یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
بےشک نماز روکتی ہے بےحیائی اور بری بات سے ... [سورۃ العنکبوت:45]
قبولیتِ نماز کی علامت»
گناہوں سے بچنا۔
نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
ہر نمازی درحقیقت نماز نہیں پڑھتا، میں صرف اس شخص کی نماز قبول کرتا ہوں جو میری عظمت کے آگے جھک جائے، میری حرام کردہ چیزوں سے اپنی خواہشات کو روک لے، میری نافرمانی پر اصرار نہ کرے، بھوکے کو کھانا کھلائے، ننگے کو لباس پہنائے، مصیبت زدہ پر رحم کرے، پردیسی کو ٹھکانا دے، یہ سب کچھ میرے لیے کرے، پھر میری عزت کی قسم! میرے جلال کی قسم! اس کے چہرے کا نور میرے نزدیک سورج کے نور سے زیادہ روشن ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ میں اس کی جہالت کو اس کے لیے حلم وبردباری بنا دوں گا، تاریکی کو اس کے لیے روشنی بنا دوں گا، وہ مجھے پکارے گا تو میں اس کو لبیک کہوں گا، وہ مجھ سے سوال کرے گا تو میں اس کو عطا کروں گا، وہ مجھ پر قسم اٹھالے گا تو میں اس کی قسم پوری کروں گا، میں اس کو اپنے قرب کا سہارا دوں گا اور میرے ملائکہ اس کی حفاظت کریں گے، اس کی مثال میرے نزدیک اس جنت الفردوس کی ہے جس کا پھل کبھی خراب نہیں ہوتا اور اس جنت کی تروتازگی کبھی ماند نہیں پڑتی۔
[مسند-الامام البزار (م292ھ) » حدیث نمبر 4855]
القرآن:
بےشک نماز روکتی ہے بیحیائی اور بری بات سے ...
[تفسیر سورۃ العنکبوت،آیت#45]
لہٰذا (1) بےنمازی زیادہ اور اعلانیہ بےحیائی اور برائی کو کرتا بلکہ پھیلاتا ہے۔ (2)اور چونکہ نماز میں قرآن پڑھا جاتا ہے، اور قرآن میں تمام برائیوں سے منع کیا گیا ہے، لیکن اگر نماز وقرآن کے الفاظ کا ترجمہ معلوم نہ ہوگا۔۔۔سمجھے گا نہیں۔۔۔تو نماز اسے کیسے روکے گی! (3)اور جیسے باپ/استاد برائی سے روکتا ہے لیکن اولاد/شاگرد خود نہ رُکے تو باپ/استاد کو "روکنے" میں کوتاہی کرنے والا نہیں کہا جائے گا ۔۔۔ لہٰذا یہ نہیں فرمایا کہ نماز روک 'دیتی" ہے، بلکہ فرمایا کہ نماز روکتی ہے۔
نوٹ:-
قبول نہ ہونے کا مطلب ہے کہ اس عمل کا فائدہ، فضیلت، ثواب میں نقصان ہوگا، البتہ نماز چھوڑ دینے کے گناہ وعذاب سے تو محفوظ رہے گا۔
لہٰذا
نماز چھوڑ کر شیطان کو مزید کامیاب نہ ہونے دیں۔
نماز کو سمجھ کر ادا کریں:-
بےشک سیب کے صرف چھلکے کھانا بے فائدہ نہیں، لیکن مغز کے فوائد سے محروم رہنا عقلمندی نہیں۔
سب سے پہلے حساب نماز کا لیا جائے گا:
حضرت ابوہریرہؓ (اور حضرت تمیم الداریؓ) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے:
بے شک قیامت کے دن بندہ کے اعمال میں سے سب سے پہلے اس کی نماز کا حساب کیا جائے گا، پس اگر نماز ٹھیک نکلی تو کامیاب اور بامراد ہوگا اور اگر نماز خراب نکلی تو نامراد اور نقصان اٹھانے والا ہوگا۔
لہٰذا اگر وہ(نماز) درست ہوئی تو اس کے تمام اعمال بھی درست ہوں گے، اور اگر وہ(نماز) بگڑی ہوئی ہوگی تو اس کے سارے اعمال بھی بگڑے ہوئے ہوں گے۔
[مستخرج الطوسي على جامع الترمذي:2/ 365، الأحاديث المختارة-المقدسي:2578+2579، المعجم الأوسط للطبراني:1859، (تفسير الثعالبي، الدر المنثور:=سورة البقرة:238) صحيح الجامع:2573، صحيح الترغيب:376، الصحيحة:1358]
[الأهوال لابن أبي الدنيا:196، النهاية في الفتن والملاحم-ابن كثير:2/ 61 عن ابي هريرة]
فَإِنْ أَكْمَلَهَا كُتِبَتْ لَهُ نَافِلَةً۔
ترجمہ:
پھر اگر اس نے اس(نماز)کو مکمل طریقے سے ادا کیا ہوگا تو نفل نماز علیحدہ لکھی جائے گی۔
پس اس کے فرضوں میں کوئی کمی رہ جائے گی تو پروردگارِ عالم فرمائیں گے کہ دیکھو کیا میرے بندہ کے کچھ نفل بھی ہیں پس (اگر نوافل نکلے تو) جو فرضوں میں کمی ہوگی نوافل کے ذریعے پوری کردی جائے گی۔
پھر (نماز کے بعد) اس کے باقی اعمال کا اسی طرح حساب ہوگا۔
[سنن ابن ماجہ:1425][سنن أبي داود:864]
القرآن:
پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو برباد کیا، اور اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چلے۔ چنانچہ ان کی گمراہی بہت جلد ان کے سامنے آجائے گی۔
[سورۃ مریم:59 (تفسير القرطبي:11/ 123)]
حَيَّعَلَى الصَّلَاةِ , حَيَّعَلَىالْفَلَاحِ
ترجمہ:
آؤ نماز کی طرف، آو کامیابی کی طرف۔
[سنن النسائي:851، سنن ابو داؤد:553]
رب کی ہدایت والوں کی "دوسری" بنیادی نشانی»
(2)نماز کی پابندی۔
القرآن:
...اور وہ قائم رکھتے ہیں نماز
[حوالہ سورۃ البقرۃ:3-5]
اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کا حکم دیتے رہتے ہیں
[طٰهٰ:132]
اور بچوں کو بھی
[لقمان:17]
کس لئے؟
...الله کے ذکر (یاد ونصیحت) کیلئے۔
[طٰهٰ:14]
....(کیوں)کہ بےشک نماز (یعنی الله کی یاد اور نصیحت) روکتی ہے فحاشی اور برائی سے....
[العنکبوت:45]
نماز وہ نیکی ہے جو کئی برائیوں کو مٹادیتی ہے۔
[ھود:114]
انسان، مصیبتوں میں کم حوصلہ اور بخیل ہوتا ہے، سوائے نمازی کے۔
[حوالہ سورۃ المعارج:19-22]
صبر ونماز کے ذریعہ (الله کی) مدد حاصل ہوتی ہے۔
[البقرۃ:45]
نماز کو "قائم" رکھنا کیا ہے؟
(1)ہر نماز کو اس کے "وقت" میں پڑھنا۔
[النساء:103]
(2)باجماعت نماز پڑھنا۔
۔۔۔اور رکوع کرنے والوں کے "ساتھ" رکوع کرو۔
[البقرۃ:43]
۔۔۔اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو۔
[الحجر:98]
میدانِ جہاد میں بھی
[النساء:102]
(3)حفاظت کرنا (فرض) نمازوں کی اور خصوصاً درمیانی(عصر) نماز کی۔
[البقرۃ:238]
نماز قائم کرو سورج ڈھلنے کے وقت سے لے کر رات کے اندھیرے (یعنی ظہر، عصر، مغرب عشاء) تک اور فجر کے وقت قرآن پڑھنے کا اہتمام کرو۔۔۔
[الإسراء:78]
دن کے دونوں سِروں (یعنی فجر اور عصر) میں، اور رات کے کچھ "حصوں" (یعنی مغرب، عشاء) میں بھی
[ھود:114]
۔۔۔۔اور سورج نکلنے سے پہلے(فجر) اور اس کے غروب سے پہلے(عصر نماز میں) اپنے رب کی تسبیح اور حمد کرتے رہو، اور رات کے اوقات (عشاء) میں بھی تسبیح کرو، اور دن کے کناروں(مغرب) میں بھی، تاکہ تم راضی ہوجاؤ۔
[طٰهٰ: 130]
تسبیح(یعنی الله کا ہر عیب سے پاک ہونے کا اقرار) اور حمد بیان کرتے رہنا، شام(مغرب) میں بھی، اور صبح(فجر)میں بھی، "عشاء" میں اور "ظہر" میں بھی۔
[الروم:17-18]
کن لوگوں کا اجر ضایع نہ ہوگا؟ اور اصلاح والے کون؟
القرآن:
اور جو لوگ (1)کتاب کو مضبوطی سے تھامتے ہیں، (2)اور نماز قائم کرتے ہیں، تو ہم ایسے اصلاح کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔
[سورۃ الأعراف، آیت نمبر 170]
نوٹ:
نماز مجموعہ ہے عبادات۔۔۔ذکر، تلاوۃ اور دعا۔۔۔کا، لہٰذا نماز کے فضائل و فوائد کے علاؤہ ان عبادات کے تمام فضائل و فوائد بھی ایک نماز ہی سے حاصل ہوتے ہیں۔
الله کے پیغمبر ﷺ نے فرمایا:
(1) نماز روشنی ہے۔
[صحیح مسلم:769(534)]
(2) الله سے ہم کلام ہونے کا شرف بخشتی ہے۔
[صحیح مسلم:904]
(3)نماز ایمان اور کفر کے درمیان فرق کرنے والی چیز ہے۔
[سنن الترمذي:2618]
(4)نماز کے بارے میں قیامت کے دن سب سے پہلے سوال/حساب ہوگا۔۔۔اگر پوری اور درست رہی تو تمام اعمال پورے اور درست رہیں گے۔
[سنن الترمذي:413]
(5)تمہارا سب سے فضیلت والا عمل
[سنن ابن ماجہ:278]
سب سے زیادہ محبوب عمل
[صحیح البخاري:2630]
نماز پڑھنا ہے اس کے وقت پر۔
[ابوداؤد:426، ترمذی:170]
(6)نماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے.
[سنن النسائي:3939]
(7)اے بلال! اٹھو(اذان دو)، اور نماز سے ہمیں راحت دو۔
[ابوداؤد:4985]
(8)پیغمبر ﷺ کو جب اہم معاملہ پیش آتا تو آپ نماز پڑھتے۔
[ابوداؤد:1419]
(9)پیغمبر نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت نماز کے اہتمام کی تاکیداً وصیت فرمائی۔
[مسند احمد:12190]
(10)اسلام کی سب سے آخر میں ٹوٹنے والی کڑی نماز ہوگی۔
[مسند احمد:22214]
(11)نماز دنیاوی پریشانیوں سے راحت کا ذریعہ ہے۔
[المعجم الكبير للطبراني:6215]
جس میں طاقت ہو اسکی کثرت کرنے کی، تو وہ (نوافل) کثرت سے پڑھے۔
(12)اور جس نے نماز چھوڑ دی تو اس کا کوئی دین نہیں، کیونکہ نماز دین کا ستون ہے۔
[شعب الإيمان-البيهقي:2550]
مفہوم:
شہید سے بھی پہلے جنت میں زیادہ نماز روزے والا داخل ہوگا۔
[مسند أحمد:8399]
جب کوئی شخص مسلمان ہوتا، تو اسے سب سے پہلے نماز کی تعلیم دی جاتی۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:303]
نماز کے اسرار و رموز
نماز دین کا ستون ہے، جنت کی کنجی ہے، نماز مومن کی معراج ہے اور بندے کیلئے پروردگار سے ہمکلامی کا ذریعہ ہے۔ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا لا صلوٰۃ الا بحضور القلب (دل کی توجہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی) آج کے پر فتن مشینی دور میں انسان ہر طرف سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ پریشانیوں نے اسے خوب پریشان کر رکھا ہے۔ اسے سارا جہان مسائلستان نظر آتا ہے۔ حالت یہ ہو گئ ہےکہ کھڑا نماز کی حالت میں ہوتا ہے مگر گھریلو پریشانیوں کی گتھیاں سلجھا رہا ہوتا ہے کبھی کاروباری معاملات میں ڈوبا ہوتا ہے اور کبھی نفسانی شیطانی شہوانی تقاضوں کے دریا میں غوطے لگا رہا ہوتا ہے نماز کی رکعتیں بھول جانا۔ التحیات میں سورۃ فاتحہ پڑھنا اور قیام میں سورۃ بھول جانا عام سی بیمای بن گئ ہے۔ حدیث پاک میں قرب قیامت کی ایک نشانی یہ بھی بتائی گئ ہے کہ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہو گی مگر ان کے دل اللہ کی یاد سے خالی ہوں گے۔ ایک مسجد میں امام صاحب کو نماز کی رکعتوں میں مغالطہ لگا، سلام پھیر کر مقتدی حضرات سے پوچھا کہ میں نے پوری رکعتیں پڑھی ہیں یا کم پڑھی ہیں۔ پوری مسجد میں ایک بھی نمازی ایسا نہ تھا جو یقین محکم اور صمیم قلب سے کہتا کہ ہم نے اتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ اسی طرح کی نمازوں کے متعلق حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ وہ نمازی کے منہ پر واپس مار دی جاتی ہیں۔ کتنے غم کی بات ہے کہ ایک شخص نے وقت بھی فارغ کیا۔ نماز بھی پڑھی مگر اٹھک بیٹھک کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ مسجد میں نماز تو سب پڑھتے ہیں مگر ہر شخص کو اس کے خشوع و خضوع کے مطابق اجر ملتا ہے۔ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ ایک من سونا ہو، لوہا ہو یا مٹی ہو، وزن میں تو سب برابر مگر قیمت سب کی اپنی اپنی۔ اللہ والوں کی نماز پر اگر سونے کا بھاؤ لگتا ہے تو عام صالحین کی نما ز پر لوہے کا بھاؤ لگتا ہے جبکہ غافلین کی نماز کو مٹی کے بھاؤ بھی قبول نہیں کرتے۔ بقول شاعر
بز میں چوں سجدہ کر دم ز زمیں ندا برآمد
کہ مرا خراب کر د ی تو بسجدہ ریائی
(جب میں نے زمین پر سجدہ کیا تو زمین سے آواز آئی، او ریاء کے سجدہ کرنے والے! تو نے مجھے بھی خراب کر ڈالا)
علامہ اقبال نے خوب کہا ہے۔
میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
سوچنے کی بات ہے کہ دنیا کی محبت میں گرفتار عاشق نامراد تو فانی چیزوں کے عشق میں اس حد تک گرفتار ہو جاتا ہے کہ ہر وقت انہیں کے خیالوں میں کھویا رہتا ہے اور انکے حصول کی تمنا دل میں لئے نہ جانے کیا کیا منصوبے بناتا رہتا ہے۔ وہ اپنے مطلوب کو پانے کے لئے اپنا سب کچھ لٹا دیتا ہے اور کبھی اپنی جان مال اور عزت و ناموس تک برباد کر لیتا ہے۔ اور ہم کیسے اللہ تعالٰی کے نام لیوا اور عاشق صادق ہیں کہ عین نماز میں جب کہ ہم انکی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں اس وقت بھی انکی یاد دل میں نہیں ہوتی، معلوم ہوا کہ ہم اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔اسی لئے ہماری نمازیں بے روح و بے لذت ہیں۔بقول شاعر
عشق اگر ترا نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
جن سلف صالحین نے نماز کی حضوری حاصل کرنے کیلئے محنت کی انہیں اسی دنیا میں اپنی مراد مل گئ۔ چنانچہ شیخ عبدالواحد کے سامنے تذکرہ ہوا کہ جنت میں نماز نہیں ہو گی تو رو پڑے۔ کسی نے پوچھا کہ حضرت کیوں روئے۔ فرمایا اگر جنت میں نماز نہیں ہوگی تو پھر جنت کا مزہ کیسے آئے گا۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے سامنے کسی نے جنت کے حوروقصور کا تذکرہ کرنا شروع کیا تو آپ نے فرمایا کہ بھئی اگر قیامت کے دن مجھ پر اللہ تعالٰی کی نظر رحمت ہو گئ تو میں یہ عرض کروں گا کہ اللہ۔ اپنے عرش کے نیچے مصلٰے کی جگہ عنایت فرما دیجئے۔
حضرت مولانا یححٰی کاندھلویؒ لمبا سجدہ کرتے تھے کسی نے پوچھا تو فرمایا کہ جب میں سجدے میں ہوتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا اپنا سر محبوب کے قدموں پر رکھ دیا ہے۔ بس پھر سر اٹھانے کو دل ہی نہیں چاہتا
مجھے کیا خبر تھی رکوع کی مجھے کیا خبر تھی سجود کی
تیرے نقش پا کی تلاش تھی کہ میں جھک رہا تھا نماز میں
امام ربانی مجدد الف ثانیؒ نے اپنے مکاتیب میں لکھا ہے۔
جان لیں کہ دنیا میں نماز کا مرتبہ آخرت میں رویت باری تعالٰی کے مرتبہ کی مانند ہے" پس جو شخص دنیا میں بغیر وساوس کے نماز ادا کرے گا اسے جنت میں اللہ تعالٰی کا دیدار بغیر حجاب کے ہو گا۔ اور اگر وساوس کے ساتھ نماز پڑھے گا تو آخرت میں دیدار بھی پردوں کے اندر سے ہو گا۔"
کس قدر حسرت کی بات ہے کہ نماز پر محنت نہ کرنے کی وجہ سےنمازی کو دیدار خداوندی نصیب ہو گا مگر پردوں کے ساتھ۔ اے کاش ۔۔۔۔ ہم اپنی نمازوں پر محنت کرتے اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا سیکھتے تو روز محشر جمال بے نقاب کے دیدار کے مزے پاتے۔
خاص طور پر سالکین طریقت کے تمام تر ذکر و سلوک اور اوراد و وظائف کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی طرح ذات الٰہی کی رضا اسکی لقا اور اس کا مشاہدہ نصیب ہو جائے۔ اگر یہ بھی نماز جیسی عظیم الشان عبادت جو کہ اللہ جل شانہ کے مشاہدے کا مقام ہے سے غافل ہو جائیں تو یہ اپنی منزل آپ کھو دینے کے مترادف ہے۔ فقیر جب ایک طرف نماز کی اس اہمیت کو دیکھتا ہے اور دوسری طرف نماز کی ادائیگی کےمعاملے میں دوستوں کے احوال کو دیکھتا ہے دل میں شدت سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ سالکین کو بالخصوص اور عامۃ الناس کو بالعموم اس بارے میں فکر مند کرنے کی ضرورت ہے۔ آج بہت سے نمازی ایسےہیں کہ انکو نماز کی اہمیت و عظمت کا احساس ہی نہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو حضور قلب کی نعمت سےمحرورم ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو ارکان نماز کی صحت سے غافل ہیں اور بہت سے ہیں جو ارکان نماز کی درستگی کی تو پوری کوشش کرتے ہیں لیکن طہارت کا معاملہ ڈھیلا ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نماز شرف قبولیت سے محروم رہتی ہے۔ فقیر نےاس کتاب میں کوشش کی ہے کہ ان تمام پہلوؤں سے طالبین کی رہنمائی کی جائے۔ تاکہ وہ کامل نماز ادا کرنے والے بن جائیں۔
دادیم ترا ز گنج مقصود نشان
گر ما نہ رسیدیم تو شاید برسی
ہم نے تمہیں گنج مقصود کی نشاندہی کر دی ہے کہ ہم نہ پہنچے تو شاید تو ہی پہنچ جائے)
قارئین کے پیش نظر یہ بات رہنی چاہئے کہ یہ کتاب کو ئی مسائل کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق نماز کے باطنی امور سے ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ نماز کے فقہی مسائل، فقہ کی معروف کتب سے یا مقامی علماء سےسیکھ کر عمل کریں تاکہ ظاہر و باطن ہر دو لحاظ سے نماز کی تکمیل ہو سکے۔
نبی علیہ السلام نے نماز کی ظاہری حالت کو درست کرنے سے متعلق فرمایا:
صلوا کما را یتمونی اصلی
(ایسے نماز پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو)
نماز کی باطنی کیفیت درست کرنے سے متعلق فرمایا:
ان تعبداللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک
(تو اللہ کی عبادت ایسے کر جیسے اسے دیکھ رہا ہے اگر ایسا نہ کر سکتا ہو تو یہ سمجھ کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے)
معلوم ہوا کہ ظاہر و باطن دونوں لحاظ سے نماز کی درستگی ضروری ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقت والی نمازیں پڑھنے کی توفیق عطا فرما دے، وہ ہماری نمازوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے اور اللہ تعالٰی سے ہمکلامی کا ذریعہ بنا دے اور دیدار جمال یار تک پہنچا دے۔ آمین ثم آمین واللہ الموفق۔
نماز کی فرضیت:
نماز کے معانی:
نماز اردو زبان کا لفظ ہے اور شریعت اسلامی میں اسکا مطلب ہے ایک خاص ترتیب سے اللہ تعالٰی کی عبادت کرنا۔ نماز کو عربی میں صلٰوۃ کہتے ہیں۔ اسکے حروف اصلی تین ہیں (ص، ل، الف) عربی لغت کے اعتبار سے نماز کےمعنی ہیں دعا کرنا، تعظیم کرنا، آگ جلانا، آگ میں جانا، آگ پر گرم کر کے ٹیڑھی لکڑی کو سیدھا کرنا وغیرہ۔
عربی زبان کایہ قاعدہ ہے کہ کسی لفظ کے لغوی معنی اور شرع معنی میں مناسبت ضرور ہونی چاہئے۔ پس جس قدر صلوٰۃ کے لغوی معنی ہیں وہ شرعی اعتبار سے صلوٰۃ کے عمل میں موجود ہیں مثلًا
نماز میں اپنے لئے ، والدین کیلئے اور تمام مسلمانوں کے لئے دعا ہے۔
تعظیم کی تین صورتیں، کھڑے ہونا، جھکنا، سجدہ کرنا یہ سب نماز میں موجود ہیں۔
نماز کے ذریعے انسان کے دل میں عشق الٰہی کی آگ بھڑکتی ہے۔
نمازی کے گناہوں کا جل کر خاک ہو جانا احادیث سے ثابت ہے۔
نمازی کے ٹیڑھے اور برے اخلاق کا درست ہونا اظہر من الشمس ہے۔
شریعت میں نمازی کے عمل کو دوسرے عملوں کی نسبت یہ خاص امتیازی شان حاصل ہے کہ تمام احکام زمین پر فرض ہوئے۔ نماز معراج شریف کی رات میں عرش سے اوپر جا کر فرض ہوئی۔ اللہ تعالٰی نے اپنے محبوب ﷺ کو پاس بلا کر خاص الخاص حضوری میں آمنے سامنے مقام تدلٰی پر فرض کی۔ جس قدر اہتمام اس فرض کا ہوا بقیہ فرائض کا اہتمام اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوا۔ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
اَلصَّلوٰۃُ عِمَادُ الدِّیْنِ
(نماز دین کا ستون ہے)
نماز کی فرضیت:
امام سیوطیؒ نے در منثور میں نقل کیا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ معراج کی شب بیت المقدس میں مسجد اقصٰی کے دروازے پر پہنچے تو وہاں ایک جگہ حوران جنت کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ حوروں نے نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ حوران جنت نے عرض کیا نَحْنُ خَیْرَاتٌ حَسَانٌ نِسَاءُ قَوْمٍ اَبْرَارٍ یا رسول اللہ ﷺ ہم نیک لوگوں کی بیبیاں حوران جنت ہیں۔ آج آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے آئی ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ وہاں سے آگے چلے جب مسجد اقصٰی کے اندر پہنچے تو ساری مسجد کو نمازیوں سے بھرا ہوا پایا۔ ایک دراز قامت خوبصورت بزرگ کو نماز میں مشغول دیکھ کر پوچھا کہ جبرئیلًؑ! یہ کون ہیں؟ عرض کیا، یہ آپ ﷺ کے جد امجد حضرت آدمؑ ہیں۔ ایک اور نورانی شکل و صورت والے بزرگ کو نماز پڑھتے دیکھا جن کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے۔ پوچھا، جبرئیلؑ! یہ کون ہیں؟ عرض کیا کہ یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں۔ ایک اور بزرگ کو دیکھا جنکی رنگت سانولی سلونی بڑی من موہنی تھی۔ چہرے پر جلال کے آثار نمایاں تھے۔ پوچھا کہ جبرئیلؑ! یہ کون ہیں؟ عرض کیا کہ یہ اللہ تعالٰی کے عاشق صادق لاڈلے پیغمبر حضرت موسٰیؑ ہیں۔ الغرض نبی اکرم ﷺ کے وہاں پہنچتے ہی حضرت جبرئیلؑ نے اذان کہی، آسمان کے دروازے کھلے، فرشتے قطار اندر قطار آسمان سے نازل ہوئے۔ جب ساری مسجد اندر باہر سے بھر گئ تو ملائکہ ہوا میں صف بستہ ہوئے حتٰی کہ زمین و آسمان کا خلا پر ہو گیا۔ اتنے میں حضرت جبرئیلؑ نے اقامت کہی تو صف بندی ہو گئ۔ امام کا مصلّٰی خالی تھا۔ حضرت جبرئیلؑ نے امام الاولین والآخرین سید الانس والملائکہ کا ہاتھ مبارک پکڑ کر عرض کیا، اللہ کی قسم! مخلوق خدا میں آپ ﷺ سے افضل اور کوئی نہیں، آپ ﷺ امامت فرمائیے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ سلام پھیرنے کے بعد جبرئیلؑ نے عرض کیا، اے محبوب کل جہاں ﷺ! آپ ﷺ کے پیچھے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مرسلین اور ساتوں آسمانوں کے خاص خاص فرشتوں نے نماز ادا کی ہے۔ نماز سے فراغت پر آپﷺ کو رف رف کی سواری پیش کی گئ۔ آپ ﷺ آسمانوں پر تشریف لے گئے۔ ملائکہ کے قبلہ بیت المعمور کے پاس پہنچ کر آپ ﷺ نے نماز پڑھی۔ فرشتوں نے اقتدا کی ۔ نماز کے بعد آپ ﷺ نے دو طرح کے لوگ دیکھے، ایک گورے چٹے سفید رنگ کے جن کے لباس بھی سفید تھے، دوسرے وہ جنکے چہرے سیاہ اور کپڑے میلے تھے۔ نبی علیہ السلام نے پوچھا جبرئیلؑ! یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کیا، روشن چہروں والے آپ ﷺ کی امت کے نیکوکار ہیں اور سیاہ چہروں والے آپ ﷺ کی امت کے گنہگار ہیں۔ آپ ﷺ نے وہیں پر گنہگاروں کے لئے شفاعت فرمائی جو قبول ہوئی۔ یہاں سے چل کر سدرۃ المنتہٰی پر پہنچے۔ وہاں جبرئیلؑ نے عرض کیا، آپ ﷺ آگے تشریف لے جائیے۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا (بقول شیخ سعدی)
چو در دوستی مخلصم یافتی
عنانم ز صحبت چرا تافتی
اگر تم مجھ سے سچی محبت رکھتے ہو تو پھر ساتھ کیوں چھوڑ تے ہو)
جبرئیلؑ نے عرض کیا
اگر یک سر موئے برتر پرم
فروغ تجلی بسوز پرم
نبی علیہ السلام کو یہاں سے اوپر کی طرف عروج نصیب ہوا حتٰی کہ آپ ﷺ صاف سیدھے میدان یعنی خطیر القدس پہنچے۔ وہاں آپ ﷺ پر تجلی کا خاصہ ورود ہوا۔
اللہ رب العزت کو یہ ہم کلامی اتنی پسند آئی کہ اسے یادگار بنا دیا۔ ارشاد ہوا، اے محبوب ﷺ ہم نے آپ ﷺ کی امت پر پچاس نمازیں فرض فرمائیں۔ نبی علیہ السلام اس وقت محو تجلیات الٰہی تھے۔ آپ ﷺ پر پانچ سو نمازیں بھی فرض کر دی جاتیں تو آپ ﷺ قبول فرما لیتے۔ کیا نہیں دیکھا کہ دنیا کا فانی عشق فانی محبوب اور فانی وصال کی حالت ہو ش اڑا دیتی ہے۔ عورت جیسی نازک چیز دیدار یوسفؑ میں ایسی غافل ہوئی کہ بجائے ترکاری کے اپنی انگلیاں کاٹ لیں، فرہاد نے شیریں کے دیدار کے بدلے کوہستان کھود مارے، ادھم فقیر نے شاہ بلخ کی لڑکی کے حسن و جمال کو دیکھ کر سمندر خالی کرنے پر کمر باندھ لی۔ الغرض مشکل ترین بوجھ کو سر پر اٹھا لینا دیدار محبوب کے وقت آسان ہوتا ہے۔ اللہ اکبر۔ حسن مولٰی کے سامنے عشق لیلٰی کی کیا حیثیت ہے؟
جب نبی کریم ﷺ دیدار الٰہی میں مگن تھے آپ ﷺ کیلئے پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم بہت آسان تھا۔ آپ ﷺ خوشی خوشی واپس تشریف لے آئے۔ راستے میں حضرت موسٰیؑ نے توجہ دلائی کہ اے محبوب کل جہاں ﷺ! آپ ﷺ محو تجلی تھے آپ ﷺ کی ساری امت تو محو تجلی نہ ہو گی۔ میری امت کیلئے دو نمازیں پڑھنی مشکل تھیں آپ ﷺ بارگاہ احدیت میں پھر حاضری دیجئے اور آسانی کیلئے فرمائش کیجئے۔ چنانچہ چند بار اوپر نیچے آنے جانے کا معاملہ پیش آیا۔ صرف پانچ نمازیں فرض رہ گئیں۔ لیکن پروردگار عالم نے فرمایا،
پس پانچ نمازوں کا حکم قائم اور محکم ہو گیا۔ فالحمد للہ رب العالمین۔
نماز کے فضائل:
حافظ بن حجرؒ نے منبہات میں حضرت عثمان غنیؓ سے روایت کی ہے کہ جو شخص اوقات کی پابندی کے ساتھ نماز کی محافظت کرے اللہ تعالٰی نو چیزوں سے اس کا اکرام فرماتے ہیں۔
اسکو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں۔
اسکو تندرستی عطا کرتے ہیں۔
فرشتے اسکی حفاظت کرتے ہیں۔
اسکے گھر میں برکت عطا کرتے ہیں۔
اسکے چہرے پر صلحاء کا نور ظاہر ہوتا ہے۔
اس کا دل نرم فرما دیتے ہیں۔
روز محشر اسکو پل صراط سے بجلی کی تیزی سے گزاریں گے۔
جہنم سے نجات عطا فرمائیں گے۔
جنت میں نیکوں کا ساتھ عطا کریں گے۔
منبہات ابن حجر میں ایک دوسری روایت ہے۔
نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ نماز دین کا ستون ہے اور اس میں دس خوبیاں ہیں۔
چہرے کی رونق ہے۔
دل کا نور ہے۔
بدن کی راحت اور تندرستی کا سبب ہے۔
قبر کا انس ہے۔
اللہ تعالٰی کی رحمت اترنے کا ذریعہ ہے۔
آسمان کی کنجی ہے۔
اعمال نامے کے ترازو کا وزن ہے۔
اللہ تعالٰی کی رضا کا سبب ہے۔
جنت کی قیمت ہے۔
دوزخ سے آڑ ہے۔
لہذا جس نے نماز کو قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا۔ جس نے اسے چھوڑا اس نے دین کو گرایا۔
فقیہ ابو اللیث سمر قندیؒ نے تنبیہ الغافلین میں حدیث نقل کی ہے کہ:
نماز اللہ تعالٰی کی رضا کا سب ہے۔
فرشتوں کی محبوب چیز ہے۔
انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔
نماز سے معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے۔
اس سے دعا قبول ہوتی ہے۔
رزق میں برکت ہوتی ہے۔
نماز ایمان کی بنیاد ہے۔
بدن کیلئے راحت ہے۔
دشمن کیلئے ہتھیار ہے۔
نمازی کیلئے سفارشی ہے۔
قبر کا چراغ اور اسکی وحشت میں دل بہلانے والی ہے۔
منکر نکیر کے سوال کا جواب ہے۔
قیامت کی دھوپ میں سایہ ہے اور اندھیرے میں روشنی ہے۔
جہنم کی آگ سے بچاؤ ہے۔
پل صراط سے جلدی گزارنے والی ہے۔
جنت کی کنجی ہے۔
حافظ ابن حجرؒ نے منبہات میں ایک اور حدیث نقل کی ہے۔
نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ مجھے تین چیزیں محبوب ہیں
خوشبو
نیک بیوی
میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔
سیدنا صدیق اکبرؓ یہ سن کر تڑپ اٹھے اور عرض کیا کہ مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں۔
آپ ﷺ کے چہرہ انور کا دیدار کرنا
اپنا مال آپﷺ پر خرچ کرنا
میری بیٹی آپ ﷺ کے نکاح میں ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ نے کہا کہ مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں
امر بالمعروف کرنا
نہی عن المنکر کرنا
پرانا کپڑا پہننا
حضرت عثمان غنیؓ نے یہ سن کر کہا کہ مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں۔
بھوکوں کو کھانا کھلانا
ننگوں کو کپڑا پہنانا
تلاوت قرآن کرنا
حضرت علی المرتضٰیؓ نے یہ سن کر کہا کہ مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں
مہمان نوازی کرنا
گرمی میں روزہ رکھنا
دشمن پر تلوار چلانا
اتنے میں جبرئیلؑ نازل ہوئے اور کہا کہ مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں
بھولے ہوئے کو راستہ دکھانا
نیک غریبوں سے محبت رکھنا
عیالدار مفلسوں کی مدد کرنا
جبرئیلؑ نے بتایا کہ اللہ رب العزت کو بھی تین چیزیں محبوب ہیں۔
اللہ تعالٰی کی راہ میں مال خرچ کرنا
فاقہ پر صبر کرنا
گناہ پر ندامت کے ساتھ رونا
حضرت شفیق بلخیؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں میں پایا۔
قبر کا نور تہجد کی نماز میں پایا۔
منکر نکیر کے سوال کا جواب تلاوت قرآن میں پایا۔
قیامت کے دن کی پیاس سے بچاؤ روزہ میں پایا۔
پل صراط سے جلدی گزرنے کو صدقہ خیرات میں پایا۔
روزی کی فراخی کو چاشت کی نماز میں پایا۔
امام ابن سیرینؒ تعبیر الرویاء میں لکھتے ہیں کہ جس نے خواب دیکھا کہ اس نے
نماز فجر پڑھی تو اس سے کیاگیا وعدہ پورا ہو گا۔
نماز ظہر پڑھی تو اسے حاسدوں اور دشمنوں پر غلبہ نصیب ہو گا۔
نماز عصر پڑھی تو جس کام میں لگا ہے اس میں کامیابی نصیب ہو گی۔
(اس میں ایسے مرد ہیں وہ پسند کرتے ہیں کہ پاکیزہ رہیں اور اللہ پسند فرماتا ہے پاکیزہ رہنے والوں کو)
اس آیت مبارکہ میں صحابہ کرامؓ کی ایک عادت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکیزگی سے محبت رکھتے تھے اور ساتھ یہ خوشخبری بھی سنا دی گئ کہ اللہ رب العزت پاکیزہ رہنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔ پس ہر مومن کے دل میں یہ تمنا ہونی چاہئے کہ وہ پاکیزہ رہے تاکہ رب کریم کے محبوب بندون میں شمولیت نصیب ہو۔ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔
اَلطَّھُوْ رُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ
(صفائی ایمان کا حصہ ہے)
صفائی اور پاکیزگی:
صفائی اور پاکیزگی میں فرق ہے۔ اگر کسی چیز پر میل کچیل نہ ہو تو اسےصاف کہتے ہیںمگر عین ممکن ہے کہ وہ شرع کے نقطہ نظر سے پاکیزہ نہ ہو۔ پاکیزہ اس چیز کو کہا جاتا ہے جو نجاست غلیظہ اور خفیفہ دونوں سے پاک ہو۔
نجاست غلیظہ:
وہ نجاست جو ناپاک ہونے میں سخت اور زیادہ ہو مثلًا
انسان کا پیشاب، پاخانہ اور منی
جانوروں کا پاخانہ
حرام جانوروں کا پیشاب
انسان اور جانوروں کا بہتا ہوا خون
شراب اور سور کا گوشت ، ہڈی ، بال وغیرہ
مرغی، بطخ اور مرغابی کی بیٹ
نجاست خفیفہ:
وہ نجاست جو ناپاک ہونے میں ہلکی اور کم ہو ۔مثلًا حلال جانوروں کا پیشاب اور حرام پرندوں (چیل ، گدھ) کی بیٹ۔
نجاست حقیقی:
نجاست غلیظہ اور خفیفہ دونوں کو نجاست حقیقی کہتے ہیں۔
نجاست حکمی:
وہ نجاست جو دیکھنے میں نہ آئے مگر شریعت سے ثابت ہو مثلًا بے وضو ہونا، احتلام یا جماع وغیرہ کی وجہ سے غسل کا فرض ہو جانا۔ قرآن مجید میں ہے
اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ (التوبہ:۲۸)
(مشرک نجس ہوتے ہیں)
حدث اکبر:
جب مردو عورت پر احتلام یا جماع کی وجہ سے غسل فرض ہو جائے یا عورت حیض و نفاس سے فارغ ہو جائے تو اس پر غسل فرض ہو جاتا ہے۔ اس کو حدث اکبر کہتے ہیں۔
حدث اصغر:
وضو ٹوٹ جانے کو حدث اصغر کہتے ہیں۔
طہارت کے چار درجات
اللہ رب العزت پاک ہیں۔ ان سے واصل ہونے کیلئے مومن کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔ مشائخ نے اس کے چار درجات متعین فرمائے ہیں۔
۱۔ طہارت بدن از نجاست
بدن کو نجاست حقیقی اور حکمی دونوں سے پاک رکھا جائے۔ چند باتیں غور طلب ہیں۔
فرض غسل:
علمائے کرام نے لکھا ہے کہ فرض غسل کے تین فرائض ہیں۔
غرغرہ یعنی کلی اس طرح کرنا کہ پانی اچھی طرح حلق کے اندر تک پہنچ جائے۔
ناک کے اندر نرم ہڈی تک پانی کو اچھی طرح پہنچانا۔
پورے جسم پر اس طرح پانی بہانا کہ بال برابر جگہ بھی خشک نہ رہے۔
پورے جسم کو اچھی طرح مل مل کر دھونا اور ناف، کان ، بغل وغیرہ میں انگلی ڈالنا اور جگہ کو گیلا کرنا واجب ہے۔
اگر عورت نے بالوں کی چٹیا بنائی ہوئی ہے تو اسکے لئے سر پر اچھی طرح پانی بہانا فرض ہے۔ اگر لمبے بال گندھے ہونے کی وجہ سے خشک رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ اگر بال کھلے ہوں تو سر کے ہر ہر بال کو گیلا کرنا ضروری ہے۔
جن عورتوں نے زیور پہنا ہوا ہو انکے لئے ضروری ہے کہ زیور کے نیچے کی جگہ پر پانی پہنچائیں۔ خاص طور پر انگلیوں میں انگوٹھی کےنیچے، کان کی بالیوں کے سوراخ میں اور ناک میں لونگ کے سوراخ میں پانی پہنچانا ضروری ہے۔
اگر ہاتھ پاؤں کے ناخنوں پر ناخن پالش لگی ہوئی ہو تو اسکو اتارنا ضروری ہے تاکہ اس کی تہہ کے نیچے پانی پہنچ سکے۔
اگر ہاتھ پاؤں کے ناخن بڑھے ہوئے ہوں تو انکے اندر کی میل کچیل نکالنا اور اس میں پانی پہنچانا ضروری ہے۔
اگر ہونٹوں پر لپ اسٹک لگی ہوئی ہو تو اسے سو فیصد صاف کرنا ضروری ہے تاکہ ہونٹوں تک پانی پہنچ سکے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ بیرون ملک کی تیار شدہ لپ اسٹک میں حرام اشیاء شامل ہوتی ہیں۔
استنجاء کرنا:
جب انسان قضائے حاجت کیلئے بیت الخلاء میں جائے اور پیشاب پاخانہ سے فارغ ہو تو اسے چاہئے کہ مٹی کے ڈھیلوں سے پیشاب کے قطروں کو خشک کر لے پھر تین ڈھیلوں سے پاخانہ صاف کرے، اگر مٹی کے ڈھیلے میسر نہ ہوں تو ٹائلٹ پیپر کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسکے بعد پانی کے ساتھ پیشاب پاخانے کی جگہ کو تین مرتبہ دھوئے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ناپاکی کی جگہ پر پانی بہائے اور ہاتھ سے ملے پھر ہاتھ کو پاک کرے۔ پھر دوسری مرتبہ ناپاکی کی جگہ پر پانی بہائے اور ہاتھ سے ملے، پھر دوبارہ ہاتھ کو پاک کرے۔ پھر تیسری بار ناپاکی کی جگہ پر پانی بہائے اور ہاتھ سے ملے حتٰی کہ نجاست دھلنے کا یقین ہو جائے پھر تیسری دفعہ ہاتھ کو پاک کرے۔ بعض لوگ استنجاء سے فراغت پر ہاتھوں کو مٹی یا صابن سے دھو لیتے ہیں۔ طمانیت قلب حاصل کرنے کیلئے یہ اچھی عادت ہے۔ چند باتیں غور طلب ہیں۔
بعض جگہوں پر بیت الخلاء میں ایسے جوتے رکھے جاتے ہیں جو پانی کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ ایسے جوتوں کا پاک رکھنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ اگر اس پر پیشاب کے چھینٹے پڑ جائیں تو بھلا کیسے پاک کریں؟ جوتے ایسے میٹیریل کے بنے ہوں جو پانی جذب نہ کریں اور فقط پانی بہانے سے انکے ساتھ لگی ہوئی ناپاکی دھل جائے۔ مزید برآں جوتے کا تلوہ موٹا ہونا چاہئے تاکہ فرش کا پانی پاؤں کو نہ لگے۔ پتلے تلوے والی چپلیں پاؤں جلدی ناپاک کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ تاہم اپنی تسلی کیلئے جوتوں کو وقتًا فوقتًا پاک کرتے رہنا ضروری ہے۔
بعض جگہوں پر بیت الخلاء میں قالین بچھا دیئے جاتے ہیں۔ ایسے قالین کے اوپر تولیے بچھا دینے چاہئیں تاکہ انہیں دوسرے تیسرے دن دھوتے رہیں۔
جن جگہوں پر بیت الخلاء میں نیچا کموڈ (پاؤں کے بل بیٹھنے والی سیٹ) لگا ہو وہاں پیشاب کرتے وقت اس بات کا بہت خیال رکھنا چاہئے کہ پاؤں کے اندرون ٹخنے والی سائڈ پر پیشاب کے قطرے کموڈ سے منعکس ہو کر نہ لگیں۔
کھڑے ہو کر پیشاب کرنا یہود و نصارٰی کی عادت ہے۔ بعض غافل مسلمان بھی انکا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اس میں ایک تو صالحین کے طریقے کی مخالفت ہے دوسرا کپڑوں کے ناپاک ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ بعض نوجوان پیشاب کے قطروں کے بارے میں بے احتیاطی کرتےہیں۔ ایک روایت میں نبی اکرم ﷺ نے دو آدمیوں کو قبر کا عذاب ہوتے دیکھا، ایک کو چغلخوری کی وجہ سے اور دوسرے کو پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے کی وجہ سے۔
اگر مرد کو پیشاپ کے قطرے گرنے کی بیماری ہو یا عورت کو سیلان الرحم کی بیماری ہو تو بار بار استنجاء کرنے سے تنگ نہیں ہونا چاہئے۔ جسم کی طہارت فرض ہے اور فرض کی ادائیگی میں تکلیف اٹھانا قرب الٰہی کا سبب ہوتا ہے۔
بعض لوگ بیت الخلاء میں ننگے پاؤں چلے جاتے ہیں اور گیلے پاؤں لیکر باہر فرش پر آ جاتے ہیں۔ ان بیچاروں کو پاکی اور ناپاکی کے فرق کا پتہ ہی نہیں ہوتا۔ پھر انہی پاؤں سے مصلےٰ پر آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ خود تو کیا پاک ہونا تھا الٹا مصلےٰ کو بھی ناپاک کر دیتے ہیں۔ بعض لوگ وضو خانے کے گیلے جوتے استعمال کرتے ہیں۔ بہتر ہے ایسے جوتوں کو پاک کیا جائے ورنہ عمومًا ایسے جوتے ناپاک ہوتے ہیں۔
جب بیت الخلاء میں استنجاء سے یا غسل سے فراغت حاصل کریں تو جسم کے گیلے حصے کو تولئے وغیرہ سے اچھی طرح صاف کر لیں اگر گیلے ہاتھوں سے دروازے کا ہینڈل پکڑیں گے تو ہاتھ ناپاک ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ عمومًا دیکھا گیا ہے کہ گھر کی خادمائیں جب بیت الخلاء دھوتی ہیں تو گیلے ہاتھوں سے دروازے کے ہینڈل پکڑ لیتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہینڈل ناپاک ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہینڈل کو خشک ہاتھ سے پکڑنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر گیلے ہاتھ سے پکڑ لیا جائےتو ہینڈل کی ناپاکی ہاتھ کو بھی ناپاک کر دے گی۔
ضروری نکتہ:
اگر کوئی چیز ناپاک ہے مگر خشک ہے تو اسے خشک ہاتھوں سے چھو لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ناپاکی منتقل نہیں ہوتی۔ البتہ اگر ناپاک چیز گیلی ہے یا ہاتھ گیلے ہیں یا دونوں گیلے ہیں تو ایسی صورتحال میں ناپاکی ایک جگہ سےدوسری جگہ منتقل ہو جاتی ہے۔ اول تو ہر وقت ہاتھ خشک رکھیں دوسر۱ اگر گیلا ہاتھ کسی چیز کو لگا ئیں یا گیلی چیز کو ہاتھ لگائیں تو خبردار رہیں ۔ ناپاکی منقتل ہونے سے جسم یا کپڑے ناپاک ہو سکتے ہیں۔
طہارت لباس:
اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ﷺ سے خطاب فرمایا
وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ (مدثر: ۴)
(آپ اپنے کپڑے پاک رکھئے)
پس ایمان والوں کو چاہئے کہ اپنے کپڑوں کو پاک بھی رکھیں اور اپنے دامن کو گناہ کی آلودگی و نجاست سے بھی صاف رکھیں۔
عمومًا کپڑے دھونے کا کام گھروں میں عورتیں سر انجام دیتی ہیں۔ انہیں چاہئے کہ کپڑوں کو تین مرتبہ دھوئیں۔ اچھی طرح پانی بہائیں اور ہر مرتبہ پانی خوب نچوڑیں۔ جو کپڑے دھل چکے ہوں انہیں علیحدہ صاف چیز میں رکھیں۔ ایسا نہ ہو کہ دوسرے کپڑوں کو دھوتے وقت جو چھینٹے اڑتے ہیں وہ پاک کپڑوں کو ناپاک بنا دیں۔ جب دھلے ہوئے کپڑوں کو پاک کرنے لگیں تو اپنے مستعمل کپڑوں کو ہاتھ نہ لگائیں۔
جن لوگوں کے گھروں میں واشنگ مشین ہوتی ہے انہیں چاہئے کہ ساتھ ڈرائر بھی لیا کریں۔ اس میں اگر ۳ مرتبہ کا تعین کر لیں تو مشین کپڑے کو خودبخود تین مرتبہ دھوتی اور نچوڑتی ہے۔ ایسے کپڑے بہت صاف اور پاک ہوتے ہیں۔ انسانی ہاتھوں سے اس قدر اچھی طرح نچوڑنا ممکن نہیں جس قدر مشین سے ممکن ہے۔
بعض لوگوں کو دھوبی سے کپڑے دھلوانے کی عادت ہوتی ہے۔ اگر دھوبی نیک دین دار ہو اور پاکیزگی کا لحاظ رکھنے والا ہو تو ٹھیک ہے ورنہ تو پاک ناپاک کپڑوں کو اس طرح اکٹھا کر دیتے ہیں کہ سب کپڑے ناپاک ہو جاتے ہیں۔ پاکیزہ لوگوں کو چاہئے کہ اپنے گھروں میں کپڑے دھونے کا انتظام رکھیں۔
بعض لوگ اپنے کپڑوں کو ڈرائی کلین کروا لیتے ہیں۔ اس طرح کپڑے صاف تو ہو جاتے ہیں مگر پاک نہیں ہوتے۔
بعض لوگ کپڑے استری کرتے وقت کپڑے پر پانی اسپرے کرتے ہیں۔ اگر پانی پاک نہیں تو کپڑے کو بھی ناپاک بنا دے گا۔
بعض لوگ وضو کرتے وقت یا عورتیں فرش وغیرہ دھوتے وقت اپنے کپڑوں پر چھینٹیں پڑنے کا خیال نہیں کرتیں۔ اس سے کپڑے کی پاکیزگی و طہارت میں فرق آ جاتا ہے۔
بعض عورتیں پرفیوم لگانے کی شوقین ہوتی ہیں مگر الکحل والی پرفیوم لگا لیتی ہیں۔ الکحل حرام بھی ہے اور ناپاک بھی ہے۔ نمازی لوگ اول تو عطر استعمال کیا کریں اور اگر پرفیوم ہی استعمال کرنی ہو تو بغیر الکحل والی پرفیوم استعمال کریں۔
اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو انسان غیر پاکیزہ چیزیں کھائے گا وہ اعمال صالحہ کی توفیق سے محروم ہو جائے گا۔ غذا میں اول قدم پر اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ رزق حلال سے حاصل کی گئ ہو۔ دوسرے قدم پر وہ چیز شرعًا حلال ہو۔ مثلًا ایک آدمی حلال مال سے ایسی آئس کریم خریدتا ہے جس میں حرام چیزوں کی ملاوٹ ہے تو اسکے کھانے سے دل میں ظلمت پیدا ہو گی۔ تیسرے قدم پر اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس غذا کو بناتے وقت طہارت و پاکیزگی کا خیال رکھا گیا ہو۔ بعض جگہوں پر لوگ سموسے وغیرہ بناتے ہیں مگر ایک ہی پانی میں ساری پلیٹیں جمع کر دیتے ہیں۔ پھر ایک ہی کپڑے سے انہیں صاف کر کے رکھ دیتے ہیں۔ پلیٹ دیکھنے میں صاف تو ہو جاتی ہے مگر پاک نہیں ہوتی۔ اسی لئے ہمارےمشائخ بازار کی بنی ہوئی کھانے پینے کی چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت مجدد الف ثانیؒ نماز ادا کرنے مسجد سے باہر نکلنے لگے تو آپ نے دیکھا کہ نمازیوں کے جوتے کچھ دائیں طرف پڑےہیں بقیہ بائیںطرف پڑے ہیں۔ جب آپ اسکی طرف متوجہ ہوئے تو آپ کو کشف ہوا کہ دائیںطرف والے اصحاب الیمین ہیں اور بائیں طرف والے اصحاب الشمال ہیں۔ آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ جوتوں کو الگ الگ کس نے رکھا؟ بتایا گیا کہ آپ کے صاحبزادہ خواجہ محمد معصومؒ اور خواجہ محمد سعیدؒ کھیل رہے تھے۔ آپ نے حضرت خواجہ باقی باللہ کی خدمت میں خط لکھ کر اس واقعہ کی تفصیل بتائی۔ حضرت خواجہ باقی باللہؒ نے بچوں کو اپنے پاس دہلی بلوایا اور انہیں بازار سے منگوا کر کھانا کھلایا۔ اس کھانے کی ظلمت کی وجہ سے صاحبزادگان کا کشف ختم ہو گیا۔ سوچنا چاہئے کہ اگر آج سے پانچ سو سال پہلے کا بازار کا پکا کھانا اتنی کثافت رکھتا تھا تو آج کل کے کھانوں کا کیا حال ہو گا۔ لوگ چکن تکہ، چکن کباب تو مزے لے لے کر کھاتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ مرغ کو صحیح طریقہ سے حلال بھی کیا گیا تھا یا نہیں۔ دہی بھلے اور چاٹ کھانے کی عادت ہوتی ہے جس سے دل میں ظلمت آتی ہے۔ اگر بازار میں کسی ایسے آدمی کی دکان ہو یا ہوٹل ہو جو نمازی ہو ، طہارت اور حرام و حلال کا خیال رکھنے والا ہو تو ایسی جگہ کے پکے ہوئے کھانے کو کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر عام مشاہدہ یہی ہے کہ کام کرنے والے بے نمازی بھی ہوتے ہیں۔ طہارت کا بھی خیال نہیں رکھتے۔
حضرت خواجہ فضل علی قریشیؒ بے نمازی کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہیں کھایا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ حضرت خواجہ عبدالمالک صدیقیؒ چکوال تشریف لائے۔ حضرت مرشد عالمؒ تبلیغی دورے پر گئے ہوئے تھے۔ حضرت قاسمیؒ نے انکی مہمان نوازی کی۔ جب حضرت صدیقیؒ کے سامنے دستر خوان پر کھانا رکھا گیا تو آپ نے کھانے سے انکار فرما دیا اور حضرت قاسمیؒ سے پوچھا کہ آپ کے گھر میں سؤر کہاں سے آیا؟ حضرت قاسمیؒ نے والدہ ماجدہ کو آ کر صورتحال سے آگاہ کیا تو وہ فرمانےلگیں، مجھ سے غلطی سرزد ہوئی۔ میری ہمسائی مدت سے اس بات کی تمنا رکھتی تھی کہ حضرت صدیقیؒ کا کھانا پکائے۔ میں نے اسکے اصرار کی وجہ سے اسے کھانا پکانے کی اجازت دے دی۔ یہ کھانا ہمارے گھر کا نہیں ہمسائے کے گھر سے آیا ہوا ہے۔ والدہ ماجدہ نے اپنے گھر کا کھانا پکا کر دیا تو حضرت صدیقیؒ نے تناول فرمایا۔
کئ لوگ اس بات پر حیران ہوتے تھے کہ حضرت صدیقیؒ مشتبہ مال والا کھانا ہر گز نہیں کھاتے تھے۔ انہوں نے دعوت کےدوران مشتبہ مال سے بہترین کھانے پکا کر سامنے رکھے جب کہ حلال مال سے خشک روٹی اور دال پکوائی۔ حضرت صدیقیؒ نے بغیر کسی کے بتائے دال روٹی کھائی، مرغے چرغے کی طرف دھیان ہی نہ دیا۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ آم، سیب اور امرود وغیرہ کے پھل اسی لئے نہیں کھاتے تھے کہ پنجاب کے باغوں میں درختوں پر پھل آنے سے پہلے ان کا سودا کر لیا جاتا ہے۔ اس کو بیع باطل کہتے ہیں۔
حضرت مرزا مظہر جان جاناں کے پاس ایک شخص انگور لایا۔ آپ کھانے لگے تو فرمایا کہ ان انگوروں سے مردے کی بو آتی ہے۔ وہ شخص بڑا حیران ہوا۔ جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ باغ کے مال نے قبرستان کی زمین پر ناجائز قبضہ کر کے وہاں انگور کی بیلیں اگائی ہوئی تھیں۔
حضرت خواجہ عبداللہ دہلویؒ کو ایک شخص نے مشتبہ لقمہ کھلا دیا جس سے انکے لطائف بندہو گئے۔ انہوں نے حضرت مرزا مظہر جان جاناںؒ سے اپنے حالات کا تذکرہ کیا۔ حضرت مرزا صاحب نے انہیں مراقبہ میں روزانہ توجہات دینی شروع کیں تو چالیس دن کے بعد دل سےظلمت صاف ہوئی اور لطائف جاری ہوئے۔
آج کل کے بعض مالدار لوگوں نے کچن میں کام کرنے کیلئے غیر مسلم عورتوں کو رکھا ہوا ہوتا ہے۔ پھر شکوہ کرتے ہیں کہ بچے نافرمان بن گئے، گھر سے پریشانی ختم نہیں ہوتی۔ غیر مسلم کا پاکی اور ناپاکی سے کیا واسطہ۔
بعض لوگ اپنی ریٹائرمنٹ کے پیسے بینک میں سود پر جمع کروا دیتے ہیں پھر ہر مہینے سود کے پیسے لے کر گھر کے اخراجات چلاتےہیں۔ یہ سب شرعًا حرام ہے۔ ایسی غذا کھانے والا عبادات کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔
بیرون ملک کی بنی ہو ئی غذائی اشیاء خریدتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس میں کسی حرام چیز مثلًا حرام جانور کی چربی (جیلئین) وغیرہ کا استعمال تو نہیں کیا گیا، ورنہ تو پیسے لگا کر گھر تباہ کرنے والا معاملہ ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں کے ایف سی ، میکڈونلڈ وغیرہ کے نام سے فاسٹ فوڈ کی کئ دکانیں کھل گئ ہیں۔ لوگ ان جگہوں پر جا کر کھانا اعلٰی معیار زندگی کی علامت سمجھنے لگ گئے ہیں۔ ہمارے بیرون ملک کے ایک مدرسے میں ایک لڑکا قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کیلئے داخل ہوا۔ اسکے متعلق عام تاثر یہی تھا کہ وہ اپنے سکول میں اول انعام حاصل کرنے والا طالبعلم ہے۔ مدرسہ میں ایک سال پڑھنے کے بعد اس کا ایک پارہ بھی ختم نہ ہوا۔ نگران حضرات نے استاد کو سمجھایا کہ اس طالبعلم کی مقدار خواندگی بہت کم ہے۔ استاد نے کہا کہ میں نے محنت تو بہت کی ہے۔ خود بچے نے بھی خوب دل لگا کرپڑھا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ طالبعلم جب چند صفحے آگے پڑھ لیتا ہے تو پیچھے سے بھول جاتا ہے۔ ہم تو مغز کھپائی کر کے تنگ آ گئے ہیں۔ طالبعلم سے پوچھنے پر تصدیق ہوئی کہ استاد کے پڑھانے میں کوئی کمی نہیں تھی او رخود طالبعلم کی محنت میں بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ جب طالبعلم سے پوچھا گیا کہ آپ کیا چیزیں کھانے کے عادی ہو تو اس نے پانچ سات غیر ملکی ریسٹورانٹ کے نام گنوا دیئے۔ جہاں وہ اپنے والدین کے ہمراہ جا کر شام کا کھانا کھایا کرتا تھا۔ نگران حضرات نے اسکے والدین کو بلا کر سمجھایا کہ آپ کو اللہ تعالٰی نے رزق حلال دیا ہے مگر آپ کفار کے ہاتھوں سے تیار شدہ حرام اور مشتبہ غذا بچے کو کھلاتےہیں جسکی وجہ سے بچہ قرآن مجید کی برکات سے محروم ہو گیا ہے۔ آپ وعدہ کریں کہ آئندہ بچے کو گھر کی بنی ہوئی غذا کھلائیں گے اور اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو بچے کو اپنے ہمراہ واپس لے جائیں اور تعلیم کاکوئی اور بندوبست کر لیں والدین بات کی حقیقت سمجھ گئے۔ انہوں نے طالبعلم کوگھر کی بنی ہوئی حلال او ر پاکیزہ غذا کھلانے کا معمول بنا لیا۔ آنے والے ایک ہی سال میں بچےنے پورا قرآن مجید مکمل پڑھ لیا۔
اس مثال سے یہ بات با آسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ طعام کی پاکیزگی کا عبادات میں دلجمعی اور خشوع و خضوع کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔
یہ بات روزمرہ کے مشاہدے میں آئی ہے کہ جو انسان اپنے اعضاء کو گناہوں سے نہیں بچاتا وہ نیک اعمال کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔ حدیث پاک میں آیا ہے کہ جو شخص غیر محرم عورت سے اپنی نگاہوں کی حفاظت کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے عبادت میں لذت عطا فرماتے ہیں۔ پس جو شخص اپنی نگاہوں کو غیر محرم سے نہیں بچائے گا وہ عبادت کی لذت سے محروم ہو جائے گا۔ غیر محرم پر ہوس بھری نگاہیں ڈالنے والا گناہ آج کل عام ہو گیا ہے۔ حدیث پاک میں وارد ہے
(غیر محرم کا جسم دیکھنے والا مرد اور غیر محرم کو جسم دکھانے والی عورت دونوں جہنم میں جائیں گے)
ایک روایت میں آیا ہے کہ جو عورت اس لئے زیب و زینت اختیار کرے کہ اسے غیر محرم دیکھے۔اس عورت کی طرف اللہ تعالٰی محبت کی نظر نہیں ڈالتے۔
آج کل ٹی وی، ڈراموں اور فلموں کے ذریعے عریانی و فحاشی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ٹی وی درحقیقت ایمان کیلئے ٹی بی بن چکا ہے۔ بچوں کے اخلاق بگڑتے ہیں اور وہ مختلف جرائم کے نئے نئے طریقے سیکھتے ہیں۔یوں سمجھ لینا چاہئے کہ جس گھر میں ٹی وی موجود ہے اس گھر میں شیطان کی ایک بریگیڈ فوج موجود ہے۔
بعض بے پردہ پھرنے والی عورتیں یہ سوال کرتی ہیں کہ قرآن مجید میں چہرے کا پردہ نہیں ہے؟ ان بھولی عورتوں سے کوئی پوچھے کہ جب حجاب سے متعلقہ آیات اتریں تو اس وقت امہات المومنین کو کیا چھپانےکا حکم ہوا تھا۔ ٹھنڈے دل و دماغ سےسوچ کر بتائیں کہ چہرہ چھپانے کا حکم ہوا یا معاذ اللہ ثم معاذ اللہ وہ ننگے سر یا ننگے سینہ پھرتی تھیں اور انہیں سر اور سینہ چھپانے کا حکم ہوا۔ صاف ظاہر ہےکہ انہیں چہرہ چھپانے کاحکم ہوا۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ
(اس میں قریب ہے کہ پہچانی جائیں تو نہ ستائی جائیں)
اگر کسی کا چہرہ کھلا ہو تو اس کو پہچاننے میں ایک منٹ نہیں لگتا۔
بعض عورتیں پردے سے متعلق بحث و مباحثہ کرتےہوئے کہتی ہیں کہ پردہ تو آنکھ کا ہوتا ہے۔ ہماری نگاہیں پاک ہوتی ہیں۔ انہیں پوچھنا چاہئے کہ آپ کی نگالیں پاک سہی اگر آپ کو دیکھنے والوں کی نگاہیں پاک نہ ہوئیں تو آپ مصیبت میں پڑیں گی یا نہیں۔ دوسرا یہ کہ پردہ آنکھ کا ہوتا ہے تو عقل کا پردہ بھی تو ہوتا ہے۔ عام طور پر جب عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے تو آنکھ کا پردہ کافی نظر آتا ہے، ایسی عورتیں چہرے کا پردہ کرنے سے گھبراتی ہیں۔
ہمارے مشائخ نظر کی اس قدر حفاظت کرتے تھے کہ اگر نماز کیلئے مسجد کی طرف جاتے ہوئے نظر غیر محرم پر پڑ جاتی تو دوبارہ وضو کی تجدید کرتے اور پھر نماز ادا کرتے تھے۔
زبان کو جھوٹ، غیبت، چخلخوری او ربہتان وغیرہ سے بچانا چاہئے۔ اللہ تعالٰی کے ہاں مومن کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی بڑی وقعت ہے۔ انسان کلمہ شہادت کےچند الفاظ بولتا ہے تو مومن بن جاتا ہے، نکاح کےوقت ایجاب و قبول کے چند الفاظ بولتا ہے تو پرائی لڑکی اپنوں سے بھی زیادہ اپنی بن جاتی ہے۔ بعض لوگ وقتی شرمندگی سے بچنے کیلئے جھوٹ بولتے ہیں اور آخرت کی شرمندگی سے نہیں ڈرتے ۔ حدیث پاک میں ہے کہ مومن سب کچھ ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا۔
اپنے کانوں کو غیبت اور موسیقی وغیرہ سننے سے بچانا چاہئے۔ بعض لوگوں کو فلمی گانے سننے کاشوق ہوتا ہے۔ وہ لوگ بعض اوقات نماز میں کھڑے ہوتے ہیں اور انکے کانوں میں شہنائیاں بج رہی ہوتی ہیں۔
آج کل قوالی کے نام سے موسیقی کی دھنوں پر عشقیہ اشعار پڑھے جاتے ہیں جو گانے کواسلامی رنگ دینے کی ایک مکروہ کوشش ہے۔ یہ سو فیصد حرام ہے۔ نبی علیہ السلام نےفرمایا کہ موسیقی کا سننا کان کا زنا ہے۔ دوسری حدیث میں فرمایا کہ موسیقی سننے والے کے دل میں زنا کی خوہش ایسے پیدا ہوتی ہے جیسے بارش کے برسنے سے زمین میں کھیتی پیدا ہوتی ہے۔ ایک اور حدیث میں نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ میں مزامیر (آلات موسیقی) کو توڑنے کیلئے دنیا میں بھیجا گیا ہوں۔
بعض نوجوان ٹیلیفون پر غیر محرم لڑکیوں سے گپیں لگانے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ یہ زنا کا دروازہ کھلنے کی کنجی ہے۔ پہلے انسان گفتگو کرتا ہے اور پھر ایکدوسے کو دیکھنے کیلئے دل بیتاب ہوتا ہے۔ اسکی دلیل قرآن مجید سے ملتی ہے۔ حضرت موسٰیؑ کو اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف نصیب ہوا۔تمام انبیاء میں سے صرف حضرت موسٰیٰ نے تمنا ظاہر کی
رَبِّ اَرِنِیْ اَنْظُرُ اِلَیْکَ (الاعراف: ۱۴۳)
(میرے رب مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں)
شرمگاہ کو گناہ سے بچانا عبادات کی حضوری نصیب ہونے کیلئے ضروری شرط ہے حدیث پاک میں ہے کہ انسان جتنی دیر زنا کرتا ہے۔ اتنی دیر ایمان اسکے جسم سے نکل جاتا ہے۔ اکثر چند لمحوں کی غلطی کئ کئ سالوں کی عبادات پر پانی پھیر دیتی ہے۔
۳۔ طہارت دماغ از تخیلات
اپنے دماغ کو شیطانی، نفسانی، اور شہوانی خیالات سے بچانا ضروری ہے۔جب تک سوچ پاک نہ ہو اس وقت تک دل پاک نہیں ہوتا۔ یاد رکھیں کہ فکر کی گندگی ذکر سے دور ہوتی ہے۔ برے خیالات کا دماغ میں آنا برا نہیں ہے انکو خود دماغ میں لانا اور جمانا برا ہے۔ جب بھی کوئی برا خیال دماغ میں آئے تو اسے جھٹک دینا چاہئے اور لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلَّا بِا للہِ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمِ پڑھنا چاہئے۔ جو شخص یہ چاہے کہ مجھے نماز میں یکسوئی نصیب ہو اسے چاہئے کہ نماز کے علاوہ اوقات میں یکسوئی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
۴۔ طہارت قلب از مذمومات و محمودات
قلب کو مذمومات سے پاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دل میں غیر شرعی آرزوئیں اور تمنائیں نہیں ہونی چاہئیں۔ ایسی آرزوؤں کا بدلنا ضروری ہوتا ہے۔
تیری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی
مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے کہ تیری آ رزو بد ل جائے
محمودات سے قلب کو پاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی اچھائیوں اور نیکیوں پر بھی انسان کی نظر نہ ہو۔ یعنی اپنی اچھی باتوں کا دل میں مان نہ ہو کہ میں بڑا نیک ہوں، یہ خود پسندی بھی بندے کے گرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ مشائخ کرام نے فرمایا ہے کہ متواضع گنہگار متکبر عابد سے افضل ہوتا ہے۔ اخلاقی برائیوں میں سے سب سے آخر پر عجب انسان کے دل سے نکلتا ہے۔ اس لئے حدیث پاک میں انسان کو ہلاک کر دینے والی باتوں کا تذکرہ ہوا تو اس میں سے ایک چیز کی نشاندہی کی گئ۔ فرمایا و اعجاب المرء بنفسہ کا آدمی کا اپنے نفس کو اچھا سمجھنا۔ تو یہ عجب بھی انسانوں کو ہلاک کر دیتا ہے۔
طہارت دل از مذمومات و محمودات کا حاصل یہ ہے کہ نہ تو دل میں برائیوں کے منصوبے ہوں اور نہ ہی بندہ اپنی نیکیوں پر فریفتہ ہو۔ طہارت کے یہ چار مراتب ہیں، اگر نماز کو بنانے کیلئے یہ چاروں مراتب حاصل کر لیں گے تو اللہ تعالٰی مقام احسان والی نماز عطا فرما دیں گے۔ اللہ تعالٰی ہمیں طہارت کے یہ سب مقامات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما دیں۔
خشوع وخضوع والی نماز
قیام، قرآن کی تلاوت، رکوع، سجدہ اور قعدہ وغیرہ نماز کا جسم ہیں اور اس کی روح خشوع وخضوع ہے۔ چوں کہ جسم بغیر روح کے بے حیثیت ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ نمازوں کو اس طرح ادا کریں کہ جسم کے تمام اعضاء کی یکسوئی کے ساتھ دل کی یکسوئی بھی ہو، تاکہ ہماری نمازیں روح، یعنی خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں۔ دل کی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات ووساوس سے دل کو محفوظ رکھیں اور اللہ کی عظمت وجلال کا نقش اپنے دل پر بٹھانے کی کوشش کریں۔ جسم کے اعضا کی یکسوئی یہ ہے کہ اِدھر اُدھر نہ دیکھیں، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگیں، بلکہ خوف وخشیت اور عاجزی وفروتنی کی ایسی کیفیت طاری کریں جیسے عام طور پربادشاہ کے سامنے ہوتی ہے۔
قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں نماز کو خشوع وخضوع اور اطمینان وسکون کے ساتھ ادا کرنے کی بار بار تعلیم دی گئی ہے، کیوں کہ اصل نماز وہی ہے جو خشوع وخضوع اور اطمینان وسکون کے ساتھ ادا کی جائے اور ایسی ہی نماز پر اللہ تعالیٰ انسان کو دنیا اور آخرت کی کام یابی عطا فرماتے ہیں، جیسا کہ مندرجہ ذیل قرآن کریم کی آیات اور احادیث شریفہ سے معلوم ہوتا ہے۔
”یقینا وہ ایمان والے کام یاب ہوگئے جن کی نمازوں میں خشوع ہے۔ “ (سورہٴ الموٴمنون 1، 2)
”صبر اور نماز کے ذریعہ مدد حاصل کیا کرو۔ بے شک وہ نماز بہت دشوار ہے ،مگر جن کے دلوں میں خشوع ہے ان پر کچھ بھی دشوار نہیں۔“ ( البقرہ 45)
”تمام نمازوں کی خاص طور پر درمیان والی نماز (یعنی عصر کی) پابندی کیا کرو اور اللہ کے سامنے باادب کھڑے رہا کرو۔“ ( البقرہ 248)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب اقامت سنو تو پورے وقار، اطمینان اور سکون سے چل کر نماز کے لیے آؤ اور جلدی نہ کرو۔ جتنی نماز پالو پڑھ لو اور جو رہ جائے وہ بعد میں پوری کرلو۔“ (صحیح بخاری )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے۔ ایک اور صاحب بھی مسجد میں آئے اور نماز پڑھی، پھر (رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا:” جاؤ! نماز پڑھو کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔“ وہ گئے اور جیسے نماز پہلے پڑھی تھی ویسے ہی نماز پڑھ کر آئے، پھررسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو آکر سلام کیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ! نماز پڑھو، کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔“ اس طرح تین مرتبہ ہوا۔ اُن صاحب نے عرض کیا: اُس ذات کی قسم جس نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، آپ مجھے نماز سکھائیے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، پھرقرآن مجید میں سے جو کچھ پڑھ سکتے ہو پڑھو۔ پھر رکوع میں جاؤ تو اطمینان سے رکوع کرو، پھر رکوع سے کھڑے ہو تو اطمینان سے کھڑے ہو، پھر سجدہ میں جاؤ تو اطمینان سے سجدہ کرو، پھر سجدہ سے اٹھو تو اطمینان سے بیٹھو۔ یہ سب کام اپنی پوری نماز میں کرو۔ “ (صحیح بخاری)
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ”جو مسلمان بھی فرض نماز کا وقت آنے پر اس کے لیے اچھی طرح وضو کرتاہے، پھر خوب خشوع کے ساتھ نماز پڑھتا ہے جس میں رکوع بھی اچھی طرح کرتا ہے تو جب تک کوئی کبیرہ (بڑا) گناہ نہ کرے، یہ نماز اس کے لیے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے اور یہ فضیلت ہمیشہ کے لیے ہے۔ “ (صحیح مسلم)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرتاہے، پھر دو رکعت اس طرح پڑھتا ہے کہ دل نماز کی طرف متوجہ رہے اور اعضا میں بھی سکون ہو تو اس کے لیے یقینا جنت واجب ہوجاتی ہے۔“ (ابوداوٴد)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ بندہ کی طرف اس وقت تک توجہ فرماتے ہیں جب تک وہ نماز میں کسی اور طرف متوجہ نہ ہو۔ جب بندہ اپنی توجہ نماز سے ہٹالیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے اپنی توجہ ہٹالیتے ہیں۔“ (نسائی)
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بدترین چوری کرنے والا شخص وہ ہے جو نماز میں سے چوری کرے۔“ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! نماز میں کس طرح چوری کرے گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” اس کا رکوع اور سجدہ اچھی طرح سے ادا نہ کرنا“ ( غرض اطمینان و سکون کے بغیر نماز ادا کرنے کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بدترین چوری قرار دیا)۔ (مسند احمد، طبرانی)
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ”آدمی نماز سے فارغ ہوتا ہے اور اس کے لیے ثواب کا دسواں حصہ لکھا جاتا ہے، اسی طرح بعض کے لیے نواں حصہ، بعض کے لیے آٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھائی، تہائی، آدھا حصہ لکھا جاتا ہے۔“ (ابوداوٴد، نسائی، صحیح ابن حبان)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہا نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کی نماز کی طرف دیکھتے ہی نہیں جو رکوع اور سجدہ کے درمیان یعنی قومہ میں اپنی کمر کو سیدھا نہ کرے۔“ (مسند احمد)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھاجو رکوع اور سجدہ کو پوری طرح سے ادا نہیں کررہا تھا۔ جب وہ شخص نماز سے فارغ ہوگیا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اگر تو اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے مرگیا تو محمد صلی الله علیہ وسلم کے دین کے بغیر مرے گا۔ (بخاری)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور فرمانے لگے کہ میں تم لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ نماز میں گھوڑے کی دُم کی طرح اپنے ہاتھ اٹھاتے ہو۔ نماز میں سکون اختیار کرو۔ (مسلم)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے سات اعضا پر سجدہ کرنے کا حکم دیا اور نیز اس بات کا حکم فرمایا کہ نماز میں کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹیں۔ (بخاری، مسلم)
حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا کوّے کی طرح ٹھونگے مارنے سے (یعنی جلدی جلدی نماز پڑھنے سے) اور درندہ کی کھال بچھاکر نماز پڑھنے سے اور اس سے کہ کوئی شخص مسجد میں نماز کی کوئی خاص جگہ مقرر کرلے، جیسے کہ اونٹ (اپنے اصطبل) میں ایک خاص جگہ مقرر کرلیتاہے۔ (مسند احمد، ابوداوٴد، نسائی، ابن ماجہ، صحیح ابن حبان)
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جس چیز کا علم لوگوں سے اٹھا لیا جائے گا وہ خشوع کا علم ہے۔ عنقریب مسجد میں بہت سے لوگ آئیں گے، تم ان میں ایک شخص کو بھی خشوع والا نہ پاؤگے۔ (ترمذی)
نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کا طریقہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان بآواز ہوا خارج کرتا ہوا پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے، تاکہ اذان نہ سنے، پھر جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو وہ واپس آجاتا ہے۔ جب اقامت کہی جاتی ہے تو وہ پھر بھاگ جاتا ہے اور اقامت پوری ہونے کے بعد پھر واپس آجاتا ہے، تاکہ نمازی کے دل میں وسوسہ ڈالے۔ چناں چہ نمازی سے کہتا ہے یہ بات یاد کر اور یہ بات یاد کر۔ ایسی ایسی باتیں یاد دلاتا ہے جو باتیں نمازی کو نماز سے پہلے یاد نہ تھیں، یہاں تک کہ نمازی کو یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں ہوئیں۔“ (مسلم۔ باب فضل الاذان )
شیطان کی پہلی کوشش مسلمان کو نماز سے ہی دور رکھنا ہے، کیوں کہ نماز اللہ کی اطاعت کے تمام کاموں میں سب سے افضل عمل ہے۔ لیکن جب اللہ کا بندہ‘ شیطان کی تمام کوششوں کو ناکام بناکر اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب عمل نماز کو شروع کردیتا ہے تو پھر وہ نماز کی روح یعنی خشوع وخضوع سے محروم کرنے کی کوشش کرتا ہے، چناں چہ وہ نماز میں مختلف دنیاوی امور کو یاد دلاکر نماز کی روح سے غافل کرتا ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث میں وارد ہوا ہے۔ لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایسے اسباب اختیار کرے کہ جن سے نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں ۔
قرآن وحدیث کی روشنی میں نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کے چند اسباب ذکر کیے جارہے ہیں۔ اگر ان مذکورہ اسباب کو اختیار کیا جائے گا تو ان شاء اللہ شیاطین سے حفاظت رہے گی اور ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں گی۔
نماز شروع کرنے سے پہلے
1... جب مؤذن کی آواز کان میں پڑے تو دنیاوی مشاغل کو ترک کرکے اذان کے کلمات کا جواب دیں اور اذان کے اختتام پر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر درود پڑھ کر اذان کے بعد کی دعا پڑھیں۔
2... پیشاب وغیرہ کی ضروریات سے فارغ ہوجائیں، کیوں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”کھانے کی موجودگی میں(اگر واقعی بھوک لگی ہو) نماز نہ پڑھی جائے اور نہ ہی اس حالت میں جب پیشاب پائخانہ کا شدید تقاضہ ہو۔“ (صحیح مسلم)
3... بسم اللہ پڑھ کر سنت کے مطابق اس یقین کے ساتھ وضو کریں کہ ہر عضو سے آخری قطرے کے گرنے کے ساتھ اس عضو کے ذریعہ کیے جانے والے صغائر گناہ بھی معاف ہورہے ہیں اور وضو کی وجہ سے اعضا قیامت کے دن روشن اور چمک دار ہوں گے، جن سے تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم اپنی امت کے افراد کی شناخت فرمائیں گے۔
4... صاف ستھرہ لباس پہن لیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿یَا بَنِی آدَمَ خُذُوا زِینَتَکُم عِندَ کُلِّ مَسجِد﴾․ ”اے آدم کی اولاد! ہر نماز کے وقت ایسا لباس زیبِ تن کرلیا کرو جس میں ستر پوشی کے ساتھ زیبائش بھی ہو۔ “ (سورہٴ الاعراف 31) نیز نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تبارک وتعالیٰ خوب صورت ہے اور خوب صورتی کو پسند کرتا ہے۔ “ (مسلم)
﴿وضاحت﴾: تنگ لباس ہرگز استعمال نہ کریں، احادیث میں تنگ لباس پہننے سے منع فرمایا گیا ہے۔ نیز مرد حضرات پائجامہ یا کوئی دوسرا لباس ٹخنوں سے نیچے نہ پہنیں ، احادیث میں ٹخنوں سے نیچے پائجامہ وغیرہ پہننے والوں کے لیے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔
5... جو چیزیں نماز میں اللہ کی یاد سے غافل کریں، ان کو نماز سے قبل ہی دور کردیں۔
6... اپنی وسعت کے مطابق سخت سردی اور سخت گرمی سے بچاؤ کے اسباب اختیار کریں۔
7... شور وغل کی جگہ نماز پڑھنے سے حتی الامکان بچیں۔
8... مرد حضرات فرض نماز جماعت کے ساتھ مسجدوں میں اور مستورات گھر میں ادا کریں۔
9... صرف حلال روزی پر اکتفا کریں، اگرچہ بظاہر کم ہی کیوں نہ ہو۔
10... نماز میں خشوع وخضوع پیدا ہوجائے ، اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہیں۔
نماز شروع کرنے کے بعد
1... نہایت ادب واحترام کے ساتھ اپنی عاجزی وفروتنی اور اللہ جلّ شانہ کی بڑائی، عظمت اور علو شان کا اقرار کرتے ہوئے دونوں ہاتھ اٹھاکر زبان سے اللہ اکبر کہیں، دل سے یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ ہی بڑا ہے اور وہی جی لگانے کے لائق ہے، اس کے علاوہ ساری دنیا حقیر اور چھوٹی ہے اور دنیا سے بے تعلق ہوکر اپنی تمام تر توجہ صرف اسی ذات کی طرف کریں جس نے ہمیں ایک ناپاک قطرے سے پیدا فرماکر خوب صورت انسان بنادیا اور مرنے کے بعد اسی کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی اس دنیاوی زندگی کا حساب دینا ہے۔
2... ثنا، سورہٴ فاتحہ، سورہ، رکوع وسجدہ کی تسبیحات، جلسہ وقومہ کی دعائیں، التحیات، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر درود اور دعاؤں وغیرہ کو سمجھ کر اور غور وفکر کرتے ہوئے اطمینان کے ساتھ پڑھیں، اگر تدبر وتفکر نہیں کرسکتے تو کم از کم اتنا معلوم ہو کہ نماز کے کس رکن میں ہیں اور کیا پڑھ رہے ہیں۔
3... اس یقین کے ساتھ نماز پڑھیں کہ نماز میں اللہ جلّ شانہ سے مناجات ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت انس کی حدیث میں گزرا ۔ نیز دوسری حدیث میں ہے کہ سورہ ٴفاتحہ کی تلاوت کے دوران اللہ تبارک و تعالیٰ ہر آیت کے اختتام پر بندہ سے مخاطب ہوتا ہے۔
4... اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں، نیز بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگیں۔
5... سجدہ کے وقت یہ یقین ہو کہ میں اس وقت اللہ کے بہت زیادہ قریب ہوں، جیسا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ نماز کے دوران سجدہ کی حالت میں اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔“ (مسلم)
6... نماز کے تمام ارکان واعمال کو اطمینان اور سکون کے ساتھ ادا کریں۔
7... نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق نماز ادا کریں۔
8... نماز میں خشوع وخضوع کی کوشش کے باوجود اگر بلا ارادہ دھیان کسی اور طرف چلا جائے تو خیال آتے ہی فوراً نماز کی طرف توجہ کریں۔ اس طرح بلا ارادہ کسی طرف دھیان چلا جانا نماز میں نقصان دہ نہیں ہے (ان شاء اللہ) ، لیکن حتی الامکان کوشش کریں کہ نماز میں دھیان کسی اور طرف نہ جائے۔
وضاحت… نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے کے لیے کثرت سے اللہ کے ذکر کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے، اس لیے صبح وشام پابندی سے اللہ کا ذکر کرتے رہیں ،کیوں کہ ذکر شیطان کو دفع کرتا ہے اور اس کی قوت کو توڑتا ہے، نیز دل کو گناہوں کے زنگ سے صاف کرتا ہے۔
اہم گزارش: نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرنے اور نماز کی قبولیت کے لیے سب سے اہم اور بنیادی شرط اخلاص ہے کیوں کہ اعمال کی قبولیت کا انحصار نیت اور ارادہ پر ہوتا ہے، جیسا کہ بخاری شریف کی پہلی حدیث میں ہے: ”اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے، ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی…“ لہٰذا نماز کی ادائیگی سے، خواہ فرض ہو یا نفل، صرف اللہ جل شانہ کی رضامندی مطلوب ہو۔ دوسروں کو دکھانے کے لیے نماز نہ پڑھیں، کیوں کہ دوسروں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھنے کو احادیث میں فتنہٴ دجال سے بھی بڑا فتنہ اور شرک قرار دیا گیا ہے۔
٭... حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ہم لوگ مسیح دجال کا ذکر کررہے تھے، اتنے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں دجال کے فتنے سے زیادہ خطرناک بات سے آگاہ نہ کردوں؟ ہم نے عرض کیا : ضرور۔ یا رسول اللہ! آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”شرکِ خفی‘ دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نماز کے لیے کھڑا ہو اور نماز کو اس لیے لمبا کرے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے۔“ (ابن ماجہ۔ باب الریاء والسمعة)
٭... حضرت شداد بن اوس فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:” جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا۔“ (مسند احمد ۔ج 4، ص125)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنے والا بنائے۔ آمین ثم آمین۔
ہماری نمازیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟
الله تبارک وتعالیٰ نے سورہٴ بقرہ کے شروع میں اہلِ تقوی کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ نمازوں کو قائم کرتے ہیں:﴿ الذین یقیمون الصلوٰة﴾ ” وہ لوگ نمازوں کو قائم کرتے ہیں“۔
”اقامت صلوٰة“ کے معنی صرف نماز پڑھنے کے نہیں ، بلکہ اسے اس کے تمام فرائض وواجبات اور سنن ومستحبات کی رعایت کرتے ہوئے ادا کرنے کا نام ”اقامت“ ہے ۔ ( روح المعانی:156/1)
دوسری جگہ الله رب العزت نے جن اہل ایمان کے لیے ابدی کامیابی کا اعلان فرمایا ہے، ان کی ایک اہم صفت یہ بھی ذکر کی ہے کہ وہ لوگ اپنی نمازوں کے اندر خشوع وخضوع اختیار کرتے ہیں۔
چناں چہ ارشاد پاک ہے : ﴿ قد أفلح المؤمنون الذین ھم فی صلاتھم خٰشعون﴾․
”تحقیق اہل ایمان کامیاب ہو گئے ،جو کہ اپنی نمازوں کے اندر خشوع اختیار کرنے والے ہیں۔“
خشوع کا لفظی معنی ہے سکون ، مراد یہ ہے کہ دل میں بھی سکون ہو (یعنی غیر الله کے خیال سے اپنے دل کو پاک رکھے اور اس کی طرف اپنے ارادہ اور قصد سے توجہ نہ دے) اور بدن کے ظاہری اعضا بھی پر سکون ہوں کہ بے فائدہ اور فضول حرکتیں نہ کرے۔ ( بیان القرآن:533/2)
علماء فرماتے ہیں کہ سنن ومستحبات کی رعایت اور مکروہات وممنوعات سے اجتناب بھی خشوع میں داخل ہے۔ (کشاف)
نماز کے اندر خشوع فرض ہے یا نہیں؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے ۔ خاتمة المحققین علامہ ابو الفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ ” ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ نماز کے اندر خشوع فرض تو نہیں کہ اس کے بغیر نماز ہی نہ ہو ۔ البتہ یہ بات ضروری ہے کہ نماز کی قبولیت کے لیے شرط ہے کہ اس کے بغیر نماز کو قبولیت کا شرف حاصل نہیں ہوتا۔ ( روح المعانی:181/18)
آج ہماری نمازوں کا کیا حال ہے اس سے ہم بخوبی واقف ہیں ۔ ہماری غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ ہے کہ ہم نما زمیں بہت سی ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں کہ بعض دفعہ تو ان غلطیوں سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ۔ اور بعض مرتبہ فاسد تو نہیں ہوتی، تاہم قبولیت کے درجے سے نکل کر ناقص ہونے کی وجہ سے منھ پر مار دی جاتی ہے۔
حضرت انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” جو شخص نمازوں کو اپنے وقت پر پڑھے۔ وضو بھی اچھی طرح کرے ۔ خشوع وخضوع سے بھی پڑھے۔ کھڑا بھی پورے وقار سے ہو ۔ پھر اسی طرح رکوع سجدہ بھی اچھی طرح اطمینان سے کرے تو وہ نماز نہایت روشن چمک دار بن کر جاتی ہے او رنمازی کو دعا دیتی ہے کہ الله تعالیٰ شانہ تیری بھی ایسی ہی حفاظت کرے جیسی تونے میری حفاظت کی اور جو شخص (نماز کو بُری طرح پڑھے) وقت کو بھی ٹال دے ۔ وضو بھی اچھی طرح نہ کرے۔ خشوع میں بھی کمی ہو رکوع سجدہ بھی اطمینان سے اچھی طرح ادا نہ کرے تو وہ نماز بُری صورت سے سیاہ رنگ میں بد دعا دیتی ہوئی جاتی ہے کہ الله تعالیٰ تجھے بھی ایساہی برباد کرے جیسا تونے مجھے ضائع کیا۔ اس کے بعد وہ نماز پرانے کپڑے کی طرح سے لپیٹ کر نمازی کے منھ پر مار دی جاتی ہے ۔“ (طبرانی)
کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اچھے طریقے سے وضو کرکے، نماز کو بہتر طور پر، اس کے سنن ومستحبات کی رعایت کرتے ہوئے ادا فرماتے ہیں کہ الله کی اہم ترین عبادت اس کے لیے دعا کرتی ہے او رحق تعالیٰ شانہ کی بارگاہ میں اس کی سفارشی بنتی ہے !!
لیکن ایسے با نصیب لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔ عام طور پر ہماری نماز خشوع سے یکسر خالی ایک رسمی کارروائی بن چکی ہے ۔ بچپن سے نماز کو رٹ لیتے ہیں، پھر اس کے فرائض وواجبات اور سنن ومستحبات کا بھی علم ہو جاتا ہے ۔ لیکن عملی طور پر ان کی ادائیگی کی زحمت نہیں کرتے اور یوں ہی تہی دامن رہ کر اپنی نمازوں کو دریا بُرد کرتے رہتے ہیں۔
جب آدمی اپنا وقت خرچ کرے، کاروبار چھوڑے ، مشقت برداشت کرے تو اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ اسے زیادہ سے زیادہ وزنی اور قیمتی بنائے، نہ کہ اسے ثواب کے بجائے وبال کا سامنا کرنا پڑے۔
ہمارا فرض بنتا ہے کہ جیسے ہم نے نماز کے الفاظ زبانی یاد کیے اور سیکھے ہیں تو اسی طرح نماز کے صحیح اور مسنون طریقے کو بھی کسی مستند عالم اور معتبر مفتی سے عملی طور پر سیکھیں۔ بلکہ دینی اداروں میں وضو ونماز کے مسائل سے متعلق باقاعدہ عملی مشق کا اہتمام ہونا چاہیے، تاکہ نماز جیسی اہم عبادت صحیح طور پر ادا ہو۔
ورنہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہم تو بزعمِ خویش اپنی نمازوں کو درست سمجھتے ہیں اور اسی میں عمر کا ایک طویل حصہ گزار لیتے ہیں ۔ لیکن در حقیقت وہ نمازیں بے جان او رروح سے خالی ہوتی ہیں اور ثواب کے بجائے عقاب کا سبب بنتی ہیں ۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمہ الله نے اپنے مکاتیب میں نماز کے اہتمام پر بہت زور دیا ہے او رمعمولی معمولی آداب کی رعایت کو بھی ضروری قراردیا ہے کہ وہ بھی حکمت اور فائدہ سے خالی نہیں ۔ مثلاً سجدہ میں انگلیاں ملانا اور رکوع میں علیٰحدہ رکھنا وغیرہ۔
ہمارا دین دار طبقہ ہو یا گنوار، سمجھ دار، ہو یا جہل دار بہت سی ایسی کوتاہیوں میں مبتلا ہے جو نماز کی رونق وزینت کو گٹھا دیتی ہیں ۔ پھر طرفہ یہ ہے کہ اسے ان لغزشوں کا احساس بھی نہیں کہ ان سے بچنے کی کوشش کرے۔
وضو اور غسل میں کوتاہیاں
ہماری کوتاہیوں کی فہرست تو کافی طویل ہے، لیکن یہاں یاد دہانی کے طور پر چند ایسی غلطیوں کی نشان دہی کر دی جاتی ہے، جن کی طرف عام طور پر نمازی کا ذہن نہیں جاتا اور یوں کبھی تو وہ اپنی نمازوں پر ملنے والے اجر کو ضائع کر دیتا ہے او رکبھی ثواب میں حد درجہ کمی لے آتا ہے ۔ پھر چوں کہ نماز کی قبولیت کے لیے مسنون وضو کرنا بھی ضروری ہے، جیسا کہ مذکورہ بالااحادیث سے معلوم ہوا ، اس لیے پہلے وضو سے متعلق چند لاپرواہیوں کا تذکرہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔
وضو کرتے وقت شروع میں بسم الله نہیں پڑھی جاتی، حالاں کہ بسم الله پڑھنا سنت یا مستحب ہے۔
دونوں ہاتھوں کو گٹوں تک تین مرتبہ دھونا مسنون ہے ، لیکن پانی کی ٹونٹی سے وضو کرتے ہوئے اس کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوتے ہوئے استیعاب ( یعنی پورے عضو پر پانی بہانا) بھی سنت ہے ۔ لیکن ہم یہ کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ تو پورے عضو پر پانی بہا دیتے ہیں اور پھر دوبارہ چلو میں پانی لے کر تین بار ہاتھوں پر اچھالنا کافی سمجھتے ہیں ۔ دوسری اور تیسری مرتبہ استیعاب کا خیال نہیں ہوتا ۔
چوتھائی سر کا مسح کرنا فرض جب کہ پورے سر کا مسح کرنا سنت ہے ، لیکن اس سنت کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا اور فرض پر ہی عمل کو کافی سمجھا جاتا ہے ۔
عوام گردن کے مسح کے ساتھ گلے کو بھی شریک کر لیتے ہیں ، حالاں کہ گلے کا مسح کرنا بدعت اور ناجائز ہے ۔
گردن پر مسح کے بعد کئی لوگ انگلیوں کے خلال کے ساتھ ساتھ کہنیوں کا مسح بھی کرتے ہیں ، جب کہ یہ ایک غیر ثابت فعل اور غلط حرکت ہے۔
پاؤں کو دھوتے ہوئے بھی تین مرتبہ دھونے کا لحاظ نہیں کرتے، حالاں کہ تین مرتبہ دھونا سنت ہے اور اگر تین مرتبہ دھوئیں بھی تو استیعاب (پورے عضو پر پانی بہانے) کی طرف دھیان نہیں جاتا۔
ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کا خلال کرنا بھی سنت مؤکدہ ہے، لیکن عام طو رپراس کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔
اسی طرح غسل کرتے وقت اس کے مسنون طریقے کا خیال نہیں رکھا جاتا ، بلکہ کیف مااتفق غسل کر لیا جاتا ہے اور بعض مرتبہ تو فرض کے چھوٹ جانے پر غسل بھی نہیں ہوتا اور آدمی ناپاک ہی رہتا ہے ۔ مثلاً غسل سے پہلے وضو عموماً نہیں کیا جاتا، ناف ، بغل وغیرہ کا کچھ حصہ بعض مرتبہ جلدی میں غسل کرنے کی وجہ سے خشک رہ جاتا ہے ۔
نماز میں کوتاہیاں
یہ وضو وغسل سے متعلق بات ہوئی، اسی طرح نماز پڑھنے کے دوران بھی ہم بہت سی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں، مثلاً:
*… ”نیت“ دل کے ارادہ کا نام ہے ، زبان سے الفاظ کہنا ضروری نہیں ، البتہ اگر کوئی وساوس کی کثرت او رخیالات کے غلبہ کا شکار ہونے کی وجہ سے زبان سے نیت کرتا ہے تو یہ بہتر ہے ، لیکن صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ میں ظہر یا عصر کے فرض پڑھتا ہوں ، یا سنت یا وتر پڑھتا ہوں اور اگر امام کے پیچھے ہو تو یہ اضافہ کر دے کہ امام کے ساتھ ظہر یا عصر کے فرض پڑھتا ہوں ۔
اتنی لمبی چوڑی نیت کرنا کہ امام قرأ ت شروع کر دے اور یہ صاحب نیت کا اظہار ہی کرتے رہیں مناسب نہیں ۔ مختصر الفاظ کافی ہیں۔
پھر بعض مرتبہ یہ ہوتا ہے کہ عربی میں نیت کے الفاظ یاد کیے ہوتے ہیں، انہیں دھرانا شروع کر دیتے ہیں، جب کہ ان کے معنی کا کچھ علم نہیں ہوتا یہ بھی درست با ت نہیں۔
*… بعض غیر محتاط ائمہ حضرات ” الله اکبر“ کو بہت کھینچ کر پڑھتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض مقتدی امام سے پہلے تکبیر تحریمہ ختم کر دیتے ہیں تو یہ بھی صحیح نہیں ،کیوں کہ امام سے پہلے تکبیر تحریمہ کہنے سے نماز نہیں ہوتی۔
*… بعض دوستوں نے بچپن میں جورٹا ہوتا ہے اسے ہی پڑھتے رہتے ہیں، مثلا ثناء، تعوذ او رتسمیہ پڑھتے ہوئے لفظ ثناء ، تعوذ اور تسمیہ بھی کہہ دیتے ہیں ،حالاں کہ وہ تو آنے والی عبارتوں کے نام ہیں، انہیں پڑھنا درست نہیں ۔
*… سورہٴ فاتحہ کے شروع میں ہر رکعت میں امام اور منفرد کے لیے ”بسم الله الرحمن الرحیم“ پڑھنا سنت ہے او ربعض حضرات نے واجب بھی کہا ہے لیکن اس سے غفلت برتی جاتی ہے ، البتہ مقتدی نہیں پڑھے گا۔
*…مقتدی کا امام کے پیچھے قرأ ت کرنا مکروہ تحریمی ہے ، خواہ امام آہستہ آواز میں قرأت کر رہا ہوں یا بلند آواز سے ( یعنی سری نماز ہو یا جہری) بعض حضرات سری نمازوں میں امام کے پیچھے تلاوت کرتے رہتے ہیں ،یہ درست نہیں۔
*… سورہٴ فاتحہ کے بعد کوئی سورت شروع کرنے سے پہلے بھی ”بسم الله الرحمن الرحیم“ پڑھنا مستحب ہے، لیکن اس کی رعایت بہت کم لوگ کرتے ہیں ۔
*… اکثر حضرات بہت جھک کر رکوع کرتے ہیں او رہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھ دیتے ہیں، انگلیوں سے پکڑتے نہیں ، جب کہ مسنون طریقہ یہ ہے کہ انگلیاں کھول کر گھٹنوں کو پکڑ لیا جائے ، کمر بالکل سیدھی ہو اور پنڈلیوں میں خم نہ ہو۔
*… سجدہ کی طرف جاتے ہوئے کمر بالکل سیدھی رکھنی چاہیے، گھٹنے زمین پر رکھنے سے پہلے کمر میں خم نہ آنے پائے ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ سجدہ میں جاتے ہوئے گھٹنوں پر ہاتھ نہ رکھے ۔ عام طور پرجھک کر سجدہ میں جاتے ہیں، جس سے تکرار رکوع کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے ۔
*… یہ بات بھی علم میں ہونی چاہیے کہ قرأت کے سوا نماز کے تمام وظائف، تسبیحات، تشہد ودرود شریف وغیرہ انشاءً پڑھے جاتے ہیں کہ بندہ ان الفاظ کے ذریعہ سے مخاطب ہوتا ہے ۔ البتہ قرأت حکایةً ہوتی ہے کہ بندہ اس کی تلاوت کرتا ہے او راپنے رب کا کلام دہرارہا ہوتا ہے ، اس سے وہ کسی سے مخاطب نہیں ہوتا۔ تاہم سورہٴ فاتحہ میں انشاء بھی ملحوظ ہوتا ہے۔
نوٹ: تشہد میں ” السلام علیک أیھا النبی“ میں بھی انشاءً آ پ صلی الله علیہ وسلم سے خطاب ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خطاب کے وقت آپ صلی الله علیہ وسلم نمازی کے پاس موجود ہوتے ہیں ، بلکہ یہ خطاب خط کے خطاب کی طرح ہے کہ ہم خط میں ” السلام علیکم“ لکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مُرسل الیہ وہاں موجود ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہوتا ہے کہ جب خط اس تک پہنچے گا تو خطاب ہو جائے گا۔ تو اسی طرح جب یہ سلام فرشتوں کے ذریعے آپ علیہ السلام تک پہنچے گا تو خطاب ہو جائے گا۔
*…سجدہ میں دونوں پاؤں کی انگلیاں قبلہ رُخ رکھنا سنت مؤکدہ ہے ،اس کے خلاف مکروہ ہے ، اس سے غفلت کی انتہا ہے ، بچپن سے چوں کہ اس کی طرف توجہ نہیں کی جاتی ۔ اس لیے بعد میں عادت نہ ہونے کی وجہ سے انگلیوں کا قبلہ رُخ کرنا انتہائی مشکل معلوم ہوتا ہے۔
*… سجدہ میں ساری انگلیاں بمعہ انگوٹھا بند اور قبلہ رخ ہونا مسنون ہے، اس کی طرف بھی عموماً توجہ نہیں ہوتی ۔ اگر انگلیاں بند بھی ہوں تو انگوٹھے جدا رہتے ہیں۔
*… تشہد کی حالت میں بھی دائیں پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ کرنا مسنون ہے، بلکہ بائیں پاؤں کی انگلیاں بھی بقدر استطاعت قبلہ رُخ رکھنا چاہئیں۔
*… تشہد میں اشارہ کرتے وقت بعض دوست تو حلقہ نہیں بناتے اور بعض حلقہ تو بناتے ہیں، مگر اشارہ کے بعد انگلی کو گرا دیتے ہیں ، جب کہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ انگلی او رانگوٹھے کے سروں کو ملا کر حلقہ بنایا جائے، پھر اشارہ کیا جائے اور اس کی بعد انگشتِ شہادت کو بالکل گرانا نہیں چاہیے ۔ بلکہ قدرے جھکا دینا چاہیے۔
*… سلام پھیرتے ہوئے کئی حضرات سامنے نظر رکھتے ہیں، جب کہ مستحب یہ ہے کہ نظر کندھوں پر ہو۔
*… امام سلام پھیر دے اور مقتدی نے تشہد نہ پڑھا ہو تو مقتدی پر تشہد پورا کرنا اور درود چھوڑ کر امام کی اتباع کرنا واجب ہے ، تشہد کو چھوڑنا مکروہ تحریمی ہے ۔ درود نہ پڑھے۔
اسی طرح تشہد پڑھ لیا ہو تو درود میں مشغول ہوکر سلام میں تاخیر کرنا یا رکوع وسجدہ کی تسبیحات پوری کرنے کے لیے امام سے پیچھے رہنا مکروہ تحریمی ہے، اکثراس کا خیال نہیں رکھاجاتا اور امام رکوع وسجدہ سے اٹھ جاتا ہے، لیکن لوگ تسبیح کی مقدار پوری کرنے کے لیے سجدہ ورکوع میں رہتے ہیں۔
*…امام مقتدی کے تشہد پڑھنے سے قبل کھڑا ہو جائے تو مقتدی تشہد پورا کرکے اٹھے، تشہد ناقص چھوڑ کرامام کی اتباع میں کھڑا ہونا درست نہیں۔
*… چار رکعت سنت غیر مؤکدہ یا نفل میں دور کعت پر درود شریف اور دعا پڑھنا اور تیسری رکعت کے شروع میں ثناء پڑھنا افضل ہے ۔ سنت مؤکدہ میں دو رکعت پر درود شریف نہ پڑھے۔ اگر سہواً پڑھ لیا تو سجدہٴ سہو واجب ہو گا۔ اس کی طرف بھی بیشتر ذہن نہیں جاتا۔
*…مسبوق امام کے قعدہ اخیرہ میں درود شریف اور دعا نہ پڑھے، بلکہ بہتر یہ ہے کہ تشہد ٹھہر ٹھہر کر پڑھے، تاکہ امام کے سلام کے ساتھ تشہد سے فراغت ہو او راگر تشہد جلدی ختم کر لے تو اس کے بعد خاموش رہے یا کلمہٴ شہادت یا تشہد کا تکرار کرتا رہے ۔ جب کہ ہمارا یہ حال ہے کہ تشہد کے ساتھ ساتھ درود اور دعا پڑھ کر ہی دم لیتے ہیں ۔
*… مسبوق کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد اتنی تاخیر سے اٹھے کہ امام کے ذمے سجدہٴ سہو نہ ہونا معلوم ہو جائے ۔ جب کہ یہاں صورت حال یہ ہے کہ امام نے ایک سلام پھیرا نہیں ہوتا کہ سب کھڑے ہو جاتے ہیں ۔
*… سجدہ میں جاتے ہوئے اکثر کپڑا سمیٹ لیتے ہیں، جب کہ یہ مکروہ تحریمی ہے۔
*… مسبوق امام کے ساتھ سجدہٴ سہو کرتے وقت سلام نہ پھیرے، بلکہ بغیر سلام کے سجدہ کرے۔ اگر مسبوق نے جَہلاً ( یعنی مسئلہ کی جہالت کی وجہ سے ) سلام پھیر دیا، حالاں کہ اسے اپنا مسبوق ہونا یاد تھا کہ میرے ذمہ کچھ رکعتیں باقی ہیں تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی ۔
البتہ اگر سہواً ( یعنی بھول کر) سلام پھیرا کہ اُسے اپنا مسبوق ہو نا یاد نہ تھا ،وہ یہ سمجھا کہ میرے ذمہ کوئی رکعت نہیں تو نماز فاسد نہ ہو گی۔
جہل اور سہو کا فرق خوب ذہن نشین کر لینا چاہیے، اکثر جہل کی وجہ سے سلام پھیر کر نماز کو فاسد کر دیتے ہیں او رانہیں علم بھی نہیں ہوتا۔
*… مسبوق نے امام کی نماز ختم ہونے پر بھول کر سلام پھیر دیاتو اگر امام کے لفظ سلام کی میم کے ساتھ مسبوق نے بھی سلام کی میم کہہ لی تو اس پر سجدہٴ سہو نہیں۔ اس سے تاخیر ہو گئی تو سجدہٴ سہو واجب ہے ۔ عموماً مقتدی کا سلام امام کے سلام کے بعد ہوتا ہے، اس لیے سجدہٴ سہو لازم ہے ، یہاں بھی ہماری جہالت آڑے آتی ہے اور سجدہٴ سہو لازم ہونے کے باوجود سجدہ نہیں کرتے اور یوں اپنی نمازیں غارت کرتے رہتے ہیں۔
*… مسبوق سے اگر بقیہ رکعتیں ادا کرتے ہوئے کوئی غلطی ہو جائے جس سے سجدہٴ سہو کرنا پڑتا ہے تو اس پر سجدہ سہو کرنا لازم ہے ، اس مسئلہ سے ناواقفی بھی نماز کو ناقص کر دیتی ہے۔
*… ہماری عادت بن چکی ہے کہ نماز میں کھجلائے بغیر مزہ نہیں آتا، جب کہ بلا ضرورت ایک بار بھی کھجلانا مکروہ تحریمی ہے او راگر ایسی ضرورت پیش آجائے کہ کھجلائے بغیر یکسوئی نہ ہوتو ایک دوبار کھجلانا بغیر کراہت کے جائز ہے ۔ اور بیالیس حروف مقروہٴ کے بقدر وقت میں تین بار بضرورت کھجلانا بھی نماز کوفاسد کر دیتا ہے، جب کہ ہرمرتبہ کھجلانے کے لیے ہاتھ اٹھایا جائے۔
*… عورتیں گھروں میں رہنے کی وجہ سے مسائل نماز سے نابلد ہوتی ہیں ۔ مردوں پر لازم ہے کہ وہ عورتوں کو نماز کا صحیح مسنون طریقہ سکھا کر انہیں اس کی تعلیم دیں اور ان سے اس کی علمی مشق کروائیں۔
یہ تو وہ چند اہم کوتاہیاں تھیں جو ہمارے روزمرہ کے معمول میں داخل ہو چکی ہیں او ران کی درستگی کی طرف ہماری توجہ مبذول نہیں ہوتی۔
بیشک نماز ایک بڑی دولت ہے ، قربِ خدا وندی کا ذریعہ ہے ، مومن کا نور ہے او رجنت کی کنجی ہے ، بے حیائی کے کاموں او ربری باتوں سے روکتی ہے، لیکن اس وقت جب کہ اسے اس کی تمام شرائط وآداب کا لحاظ کرتے ہوئے بجالایا جائے، ورنہ تو حدیث میں آتا ہے کہ آدمی ساٹھ برس تک نماز پڑھتا ہے ،مگر ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی کہ کبھی رکوع اچھی طرح کرتا ہے تو سجدہ پورا نہیں کرتا، سجدہ کرتا ہے تو رکوع پورا نہیں کرتا۔
امام ربانی مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ نماز میں کھڑے ہونے کی حالت میں سجدہ کی جگہ نگاہ جمائے رکھنا اوررکوع کی حالت میں ہاتھوں پر نگاہ رکھنا نماز میں خشوع پیدا کرتا ہے اور اس سے نماز میں دلجمعی نصیب ہوتی ہے۔
جب ایسے معمولی معمولی آداب بھی اس قدر فائدے اپنے اندر رکھتے ہیں تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ بڑے آداب اور سنتوں کی رعایت ہمیں کس قدر فائدہ بخشے گی۔
صوفیہ کرام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ نماز حقیقت میں الله جل شانہ کے ساتھ مناجات کرنا اور ہم کلام ہونا ہے، جو غفلت کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتا۔ تو غفلت کے ساتھ پڑھی ہوئی نمازوں کی طرف الله پاک کیسے توجہ فرمائیں گے؟!
حق تعالیٰ شانہ سے دعا ہے کہ ہمیں نمازوں کو صحیح طور پر سیکھ کر پڑھنے کی توفیق عطافرمائے او رانہیں اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین.
No comments:
Post a Comment