Saturday, 9 April 2016

کیا تم قتل کرتے ہو اسے اس لئے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب الله ہے؟؟؟

کیا تم لڑتے ہو اسے اس لئے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب الله ہے؟؟؟
[القرآن:-سورۃ غافر:28]
عروہ بن زبیر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے پوچھا کہ مشرکوں نے رسول اللہ ﷺ کو سب سے بڑی ایذا کیا پہنچائی ہے؟ آپ نے فرمایا: ایک دن رسول اللہ ﷺ حطیم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور آپ کی گردن میں چادر ڈال کر بل دینے لگا، وہ بری طرح آپ کا گلا گھونٹنے لگا۔ اس وقت ابوبکر صدیق  ؓ دوڑے دوڑے آئے، انھوں نے اسے دھکا دے کر پرے پھینکا اور فرمانے لگے : {أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ} [غافر/المؤمن:28] ’’کیا تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمھارے پاس دلیلیں لے کر آیا ہے۔‘‘
[صحیح البخاری: کتاب مناقب الأنصار، باب ما لقی النبی ﷺ و أصحابہ من المشرکین بمکۃ :حدیث#3856]


Would you kill a man because he says–Allah is my Lord...
[Al-Quran, Chapter#40 Al-Ghafir , Verse#28]














مسلمان جہاں جہاں گئے وہاں وہاں اپنے ساتھ سچائی، احترام انسانیت، ایمان داری، انصاف، مساوات، حیا، محبت، فراخدلی اور خداترسی کا پیغام لے کر گئے۔ مسلمانوں کی تاریخ یہ ہے وہ جہاں کہیں گئے چند صدیوں میں اکثریت بن گئے۔ انہوں نے اپنے مثالی قول وعمل اور کردار سے دوسروں کو بھی متاثر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں، لیکن ان 100 سے زائد جنگوں میں مسلمانوں اور کفار کے صرف ایک ہزار 18 افراد قتل ہوئے۔
اس کے برعکس غیرمسلموں نے ہمیشہ انسانوں پر ظلم وستم کیا۔ 1492ء میں اسپین میں اسلامی حکومت ختم ہوئی۔ ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو مذہبی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان میں تقریباً 30 ہزار کو سزائے موت ملی اور 12000 کو زندہ جلادیا گیا۔ جنگِ عظیم اول میں دو کروڑ اور جنگِ عظیم دوم میں 5 کروڑ سے زائد انسان تہ تیغ ہوئے۔ 1945ء میں جاپان کے دو شہروں ’’ہیروشیما اور ناگاساکی‘‘ پر امریکا نے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایٹم بم گرائے۔ اس سربریت سے چشم زدن میں دو لاکھ افراد پانی کے بلبلے کی طرح پگھل کر رہ گئے۔ کوئی چرند پرند نہیں بچا تھا۔ جو لوگ بچ گئے تھے وہ زندہ درگور تھے۔ 2001ء کے بعد افغانستان میں 6 لاکھ اور 2003ء کے بعد سے عراق میں 12 لاکھ عراقیوں کو بے دردی سے مارا جاچکا ہے، جبکہ اسلامی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ مسلمانوں نے جب بھی علاقے فتح کیے، وہاں کے لوگوں خصوصاً خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا۔ 90 سال تک مسجد اقصیٰ عیسائیوں کے پاس رہی۔ اس کے بعد حالات نے پلٹا کھایا اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس فتح ہوا۔ اس شاندار فتح کے بعد عیسائی یہ سمجھ رہے تھے اب ہماری خیر نہیں۔ ہمارے ظلم کا بدلہ ہمیں مل کے رہے گا، لیکن تاریخ بتاتی ہے سلطان نے عام معافی کا اعلان کردیا حتیٰ کہ پوپ اور بادشاہ تک کو معاف کردیا۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا تھا: آج سب کو معاف کردیا گیا ہے۔ اپنی جان کے پیاسوں تک کو معاف کردیا۔ ہندہ، جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت امیر حمزہؓ کا کلیجہ چبایا تھا، آپ نے اس کو بھی معاف کردیا۔ وحشی جس نے حضرت امیر حمزہ کو بے دردی سے قتل کیا تھا، آپ نے ان کو بھی معاف کرنے کے بعد صرف اتنا کہا: ’’میرے سامنے نہ آیا کریں کیونکہ مجھے میرے چچا یاد آجاتے ہیں۔‘‘ یہ اسلام ہی تو ہے جس نے غیروں کی بھی حفاظت کا نہ صرف حکم دیا بلکہ عمل کرکے بھی دکھایا۔

فارس جب فتح ہوا تو بادشاہ نوشیروان کی بیٹی بھی مالِ غنیمت کے ساتھ گرفتار کرکے لائی گئی۔ اسے جب دربارِ نبوی میں پیش کیا گیا تو ان کے سر پر ڈوپٹہ نہیں تھا۔ آپ نے حکم دیا: ان کے سر پر ڈوپٹہ رکھا جائے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! یہ تو مسلمان نہیں ہے۔ آپ فرمایا: ’’بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے خواہ کسی کی بھی ہو۔‘‘ انسان تو انسان حیوانوں کے ساتھ بھی اسلام نے اعلیٰ برتائو کیا۔ وہ واقعہ تو سب کو یاد ہوگا ایک اونٹ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں سر رکھ کر اپنے مالک کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کا مالک اس سے کام زیادہ لیتا ہے اور اسے گھاس کم دیتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے جانوروں کے حقوق بھی بیان فرمائے۔

ظ




''سورگون'' مسلمانوں کا ہولوکاسٹ
سمیع اللہ ملک، لندن
تاریخ کے مختلف ادوار میں طاغوتی قوتوں نے مسلمانوں پر بے پناہ مظالم کے پہاڑ تورے مگر میڈیا اور تاریخ میں یہودیوں کو ہی یاد رکھا جاتا ہے۔ ظالم کو مظلوم ثابت کرنے کی یہ روش ہر دور میں جاری رہی۔ کاش اللہ کے بندے مسلمانوں کے ہولوکاسٹ کو بھی لائقِ اعتناء سمجھیں۔ یہ عالمی سطح پر انصاف و عدل کی ایک بنیادی ضرورت ہے جسے نظر انداز کرنے کے نتیجے میں امت پر جو زیادتیاں کی گئیں وہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہی رہیں گی۔
جزیرہ نما کریمیا ازمنہ وسطی سے مئی ١٩٤٤ء تک کریمیائی تاتاری باشندوں کا وطن رہا ہے۔ کریمیائی مسلمانوں کا تعلق ترک اقوام کے اس گروہ سے تھا جو تیرہویں صدی میں باتو خان کے لشکر زریں کا حصہ تھے اور پھر انہوں نے کریمیا کو اپنا وطن بنایا۔ کریمیائی تاتاری سنی مسلمان ہیں اور ترکی زبان کا ایک لہجہ ''قچچاق ترک'' بولتے ہیں۔ پندرھویں صدی کے وسط میں یہاں کے مسلمان ایک زبردست قوت بن کر ابھرے اور ١٤٢٨ء میں انہوں نے ایک ایسی ریاست قائم کی جو ریاست خانانِ کریمیا کہلاتی ہے۔ اسے انگریزی میں ’’خانیت کریمیا‘‘ کہتے ہیں۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات ان تاتاری مسلمانوں کی زندگیوں میں اچھی طرح راسخ نہیں تھی اس لیے وہ اپنی قوت کا غلط استعمال بھی کرتے تھے۔ غلاموں کے حصول کیلیے پولینڈ پر حملے اور ان کی فروخت ان کی تاریخ کا ایک کریہہ باب ہے۔ تجارت کے عوض غلاموں کی واپسی کیلیے روس اور پولینڈ کی ریاستوں سے تاوان بھی وصول کیا جاتا تھا یعنی غلاموں کی تجارت اور تاوان کی وصولی کو معیشت کا درجہ دیا گیا۔
اس امر کے باوجود کریمیائی تاتاریوں کی اسلامی علاقوں کے لیے سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے عرصہ دراز تک مسلم علاقوں کی جانب روس اور پولینڈ کی پیش قدمی کو روکے رکھا اور شمالی جانب سے اسلامی سرحدوں کی بھرپور حفاظت کی۔ ان کی بھرپور قوت سے علاقے میں طاقت کا توازن برقرار رہا۔ اس ریاست کا ایک اور کارنامہ یہ تھا کہ اس نے محل وقوع کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کے حامل بحیرہ اسود میں طویل عرصے تک روسی اثر و رسوخ نہ بڑھنے دیا اور روس اور بحیرہ اسود کے درمیان ایک بہت بڑی رکاوٹ بن گئی۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ تاتاری سلطنت عثمانیہ کی سیادت میں جانے کے باوجود کریمیائی تاتاریوں کی ریاست کے باج گزار نہیں تھے۔ بابا عالی اور خانان کے درمیان تعلقات بہت خوشگوار تھے۔ منتخب سلطان کو قسطنطنیہ سے منظوری تو لینا پڑتی تھی تاہم وہ عثمانیوں کا مقرر کردہ نہیں ہوتا تھا۔ خانان کو اپنا سکہ چلانے اور جمعہ کے خطبے میں اپنا نام شامل کرنے کی بھی اجازت تھی جو ان کی خود مختاری کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ عثمانی عہد خانانِ کریمیا کا ذریں دور تھا خصوصاً عسکری قوت کے طور پر کوئی قوت ان کا سامنا نہیں کر سکتی تھی۔کریمیائی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پانچ لاکھ فوجیوں کا لشکر میدان میں اتارنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ ریاست بلاشبہ اٹھارویں صدی تک مشرقی یورپ کی بڑی قوتوں میں سے ایک تھی۔
تجارت کو پھیلانے کے مواقع اور عسکری توسیع کی اسی خواہش نے روس کو کریمیا پر قبضہ کے لیے پرکشش بنا دیا تھا۔ اسی لیے سترہویں صدی کے اواخر میں روس نے یہاں دو مرتبہ قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا البتہ اٹھارہویں صدی کے بالکل اوائل میں کچھ عرصہ کے لیے انہوں نے ایک اہم بندرگاہ پر قبضہ بھی کر لیا لیکن وہ زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکا۔ ١٧٧١ء میں روس نے جزیرہ نما کریمیا میں در اندازی کی اور عثمانیوں سے ایک معاہدے کے تحت ١٧٨٣ء کے دوران یہ علاقہ روس کے قبضے میں چلا گیا۔ ١٧٨٣ء میں ملکہ کیتھرین ثانی نے عثمانیوں سے کیے گئے تمام تر معاہدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کریمیا کو براہِ راست روسی قلمرو میں شامل کر لیا۔ کریمیا اور ملحقہ علاقوں پر روسی قبضے کے بعد وہاں اس طرح کے حالات پیدا کیے گئے کہ مسلمان از خود علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔ اس کی وجوہات داخلی سے زیادہ خارجی تھیں۔ کیونکہ بحیرۂ اسود میں بحری قوت کو مضبوط بنانا اور خصوصا قسطنطنیہ پر قبضے کے ذریعے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو تقویت دینا روس کا پرانا خواب تھا اس لیے اپنی منزل کو پانے کے لیے پہلی رکاوٹ یعنی کریمیا کو ہٹانا ضروری تھا اور یہ حکمت عملی صرف زار کے عہد میں ہی اختیار نہیں کی گئی بلکہ جب جنگ عظیم دوئم میں فتح کے بعد توسیع پسندانہ عزائم کو مزید تحریک ملی تو اس خواب کی تعبیر کی ایک مرتبہ پھر کوشش کی گئی اور درحقیقت کریمیائی مسلمانوں کو جبری ہجرت پر مجبور کرنا اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔
روس کے قبضے کے بعد تاتاری مسلمانوں کا زوال شروع ہو گیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا کام زراعت پر محصولات میں زبردست اضافے کے ذریعے کیا گیا جس کے بعد مذہب کی جبری تبدیلی کے ذریعے مسلمانوں کو زیر کرنے کی کوشش کی گئی جب دونوں حربے ناکام رہے تو آخری حربے کے طور پر غیر مقامی باشندوں یعنی سلافی نسل کے عیسائیوں کو آباد کرنا شروع کر دیا گیا اور اس پر طرہ یہ کہ مقامی زمینیں ان نو آباد کاروں کو دے دی گئیں۔ تاتاریوں کی زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا۔ ہزاروں مزاحمت کاروں کو ہلاک کر دیا گیا، محض چھ سال میں تاتاری مسلم علاقوں کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اس سہ طرفہ زیادتی کے نتیجے میں مسلمانوں کی بڑی اکثریت اپنے ہم مذہب اور ہم نسل عثمانی علاقوں کی طرف ہجرت کر گئی جو معاشی طور پر بھی ان کے لیے فائدہ مند تو تھی لیکن اس جبری ہجرت کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ ہی عرصے میں کریمیا مسلم اقلیتی علاقہ بن گیا اور محض چھ سال کے عرصے میں تین لاکھ مسلمانوں کو عثمانی علاقوں کی جانب ہجرت کرنا پڑی۔ ان ہجرتوں کے نتیجے میں کریمیا اور ملحقہ تمام علاقے جہاں اٹھارویں صدی تک مسلمانوں کی حکومت تھی وہاں زار غالب آ گئے اور مسلمان اقلیت میں آ گئے۔ باقی آبادی جو رہ گئی جنگ عظیم دوم میں جوزف اسٹالین کے دور میں مکمل طو ر پر کریمیا سے بے دخل کر دی گئی۔ اس مسلم آبادی کو کسی طور پر سقوطِ غرناطہ سے کم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہاں البتہ دونوں سانحات میں فرق یہ ہے کہ کریمیا کے تاتاری مسلمانوں کے بارے میں ہم بہت کم واقف ہیں۔
سورگون (''جلاوطنی'' بزبان کریمیائی تاتاری اور ترکی) ١٩٤٤ء میں کریمیا کے تاتاریوں کی موجودہ ازبکستان کی جانب ہجرت اور قتلِ عام کو کہا جاتا ہے۔ سوویت اتحاد میں جوزف اسٹالین کے عہد میں ١٧مئی ١٩٤٤ء کو تمام کریمیائی باشندوں کو اس وقت کی ازبک سوویت اشتراکی جمہوریہ میں جبراً منتقل کر دیا گیا تھا۔ اسٹالین عہد میں ملک کے خلاف مبینہ غداری کی سزا اجتماعی طور پر پوری قوموں کو دینے کی روش اپنائی گئی جس کا نشانہ کریمیا کے تاتاری باشندے بھی بنے جن پر الزام تھا کہ انہوں نے نازی جرمنوں کا ساتھ دے کر روس کے خلاف غداری کا ثبوت دیا۔ اس جبری بے دخلی میں روس کے خفیہ ادارے ''این کے وی ڈی'' کے ٥٢ ہزار اہلکاروں نے حصہ لیا اور ایک لاکھ ٩٣ ہزار ٨٦٥ کریمیائی تاتاری باشندوں کو ازبک و قازق اور دیگر علاقوں میں جبراً بے دخل کیا گیا۔اس جبری ہجرت کے دوران مئی سے نومبر کے مہینے تک دس ہزار ١٠٥ تاتاری بھوک اور موسم کی شدت سے جاں بحق ہوئے، جو ازبک علاقوں کی جانب منتقل کیے گئے، جو کل باشندوں کا ٧٪ ہے۔ خفیہ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق ایک سال کے اندر ٣٠ ہزار تاتاری (کل مہاجرین کا٢٠ ٪) اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ کریمیائی تاتاریوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ تعداد ٤٦٪ تھی۔ 
اسٹالین کے عہد میں سزا کے طور پر جبری مشقت کا نظام ''گولاگ‘‘ قائم کیا گیا تھا۔ سوویت دستاویزات ثابت کرتی ہیں کہ کئی کریمیائی باشندوں کو اس نظام کے تحت جبری مشقت پر لگایا گیا۔ جبری مشقت کے اسی نظام کے تحت کریمیا کے تاتاری اور دیگر کئی قوموں کے باشندوں کو سائبیریا بھی بھیجا گیا۔ کریمیائی تاتاریوں کا مطالبہ ہے کہ ''سورگون'' کو منظم قتلِ عام قرار دیا جائے۔ کریمیا کے تاتاریوں کی جبری وطن بدری کی کہانی صدیوں پر محیط ہے اور ١٩٤٤ء اس جبری وطن بدری کا تسلسل ہے۔ یہ سلسلہ ١٩٣٨ء سے شروع ہوا جب روس نے کریمیا پر قبضہ کیا تو اس قتلِ عام اور جبری وطن بدری کی پردہ پوشی کی جاتی رہی مگر موجودہ دور خصوصاً ١٩٤٤ء اور اس کے بعد کے مظالم سامنے آ گئے ہیں۔ برائن گلن ولیمز کے مطابق روسی استعمار کے ظلم سے تاتاری اپنے ہی وطن میں ناپید ہونے لگے۔ تاتاریوں نے دو قسم کی ہجرت کی، ایک ہجرت کریمیا سے ان علاقوں کی طرف جو اس وقت سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھے، دوسری ہجرت پچھلی صدی میں روس کی باقی ریاستوں کی طرف ہوئی یہاں تک کہ تاتاریوں کو جبری طور پر روس کے دیگر علاقوں کو بھیجا گیا جن کی اکثریت کو جبری مشقت کیلیے سائبیریا لے جایا گیا، دوم غیر کریمیائی لوگوں کو بھاری تعداد میں کریمیا میں بسایا گیا جس کیلیے کئی طریقے استعمال کیے گئے۔ کریمیا سے نکالے گئے تمام افراد مسلمان تھے اور بسائے جانے والے تمام افراد غیر مسلم تھے۔ اس تمہید کا مقصد مسلمانوں کے اس طبقے کی جانب توجہ مبذول کروانا ہے جس سے ہمارے ٩٨٪ مسلمان ناواقف ہیں۔
ملک بھر میں مادرِ وطن سے غداری کے الزام میں جن افراد کو موت کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے اہم ٢٠ لاکھ روسی مسلمانوں کا قتلِ عام ہے جن میں چیچن، انگش، کریمیائی تاتاری، تاجک، باشکر اور قازق شامل ہیں۔ آج چیچنیا میں آزادی کی جنگ لڑنے والے جانباز سوویت عقوبت گاہوں سے بچنے والے افراد انہی کی اولاد ہیں۔ اسٹالن کے دور میں اپنے ہی عوام پر مسلط کی گئی اس جنگ میں خفیہ پولیس کے اسکواڈ کو کریمیائی عناصر کے خاتمے کا حکم دیا گیا اور اسٹالن کے مقرر کردہ جلاد لازار کاگانووِچ نے فی ہفتہ ١٠ ہزار افراد کے قتل کا ہدف مقرر کر رکھا تھا۔ اس عظیم قتلِ عام میں یوکرین سے تعلق رکھنے والے٨٠٪ دانشوروں کو قتل کیا گیا۔ ١٩٢٣ء اور ١٩٣٣ء کی سخت سردیوں میں یوکرین میں ہر روز ٢٥ ہزار افراد روسی افواج کی گولیوں یا بھوک و سردی سے موت کا نشانہ بنے۔ مورخ رابرٹ کوئسٹ کے مطابق یوکرین ایک بڑے مذبح خانے کا منظر پیش کر رہا تھا۔
معروف صحافی ایرک مارگولس ١٩٩٨ء میں یوکرین کی انہی اقوام گم گشتہ پر قلم اٹھایا۔ اپنی ’’اقوام گم گشتہ‘‘ میں مارگولس کہتے ہیں کہ روس بھر میں ٧٠ لاکھ افراد کے اس عظیم قتلِ عام اور ٢٠ لاکھ افراد کی جلا وطنی کو سوویت پروپیگنڈے کے پردوں میں چھپا دیا گیا۔ ان میں ٣٠ لاکھ مسلمان بھی شامل تھے جن میں ١٥ لاکھ کریمیائی اور قازق تھے۔ اس عظیم قتلِ عام پر بھی ان لوگوں کی یاد میں کوئی ہولوکاسٹ یادگار قائم نہیں کی گئی۔
مارگولس کمیونسٹ نواز مغربی دانشوروں کا بھی رونا روتے ہیں کہ انہوں نے روسیوں کے ہاتھوں اس قتلِ عام کا اقرار نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو فاشسٹ ایجنٹ کہا۔ امریکی، برطانوی اور کینیڈا کی حکومتوں نے علم ہونے کے باوجود اپنی آنکھیں بند رکھیں حتٰی کہ امدادی گروپوں کو بھی یوکرین جانے سے روکا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا اور امریکی صدر روز ویلٹ اور برطانوی وزیرِ اعظم چرچل نے اسٹالن سے قربتیں بڑھائیں، اس امر کا علم ہونے کے باوجود کہ اس کے ہاتھ کم از کم ٣٠ لاکھ افراد کے خون سے رنگے ہیں اور یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ہٹلر نے یہودیوں کے قتلِ عام کا آغاز بھی نہ کیا تھا۔ تو پھر حیرت ہوتی ہے کہ یہودیوں کے قتلِ عام کا اتنا واویلا کیوں کیا گیا۔ اسٹالن نے ہٹلر سے تین گنا زیادہ افراد کا قتل کیا اور برطانیہ اور امریکہ کا روس کے ساتھ اتحاد کرنا دراصل اس قتلِ عام میں شرکت کے مترادف تھا لیکن جرمنوں کو موردِ الزام ٹھہرا کر اس کا خراج مسلمانوں سے کیوں وصول کیا گیا؟



==================
مسلم ہولو کاسٹ: امت کا اجتماعی قتل عام
اس قدر غصہ، آنکھوں میں انتقام کے شعلے، کیا یہ سب ان کے مزاج کا حصہ ہے؟ ان کا گھریلو ماحول ہی ایسا تھا، یا یہ کسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں سے جذبہ رحم ختم ہو جاتا ہے۔ دنیا میں بسنے والے تمام انسان اپنے اندر خوبصورت دل، محبت کے جذبات اور ایک دوسرے کے ساتھ رحم اور ہمدردی کی خُو رکھتے ہیں۔ انہیں خونخوار اور ظالم دو خواہشات بناتی ہیں۔ ایک طاقت، غلبے اور اقتدار کی خواہش اور دوسری مسلسل ظلم اور جبر سہنے کے بعد ظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا جذبہ۔ دنیا کی تاریخ میں یہی دو جذبے ہیں جنہوں نے انسانی سروں کی فصلیں کاٹی ہیں، کھوپڑیوں کے مینار بنائے ہیں، شہروں، بستیوں اور قصبوں کو آگ لگائی ہے اور اپنے اقتدار کو مضبوط کیا ہے، یا پھر لوگوں کا جم غفیر اٹھا ہے، انہوں نے عدالتیں لگائیں، بڑے بڑے تیز چھروں سے بادشاہوں، ان کے اتحادیوں کے سر کاٹے، ان کے سروں کو لڑھکاتے ہوئے ٹھوکروں سے روندتے رہے۔ عوام سے غداری کر کے ظالموں کا ساتھ دینے والوں کے گھروں کو آگ لگائی گئی، انہیں قطار میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اقتدار اور غلبے کی خواہش سے جنم لینے والا ظلم اور قتل و غارت انسانوں میں انتقام اور غصے کو جنم دیتا ہے اور یہی دنیا کی تاریخ ہے، لیکن ہر دور کا مورخ بزدل، شاہ پرست اور اقتدار کا پروردہ ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ طاقتور بادشاہوں کے ظلم کو جائز اور ان کے خلاف جنم لینے والے انتقام کو غیرانسانی، غیر مہذب اور غیر اخلاقی تحریر کرتا رہا ہے۔ وہ حکومتوں کے خلاف اٹھنے والے لوگوں کو امن کے دشمن، بھیڑیے اور باغی کے القابات سے یاد کرتا رہا ہے۔

آج کا مورخ موجودہ دور کا میڈیا ہے۔ یہ بھی اسی طرح طاقت وروں کے شکنجے اور حکمرانوں کے خوف سے سہما ہوا ہے، جیسے ہر صدی کا مورخ ہوتا ہے۔ اس میڈیا کو پالنے اور پوسنے والے بہت چالاک ہیں۔ وہ خود تو عالمی اقتصادی جبر کا حصہ ہیں، اپنے مفادات کے لیے وہ ملکوں کے ملک تباہ کرتے ہیں، لیکن اپنے سرمائے سے چلنے والے میڈیا کا چہرہ انہوں نے آزاد رکھا ہوا ہے۔ جن عالمی کمپنیوں کے لیے ملکوں میں ظالم حکمرانوں کے اقتدار کو قائم رکھا جاتا ہے، انہیں انسانوں کے قتل عام کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے، جن عالمی کمپنیوں کے وسائل کی ہوس کے لیے ملکوں پر حملہ کیا جاتا ہے، ان کی بستیاں تاراج کی جاتی ہیں، وہی عالمی کمپنیاں دنیا بھر کے اس آزاد، اور خود مختار میڈیا کو سرمایہ فراہم کرتی ہیں۔ یہ آج کا مورخ میڈیا اسی کو ظالم ثابت کرتا ہے جس کے بارے میں یہ سرمایہ فراہم کرنے والے اقتدار پر قابض ظالم اسے حکم دیتے ہیں۔

کس قدر حیران کن بات ہے کہ انقلابِ فرانس کے دوران بڑے بڑے تیز دھار چھروں سے گردنیں کاٹنے والے، ان سروں کو گلیوں میں لڑھکانے والے، یہاں تک کہ بادشاہ لوئی کے سر سے دیر تک والی بال کھیلنے والے تو انسانی تاریخ کا رخ موڑنے والے تحریر کیے جاتے ہیں اور بادشاہ کو ظالم، لیکن آج کے میڈیا کے نزدیک عالمی امن قائم کرنے اور جمہوریت اور آزادی کے نفاذ کے لیے لاکھوں لوگوں کو قتل کرنا جائز ہے۔ اس کے مقابلے میں اٹھنے والے، انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے لوگ اگر سر کاٹتے نظر آئیں تو انہیں انسانی تاریخ کے درندے، وحشی اور جنگلی ثابت کیا جاتا ہے۔ یوکرین میں کیمونسٹ روسی انقلاب کے دوران 50 ہزار لوگوں کو گھروں سے نکال کر لائن میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دیا جائے تو اسے زار روس کے مظالم کے خلاف اٹھنے والی تحریک کا سنگ میل کہا جاتا ہے، لیکن موجودہ کارپوریٹ سرمائے سے جنم لینے والی عالمی طاقتوں کی غنڈہ گردی اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی قومی ریاستوں کے ظلم کے خلاف اٹھنے والوں کو دہشت گرد، شدت پسند اور عالمی امن کے دشمن قرار دیتے ہیں۔ اس با اختیار آزاد اور خود مختار میڈیا کا کمال دیکھیں کہ 9 جنوری 2010ء کو آسٹریلیا کے ایک سوچنے سمجھنے والے فرد ڈاکٹر ’’گڈیوں پولیا‘‘ نے عالمی عدالت انصاف میں ایک درخواست جمع کروائی جس کا عنوان ہے Muslim Holocaust,Muslim Genocide یعنی ’’مسلمانوں کا منصوبہ بندی کے ساتھ اجتماعی قتل عام‘‘ اس درخواست کا کوئی ذکر عالمی یا علاقائی میڈیا میں نہیں ملتا۔
یہ ایک ضخیم دستاویز ہے جس میں اس نے بے شمار شواہد کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ گزشتہ پچاس ساٹھ سالوں کے دوران مسلمانوں کے عالمی سطح پر قتل عام کی گنتی کروڑوں تک جا پہنچتی ہے۔

اس نے اس قتل عام کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک وہ مسلمان جن کو جنگوں، خانہ جنگیوں اور براہ راست حملوں کے ذریعے قتل کیا گیا، لیکن ان کے ساتھ ساتھ ان مسلمانوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے جنہیں اس طرح قتل کیا گیا کہ ان تک خوراک کی رسائی روکی گئی، ان کو بیماری میں دوائی نہ پہنچائی گئی، ان پر مختلف انداز سے وبائی امراض کے دروازے کھولے گئے اور انہیں بے موت مرنے دیا گیا ہے۔ اس کی مثال وہ 1943ء سے 1945ء تک بنگال میں پیدا کیے گئے مصنوعی قحط سے دیتا ہے جس میں چرچل جیسے دنیا کے محبوب رہنما نے وہاں خوراک کی ترسیل روکی تھی۔ تقریباً 70 لاکھ لوگوں کو مرنے دیا گیا تھا جن میں 95 فیصد کے قریب مسلمان تھے۔ جنگ عظیم کے دوران یہ سب سے بڑا مسلم ہولوکوسٹ تھا جس کا کوئی ذکر تک نہیں کرتا ،جبکہ اسی دوران یہودی ہولوکوسٹ جو 50 لاکھ کے قریب بتایا جاتا ہے، اسے آج تک میڈیا بھولنے نہیں دیتا۔

اس درخواست میں افغانستان کا مقدمہ سب سے پہلے بیان کیا گیا ہے جس میں اس نے اعداد و شمار سے ثابت کیا ہے کہ افغانستان میں امریکی حملے کے بعد سے اب تک 45 لاکھ افراد مر چکے ہیں اور 30 لاکھ لوگ ہجرت پر مجبور کیے گئے ہیں۔ مرنے والوں میں 37 لاکھ وہ عورتیں، بچے اور بوڑھے ہیں جن تک اس جنگ کی وجہ سے نہ دوائی پہنچنے دی گئی اور نہ خوراک۔ ان سب میں ظالم ترین عمل یہ تھا کہ طالبان نے افیون کی کاشت مکمل طور پر ختم کر دی تھی، لیکن امریکا نے آتے ہی اسے بحال کردیا، کیونکہ اس افیون کی کاشت سے امریکی معیشت میں سالانہ 60 ارب ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ منشیات استعمال کرنے والے امریکا میں ہیں۔ افغانستان سے کوڑیوں کے مول پر منشیات لی جاتی ہے اور ڈالروں میں وہاں بیچی جاتی ہے۔ اس وقت امریکا کی سرپرستی میں دنیا کی 90 فیصد منشیات افغانستان سے جاتی ہے، جبکہ طالبان نے اسے 2 فیصد تک کردیا تھا۔ اس افیون کی کاشت سے افغانستان میں ہر سال ایک لاکھ لوگ Opiate Drug Related موت کا شکار ہوتے ہیں۔ یوں 14 سالوں میں 14 لاکھ لوگ اس بھیانک کاروبار کی وجہ سے موت کی آغوش میں جا چکے ہیں۔ براہ راست قتل و غارت سے افغانستان میں 2 لاکھ لوگ مارے گئے جب کہ عراق میں اس سے 3 گنا لوگ لقمہ اجل بنے۔ سب سے بھیانک وہ اموات ہیں جو 5 سال سے کم عمر بچوں کی ہوتیں جو بھوک اور بیماری سے مر جاتے ہیں۔ افغانستان میں امریکا کے آنے کے بعد 26 لاکھ ایسے بچے دنیا کی بہاریں دیکھنے سے قبل ہی دنیا سے رخصت ہو گئے۔

عراق میں یہ صورت حال 1991ء میں پہلی عراق جنگ سے جاری ہے، جب اس پر خوراک اور دواؤں کی پابندی لگائی گئی تھی۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق 25 لاکھ عراقی براہ راست اور غیر محسوس پابندیوں کے ذریعے ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے بعد فلسطین کا مقدمہ اس درخواست میں ہے جس پر امریکا برطانیہ یورپی یونین اور آسٹریلیا نے مل کر اسرائیل کو مسلط کیا ہے جس کی وجہ سے ایک لاکھ فلسطینی قتل ہوئے، 2 لاکھ 5 سال سے کم عمر بچے بیماریوں سے مارے گئے اور ستر لاکھ بے گھر ہوئے۔ 1990ء سے لے کر 2005ء تک فرانس نے افریقہ کے مسلمان ملکوں الجزائر وغیرہ پر قبضہ کیا اور اپنے منظور نظر ظالم حکمران وہاں مسلط کیے جن ملکوں میں اب تک چودہ کروڑ کے قریب ایسی اموات ہو چکی ہیں۔ اریٹیریا، صومالیہ اور دیگر افریقی ممالک میں تو اموات کا شمار نہیں۔

آخر میں اس نے کہا ہے کہ اس دنیا میں ہوس اور حرص کا شکار کارپوریٹ بدمعاشوں نے فیکٹریاں لگا کر جو عالمی موسموں کو تباہ کیا ہے، جس سے گلوبل وارمنگ پیدا ہوئی ہے، اس گلوبل وارمنگ سے گزشتہ 50 سالوں میں کئی ارب لوگ لقمہ اجل بنے ہیں جو غریب ممالک کے تھے اور ان میں 3 ارب مسلمان تھے۔کیا اس درخواست میں دی گئی تصویر اور خونچکاں داستان کا آج کے مورخ میڈیا نے کہیں ذکر کیا، کوئی بریکنگ نیوز، کوئی ڈاکو منٹری، کوئی ٹاک شو، شاید کبھی نہیں، لیکن آج ایک امریکی، یورپی باشندہ اس قتل عام کے نتیجے میں جنم لینے والے انتقام کی وجہ سے اغوا ہو جائے، قتل ہو جائے، پھر دیکھیں ٹیلی ویژن، اخبارات، ریڈیو کیسے شور مچاتے ہیں، اتنا شور کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔
- See more at: http://zarbemomin.com.pk/index.php/oriya-maqbool-jaan/682-ummat-ka-ijtima-qatl-e-aam#sthash.eS5lygJD.dpuf


*کیوں کمزور مومنوں کو قتل کیا جاتا رہا ہے؟*
القرآن:
اور وہ ایمان والوں کو کسی اور بات کی نہیں، صرف اس بات کی سزا دے رہے تھے کہ وہ اس اللہ پر ایمان لے آئے تھے جو بڑے اقتدار والا، بہت قابل تعریف ہے۔۔۔۔۔
[سورۃ نمبر 85 البروج، آیت نمبر 8]

القرآن:
اور فرعون کے خاندان میں سے ایک مومن شخص جو ابھی تک اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا (6) بول اٹھا کہ کیا تم ایک شخص کو صرف اس لیے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا پروردگار اللہ ہے ؟ حالانکہ وہ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے روشن دلیلیں لے کر آیا ہے۔ اور اگر وہ جھوٹا ہی ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر پڑے گا (7) اور اگر سچا ہو تو جس چیز سے وہ تمہیں ڈرا رہا ہے اس میں کچھ تو تم پر آ ہی پڑے گی اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گذر جانے والا (اور) جھوٹ بولنے کا عادی ہو۔

تفسیر:
6: یہ صاحب کون تھے ؟ ان کا نام قرآن کریم نے نہیں لیا، بعض روایات میں کہا گیا ہے کہ یہ فرعون کے چچا زاد بھائی تھے، اور ان کا نام شمعان تھا۔ واللہ اعلم 
 7: یعنی جو شخص نبوت کا جھوٹا دعوی کرے، اسے اللہ تعالیٰ دنیا ہی میں رسوا کردیتا ہے، اس لیے اگر بالفرض یہ جھوٹے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں خود رسوا کردے گا، تمہیں ان کو قتل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

"پردہ-دار" خاتون کے ساتھ بدسلوکی پر کوئی ھیڈلائین نہیں۔



اور چہرہ پر "داڑھی" کی سنت سجانے والے بوڑھے بزرگوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے کون؟



==================

عالم اسلام کو استعمار کا نیا چیلنج
سمیع اللہ ملک، لندن
عرب کے نسبتاً پسماندہ ملک یمن کی شورش نے پورے عالمِ اسلام کو نہ صرف پریشانی سے دوچار کر دیا ہے بلکہ پاکستان سمیت پورے خطے کو فرقہ وارانہ فسادات اور تقسیم کے خطرے سے بھی روشناس کروا دیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اپنے پرانے اتحادی سعودی عرب کی حمائت پر اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایران کے حامی سیاستدان اور فرقہ پرست تنظیمیں متحد ہو کر پاکستان کی حکمتِ عملی کے خلاف متحرک ہو چکی ہیں۔ سیاسی سرگرمیوں سے بڑھ کر دھمکی آمیز انداز میں ایک طرف سعودی عرب کی حمائت پر حکومت کی مذمت کا عمل جاری ہے تو دوسری جانب یہی عناصر سوشل میڈیا پر حوثیوں کے حق میں مہم بھی چلا رہے ہیں۔ اپنی فرقہ وارانہ سرشت کے مطابق سعودی عرب کی مخالفت کرنے کے فوراً بعد آصف علی زرداری نے اپنا مؤقف اچانک کیوں بدلا اور حمائت کیوں کی، اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
یمن کی آج کی خطرناک صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ پون صدی سے جاری کشمکش کا تازہ اور سب سے خطرناک وار دکھائی دیتا ہے جس میں حوثیوں کو استعمال کیا گیا اور شاید آخری تجزیہ کے طور پر یہ حوثی ہی سب سے زیادہ خسارے میں دکھائی دیں کیونکہ اس وقت ایران ان کی پشت پناہی پر ہے۔ ان کی ذاتی حیثیت اور شناخت گم ہوتی جا رہی ہے۔ ماضی میں جھانکا جائے تو ایران کے ہتھے چڑھنے سے قبل حوثی فرقہ پرست نہیں تھے۔ ان کا تعلق شیعوں کے سب سے معتدل فرقہ زیدی سے تھا اور زیدیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ انتہا پسند نہیں اور نہ ہی مذہبی اختلافات کے حامی ہیں اور ان کے کوئی عالمی سامراجی عزائم بھی نہیں ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یمن ١٩٢٢ء سے مختلف مراحل میں فسادات کا شکار رہا مگر ان میں سے ایک بھی فساد فرقہ یا مسلک کی بنیاد پر نہیں ہوا اور ان کی وجوہات کبھی سیاسی تو کبھی قبائلی تھیں یہاں تک کہ یمن ١٠٦٢ء سے ١٩٩٠ء تک دو حصوں میں تقسیم رہا مگر اس کی وجہ بھی سیاسی تھی، فرقہ وارانہ نہیں۔
حوثی بھی اپنے شمالی یمن کے پہاڑی علاقہ صعدہ میں تحریک مومن نوجوانان کے نام سے ایک طویل عرصہ سے متحرک ہیں، قبائلی ہونے کے ناطے مسلح بھی تھے اور اپنے مسلک پر کاربند بھی مگر ان کی جانب سے دوسرے بڑے مسلک شافعی یا کسی کو بھی کوئی خطرہ محسوس ہوا نہ ہی ایسا جھگڑا پیش آیا یہاں تک کہ سعودی حکومت ان کی حامی تھی اور ایک زیدی شیعہ صدر علی عبداللہ صالحی حکومت کا ساتھ دیتے رہے ۔ ١٩٩٢ء میں حالات میں تبدیلی اس وقت واقع ہوئی جب تنظیم کی قیادت حسین بدرالدین حوثی نے سنبھالی اور تنظیم کا نام بدل کر انصاراللہ رکھتے ہوئے مسلح تربیت اور حکومت مخالف کاروائیوں کا آغاز کر دیا۔ تاہم اس وقت تک اس کا نعرہ فرقہ وارانہ نہیں تھا بلکہ حوثی قبائل کے حقوق کی بات کی گئی تھی جو معاً بعد ہی زیدیوں اور پھر شیعوں کے حقوق کے نعرہ میں بدل گئی اور ٢٠٠٢ء میں یہ تحریک باقاعدہ حکومت کیلیے خطرہ بن گئی۔
اس نے ٢٠٠٢ء سے ٢٠١٠ء تک اپنی حکومت کے خلاف چھ جنگیں لڑیں حالانکہ صدر صالح خود بھی ایک زیدی تھا مگر اس وقت تک معاملہ زیدیوں کے حقوق کے نعرہ سے شیعوں کے حقوق میں بدل چکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی حسین الحوثی زیدی عقیدہ چھوڑ کر اثنا عشری عقیدہ اختیار کر چکا تھا اور ایران سے باقاعدہ رابطے میں آ چکا تھا مگر چونکہ اس کا قبیلہ ابھی تک زیدی مسلک کے تحت دیگر مسالک سے احترام کا تعلق رکھتا تھا اس لیے اپنی اس تبدیلی کو خفیہ رکھا مگر٢٠١٠ء میں حسین الحوثی کے مارے جانے کے بعد اس کا چھوٹا بھائی عبدالمالک الحوثی تنظیم کا قائد بنا تو اس نے ساتھ ساتھ تبدیلیٔ مسلک کو بھی آگے بڑھایا اور سعودی عرب کے ساتھ بھی ایک جنگ کر ڈالی۔ عین انہی ایاّم میں امریکا کو القاعدہ کے خلاف ایک مسلح جتھے کی ضرورت تھی لہٰذا اس نے حوثیوں کو خوب نوازا اور جب ''عرب اسپرنگ'' کے دھوکے میں علی عبداللہ صالح کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو اس میں بھی امریکی رقوم کے ساتھ حوثی پیش پیش تھے مگر انہوں نے عبوری حکومت سے خود کو الگ رکھا بعد ازاں جب قومی مذاکرات کے پلیٹ فارم پر سب کو اکٹھا کیا گیا تو حوثی اس میں اس شان سے آئے کہ امریکیوں نے القاعدہ کے خلاف ان کی خدمات کے عوض انہیں حکومت میں ٤٠٪ حصہ دلوایا۔ توقع تھی کہ علی عبداللہ چونکہ سعودی عرب کے لاڈلے تھے اس لیے ان کا تختہ الٹ کر آنے والے کو سعودی قبول نہیں کریں گے کیونکہ نئی حکومت میں اکثریت کا تعلق اخوان (اصلاح پارٹی) سے تھا مگر یہ توقع پوری نہ ہو سکی اور سعودی حکومت کے ان سے انتہائی اچھے تعلقات استوار ہو گئے۔ حوثی اس دوران امریکی اتحادی کے طور پر مسلح ہوتے رہے اور امریکا نے بھی حوثیوں کے ایران سے بڑھتے ہوئے تعلقات پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ایران سے سمندر کے ذریعے اسلحہ اور میزائل تک یمن لائے گئے۔ 
اسی دوران حوثی تحریک نے اپنے مقاصد کے تحت دارالحکومت کا گھیراؤ کرتے ہوئے مکہ مدینہ تک جانے کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیے اور ایرانی عملہ نے انہیں مقبوضہ فوجی تنصیبات میں تربیت دینا شروع کر دی جس میں جہاز اڑانے کی تربیت بھی شامل تھی۔ یہاں تک کہ پوری دنیا میں اخوان کی حمائت کا دم بھرنے والی ایران کی حامی یہ ملیشیا پورے ملک میں اصلاح یعنی اخوانی قیادت کا قتلِ عام کرتی رہی یہاں تک کہ انہوں نے اصلاح (اخوان) کی یونیورسٹی تک کو لوٹ لیا اور اس پر قبضہ کر لیا مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے چند قدم پر واقع امریکی سفارت خانہ اور ان کا سٹاف یکسر محفوظ رہا اور آج تک محفوظ ہے بلکہ امریکی وزارتِ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ انہیں وہاں کوئی خطرہ نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ یمنی فورسز کہاں تھیں؟ انہوں نے اس صورتحال میں مزاحمت کیوں نہیں کی؟؟ تو حقائق یہ بتاتے ہیں کہ علی عبداللہ کی حکومت ختم ہو جانے کے بعد دو تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں، اوّل یہ کہ علی عبداللہ کی مسلکی بنیاد پر حوثیوں سے صلح ہو گئی اور دوسرے یہ الصالح نے سعودی سرزمین پر بیٹھ کر سعودی حکومت کے خلاف سازش کی اور فوج کو تقسیم کر دیا، ایک حصہ اس کا حمایتی قرار پایا، دوسرا جو شیعہ تھا کھل کر حوثیوں کے ساتھ جا ملا اور تیسرے حصے کو امریکا اور علی عبداللہ کی کوششوں سے غیر جانبداری کا سبق اس طرح پڑھا دیا گیا جس طرح کچھ لوگ ان دنوں پاکستان کو غیر جانبداری کا سبق پڑھانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عبداللہ صالح کی حامی اسپیشل فورسز اور حوثیوں کے حامی دستے ان سے جا ملے جن میں سے ایک سنی کرنل نے صالح سے الگ ہو کر مارب میں اپنی الگ اور آزادانہ حیثیت میں حوثیوں کی مزاحمت شروع کر دی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس جنگ نے سنیوں کی مجبوری بنا دی ہے کہ وہ القاعدہ میں پناہ ڈھونڈیں جو کہ مناسب نہیں لہٰذا وہ انہیں ایک متبادل پلیٹ فارم دے رہا ہے تاکہ وہ القاعدہ سے بھی بچیں اور اپنا دفاع بھی کر سکیں۔ 
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایران یہ تو تسلیم نہیں کر رہا کہ وہ حوثیوں کے پیچھے ہے مگر اس کی خبر رساں ایجنسی یہ اعلان کر چکی ہے کہ ان کا ایک جنرل قاسم حوثیوں کی مدد کے لیے جا چکا ہے اور دوسری جانب ریڈیو تہران سعودی عرب اور اس کے حامیوں خصوصاً پاکستان کے خلاف محاذ قائم کیے ہوئے ہے اور وہ حوثیوں کو حسینی لشکر قرار دے رہا ہے بلکہ یہاں تک کہ ایرانی نائب وزیرِ خارجہ نے بھی سعودی عرب کی حمائت کرنے والے ممالک کو دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ ان حالات میں جب باغی دارالحکومت سمیت ملک کے تمام اہم مراکز پر قبضہ کر چکے تھے تو سعودی عرب نے ان کی سعودی عرب کی جانب پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے یمن پر فضائی حملے شروع کر دیے ہیں۔ اس معاملہ میں اسے دس ممالک کی حمائت بھی حاصل ہے جن میں پاکستان اور ترکی بھی شامل ہیں مگر پاکستان نے ابھی تک اپنی فورسز کے حوالے سے فیصلہ منتخب پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا ہے اور اس پر بحث بھی شروع ہو چکی ہے البتہ اس بات کا کھلے عام اعلان کیا ہے کہ اگر سعودی عرب کی سالمیت کو کوئی بھی خطرہ ہوا تو پاکستان اس کے دفاع کیلیے اپنی پوری قوت سے جواب دے گا۔ تاہم ایک سے زائد بار یہ وضاحت آ چکی ہے کہ پاکستان یمن میں یا کسی بھی جگہ سعودی حملے میں شامل نہیں ہو گا۔
سعودی عرب کی عسکری مدد کے حوالے سے فیصلہ کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ پاکستان کے دونوں بڑے ذمہ داران اس فیصلہ پر متفق ہیں کہ سعودی حکومت کی ہر صورت مدد کی جائے گی اور سعودی سلامتی کیلیے ہر قدم اٹھایا جائے گا۔ مگر اس حکمتِ عملی کے ساتھ کہ پاکستان کو خطہ کی جنگ کا فریق نہ سمجھا جائے۔ اس حوالہ سے جب ایک ذمہ دار سے بات ہوئی کہ کیا یہ آپ کیلیے ممکن ہو گا تو جواب ملا کہ مشکل تو ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ پاکستان نے واضح اعلان کیا ہے کہ پاکستانی افواج حرمین شریفین کی سیکیورٹی تک محدود رہیں گی لیکن اس کا مطلب صرف حرمین شریفین کی عمارات ہی نہیں بلکہ اس طرف اٹھنے والے تمام اقدامات کو ابتدا ہی میں تہس نہس کر دیا جائے گا یعنی سعودی عرب کی سر زمین پر اگر کوئی حملہ ہوتا ہے تو پاک فوج اس وقت کے تقاضے کے مطابق اپنا کردار ادا کرے گی لیکن سعودی حکومت کے کسی فیصلہ کے تحت سعودی سرحدوں کے باہر کسی کاروائی میں شریک نہیں ہو گی۔
پاکستان کے وزیرِ دفاع نے آج پارلیمنٹ کو اعلیٰ سعودی حکام سے حالیہ ملاقات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب نے پاکستان سے فوری طور پر برّی، بحری اور فضائی مدد طلب کی ہے جس کے بعد وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے ہنگامی طور پر تینوں افواج کے چیف سے طویل ملاقات میں صلاح و مشورہ کیا ہے۔ پاکستان اپنے طور پر اس کی تیاری کر رہا ہے کہ کہ برادر ملک کے اس مطالبے پر کتنی افرادی قوت اور کس نوعیت کا جنگی ساز و سامان مہیا کرسکتا ہے۔ اس سوال پر کہ پاکستان میں جاری آپریشنز کے حوالہ سے کیا صورت ہو گی، ذریعہ نے بتایا کہ کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستان کیلیے یہ سب کچھ اچانک نہیں ہے بلکہ پاکستان کے حالات پر بھی پوری نظر تھی، فاٹا میں اس وقت آپریشن آخری مراحل میں ہے اور کئی علاقوں میں قبائل سے ذمہ داری کے معاہدے ہو چکے ہیں۔ وہاں پر پہلے ہی منصوبے کے تحت فوج کو مرحلہ وار نکالنے کا عمل اور مقامی آبادی کی کامیاب واپسی بھی جاری ہے۔ دوسری جانب کراچی آپریشن میں صرف رینجرز اور کسی حد تک کور ہیڈ کوارٹر مصروف ہے، اس کا اس جنگ میں کوئی کردار نہیں ہے اس لیے کراچی آپریشن اپنی طے شدہ رفتار سے اپنے اہداف تیزی سے حاصل کر لے گا۔
اس حوالہ سے بتایا گیا کہ البتہ انٹیلی جنس کی ذمہ داری میں اضافہ ہو گا کیونکہ خدشہ ہے کہ متحدہ اپنے فرقہ وارانہ کردار کو سامنے لا کر مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ اس کیلیے نگرانی کا عمل تیز کرنے اور انٹیلی جنس بڑھانے کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے۔ جب سے رینجرز کی طرف سے متحدہ کے مرکزی دفتر نائن زیرو پر چھاپے کے دوران سنگین الزامات میں ملوث مفرور ملزمان اور ممنوعہ اسلحے کو اپنی تحویل میں لیا گیا ہے اور عذیر بلوچ کی دبئی میں انٹرپول کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد حالات نے تیزی سے پلٹا کھایا ہے جس کی بناء پر اب کراچی آپریشن کو ناکام بنانے کیلیے کئی قوتیں درِ پردہ سرگرم ہو گئی ہیں۔ شنید ہے کہ پی پی پی کے افضل جدون، باغی علیٰحدگی پسند بلوچ رہنماؤں اور الطاف حسین مشترکہ طور پر کراچی آپریشن کو ناکام بنانے کیلیے مشترکہ پلان پر متفق ہو چکے ہیں جبکہ حال ہی میں پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر عاصم کی الطاف حسین سے خفیہ ملاقات کا تذکرہ بھی میڈیا پر آ چکا ہے۔ 
ادھر دفترِ خارجہ کے ایک ذریعہ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ایران کے اس مؤقف کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ یمن میں حوثی باغیوں کی سرپرستی نہیں کر رہا اس لیے یہ فیصلہ ایران کے خلاف نہیں ہے، نہ ہی پاکستان کسی فرقہ وارانہ لڑائی کا حصہ بننے کو تیار ہے البتہ امریکا کے حوالے سے اندرونی طور پر ایک تشویش کا پہلو موجود ہے کیونکہ یہ امریکا ہی تھا کہ جس نے نہ صرف حوثیوں کو مسلح کیا بلکہ دباؤ ڈال کر ان کو حکومت میں ٤٠٪ حصہ بھی لے کر دیا۔ اب بھی امریکا نے جہاں صرف ایرانی کردار پر معمولی سی تشویش کا اظہارکیا ہے وہاں سعودی قدم کی حمائت سے بھی کلی گریز کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ ایران کے ایٹمی امور سے صرفِ نظر کر کے خطے کے تمام ممالک کو ایک خصوصی پیغام دیا ہے کہ وہ اب اس خطے میں کسی نئے بگاڑ پر عمل پیرا ہے۔
دوسری جانب مسلکی تعصب اور خود کو سیکولر ثابت کرنے کی خاطر پیپلز پارٹی، اے این پی اور تحریکِ انصاف نے فوج سعودی عرب بھیجنے کی مخالفت کی ہے لیکن یو اے ای کے دباؤ پر زرداری صاحب نے ٢٤ گھنٹوں میں ہی اپنا مؤقف تبدیل کر لیا۔ میڈیا اور بیوریو کریسی میں موجود ایک پڑوسی ملک کی حمایتی لابی کے بھی فیصلہ کے خلاف متحرک ہونے سے حکومت کو پریشانی کا سامنا ہے۔ متحدہ بھی مخالف کیمپ میں شامل ہو گئی ہے اور فوج سعودیہ بھیجنے کی صورت میں ملک کے اندر فرقہ وارانہ کشیدگی کا ذکر دھمکی آمیز انداز میں کیا جانے لگا ہے۔ سرکاری اداروں کی جانب سے بھی انتباہ جاری کر دیا گیا۔ایک فرقہ وارانہ جماعت کے رہنماء کی لبنان جا کر حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ سے ملاقات کو بھی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
دراصل حکومت کو اندازہ نہیں تھا کہ سعودی عرب افواج بھجوانے کے اعلان پر اس قدر زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اے این پی کی جانب سے مخالفت کی بڑی وجہ اس جماعت کا نظریاتی پہلو ہے، وہ اسلام کے رشتہ سے کسی تعلق کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں، اپنے لبرل اور سیکولر تشخص کو قائم رکھنے کی خاطر وہ اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ اے این پی کے ایک ذریعہ نے بتایا کہ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ ان کی پارٹی تو ملکی آئین کی اسلامی دفعات تک کو نہیں مانتی، ایسے میں ان سے یہ توقع کیوں رکھی جا رہی ہے کہ وہ کسی مذہبی رشتہ سے افواج بھیجنے کی حمائت کرے گی البتہ اگر اقوامِ متحدہ کے تحت افواج بھجوانے کا فیصلہ آیا تو اے این پی کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ تاہم پیپلز پارٹی کا معاملہ اس سے تھوڑا زیادہ ٹیڑھا دکھائی دے رہا ہے۔ اپنے مسلکی پسِ منظر اور دیگر کئی معروف وجوہات کی بنیاد پر آصف زرداری کو سعودی حکمرانوں کو اور وہ انہیں زیادہ اہمیت نہیں دیتے، جب بھی پیپلز پارٹی کی حکومت آئی پاک سعودی تعلقات میں سردمہری دیکھی گئی، اس بار تو انتہا یہ رہی کہ کراچی ائیرپورٹ پر سعودی سفیر کی موجودگی میں سفارتکاروں پر لاٹھی چارج کی کوشش کی گئی اور انہیں اپنے مقتول سفارتکار کی نمازِ جنازہ بھی نہیں پڑھنے دی گئی اور انتہائی مشکوک انداز میں ایک سعودی فوجی افسر پر اسلام آباد ائیرپورٹ پر تشدد کا واقعہ بھی پیش آیا۔
دونوں فریقین کے درمیان یہی دوری ہے جس کے سبب پیپلز پارٹی نے اس معاملہ کی مخالفت کی۔ دوسری جانب پی پی پی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی میں ایک مخصوص فرقہ کے متشدد افراد کی تعداد کافی زیادہ اور مؤثر ہے۔ ماضی میں پی پی کے ایک سابق رہنماء فیصل رضا عابدی پر باقاعدہ فرقہ وارانہ کشیدگی میں ملوث ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں اور اس وقت وہ زرداری کے انتہائی معتمد شمار ہوتے تھے۔ان تعلقات اور پارٹی کی سیکولر سوچ کے سبب پیپلز پارٹی کا سعودی مخالف رویہ قابلِ فہم ہے اور ملکی اداروں کو بھی کوئی شک و شبہ نہیں تھا۔ وہ اس مخالفت کی توقع کر رہے تھے البتہ میاں نوازشریف کو زرداری صاحب سے بڑی توقعات وابستہ تھیں۔
تحریکِ انصاف کا مؤقف حیرانی سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس حوالہ سے پارٹی کے ایک رہنماء نے بتایا کہ دھرنوں کے دنوں میں ایران نواز وحدت المسلمین کی قیادت عمران خان کے کافی قریب رہی ہے اور آج بھی یہ قربتیں قائم ہیں۔ انہی ذرائع نے معاملہ سامنے آنے پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا اور تحریکِ انصاف کی قیادت کو یہ باور کرایا کہ پاکستان اپنے پڑوسی ملک کے خلاف جنگ میں شریک ہونے جا رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں عمران خان کو بعض غیر ملکی ذرائع نے بھی بریف کیا ہے کہ دنیا کی بڑی قوتیں ایران کے ساتھ معاہدہ میں جا رہی ہیں جس کی بناء پر ایران سے نہ صرف پابندیاں ہٹا لی جائیں گی بلکہ اس خطے میں ایران کو اہم کردار بھی سونپا جا رہا ہے۔ ایسے وقت میں پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ ایران کے خلاف جانا پاکستان کو سفارتی طور پر شدید نقصان پہنچائے گا۔ اپنی ایک میٹنگ میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں بادشاہت کی حمائت کرنے کی بجائے ایران کی جمہوری حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ 
دوسری جانب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سعودی مخالف پاکستان کے پڑوسی ملک کی لابی اس فیصلہ کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کر چکی ہے۔ اس لابی میں میڈیا اور بیوریو کریسی کے بعض بڑے نام بھی شامل ہیں اور حیرت انگیز طور پر سیاست، میڈیا اور بیوریو کریسی میں موجود ایک مخصوص مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ انتہائی اشتعال کے عالم میں اس فیصلہ کی نہ صرف مخالفت کر رہے ہیں بلکہ دھمکی آمیز انداز میں پاکستان کو فرقہ وارانہ دہشتگردی سے بھی ڈرایا جا رہا ہے۔دوسری جانب ایک سرکاری ذریعہ نے تصدیق کی ہے کہ ایک مخصوص گروپ کی جانب سے فرقہ وارانہ وارداتوں کا خطرہ ہے جس کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ متعلقہ ادارے ہر ممکنہ خطرے سے نمٹنے کیلیے تیار ہیں۔
حوثی باغیوں اور حکومت کی لڑائی نے یمن کی تقسیم کی بنیاد رکھ دی ہے۔ القاعدہ جنوب مغربی صوبوں کی سنی اکثریت کیلیے واحد امید بن گئی ہے، داعش نے بھی انٹری ڈال دی ہے مگر ابھی قدم جمانے کو جگہ کی تلاش جاری ہے البتہ سابق صدر الصالح کے حامی فوجی افسر نے وسطی صوبہ مارب میں آزادانہ سنی قبائلی فورس کھڑی کر لی ہے اور حوثیوں کے ساتھ شدید جنگ جاری ہے۔ سرکاری افواج کی مکمل عملداری صرف دو جنوبی صوبوں ابیان اور لہج تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ حیرت انگیز طور پر داعش نے سعودی حملہ کی شدید مخالفت کر دی جبکہ القاعدہ خاموشی کے ساتھ اپنی حمایت میں اضافہ کرتی جا رہی ہے۔ انہی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے القاعدہ نے اپنے تین سو قیدیوں کو بھی جیل سے رہا کروا لیا ہے جو شدید دہشتگردوں کی فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انصار الشریعہ نام کی ایک تنظیم بھی حوثیوں کی لڑائی سے فائدہ اٹھانے کی منتظر دکھائی دے رہی ہے۔
سعودی عرب کا پڑوسی ملک یمن جو ١٩٢٢ء سے ١٩٩٠ء تک شمالی اور جنوبی یمن کے نام سے دو الگ ممالک اور پرچموں کے ساتھ دنیا کے نقشے پر موجود تھا، ایک بار پھر تقسیم کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے لیکن یہ تقسیم شاید ماضی کے مقابلہ میں زیادہ تکلیف دہ اور دیرپا ہو گی۔ اطلاعات کے مطابق اس پوری لڑائی میں امریکا کا کردار بہت اہم اور پراسرار دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف القاعدہ کے خلاف یمن میں ڈرون حملوں کے ذریعے پوری قیادت کو ختم کر دینے والا امریکا حوثیوں کے معاملہ میں اسی احتیاط سے کام لیتا دکھائی دے رہا ہے جو اس نے مقتدیٰ الصدر کے معاملہ میں دکھائی تھی۔ واقعاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکا نے ٢١ مارچ کو ہی یمن میں موجود اپنی فورس کو نکال لیا تھا۔ یمن میں امریکا کی اسپیشل آپریشن فورس کے دستے موجود تھے جن میں گرین بیرٹ اور نیوی سیل دونوں کی نفری تھی مگر اسے ٢١ مارچ کو اچانک وہاں سے نکال کر القاعدہ کے خلاف آپریشن کو روک دیا گیا جبکہ دوسری جانب امریکی سفارت خانہ اپنی جگہ پر کام کر رہا ہے اور امریکی دفترِ خارجہ نے پورے اعتماد کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ ان کے سفارت خانے کو یمن میں کوئی خطرہ نہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ داعش کا رویہ بھی امریکا کی طرح ہی ناقابلِ فہم ہے۔ داعش کے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ سے سعودی حکومت کی مداخلت کی مخالفت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سعودی حکومت نے یہ اچھا اقدام نہیں کیا۔ وہ امریکا کے ایجنڈے پر ہے جبکہ یہی الزام سعودی حکومت پر ایران بھی لگا رہا ہے۔ داعش نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس خطہ میں صرف دو قوتوں کے درمیان لڑائی ہے، ایک وہ جو اللہ کے قانون کو مانتا ہے اور دوسرا گروہ جو قابض حکمرانوں کا ہے۔ یمن کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کو دیکھتے ہوئے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ حوثیوں کے اس اقدام اور اس کے خلاف سعودی ردِعمل نے ختم ہوتی ہوئی القاعدہ کو نئی زندگی بخش دی ہے۔ اسی ذریعہ کے مطابق امریکی ڈرون حملوں میں القاعدہ کی قیادت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور جنوب مغربی صوبوں کی سنی آبادی القاعدہ پر زیادہ اعتماد نہیں کر رہی تھی۔ یمن کے اپنے قبائلی نظام میں القاعدہ کی جگہ بننا مشکل تھا۔ یہی وجہ رہی کہ القاعدہ کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی لیکن اب جبکہ حوثی قبائل اپنے مرکز صعدہ سے نکل کر صنعا اور عدن پر قابض ہونے کے بعد جنوب میں مارب کی طرف بڑھ رہے ہیں تو ایسے میں مغرب کی سنی آبادی کا خوفزدہ ہو کر القاعدہ سے پناہ مانگنا اور ان کیلیے دروازے کھولنا قابلِ فہم دکھائی دے رہا ہے۔

==============
بھارت کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ
سمیع اللہ ملک، لندن

بالآخر برہمن پڑوسی نریندر مودی نے اپنی ہٹ دھرمی اور دہشت گردی سے پاکستان کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ امن و دوستی کی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر معاملہ اٹھائیں اور سیکورٹی فورسز کی برسوں کی محنت سے اکٹھے کیے گئے شواہد اور دیگر مصدقہ ثبوتوں پر مشتمل مواد ان ممالک کے سامنے پیش کر کے دنیا کی بڑی جمہوریت اور امن کا راگ الاپنے والوں کا اصلی چہرہ بے نقاب کریں۔ اس سے قبل پاکستان آرمی چیف جنرل راحیل نے یہ تمام ثبوت اپنے دورۂ امریکا کے دوران امریکی حکام کو پیش کیے تھے جس کے سبب جان کیری نے اپنے دورۂ دہلی کے موقع پر بھارتی حکومت سے دو ٹوک بات کی مگر اوباما کے دورے میں یہ ایشو پسِ منظر میں چلا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف کی خواہش تھی کہ پڑوسیوں کی اشتعال انگیز حرکتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے امن کی بات کی جائے اور تجارت کی بنیاد پر تعلقات کو آگے بڑھایا جائے تو کاروباری بنیادوں پر امن کا قیام ممکن ہے۔ اسی جذبے کے تحت نریندر مودی کی حلف برداری میں شرکت کی اور ان کی والدہ کیلیے نہ صرف تحفے بھی دیے بلکہ نواز شریف نے مودی کی اشتعال انگیزیوں پر بھی خاموشی اختیار کیے رکھی اور حکومت کے تمام ذمہ داران کو بھی خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ عین عید کے ایّام میں سیالکوٹ کے سرحدی دیہات اور آزاد کشمیر کے ایل او سی سے متعلق دیہات کے خلاف بھارتی دہشتگردی پر بھی پاکستان کے وزیرِ اعظم نے دنیا کو خاموشی کا پیغام دیا اور کوئی بھی سخت بیان یہاں تک کہ احتجاجی بیان بھی جاری نہیں کیا گیا۔
خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات کے خاتمے کے موقع پر بھارت نے انتہائی احمقانہ جواز پیش کیا اور کشمیری قیادت سے پاکستان سفارت کاروں کی ملاقاتوں کو جواز بنایا مگر وزیرِ اعظم نے خاموشی اختیار کی اور کوئی بھی ایسا ردِّ عمل نہیں دیا جو ماضی میں دیا جاتا رہا یہاں تک کہ پی آئی اے کے مسئلے پر بھی وہی امن پسندی غالب رہی مگر اب بتایا جا رہا ہے کہ پیمانۂ صبر لبریز ہو چکا ہے کیونکہ تمام ثبوت و شواہد وزیرِ اعظم نے خود دیکھ کر اگلی کاروائی کا فیصلہ کیا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف حکومتی اقدامات کی براہِ راست نگرانی نے نواز شریف کو پڑوسی ملک سے اچھے تعلقات کیلیے جھکتے چلے جانے کی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ دہشتگردی کے معاملات میں براہِ راست بھارتی مداخلت کے ناقابلِ تردید ثبوت دیکھنے کے بعد وزیرِ اعظم نے بھارت اور مداخلت کرنے والے دیگر ممالک سے براہِ راست بات کرنے اور عالمی سطح پر ان کے کرتوت بے نقاب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس سلسلے میں وزارتِ خارجہ اور دیگر متعلقہ اداروں کو تیاری کی ہدایات دی جا چکی ہیں۔
١٦ دسمبر کو پشاور اسکول پرحملہ جہاں اندرونِ ملک دہشتگردی کے خلاف قوم کے رویہ میں یکسوئی کا سبب بنا وہیں اس کے بعد کے واقعات نے حکومتی پالیسیوں کو بھی شدید متاثر کیا خصوصاً ہر قیمت پر بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی وزیرِ اعظم کی خواہش کو اس وقت سخت دھچکا لگاجب انہیں پشاور اسکول حملہ میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت پیش کیے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ وزیرِ اعظم نے خطے میں کشیدگی پیدا کرنے کی بجائے امریکا کو درمیان میں ڈال کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی مگر انہیں اس میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ باوجود اس کے کہ جان کیری نے بھارت کو سخت پیغام دیا مگر امریکی صدر کے دورۂ بھارت میں یہ پیغام دب کر رہ گیا اور ثابت ہو گیا کہ امریکا بھارت کو دہشتگردی سے روکنے میں سنجیدہ نہیں کیونکہ پاکستان کے مواد کے جواب میں اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا لہٰذا انہوں نے اسے تسلیم کر لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ کراچی، بلوچستان اور فاٹا میں آپریشن کے دوران عسکری اداروں کو دستیاب ہونے والے بعض شواہد اس قدر مستحکم ہیں کہ وزیرِ اعظم خود اس حوالے سے حیرانی کا شکار ہو گئے۔
دوسری جانب بعض گرفتار دہشتگردوں نے بھی تفتیش کے دوران بہت کچھ بے نقاب کر دیا ہے جبکہ قندھار میں بھارتی نیشنل سیکورٹی کے ایڈوائزر کی ٹی ٹی پی پر قیادت سے ملاقاتوں کے ثبوتوں، دبئی اور لندن کے علاوہ بھارت میں دہشتگرد بلوچ رہنماؤں کی ''را'' کے ذمہ داران سے ملاقاتوں کی تصاویر، بعض کی ویڈیوز اور بعض کے حوالے سے دیگر دستاویزی ثبوتوں سے انہیں یقین ہو گیا ہے کہ بھارت فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں دہشتگردی کی وارداتوں میں پوری طرح سے ملوث ہے۔ سیکورٹی اداروں نے یہ تمام ثبوت جن میں آڈیو، ٹیلیفون پر ہونے والی گفتگو کے ٹیپ، ویڈیوز ہیں اور افغانستان میں تربیتی مراکز کی تفصیلات ہیں اور ائیر ٹکٹ بعض غیر ملکی اکاؤنٹس کی تفصیل، دہشتگردوں کو دیے گئے بھارتی پاسپورٹوں اور جعلی افغان پاسپورٹوں کی تفصیلات بھی اس میں شامل ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ یہ بھاری بھرکم مواد اور سمجھوتہ ایکسپریس کی بھارتی دہشتگردی اور حالیہ دنوں میں کشتی ڈرامہ کی تفصیلات کے بغیر بھی بہت جاندار ہے اور اس کا ایک حصہ امریکی حکام سے شیئر کیا گیا تھا جس پر انہیں بھارت کو ڈانٹنا پڑا۔
وزیرِ اعظم نے اس تمام مواد پر تمام متعلقہ اداروں اور ساتھیوں سے مشاورت مکمل کر لی ہے یہاں تک کہ فیصلوں کے آخری دنوں میں پاکستان آتے ہوئے دہلی میں پاکستان ہائی کمشنر عبدالباسط سے بھی مشاورت کی جا چکی ہے اور وزیرِ اعظم کی ہدایات پر وہ دہلی میں اپنی حکمتِ عملی مکمل کر چکے ہیں گویا حکومت پوری تیاری کے ساتھ عالمی سطح پر اس معاملے کو اٹھانے جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں انٹرنیشنل میڈیا کو بھی ثبوت فراہم کیے جائیں گے۔
اسلام آباد سے ایک ذریعے نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت پاکستان نے چین سمیت اپنے دوست ممالک سے بھی مشاورت کی ہے اور اس سلسلے میں حکمتِ عملی کو آخری شکل دی جا رہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم اور عسکری قیادت اس امر پر متفق ہیں کہ اگر غیر ملکی مداخلت کا راستہ نہ روکا گیا تو پاکستان میں سخت ترین آپریشن کے بعد بھی دہشت گردی کا پوری طرح سے خاتمہ ممکن نہیں ہے لہٰذا ہر سطح پر دشمن پر بھرپور دباؤ ڈال کر اندرون اور بیرون سطح پر آپریشن کے نتائج کو مستحکم بنایا جائے اور اس سلسلے میں بنیادی کردار وزیرِ اعظم خود ادا کر رہے ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان نہ صرف اس دہشتگردی پر بھارت سے جواب طلب کرے گا بلکہ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر بھی بھارت سے جواب مانگا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت جب پاکستان پوری دنیا سے مل کر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے تو خود اس کے خلاف غیر ملکی دہشتگردی پر عالمی برادری خاموش کس طرح رہ سکتی ہے؟ کہا گیا ہے کہ اس وقت امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان اس وقت امریکا سے بھی یہی سوال اٹھانے جا رہا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے خلاف دہشتگردی سے روکا کیوں نہیں جا رہا؟
اطلاعات کے مطابق حکومتی سطح پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب کھل کر بات ہو گی۔ نہ صرف حالیہ ثبوتوں کی روشنی میں مودی سرکار سے بات کی جائے گی بلکہ سمجھوتہ ایکسپریس کے خلاف کاروائی اور کشتی ڈرامہ پر بھی جواب طلبی کی جائے گی۔ اس حوالے سے ایک اہم اجلاس جلد ہو گا اور اس کے ساتھ ہی حکمتِ عملی کی منظوری دے دی جائے گی کیونکہ حکومت اور عسکری قیادت کسی بھی سطح پر دہشتگردی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایک حکومتی ذریعے نے بتایا کہ وزیرِ اعظم پہلے سے بھی آگاہ تھے مگر ان کی خواہش تھی کہ اگر معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کر لیے جائیں تو زیادہ بہتر ہو گا مگر بھارت کے رویے نے وزیرِ اعظم کو پالیسی بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق افغان صدر اشرف غنی سے بھی اس حوالے سے دوٹوک بات کی جا رہی ہے کہ وہ افغان سرزمین سے بھارتی مداخلت ختم کریں۔ اب اسے مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے عبداللہ عبداللہ سے بھی حتمی بات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے تصدیق کی ہے کہ بھارت ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی کاروائیوں میں مصروف ہے۔ ماضی میں دیکھا جائے تو سمجھوتہ ایکسپریس اور حال ہی میں کشتی جلا دینے کا واقعہ اس کی عملی مثال ہے۔ چند روز قبل بھارت نے شور مچایا تھا کہ یکم فروری کے آس پاس بھارتی کوسٹ گارڈ نے ایک کشتی کو بھارتی حدود میں گھستے دیکھ کر روکا اور مقابلے پر کشتی میں آگ بھڑک اٹھی۔ بھارتی الزام تھا کہ اس کشتی کے ذریعے پاکستانی دہشتگرد ممبئی پرحملہ کرنا چاہتے تھے مگر ثبوت مانگنے پر خاموشی چھا گئی جبکہ چند روز قبل بھارتی کوسٹ گارڈ کے ڈی آئی جی بی کے لوشال نے اعتراف کیا کہ کشتی میں دہشتگرد نہیں بلکہ ماہی گیر تھے جنہیں مار ڈالنے کا حکم دیا گیا اور یوں کشتی جلا دی گئی۔ بھارتی حکومت نے جھوٹ بے نقاب کرنے والے اس ڈی آئی جی کو سرکاری مؤقف کے خلاف بات کرنے پر برطرف کر دیا ہے تاکہ کسی بھی عالمی تحقیقات کے موقع پر ڈی آئی جی کو بیان دینے سے بچایا جا سکے۔

نجی ٹی وی پر خواجہ آصف نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے دہشتگرد عناصر بھارتی پاسپورٹ پر نہ صرف سفر کرتے ہیں بلکہ بار بار مشوروں کیلیے بھارت بھی جاتے ہیں اور وہاں سے آ کر دہشتگردی پھیلاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپریشن عضب پر بھارت غضب ناک ہو گیا اور اس نے پاکستانی سفارتکاروں کی کشمیری قیادت سے ملاقاتوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ پاکستان جانتا ہے کہ بھارت اسے عالمی سطح پر بدنام کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ پاکستان اس سازش کی جزئیات کو بھی جانتا ہے اور اس سے نمٹنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اس وقت پاکستان ایک طرف سرحد پر دہشتگردی سے نمٹنے کی تیاری کر رہا ہے تو دوسری جانب قومی سطح پرعوام کو کہا جا رہا ہے کہ وہ اردگرد نظر رکھیں تاکہ دہشتگردی سے بچا جا سکے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر حکومت یہ تمام اقدامات سال پہلے ہی کر لیتی تو ملک دہشتگردی کی لعنت سے پاک کرنے کا کافی فاصلہ طے کر لیتا۔

================
سرینگر اور سبز ہلالی پرچم
سمیع اللہ ملک، لندن
پاک چین کے حالیہ تجارتی معاہدوں کے بعد خطے میں جہاں ڈرامائی تبدیلیوں کی توقع ہے وہاں بھارتی میڈیا دن رات دل کی بھڑاس نکالنے میں مصروف ہے حالانکہ امریکی صدر اوباما کے دورے پر پاکستان کی طرف سے قطعی کوئی ایسا ردِّعمل نہیں آیا جبکہ اس وقت بھارت انگاروں پر لوٹ رہاہے اس پر مستزاد کشمیر میں حالات نے ایسی کروٹ لی ہے کہ بی جے پی جو مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کے بعد اقوام عالم کو یہ اپنا اندرونی مسئلہ قرار دیکر دھوکہ دینے میں مصروف تھی اب کشمیری عوام کی طرف سے بھرپور احتجاج اور پاکستان سے یکجہتی کے عزم کو دیکھ کر ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ہیں جبکہ اب بھی کچھ آزاد خیال لال بجھکڑ ہمسایہ ملک کے ساتھ بہتر تعلقات کیلیے پاکستان کو بھارت کا تابع معمول بنانے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ دراصل دخترِ ملت و اسلام محترمہ آسیہ اندرابی نے سبز پرچم لہرا کر اپنے خطاب میں جس سچائی کو بیان کیا ہے اس نے ایک مرتبہ پھر اس مظلوم قوم کی شجاعت پر مہر ثبت کر دی ہے کہ جس قوم کی ایسی جانثار بیٹیاں ہیں اس کو غلام بنانا نہ صرف ازحد مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ آج ساری دنیا کی انصاف و آزادی پسند قوتیں اس بہادر خاتون کو سلام پیش کر رہی ہیں اور ان کی قدر و منزلت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
جنت نظیر وادی سے آمدہ اطلاعات کے مطابق بھارتی فورسز کے ہاتھوں ترال میں دو نوجوانوں کی شہادت کے خلاف اور کشمیر کی آزادی کو اجاگر کرنے کیلیے سرینگر میں ریلی نکالی گئی جس کی قیادت کشمیر کے انتہائی قدآور مجاہد جناب سید علی گیلانی اور برادرم مسرت عالم سمیت متعدد کشمیری حریت پسند رہنماؤں نے کی۔ ریلی میں ہزاروں فرزندانِ اسلام شریک تھے جنہوں نے ''آزادی'' اور ''کشمیر بنے گا پاکستان'' جیسے نعرے بلند کیے۔ ریلی کے شرکاء ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم تھامے پاکستان کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی کے ایسے فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے جس کو دیکھ کر بی جے پی اور بھارتی حکومت سے تعاون کرنے والوں پر جہاں ایک لرزہ سا طاری ہو گیا وہاں ساری دنیا میں ان سے محبت کرنے والوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے عزم کو دہرایا کہ ہم کسی بھی قیمت پر اپنے ان مظلوم بھائیوں کی اعانت کیلیے تیار ہیں۔ ریلی کے شرکاء نے مسرت عالم کے نعروں کے جواب میں ''پاکستان زندہ باد'' کے فلک شگاف نعرے بلند کیے جبکہ سرینگر کی فضا مختلف بھارت مخالف نعروں سے بھی گونجتی رہی۔ شرکاء نے پاکستانی جھنڈے لہرا کر بھارتی سورماؤں کی سانسیں اکھاڑ دیں۔
اس گرم جوش واقعے کی جو رپورٹنگ بھارتی میڈیا میں ہوئی اس کے مطابق مقبوضہ علاقے میں پاکستان کے جھنڈے دیکھ کر اور پاکستان کے حق میں ولولہ انگیز و پُرجوش نعروں کی گونج سن کر بھارتی حکمران ہی نہیں بلکہ بھارتی میڈیا بھی تلملا اٹھا ہے۔ بھارتی انتہا پسند اور متعصب میڈیا نے اہلِ کشمیر کے جذبات دیکھ کر کہا: ’’یہ بھارتی حکومت کی کمزوری ہے‘‘۔ انہوں نے مسرت عالم اور دیگر حریت پسند رہنماؤں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان پر بغاوت کے مقدمات قائم کرنے کا مطالبہ کیا جس کے بعد بھارتی فورسز نے مسرت عالم سمیت کئی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا اور آخری اطلاعات کے مطابق مسرت عالم پر پولیس اسٹیشن بڈگام میں ایف آئی آر زیر نمبر ٢٠١٥/٩٢،، غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون کی دفعہ ١٣ کے علاوہ آر پی سی کی دفعات ٣٣٦/٣٤١/١٤٧/١٢٠بی/ اور ٤٢٧ کے تحت بغاوت اور غداری کے سنگین الزامات عائد کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ ابھی حال ہی میں مسرت عالم کو طویل اسیری کے بعد رہا کیا گیا تھا۔
دراصل اس ولولہ انگیز ریلی نے بھارتی میڈیا اور انتہا پسندوں کے سینوں میں آگ لگا دی ہے۔ کشمیر کے بزرگ رہنماء جناب سید علی گیلانی جب دہلی سے سرینگر ہوائی اڈے پر پہنچے تو ان کو ایک ریلی کی شکل میں سرینگر کے علاقے حیدرپورہ لایا گیا۔ اس موقع پرخطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ تنازعہ کشمیر پاک بھارت تنازعہ نہیں بلکہ سہ فریقی مسئلہ ہے۔ بھارت نے جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ معاملہ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مفتی سعید اعلان کریں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں ہے۔ کشمیریوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ان پر تادیر ظلم جاری نہیں رکھا جاسکے گا۔ بھارت نے طاقت کے بل بوتے پر کشمیریوں سے ان کا حقِّ خود اردایت چھین لیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مسرت عالم اور دیگر گرفتار شدہ حریت پسندوں کو فوری رہا کیا جائے۔
حریت پسند ریلی سے ممتاز کشمیری رہنماء ظفر اکبر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں فوجی طاقت استعمال کی جا رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کالا قانون لاگو کیا جا رہا ہے مگر کشمیری اپنی آزادی کیلیے جدوجہد جاری رکھیں گے اور کسی قسم کے ظلم و ستم کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ ان کی جدوجہد برسوں سے جاری ہے، بے مثل قربانیوں سے معمور یہ تحریک اب رکنے والی نہیں۔ پاکستان تنازعۂ کشمیرکا اہم فریق ہے۔ احتجاجی ریلی کے شرکاء اس مرحلے پر بڑے پرجوش انداز میں یہ نعرے بلند کر رہے تھے ''کشمیریوں کو کیا چاہئے؟ آزادی، آزادی، گو انڈیا گو، پاکستان زندہ باد''۔ اس دوران جب پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بھی لہرایا گیا تو ریلی کے شرکاء کا جوش و خروش قابلِ دید تھا۔ادھر کشمیر کی کٹھ پتلی انتظامیہ نے لوگوں کو ترال میں ایک جعلی مقابلے میں دو نوجوانوں کے قتل کے خلاف، بھارت کے خلاف اور آزادی کے حق میں مظاہرے کرنے سے روکنے کیلیے ضلع پلوامہ میں پابندیاں عائد کر دیں۔ بڑی تعداد میں بھارتی فوجی اور پولیس اہلکاروں کو ضلع میں تعینات کر دیا گیا تاہم لوگ پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور بھارت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا۔ کشمیر یونیورسٹی کے طلباء نے بھی سرینگر میں زبردست مظاہرے کیے۔ طلبہ نے جامِ شہادت نوش کرنے والوں کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی اور ''ہم کیا چاہتے ہیں، آزادی اور گو انڈیا گو'' کے نعرے بلند کیے۔ طالب علم رہنماؤں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کٹھ پتلی وزیرِ اعلیٰ مفتی سعید کشمیر کے سب سے بڑے غدار ہیں جنہوں نے ہمیشہ کشمیریوں کو دھوکہ دیا ہے۔
دخترانِ کشمیر بھی اپنے بھائیوں پر مظالم کے خلاف احتجاج میں حسبِ سابق کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔ ترال واقعے کے خلاف حریت پسند تحریکِ خواتین کی سربراہ زمرد حبیب کی قیادت میں سرینگر میں مارچ کیا جس میں مختلف حریت گروپوں کی خواتین کارکنوں نے شرکت کی۔بناتِ کشمیر کا احتجاجی مارچ آبی گزر سے شروع ہوا اور پریس کالونی سرینگر پہنچ کر اختتام پذیر ہوا۔ مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے۔ اس موقع پر زمرد حبیب نے سیاسی رہنماؤں اور کشمیری نوجوانوں کی نظربندی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیکڑوں بے گناہ کشمیری جیلوں میں نظر بند ہیں۔ اسی اثناء میں حریت پسند رہنماؤں؛ محمد مصدق عادل، مختار احمددارا، مشتاق السلام، محمدیوسف، عبدالمجید وانی، یاسین راجہ اور فاروق موسومی نے ترال کا دورہ کیا اور سوگوار خاندان سے اظہارِ تعزیت کیا۔ زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ محترمہ آسیہ اندرابی نہ صرف ترال میں سوگوار خاندان سے تعزیت کیلیے پہنچیں بلکہ مختلف اجتماعات میں عورتوں سے اپنے خطاب میں اپنے ایمان افروز خطاب سے کشمیر کی جدوجہد آزادی میں کشمیری خواتین کے بھرپور کردار کو اجاگر کیا اور بھارت کی مکروہ جمہوریت کا پردہ بھی چاک کیا۔آسیہ اندرابی نے اپنے ایک بیان میں اس بات کا بھی اظہار کیا کہ پولیس نے ہمارے بچوں کو گرفتار کر لیا ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ پولیس ہمارے بچوں کو کہاں لے گئی ہے۔ شبہ ہے کہ پولیس ہمارے بچوں کو ہلاک کر دے گی مگر پولیس اور ان کے بڑے سب جان لیں کہ مظالم تحریکِ حرّیت کو کچل نہیں سکیں گے۔ اس موقع پر تعزیت کرنے والے سیکڑوں حریت پسند بھی شریک تھے۔ 
ادھر حریت رہنماء میر واعظ عمر فاروق نے چرار شریف کا دورہ کیا۔ تحریک آزادی کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیا۔ بھارت نے کشمیریوں پر ظلم و ستم کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اس کے دوران گزشتہ مارچ میں بھارتی فورسز نے ٩ عام شہریوں کو شہید کر دیا جبکہ ٩٣ افراد کو اذیت ناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بھارتی فورسز نے دورانِ حراست بے گناہ افراد کو شہید کرنے کے علاوہ حریت پسندوں کی اندھادھند گرفتاریاں بھی جاری رکھیں۔ ١٧٨سویلین گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیے گئے۔ تا دمِ تحریر فورسز نے تین گھر تباہ کر دیے۔ تازہ مظالم میں صرف ایک واقعے میں دو خواتین بیوہ ہوگئیں جبکہ ٤ بچے یتیم کر دیے گئے۔ حریت کانفرنس کے انتہائی علیل بزرگ رہنماء جناب سید علی گیلانی کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔ ان کی نظر بندی میں بھارتی میڈیا کا بڑا کردار ہے جو بدھ کے روز نکالی گئی ریلی پر مسلسل اپنا سر پیٹ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ سرینگر کی گلیاں پاکستانی جھنڈوں سے کیوں آباد ہوئیں؟ادھر حریت رہنماء مسرت عالم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بھارت مخالف ریلی میں پاکستانی پرچم لہرانا کوئی معیوب بات نہیں کیونکہ ایسا ١٩٤٧ء سے ہوتا چلا آ رہا ہے جب بھارت نے طاقت کے بل بوتے پر وادی پر اپنا تسلط جما لیا تھا۔
۱۷ اپریل کو بھارتی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے شہریوں پر ظلم کی انتہا کر دی۔ قابض فوج نے بہیمت کی انتہا کرتے ہوئے پرامن مظاہرین پر گولیاں برسا دیں جس سے دو کشمیری شہید اور بارہ زخمی ہو گئے۔ میر واعظ عمر فاروق نے کہا فائرنگ ریاستی دہشتگردی ہے۔ اقوامِ متحدہ کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ دخترانِ ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی نے کہا ہے کہ حریت رہنماؤں کے خلاف مقدمات بھارتی بوکھلاہٹ ہے اور جب بھی موقع ملا میں دوبارہ پاکستانی ہلالی پرچم لہراؤں گی۔ بزرگ رہنماء جناب سید علی گیلانی کا کہنا تھا کہ ہمیں مقدمات خوفزدہ کر سکے ہیں اور نہ کر سکیں گے۔
اس دوران ترال میں دو نوجوانوں کی شہادت کے خلاف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ نے احتجاج کیا اور شمعیں روشن کیں۔ زبردست احتجاجی مظاہرے میں کثیر تعداد میں کشمیریوں سمیت دیگر طلبہ نے شرکت کی اور بھارتی فوج کے خلاف نعرے بلند کیے۔ ادھر مقبوضہ کشمیر کی کشیدہ صورتحال پر غور کرنے کیلیے حریت کانفرنس پاکستان اور آزاد کشمیر نے ٢٨ اپریل کو گول میز کانفرنس طلب کر لی ہے۔ ایک طرف مقبوضہ وادی میں نہتے کشمیریوں پر اندھادھند فائرنگ کی جا رہی ہے تو دوسری جانب کشمیری طلبہ کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ مسلمان دشمنی میں پیش پیش مودی سرکار نے کشمیری طلبہ کے وظائف روک لیے ہیں، بھارتی ریاست ہریانہ کے کئی نجی کالجز میں ١٣ کشمیری طلبہ کو امتحان دینے سے روک دیا گیا ہے، یہ طلبہ سرکاری وظیفے پر دو دو سمیسٹر دے چکے ہیں لیکن تیسرے سمیسٹر کیلیے مودی سرکار نے ان کا امتحان ہی روک دیا ہے۔ 
۱۸ اپریل کو مقبوضہ کشمیر میں سانحۂ ترال کے خلاف ہڑتال اور مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ بھارتی فوج نے بھی ظلم و ستم کی روایت برقرار رکھی۔ ایک اور واقعے کے خلاف پوری وادی میں مظاہرے شروع ہوئے۔ بزرگ کشمیری رہنماء سید علی گیلانی نے ترال میں بھارتی دہشتگردی اور مسرت عالم کی گرفتاری کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی تھی، ہڑتال کے موقع پر تمام دوکانیں، کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند جبکہ سڑکوں پر ٹریفک معطل رہی۔ قابض بھارتی انتظامیہ نے بھارت مخالف مظاہروں کی قیادت سے روکنے کیلیے سید علی گیلانی، شبیر احمد شاہ، محمد اشرف صحرائی، نعیم احمد خان، ظفر اکبر بٹ اور دیگر حریت رہنماؤں کو گھروں میں نظربند کر دیا جبکہ لوگوں کو مظاہروں سے روکنے کے لیے سرینگر اور دیگر بڑے قصبوں میں فوج اور پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد تعینات کر دی گئی تھی۔ اس کے باوجود لوگ مسرت عالم بٹ کی گرفتاری اور ترال میں نوجوانوں کے قتل عام کے خلاف بڈگام کے علاقے ناربل میں سڑکوں پر نکل آئے۔ گاؤں ناربل میں بھارتی دہشتگردی کے خلاف شہریوں کے مظاہرے پر قابض فوج نے دھاوا بول دیا۔ مظاہرین نے فوج پر سنگباری کی، دو اہلکاروں نے نویں جماعت کے طالب علم سہیل احمد صوفی کا پیچھا کر کے اسے قریب سے گولی مار دی جو اسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ معصوم شہادت کی اطلاع ملتے ہی بڈگام میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔مظاہرین پر قابض فوج نے فائر کھول دیا جس سے دو اور نوجوان زخمی ہو گئے۔ قابض فوج نے نوجوان کے بہیمانہ قتل کا اعتراف کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث دو اہلکار گرفتارکرلیے گئے ہیں۔
چینی صدر کے دورۂ پاکستان میں پاک بھارتی مذاکراتی عمل سمیت تنازع کشمیر پر بھی بات چیت ہوئی۔ حکومتِ پاکستان کے ذمہ دار ترین ذرائع نے بتایا ہے کہ چونکہ بھارت سے آئندہ مذاکراتی عمل شروع ہو رہا ہے اس لیے اس ضمن میں پاکستان کے انتہائی مخلص دوست چین کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ ذرائع کے مطابق مسئلہ کشمیر ہمارے لیے کور ایشو تھا اور ہے۔ بھارت سے مذاکرات بنیادی ایشوز پر ہی ہوں گے۔ ذرائع نے کشمیر کے اندر پیداشدہ صورتحال خصوصاً حالیہ کشیدگی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گرفتاریاں، نظر بندیاں اور شہادتیں ثابت کرتی ہیں کہ بھارت مختلف انتقامی ہتھکنڈوں سے کشمیر کی آواز دبانا چاہتا ہے مگر کیا یہ آواز پہلے دبی ہے جو اب دب جائے گی اور اب تو شہداء کا تازہ خون نئے ولولوں کو جنم دے چکا ہے اور نئے سیلاب کی راہ میں بند باندھنے کا دور دور کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق ١٩٨٩ء سے ٣١ مارچ ٢٠١٥ء تک دورانِ حراست اور پرتشدد واقعات میں مجموعی طور پر ٩٤١٦٦ کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا۔ دورانِ حراست ہلاکتوں کی تعداد ٧٠٢٧ ریکارڈ کی گئی ہے ۔ ١٢٨١٧٧بے گناہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ ٢٢٧٩٥ خواتین بیوہ ہو گئیں اور ١٠٧٥١٨ بچے یتیم ہو چکے ہیں ١٠١٣٠ خواتین بھارتی فوجیوں اور دیگر فورسز کی اجتماعی زیادتیوں کا نشانہ بنیں۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف پاکستان سے بھی احتجاج کی صدائیں بلند ہوئی ہیں۔ پاکستان نے سرینگر میں پُرامن کشمیریوں پر بھارتی فورسز کے ظالمانہ تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج ہر شہری کا حق ہے۔ دفترِ خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ بھارت کا کشمیر پر غاصبانہ قبضہ ہے اور اہلِ کشمیر وحشیانہ تشدد برداشت کر رہے ہیں جس کی حکومتِ پاکستان شدید مذمت کرتی ہے۔ ترجمان نے کہا ''پاکستان کشمیریوں کی سفارتی اور اخلاقی مدد کرتا رہے گا''۔
مختلف الخیال سیاسی جماعتوں بالخصوص جماعتِ اسلامی اور جماعت الدعوة نے بھارت کی تازہ بہیمت پر پُرزور احتجاج کیا۔ آنے والے دنوں میں دونوں تنظیموں اور دیگر جماعتوں بالخصوص نوجوانوں کی تنظیموں کے زیرِ اہتمام کشمیریوں کی حمائت میں مظاہروں کا پروگرام بنایا ہے۔ ادھر آصف علی زرداری نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے بڑھتے ہوئے مظالم پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سابق صدر نے مقبوضہ کشمیر میں بچو کے مقام پر پیش آنے والے واقعے پر تشویش کا اظہار کیا جس میں ایک ٢٤ سالہ نوجوان خالد وانی کو ایک جھوٹے مقابلے میں شہید کر دیا گیا۔ خالد شہید کو قتل کرنے سے قبل ان پر شدید تشدد کیا گیا، اس واقعے کے بعد علاقے میں شدید احتجاج ہوئے اور احتجاج کرنے والوں کا سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ تصادم بھی ہوا۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام کے علاوہ پورے بھارت میں مسلمان اور دوسری اقلیتیں مودی حکومت کے روز افزوں ظلم و ستم برداشت کر رہی ہیں۔نریندر مودی یورپین ممالک کے دورے میں سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل نشست کا پرچار کرتے رہے ہیں۔ ایک جانب بھارتی وزیرِ اعظم کا مطالبہ اور بلند بانگ جھوٹے دعوے اور دوسری جانب اندرونِ بھارت جمہوریت کشی، اقلیتوں کی تذلیل اور قتلِ عام لمحۂ فکریہ ہے۔ کشمیر کے مسئلے پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی پامالی اور بحیثیت مجموعی انسانی حقوق کی بدترین صورتحال دیکھتے ہوئے مودی کا یہ مطالبہ چوری اور سینہ زوری کے زمرے میں آتا ہے۔ اخبارات میں اے پی پی نے ممبئی سے ایک خبر جاری کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انتہا پسند ہندو جماعت شیو سینا کے رکن پارلیمنٹ سنجے راوت نے بھارتی مسلمانوں کو ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ بھارتی انتہا پسند جماعت شیو سینا کے رہنماء اور رکن پارلیمنٹ سنجے راوت نے پارٹی ترجمان اخبار سمنا میں تحریر کردہ ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ملکی سیاست سے ووٹ بینک کی سیاست کے خاتمے کے لیے مسلمانوں کو دیا گیا ووٹ دینے کا حق واپس لے لیا جائے۔ اگر مسلمان ووٹ کا حق مانگیں تو انہیں پاکستان میں دھکیل دیا جائے۔ کانگرس کے رہنماء سندیپ ڈکشٹ نے میڈیا کو بتایا کہ یہ غیر آئینی اقدام ہو گا اس کے خلاف سنجیدہ کاروائی کی جانی چاہیے۔
شیو سینا ہو یا راشٹریہ سیوک سنگھ یہ سب مودی کی محبوب تنظیمیں ہیں۔ بھارتی جنتا پارٹی میں مودی کی طرح بیشتر لوگ انہی تنظیموں سے ہو کر آئے ہیں۔ شیو سینا، بی این پی کی اتحادی جماعت ہے۔ایسے لوگوں کو یو این او میں رکنیت کی سیٹ دینا بھی سراسر ظلم ہے کجا یہ کہ سیکورٹی کونسل کی مستقل رکنیت دے دی جائے۔ یو این او میں بیٹھے بیشتر ممالک اپنے ملک و قوم کے درمیان مودی کی طرح کے مظالم نہ بھی ڈھائیں جو بھارتی حکومتوں کا معمول ہے جس کی ایک مثال سطورِ بالا میں دی گئی۔ دو معصوم کشمیری نوجوانوں کی بہیمانہ ہلاکت اور اسی پر کشمیر میں بھرپور احتجاج ہے تو دیگر ممالک اور ان کی آبادیوں کے ساتھ امریکی قیادت بھی، وہ بھی ایسا ہی سلوک کرتے ہیں؟ بھارت کی سیکورٹی کونسل کی ممبرشپ دلانے میں امریکا پیش پیش ہے۔ وہ اس خطے میں چین کے مقابلے میں بھارت کو کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکا پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ اس کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان اپنے آپ کو بھارت کا جونیئر ہمسایہ اور فرمانبردار بنا کر پیش کرے۔ اب یہ اسلامی ملکوں بالخصوص پاکستان کی فراست کا امتحان ہے کہ وہ سفارتی سطح پر کیا کارکردگی پیش کرتے ہیں۔ اگر بھارت ان عزائم میں کامیاب ہو گیا تو پاکستان کے لیے اپنی بقاء کی جنگ لڑنا مشکل ہو جائے گا۔
اسلامی ممالک کو متحد و متفق ہو کر یو این او کے فلور پر یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ مسلمان ملکوں میں سے کوئی ایک بھی سلامتی کونسل کا ممبر کیوں نہیں؟ حالانکہ وہ عالمی آبادی میں ٢٥ سے ٣٠ فیصد کا تناسب رکھتے ہیں۔ یہ حق مسلمانوں کو ملنا چاہیے کہ وہ اپنے میں سے کسی کو اس منصب کے لیے منتخب کر لیں اور پھر اس سیٹ پر اگر اپنے درمیان تبدیل کرنا چاہیں تو اکثریت کے ساتھ ان کو اس کا حق حاصل ہو۔پاکستان نے اب تک کشمیر کا کیس سنجیدگی کے ساتھ نہیں لڑا جبکہ اہلِ کشمیر اب بھی پاکستانیوں ہی کی طرف نگاہیں اٹھائے ہوئے ہیں۔وادی میں جبر و اکراہ کی بدترین کاوشوں کے سامنے سینہ سپر ہیں مگر پاکستان کا پرچم لہرانے سے گریز نہیں کرتے۔ عالمی سطح پر رائے عامہ بالکل اندھیرے میں ہے کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے۔ بھارت نہ صرف یو این او کی قراردادوں کے برعکس کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیے ہوئے ہے بلکہ وہ کشمیرکی قومیتی و مذہبی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ بھارت کا یہ عمل بھی ویسا ہی ہے جس طرح ناجائز طور پر وجود میں آنے والی صہیونی ریاست اسرائیل نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کر کے وہاں یہودی بستیاں آباد کر رہی ہے۔ اس طرح بھارت بھی کشمیر میں ہندو پنڈتوں کے نام پر مسلمانوں کے علاقوں میں ہندو آبادیاں اور بستیاں بسانے میں لگا ہوا ہے۔ اسلامیانِ پاکستان کے لیے فوری اور سنجیدہ توجہ کی متقاضی یہ حقیقت ہے کہ ایسا ملک کس منہ سے سلامتی کونسل کی رکنیت کا دعویدار ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان اور تمام سیاسی و سماجی تنظیمیں عالمی سطح پر بھرپور انداز میں سفارتی سطح پر بھرپور انداز میں سفارتی مساعی شروع کریں اور بھارتی مکروہ چہرہ بے نقاب کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔ سفارت کاری کو کشمیریوں کی جان کی بازی سے تقویت ملے گی تو عالمی سطح پر استعمار اور اس کے بغل بچوں کی امن سوز حرکات یقیناً خاک میں ملا دی جائیں گی۔

ابھی سرینگر مقبوضہ کشمیر سے اطلاع ملی ہے کہ غاصب بھارتی فوج اور نام نہاد مفتی حکومت کی طرف سے عائد سخت پابندیوں کے باوجود بزرگ رہنما سید علی گیلانی ترال پہنچ چکے ہیں اور تا دمِ تحریر اپنا خطاب شروع کرنے والے ہیں۔

=================
پاک چین کوریڈور اور افغانستان
سمیع اللہ ملک، لندن
ان دنوں یمن بحران کی وجہ سے اس خطے کے دوسرے تمام اہم مسائل نظروں سے اوجھل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں شائد اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ تمام مسلمانوں کے ایمان اور دل ارضِ حرمین کے ساتھ وابستہ ہیں۔ جب سے افغانستان میں نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے، پاکستان عملی طور پر نہ صرف اس کی حمائت بلکہ عسکری طور پر بھی اس کو مضبوط کرنے کیلیے پورے اخلاص کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پہلی مرتبہ افغان آرمی چیف جنرل شیر محمد کریمی کو پاکستان نے فوجی تربیت حاصل کرنے والے کیڈیٹس کی پریڈ میں شرکت کیلیے مہمانِ خصوصی پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول بلا کر نہ صرف افغانستان اور پاکستان کی فوج کے درمیان ایک اچھی روایت اور تعلقات کی بنیاد رکھی بلکہ پاکستان آرمی کی قیادت نے شیر محمد کریمی پر یہ واضح کر دیا کہ پاکستان اور افغانستان کی ثقافت، مذہب اور ان کے مفادات ایک ہیں لہٰذا دنیا پاکستان کے خلاف افغانستان کو استعمال کرنے سے باز رہے۔ پاکستان افغانستان کے استحکام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔
موجودہ آرمی چیف کی کوششوں سے آہستہ آہستہ افغانستان اور پاکستان کی افواج کے درمیان تعلقات نہ صرف بہتر ہو رہے ہیں بلکہ اس میں گرم جوشی بھی آ رہی ہے تاہم جس وقت افغان آرمی چیف جنرل شیر محمد کریمی پاکستانی کیڈیٹس سے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں خطاب کر رہے تھے عین اسی وقت جلال آباد بینک کے باہر ایک خودکش دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے میں ٣٣/ افراد شہید اور سو سے زائد زخمی ہو گئے۔ افغان طالبان نے نہ صرف اس کی مذمت کی بلکہ اسے بربریت قرار دیا۔ دوسری جانب حزبِ اسلامی نے بھی واقعہ کی شدید مذمت کی جبکہ داعش کے نام پر اس کی ذمہ داری قبول کی گئی۔ افغان حکام کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں بھارتی اور دیگر کئی خفیہ ایجنسیاں اس میں ملوث پائی گئی ہیں اور انہوں نے ان لوگوں کو استعمال کیا ہے جو پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں۔
اصل میں اس دھماکے کا مقصد جنرل شیر محمد کریمی کے دورۂ پاکستان کو سبوتاژ کرنا اور یہ ثابت کرنا تھا کہ شیر محمد کریمی افغان آرمی چیف کے طور پر پاکستان کیوں گئے اور انہوں نے پاکستانی فوج کے کیڈیٹس سے خطاب کیوں کیا؟؟ اصل میں افغانستان میں دھماکہ کر کے اس دورے کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بھارت کو اپنی اس کوشش میں ناکامی ہوئی ہے اور افغان حکومت نے بھارت کی اس سازش کے بعد خوست کے بعد پکتیا میں ''را'' کے ایک سنٹر کو فی الفور بند کر دیا ہے اور خاموش ذرائع سے بھارتی سفارتی ذرائع کو پیغام دیا ہے کہ وہ اب اس کھیل سے باز رہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کی جانب سے شیر محمد کریمی کو کاکول آنے کی دعوت دینے اور ان کی جانب سے پاکستان کا دورہ قبول کرنے کے بعد بھارت شیر محمد کریمی سے سخت ناراض ہے اور اس نے اپنے مشترکہ دوستوں سے اس کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ اس سے قبل بھارت نے بھی شیر محمد کریمی کو بھارت میں ایک پریڈ کے معائنے کی دعوت دی تھی اور انہوں نے وہاں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت بھی کی تھی تاہم اس کے بعد شیر محمد کریمی نے نہ صرف پاکستان میں اپنے کیڈیٹس بھیج دیے بلکہ پاکستان نے انہیں کاکول جیسی اکیڈمی میں تربیت دی اور شیر محمد کریمی پاکستانی اور افغان کیڈیٹس کی عسکری کارکردگی دیکھ کر بہت خوش ہوئے جو بھارت کو ہضم نہ ہوئی۔
افغان کیڈیٹس نے شیر محمد کریمی کو بتایا کہ کاکول میں انہیں کسی مسئلے کا سامنا نہیں ہے جو بھارت یا امریکا کے انسٹرکٹرز کی وجہ سے انہیں تھا کیونکہ امریکی انسٹرکٹرز کی انگریزی میں بات چیت بعض اوقات انہیں سمجھ نہیں آتی تھی اور بھارت میں انہیں مذہبی اور دیگر رسم و رواج کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا تھا جبکہ پاکستان میں نہ صرف اردو بلکہ پشتو اور انگریزی میں بات چیت ہونے کی وجہ سے انہیں بات سمجھنے اور سمجھانے میں انتہائی آسانی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے پختون بلوچ کیڈیٹس کی وجہ سے انہیں زبان کا بھی مسئلہ نہیں ہے جبکہ پاکستانی کیڈیٹس کے ساتھ مذہب اور رسم و رواج کے رشتے کی وجہ سے انہیں اس سلسلے میں کوئی دشواری اور اجنبیت کا سامنا نہیں ہے بلکہ بالکل اپنے گھر کا ماحول مل رہا ہے۔ 
ذرائع نے بتایا کہ افغان کیڈیٹس کو بھارت یا امریکا سے تربیت دلانے کی بجائے پاکستان سے تربیت دلائی جائے تاکہ ایک طرف رشتے مضبوط ہوں اور دوسری جانب کیڈیٹس کو ان کی مذہبی اور ثقافتی اقدار کے مطابق ماحول میسر ہو۔ اسی وجہ سے افغانستان کے کیڈیٹس کے آنے کا امکان بڑھ گیا ہے جس پر بھارت نہ صرف ناراض ہے بلکہ اسے غصہ بھی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ جنرل راحیل شریف کی جانب سے جنرل شیر محمد کریمی کو مہمانِ خصوصی بنانے کے بعد پاکستان اور افغانستان کی فوجی قیادت کے درمیان نہ صرف فاصلے کم ہو رہے ہیں بلکہ پاکستانی کیڈیٹس اور افغان کیڈیٹس کی تربیت نے انہیں بے حد متاثر کیا ہے اور انہوں نے افغانستان جا کر اپنے افسران سے صلاح و مشورے شروع کر دیے ہیں کہ ہمیں بھارت اور امریکا کی بجائے اپنے کیڈیٹس کو پاکستان سے تربیت دلانی چاہیے تاکہ ہمارے کیڈیٹس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ دوسری جانب ایک اہم ذریعے نے بتایا ہے کہ امریکا اور بھارت نے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب کرنے کیلیے منصوبہ بندی شروع کر دی ہے اور اس حوالے سے انہیں افغانستان میں بھارت کی بھی مدد حاصل کر لی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں جو بہتری آ رہی ہے، وہ بہتری نہ آنے پائے کیونکہ چین کی جانب سے پاکستان کی افغان پالیسی کی حمائت کے بعد پاکستان کی کوشش ہے کہ افغانستان پاکستان کے گوادار انفرا سٹرکچر اور کاشغر راہداری سے فائدہ اٹھائے جبکہ افغانستان کے تاجروں نے اپنی حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ اگر پاکستان کی اس پیشکش کو قبول کر لیا جائے تو افغانستان اور پاکستان میں تجارتی انقلاب آ سکتا ہے اور اگر اس موقع کو گنوا دیا گیا تو پھر افغانستان کے پاس ایسا سنہری موقع کبھی نہیں آئے گا کیونکہ ایک طرف پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ کابل تک موٹر وے کو بنائے اور اگر کابل تک موٹر وے بن جاتی ہے اور اس کو کاشغر راہداری پراجیکٹ سے منسلک کیا جاتا ہے تو افغانستان کی معاشی پوزیشن بہت آگے چلی جائے گی کیونکہ بنوں کے علاقے غلام خان سے مشرقی افغانستان اس راہداری سے منسلک ہو سکتا ہے جبکہ کابل کو پشاور اور اسلام آباد کے ذریعے پشاور موٹر وے سے لنک کر کے کاشغر اور گوادر تک لنک کیا جاتا ہے تو افغانستان کے لیے یہ منصوبہ نہ صرف روزگار کی فراہمی کا سبب بنے گا بلکہ اس سے افغانستان کی معیشت میں انقلاب آ جائے گا۔ 

یاد رہے کہ آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی کے ساتھ ساتھ پاک افغان تعلقات میں بہتری کے آثار، افغان طالبان کا چین پر بھرپور اعتماد اور حالیہ پاک چین کوریڈور کے ساتھ افغانستان کو منسلک کرنے کے عزم کو بھارت سمیت کئی دوسری طاقتیں ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہیں یقیناً حکومت پاکستان اور عسکری قوت اس کو ناکام بنانے کیلیے پوری طرح تیار ہوں گی۔

=================
ایرانی آکٹوپس اور جوہری معاہدہ
سمیع اللہ ملک، لندن
مغربی اخبارات میں ان دنوں یہ چرچا جاری ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کا امریکی کانگرس کے جائنٹ اجلاس سے ایرانی نیوکلیر معاہدہ پر سخت اور جارحانہ رویے کا خطاب انتہائی کارگر ثابت ہوا اور بالآخر امریکا بہادر اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایرانی جوہری پروگرام محدود کرانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ کیا استعماری طاقتیں مشرقِ وسطیٰ کو زیرِنگیں رکھنے کی چالوں میں ایک اور ''فتح'' حاصل کر گئیں ہیں؟ اس کے داعی اسرائیل کے ایٹمی اسلحہ کے ڈھیر سے چشم پوشی کرتے ہوئے خطے میں عدم توازن قائم کر کے ایک اور بے انصافی کی شرمناک مثال قائم کر گئے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ میں مذاکرات کے طویل سلسلے کے بعد چھ بڑی طاقتوں کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام کے مستقبل کے بارے میں معاہدے کے فریم ورک پر اتفاق ہو گیا جس کی ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران کے تنازع پروگرام کے بنیادی حل تلاش کر لیے گئے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے مسئلے کے حل کے لیے فریم ورک طے پا چکا ہے جس پر عالمی قوتوں نے بھی رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ ایران، امریکا اور جرمنی کا کہنا ہے کہ آخرکار ٨ روزکی گفت و شنید کے بعد اتفاقِ رائے ہو گیا۔ جامع جوہری معاہدہ ٣٠ جون تک تشکیل دے دیا جائے گا۔ حتمی معاہدے کے بعد امریکا اور یورپی یونین ایران پر عائد پابندیاں ختم کر دیں گے۔ جوہری فریم ورک دس سال کیلئے طے پایا ہے جس کے تحت ایران جوہری مقاصد کیلیے افزودگی کم کرنے پر راضی ہو گیا ہے۔
معاہدے کے بنیادی خدوخال اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایران کو ١٩ہزار میں سے ٦١٠٤سینٹری فیوجز چلانے کی اجازت مل گئی ہے۔ ان میں سے ٥ ہزار ایسی ہوں گی جو یورینیم کی افزودگی کریں گی۔ جو بھی ذخیرہ ہو گا وہ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی زیرِ نگرانی ہو گا۔ ایران اپنے کم مقدار میں افزودہ حالت میں موجود یورینیم کے ذخیرے کو کم کرے گا جو کہ جوہری بم بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ ایران فردوع میں موجود اس زیرِ زمین سائٹ کو ١٥سال کے لیے بند کر دے گا جہاں یورینیم کی افزودگی ہوتی ہے۔ معاہدے کے مطابق بین الاقوامی معائنہ کاروں کو نہ صرف ایران کی اہم جوہری تنصیبات تک رسائی حاصل ہو گی بلکہ وہ یورینیم کی کانوں اور کارخانوں کا بھی معائنہ کر سکیں گے اور ایران پابند ہو گا کہ وہ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو ملک بھر میں مشکوک یا خفیہ مقامات تک رسائی دے۔ ان پابندیوں میں سے کچھ تو دس سال کیلیے ہیں جبکہ کچھ کو ١٥ سال کے لیے لاگو کیا جا رہا ہے۔ مغربی ممالک میں اس معاہدے پر اظہارِ طمانیت کیا جا رہا ہے کہ عالمی قوتوں اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے پر مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں جو اسے جوہری تنازعے کے حل میں اہم پیش رفت اور اچھی خبر قرار دے رہے ہیں۔
دوسری جانب ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ عالمی قوتوں سے معاہدے کے مطابق ایران اپنی جوہری صلاحیت ایک تہائی کم کر دے گا البتہ امریکی صدر اوباما نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران جو کچھ کہا وہ اہلِ نظر کے نزدیک انتہائی معنی خیز ہے۔ اوباما کا کہنا ہے کہ ایران سے جوہری پروگرام پر تاریخی معاہدہ ہو گیا۔ معاہدے کے تحت ایران کبھی بھی پلاٹونیم بم نہیں بنا سکے گا۔ معاہدے کی خلاف ورزی پر ایران کے خلاف سخت ترین کاروائی کریں گے. ایران کو اپنا ایٹمی پروگرام محدود کرنا پڑے گا۔ ایران آئندہ دس سال تک کوئی ایٹمی ری ایکٹر تعمیر نہیں کر سکے گا۔ معاہدے کے تحت ہم نے اپنے تمام مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔ایران کے جوہری پروگرام پر معاہدے کے ڈھانچے پر اتفاقِ رائے کے باوجود غیر جانبدار مبصرین کے ان سوالات سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا کہ ایران کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں عالمی طاقتوں کا ردّ عمل کیا ہو گا؟ کیا ایک بار پابندیاں ختم کر کے دوبارہ عائد کی جا سکیں گی؟ اور یہ بھی کہ کس حد تک خلاف ورزی ہو گی تو اس پر ایکشن لیا جائے گا؟
محرمانِ اسرار جانتے ہیں کہ ٢٠١٣ء کے اواخر میں انتخابی مہم کے دوران ایران کے موجودہ صدر حسن روحانی نے ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکا اور مغربی ممالک کو یہی پیغام دیا تھا کہ اس کے خاتمے کے حوالے سے کسی نوع کا سمجھوتہ کرنے کیلیے تیار نہیں ہیں۔ ٢ اپریل کو ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے کے مندرجات سے مترشح ہوتا ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک کی کوششیں بارآور ہوئیں اور ایران نے انجام کار ایسا معاہدہ طے کر لیا جس کے بعد آئندہ دس سے پندرہ سال تک اس کیلیے اپنے ایٹمی پروگرام کو ایٹمی اسلحہ سازی میں تبدیل کرنا خاصا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گا تاہم ایران پر جو سخت اقتصادی پابندیاں لاگو تھیں، تیل کی آمدنی کے باوجود ان کی وجہ سے ایران کی داخلی معیشت زبوں حالی کا شکار تھی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ١٢برس بعد امریکا اور مغربی ممالک، عالمِ اسلام کے دوسرے بڑے مسلمان ملک کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اقتصادی پابندیاں اٹھانے کیلیے بھی ٥ سال کی شرط عائد کی گئی ہے۔ایران نے اس ضمن میں جو فیصلہ کیا ہے یقینا اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا ہو گا۔ بادی النظر میں یہ معاہدہ ایران اور مغرب میں جاری کشیدگی اور اختلافات کم کرنے میں مدد دے گا۔ اربابِ خبر و نظر سے یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ اس معاہدے کے باوجود تہران اور واشنگٹن کے درمیان بہت سے معاملات پر اختلافات اب بھی موجود ہیں۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ یہ مسائل و معاملات جوہری مذاکرات پر اثر انداز نہیں ہوئے۔ اس معاہدے کے بعد ہی مستقبل میں منکشف ہو گا کہ ایران کے جوہری پروگرام کی رفتار کیا ہو گی کیونکہ امریکی محکمۂ خارجہ نے مشترکہ اقدامات کے جامع پلان کے عنوان سے جو فہرست جاری کی ہے اس کے بعض مندرجات پر غیر جانبدار حلقے حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ سپر پاور امریکا نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کیلیے اپنی پوری توانائیاں صرف کیں لیکن یہی امریکا اسرائیل کے اس ایٹمی پروگرام سے مجرمانہ چشم پوشی کر رہا ہے جو صرف مشرقِ وسطیٰ کیلیے ہی نہیں بلکہ ہر اس ملک کیلیے فنا کا پیغام ہے جس نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ اس تناظر میں لوزین میں ہونے والا معاہدہ خطے میں عدمِ توازن کا باعث بنے گا۔
پاکستانی قوم کو اپنی اس قیادت کا شکرگزار ہونا چاہیے جس نے ١٩٧٤ء میں شروع کیے گئے پرامن ایٹمی پروگرام کو باوجود انتہائی عالمی رکاوٹوں اور مشکلات کے تکمیل تک پہنچایا اور مئی ١٩٩٨ء میں امریکا اور مغربی دنیا کی تمام تر ترغیب و ترہیب کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایٹمی دھماکہ کر کے پاکستان کو دنیا کی ساتویں اور عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی ریاست بنا دیا۔ اگر خدانخواستہ پاکستانی قیادت بھی دباؤ میں آ جاتی تو اس کا انجام بھی ایران جیسا ہوتا۔ یہ پاکستان قوم کی اجتماعی کامیابی ہے کہ باوجود انتہائی نامساعد حالات کے اللہ کی مدد سے نہ صرف جوہری ریاست بننے میں کامیاب ہوئی بلکہ اس وقت میزائل ٹیکنالوجی کے علاوہ دیگر جدید دفاعی آلات میں ایک مضبوط ریاست کے طور پر اپنا وجود منوا چکی ہے۔
شہرہ آفاق الجزیرہ ٹی وی چینل نے امریکا ایران معاہدے کو خطے کیلیے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے اپنے تجزیئے میں کہا ہے کہ ایران کے ساتھ معاہدے کے باعث ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صورتحال مزید خراب ہو جائے گی کیونکہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ کا خطہ عراق، یمن، شام اور لبنان میں ایرانی مداخلت کے باعث انتشار کا شکار ہو چکا ہے۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ مذاکرات کسی دوسرے سیارے میں منعقد ہو رہے ہیں۔ امریکی صدر اوباما نے ١٤ ویں صدی کے ایک ایرانی شاعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم دونوں ممالک کے علاوہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو سفارتی حل کی مخالفت کرتے ہیں۔ اے اہلِ ایران! میرا آپ کو یہ پیغام ہے کہ ہمیں اپنے مستقبل کی بات کرنی چاہیے۔
معلوم ہوتا ہے کہ امریکیوں کے نزدیک ایران کے ساتھ معاہدہ بہت ضروری ہے اور اس پر تنقید امریکیوں کے نزدیک اس معاہدے کی رکاوٹ ہے اس امر کا اظہار اس وقت نمایاں ہو گیا تھا جب امریکی انتظامیہ نے امریکی کانگرس سے اسرائیلی وزیرِ اعظم کے خطاب کے حوالے سے غیظ و غضب کا اظہار کیا تھا۔ اس معاہدے کی علامتی تصویر دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح یہ معاہدہ طے پایا۔ امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری یا یورپین یونین کے خارجہ امور کے سابق سربراہ کے ساتھ مذاکرات کے موقع پر کھینچی گئی تصویر میں ایرانی وزیرِ خارجہ کیوں اس قدر کھل کر مسکرا رہے ہیں؟ کون واقعتاً یہ سمجھتا ہے کہ یہ مذاکرات ایران کیلیے سخت تھے۔ اس معاہدے کے ذریعے سے ایران نے جو چاہا حاصل کر لیا۔پابندیوں میں کمی، جوہری توانائی کو افزودہ کرنے کی اجازت جو اس کے نزدیک پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ اس سے پہلے ایران کے روحانی رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کو یہ فتویٰ ''فروخت'' کیا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کا ڈھیر لگانا ممنوع ہے۔
یہی روحانی رہبر ہیں جو اطلاعات کے مطابق شدید بیمار اور خطرے میں ہیں۔ جب جان کیری نے اس معاہدے کا اعلان کیا تو انہوں نے واضح کر دیا کہ یہ معاہدہ خطے میں امریکی خارجہ پالیسی کا ایک اہم عنصر ہے۔ یہ معاہدہ امریکی مفاد میں تھا تاکہ ایران کے ساتھ ایک بہتر معاہدہ کیا جائے لیکن مفادکے پیچھے تفصیلات خطرناک ہیں۔ اس معاہدے کے متعلق یہ تنقید کی جاتی رہی ہے کہ یہ معاہدہ علاقے میں ایران کو طاقت ور بنانے کیلیے ہے۔ یہ امر قطعاً باعثِ حیرت نہیں کہ لبنان میں ایران نے حزب اللہ کو مالی تعاون مہیا کیا جس کے ساتھ اسرائیل کی جنگیں ہوئیں اور جس کے ہتھیار اسرائیل کیلیے خطرہ ہیں۔ برسوں سے ہی عرب حکومتوں اور لبنان کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ حزب اللہ، لبنان میں ایک مزاحمتی قوت ہے جو اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہی ہے۔ حزب اللہ کی یہی مزاحمت شام میں داخل ہوئی اور بشار الاسد کے اقتدار کو گرنے سے بچا لیا۔ جس ظالمانہ طریقے سے حزب اللہ اور اسد کی حکومت نے شام میں سنی جنگجوؤں کو کچلا، اس کے باعث اس خطے میں داعش جیسی عسکریت پسند تنظیموں کو ابھرنے کا موقع ملا۔ یہ کیسا استہزائی عمل ہے کہ جب داعش جیسی عسکریت پسند تنظیمیں لبنان میں عروج حاصل کرتی ہیں تو حزب اللہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ان کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے۔
حزب اللہ کے قائد حسن نصر اللہ نے اعلان کیا تھا کہ حزب اللہ اس لیے جنگ کر رہی ہے تاکہ یہ خطہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ نہ لگ جائے لیکن حزب اللہ نے اس کے برعکس کام کیا ہے اس نے شام پر حملہ کیا، اس نے لبنان میں شورش برپا کی جب سعودی عرب اور دیگر دس عرب اقوام کے علاوہ جی سی سی اور مصر نے یمن میں مداخلت کی تو اس کی سب سے پہلے مذمت حزب اللہ کے قائد حسن نصر اللہ کی طرف سے آئی۔ اب سوال یہ ہے کہ حزب اللہ نے یمن میں مزاحمت کا راستہ کیوں نہیں اختیار کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ نصراللہ اور ان کے ایرانی حامی ایک ہی قوت سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایرانی جرنیل قاسم سلمانی جو تکریت پر عراق کی شیعہ ملیشیا کی سربراہی کر رہا تھا، ایرانی معاونت سے یمن میں حوثیوں کی عسکری تربیت میں مصروف ہے اور اب کافی تعداد میں بھاری ایرانی اسلحہ یمن میں پہنچایا جا رہا ہے اور اس کے جہاز چند ہفتے قبل صنعا میں اترے تھے۔
زیادہ تر ایرانی مذاکرات کار، سنیئر سفارت کار ہیں، بہت زیادہ مہارت کے حامل ہیں اور زیادہ تر مغرب میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ علی اکبر اصلاحی ایران کے نائب چیف مذاکرات کار، امریکا میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور وہ امریکیوں کی طرف میلان رکھتے ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھی اوباماکی ''امن'' کی خواہش کا خوب ادراک رکھتے ہیں، اس لیے انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر معاہدہ طے نہ پایا تو جنگ کے امکانات بڑھ سکتے ہیں لیکن اس صورتحال کو کیا نام دیا جائے جو ایران نے مشرقِ وسطیٰ پر مسلط کر رکھی ہے۔ کیا یہ جنگ سے کم صورتحال ہے؟ ایران کی شیعہ ملیشیا، دہائیوں سے مشرقِ وسطیٰ میں مداخلت کر رہی ہیں جس کے باعث عرب ممالک انتشار کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ شیعہ ملیشیا نے یمن سے لبنان تک معیشیتیں تعمیر نہیں کیں اور نہ یونیورسٹیاں قائم کیں بلکہ انہوں نے محض عرب ممالک کی خود مختاری کو خطرے میں ڈالا۔

جب امریکی وزیرِ خارجہ اس معاہدے کو ایک اچھا معاہدہ قرار دیتے ہیں تو یہ معاہدہ ایران کیلیے اچھا ہے لیکن باقی دنیاکیلیے خطرناک ہے۔ ایران کے پاس جوہری طاقت موجود ہے اور اس خطے میں ایرانی فوجی۔

================
ساری قوم منتظر ہے!
سمیع اللہ ملک، لندن
برسوں پہلے کے ایک مشہور انگریز شاعر ڈبلیو ایچ آڈن کا کہنا ہے:''ہزاروں لوگ محبت کے بغیر زندگی گزار لیتے ہیں لیکن کوئی ایک بھی شخص پانی کے بغیر نہیں گزار سکتا''۔ جنوبی ایشیا کے بارے میں یہ بات کچھ زیادہ ہی درست تسلیم کی جاتی ہے جہاں دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ قیام پذیر ہے۔ یہاں کی معیشت اور روزگار کا زیادہ دار و مدار زراعت پر ہے اور زراعت براہِ راست پانی کی مرہونِ منت ہے۔ اس لیے برصغیر کی سیاست میں بطورِ خاص پانی اہمیت رکھتا ہے۔
پاکستان اور بھارت تقسیمِ ہند کے بعد وجود میں آئے، چونکہ ان کے پانی کے وسائل اور ذرائع مشترکہ تھے اس لیے تقسیم سے لیکر اب تک یہ مسائل بدستور چل رہے ہیں۔ چونکہ پاکستان کا علاقہ زیادہ تر دریاؤں کے زیریں علاقے میں واقع ہے، اس لیے بھارت اس کا ہمیشہ ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ دونوں ملکوں کی آبادی میں تیز رفتاری کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اس لیے پانی کم ہوتا جا رہا ہے اور پانی کے ذخائر پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک جن میں پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔ یہاں پر پانی کی دستیابی فی کس ١٢٠٠ کیوبک میٹر ہے۔ اگر اس کا مقابلہ دنیا کے دیگر ممالک سے کیا جائے تو اکثر ممالک میں تازہ پانی کی دستیابی ٢٥٠٠ سے ١٥٠٠٠ کیوبک میٹر فی کس ہے۔ خاص طور پر کینیڈا اور ناروے جیسے ممالک میں پانی کی دستیابی ٧٠٠٠٠ کیوبک میٹر فی کس ہے۔
جنوبی ایشیامیں پانی کی دستیابی صرف دریاؤں سے ہے جن کا زیادہ تر دار و مدار سالانہ بارش اور برفباری پر ہے۔ بعض اوقات برف باری اور بارش اس کثرت سے ہوتی ہے کہ سیلاب آ جانے پر اربوں روپے کے نقصانات ہوتے ہیں اور اکثر اوقات برف باری اور بارشیں اتنی قلیل ہوتی ہیں کہ اس سے سالانہ پانی کی ضروریات بھی پوری نہیں ہو پاتیں جس کا نتیجہ پانی کے حقوق پر ڈاکہ ہوتا ہے۔ یہی کھیل بھارت پاکستان کے ساتھ کھیلتا ہے۔ چونکہ بھارت کو اس سلسلے میں فوقیت حاصل ہے جس کا وہ بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔١٩٦٠ء میں معاہدہ سندھ طاس کے تحت بھارت اور پاکستان میں طے پایا کہ دریاؤں کے پانی کی تقسیم کر دی جائے۔ کچھ عرصے تک تو اس معاہدے کے تحت کام ٹھیک چلتا رہا لیکن کچھ عرصے کے بعد بھارت نے ان دریاؤں کے پانیوں کو بھی استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر لی جس پر مکمل طور پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔
بھارت نے دریائے چناب پر خاص طور پر ڈیم تعمیر کرنے، ان کا پانی روکنے اور بجلی بنانے کے بہانے سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی شروع کر دی اور یہ خلاف ورزی آج تک جاری ہے اور آئے روز نت نئے منصوبے بنا کر کسی نہ کسی طور پر پانی روک کر استعمال کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ بھارت کا مؤقف ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو حق حاصل ہے کہ وہ پانی کو روکے بغیر استعمال کر سکتا ہے جس میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کی اجازت ہے لیکن پاکستان کو مؤقف ہے کہ بھارت اس قسم کے منصوبے بنانے کا مجاز نہیں کیونکہ اگرچہ کہنے کو تو یہ منصوبے صرف پانی کو روکے بغیر ہی بجلی بنانے کا منصوبہ ہے لیکن عملی طور پر ان منصوبوں کے پیچھے جھیل بنا کر پانی روکا جاتا ہے اور ایک خاص مقدار میں پانی آگے نہیں جا سکتا اور ہر منصوبے کے ساتھ ١٥سے٠ ٢ فیصد کی حد تک پانی ان منصوبوں کی نذر ہو کر کم ہو جاتا ہے جس کا براہِ راست نقصان پاکستان کو ہو رہا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کو ٥٤ سال گزر چکے ہیں۔ اگرچہ بعض ماہرین کو اس معاہدے پر تحفظات اور خدشات ہیں لیکن ابھی تک اس معاہدے سے دونوں کے مابین اچھے طریقے سے کام نہیں کیا گیا۔ خاص طور پر پچھلی چند دہائیوں میں دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کو کم کرنے میں اس معاہدے نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان میں بڑے بڑے کام ہوتے ہیں جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مثلاً اس معاہدے کے بعد پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبے تعمیر کیے گئے۔اگرچہ یہاں پر نہری نظام کو مختلف طریقوں سے ناکام بنانے کی کوشش کی جس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوا لیکن معاہدے کے بعد لنک کینالز تعمیر کی گئیں جس سے دریائے سندھ کے پانی کو دوسرے دریاؤں میں لایا گیا۔ اس طرح جہلم کے پانی کو بھی دوسرے نظام میں ڈال کر پانی کی کمی کو پورا کیا گیا۔ یہ نظام آج بھی کامیابی سے چل رہا ہے اور اسی کی بدولت پاکستان کی زراعت نے بے پناہ رکاوٹوں اور متعلقہ ذمہ داروں کی بدترین غیر ذمہ داریوں کے باوجود دن دگنی رات چوگنی ترقی کی ہے اور پاکستان زرعی اجناس میں خودکفیل ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ پاکستان کو اپنے مستقبل کیلیے پانی محفوظ کرنا ہو گا اور بھارت کو اس کے روایتی ہتھکنڈوں سے باز رکھنے کیلیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ان دریاؤں کی مختلف شاخوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو کہ بھارت کے مختلف علاقوں سے شروع ہوتے ہیں اور معاہدے کے تحت ان پر پاکستان کا حق ہے۔ خاص طور پر چناب۔ جہلم اور سندھ میں پانی کی روانی پاکستان کیلیے انتہائی اہم ہے کیونکہ اس سے نہ صرف سندھ اور پنجاب بلکہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کیلیے بھی پانی کی روانی گارنٹی ہے۔
اگر بھارت کسی طرح سے ان دریاؤں پر کسی قسم کی منصوبہ بندی کرے تو اسے باز رکھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے، ان دریاؤں کے ان حصوں کو جو بھارت میں موجود ہیں اور جہاں سے پانی نکل کر پاکستان میں داخل ہوتا ہے بذریعہ سیٹلائٹ اس کی لمحہ بہ لمحہ نگرانی کی جا سکتی ہے۔ ماضی میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ ہماری نگرانی کمزور ہونے سے بھارت نے فائدہ اٹھایا ہے اور اس کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کے وسائل کو بھارت کیلیے استعمال کرے، اس کے علاوہ پاکستان کیلیے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ وہ اپنے پانی کا انتظام بھی بہتر کرے تاکہ اس کا پانی ضائع ہونے اورسمندر میں گرنے کی بجائے بہترین طریقے سے استعمال میں لایا جا سکے۔ پاکستان کی لاکھوں ایکڑ اراضی اس وقت بھی تشنہ اور بنجر پڑی ہے لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ تربیلا اور منگلا ڈیموں کی تعمیر کے بعد اب تک پاکستان میں کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہیں کیا گیا۔
جہاں پاکستان کو بھارت سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ پانی محفوط اور اس کی ترسیل بلاتعطل جاری رہے وہاں پاکستان کو اپنے دستیاب پانی کو بھی محفوظ کرنے کی ضرورت ہے، اس کیلیے ڈیم تعمیر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جب پانی کی فراوانی ہو تو اسے ذخیرہ کر لیا جائے اور جب پانی کی کمی ہو تو اسے پورے ملک میں استعمال کیا جائے۔ پاکستان سے ایک دس رکنی کمیشن اس اہم ایشو پر مذاکرات کیلیے یکم فروری سے ٣ فروری تک متعلقہ حکام سے بات چیت میں مصروف رہا۔ پاکستانی وفد نے بھارت سے اس کے قابلِ اعتراض منصوبوں پر احتجاج کرتے ہوئے اس پر واضح کیا کہ بھارت پاکستان کے پانیوں پر تصرف کا مجاز نہیں اور یہ مسلمہ طور پر عالمی اصولوں کے باہمی اصولوں کے علاوہ باہمی معاہدوں کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے مگر بھارت نے پاکستان کے مؤقف کو پھر مسترد کر دیا۔ پاکستانی وفد نے توجہ دلائی کہ مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب پر بھارتی منصوبوں کے 
120 Miyar and 48 MW Lower کے علاوہ 1000MW Pakalolal اور (850 MW Ratil) 
پراجیکٹس کے ڈیزائنز پر اعتراضات ہیں اور بھارت کا اقدام انڈس واٹر ٹریٹی کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح بھارت دریائے جہلم پر کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے بھی معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
بہرحال اب خبر آئی ہے کہ پاکستان نے بھات کے مذکورہ پاکستانی دریاؤں پر پانچ ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی تعمیر کا معاملہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے جانے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ وزیرِ اعظم پاکستان نے اس ضمن میں کیس تیار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ وزیرِ اعظم کو قبل ازیں بھارت جانے والے کمیشن نے بھارتی ہٹ دھرم رویے سے بھی مطلع کیا تھا۔ پاکستان کے انڈس واٹر کمیشن کے حکام کو یقین ہے کہ پاکستان نے جو اعتراضات اٹھائے ہیں وہ منطقی حوالے سے وزن رکھتے ہیں اور عالمی قوانین پر پورے اترتے ہیں اور پاکستان کا کیس محفوظ ہے جسے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں منظور کر لیا جائے گا۔ پاکستان کمیشن کے ایک رکن نے بتایا: پاکستان کی طرف سے بھارتی حکام کو حقیقتِ حال سمجھانے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے تو لگتا ہے جیسے یہی فیصلہ کر لیا تھا کہ ہماری بات مان کر نہیں دیں گے۔
پاک بھارت مذاکرات میں فریقین نے اپنا اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔ مذکورہ ہائیڈو پاور پراجیکٹس کے جواز و عدم جواز اور ڈیزائن پر فیڈ بیک پر گفتگو کی۔ پاکستانی وفد نے فریقِ مخالف کو ١٩٦٠ء کے انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت پیدا ہونے والے تحفظات پر قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر بھارتی حکام نے پاک وفد کے دلائل کو لائق التفات نہیں سمجھا۔ بھارت اس ایشو پر مذاکرات کو بلاوجہ معرضِ التوا میں ڈال رہا ہے دوسری طرف اسی دوران متنازع منصوبے پر عمل کرتے ہوئے تعمیر کا کام بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کو اپنا کیس عالمی عدالت میں لے جانے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بھارت تو پاکستان کو نقصان پہنچانے پر تلا ہوا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ ہم ماہِ رواں کے آخر تک عالمی فورم پر مسئلہ یقینا اٹھائیں گے۔ اس مقصد کیلیے تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں اور ضروری لوازمات اور ضابطے کی کاروائیوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ پاکستانی وفد کے ایک رکن کے مطابق پاکستانی دریاؤں پر بھارتی بند تعمیر کرنے سے متعلق اسلام آباد کے تحفظات کو سرے سے درخورِ اعتنا نہیں سمجھ رہا۔ وہ پہلے ہی تین بند تعمیر کر چکا ہے اور چوتھے کی تعمیرکا کام جاری ہے۔ چوتھا ریٹل ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندو بنیا اپنی مخصوص ذہنیت کی وجہ سے واضح طور پر انکار بھی نہیں کر رہا۔ معاملات معلق رکھ رہا ہے اور اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارت نے بگلہیار ڈیم کی تعمیر میں جو طرزِ عمل اپنایا تھا، اسی کا اعادہ کر رہا ہے۔

١٩٦٠ء کے انڈس واٹر ٹریٹی کے دفعات کے تحت شمالی دریاؤں بشمول ستلج، بیاس اور راوی کے پانی انڈیا کیلیے مختص کیے گئے جبکہ مغربی دریاؤں بشمول سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پاکستان کیلیے مخصوص کر دیے گئے تھے۔ صرف یہ استثنیٰ رکھا گیا کہ پانی کے بعض استعمالات مثلاً ہائیڈرو پاور کی پیداوار کا بھارت مجاز ہو گا مگر وہ پانی کے بہاؤ میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہونے دے گا۔ انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق بھارت پاکستان کے دریاؤں کا پانی روک کر ٣٢٠٠٠ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بنا چکا ہے۔ اس طرح پاکستان بالخصوص پنجاب کے زرعی علاقے کو وسیع پیمانے پر نہری پانی سے محروم رکھے گا۔ کیا میاں برادران پاک بھارت دوستی کیلیے یہ قربانی دینے کو تیار ہیں کہ وہ جب چاہے پاکستان کو سیلاب میں ڈبو دے اور جب چاہے پانی روک کر پاکستان کو ریگستان بنا دے؟ یقیناً برہمن مودی کو اس منصوبے سے روکنے کیلیے بغیرکسی تاخیر اور مکمل تیاری کے ساتھ جواب اشد ضروری ہے، ساری قوم منتظر ہے!

==================
مودی کا دوغلا پن
سمیع اللہ ملک، لندن
کئی صدیاں پہلے فاتح بیت المقدس صلاح الدین ایوبی کا ایک تاریخ ساز قول ہے کہ: جہاں روٹی مزدور کی تنخواہ سے مہنگی ہو جائے وہاں دو چیزیں سستی ہو جاتی ہیں؛ اوّل عورت کی عزت اور دوم مرد کی غیرت۔اگرچہ اس بات کا اطلاق کسی بھی خطے، قوم یا ملک پر ہو سکتا ہے لیکن بھارت پر یہ بات جس طرح صادق آتی ہے اس طرح سے دنیا میں اور کہیں شائد دکھائی دے سکے۔ چند روز پیشتر بھارت کے ایک چینل نے بی بی سی کی تیار کردہ ایک فلم ''ہندوستان کی بیٹی'' چلائی۔ یہ فلم بی بی سی اور بھارتی چینل پر بیک وقت دکھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن بی بی سی کے بقول بھارتی نیوز چینل پر یہ فلم دکھانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس سے لوگوں کا اس فلم میں اشتیاق حد درجہ بڑھ گیا اور بی بی سی پر مقررہ دن سے پہلے ہی فلم چلانے کا فیصلہ کر لیا اور بھارتی چینل خسارے میں اور بی بی سی منافع میں رہا۔
بھارتی چینل نے اپنی حکومت کی جانب سے پابندی عائد کرنے پر کچھ یوں احتجاج کیا کہ جس تاریخ کو فلم چلانے کا اعلان کر رکھا تھا اس وقت ناظرین اسکرین پر ایک بڑا سا سیاہ دھبہ دیکھ رہے تھے جبکہ دور فاصلے پر ایک شعلہ سا دکھائی دیتا رہا۔ احتجاج کا یہ انوکھا انداز بھارتی عوام میں بے حد پسند کیا گیا اور اس سے ناظرین و سامعین میں حکومت کے الزام پر شدید اشتعال پیدا ہوا۔ دور دراز علاقوں میں لوگ احتجاج کیلیے سڑکوں پر نکل آئے۔ پولیس نے لاتعداد مظاہرین کو گرفتار بھی کیا اس طرح پوری دنیا نے بھارتی پابندی کو منفی انداز میں دیکھا۔ یہ فلم برطانیہ کی مشہور انعام یافتہ فلمساز ''لیسلی اوون'' نے ''بھارت کی بیٹی'' کے عنوان سے بنائی ہے۔ بھارت کی طالبہ اور دارالحکومت دہلی کی ٢٣ سالہ لڑکی کی کہانی ہے جسے اغواء کرنے کے بعد چند بدمعاشوں نے چلتی بس میں اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ اگرچہ ۲۰۱۲ء کا واقعہ ہے لیکن فلم بنانے کے بعد اسے چند روز قبل چلایا جانا تھا۔ 
بھارتی چینل نے اسکرین کو سیاہ کرنے کے علاوہ کسی اور تبصرے کو ضروری نہیں سمجھا۔ چینل کی ایڈیٹوریل ڈائریکٹر نے اپنے پیغام میں کہا کہ ہم شور نہیں مچائیں گے لیکن ہماری آواز سنی جائے گی۔ ایڈیٹوریل ڈائریکٹر سونیا سنگھ کی یہ بات صد فی صد درست ثابت ہوئی اور چینل کی ایک گھنٹے کی سیاہ اسکرین اور خاموشی نے بھارت کے بے شمار دعوؤں کا پول کھول کر رکھ دیا۔ اس کی جمہوریت، میڈیا کی آزادی، اظہارِ رائے کی عام اجازت، عورتوں کے حقوق، نظامِ عدل اور حکومتی عملداری سب کچھ تو ان کے سامنے عیاں ہو گیا۔ ستم بالائے ستم ملاحظہ ہو کہ بھارتی وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ نے الٹا ٢٣سالہ بدنصیب لڑکی کو ہی موردِ الزام ٹھہرا دیا۔ ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ ''اس کو رات کے وقت یوں گھر سے باہر نہیں آنا چاہیے تھا''۔ وزیرِ داخلہ کے اس بیان کو بھارتیوں نے لائقِ مذمت جانتے ہوئے خوب لعن طعن کی۔
فلمساز نے اس جرم میں شریک ایک شخص مکیش سنگھ کا انٹرویو کیا تھا۔ جیل حکام کے مطابق فلمساز نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ اس انٹرویو کو فلم میں شامل نہیں کیا جا سکتا جبکہ اس نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے فلم میں شامل کر لیا تاہم فلمساز نے وضاحت کی ہے کہ اس نے اس قسم کا کوئی معاہدہ کیا ہی نہیں تھا لہٰذا معاہدے کی خلاف ورزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ تو ایک کیس ہے جو دہلی میں منظرِ عام پر آ گیا جس کی بازگشت پوری دنیا میں سنی گئی۔ اس قسم کے بیسیوں کیس بھارت میں روزانہ ہوتے ہیں جن میں بعض کا تو بالکل پتہ ہی نہیں چلتا بعض میں ملزموں کے خلاف مقدمات درج ہو جاتے ہیں مگر اکثر ملزم بچ نکلتے ہیں۔
نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو آف انڈیا کے مطابق ٢٠١٢ء میں زیادتی کے ٢٤٩٢٣ واقعات ہوئے۔ اگر اس قسم کے واقعات کا پچھلے پانچ سال کا جائزہ لیا جائے تو ١٢۔٢٠٠٧ء میں اوسط ٢٢٠٠٠ واقعات ہر سال بھارت کی روسیاہی کا موجب بنے۔ دہلی شہر میں اس قسم کے واقعات کی تعداد ملک کے باقی حصوں سے زیادہ رہی۔ دہلی میں غیر ملکیوں کے ساتھ اکثر اوقات اس قسم کے واقعات ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ خواتین عام طور پر اپنے مقدمات کی پیروی کیلیے بھارت میں لمبے عرصے تک قیام کی متحمل نہیں ہو پاتیں اور ان کے اکثر ملزمان بری ہوجاتے ہیں۔ نیشنل کرائمز ریکارڈ بیورو کے ٢٠١٣ء کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں زیادتی کے ٣٣٧٠٧ واقعات کے مقدمات درج ہوئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ واقعات پچھلے برسوں سے مسلسل بڑھ رہے ہیں اور ان کے تدارک کیلیے بھی کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
یہ کثیر تعداد تو ان مقدمات کی ہے جن میں عورتوں سے زیادتی ہوئی اور انہوں نے ہمت کر کے مقدمات درج کروائے جبکہ بیشتر تعداد تو ان خواتین کی ہے جو خوف اور بدنامی کی بنا پر مقدمات درج کروانے سے گریز کرتی ہیں یا ان کو جان سے مار دیا جاتا ہے۔ ٢٠١٣ء میں عورتوں کے اغوا کے٥١٨٨١ مقدمات درج ہوئے۔ جہیز نہ لانے یا اس سے متعلقہ مقدمات کی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں غیر اخلاقی مقدمات سے لے کر دیگر مقدمات بھی شامل ہیں۔ اگرچہ عورتوں کے خلاف جرائم دنیا کے معاشرے میں ہوتے ہیں لیکن بھارت سب پر بازی لے گیا ہے اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ ابھی تک حکومت کی طرف سے مثبت اقدامات کی ضرورت ہی نہیں محسوس کی جا رہی۔
بھارت کے موجودہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اپنی بیوی کو تیاگ دینے کے باوجود عورتوں کے حقوق کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں۔ وہ اکثر عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں بڑی بڑی باتیں کرتے سنے گئے ہیں۔ چند روز قبل خواتین کے عالمی دن کے موقع پر موصوف نے اس بات کا اعادہ کیا کہ عورتوں کے خلاف کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جائے گا اور عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی سے ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے مذکورہ فلم کو بھارتی چینل پر نہ چلانے کے فیصلے پر کوئی بیان نہیں دیا۔ بعض مبصرین نے مودی کی خاموشی کو اس معاملے پر ان کی دوغلی پالیسی کا نام دیا ہے۔بھارتی حکومت بہت سے دوسرے ایشوز پر اس دوغلے پن کی مظہر ثابت ہو چکی ہے۔
انسانی حقوق کی پامالی کے جو واقعات بھارت میں ہوتے ہیں ان کی مثال نہیں ملتی۔ طبقاتی فرق اس قدر زیادہ ہے کہ جس نظام پر بھارت فخر کرتا ہے اور جس کی بنیاد پر جمہوریت کا راگ الاپتا ہے اس میں بعض طبقات ایسے ہیں کہ انہیں سانس لینے میں بھی دشواریاں ہیں۔مذہب، معیشت اور دیگر تمام معاملات پر لوگوں میں پایا جانے والا طبقاتی فرق انتہائی زیادہ ہے لیکن اس کی طرف حکومت کی کوئی توجہ ہی نہیں۔ بھارت کی حکومت کو ایٹمی پروگرام، جنگ و جدل کیلیے اسلحہ کے ڈھیر لگانے،خلا اور سمندروں میں تحقیق کے نام پر قومی دولت ضائع کرنے اور اپنی فوج کو پاکستان، چین اور دیگر ہمسایہ ممالک کے خلاف کیل کانٹے سے لیس کرنے سے فرصت ملے تو وہ عوامی حقوق پر بھی کوئی دھیان دے۔ بھارت نے اندرا اور سونیا کے روپ میں حکمران عورتیں تو پیدا کیں لیکن عام عورت اور لڑکی کو معاشرے میں مقام نہیں ملا۔ مقام تو دور کی بات ہے ان کی عزت تک پامال ہونے سے بچانے کی کسی کو فکر نہیں۔ بھارتی عورت بالی وُڈ میں عزت کما سکتی ہے مگر گھریلو ناری عزت سے محروم آگ میں جلنے سے پر مجبور ہے۔
نریندر مودی جس طمطراق سے اقتدار میں آئے ان کے کرتوت اسی تیزی سے زوال کی طرف لیجا رہے ہیں۔ بھارت سرکار کے خلاف وہاں کا کسان بھی اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ بھارت میں معروف سماجی کارکن انا ہزارے ایک مرتبہ پھر دہلی کی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ انا نے ٢٠١١ء میں کرپشن کے خلاف بڑے پیمانے پر چلائی جانے والی تحریک کی قیادت کی تھی جس نے دہلی کو ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن اب وہ مشتعل کسانوں کے جتھے کے ہمراہ احتجاج کیلیے نکلے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاست دان اراضی قانون میں اصلاحات کے نام پر کسانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
انا ہزارے نے کسانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اراضی قانون میں اصلاحات اصلاً زمینوں پر قبضہ سے پہلے یہ کام انگریز کیا کرتے تھے لیکن آج بھارت میں انگریز سے بھی بدتر حکومت برسرِ اقتدار ہے کیونکہ کسانوں کے ساتھ اتنا ظلم تو کبھی انگریز نے بھی نہیں کیا تھا۔ معاملہ دراصل یہ ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی محض ایک سال پرانے اراضی قانون میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں تاکہ بقول ان کے اسے مزید کاروبار دوست بنایا جائے۔ یہ قانون کانگرس نے منظور کیا تھا۔ ایک عشرے سے بھی زائد عرصے سے بھارت کو یہ تکلیف دہ مسئلہ درپیش ہے کہ صنعت اور انفراسٹرکچر کیلیے زرعی زمینیں کیسے حاصل کی جائیں کیونکہ اس کام میں انہیں کسانوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے جن کا ذریعۂ معاش ہی ان کی زمین ہے۔ پچھلی کانگرس حکومت نے تحویلِ اراضی کیلیے قانون کے ذریعے سے تنازع حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ کانگرس نے نئے قانون کے بارے میں کہا تھا کہ اس میں کسانوں اور صنعت کاروں، دونوں کے مفادات کا منصفانہ طور پر لحاظ رکھا گیا ہے۔

تاجر اور کاروباری حضرات نے اس قانون پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے زمینوں کا حصول ناممکن بنا دیا ہے لیکن اب نریندر مودی جو ملک میں صنعت کا پہیہ تیز کرنا چاہتے ہیں، بھارت کے انتہائی حساس سیاسی مسئلے کو چھیڑ رہے ہیں۔ دسمبر کے اواخر میں ان کی حکومت نے ہنگامی آرڈیننس منظور کر کے کسانوں کی رضامندی اور سماجی اثرات کا جائزہ لیے بغیر جبری طور پر تحویلِ اراضی کی اجازت دے دی ہے۔ اب پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس شروع ہونے کے بعد حکومت کے پاس ضروری قانون سازی کی منظوری لینے کیلیے چھ ہفتے ہیں تاکہ ان ترامیم کو پائیدار قانون کی شکل دی جا سکے۔ کانگرس اور بیشتر اپوزیشن جماعتوں نے عزم کیا ہے کہ وہ یہ ترامیم کسی صورت منظور نہیں ہونے دیں گی۔ زیادہ تر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی متنازع ترمیم پارلیمنٹ سے منظور ہونا مشکل ہے، خاص طور پر ایوانِ بالا سے جہاں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں لہٰذا اسے خاموشی سے مسترد ہونے دیا جائے گا۔

======================
خطے کا آئندہ حکمران کون؟
سمیع اللہ ملک، لندن
میں نے پچھلے کئی کالموں میں افغانستان کی بدلتے ہوئے سیاسی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے تحریرکیا تھا کہ خطے میں پاکستان کی حکمتِ عملی کامیاب ہو رہی ہے اور طالبان نے بالآخر موجودہ افغان حکومت سے بات چیت کیلیے نہ صرف رضامندی کا اظہار کر دیا ہے بلکہ ملا عمر نے اپنی شوریٰ کو اعتماد میں لیکر بات چیت کیلیے با اختیار وفد بھی نامزد کر دیا ہے جبکہ افغان طالبان کی چین کے ساتھ کامیاب مذاکرات کی اطلاعات بھی ہیں۔ اگلے چند دنوں میں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع ہونے کا امکان بتایا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان مذاکرات میں افغان طالبان کی نمائندگی قاری دین محمد کریں گے جبکہ ان کے ساتھ افغان طالبان کمانڈروں کا ایک وفد بھی موجود ہو گا۔ بات چیت اسلام آباد، پشاور یا بیجنگ میں متوقع ہے۔
اس خطے کی سیاست میں امریکی کردار کم ہوتا جا رہا ہے جبکہ اشرف غنی پاکستانی قیادت پر بھرپور انحصار کر رہے ہیں جس کے سبب اس خطے میں پاکستان اور چین کے قدم بڑھتے دیکھ کر امریکی سازشوں پر اتر آئے ہیں اور ڈاکٹر شکیل کا قصہ بھی اسی لیے چھیڑا گیا ہے کیونکہ پاکستان کی کامیاب حکمتِ عملی کے سبب افغان طالبان اور افغان حکومت دونوں ہی پاکستان پر اعتماد کرنے لگے ہیں جس سے خطے کا سیاسی مستقبل طے کرنے کیلیے پاکستان اور چین کی پوزیشن مستحکم ہوئی کیونکہ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ انہیں پاکستان اور چین پر دیگر ملکوں کے مقابلے میں زیادہ اعتماد ہے۔
ادھر افغان طالبان پاکستان پر بھرپور اعتماد کر رہے ہیں لیکن اپنی خود مختار پوزیشن پر بھی کوئی سودا کرنے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔ افغان طالبان کی جانب سے پاکستان سے مشاورت اور اتحاد کے ساتھ ساتھ اختلافات در اختلافات رائے کا عنصر بھی موجود ہے اور انہیں پاکستان سے شکایات بھی ہیں اس کے باوجود خطے میں بنیادی کردار پاکستان اور چین ادا کر رہے ہیں۔ امریکا کو افغان قیادت سے بات چیت کیلیے پاکستان کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے اور وہ سہولت دستیاب نہیں رہی جو اسے حامد کرزئی کے دور میں حاصل تھی۔ امریکا کا اصل مہرہ شمالی اتحاد تھا اور اب شمالی اتحاد بھی طالبان کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان سے دوستی پر مجبور ہو چکا ہے اور عبداللہ عبداللہ نے باقاعدہ بیان جاری کیا کہ وہ طالبان سے بات چیت پر مطمئن ہیں اور یہ بات چیت جلد کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ جیسا کہ وزیرِ اعظم پاکستان نے تسلیم کیا ہے کہ افغانستان کے معاملے پر تمام پیشرفت آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے مرہونِ منت ہے کہ انہوں نے سابق لوگوں سے مشاورت کی اور سوویت دور کے شمالی اتحاد کے جہادیوں کو ساتھ ملا کر ایک اچھی سفارت کاری کے ساتھ افغانستان میں پاکستان کیلیے محفوظ مقام کو دوبارہ حاصل کیا جس پر امریکا اور بھارت تلملانے کے سوا کچھ کرنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتے البتہ سب کچھ ابھی بھی اچھا نہیں ہے کیونکہ حامد کرزئی اور بھارتی لابی کے جنرل بسم اللہ و دیگر جو افغانستان کے نیشنل ڈائریکیوریٹ آف سیکورٹی کے کرتا دھرتا ہیں ابھی تک بھارت سرکار کے پرشاد پر زندہ ہیں اور افغان سرزمین پر پاکستان کے دشمنوں کی مدد کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ لوگ اپنے صدر کی ہدایات کو بھی نظر انداز کر رہے ہیں اس گروپ کی قیادت حامد کرزئی کر رہے ہیں۔ تاہم ایک تو یہ گروہ محدود ہے دوسرے یہ کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے پاکستان کے حامیوں کی صف میں آ جانے کے بعد اس کی حیثیت نہیں رہی۔ ادھر افغان طالبان نے امریکا کے ساتھ قطر میں کسی بھی طرح کی بات چیت سے انکار کرتے ہوئے ایسی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا ہے جبکہ افغان حکومت کے ساتھ ان کی بات چیت بھی ابھی شروع نہیں ہوئی۔ معاملہ صرف آمادگی کی حد تک ہے۔ آئندہ بات چیت کی شرائط اور قواعد و ضوابط کے حوالے سے فریقین کے نمائندوں کے درمیان پہلی ملاقات متوقع ہے تاہم اس ملاقات کے حوالے سے بھی ابھی تک وقت اور مقام کا تعین نہیں ہو سکا۔ بات چیت کا ایجنڈا اور فیصلے کیا ہوں گے، یہ ابھی بہت دور کی باتیں ہیں جن پر صرف قیاس آرائیاں ہی کی جا رہی ہیں۔
افغان طالبان نے افغان حکومت کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ بات چیت سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ اب بھی ذبیح اللہ مجاہد نے یہی کہا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ تو کسی بھی وقت بات چیت کر سکتے ہیں مگر کابل حکومت سے نہیں تاہم اسلام آباد میں باخبرحلقے اس حوالے سے مختلف معلومات رکھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف پاکستان اور افغانستان میں امن و ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنے کیلیے بہت متحرک ہیں اور ابتدائی پس و پیش کے بعد اب وزیرِ اعظم نواز شریف بھی ان کی رائے سے متفق ہیں۔ ان کی کوششوں سے طالبان اور چین کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہو چکا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آرمی چیف جب پہلی بار اشرف غنی سے ملنے کابل گئے تھے تو اس وقت اشرف غنی کی حکومت ڈانواں ڈول تھی جسے انہوں نے حوصلہ دیا اور اس سے بات چیت کو آگے بڑھاتے ہوئے چین کو بھی اس عمل کا حصہ بنایا۔ اب معاملات اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ چین نے افغان طالبان کو کابل سے کاشغر تک ریلوے لائن، انرجی کوریڈور میں حصہ داری سمیت ترقی کے بے پناہ منصوبوں کی پیشکش کی ہے اور شرط یہ عائد کی ہے کہ امن قائم کیا جائے جس پر طالبان نے بھی پاکستان کی ضمانت اور اپنی ذاتی چھان پھٹک کے بعد اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ اگر ترقی اور امن کا یہ موقع گنوا دیا گیا تو شائد دوبارہ ایسا موقع آنے میں دیر ہو جائے لہٰذا وہ بھی ترقی کے اس خواب میں حصہ دار بننے پر آمادہ ہیں۔ ان ہی کے مطالبے پر پاکستان اور چین کے دباؤ کے نتیجے میں امریکا نے طالبان کو دہشتگرد کے بجائے سیاسی متحارب کا نام دیا ہے مگر طالبان غیر ملکی قبضے کی موجودگی میں کوئی بات چیت کرنے کو تیارنہیں ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ ان کے مطالبات بہت واضح ہیں۔ طالبان کا مطالبہ ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج مکمل طور پر نکل جائیں، افغانوں کو اپنے معاملات خود حل کرنے کا موقع دیا جائے تو وہ دیگر گروپوں سے مل کر چلنے کو تیار ہیں مگر اوّل یہ کہ وہ امریکیوں کا بنایا ہوا آئین نہیں مانیں گے، دوسرے یہ کہ کابل حکومت کو امریکا سے سیکورٹی معاہدہ ختم کرنا ہو گا، تیسرے یہ کہ تمام امریکی اور دیگر غیر ملکیوں کو وہاں سے نکلنا ہو گا۔ اشرف غنی اگر اس پر آمادہ ہو جائیں تو وہ ان سے ایک افغان دھڑے کے طور پر بات کرنے کیلیے تیار ہیں۔ افغان حکومت کے طور پر نہیں۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان کے ذمہ داران نے بہت تگ و دو اور طویل مباحثوں کے بعد طالبان کو اس پر راضی کیا ہے کہ وہ افغان مسئلے کے دیگر فریقین سے ملاقات کریں جن میں عبداللہ عبداللہ بھی شامل ہیں۔ فریقین کو یہ بات باور کرائی گئی ہے کہ دونوں اگر ماضی میں ایک دوسرے کو ختم نہیں کر سکے تو آئندہ بھی نہیں کر سکیں گے مگر طالبان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ غیر ملکیوں کی موجودگی میں غیر ملکیوں کی مدد سے قائم ایک کٹھ پتلی حکومت سے بات چیت وہ کیوں کریں؟ 
پاکستان اور چین کی ضمانت کے ساتھ افغان طالبان اور اشرف غنی حکومت کے نمائندوں کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ جلد ہو سکتا ہے۔ اس سارے عمل کی کامیابی کیلیے پاکستان نے افغانستان کے اندر اپنے بہت سے پرانے دوستوں کو بھی متحرک کر رکھا ہے جن کے دلائل نے طالبان کو بات چیت پر آمادہ کیا ہے اور پہلی ملاقات میں مذاکرات کا طریقہ کار ضوابط اور دیگر تکنیکی امور پر بات ہو گی۔ ایجنڈے اور مطالبات کا معاملہ بعد کا ہے جس پر بعض لوگوں نے ابھی سے قیاس آرائیاں شروع کر دی ہیں جس سے ابتدائی مراحل میں اس مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پاکستان بات چیت کیلیے بہت زیادہ جدوجہد کر رہا ہے۔ امریکی بھی اس ساری تگ و دو کو بغور دیکھ رہے ہیں البتہ طالبان اور چین کے ایک دوسرے پر اعتماد سے انہیں پریشانی ضرور ہوئی ہے مگر چونکہ امریکیوں کی واحد خواہش ہے طالبان کو امریکا سے بھی بات چیت شروع کرنے کیلیے قائل کیا جائے مگر کہا یہ جا رہا ہے کہ طالبان امریکا سے بات چیت کیلیے بھی اس وقت تک قطعاً آمادہ نہیں جب تک امریکا مئی ٢٠١٤ء میں مذاکرات کے آغاز کے وقت جن وعدوں سے مکر گیا تھا ان کو پورا نہیں کرتا۔ ان سے اوّلین شرط پانچ افغان رہنماؤں کی قطر سے رہائی ہے اور ان کی غیر مشروط رہائی کے بعد ہی طالبان امریکا سے بات چیت پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ ایک اہم ذریعے کا دعویٰ ہے کہ امریکی ان پانچوں کی رہائی کیلیے تیار ہیں مگر فیس سیونگ کے طور پر طالبان کی طرف سے مذاکرات پر آمادگی کا اعلان چاہتے ہیں جبکہ طالبان کا مؤقف یہ ہے کہ یہ رہائی کوئی نئی شرط نہیں، ماضی کے مذاکرات کا نتیجہ ہے جسے پورا کرنے کیلیے فیس سیونگ کی ضرورت نہیں ہے۔یاد رہے کہ ان پانچ رہنماؤں میں محمد فضل، خیراللہ خیرخواہ، نوراللہ نوری، محمد نبی عمری اور عبدالحق واسق کو گونتاناموبے سے رہائی کیلیے قطر منتقل کیا گیا تھا۔
دوسری جانب افغان طالبان کی شوریٰ کے ایک رکن نے بتایا کہ طالبان بے مقصد جنگ کے حامی نہیں۔ ان کی جنگ غیر ملکیوں کے خلاف ہے۔آج افغانستان غیر ملکیوں سے آزاد ہو جائے تو وہ آج ہی فوراً جنگ بند کر دیں گے مگر بے اختیار کابل حکومت سے مذاکرات کس بنیاد پر کیے جائیں؟ انہوں نے تصدیق کی کہ بات چیت شروع کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی گئی ہے مگر مشروط مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ادھرافغان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ قطر میں امریکا سے مذاکرات کی بے بنیاد خبریں چلائی جا رہی ہیں بلکہ کسی بھی پارٹی سے ابھی کہیں بھی کوئی بات نہیں ہو رہی اور نہ ہی مذاکرات کیلیے ابھی کوئی مقام طے پایا ہے۔امریکا سے مذاکرات کے حوالے سے طالبان کی پالیسی میں کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ امریکا کی پالیسیوں سے افغانستان کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ افغانستان میں اب بھی ہزاروں غیر ملکی فوجی قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ کابل حکومت متنازع سیکورٹی معاہدے میں پھنسی ہوئی ہے جس کے تحت امریکی افغانستان میں کرپشن اور اسلامی ثقافت کے خلاف سرگرمیوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ 
افغانستان میں جاری اس پیش رفت کو دیکھتے ہوئے امریکا پاکستان کیلیے امریکی امداد کو شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کر کے ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا ہے مگر پاکستان اس دہمکی کو پہلے ہی مسترد کر چکا ہے اور آئندہ بھی ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ امریکی مطالبے کا تعلق ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی سے زیادہ خطے کی صورتحال میں امریکا کے پیچھے کی جانب سرکتے قدموں کو سنبھالنے سے ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ افغانستان خطے میں ہی نہیں پوری دنیا کی سیاست میں اہم مقام حاصل کر چکا ہے اور اس صورتحال میں امریکی غیر متعلق ہوتے جا رہے ہیں اور بہت آہستگی کے ساتھ چین اور پاکستان اہم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت افغانستان کے صدر اشرف غنی پاکستان سے تعلق میں زیادہ سنجیدہ ہیں اور امریکی بھی براہِ راست اشرف غنی سے بات چیت کرنے کی بجائے پاکستان کے ذریعے بات کرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب افغان طالبان بھی دنیا کے ساتھ تعلقات کو پاکستان کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
اپنی آزاد اور خود مختار حیثیت کو منواتے ہوئے طالبان پاکستان کے ذریعے دوسروں سے تعلقات استوار کر رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال چین ہے کہ امریکا کی سرتوڑ کوشش کے باوجود امریکا کی سننے کو تیار نہیں البتہ چین کے حوالے سے طالبان نے باقاعدہ اعتماد کا اظہار کیا ہے اور پاکستان ہی کی سفارش پر وہ اشرف غنی کے ساتھ بات چیت پر بھی ایک حد تک آمادہ دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکیوں کو ان سے روابط کی خاطر پاکستان سے بات چیت کرنی پڑتی ہے جبکہ چین کو پاکستان نے براہِ راست رسائی دے رکھی ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان پر دباؤ ڈالنے کیلیے امریکا کے پاس ایک ہی آپشن تھا کہ ٹی ٹی پی کو جواز بنا کر پاکستان سے آپریشن کا مطالبہ کرے۔ اسے پاکستان نے بڑی خوبصورتی سے افغانستان میں دھکیل کر خود امریکا سے مطالبہ شروع کر دیا ہے کہ وہ ان کے خلاف کاروائی کرے۔ پاکستانی اداروں نے بھارت کے خلاف ثبوت اکٹھے کر کے ایک اور ہتھیار کو بھی بے اثر بنا دیا ہے۔ خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں بھارت کو استعمال کرتے ہوئے امریکیوں نے شرط عائد کی تھی کہ ممبئی حملہ کے ملزموں کا بھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیا جائے جس کے جواب میں پاکستان نے سمجھوتا ایکسپریس حملہ کے ملزمان کو سزا دینے اور کشتی ڈرامہ کی تحقیقات کا مطالبہ کر کے بھارت اور اس کے مربی امریکیوں کو نہ صرف چپ کروا دیا ہے بلکہ اگر پاکستان اپنے اس مطالبے پر دباؤ ڈالتے ہوئے بھارت کے خلاف ثبوتوں کو سامنے لاتا ہے تو امکان ہے کہ مستقبل کے مفادات کو دیکھتے ہوئے پوری دنیا پاکستان کے مؤقف کی حمائت کرتی دکھائی دے گی جس سے بھارت ہی نہیں امریکی بھی پریشانی کا شکار ہیں اور اس پر مزید یہ کہ پاکستان نے امریکا سے اپنے دو برس پرانے مطالبات کو پھر دہرایا ہے کہ وہ افغانستان سے اسلحہ واپس نہیں لے جائے گا بلکہ پاکستان کو دے کر جائے گا ورنہ پاکستان اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔
دوسری جانب امریکا سے کہا جا رہا ہے کہ بھارت کا بستر بھی وہ خود ہی لپیٹ کرجائے اور امریکیوں کو حیرت یہ ہے کہ اس مطالبے میں اب اشرف غنی بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اس پسِ منظر میں امریکی اپنے مطالبات سامنے لا کر پاکستان کو دبانے اور حساب برابر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکیوں نے ایک طرف بھارت سے مذاکرات کروا کر پاکستان کو لالی پاپ دینے کی کوشش کی ہے تو دوسری جانب شکیل آفریدی کا مقدمہ اچھال کر پاکستان کو دھمکانے کی کوشش کی ہے کہ اگر پاکستان نے امریکا کے ساتھ چلنے سے گریز کیا تو امریکا اس کی امداد روک دے گا۔ ایک مغربی سفارتی ذریعے نے بتایا کہ امریکی ارکانِ کانگرس کے مطالبے میں قابلِ توجہ امر شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ اصل اشارہ پاکستان کو اس کی حیثیت دکھانے کا ہے کہ اگر امریکا نے امداد بند کر دی تو پاکستان کیلیے بہت سی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
اس غیر ملکی ذریعے کے مطابق امریکی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ شکیل آفریدی جیل میں رہے یا رہا ہو جائے، اب ان کے کسی کام کا نہیں۔پاکستانی ادارے اس کے دماغ سے جو انفارمیشن نچوڑنا چاہتے تھے نچوڑ چکے، وہ رہا ہو کر بھی امریکیوں کے کسی کام نہیں آسکے گا لہٰذا معاملہ اس کی رہائی کا ہے ہی نہیں معاملہ صرف مفادات کی اس تیز رفتارجنگ میں اپنے اپنے پتے کھیلنے کا ہے۔ لہٰذا امریکا نے یہ پتہ کھیل دیا ہے۔ اس مغربی سفارتی ذریعے کا دعویٰ ہے کہ امریکی سمیت سب جانتے ہیں کہ پاکستان کیلیے اسے رہا کرنا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ یہ بات خود امریکیوں نے ہی ثابت کر دی ہے کہ شکیل ان کا ایجنٹ ہے۔ اس کے باوجود اگر پاکستان اس کو رہا کرتا ہے تو عوامی سطح پر حکومت اور ذمہ داروں کا وقار خاک میں مل جائے گا۔ لہٰذا کسی بہت بڑی وجہ اور فیس سیونگ کے بغیر شکیل آفریدی کی رہائی ممکن نہیں اور ان حالات میں امریکا اس پوزیشن میں نہیں کہ کوئی ایسی فیس سیونگ دے سکے کہ جس کی آڑ میں لوگ شکیل آفریدی کو بھول جائیں لہٰذا پاکستان اور امریکا ہی نہیں پوری دنیا جانتی ہے کہ شکیل آفریدی کی رہائی ممکن نہیں ہے۔ امریکا صرف اپنے مفادات کیلیے نعرے لگا رہا ہے۔
معاملہ صرف افغانستان کے تناظر میں خطے میں طاقت کے توازن کا نہیں ہے بلکہ اسلام آباد آگاہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے سی آئی اے کو شدید ناکامی کا سامنا ہے اور اس کے ایجنٹ بددل ہو رہے ہیں۔ سی آئی اے کو ایک عرصے سے ضرورت تھی کہ اس کے ایجنٹس کو تسلی دی جا سکے لہٰذا اب ان کو تسلی دینے کیلیے شکیل آفریدی کا معاملہ اٹھایا گیا تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ امریکا اپنے دوستوں کو کبھی نہیں بھولتا مگر امریکا کو یہ بات بھی اچھی طرح بتا دی گئی ہے کہ آفریدی کی رہائی کو بھول جائیں اور پاکستان کے مطالبات پر توجہ دیں جس کے بارے میں ڈی جی آئی ایس آئی بات کرنے وہاں گئے تھے۔افغان طالبان کے ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ طالبان کے مطالبات پر آمادہ ہونے کی دیگر وجوہ کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان اور چین نے انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ افغان آئین ماننے کے پابند نہیں ہوں گے اور انہیں الیکشن پر مجبور نہیں کیا جائے گا یعنی ان پر جمہوریت مسلط نہیں کی جائے گی۔ اس حوالے سے چینی وزیرِ خارجہ کا بیان بھی اہم ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ افغان خود یہ حق رکھتے ہیں کہ اپنے لیے کسی بھی نظامِ حکومت کا فیصلہ کریں۔

خطے میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور اس کردار نے امریکا کیلیے من مانی کی جگہ تنگ کر دی ہے۔ اب امریکا خطے سے آؤٹ اور پاکستان اِن ہو رہا ہے۔ پاکستان کی مستحکم ہوتی ہوئی عالمی پوزیشن کو دیکھ کر ہی امریکا کے مشورے پر بھارت نے مذاکرات کیلیے اپنے سیکرٹری خارجہ کو مذاکرات کیلیے اسلام آباد بھیجا تھا۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ کے دورے سے قبل ہی پاکستان نے واضح اعلان کیا تھا کہ مذاکرات کے ایجنڈے پر مسئلہ کشمیر سرِ فہرست ہو گا اور ایسا ہی ہوا۔ ماضی میں پاک بھارت مذاکرات کو پاکستانی ہائی کمشنر دہلی کی حریت کانفرنس کے رہنماؤں سے ملاقات کو بہانہ بنا کر بھارتی حکومت نے منسوخ کیا تھا لیکن بھارت کے سیکرٹری خارجہ کے پاکستان کے دورے کے بعد دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کی حریت کانفرنس کے اہم رہنماء میر واعظ سے ملاقات کیا کسی نئے ایجنڈے کی چغلی کھا رہی ہے؟

===================
"امّیدِ بہار نہیں بلکہ یقینِ بہار''
سمیع اللہ ملک، لندن
دہلی کے حالیہ انتخابات نے ثابت کر دیا ہے کہ تبدیلی تقریروں، جلسوں، دھرنوں اور خالی خولی نعروں سے نہیں آتی بلکہ عوام کی بیداری سے حقیقی تبدیلی بیلٹ بکس سے آتی ہے۔ جب عوام تبدیلی کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو انہیں ایسا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بھارت کا ایک شہر دہلی جسے ایک یونین کا درجہ حاصل ہے، ٧٠ نشستوں پر مشتمل اس اسمبلی کو ''ودھن سبھا'' کہتے ہیں۔ ٧ فروری ٢٠١٥ء کو ہونے والے انتخابات میں اس اسمبلی میں بھارت کی ''عام آدمی پارٹی'' نے ٦٧ نشستیں جیت کر جہاں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا وہاں نریندر مودی جو حال ہی میں امریکی صدر اوباما کے دورے کی بناء پر میڈیا میں خاصی پذیرائی حاصل کرنے میں پوری طرح مگن تھے تاکہ اس کا فائدہ اٹھا کر نہ صرف اس خطے کی سیاست میں ہمسایہ ممالک پر دھاک بٹھائی جائے بلکہ دہلی کے انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی جائے لیکن اسے کیا کہا جائے کہ مودی سرکار کے عزائم بری طرح ناکام ہو گئے ہیں اور انہیں اپنی ہی راجدھانی میں ایسی فاش شکست کا سامنا کرنا پڑ گیا ہے جس سے انہیں سنبھلنا مشکل نظر دکھائی دے رہا ہے اور ان کے حصے میں صرف تین سیٹیں آئی ہیں جو اپوزیشن لیڈر بنانے کیلیے بھی ناکافی ہیں۔ دہلی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کیلیے بھی کم از کم سات نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کی بڑی بڑی سیاسی جماعتیں جن میں بی جے پی اور کانگرس شامل ہیں، اس قابل نہیں کہ دہلی کی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا انتخاب بھی جیت سکیں۔ البتہ عام آدمی پارٹی کے قائدین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن لیڈر بی جے پی سے ہی ہو گا جس پر وہ اعتراض نہیں کریں گے۔ یہ ہے وہ تبدیلی جو دہلی کے انتخابات میں آئی ہے۔
عام آدمی پارٹی جس کا قیام ہی نومبر ٢٠١٢ء میں عمل میں لایا گیا، نے پہلی بار دہلی کے انتخابات میں حصہ لیا۔ ٢٠١٣ء کے ان انتخابات میں عام آدمی کے لیڈر اروند کجریوال اگرچہ وزیرِ اعلیٰ تو بن گئے تھے لیکن انہیں کانگرس اور دیگر جماعتوں کے ارکان کا سہارا لینا پڑا۔ ٢٨ دسمبر ٢٠١٣ء کو انہوں نے اقتدار سنبھالا لیکن وہ ایجنڈا جس کیلیے وہ اقتدار میں آئے اور قانون سازی کے خواہاں تھے، شریک اقتدار پارٹیوں نے اس پر ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس بنیاد پر انہوں نے ١٤فروری ٢٠١٤ء کو استعفیٰ دے دیا تھا۔ اگرچہ بعد میں انہوں نے اپنے استعفیٰ کو جلدبازی قرار دیا اور عہد کیا کہ وہ آئندہ اقتدار میں آئے تو استعفیٰ نہیں دیں گے۔ان کے استعفیٰ کے بعد دہلی میں گورنر راج نافذ کر دیا گیا جس کے بعد اب دوبارہ انتخابات ہوئے اور عام آدمی پارٹی نے مکمل طور پر دیگر بڑی چھوٹی پارٹیوں کا صفایا کر دیا۔
اب اروند کجریوال کے پاس مکمل کنٹرول ہے۔ وہ جو چاہیں قانون بنا سکتے ہیں اور جیسے چاہیں حکومت چلا سکتے ہیں۔ اس مختصر عرصے میں اروند کجریوال نے کیسے عوام کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ قریباً تمام کی تمام سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو گئے اور بڑی پرانی پارٹیوں کو مات دیدی۔ وہ کون سا ایجنڈا ہے جس کی تکمیل وہ اپنی سابقہ حکومت میں نہیں کر سکتے تھے اور انہوں نے ٤٩ دنوں کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔ دہلی کی وزارتِ اعلیٰ قربان کر دینا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اس کیلیے جذبے، ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ اروند کجریوال کا ایجنڈا کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ اس کے خلاف قانون سازی کی جائے لیکن دوسری حلیف جماعتوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا لیکن ان کی ہمت کی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے اپنے مشن پر اپنی حکومت، جیت اور اپنی وزارتِ عالیہ قربان کر دی۔ لیڈر ایسے ہوتے ہیں اور ان کی تقلید اور حوصلہ افزائی عوام بھی ایسے طریقے سے کرتے ہیں کہ اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جیسا اعزاز عام آدمی پارٹی کو دہلی میں ملا شائد دنیا میں کسی دوسرے لیڈر کو نہیں ملا۔
اروند کجریوال نے اپنے کیریئر کا آغاز ١٩٩٥ء میں انڈین سول سروس کے انڈین ریونیو سروس میں شمولیت سے کیا۔ وہ مقابلے کے امتحان کے بعد سروس میں آئے۔ ٢٠٠ء میں انہیں دو سال کی چھٹی مکمل تنخواہ کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلیے دی گئی جس میں شرط تھی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپسی پر تین سال تک سرکاری ملازمت سے استعفیٰ نہیں دے سکیں گے۔ اس دوران اگر انہوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی تو انہیں دو سال کی تنخواہ واپس حکومت کو دینا پڑے گی۔ نومبر ٢٠٠٢ء میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کجریوال نے دوبارہ محکمے میں رپورٹ کی لیکن ان کی کہیں پوسٹنگ نہیں ہوئی اور بغیرکام کیے انہیں تنخواہ ملتی رہی۔
اٹھارہ ماہ بعد انہوں نے حکومت کو بغیر تنخواہ چھٹی کی درخواست دے دی جو منظور کر لی گئی تھی۔ ١٨ماہ بغیر تنخواہ چھٹی گزارنے کے بعد انہوں نے تین سال کی شرط پوری سمجھتے ہوئے استعفیٰ دے دیا لیکن حکومت نے انہیں معاف نہیں کیا اور ان سے تنخواہ کی رقم واپس لے لی۔ انکم ٹیکس آفیسر کی حیثیت سے کجریوال نے بدعنوانی، رشوت اور کرپشن کے خلاف علم بلند کیا اور اس کیلیے مختلف طریقوں سے آواز اٹھائی۔ انہوں نے انا ہزارے، ارونا رائے اور شیکھر سنگھ جیسے لوگوں کی معاونت کی اور بدعنوانی کے خلاف خوب کام کیا۔ عالمی سطح پر انہوں نے بھارت میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ مجریہ ٢٠٠٥ء کیلیے سخت محنت کی جسے قومی سطح پر بہت سراہا گیا۔
٢٠١٠ء میں انہوں نے کامن ویلتھ کھیلوں میں کرپشن کے خلاف احتجاج کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ کرپشن کے خلاف ادارہ سینٹرل ویجلینس کمیشن کے پاس نہ تو اختیارات ہیں اور نہ ہی ان کے پاس وسائل ہیں کہ وہ بدعنوان عناصر کے خلاف شفاف تقتیش عمل میں لاسکے۔ اسی لیے انہوں نے عام لوگوں کو کرپشن کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی دعوت دی۔ پھر سیاسی جماعت تشکیل دی اور بالآخر اسی ایجنڈے پر چلتے ہوئے آج وہ کامیاب ہو کر دہلی کے وزیرِ اعلیٰ بن گئے ہیں۔ ان کا سفر اگرچہ طویل نہیں ہے لیکن ان کا ایجنڈا عوام کیلیے اس قدر پرکشش ہے کہ لوگ جوق در جوق ان کے ساتھ آ گئے۔
جیسا کہ کالم کے آغاز میں تحریر کیا ہے کہ جب عوام تبدیلی کا فیصلہ کر لیں تو انہیں ایسا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ کجریوال نے دیکھ لیا کہ ان کے ایجنڈے کی پذیرائی نہیں ہو رہی اور بڑی جماعتیں ان کا ساتھ نہیں دے رہیں تو انہوں نے حکومت ہی چھوڑ دی۔ اگرچہ ان کی پارٹی نوزائیدہ تھی، ان کے پاس اتنی سیاسی قوت نہیں تھی، انہیں اس بات کا یقین بھی نہیں تھا کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکیں گے بھی یا نہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے مقصدیت کو اوّلیت دی اور اقتدار کو ٹھوکر مار دی۔ آج اگر وہ فتح کا جشن منا رہے ہیں تو صرف اس لیے کہ انہوں نے ان عوامی امنگوں کا ساتھ دیا جن کیلیے انہوں نے سیاسی کیرئیر شروع کیا تھا۔
دہلی میں ان سے پہلے چھ وزرائے اعلیٰ آئے۔ گو کجریوال کا دورِ اقتدار اُن سب سے کم رہا لیکن اس کے باوجود اِنہیں بہت کم عرصے میں اتنی شاندار اور تاریخی کامیابی حاصل ہو گئی۔ کجریوال کی عام پارٹی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے سب سے کم عرصے میں دہلی کی وزارتِ عالیہ حاصل کر لی، یعنی پارٹی کی بنیاد ٢٠١٢ء میں رکھی گئی اور دہلی کی وزارتِ اعلیٰ انہیں دسمبر ٢٠١٣ء میں مل گئی۔ ان تمام حالات و واقعات کو دیکھا جائے تو سیاسی تاریخ میں یہ ایک عجیب داستان ہے۔ اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ عوام بدعنوانی اور رشوت ستانی کو پسند نہیں کرتے اور جو کوئی اس کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھاتا ہے لوگ اس کو ہر طرح سے نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔
عام آدمی کی پچھلی مختصر حکومت میں کانگرس نے دیکھ لیا کہ ان کی سیاست دہلی کی گلیوں اور بازاروں میں نیلام ہو گئی۔ اتنی بڑی جماعت جو پورے بھارت پر حکمران رہی اور اس کے وزرائے اعلیٰ بار بار دہلی میں بھی رہے، وہ پارٹی ایک بھی سیٹ حاصل نہ کر سکی۔ بی جے پی یعنی نریندر مودی سے عوام کی نفرت بھی کھل کر سامنے آ گئی۔ گو کہ وہ پورے بھارت پر آج بھی حکمران ہیں لیکن ان کی پالیسیوں سے متنفر عوام نے ان کا بھی صفایا کر دیا اور ان کی جماعت صرف تین سیٹیں حاصل کر سکی۔ عوام صرف شفافیت اور قانون کی حکمرانی کو پسند کرتے ہیں۔ غلط سیاست کو ٹھکرا دیتے ہیں، دہلی کا انتخاب اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
عام آدمی پارٹی کی جیت کے پسِ منظر اور پیشِ منظر سے آگہی کیلیے قارئین کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے کہ کجریوال نے ماضی میں ٤٩ روز اقتدار میں رہنے کے بعد استعفیٰ دے دیا اور دہلی کے گورنر سے کہا کہ اسمبلی تحلیل کر کے نئے انتخابات کرائے جائیں۔ریاست دہلی میں ایک بحران کی کیفیت پیدا ہوئی۔ یہ بحران کرپشن کے خلاف ایک بل پیش کیے جانے کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ کجریوال کا کہنا تھا کہ کانگرس نے تحریری طورپر ''جن لوک پال بل'' کی حمائت کا وعدہ کیا تھا لیکن اگلے ہی روز جب بل پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو کانگرس اور بی جے پی اس کے خلاف متحد ہو گئیں۔ دونوں کے ارکان اسمبلی نے اتنا ہنگامہ کیا کہ وزیر اعلیٰ کجریوال کو تقریر کرنا محال ہو گیا۔ اسمبلی کے ٧٠ ارکان میں سے کانگرس اور بی جے پی کے ٤٢/ارکان کی مخالفت نے عام آدمی پارٹی کے رہنماء کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ کانگرس اور بی جے پی کرپشن کے اعتبار سے ایک ہیں۔ پسِ پردہ دونوں ملک کو لوٹ رہی ہیں اور اس مخالفت سے ان کاحقیقی چہرہ سامنے آ گیا ہے۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ بھارت کے جمہوری نظام میں سرمایہ دار طبقہ سیاسی پارٹیوں کو مالی وسائل فراہم کرتا ہے، اسے کوئی عیب نہیں سمجھتا لیکن کجریوال نے جو سیاست میں آنے سے پہلے اعلیٰ سول افسر رہ چکے ہیں، بعض بڑے سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کا نام لیکر الزام عائد کیا کہ سرمایہ دار دو بڑی جماعتوں میں شامل رہنماؤں کو بھاری رشوتیں دیتے ہیں۔ انہوں نے ایک بڑی کاروباری شخصیت مکیش امبانی کا نام لیکر کہا کہ وہ اس ملک کی حکومت چلا رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کانگرس میری دوکان اور بی جے پی میرا مکان ہے۔ میں جو چاہوں خریدوں اور جیسے چاہوں اپنی مرضی سے رہوں کہ اپنے مکان میں میرا ہی حکم چلے گا۔ گزشتہ ایک برس سے مکیش امبانی نریندر مودی کی بھی مکمل پشت پناہی کر رہا ہے۔ نریندر مودی جو ہیلی کاپٹروں میں اڑتے پھرتے ہیں اور بھاری بھرکم جلسے کر رہے ہیں تو اس کے پیچھے مکیش امبانی کا سرمایہ کام آ رہا ہے۔ بدعنوانی اور کرپشن کے ایک اور سکینڈل کا چرچا بھی سامنے آ رہا ہے کہ ایک سرمایہ دار ''رادھا تبلو'' کا نام لیا جا رہا ہے جس کی کمپنی غیر قانونی کاروبار کی وجہ سے ممنوع قرار دی جا چکی ہے اس نے حالیہ انتخابات میں ایک کروڑ اٹھارہ لاکھ بی جے پی کو اور ٦٥ لاکھ کانگرس کو چندہ دیا تھا۔ 
کجریوال کہتے ہیں: جب ہم نے مکیش امبانی کے خلاف آواز اٹھائی تو کانگرس اور بی جے پی دونوں اکٹھی ہو گئیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی نے جس طرح دیکھتے ہی دیکھتے دہلی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غربت اور احساسِ کمتری کے بھاری بوجھ تلے دبے ہوئے نچلی ذات کے لوگوں کے دلوں میں نئے جذبات کروٹ لے رہے ہیں اور بھارت سنگھ پریوار کے ہندتوا کے تنگ نظر سیاسی چنگل سے دارالحکومت کی حد تک تو نجات حاصل کر چکا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے ایک بڑے انگریزی اخبار ''گلف نیوز'' میں بوبی نقوی لکھتے ہیں: دہلی میں عام آدمی پارٹی کی بھاری فتح ایک نظریے کی فتح ہے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو شائد سیاسی کھیل کے قواعد دوبارہ تشکیل دے سکے۔ ایک ایسا نظریہ جو شائد اس ملک (بھارت) کے ایک ارب ٢٥ کروڑ شہریوں کی سیاست کا رخ تبدیل کر دے۔ دہلی کے انتخابات نے ثابت کر دیا ہے کہ بھارت کے لوگ مذہبی، ذاتی، جغرافیائی اور دیگر شناختوں سے ماورا ہونے کی جرأت اور صلاحیت سے مالامال ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے اس امر کا مظاہرہ کیا ہے کہ ایمانداری کے ساتھ بھی سیاست کی جا سکتی ہے۔ شفاف طریقے سے انتخابی مہم کیلیے چندہ جمع کیا جا سکتا ہے۔ شناخت اور سماجی طبقے کے لحاظ سے غیر جانبدار رہا جا سکتا ہے ان تعمیری معاملات اور مسائل پر توجہ مبذول کی جا سکتی ہے جو لوگوں کی زندگیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں اور اس کے باوجود انتخابات جیتے جا سکتے ہیں۔ 
بھارت کے ممتاز تجزیہ نگار کلدیپ نائر نے ''عام آدمی کا نیا جنم'' کے عنوان سے اپنے تبصرے میں بتایا: ''مودی نے سرمایہ کاری کی ہمت افزائی کا جو خواب دکھایا تھا اس کی ابھی تک کوئی تعبیر نہیں نکلی۔ ہم اس حقیقت سے ہر گز نظریں نہیں چرا سکتے کہ ہمارے ملک کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ بی جے پی کی سرپرست آر ایس ایس یہ بات بڑے فخر سے کہتی ہے کہ ہندو حکومت کئی عشروں کے بعد ملک میں واپس آئی ہے لیکن یہ کوئی حل نہیں بلکہ یہ تو الٹا بجائے خود ایک حل طلب مسئلہ ہے ۔جہاں تک تعمیر و ترقی کا تعلق ہے تو اس میں معاشرے کے تمام عناصر کو شامل اور شریک ہونا چاہیے لیکن ایسا لگتا ہے جیسے اقلیتوں کو دیدہ و دانستہ باہر رکھا جا رہا ہے''۔ 

گویا ایک عرصے سے بھارتی جمہوریت کے ساتھ سیکولر ازم کا جو نام لیا جا رہا تھا اس کا جنازہ بھی بڑے دھوم دھام سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ عام آدمی پارٹی کی فتح نے اب بھارت کے ان تمام پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو ''امیدِ بہار نہیں بلکہ یقینِ بہار'' کا راستہ دکھا دیا ہے!

=====================
عروس البلاد....ضربِ غضب!
سمیع اللہ ملک، لندن
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ حضورِ اکرمۖ کے ہمراہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ آنحضورۖ نے کعبہ کی طرف دیکھ کر فرمایا: ''اے کعبہ! تو کتنا مقدس، مکرم اور معظم ہے لیکن ایک مسلمان کی جان و مال اور آبرو کا تقدس کعبہ سے بھی زیادہ ہے''۔ گویا کسی دوسرے کی جان، مال اور آبرو پر ناحق حملہ آور ہونا کعبہ ڈھا دینے سے بھی بڑا جرم ہے۔ 
پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف کے ہمراہ آرمی چیف کا دورۂ کراچی اس لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ وہاں وفاق اور سندھ حکومت کی نگرانی میں کلین اپ آپریشن جاری ہے لیکن اب کچھ حلقوں کی طرف سے اس آپریشن کے بارے میں مختلف قسم کی بے چینی اور افواہوں کو دانستہ پھیلایا جا رہا ہے جس کا آرمی چیف نے سخت نوٹس لیتے ہوئے بیان جاری کیا ہے کہ: ’’کراچی کے امن کیلیے ہم انتہائی اقدام تک جانے کو بھی تیار ہیں‘‘۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کراچی کو جنوبی ایشیا کے عظیم رہنماء قائدِ اعظمؒ محمد علی جناح کا آبائی شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ شہر اپنے جغرافیائی محلِّ وقوع کے لحاظ سے دنیا بھر میں اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے اور بالخصوص جب سے ہانگ کانگ سے برطانیہ کا تسلط ختم ہوا ہے اسی دن سے مغربی استعمار علاقے میں اس کے نعم البدل کیلیے کراچی پر نظریں گاڑے ہوئے ہے۔
قیامِ پاکستان سے قبل بھی انگریزوں کے تجارتی اور جنگی ساز و سامان سے لدے جہاز کراچی کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوتے تھے۔ جہاز رانی کی صنعت کی ترقی کے بعد بندر گاہوں کی اہمیت دوچند ہو گئی۔ اب بین الاقوامی تجارت اور جنگی نقطۂ نظر سے زیادہ انحصار سمندروں پر کیا جاتا ہے اور کراچی کے تینوں جانب سمندر کا نیلگوں پانی پھیلا ہوا ہے۔ پورٹ قاسم اور کیماڑی دنیا کی مصروف ترین بندرگاہیں تصور کی جاتی ہیں۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی اور معاشی حب ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اندرونی و بیرونی طاقتیں یہاں اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلیے ہر طرح کے جائز و ناجائز ذرائع استعمال کرتی رہی ہیں۔ جس میں پرتشدد سیاسی، لسانی اور مذہبی جھگڑے بھی شامل ہیں۔ یہاں ہر دورِ حکومت میں جرائم پیشہ افراد بے لگام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ بااثر رہے ہیں۔ منشیات، اغواء برائے تاوان، سٹریٹ کرائمز، بینک ڈکیتی، معاوضہ کے عوض قتل کی وارداتیں، ٹارگٹ کلنگ، سرکاری و نجی املاک پر قبضہ، بھتہ وصولی مافیا اور فحاشی کے کھلے گھناؤنے کاروبار اس بین الاقوامی شہر کے چہرے کا بدنما داغ بنے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان مہلک جرائم سے نہ صرف چشم پوشی کی جاتی ہے بلکہ کسی نہ کسی ذریعے سے سرپرستی بھی جاری رہتی ہے جس کے باعث امنِ عامہ کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ اس سارے بگاڑ کا کسی ایک جماعت یا گروہ کو ٹھہرانا بھی ناانصافی کے مترادف ہے۔ جب شہر سب کا ہے تو اس کی حفاظت بھی سب کی ذمہ داری ہے۔ حکمرانوں کی غفلت اور جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کا خمیازہ آج کراچی سمیت پورا ملک بھگت رہا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے تجارتی، صنعتی اور اقتصادی مرکز کراچی کو دہشتگردی، بھتہ خوری، گینگ وار، ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری نے بلاشبہ آتش فشاں بنا دیا ہے۔ اب اس شہر کی اساطیری دیومالائی حیثیت اتنی مسخ ہو گئی ہے کہ اس میں جنگل کا قانون نافذ ہے اور ماہرین اسے دنیا کا خطرناک شہر شمار کرنے لگے ہیں جبکہ ماہرینِ معاشیات اور غیر ملکی میڈیا بہت پہلے خبردار کر چکے تھے کہ سندھ سمیت منی پاکستان کے اندر جرائم پیشہ گروہوں کے منظم سنڈیکیٹ، کالعدم مذہبی اور مسلکی تنظیمیں ریاست مخالف ایجنڈے پر عمل کرنے کے مذموم ارادوں کے باعث ملک کی سالمیت کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور اب تو داعش جیسا نیا فتنہ بھی اپنی آمد کیلیے پر تول رہا ہے۔
پاکستان کا معاشی و اقتصادی دارالحکومت ایک زمانے میں عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر کہلانے والا کراچی آج خون میں نہا رہا ہے۔ کراچی شہر میں جاری تشددکے واقعات بڑی حد تک قبائلی علاقوں میں جاری لاقانونیت سے مشابہت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے اب کراچی کو دنیا کا انتہائی خطرناک شہر تصور کیا جانے لگا ہے۔ جرائم پیشہ، مسلح غنڈوں، انتہا پسندوں، سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور دہشتگردوں نے کم و بیش دو کروڑ آبادی کے اس شہر کو یرغمال بنا رکھا ہے اور بڑی آزادی کے ساتھ نہ صرف دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ جہاں دل چاہتا ہے دن کے اجالے میں کاروائیاں کرتے ہیں اور صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ ٥ سال کے دوران سیاسی پارٹیوں کے مسلح کارکن فرقہ وارانہ گروہ اور جرائم پیشہ عناصر اس شہر کے کم و بیش ٨ ہزار سے زائد افراد کو موت کی نیند سلا چکے ہیں۔ اس ساحلی شہر اور ملک کی اقتصادی شہ رگ پر قبضے کیلیے جرائم پیشہ عناصر، بھتہ خوروں اور مسلح گروہوں کے درمیان لڑائی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جس میں بے قصور افراد موت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ 
سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹیڈیز اسلام آباد کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دہشتگردی کے واقعات میں سب سے زیادہ ہلاکتیں کراچی میں ہوئیں۔ معاشی حب میں کل ٢ ہزار ٢٩ افراد مارے گئے جن میں ایک ہزار٢٦٣/ افراد کو ٹارگٹ کلرز نے موت کے گھاٹ اتارا۔ اس شہر کو درپیش مسائل میں سماجی، مذہبی، فرقہ واری، اقتصادی، جغرافیائی اور اس کے ساتھ بیرونی عوامل بھی شامل ہیں۔ اس لیے اس شہر کے مسائل حل کرنے کیلیے ان تمام مسائل کو مدِّنظر رکھتے ہوئے قابلِ عمل قومی پالیسی کی ضرورت ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور گورننس کی ناکامی نے کراچی کو عملاً ایک ایسا شہر بنا دیا ہے جہاں کسی قسم کا کوئی قانون نہیں چلتا بلکہ لاقانونیت کا راج ہے جس کی وجہ سے اس شہرکے لوگ خوف و دہشت کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
کراچی میں ہزاروں غیر ملکی پناہ گزینوں کی موجودگی کی وجہ سے اب یہ شہر انتہا پسندوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ بن گیا ہے۔ جو اس شہر میں رہنے والے شمال مغربی صوبے کے لوگوں میں گھل مل جاتے ہیں اور اس طرح اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور زمینوں پر قبضے کراچی میں جرائم پیشہ عناصر کے منفعت بخش کام ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مختلف مافیاز اس شہر پر کنٹرول کیلیے مستقل لڑائی میں میں مصروف رہتے ہیں۔ اپنی یہ لڑائی جاری رکھنے کیلیے ان کو فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے جو یہ بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان اور زمینوں کی ناجائز فروخت کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح بھتہ خوری اور زمینوں پر قبضے کیلیے شہر کے مختلف علاقوں میں قبضہ برقرار رکھنے اور دوسرے گروپوں سے علاقے چھین کر اپنا تسلط قائم کرنے کیلیے خونریز لڑائی کا سلسلہ مسلسل چلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اس شہرکے لوگ مفلوج اور یرغمال بن کر رہ گئے ہیں بلکہ پاکستان کی مجموعی معیشت پر بھی اس کے انتہائی خطرناک و منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق کراچی میں ہر سال چالیس ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کی اشیاء تیار کی جاتی ہیں جو کہ پاکستان کی مجموعی ڈی پی کے ٢٥ فیصدکے مساوی ہیں اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ کراچی میں روزانہ دس ارب روپے کا ساز و سامان تیار ہوتا ہے یعنی اس شہر میں ایک دن کی ہڑتال سے پاکستان کو دس ارب روپے کا خالص خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ شہر کا تاجر طبقہ ذہنی اذیت میں مبتلا ہے۔ آئے دن ہڑتالوں، سوگ اور بھتہ خوری نے کراچی کو معاشی طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی پاکستان کا دل ہے اور ملک کے دیگر صوبوں سے لاکھوں کی تعداد میں یہاں بسنے والے ہم وطن اس منی پاکستان کو بندہ پرور شہرکہتے تھے۔ مگر آج اس میں دہشتگردی اور مسلسل قتل و غارت گری کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ وجہ برسوں کی انتظامی غفلت،سیاسی مصلحت، کرپشن، عدمِ برداشت، بیروزگاری اور ناانصافیوں کے دراز سلسلے نے شہر کو مقتل بنا دیا ہے۔ کراچی کے اندرکئی شہر بن چکے ہیں جبکہ طالبان اور القاعدہ سمیت درجنوں ملکی اور غیر ملکی، خطرناک ڈکیت، بے چہرہ کرائے کے قاتل گروہ سرگرمِ عمل ہیں مگر افسوس کہ پولیس کے اعلیٰ حکام کی جانب سے ان قانون شکن عناصر کے عزائم اور شہر کو برباد کرنے کے منصوبوں کی نشاندہی اور ان کے خلاف کاروائی کی کوئی کرن شہریوں کو تاحال نظر نہیں آتی۔ خوف کا ماحول کھانے کو دوڑتا ہے۔ اس لیے کراچی آپریشن کو منصفانہ، بلاامتیاز اور نتیجہ خیز ہونا چاہیے۔ امید کی جانی چاہیے کہ کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کیلیے سندھ حکومت کو وفاق کی طرف سے ہر ممکن تعاون مہیا کیا جائے گا لیکن اس کیلیے انتہائی اہم ضروری ہے کہ سندھ حکومت بھی ہوش کے ناخن لے اور جتنی جلد ہو۔ فی الفور کراچی کی پولیس کو اپنا خادم سمجھنے کی بجائے پاکستانی عوام کی خادم بنائے وگرنہ وہ دن دور نہیں کہ اس صوبے میں گورنر راج نافذ کر کے وفاق کو ''آپریشن ضربِ عضب'' کی طرح ایک بے رحم قسم کا '' آپریشن ضربِ غضب'' کرنا انتہائی ضروری ہو جائے گا!

===================
مغرب کلمۂ حق سے ڈرتا ہے
اسلام کی پکار ہے، ہر خاص و عام کیلیے
سمیع اللہ ملک، لندن
ایک وقت تھا کہ اہلِ مغرب کا امّتِ مسلمہ پر اعتراض تھا کہ ہماری طرح کیوں ہو؟ اور ایک وقت یہ ہے کہ سا ری مغربی دنیا عالمِ اسلام سے کہہ رہی ہے کہ تم ہماری طرح کیوں نہیں ہو؟ ہماری طرح کیوں ہو، کا سوال اس وقت سے متعلق ہے جب مغرب صرف مغرب نہیں تھا عیسائی مغرب تھا۔ اس وقت اہلِ مغرب کو محسوس ہوتا تھا کہ ارے اسلام کے پاس تو وہی سب کچھ ہے جو ہمارے پاس ہے۔ خدا، آخرت، رسا لت، جنت و دوزخ، وحی اور فرشتے کے بارے میں عقائد۔ اہلِ مغرب یہ دیکھتے تھے تو برا مانتے تھے اور غصے اور تردید کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہتے تھے کہ اسلام کوئی حقیقی یا (اوریجنل) آسمانی مذہب تھوڑی ہے، یہ تو بقول ان کے یہودی اور عیسائی عقائد کا چربہ ہے (معاذ اللہ)۔ ظاہر ہے اس باطل خیال نے اہلِ مغرب کو کبھی یہ تسلیم نہیں کر نے دیا کہ حضور اکرمۖ اللہ کے پیغمبر ہیں۔
جیسا کہ واضح ہے یہ مماثلت کے احساس سے پیدا ہونے والا ردِّ عمل تھا۔ انسان اپنے باطن میں کمزور ہو تو مماثلت خوف بن جا تی ہے اور غصہ، نفرت و حقارت سے لے کر جھگڑے اور جنگ کی صورتوں تک میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ صلیبی جنگوں کی پشت پر یہی نفسیات کام کر رہی تھی۔ مماثلت کے خوف اور اس سے پیدا ہونے والی نفرت و حقارت کی نفسیات۔ دنیا کے ایک کو نے میں آباد غریبوں نے گویا امیروں کے ساتھ رشتہ داری کا دعویٰ کر دیا تھا اور امیر رشتہ دار مٹھیاں بھینچ کر اور دانت کچکچاتے ہوئے اور یلغار ہو کی صدا بلند کر تے ہوئے کہہ رہے تھے کہ نہیں نہیں تم ہر گز ہما ری طرح نہیں ہو۔ وہ زبان سے یہ کہہ رہے تھے مگر ان کے دل میں تھا کہ یہ آخر ہما ری طرح کیوں ہیں؟ 
ایک منظر یہ تھا، ایک اور منظر یہ ہے کہ فرانس کی عدا لت نے ایک مسلم خاتون کو یہ کہہ کر شہریت دینے سے انکار کر دیا کہ وہ ضرورت کے مطابق فرانسیسی معاشرے میں جذب نہیں یعنی وہ برقعہ اوڑھتی ہے ۔ عدالت کو دوسرا اعتراض یہ تھا کہ وہ شوہر کی حد سے زیادہ اطاعت کرتی ہے اور عدالت کے بقول یہ بات مساوات کے مغربی تصور کے خلاف ہے۔ اس پر فرانس کے مشہور اخبار ''لی موند'' نے سوال اٹھایا کہ کیا برقعہ شہریت کے حق کے منا فی ہے؟ یعنی کیا برقعہ اوڑھنے والی عورت فرانس کی شہریت کی مستحق نہیں؟ اس سوال کی پشت پر اسلام اور مسلمانوں کے حوا لے سے اصل سوال یہ ہے تم سو فیصد ہماری طرح کیوں نہیں ہو؟ یہ سامنے کی بات ہے کہ فرانس اور کئی دوسرے یورپی ممالک میں حجاب ابتداً اسکول اور کا لج کیلیے نا اہلیت بنا۔ بعد ازاں وہ روزگار کیلیے نا اہلیت قرار پایا۔ کہا گیا کہ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں سلامتی سے متعلق مسئلہ ہے جس سے فرد کی شناخت میں دشواری پیش آتی ہے لیکن تازہ ترین معاملے میں مسلم خاتون اسکول و کالج میں داخلہ نہیں مانگ رہی۔ کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے میں ملازمت کی طلب گار نہیں، کسی ہوائی اڈے پر چہرہ چھپانے کی خواہش مند نہیں۔ وہ صرف اپنے مذہب کے احکامات پر عامل و کاربند ہے لیکن ریاست فرانس کی عدالت کہہ رہی ہے کہ تمہارا یہ عمل شہریت کے حق سے ہم آہنگ نہیں۔ ایک وقت تھا کہ شہریت کے حق کی درخواستوں پر مغربی حکومتوں کو یہ اعتراض ہو تا تھا کہ درخواست گزار کو مقامی زبان نہیں آتی مگر اطلاعات کے مطابق فرانس میں مقیم زیرِ بحث خاتون نہ صرف فرانسیسی فر فر بولتی ہے بلکہ فرانس کی مشہور یونیورسٹی کی ایک محقق استاد بھی رہ چکی ہے۔
ایک خبر کے مطابق مسلم خاتون کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کا طرزِ فکر اور شخصیت فرانسیسیت کیلیے بڑی انتہا پسند (ریڈیکل) ہے۔برقعہ اور (ریڈیکل) شوہرکی اطاعت اور ریڈیکل ازم سے متعلق سرخی ملا حظہ ہو: 
Muslim Woman!deemed to radical to be French?
لفظ ریڈیکل کا ایک مفہوم انتہا پسندی بھی ہے اور ایک معنی میں انقلابی آرمی کو بھی ریڈیکل کہا جاتا ہے۔
خیر چلیے برقعہ میں تو انتہا پسندی ہو گی لیکن شوہر کی اطاعت میں کیا انتہا پسندی ہے؟ اطاعت ایک خالصتاً داخلی ا ور حد درجہ ذاتی چیز ہے اور عموما گھریلو اور خانگی زندگی ہی سے متعلق ہے، اس کا مساوات کے تصور سے کیا تعلق؟ اور اگر تعلق ہے تو کیا مساوات کا نان ریڈیکل تصور یہ ہے کہ بیوی کو شوہر کا جزوی ا طاعت گزار ہونا چاہیے اور اطاعت گزار نہیں بھی ہونا چاہیے؟ اگر ایسا ہے تو ریاست فرانس کی عدالت کو بتانا ہو گا کہ مسلم خاتون کو شوہر کا کتنے فیصد اطاعت گزار ہونا چاہیے، کن کن کاموں میں اطاعت گزار ہونا چاہیے اور کن کن کاموں میں اطاعت گزار نہیں ہونا چاہیے؟ پھر وہ فرانس کی شہریت کی مستحق ہو سکتی ہے؟ کوئی حد یا پیمانہ تو ضرور مقرر کرنا ہو گا کہ ٥٠ فیصد؟٦٠ فیصد؟ یا ۸۰ فیصد؟ ویسے اگر اس اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو کل اہلِ فرانس کہہ سکتے ہیں کہ فلاں مسلم خاتون بڑی ریڈیکل ہے کیونکہ وہ اپنے بچے خود پالتی ہے! گھر میں کھانا خود پکاتی ہے یا کپڑے سیتی ہے! آخر اس اصول کی زد سے پھر کیا بچے گا؟ مگر ٹھہریے! سوال یہ ہے کہ اس پورے قصے کے پیچھے کیا ہے؟ امتیاز کا خوف؟ مگر امتیاز کا خوف کیوں؟ مغربی دنیا جدیدیت کا دور گزار چکی اور وہاں ما بعد جدیدیت کی فکر (پوسٹ ماڈرنسٹ تھاٹ) کا آغاز ہوئے ایک عرصہ ہو گیا۔ ما بعد جدیدیت فکر نے جدیدیت کے کم و بیش تمام تصورات کو چیلنج کر کے ان کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ ان میں فرد کے تصورِ ذات (سیلف کنسیپٹ) کا حلیہ بھی شامل ہے۔ جدیدیت میں ذات کا کچھ نہ کچھ تصور پھر بھی ٹھوس (کنکریٹ) تھا لیکن ما بعد جدیدیت فکر میں یہ تصور بالکل ہی سیال ہو گیا ہے۔ اس کا اثر شخصیت کی تعمیر اور معاشرے کی بیٹی پر گہرا پڑا ہے اور اب جدید مغربی معاشرے میں فرد کی شخصیت اور موم کی اس گڑیا میں کوئی فرق نہیں جسے آپ جب چاہیں گڈا بنا لیں یا آپ کی خواہش ہو تو اس موم سے آپ چڑیا تشکیل دے لیں یا جو کچھ آپ کا دل چاہے آپ اس سے تخلیق کر لیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام جو شخصیت تعمیر و تشکیل دیتا ہے، وہ ٹھوس ہوتی ہے، وہ حالات کے دباؤ سے نہ پچکتی ہے اور نہ ٹوٹ کر بکھرتی ہے۔ اسے بدلنا آسان نہیں۔ عام طور پر وہ خود بدلے بغیر ماحول کو بدلتی ہے۔ اس کا یہ طرزِ عمل اسلام کے اپنے کردار کے عین مطابق ہے۔ اسلام خود بدلے بغیر انسان اور دنیا کو بدلتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اہلِ مغرب کو اسلام بہت حقیقی، زندہ اور ٹھوس نظر آ رہا ہے اور انہیں لگ رہا ہے کہ وہ ان کے تشخص سے محروم اور سیال معاشرے کو بدل ڈالے گا۔ عیسائیت مغرب بالخصوص یورپ میں موثر ہوتی تو اہلِ مغرب کو زیادہ فکر نہ ہو تی مگر عیسائیت کے غیر مؤثر ہونے کا ماتم خود بیچارے پوپ صاحب تک کر رہے ہیں اور تیزی سے ویٹی کن میں عیسائی زائرین کی تعداد میں کمی آ رہی ہے لیکن دوسری جانب اٹلی کے وزیرِ داخلہ نے محض شک کی بنا پر میلان میں ایک مسجد کو بند کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے اور کئی دوسری مساجد کی کڑی نگرانی جاری ہے۔ صرف برطانیہ میں ایک سو نوے (١٩٠) سے زیادہ گرجا گھر مساجد میں تبدیل کیے جا چکے ہیں اور اب چرچ آف انگلینڈ کی طرف سے یہ پابندی عائد کر دی گئی ہے کہ اب مزید کسی چرچ کو کسی بھی مذہبی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ یورپ کی سب سے بڑی اور انتہائی خوبصورت روم مسجد (ڈاؤن ٹاؤن اینٹینا پارک) سوئٹزرلینڈ کو بھی موہوم دہشت گردی کے خوف سے بند کر دیا گیا ہے لیکن اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ۲۰۰۸ میں سوئٹزرلینڈ نے مساجد کے میناروں کو غیرقانونی قرار دینے کیلیے ریفرنڈم کا اعلان کر دیا لیکن پھر خود ہی اس اعلان کو واپس لے لیا۔
اب ایک خاص سازش کے تحت یورپ کے بعض تجزیہ نگاروں کو یہ کام تفویض کیا گیا ہے کہ یورپ میں بسنے والوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جائے تاکہ آنے والے وقت میں ایسی مؤثر قانون سازی میں آسانی ہو جس سے اسلام کے ابدی پیغام پر قدغن لگائی جا سکے۔ مشہورِ زمانہ واروک یونیورسٹی برطانیہ کا ایک تجزیہ نگار اقلیتی تعلقات عامہ کاڈائریکٹر
(Director of the Centre for Research in Ethnic Relations at the University of Warwick in England)
ڈینیل جولی نے اپنے حالیہ آرٹیکل میں اپنے خوف کا اس طرح اظہار کیا کہ اس وقت ٤٠٠ ملین عیسائی آبادی پر مشتمل مغربی یورپ میں ١٨ ملین مسلمانوں کی موجودگی کی وجہ سے اسلام دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے۔ دراصل مساجد ہی مسلمانوں کو مغربی اقدار اپنانے میں مانع ہیں، اس لیے مزید مساجد کی تعمیر پر فی الفور پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک ایک بھی دہشت گرد یورپ کی کسی مسجد سے نہ تو گرفتار ہوا ہے اور نہ ہی کسی ایک کا تعلق کسی بھی مسجد سے ثابت ہو سکا ہے۔ ظا ہر ہے کہ خوف کبھی باہر سے نہیں آتا۔ انسان کے اپنے اندر سے آتا ہے۔ اہلِ مغرب کا خوف اہلِ مغرب کے اندر ہی سے آ رہا ہے۔ فرق یہ ہے کہ کل انہیں اسلام کی مماثلت کا خوف لاحق تھا اور آج انہیں اسلام کے امتیاز کا خوف لاحق ہے۔ان مسا ئل کو ہم جتنی گہرائی میں سمجھ لیں اسلام ہی نہیں خود مغرب کے حق میں بھی اچھا ہے۔ ہمیں ا قبال کا یہ پیغام کبھی بھی نہیں بھو لنا چاہئے! 
ع لیا جائے گا تجھ سے کا م دنیا کی امامت کا







No comments:

Post a Comment