درج ذیل چار فرائض مذکور ہیں:


1۔ تلاوتِ آیات

2۔ تزکیۂ نفوس

3۔ تعلیمِ کتاب

4۔ تعلیمِ حکمت

حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد یہ چاروں اجزائے نبوت آپ ﷺ کی امت کو منتقل کر دیئے گئے ہیں۔ جب نبوت کے کام اس طرح جاری وساری ہے تو پھر اور کسی نبوت کا تصور کیا جائے ۔







مزید تفاسیر کے لئے


44۔

فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ3556

تو رسولوں پر کیا ہے مگر صاف پہونچا دینا  ۔


مختصر وضاحت ۔اس آیۂ کریمہ میں پیکرانِ رسالت کے بھیجے جانے کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے ان کا مقصدِ وحید پیغام حق لوگوں تک پہنچانا تھا جبکہ ہمارے آقا و مولا حضور نبی رحمت ﷺ کے سپرد صرف ابلاغِ مبین نہیں بلکہ ان مقاصدِ خمسہ کی تکمیل بھی ہے جو آپ ﷺ کو عطا کیے گئے۔ نبوت محمدی ﷺ کے ان پانچ مقاصد کی اس طرح ہے:نبوت ما قبل کی تنسیخ،تکمیل احکام شریعت،تخفیف احکام شریعت،تبلیغ احکام شریعت اور تنفیذ احکام شریعت ،حضور نبی اکرم ﷺ کے مقاصدِ بعثت کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے وہ سارے کام سرانجام دیئے جو یکے بعد دیگرے انبیاء کرام علیھم السّلام اپنے فریضہ نبوت کی بجاآوری کے لیے انجام دیتے رہے۔ جس سے دین کا کام بہمہ وجوہ مکمل ہو گیا حضور ﷺ کی نافذ کردہ شریعت نے دین پر عمل پیرا ہونا ہر فردِ امت کے لیے آسان کر دیا اور کوئی کام ایسا نہ رہا جس کی تکمیل احکامِ شریعت کی تعمیل کے لیے ضروری ہو۔ اس طرح فریضہ تبلیغ کا جو کام حضور نبی اکرم ﷺ کے ذمہ تھا اس کو آپ ﷺ نے مکمل کیا اور بعد میں اسے مداومت کے ساتھ جاری رکھنے کا ذمہ امت کے سپرد کر دیا حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد چونکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے اس لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے بعد فرائض نبوت بتمام و کمال سرانجام دینے کے لیے وہ امور جن کو غیر نبی امتی انجام دے سکتے تھے انہیں سونپ دیے اور انہیں حکم دیا کہ وہ انہیں مداومت کے ساتھ جاری رکھیں تاکہ دین اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے تبلیغ و تنفیذ شریعت اور دیگر دینی امور کی ذمہ داری امت کے صحیح الفہم اور صائب الرائے افراد کے سپرد کر دی گئی چونکہ بعثت نبوی کے مقاصد پورے اور مکمل ہو چکے ہیں اس لیے حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد اب قیامت تک کسی نئے نبی کی مطلقاً ضرورت نہ رہی۔


مزید تفاسیر کے لئے


45۔

فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِي اَنْزَلْنَاوَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ857

تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول اور اس نور پر جو ہم نے اتارا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔


مختصر وضاحت ۔ اس آیت کریمہ میں رَسُوْلِهٖ سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات مراد ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنی الوہیت کے بعد آپ ﷺ ہی کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔ یہ حکم قیامت تک آنے والے ہر ہر انسان کے لیے ہے۔ کوئی زمانہ اور کوئی فردِ بشر اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا آپ ﷺ کے بعد کسی نئے نبی پر ایمان لانے کا حکم نہ دینا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ آخری نبی ہیں۔


مزید تفاسیر کے لئے


46۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ6258

ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر یقین لائے۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بعد سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والوں کو مومن کہا گیا ہے۔ قیامت تک وہی شخص مومن ہو گا جو ایمان باللہ کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لائے گا۔


مزید تفاسیر کے لئے


47۔

فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِي اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠15759

 تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُتراوہی بامراد ہوئے۔


مختصر وضاحت ۔اس آیتِ کریمہ میں تعلق بالرّسول ﷺ کی درج ذیل چار بنیادیں اور ان کی قرآنی ترتیب ملاحظہ فرمائیں:

1۔ ایمان بالرسول ﷺ

2۔ تعظیمِ رسول ﷺ

3۔ نصرتِ رسول ﷺ

4۔ اتباعِ رسول ﷺ

تعلق کی پہلی دو جہتوں (ایمان اور تعظیم) میں مرکز و محور حضور ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے جبکہ تعلق کی نوعیت ذاتی، حبیّ اور ادبی ہے، جبکہ دوسری دو جہتوں (نصرت و اتباع) میں مرکز و محور حضور ﷺ کا دین اور آپ ﷺ کی تعلیمات ہیں اور تعلق کی نوعیت تعلیماتی، عملی اور اتباعی ہے۔ قرآن مجید نے چار جہات تعلق کو ایک خاص ترتیب سے بیان کرکے یہ واضح فرما دیا ہے کہ اسلام میں اوّلاً حضور ﷺ کی ذاتِ گرامی سے محبت وادب اور اعتماد و اعتقاد کا تعلق استوار ہوتا ہے اور بعد میں نتیجتاً آپ ﷺ کے دین اور تعلیمات سے عمل و اطاعت اور اتباع و نصرت کا تعلق پیدا ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ جو لوگ آپ ﷺ کے ساتھ ان چار جہات سے تعلق کو مضبوط کر لیں گے فلاحِ دارین انہی کا مقدر بنے گی۔ یہ تعلق حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کی امت کے درمیان قیامت تک قائم ہے، کسی ایک لمحہ کے لیے بھی منقطع نہیں ہو سکتا۔ آیت کریمہ میں آپ ﷺ کے بعدکسی شخص کے لیے اس قسم کے تعلق کا حکم نہیں دیا گیا اور نہ ہی آپ ﷺ کے بعد کسی شخص کے ساتھ اس چہار جہتی تعلق استوار کرنے پرکامیابی کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہ اس بات کا واضح اعلان ہے کہ آپ ﷺ سلسلۂ نبوت کے خاتم ہیں، ایمان بالرسول، تعظیم رسول، نصرت رسول اور اتباع رسول کی تمام حدیں اور تمام تقاضے آپ ﷺ کی ذات پر ختم ہو چکے۔ لہذا آپ کے بعد جو کوئی بھی اپنے لیے ان تقاضوں کو ثابت کرنے کی کوشش کرے وہ کذّاب ہو گا۔


مزید تفاسیر کے لئے


48۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌۚۙ2860

اے ایمان والواللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ اپنی رحمت کے دو حصّے تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے نور کردے گا جس میں چلو اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔


مختصر وضاحت ۔ اس آیت کریمہ میں رحمت و بخششِ خداوندی کا وعدہ صرف حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے پر کیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کے بعد کسی شخص پر ایمان لانے پر رحمت و بخشش کا وعدہ نہیں کیا گیا کیونکہ آپ ﷺ پر انبیاء کی آمد کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے، آپ ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی آمد کا سرے سے امکان ہی نہیں۔ اگر کوئی رحمت و بخشش خداوندی کا طلبگار ہے تو اسے صرف نبوت و رسالت محمدی ﷺ پر ایمان لانا ہو گا۔


مزید تفاسیر کے لئے


49۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنْجِیْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَۙ10،1161

اے ایمان والو کیا میں بتادوں وہ سودا گری جو تمہیں دردناک عذاب سے بچالے۔ایمان رکھو اللہ اور اس کے رسول پر اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ ایمان باللہ کے بعد صرف حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان رکھنا ہی اخروی عذاب سے بچنے کے لیے کافی ہے۔ اگر امت میں آپ ﷺ کے بعد کسی نبی کی آمد متوقع ہوتی تو ضرور بالضرور اس پر ایمان لانے کو بھی اخروی عذاب سے نجات کا لازمہ قرار دیا جاتا۔ چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی آمد متوقع نہیں اس لیے اخروی عذاب سے چھٹکارے کے لیے فقط آپ ﷺ پر ایمان ہی کو کافی قرار دیا گیا۔


مزید تفاسیر کے لئے


50۔

اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْه فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ اَنْفَقُوْا لَهُمْ اَجْرٌ كَبِیْرٌ762

اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی راہ(میں) کچھ وہ خرچ کرو جس میں تمہیں اَوروں کا جانشین کیا تو جو تم میں ایمان لائے اور اس کی راہ میں خرچ کیا اُن کے لیے بڑا ثواب ہے۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں بھی ایمان باللہ کے بعد صرف حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانے کو اجرِ کبیر کے حصول کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی نبی کا آنا مقدر ہوتا تو اس پر ایمان لانے کو بھی حصول اجر کا ذریعہ قرار دیا جاتا۔


مزید تفاسیر کے لئے


51۔

وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۙ-كَفَّرَ عَنْهُمْ سَیِّاٰتِهِمْ وَ اَصْلَحَ بَالَهُمْ263

 اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور اس پر ایمان لائے جو محمّد پر اتارا گیا اور وہی ان کے رب کے پاس سے حق ہے اللہ نے ان کی بُرائیاں اُتار دیں اور اُن کی حالتیں سنوار دیں۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں صرف ان لوگو علیہ السلام کے گناہ مٹائے جانے کا وعدہ خداوندی ہے جو اس کتاب پر ایمان لائے جو حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل کی گئی۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد بھی کسی کو نبی بنا کر بھیجنا ہوتا اور اس پر کوئی کتاب وغیرہ نازل کرنا ہوتی تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس پر ایمان لانے والے کے لیے بھی گناہ مٹانے کا وعدہ فرماتا چونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی آمد خالی از امکان تھی اس لیے یہاں اس کا ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس آیت کریمہ میں ایمان کو بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے، لهٰذا قیامت تک اہلِ ایما ن صرف وہی ہوں گے جو اس کتاب پر ایمان لائیں گے جو حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل کردہ کتاب یعنی قرآن حکیم پر ایمان لائیں گے۔ اس کتاب حکیم کے بعد کسی شخص پرنزولِ کتاب کا دعویٰ باطل ہوگا اور اس پر ایمان لانے والا کافر ہو گا۔


مزید تفاسیر کے لئے


52۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ-فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠5964

اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اٹھے تو اُسے اللہ و رسول کے حضور رجوع کرو اگر اللہ و قیامت پر ایمان رکھتے ہو (۱۶۹) یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مطاع مطلق قیامت تک نبی کریم ﷺ کی ذات کو قرار دیا ۔


مزید تفاسیر کے لئے


53۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ2065

اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔


مختصر وضاحت ۔ حضور سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت و فرمانبرداری فرض ہے، قرآنِ پاک کی متعدد آیات میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا حکم دیا گیا بلکہ رب تعالیٰ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا اورا س پر ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا اور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نافرمانی پرعذاب جہنم کا مژدہ سنایا ،لہٰذا جس کام کا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکم فرمایا اسے کرنا اور جس سے منع فرمایا اس سے رک جانا ضروری ہے،یہاں اہل ایمان کو اطاعت الہی اور اطاعت مصطفی ﷺ کا حکم دیا گیا۔


مزید تفاسیر کے لئے


54۔

وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ4666

اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔


مختصر وضاحت ۔اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کا حکم ہمیشہ کیلئے ہے۔67


مزید تفاسیر کے لئے


55۔

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ8068

جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا ۔


مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالا آیات کریمہ واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ مطاع مطلق اللہ اور رسول ﷺ کی ذات ہے۔ ان دونوں کی اطاعت فی الحقیقت مستقل، دائمی، حتمی، قطعی اور غیر مشروط ہے اس لیے فرمایا اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو اور اس کے بعد جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کی جائے۔

استدلال؛آیت میں لفظ یُطِع مضارع کا صیغہ ہے۔ عربی زبان میں تینوں زمانوں کے لیے دو صیغے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ایک ماضی اور دوسرا حال اور مستقبل کے لیے۔ ماضی وہ زمانہ ہوتا ہے جو بیت گیا اور حال وہ زمانہ ہوتا ہے جو کبھی گزرتا نہیں یعنی ایسا وقت جو ہر گھڑی قائم رہتا ہے اور کبھی ختم نہیں ہوتا۔ مستقبل کا معنی ہے آئندہ آنے والا۔ ہم آئندہ کل کو مستقبل کہتے ہیں اور جب اس میں داخل ہوتے ہیں تو اس سے اگلا کل ہمارے لیے مستقبل ہو جاتا ہے، لهٰذا جس طرح زمانہ حال کبھی ختم نہیں ہوتا اسی طرح زمانہ مستقبل بھی کبھی ختم نہیں ہوتا یعنی ان دونوں زمانوں میں دوام کارفرما ہے۔ اس آیت کریمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کے لیے مضارع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس میں دوام اور ہمیشگی کا معنی پایا جاتا ہے کیونکہ فعل مضارع بیک وقت حال اور مستقبل یعنی دونوں زمانوں پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ لفظ ’یطیع‘ کا معنی و مفہوم یہ ہو گا کہ جو کوئی اس رسول ﷺ کی اطاعت کرتا ہے یا کرے گا اس کی کوئی حد نہیں کہ کب تک کرے گا بلکہ عموم کا مفہوم اس پر دلالت کرتا ہے کہ جب تک کسی نہ کسی شکل میں نبی کی اطاعت کرنے والے موجود ہوں گے تب تک نبی ﷺ کی نبوت و رسالت دائماً قائم رہے گی۔

دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ لفظ یطیع فعل مضارع میں دوام اور ہمیشگی کا معنی پایا جاتا ہے، اس لیے اطاعت رسول ﷺ کا حکم بھی دوام اور ہمیشگی کا معنی لیے ہوئے ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر زمانہ میں بلافصل ہو گی۔ جس طرح رسالت محمدی ﷺ کا آفتاب دورِ صحابہ میں پوری آب و تاب سے چمکتا تھا اسی طرح آج بھی چمک رہا ہے اور اسی طرح قیامت تک چمکتا رہے گا۔ چنانچہ قیامت تک ہر طالب ہدایت آفتاب رسالت محمدی ﷺ سے ضوگیر رہے گا، جس کے ہوتے ہوئے کسی اور نبی کا تصور کرنا معاذ اللہ آپ ﷺ کی رسالت و نبوت کا انکار ہے جو صریحاً کفر ہے۔

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ میں لفظ رسول پر ال لگا کر اسے معرّف باللام بنایا گیا ہے۔ عربی زبان میں کوئی لفظ معرّف باللام ہو کر معرفہ بن جاتا ہے۔ چنانچہ یہاں الرّسول سے عام رسول نہیں بلکہ خاص رسول مراد ہے اور وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی ہی ہے۔ اب قیامت تک صرف آپ ﷺ کی ذات مطاعِ مطلق ہے







مزید تفاسیر کے لئے


56۔

وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ3669

اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو اُنہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نبی ﷺ کی اطاعت کو فرض قرار دیا جس میں کسی کو چون چرا کرنے کی قطعا اجازت نہیں ہے ۔


مزید تفاسیر کے لئے


57۔

فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا6570

تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرمادو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں ۔


مختصر وضاحت ۔ حبیب ِ خدا، محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کو تسلیم کرنا فرضِ قطعی ہے۔ جو شخص تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا وہ کافر ہے، ایمان کا مدار ہی اللہ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم کو تسلیم کرنے پر ہے۔جس طرح قرآن میں مذکور ہر حکمِ الٰہی قیامت تک اہل ایمان کے لیے واجب الاطاعت ہے اسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ کا حکم بھی قیامت تک ان کے لیے حجت ہے۔ جب قرآن فقط حکم رسالت مآب ﷺ کو قیامت تک حجت اور مفروض الاطاعت قرار دے رہا ہے توپھر کسی اور کا حکم آپ ﷺ کے بعد کس طرح حجت آ سکتا ہے؟ اگر اس طرح کے امکان کو بالفرض تسلیم کرلیا جائے تو پھر حکم محمدی ﷺ کی قطعیت باقی نہیں رہتی اور یہ نص قرآنی کے خلاف ہے، نیز اس طرح کی دوئی سے محبت میں یکتائی نہیں رہتی اور وہ تقسیم ہو جاتی ہے۔ قرآن کا منشا اس امر کا متقاضی ہے کہ ساری وفاداریاں اور محبتیں رسول اللہ ﷺ سے محبت اور وفا پر قربان کر دی جائیں کیونکہ اس باب میں حضور نبی اکرم ﷺ تو والدین سے محبت کو بھی اپنی محبت سے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتے حتی کہ اولاد اور خود اپنی ذات سے محبت بھی رسول ﷺ کی محبت میں شریک نہیں ہو سکتی۔


مزید تفاسیر کے لئے


58۔

اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاوَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ5171

مسلمانوں کی بات تو یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول اُن میں فیصلہ فرمائے تو عرض کریں ہم نے سُنا اور حکم مانا او ریہی لوگ مراد کو پہنچے۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس رسول کی اطاعت کی دعوت دی گئی ہے وہ صرف حضور نبی اکرم ﷺ ہیں۔ اہل ایمان آپ ﷺ ہی کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور آپ ﷺ ہی کی اطاعت گزاری میں ان کے لیے فلاح کا مژدہ ہے۔ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔


مزید تفاسیر کے لئے


59۔

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ5272

اور جو حکم مانے اللہ اور اس کے رسول کا اور اللہ سے ڈرے اور پرہیزگاری کرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں بھی اطاعت الٰہی کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کو حصول مراد کا وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔ اگر حضور ﷺ کے بعد بھی کسی نبی کا آنا مقدر تھا تو ضرور اس کی اطاعت کو بھی شامل کیا جاتا۔


مزید تفاسیر کے لئے


60۔

قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَۚ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْهِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیْكُمْ مَّا حُمِّلْتُم وَ اِنْ تُطِیْعُوْهُ تَهْتَدُوْاؕ-وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ5473

تم فرماؤ حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا پھر اگر تم منہ پھیرو تو رسول کے ذمہ وہی ہے جو اُس پر لازم کیا گیا اور تم پر وہ ہے جس کا بوجھ تم پر رکھا گیا اور اگر رسول کی فرمان برداری کرو گے راہ پاؤ گے اور رسول کے ذمہ نہیں مگر صاف پہنچا دینا۔


مختصر وضاحت ۔حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت قیامت تک کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ افراد امت آپ ﷺ کی اطاعت کرتے رہیں گے اور ہدایت پاتے رہیں گے۔


مزید تفاسیر کے لئے


61۔

وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ5674

اور نماز برپا رکھو اور زکوٰۃ دو اور رسول کی فرمان برداری کرو اس اُمید پر کہ تم پر رحم ہو۔


مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالا آیات میں اطاعتِ رسول کے حوالے سے حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے اور ان دونوں اطاعتوں میں تفریق اور انقطاع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جملہ انبیاء علیہم السلام میں صرف حضور ﷺ خاتم النبیین ہیں جن کی اطاعت قیامت تک مطلقاً واجب قرار دی گئی۔ مذکورہ بالاآیات میں صیغۂ امر سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ آپ ﷺ کی اطاعت کے وجوب کا ذکر ہے۔ ان آیاتِ بینات کی رو سے ان دونوں اطاعتوں کا وجوب دائمی ہے۔ ان دونوں میں تفریق نہیں کی جا سکتی۔ ایسا ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت تو جاری رہے اور مصطفی ﷺ کی اطاعت منقطع ہو جائے، اب قیامت تک اطاعتِ الٰہی کے ساتھ صرف حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت کی جائے گی۔ درمیان میں کوئی اور مطاع نہیں ہو سکتا۔


مزید تفاسیر کے لئے


62۔

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاؕ6975

اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں صاف طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ صرف اطاعت مصطفی ﷺ اللہ کے انعا م یافتہ بندوں میں شمولیت کے لیے کافی ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


63۔

وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ7176

 اور اللہ و رسول کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا بےشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں رسول کی اطاعت سے مراد حضور نبی اکرم ﷺ ہی کی اطاعت ہے۔ اسی اطاعت کی بدولت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم و کرم فرماتا ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


64۔

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَه فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا7177

اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمان برداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ جو اطاعت مصطفی ﷺ کریگا اسی کو بڑی کامیابی نہیں ہوگی۔


مزید تفاسیر کے لئے


65۔

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُۚ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبْهُ عَذَابًا اَلِیْمًا۠1778

 اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے اللہ اسے باغوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں رواں اور جو پھر جائے گا اُسے دردناک عذاب فرمائے گا۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا کہ جو اطاعت نبی ﷺ اختیار کریگا وہی جنت میں داخل ہوگا تو اب کسی اور کی اطاعت دخول جنت کا سبب نہیں بن سکتی۔


مزید تفاسیر کے لئے


66۔

یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ كَثِیْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ ﱟ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ ،یَّهْدِي بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ15،1679

اے کتاب والو بے شک تمہارے پاس ہمارے یہ رسول تشریف لائے کہ تم پر ظاہر فرماتے ہیں بہت سی وہ چیزیں جو تم نے کتاب میں چھپا ڈالی تھیں اور بہت سی معاف فرماتے ہیں بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاباللہ اس سے ہدایت دیتا ہے اُسے جو اللہ کی مرضی پر چلا سلامتی کے راستے اور انہیں اندھیریوں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے اپنے حکم سے اور انہیں سیدھی راہ دکھاتا ہے ۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا کہ نبی ﷺ کی ذات کی بدولت لوگوں کو ایمان کی دولت اور ہدایت نصیب ہوتی ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


67۔

وَ اكْتُبْ لَنَا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَاۤ اِلَیْك قَالَ عَذَابِیْۤ اُصِیْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُۚ-وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍؕ-فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَۚ156،15780

اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھلائی لکھ (ف۲۹۲) اور آخرت میں بے شک ہم تیری طرف رجوع لائے فرمایا میرا عذاب میں جسے چاہوں دوں اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہےتو عنقریب میں نعمتوں کو ان کے لیے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے امت سے بوجھ اور طوق قیود دور کرنے کا کی نسبت محض نبی ﷺ کی طرف کیں ہے ۔


مزید تفاسیر کے لئے


68۔

اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْب فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَّ اَجْرٍ كَرِیْمٍ1181

تم تو اُسی کو ڈر سناتے ہو جو نصیحت پر چلے اور رحمٰن سے بے دیکھے ڈرے تو اُسے بخشش اور عزت کے ثواب کی بشارت دو۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ جس کی نصیحت پرعمل کیا جائیگا وہ ذات والا صرف نبی ﷺ کی ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


69۔

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ6482

اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) اللہ تمہیں کافی ہے اور یہ جتنے مسلمان تمہارے پیرو ہوئے۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا کہ اللہ تعالی کی مدد شامل حال جب ہی ہوتی ہے جب نبی ﷺ کی کامل اتباع کی جائے ۔


مزید تفاسیر کے لئے


70۔

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اسْتَجِيْبُوْا ِللهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكمْ لِمَا یُحْیِيْکُمْ وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللهَ یَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْء وَقَلْبِهٖ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ2483

اے ایمان والو! جب (بھی) رسول (ﷺ) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول (ﷺ) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان (شانِ قربتِ خاصہ کے ساتھ) حائل ہوتا ہے اور یہ کہ تم سب (بالآخر) اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے۔


مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالا ارشادات ربّانی میں اتباع و اطاعت رسول ﷺ کے حوالے سے اس نکتے پر زور دیا گیا ہے کہ دنیوی و اخروی نجات کا دارومدار حضور نبی اکرم ﷺ کی غیر مشروط غلامی اور فرماں برداری پر ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات ستودہ صفات نہ صرف مطاعِ مطلق ہے بلکہ مدار نجات بھی فقط آپ ﷺ ہی کی اطاعت و اتباع ہے۔ دنیوی و اخروی فوزو فلاح اور کامیابی کا انحصار صرف آپ ﷺ کی غلامی اور آپ ﷺ کی ذات سے کامل وابستگی ہے۔ جو آپ ﷺ کے در کا گدا ہے وہی زمانے کا تاجدار ہے۔ بارگاهِ الٰہی سے رحم وکرم اور مغفرت و بخشش کی خیرات آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری سے نصیب ہوتی ہے۔ بندہ انعام یافتہ ہوکر انبیا ئ، صدیقین، شہداء اور صالحین کے زمرۂ لایحزنون میں شامل ہو جاتا ہے۔ اطاعت و اتباع مصطفی ﷺ دوزخ سے نجات کا پروانہ اور جنت میں داخلے کا ٹکٹ ہے۔ روز قیامتِ میدان محشرمیں بھی آپ ﷺ ہی کی شفاعت نجات کا ذریعہ بنے گی اور آپ ﷺ کہیں بھی اپنی گنہگار امت کو فراموش نہیں فرمائیں گے۔ معلوم ہوا کہ نجات کے لیے انبیائے سابقین پر ایمان کے ساتھ اطاعت و اتباع رسول ﷺ ہی لازمی و لابدی اور کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کے صلے میں مغفرت و بخشش اور جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ اگراس امت میں حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی ظلی یا بروزی بھی آنا ہوتا تو ضروری تھاکہ نجات کے لیے ا س کی اطاعت کو شرط ٹھہرایا جاتا۔ قرآن حکیم نے مدار نجات چونکہ صرف اطاعت واتباعِ مصطفی ﷺ کو قرار دیا ہے لهٰذا آپ ﷺ کے بعد کسی ظلی و بروزی نبی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔


مزید تفاسیر کے لئے


71۔

وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ  بَعْدِ مَا تَبيَّنَ لَهُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِهٖ جَھَنَّمَ  وَسَاءَتْ مَصِيْرًا11584

اور جو رسول کا خلاف کرے بعد اس کے کہ حق راستہ اس پر کھل چکا اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ چلے ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اُسے دوزخ میں داخل کریں گے اور کیا ہی بُری جگہ پلٹنے کی۔


اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ جو اطاعت مصطفی ﷺ سے اعراض کریگا اس کا ٹھکانا صرف جھنم ہے یعنی کہ اب جس کی اطاعت مطلقہ جس کی ہوگی وہ صرف اور صرف نبی علیہ السلام کی ذات ہے جس طرح فرمایا گیا کہ عیسی علیہ السلام بھی جب قرب قیامت تشریف لائینگے تو بھی شریعت محمدی ﷺ کے پیرو ہونگے ۔


مزید تفاسیر کے لئے


72۔

لَوْ یُطِيْعُکُمْ فِيْ کَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ785

بہت معاملوں میں اگر یہ تمہاری خوشی کریں (ف۱۱) تو تم ضرور مشقت میں پڑو۔


مزید تفاسیر کے لئے


73۔

یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰـلَيْتَنَآ اَطَعْنَا اللهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا6686

جس دن اُن کے منہ اُلٹ اُلٹ کر آ گ میں تلے جائیں کہتے ہوں گے ہائے کسی طرح ہم نے اللہ کا حکم مانا ہوتا اور رسول کا حکم مانا ہوتا۔


مزید تفاسیر کے لئے


74۔

وَاَطِيْعُوْا اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِيْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا  اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ4687

اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور آپس میں جھگڑو نہیں کہ پھر بزدلی کرو گے اور تمہاری بندھی ہوئی ہوا جاتی رہے گی اور صبر کرو بےشک اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔


مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالاآیات کریمہ میں مطاعِ مطلق حضور نبی اکرم ﷺ کی مخالفت اور آپ ﷺ کی اطاعت و اتباع سے روگردانی کرنے والے کو کڑی وعید سنائی گئی ہے۔ قرآن حکیم نے امت پر واضح فرما دیا ہے کہ آپ ﷺ کی حکم عدولی کرنے والے اور آپ ﷺ کی راہ ہدایت کو چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرنے والے کا ٹھکانا دوذخ ہے۔ جس طرح اطاعت و اتباعِ مصطفی ﷺ اور جنت کے درمیان کسی اور کی اطاعت شرط نہیں اسی طرح آپ ﷺ کی اطاعت و اتباع سے روگردانی پر دوزخ کے عذاب سے کوئی کذّاب نبی نہیں بچا سکتا۔


مزید تفاسیر کے لئے


75۔

قُلْ اِنْ نْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ3188

اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔


مختصر وضاحت ۔اس آیۂ کریمہ میں سرکار دوجہاں ﷺ کی اتباع کو محبتِ الٰہی کا زینہ قرار دیا گیا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب ﷺ کی اطاعت و پیروی سے اپنی محبت کو مشروط کر دیا۔ مذکورہ بالا ارشاد خداوندی کا روئے خطاب حضور نبی اکرم ﷺ کی معرفت عہد نبوی ﷺ کے مسلمانوں ہی سے نہیں ہماری طرف بھی ہے اور ہمارے بعد آئندہ آنے والی نسلوں کی طرف بھی۔ گویا فرمانِ خداوندی کے مطابق حضور نبی اکرم ﷺ سے کہلوایا جا رہا ہے کہ لوگو! اللہ تعالیٰ سے محبت اور دوستی کرنا چاہتے ہو تو آؤ میری غلامی اختیار کر لو۔ وہ حکم جو کل صحابہ کرام کے لیے تھا اس کا اطلاق آج ہم پر بھی ہوتا ہے، جب تک حضور نبی اکرم ﷺ کی غلامی و اتباع کرنے والے رہیں گے تب تک حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان اور آپ ﷺ کی اتباع و اطاعت کا حکم باقی رہے گا۔


مزید تفاسیر کے لئے


76۔

لَقَدْ كانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ2189

بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے ۔


مختصر وضاحت ۔حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ کو تمام افرادِ امت کے لیے اسوئہ حسنہ یعنی بہترین نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کے وصال فرما جانے کے بعد بھی صاحبانِ حال اہل نظر یوں محسوس کرتے ہیں جیسے خود رسول اللہ ﷺ کی ذات ان کے درمیان موجود ہے۔ جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا حاضر و ناظر رسول ﷺ ہم میں موجود ہے تو پھر کسی نئے نبی کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے؟۔


مزید تفاسیر کے لئے


77۔

لَقَدْ جَآءَكمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءوْفٌ رَّحِيْمٌ12890

بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول (ف۳۰۷) جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔


مزید تفاسیر کے لئے


78۔

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗ اُمَّهٰتُهُمْ691

یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے اور اس کی بیبیاں اُن کی مائیں ہیں۔


مختصر وضاحت ۔اوپر درج کردہ آیات میں امت اور حضور ﷺ کے درمیان کارفرما خصوصی ربط اور تعلق کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنی امت کے ساتھ اس قدر گہرا تعلق قائم ہوا کہ سابقہ انبیاء علیھم السّلام میں سے کسی نبی کا انپی امت کے ساتھ ایسا گہرا تعلق نہ تھا۔ آیاتِ مذکورہ میں آپ ﷺ کے اسی تعلّق بالأمّۃ کو بیان کیا گیا ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


79۔

وَكيفَ تَکْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَيْکُمْ اٰیٰتُ اللهِ وَفِيْکُمْ رَسُوْلُهٗ10192

اور تم کیونکر کفر کرو گے تم پرتو اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول تشریف فرماہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


80۔

وَمَا كانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ3393

اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو ۔


مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالا آیات میں پیغمبر آخر و اعظم ﷺ کی امت کے اندر دائمی موجودگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ جس طرح حیات ظاہری میں صحابہ کے درمیان موجود تھے اسی طرح قرآن کی نص کے مطابق آپ ﷺ ہر دور میں امت کے لیے راحتِ جاں اور طمانیت قلب کا باعث ہیں کیونکہ قرآن کا یہ مژدئہ جانفزا فقط صحابہ کرام کے لیے ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی تمام انسانیت کے لیے ہے۔ حضور ختمی مرتبت ﷺ کا وجود مسعود آج بھی بدستور امت کے لیے مشکلات و مصائب کے چلتے ہوئے تیروں کی یلغار میں ڈھال کا کام دیتا ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


81۔

ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا  كلَّمَا جَآء اُمَّةً رَّسُوْلُھَا کَذَّبُوْهُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَھُمْ بَعْضًا وَّجَعَلْنَاھُمْ اَحَادِيْثَ  فَبُعْدًا لِّقَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ4494

پھر ہم نے اپنے رسول بھیجے ایک پیچھے دوسرا جب کسی اُمت کے پاس اس کا رسول آیا انہوں نے اسے جھٹلایا تو ہم نے اگلوں سے پچھلے ملادئیے اور انہیں کہانیاں کر ڈالا تو دور ہوں وہ لوگ کہ ایمان نہیں لاتے۔


مختصر وضاحت ۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پہلی قوموں میں انبیاء علہیم السلام آتے تو ان کی تکذیب کی وجہ سے جو لوگوں کا وتیرہ بن چکی تھی قلیل تعداد میں لوگ ایمان لے آتے۔ جب ایک نبی چلا جاتا تو پھر دوسرا نبی آتا۔ اس طرح انبیاء کے یکے بعد دیگرے آنے کا سبب یہ تھا کہ ان قوموں کو پیغام توحید سنانے کی مسلسل ضرورت رہتی تھی مگر حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ کثیر تعداد میں لوگ ایمان لائے اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کی تعداد میں بتدریج معتدبہ اضافہ ہوتا رہا اور قرائن بتاتے ہیں کہ یہ اضافہ قیامت تک مزید ہوتا رہے گا۔ پیغام توحید اور نور قرآن کی بنا پر دُنیا سے کفر و شرک اور ضلالت و گمراہی کا خاتمہ ہوتا رہے گا۔ چونکہ انبیاء علیھم السّلام کے آنے کا مقصد حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے ساتھ پورا ہو چکا ہے اور پوری دنیا میں مسلمان کثرت سے پھیلے ہوئے ہیں اس لیے اب کسی اور نبی کی ضرورت نہیں۔


مزید تفاسیر کے لئے


82۔

فَکَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كلِّ اُمَّةٍ  بِشَھِيْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ شَھِيْدًا4195

تو کیسی ہوگی جب ہم ہر اُمت سے ایک گواہ لائیں (ف۱۲۳) اور اے محبوب تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بنا کر لائیں ۔


مختصر وضاحت ۔متذکرہ بالا آیت کریمہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی منفرد اور بے مثال شان کا ذکر کیا گیا ہے جو پہلے گزرنے والی امتوں پر شاہد ہونے سے متعلق ہے۔ ہر نبی اپنی امت کے اعمالِ نیک و بد کے لیے شاہد بنایا گیا ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


83۔

وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوْا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا6496

 اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت مقدسہ میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے گنہگاروں کو یہ مژدۂ جانفزا سنایا گیا ہے کہ وہ مایوس نہ ہوں۔ ان کی نجات اور مغفرت کا وسیلہ رسولِ محتشم ﷺ کی ذات ہے جس کی وساطت سے اگر توبہ کی جائے تو اللہ اسے ضرور قبول فرمائے گا۔ اس حوالے سے ایک ایمان افروز روایت کا تذکرہ خالی از فائدہ نہ ہو گا۔


مزید تفاسیر کے لئے


84۔

وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ  قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ  اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ  وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰٓی عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللهَ شَیئًا  وَسَیَجْزِي اللهُ الشّٰکِرِيْن14497

اورمحمدتو ایک رسول ہی ان سے پہلے اور رسول ہوچکے تو کیا اگر وہ انتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جو اُلٹے پاؤں پھرے گا اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا اور عنقریب اللہ شکر والوں کو صلہ دے گا ۔


مختصر وضاحت ۔یہ آیت کریمہ وصال کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت کے غیر منقطع ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ بعد از وصال بھی امت کے نبی ہیں۔ آپ ﷺ کی وفات سے آپ ﷺ کی نبوت و رسالت منقطع نہیں ہوئی۔ امت پر آپ ﷺ کی اطاعت واتباع تا قیامت اسی طرح واجب ہے جس طرح آپ ﷺ کی حیات ظاہری میں واجب تھی۔ اب قیامت تک آپ ﷺ ہی کی نبوت و رسالت کا سکہ چلے گا اور آپ ﷺ کے دین، اسلام ہی کی پیروی ہو گی۔ نہ تو کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ ہی کسی نئے دین یا شریعت کی پیروی کی ہوگی۔ اگر کوئی راهِ ہدایت سے منحر ف ہو جائے اور دین حق سے پھر جائے تو وہ ناکام و نامراد ہوگا۔


مزید تفاسیر کے لئے


85۔

كنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ11098

تم بہتر ہو ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔


مختصر وضاحت ۔اس آیہ کریمہ میں حضورخیر الانام علیہ الصّلوٰۃ والسّلام کی امت کو اللہ تعالیٰ نے خیر الامم (بہترین امت) کے لقب سے سرفراز فرمایا اور جس طرح حبیبِ خدا ﷺ کو آخرالانبیاء والرسل اور افضل الخلائق ہونے کا شرف حاصل ہے، اسی طرح آپ ﷺ کی امت کے سر پر خیرالامم کا تاج سجا دیا۔ مذکورہ بالا آیت کریمہ کی تفسیر میں خود سرور کائنات ﷺ نے فرمایا:إِنَّکُمْ تُتِمُّوْنَ سَبْعِيْنَ أُمَّةً أَنْتُمْ خَيْرُھَا وَأَکْرَمُھَا عَلَی اللهِ۔تم ستر امتوں کو مکمل کرنے والے ہو اور اللہ کے نزدیک ان سب سے بہتر اور بزرگ ہو99


مزید تفاسیر کے لئے


86۔

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَيْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ104100

اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بُری سے منع کریں اور یہی لوگ مُراد کو پہنچے۔


مختصر وضاحت ۔اس آیہ کریمہ میں بین السطور یہ نکتہ بیان ہوا ہے کہ سلسلہ نبوت ختم ہونے کے بعد دعوت و تبلیغ دین کی ذمہ داریاں افرادِ امت کو سونپ دی گئی ہیں۔ اب اس میں سے ایک مخصوص جماعت وہی فریضہ سرانجام دے گی جو حینِ حیات حضور ﷺ کے ذمے تھا۔ فریضہ تبلیغ جو حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے انبیاء کرام سرانجام دیتے تھے، سلسلہ نبوت ختم ہونے کے بعد اب آپ ﷺ کی امت کو سونپ دیا گیا جبکہ اس سے قبل صاحبِ شریعت نبی کے رخصت ہونے کے بعد دوسرا نبی آتا جو صاحب شریعت نبی کی تبلیغ اور اصلاح کا کام سرانجام دیتا، چونکہ حضور ﷺ کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا اس لیے آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کی امت کو یہ فریضۂ نبوت سونپ دیا گیا۔


مزید تفاسیر کے لئے


87۔

وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسیٰٓ اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهٖ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ51101

اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ فرمایا پھر اس کے پیچھے تم نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی اور تم ظالم تھے۔


مختصر وضاحت ۔پہلی اُمتوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے جو مختلف انبیاء کرام مبعوث فرمائے وہ اُنہیں پیغام حق دیتے رہے، جب ایک نبی دُنیا سے تشریف لے جاتا تو اس کی اُمت گمراہ ہو کر کفر و شرک میں مبتلا ہو جاتی بعض دفعہ ایک نبی کی موجودگی میں بھی امت گمراہ ہو جاتی جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حینِ حیات یہ دیکھنے میں آیا کہ ان کی اُمت نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ اسی طرح حضرت عزیر علیہ السلام کی قوم نے ان کو اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نصاریٰ نے اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنا شروع کر دیا، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عَزَيْرُ  ابْنُ اللهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِيْحُ ابْنُ اللهِ۔102 اور یہود نے کہا: عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا: مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔تاریخِ انبیاء کے مطالعہ سے پتا چلتاہے کہ سابقہ امتیں وقتا فوقتا شرک و گمراہی میں مبتلا ہوتی رہیں جس کی وجہ سے سلسلہ نبوت کا جاری رہنا ناگزیر ہو گیا جبکہ حضور ﷺ کی تشریف آوری کے بعد معاملے کی صورت یکسر بدل گئی۔ اس لیے کہ سلسلۂ نبوت اپنے اختتام کو پہنچ چکا اور امت کے سوادِ اعظم کے گمراہ ہونے کا اندیشہ باقی نہ رہا جیسا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی اُمت کے بارے میں فرمایا:إِنَّ أُمَّتِيْ لَا تَجْتَمِعُ عَلَی ضَلَالَةٍ فَإِذَا رَأَيْتُمِ اخْتِلَافاً فَعَلَيْکُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ۔میری اُمت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی پس اگر تم اختلاف دیکھو تو تم پرسوادِ اعظم کے ساتھ رہنا لازم ہے103


مزید تفاسیر کے لئے


88۔

ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ13،14104

اگلوں میں سے ایک گروہ ،اور پچھلوں میں سے تھوڑے ۔


مزید تفاسیر کے لئے


89۔

ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ وَ ثُلَّةٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ39،40105

اگلوں میں سے ایک گروہ،اور پچھلوں میں سے ایک گروہ۔


مختصر وضاحت ۔اوپر درج کردہ آیتین کریمین میں امت محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام کو امتِ آخرین کا لقب دیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ امت سب امتوں کے آخر میں ظہور پذیر ہوگی اور اس کے بعد کوئی امت نہیں۔


مزید تفاسیر کے لئے


91۔

وَلَقَدْ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا  وَجَآء تْهُمْ رُسُلُھُمْ بِـالْـبَيِّـنٰـتِ وَمَا كانُوْا لِیُؤْمِنُوْا  كذٰلِکَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ ثُمَّ جَعَلْنٰـکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ مِنْ  بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كيْفَ تَعْمَلُوْنَ13106

اور بےشک ہم نے تم سے پہلی سنگتیں ہلاک فرمادیں جب وہ حد سے بڑھے اور ان کے رسول ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے اور وہ ایسے تھے ہی نہیں کہ ایمان لاتے ہم یونہی بدلہ دیتے ہیں مجرموں کو۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت میں اول یہ بتلایا گیا کہ پہلی امتیں شرک کی وجہ سےہلاک ہوئی اور امت محمدیہ ﷺ سب امتوں کی خلیفہ اور قائم مقام ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ امت آخر الامم ہے اس کے بعد نہ کوئی جدید نبی آئیگا اور نہ اس کی کوئی نئی امت پیداہوگی


مزید تفاسیر کے لئے


92۔

وَ هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلٰٓىٕفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ 165107

اور وہی ہے جس نے زمین میں تمہیں نائب کیا اور تم میں ایک کو دوسرے پر درجوں بلندی دی ۔


مختصر وضاحت ۔یہ آیت اس امت کو تمام امت کا خلیفہ اور آخر الامم ثابت کرتی ہیں ،چنانچہ علامہ نسفی تفسیر مدارک میں لکھتے ہے کہ : لان محمدا ﷺ خا تم النبیین فامتہ قد خلفت سائر الامم108


93۔

ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی اْلاَرْضِ39108

وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں اگلوں کا جانشین کیا۔


مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالا آیات میں امت محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام کو زمین میں اممِ سابقہ کا خلیفہ کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ امت آخر الامم ہے اس کے بعد نہ تو کوئی نئی امت پیدا ہوگی اور نہ نیا نبی آئے گا۔ قیامت تک یہی امت تاجدار کائنات سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے دامن رحمت سے وابستہ رہے گی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ نہ دامن بدلے گا اور دامن گیر ہونے والے بدلیں گے۔


مزید تفاسیر کے لئے


94۔

اَلَمْ نُھْلِکِ الْاَوَّلِيْنَ ثُمَّ نُتْبِعُھُمُ الْاٰخِرِيْنَ16،17109

کیا ہم نے اگلوں کو ہلاک نہ فرمایا ،پھر پچھلوں کو ان کے پیچھے پہنچائیں گے۔


مختصر وضاحت ۔ان آیات میں اولین سے مراد پہلی امتوں کے کفاراور آخرین سے امتِ محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام کے کفار مراد ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امت محمدی علی صاحبھا الصّلٰوۃ والسّلام آخری امت ہے اور اس کا رسول آخری رسول ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


95:

وَكذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْکُمْ شَهِيْدًا143110

اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ۔


مزید تفاسیر کے لئے


96۔

لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ78111

 تاکہ رسول تمہارا نگہبان و گواہ ہو اور تم اور لوگوں پر گواہی دو ۔


مختصر وضاحت ۔مذکورہ بالا آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو پہلی امتوں پر یہ شرف و فضیلت عطا فرمائی کہ اسے ان پر گواہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ جہاں اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کو افضل الخلائق، آخر الانبیاء والرسل اور شاہد و گواہ بنایا اور آپ ﷺ کے فیضانِ نبوت کے توسط سے آپ ﷺ کی امت کو خیرالامم اور آخر الامم ہونے کے ساتھ ساتھ امم سابقہ پر شاہد و گواہ بھی بنایا، اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو شاہدِ اقوامِ عالم بنانے کے بعد آپ ﷺ کی امت کو تمام سابقہ امتوں پر گواہ بناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میرا رسول جس طرح تمہیں دین کی تبلیغ کرتا ہے اور تمہارے حال پر گواہ ہے اس طرح تم اوروں کو تبلیغ کرکے ان پر گواہ ہو جاؤ گے۔ انہیں یہ باور کرایا گیا کہ جس طرح میرے نبی کی شہادت تمہارے اوپر ہے، بطورِ امتِ محمدی تمہاری شہادت باقی اقوام عالم پر ہوگی۔ سب سے برگزیدہ، سب سے بڑی، سب سے اعلیٰ و ارفع اور چنیدہ امت ہونے کے ناطے تم علمائِ بنی اسرائیل کے انبیاء جیسا کام سر انجام دوگے یعنی دینِ حق کی دعوت و تبلیغ کے ذریعے گمراہی اور ضلالت کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کے لیے تمہارا کام رشد و ہدایت کی شمعیں جلانا، ظاہر و باطن کے احوال کی اصلاح کرنا اور دین کو زندہ کرنا ہے جو پہلے انبیاء کا کام تھا۔ اب اس کی سرانجام دہی حضور نبی اکرم ﷺ کی امت کے ذمے ہے جو امتِ وسط ہے۔ گویا سرتاجِ انبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ گمراہی کے اندھیروں میں سرگرداں لوگوں کے لیے رشد و ہدایت کی شمعیں جلا جلا کر تمہارے حوالے کر رہے ہیں اور تم ان شمعوں کو لے کر چار دانگ عالم میں روشنی پھیلانا تمہارا منصب ہوگا۔


مزید تفاسیر کے لئے


97۔

قُلْ قَدْ جَآءكمْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِيْ بِالْبَيِّنٰتِ183112

 تم فرما دو مجھ سے پہلے بہت رسول تمہارے پاس کھلی نشانیاں ۔


مزید تفاسیر کے لئے


98۔

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ42113

اور بے شک ہم نے تم سے پہلی اُمتوں کی طرف رسول بھیجے ۔


مزید تفاسیر کے لئے


99۔

تَاللهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَـآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ63114

خدا کی قسم ہم نے تم سے پہلے کتنی امتوں کی طرف رسول بھیجےتو ۔


مزید تفاسیر کے لئے


100۔

كمْ اَرْسَلْنَا مِنْ نَّبِیٍّ فِی الْاَوَّلِيْنَ6115

اور ہم نے کتنے ہی غیب بتانے والے (نبی) اگلوں میں بھیجے ۔


مزید تفاسیر کے لئے


101۔

فَاِنْ كذَّبُوْکَ فَقَدْ كذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ184116

تو اے محبوب اگر وہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں تو تم سے اگلے رسولوں کو بھی تکذیب کی گئی ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


102۔

وَلَقَدْ كذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ34117

اور تم سے پہلے رسول جھٹلائے گئے۔


مزید تفاسیر کے لئے


103۔

فَقَدْ كذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ4118

اور اگر یہ تمہیں جھٹلائیں تو بےشک تم سے پہلے کتنے ہی رسول جھٹلائے گئے ۔


مزید تفاسیر کے لئے


104۔

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْکَ وَمِنْھُمْ مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْکَ78119

اور بےشک ہم نے تم سے پہلے کتنے ہی رسول بھیجے کہ جن میں کسی کا احوال تم سے بیان فرمایا اور کسی کا احوال نہ بیان فرمایا۔


مزید تفاسیر کے لئے


105۔

وَ سْــٴَـلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَاۤ45120

اور ان سے پوچھو جو ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے۔


مزید تفاسیر کے لئے


106۔

وَکَذٰلِکَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِيْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّذِيْرٍ23121

اور ایسے ہی ہم نے تم سے پہلے جب کسی شہر میں کوئی ڈر سنانے والا بھیجا ۔


مزید تفاسیر کے لئے


107۔

وَلَقَدِ اسْتُهْزِئبِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ32122

اور بےشک تم سے اگلے رسولوں پر بھی ہنسی کی گئی۔


مزید تفاسیر کے لئے


108۔

سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُّسُلِنَا77123

دستور ان کا جو ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے ۔


مزید تفاسیر کے لئے


109۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ25124

اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہ بھیجا مگر یہ کہ ہم اس کی طرف وحی فرماتے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو مجھی کو پوجو۔


مزید تفاسیر کے لئے


110۔

وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَ اِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَۚ-لَىٕنْ اَشْرَكْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ65125

اور بےشک وحی کی گئی تمہاری طرف اور تم سے اگلوں کی طرف کہ اسے سننے والے اگر تو نے اللہ کا شریک کیا تو ضرور تیرا سب کیا دھرا اَکارت جائے گا اور ضرور تو ہار میں رہے گا۔


مزید تفاسیر کے لئے


111۔

وما اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمْ لَیَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ 20126

اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب ایسے ہی تھے کھانا کھاتے۔


مزید تفاسیر کے لئے


112۔

كَذٰلِكَ یُوْحِیْۤ اِلَیْكَ وَ اِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَۙ-اللّٰهُ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ3127

یونہی وحی فرماتا ہے تمہاری طرف اور تم سے اگلوں کی طرف اللہ عزت و حکمت والا۔


مزید تفاسیر کے لئے


113۔

مَا یُقَالُ لَكَ اِلَّا مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِك اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ وَّ ذُوْ عِقَابٍ اَلِیْمٍ43128

تم سے نہ فرمایا جائے گا مگر وہی جو تم سے اگلے رسولوں کو فرمایا گیاکہ بےشک تمہارا رب بخشش والا اور دردناک عذاب والا ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


114۔

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ60129

کیا تم نے انہیں نہ دیکھا جن کا دعوی ہے کہ وہ ایمان لائے اس پر جو تمہاری طرف اترا اور اس پر جو تم سے پہلے اترا ۔


مزید تفاسیر کے لئے


115۔

لٰكِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ162130

ہاں جو ان میں علم میں پکے اور ایمان والے ہیں وہ ایمان لاتے ہیں اُس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا۔


مختصر وضاحت ۔اوپر درج کردہ تمام کی تمام آیات میں تسلسل اور تکرار کے ساتھ ایک ہی مضمون بیان کیا گیا ہے جو حضور ختمی مرتبت سیدنا محمد مصطفی ﷺ کی ختم نبوت سے متعلق ہے۔ اس امر میں کوئی التباس اور ابہام نہیں کہ قرآن نے ہر مقام پر آپ ﷺ سے پہلے آنے والے انبیاء کا ذکر بالالتزام کیا اور آپ ﷺ کے بعد کسی اور صاحبِ نبوت کی آمد کا اشارتاً اور کنایةً کوئی حوالہ نہیں۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی رسالت و نبوت اور وحی کا ذکر کیا تو مِنْ قَبْلِکَ فرمایا ۔ کسی ایک جگہ بھی مِنْ بَعْدِکَ نہیں فرمایا۔ اگر آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی آناہوتا تو قرآن ضرور اس کا ذکر کرتا چونکہ قرآن مجید میں حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی نبی کے آنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے ثابت ہوا کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔


مزید تفاسیر کے لئے


116۔

قُلْ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ ﱘ عَلٰى بَصِیْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِي108131

تم فرماؤیہ میری راہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں اور جو میرے قدموں پرچلیں دل کی آنکھیں رکھتے ہیں۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں علی وجہ البصیرت دعوت حق دینے والوں کا ذکر ہے۔ جو خود حضور نبی اکرم ﷺ ہیں اورآپ ﷺ کے اسوہ پر چلنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علمائے ربّانیین ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے مَنِ اتَّبَعَنِی سے صحابہ کرام اور علماءِ حق مراد لیے ہیں۔ یہ تفسیر منشاء ایزدی کے عین مطابق ہے۔ اگر اس امت میں کسی اور نبی کی گنجائش ہوتی تو ضرور پہلے اس کا ذکر کیا جاتا۔


مزید تفاسیر کے لئے


117۔

اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْه1132

اب آتا ہے اللہ کا حکم تو اس کی جلدی نہ کرو۔


مزید تفاسیر کے لئے


118۔

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ21133

لوگوں کا حساب نزدیک اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہیں۔


مزید تفاسیر کے لئے


119۔

فَهَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةًۚ-فَقَدْ جَآءَ اَشْرَاطُهَاۚ18134

تو کاہے کے انتظار میں ہیں (ف۴۸) مگر قیامت کے کہ ان پر اچانک آجائے کہ اس کی علامتیں تو آہی چکی ہیں۔


مزید تفاسیر کے لئے


120۔

اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ1135

پاس آئی قیامت اور شق ہوگیا چاند ۔


مختصر وضاحت ۔ ان آیات میں قیامت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بعثت نبی ﷺ کو علامت قیامت قرار دیا گیا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی پیدا ہونے والا نہیں ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


121۔

اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ لَّكُمْ بَیْنَ یَدَي عَذَابٍ شَدِیْدٍ46136

 وہ تو نہیں مگر تمہیں ڈر سنانے والے ایک سخت عذاب کے آگے ۔


مختصر وضاحت ۔ اس آیت مین عذاب شدید سے مراد قیامت ہے لہذا اس آیت کا حاصل بھی یہی ہے کہ آپ ﷺ اور قیامت کے درمیان کوئی نیا نبی پیدا ہونے والا نہیں ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث ذکر کی ہے کہ عن بریدۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ بعثت انا والساعہ جمیعا ان کادت لتسبقنی یعنی میں اور قیامت ساتھ بھیجے گئے ہیں (گویا )وہ تو مجھ سے بھی آگے ہوئی جاتی تھی ۔137


مزید تفاسیر کے لئے


122۔

هُوَ الَّذِي اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ33138

وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے پڑے برا مانیں مشرک۔


مزید تفاسیر کے لئے


123۔

هُوَ الَّذِي اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلّه وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ28139

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اُسے سب دینوں پر غالب کرے اور اللہ کافی ہے گواہ ۔


مختصر وضاحت ۔اس قسم کی آیات میں لفظی اور معنوی اشتراک پایا جاتا ہے جو مضمون کی اہمیت کو اجاگر رہا ہے۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ معظم ﷺ کو ہدایتِ عامہ اور دینِ حق کے ساتھ اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ وہ اس دین حق کو تما م ادیانِ عالم پر غالب کردے۔ یہ غلبہ اس امر کی دلیل ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی آمد تمام ادیان اور ان کے پیشوایان کی آمد کے بعد ہوئی اور یہ اس حقیقت پر شاہد عادل ہے کہ دینِ مصطفی ﷺ سب سے آخری دین ہے اور اس کے لانے والے سیدنا محمد مصطفیٰ علیہ التحیّۃ والثناء سب سے آخری رسول ہیں۔ ختم نبوت کی اس سے زیادہ واضح اور محکم دلیل اور کیا ہوسکتی ہے؟۔


مزید تفاسیر کے لئے


124۔

اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءقَلِیْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ3140

اے لوگو اس پر چلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اُترا اور اسے چھوڑ کر اور حاکموں کے پیچھے نہ جاؤ بہت ہی کم سمجھتے ہو۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کے ضمن میں درج ذیل دو نکات اخذ ہوئے:

1۔ لوگوں پر صرف اس وحی کا اتباع واجب ہے جو ان کی طرف حضور نبی اکرم ﷺ پر اتاری گئی۔

2۔ اس کے علاوہ کسی دوسری وحی کے اتباع سے رکنا ہر شخص پر لازم ہے۔

اگر قرآن حکیم کے بعد کسی وحی کے نزول کا امکان ہوتا تو اس کی اتباع سے روک کر پابندی عائد نہ کی جاتی بلکہ اس کے اتباع کا حکم بھی دیاجاتا۔ جب قرآن کریم کے بعد کسی وحی کا اتباع کلیتاً ممنوع ہوا تو پھر دنیا میں نیا نبی بھیج کر اس پر نئی وحی اتارنا ایک امرِ لا یعنی ہوا جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ کی ذات پا ک ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


125۔

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَافَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِه وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌوَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰه ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكبيرُؕ32141

پھر ہم نے اس کتاب (قرآن) کا وارث ایسے لوگوں کو بنایا جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چُن لیا (یعنی امّتِ محمدیہ ﷺ کو)، سو ان میں سے اپنی جان پر ظلم کرنے والے بھی ہیں، اور ان میں سے درمیان میں رہنے والے بھی ہیں، اور ان میں سے اللہ کے حکم سے نیکیوں میں آگے بڑھ جانے والے بھی ہیں، یہی (آگے نکل کر کامل ہو جانا ہی) بڑا فضل ہے۔


مختصر وضاحت ۔اس آیت کریمہ میں قرآن حکیم کے وارثین کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ امت محمدی ﷺ کے مختلف گروہوں پر مشتمل ہے جن میں کوئی فرد بھی نبی نہیں۔ اگر حضور ﷺ کی امت میں اجرائے نبوت مقصود ہوتا تو وارثین کتاب میں سب سے پہلے امت کے ان افراد کا ذکر کیا جاتا جنہیں منصب نبوت دیاجانا تھا۔ ایسا نہ کیا جانا اس امر پر دلالت کرتا ہے آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں۔


مزید تفاسیر کے لئے


126۔

قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ 97142

آپ فرما دیں جو شخص جبریل کا دشمن ہے (وہ ظلم کر رہا ہے) کیونکہ اس نے (تو) اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے (جو) اپنے سے پہلے (کی کتابوں) کی تصدیق کرنے والا ہے اور مومنوں کے لیے (سراسر) ہدایت اور خوشخبری ہے


مزید تفاسیر کے لئے


127۔

نَزَّلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ 3143

(اے حبیب!) اسی نے (یہ) کتاب آپ پر حق کے ساتھ نازل فرمائی ہے (یہ) ان (سب کتابوں) کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے اتری ہیں اور اسی نے تورات اور انجیل نازل فرمائی ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


128۔

وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ48144

اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف (بھی) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


129۔

وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَیْنَ یَدَیْهِ92145

اور یہ (وہ) کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، بابرکت ہے، جو کتابیں اس سے پہلے تھیں ان کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے۔


مزید تفاسیر کے لئے


130۔

وَ مَا كَانَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اَنْ یُّفْتَرٰى مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ لٰكِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِي بَیْنَ یَدَیْهِ37146

یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اسے اللہ (کی وحی) کے بغیر گھڑ لیا گیا ہو لیکن (یہ) ان (کتابوں) کی تصدیق (کرنے والا) ہے جو اس سے پہلے (نازل ہو چکی) ہیں۔


مزید تفاسیر کے لئے


131۔

لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِی الْاَلْبَاب مَا كَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰى وَ لٰكِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِي بَیْنَ یَدَیْهِ111147

(بیشک ان کے قصوں میں سمجھداروں کے لیے عبرت ہے) یہ (قرآن) ایسا کلام نہیں جو گھڑ لیا جائے بلکہ (یہ تو) ان (آسمانی کتابوں) کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے (نازل ہوئی) ہیں۔


مختصر وضاحت ۔محولہ بالا آیات کریمہ میں بَيْنَ یَدَيْهِ کے الفاظ سے واضح ہے کہ قرآن حکیم فقط اس وحی کی تصدیق کرتا ہے جو اس سے پہلے نازل ہوئی۔ وہ اپنے بعد کسی وحی کے نزول کی تصدیق تو درکنار اس کا ذکر تک نہیں کرتا، اگر قرآن حکیم کے بعد بھی وحی نازل ہونا ہوتی تو وہ اس کی لازماً تصدیق کرتا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سیدنا محمد مصطفی ﷺ آخری نبی ہیں جن پرآخری وحی نازل ہوئی۔ جس طرح حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں اسی طرح قرآن حکیم کے بعد کوئی وحی نہیں۔ ان آیات میں انقطاع وحی اور نبوت کا اعلان کرتی ہے جب ہم قرآن کا مطا لعہ کرتے ہے کہ تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک نبی اپنے ماقبل والوں کی تصدیق کرتا ہے اور اپنے بعد آنے ولے نبی کی خوشخبری سناتا ہے لیکن قرآن نے یہ طرز اختیار نہیں کیا کیونکہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔


مزید تفاسیر کے لئے


132۔

وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا27148

اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا چبا لے گا کہ ہائے کسی طرح سے میں نے رسول کے ساتھ راہ لی ہوتی۔


مختصر وضاحت ۔یہ آیت بھی نبی ﷺ کے لئے عموم بعثت کو ثبات کرتی ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قیامت تک تمام پیدا ہونے والی نسلوں کی ہدایے کے صرف نبی ﷺ کفیل بنائے گئے ہیں آپ کے بعد کسی اور کی نبوت کی ضرورت نہیں ۔


مزید تفاسیر کے لئے


ماحصل:

یہ آیات جو پیش کی گئی ان میں سے بعض بلکل اس مقصد میں صریح اور عبارۃ النص ہے اور بعض اشارۃ النص، بعض دلالہ النص اور بعض اقتضاء النص ہے اور بعض وہ آیات ہیں جن سے بطور استنباط یا نکات سے ختم نبوت کا ثبوت کیا گیا اور خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں سابقہ انبیاء کا ذکر تو ملتا ہے مگر کسی بعد میں آنے والے کا نام اور دیگر تفصیلات و جزئیات کا کسی بھی حوالے سے کوئی ذکر نہیں ملتا بلکہ قرآن مجید نے حضور نبی اکرم ﷺ کی نبوت و رسالت اور وحی کا تذکرہ کر کے مِنْ قَبْل یا مِنْ قَبْلِکَ کی قید لگا کر اس امر کا اعلان کر دیا ہے کہ نبوت و رسالت اور وحی کے تمام سلسلے صرف حضور ﷺ سے قبل زمانوں تک ہی محدود تھے جو آپ ﷺ کے بعد منقطع ہوگئے۔

نیز حضور نبی اکرم ﷺ مطلع علی الغیب اور اپنی اُمت پر بے حد مہربان اور رؤف و رحیم ہیں۔ آپ نے قیامت تک پیش آنے والے تمام اہم معاملات کو صراحت کے ساتھ بیان فرما دیا مثلاً مسیح دجال کا خروج یا جوج ماجوج کا ظہور، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا، مختلف فتنوں کا رونما ہونا، الغرض ہر کوئی ایسا اہم معاملہ نہیں تھا جسے آپ نے بیان نہ فرما دیا ہو مگر کسی ایک مقام پر بھی آپ ﷺ نے اشارةً یا کنایۃ یہ نہیں فرمایا کہ میرے بعد کوئی نیا نبی مبعوث ہو گا۔ یا میں مہر لگا کر کسی کو نبی بناد وں گا یا فلاں ملک میں یا فلاں زمانہ میں کوئی ظلی یا بروزی تشریعی غیر تشریعی، اصلی یا لغوی، مستقل یا غیر مستقل، نبی پیدا ہو گا۔ اس کی علامات یہ ہوں گی اس کی اطاعت تم پر فرض ہو گی اور اگر تم نے اطاعت نہ کی تو منکر اور کافر ہو جاؤ گے اور دوزخ کا ایندھن بنو گے بلکہ آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ جو بھی میرے بعد نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ کذاب کافر اور دجال ہو گا۔


مزید یہ کہ حضور ﷺ نے سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ آسمان سے نزول کا ذکر کیا اور ان کی جائے نزول، وقتِ نزول اور ان کے کارہائے نمایاں، ان کی جائے مدفن وغیرہ کا صراحتاً ذکر فرما دیا تاکہ کسی کے دل میں کسی قسم کا کوئی التباس یا ابہام پیدا نہ ہو اور یہ بھی آپ ﷺ نے صراحتاً فرما دیا کہ وہ بحیثیت نبی نہیں بلکہ بحیثیت امام اور خلیفۃ الرسول تشریف لائیں گے اور آپ ﷺ ہی کے اُمتی ہوں گے۔

جب کتابِ اِلٰہی اور احادیث رسول ﷺ سے اجرائے نبوت یا اجرائے وحی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا تو ایک سلیم الطبع آدمی کے لیے ایمان کے باب میں اتنا ہی کافی ہے کہ وہ یقین کر لے کہ آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی پیدا ہو گا اور نہ کوئی رسول۔

اگر مرزا غلام احمد قادیانی کے مطابق اَقسامِ نبوت تشریعی یا غیر تشریعی، ظلی یا بروزی میں سے کوئی قسم وجود پذیر ہونا ہوتی تو حضور نبی اکرم ﷺ اس کا ضرور تذکرہ فرماتے یا قرآن میں اس کا کوئی حوالہ ضرور ملتا مگر قرآن و سنت سے نبوت کی ایسی کوئی تقسیم نہیں ملتی۔}}


  • 1 (المائدۃ:5/3)
  • 2 بخاری، کتاب الایمان، باب زیادۃ الایمان ونقصانہ، ۱ / ۲۸، الحدیث: ۴۵، مسلم، کتاب التفسیر،ص۱۶۰۹، الحدیث: ۵(۳۰۱۷)
  • 3 (السبا:34/28)
  • 4 (الاعراف:7/158)
  • 5 کنز العمال جلد11 صفحہ 404 حدیث 31885، خصائص کبریٰ صفحہ 88جلد 2
  • 6 (الصف:61/6)
  • 7 (البقرۃ:2/4،5)
  • 8 (النساء:4/136)
  • 9 (النساء:4/162)
  • 10 (الحجر:15/9)
  • 11 (آل عمران:3/81)
  • 12 (الصف:61/9)
  • 13 (یوسف:12/109)
  • 14 (النحل :16/43)
  • 15 (الانبیاء :21/7)
  • 16 (الشوری :42/51)
  • 17 تفسیر طبری، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۲۵، ۹ / ۱۶
  • 18 (ابراہیم :14/27)
  • 19 (الاعراف:7/3)
  • 20 (الانعام:6/19)
  • 21 در منثور، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۹، ۳ / ۲۵۷
  • 22 (الاعراف:7/158)
  • 23 (الاحزاب:33/40)
  • 24 خآزن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۵۰۳
  • 25 فتاویٰ رضویہ، رسالہ: جزاء اللّٰہ عدوہ باباۂ ختم النبوۃ،۱۵ / ۶۳۰
  • 26 (الفرقان:25/1)
  • 27 مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۶، الحدیث: ۵(۵۲۳)
  • 28 مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الفضائل ، باب فضائل سیّد المرسلین صلوات  اللہ و سلامہ علیہ ، الفصل الاول ، ۱۰ / ۱۴، تحت الحدیث: ۵۷۴۸
  • 29 (الفاتحۃ:1/5)
  • 30 (البقرۃ:2/136)
  • 31 (البقرۃ:2/285)
  • 32 (النساء:4/163)
  • 33 (المائدۃ:5/101)
  • 34 روح المعانی ،ج:7،ص:39
  • 34 (البقرۃ:2/41)
  • 35 (المائدۃ:2/91)
  • 36 (البقرۃ:2/97)
  • 37 (آل عمران :3/4)
  • 38 (البقرۃ:2/89)
  • 39 (الاحزاب:33/7)
  • 40 ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 3: 470
  • 41 (النساء:4/79)
  • 42 (النساء:4/170)
  • 43 (الجمعۃ:62/2،3)
  • 44 (النساء:4/174،175)
  • 45 (ھود:11/17)
  • 46 (آل عمران:3/96)
  • 47 (الاحزاب:33/45،46)
  • 48 (الانعام:6/90)
  • 49 خازن، الانعام، تحت الآیۃ: ۹۰، ۲ / ۳۵
  • 50 (الانبیاء:21/107)
  • 51 خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۳ / ۲۹۷
  • 52 فتاوی رضویہ، رسالہ: تجلی الیقین، ۳۰ / ۱۴۱
  • 53 (ص:38/87)
  • 54 (الاعراف:7/157)
  • 55 (آل عمران:3/164)
  • 56 (النحل:16/35)
  • 57 (التغابن :64/8)
  • 58 (النور:24/62)
  • 59 (الاعراف:7/157)
  • 60 (الحدید:57/28)
  • 61 (الصف:61/10،11)
  • 62 (الحدید:57/7)
  • 63 (ص:47/2)
  • 64 (النساء:4/59)
  • 65 (الانفال:8/20)
  • 66 (الانفال:8/46)
  • 67 قرطبی، الانفال، تحت الآیۃ: ۴۶، ۴ / ۳۰۷، الجزء السابع
  • 68 (النساء:4/80)
  • 69 (الاحزاب:33/36)
  • 70 (النساء:4/65)
  • 71 (النور:24/51)
  • 72 (النور:24/52)
  • 73 (النور:24/54)
  • 74 (النور:24/56)
  • 75 (النساء:4/69)
  • 76 (التوبہ:9/71)
  • 77 (الاحزاب:33/71)
  • 78 (الفتح:48/17)
  • 79 (المائدۃ:5/15،16)
  • 80 (الاعراف:7/156)
  • 81 (یس:36/11)
  • 82 (الانفال:8/64)
  • 83 (الانفال:8/24)
  • 84 (النساء:4/115)
  • 85 (الحجرات:49/7)
  • 86 (الاحزاب:33/66)
  • 87 (الانفال:8/46)
  • 88 (آل عمران:3/31)
  • 89 (الاحزاب:33/21)
  • 90 (التوبہ:9/128)
  • 91 (الاحزاب:33/6)
  • 92 (آل عمران :3/101)
  • 93 (الانفال:8/33)
  • 94 (المؤمنون:23/44)
  • 95 (النساء:4/41)
  • 96 (النساء:4/64)
  • 97 (آل عمران:3/144)
  • 98 (آل عمران:3/110)
  • 99 ترمذي، الجامع الصحیح، أبواب التفسیر، باب من سورۃ آل عمران، 5: 226، رقم: 3771
  • 100 (آل عمران:3/104)
  • 101 (البقرۃ:2/51)
  • 102 (التوبہ، 9/30)
  • 103 ابن ماجہ، السنن، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم، 2: 1295، رقم: 3590
  • 104 (الواقعۃ:56/13،14)
  • 105 (الواقعۃ:56/39،40)
  • 106 (یونس:10/13)
  • 107 (الانعام:6/165)
  • 108 تفسیر مدارک التنزیل ،ج:1،ص:553
  • 108 (فاطر:35/39)
  • 109 (المرسلات:77/16،17)
  • 110 (البقرۃ:2/143)
  • 111 (الحج:22/78)
  • 112 (آل عمران:3/183)
  • 113 (الانعام:6/42)
  • 114 (النحل:16/63)
  • 115 (الزخرف:43/6)
  • 116 (آل عمران:3/184)
  • 117 (الانعام:6/34)
  • 118 (فاطر:35/4)
  • 119 (آل عمران:40/78)
  • 120 (الزخرف:43/45)
  • 121 (الزخرف:43/23)
  • 122 (الرعد:13/32)
  • 123 (بنی اسرائیل:17/77)
  • 124 (الانبیاء:21/25)
  • 125 (الزمر:39/65)
  • 126 (الفرقان :25/20)
  • 127 (الشوری:42/3)
  • 128 (حٰم السجدۃ:41/43)
  • 129 (النساء:4/60)
  • 130 (النساء:4/162)
  • 131 (یوسف:12/108)
  • 132 (النحل:16/1)
  • 133 (الانبیاء:21/1)
  • 134 (محمد:47/18)
  • 135 (القمر:54/1)
  • 136 (سبا:34/46)
  • 137 ابن کثیر ،ج:3،ص:891،892
  • 138 (التوبہ:9/33)
  • 139 (الفتح:48/28)
  • 140 (الاعراف:7/3)
  • 141 (فاطر:35/32)
  • 142 (البقرۃ:2/97)
  • 143 (آل عمران :3/3)
  • 144 (المائدۃ:5/48)
  • 145 (الانعام:6/92)
  • 146 (یونس:10/37)
  • 147 (یوسف:12/111)
  • 148 (الفرقان:25/27)




عقیدہ ختم نبوت ازروئے اجماع صحابہ ؓ و اجماع امت


عقیدہ ختم نبوتﷺ جس طرح قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے اسی طرح عقیدہ ختم نبوت صحابہ کرام ؓ اور امت محمدیہ کے اجماع سے بھی ثابت ہے۔جس طرح کسی بھی مسئلے پر قرآن اور حدیث بطور دلیل ہیں۔اسی طرح صحابہ کرام ؓ کا اجماع یا امت کا اجماع بھی کسی مسئلے پر دلیل ہیں۔

آیئے پہلے اجماع کی حقیقت اور اہمیت دیکھتے ہیں اور پھر عقیدہ ختم نبوتﷺ پر صحابہ کرام ؓ کا اجماع اور امت کا اجماع دیکھتے ہیں۔

اجماع کی شرعی حیثیت:

اللہ تعالٰی نے ہمارے آقا و مولی سیدنا محمد مصطفیﷺ کو جو بےشمار انعامات دیئے ہیں ان میں سے ایک انعام "اجماع امت" بھی ہے۔

اجماع کی حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی مسئلے کے حکم پر امت کے علماء مجتہدین اتفاق کرلیں تو اس مسئلے پر عمل کرنا بھی اسی طرح واجب ہوجاتا ہے۔جس طرح قرآن اور احادیث پر عمل کرنا واجب ہے۔

چونکہ حضورﷺ کے بعد کسی نئے نبی نے نہیں آنا تھا۔اور آپﷺ کے بعد کوئی ایسی ہستی امت میں موجود نہیں تھی جس کے حکم کو غلطی سے پاک اور اللہ تعالٰی کی طرف سے سمجھا جائے۔اس لئے اللہ تعالٰی نے امت محمدیہﷺ کے علماء مجتہدین کے اجتہاد کو یہ درجہ دیا کہ ساری امت کے علماء مجتہدین کسی چیز کے اچھے یا برے ہونے پر متفق ہوجایئں وہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ چیز اللہ تعالٰی کے ہاں بھی ایسی ہی ہے جیسے اس امت کے علماء مجتہدین نے سمجھا ہے۔

اس بات کو حضورﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔

"عن أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏إِنَّ أُمَّتِي لَنْ تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ،‏‏‏‏ فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ"1

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

"میری امت گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گی، لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (یعنی بڑی جماعت) کو لازم پکڑو۔"

اصول کی کتابوں میں اجماع امت کے حجت شرعیہ ہونے اور اس کے لوازمات اور شرائط کے بارے میں مفصل بحثیں موجود ہیں۔جن کا خلاصہ یہ ہے کہ احکام شرعیہ کی حجتوں میں قرآن اور حدیث کے بعد تیسرے نمبر پر اجماع کو رکھا گیا ہے۔

اور جس مسئلے پر صحابہ کرام ؓ کا اجماع ہوجائے تو وہ اسی طرح قطعی اور یقینی ہے جس طرح کسی مسئلے پر قرآن کی آیات قطعی اور یقینی ہیں۔

عقیدہ ختم نبوتﷺ پر صحابہ کرام ؓ کا اجماع:

اسلامی تاریخ میں یہ بات حد تواتر کو پہنچ چکی ہے کہ مسیلمہ کذاب نے حضورﷺ کی موجودگی میں نبوت کا دعوی کیا اور ایک بڑی جماعت نے اس کے دعوی نبوت کو تسلیم بھی کر لیا۔

ایک دفعہ مسیلمہ کذاب کا ایلچی حضورﷺ کے پاس آیا تو حضورﷺ نے اس سے مسیلمہ کذاب کے دعوی کے بارے میں پوچھا تو ایلچی نے کہا کہ میں مسیلمہ کذاب کو اسکے تمام دعووں میں سچا سمجھتا ہوں۔تو جواب میں حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو میں تمہیں قتل کروادیتا۔

کچھ عرصے بعد ایک صحابی ؓ نے اس مسیلمہ کذاب کے ایلچی کو ایک مسجد میں دیکھا تو اس کو قتل کروادیا۔

حدیث کے الفاظ اور ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔

عَنْ أَبِيهِ نُعَيْمٍ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ يَقُولُ لَهُمَا حِينَ قَرَأَ كِتَابَ مُسَيْلِمَةَ:‏‏‏‏ مَا تَقُولَانِ أَنْتُمَا ؟ قَالَا:‏‏‏‏ نَقُولُ كَمَا قَالَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَا وَاللَّهِ لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَكُمَا 2
حضرت نعیم بن مسعود اشجعی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو جس وقت آپ نے مسیلمہ کا خط پڑھا اس کے دونوں ایلچیوں سے کہتے سنا: تم دونوں مسیلمہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ ان دونوں نے کہا:ہم وہی کہتے ہیں جو مسیلمہ نے کہا ہے ،(یعنی اس کی تصدیق کرتے ہیں)

آپﷺ نے فرمایا:

اگر یہ نہ ہوتا کہ سفیر قتل نہ کئے جائیں تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا۔

مسیلمہ کذاب کے ایلچی کو عبداللہ ابن مسعود ؓ نے قتل کروایا۔یہ واقعہ درج ذیل روایت میں ہے۔

"عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ أَتَى عَبْدَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا بَيْنِي وَبَيْنَ أَحَدٍ مِنْ الْعَرَبِ حِنَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي مَرَرْتُ بِمَسْجِدٍ لِبَنِي حَنِيفَةَ فَإِذَا هُمْ يُؤْمِنُونَ بِمُسَيْلِمَةَ،فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِفَجِيءَ بِهِمْ فَاسْتَتَابَهُمْ غَيْرَ ابْنِ النَّوَّاحَةِ،قَالَ لَهُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِﷺ يَقُولُ:‏‏‏‏لَوْلَا أَنَّكَ رَسُولٌ لَضَرَبْتُ عُنُقَكَ فَأَنْتَ الْيَوْمَ لَسْتَ بِرَسُولٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ قَرَظَةَ بْنَ كَعْبٍ فَضَرَبَ عُنُقَهُ فِي السُّوقِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى ابْنِ النَّوَّاحَةِ قَتِيلًا بِالسُّوقِ"3
"حضرت حارث بن مضرب سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس آ کر کہا:میرے اور کسی عرب کے بیچ کوئی عداوت و دشمنی نہیں ہے،میں قبیلہ بنو حنیفہ کی ایک مسجد سے گزرا تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ مسیلمہ پر ایمان لے آئے ہیں،یہ سن کر عبداللہ بن مسعود ؓ نے ان لوگوں کو بلا بھیجا،وہ ان کے پاس لائے گئے تو انہوں نے ابن نواحہ کے علاوہ سب سے توبہ کرنے کو کہا، اور ابن نواحہ سے کہا:میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے: اگر تو ایلچی نہ ہوتا تو میں تیری گردن مار دیتا آج تو ایلچی نہیں ہے۔پھر انہوں نے قرظہ بن کعب کو حکم دیا تو انہوں نے بازار میں اس کی گردن مار دی، اس کے بعد عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا:جو شخص ابن نواحہ کو دیکھنا چاہے وہ بازار میں جا کر دیکھ لے وہ مرا پڑا ہے"

جب حضورﷺ کی وفات ہوئی تو اس کے بعد بہت سے فتنوں نے سراٹھایا جن میں منکرین زکوۃ کا فتنہ بھی تھا۔صحابہ کرام ؓ نے منکرین زکوۃ کے خلاف بھی جہاد کیا لیکن جہاد کرنے سے پہلے اس پر بحث و مباحثہ بھی ہوا کہ منکرین زکوۃ کے خلاف جہاد کیا جائے یا جہاد نہ کیا جائے۔ جب صحابہ کرام ؓ متفق ہوگئے تو پھر منکرین زکوۃ کے خلاف جہاد ہوا۔

لیکن جب مسیلمہ کذاب کے خلاف حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جہاد کا حکم دیا تو کسی ایک صحابی نے یہ نہیں کہا کہ وہ کلمہ گو ہے اس کے خلاف جہاد نہیں ہونا چاہئے۔بلکہ تمام صحابہ کرام ؓ نے مسیلمہ کذاب اور اس کے پیروکاروں کو کفار سمجھ کر کفار کی طرح ان سے جہاد کیا۔ اور مسیلمہ کذاب کو قتل کرنے کی وجہ صرف اس کا دعوی نبوت تھا کیونکہ ابن خلدون کے مطابق صحابہ کرام ؓ کو اس کی دوسری گھناونی حرکات کا علم اس کے مرنے کے بعد ہوا۔

اور یہی صحابہ کرام ؓ کا عقیدہ ختم نبوت پر اجماع ہے۔

عقیدہ ختم نبوت پر اجماع امت:

عقیدہ ختم نبوتﷺ پر اجماع امت کے چند حوالے ملاحظہ فرمائیں۔

حوالہ نمبر 1:

ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں:

"دعوي النبوة بعد نبیناﷺ كفرا بالاجماع" 4
ہمارے نبیﷺ کے بعد نبوت کا دعوی کرنے والا امت کے اجماع سے کافر ہے۔

حوالہ نمبر 2:

امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ :

"ان الامة فھمت بالاجماع من هذا الفظ ومن قرائن احواله انه افهم عدم نبي بعده ابداوانه لیس فیه تاویل ولا تخصیص فمنکر هذا لایکون الا منکر الاجماع" 5
"بیشک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپﷺ کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ کوئی رسول ہوگا۔اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں۔پس اس کا منکر یقینا اجماع امت کا منکر ہے۔"

حوالہ نمبر 3:

علامہ آلوسیؒ ختم نبوت پر امت کےاجماع کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :

"وكونهﷺ خاتم النبیین مما نطقت به الکتاب وصدعت به السنة واجمعت علیه الامة فیکفر مدعي خلافه ویقتل ان اصر"6
"آنحضرتﷺ کا خاتم النبیین ہونا ان مسائل میں سے ہے جس پر کتاب(قرآن) ناطق ہے اور احادیث نبویﷺ اس کو بوضاحت بیان کرتی ہیں۔ اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے۔پس اس کے خلاف کا مدعی کافر ہے اگر وہ توبہ نہ کرے تو قتل کر دیا جائے۔"

حوالہ نمبر 4:

قاضی عیاضؒ نے خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ اس کے دور میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا۔تو خلیفہ نے وقت کے علماء جو تابعین میں سے تھے ان کے فتوی سے اس کو قتل کروادیا۔قاضی صاحب اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:

"وفعل ذالک غیر واحد من الخلفاء والملوک باشباھھم واجمع علماء وقتھم علی صواب فعلھم والمخالف فی ذالک من كفرھم كافر۔"7
"اور بہت سے خلفاء سلاطین نے ان جیسے مدعیان نبوت کے ساتھ یہی معاملہ کیا ہے۔اور اس زمانے کے علماء نے ان سے اس فعل کے درست ہونے پر اجماع کیا ہے۔اور جو شخص ایسے مدعیان نبوت کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے۔"

عقیدہ ختم نبوتﷺ کے بارے میں قرآن ،حدیث اور اجماع امت کی بحث کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

1) عقیدہ ختم نبوتﷺ قرآن پاک کی 99 آیات سے ثابت ہے۔

2) عقیدہ ختم نبوتﷺ 210 سے زائد احادیث سے ثابت ہے۔

3) عقیدہ ختم نبوتﷺ تواتر سے ثابت ہے۔

4) عقیدہ ختم نبوتﷺ صحابہ کرام ؓ کے اجماع اور امت کے اجماع سے بھی ثابت ہے۔

5) مسئلہ ختم نبوت پر امت کا سب سے پہلا اجماع منعقد ہوا۔

6) عقیدہ ختم نبوتﷺ کی وجہ سے قرآن پاک کی حفاظت کا اللہ تعالٰی نےوعدہ فرمایا۔


  • 1 سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر 3950 ٬ باب سواد الأعظم
  • 2 ابوداؤد: حدیث نمبر: 2761 ٬ باب فی الرسل
  • 3 ابوداؤد:حدیث نمبر: 2762 ٬ باب فی الرسل
  • 4 الفقہ الاکبر ص: 150
  • 5 الاقتصاد فی الاعتقاد صفحہ 178 ٬ الباب الرابع ٬بیان من یجب تکفیرہ من الفرق
  • 6 روح المعانی، ج: 22 ص: 41 تفسیر آیت نمبر:40 سورة الاحزاب
  • 7 شرح الشفاء ج: 2 ص: 534


عقیدہ ختم نبوت اور صحابہ کرام کا عقیدہ

اللہ پاک نے حضور نبی کریم ﷺکو دنیا میں تمام انبیا و مرسلین کے بعد سب سے آخر میں بھیجا اور رسول کریم ﷺپر رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم فرمادیا۔ سرکارِ مدینہ ﷺ کے زمانے یا حضور اکرم ﷺکے بعد قیامت تک کسی کو نبوت ملنا ناممکن ہے ، یہ دینِ اسلام کا ایسا بنیادی عقیدہ ہے کہ جس کا انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنے والا کافر و مرتد ہوکر دائرۂ اسلام سے نکل جاتا ہے اس مضمون میں ختمِ نبوت پر صحابۂ کرام sym-7 کے اعمال و اقوال بیان کئے جائیں گے جن کے پڑھنے سے اِنْ شاءَ اللہ عقیدۂ ختمِ نبوت کو مزید تقویت و پختگی ملے گی کہ عقیدۂ ختمِ نبوت صحابۂ کرام ، تابعین ، تبع تابعین ، سلف صالحین ، علمائے کاملین اور تمام مسلمانوں کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے۔


صحابیِ رسول حضرت فیروز دیلمی کا عقیدہ ختمِ نبوت کے لئے جذبہ :

نبی کریمﷺکے زمانے میں اسود عنسی نامی شخص نے یمن میں نبوت کا دعویٰ کیا ، سرکارِ دو عالَم ﷺ نے اس کے شر و فساد سے لوگوں کو بچانے کے لئے صحابۂ کرام سے فرمایا کہ اسے نیست و نابود کردو۔ حضرت فیروز دیلمی sym-5 نے اُس کے محل میں داخل ہوکر اُسے قتل کردیا۔ رسولِ کریم ﷺنے غیب کی خبر دیتے ہوئے مدینۂ منورہ میں مرضِ وصال کی حالت میں صحابۂ کرام کو یہ خبر دی کہ آج اسود عنسی مارا گیا اور اسے اس کے اہلِ بیت میں سے ایک مبارک مرد فیروز نے قتل کیا ہے ، پھر فرمایا :فَازَ فَیْرُوز یعنی فیروز کامیاب ہوگیا۔1


حضرت ابوبکر صدیق اور جماعتِ صحابہ کا عقیدہ :

مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ، امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا ابوبکر صدیق sym-5 نے رسولِ کریمﷺ کے زمانے میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے مُسَیلمہ کذّاب اور اس کے ماننے والوں سے جنگ کے لئے صحابیِ رسول حضرت خالد بن ولید sym-5 کی سربراہی میں 24 ہزار کا لشکر بھیجا جس نے مسیلمہ کذّاب کے 40ہزار کے لشکر سے جنگ کی ، تاریخ میں اسے جنگِ یمامہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، اس جنگ میں 1200 مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا جن میں 700 حافظ و قاریِ قراٰن صحابہ بھی شامل تھے جبکہ مسیلمہ کذّاب سمیت اس کے لشکر کے 20ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی۔2

مفکرِ اسلام حضرت علّامہ شاہ ترابُ الحق قادری رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رحمتِ عالَمﷺ کے دس سالہ مدنی دور میں غزوات اور سرایا ملا کر کُل 74 جنگیں ہوئیں جن میں کُل 259 صحابہ شہید ہوئے جبکہ مُسَیلمہ کذّاب کے خلاف جو جنگِ یمامہ لڑی گئی وہ اس قدر خونریز تھی کہ صرف اس ایک جنگ میں 1200صحابہ شہید ہوئے جن میں سات سو حفاظ صحابہ بھی شامل ہیں۔ 3

ختمِ نبوت کے معاملے میں جنگِ یمامہ میں 24ہزار صحابۂ کرام نے شریک ہوکر اور 1200 صحابۂ کرام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اپنا عقیدہ واضح کردیا کہ حضور نبیِّ کریمﷺ اللہ پاک کے آخری نبی و رسول ہیں ، حضورِ اکرم ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا اور اگر کوئی نبوت کا دعویٰ کرے تو اس سے اعلانِ جنگ کیا جائے گا۔


حضرت عمر فاروقِ اعظم کا عقیدہ :

مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ ، امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم sym-5نے حُضور نبیِّ کریمﷺ کے وِصالِ ظاہری کے بعد روتے ہوئے اس طرح فرمایا : یارسولَ اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان! اللہ پاک کی بارگاہ میں آپ ﷺ کا مرتبہ اس قدر بلند ہے کہ آپﷺ کو انبیائے کرام میں سب سے آخر میں بھیجا ہے اور آپ ﷺ کا ذکر ان سب سے پہلے فرمایا ہے۔ 4


حضرت عثمانِ غنی کا عقیدہ :

حضرت عبداللہ بن مسعودsym-5 نے کوفہ میں کچھ لوگ پکڑے جو نبوت کے جھوٹے دعویدار مُسَیلمہ کذّاب کی تشہیر کرتے اور اس کے بارے میں لوگوں کو دعوت دیتے تھے۔ آپ sym-5 نے مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ ، حضرت سیّدُنا عثمان بن عفان sym-5 کو اس بارے میں خط لکھا۔ حضرت عثمانِ غنی sym-5 نے جواب میں لکھا کہ ان کے سامنے دینِ حق اور لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کی گواہی پیش کرو۔ جو اسے قبول کرلے اور مُسَیلمہ کذّاب سے بَراءَت و علیحدگی اختیار کرے اسے قتل نہ کرنا اور جو مُسَیلمہ کذّاب کے مذہب کو نہ چھوڑے اسے قتل کردینا۔ ان میں سے کئی لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تو انہیں چھوڑ دیا اور جو مُسَیلمہ کذّاب کے مذہب پر رہے تو ان کو قتل کردیا۔5


حضرت علیُّ المرتضیٰ کا عقیدہ :

مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ ، امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ sym-5 سرکارِ دو عالَمﷺ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّين
یعنی رسولِ کریم ﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان مُہرِ نبوت تھی اور آپﷺ آخری نبی ہیں۔6


صحابیِ رسول حضرت ثُمامہ کا عقیدہ :

حضرت سیّدُنا ثُمامہ بن اُثال sym-5 نبوّت کے جھوٹے دعویدار مُسَیلمہ کذّاب سے اس قدر نفرت کیا کرتے تھے کہ جب کوئی sym-5 کے سامنے اس کا نام لیتا تو جوشِ ایمانی سے آپ رضی اللہ عنہ کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا اور رونگٹے کھڑے ہوجاتے۔ آپ نے ایک مرتبہ مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ تاریخی جملے ادا کئے : مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہﷺ کے ساتھ نہ تو کوئی اور نبی ہے نہ ان کے بعد کوئی نبی ہے ، جس طرح اللہ پاک کی اُلُوہیَّت میں کوئی شریک نہیں ہے اسی طرح محمد ِمصطفےٰ ﷺکی نبوّت میں کوئی شریک نہیں ہے۔ 7


صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کا عقیدہ :

بخاری شریف میں ہے : حضرت اسماعیل بن ابی خالد sym-4 کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداﷲ بن اَبی اَوفیٰ sym-8 سے پوچھا : آپ نے حُضور نبیِّ کریم ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کو دیکھا تھا؟ حضرت عبداللہ بن اَبی اَوفیٰ sym-8 نے فرمایا : ان کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا۔ اگر رسولِ کریم ﷺ کے بعد کسی نبی کا ہونا مقدر ہوتا تو حُضورِ اکرم ﷺ کے صاحبزادے زندہ رہتے ، مگر حُضور کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔8


صحابیِ رسول حضرت انس کا عقیدہ :

حضرت انس sym-5 فرماتے ہیں : (رسولُ اللہﷺ کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم اتنے بڑے ہوگئے تھے کہ ان کا جسم مبارک گہوارے (جھولے) کو بھر دیتا ، اگر وہ زندہ رہتے تو نبی ہوتے مگر ان کا زندہ رہنا ممکن نہیں تھا کیونکہ تمہارے نبی ﷺآخرُ الانبیاء ہیں۔9


صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود کا عقیدہ :

حضرت عبداللہ بن مسعود sym-5 نے لوگوں کو عمدہ اور احسن طریقے سے دُرودِ پاک پڑھنے کی ترغیب دلائی تو لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپsym-5 ہمیں عمدہ دُرودِ پاک سکھا دیجئے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود sym-5 نے فرمایا کہ اس طرح دُرودِ پاک پڑھو :

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ صَلٰوتَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَكَاتِکَ عَلٰی سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ ، وَاِمَامِ الْمُتَّقِينَ ، وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُولِکَ... 10
یعنی اے اللہ! اپنی رحمتیں اور برکتیں رسولوں کے سردار ، متقیوں کے امام اور آخری نبی محمد ﷺپر نازِل فرما جو تیرے بندے اور رسول ہیں...۔

یعنی حضرت عبداللہ بن مسعودsym-5 نے بذاتِ خود خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کے الفاظ کے ساتھ نبیِّ کریم ﷺ پر دُرودِ پاک پڑھا اور دوسروں کو بھی اس طرح دُرودِ پاک پڑھنے کی ترغیب دلائی۔


حضرت اُمِّ اَیْمَن کا عقیدہ :

حضرت انس sym-5 فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ کے ظاہری وصال فرمانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیقsym-5 نے حضرت عمرsym-5 سے فرمایا : آئیے حضرت اُمِّ اَیْمَن sym-6 سے ملاقات کے لئے چلتے ہیں جیساکہ حُضورِ اکرم ﷺ ان سے ملاقات فرمایا کرتے تھے۔ جب دونوں ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں۔ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : آپ کیوں روتی ہیں؟ حضرت اُمِّ اَیْمَن sym-6 نے کہا : اس وجہ سے رو رہی ہوں کہ (نبیِّ کریم ﷺکے وصال کی وجہ سے) آسمان سے وحی آنے کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ یہ سُن کر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما بھی رونے لگے ۔11

اللہ کریم ہمیں عقیدۂ ختمِ نبوت کی حفاظت کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔


  • 1 خصائص الکبریٰ ، 1 / 467 ، مدارج النبوۃ مترجم ، 2 / 481 ملخصاً
  • 2 الکامل فی التاریخ ، 2 / 218 تا 224 ، سیرتِ سید الانبیاء مترجم ، ص608 ، 609 ، مراٰۃ المناجیح ، 3 / 283
  • 3 ختمِ نبوت ، ص:83
  • 4 الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ، 1 / 45
  • 5 سننِ کبریٰ للبیہقی ، 8 / 350 ، رقم : 16852
  • 6 ترمذی ، 5 / 364 ، حدیث : 3658
  • 7 ثمار القلوب فی المضاف والمنسوب ، 1 / 261
  • 8 بخاری ، 4 / 153 ، حدیث : 6194
  • 9 زرقانی علی المواھب ، 4 / 355
  • 10 ابنِ ماجہ ، 1 / 489 ، حدیث : 906
  • 11 مسلم ، ص:1024 ، حدیث : 6318 ، مراٰۃ المناجیح ، 8 / 301


اسلام میں عقیدۂ ختمِ نبوت کی حیثیت

عقیدہ ختم نبوت کا آسان سا مفہوم ہے کہ اللہ تعالی نے تمام رسولوں اور نبیوں کے بعد ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی اور رسول بنا کر بھیجااور آپ کے بھیجنے کے بعد اب اللہ تعالی دوبارہ کسی کو نبوت عطا نہیں فرمائے گا۔ جو آخری نبی کے طور پہ آنا تھا دنیا کے اندر وہ نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام آ چکے ہیں تو اب آپ کے بعد آپ کے زمانے میں یا آپ کے بعد قیامت تک اب کسی نئے نبی نے نہیں آنا کسی کو نبوت نہیں دی جائے گی کسی کو اس منصب کے اوپر فائز نہیں کیا جائے گا۔تو یہ ہے ہمارا بنیادی عقیدہ اور باقی رہا اس کا تعلق کہ اس کا ماننا کیا ہے اور اس کے نام ماننے کا حکم کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس کا ماننا تو ایسے ہی ہے کہ یہ جیسے قرآن پاک کا ماننا کیونکہ نبی پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی جو ختم نبوت کا بیان ہے یہ قرآن پاک میں ہے اور قرآن پاک پر ایمان رکھنا فرض ہے ۔

نظر اول:

قرآن پاک کے ایک لفظ کا بھی اگر کوئی انکار کرے گا تو وہ کا فر ہے اور وہ مسلمان نہیں ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے تو نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا آخری نبی ہونا یہ قرآن کا بیان کردہ عقیدہ ہے اب اس کا انکار کرے گا تو وہ قرآن ہی کا منکر قرار پائے گا تو قرآن کا منکر کافر ہے،قرآن میں بیان کردہ عقیدے کا منکر وہ بھی کافر ہے۔

نظر ثانی:

ایک تو یہ پہلودوسرے نمبر پہ نبی پاک علیہ الصلوۃ والسلام کا جو آخری نبی ہونا ہے یہ خود نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام نے جتنی مرتبہ اور جتنے انداز میں بیان فرمایا ہے علماء نے جو اس کی احادیث جمع کی ہیں ان کی تعداد تقریبا تین سو سے زیادہ ہے اور یہ وہ ہیں کہ جو بالکل واضح طور پہ نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام کے آخری نبی ہونے کو بیان کرتیں ہیں۔ جس میں یا ختم نبوت کا لفظ ہے یا خاتم النبین کا لفظ ہے یا انقطاع نبوت کا لفظ ہے یا آخر الامم جیسے الفاظ ہیں اس طرح کے وہ الفاظ کہ جس میں بہت واضح طور پہ عبارت النص کے طور پہ اشارۃ النص کے طور پہ یہ موجود ہوگا کہ نبی پاک علیہ السلام آخری نبی تو اب نبی پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک بات بھی اگر جو آپ سے قطعی یقینی طور پہ ثابت ہو اس کا انکار کرنا یہ نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام ہی کو جھٹلانا ہے کہ نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام کی ثابت شدہ ایک بات کو یا آپ کی بات سمجھتے ہوئے اس کا انکار کرنا یہ سیدھا سیدھا تکذیب ہے، تکذیب رسالت ہے یہ تکذیب نبی ہے تو ایک بات کا انکار کرنے والا بھی کافر ہے جبکہ اس کی نسبت کو وہ مان لے تو یہ جو اتنی بڑی تعداد ہوتی ہے اسے اصطلاح شرح میں کہا جاتا ہے کہ اس کا ثبوت نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام سے تواتر کے ساتھ ہے ،تواتر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد نے ہمیشہ اس بات کو نقل کیا ہے کہ جتنی بڑی تعداد کا جھوٹ پہ جمع ہونا محال ہے ناممکن ہے ایسا ہو نہیں سکتا کہ اتنی بڑی تعداد ایک ہی بات کو یوں نقل کرے تو جو تواتر سے ثابت ہوتا ہے اس کا انکار کرنا بھی کفر ہوتا ہے اور نبی پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی ختم نبوت کا جو بیان ہے وہ تین سو تیرہ احادیث میں ہے اور کوئی چھیالیس سےزیادہ صحابہ کرام ہیں جنہوں نے وہ روایات بیان کی اور اس کے بعد جو تعداد ہے وہ تو پھر بڑھتی گئی مسلسل ،تو یہ تواتر کے ساتھ منقول عقیدہ تو لہذا اس اعتبار سے بھی اس کا جو ہے انکار کفر ہے۔

نظر ثالث:

تیسری بات کفر ہے کہ عقائد کے اندر مختلف درجات ہوتے ہیں کہ ایک قطعی یقینی، اجماعی عقائد ایک اس سے کچھ نیچے درجے کے ہوتے ہیں، اس سے کچھ نیچے درج کے ہوتے ہیںعقائد کا سب سے بلند درجہ کو ضروریات دین کہتے ہیں:

ضروریات دین:

ان کا ثبوت قرآن عظیم یا حدیث متواتره یا اجماع قطعی قطعی الدلالات واضحة الافادات سے ہوتا ہے۔ جن میں نہ شبہے کی گنجائش ، نہ تاویل کو راہ اور ان کا منکر ، ان میں باطل تاویلات کا مرتکب کافر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :۔

پہلی مثال :

پانچ وقت کی نماز ہر مسلمان عاقل و بالغ پر فرض ہے۔ اس کی فرضیت کو ہر کلمہ گو جانتا ہے۔ عالم بھی ، جاہل بھی متقی بھی اور فاسق بھی لیکن ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نماز کو فرض نہیں سمجھتا تو وہ کافر و مرتد ہے ۔ کیونکہ اس نے ایک ضرورت دینی کا انکار کیا۔

دوسری مثال :

خنزیر کی حرمت ضروریات دین سے ہے۔ اگر کوئی مسلمان شخص کہے کہ میں خنزیر کو حرام نہیں سمجھتا تو وہ کافر و مرتد ہے۔ کیونکہ اس نے ایک ضرورت دینی کا انکار کیا۔ ایسے ہی خمر کی حرمت کا منکر بھی کافر ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ضروریات دین کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے کہ جس کا نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام کے دین سے ہونا ہر عام و خاص کو پتہ ہے کوئی عالم ہے یا کوئی علماء کی صحبت میں بیٹھنے والا ہے جسے دین کا تھوڑا بہت بھی شغف ہے وہ یہ جانتا ہے کہ یہ اسلام کا عقیدہ ہے یہ اسلام کی بات ہےجیسے اللہ کو ماننا ،رسول اللہ کو ماننا وغیرہ وغیرہ ۔

ان عقیدوں کو سنتے ساتھ ہی ایک درمیانہ سا بھی بلکہ درمیانے سے بھی کم درجے کا دین سے تعلق رکھنے والا بندہ سمجھ لیتا ہے کہ یار یہ تو ہمارا اسلام کا عقیدہ ہے ۔ یہ تو ہمارا دین ہے نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام کے ختم نبوت کا عقیدہ بھی اسی درجہ میں آتا ہے اسی قسم میں آتا ہے تو یہ اس قسم کا عقیدہ ہے اور اس پر پوری امت متفق ہے یعنی یہ اجماع امت سے ہے۔ اور اجماع امت بھی اس بات کے اوپر کہ یہ دین کے مرکزی ترین عقیدوں میں سے ایک عقیدہ ہے۔ تو لہذا اب جو اس کا انکار کرے گا وہ ہوگا ضروریات دین کا انکا ر۔ ضروریات دین کا ماننا فرض اور کسی ایک دینی ضروری عقیدے کا انکار کرنا کفر ہوتا ہے تو یہ ہے عقیدہ ختم نبوت کا معاملہ کہ اس کا ماننا اتنا ہی فرض ہے کہ جتنا نبی پاک علیہ الصلوۃ والسلام کو خود نبی ماننا فرض ہے۔ نبی ماننا اور آخری نبی ماننا یہ دونوں برابر درجے کے ہیں تو لہذا ماننا اتنا فرض اور اس کا انکار کرنا اتنا ہی بڑا کفر ہے کہ جتنا نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام کو نبی ماننے سے انکار کر دے،علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں کہ:

اگر کوئی شخص یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ حضرت محمدصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان ہی نہیں کیونکہ یہ ضروریاتِ دین میں سے ہے۔

[ الاشباہ والنظائر ،ص:161]


عقیدہ ختم نبوت پر آئمہ فقہ وعقائد کی آراء

اَئمہ فقہ کا موقف وہی مؤقف ہے جو امت میں چودہ سو سال سے چلا آرہا ہے یعنی کہ خاتم النبیین کا معنی یہ ہے کہ حضور ﷺ آخری نبی ہیں، آپ ﷺ نے تشریف لا کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہو گا۔ اس معنی پر تمام امت کا اتفاق و اجماع ہے بلکہ امت کا یہ بھی اجتماعی فیصلہ ہے کہ آپ ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کفر و ارتداد اور کذب و افتراء ہے۔

(1) امام اعظم ابو حنیفہؒ (م 150ھ)

امام اعظم ابو حنیفہؒ کے نزدیک تو مدعی نبوت سے دلیل طلب کرنا بھی کفر ہے۔ اس حوالے سے آپ کا موقف یہ ہے:

وتنبأ رجل فی زمن أبي حنیفة رحمه الله وقال أمهلوني حتي أجیي بالعلامات۔ وقال أبوحنیفة رحمه الله: من طلب منه علامة فقد كفر لقول النبی ﷺ : لا نبي بعدي1
’’امام ابوحنیفہؒ کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس نے کہا کہ مجھے مہلت دو تاکہ اپنی نبوت پر دلائل پیش کروں، حضرت امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا (جو شخص حضور ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرے وہ بھی کافر ہے اور) جو اس سے دلیل طلب کرے وہ بھی کافر ہے کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘

(2) امام محمد شہاب الکردری (م 287ھ)

محمد شہاب الکردری فرماتے ہیں:

وأما الایمان بسیدنا علیه الصلوة والسلام فیجب بأنه رسولنا فی الحال وخاتم الأنبیاء والرسل فاذا أمن بأنه رسول ولم یؤمن بأنه خاتم الرسل لا ینسخ دینه إلی یوم القیامةلا یکون مؤمنا وعیسی علیه الصلوة والسلام ینزل إلی الناس یدعوا إلی شریعته وھو سائق لأمته إلي دینه2
’’حضور نبی اکرم ﷺ پر ایمان لانا یہ واجب کرتا ہے کہ (ہم اعتقاد رکھیں) آپ ﷺ آج بھی ہمارے رسول ہیں اور سلسلہ انبیاء و رسل کو ختم فرمانے والے ہیں اگر کوئی شخص یہ ایمان رکھے کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں مگر یہ ایمان نہ رکھے کہ آپ ﷺ آخری رسول ہیں (اسی طرح اگر کوئی شخص یہ اعتقاد بھی نہ رکھے کہ) تاقیامت آپ ﷺ کا دین منسوخ نہیں ہو گا تو وہ مومن نہیں (ہمارا یہ اعتقاد بھی ہونا چاہئے کہ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام لوگوں کی طرف نازل ہوں گے اور انہیں شریعت مصطفوی ﷺ کی طرف بلائیں گے اور وہ آپ ﷺ کی امت کو آپ ﷺ کے دین (پر عمل پیرا ہونے) کی رغبت دلائیں گے۔‘‘

(3) امام ابو جعفر طحاوی (م 321ھ)

امام ابوجعفرالطحاوی اپنی کتاب ’العقیدۃ الطحاویۃ‘ میں امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد علیھم الرحمۃ کے عقائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وكل دعوي النبوة بعدہ علیه السلام فغي وھوي3
’’حضور ﷺ کے بعد ہر قسم کا دعویٰ نبوت گم راہی اور خواہش نفس کی پیروی ہے۔‘‘

(4) امام ابن حزم اندلسی (م 456ھ)

علامہ ابن حزم اندلسی فرماتے ہیں:

وكذلك من قال … إن بعد محمد ﷺ نبیًا غیر عیسي بن مریم فإنه لا یختلف اثنان فی تكفیره4
’’اسی طرح جو یہ کہے کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی ہے سوائے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے تو ایسے شخص کو کافر قرار دینے میں دو مسلمانوں میں بھی اختلاف نہیں ہے (یعنی یہ امت کا متفقہ اور اجتماعی اور اجماعی موقف ہے)۔‘‘

دوسرے مقام پر علامہ موصوف فرماتے ہیں:

وأن الوحي قد انقطع مذمات النبی ﷺ برھان ذلك أن الوحی لا یكون الا إلی نبی وقد قال : {مَا کكانَ مُحَمَّدٌ أبَا أحَدٍ مِّنْ رِجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَسُوْلَ اللهِ و خَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ}5
’’بیشک حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد نزول وحی منقطع ہو گیا اس کی دلیل یہ ہے کہ وحی کا نزول صرف نبی پر ہوتا ہے اور جیسا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں مگر اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں یعنی جن کے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘

ایک اور جگہ علامہ اندلسی فرماتے ہیں:

وأنه علیه السلام خاتم النبیین لانبي بعده برھان ذلک: قول الله تعالی {مَا كانَ مُحَمَّدٌ أبَا أحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النِّبِيِّيْنَ}6
’’بیشک نبی کریم ﷺ خاتم النبیین ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ دلیل اس کی فرمان باری تعالیٰ ہے: {محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلہ نبوت ختم کرنے والے) ہیں}۔‘‘

(5) امام نجم الدین عمر نسفی(م 537ھ)

امام نجم الدین عمر نسفی فرماتے ہیں:

وأول الأنبیاء آدم وآخرھم محمّد علیھما الصّلوة والسّلام
7
’’انبیاء میں سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری حضرت محمد ﷺ۔‘‘

(6) علامہ سعد الدین تفتازانی (م 791ھ)

علامہ سعد الدین تفتازانی العقائد النسفیۃ کی عبارت کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وقد دلّ كلامه وكلام الله المنزل علیه أنه خاتم النّبیّین وأنّه مبعوث إلی كافة الناس بل إلی الجن والإنس ثبت أنه آخر الأنبیاء8
’’حضورنبی اکرم ﷺ کا کلام (حدیث مبارکہ) اور کلام الهٰی جو آپ ﷺ پر نازل ہوا (یعنی قرآن مجید) اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے سلسلہ نبوت کو ختم کر دیا ہے اور آپ ﷺ تمام کائنات انسانی بلکہ تمام جن و انس کی طرف (رسول بن کر) مبعوث ہوئے ہیں۔ (قرآن و حدیث) سے ثابت ہوا کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔‘‘

علامہ تفتازانی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ ’’احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا پھر آپ ﷺ آخری نبی کیسے ہوئے؟‘‘ فرماتے ہیں:

لکنه یتابع محمّداً علیه السلام لأن شریعته قد نسخت فلا یكون إلیه وحي ونصب الأحکام بل یكون خلیفة رسول الله علیه السّلام9
’’لیکن وہ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) حضرت محمد مصطفی ﷺ کی متابعت اور پیروی کریں گے کیونکہ ان کی شریعت منسوخ ہو چکی ہے ان کی طرف نہ تو وحی ہوگی اور نہ ان کے ذمہ نئے احکامِ شریعت کو قائم کرنا ہو گا بلکہ آپ حضور ﷺ کے خلیفہ کی حیثیت سے آئیں گے۔‘‘

(7) امام شیخ زین الدین ابن نجیم (م 970ھ)

علامہ ابن نجیم حنفی کا ارشاد ہے:

اذا لم یعرف أن محمّداً ﷺ آخر الانبیاء فلیس بمسلم لأنه من الضروریات10
’’اگر کوئی شخص یہ نہ مانے کہ حضرت محمد ﷺ تمام انبیاء میں سب سے آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان نہیںکیونکہ ٰختم نبوت کا عقیدہ ضروریات دین میں سے ہے۔‘‘

شیخ زین الدین ابن نجیم دوسری جگہ فرماتے ہیں:

أنه یکفربه … بقوله لا أعلم أن آدم علیہ السلام نبی أولا ولو قال آمنت بجمیع الأنبیاء علیھم السّلام بعدم معرفة أن محمدا ﷺ آخر الأنبیاء
ا11
’’اس شخص کو کافر قرار دیا جائے گا جو یہ کہے کہ میں نہیں جانتا کہ آدم علیہ السلام پہلے نبی ہیں اور حضرت محمد ﷺ آخری نبی اگرچہ وہ یہ کہتا پھرے کہ میں تمام انبیاء پر ایمان رکھتا ہوں۔‘‘


  • 1 مناقب الإمام الأعظم أبی حنیفہ، باب 7: من طلب علامة من المتنبی فقد کفر، 1: 161
  • 2 الفتاویٰ البزازیہ، الجزء الثالث، کتاب السیر، بھامش الفتاوی الھندیہ، 6: 327
  • 3 العقیدۃالطحاویۃ: 17
  • 4 الفصل فی الملل والاھواء والنحل، 3: 249
  • 5 المحلی، مسائل التوحید، مسئلہ : 44، 1: 26
  • 6 المحلی، 1: 9
  • 7 العقائد النسفیۃ، بیان فی إرسال الرسل: 28
  • 8 شر ح العقائد النسفیۃ، بیان فی إرسال الرسل: 137
  • 9 شرح العقائد النسفیہ، بیان فی إرسال الرسل: 138
  • 10 الاشباہ والنظائر، الفتن الثانی، کتاب السیر و الردۃ، 1: 296
  • 11 البحر الرائق شرح کنز الدقائق، کتاب السیر، باب أحکام المرتدین، 5: 130

عقیدہ ختم نبوت پر اَئمہ حدیث کی آراء

آئمہ حدیث کے نزدیک بھی خاتم النبیین کا وہی معنی ہے جو امت میں تواتر کے ساتھ چلا آیا ہیں۔ چنداَئمہ کے اقوال اور آراء درج ذیل ہیں:

(1) امام ابن حبان (م 354ھ) :

امام قسطلانی نے ختم نبوت کے حوالے سے امام ابن حبان کا قول نقل کیا ہے:

من ذھب إلی أن النبوة مکتسبة لا تنقطع أو إلی أن الولی أفضل من النّبي فهو زندیق یجب قتله1
’’جو یہ عقیدہ رکھے کہ نبوت کسب کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے، یہ ختم نہیں ہوتی یا یہ کہ ولی نبی سے افضل ہے تو وہ کافر ہے، اس کا قتل (قانوناً) واجب ہے (جس کی تنفیذکا حق عدالت کے پاس ہے)۔‘‘

امام زرقانی اس قول کی شرح میں ایسے شخص کے ارتداد اورقتل کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

لتکذیب القرآن و خاتم النبیین2

(2) قاضی عیاض (م 544ھ):

ابو الفضل قاضی عیاض شافعی نے ہر قسم کی نبوت اور القاء وحی کے دعویٰ کو کفر قرار دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

أو من ادّعی النبوة لنفسه او جوّز اكتسابها والبلوغ بصفاء القلب إلی مرتبتها … وكذلک من ادّعي منهم أنه یوحي إلیه و إن لم یدّع النبوة … فھؤلاء كلّهم كفّار و مکذِّبون للنبي ﷺ لأنّه أخبر - علیه السلام - أنه خاتم النبیین لا نبی بعده، وأخبر أیضاً عن الله -تعالٰی- أنه خاتم النبیین وأنه أرسل إلی کافَّة للناس وأجمعت الأمة علی حمل هذا الکلام علی ظاھرهوأن مفھومه المراد منه دون تأویل ولا تخصیص فلا شك فی كفر ھؤلاء الطوائف كلھا قطعاً إجماعاً و سمعاً 3
’’یا جو شخص (حضور ﷺ کے بعد) نبوت کا دعویٰ کرے یا سمجھے کہ (ریاضت و مجاہدے کے ذریعے) کوئی اسے حاصل کر سکتا ہے اور صفائے قلبی سے منصب نبوت پا سکتا ہے۔ اسی طرح جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے اگرچہ وہ نبوت کا دعویٰ نہ کرے پس ایسے سب مدعیان کافر ہیں اور تاجدارِ کائنات ﷺ کی تکذیب کرنے والے ہیں کیونکہ آپ ﷺ نے باخبر کر دیا کہ آپ آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور آپ ﷺ نے من جانب اللہ (ہمیں) آگاہ فرما دیا ہے کہ آپ سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں۔ بیشک اللہ نے آپ کو تمام کائنات انسانی کی طرف مبعوث کیا ہے (قرآن و سنت کے علاوہ) تمام امت کا اس پر اجماع ہے کہ اس کلام کو اپنے ظاہر پر محمول کیا جائے گا اور ان الفاظ کا جو ظاہری مفہوم ہے بالکل وہی بغیر کسی تاویل و تخصیص کے مراد ہو گا۔ (جو لوگ اس کے خلاف کریں) قرآن و حدیث اور اجماع امت کی رو سے ان (سب) کے کفر میں کوئی شک نہیں۔‘‘

(3) امام ابن حجر عسقلانی (م 852ھ):

امام ابن حجر عسقلانی یوں رقم طراز ہیں:

وفضل النبی ﷺ علی سائر النبیین، وان الله خاتم به المرسلین وأكمل به شرائع الدین5
’’حضور نبی اکرم ﷺ تمام انبیاء علیھیم السّلام پر فضیلت رکھتے ہیں اور اللہ نے آپ ﷺ پر رُسُلِ عظام کی بعثت کا سلسلہ ختم کر دیا اور آپ ﷺ کے ذریعے شریعت کی تکمیل فرما دی۔‘‘

(4) امام بدرالدین عینی (م 855ھ):

امام عینی اس ضمن میں لکھتے ہیں:

وأن الله ختم به المرسلین وأكمل به شرائع الدین6
’’اور بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پررسولوں (کی بعثت) کو ختم فرما دیا اور آپ ﷺ کے (دین اسلام) کے ساتھ شریعت مکمل فرما دی۔‘‘

(5) امام قسطلانی (م 923ھ):

امام قسطلانی خاتم النیین کا معنی بیان کرتے ہیں:

خاتم النبیین أي آخرھم الذي ختمھم أو ختموا به7
’’خاتم النبیین کا معنی ہے آپ ﷺ تمام انبیاء کے وہ فردِ آخر ہیں کہ جس نے (تشریف لا کر) انہیں ختم کردیا یا وہ اس(کی بعثت)کے ساتھ ختم کر دیئے گئے۔‘‘

امام قسطلانی سورۂ احزاب کی آیت نمبر 40 کے ذیل میں لکھتے ہیں:

وھذه الآیة نص فی أنه لا نبي بعده فلا رسول بطریق الأولی، لأن مقام الرسالة أخص من مقام، فأن كل رسول نبي، ولا ینعکس8
یہ آیت کریمہ اس پر نص ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں توکوئی رسول بدرجہ اولی نہیںکیونکہ منصبِ رسالت منصبِ نبوت سے خاص ہے، پس بے شک ہر رسول نبی ہے مگر ہر نبی رسول نہیں۔‘‘

امام قسطلانی مزید لکھتے ہیں:

فمن تشریف الله تعالیٰ له ختم الأنبیاء والمرسلین به وإكمال الدین الحنیف له وقد أخبر الله في كتابه ورسوله في السنة المتواترة عنه أنه لا نبی بعده لیعلموا أن كل من ادعی ھذا المقام بعدہ فھو كذاب أفّاک دجّال ضالّ ولو تحذق وتشعبذ وأتی بأنواع السحر والطلاسم والنیرنجیات9
’’اور اللہ تعالیٰ کے آپ کو عطا کردہ شرف میں سے ہے کہ اس نے آپ ﷺ کی بعثت سے انبیاء و مرسلین (کے سلسلہ) کو ختم فرما دیا اور آپ ﷺ کے لیے دینِ حنیف کی تکمیل فرما دی اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن حکیم) میں اور اس کے رسول ﷺ نے سنت متواترہ میں خبر دی ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی (نئے)نبی کی آمد نہیں ہوگی تا کہ سب لوگ جان لیں کہ آپ ﷺ کے بعد جس کسی نے بھی اس مقام (منصب نبوت) کا دعوی کیا وہ بہت بڑا دروغ گو، دجال، گمراہ اور گمراہی پھیلانے والاہے اگرچہ وہ بڑی عقلی مہارت دکھائے، شعبدہ بازی کرے اور طرح طرح کے سحر و طلسمات اور کرشمات کا مظاہرہ کرے۔‘‘

(6) ملا علی قاری (م 1014ھ):

ملا علی قاری تاجدارِ کائنات حضرت محمد ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کے بارے میں لکھتے ہیں:

ودعوي النبوة بعد نبینا ﷺ كفر بالإجماع10
’’ہمارے نبی اکرم ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت بالاجماع کفر ہے۔‘‘

(7) امام احمد شہاب الدین خفاجی (م 1069ھ):

علامہ احمد شہاب الدین خفاجی اس حوالے سے لکھتے ہیں:

وكذلک نكفر من ادعي نبوة أحد مع نبینا ﷺ ان في زمنه كمسیلمة الکذاب والأسود العنسی أو ادعي نبوة أحد بعده فإنه خاتم النبیین بنص القرآن والحدیث، فھذا تکذیب ﷲ ورسوله ﷺ11
’’(حضور ﷺ کے بعد) جو بھی دعویٰ نبوت کرے گا، ہم اسے کافر قرار دیں گے خواہ آپ ﷺ کے زمانہ میں کرے یا آپ ﷺ کے بعد، بیشک آپ ﷺ سلسلہ انبیاء کو ختم فرمانے والے ہیں۔ قرآن و سنت نے اس کی تصریح کر دی ہے پس (مدعی نبوت) اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرنے والا ہے۔ (چنانچہ وہ قرآن و سنت کا منکر اور کافر ہے)‘‘

(8) امام زرقانی مالکی (م 1122ھ):

امام زرقانی مالکی اپنا نقطۂ نظر یوں بیان کرتے ہیں:

{ولکن رسول الله وخاتم النبیین} أي آخرھم الذي ختمھم أو ختموا به12
’’آپ ﷺ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں یعنی سب نبیوں کے آخر ہیں جس نے (آکر) ان (کی آمد کے سلسلہ) کو ختم فرما دیا یا وہ آپ ﷺ کی بعثت کے ساتھ ختم کر دیئے گے۔‘‘

(9) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م 1147ھ):

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی رائے کا اظہار ان الفا ظ میں کرتے ہیں:

أو قال: إن النبي ﷺ خاتم النبوة ولکن معنی ھذا الکلام أنه لا یجوز أن یسمی بعدہ أحد بالنبی وأما معنی النبوة وھو كون الإنسان مبعوثا من اللہ تعالٰی إلی الخلق مفترض الطاعة معصوماً من الذنوب ومن البقاء علی الخطأ فیما یري فھو موجود فی الائمةبعد فذلك الزندیق وقد اتفق جماھیر المتأخرین من الحنفیة والشافعیةعلی قتل من یجري ھذا المجري13
’’یا وہ شخص یہ کہے: ’’بے شک حضور نبی اکرم ﷺ خاتم النبیین ہیں، اور اس سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی کو نبی کہنا جائز نہیں، مگر نبوت کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوق کی طرف اس حال میں مبعوث ہو کہ وہ واجب الطاعت ہو اور گناہوں سے اور غلطی کو ظاہراً دیکھ کر اس پر قائم رہنے سے معصوم ہو سو ایسا انسان آپ ﷺ کے بعد آئمہ میں بھی موجود ہے۔‘‘ ایسا کہنے والا شخص زندیق ہے۔ ایسی چال چلنے والے شخص کے قتل پر احناف اور شوافع کا اتفاق ہے۔ (یعنی جو شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا اقرار تو کرے مگر نبوت کی حقیقت آپ ﷺ کے بعد اَئمہ میں بھی ثابت کرے۔)‘‘


  • 1 المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، 3: 173
  • 2 شرح المواہب اللدنیۃ، 8: 399
  • 3 اشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، 2: 1070، 1071، القسم الرابع، الباب الثالث، فصل ماھو من المقالات کفر
  • 5 فتح الباری، 6: 559
  • 6 عمدۃ القاری، 16: 98
  • 7 ارشاد الساری شرح صحیح البخاری، 6: 21، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین، 6: 21
  • 8 المواہب اللّدنیۃ بالمنح المحمّدیۃ، 3: 172
  • 9 المواہب اللّدنیۃ بالمنح المحمّدیۃ، 3: 173
  • 10 شرح کتاب الفقہ الأکبر : 247، المسئلۃ المعلقۃ بالکفر
  • 11 نسیم الریاض، فصل فی بیان ماھو من المقالات کفر، 4: 506
  • 12 شرح المواھب اللدنیۃ، 8: 395، الفصل الرابع ما اختص بہ من الفضائل والکرامات
  • 13 المسوّی من أحادیث المؤطا، 2: 299-293


عقیدہ ختم نبوت پر اَئمہ تفسیر کی آراء


جملہ متقدمین و متاخرین اَئمہ تفسیرنے سورۂ احزاب کی آیت: 40 کی تشریح و توضیح اور تفسیر کرتے ہوئے خاتم النبیین کا معنی آخری نبی اور سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والا ہی کیا ہے۔ چند معروف اَئمہ تفسیر کی آراء درج ذیل ہیں:

(1) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما (م 68ھ)

ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں:

{وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْن} ختم الله به النبیین قبله فلا یکون نبی بعده1
’’خاتم النبیین کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ انبیاء حضورﷺ کی ذات اقدس پر ختم فرما دیا ہے پس آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔‘‘

(2) امام ابن جریر طبری (م 310ھ)

امام المفسرین ا بن جریر طبری خاتم النبیین کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ولکنه رسول الله وخاتم النبیین، الذي ختم النبوة فطبع علیھا فلا تفتح لأحد بعده إلی قیام الساعة2
’’لیکن آپ ﷺ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، یعنی وہ ہستی جس نے (مبعوث ہو کر) سلسلہ نبوت ختم فرما دیا ہے اور اس پر مہر ثبت کر دی ہے اور قیامت تک آپ ﷺ کے بعد یہ کسی کے لیے نہیں کھلے گی۔‘‘

امام ابن جریر طبری اختلافَ قراء ت کی صورت میں لفظ خاتم کا معنی بیان کرتے ہیں:

1۔ اگر یہ لفظ بکسر التاء یعنی خَاتِم پڑھا جائے تو اس کا معنی ہوگا:

أنه الذي ختم الأنبیاء صلي الله علیه وسلم و علیھم
’’وہ ذات ﷺ جس نے (سلسلہ) انبیاء علیہم السلام ختم فرما دیا۔‘‘

2۔ اگر یہ لفظ بفتح التاء یعنی خَاتَم پڑھا جائے تو اس کا معنی ہوگا:

أنه آخر النّبیّین3
’’بیشک آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔‘‘

(3) امام بغوی شافعی (م 516ھ)

محی السنہ امام بغوی شافعی خاتم النبیین کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

{وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ الله وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْن} ختم اللہ به النبوة وقرأ ابن عامر وابن عاصم (خَاتَم) بفتح التاء علی الاسم أي آخرھم، وقرأ الآخرون بکسر التاء علی الفاعل لأنه ختم به النبیین فھو خاتمھم 4
’’{لیکن آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں} آپ ﷺ کی بعثت مبارکہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے نبوت ختم فرما دی ہے۔ ابن عامر اور ابن عاصم نے(لفظ خاتم) بر بنائے اسم زبر کے ساتھ پڑھا ہے یعنی آخرِ انبیاء اور دیگر (اہل فن) نے بربنائے فاعل تاء کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے کیونکہ آپ ﷺ نے اپنی بعثت کے ساتھ سلسلۂ انبیاء ختم فرما دیا۔ سو آپ ﷺ ان کے خاتم ہیں۔‘‘

(4) امام زمخشری (م 528ھ)

امام زمخشری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کے تناظر میں حضور ﷺ کے آخر الانبیاء ہونے کی خصوصیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

فإن قلت: كیف كان آخر الأنبیاء وعیسی ینزل فی آخر الزمان؟ قلت: معنی كونه آخر الأنبیاء أنه لا ینبأ أحد بعده وعیسی ممّن نبی قبله وحین ینزل عاملا علی شریعة محمّد (ﷺ) مصلیًّا إلی قبلته كأنّه بعض أمته 5
’’اگر آپ کہیں کہ حضور ﷺ آخری نبی کیسے ہو سکتے ہیں؟ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ میں (یعنی قرب قیامت میں) نازل ہوں گے تو میں کہتا ہوں کہ آپ ﷺ کا آخری نبی ہونا اس معنی میں ہے کہ آپ ﷺ (کی بعثت) کے بعد کوئی شخص نبی کی حیثیت سے مبعوث نہیں ہو گا۔ رہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ تو وہ ان انبیاء میں سے ہیں جنہیں آپ ﷺ (کی بعثت) سے قبل نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا اور جب وہ دوبارہ آئیں گے تو حضرت محمد ﷺ کی شریعت کے پیرو ہوں گے اور انہی کے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں گے گویا کہ وہ آپ ﷺ کی امت کے ایک فرد ہوں گے۔‘‘

(5) اما ابن جوزی (م 597ھ)

امام ابن جوزی خاتم کے معنی کی وضاحت انتہائی جامع الفاظ میں اس طرح کرتے ہیں:

خاتم بکسر التاء فمعناہ: وختم النبیین ومن فتحھا، فالمعنی: آخر النّبیّین6
’’لفظ خاتم تا کی زیر کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے: حضور ﷺ نے سلسلہ انبیاء کو ختم فرما دیا ہے، اور اگر تا کی زبر کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔‘‘

(6) امام فخر الدین رازی (م 606ھ)

امام فخر الدین رازی اس حوالے سے رقم طراز ہیں:

{وخاتم النبیین} وذالك لأن النبي الذّي یكون بعده نبی إن ترك شیئًا من النصیحةوالبیان یستدرکه من یأتی بعده، وأما من لا نبی بعده یکون أشفق علی أمته وأھدي لھم وأجدي، إذ ھو كوالد لولده الذي لیس له غیره من أحدٍ7
’’اور آپ ﷺ آخری نبی ہیں (آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں)۔ اگر ایک نبی کے بعد دوسرا نبی آنا ہوتا تو وہ تبلیغ اور احکام کی توضیح کا مشن کسی حد تک نامکمل چھوڑ جاتا جسے بعد میں آنے والا مکمل کرتا، لیکن جس نبی کے بعد اور کوئی نبی آنے والا نہ ہو تو وہ اپنی امت پر بہت زیادہ شفیق ہوتا ہے اور ان کے لیے واضح قطعی اور کامل ہدایت فراہم کرتا ہے کیونکہ اس کی مثال ایسے باپ کی طرح ہوتی ہے جو جانتا ہو کہ اس کے بعد اس کے بیٹے کی نگہداشت کرنے والا کوئی سرپرست اور کفیل نہ ہوگا۔‘‘

(7) امام قطبی (م 671ھ)

امام قرطبی مالکی لفظ خاتم کی شرح یوں بیان کرتے ہیں:

وخَاتَمَ قرأ عاصم وحده بفتح التاء بمعنی أنهم به خُتموا فهو كالخاتَم والطابَع لھم، وقرأ الجمھور بکسر التاء بمعنی أنّه ختمھم أي جاء آخرھم8
’’صرف عاصم (قاری) نے خاتم تاء کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے جس کا معنی ہے کہ ان (انبیاء) کا سلسلہ آپ ﷺ پر ختم ہو گیا ہے۔ پس آپ ان کے لیے مہر کی طرح ہیں (یعنی آپ ﷺ نے سلسلہ انبیاء پر مہر ثبت کر دی ہے)۔ جمہور نے خاتمِ تاء کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے جس کا معنی ہے کہ آپ ﷺ نے سلسلہ انبیاء ختم فرما دیا ہے، یعنی آپ ﷺ سب سے آخر میں تشریف لائے۔‘‘

(8) امام بیضاوی (م 685ھ)

امام بیضاوی شافعی خاتم النبیین کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وآخرھم الذي ختمھم أو ختموابه علی قراء ۃ عاصم بالفتح ولا یقدح فیه نزول عیسی بعده لأنه إذا نزل كان علی دینه9
’’آپ ﷺ (بعثت کے اعتبار سے) انبیاء میں سب سے آخری نبی ہیں۔ آپﷺ نے (تشریف لا کر) ان کے سلسلہ کو ختم کر دیا اور سلسلہ نبوت پر مہر لگا دی ہے اور … حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حضور ﷺ کے بعد (دوبارہ قرب قیامت میں) نازل ہونا آپ ﷺ کی ختم نبوت میں حارج نہیں ہے (کیونکہ انہیں آپ ﷺ کی بعثت سے قبل منصب نبوت پر فائز کیا گیا تھا) چنانچہ اب وہ حضور ﷺ کے دین اور شریعت کے متبع اور پیروکار کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔‘‘

(9) امام ابوالبرکات عبد اللہ بن احمد بن محمود نسفی (م 710ھ)

امام نسفی اس حوالے سے فرماتے ہیں:

{وخاتم النّبیّین} … أي آخرھم یعنی لا ینبأ أحد بعده، وعیسی ممن نبی قبله وحین ینزل ینزل عاملاً علی شریعةمحمد ﷺ كأنّه بعض أمته10
’’خاتم النبیین کا معنی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ انبیاء میں سب سے آخری نبی ہیں (بعثت کے اعتبار سے) آپ ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی نہیں بنایا جائے گا۔ رہے عیسیٰ علیہ السلام تو وہ آپ سے پہلے انبیاء میں سے ہیں اور جب وہ دوبارہ آئیں گے تو وہ شریعت محمدی ﷺ پر عمل کریں گے اور حضور ﷺ کی امت کے ایک فرد کی طرح ہوں گے۔‘‘

(10) امام علاؤ الدین بغدادی خازن (م 725ھ)

امام علاؤ الدین بغدادی خازن اس نکتے پر اپنا موقف یوں بیان کرتے ہیں:

{وخاتم النّبیّین} ختم الله به النبوة فلا نبوة بعده أي ولا معه11
’’اللہ تعالیٰ نے حضورنبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس پر نبوت ختم فرما دی ہے اب آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبوت ہے اور نہ اس (یعنی نبوتِ محمدی ﷺ) میں کسی قسم کی شراکت یا حصہ داری۔‘‘

وَکَانَ اللهُ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِيْمًا کی تفسیر میں آگے لکھتے ہیں:

أي دخل فی علمه أنه لا نبي بعده12
’’اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہ ہوگا۔‘‘

(11) امام ابو حیان اندلسی (م 754ھ)

امام ابو حیان اندلسی لکھتے ہیں:

وقرأ الجمہور بکسر التاء بمعنی أنه ختمھم أي جاء آخرھم … وروي عنه علیه السلام ألفاظ تقتضي نصًّا أنه لا نبي بعدهﷺ، والمعني أنه یتنبأ أحد بعده ولا یرد نزول عیسی آخر الزماں لأنه ممن نبی قبله وینزل عاملاً علی شریعةمحمد ﷺ مصلیًّا إلی قبلته كأنه بعض أمّته13
’’اور جمہور نے اسے تاء کے کسرہ کے ساتھ پڑھاہے اس معنی میں کہ حضور ﷺ سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں یعنی آپ ﷺ سب انبیاء کے آخر میں تشریف لائے۔ آپ ﷺ سے جو الفاظ روایت کیے گئے ہیں (متعدد متواتر احادیث کی صورت میں) وہ صراحت کے ساتھ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں یعنی آپ ﷺ کے بعد کسی کو منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آخری زمانہ میں آمد سے اس بات (یعنی حضور ﷺ کی ختم نبوت) کی تردید نہیں ہوتی کیونکہ وہ ان انبیاء میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بعثت مصطفوی ﷺ سے قبل منصب نبوت پر فائز کیا تھا۔ اب وہ حضور علیہ الصلوۃ والسّلام کی شریعت کے متبع کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور آپ ﷺ کے قبلہ کی طرف چہرہ کر کے نماز پڑھیں گے گویا ان کی حیثیت حضور ﷺ کے امتی کی سی ہو گی۔‘‘

امام اندلسی منکرین ختم نبوت کے کفر و اتداد اور انجام کے بارے میں لکھتے ہیں:

ومن ذھب إلی أنّ النّبوة مکتسبة لا ینقطع أوإلی أنّ الولی أفضل من النّبي فھو زندیق یجب قتله وقد ادعي ناس فقتلھم المسلمون علی ذلك14
’’اور جس کسی کا یہ مذہب ہو کہ نبوت کسبی ہے ختم نہیں ہوئی یا یہ عقیدہ رکھے ولی نبی سے افضل ہے وہ کافر ہے اس کو قتل کرنا واجب ہے کچھ لوگوں نے یہ دعوی کیا تھا جس پر اہل اسلام نے انہیں قتل کر دیا۔‘‘

(12) امام نظام الدین نیشاپوری (م 728ھ)

امام نظام الدین نیشاپوری لکھتے ہیں:

لا نبي بعد محمّد ﷺ و مجئ عیسی علیه السلام فی آخر الزّمان لا ینافي ذالك لأنّه ممّن نبئ قبل وھو یجئ علی شریعة نبیّنا مصلیًّا إلی قبلته و کأنّه بعض أمته15
’’حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قربِ قیامت کے زمانہ میں آنا اس کے منافی نہیں ہے کیونکہ وہ ان انبیاء میں سے ہیں جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے منصبِ نبوت پر فائز رہ چکے تھے۔ اب وہ ہمارے نبی مکرم ﷺ کی شریعت کے پیروکار کی حیثیت سے آئیں گے۔ آپ ﷺ کے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کریں گے جس طرح امت کے دیگر افراد کرتے ہیں۔‘‘

(13) امام ابن کثیر (م 774ھ)

رئیس المفسرین امام ابن کثیر مذکورہ آیہ مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

فھذه الآیة نصّ فی أنه لا نبی بعده وإذا کان لا نبي بعده فلا رسول بالطریق الأولی والأخری لأن مقام الرّسالة أخصّ من مقام النبوّۃ فإنّ کلّ رسول نبي ولا ینعکس16
’’پس یہ آیت کریمہ {ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین} اس بارے میں نص ہے کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور جب نبی کا آنا محال ہے تو رسول کا آنا بدرجہ اولیٰ محال ہے کیونکہ منصب رسالت خاص ہے منصب نبوت سے، ہر رسول نبی ہوتا ہے جبکہ ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔‘‘

امام ابن کثیر اس کے بعد حضور ﷺ کی ختم نبوت پر متعدد احادیث پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

وقد أخبر الله تبارک وتعالی في کتابه ورسوله ﷺ فی السنّة المتواترة عنه أنّه لا نبي بعده لیعلموا أن كلّ من ادّعي ھذا المقام بعده فھو كذّاب أفّاك دجّال ضالّ مضلّ ولو تحرق و شعبذ وأتی بأنواع السحر والطلاسم النیرنجیات17
’’اور تحقیق آگاہ فرما دیا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی سنت متواترہ میں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (آگاہ اس لیے فرمایا) تاکہ امت محمدیہ ﷺ جان لے کہ آپ ﷺ کے بعد جو شخص بھی اس منصب (یعنی نبوت) کا دعویٰ کرے وہ کذاب، جھوٹا، بہتان طراز، مکار و دجال، گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے۔ خواہ وہ خرقِ عادت، واقعات، شعبدہ بازیاں اور کسی قسم کے غیر معمولی کرشمے اور سحروطلسم دکھاتا پھرے۔‘‘

(14) امام جلال الدین سیوطی(م 911ھ)

امام جلال الدین سیوطی اس موضوع کے حوالے سے لکھتے ہیں:

{وخاتم النبیین} فلا یکون له ابن رجل بعده یکون نبیًّا وفي قراء ة بفتح التاء كآلة الختم أي به ختموا {وكان الله بكل شیء علیما} منه بأن لا نبي بعده وإذا نزل السیّد عیسٰی یحكم بشریعته18
’’اور آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں، پس آپ ﷺ کے بعدآپ ﷺ کا کوئی مرد بیٹا نہیں جو منصبِ نبوت پر فائز ہو (اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے آگاہ ہے)، وہ جانتا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا اور جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام (دوبارہ) نازل ہوں گے تو وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت کے متبع اور پیروکار ہوں گے۔‘‘

(15) امام ابو سعود محمد بن محمد العمادی (م 951ھ)

امام ابو سعود محمد بن محمد العمادی نے اپنی رائے یوں بیان کی ہے:

{وخاتم النبیین} أي كان آخرھم الذي ختموا به وقرئ بكسرالتاء أي کان خاتِمھم … ولا یقدح فیه نزول عیسی بعده لان معنی كونه خاتم النبیین أنه لا ینبأ أحد بعدہ وعیسی ممن نبئ قبله وحین ینزل إنما ینزل عاملاً علی شریعة محمد ﷺ مصلیًّا إلی قبلته كأنّه بعض أمته19
’’خاتم النبیین کا معنی ہے کہ حضور ﷺ سب انبیاء کے آخر میں مبعوث ہوئے اور آپ ﷺ نے سلسلہ نبوت پر مہر لگا دی۔ خاتم تا کی زیر کے ساتھ، اس کا معنی ہے آپ ﷺ نے سلسلہ نبوت کو ختم فرما دیا۔ اب آپ ﷺ کی بعثت کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول سے ختم نبوت کی تردید نہیں ہوتی کیونکہ خاتم النبیین کا معنی ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی کو منصب نبوت عطا نہیں کیا جائے گا۔ رہا معاملہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تو وہ ان انبیاء میں شامل ہیں جنہیں آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے منصب نبوت عطا کیا جا چکا ہے اور جب ان کا نزول ہو گا توبے شک وہ شریعت محمدی پر عمل پیرا ہوں گے اور آپ ﷺ کے قبلہ(خانہ کعبہ)کی طرف منہ کر کے نماز ادا کریں گے، گویا وہ آپ ﷺ کے ایک امتی ہیں۔‘‘

(16) امام اسماعیل حقی (م 1137ھ)

امام اسماعیل حقی اس موضوع پر اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں:

وقال أہل السنّة والجماعة لا نبی بعد نبینا لقوله تعالی {ولكن رسول الله وخاتم النبیین} وقوله عليه السلام: لا نبی بعدي ومن قال بعد نبینا نبی یکفر لأنه أنكر النصّ وكذلك لو شك فیه لأن الحجة تبین الحقّ من الباطل ومن ادّعي النبوّة بعد موت محمّد (ﷺ) لا یکون دعواه إلا باطلا20
’’اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ کے مبعوث ہونے کے بعد اب کسی نبی کی بعثت نہیں ہو گی کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ حضور ﷺ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسّلام نے خود فرما دیا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اب جو شخص یہ کہے کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی ہے تو اسے کافر قرار دیا جائے گا کیونکہ اس نے نص کا انکار کیا ہے۔ اس طرح جو اس میں شک کرے وہ بھی کافر ہے کیونکہ حجت نے حق کو باطل سے واضح اور روشن کر دیا ہے اور جس نے محمد ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کا یہ دعویٰ کرنا سوائے باطل اور کفر کے کچھ نہیں۔‘‘

(17) قاضی ثناء اللہ پانی پتی (م 1225ھ)

علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں کہ خاتم بفتح التاء کا معنی آخر اور خاتم بکسر التاء کا معنی ہے:

وخاتم قرأ عاصم بفتح التاء علی الاسم بمعنی الاٰخر، والباقون بکسر التاء علی وزن فاعل یعني الذي ختم النبیین حتی لا یکون بعدہ نبيّ21
’’اور لفظِ خاتم کو عاصم نے اسم کی بنا پر تاء کی زبر کے ساتھ بمعنیٔ آخر پڑھا ہے اور باقی (قرائ) نے بر وزنِ فاعل تاء کی زیر کے ساتھ پڑھاہے یعنی وہ ذات جس نے سلسلہ انبیاء کو یوں ختم فرما دیا کہ اب آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘

اس کے بعد فرماتے ہیں:

ولا یقدح فیه نزول عیسی بعدہ لأنه إذا ینزل یکون علی شریعته مع أن عیسی علیه السلام صار نبیًّا قبل محمّد ﷺ وقد ختم الله سبحانه الاستنباء بمحمد ﷺ وبقاء نبي سابق لا ینافي ختم النبوة22
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حضور ﷺ کے بعد نازل ہونا اس میں حارج نہیں ہے کیونکہ ان کی حیثیت حضور ﷺ کی شریعت کے پیروکار کی ہو گی ساتھ یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بعثتِ محمدی ﷺ سے قبل کے نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ پر سلسلۂ نبوت ختم فرما دیا ہے اور کسی سابق نبی کا باقی رہنا ختمِ نبوت کے منافی نہیں ہے۔‘‘

(18) امام سید محمود آلوسی (م 1270ھ)

امام آلوسیؒ لفظِ خاتم کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وَالْخَاتَمُ اسم اٰلةلما یختم به كالطّابعِ لما یطبع به فمعنٰی خَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ الّذي ختم النّبِیّون بہ ومآله آخِر النّبِيِّین … وقرأ الجمہور وخاتم بکسر التاء علی أنه اسم فاعل أي الذي ختم النّبیّین والمراد به آخرھم23

خاتَم(بفتح التائ) اس آلہ کا نام ہے جس سے مہر لگائی جاتی ہے، اس آلہ کی طرح جس سے ٹکٹ پر مہر لگائی جاتی ہے۔ پس خاتم النبین کے معنی ہوں گے: وہ ذات جس پر سلسلۂ انبیاء کو ختم کردیا گیا۔ اس معنی کی رُو سے خاتم النبیّن سے مراد آخر النّبیّن ہے … اور جمہور نے خاتم کی قرا ء ت بکسر التاء کی ہے، اس بناپر کہ یہ اسم فاعل ہے یعنی وہ ذات جس نے سلسلۂ انبیاء ختم فرما دیا اور اس سے مراد آخرِ انبیاء ہیں۔‘‘

خاتم کو اسم آلہ کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ حضور ﷺ نے آ کر سلسلہ انبیاء کو سربمہر کر دیا اور جس طرح لفافے پر ٹکٹ لگا کر اس پر مہر کر دی جاتی ہے اور اس میں کوئی اور چیز داخل نہیں کی جا سکتی اسی طرح آپ ﷺ کی آمد کے بعد اب اور کوئی نبی نبوت کے حصار میں داخل نہیں ہو سکتا۔

امام آلوسیؒ حضور نبی اکرم کے منصبِ ختم نبوت سے سرفراز ہونے کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

والمراد بالنبي ما ھوأعم من الرسول فیلزم من کونه ﷺ خاتم النّبیّین کونه خاتم المرسلین والمراد بکونه علیه الصّلوة والسّلام خاتمھم انقطاع حدوث وصف النبوة فی أحد من الثّقلین بعد تحلیه علیه الصلوة والسلام بھا فی هذہ النشأة24
’’نبی کا لفظ عام ہے اور رسول کا خاص، اس لیے حضور ﷺ کے خاتم النبیین ہونے سے یہ لازم ہو جاتا ہے کہ آپ خاتم المرسلین بھی ہیں، چنانچہ آپ کے خاتم النبیین اور خاتم المرسلین ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس دنیا میں آپ ﷺ کے منصب نبوت و رسالت پر فائز ہونے کے بعد جن و انس میں سے اب کسی کو یہ منصب عطا نہ ہو گا۔‘‘

امام آلوسی آگے لکھتے ہیں:

وکونه ﷺ خاتم النبیین مما نطق به الکتاب وصدعت به السنّة وأجمعت علیه الأمّةفیكفر مدعي خلافه ویقتل إن أصر25
’’حضور ﷺ کا آخری نبی ہونا ایسی حقیقت ہے جس کی تصریح خود کتاب اللہ نے کر دی ہے اور سنت نے اس کی توضیح و تشریح کر دی ہے اور اس مسئلہ پر اجماعِ امت ہے، لهٰذااس کے خلاف جو دعویٰ کرے گا، کافر قرار پائے گا اور اگر اس پر اصرار کرے تو (عدالتی عمل کے ذریعے) قتل کیا جائے گا۔‘‘

(19) ملا جیون (1130ھ)

برصغیر کے معروف مفسر ملا جیون لفظ ختم کا معنی بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

والمآل علی كلِّ توجیه ھو المعنی الاٰخِرُ ولذٰلك فسَّر صاحب الْمدارك قراء ة عَاصم بِالٰاخِرِ وصاحب الْبیضاوي كلا القراء تین بالاٰخِرِ26
’’اور ہر دو صورت میں خاتم کا معنی آخر ہی ہے۔ اسی لیے صاحبِ ’’تفسیر مدارک‘‘ نے امام عاصم کی قراء ت پر اس کا معنی آخر کیا ہے اور صاحبِ ’’تفسیر بیضاوی‘‘ نے دونوں قراء توںپر آخر ہی کیاہے۔‘‘

مذکورہ بالا عبارات سے اَئمہ تفسیر کا نقطۂ نظر واضح ہے۔ ان کے نزدیک حضور نبی اکرم ﷺ کے خاتم النبین ہونے کا معنی ہے کہ آپ ﷺ کی تشریف آوری سے سلسلۂ نبوت منقطع ہو چکا ہے۔ اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ نبی سابق ہیں اور وہ شریعت محمدی ﷺ کے تابع ہوں گے اس لیے قربِ قیامت ان کا نزول حضور نبی اکرم ﷺ کی شان ختم نبوت کے منافی نہیں۔ حضور ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والا قرآن و سنت اور اجماعِ امت کا منکر ہے۔ چنانچہ متفقہ طور پر وہ کافر، مرتد اور خارج از اسلام ہے۔



  • 1 ٰتنویر المقباس من تفسیر ابن عباس: 354
  • 2 جامع البیان فی تفسیر القرآن، 22: 12
  • 3 جامع البیان فی تفسیر القرآن، 22 : 13
  • 4 معالم التنزیل، 3: 533
  • 5 الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، 3: 544۔ 545
  • 6 زاد المسیر فی علم التفسیر، 6: 393
  • 7 التفسیر الکبیر، 25: 214
  • 8 الجامع لاحکام القرآن، 14: 196
  • 9 بیضاوی، أنوار التنزیل، 3: 385
  • 10 مدارک التنزیل، 3: 306
  • 11 لباب التأویل فی معانی التنزیل، 3: 470
  • 12 لباب التأویل فی معانی التنزیل، 3: 470
  • 13 فسیر البحر المحیط، 7: 236
  • 14 تفسیر البحر المحیط، 7: 236
  • 15 تفسیر غرائب القرآن ورغائب الفرقان بھامش جامع البیان للطبری، 22: 15
  • 16 ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 3: 493
  • 17 ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 3: 494
  • 18 تفسیر جلالین، 1: 556
  • 19 ارشاد العقل السلیم إلی مزایا القرآن الکریم، 7: 106
  • 20 إسماعیل حقی، تفسیر روح البیان، 22: 188
  • 21 تفسیر المظہری، 7: 350، 351
  • 22 تفسیر المظہری، 7: 351
  • 23 آلوسی، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، 22: 34
  • 24 روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، 22: 34
  • 25 روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، 22: 41
  • 26 التفسیرات الأحمدیۃ: 622


  • عقیدہ ختم نبوت پر آئمہ سلوک و تصوف کی آراء

    ختم نبوت کے بارے میں آئمہ سلوک و تصوف کا عقیدہ ہ مذکورہ بالا آئمہ کے عقائد سے کچھ مختلف نہیں۔ اس کا اندازہ چند آئمہ کی درج ذیل آراء سے بخوبی ہو جاتاہے:

    (1) امام غزالی (م 505ھ)

    امام غزالی فرماتے ہیں:

    إن الأمة فهمت بالإجماع من هذا اللفظ ومن قرائن أحواله أنه أفهم عدم نبي بعدہ أبداً وعدم رسول اللّه أبداً وأنه لیس فیه تأویل ولا تخصیص فمنکر هذا لا یکون وإلا منکر الإجماع 1
    ’’بیشک تمام امت محمدیہ ﷺ نے اس لفظ (یعنی خاتم النبیین اور لا نبی بعدی) سے اور قرائن احوال سے یہی سمجھا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کبھی بھی نہ کوئی نبی ہو گا اور نہ رسول، نیز یہ کہ اس میں کسی قسم کی نہ کوئی تاویل ہو سکتی ہے نہ تخصیص پس اس کا منکر اجماعِ امت کا منکر ہے۔‘‘

    (2) شیخ اکبر محی الدین ابن عربی (م 638ھ)

    شیخ اکبر محی الدین ابن عربی اپنے موقف کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:

    فما بقی للأولیاء الیوم إلا التعریفات وانسدت أبواب الأوامر الالٰھیة والنواھي فمن ادعاها بعد محمّد ﷺ فهومدع شریعة أوحي بھا إلیه سواء وافق بھا شرعنا أو خالف فان کان مکلفاً ضربنا عنقه و إلا ضربنا عنه صفحاً2
    ’’رفعِ نبوت کے بعد اب اولیاء کے لیے تعریفات کے سوا کچھ باقی نہیں رہا اور الوہی اوامر و نواہی کے تمام دروازے بند ہوچکے ہیں پس جو کوئی حضرت محمد ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے گا تو وہ (بزعم خویش) اپنی طرف وحی کردہ نئی شریعت کا مدعی ہوگا، برابر ہے کہ وہ ہماری شریعت کے موافق ہویا مخالف، پس اگر وہ مکلف یعنی عاقل بالغ ہے تو ہم (اہل قضا)اسے قتل کی سزا دیں گے اور اگر مجنون ہے تو ہم اس سے کنارا کشی اختیار کریں گے۔‘‘

    علامہ شعرانی، شیخ اکبر ابن عربی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ شیخ نے ’فتوحات‘ میں فرمایا ہے:

    هذا باب أغلق بعد موت محمّد ﷺ فلا یفتح لأحد إلی یوم القیامة3
    ’’یہ (وحی کا) باب حضور ﷺ کے وصال کے بعد بند ہو چکا ہے اب قیامت تک کسی کے لیے نہیں کھلے گا۔‘‘

    (3) امام عبد الوھاب شعرانی ؒ(م 973ھ)

    امام عبد الوھاب شعرانی فرماتے ہیں:

    اعلم أن الإجماع قد انعقد علی أنه ﷺ خاتم المرسلین کما أنه خاتم النبیین4
    ’’جان لو کہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے سلسلہ رسل ختم فرما دیا ہے جس طرح آپ ﷺ نے سلسلہ انبیاء ختم فرمایا ہے۔‘‘

    (4) حضرت مجدد الف ثانی ؒ(م 1034ھ)

    حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فرماتے ہیں:

    1۔ باید دانست کہ منصب نبوت ختم بر ختم الرسل شدہ است علیہ و علی اٰلہ الصلوات والتسلیمات5
    ’’جان لینا چاہیے کہ منصب نبوت ختم الرسل حضرت محمد ﷺ پر ختم ہو چکا ہے۔‘‘
    2۔ خاتمِ انبیاء محمد رسول اللہ است صلی اللہ تعالیٰ وسلّم وعلٰی اٰلہ و علیھم اجمعین و دینِ او ناسخِ ادیانِ سابق ست و کتابِ او بہترین کتب ما تقدم ست و شریعتِ او را ناسخے نخواہد بود بلکہ تا قیامِ قیامت خواہد ماند و عیسیٰ علی نبیّنا و علیہ الصّلٰوۃ و السّلام کہ نزولِ خواہد نمود عمل بشریعتِ او خواہد کرد و بعنوان امتِ او خواہد بود6
    محمد رسول اللہ ﷺ تمام انبیاء علیھم السّلام کے خاتم اور آپ ﷺ کا دین ادیانِ سابقہ کا ناسخ ہے اور آپ ﷺ کی کتاب پہلی کتب سے بہترین ہے، آپ ﷺ کی شریعت کا ناسخ کوئی نہیں ہو گا اور قیامت تک یہی شریعت رہے گی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو نزول فرمائیں گے وہ بھی آپ ﷺ کی شریعت ہی پر عمل کریں گے اور آپ ﷺ کے امتی کی حیثیت سے رہیں گے۔‘‘
    3۔ نبوت عبارت از قرب الٰہی است جل سلطانہ کہ شائبہ ظلیت ندارد و عروجش رو بحق دارد جل وعلا و نزولش رو بخلق این قرب بالاصالۃ نصیب انبیاء است علیھم الصلوات و التسلیم و این منصب مخصوص باین بزرگواران است وخاتم این منصب سید البشر است علیہ و علی اٰلہ الصّلوٰۃ والسّلام حضرت عیسیٰ علی نبیّنا و علیہ الصّلوةُ والتحیّۃ بعد از نزول متابع شریعتِ خاتم الرسل خواھدبود علیہ الصّلوۃ و السّلام 7
    ’’نبوت قرب الٰہی سے عبارت ہے جس میں ظلیت کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ اس کا عروج حق کی طرف اور نزول مخلوق کی طرف ہوتاہے، قرب کا یہ درجہ اِصالتاً انبیاء علیہم السلام کا حصہ ہے اور یہ انہیں معزز ہستیوں کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے۔ اس منصب کے ختم فرمانے والے سید البشر حضرت محمد ﷺ ہیں حضرت عیسی علیہ السلام بھی نزول کے بعد آپ ﷺ کی شریعت کی اتباع کریں گے۔‘‘
    4۔ در شان فاروق رضی اللہ عنہ فرمودہ است علیہ وعلی الہ الصّلٰوۃ والسّلام: لَوْکَانَ بَعْدِيْ نَبِیٌّ لَکَانَ عُمَرُ یعنی لوازم و کمالاتے کہ در نبوت درکار است ہمہ را عمرصدارد امّا چوں منصبِ نبوت بخاتمِ الرُّسُل ختم شدہ است علیہ وعلی الہ الصّلٰوۃ والسّلام بدولتِ منصبِ نبوت مشرف نگشت۔مجدد الف ثانی 8
    ’’سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شان میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرہوتے یعنی تمام لوازمات و کمالات نبوت ان کے اندر موجود ہیں لیکن چونکہ منصبِ نبوت حضور انور ﷺ پر تمام ہوچکا ہے اس لیے وہ اس منصب سے سرفراز نہیں ہوسکتے۔‘‘

    اسی مکتوب میں ہے:

    5۔ مقرر است ہیچ ولی امتے بمرتبۂ صحابی آں امت نرسد فکیف بہ نبی آں امت9
    ’’یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی امت کا ولی اس امت کے صحابی کے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا چہ جائیکہ ایک امتی اس امت کے نبی کے درجہ تک رسائی حاصل کرے۔‘‘

    ماحصل :

    آئمہ امت کی مذکورہ بالا تصریحات، تشریحات اور دلائل و اقوال سے ثابت ہو گیا کہ امت نے خاتم النبیین کا مطلب ہمیشہ یہی سمجھا ہے کہ حضور سیدنا محمد مصطفی ﷺ آخری نبی ہیں۔ آپ ﷺ کے بعد قیامت تک ہر قسم کی نبوت و رسالت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ اس لیے آپ ﷺ کے بعد جو شخص بھی نبوت و رسالت کا دعویٰ کرے اور پھر اس دعویٰ کے بارے میں کتنی ہی تاویلیں کیوں نہ کرے، اپنی نبوت کو ظلی، بروزی، لغوی ثابت کرنے کے لاکھ جتن کرے، بالاجماع اسے کافر، مرتد اور زندیق ہی سمجھا جائے گا اور صرف اسے ہی نہیں بلکہ اسے سچا ماننے والوں کو بھی اس دائرہ میں شامل کیا جائے گا حتیٰ کہ جو اس دجال اور اس کے ماننے والوں کے کفر میں شک بھی کرے اسے بھی خارج از اسلام قرار دیا جائے گا۔

    مذکورہ بالا صفحات میں جن آئمہ کی تصریحات پیش کی گئیں ہیں ہم نے ان کے ناموں کے ساتھ ان کے سنینِ وفات بھی دے دیئے ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ ہر دور اور ہر صدی کے اکابرینِ امت خاتم النبیین سے مراد ’’آخری نبی‘‘ ہی لیتے رہے ہیں اور پہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک تمام اُمتِ مسلمہ کا عقیدہ یہی رہا ہے نیز ان اہل علم و دانش کا تعلق ہندوستان سے لے کر مراکش اور اندلس تک اور ترکی سے لے کر یمن تک دنیا کے مختلف ملکوں اور خطوں سے تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر صدی میں دنیا کے ہر خطہ کے مسلمانوں کا موقف یہی رہا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ آخری نبی ہیں۔


    • 1 الاقتصاد فی الاعتقاد : 160
    • 2 الفتوحات المکیۃ، 3: 51، الیواقیت والجواہر في بیان عقائد الاکابر، 2: 373
    • 3 الیواقیت والجواہر، المبحث الخمس والثلاثون، 2: 371
    • 4 الیواقیت والجواہر، 2: 37
    • 5 مکتوبات، دفتر اول، حصہ چہارم: 110، مکتوب نمبر260
    • 6 مکتوبات، دفتر دوم، حصہ ہفتم: 49، مکتوب نمبر: 67
    • 7 مکتوبات، دفتر اول، حصہ پنجم: 148، مکتوب نمبر: 301
    • 8 مکتوبات، دفتر سوم، حصہ ہشتم: 69، 70، مکتوب نمبر: 24
    • 9 مکتوبات، دفتر سوم، حصہ ہشتم: 70، مکتوب نمبر: 24




  • عقیدہ ختم نبوت اور شان رسالت

    اللہ جل جلالہ تمام کائنات کا خالق و مالک اور پروردگار ہے۔ اس کا نظامِ ربوبیت کائنات کے ہرہر وجود کو انتہائی سادہ اور پست ترین حالت سے اٹھا کر درجہ بدرجہ منتہائے کمال تک پہنچا رہا ہے۔ اس نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں چنانچہ اس نے اَمرِ کُنْ سے یہ بسیط و عریض کائنات اور اس کے اندر موجود مختلف جہان پیدا فرمائے۔ آسمان تخلیق کیے، ان کو بلندیاں عطا کیں۔ فضائی طبقات بنائے، انہیں وسعتیں بخشیں۔ ناپیدا کنار سمندر بنائے، انہیں تموج عطا کیا۔ پہاڑ بنائے، انہیں ہیبت و جلال سے نوازا۔ غرضیکہ ہر ذی روح اور بے روح کو وجود عطا کیا اور اس میں اپنی صفات و کمالات اور حسن وجمال کے کسی نہ کسی پہلو کا عکس اتار دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

    سَنُرِيْھمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ أَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ1
    ’’ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اطرافِ عالم میں اور خود ان کی ذاتوں میں دکھا دیں گے یہاں تک کہ ان پرظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔‘‘


    اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کائناتِ پست و بالا میں ہر سو اپنے حسن و جمال کے جلوے بکھیر دیئے اور اس بزمِ ہستی کو اپنے حسنِ لازوال کا مظہر بنا دیا۔ کائنات کے ہر ہر گوشے میں اس کی صفاتِ مطلقہ کی جلوہ نمائیاں اور اس کے جمالِ جہاں آرا کی رعنائیاں دامن کش قلب و نظر ہوئیں، جب قدرتِ خداوندی نے آرائشِ عالم کا سامان کر لیا اور یہ عالم رنگ و بو ہر طرح کی حیات کے لیے ساز گار ہوگیا تو مشیتِ الٰہیہ نے چاہا کہ کسی ایسی ہستی کو خلعت وجود عطا کی جائے جس میں حسن و جمالِ ایزدی کے تمام جلوے مجتمع ہوں چنانچہ اس ارادۂ الوہیت کی تکمیل میں کارخانۂ کائنات میں انسان کو خلعتِ وجود عطا ہوئی۔ ربِ کائنات نے ارشاد فرمایا:

    لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ اَحْسَنِ تَقْوِيْمِ2
    ’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال و توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔‘‘



    اللہ جل جلالہ نے انسان کو اس انداز سے تخلیق فرمایا کہ ساری کائنات کے جملہ مظاہرِ حسن اس کے پیکر میں سمٹ آئے۔ اس کے اندر ملائکہ کی حقیقت بھی رکھ دی گئی اور حیوانات کی حقیقت بھی۔ اسے جمادات کی حقیقت بھی عطاکر دی گئی اور نباتات کی حقیقت بھی۔ انسان کو رب کائنات نے اپنے قہروغضب کی مظہریت بھی عطا کی اور رافت و محبت کی آئینہ داری بھی۔ غرضیکہ اسے عالم پست و بالا کے جملہ محامد و محاسن کا مرقع بنا کر منصہ شہود پر جلوہ گر کیا گیا۔


    پیکرِ نبوت شانِ ربوبیت کا مظہرِ اَتم ہے:

    تقاضائے ربوبیت کی تکمیل میں جب جملہ مظاہر حضرت انسان میں مجتمع ہو چکے تو مشیتِ ایزدی نے چاہا کہ اب عالمِ انفس و آفاق میں کسی ایسے پیکر کو خلعت وجود عطا کی جائے جو تمام اوصاف و کمالاتِ انسانیت کا جامع اور حسنِ الوہیت کے تمام مظاہر کا عکاس ہو۔ اس میں انوار و تجلیاتِ الهٰیہ اپنے پورے نکھار اور کامل شانِ مظہریت کے ساتھ جلوہ گر ہوں۔ چنانچہ اس ارادۂ ایزدی کی تکمیل میں خلاّقِ عالم نے پیکر نبوت کو وجود بخشا۔ حسن الوہیت کے تمام جلوے جو پیکرِ انسانیت میں موجود تھے، ذات ربوبیت کے مظاہر و کمالات جو مختلف طبقاتِ انسانی میں منتشر تھے وجودِ نبوت میں مجتمع کر دیئے گئے اور اس طرح پیکر نبوت مظاہر حسنِ الوہیت کا امین بن کر معرضِ وجود میں آ گیا۔ حسن و جمالِ نبوت کی مختلف شانیں حاملانِ نبوت میں درجہ بدرجہ تقسیم ہونے لگیں اس طرح کہ ہر حاملِ نبوت جداگانہ شانِ مظہریت کے ساتھ حسنِ الوہیت کی تجلیات کا گہوارہ بنا اور کائناتِ نبوت جملہ مظاہرِ ربوبیت کی امین قرار پائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ 3
    ’’یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔‘‘

    پیکران نبوت کو ایک دوسرے پر کسی خاص فضیلت و خصوصیت کے حوالے سے فوقیت و برتری عطا ہوئی۔ کوئی کسی کمال میں یکتا ہوا تو کوئی کسی اعتبار سے ممتاز و یگانہ ہوا۔ الغرض کائناتِ نبوت جملہ محاسنِ ربوبیت اور کمالاتِ الوہیت کی جلوہ گاہ بن گئی۔

    تمام پیکران نبوت و رسالت منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوگئے تو رب العالمین کی مشیت نے چاہا کہ کوئی ایسا پیکر نبوت بھی عالم میں ظہور پذیر ہو جس میں کائنات نبوت کے تمام تر محاسن اور خوبیاں جمع ہوں۔ جو حسنِ الوہیت کا مظہرِ اتم بھی ہو اور تمام کمالات و خصائصِ نبوت کا خلاصہ و مرقع بھی ہو۔ جملہ حاملانِ نبوت کو جو گونا گوں فضیلتیں اور اوصاف و کمالات حاصل ہیں اس محبوب ترین ہستی کے پیکر دلربا میں اپنے نقطۂ کمال کو پہنچے ہوئے ہوں۔ چنانچہ جب مشیت ایزدی کو یہ منظور ہوا کہ حسنِ کائناتِ نبوت اپنے اتمام کو پہنچے تو ’’ذاتِ محمدی ﷺ ‘‘ کو ظہور عطا فرما دیا۔ پیکرِ کمالاتِ نبوت وجودِ مصطفی ﷺ میں ڈھل کر سیدہ آمنہ رضی اللہ عنھا کی گود میں تشریف لے آیا۔

    مبدء فیض رب ذوالجلال کا حسنِ سرمدی پھیلا توکائناتِ بسیط کو وجود ملا اور سمٹا تو وجودِ مصطفوی ﷺ ظہور قدسی کی صورت میں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا۔ وہ پیکر نبوت جس کا آغاز مخلوقِ انسانی کے جد اعظم حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا تھا تکمیل کی ارتقائی منزلیں طے کرتا ہوا کمالِ حسن ایزدی کی شان مظہریت کا پرتو بن کر حقیقتِ مصطفوی ﷺ کے قالب میں ڈھل گیا۔ یہاں ہم قدرے اختصار سے دیباچۂ کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تکمیلِ نبوت تک کے ارتقائی سفر کا جائزہ لیں گے۔

    پیکرِ مصطفی ﷺ سلسلۂ نبوت کا مرجع ہے

    ہم یہاں اجمالی طور پر اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح سلسلۂ نبوت کا حسن وجود مصطفی ﷺ میں اپنے تمام و کمال کو پہنچا۔ دیگر جتنے بھی انبیاء sym-3آئے وہ ظہورِ آدم sym-9 سے ولادتِ مسیح تک نسلِ انسانیت کا مرجع تھے، جبکہ حضور ﷺ سلسلۂ نبوت کا مرجع بن کر سب سے آخر میں تشریف لائے۔ ارشادِ ربانی ہے:

    وَاِذْ اَخَذَ اللهُ مِيْثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَآ اٰتَيْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَةٍ ثُمَّ جَاء کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتَؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ4
    ’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اللہ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (ﷺ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے۔‘‘

    اب جہاں دنیا میں پائے جانے والے مختلف طبقاتِ انسانی کے لیے انبیاء پر ایمان لانا لازم ٹھہرا وہاں میثاقِ ازل کے مطابق قدسی صفات حاملانِ نبوت کو آپ ﷺ پر ایمان لانے کا پابند ٹھہرایا گیا۔ ابو البشر حضرت آدم sym-9 سے حضرت عیسیٰ sym-9 تک انبیاء کو دین ملا ہے تو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو تکمیل دین کی نعمت عطا ہوئی۔ دیگر انبیاء کو اللہ کی بارگاہ سے نعمتِ نبوت ملی اور آپ ﷺ کو اتمامِ نعمت کی شان نصیب ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُم وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ5
    ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیااور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی۔‘‘

    دیگر انبیاء و رسل کسی نہ کسی مخصوص انسانی گروہ، طبقے یا جماعت کی طرف مبعوث ہوئے جبکہ آپ ﷺ ابدالآباد تک جملہ کائنات انسانی کی جانب بھیجے گئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    قُلْ یٰـاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَيْکُمْ جَمِيْعَا6
    ’’آپ فرما دیں اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں۔‘‘

    گروهِ انبیاء کے دیگر ذی وجاہت افراد کو زمان و مکان کی حدود میں انذار ملا تو آپ ﷺ کو ان حدود سے ماوراء شانِ انذار عطا ہوئی۔ ارشاد فرمایا گیا:

    تَبَارَکَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِهِ لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِيْنَ نَذِيْرًا7
    ’’ (وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرب) بندہ پر نازل فرمایا تا کہ وہ تمام جہانوں کے لیے ڈر سنانے والا ہو جائے

    دیگر انبیاء بلاشبہ رحمتِ حق کے مظہر تھے لیکن آپ ﷺ کو رب العزت نے سراسر اپنی رحمت قرار دیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ8
    ’’اور (اے رسول محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر

    گویا آپ ﷺ کو صرف رحمت نہیں بلکہ سرچشمۂ رحمتِ بنا کر بھیجا گیا اور آپ ﷺ کی رحمت محدود نہیں بلکہ دنیا و عقبیٰ کو محیط ہے۔ دیگر انبیاء علیھم السلام کو خاص خطۂ زمین کی نوازشات عطا ہوئیں تو آپ ﷺ کو کائنات ارض و سما کے خزانے ارزانی فرمائے گئے۔ حضرت عقبہ بن عامر sym-5سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:

    أُعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ خَزَائِنِ اْلأرْضِ9
    ’’مجھے دنیا کے تمام خزانوں کی کنجیاں عطا کر دی گئی ہیں۔‘‘

    حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ ختم نبوت:

    وجودِ مصطفی ﷺ میں جملہ محاسن و کمالاتِ نبوت اس نقطۂ کمال تک پہنچے کہ اب قصرِ نبوت کا اور کوئی گوشہ تشنہ تکمیل نہ رہا اور نبوت کی رفیع الشان عمارت ہر لحاظ سے مکمل ہو گئی تو سلسلہ نبوت و رسالت کو ختم کر کے آپ ﷺ کے سر انور پر ختم نبوت کا تاج سجا دیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    مَا كانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ وَکَانَ اللهُ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِيْمًا10
    ’’محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلہ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے‘‘

    حضور ر حمتِ عالم ﷺ نے اپنے خاتم النبیین ہونے کی خصوصیت کا خود اعلان فرمایا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

    إنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِانْقَطَعَتْ فَـلَا رَسُوْلَ بَعْدِيْ وَلَا نَبِيَّ 11
    ’’سلسلہ نبوت و رسالت منقطع ہو چکا ہے سو میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘

    اپنی شانِ خاتمیت کا اظہار آقائے نامدار ﷺ نے ایک مقام پر انتہائی اچھوتے تمثیلی انداز میں اس طرح بھی فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

    إِنَّ مَثَلِيْ وَمَثَلَ الْأَنْبِیَاء مِنْ قَبْلِي کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بَيْتًا، فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِهِ وَیَعْجَبُوْنَ لَهُ، وَیَقُوْلُوْنَ: ھَلَّا وُضِعَتْ ھَذِهِ اللَّبِنَةُ؟ قَالَ: فَأنَا اللَّبِنَةُ، وَأنَا خَاتِمُ النَّبِيِّيْنَ 12
    ’’بیشک میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایک ایسے شخص کی طرح ہے جس نے ایک گھر تعمیر کیا اور اسے بہت خوبصورت اور عمدہ بنایا لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ رہنے دی، لوگ اس گھر کے گرد چکر لگاتے اور اس پر خوشی کا اظہار کرتے اور کہتے یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی پس میں ہی قصرِ نبوت کی وہ آخری خشت ہوں اور میں ہی آخری نبی ہوں۔‘‘

    سلسلہ انبیاء کے ختم ہونے کے بعد قصرِ نبوت کی تعمیر حبیب خدا حضرت محمد ﷺ کی بعثتِ سعیدہ کے ساتھ مکمل ہوگئی، لهٰذا اب جو کوئی دعویٰ نبوت کرے گا کذاب ہو گا۔

    ذکرِ مصطفی ﷺ کی رِفعت اور شانِ خاتمیت

    تاجدارِ کائنات ﷺ کی شانِ ختم نبوت کو مزید اجاگرکرنے کے لیے اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو رفعتِ ذکر کی خلعتِ فاخرہ سے بھی نوازا، ارشاد فرمایا:

    وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ 13
    ’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا‘‘

    اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کے ذکر کو اتنا بلند کردیا کہ جہاں اپنا ذکر فرمایا، ساتھ ہی اپنے حبیب ﷺ کا ذکر کیا اور جہاں رسول ﷺ کا ذکر کیا وہیں اپنا ذکر فرمایا تاکہ سب کو علم ہو جائے کہ قیامت تک آنے والے زمانوں کے لیے یہی میرا آخری رسول ﷺ ہے۔ اب رہتی دنیا تک جہاں اللہ کا نام آئے گا وہیں رسولِ آخر و اعظم ﷺ کا نام آئے گا۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیات سے ہر صاحبِ عقل و فہم کو اندازہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے نام کے ساتھ اپنے محبوب ﷺ کا ذکر فرماتا ہے اور آپ ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت اور آپ ﷺ کی محبت کو اپنی محبت قرار دیتا ہے:

    قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللهُ14
    ’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔‘‘
    قُلْ اَطِيْعُوا اللهَ وَالرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللهَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِيْنَ15
    وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللهِ16
    ’’ایمان والے تو صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) پر ایمان لائے، پھر شک میں نہ پڑے۔‘‘
    وَمَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْهُ فَانْتَھُوْا17
    ’’اور جو کچھ رسول (ﷺ) تمہیں عطا فرمائیں سو اسے لے لیا کرو اور جس سے منع فرمائیں سو (اس سے) رک جایا کرو۔‘‘
    وَمَنْ يَّعْصِ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ فَاِنَّ لَهٗ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا اَبَدًا18
    ’’اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے تو بیشک اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

    ان آیات مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہے کہ ہر مقام پر اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ذکر کو جس طرح اپنے ذکر کے ساتھ یکجا کر دیا ہے اس کی غائت اولیٰ و منتہا ختم نبوت ہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی اور نبی نے بھی آنا ہوتا تو محبتوں اور عقیدتوں کے وہ نگینے، ادب و احترام کے وہ قرینے، اطاعت و اتباع کے وہ پیرائے اور شان و عظمت اور رفعتِ ذکر کے وہ زاویے جو صرف آپ ﷺ کے ذکر جمیل کے لیے مخصوص کیے گئے ان میں سے کچھ بعد میں آنے والے کے لیے بھی مختص کر دیئے جاتے۔ مگر اللہ رب العزت نے وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ کی ساری شانیں اپنے محبوب اولیں و آخریں کو عطا فرما دیں، بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنے شاہکار کو پیدا کر کے جیسے اللہ تعالیٰ کی مشیت نے گفتۂ اقبال کی یہ صورت اختیار کر لی ہو:

    ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
    چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
    یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
    بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
    خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
    نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

    اَدب و تعظیمِ مصطفی ﷺ کاخصوصی حکم :

    یہ تاجدار انبیاء ﷺ کی خصوصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں آپ ﷺ کے ادب و تعظیم کے حوالے سے خصوصی احکام نازل فرمائے۔

    اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب ﷺ کی حرمت کا اس درجہ پاس تھا کہ اہلِ ایمان کو حکم فرما دیا کہ آپ ﷺ کے لیے کسی ذومعنی لفظ کے استعمال سے بھی گریز کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوْا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ج وَلِلْکٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِيْمٌ19
    ’’اے ایمان والو! (نبی اکرم ﷺ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ (ادب سے) اُنْظُرْنَا (ہماری طرف نظر کرم فرمائیے) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے

    اہلِ ایمان کو بارگاهِ مصطفی ﷺ کے آداب سکھائے گئے اور انہیں بطورِ انتباہ یہ وعید سنا دی گئی کہ آپ ﷺ کی موجودگی میں آواز کو بلند کرنا بھی ان کے اعمال کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے اور ادب و احترام کی اس نزاکت کو ملحوظ خاطر رکھنے والوں کے لیے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْھَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ اِنَّ الَّذِيْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ اُولٰٓئِکَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اللهُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوَیٰ ط لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِيْمٌ20
    ’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (ﷺ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو۔ بیشک جو لوگ رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لیے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہے

    اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس امر کی خاص تلقین فرمائی کہ نبی محتشم ﷺ کو اس طرح نہ پکارا کرو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمْ بَعْضاً۔21
    ’’ (اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (کہ کہیں اتنی بات پر بھی گرفت نہ ہو جائے، جب رسول اکرم ﷺ کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول ﷺ کی ذات گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)‘‘

    خیال رہے کہ اس درجہ ادب کی تعلیم پہلے جلیل القدر انبیاء میں سے کسی کے بارے میں نہیں دی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ چونکہ خاتم النّبیّین کے درجے پر فائز کیے گئے اس لیے بغایت درجہ ادب کا یہ پہلو بھی صرف آپ ﷺ کے لیے مختص کیا گیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کی تربیت کے لیے قرآن حکیم میں حضور نبی اکرم ﷺ کو ذاتی نام سے نہیں پکارا۔ دیگر انبیاء کرام کو ان کے ذاتی نام لے کر مخاطب فرمایا جیسے یَا آدَمُ، یاَ نُوْحُ، یاَ اِبْرَاهِيْمُ، یَا مُوْسٰی، یَا عِيْسٰی، یَا دَاوٗدُ، یَا زَکَرِيَّا، یَا یَحْییٰ، مگر حضور خاتم النبیّین ﷺ کو ذاتی نام کی بجائے مختلف صفات و القاب سے مخاطب فرمایا، مثلاً یَا اَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ، یَا اَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ، یَا اَیُّھَا الرَّسُولُ، یَا اَیُّھَا النَّبِیُّ جیسے القاب لائے گئے جن سے بے پناہ محبت اور اپنائیت کا اظہار ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی اس درجہ تعظیم و توقیر اور ادب احترام کے اہتمام سے آپ ﷺ کی شانِ خاتمیت کا اظہار ہوتا ہے۔

    قرآن و حدیث کی روشنی میں عقیدۂ ختم نبوت کی قطعیّت

    عقیدۂ ختم نبوت کا اثبات ایک سو سے زائد قطعی الدلالۃ آیات مبارکہ اور سینکڑوں احادیث مبارکہ سے ہوتاہے۔ یہ عقیدہ اس قدر قطعیت کے ساتھ ثابت شدہ ہے کہ اس پر مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی۔ کسی مسئلے پر قرآن کی ایک آیت ہی شک و شبہ سے بالاتر موجود ہو تو بطور نص حکم کے اعتبار سے کسی اور ثبوت کی گنجائش نہیں رہ جاتی چہ جائیکہ اتنی کثیر تعداد میں قرآنی آیات عقیدہ ٔ ختم نبوت کی تائید کرتی ہوں۔ مستزاد یہ کہ کثیر تعداد میں احادیث متواترہ نے عقیدۂ ختم نبوت کو اس قدر قطعیت کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ پورے ذخیرہ احادیث میں کسی موضوع پر اس کی مثال نہیں ملتی۔ چنانچہ عقیدۂ ختم نبوت قرآن و حدیث کی رو سے ایک متفق علیہ عقیدہ ہے جس پر پوری امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ عہد نبوی سے لے کر آج تک تاریخ اسلام شاہد ہے کہ امتِ مسلمہ نے کبھی بھی کسی جھوٹے مدعی نبوت کو برداشت نہیں کیا۔ خلیفۂ راشد اول حضرت ابوبکر صدیق sym-5 کے اوائل دور میں مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف ہونے والی جنگِ یمامہ میں سات سو صرف حفاظِ قرآن صحابہ کرام sym-7 نے اپنی جانوں کا قیمتی نذرانہ پیش کرکے عقیدۂ ختم نبوت کا دفاع کیا۔ شمعِ ختم نبوت کے پروا نے سیدنا صدیق اکبرsym-5 کی قیادت میں سینکڑوں کی تعداد میں شہید ہو گئے مگر ختمِ نبوت کی حرمت پر حرف نہ آنے دیا۔ صحابہ کرام کی یہ عظیم قربانی امت کے لیے ایک عملی پیغام تھاکہ دعوائے نبوت کے فتنہ کی سر کوبی کے لئے اسلامی ریاست کسی بھی ممکنہ اقدام سے تامل نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ صدیقی سے لے کر آج تک امت مسلمہ نے تحفظ ختم نبوت کی خاطر کبھی بڑی سے بڑی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا۔ سنت صدیقی کو زندہ رکھتے ہوئے صدیوں بعد شہرِ لاہور نے بھی تحریکِ ختم نبوت میں دس ہزار جانوں کا نذرانہ تحفظِ ختم نبوت کے لیے پیش کر دیا۔

    عقیدۂ ختم نبوت کی اسی اہمیت کے پیش نظر قرآن نے دعوائے نبوت کے احتمال و امکان کا سد باب کرنے کے لیے کم و بیش ایک سو تیس مرتبہ خاتم النبیین ﷺ کی ختم نبوت کا اعلان فرمایا اور صاحب قرآن نے دو سو دس سے بھی زائد احادیث میں اپنی زبان حق ترجمان سے اس عقیدہ کی حقانیت کی گواہی دی۔ تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی آمد سے قبل امم سابقہ خاتم الانبیاء کی آمد کا خصوصاً انتظار کیا کرتی تھیں مگر جونہی خاتم الانبیاء کی تشریف آوری ہوئی اقوام عالم کا یہ انتظار اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ لیکن جیسا کہ خود مخبر صادق ﷺ نے اس امر کی پیشین گوئی فرمائی تھی کہ جھوٹے مدعیان نبوت ضرور آئیں گے اور ان کا آنا تعجب اور حیرانگی کی بات بھی نہیں بلکہ یہ تو اس فرمانِ مصطفی ﷺ کی صداقت کی دلیل ہے جس میں آپ ﷺ نے جھوٹے مدعیانِ نبوت کی پیشین گوئی فرمائی ہے۔

    حضرت ثوبان sym-5 سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

    سَیَکُوْنُ فِي أُمَّتِي ثَـلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنهُ نَبِيٌّ، وَأَنـَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَانَبِيَّ بَعْدِي 22
    ’’میری امت میں تیس کذاب ہوں گے جن میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘

    آپ ﷺ کے اس واضح ارشاد کے بعد کہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں تاریخ کے کسی بھی دور میں کسی بھی جھوٹے نبی کو امت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئی اور اس نے عقیدئہ ختم نبوت کا علم مضبوطی سے تھامے رکھا۔ باطل اپنی تمام تر سازشوں، کوششوںاور تلبیسات و تاویلات کے باوجود امت مسلمہ کو اس عقیدہ سے سرِ مُو نہ ہٹا سکا۔

    ایمان و عقیدہ کا مرکز و محور ذاتِ مصطفی ﷺ ہے ۔

    باطل کا ہر دور چاہے ماضی کا ہو یا حال کا مکر و فریب اور سازباز کے اعتبار سے ایک سا رہا ہے، صرف طریقہ واردات اور انداز میں فرق ہوتا ہے آج کا باطل بھی امت مسلمہ کو عقلی، لغوی اور لفظی بحثوں اور موشگافیوں میں الجھا کر اس عقیدہ سے دور ہٹانا چاہتا ہے۔ یہ ایک بدیہی امر ہے کہ عقائد کی بنیاد لغوی مباحث یا عقلی موشگافیوں پر نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات و تعلیمات یعنی قرآن و سنت کی پاسداری پر ہوتی ہے، اسی لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

    وَأَطِيْعُوْا اللهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ23
    ’’اور اللہ کی اور رسول (ﷺ) کی فرمانبرداری کرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے

    دوسری جگہ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب ﷺ کی اطاعت کو عین اپنی اطاعت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

    مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ 24
    ’’جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘

    ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہوا:

    فَـلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَھُمْ 25
    ’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں۔‘‘

    احادیث نبویہ کی رو سے بھی معیار دین اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری ہے۔ حضور سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت اللہ رب العزت کی اطاعت کا زینہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمانبردار اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمانبردار اور آپ ﷺ کا نافرمان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا نافرمان ہے۔

    حضرت جابر بن عبداللہ sym-5 سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

    مَن أَطَاعَ مُحَمَّدًا ﷺ فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ وَمَنْ عَصٰی مُحَمَّدًا ﷺ فَقَدْ عَصَی اللهَ26
    ’’جس نے محمد ﷺ کی اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی اور جس نے محمد ﷺ کی نافرمانی کی تحقیق اس نے اللہ ہی کی نافرمانی کی۔‘‘

    یہی وجہ ہے کہ محبت رسول ﷺ کو تکمیل ایمان کا لازمہ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ sym-5 سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:

    فَوَ الَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِهِ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ27
    ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے والدین اور اس کی اولاد سے بڑھ کر اسے محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

    امام مسلم نے یہی روایت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے:

    لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتيَّ أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ 28
    ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے والدین، اس کی اولاد یہاں تک ساری انسانیت سے بڑھ کر اسے محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

    اسی تصور کو اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس شعر میں بیان کیا ہے:

    بمصطفٰی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
    اگر بہ او نرسیدی تمام بو لہبی ست

    حضور نبی اکرم ﷺ کی کرم نوازی اور امت کی غم گساری کا سلسلہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد بھی جاری و ساری ہے۔ اس حوالے سے ایک واقعہ منقول ہے جسے امام ابن قدامہ المقدسی (م 620ھ) ، امام نووی (م 677ھ) ، امام ابن کثیر (م 774ھ) اور دیگر ائمہ نے اپنی کتب میں درج کیا ہے۔ واقعہ درج ذیل ہے:

    عن العتبی قال: کنت جالسا عند قبر النبی فجاء أعرابي، فقال: السلام علیک یا رسول اللہ! سمعت اللہ یقول: {وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ جَاءوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا} وقد جئتک مستغفرا لذنبی مستشفعا بک إلی ربي۔

    ثم أنشاء یقول:

    یَا خَيْرُ مَنْ دُفِنَتْ بِالْقَاعِ أَعْظُمُهُ
    فَطَابَ مِنْ طِيْبِھِنَّ الْقَاعُ وَالْأَکَمُ
    نَفْسِيْ الْفِدَآء لِقَبْرٍ أَنْتَ سَاکِنُهُ
    فِيْهِ الْعَفَافُ وَ فِيْهِ الْجُوْدُ وَالْکَرَمُ
    ثم انصرف الأعرابي فحملتني عینی، فنمت فرأیت النبي ﷺ في النوم، فقال: یا عتبي! الحق الأعرابي، فبشرہ أن اللہ قد غفر 29

    ثعالبی کے مطابق اس واقعہ کو امام نووی نے ’حلیۃ‘ میں اور امام باجی نے ’سنن الصالحین‘ میں بیان کیا ہے۔

    ’’عتبی سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر انور کے نزدیک بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور عرض کیا: السّلام علیک یا رسول اللہ ! میں نے یہ فرمان الٰہی سنا ہے: {اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (ﷺ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے} چنانچہ میں آپ کی خدمت میں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور اس کے حضور آپ کی شفاعت طلب کرنے لیے حاضر ہوا ہوں۔

    ’’پھر وہ یہ اشعار پڑھنے لگا:

    (اے ان تمام لوگوں سے بہترین ہستی جن کے اجساد میدانوں میں دفن کیے گئے ہیں اور ان کی خوشبو سے وہ میدان اور ٹیلے مہک اٹھے ہیں، میری جان اس قبر انور پر قربان جس میں آپ تشریف فرما ہیں، اس میں پارسائی ہے اور سخاوت اور کرم ہے۔)

    ’’پھر وہ اعرابی لوٹ گیا اور مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہوا اور میں سو گیا۔ میں نے خواب میں آقائے دوجہاں ﷺ کی زیارت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے عتبی! اس اعرابی سے جا کر ملو اور اسے خوشخبری سناؤ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش فرما دی ہے۔‘‘

    اس واقعہ سے معلوم ہواکہ آقائے نامدار ﷺ کا دامنِ لطف و عطا آج بھی گنہگاروں کو سایہ رحمت عطا کر رہا ہے۔ آپ ﷺ کی نگاهِ عنایت آج بھی منتظر ہے کہ کب کوئی غم کا مارا میرے لطف و کرم کا طلب گار ہو اور میں اس کا دامن خیرات سے بھر دوں۔ آپ ﷺ کا دست جود و عطا آج بھی امت کی دستگیری کے لیے دراز ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے آقا و مولا ﷺ کے ساتھ تعلق غلامی کمزور کر چکے ہیں، وگرنہ اس صاحب جود و عطا کے لطف و کرم کے خزانے تو آج بھی اپنے گنہگار امتیوں کے لیے کھلے ہیں۔ کل روز قیامت جب ہنگامہ حشر برپا ہو گا اور ہر ایک نفسا نفسی کے عالم میں کسی سایہ عاطفت کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہو گا تو آپ ﷺ ہی کی شفاعت اپنا سایۂ رحمت عطا کرے گی اور اس کٹھن اور جاں گسل گھڑی میں ہر طرف سے مایوس انسانیت کو قیامت کی ہولناکیوں سے نجات دلائے گی۔ جس ذات کا فیضانِ لطف و کرم ہمیں قیامت کے روز بھی بے سہارا نہیں چھوڑے گا اس ذی شان و ذی احتشام ہستی کا فیضان آج ہمیں کس طرح اپنی نگاہ عنایت سے محروم کر سکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ کوئی اپنا کاسۂ طلب لیے اس منبع جود و عطا کے در پر جا کر سوالی تو ہو، کوئی گنبد خضراء کے مکیں کے در پر جا کر اپنی بپتا اور درد بھری فریاد سنائے تو سہی، آج بھی آقائے دوجہاں ﷺ کا لطف و کرم بزبانِ حال پکار رہا ہے:

    ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

    راہ دکھلائیں کسے رہ رَوِ منزل ہی نہیں

    خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہدایتِ انسانی کے لیے سلسلۂ نبوت کا آغاز سیدنا حضرت آدم صفی اللہ sym-9 سے ہوا اور حضرت محمد مصطفی ﷺ پر اختتام پذیر ہوگیا، آدم علیہ السلام سے پہلے اور محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ یہی ہے وہ عقیدۂ ختم نبوت ہے جس کی بنیاد پر دین اسلام کی عظیم الشان عمارت استوار ہوئی۔ اسلام کا قلب و جگر، روح و جان اور مرکز و محور یہی عقیدہ ہے۔ اس عقیدہ میں معمولی سی کمزوری لچک یا نرمی انسان کو ایمان کے قصرِ رفیع الشان سے گرا کر کفر کے قعر مذلت میں پٹخ دیتی ہے۔


    • 1 حم السجدۃ، 41/ 53
    • 2 التین، 95/ 4
    • 3 البقرہ، 2/253
    • 4 آل عمران، 3/ 81
    • 5 المائدۃ، 5/ 3
    • 6 الاعراف، 7/ 158
    • 7 الفرقان، 25/ 1
    • 8 الانبیاء، 21/ 107
    • 9 بخاری، الصحیح، کتاب الجنائز، باب الصّلوۃ علی الشہید، 1: 451، رقم: 1279
    • 10 الاحزاب، 33/ 40
    • 11 ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب الرؤیا، باب ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات، 4: 533، رقم: 2272
    • 12 بخاری، الصحیح، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین، 3: 1300، رقم: 3342
    • 13 الم نشرح، 94: 4
    • 14 آل عمران، 3: 31
    • 15 آل عمران، 3/32
    • 16 النساء، 4/64
    • 17 الحشر، 59/ 7
    • 18 الجن، 72: 23
    • 19 البقرۃ، 2: 104
    • 20 الحجرات، 49/ 2، 3
    • 21 النور، 24/ 63
    • 22 ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون، 4: 499، رقم: 2219
    • 23 آل عمران، 3/ 132
    • 24 النساء، 4/ 80
    • 25 النساء، 4/ 65
    • 26 بخاری، الصحیح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الإقتداء بسنن رسول اللہ ﷺ ، 6: 2655، رقم: 6852
    • 27 بخاری، الصحیح، کتاب الایمان، باب حب الرسول ﷺ ، 1: 14، رقم: 14
    • 28 مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب وجوب محبۃ رسول اللہ ﷺ اکثر من الأھل والوالد والولد و الناس أجمعین، 1: 67، رقم: 44
    • 29 ابن قدامہ، المغنی، فصل و یستحب زیارۃ قبر النبي، 3: 557
    • عقیدہ ختم نبوت اہمیت و فضیلت

      عقیدہ ختم نبوت دین اسلام کی بنیاد ہے۔ پورے دین کی عمارت عقیدہ ختم نبوت پر قائم ہے۔ قرآن پاک کی ایک سو آیات میں عقیدہ ختم نبوت کو بیان کیا گیا ہے۔ سرور دو عالم ﷺ نے دو سو سے زائد احادیث میں اس عقیدہ کو بیان کیا ہے۔ امت مسلمہ کی سب سے اہم اور مقدس شخصیات صحابہ کرام نے سیدنا صدیق اکبر کے دور خلافت میں سب سے پہلا اجماع جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف اعلان جہاد پر کیا اور عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت کی۔ عقل صحیح کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جس چیز کی ابتداء ہو اس کی انتہاء بھی ہونی چاہیے۔ سلسلہ نبوت کی ابتداء حضرت آدم سے ہوئی اور انتہاء سرور دو عالم ﷺ کی ذات گرامی پر۔ چنانچہ آقائے نامدار ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:

      عَنْ أَبِيْ ھُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله ﷺ : نَزَلَ آدَمُ بِالْھِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرِيْلُ فَنَادى بِالْأَذَانِ: اللهُ أَكبَرُ اللهُ أَكبَرُ، أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مَرَّتَيْنِ، أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ اٰدَمُ: مَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ: آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِیَاء1
      حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام ہند میں نازل ہوئے اور (نازل ہونے کے بعد) آپ نے وحشت محسوس کی تو (ان کی وحشت دور کرنے کے لئے) جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور اذان دی: اَللهُ اَکْبَرُ اللهُ اَکْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دو مرتبہ کہا، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ دو مرتبہ کہا تو حضرت آدم علیہ السلام نے دریافت کیا: محمد (ﷺ) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا: آپ کی اولاد میں سے آخری نبی ﷺ۔

      دینی تاریخ میں عالَم چار ہیں: عالَم ارواح، عالَم دنیا، عالَم برزخ، عالَم آخرت۔ جب ہم عالَم ارواح کو دیکھتے ہیں تو عالَم ارواح میں حضور ﷺ کی نبوت ورسالت کا پرچار ہوتا نظر آتا ہے۔ چنانچہ پروردگار عالم جل شانہ فرماتے ہیں:

      "وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ"2

      اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے عالم ارواح میں ہونے والے ایک عہد وپیمان کا تذکرہ فرمایا ہے۔ جو ازل میں اللہ پاک نے تمام انبیائے کرام سے رحمت دو عالم ﷺ کے بارے میں لیا کہ اگر آپ کی زندگی میں محمد ﷺ تشریف لائیں تو آپ ان پر ایمان بھی لائیں اور ان کی نصرت وامداد بھی کریں۔ اس عہد ومیثاق میں حضور ﷺ کی کمال درجہ کی بلندئ شان بیان کی گئی ہے کہ انبیاء بھی آپ ﷺ پر ایمان لائیں گے اور ان کی مدد ونصرت فرمائیں گے۔

      چنانچہ مختلف مواقع میں یہ بلندئ شان واضح کی گئی ہے۔ جیسے لیلۃ المعراج میں تمام انبیاء کرام کا آپ ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھنا۔ عالم آخرت میں تمام انبیاء کرام کا آپ ﷺ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہونا۔ حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک تمام انبیاء کرام کا اپنے اپنے دور میں آپ ﷺ کی آمد کی بشارت وخبر دینا۔ مزید عملی طور پر اس عہد کی تکمیل کے لئے حضرت عیسیٰ کا آسمان پر اٹھایا جانا، قیامت کے قریب دوبارہ دنیا میں تشریف لاکر آپ ﷺ کی امت اور آپ ﷺ کے دین کی نصرت وامداد کرنا یہ سب حضور ﷺ کی بلندئ شان کو واضح کرتے ہیں۔

      عالم دنیا میں آپ ﷺ کی ختم نبوت کا تذکرہ:

      سب سے پہلے انسان (حضرت آدم ﷤) جب دنیا میں تشریف لائے تو ان کے دونوں شانوں (کندھوں) کے درمیان لکھا ہوا تھا:

      "بین كتفی آدم مكتوب محمد رسول الله وخاتم النبیین" 3

      نیز جب آدم دنیا میں تشریف لائے تو سب سے پہلی آواز جو ان کے کانوں سے ٹکرائی وہ حضور ﷺ کی رسالت ونبوت سے متعلق تھی۔

      چنانچہ حدیث پاک میں آتا ہے:

      "فنزل جبریل فنادي بالآذان الله اكبر مرتن اشهد ان لا اله الا الله مرتین واشهد ان محمد رسول الله مرتین قال آدم من محمد فقال هو آخر ولدك من الانبياء" 3
      یعنی جب حضرت آدم ہند میں نازل ہوئے، انہوں نے وحشت (اجنبیت) محسوس کی تو حضرت جبرائیل تشریف لائے اور کلمات اذان ارشاد فرمائے۔ ان کلمات میں اشهد ان محمد رسول الله دو مرتبہ فرمایا۔ حضرت آدم نے پوچھا کہ محمد ﷺ کون ہیں؟ تو جبرائیل امین نے جواب میں فرمایا کہ وہ آپ کی اولاد میں سے آخری نبی ہیں۔

      عالم برزخ:

      عالم برزخ یعنی مرنے کے بعد قبر میں جب منکر نکیر (سوال وجواب کے فرشتے) میت کو زندہ کرتے ہیں اور اس سے تین معروف سوال کرتے ہیں۔ تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کیا ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ تو میت جواب میں کہتی ہے:

      "ربی الله وحده لا شريك له، الاسلام دینی، ومحمد نبی وهو خاتم النبیین فیقولان صدقت 4
      " یعنی میرا رب وہ اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ میرا دین اسلام ہے۔ اور حضرت محمد ﷺ میرے نبی ہیں اور وہ آخری نبی ہیں۔

      عالم آخرت میں حضور ﷺ کی ختم نبوت کا تذکرہ:

      چنانچہ حدیث شفاعت میں ہے جب انسان تھک ہار کر حضرت عیسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور ان سے شفاعت کی درخواست کریں گے تو حضرت عیسیٰ جواب میں فرمائیں گے کہ میں آج شفاعت کی پوزیشن میں تو نہیں۔ البتہ میں تمہاری رہنمائی کر سکتا ہوں:

      "اذهبو الی غیري اذهبو الى محمد فياتون محمدا ﷺ فيقولون يا محمد انت رسول الله وخاتم الانبياء5
      " حضرت عیسیٰ فرمائیں گے کہ حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں، تو لوگ حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور کہیں گے یا محمد ﷺ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔

      کلمہ شہادت کی طرح ختم نبوت بھی ایمان کا جزو ہے:

      حضرت زید بن حارثہ بچپن میں اغواء ہوئے اور فروخت ہوتے ہوئے حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ ان کے خاندان والوں کو جب پتہ چلا کہ زید حضور ﷺ کے پاس ہیں۔ وہ آئے اور آکر کہا اے زید! اٹھ اور ہمارے ساتھ چل۔ تو میں (زید) نے کہا کہ میں حضور ﷺ کی خدمت کے مقابلہ میں ساری دنیا کو کچھ نہیں سمجھتا اور نہ آپ کے سوا کسی اور کا ارادہ رکھتا ہوں۔ تو میرے رشتہ دار حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اس لڑکے کے بدلہ میں آپ کو بہت سارا مال دینے کے لئے تیار ہیں۔ اس لڑکے کو ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ اس پر انہیں حضور ﷺ نے فرمایا:

      "اسئلكم ان تشهدوا ان لا اله الا الله وانی خاتم الانبياء ورسله ارسله معكم"6
      میں تم سے کہتا ہوں کہ تم اس بات کی شہادت دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں اللہ کے نبیوں اور رسولوں میں سے آخری ہوں تو میں اس کو تمہارے ساتھ بھیج دوں گا۔

      اس حدیث پاک میں حضور ﷺ نے عقیدہ ختم نبوت کو کلمہ شہادت کی طرح ایمان کا جزو قرار دیا۔

      علامہ ابن نجیم اپنی شہرہ آفاق کتاب "الاشباہ والنظائر" میں تحریر فرماتے ہیں:

      "اذا لم يعرف الرجل ان رسول الله ﷺ آخر الانبياء فليس بمسلم فانه من الضروريات" 7
      جس کو یہ معلوم نہیں کہ حضور ﷺ آخری نبی ہیں وہ مسلمان نہیں۔ کیونکہ عقیدہ ختم نبوت ضروریات دین میں سے ہے اور ضروریات دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرنا کفر ہے۔

      قرآن وسنت کی روشنی میں امت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ جس طرح نبوت کا دعویٰ کرنا کفر ہے۔ ایسے ہی نبوت کی تمنا کرنا بھی کفر ہے۔

      چنانچہ علامہ حلبی فرماتے ہیں:

      "لو تمنى فى زمن نبیا او بعده ان لو كان نبیا فیكفر فی جمیع ذلك والظاهر لا فرق بین تمنى ذلك باللسان او القلب"
      اگر کوئی انسان ہمارے نبی ﷺ کی زندگی میں یا آپ ﷺ کی وفات کے بعد نبوت کی تمنا کرے تو ان تمام امور کی وجہ سے کافر ہو جائے گا۔ اور ظاہر ہے کہ تمنا زبان کے ساتھ ہو یا دل میں اس میں کوئی فرق نہیں۔

      جب ایک شخص نبوت کی تمنا سے کافر ہو جاتا ہے تو دعویٰ نبوت اس سے بھی بڑا کفر ہوگا۔ پھر مدعی نبوت پر ایمان لانا بڑی جرات کی بات ہے۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ کے بعد مدعی نبوت سے علامت نبوت طلب کرنا بھی کفر ہے۔

      چنانچہ امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں:

      "من طلب منه علامة فقد كفر لقول النبی لا نبی بعدي" 8
      جو کسی مدعی نبوت سے نبوت کی نشانی طلب کرے تو کافر ہو جائے گا۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ فرما چکے ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

      الغرض عقیدہ ختم نبوت اتنا اہم اور ضروری ہے کہ اس میں کسی قسم کا تامل کرنا بھی خالص کفر ہے۔ آپ خود اندازہ فرمائیں کہ مرزا قادیانی نے نہ صرف حضور ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا بلکہ بیسیوں دعوے کئے۔ لہٰذا مرزا قادیانی یا کسی ایسے مدعی نبوت کو نبی ماننا، مجدد، امام مہدی، مذہبی رہنما، مسیح ماننا تو در کنار اسے مسلمان سمجھنا یا اس کے کفر میں شک کرنا بھی ایک مسلمان کو کافر بنا دیتا ہے۔ عرب وعجم اور دنیا بھر کے علماء کرام کا متفقہ فتویٰ ہے ایسے مدعی نبوت کذاب ودجال، مرتد، زندیق اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔

      خیر القرون کے زمانہ سے امت مسلمہ عقیدہ ختم نبوت کی چوکیداری کرتی چلی آرہی ہے اور یہاں تک حساس ہے اور اس کا متفقہ عقیدہ ہے کہ:

      "من شك فى كفره وعذابه فقد کفر"
      یعنی جو شخص مدعی نبوت کے کفر اور اس کے عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔

      غرض یہ کہ عالم ارواح ہو یا عالم دنیا، عالم برزخ ہو یا عالم آخرت، تمام جہانوں میں حضور ﷺ کی ختم نبوت کا ہی چرچا نظر آتا ہے۔ ختم نبوت پر ایمان پورے دین پر ایمان ہے۔ ختم نبوت پر ایمان قرآن پاک پر ایمان ہے۔ ختم نبوت پر ایمان احادیث نبویہ پر ایمان ہے۔ ختم نبوت پر ایمان صحابہ کرام پر ایمان ہے۔ ختم نبوت پر ایمان اہل بیت کو ماننا ہے۔ ختم نبوت کا انکار پورے دین اسلام کا انکار ہے۔ ختم نبوت کا انکار قرآن پاک کی حقانیت کا انکار ہے۔ ختم نبوت کا انکار احادیث نبویہ پر عدم اعتماد ہے۔ ختم نبوت کا انکار صحابہ کرام کی عظمت کا انکار ہے۔ گویا عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ اور اس کی بقا اصل الاصول اور افرض الفرائض ہے۔

      علماء کرام فرماتے ہیں:

      "من لم يعرف ان محمداً خاتم الانبياء فليس بمسلم"

      جیسا کہ پہلے گزرا۔ یعنی مسلمان ہونے کے لئے حضور ﷺ کو آخری نبی جاننا اور ماننا دونوں ضروری ہیں۔ قصہ مختصر عقیدہ ختم نبوت قرآن پاک کی ننانوے آیات سے ثابت ہے۔ نیز یہ عقیدہ دو سو دس احادیث سے ثابت ہے۔ عقیدہ ختم نبوت تواتر سے ثابت ہے۔ عقیدہ ختم نبوت اجماع امت سے ثابت ہے۔ یعنی صحابہ کرام کا سیدنا صدیق اکبر کے دور خلافت میں سب سے پہلا اجماع عقیدہ ختم نبوت پر ہوا۔ اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے سیدنا صدیق اکبر کے دور خلافت میں بارہ سو صحابہ کرام اور تابعیننے جام شہادت نوش فرمایا۔ جن میں سات سو حفاظ وقراء اور ستر بدری صحابہ کرام تھے۔ عقیدہ ختم نبوت کی برکت سے اللہ پاک نے امت مسلمہ کو "اجماع امت" کی سعادت سے سرفراز فرمایا۔

      جنگ یمامہ میں بارہ سو صحابہ کرام وتابعین شہید ہونے کے بعد قرآن پاک کو کاغذ پر اتارنے اور جمع کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ حضور ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والے سے دلیل طلب کرنے کو کفر قرار دیا گیا۔

      قرآن کریم کا قیامت کی صبح تک باقی رہنا بھی ختم نبوت کی دلیل ہے۔ کیونکہ اس وقت دنیا میں کسی آسمانی کتاب کے حافظ موجود نہیں۔ جبکہ قرآن پاک کے حفاظ دو کروڑ سے زائد موجود ہیں۔ پہلی کتابیں عارضی اور وقتی ضرورت کے لئے نازل ہوئیں۔ اس لئے اب یہ اپنی اصل شکل میں دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں۔ قرآن پاک دائمی ہے۔ اس لئے اس کے حفاظ ہر زمانے میں رہے اور رہیں گے۔ ان شاء اللہ!

      پہلے انبیاء کرام کی عبادت گاہیں عارضی تھیں۔ اس لئے ان کی امتیں اپنی عبادت گاہیں بیچ دیتی ہیں۔ رحمت دو عالم ﷺ کی نبوت جس طرح دائمی اور ابدی ہے اسی طرح مساجد جس خطہ اراضی پر بن گئیں وہ بھی ختم نبوت کی برکت سے دائمی اور ابدی ہو گئیں۔ مساجد کو فروخت کرنا اور انہیں دوسرے مقاصد کے لئے استعمال کرنا حرام ہے۔

      اس تفصیل سے یہ سمجھ آیا کہ ختم نبوت کا عقیدہ کتنا اہم اور اس کی حفاظت کتنی ضروری ہے۔ امت مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ حضور ﷺ کی ختم نبوت کے تحفظ کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائیں اور رحمت عالم ﷺ کی ختم نبوت پر کسی کو نقب زنی نہ کرنے دیں۔ چونکہ مرزا قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کر کے اس عقیدہ پر نقب زنی کی۔ لہٰذا مرزا قادیانی کو نبی اور مذہبی رہنما ماننے والوں سے مجلسی، اقتصادی اور عمرانی ہر قسم کا بائیکاٹ کرنا مسلمانوں کے لئے ضروری امر ہے۔


      • 1 دیلمي، مسند الفردوس، 4: 271، رقم: 6798،أبو نعیم، حلیۃ الأولیائ، 5: 107
      • 2 آل عمران: 81/3
      • 3 خصائص الکبریٰ ،ج:1،ص:19
      • 3 ابن عساکر، کنز العمال ج:11 حدیث نمبر :32139
      • 4 تفسیر در منثور ج :6 ص: 160
      • 5 بخاری ج :2،ص :685
      • 6 مستدرک حاکم ج :3، ص:214
      • 7 الاشباه والنظائر ص:102
      • 8 مناقب صدر الائمہ المکی ص :161 ج:1

القرآن:
اور نہ ملاؤ حق(سچ) کو باطل(جھوٹ) سے، اور مت چھپاؤ (پورے) حق(سچ) کو، جبکہ تم جانتے ہو۔
[سورۃ البقرۃ:42]

*یہودیوں کے مطابق:* عیسائی یہودیوں میں شامل نہیں، اگرچہ وہ یہودیوں کے نبی موسیٰ اور ان کی کتاب توریت کو "بھی" مانیں، اس لئے کہ وہ موسیٰ کے بعد عیسیٰ اور ان کی کتاب انجیل کو "بھی" مانتے ہیں۔

*یہودیوں-عیسائیوں کے مطابق:* مسلمان، یہودیوں-عیسائیوں میں شامل نہیں۔ اگرچہ وہ حضرت موسیٰ وعیسیٰ اور انکی کتابوں توریت وانجیل کو بھی مانیں، اس لئے کہ وہ ان کے بعد حضرت محمد اور انکی کتاب قرآن کو "بھی" مانتے ہیں۔

*اسی طرح مسلمانوں کے مطابق»* قادیانی مسلمانوں میں شامل نہیں، اس لئے کہ وہ حضرت محمد کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتے ہیں۔

جس طرح یہودی یا عیسائی بھی قادیانیوں کو یہودی یا عیسائی کہلانے کا حق نہیں دیتے۔ کیونکہ یہ حق نہیں جعلسازی ہے، جو سب کے نزدیک مردود ہے۔

قادیانی اپنا اسثلٹیٹس قبول نہیں کر رہے، الٹا وہ مسلمانوں ہی کے حقوق(مذہبی شناخت اور نشانات) کو اپنا حق بنانا چاہتے ہیں۔
جبکہ
ایسا کوئی ہندو سکھ، یہودی عیسائی وغیرہ کوئی بھی نہیں کرتا۔
لہٰذا
زیادتی مسلمان نہیں کر رہا، بلکہ قادیانی کر رہا ہے۔
یہ امن-پسند کافر نہیں، بلکہ فسادی کافر ہے۔





عقیدۂ نبوت ورسالت

اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک ''عقیدۂ نبوت ورسالت ‘‘ہے ۔ رسول کے لغوی (Linguistic)معنی ہیں: ''پیغام پہنچانے والا ‘‘اور شریعت کی اصطلاح میں رسول اُسے کہتے ہیں‘جواللہ تعالیٰ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچائے۔ لفظ نبی ''نَبَاٌ‘‘سے مشتق ہے ‘اس کے معنی خبر کے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں نبی اللہ تعالیٰ کے اُس منتخب بشر کو کہتے ہیں ‘جسے اُس نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا ہو‘ ''نَبِیٌّ‘‘کے معنی ہیں:'' غیب کی خبر دینے والا‘‘ اور ''نُبُوَّت‘‘ کے ایک معنی ہیں: ''رفعت وبلندی‘‘اور نبی اللہ تعالیٰ کے فضل سے رفیع الشان ہوتا ہے۔ نبی صرف بشر اور مرد گزرے ہیں ‘نہ کوئی عورت ''نَبِیَّہْ‘‘ہوئی اور نہ کوئی جنّ نبی ہوا‘ قرآنِ کریم کی کئی آیات میں اس کی صراحت ہے ۔انبیاء کی تعدادنہ قرآنِ کریم میں اور نہ کسی حدیثِ صحیح صریح میں تعیین کے ساتھ مذکور ہے ‘ انبیائے کرام ورُسلِ عظام علیہم السلام اوراللہ تعالیٰ کے نازل کردہ صحیفوں کی تعداد کے بارے میں روایات ہیں ‘لیکن تعداد کی قطعی تعیین کے لیے اُن روایات پر عقیدے کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی ‘ کیونکہ عقیدے کے اثبات کے لیے دو شرطیں ہیں:(۱)کلام کا ثبوت قطعی ہو‘(۲)اس کی اپنے معنی پر دلالت بھی قطعی ہو‘یعنی دوسرے معانی کا احتمال نہ رکھے‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اورہم نے ایسے رسول بھیجے‘ جن کا تذکرہ اس سے پہلے ہم آپ کو بیان کرچکے اور ایسے رسول بھیجے‘ جن کا تذکرہ ہم نے (آج تک) آپ کے سامنے نہیں کیا ‘‘ (النساء:164)۔
درجِ ذیل چھبیس انبیائے کرام علیہم السلام کے اسمائے مبارکہ قرآنِ کریم میں مذکورہیں:حضرت آدم ‘ حضرت نوح ‘حضرت ابراہیم ‘حضرت اسماعیل‘ حضرت اسحاق ‘ حضرت یعقوب ‘حضرت یوسف‘ حضرت موسیٰ‘ حضرت ہارون ‘ حضرت شعیب ‘ حضرت لوط‘ حضرت ہود‘ حضرت داود‘ حضرت سلیمان‘ حضرت ایوب‘ حضرت زکریا‘ حضرت یحییٰ ‘حضرت عیسیٰ‘ حضرت الیاس‘ حضرت الیَسَع‘ حضرت یونس‘ حضرت ادریس‘ حضرت ذوالکفل‘ حضرت صالح ‘ حضرت عزیر اور سیدنا محمد رسول اللہ علیہم الصلوٰۃ والسلام۔ ان پر تعیین کے ساتھ نام بہ نام ایمان لانااور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام پر اجمالاً ایمان لانا واجب ہے‘ بس اتنا کہنا کافی ہے ''اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ‘‘اگر ہم تعداد معیَّن کردیں اور اصل تعداد زیادہ ہو تو بعض نبیوں کا انکار لازم آئے گااور اگر حقیقی تعداد کم ہو تو غیرِ نبی کو نبی ماننا لازم آئے گااور یہ دونوں صورتیں کفر ہیں۔ ان میں سے پانچ انبیائے کرام اولوالعزم ہیں: سب سے افضل خاتم النبیین ‘رحمۃ للعالمین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺہیں ‘پھر بالترتیب حضرت ابراہیم خلیل اللہ‘ حضرت موسیٰ ‘حضرت عیسیٰ اور حضرت نوح علیہم الصلوٰۃ والسلام ہیں ۔ اُوْلُوالْعَزم کے معنی ہیں: ''عزیمت واستقامت اوررفعت وعظمت والے ‘‘۔نبی اور رسول عام طور پر ہم معنی استعمال ہوتے ہیں ‘ لیکن ان میں آپس میں معنوی فرق موجود ہے۔رسول اُسے کہتے ہیں ‘جسے اللہ تعالیٰ نے نئی شریعت عطا کر کے بھیجا ہو‘ اُس میں سابق شریعت کے بعض احکام کو منسوخ کیا گیا ہو یا بعض احکام کا اضافہ کیا گیا ہویا اُسے کسی خاص قوم کی طرف مبعوث کیا گیا ہو‘ سب سے پہلے صاحبِ شریعت حضرت نوح علیہ السلام تھے ‘اس لیے کہا جاتا ہے: ہر رسول نبی ہوتا ہے اور لازم نہیں کہ ہر نبی رسول ہو۔ انبیائے کرام علیہم السلام تمام مخلوق ؛حتیٰ کہ رُسُلِ ملائکہ سے بھی افضل ہیں ‘نبی کی تعظیم فرضِ عین ہے اور کسی بھی نبی کی توہین یا تکذیب کفر ہے ۔اللہ تعالیٰ پر نبی بھیجنا واجب نہیں ‘بلکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی بھی چیز واجب نہیں ہے‘ اُس نے اپنے فضل سے بعض امور کو اپنے ذمۂ کرم پرلیا ہے ‘مثلاً فرمایا: ''زمین پر چلنے والے ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر ہے‘ ‘(ہود:6)۔
نبوت ورسالت کی حکمت اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمائی: ''ہم نے خوش خبری دینے اور ڈر سنانے والے رسول بھیجے ‘تاکہ رسولوں (کی بعثت )کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کی بارگاہ میں کوئی حجت باقی نہ رہے ‘‘ (النساء:165)۔اس سے مراد یہ ہے کہ رسولوں کے آنے کے بعد نوعِ انسانی کے کسی فرد کے پاس کفروشرک اور ضلالت پر قائم رہنے کے لیے کوئی جواز باقی نہیں رہا کہ وہ اللہ کی عدالت میں یہ عذر پیش کرسکیں کہ ہمیں کوئی راہِ حق بتانے والا نہ تھا۔ نبی کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر وحی کا نزول فرماتا ہے اور اس کی صورتیں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمادی ہیں: ''اور بشر کی یہ مجال نہیں کہ اللہ اُس سے کلام فرمائے ماسوا وحی کے یا پردۂ عظمت کے پیچھے سے کلام فرمائے یا وہ کوئی فرشتہ بھیجے کہ وہ اس کے حکم سے جو اللہ چاہے وحی کرے ‘‘ (الشوریٰ:51)۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ عیاذاً باللہ‘ اللہ تعالیٰ براہِ راست وحی نازل کرنے پر قادر نہیں ہے ‘ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ اُس نے عام طور پر بشر میں اس کی استعداد نہیں رکھی ‘تاہم معراج النبی ﷺ کا واقعہ ایسا ہے کہ اس نے سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر تجلِّی ذات فرمائی اور براہِ راست وحی فرمائی ‘ لیکن عام ضابطہ وہی ہے جومذکور ہ بالا آیت میں بیان فرمایا‘مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخت کے واسطے سے کلام فرمایااور فرشتے کے ذریعے وحی نازل فرماناہمیشہ سے سنت ِ الٰہیہ رہی ہے ‘ یہاں اصطلاحِ شریعت کے مطابق وحی مراد ہے ‘ وحیِ نبوت کی صورتیں احادیثِ مبارکہ میں مذکور ہیں اور قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کاملائکہ کو بھی وحی کرنے کا ذکر ہے۔
لغوی معنی کے اعتبار سے وحی کے معنی ہیں: دل میں کسی بات کا القا کردینا‘اس معنی میں شیاطین لوگوں کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایک دوسرے کو خفیہ طریقے سے باتیں القا کرتے ہیں اور اسی طرح اپنے چیلوں کے ذہنوں میں بھی باتیں ڈالتے ہیں ‘ کاہنوں اور ساحروں کو بھی شیاطین القا کرتے ہیں اور لغوی معنی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُمِّ موسیٰ‘ شہد کی مکھی اور زمین کو بھی وحی کرنا‘ یعنی ذہن میں بات ڈالنا یا حکم دینا ثابت ہے ‘اس کے لیے بھی قرآنِ کریم میں وحی کا کلمہ آیا ہے ۔
نبوت کامدار علم ‘عقل ‘کسب ‘عبادت وریاضت اور مجاہدے پر نہیں ہے ‘ بلکہ یہ ایک وہبی منصب ہے ‘یعنی خالصۃً اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے ‘اس کے لیے منتخب فرماتا ہے‘ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کس جگہ اپنی رسالت کو رکھے گا‘‘ (الانعام:124)۔ البتہ یہ بات درست ہے کہ جسے وہ اس منصب کے لیے منتخب فرماتا ہے ‘اُسے تمام مخلوق سے اعلیٰ علمی‘ عقلی اورفکری صلاحیتوں سے سرفراز فرماتا ہے‘ انہیں غیر معمولی تدبّر ‘قوتِ فیصلہ اور نورِ بصیرت عطا فرماتا ہے‘ غیر نبی کتنا ہی صاحبِ عقل وفکر ہو‘ اُسے نبی سے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی ‘ عقلاء وفلاسفہ کی باتیں ظَنّ وتخمین اور قیاسات کی بنیاد پر ہوتی ہیں‘وہ قطعی نہیں ہوتیں‘ اُن کے اگر کسی حد تک درست ہونے کا امکان ہے‘ تو خطا ‘ فکری کجی اور ضلالت کا امکان بھی رہتا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''پس کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا‘ جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیا اور اللہ نے اُسے علم کے باوجود گمراہی میں چھوڑ دیااور اس کے کان اور اس کے دل پر مہر لگادی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔پس اللہ کے(گمراہی میں چھوڑنے کے) بعد کون ہے جو اُسے ہدایت دے ‘‘ (الجاثیہ:23)۔ اس سے معلوم ہوا کہ عقل کسی درجے میں رہنمائی کرسکتی ہے ‘لیکن ہدایت کے لیے عقل پر کلی انحصار نہیں کیا جاسکتا‘ ورنہ عُقَلاء وحُکَماء میں سے کوئی گمراہ نہ ہوتا‘ پس ہدایت کا قطعی اور ہر شک وشبہے سے پاک ذریعہ صرف اور صرف وحیِ نبوت ہے۔ 
نبی معصوم ہوتا ہے‘عصمت نبی اور فرشتے کا خاصّہ ہے‘ ان کے سواکوئی معصوم نہیں‘ عصمتِ نبوت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی معصیت سے اُن کی حفاظت کا وعدہ فرمالیا ہے ‘لہٰذا اُن سے گناہ کا صادر ہونا شرعاً مُحال ہے‘ پس نبی نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد کبائر سے پاک ہوتا ہے اور مختار قول کے مطابق نبوت سے پہلے بھی عمداً صغائر سے پاک ہوتا ہے ‘وہ احکام جو اللہ تعالیٰ نے امت تک پہنچانے کے لیے نبی کو تفویض کیے ہیں ‘ان کے ابلاغ میں نبی قطعی طور پر معصوم ہوتا ہے اور اس میں خطا ونسیان کا بھی کوئی احتمال نہیں ہوتا‘اگر احکامِ تَبْلِیْغِیَّہ میں خطا ونسیان کا احتمال تسلیم کرلیا جائے ‘تو شریعت کی بنیاد ہی منہدم ہوجائے گی‘ لہٰذا اس مسئلے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔
نبی کو اللہ تعالیٰ وجاہت سے نوازتا ہے ‘قرآنِ کریم میں ہے : ''اے مومنو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے موسیٰ کو اذیت پہنچائی تھی‘ تو اللہ نے موسیٰ کو اُن کی تہمت سے بری کردیااور وہ اللہ کے نزدیک وجاہت (عزت )والے تھے‘‘ (الاحزاب:69)۔ چونکہ نبی امت کے لیے قُدوہ‘ مُقتدیٰ اور پیشوا ہوتا ہے‘ اس لیے اس کا معزز وباوقار ہونامنصبِ نبوت کا تقاضا ہے‘ سو یہ کہنا کہ '' نبی اللہ تعالیٰ کے نزدیک( معاذ اللہ!)چوہڑے چمار کی مثل ہے‘‘کھلی گمراہی ہے۔ نبی لوگوں کے درمیان رہتا ہے‘ سوتا جاگتا ہے‘ کھاتا پیتا ہے‘ بشری عوارض بھی اُس پر طاری ہوتے ہیں: جیسے صحت ومرض ‘خوشی اور غم کا لاحق ہونا‘ وفات پاناوغیرہ ‘ لیکن نبی ایسے عوارض سے پاک ہوتا ہے‘ جو انسانی شرَف ووقار کے منافی ہوں ‘جیسے :جذام یا برص جیسی قابلِ نفرت بیماریوں کا لاحق ہوناوغیرہ‘ نیز ہم ایسی روایات کو بھی رَد کرتے ہیں‘ جو شانِ نبوت کے خلاف ہوں ‘جیسے :حضرت ایک نبی کے بارے میں یہ روایات کہ معاذ اللہ! انہیں ایسی بیماری لاحق ہوگئی تھی کہ لوگوں کو گھِن آتی تھی ‘اُن کے جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے اور انہیں کوڑے کے ڈھیر پر ڈال دیا گیا تھا‘ البتہ انبیاء پر مصائب ومشکلات اورآزمائشوں کا آنا شانِ نبوت کے خلاف نہیں ہے۔
حال ہی میں ایک مشہور واعظ نے کہا ہے: ''(معاذ اللہ) ایک نبی کو سزا کے طور پر شہر میںگھمایا گیا ‘ وغیرہ وغیرہ‘‘ یہ شانِ نبوت کے خلاف ہے اور نبی کے بارے میں ایسے ریمارکس دینے سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے‘ تاریخ میں ہر طرح کی روایات مل جاتی ہیں ‘لیکن دینی مُسَلَّمَات کے خلاف روایات کو رَد کردیا جائے گا‘ ایسی ہی روایات کو ''اسرائیلیات ‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے اورموجودہ تحریف شدہ تورات میں انبیائے کرام علیہم السلام کے بارے میں ایسی کئی روایتیں ہیں ‘جو شانِ نبوت کے خلاف ہیں‘ اُن کو رد کیا جائے گا۔






انبیائے کرام علیہم السلام پر وحی صُحُفِ سماوی اور کُتُبِ الٰہی کی صورت میں نازل ہوتی رہی ‘انبیائے کرام کے صحیفوں کی تعداد کے بارے میں روایات ہیں ‘لیکن قطعی تعداد ہمیں معلوم نہیں۔معروف کتابیں چار ہیں:تورات‘ زبور‘ انجیل اور قرآنِ کریم۔آج کل دستیاب انجیل میں تورات عہد نامۂ قدیم کے عنوان سے اور انجیل عہد نامہ جدید کے عنوان سے جمع ہے ‘دیگر انبیائے کرام کی طرف منسوب صحیفے بھی اس میں ہیں۔قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کا آخری پیغامِ ہدایت ہے جو اُس کے آخری نبی اور رسول سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا۔ گزشتہ انبیائے کرام کے صحیفے اُن انبیائے کرام کو یاد تھے‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا وعدہ نہیں فرمایا اور اپنے ذمۂ کرم پر نہیں لیا‘ بلکہ اُن امتوں پر چھوڑ دیا اور وہ اُن کی حفاظت نہ کرسکے ‘بلکہ اُن میں لفظی اور معنوی تحریف کرتے رہے‘اس کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے‘شاید اس میں باری تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ ان کُتبِ الٰہی کی شریعت محدود مدت کے لیے ہے اور لامحدود زمانوں کے لیے اُن کی حفاظت منشائے خداوندی نہیں ہے‘جبکہ قرآنِ کریم کی شریعت اب تاقیامت جاری وساری رہے گی‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا اور اس کی یہ شانِ اعجاز ہے کہ دسیوں بیسیوں لاکھ کی تعداد میں اس کے حفاظِ کرام آج بھی موجود ہیں اور تاقیامت رہیں گے۔ گزشتہ انبیائے کرام کے دستیاب صحیفوں کے بارے میں ہمارے لیے قاعدۂ کلیہ یہ ہے:اُن میں جو بات قرآنِ کریم کے مطابق ہے‘ ہم اُن کی تصدیق کرتے ہیں اور جو بات قرآنِ کریم کے خلاف ہے‘ ہم اُسے ردّکرتے ہیںاور جو باتیں نہ قرآنِ کریم کے موافق ہیں اور نہ مخالف‘ ہم اُن کے بارے میں سکوت اختیارکرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں: اپنے اپنے ادوار میں اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے انبیائے کرام پر جو کلام نازل کیاتھا‘وہ حق ہے۔ 
سابق سطور میں گزر چکا ہے کہ ''نَبِیٌّ‘‘ کے معنی ہیں:''غیب کی خبریں دینے والا ‘‘‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (1)''یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں‘جنہیں اس سے پہلے نہ آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم کے لوگ ‘ (ہود:49)‘‘۔ (2) حضرتِ مریم‘ حضرت زکریا اور یحییٰ علیہما السلام کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ''یہ غیب کی بعض خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیںاور آپ (اس وقت) اُن کے پاس نہ تھے جب وہ (قرعہ اندازی کے لیے) اپنی قلموں کو ڈال رہے تھے کہ اُن میں سے مریمؑ کی کفالت کون کرے گااورآپ اُن کے پاس نہ تھے جب وہ باہم جھگڑ رہے تھے‘ (آل عمران:44)‘‘۔(3) حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے کے تناظر میں فرمایا: ''یہ غیب کی بعض خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیںاور آپ ان کے پاس نہ تھے جب وہ سازش کر رہے تھے اور اپنے پروگرام پر عمل کرنے کا پکا ارادہ کرلیا تھا‘ (یوسف:102)‘‘۔ سو نبی کا کام ہی غیب کی خبریں دینا ہے‘ جیسے جنت وجہنم ‘جزا وسزا‘ ملائک وجنّات اور دیگر امور کے بارے میں خبریں دینا۔ قرآنِ کریم میں علمِ غیب کے اعتبار سے دو طرح کی آیتیں ہیں: ایک وہ جن میں غیر اللہ سے غیب کی نفی ہے ‘ جیسے: ''کہہ دیجیے: آسمانوں اور زمینوں میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتااورانہیں یہ (بھی) نہیں معلوم کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے‘ (النمل:65)‘‘۔اس طرح کی اور بھی آیات قرآنِ کریم میں موجود ہیں۔ دوسری آیات وہ ہیں جن میں انبیائے کرام کو غیب پر مطلع کرنے کا بتایا گیا ہے‘ فرمایا: ''وہ ہر غیب کا جاننے والا ہے‘ سو وہ اپنے ہر غیب پر کسی کو مطلع نہیں فرماتا‘ ماسوا اُن کے جن کو اس نے پسند فرمالیا ہے ‘جو اس کے (سب) رسول ہیں‘(نوح:26-27)‘‘۔ (2) ''اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ تمہیںغیب پر مطلع کرے ‘ہاں! اللہ (غیب پر مطلع کرنے کے لیے) اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے چُن لیتا ہے‘ (آل عمران:179)‘‘۔ قرآنِ کریم کی ایک معجزانہ شان اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے: ''توکیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ (قرآن) اللہ کے غیر کی طرف سے ہوتا تو وہ ضرور اس میں بہت اختلاف پاتے‘ (النساء:82)‘‘۔ پس جب بظاہر آیات میں تعارض نظر آئے‘اس میں تطبیق کی جاتی ہے اور علمِ غیب کے حوالے سے اثبات ونفی کی آیات میں تطبیق یہ ہے کہ جن آیات میں علمِ غیب کو اللہ تعالیٰ کی صفتِ خاصّہ بتایا گیا ہے‘ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی ذات سے سب غیوب کو جانتا ہے اور جن آیات میں انبیائے کرام کے لیے غیب کا اثبات کیا گیا ہے‘ ان سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی عطا سے جانتے ہیں اور علمِ منطق کا اصول یہ ہے کہ جب بظاہر تناقض نظر آئے ‘لیکن نفی اور اثبات کی جہتیں مختلف ہوں تو وہ در حقیقت تناقض نہیں ہوتا۔ 
نبی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے دعوائے نبوت کی صداقت کی دلیل کے طور پر لوگوں کے سامنے معجزہ پیش کرتا ہے‘ معجزے کو قرآنِ کریم میں آیت‘ بَیِّنَہ اور برہان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ معجزے سے مراد یہ ہے کہ مدّعیِ نبوت کی ذات سے ایسے امر کا صدور ہوجو خارقِ عادت ہویا مُحالِ عادی ہواور نبی اُسے تحدّی کے طور پر پیش کرے اور لوگ اس کے مقابلے سے عاجز آجائیں‘ یعنی معجزات مُحالِ عقلی نہیں ہوتے‘ بلکہ مُحالِ عادی ہوتے ہیں۔خارقِ عادت سے مراد یہ ہے کہ عام حالات میں عادتاً ایسا نہیں ہوسکتا‘ مثلاً: یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص فضا میں اڑنے لگے‘ اگر کوئی کہے کہ آج تو انسان ہوائی جہازوں اور راکٹوں میں بیٹھ کر فضائوں میں اڑ رہا ہے‘ تو یہ مادّی طاقت اور اسباب کا کرشمہ قرار پائے گا‘ معجزہ ہرگز نہیں۔
قرآنِ کریم میں انبیائے کرام کے معجزات کا ذکر موجود ہے: (1) ''اورہم نے قومِ ثمود کی طرف اُن کی برادری سے صالح کو بھیجا‘ انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو‘اس کے سوا تمہارے لیے کوئی معبودِ برحق نہیں ہے‘بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی ہے ‘ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے نشانی ہے‘ سو اسے چھوڑ دواللہ کی زمین میں چرتی رہے (خبردار!)اسے برائی کی نیت سے چھونا بھی نہیں ورنہ تمہیں دردناک عذاب گرفت میں لے لے گا‘ (الاعراف:73)‘‘۔ 
(2)''اور ہم نے موسیٰ کو وحی فرمائی کہ تم اپنا عصا (زمین پر)ڈال دو‘ تو وہ اچانک جادوگروں کی فریب کاری کو نگلنے لگا‘ (الاعراف:117)‘‘۔ (3) ''فرمایا:اے موسیٰ! اس(عصا) کو ڈال دو‘ پس موسیٰ نے اُسے ڈال دیا تووہ اچانک ایک دوڑتا ہوا سانپ تھا‘ فرمایا: اسے بے خوف ہوکر پکڑ لو ‘ ہم ابھی اس کو پہلی صورت کی طرف لوٹادیں گے اور اپنا ہاتھ اپنی بغل میں ملالیں تو وہ بغیر کسی عیب کے چمکتا ہوا نکلے گا‘ یہ دوسری نشانی ہے‘ (طہٰ:19-22)‘‘۔ (4)''اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا(یہ کہتا ہوا:) میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نشانی لایا ہوں‘ میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کا ایک مجسمہ بناتا ہوں‘ پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے اڑنے لگے گا‘ نیز میں اللہ کے حکم سے مادرزاد اندھے اور برص کے بیمار کو شفا دیتا ہوں اور مُردوں کو زندہ کرتا ہوں اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو‘بے شک ان سب چیزوں میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم مومن ہو‘(آل عمران:49)‘‘۔ (5)''اور بے شک ہم نے داودپر اپنافضلِ عظیم فرمایا (اور حکم فرمایا:) اے پہاڑواور پرندو! تم دائود کے ساتھ تسبیح کرواور ہم نے اُن کے لیے لوہے کو نرم کردیا تھاکہ آپ کشادہ زِرہیں بنائیں اور توازن کے ساتھ اُن کی کڑیاں جوڑیں‘(سبا:10-11)‘‘۔ (6)''اور ہم نے ہوا کوسلیمان کے تابع فرمان بنادیا ‘وہ صبح وشام ایک ایک ماہ کی مسافت طے کرتے اور ہم نے اُن کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بنا دیا اور ہم نے بعض جنّات کو اُن کے تابع کردیا کہ وہ اپنے رب کے حکم سے اُن کے سامنے کام کرتے تھے ‘(سبا:12)‘‘۔ عام طور پر ہوا قدرت کے تکوینی نظام کے تحت چلتی ہے ‘ اس کی رفتار اور اس کا رُخ اُسی نظام کے تابع ہوتا ہے ‘پس ہوا کے سلیمان علیہ السلام کے تابع فرمان ہونے کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ جدھر کا حکم دیتے ‘ہوا اپنا رُخ ادھر پھیر دیتی اور یہی معجزہ ہے۔
متکلمین نے اس پر بحث کی ہے کہ آیا معجزہ نبی کے اختیار میں ہوتا ہے یا نبی اس میں بے اختیار ہوتا ہے ‘ اس بارے میں دو آراء ہیں‘ہماری مختار رائے یہ ہے کہ قرآن ہمارے نبی کریمﷺ کا سب سے بڑا معجزہ ہے ‘چونکہ یہ اللہ کا کلام ہے ‘اس لیے نبی کے قدرت واختیار میں نہیں ہے ‘اسی طرح واقعۂ معراج آپ ﷺ کا سب سے عدیم المثال اور عقلِ انسانی کو حیران کردینے والا معجزہ ہے‘ یہ اللہ کے حکم کے تابع تھا۔معجزے کے مقدور ہونے کے معنی یہ ہیں : چاہے تو اسے ظاہر کرے اور چاہے تو نہ کرے۔انبیائے کرام علیہم السلام کے عام معجزات اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قدرت سے اُن کے اختیار میں ہوتے ہیں؛ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے سانپ کے کاٹے اور آشوبِ چشم کے مریض کو اپنا لعابِ دہن لگاکر شفا بخشی‘ آنکھ کے باہر نکلے ہوئے ڈھیلے کو دوبارہ اپنے مقام پر پیوست کردیااور نظر پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی ‘آپ نے ایک لاٹھی پکڑائی تو وہ تلوار بن گئی‘ کڑوے پانی میں لعابِ دہن ڈالا تو وہ میٹھا ہوگیا‘ہنڈیا میں لعابِ دہن ڈالا تو سینکڑوں افراد اس سے شکم سیر ہوگئے‘ تھوڑے سے دودھ سے ستر صحابہ کو سیراب کردیا‘درخت کو حکم دیا تو وہ اپنی جگہ سے اکھڑ کر چلا آیا‘ وغیرہ۔ کسی چیز کے بے اختیار ہونے کی مثال یہ ہے :کاتب اپنے قلم ہی سے لکھتا ہے ‘لیکن قلم کا اپناکوئی اختیار نہیں ہے‘ کاتب جب چاہتا ہے اور جو چاہتا ہے لکھ لیتا ہے اور اس کا ارادہ نہ ہو تو قلم ساکن ہوجاتا ہے‘مگرنبی اپنے معجزات میں اس طرح بے اختیار نہیں ہوتے‘ وہ اللہ کے دیے ہوئے اختیار سے تصرّف کرتے ہیں اور معجزات ظہور میں آتے ہیں۔









انسان اس دنیا میں خو داپنے ارادہ سے پیدا نہیں ہوا ہے ، بلکہ پیدا کیا گیا ہے ، دنیا میں بہت سی چیزیں اس کے لیے فائدہ مند ہیں اور بہت سی چیزیں مضرت رساں، وہ خود اپنے نفع ونقصان سے بھی کماحقہ واقف نہیں، اس کے اندر قسم قسم کی خواہشات اور آرزوئیں ہیں اس کے نفس میں ایسی حسرتیں بھی پلتی رہتی ہیں جو اسی کے جیسے دوسرے انسانوں کے لیے تباہی وبربادی اور نقصان کا باعث ہیں، بعض ایسی تمنائیں بھی دل میں مچلتی اور ذہن کو بے قرار رکھتی ہیں، جو اس کے لیے نہ صرف روحانی، بلکہ مادی او رجسمانی اعتبار سے بھی انتہائی نقصان دہ ہوتی ہیں، اس لیے اگر انسان کو زندگی گزارنے کے بارے میں آزاد اور بے لگام چھوڑ دیا جائے ، تو وہ نہ صرف دوسروں کے لیے بلکہ خوداپنے لیے بھی طرح طرح کی مصیبتیں او رمشکلات پیدا کر سکتا ہے، اس لیے اسے صحیح طریقہ پر زندگی گزارنے کے لیے پیدا کرنے والے کی جانب سے ہدایت نامہ کی ضرورت ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ یہ ہدایت نامہ کسی انسان ہی کے ذریعہ آئے اور وہ اس پر عمل کرکے دکھائے اور بتائے ، الله تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ہر دور میں اس کی تعلیم وتربیت کا سروسامان بھی فرمایا، چناں چہ انسان کی راہ نمائی کے لیے الله نے ہدایت نامے بھیجے، جسے کتاب الله کہا جاتا ہے اور اسے پہنچانے اور عملی طور پر اسے برت کرد کھانے کے لیے انبیائے کرام کو بھیجا۔

حضرت آدم علیہ السلام جیسے پہلے انسان تھے، ویسے ہی پہلے پیغمبر بھی تھے، نبوت ورسالت کا یہ سلسلہ پیغمبر اسلام جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ختم ہو گیا، چوں کہ الله تعالیٰ کو یہ بات منظور تھی کہ سلسلہٴ نبوت آپ صلی الله علیہ وسلم پر تمام ہو جائے، اس لیے قدرتی طور پر وہ اسباب بھی باقی نہ رہے جن کی وجہ سے نئے نبی کی ضرورت پیش آتی تھی، نیا نبی یا تو اس لیے بھیجا جاتا تھا کہ احکام شریعت میں کوئی تبدیلی مقصود ہوتی اور قرآن نے واضح کر دیا کہ اب شریعت الہیٰ درجہٴ کمال وتمام کو پہنچ گئی ہے او رنعمتِ ہدایت کا اہتمام ہو چکا ہے ، ﴿الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا﴾ (المائدہ:3) یا نبی اس لیے بھیجے جاتے تھے کہ پہلے نبی پر ایمان رکھنے والوں میں کوئی ہدایت یافتہ او رحق پر ثابت قدم گروہ باقی نہ رہا ہو ، یا اس لیے کہ پہلے جو آسمانی کتاب اتری ہو ، لوگوں نے اس میں ملاوٹ پیدا کر دی ہو، نبوت محمدی کا معاملہ یہ ہے کہ جو کتاب آپ پر نازل ہوئی وہ ایک زبر زیر کی تبدیلی کے بغیر موجود اور محفوظ ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس امت میں بہت بڑا طبقہ راہ ہدایت پر قائم ہے اور قائم رہے گا، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ امت کبھی بھی گم راہی پر متفق نہیں ہوسکتی، لا تجتمع امتی علی ضلالة، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔

چناں چہ اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ہر طرح کی نبوت ختم ہوچکی ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کی نبوت باقی نہیں رہی ، یہ نہ صرف امت کا اجماعی عقیدہ ہے، بلکہ اس پر قرآن مجید اور صحیح حدیثیں ناطق ہیں، چناں چہ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول اور آخری نبی ہیں ، ﴿ولکن رسول الله وخاتم النبیین﴾ ( الاحزاب:40) آسمانی صحائف میں ہمیشہ اگلے رسول کے بارے میں امت سے عہد لیا جاتا تھا کہ وہ ان پر ایمان لائیں گے، اگر آپ کے بعد کسی نبی کی آمد ممکن ہوتی تو ضروری تھا کہ الله تعالیٰ نے پوری اہمیت اور وضاحت کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا ہوتا، لیکن قرآن مجید نے کہیں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس بہت ہی واضح الفاظ میں آپ کے آخری نبی ہونے کا اعلان فرمایا گیا اور اشارةً تو کتنے ہی مقامات پر آپ صلی الله علیہ وسلم پر ختم نبوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

حدیثیں اس سلسلہ میں اتنی کثرت اور وضاحت کے ساتھ مروی ہیں کہ ان کااحاطہ دشوار ہے، حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مرو ی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری اور انبیاء کی مثال ایسے محل کی ہے جسے نہایت ہی خوب صورت طریقہ پر بنایا گیا ہو اور اس میں ایک اینٹ کی جگہ بچی ہو دیکھنے والے اسے دیکھتے ہوں اور اس کے حسن تعمیر پر حیرت زدہ ہوں ، سوائے اس اینٹ کی جگہ کے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی اینٹ ہوں، مجھ پر عمارت مکمل ہو گئی ہے ، رسولوں کا سلسلہ ختم ہوا اور میں آخر ی نبی ہوں ۔( بخاری:501/1) حضرت ابوہریرہ ہی کی روایت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد مرو ی ہے کہ چھ باتوں میں آپ کو تمام انبیاء پر فضیلت دی گئی، ان میں دو باتیں یہ تھیں کہ آپ تمام مخلوقات کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے اورمجھ پر نبیوں کا سلسہ ختم کر دیا گیا۔ ( مسلم:199/1) حضرت ثوبان رضی الله عنہ کی روایت میں ہے کہ عنقریب میری امت میں تیسیوں جھوٹے نبی پیدا ہوں گے ، جو کہیں گے کہ وہ الله کے نبی ہیں، حالاں کہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا ۔( ابوداؤد:584/1) دارمی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا میں پیغمبروں کا قائد اور خاتم ہوں او رمجھے اس پر کوئی فخر نہیں ۔ (دارمی حدیث نمبر49) آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا ایک نام ”عاقب“ بتایا اور پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا، یعنی وہ جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو، انا العاقب والعاقب الذی لیس بعدہ نبی۔ ( بخاری:501/1)

حدیثوں نے اس بات کو بھی واضح کر دیا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے بعد کسی بھی طرح کی نبوت باقی نہیں رہی، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی الله عنہ سے فرمایا کہ میرے بعد نبوت کی گنجائش ہوتی تو تم نبی ہوتے ، لوکان بعدی نبیاً لکان عمر۔ ( ترمذی:209/2) اور حضرت علی رضی الله عنہ سے ارشاد فرمایا کہ تم میری نسبت سے ویسے ہی ہو جیسے حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام تھے، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا: انت منی بمنزلة ہارون من موسی، إلا أنہ لانبی بعدی․(بخاری:633/2) ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو مزید واضح کرتے ہوئے فرمایا، میں آخری نبی ہوں اورتم آخری امت ہو، انا آخر الانبیاء وانتم آخرالامم ۔( ابن ماجہ:207 ، باب فتنة الدجال) آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی مسجد کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ انبیاء سے منسوب جو مسجدیں تھیں، ان میں آخری مسجد میری مسجد ہے، مسجدی خاتم مساجد الانبیاء۔( دیلمی، حدیث نمبر:112) رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ان فرمودات سے واضح ہے کہ آپ پر ہر طرح کی نبوت ختم ہوچکی ہے، آپ آخری نبی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب آخری کتا ب ہے، آپ کی امت آخری امت ہے، انبیا سے منسوب مساجد میں آپ کی مسجد آخری مسجد ہے اور آپ کے بعد کسی بھی قسم کی نبوت کی گنجائش باقی نہیں رہی۔

چوں کہ یہود ونصاریٰ کو اسلام سے ہمیشہ سے عناد رہا ہے او رانہوں نے میدان جنگ سے لے کر معرکہ فکرونظر تک ہر جگہ اسلام پر یلغار کی ہے، اس لیے انہوں نے اپنے استعماری دور میں ایک نئی تدیبر سوچی کہ کسی شخص کو نبوت کا علم بردار بنا کر کھڑا کیا جائے، تاکہ نبوت محمدی کے مقابل ایک نئی نبوت وجود میں آئے او رپیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم سے امت محمدیہ کو جو محبت ہے وہ محبت تقسیم ہو جاتے، اس کے لیے ایک ایسے علاقہ کا انتخاب کیا گیا جو اس وقت انگریزوں کی عمل داری میں تھا، تاکہ ایسے جھوٹے مدعیٴ نبوت کی پوری حفاظت اور حوصلہ افزائی ہو سکے ، چنا ں چہ پنجاب سے ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی کو اس کام کے لیے تیار کیا گیا، مرزا صاحب نے خود ہی اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میں انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہوں، انگریزوں نے اپنی اس کاشت کو بار آور کرنے اور تقویت پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

نبی کے دعوے میں کبھی تدریج نہیں ہوتی، یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ آہستہ آہستہ دعویٴ نبوت تک پہنچے، حضرت موسی علیہ السلام آگ کی تلاش میں کوہِ طور پر پہنچے تھے، لیکن اچانک ہی نبوت سے سرفراز کیے گئے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وحی نازل ہونے سے پہلے کبھی اس سلسلہ میں کوئی گفتگو نہیں فرمائی کہ اچانک حضرت جبرئیل علیہ السلام الله کا کلام لے نازل ہوئے، لیکن مرزا صاحب ایک ایک سیڑھی چڑھتے ہوئے دعویٴ نبوت تک پہنچے، پہلے الله کی طرف سے ملہم ہونے کا دعوی کیا، یعنی ان پر الہام ہوتا ہے، پھر دیکھا کہ حدیث میں حضرت مسیح کے نزول کی پیشین گوئی ہے ، تو مسیح ہونے کا دعویٰ کر بیٹھے، جب لوگوں نے کہا کہ حضرت مسیح کے زمانہ میں امام مہدی کا بھی ظہور ہو گا، کہنے لگے کہ میں ہی مہدی ہوں، پھر دعویٴ نبوت ہی کر بیٹھے۔ اولاً تو اپنی نبوت کو حضور صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کا سایہ کہتے تھے، لیکن پھر اپنے کو حضور سے افضل کہنے سے بھی نہیں چوکے او ران کے متبعین نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعوت کو ہلال ” یعنی پہلی شب“ کا چاند او رمرزا صاحب کی دعوت کو ” بدر کامل“ یعنی چودہویں شب کا چاند قرار دیا، نبی کی بات میں تضاد نہیں ہوتا ،مگر مرزا صاحب کے یہاں اس قدر تضادات ہیں کہ شمار سے باہر ہیں، نبی خدا کی صفات اور جلالت شان کو وضاحت وصراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے او راپنی عبدیت وبندگی کو بے کم وکاست سامنے رکھ دیتا ہے، لیکن مرزا صاحب کا حال یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا کا مانند کہنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ( روحانی خزائن:413/17) ایک موقع سے کہتے ہیں: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کر لیا کہ میں وہی ہوں۔ (روحانی خزائن:564/5) مرزا صاحب اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ یا خدا خود آسمان سے اُتر آیا ہے، کان الله نزل من السماء․ (اشتہار20 فروری1886ء)

نبی کی زبان بہت ہی شائستہ اور مہذب ہوتی ہے، دشمنوں کے بارے میں بھی تہذیب واخلاق سے گری ہوئی بات اس کی زبان اور قلم پر نہیں آتی ، لیکن مرزا صاحب کے یہاں اپنے مخالفین کے لیے سور، کتے، حرامی وغیرہ کے الفاظ عام ہیں او رانہیں اس طرح کے تخاطب میں کوئی تکلف نہیں، کہتے ہیں کہ ”جو ہماری فتح کا قائل نہیں ہو گا، تو صاف سمجھاجاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے، حرام زادہ کی یہی نشانی ہے کہ سیدھی راہ اختیار نہ کرے۔ (نور الاسلام:30) مشہور عالم مولانا ثناء الله امرتسری کو ” کتا ،مردار خوار“ (روحانی خزائن:309/11) مولانا محمد حسین بٹالوی کو ” پلید، بے حیا، سفلہ، گندی کارروائی، گندے اخلاق وغیرہ“ کے القاب سے نوازا ہے، مولانا سعد الله لدھیانوی کو ” نطفہ سفہا، کنجری کا بیٹا“۔ یہ کلمات بطور نمونہ کے ہیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن زیادہ لعنت کرنے والا نہیں ہو سکتا، خود مرزا صاحب نے کہا ہے کہ مومن لعّان نہیں ہوتا۔ (روحانی خزائن: 456/13) لیکن خود مرزا صاحب نے عیسائیوں کے خلاف جو کتاب لکھی تو محض چار صفحات میں ایک ہزار بار صرف لعنت لعنت کے کلمات لکھے ( حوالہ سابق:158-63/8) اس سے مرزا صاحب کی زبان وبیان کے معیار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے او رغور کیا جاسکتا ہے کہ نبی تو کجا کیا کسی مہذب آدمی کو بھی ایسے الفاظ زیب دیتے ہیں؟

مرزا صاحب کے دیگر حالات بھی اس پہلو سے قابل مطالعہ ہیں، صرف مرزا صاحب کے محمدی بیگم سے نکاح کی شدید خواہش اور اس سلسلہ میں بار بار روحی الہیٰ کا دعوی ، پھر محمدی بیگم، اس کے شوہر اور اس کے متعلقین کے لیے بد دعا اور ہلاکت وبردبای کی پیشین گوئی اور بالآخر ان تمام پیشین گوئیوں کا غلط ثابت ہونا ایسی باتیں ہیں، جو مرزا صاحب کے اخلاق وعادات کو بھی روشنی میں لاتی ہیں ، مگر افسوس کہ جن مسلمانوں کو مذہبی معلومات حاصل نہیں ہیں، یا جو لوگ دیہات میں رہتے ہیں اور وہ کلمہ او رنماز او ردین کے بنیادی احکام سے بھی ناواقف ہیں، وہ دھوکہ میں آجاتے ہیں اور ظاہری طور پر کلمہ کی وحدت اور کچھ عمومی افعال میں یکسانیت کی وجہ سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں، پھر جہاں حقیقتِ حال کا ان کو علم ہوتا ہے او رمسلمان وہاں پہنچتے ہیں وہاں سے ان غارت گرانِ ایمان کو راہ فرار اختیار کرنی پڑتی ہے ، ان کی مالی تحریص، عبادت گاہ او رمکتب کا انتظام اور دوسری ترغیبات سب کی سب اکارت ہو جاتی ہیں، اگر مسلمانوں پر ان باغیانِ ختم نبوت کے افکار واعتقادات واضح ہو جائیں تو یہی کافی ہے۔

لیکن اس میں جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے کہ ہم نے اپنی تمام دینی تحریکات، تعلیمی نظام اور دعوتی کوششوں کا محور صرف پررونق شہروں کو بنالیا ہے او رہمارے جو بھائی دیہات کی تیرہٴ وتاریک فضا میں رہتے ہیں ، جہاں نہ علم کی روشنی ہے اور نہ برقی لیمپ ، نہ خوبصورت سڑکیں، نہ راحت بخش عمارتیں او رعشرت کدے ، ان غریب بھائیوں کو ہم نے بالکل بھلا رکھا ہے، ایسا کہ گویا ان سے ہمارا کوئی مذہبی اور ایمانی رشتہ ہی نہ ہو، رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ختم نبوت ہماری طرف متوجہ ہے کہ ہم اپنے ان بھائیوں کی طرف نگاہِ محبت اٹھائیں، ان کے ایمان کی حفاظت کریں اور ان کو حقیقی صورت حال سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں، ہماری تھوڑی سی توجہ انہیں ارتداد کی کھائی میں گرنے سے بچا سکتی ہے، ہم اپنی آمدنی کا بہت ہی معمولی حصہ نکال کر گاؤں گاؤں مکاتب کانظام قائم کرسکتے ہیں، کتنے ہی گاؤں ہیں، جہاں سینکڑوں سال سے مسلمان آباد ہیں، لیکن وہاں ایک چھوٹی سی مسجد موجود نہیں، ہم چھپر کی سہی، ایک مسجد بنا دیں، انہیں مسجدوں میں بچوں کی بنیادی دینی تعلیم کا انتظام کر دیں او رعلم کا ایک چراغ وہاں روشن ہو جائے، تو انشاء الله انہیں ہر گزگم راہ نہ کیا جاسکے گا او رکفر اپنی ساری سازشوں کے باوجود خاسر ومحروم ہی رہے گا، لیکن کیا ہم اس کے لیے تیار بھی ہیں؟؟















ختمِ نبوت کے موضوع پر چہل حدیث




نوٹ: اس مضمون میں صحاحِ ستہ کی تمام احادیث ”موسوعة الحدیث الشریف الکتب السنة“ مطبوعہ دارالسلام للنشی التوزیع الریاض، ۲۰۰۰ ، سے نقل کی گئی ہیں اور احادیث کے نمبرز اس کے مطابق ہیں۔
--------------

اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے انسانیت کی راہنمائی کے لئے انبیاء ورسل کو مبعوث فرمایا اور اُن پر وحی نازل فرمائی تاکہ وہ الوہی پیغام پر عمل پیرا ہوکر اپنے امتیوں کے سامنے لائق تقلید نمونہ پیش کرسکیں۔ نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ علیہ التحیة والثناء پر اختیام پذیر ہوا۔ خلاّقِ عالمین نے اپنے محبوبِ مکرم صلى الله عليه وسلم کو رحمة للعالمین کے لقب سے سرفراز فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہر عالم کے لیے رحمت کبریا ہیں۔ اس کے علاوہ رب کریم نے حضور سید انام صلى الله عليه وسلم پر دین مبین کی تکمیل فرمادی اور وحی جیسی نعمت کو تمام کردیا اور اسلام جیسے عالمگیر (Universal)، ابدی (Eternal) اور متحرک (Dynamic)دین کو رہتی دُنیا تک کے لئے اپنا پسندیدہ دین قرار دے دیا۔ قرآن مجید میں حضور اکرم، نبی معظم، رسول مکرم صلى الله عليه وسلم کے آخری نبی ہونے کا اعلان اس آیت مبارکہ میں کیاگیا:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ، وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا. (سورة الاحزاب:۳۳-۴۰)

محمد صلى الله عليه وسلم تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے،اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (بریلوی، احمد رضاخان، کنزالایمان فی ترجمة القرآن، لاہور: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ص:۵۰۹)

یہ نص قطعی ہے ختم نبوت کے اس اعلان خداوندی کے بعد کسی شخص کو قصرِ نبوت میں نقب زنی کی سعی لاحاصل نہیں کرنی چاہئے۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مہبطِ وحی صلى الله عليه وسلم کے بہت سے ارشادات کتب احادیث میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ یہاں ایسی احادیث پر مبنی اربعین پیش کی جارہی ہے تاکہ منکرین ختم نبوت پر حق واضح ہوسکے اور یہ عمل اس حقیر پرتقصیر کے لئے نجاتِ اُخروی کا باعث ہو، کیونکہ محدثین کرام نے اربعین کی فضیلت میں روایات نقل فرمائی ہیں۔ حافظ ابی نعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی المتوفی ۴۳۰ھ نے حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله تعالى عنه سے مروی یہ روایت درج کی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

من حفظ علی اُمتی أربعین حدیثا ینفعہم اللّٰہ عز وجل بہا، قیل لہ: أدخل من أی أبواب الجنة شئت.

جس شخص نے میری اُمت کو ایسی چالیس احادیث پہنچائیں جس سے اللہ تعالیٰ عز وجل نے ان کو نفع دیا تو اُس سے کہا جائے گا جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (الاصفہانی، ابی نعیم احمد بن عبداللہ، حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء، مصر: مکتبہ الخانجی بشارع عبدالعزیز ومطبعة السعادہ بجوار محافظہ، ۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲/)۔ ۴:۱۸۹

۱- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَآءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَاَحْسَنَہ وَاَجْمَلَہ اِلاَّ مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ فَجَعَلَ النَّاسَ یَطُوْفُوْنَ وَیَعْجَبُوْنَ لَہ وَیَقُوْلُوْنَ، ہَلَّا وُضِعَتْ ہٰذِہِ اللَّبِنَةُ؟ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.

میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا،اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین صلى الله عليه وسلم، حدیث:۳۵۳۴،۳۵۳۵)

۲- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

نَحْنُ الْاٰخِرُوْنَ وَنَحْنُ الْأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَنَحْنُ اَوَّلُ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ، یبدأ أَنَّہُمْ أُوْتُوْا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِنَا وَاُوْتِیْنَاہُ مِنْ بَعْدِہِمْ.

ہم سب آخر والے روزِ قیامت سب سے مقدم ہوں گے اور ہم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ حالانکہ (پہلے والوں) کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی اور ہمیں ان سب کے بعد۔ (صحیح مسلم، کتاب الجمعہ، باب ہدایة ہذہ الامة لیوم الجمعة، حدیث: ۱۹۷۸، ۱۹۷۹، ۱۹۸۰، ۱۹۸۱، ۱۹۸۲)

۳- حضرت ابوحازم فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال تک حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه کے ساتھ رہا۔ میں نے خود سنا کہ وہ یہ حدیث بیان فرماتے تھے کہ نبی مکرم رسول معظم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔

کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُہُمْ الأَنْبِیَاءُ، کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہ نَبِیٌّ وَاِنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ، وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکْثُرُوْنَ، قَالُوْا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: فُوْا بِبَیْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ، أَعْطُوْہُمْ حَقَّہُمْ، فَاِنَّ اللّٰہَ سَائِلُہُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاہُمْ.

بنی اسرائیل کی سیاست خود ان کے انبیاء کرام کیا کرتے تھے۔ جب کسی نبی کی وفات ہوجاتی تھی تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے نبی کو ان کا خلیفہ بنادیتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، اُن کے متعلق آپ کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہر ایک کے بعد دوسرے کی بیعت پوری کرو اور ان کے حق اطاعت کو پورا کرو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی رعیت کے متعلق اُن سے سوال کرے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ذکر عن بنی اسرائیل، حدیث: ۳۴۵۵)

۴- حضرت انس رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم نے انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کو ملاکر اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ کَہَاتَیْنِ.

میں اور قیامت اس طرح ملے ہوئے بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔(صحیح البخاری، کتاب التفسیر، سورة والنازعات، حدیث: ۴۹۳۶، کتاب الطلاق، باب اللعان، حدیث: ۵۳۰۱، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلى الله عليه وسلم، بعثت انا والساعة کہاتین، حدیث: ۶۵۰۳، ۶۵۰۴، ۶۵۰۵)

۵- امام مسلم نے تین اسناد سے یہ حدیث بیان کی ہے:

سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم، وَفِیْ حَدِیْثِ عُقَیْلٍ: قَالَ: قُلْتُ لِلزُّہْرِیْ: وَمَا الْعَاقِبُ؟ قَالَ: الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ نَبِیٌّ.

میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سنا، عقیل کی روایت میں ہے زہری نے بیان کیا عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث: ۶۱۰۷)

۶- حضرت جبیر بن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسولِ معظم، نبی مکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

اِنَّ لِیْ أَسْمَاءً، اَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَاَنَا الْمَاحِی یَمْعُو اللّٰہُ بِیَ الْکُفْرَ، وَاَنَا الْعَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمَیَّ، وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ اَحَدٌ.

بے شک میرے کئی اسماء ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا، اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ شخص ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل،باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث: ۶۱۰۶)

۷- حضرت محمد بن جبیر اپنے والد گرامی حضرت جبیر بن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

لِیْ خَمْسَةُ أَسْمَآء اَنَا مُحَمَّدٌ، وَاَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یَمْحُوا اللّٰہ بِیَ الْکُفْرَ، وَأنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِیْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ.

میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد ہوں، اور میں احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا۔ میں حاشر ہوں یعنی لوگ میرے بعد حشر کئے جائیں گے اور میں عاقب ہوں۔ یعنی میرے بعد دُنیا میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آئے گا۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب ما جاء فی اسماء رسول اللہ صلى الله عليه وسلم حدیث: ۳۵۳۲، صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب من بعد اسمہ احمد، حدیث: ۴۸۹۶)

۸- امام مسلم نے ثقہ راویوں کے توسط سے حضرت ابوموسیٰ الاشعری رضى الله تعالى عنه سے یہ روایت نقل کی ہے:

کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم یُسَمِّی لَنَا نَفْسَہ أَسْمَاءَ، فَقَالَ أَنَا مُحَمَّدٌ، وأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّی، وَالْحَاشِرُ، وَنَبِیُّ التَّوْبَةِ، وَنَبِیُّ الرَّحْمَةِ.

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہمارے لئے اپنے کئی نام بیان کئے، آپ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور احمد ہوں اور مقفی اور حاشر ہوں اور نبی التوبة اور نبی الرحمة ہوں۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث:۶۱۰۸)

۹- حضرت جبیربن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم نے فرمایا:

اَنَا مُحَمَّدٌ، وَاَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یُمْحٰی بِیَ الْکُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی عَقِبِیْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ، وَالْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ نَبِیٌّ.

میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں میری وجہ سے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹادے گا، میں حاشر ہوں لوگوں کا میرے قدموں میں حشر کیا جائے گا، اور میں عاقب ہوں، اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث:۶۱۰۵)

۱۰- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

کَیْفَ أَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامَکُمْ مِنْکُمْ.

اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب حضرت عیسیٰ عليه السلام کا نزول ہوگا اور امام تم میں سے کوئی شخص ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکما بشریعة نبینا محمد صلى الله عليه وسلم، حدیث:۳۹۲)

۱۱- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

لاَتَقُوْمَ السَّاعَةُ حَتّٰی یَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَیَکُوْنَ بَیْنَہُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِیْمَةٌ، دَعْوَاہُمَا وَاحِدَةٌ، وَلاَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی یُبْعَثَ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ قَرِیْبًا مِنْ ثَلاَثِیْنَ، کُلُّہُمْ یَزعُمُ أَنَّہ رَسُوْلُ اللّٰہ.

قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دو گروہ آپس میں نہ لڑیں، دونوں میں بڑی جنگ ہوگی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کے قریب جھوٹے دجال ظاہر نہ ہولیں۔ ہر ایک یہ کہے گا میں اللہ کا رسول ہوں۔ (صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوة فی الاسلام، حدیث: ۳۵۷۱)

۱۲- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور خیرالانام صلى الله عليه وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

لَمْ یَبْقَ مِنَ النَّبُوَّةَ اِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوْا، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ قَالَ: الرُّوٴْیَا الصَّالِحَةُ.

نبوت میں سے (میری وفات کے بعد) کچھ باقی نہ رہے گا مگر خوش خبریاں رہ جائیں گی۔ لوگوں نے عرض کیا خوشخبریاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا اچھے خواب۔ (صحیح بخاری، کتاب التعبیر، باب المبشرات، حدیث:۶۹۹۰)

۱۳- حضرت ابواُمامہ الباہلی رضى الله تعالى عنه سے مروی ایک روایت میں ہے کہ حضور ختمی المرتبت صلى الله عليه وسلم نے ایک خطبہ میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے:

أَنَا اٰخِرُ الْأَنْبِیَاءِ، وَأَنْتُمْ اٰخِرُ الأُمَمِ.

میں آخری نبی ہوں اور تم آخری اُمت ہو۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب الفتن، باب فتنہ الدجال وخروج عیسیٰ ابن مریم وخروج یأجوج ومأجوج، حدیث: ۴۰۷۷، المستدرک للحاکم حدیث:۸۶۲۱)

۱۴- حضرت عرباض بن ساریہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور خیرالانام صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن.

بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں اور انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ (المستدرک للحاکم، تفسیر سورة الاحزاب، حدیث: ۳۵۶۶، جلد:۷، ص:۴۵۳۔ مسند احمد، حدیث عرباض بن ساریہ، جلد۴، ص:۱۲۷)

۱۵- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور خاتم الانبیاء علیہ التحیة والثناء نے ارشاد فرمایا:

نَحْنُ الآخِرُوْنَ مِنْ أَہْل الدُّنْیَا، وَالأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، الْمُقْضِیُّ لَہُمْ قَبْلَ الْخَلاَئِقِ.

ہم (امت محمدیہ صلى الله عليه وسلم) اہل دنیا میں سے سب سے آخر میں آئے ہیں اور روزِ قیامت کے وہ اولین ہیں جن کا تمام مخلوقات سے پہلے حساب کتاب ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الجمعة، باب ہدایة ہذہ الأمة لیوم الجمعة، حدیث: ۱۹۸۲)

۱۶- حضرت ضحاک بن نوفل رضى الله عنه راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلاَ اُمَّةَ بَعْدَ اُمَّتِیْ.

میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری اُمت کے بعد کوئی امت نہیں ہوگی۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، عن ضحاک بن رمل الجہنی، حدیث: ۸۱۴۶، ج:۸، ص:۳۰۳)

۱۷- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه راوی ہیں کہ حضور ختمی المرتبت صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

کُنْتَ أَوَّلَ النَّبِیِّیْن فِی الْخَلْقِ وَاٰخِرُہُمْ فِیْ البَعْثِ.

میں خلقت کے اعتبار سے انبیاء کرام میں پہلا ہوں اور بعثت کے اعتبار سے آخری ہوں۔ (الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمی، حدیث: ۴۸۵۰، ۳:۲۸۲، حدیث: ۷۱۹۰، ۴:۴۱۱)

۱۸- حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے انہیں درود شریف کے یہ الفاظ سکھائے:

اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ صَلاَتَکَ وَرَحْمَتَکَ وَبَرَکَاتِکَ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ، وَاِمَامَ الْمُتَّقِیْنَ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ، مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ اِمَامَ الْخَیْرِ، (وَقَائِدِ) الْخَیْرِ، وَرَسُوْلِ الرَّحْمَةِ، اَللّٰہُمَّ ابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا یَغْبِطُہ بِہِ الأَوَّلُوْنَ وَالاٰخِرُوْنَ (اسکے بعد پورا درود ابراہیمی ہے)

الٰہی اپنا درود ورحمت اور برکات رسولوں کے سردار، متقیوں کے امام ابو نبیوں کے خاتم محمد پر نازل فرما جو تیرے بندے اور رسول اور امام الخیر اور (قائد) الخیر اور رسول رحمت ہیں۔ الٰہی آپ صلى الله عليه وسلم کو اس مقام محمود پر فائز فرما جس پر اولین وآخرین رشک کرتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب اقامة الصلوٰة والسنة فیہا، باب ما جاء فی التشہد، حدیث:۹۰۶)

۱۹- حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے:

لَمَّا مَاتَ اِبْرَاہِیْمُ ابْنُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم صَلَّی رَسُوْلُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم وَقَالَ: اِنَّ لَہ مُرْضِعًا فِی الْجَنَّةِ وَلَوْ عَاشَ لَکَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا.

جب اللہ کے پیغمبر صلى الله عليه وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اس کے لئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی (کا انتظام) ہے۔ اگر وہ زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب ما جاء فی الجنائز، باب ما جاء فی الصلاة علی ابن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم وذکر وفاتہ، حدیث:۱۵۱۱)

۲۰- امام ابن ماجہ سے مروی روایت میں حضرت ابراہیم رضى الله تعالى عنه کے بارے میں ہے:

مَاتَ وَہُوَ صَغِیْرٌ وَلَوْ قُضِیَ أَنْ یَکُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم نَبِیٌّ لَعَاشَ ابْنُہ، وَلٰکِنْ لاَ نَبِیَّ بَعْدَہُ.

ابراہیم رضى الله تعالى عنه کا انتقال ہوا جب وہ چھوٹے تھے۔ اگر فیصلہ (تقدیر) یہ ہوتا کہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے بعد کوئی نبی ہو تو ان کا صاحبزادہ زندہ رہتا۔ لیکن آپ صلى الله عليه وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب ما جاء فی الجنائز، باب ما جاء فی الصلاة علی ابن رسول اللہ صلى الله عليه وسلم وذکر وفاتہ، حدیث:۱۵۱۰)

۲۱- حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے:

اَیُّہَا النَّاسُ اِنَّہ لَمْ یَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النَّبُوَّةِ اِلاَّ الرُّوٴْیَا الصَّالِحَةُ یَرَاہَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرٰی لَہ.

اے لوگو علاماتِ نبوت میں سے صرف رویائے صالحہ (سچا خواب) ہی باقی ہے جو مسلمان خود دیکھتا ہے یا اس کے لئے کوئی دیکھتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب تعبیر الرؤیا، حدیث:۳۸۹۹، صحیح مسلم کتاب الصلوٰة، باب النہی عن قرأة القرآن فی الرکوع والسجود، حدیث:۱۰۷۴)

۲۲- حضرت سعد بن ابی وقاص رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے:

خَلَّفَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ، فِی غَزْوَةِ تَبُوْکَ، فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! تَخَلَّفْنِیْ فِی النِّسَآءِ وَالصِّبْیَانِ؟ فَقَالَ: اَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہٰرُوْنَ مِنْ مُوْسٰی؟ غَیْرَ أَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ.

نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے غزوئہ تبوک میں حضرت علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه کو ساتھ نہیں لیا بلکہ گھر پر چھوڑدیا تو انھوں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑ دیا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم میرے ساتھ ایسے ہوجاؤ جیسے ہارون، موسیٰ کے ساتھ لیکن میرے بعد نبوت نہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه ، حدیث:۶۲۱۸-۶۲۲۱)

۲۳- ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضى الله تعالى عنها سے روایت ہے کہ حضور خاتم الانبیاء علیہ التحیة والثناء نے ارشاد فرمایا:

قَدْ کَانَ یَکُوْنُ فِی الأُمَمِ قَبْلَکُمْ، مَحَدَّثُوْنَ، فَاِنْ یَکُنْ فِیْ اُمَّتِیْ مِنْہُمْ اَحَدٌ فَاِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْہُمْ، قَالَ: ابْنُ وَہْبٍ: تَفْسِیْرُ مُحَدَّثُوْنَ، مُلْہَمُوْنَ.

تم سے پہلے پچھلی اُمتوں میں محدث تھے۔ اگر اس امت میں کوئی محدث ہوگا تو وہ عمر بن الخطاب ہیں۔ ابن وہب نے کہا محدث اس شخص کو کہتے ہیں جس پر الہام کیا جاتا ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة۔ باب من فضائل عمر رضى الله تعالى عنه، حدیث:۶۲۰۴)

۲۴- حضرت عقبہ بن عامر رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

لَوْ کَانَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ.

اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتے۔ (جامع ترمذی، ابواب المناقب، باب قولہ صلى الله عليه وسلم: ”لو کان نبی بعدی لکان عمر“ حدیث:۳۸۸۶)

۲۵- حضرت ام کرز الکعبیة رضى الله تعالى عنها سے روایت ہے کہ انھوں نے حضور ختی المرتبت صلى الله عليه وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

ذَہَبَت النَّبُوَّةُ وَبَقِیَتِ الْمُبَشِّرَاتُ.

نبوت ختم ہوگئی، صرف مبشرات باقی رہ گئے۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب تعبیر الرؤیا، حدیث:۳۸۹۶)

۲۶- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے:

فَاِنِّیْ آخِرُ الْاَنْبِیَاءِ، وَاِنَّ مَسْجِدِیْ آخِرُ الْمَسَاجِدِ.

بے شک میں آخر الانبیاء ہوں، اور میری مسجد آخرالمساجد ہے۔ (صحیح مسلم،کتاب الحج، باب فضل الصلوٰة بمسجدی مکة والمدینة، حدیث:۳۳۷۶)

۲۷- حضرت نعیم بن مسعود رضى الله تعالى عنه راوی ہیں کہ حضور خاتم النّبیین صلى الله عليه وسلم نے اپنے بعد نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی اطلاع ان الفاظ میں دی:

لاَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی یَخْرُجَ ثَلاَثُوْنَ کَذَابًا کُلُّہُمْ یَزْعمُ اَنَّہ نَبِیُّ.

قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کذاب ظاہر نہ ہوجائیں جن میں سے ہر ایک کا دعویٰ یہ ہو کہ وہ نبی ہے۔ (ابن ابی شیبہ فی مصنفہ، حدیث: ۳۷۵۶۵، ۷/۵۰۳)

۲۸- حضرت ابوذر رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ حضور سیدانام صلى الله عليه وسلم نے اُن سے مخاطب ہوکر کہا:

یٰا أَبَا ذَرٍ أَوَّلُ الْاَنْبِیَاء آدَمُ وَآخِرُہ مُحَمَّدٌ.

اے ابوذر! انبیاءِ کرام میں سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور سب سے آخری حضرت محمد صلى الله عليه وسلم ہیں۔ (الفردوس بمأثور الخطاب للدیلمی، عن ابوذر، حدیث:۸۵:۱/۳۹)

۲۹- حضرت مصعب بن سعد اپنے والد حضرت سعد رضى الله تعالى عنه سے روایت کرتے ہیں:

أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم خَرَجَ اِلٰی تَبُوْکَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِیًّا فَقَال: أَتُخَلِّفُنِیْ فِی الصِّبْیَانِ وَالنِّسَاءِ؟ قَالَ: أَلاَ تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ أَنَّہ لَیْسَ نَبِیٌّ بَعْدِیْ.

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم تبوک کی جانب روانہ ہوئے اور حضرت علی رضى الله تعالى عنه کو اپنی جگہ چھوڑا تو انھوں نے عرض کیا: کیا آپ صلى الله عليه وسلم مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جارہے ہیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کیا تو اس پر راضی نہیں کہ تجھے مجھ سے وہی مناسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوئہ تبوک، حدیث: ۴۴۱۶)

۳۰- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور سیدانامصلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

فُضِّلَتْ عَلٰی الأَنْبِیَآءِ بِسِتٍّ اُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمْ ونُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِیَ الْمَغَانِمُ، وَجُعِلَتْ لِیْ الأَرْضُ طَہُوْرًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ اِلی الْخَلْقِ کَافَّةً، وَخُتِمَ بِیَ النَّبیُّوْنَ.

مجھے تمام انبیاء کرام پر چھ باتوں میں فضیلت دی گئی اوّل یہ کہ مجھے جوامع الکلم دئیے گئے اور دوسرے یہ کہ رُعب سے میری مدد کی گئی۔ تیسرے میرے لئے غنیمت کا مال حلال کردیاگیا۔ چوتھے میرے لئے تمام زمین پاک اور نماز پڑھنے کی جگہ بنادی گئی۔ پانچویں میں تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ چھٹے یہ کہ مجھ پر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیاگیا۔ (صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب المساجد وموضع الصلاة، حدیث:۱۱۶۷)

۳۱- حضرت ابو ہریرہ رضى الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ کَانَتْ تَسُوْسُہُمْ اَنْبِیَائُہُم کُلَّمَا ذَہَبَ نَبِیٌّ خَلْفَہ نَبِیُّ وَّ اِنَّہ لَیْسَ کَائِنًا فِیْکُمْ نَبِیٌّ بَعْدِیْ.

بنی اسرائیل کا نظام حکومت ان کے انبیاء کرام چلاتے تھے جب بھی ایک نبی رخصت ہوتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا اور بے شک میرے بعد تم میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (ابوبکر عبداللہ بن محمد ابی شیبہ، امام، المصنف، جلد۱۵، ص:۵۸۔ کراچی: ادارة القرآن ۱۴۰۶ھ)

۳۲- حضرت سعد رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه سے ارشاد فرمایا:

أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی غَیْرَ اَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ.

کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه، حدیث: ۶۲۱۸)

۳۳- حضرت جابر بن سمرہ رضى الله تعالى عنه کی روایت کردہ حدیث میں ہے:

وَرَأَیْتُ الْخَاتَمَ عِنْدَ کَتْفِہ مِثْلَ بَیْضَةِ الْحَمَامَةِ یُشْبِہُ جَسَدَہ.

اور میں نے آپ صلى الله عليه وسلم کے کندھے کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابر مہر نبوت دیکھی جس کا رنگ
جسم کے رنگ کے مشابہ تھا۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اثبات خاتم النبوة، حدیث:۶۰۸۴)

۳۴- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں:

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِیْتُ خَزَآئِنَ الأَرْضِ فَوُضِعَ فِیْ یَدَیَّ اُسْوَارَانِ مِنْ ذَہَبٍ فَکَبُرَ ا عَلَیَّ وَأَہَمَّانِیْ فَأُوْحِیَ اِلَیَّ أَنِ انْفُخْہُمَا فَنَفَخْتُہُمَا فَذَہَبَا فَأَوَّلْتُہُمَا الْکَذَّابِیْن الَّذِیْنَ أَنَا بَیْنَہُمَا صَاحِبَ صَنْعَآءِ وَصَاحِبُ الْیَمَامَةِ.

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا، میرے پاس زمین کے خزانے لائے گئے اور میرے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن رکھے گئے جو مجھے بہت بھاری لگے اور میں ان سے متفکرہوا، پھر مجھے وحی کی گئی کہ میں ان کو پھونک مار کر اُڑادوں۔ میں نے پھونک ماری تو وہ اڑگئے۔ میں نے اس خواب کی یہ تعبیر لی کہ میں دو کذابوں کے درمیان ہوں۔ ایک صاحب صنعاء ہے اور دوسرا صاحب یمامہ۔ (صحیح مسلم، کتاب الروٴیا، حدیث:۵۹۳۶)

۳۵- حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے مروی ایک حدیث مبارکہ کے آخر میں ہے:

فَأْوَّلْتُہُمَا کَذَّابَیْن یَخْرُجَانِ مِنْ بَعْدِیْ فَکَانَ اَحَدُہُمَا الْعَنْسِیَّ صَاحِبَ صَنْعَآءَ وَالآخَرُ مُسَیْلِمَةَ صَاحِبُ الْیَمَامَةِ.

میں نے اس کی یہ تعبیر لی کہ میرے بعد دو جھوٹے شخصوں کا ظہور ہوگا۔ ایک ان میں سے صنعاء کا رہنے والا عنسی ہے دوسرا یمامہ کا رہنے والا مسیلمہ ہے۔ (صحیح مسلم، کتابالروٴیا، حدیث:۵۸۱۸- ۲۲۷۴)

۳۶- حضرت وہب بن منبہ حضرت ابن عباس رضى الله تعالى عنه سے ایک طویل حدیث کے ذیل میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن حضرت نوح عليه السلام کی امت کہے گی:

وَأَنّٰی عَلِمْتَ ہٰذَا یَا أَحْمَدُ وَأَنْتَ وَأُمَّتُکَ آخِرُ الأُمَمِ.

اے احمد! آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ حالانکہ آپ صلى الله عليه وسلم اور آپ کی اُمت اُمتوں میں آخری ہیں۔ (المستدرک للحاکم، باب ذکر نوح النبی، حدیث: ۴۰۱۷-۲،۵۹۷)

۳۷- حضرت سعد بن ابی وقاص رضى الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه کے متعلق فرمایا:

أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلاَّ اَنَّہ لاَ نَبِیْ بَعْدِیْ.

تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ عليه السلام کیلئے ہارون عليه السلام تھے۔ سنو بلاشبہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

اس روایت کی بابت راوی کے استفسار پر حضرت سعد نے فرمایا: ”میں نے اس حدیث کو خود سُنا ہے۔“ انھوں نے اپنی دونوں انگلیاں کانوں پر رکھیں اور کہا اگر میں نے خود نہ سُنا ہوتو میرے دونوں کان بہرے ہوجائیں۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضى الله تعالى عنه، حدیث: ۶۰۹۵)

۳۸- حضرت علی المرتضیٰ رضى الله تعالى عنه کی روایت کردہ ایک طویل حدیث مبارکہ میں ہے:

بَیْنَ کَتِفَیْہ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ وَہُوَ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.

حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے اور آپ صلى الله عليه وسلم آخری بنی ہیں۔ (جامع الترمذی، ابواب المناقب، باب وصف آخر من علی رضى الله تعالى عنه، حدیث:۳۶۳۸)

۳۹- حضرت عامر اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاص رضى الله تعالى عنه سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه سے فرمایا:

أَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی، اِلاَّ اَنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ.

تم میرے ساتھ ایسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کے ساتھ تھے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علی بن أبی طالب رضى الله تعالى عنه، حدیث: ۶۲۱۷۔ سنن ابن ماجہ، کتاب السنة، باب فی فضائل اصحاب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم، فضل علی بن أبی طالب رضى الله تعالى عنه، حدیث:۱۲۱)

۴۰- علامہ علاء الدین علی المتقی نے ”کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال“ میں حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا یہ قول رقم کیا ہے:

لا نبی بعدی ولا أمة بعدکم، فاعبدوا ربکم، أقیموا خمسکم وصوموا شہرکم، وأطیعوا ولاة أمرکم، أدخلوا جنة ربکم.

میرے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ ہی تمہارے بعد کوئی اُمت، پس تم اپنے رب کی عبادت کرو اور پنج گانہ نماز قائم کرو اور اپنے پورے مہینے کے روزے رکھو اور اپنے اولوالامر کی اطاعت کرو، (پس) اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (علی المتقی الہندی کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال، حدیث: ۴۳۶۳۸، بیروت: موسوعة الرسالة، ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵/ ج:۱۵، ص:۹۴۷)

۴۱- علاء الدین علی المتقی نے ”کنز العمال فی سنن الاقوال والافعال“ میں یہ حدیث نقل کی ہے:

لا نبوة بعدی الا المبشرات، الریا الصالحة.(ایضاً، حدیث ۴۱۴۲۲، ج:۱۵، چ:۳۷۰)

۴۲- علامہ علاؤالدین علی المتقی بن حسام الدین الہندی رحمة الله عليه نے ”کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال“ میں حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے:

یا ایہا الناس! انہ لا نبی بعدی ولا امة بعدکم، الا! فاعبدوا ربکم وصلوا خمسکم، وصوموا شہرکم، وصلوا ارحامکم، وادوا زکاة اموالکم طیبة بہا انفسکم، واطیعوا ولاة امرکم، تدخلوا جنة ربکم.

اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور نہ ہی تمہارے بعد کوئی اُمت ہے۔ سنو! اپنے رب کی عبادت کرو اور پنجگانہ نماز پڑھو اور اپنے مہینے (رمضان) کے روزے رکھو اور اپنی رشتہ داریاں جوڑو اور اپنے اموال کی زکوٰة خوشدلی سے ادا کرو اور اپنے اولوالامر کی اطاعت کرو، تم جنت میں داخل ہوجاؤگے۔ (علی المتقی الہندی کنزل العمال فی سنن الاقوال والافعال، حدیث: ۴۳۶۳۷، بیروت: موسوعة الرسالة، ۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵/، ج:۱۵،ص:۹۴۷)

۴۳- حضرت سعد بن ابی وقاص رضى الله تعالى عنه سے امام احمد بن حنبل نے یہ حدیث مبارکہ نقل کی ہے کہ جب غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی رضى الله تعالى عنه کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تو انھوں نے عرض کیا:

یا رسول اللّٰہ، اتخلفنی فی الخالفة، فی النساء والصبیان؟ فقال: اما ترضی ان تکون منی بمنزلة ہارون من موسیٰ؟ قال: بلی یا رسول اللّٰہ، قال: فادبر علی مسرعا کانی انظر الی غبار قدمیہ یسطع، وقد قال حماد: فرجع علی مسرعا.

یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے پیچھے رہ جانے والوں میں (یعنی) عورتوں اور بچوں میں جانشین بنارہے ہیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ تجھے مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون عليه السلام  کی موسیٰ عليه السلام سے تھی؟ عرض کیا: یا رسول اللہ! کیوں نہیں؟ اُس (راوی) نے کہا: پس علی رضى الله تعالى عنه تیزی سے مُڑے تو میں نے گویا ان کے قدموں کا غُبار اُڑتے دیکھا اور حماد نے کہا: پس علی تیزی سے مُڑے۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، حدیث: ۱۴۹۰، احمد محمد شاکر (شرحہ وضع فہارسہ) مصر: دارالمعارف، ۱۳۷۴ھ/۱۹۵۵/، ج:۳،ص:۵۰)

۴۴- امام بیہقی نے السنن الکبریٰ میں، امام طحاوی نے مشکل الآثار میں، علامہ جلال الدین سیوطی نے الدرالمنثور میں، علامہ علی المتقی الہندی نے کنزالعمال میں، امام ہیشمی نے مجمع الزوائد میں حضور ختمی المرتبت صلى الله عليه وسلم کا یہ ارشاد گرامی نقل کیاہے:

لا نبی بعدی ولا أمة بعدک. میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمت نہیں۔ (زغلول، ابوطاہر محمد السعید بن بسیونی، موسوعة اطراف الحدیث النبوی الشریف، بیروت: دارالفکر،۱۴۱۴ھ/۱۹۹۴/، ج:۷،ص:۲۸)



===========================
مرزا قادیانی کا قرآن کے نام پر شرمناک جھوٹ:
مرزا کہتا ہے کہ :

”تين شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شريف میں درج کیا گيا ہے ،مکہ ،مدينہ اور قادیان۔

تذکرہ ص60،وازالہ اوہام ص143ز مرزا قادیانی

ہر قرآن کریم پڑھنے والا جانتا ہے کہ قادیان نام کا کوئی لفظ محمد عربی ﷺ پر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے واسطے سے نازل شدہ قرآن مجيد میں نہیں۔لہٰذا آپ کا کوئی بھی قادیانی جان پہچان والا یا آپ کا استاذ ہو تو سب کے سامنے اس جھوٹ کا ذکر کریں اور اسے کہیں کہ اس جھوٹ کو سچا ثابت کریں یا مرزائیت کا ماتم کریں اور ساتھ ہی مرزا کی مندرجہ ذیل عبارتيں بھی زور زور سے پڑھ کر اس مرزائی کو سنائیں:

جھوٹ بولنا مترد ہونے سے کم نہیں (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ وخ ص56ج22)


قرآن و سنّت کے گستاخ:
امام ابو حنیفہ رح  (٨٠-١٥٠ ھ ) کے زمانہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعوا کیا اور کہا:
"مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی نشانیاں پیش کروں."

اس پر امامِ اعظم  رح  نے فرمایا:
 جو شخص اس سے نبوت کی نشانی طلب کریگا، وہ بھی کافر ہوجاتے گا...کیونکہ نبی (صلی الله علیہ  وسلم) فرما چکے ہیں: "میرے بعد کوئی نبی نہیں."
-----------------------
علامہ ابنِ جریر طبری رح (٢٢٤-٣١٠ھ) اپنی مشھور تفسیر القرآن میں فرماتے ہیں:
رسول کریم صلی الله علیہ  وسلم نے نبوت کو ختم کردیا، اس پر مہر لگادی، اب قیمت تک یہ دروازہ کسی کے لئے نہیں کھلے گا.
-----------------------
امام طحاوی  رح  (٢٣٩-٣٢١ھ) اپنی کتاب "عقیدہ سلفیہ" میں بیان کرتے ہیں کہ:
"محمد صلی اللہ علیہ  وسلم الله کے برگزیدہ بندے، چیدہ نبی اور پسندیدہ رسول ہیں، اور وہ خاتم النبیین، متقیوں کے امام، سید المرسلین، حبیب رب العالمین  ہیں،اور ان کے بعد نبوت کا ہر دعوا گمراہی خواھشِ نفس کی بندگی ہے."
----------------------
علامہ ابنِ حزم اندلسی رح (٣٨٥-٤٥٤ھ) یقیناً  وحی  کا سلسلہ وفاتِ نبیؐ کے بعد ختم ہو چکا ہے، دلیل اس کی یہ ہے کہ وحی صرف ایک "نبی" کی طرف آتی ہے اور الله تعالیٰ  فرما چکا ہے کہ "محمد (صلی الله علیہ  وسلم) نہیں ہیں تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ، مگر وہ الله کے رسول اور نبیوں کے خاتم (سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے) ہیں."[الاحزاب:٤٠]
----------------------
امام غزالی رح (٤٥٠-٥٠٥ھ) فرماتے ہیں:
نبی صلی الله علیہ  وسلم کے بعد نہ کوئی نبی آۓ گا نہ رسول، اور اس میں کسی قسم کی طویل کی کوئی گنجائش نہیں."
----------------------
محی السنّه امام بغوی رح (٥٤٠ھ) اپنی تفسیر  "معالم التنزیل" میں لکھتے ہیں:
الله نے آپ صلی الله علیہ  وسلم کے ذریعے ختم کیا، بس آپ انبیاء کے خاتم ہیں. اور حضرت ابن عباس رضی الله عنہ  کا قول ہے کہ الله تعالیٰ  نے فیصلہ فرمادیا ہے کہ نبی صلی الله علیہ  وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا.
----------------------
علامہ زمخشری (٤٦٧-٥٣٨ھ) "تفسیر کشاف" میں لکھتے ہیں:
اگر تم کہو کہ نبی صلی الله علیہ  وسلم آخری نبی کیسے ہوتے، جبکہ حضرت عیسیٰ  علیہ السلام آخری زمانہ میں نازل ہونگے، تو میں کہونگا کہ آپ صلی الله علیہ  وسلم کا آخری نبی ہونا اس معنا  میں ہے کہ آپ صلی اللھ علیہ  وسلم کے بعد کوئی شخص نبی" نہیں بنایا جاۓ گا اور حضرت عیسیٰ  علیہ  السلام ان لوگوں میں ہیں جو آپ صلی الله علیہ  وسلم سے پہلے نبی بناۓ جا" چکے تھے اور جب وہ نازل ہونگے تو شریعتِ محمدیہؐ کے پیرو اور آپ کے قبلہ کی طرف نماز پڑھنے والے کی حثیت سے نازل ہونگے گویا کہ وہ آپ صلی الله علیہ  وسلم ہی کی امت کے ایک فرد ہیں."
----------------------
قاضی عیاض  رح  (٥٤٤ھ) لکھتے ہیں:
جو شخص خود اپنے حق میں نبوت کا دعوا  کرے یا اس بات کو جائز رکھے کہ آدمی اپنی کوشش سے نبی بن سکتا ہے اور دل کی صفائی کے ذریعہ سے مرتبہِ نبوتؐ کو پہنچ سکتا ہے، جیسا کہ بعض  فلسفی اور غالی صوفی کہتے ہیں، اور اس طرح جو شخص نبوت کا دعوا  کرے کہ اس پر وحی  آتی ہے، ایسے سب لوگ کافر ہیں اور نبی صلی الله علیہ  وسلم (کی ختمِ نبوت) کو جھٹلانے والے ہیں، کیونکہ آپ صلی الله علیہ  وسلم نے خبر دی ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں.اور اپ نے الله تعالیٰ  کی طرف سے یہ خبر پہنچائی ہے کہ "(آپ) نبوت کو ختم کرنے والے ہیں.
[سورۃ الاحزاب:٤٠]
==================================
قادیانی قرآن و سنّت کے گستاخ:
ہم کہتے ہیں کہ قرآن کہاں موجود ہے؟ اگر قرآن موجود ہوتا تو کسی (نۓ  نبی) کے آنے کی کیا ضرورت تھی؟ مشکل تو یہی ہے کہ قرآن سنیا سے اٹھ گیا ہے، اسی لئے تو ضرورت پیش آئی  کہ محمد رسول الله کو بروزی طور پر (مرزا غلام احمد قادیانی کے روپ میں) دوبارہ دنیا میں مبعوث کرکے آپ پر قرآن شریف اٹھارہ جاۓ.
[کلمت الفصل : صفحہ # ١٧٣،از صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم.اے ابن مرزا قادیانی]

تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور "میری وحی کے معارض (ٹکراتی) نہیں" اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی کی طرح پھینک دیتے ہیں."
[اعجاز احمدی : صفحہ # ٣٠-مندرجہ روحانی خزین : جلد # ١٩، صفحہ # ١٤٠، مرزا قادیانی]
==================================
اہلِ بیتؓ اور صحابہِؓ رسولؐ کے گستاخ قادیانی؛

(١) بعض "ناداں" صحابی جن کو درایت سے کچھ حصہ نہ تھا.
[ضمیمہ براہینِ احمدیہ: حصہ پنجم، صفحہ # ٢٨٥، مندرجہ روحانی خزائن :٢١/٢٨٥ از مرزا قادیانی]


(٢)  ابو بکر و عمر کیا تھے، وہ تو حضرت غلام احمد (مرزا) کی جوتیوں کے تسمہ کھولنے کے بھی لائق نہ تھے.

[ماہنامہ المہدی: جنوری-فروری ١٩١٥ع، صفحہ # ٧٥، احمدیہ انجمن اشاعتِ اسلام]

(٣) پرانی خلافت کا جھگڑا چھوڑو اب نئی  خلافت کرلو، ایک زندہ علی تم میں موجود ہے، اس کو چھوڑتے ہو اور مردہ علی  کو تلاش کرتے ہو.
[ملفوظاتِ احمدیہ:١/٤٠٠]

(٤) اے عیسائی میشنریو! اب "ربنا المسیح" مت کرو اور دیکھو کہ آج تم میں ایک ہے جو اس مسیح سے بڑھ کر ہے
اور
اے قومِ شیعہ! اس پر اصرار مت کرو کہ حسین تمہارا " منجی (نجات  دینے والا) ہے، کیونکہ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک ہے جو اس حسین سے بہتر ہے.
[دافع البلاء : ١٧، مندرجہ روحانی خزائن ١٨/٢٣٣]

کربلا است سر ہر آنم؛
صد حسین است در گریبانم؛

ترجمہ: میریسیر ہر وقت کربلا میں ہے، سو (١٠٠) حسین میری جب میں ہیں.
[نزول  المسیح: ٩٩؛ مندرجہ روحانی خزائن: ١٨/٤٤٧]

(٥) حضرت بیبی فاطمہ الزھراء رضی الله عنہا کی ذات کے بارے میں مرزا قادیانی نے جو بکواس
[ایک غلطی کا ازالہ : حاشیہ  صفحہ #١١؛ مندرجہ روحانی خزائن : حاشیہ ١٩/٢١٣ پر]
جو بکواس کی ہے اسے قلم لکھنے سے قاصر ہے۔





🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

تحفظ ختم نبوت کی خاطر قربانیاں

از:           مولانا حذیفہ وستانوی

ناظم تعلیمات ومعتمد جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا

                اللہ رب العزت نے اشرف الخلائق حضرت انسان کی ہدایت کے لیے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا، سنۃ اللہ کے مطابق اس سلسلۃ الذہب کو نبی کریمﷺ پر ختم کیا؛ کیوںکہ دنیا میں اللہ کا دستور ابتدائے آفرینش سے چلا آیا ہے کہ ہر چیز کا مبدأ بھی لازم ہے اور منتہاء بھی ، چاہے وہ مادی ہو یا روحانی؛ لہٰذا نبوت کے اس وہبی دستور کے مطابق حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے سلسلۂ نبوت کا آغاز ہوا، اور حبیبِ کبریائ، احمد مصطفی محمد مجتبیٰﷺ پر یہ سلسلہ نبوت ختم ہوا؛ گویا یہ ایک قدرتی قانون کے تحت ہوا۔

                نبی کریمﷺ کی بعثت ایک انقلاب آفریں بعثت ہے، آپﷺ کی بعثت سے دنیا میں تمام ظلمتیں چھٹ گئیں، دنیا جو ظلمت کدہ بنی ہوئی تھی پُرنور اور روشن ہوگئی،جس کی برکتوں کے اثرات آج چودہ صدیوں کے بعد بھی محسوس کیے جارہے ہیں اور قبیل قیامت تک محسوس کیے جاتے رہیں گے اور پھر حشر ونشر میں بھی اور میزان وحساب میں بھی آپ کی برکتیں جلوہ گر ہوںگی۔ انشاء اللہ!

                 آپ کی وفات حسرت آیات کے بعدعظیم فتنوں نے سراٹھایا، مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیرت ایمانی، حمیت اسلامی، بلند حوصلگی اور حکمت عملی نے تمام فتنوں کو ایک سال سے بھی کم عرصے میں کافور کرکے رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہ کو پوری امت کی طرف سے بہترین بدلہ عطا فرمائے، آمین!

عجیب بات

                یہ بات تعجب خیز ہے کہ اہل کتاب یہود ونصاریٰ نے سب سے پہلے اسلام کے خلاف جو سازش رچی وہ تھی عقیدہٴ ختم نبوتﷺ پر کاری ضرب؛ اس لیے کہ آپﷺ کی وفات کے بعد جو پانچ افراد نے دعوہٴ نبوت کیے ، الاستاذ جمیل مصری کی تحقیق کے مطابق ان سب کے اہل کتاب یہود ونصاریٰ کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ تاریخ کے مستند حوالوں سے اپنی تحقیقی کتاب  ’’أثر أھل الکتاب فی الحروب والفتن الداخلیۃ فی القرن الأول‘‘  میں ثابت کیا ہے۔ دوسری جانب حضرات صحابہ نے بھی اس کو گویا بھانپ لیا، خاص طور پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور آپ نے  ’’أ ینقص الدین وأنا حي‘‘  کا تاریخی جملہ کہہ کر صحابۂ کرام کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ عقیدہٴ ختم نبوتﷺ کی اہمیت خوب اچھی طرح سمجھیں اور تاریخ کے رُخ پھیردینے والے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ الحمدللہ! حضرت ابوبکرؓ کی کوششوں اور اللہ کے فضل سے صحابہؓ نے اس بات پر اجماع کرلیا کہ عقیدئہ ختم نبوتﷺ کو تحفظ فراہم کیا جائے، نبوت کے دعویداروں کو کافر قرار دیا جائے اور ان کے خلاف جہاد فرض گردانا جائے، اس طرح یہ صحابہؓ کا سب سے پہلا اجماع منعقد ہوگیا کہ ختم نبوت کا تحفظ ایک اہم ترین فریضہ ہے اور دعویِ نبوت کرنے والا کافر ہے، اس سے جہاد فرض ہے۔

                بس پھر کیا تھا، اس عقیدے کے تحفظ کی خاطر مدینہ سے گیارہ لشکر ان مدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے حکم پر میدان کارزار میں کودپڑتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال سے بھی کم عرصہ میں یا تو مدعیان نبوت اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں، یا توبہ وانابت کرکے دوبارہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔

                   قائدین          جہت

                                ۱-            خالد بن سعید بن عاص            مشاف بلاد شام

                                ۲-           عمرو بن العاص                       دومۃ الجندل

                                ۳-          خالد بن ولید                          بُزاخہ، البطاح، یمامہ

                                ۴-          عکرمہ بن ابی جہل                  یمامہ، عمان ومہرہ، حضرت موت، یمن

                                ۵-           شرحبیل بن حسنہ                    یمامہ، حضرت موت

                                ۶-           علاء ابن الحضرمی                     بحرین، دارین

                                ۷-          حذیفہ بن محض الغلفانی           عمان

                                ۸-          عرفجہ ابن ہرثمہ البارقی           عمان، مہرہ، حضرموت، یمن

                                ۹-           طریفہ بن حاجز                       شرق حجاز، بنو سلیم کی طرف

                                ۱۰-         مہاجر بن ابی امیہ                    یمن، کندہ، حضرموت

                                ۱۱-          سویدا بن مقرن الذنی             تہامۃ الیمن

                حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں  ’’واللہِ الذي لاَ الٰہَ إلّا ھو لَولاَ أنَّ أبا بکرٍ استَخْلَفَ مَا عُبِدَ اللہ‘‘  اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اگر ابوبکر آپﷺ کے بعد خلیفہ نہ بنائے جاتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی۔ (رواہ البیہقی بحوالہ ازالۃ الخفائ، ج:۱،ص:۳)

                حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں:  لَقَدْ قُمْنا بعدَ رسولِ اللہِ صلی اللہُ علیہ وسلم مقاماً کِدنَا نُھلَکُ فیہ لَولاَ أنَّ اللہ مَنَّ علینا بأبي بکر أجْمَعْنا علی أنْ لا نقاتلَ علی ابنۃ مخاض وابنۃ لبون وان نأکل قریٰ عربیۃ ونَعْبُدَ اللہَ حتی یأتینا الیقینُ نَعْزِمُ اللہَ لأبي بکر علی قِتالِھم۔ (التاریخ الکامل لابن اثیر، ج:۲،ص:۲۰۵)

                حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں رسول اللہﷺ کی وفات حسرت آیات کے بعد ہم ہلاکت خیز حالات سے دوچار ہوگئے تھے؛ مگر اللہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جیسی بصیرت افروز) شخصیت کے ذریعہ ہم پر احسان عظیم کیا، ہم لوگ (یعنی جماعت صحابہ) یہ طے کرچکے تھے کہ مانعین زکوٰۃ کے ساتھ قتال نہیں کریں گے اور جو کچھ تھوڑا بہت رزق میسر آئے گا اس پر اکتفا کریں گے اور اس طرح موت تک اللہ کی عبادت کرتے رہیں گے؛ مگر اللہ رب العزت نے حضرت ابوبکر کو مانعین کے ساتھ قتال کا پختہ حوصلہ دیا۔

                مؤرخ کبیر، مفکراسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ بیسویں صدی میں مسلمانوں کی گمراہیوں کو دیکھ کر دل برداشتہ ہوکر فرماتے تھے  ’’رِدَّۃٌ ولا أبا بکرٍ لھا‘‘  کہ ارتداد ایک بار پھر زوردار سراٹھایا ہے؛ مگر افسوس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ابوبکر جیسا حوصلہ نہیں، ان جیسی حمیت وغیرت نہیں، اس موضوع پر آپؒ کی مستقل کتاب ہے۔ واقعتا حضرت نے بالکل درست کہا جیسی فکری یلغار حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں تھی آج بھی ویسی ہی کیفیت ہے، تب ابوبکر تھے؛ مگر آج کوئی ابوبکر تو کیا ان کا عشر عشیر بھی نہیں، اللہ ہی مدد اور حفاظت فرمائے، آمین!

                حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں تحفظ ختم نبوت کی خاطر ہزاروں صحابہؓ نے اپنی جانوں کو قربان کردیا، بیسویں صدی میں تحفظ ختم نبوت کے لیے نمایاں خدمات انجام دینے والوں میں حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا نام سرِفہرست ہے، آپ فرماتے ہیں:

                ’’جولوگ تحریک ختم نبوت میں جہاں جہاں شہید ہوئے، ان کے خون کا جوابدہ میں ہوں، وہ عشقِ رسالت میں مارے گئے، اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر کہتا ہوں، ان میں جذبۂ شہادت میں نے پھونکا تھا۔‘‘ (حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری نوراللہ مرقدہٗ کی تحریک کی وجہ سے ختم نبوت کے لیے امت میں بیداری پیدا ہوئی اور امت مسلمہ ہندیہ پورے جوش وجذبہ کے ساتھ میدان کارزار میں کود پڑی، جب کچھ جدید تعلیم یافتہ لوگوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اس تحریک کی خاطر شہید ہورہے ہیں تو انھوں نے اپنے آپ کو اس تحریک سے علیحدہ کرکے یہ ثابت کرنا چاہا کہ جولوگ مارے گئے یا مارے جارہے ہیں، ہم اس کے ذمہ دار نہیں، تب پھر حضرت نے اپنی تقریر میں کہا) جو لوگ ان کے خون سے دامن بچانا چاہتے ہیں، میں ان سے کہتا ہوں کہ میں حشر کے دن بھی، ان کے خون کا ذمہ دار ہوںگا؛ کیونکہ ختم نبوت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی سات ہزار حفاظ قرآن، تحفظ ختم نبوت کی خاطر شہید کروادئیے تھے۔ (اور غیرحافظوں کی تعداد اس سے تقریباً دوگنی ہوگئی)۔ (تحریک ختم نبوت کا آغاز شورش کاشمیری بحوالہ روزنامہ اسلام)

صداقت کے لیے گر جان جاتی ہے تو جانے دو

مصیبت پر مصیبت سر پہ آتی ہے تو آنے دو

                مناظر اسلام مولانا لعل حسین اختر نے بڑا عجیب شعر کہا ہے۔

جلادو پھونک دو سولی چڑھا دو خوب سن رکھو

صداقت چھٹ نہیں سکتی ہے جب تک جان باقی ہے

                خلاصہ یہ کہ اسلامی دور حکومت میں، جب بھی کسی نے ختم نبوت پر حملہ کیا، یا حرف زنی کی، مسلمان خلفاء وامراء نے ان کو کیفرکردار تک پہنچادیا، جس کی سیکڑوں مثالیں تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں،  تو آیے! مدعیان نبوت اور منکرین ختم نبوت کے بدترین انجام پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

شمار  اسمائے منکرین ختم نبوت                     انجام                    سن انجام                  دور خلافت وحکومت

۱      عبہلہ بن کعب معروف باسود العنسی      قتل ہوا                 ۱۱ھ                         حضرت ابوبکر صدیقؓ

۲     مسیلمہ بن کبیر حبیب الکذاب              قتل ہوا                 ۱۱ھ                         حضرت ابوبکر صدیقؓ

۳     مختاربن ابوعبد ابن مسعود ثقفی            قتل ہوا                 ۶۷ھ                       حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ

۴     حارث ابن سعید کذاب                      قتل ہوا                 ۷۹ھ                        عبدالملک ابن مروان

۵     مغیرہ ابن سعید عجلی                             قتل ہوا                 ۱۱۹ھ                       ہشام بن عبدالملک بن مروان

۶     بیان ابن سمعان                                 قتل ہوا                 ۱۲۶ھ                      ولید ابن یزید

۷     اسحاق اخراس                                    قتل ہوا                 –                             خلیفہ ابوجعفر منصور      

۸     سیس خراسانی                                    قتل ہوا                 ۱۵۰ھ                      خلیفہ ابوجعفر منصور

۹      ابوعیسیٰ بن اسحاق یعقوب اصفہانی         قتل ہوا                 –                             خلیفہ ابوجعفر منصور

۱۰   حکیم مقنع خراسانی                              خودکشی کی             ۱۶۳ھ                      خلیفہ مہدی

۱۱    بابک ابن عبداللہ خرمی                        قتل ہوا                 ۲۲۳ھ                    خلیفہ معتصم باللہ

۱۲   علی بن محمد عبدالرحیم                          قتل ہوا                 ۲۷۰                        خلیفہ المعتمد علی اللہ

۱۳   ابوسعد حسن بن سیرام                       قتل ہوا                 ۳۰۱ھ                      خلیفہ المعتضد باللہ

۱۴   محمد بن علی شمغانی                                قتل ہوا                 ۳۲۲ھ                    خلیفہ راضی باللہ

                یہ تھے مشہور منکرین ختم نبوت اور مدعیان نبوت اور جب بھی کسی اسلامی دور میں انھوں نے سراٹھایا، ہمارے خلفاء اور امراء نے ان کو تہہ تیغ کرکے رکھ دیا، یا انھوں نے مجبوراً خودکشی کی، یا توبہ کرنے پر آمادہ ہوگئے؛ اسی لیے اہل کتاب حضور اقدسﷺ کی وفات ہی سے خلافت کے عدم قیام یا قیام کے بعد سقوط کی بھرپور کوشش کرتے رہے؛ مگر تیرہ سوسال بعد انھیں اس میں کچھ حد تک مسلمانوں کی اعتقادی کمزوری کی وجہ سے اور کتاب وسنت سے بعد کی بنا پر کامیابی ملی، مگر ان شاء اللہ ایک بار پھر خلافت قائم ہوگی۔  وَمَا تَشَاؤنَ إلاَّ أنْ یَشائَ اللہُ واللہُ مُتِمُّ نُورِہٖ ولو کَرِہَ الکَافِرُون!

                یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سقوط خلافت سے قبل اس کے ضعف کے زمانہ ہی سے ایک بار پھر انکار ختم نبوت کے فتنے نے سراٹھایا اور انیسویں صدی کے اوائل میں، باب اللہ نے، پھر بہائواللہ نے اور اسی صدی کے اواخر میں مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا؛ بل کہ پچھلے دوسو سال میں جتنے مدعیان نبوت ومہدویت کھڑے ہوئے وہ بارہ سو سال کے مقابلہ میں اضعافاً مضاعفہ ہے؛ گویا دشمن کی یہ ایک منظم سازش ہے کہ وہ ختمِ نبوت کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں؛ مگر انشاء اللہ وہ قیامت تک اس میں کامیاب نہیں ہونگے۔

منکرین ختم نبوت کے ساتھ جہاد بالسیف کے بعد جہاد بالقلم

                جیساکہ اوپر تاریخ کے حوالے سے واضح کیاگیا کہ جب بھی اسلامی دور حکومت میں، کسی نے ختم نبوت پر حملہ کیا اس کو واصل جہنم کردیاگیا؛ مگر جب استعماری طاقتیں عالم اسلام پر غالب آگئیں اور اس طرح کے فتنوں نے اسرٹھایا، تو علماء قلم وکاغذ لے کر میدان کارزار میں کودپڑے اور الحمدللہ انھوں نے ختم نبوت کا بھرپور دفاع کیا، انگریز کے زمانہ میں عدالتوں میں اور کتابوں کے ذریعہ صرف غلام احمد قادیانی ملعون کے رد میں ایک اندازے کے مطابق ۲۰؍ہزار صفحات اردو میں تحریر کیے گئے، احتساب قادیانیت کے نام سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ۲۳ جلد پر مشتمل چالیس کے قریب علماء کے بارہ ہزار صفحات کی طباعت کی ہے، جس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ مسئلہ کتنا اہم ہے، تو آئیے اب میں مختصر اس پر روشنی ڈالتا ہوں۔

گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم تحفظ ختم نبوت نہ کرسکیں

                تحفظ ختم نبوت کتنا اہم ترین مسئلہ ہے، اس کا اندازہ آپ خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کشمیری قدس سرہٗ کے اس واقعہ سے کرسکتے ہیں:

                ۲۶؍اگست ۱۹۳۲ء کو یوم جمعتہ المبارک تھا، جامع مسجد الصادق بھاول پور میں آپ کو جمعہ کی نماز ادا فرمانا تھی، مسجد کے اندر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، قرب وجوار کے گلی کوچے نمازیوں سے بھرے ہوئے تھے، نماز کے بعد آپ نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا:

                میں بواسیرخونی کے مرض کے غلبہ سے نیم جاں تھا اور ساتھ ہی اپنی ملازمت کے سلسلہ میں ڈابھیل کے لیے پابہ رکاب کہ اچانک شیخ الجامعہ صاحب کا مکتوب مجھے ملا، جس میں بھاول پور آکر مقدمہ میں شہادت دینے کے لیے لکھا گیا تھا، میں نے سوچا کہ میرے پاس کوئی زادِ راہ نہیں ہے، شاید یہی چیز ذریعہ نجات بن جائے کہ حضرت محمدﷺ کے دین کا جانبدار بن کر یہاں آیا ہوں۔

                یہ سن کر مجمع بے قرار ہوگیا، آپ کے ایک شاگرد مولانا عبدالحنان ہزاروی آہ وبکا کرتے ہوئے کھڑے ہوگئے اور مجمع سے بولے کہ اگر حضرت کو بھی اپنی نجات کا یقین نہیں تو پھر اس دنیا میں کس کی مغفرت متوقع ہوگی؟ اس کے علاوہ کچھ اور بلند کلمات حضرت کی تعریف و توصیف میں عرض کیے، جب وہ بیٹھ گئے تو پھر مجمع کو خطاب کرکے فرمایاکہ:

                ’’ان صاحب نے ہماری تعریف میں مبالغہ کیا؛ حالاںکہ ہم پریہ بات کھل گئی کہ گلی کا کتا بھی ہم سے بہتر ہے اگر ہم تحفظ ختم نبوت نہ کرسکیں‘‘۔ (کمالات انوری)

                اب آپ اندازہ لگائیے کہ ایک ایسا جلیل القدر محدث و فقیہ ایسا کہہ رہے ہیں، جس کے بارے میں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری قدس سرہٗ فرماتے تھے ’’انور شاہ کشمیری صحابہؓ کی جماعت کے بچھڑے ہوئے فرد ہیں‘‘ ان کے اخلاق، ان کا علم، ان کا تقویٰ، ان کی دینی غیرت وحمیت کو دیکھ کر یہ جملہ آپؒ نے کہا۔

ختم نبوت اور قرآن

                قرآن کریم نے مسئلہ ختم نبوت کو تقریباً سو مقامات پر ذکر کیا ہے، کہیں صراحتاً، کہیں کنایتہ، کہیں عبارت النص سے، کہیں اقتضاء النص سے، کہیں اشارۃ النص سے تو کہیں دلالت النص سے،  جس کو پوری تفصیل کے ساتھ حضرت اقدس مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہٗ اپنی تصنیف ’’ختم النبوۃ في القرآن‘‘  میں ذکر کیا ہے اور دوسری تصنیف لطیف  ’’ختم النبوۃ في الأحادیث‘‘  میں ۲۱۰؍ احادیث جمع فرمائی اور  ’’ختم النبوۃ في الآثار‘‘  میں امت کا اجماع، سیکڑوں علمائے امت کے اقوال ختم نبوت کی تائید میں جمع فرمادیے۔ اللہ حضرت کو امت کی جانب سے بہترین بدلہ عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین!

                حضرت مفتی محمدشفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان نوراللہ مرقدہٗ  ’’ختم نبوت‘‘ کامل ہرسہ حصہ کی تمہید میں تحریر فرماتے ہیں:

مسئلہ ختم نبوت

                یعنی آں حضرتﷺ پر ہر قسم کی نبوت اور وحی کا اختتام اور آپﷺ کا آخری نبی ورسول ہونا اسلام کے ان بدیہی مسائل اور عقائد میں سے ہے، جن کو تمام عام و خاص، عالم وجاہل، شہری اور دیہاتی مسلمان ہی نہیں ؛ بلکہ بہت سے غیرمسلم بھی جانتے ہیں، تقریباً چودہ سو برس سے کروڑہا مسلمان اس عقیدہ پر ہیں، لاکھوں علماء امت نے اس مسئلہ کو قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح کرتے ہوئے واضح فرمایا، کبھی یہ بحث پیدا نہیں ہوئی کہ نبوت کی کچھ اقسام ہیں، اور ان میں سے کوئی خاص قسم آں حضرتﷺ کے بعد باقی ہے، یا نبوت کی تشریعی غیر تشریعی یا ظلی وبروزی یا مجازی وغیرہ اقسام ہیں، قرآن وحدیث میں اس کا کوئی اشارہ تک نہیں، پوری امت اور علماء امت نے نبوت کی یہ قسم نہ دیکھی اور نہ سنی؛ بل کہ صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک پوری امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اس عقیدہ پر قائم رہی کہ آں حضرتﷺ پر ہر طرح کی نبوت ورسالت ختم ہے، آپﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول پیدا نہیں ہوگا۔ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو آپ سے پہلے پیدا ہوکر منصب نبوت پر فائز ہوچکے ہیں، ان کا اخیرزمانہ میں آنا اس کے قطعاً منافی نہیں)۔

                اس مسئلہ کے اتنا بدیہی اور اجماعی ہونے کے ساتھ اس پر دلائل جمع کرنا اور اس کا ثبوت پیش کرنا درحقیقت ایک بدیہی کو نظری اور کھلی ہوئی حقیقت کو پیچیدہ بنانے کے مرادف معلوم ہوتا ہے؛ بلکہ اس مسئلہ کا ثبوت پیش کرنا ایسا ہی ہے جیساکوئی شخص مسلمانوں کے سامنے  لا اِلہ الاَّ اللّٰہ  کا ثبوت پیش کرے، ان حالات میں کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس موضوع پر کوئی مستقل رسالہ یا کتاب لکھی جائے؛ لیکن تعلیمات اسلام سے عام غفلت وجہالت اور روز پیدا ہونے والے نئے نئے فتنوں نے جہاں بہت سے حقائق پر پردہ ڈال دیا ہے باطل کو حق اور حق کو باطل کرکے ظاہر کیا ہے وہیں یہ مسئلہ بھی تختۂ مشق بن گیا۔

                اس مسئلہ میں فرقہ وار جماعت کی حیثیت سے سب سے پہلے باب وبہا کی جماعت فرقۂ بابیہ نے اختلاف کیا، مگر وہ علمی رنگ میں اس بحث کو آگے نہ پہنچاسکے، اس کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی نے اس میں خلاف و اختلاف کا دروازہ کھولا اور ان کی چھوٹی بڑی بہت سی کتابوں میں یہ بحث ایسی منتشر اور متضاد ہے کہ خود ان کے ماننے والے بھی، اس پر متفق نہ ہوسکے کہ وہ کیا کہتے ہیں؟ اور ان کا دعویٰ کیا ہے؟ کہیں بالکل عام مسلمانوں کے اجماعی عقیدہ کے مطابق آنحضرتﷺ کے خاتم النّبیین ہونے اور وحی نبوت کے انقطاع کلی کا اقرار اور آپﷺ کے بعد مطلقاً کسی نبی یا رسول کے پیدا نہ ہونے کا اعتراف ہے، کہیں اپنے آپ کو مجازی اور لغوی نبی کہا گیا ہے، کہیں نبوت کی ایک نئی قسم ظلی و بروزی بتلاکر بروزی نبی ہونے کا دعویٰ کیاگیا، کہیں نبوت کو تشریعی اور غیرتشریعی میں تقسیم کرکے تشریعی کا اختتام اور غیرتشریعی کا جاری ہونا بیان کیاگیا، اور اپنے آپ کو غیرتشریعی نبی بتلایا اور وحی غیرتشریعی کا دعویٰ کیاگیا ہے، کہیں کھلے طور پر صاحب شریعت نبی ہونے اور وحی تشریعی کا دعویٰ کیاگیا ۔

                یہی وجہ ہے کہ ان کے متبعین تین فرقوں میں تقسیم ہوگئے: ایک فرقہ ان کو صاحب شریعت اور تشریعی نبی ورسول مانتا ہے، یہ ظہیرالدین اروپی کا فرقہ ہے، دوسرا فرقہ ان کو با اصطلاح خود غیرتشریعی نبی کہتا ہے، یہ قادیانی پارٹی ہے، جو مرزا محمود صاحب کی پیروہے، تیسرا فرقہ ان کو نبی یا رسول نہیں؛ بلکہ مسیح موعود اور مہدی موعود قرار دیتا ہے، یہ مسٹرمحمدعلی لاہوری کے متبعین ہیں۔

                غرض مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے متبعین نے اس قطعی اور اجماعی مسئلہ میں خلاف وشقاق کا دروازہ کھولا، عوام کی جہالت اور مغربی تعلیم سے متأثر، دینی تعلیم سے بیگانہ افراد کی ناواقفیت سے ناجائز فائدے اٹھائے اور اس مسئلہ میں طرح طرح کے اوہام وشکوک ان کے دلوں میں پیدا کردیے، اور ان کی نظر میں بدیہی مسئلہ کو نظری بنادیا؛ اس لیے اہل علم اور اہل دین کو اس طرف متوجہ ہونا پڑاکہ ان کے شبہات دور کیے جائیں اور قرآن وحدیث کی صحیح روشنی ان کے سامنے لائی جائے۔ (ختم نبوت، ص:۱۰-۱۲)

                حضرت کاندھلویؒ فرماتے ہیں:

ختم نبوت اور اس کا مفہوم اور حقیقت

                ختم نبوت کے معنی یہ ہیں کہ نبوت اور پیغمبری حضور کی ذات بابرکت پر ختم ہوگئی اور آپﷺ انبیاء کے خاتم (بالکسر) ہیں یعنی سلسلہ انبیاء کے ختم کرنے والے ہیں اور آپﷺ سلسلہ انبیاء کے خاتم (بالفتح) یعنی مہر ہیں۔ اب آپﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہ ہوگا، مہر کسی چیز کا منہ بند کرنے کے لیے لگاتے ہیں، اسی طرح حضور پرنورﷺ سلسلہ انبیاء پر مہر ہیں، اب آپﷺ کے بعد کوئی اس سلسلہ میں داخل نہیں ہوسکے گا، اور قیامت تک کوئی شخص اب اس عہدہ پر فائز نہ ہوگا۔ مہر ہمیشہ ختم کرنے اور بند کرنے کے لیے ہوتی ہے  کما قال تعالٰی یُسْقَونَ مِن رَحیقٍ مختومٍ ختامُہ مِسْک یعنی سربمہر بوتلیں ہوںگی اور شراب ان کے اندر بند ہوگی۔  ختم اللّٰہ علی قلوبھم   اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے، یعنی کفر اندر بند کردیا ہے۔ (احتساب قادیانیت، ج:۲،ص:۵۱۴)

قرآن اور عقیدئہ ختم نبوت

                مفتی صاحب نوراللہ مرقدہٗ نے اس کے بعد  مَا کانَ محمدٌ أبا أحدٍ من رِجالِکُمْ ولکِنْ رسول اللہ خاتم النّبیین وکان اللہُ بکل شيئٍ علیما  پر صفحہ ۵۰ سے صفحہ ۱۳۳ تک یعنی تقریباً ۸۴ صفحات پر پورے شرح وبسط کے ساتھ کلام کیا ہے، جو قابل مطالعہ ہے، لغت، احادیث اور آثار کی روشنی میں بڑی جامع تفسیر کی ہے۔ اس کے بعد مختصراً اس کے علاوہ دیگر تقریباً ۹۹؍ آیات کی مختصر تشریح کی ہے، وہ آیات یہ ہیں:

                (۱) سورہ احزاب، پارہ ۲۲، ع۲، آیت ۴۰ (۲) سورہٴ مائدہ، پارہ۶، ع۵، آیت ۳ (۳) سورہٴ آل عمران، پارہ ۳، ع۱۷، آیت ۸۱ (۴) سورہٴ اعراف، پارہ ۳، ع۱۰، آیت ۱۵۸ (۵) سورہٴ فرقان، پارہ ۱۸، ع۱۶، آیت ۱ (۶) سورہٴ نساء، پارہ ۵، ع ۸، آیت ۷۹ (۷) سورہٴ قلم، پارہ ۲۹، ع ۴، آیت ۵۲ (۸) سورہٴ انعام، پارہ ۷، ع۸، آیت ۱۹ (۹) سورہٴ ہود، پارہ ۱۲، ع۲، آیت۱۷  (۱۰) سورہٴ نساء، پارہ۶، ع۳، آیت ۱۷۰(۱۱) سورہٴ انبیاء، پارہ ۱۷، ع۷، آیت ۱۰۷ (۱۱۲) سورہٴ نساء، پارہ ۵، ع۱۴، آیت ۱۱۵ (۱۳) سورہٴ واقعہ، پارہ ۲۷، ع ۱۴، آیت ۱۳،۱۴ (۱۴) سورہٴ واقعہ، پارہ ۲۷، ع۱۵، آیت ۳۹،۴۰ (۱۵) سورۂ مرسلات، پارہ ۲۹، ع۲۱، آیت۱۶‘۱۷ (۱۶) سورۂ مائدہ، پارہ ۷،ع۴،آیت۱۰۱ (۱۷) سورۂ توبہ، پارہ ۱۰، ع۱۱، آیت۳۳ (۱۸) سورۂ فتح، پارہ ۲۶، ع۱۲،آیت۲۸ (۱۹) سورۂ صف، پارہ ۲۸، ع۹، آیت۹ (۲۰) سورۂ نساء، پارہ ۵، ع۵،آیت۵۹ (۲۱) سورۂ فتح، پارہ ۲۶، ع۱۰، آیت۱۷ (۲۲) سورۂ نساء، پارہ ۵، ع۸، آیت۸۰ (۲۳) سورۂ نساء، پارہ ۵، ع۶، آیت۶۹ (۲۴) سورۂ حدید، پارہ ۲۷، ع۲۰، آیت۲۹ (۲۵) سورۂ نساء، پارہ ۵، ع۱۷، آیت۱۳۶(۲۶) سورۂ بقرہ، پارہ ۳، ع۸، آیت۲۸۵ (۲۷) سورۂ بقرہ، پارہ ۱، ع۵، آیت۴۱ (۲۸) سورۂ عمران، پارہ ۳، ع۱۷، آیت۸۴ (۲۹) سورۂ نساء، پارہ ۵، ع۶، آیت۶۰ (۳۰) سورۂ محمد، پارہ ۲۶، ع۵، آیت۲ (۳۱) سورۂ نساء، پارہ ۶، ع۳، آیت۱۷۰ (۳۲) سورۂ نساء، پارہ ۶،ع۴، آیت۱۷۶(۳۳) سورۂ مائدہ، پارہ ۶،ع۷، آیت۱۵‘۱۶ (۳۴) سورۂ اعراف، پارہ ۹، ع۸، آیت۱۵۷ (۳۵) سورۂ اعراف، پارہ ۹، ع۹،آیت۱۵۴ (۳۶) سورۂ اعراف، پارہ ۹، ع۱۰، آیت۱۵۸ (۳۷) سورۂ انفال، پارہ ۹، ع۱۷،  آیت۲۰ (۳۸) سورۂ انفال، پارہ ۹، ع۱۷، آیت۲۴(۳۹) سورۂ انفال، پارہ ۱۰، ع۲، آیت۴۶ (۴۰) سورۂ انفال، پارہ ۱۰، ع۴، آیت۶۴ (۴۱) سورۂ توبہ، پارہ ۱۰، ع۱۵، آیت۷۱ (۴۲) سورۂ تغابن، پارہ ۲۸، ع۱۵، آیت۸ (۴۳) سورۂ صف، پارہ ۲۸، ع۱۰، آیت۱۰‘۱۱ (۴۴) سورۂ حدید، پارہ ۲۷، ع۱۷، آیت۷ (۴۵) سورۂ جمعہ، پارہ ۲۸، ع۱۱، آیت۲‘۳ (۴۶) سورۂ یوسف، پارہ ۱۳، ع۶، آیت۱۰۸ (۴۷) سورۂ نساء، پارہ ۶، ع۲، آیت۱۶۲ (۴۸) سورۂ نور، پارہ ۱۸، ع۱۳، آیت۵۱ (۴۹) سورۂ نور، پارہ ۱۸، ع۱۳، آیت۵۲ (۵۰) سورۂ نور، پارہ ۱۸، ع۱۳، آیت۵۴ (۵۱) سورۂ نور، پارہ ۱۸،ع۱۳، آیت۵۴ (۵۲) سورۂ نور، پارہ ۱۸،ع۱۳، آیت۵۶ (۵۳) سورۂ نور، پارہ ۱۸،ع۱۵، آیت۶۲ (۵۴) سورۂ یٰس، پارہ ۲۲، ع۱۸، آیت۱۱ (۵۵) سورۂ نور، پارہ ۱۸،ع۱۵، آیت۶۲ (۵۶) سورۂ احزاب، پارہ ۲۲،ع۶، آیت۷۱ (۵۷) سورۂ احزاب، پارہ ۲۲،ع۱۷، آیت۷ (۵۸) سورۂ اعراف، پارہ ۱۸،ع۸، آیت۳ (۵۹) سورۂ یونس، پارہ ۱۱،ع۷، آیت۱۳‘۱۴ (۶۰) سورۂ انعام، پارہ ۸،ع۷، آیت۱۶۵ (۶۱) سورۂ فاطر، پارہ ۲۲،ع۱۷، آیت۳۹ (۶۲) سورۂ قمر، پارہ ۲۷، ع۸، آیت۱ (۶۳) سورۂ انبیاء، پارہ ۱۷،ع۱، آیت۱ (۶۴) سورۂ نحل، پارہ ۱۴،ع۷، آیت۱ (۶۵) سورۂ ابتداء شوریٰ، پارہ ۲۵،ع۲، آیت۳ (۶۶) سورۂ انعام، پارہ ۷،ع۱۱، آیت۴۲ (۶۷) سورۂ آل عمران، پارہ ۴،ع۱۰، آیت۱۸۳ (۶۸) سورۂ آل عمران، پارہ ۴،ع۱۰، آیت۱۸۴ (۶۹) سورۂ انعام، پارہ ۷،ع۷، آیت۱۰ (۷۰) سورۂ انعام، پارہ ۷،ع۱۰، آیت۳۴ (۷۱) سورۂ یوسف، پارہ ۱۲،ع۶، آیت۱۰۹ (۷۲) سورۂ رعد، پارہ ۱۳،ع۱۱، آیت۳۲ (۷۳) سورۂ رعد، پارہ ۱۳،ع۱۲، آیت۳۸ (۷۴) سورۂ نحل، پارہ ۱۴،ع۱۲، آیت۴۳(۷۵) سورۂ نحل، پارہ ۱۴،ع۱۴، آیت۶۳ (۷۶) سورۂ فاطر، پارہ ۲۲،ع۱۶، آیت۳۱ (۷۷) سورۂ بنی اسرائیل، پارہ ۱۵، ع۸،آیت۷۷ (۷۸) سورۂ انبیاء، پارہ ۱۸،ع۲،آیت۲۹ (۷۹) سورۂ حج، پارہ ۱۷،ع۱۴، آیت۵۲ (۸۰) سورۂ فرقان، پارہ ۱۸،ع۱۷، آیت۲۰ (۸۱) سورۂ فاطر، پارہ ۲۲،ع۱۳، آیت۴ (۸۲) سورۂ زمر، پارہ ۲۴،ع۴، آیت۶۵ (۸۳) سورۂ حم السجدہ، پارہ ۲۴،ع۱۹، آیت۴۳ (۸۴) سورۂ شوریٰ، پارہ ۲۵،ع۲، آیت۳ (۸۵) سورۂ زخرف، پارہ ۲۵،ع۸، آیت۲۳ (۸۶) سورۂ زخرف، پارہ ۲۵،ع۱۰، آیت۴۵ (۸۷) سورۂ زخرف، پارہ ۲۵،ع۷، آیت۶ (۸۸) سورۂ فاطر، پارہ ۲۲، ع۱۶، آیت۳۲ (۸۹) سورۂ احزاب، پارہ ۲۲،ع۵، آیت۶۶(۹۰) سورۂ فرقان، پارہ ۱۹،ع۱، آیت۲۷ (۹۱) سورۂ سبا، پارہ ۲۲،ع۹، آیت۲۸ (۹۲) سورۂ سبا، پارہ ۲۲،ع۱۲، آیت ۴۶ (۹۳) سورۂ ابراہیم، پارہ ۱۳،ع۱۶،آیت۲۷(۹۴) سورۂ آل عمران، پارہ ۳، ع۱۲، آیت۳۱ (۹۵) سورۂ محمد، پارہ ۲۶،ع۶، آیت۱۸ (۹۶) سورۂ صٓ، پارہ ۲۳،ع۱۴،آیت۸۷‘۸۸ (۹۷) سورۂ بقرہ، پارہ ۱،ع۱۱، آیت۹۷ (۹۸) سورۂ بقرہ، پارہ ۱،ع۱۲،آیت۱۰۱ (۹۹) سورۂ بقرہ، پارہ۱،  ع۱۱، آیت۹۱۔

                جیساکہ اس سے پہلے بھی بیان کیا کہ تقریباً دو سودس احادیث سے ختم نبوت کا مسئلہ ثابت ہے جس میں سے اہم روایت بخاری کی ہے۔

          عن أبی ھریرۃ ان رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قا ل إنّ مثلی و مثلَ الأنبیائِ مِنْ قَبْلِي کَمثلِ رَجُلٍ بنٰی بیتا فأحسنَہٗ و أجملَہٗ إلاّ موضعَ لبنۃٍ من زاویۃٍ فجعل الناسُ یطوفون بہ و یعجبون لہ و یقولون ھلا وشعتْ ھذہ اللبنۃُ و أنا خاتم النبیین۔ (رواہ البخاری فی کتاب الأنبیاء و مسلم:ج۲/۲۴۸ فی الفضائل و أحمد فی مسندہ،ج:۲ ص۳۹۸، والنسائی والترمذی) و فی بعض ألفاظہ فکنتُ أنا سددت موضع اللبنۃ و ختم بی البنیان و ختم بی الرسل ھکذا فی الکنز عن أبی عساکر۔

                ’’حضرت ابوہریرہؓ آنحضرتﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ میری مثال مجھ سے پہلے انبیاء کے ساتھ ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنایا اور اس کو بہت عمدہ اور آراستہ و پیراستہ بنایا؛ مگر اس کے ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ تعمیر سے چھوڑ دی، پس لوگ اُس کے دیکھنے کو جوق در جوق آتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی (تاکہ مکان کی تعمیر مکمل ہو جاتی) چناں چہ  میں نے اس جگہ کو پُر کیا اور مجھ سے ہی قصرِ نبوت مکمل ہوا، اور میں ہی خاتم النّبیین ہوں، یا مجھ پر تمام رسُل ختم کردیئے گئے‘‘۔ (ختم نبوت: ص۲۰۵ تا ۲۰۶ )

                اس کے بعد حضرت ابو سعید خدری، حضرت جابر، حضرت ابوہریرہ، حضرت جبیر ابن مطعم، حضرت سعید ابن ابی وقاص، حضرت جابر ابن سمرہ، حضرت ثوبان، حضرت عبداللہ عباس، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت انس ابن مالک، حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت علی، حضرت ابوذر، حضرت مالک ابن حویرث، حضرت نافع، حضرت عوف ابن مالک، حضرت حسن، حضرت عرباض ابن ساریہ زید ابن حارثہ عبداللہ ابن ثابت، حضرت ام کرز کعبیہ، حضرت ابوامامہ باہلی، حضرت ابی ابن کعب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ختم نبوت پر ۲۶؍ روایتیں تو صرف امام بخاری وامام مسلم رحمہما اللہ نے صحیحین میں روایت کی ہیں۔

                حضرت عقبہ بن عامر، حضرت جابر ابن عبداللہ حضرت سفینہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ ابن عباس، حضرت بہزابن حکیم، حضرت معاویہ بن فیدہ، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت علی مرتضی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے اصحاب سنن اربعہ امام نسائی ابوداؤد و ترمذی اور ابن ماجہ نے تقریباً دس حدیثیں نقل کی ہیں۔

                اس کے علاوہ امام احمد ابن حنبل نے اپنی سند سے حضرت ابوطفیل، حضرت بریدہ، حضرت ابونضرہ، حضرت زید ابن ابی اوفی، حضرت ابوسعید خدری، حضرت حذیفہ بن اسید، حضرت نعمان ابن بشیر، حضرت عبداللہ ابن عمرو، حضرت عرباض ابن ساریہ سے تقریباً دس حدیثیں نقل کی ہیں، یہ ۵۶ حدیثیں مستند اور صحیح ہیں۔

                ان مذکورہ کتابوں کے علاوہ دیگر بے شمار مستند کتابوں میں تقریباً ڈیڑھ سو احادیث ایسی ہیں جو ختم نبوت پر دلیل بنتی ہیں، جن کو امام دارمی، امام ابن عساکر، امام بغوی، امام سیوطی، امام بیہقی، امام طبرانی، امام ابونعیم، امام ابویعلیٰ، امام علی متقی، امام ابن ابی شیبہ، امام طحاوی، امام ابن کثیر، امام ابن ابی حاتم، امام ابن مردویہ، امام دیلمی، امام ابن سعد، امام ابن حجر عسقلانی، امام ابن النجار،خطیب بغدادی، امام بزار، امام ابن عدی، امام ابوداؤد الطیالسی، امام ابن جریر طبری، امام ماوردی، امام رافعی، امام حاکم نیشاپور، امام ابن الجوزی، امام عیاض نے حضرت علی، حضرت ضحاک ابن نوفل، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابوامامہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عبداللہ ابن عباس، حضرت انس ابن مالک، حضرت عبداللہ ابن عمر، حضرت عبداللہ ابن الزبیر، حضرت نعمان بن بشیر، یونس ابن میسرہ، حضرت خالد بن ولید، حضرت جابر ابن عبداللہ، حضرت سلمان فارسی، حضرت عائشہ، حضرت ابوالدرداء، حضرت عبداللہ ابن حارث، حضرت ابو زمل جہنی، حضرت زبیر ابن العوام، حضرت اکوع سلمہ ابن اکوع، حضرت ابوالطفیل، حضرت عمرو ابن قیس، حضرت ابوقتادہ، عبدالرحمن ابن سمرہ، حضرت محمد ابن حزم، حضرت قتادہ، حضرت عصمہ ابن مالک، حضرت ابومالک اشعری، حضرت حذیفہ، حضرت ابوالفضل، حضرت عقیل ابن ابی طال، حضرت ابوسعید خدری، حضرت ابو قُبیلہ، حضرت حسن بن علی، حضرت مالک، حضرت اسماء بنت عمیس، حضرت حبشی ابن جنادہ، حضرت عمرو، حضرت سہل ساعدی، عبیداللہ ابن عمر، حضرت ابوبکرہ، حضرت نعیم ابن مسعود، حضرت تمیم داری نے تقریباً سو حدیثیں ایسی نقل کی ہیں جو صراحتاً ختم نبوت پر دلالت کرتی ہیں۔

                ان مذکورہ احادیث کے علاوہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہٗ نے دوسرے ۶۷؍ احادیث ایسی نقل کی ہیں جو کنایۃً و اشارۃً ختم نبوت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس کے بعد مفتی صاحب نے جو کلام کیا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں:

احادیث مذکورۃ الصدر سے ختم نبوت کا ثبوت

                نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی محبت وشفقت جو امت مر حومہ کے ساتھ ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے ،اور پھر یہ بھی مسلم ہے کہ زمانہ ماضی ومستقبل  کے جتنے علوم وحالات آپﷺ کو عطا کیے گئے وہ نہ کسی نبی کو حاصل ہیں اور نہ کسی فرشتہ کو ۔

                ان دونوں باتوں کو سمجھنے کے بعد یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ آپﷺ نے اپنی امت کے لیے دین کے راستہ کو ایسا ہموار اور صاف بنا کر چھوڑا کہ جس میں دین ورات برابر ہوں، اس پر چلنے والے کو ٹھوکر لگنے یا راستہ بھولنے کا اندیشہ نہ رہے، اس میں جتنے خطرات کے مواقع ہوںگے، وہ سب آپﷺ نے ان کو بتلادیے،نیز اس راستہ کے ایسے ایسے نشانات ان کو بتلادییجو تمام راستہ میں ان رہبری کرتے رہیں ۔

                چنانچہ جب ہم حدیث نبویﷺ کے دفتر پر نظر ڈالتے ہیں تو ثابت ہوجاتا ہے ،کہ آپﷺ نے ان امور میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ،آپﷺ کے بعد جتنے قابل اقتدا ء رہنما پیدا ہونے والے تھے، آپؐ نے اکثر کے نام لے لے کر بتلادیے ،اور امت کو ان کی پیروی کی ہدایت فرمائی ، جن میں سے ’’مشتے نمونہ از خر وارے ‘‘ چند احادیث اوپر ذکر کی گئیں، آنحضرت… کی انتہائی شفقت ومربیانہ تعلیم اور پھر احادیث مذکورہ بالا کو دیکھتے ہوئے ایک مسلمان؛ بلکہ ایک منصف مزاج انسان یہ یقین کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آپﷺ کے بعد کوئی کسی قسم کا نبی (اگرچہ وہ بقول مرزا ظلی یا بروزی رنگ میں سہی) اس عالم میں پیدا نہیں ہوسکتا ورنہ لازم تھا کہ آپﷺ ان سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس نبی کا ذکر فرماتے ؛کیوںکہ ان سب کا اتباع پر امت کی نجات کا مدار ہے ۔

                مگر عجب تماشہ ہے کہ نبی کر یمﷺ اپنی امت کو خلفائے راشدین کے اقتداء کا حکم فرماتے ہیں ،ائمہ دین اور امراء کی اطاعت کی تعلیم دیتے ہیں؛ بلکہ ایک حبشی غلام کی بھی (جب کہ وہ امیر بن جائے )اطاعت امت پر واجب قرار دیتے ہیں ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ  اور عمار بن یاسرؓ کی اقتداء کی دعوت دیتے ہیں ، حضرت زبیرؓ ، ابو عبیدۃ بن الجراح، معاذ بن جبلؓ عبداللہ بن عباس ؓ وغیرہ صحابہ کرامؓ کے نام لے لے کر انہیں واجب التکریم اور قابل اقتداء فرماتے ہیں، اویس قرنسؒ کے آنے کی خبر اور ان سے استغفار کرانے کی تعلیم دیتے ہیں، مجددینِ امت کا ہر صدی پر آنا، ابدال کا ملک شام میں پیدا ہونا، اور اُن کا مستجاب الدعوات ہونا وغیرہ وغیرہ مفصل بیان فرماتے ہیں۔

                لیکن ایک حدیث میں بھی یہ بیان نہیں فرماتے کہ ہمارے بعد فلاں نبی پیدا ہوگا، تم اس پر ایمان لانا اور اس کی اطاعت کرنا۔

                اگر پہلو میں دل اور دل میں ایمان یا انصاف کا کوئی ذرہ بھی ہے تو تمام احادیثِ سابقہ کو چھوڑ کر صرف یہی احادیث ایک انسان کو اس پر مجبور کرنے کے لیے کافی ہیں کہ آپﷺ کے بعد تا قیامت کسی قسم کا کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔

                یہ دو سو دس احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن میں آںحضرتﷺ نے ختمِ نبوت کا قطعی اعلان فرماکر ہر قسم کی تاویل اورتخصیص کا راستہ بند کردیا ہے۔

                جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جس کے کان ہوں سُنے۔ إن في ذلک لَعِبْرۃً لِمَنْ کان لہ قلبٌ أو القیٰ السمعَ وھو شھید۔ (ختم نبوت : ص۲۹۵ تا ۲۹۶)

                 اسی لیے علامہ انورشاہ کشمیری نوراللہ مرقدہٗ فرماتے ہیں:

                ’’ختم نبوت کا مسئلہ شریعت محمدی میں متواتر ہے، قرآن و حدیث سے اجماع بالفعل سے اور یہ پہلا اجماع ہر وقت اور ہر زمانہ میں حکومت اسلامی نے اس شخص کو جس نے دعوئ نبوت کیا، سزائے موت دی ہے، ایک شاعر کو صلاح الدین ایوبیؒ نے بہ فتویٰ علماء دین، ایک شعر کہنے پر قتل کرادیا تھا ۔

کان مبدأ ھذا الدینِ من رَجُلٍ      سَعٰی فأصبحَ یُدْعیٰ سیدُ الأُممٖ

(صبح الأعشی: ۳۰۵، ۱۳۹)

                اس شعر سے اس شخص نے نبوت کو کسبی قرار دیا کہ نبوت ریاضتوں سے حاصل ہوسکتی ہے، اس لیے اسے قتل کروادیا۔ (احتساب قادیانیت: ج۴/ص۴۲)

                اس سے آپ اندازہ لگایے کہ مسئلہ ختم نبوت کتنا حساس مسئلہ ہے۔

                علامہ کشمیری قدس اللہ سرہٗ ’’ماکان محمد‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’نبی کریمﷺ اشخاص نبوت کے بھی خاتم ہیں، اور آپﷺ کے تشریف لانے کے بعد نبوت کا عہدہ منقطع ہو گیا ہے۔ (ایضا)                                                                                                                             

٭           ٭           ٭

—————————————

عقیدهٴ ختم نبوت پر امت کا سب سے پہلا اجماع

                اسلام میں سب سے پہلا اجماع اس پر منعقد ہوا تھا کہ دعوی نبوت بغیر اس تحقیق کے کہ اس کی تاویل کیا ہے اورکیسی نبوت کا دعوی ہے؟کفر اور ارتداد ہے، اور مدعیِ نبوت کی سزا قتل ہے۔ صحابہ کرام کے اجماع سے صدیق اکبر کے زمانے میں مسیلمہ کذاب مدعی نبوت سے جہاد کیاگیا اور اس کو قتل کیاگیا۔

                شیخ التفسیر والحدیث حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی فرماتے ہیں:

                ”ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار ہوتے ہیں اور عہد نبوی سے لے کر آج تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا کہ آں حضرت ﷺ بلاکسی تاویل و تخصیص کے خاتم النّبیین ہیں اور یہ مسئلہ قرآن کریم میں صریح آیات اور احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے، جس کا منکر قطعاً کافر ہے اور کوئی تاویل و تخصیص اس بارے میں قبول نہیں کی گئی۔ (احتساب قادیانیت: ج۲/ص۱۰)

                یہاں ایک امر قابل غور ہے وہ یہ کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس نازک وقت میں مدعی نبوت اور اس کی امت سے جہاد وقتال کو یہود اور نصاری اور مشرکین سے جہاد وقتال پر مقدم سمجھا۔ جس سے معلوم ہوا کہ مدعیِ نبوت اور اس کی امت کا کفر یہود اور نصاری اور مشرکین کے کفر سے بڑھا ہواہے ۔عام کفار سے صلح ہو سکتی ہے ان سے جزیہ قبول کیا جاسکتا ہے؛ مگر مدعی نبوت سے نہ تو کوئی صلح ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی جزیہ قبول کیا جاسکتا ہے ۔اس وقت اگر آج کل جیسے سیاسی لوگ ہوتے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیتے کہ باہمی تفرقہ منا سب نہیں۔ مسیلمہ کذاب اور اس کی امت کو ساتھ لے کر یہود اور نصاریٰ کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ حضرت علامہ محمدانور کشمیری قدس اللہ سرہ فرمایا کرتے تھے کہ: مسیلمہٴ کذاب اور مسیلمہٴ پنجاب کا کفر فرعون کے کفر سے بڑھ کر ہے ؛اس لیے کہ فرعون مدعئ الوہیت تھا اور الوہیت میں کوئی التباس اور اشتباہ نہیں،ادنیٰ عقل والا سمجھ سکتاہے کہ جو شخص کھاتا اور پیتا اور سوتا اور جاگتا اور ضروریات انسانی میں مبتلا ہوتا ہے وہ خدا کہاں ہوسکتا ہے ؟مسیلمہ مدعی نبوت تھا ظاہری بشریت کے اعتبار سے سچے نبی اور جھوٹے نبی میں التباس ہوسکتا ہے؛ اس لیے مدعیِ نبوت کا فتنہ مدعی الوہیت کے فتنہ سے کہیں اہم اور عظیم ہے اور ہر زما نے میں خلفاء اور سلاطین اسلام کا یہی معمول رہا کہ جس نے نبوت کا دعوی کیا اسی وقت اس کا سر قلم کیا۔            

                اہل حق نے اس فتنہ کے استیصال کے لیے جو سعی اور جد وجہد ممکن تھی اس میں دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ۔صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرح مدعی نبوت سے جہاد بالسیف والسنان تو ارباب حکومت کا کام ہے اور جہاد قلمی اور لسانی یہ علماء حق کاکا م ہے ۔سو الحمد للہ علماء نے اس جہاد میں کوئی کوتاہی نہیں کی، تقریر اور تحریر سے ہر طرح سے مدعی نبوت کا مقابلہ کیا۔ (احتسابِ قادیانیت: ج۲/ص۱۱ تا ۱۲)

                حضرت مفتی شفیع صاحب نوراللہ مرقدہ ”ختم النبوة فی الآثار“ کے آغاز میں ختم نبوت پر اجماع کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

صحابہٴ کرام کا سب سے پہلا اجماع مسئلہ ختم نبوت پر اور اُس کے منکر کے مرتد اور واجب القتل ہونے پر ہوا ہے

مسیلمہٴ کذاب کا دعوئ نبوت اور صحابہٴ کرام کا اس پر جہاد

                اسلام میں یہ بات درجہٴ تواتر کو پہنچ چکی ہے کہ مسیلمہ کذاب نے آں حضرت ﷺ کی موجودگی میں دعوائے نبوت کیا، اور بڑی جماعت اس کی پیرو ہوگئی، اور آں حضرت ﷺ کی وفات کے بعد سب سے پہلا مہم جہاد جو صدیق اکبر نے اپنی خلافت میں کیا ہے، وہ اسی جماعت پر تھا، جمہور صحابہٴ کرام مہاجرین و انصار نے اس کو محض دعوائے نبوت کی وجہ سے اور اس کی جماعت کو اس کی تصدیق کی بنا پر کافر سمجھا، اور باجماع صحابہ و تابعین اُن کے ساتھ وہی معاملہ کیا گیا جو کفار کے ساتھ کیا جاتا ہے، اور یہی اسلام میں سب سے پہلا اجماع تھا، حالاں کہ مسیلمہ کذاب بھی مرزا صاحب کی طرح آپ ﷺ کی نبوت اور قرآن کا منکر نہ تھا بلکہ بعینہ مرزا صاحب طرح آپ ﷺ کی نبوت پر ایمان لانے کے ساتھ اپنی نبوت کا بھی مدعی تھا، یہاں تک کہ اُس کی اذان میں برابر اشہد ان محمدا رسول اللہ پکارا جاتا تھا، اور وہ خود بھی بوقتِ اذان اس کی شہادت دیتا تھا۔(تاریخ طبری:۳/۲۴۴)

                الغرض! نبوت و قرآن پر ایمان اور نماز روزہ سب ہی کچھ تھا، مگر ختم نبوت کے بدیہی مسئلہ کے انکار اور دعوائے نبوت کی وجہ سے باجماع صحابہ کافر سمجھا گیا اور حضرت صدیق نے صحابہ کرام، مہاجرین و انصار اور تابعین کا ایک عظیم الشان لشکر حضرت خالد بن ولید کی امارت میں مسیلمہ کے خلاف جہاد کے لیے یمامہ کی طرف روانہ کیا۔

                جمہور صحابہ میں سے کسی ایک نے بھی اس پر انکار نہ کیا اور کسی نے نہ کہا کہ یہ لوگ اہل قبلہ ہیں، کلمہ گو ہیں، قرآن پڑھتے ہیں، نماز، روزہ، حج، زکوٰة ادا کرتے ہیں، اُن کو کیسے کافر سمجھ لیا جائے۔

                بعض لوگوں نے آں حضرت ﷺ کے بعد زکوٰة ادا کرنے سے انکار کیا تھا، صدیق اکبر نے اُن پر جہاد کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت فاروق نے وقت کی نزاکت اور مسلمانوں کی قلت و ضعف کا عذر پیش کرکے ابتدأً اُن کی رائے سے خلاف رائے ظاہر فرمائی، لیکن حضرت صدیق کے ساتھ تھوڑے سے مکالمہ کے بعد ان کی رائے بھی موافق ہوگئی۔

                الغرض حضرت فاروق کا ابتدأً خلاف کرنا بھی مسیلمہ کے واقعہ میں ثابت نہیں جیساکہ بعض غیرمحقق لوگوں نے سمجھا ہے۔

                الحاصل بلاخوف و بلانکیر یہ آسمانِ نبوت کے ستارے اور حزب اللہ کا ایک جم غفیر یمامہ$ کی طرف بڑھا، اس کی پوری تعداد تو اس وقت نظر سے نہیں گذری مگر تاریخ طبری$ میں حضرت صدیق اکبر کا ایک فرمان خالید بن ولیدکے نام درج ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو صحابہ و تابعین اس جہاد میں شہید ہوئے ان کی تعداد بارہ سو ہے۔ نیز اسی تاریخ میں ہے کہ مسیلمہ کی جماعت جو اس وقت مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے نکلی تھی اس کی تعداد چالیس ہزار مسلح جوان تھی، جن میں سے اٹھائیس ہزار کے قریب ہلاک ہوئے اور خود مسیلمہ بھی اسی فہرست میں داخل ہوا، باقی ماندہ لوگوں نے ہتھیار ڈال دیئے، حضرت خالید کو بہت مال غنیمت اور قیدی ہاتھ آئے، اور پھر صلح ہوگئی۔

                ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کی کتنی بڑی جماعت اس میدان میں آئی تھی جنہوں نے ایک مسئلہٴ ختم نبوت کے انکار کی وجہ سے نہ وقت کی نزاکت کا خیال کیا اور نہ مسلمانوں کی بے سروسامانی کا، اور نہ اس جماعت کے اذان و نماز اور تلاوت و اقرار نبوت، بلکہ اتنی بڑی عظیم الشان جماعت پر جہاد کرنے کے لیے باجماع و اتفاق اٹھ کھڑے ہوئے۔ (ختم نبوت : ص۳۰۲ تا ۳۰۴)

                اس کے بعد ان صحابہ کے نام تحریر فرماتے ہیں جو ختم نبوت پر شاہد ہیں۔

ان صحابہٴ کرام کے اسماء گرامی جو ختم نبوت کے شاہد ہیں

                حضرت صدیق اکبر، حضرت فاروق اعظم، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عائشہ، حضرت اُبی بن کعب، حضرت انس، حضرت حسن، حضرت عباس، حضرت زبیر، حضرت سلمان، حضرت مغیرہ، حضرت سعد بن ابی وقاس، حضرت ابوذر،حضرت ابوسعید خدری، حضرت ابوہریرہ، حضرت جابر عبداللہ، حضرت جابر بن سمرہ، حضرت معاذ بن جبل،حضرت ابوالدرداء، حضرت حذیفہ،حضرت ابن عباس، حضرت خالد بن ولید، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عقیل بن ابی طالب، حضرت معاویہ بن جندہ، حضرت بہزبن حکیم، حضرت جبیر بن مطعم، حضرت بریدہ، حضرت زید بن اوفیٰ، حضرت عوف بن مالک، حضرت نافع، حضرت مالک بن حویرث، سفینہ مولیٰ حضرت ام سلمہ، حضرت ابوالطفیل، حضرت نعیم ابن مسعود، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت ابوحازم، حضرت ابومالک اشعری، حضرت امّ کرز، حضرت زید بن حارثہ، حضرت عبداللہ بن ثابت، حضرت ابوقتادہ، حضرت نعمان بن بشیر، حضرت ابن غنم، حضرت یونس بن میسرہ، حضرت ابوبکرہ، حضرت سعید بن جثیم، حضرت سعد، حضرت زید بن ثابت، حضرت عرباض ابن ساریہ، حضرت زید ابن ارقم، حضرت مسعود بن مخرمہ، حضرت عروہ بن رویم، حضرت ابوامامہ باہلی، حضرت تمیم داری، حضرت محمد بن حزم، حضرت سہل بن سعد الساعدی، حضرت ابوزمل جہنی، حضرت خالد بن معدان، حضرت عمرو بن شعیب، حضرت مسیلمہ بن نفیل، حضرت قرة بن ایاس، حضرت عمران بن حسین،حضرت عقبہ بن عامر، جضرت ثوبان،حضرت ضحاک بن نوفل،حضرت مجاہد،حضرت مالک،حضرت اسماء بنت عمیس،حضرت حبشی بن جنادہ، حضرت عبداللہ بن حارث،حضرت سلمہ اکوع،حضرت عکرمہ بن اکوع،حضرت عمرو بن قیس،حضرت عبدالرحمن بن سمرہ،حضرت عصمہ بن مالک،حضرت ابوقبیلہ،حضرت ابوموسیٰ اشعری،حضرت عبداللہ بن مسعود رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین!

                یہ اسّی حضرات میرے مقدمہ کے گواہوں کی پہلی قسط ہیں، جو مرزاجی کی نبوت کے گواہ کنہیّا لال وغیرہ نہیں؛ بلکہ آفتابِ نبوت کی شعاعیں، ہدایت کے ستارے، علوم نبوت کے وارث، ثقاہت و دیانت کے مجسمے، علم و عمل کے سارے عالَم کے مسلّم اُستاذ، صحابہٴ کرایم رضوانہ اللہ علیہم اجمعین کی مقدس جماعت کے افراد ہیں $

اولٰئک اٰبائی فجئني بمثلھم          اذا جمعتنا یا غلامُ المجامع

                ”یہ میرے مقتدا ہیں پس (اگر دعوی ہے) اے غلام احمد مجلس میں اُن کی مثال پیش کر اس فرشتہ صفت جماعت پر اگر میں فخر کروں تو بجا ہے“

ولے درام جواہر خانہٴ عشق است تحویلش                       کہ دار و زیر گردوں میر سامانے کہ من دارم

                یہ صحابہ کی جماعت ہے، ہم تو بحمدللہ تعالیٰ اُن کی اقتدا کو ذریعہٴ نجات اور فرمانِ نبوی ما انا علیہ و اصحابی کی تعمیل سمجھتے ہیں، اگر یہ حق پر ہیں تو ہم بھی اس کے متبع ہیں، اور اگر حق رسولِ کریم ﷺ اور صحابہ کے اُسوہٴ حسنہ کے سوا کسی اور چیز کا نام ہے تو ہم شرحِ صدر سے کہتے ہیں کہ ہمیں ایسے مرزائی حق کی ضرورت نہیں۔ $

و رشادی ان یکنْ فی سلوَتی                 فدعونی لستُ ارضٰی بالرشادِ

”اور اگر میری ہدایت اسی میں منحصر سمجھی جائے کہ میں آپ کی محبت سے علیحدہ ہوجاوٴں تو مجھے اپنے حال پر چھوڑو میں ایسی ہدایت نہیں چاہتا“

(ختم نبوت : ص۳۱۳ تا ۳۱۵)

                اس کے بعد محدثین، مفسرین، فقہاء، متکلمین، صوفیاء کرام کے نام تحریر فرماتے ہیں:

طبقات المحدثین

                اس باب میں ہم سب سے پہلے اُن حضرات محدثین کے اسمائے گرامی پیش کرتے ہیں، جنہوں نے ختمِ نبوت کے متعلق آں حضرت ﷺ سے احادیث روایت کی ہیں اور اختلافِ رائے یا تاویل و تخصیص کو اس میں ظاہر نہیں فرمایا؛ بلکہ اس کو بعینہ اپنی ظاہری مراد میں تسلیم کیا ہے۔ اور چوں کہ وہ تمام احادیث مع حوالہٴ صفحات کتاب اور تصریح اسمائے محدثین اسی رسالہ کے حصہ دوم میں گذر چکے ہیں، اس لیے اب مکرر حوالہٴ صفحات یا نقل عبارات بالکل زائد سمجھ کی صرف اُن حضرات محدثین کے اسمائے گرامی شمار کرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے جن سے ہم نے روایاتِ حدیث لی ہیں:

                امیر الموٴمنین فی الحدیث امام بخاری، امام المحدثین امام مسلم، نسائی، ابوداوٴد سجستانی، ترمذی، ابن ماجہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل، طحاوی، ابن ابی شیبہ، ابوداوٴد طیالسی، طبرانی، ابن شاہین، ابونعیم، ابن حبان، ابن عساکر، حکیم ترمذی، حاکم، ابن سعد، بیہقی، ابن خزیمہ، ضیاء، ابویعلیٰ، محی السنہ بغوی، دارمی، خطیب، سعید بن منصور، ابن مردویہ، ابن ابی الدنیا، دیلمی، ابن ابی حاتم، ابن النجار، بزار، ابوسعید باوردی، ابن عدی، رافعی، ابن عرفہ، ابن راہویہ، ابن جوزی، قاضی عیاض، عبد بن حمید، ابونصر سنجری، ہروی، ابن منذر، دارقطنی، ابن السنی تلمیذ نسائی، روٴیانی، طبری فی الریاض النضرة، خطابی، خفاجی، حافظ ابن حجر در شرح بخاری، قسطلانی در شرح بخاری، نووی در شرح مسلم، صاحب سراج الوہاج در شرح مسلم، سندی در حاشیہ نسائی، شارح ترمذی، شعبی رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین۔ (ختم نبوت : ص۳۱۶، طبقات المحدثین )

طبقات فقہاء

                ابن نجیم، ابن حجر مکی، ملا علی قاری، علامہ سید محمود مفتی بغداد، شیخ سلیمان بحیری، عبدالرشید بخاری، فتاوی عالمگیری کے مرتبین، صاحب فصول عماری، صاحب شرح منہاج وغیرہم۔ ان تمام فقہاء نے منکرِ ختم نبوت اور مدعیِ نبوت کو کافر، کاذب، دجال قرار دیا ہے۔ (ختم نبوت:ص۳۲۵)

حضرات متکلمین

                ابن حزم اندلسی، امام نسفی، علامہ تفتازانی، حضرت شاہ عبدالعزیز، صاحب جواہر توحید، امام عبدالسلام، عبدالغنی نابلسی، ابوشکوہ سالمی، امام سفارینی، امام غزالی۔

صوفیائے کرام

                عبد الرحمن جامی، نظامی گنجوی، صاحب شرح تعرف، عبد القادر جیلانی، عماد الدین اموی، تقی الدین عبدالملک، محی الدین ابن عربی، مجدد الف ثانی وغیرہم۔

                علمائے امت کے ہر طبقہ اور ہر جماعت میں سے چند ارکان و عمائد کی شہادتیں آپ کے سامنے آچکی ہیں، جن میں بغیر کسی تاویل و تخصیص اور بلا تقسیم و تفصیل کے جس چیز کا نام عرفِ شریعت میں نبوت ہے اس کو آں حضرت ﷺ پر مختتم ما نا گیا ہے۔(ختم نبوت:ص۳۳۵)

                حضرت مفتی محمدشفیع صاحب نے تو قانون فطرت سے بھی مسئلہ ختم نبوت کو ثابت کرکے بتلایا ہے۔ فرماتے ہیں:

قانون فطرت بھی ختم نبوت کا مقتضی ہے

                کائنات عالم پر سرسری نظر ڈالنے والا دنیا میں دو چیزیں دیکھتا ہے ،ایک وحدت دوسری کثرت؛ لیکن جب ذرا تأمل کیا جائے اور نظر کو عمیق کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں میں بھی وحدت ہی اصل الاصول ہے، جتنی کثرتیں سطحی نظر میں سامنے آتی ہیں وہ بھی کسی وحدت میں منسلک ہیں اس کا شیرازئہ وجو د منتشر ہو کر قریب ہے کہ عدم میں شامل ہو جائے، اس لیے ایسی کثرت کو موجود کہنا بھی فضول ہوگا ۔

                مثال کے لیے دیکھیے کہ جب ہم آسمان کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو اس کے محیر العقول طول وعرض میں بے شمار کثرتیں کھپی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ؛لیکن جب ان کثرتوں کے سلسلہ میں نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کثرتیں ایک ہی مرکز کے ساتھ وابستہ ہیں ، اور ایک ہی محور پر حرکت کررہی ہیں ،اور اگر ان کا سلسلہ اس وحدت پر منتہی نہ ہوتا تو یہ نظام سماوی کسی طرح باقی نہ رہ سکتا تھا ۔

                آسمان سے نیچے ابر کے موالید ثلاثہ میں بھی یہی فطر ی قانون نافذ ہے ۔جمادات کے ذرا ذرا پر نظر ڈالو تو کس قدر بے شمار کثرتیں سامنے آتی ہیں ،لیکن وہ سب بھی اسی طرح ایک وحدت میں منسلک ہیں ،اور جب رشتہٴ انسلاک ٹوٹتا ہے تواس کے لیے موت کا پیام ہوتا ہے ۔

                نباتات میں بے شمار شاخیں ،پتے اور پھل پھول نئے نئے رنگ اور نئی نئی وضع میں کثرت کی شان لئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ؛لیکن اگر ان کی انتہا ایک جڑ کے ساتھ وابستہ نہ ہو تو فرمائیے کہ اس باغ و بہار کی عمر کتنی رہ سکتی ہے ۔

                حیوانا ت میں ہاتھ ،پاوٴ ں ،آنکھ ،ناک اور تین سو ساٹھ جوڑوں کی کثرت موجود ہے؛ لیکن اگر یہ سب ایک رشتہٴ وحدت میں منسلک نہ ہوں تو یہی اس کی موت ہے ۔

                اس کے بعد دنیا میں تمام مشینوں ، انجنوں، گاڑیوں، برقی تاروں اور واٹر ورکس کے نلوں، وغیرہ وغیرہ پر نظر ڈالیے تو سب کو اسی قانونِ فطرت کی جکڑ بند سے آباد پائیں گے ، اور جب کسی انجن کے کل پر زے اس کے روح (اسٹم )سے علیحدہ ہوں ،یا گاڑیوں کا باہمی ربط ٹوتے یا برقی تاروں کا اتصال بجلی کے خزانہ کے ساتھ نہ رہے، یا پانی کے نل واٹر ورکس سے منقطع ہو جائیں تو ان کا وجود بھی بے کار ہے ۔

                کائنات عالم کی ان مثالوں پر نظر کرکے جو قانون قدرت ذہن نشین ہوتا ہے ، نبوت اور رسالت بھی اس سے علیحدہ نہ ہونی چاہئے ؛بلکہ عالم کی تمام نبوتوں کا سلسلہ بھی کسی ایسی نبوت پر ختم ہونا چاہیے جو سب سے زیادہ اقوی واکمل ہو اور جس کے ذریعہ سے نبوتوں کی کثرت ایک وحدت پر منتہی ہو کر اپنے وجود کو قائم اور مفید بناسکے ،اور مسلم ہے کہ اس سیادت وفضیلت کی حقدار صرف حضرت خاتم الانبیا ء ہی ہو سکتے ہیں ،جن کی سیاست پر انبیا ء سابقین اور ان کی کتب سماوی اور پھر ان کی امتیں خود گواہ ہیں ،جن کی تصریحات ابھی آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں ۔

                اور یہی رمز ہے اس میثاق میں جو تمام انبیاء ورسل سے لیا گیا ہے کہ اگر وہ آپ ﷺ کا زمانہ پائیں تو آپ ﷺ پر ایمان لائیں ، اور آپ کی مدد کریں ،ارشاد ہے :

          ”لَتُوٴمِنُنَّ بِہ وَلَتَنْصُرُ نَّہ“ ”ضرور آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی مدد کریں “

                اور اس میثاق کی تصدیق اور سیادت کو ثابت کرنے کے لیے خداوند عالم نے دومرتبہ دنیوی حیات میں آپ ﷺ کو تمام انبیاء علیہم السلام کے ساتھ جمع فرمایا ،اور یہ سیادت اس طرح ظاہرفرمائی کہ آپ ﷺ تمام انبیاء علیہم السلام کے امام ہوئے ،جس کا مفصل واقعہٴ اسراء و معراج کے تحت میں تمام کتبِ حدیث میں صحیح ومعتبر روایات سے منقول ہے ، پھر آخر ِزمانہ میں انبیائے سابقین میں سے آخری نبی حضرت عیسی علیہم السلام کو آپ کی شریعت کا صریح طور پر متبع بنا کر بھیج دیا ؛تاکہ اس میثاق پر صاف طور سے عمل ہوجائیں ۔

قانون فطرت کی دوسری نظیر

                دنیا کی اکثر چیزوں پر جب نظر ڈالی جاتی ہے تو یہ دیکھا جاتاہے کہ ایک مقصد کے پورا کرنے کے لیے سینکڑوں اسباب وآلات کام میں آتے ہیں ،اور ایک زمانہٴ دراز ابتدائی مقدمات طے کرنے میں صرف ہوتا ہے ،سب سے آخر میں مقصود کی صورت نظر آتی ہے ،مثال کے لیے درختوں کو دیکھئے اور بیج بونے کے وقت تک تمام درمیانی مراحل پر نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ ان تمام کا دشوں کا اصلی مقصود یہ تھا جو آج سامنے آیا ہے؛ اسی طرح تمام کائنات کی پیدائش کا اصلی مقصد اور تمام نبوتوں کا خلاصہ آں حضرت ﷺ ہیں ،اور قانونِ فطر ت کے موافق آخر میں تشریف لائے ہیں ۔اسی مضمون کو سندی شیخی واستاذی حضرت مولانا سید انور شاہ صاحب صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند نے اس بلیغ شعر میں ادا فرمایا ہے :

اے ختم رسل امتِ تو خیر الامم بود

چوں ثمرہ کہ آبد آید ہمہ در فصل نضیری

تیسری نظیر

                اسی طرح شاہی درباروں پرنظر ڈالوں کہ ایک مدت پہلے سے اس کا انتظام کرنے کے لیے سیکڑوں بڑے چھوٹے حکام بر سرِ کار آتے ہیں، لیکن ان سب کا اصلی مقصد سلطانی دربار کے لیے راستہ ہموار کرنا ہوتا ہے ، اور اسی لیے جب دربار کا وقت آتا ہے اور بادشاہ تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوکر مقاصد دربار کی تکمیل کرتا ہے تواس کے بعد اور کسی کا انتظار باقی نہیں رہتا ، اور اسی پر دربار ختم ہوجاتا ہے ۔

                مسئلہ زیر بحث میں بھی اسی طرح سلطان الانبیاء ﷺ پر سلسلہ نبوت کا ختم ہوجانا بالکل قانون ِ فطرت اور مقتضائے عقل کے موفق ہے ۔

                اس قسم کی سیکڑوں نظریں ذرا تأمل سے ہر شخص نکال سکتا ہے ۔

                قرآن وحدیث اور اجماع امت اقوالِ صحابہ و تابعین اور پھر عقلی وجوہ کا جس قدر ذخیر ہ اب تک اس رسالہ میں جمع ہو چکا ہے ایک بصیر ت والی آنکھ اور سماعت والے کان کے لیے کفایت سے بہت زائد ہے ،او ر ازلی بدبخت کا کوئی علاج نہیں ۔

          اَرْجُو أن یَنْفَعنِی والمسلمینَ بہ وَھُو وَلِیُّ التوفیقِ وخیرُ الرفیق فی کل مضیق (ختم نبوت: ص۳۵۷ تا ۲۶۰)

شرائط نبوت

               (۱)      عقل کامل                     (۲)     حفظ کامل

                (۳)      علم کامل                         (۴)     عصمت کاملہ و مستمرہ

               (۵)      صداقت و امانت کاملہ      (۶)      عدیم توریث

                (۷)     زہد کامل                         (۸)     حسب و نسب اعلیٰ ہو

                (۹)      مرد ہو                           (۱۰)    اخلاق کاملہ

                تلک عشرة کاملہ۔ان شرائط کا کا نبی میں ہونا ضروری ہیں۔ اب آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، کو ن ان شرائط پر اترتا ہے، اور کون نہیں اترتا ۔ اور پھر خود ہی انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں کہ کون نبی تھا اور کون نبی نہیں ۔

                اللہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے، ہرقسم ضلالت گمراہی، شہوات و شبہات کے فتنوں سے محفوظ رکھے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور کل قیامت کے دن خاتم الانبیاء و المرسلین احمد مصطفی محمد مجتبیٰ ﷺ کی شفاعت اور آپ کے مبارک ہاتھ سے جام کوثر نصیب فرمائے۔ اور اللہ ہمیشہ کے لیے ہم سے راضی ہو جائے۔ آمین یا رب العالمین!

$           $           $

———————————



No comments:

Post a Comment