اصول:
جب بھی دنیا کی مذمت کی گئی تو وہاں (نافرمانی کرکے) آخرت کو نقصان پہنچا کر حاصل کردہ دنیا ہے۔
وہ عمر بھر کے لیے نفسیاتی الجھنوں کو ساتھ لیے پھرتے ہیں، لیکن اس جرم کا مقدمہ دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک بھی دائر نہیں ہو سکتا۔ لاکھوں کے حساب سے جنس کا کاروبار کرنے والی خواتین جنہیں آج کے انسانی حقوق کی دنیا میں سیکس ورکرکے ’’باعزت لقب‘‘ سے یاد کیا جاتا ہے، اگر وہ اپنے اس پیشہ یا پروفیشن کے مخصوص حالات کی وجہ سے بد ترین بیماریوں کا شکار ہوکر بسترِمرگ سے لگ جاتی ہیں
تو کیا آج کے دور کاکوئی مہذب معاشرہ دنیا میں وجود رکھتا ہے کہ ان لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر کے جن کی ہوس نے ان عورتوں کو موت کے دروازے پر جا پہنچایا ہے؟ یہ الگ بات ہے کہ ایسی خواتین کی مدد کے لیے عالمی سطح پر این جی اوز متحرک ہو جاتی ہیں، لیکن چونکہ قانون ایسا کرنے والوں کو مجرم نہیں گردانتا، حکومت انہیں صرف بد احتیاط کہہ کر چپ ہو جاتی ہے، اس لیے چاہے ہزاروں عورتیں جان سے چلی جائیں ان مجرموں پر مقدمہ نہیں چل سکتا۔ایسے ہزاروں معاملات ہیں جہاں انسانوں نے اپنے مفادات کے تابع قانون سازی کی اور آج اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
آپ ہر ایسے قانون کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں جہاں انسان کے وضع کردہ ضابطۂ اخلاق کے تحت بہت سے جرائم کو قانون کی فہرست سے خارج کر دیا گیا تو وہاں آپ کو اس کے پسِ پردہ اربوں ڈالر کا مفاد نظر ضرورآئے گا۔ شراب پینا جرم نہیں ہے، لیکن شراب پی کر گاڑی چلانا، جہاز اُڑانا جرم ہے۔ اس لیے کہ اس کے پیچھے اربوں ڈالر کا شراب کا کاروبار ہے۔ میڈیسن کے علم کے مطابق شراب کے استعمال سے جو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں انہیں Alcholism سے جڑی بیماریوں اور پاگل پن کا کہا جاتا ہے۔ اسی طرح عورتوں کے کاروبار کو دنیا کے کسی ’’مہذب‘‘ ملک میں بذات خود منع نہیں کیا گیا ہے۔یعنی اگر ایک عورت خود اپنا جسم بیچتی ہے تو وہ جرم نہیں ہے، البتہ اس عورت کو ایسا کرنے پر مجبور کرنے یا پھر اس کے ایسا کرنے کی دلالی یا موجودہ دورمیں مارکیٹنگ جرم ہے۔ فحش فلموں کا کاروبار بذاتِ خود جرم نہیں ہے، البتہ ان فلموں میں کام کرنے والوں کے لیے بالغ یعنی 18 سال کا ہونا ضروری ہے۔اس لیے کہ اس کے پیچھے اربوں ڈالر کی انڈسٹری ہے۔ عورت کو کاروبار کے لیے استعمال کرنا جرم ہے، لیکن کاروبار کی مارکیٹنگ کے لیے اسے نیم برہنہ تک کر کے اور پھر ہر چوک و چوراہے پر اس کی تصاویر لگانا کوئی جرم نہیں ہے۔ انسان نے جب بھی قانون سازی کی اسے اپنے ذاتی سیاسی اور کاروباری مفاد کے تا بع رکھ کر کیا۔ بے راہ روی کو رواج دینے کے لیے شادی کی ایک حد مقرر کردی گئی۔ اس کے لیے سو طرح کی دلیلیں گھڑی گئیں، پوری دنیا میں ممالک سے قانون مرتب کروائے گئے۔ 18 سال سے کم عمر کی شادی پر پابندی لگادی گئی، نتیجہ یہ نکلا کہ صرف امریکا میں ہر سال 10 لاکھ 18 سال سے کم عمر لڑکیاں مائیں بنتی ہیں۔ یعنی قانون کے مطابق 18 سال سے کم عمر کی شادی جرم ہے اور قابلِ دست اندازی پولیس ہے، لیکن 18 سال سے کم عمر ماں بننا جرم نہیں، بلکہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے اور اس کے لیے این جی اوز کو آگے آنا چاہیے اور ان لڑکیوں کی مدد کرنا چاہیے۔
انسانوں نے اپنے لیے قانون بنائے، معاشرے تخلیق کیے، لیکن یہ تمام قوانین موجودہ سیکولر نظامِ زندگی کا تحفہ ہیں۔سیکولر نظامِ زندگی کی کوکھ سے سرمایہ دارانہ جمہوریت نے جنم لیا جس نے انسانوں کو یہ پٹی پڑھائی کہ مذہبی اخلاقیات اور قوانین کا تعلق نہ حکومت سے ہے اور نہ ہی اجتماعی زندگی سے۔انسانوں کی اکثریت جیسا قانون چاہے بنا سکتی ہے اور اسے نافذ کر سکتی ہے اور یہی بہترین طرزِ زندگی اور انصاف کا موجودہ خوبصورت تصور ہے۔یعنی سب جرم، سزا، عدل و انصاف اسی دنیا میں ہی ہو گا چونکہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے جو قانون عطا کرنے کا اختیار رکھتا ہو، اس لیے کہ آخرت بھی وجود نہیں رکھتی۔ہمیں اسمبلیوں کے ذریعے ہی انصاف کو قوانین کے ذریعے نافذ کرنا ہے۔آپ دنیا کے دو سو کے قریب ممالک کے قوانین کامطالعہ کر لیں، آپ سوچتے سوچتے بے بس ہو جائیں گے، لیکن آپ حتمی اور آخری انصاف کی ایک جھلک بھی وہاںنظر نہیں آئے گی۔ یہ سب کے سب قوانین انسانوں کو مکمل انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔وہ قانون جس سے بچ نکلنے کے ہزار راستے موجود ہوں، وہاں مکمل انصاف کا تصور ہی نہیں ہو سکتا۔جہاں شہادت تلف کر کے گواہ خاموش کروا کر انصاف کو روکا جا سکے وہاں کیسے مکمل انصاف کیا جا سکتا ہے۔
اللہ اورآخرت کے تصور کے بغیر نہ معاشرے تخلیق پا سکتے ہیں اور نہ ہی مکمل انصاف کا تصور وجود میں آتا ہے۔ تصور کیجیے دنیا کے مہذب ترین ممالک کا اور پھر سوچیئے کہ ایک شخص اپنے وسیع و عریض گھر میں رات کو انواع و اقسام کے کھانے کھا رہا ہے اور اس کا پڑوسی بھوک کی شدت سے مر جاتا ہے۔کیا دنیا کا کوئی قانون اس امیر شخص پر فردِ جرم عائد کرسکتا ہے؟کسی تیز رفتار گاڑی کو حادثہ پیش آتا ہے۔سنسان سڑک پر ایک شخص زخمی کو چھوڑ کر گزر جاتا ہے، زخمی مر جاتا ہے، کیا کوئی قانون اس شخص کو حراست میں لے سکتا ہے؟آپ دولت جمع کریں، ڈھیر لگا دیں، ذاتی عیاشیوں پر خرچ کریں۔اس دنیا میں کوئی قانون آپ کو گرفت میں نہیں لے سکتا۔یہی نا مکمل نظام انصاف ہے کہ اس وقت دنیا میں 430 کے قریب ایسے افراد ہیں جن کی دولت اگر دنیا میں تقسیم کر دی جائے تو کوئی بھوکا، ننگا، بے روز گار نہ رہے۔ 50 لوگوں کے پاس دنیا کی 65 فیصد دولت ہے، لیکن کوئی قانون انہیں اس دولت کو غریبوں پر تقسیم کرنے کے لیے جزا اور تقسیم نہ کرنے پر سزا نہیں دیتا۔
دنیا کا کوئی قانون اس دنیا میں ہونے والے جرائم پر مکمل انصاف فراہم کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ہزاروں لوگوں کے قتل کے بدلے صرف ایک انسان کی موت اور وہ بھی اب کئی ممالک میں ختم ہو چکی۔یہ نا مکمل نظامِ انصاف کیوں ہے؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو انصاف و عدل کے لیے نہیں امتحان کے لیے تخلیق کیا۔البتہ اس دنیا کو امن و آشتی اور سکون و اطمینان کا گہوارہ بنانے کے لیے اس نے کچھ قوانین بتا دیے تاکہ انسانی زندگی اچھی طرح رواں دواں ہو سکے۔جیسے کہا گیا کہ قصاص میں تمہارے لیے زندگی رکھ دی گئی۔ چوری اور زنا کو سخت ترین سزاؤں سے روکا گیاتاکہ معاشرہ صالح ہو مکمل انصاف کے لیے آ نے یوم آخرت مقرر کر رکھا ہے۔ اسی لیے اللہ نے ایمان والوں سے تقاضا کیا ہے کہ وہ اللہ، اُس کے رسول، فرشتوں اور کتابوں پر ایمان لائیں، لیکن آخرت کے دن پر یقین پیدا کریں۔آخرت کا دن دنیا میں دو طرح کے تصور کو جنم دیتا ہے، ایک مکمل انصاف اور دوسرا مکمل جزا اوراجر، روز حشر۔ انصاف کے مکمل ہونے کے لیے اللہ نے تمام لوازمات بنائے ہیں، گواہی کے لیے ہاتھ اور پاؤں کو خود بولنے کی اجازت دی جائے گی۔آخرت کا یہی خوف کسی بھی معاشرے کو پُرامن رکھتا ہے۔دوسرا اجر کا تصورہے۔یہ لوگوں میں نیکی اور انسانوں سے ہمدردی کو جنم دیتا ہے۔ آج دنیا کے مخیر حضرات کی فہرست اُٹھا لیں اور ان کی زندگیوں کے حالات پڑھیں۔مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، یہیودی سب کے سب آپ کو انسانوں کی مدد کرتے اس لیے نظر آئیں گے کہ انہیں آخرت میں مکمل اجر کی اُمید اور توقع ہوتی ہے۔ گزشتہ صدی میں آدھی دنیا پر ایک نظام رائج رہا جسے کیمونزم کہتے ہیں۔اس نظام میں آ کے تصور کو انسانی زندگی سے خارج کردیا گیا۔ پورے کے پورے معاشرے دہریے ہوگئے۔ آج جب کہ وہاں سرمایہ داری کا نظام لوٹ آیا ہے، معاشرے میں سرمایہ دار بھی آ گئے ہیں، لیکن روس، چین اور شمالی کوریا وغیرہ میں آپ کو انسانوں پر خرچ کرنے والے مخیر حضرات کا نشان نہیں ملے گا۔اس لیے کہ خیرات اور انسانی بھلائی کے پیچھے سب سے بڑا جذبہ آخرت میں اللہ کی خوشنودی ہے۔ کیا یہ دنیا، حکومتیں، انسان اور معاشرے مذہب کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیںہر گز نہیں۔ یہ تمام معاشرے جو آج زندہ ہیں انہوں نے تمام قوانین مذہب سے اُدھار لیے ہیں، سچ بولنا، غیبت نہ کرنا، جھوٹی گواہی نہ دینا، دھوکا اور فریب سے اجتناب وغیرہ یہ سب اصول مذہب نے متعین کیے اور دنیا میں کسی جمہوریت میںیہ دم نہیںکہ انہیں تبدیل کر سکے۔
کیا کوئی پارلیمنٹ 100 فیصد ووٹ سے جھوٹ بولنا، دھوکا دینا یا چوری کرنا جائز قرار دے سکتی ہے۔ مذہب تمام عالمی اخلاقیات کا باپ ہے۔ سیکولر طرزِ زندگی کا کمال یہ ہے کہ، اپنی زندگی میں باپ کے تمام اصولوں کو نافذ کر تاہے لیکن باپ کی اولاد ہونے سے انکار کردیتا ہے۔سیکولر ازم الحاد اور دہریت کی پہلی سیڑھی ہے۔ اللہ اور آخرت کا تصور انسانی معاشرے سے خارج کرکے دیکھو، دنیا کی ہر حکومت ایسے ہوگی جیسے وہ ایک منہ زور گھوڑے کو قابو کر رہی ہے اور گھوڑا اُسے گرا کر دور نکل جاتا ہے۔ یہ گھوڑا حرص، ہوس، خود غرضی، لالچ، جنس اور خواہشات کا گھوڑا ہے جسے صرف قوانینِ الٰہی قابو کر سکتے ہیں۔ ورنہ سب خسارہ، جنگیں، کروڑوں کی موت، بے سکون، بے مہر اور بے اطمینان معاشرے۔
إِنَّ السّاعَةَ ءاتِيَةٌ أَكادُ أُخفيها لِتُجزىٰ كُلُّ نَفسٍ بِما تَسعىٰ {سورۃ طٰهٰ:20}
قیامت یقیناً آنے والی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس (کے وقت) کو پوشیدہ رکھوں تاکہ ہر شخص جو کوشش کرے اس کا بدلا پائے۔
کفّار مکّہ نے غرور و تکبر سے اپنے دل میں یہ ٹھہرا رکھا تھا کہ اگر قیامت کے دن مسلمانوں پر عنایت و بخشش ہوگی تو ہم پر ان سے بہتر اور بڑھ کر ہو گی۔ اور جس طرح دنیا میں ہم کو اللہ نے عیش و رفاہیت میں رکھا ہے وہاں بھی یہ ہی معاملہ رہیگا۔ اس کو فرمایا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے اگر ایساہو تو یہ مطلب ہو گا کہ ایک وفادار غلام جو ہمیشہ اپنے آقا کی حکمبرداری کے لئے تیار رہتا ہے، اورایک جرائم پیشہ باغی دونوں کا انجام یکساں ہو جائے، بلکہ مجرم اور باغی، وفاداروں سے اچھے رہیں یہ وہ بات ہے جس کو عقل سلیم اور فطرت صحیحہ رَد کرتی ہے۔
مومن اور مفسد برابر نہیں ہو سکتے:
یعنی ہمارے عدل و حکمت کا اقتضاء یہ نہیں کہ نیک ایماندار بندوں کو شریروں اور مفسدوں کے برابر کر دیں یا ڈرنے والوں کے ساتھ بھی وہ ہی معاملہ کرنے لگیں جو ڈھیٹ اور نڈر لوگوں کے ساتھ ہونا چاہئے۔ اسی لئے ضرور ہوا کہ کوئی وقت حساب و کتاب اور جزا سزا کا رکھا جائے۔ لیکن دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے نیک اور ایماندر آدمی قسم قسم کی مصائب و آفات میں مبتلا رہتے ہیں اور کتنے ہی بدمعاش بیحیا مزے چین اڑاتے ہیں۔ لامحالہ ماننا پڑے گا کہ موت کے بعد دوسری زندگی کی جو خبر مخبر صادق نے دی ہے عین مقتضائے حکمت ہے۔ وہاں ہی ہر نیک و بد کو اس کے برے بھلے کام کا بدلہ ملے گا۔ پھر "یوم الحساب" کی خبر کا انکار کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔
WHILE mentioning the Quran in his book, ’The History of the Arabs‘, Professor Philip Hitti has written: “The most impressive parts of the Quran deal with eschatology.”
Eschatology, A branch of theology that is concerned with the final events in the history of mankind or final things such as death, judgement, heaven and hell; the ultimate destiny of humankind
بس اب اسی پرقیاس کریں، دنیامیں عمل صادرہوتاہے، عالمِ برزخ میں ریکارڈہوتاہے اوریوم الحشرکے دن سب ظاہرہوجائے گا۔
اب جب یہ ثابت ہوگیا تو کوئی عاقل اورذی شعوراپنے کرتوت کے ریکارڈکوسننے یادیکھنے کے بعدانکارنہیں کرسکتا،بالکل قیامت کے روزبھی ایساہی ہوگا۔لہٰذاجس طرح آدمی ریکاڈرکے سامنے ہونے کی صورت میں بچ بچ کر بات کرتاہے اورکوئی کام کرتاہے کہ کہیں کوئی غلط چیزریکارڈنہ ہوجائے، انسان کوبھی اسی طرح زندگی گذارنی چاہیے اورجان لیناچاہیے کہ یقینی طورپراس کی زندگی کے ہرلمحہ کوپوری باریکی کے ساتھ قیدکیاجارہاہے، قرآن میں ارشادالٰہی ہے :﴿ما یلفظ من قول إلا لدیہ رقیب عتید﴾۔ (سورہٴ قٓ:18) انسان جوبات بھی اپنے منہ سے اداکرتاہے توایک ریکاڈربرابر اسے ریکارڈکررہاہے ایک اورجگہ پرہے:﴿یوم تجدکل نفس ماعملت من خیرمحضرًا و ماعملت من سوء﴾․
”جس دن ہرشخص اپنے کئے ہوئے کواپنی نظروں کے سامنے پائے گا چاہے وہ اچھائی ہویابرائی۔“(سورہٴ آل عمران:30)
ذراہم ان آیتوں پرغورکریں، قرآن کیسی تنبیہ کوبیان کررہاہے!اللہ ہمیں اس کوسمجھنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین!
بعض گناہوں کی مماثل سزاوٴں کوبھی قرآن وحدیث میں بیان کیاگیاہے، مثلاًزکوٰة نہ دینے پروہ مال سانپ کی شکل میں اس کے گلے کاطوق ہوگا:﴿سیطوقو ن مابخلوا بہ یوم القیامة﴾․ (سورہٴ آلِ عمران: 180)
جھوٹ بولنے والے چہرے کالے ہو جائیں گے، جوقرآن کاعلم حاصل کرکے اس پرعمل نہ کرے گااس کاسرباربارپتھرسے کچلاجائے گا۔معلوم ہواکہ دنیابرزخ، اورآخرت تینوں جگہ انسان کواس کے گناہوں کی سزادی جاتی ہے۔
پہلا – اس دن کے ثواب کی امید رکھتے ہوئے اطاعت کرنے کی رغبت اور حرص پیدا ہوتی ہے –
دوسرا – اس دن کی سزا اور عقاب سے ڈرتے ہوئے معصیت کرنے سے اور اس پر راضی ہونے سے خوف اور ڈر –
No comments:
Post a Comment