اللہ پاک وبلند كى تعريفات ہيں، اور نبی الملاحم وخاتم الانبیاء محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى پاكباز، بخشش یافتہ اور رضا یافتہ آل و اصحاب پر درود و سلام كے بعد:
اس اللہ سبحانہ و تعالى كى تعريف ہے جس كا فرمان ہے:
{ اور تيرا پروردگار جو چاہتا ہے پيدا كرتا اور اختيار كرتا ہے }.
[سورۃ آل عمران:47]
يہاں اختيار كا معنى چن لينا ہے، جو كہ اللہ سبحانہ و تعالى كى وحدانيت و ربوبيت اور اس كى كمال حكمت و علم اور قدرت پر دلالت كرتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كے چن لينے اور افضليت دينے ميں يہ شامل ہے كہ اللہ تعالى نے بعض ايام اورمہينوں كو بھى چن ليا اور انہيں فضيلت دى ہے، مہينوں ميں سے اللہ سبحانہ و تعالى نے چار مہينوں كو حرمت والا مہينہ بنايا اور اختيار كيا ہے.
اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{ اللہ سبحانہ و تعالى كے ہاں كتاب اللہ ميں مہينوں كى گنتى بارہ ہے، اسى دن سے جب سے آسمان و زمين كو اس نے پيدا كيا ہے، ان ميں سےچار حرمت و ادب والے مہينے ہيں، يہى درست دين ہے، تم ان مہينوں ميں اپنى جانوں پرظلم نہ كرو }.
[سورۃ التوبۃ:36]
اور يہ مہينے چاند كے طلوع ہونے كى اعتبار سے ہيں كہ سورج كے يعنى قمرى ہيں شمسى نہيں، جيسا كہ كفار نے كيا ہوا ہے.
اس آيت ميں حرمت والے مہينے مبہم بيان ہوئے ہيں اور ان كے نام كى تحديد نہيں كى گئى، ليكن ان مہينوں كے نام سنت نبويہ ميں محدد كيے گئے ہيں.
ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حجۃ الوداع كے موقع پر خطاب فرمايا اور اپنے خطبہ ميں ارشاد فرمايا:
" يقينا وقت اسى دار چل رہا ہے جس حالت ميں آسمان و زمين پيدا كرنے كے دن تھا، سال ميں بارہ ماہ ہيں، جن ميں سے چار ماہ حرمت و ادب والے ہيں، تين تو مسلسل ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہيں، اور ايك جمادى اور شعبان كے مابين رجب مضر كا مہينہ ہے "
[صحيح بخارى كتاب الحج باب الخطجبۃ ايام منى حديث نمبر ( 1741 ) صحيح مسلم كتاب القسامۃ باب تحريم الدماء حديث نمبر ( 1679 ).]
اسے رجب مضر كا نام اس ليے ديا گيا ہے كہ مضر قبيلہ كے لوگ اس ماہ كو تبديل نہيں كيا كرتے تھے، بلكہ اسے اسى كے وقت ميں ہى رہنے ديتے، ليكن باقى عرب لوگ حرمت والے مہينوں كو اپنى مرضى اور جنگ كى حالت كى بنا پر تبديل كر ليا كرتے تھے، اور درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں اسے نسئي كے نام سے ذكر كيا گيا ہے:
فرمان بارى تعالى ہے:
{ نہيں سوائے اس بات كہ كہ مہينوں كو آگے پيچھے كرنا تو كفر كى زيادتى ہے، اس سے وہ لوگ گمراہى ميں ڈالے جاتے ہيں جو كافر ہيں، ايك سال تو اسے حلال كر ليتے ہيں، اور ايك اسى كو حرمت والا قرار دے دے ديتے ہيں، كہ اللہ تعالى نے جو حرمت كر ركھى ہے اس كى گنتى ميں موافقت كر ليں }.
[سورۃ التوبۃ:37]
اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: اس ماہ كى مضر كى طرف نسبت اس ليے نسبت كى گئى كہ وہ اس ماہ كى حرمت و تعظيم زيادہ كرتے تھے، اس ليے يہ ماہ ان كى طرف منسوب كر ديا گيا.
اس ماہ كى وجہ تسميہ:
ابن فارس رحمہ اللہ نے " مقاييس اللغۃ ( 445 ) " ميں كہا ہے كہ:
رجب: راء اور جيم اور باء اس ميں كسى چيز كى مدد اور اس كى تقويت پر دلالت كرتے ہيں، اور يہ بھى اسى قبيل سے ہے رجبت الشئ يعنى اس كى تعظيم كى.... تو اسے رجب اس ليے كہا گيا كہ وہ اس كى تعظيم كرتے تھے، اور شريعت اسلاميہ نے بھى اس كى تعظيم كى " ا ھـ
اہلِ جاہليت اس ماہ كو منصل الاسنۃ كا نام ديتے يعنى اس ميں اسلحہ كو ركھ ديا جاتا اور لڑائى نہيں ہوتى تھى، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
ابو رجاء العطاردى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
ہم پتھروں كى عبادت كيا كرتے تھے، اور جب ہميں كوئى اس سے بہتر اور اچھا پتھر مل جاتا تو پہلے كو پھينك كر دوسرا لے ليتے، اور جب ہميں كوئى پتھر نہ ملتا تو ہم مٹى كى ڈھيرى بناتے اور بكرى لا كر اس كا دودھ اس ڈھيرى پر دھوتے اور پھر اس ڈھيرى كا طواف شروع كر ديتے.
اور جب ماہِ رجب شروع ہوتا تو ہم كہتے: اسلحہ سے لوہا كھينچ لو، اس ليے جو تير بھى ہوتا اس كا لوہا اتار ليا جاتا اور رجب كے مہينہ ميں نيزے سے بھى اتار كر ركھ ديا جاتا " اسے امام بخارىؒ نے صحيح بخارى ميں روايت (نمبر:4376) كيا ہے.
امام بيہقى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اہلِ جاہليت ان حرمت والے مہينوں كى تعظيم كيا كرتے تھے، اور خاص كر رجب كى تعيظيم زيادہ ہوتى، كيونكہ وہ اس ميں لڑائی نہيں كرتے تھے " اھـ
ـ ماہ رجب حرمت و ادب والا مہينہ ہے:
جن مہينوں كو حرمت كا مقام حاصل ہے، ان ميں ماہ رجب بھى ہے، كيونكہ حرمت والے مہينوں ميں رجب كا مہينہ بھى شامل ہے ، اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اے ايمان والو! تم اللہ کے شعائر كى بےحرمتى نہ كرو، اور یہ حرمت والے مہينوں كى }.
[سورۃ المائدۃ:2]
يعنى تم اللہ تعالى كى ان حرمتوں كو پامال مت كرو جس كى حرمت و تعظيم كرنے كا اللہ نے حكم ديا ہے، اور حرمت پامال كرنے سے منع كيا ہے، لہذا يہ ممانعت و نہى قبيح فعل سرانجام دينے، اور اس اعتقاد ركھنے كو بھى شامل ہوگى.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ چنانچہ تم ان ميں اپنے آپ پر ظلم مت كرو }.
[سورۃ التوبہ:36]
يعنى ان حرمت والے مہينوں ميں، اس آيت ميں ضمير ان حرمت والے چار مہينوں كى طرف لوٹتى ہے، ابن جرير طبرى رحمہ اللہ كا يہى كہنا ہے.
اس ليے ان مہينوں ميں ان كے مقام و مرتبہ اور حرمت كى قدر كرتے ہوئے معاصى و گناہ سے اجتناب كرنا چاہيے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس وقت كو حرمت عطا كى ہے، اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے سابقہ آيت ميں اپنے اوپر ظلم كرنے سے منع فرمايا ہے، حالانكہ ـ اپنے آپ پر ظلم كرنا اور گناہ و معاصى تو ـ سب مہينوں ميں حرام ہيں.
ـ حرمت والے مہينوں ميں لڑائى كرنا حرام ہے:
اللہ سبحانہ و تعالى كا ارشاد ہے:
{ آپ سے حرمت والے مہينوں ميں لڑائى كے متعلق پوچھتے ہيں، آپ فرما ديئجے كہ اس ميں لڑائى كرنا كبيرہ گناہ ہے }.
[سورۃ البقرۃ:225]
جمہور علماء كرام يہ كہتے ہيں كہ حرمت والے مہينوں ميں لڑائى كرنا درج ذيل فرمان بارى تعالى كے ساتھ منسوخ ہے:
{اور جب حرمت والے مہينے گزر جائيں تو مشركوں كو جہاں بھى پاؤ انہيں قتل كرو}.
اس كے علاوہ دوسرے عمومى دلائل بھى جن ميں مشركوں كو عموما قتل كرنے كا حكم ديا گيا ہے.
اور انہوں نے اس سے بھى استدلال كيا ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اہل طائف كے ساتھ ذوالقعدہ ميں جنگ كى تھى اور ذوالقعدہ حرمت والے مہينوں ميں شامل ہے.
ليكن دوسرے علماء كہتے ہيں كہ: حرمت والے مہينوں ميں لڑائى كى خود ابتدا كرنى جائز نہيں، ليكن اگر وہ شروع كريں يا پھر پہلے سے ہو رہى ہو تو اس كى تكميل كرنى جائز ہے، اور انہوں نے اہل طائف سے لڑائى كو اسى پر محمول كيا ہے كہ حنين ميں لڑائى كى ابتدا تو شوال كے آخر ميں شروع ہوئى تھى.
يہ سب كچھ تو اس لڑائى كے متعلق ہے جو دفاعى نہيں يعنى جس ميں دفاع مقصود نہ ہو، اس ليے جب دشمن مسلمانوں كے ملك پر حملہ آور ہو تو اس علاقے كے لوگوں پر دفاع كرنا واجب ہے چاہے حرمت والے مہينہ ميں ہو يا كسى دوسرے مہينہ ميں.
العتيرۃ:
دور جاہليت ميں عرب اپنے بتوں كا قرب حاصل كرنے كے ليے ماہ رجب ميں جانور ذبح كيا كرتے تھے.
ليكن جب دين اسلام نے اللہ تعالى كے ليے ذبح كرنے كا حكم ديا تو اہل جاہليت كا يہ فعل باطل ہو گيا.
فقھاء كرام كا ماہِ رجب ميں بطور العتيرہ ذبح كيے جانے والے جانور كے حكم ميں اختلاف ہے:
جمہور فقھاء يعنى احناف، مالكى اور حنبلى فقھاء كے ہاں يہ منسوخ Cancelled ہے، اور انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان سے استدلال كيا ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" نہ تو فرع ہے، اور نہ ہى عتيرۃ "
اسے امام بخارى(5473) اور امام مسلم(5116) رحمہما اللہ نے روايت كيا ہے.
اور شافعى حضرات كہتے ہيں كہ يہ منسوخ نہيں بلكہ انہوں نے عتيرہ كو مستحب قرار ديا ہے، اور ابن سيرين رحمہ اللہ كا قول يہى ہے.
ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كى تائيد ابو داود اور نسائى اور ابن ماجہ كى درج ذيل حديث سے ہوتى ہے جسے حاكم اور ابن منذر نے صحيح كہا ہے.
نبيشہ بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كہا:
" ہم دورِ جاہليت ميں عتيرۃ ذبيح كيا كرتے تھے، آپ اس كے بارہ ميں كيا حكم ديتے ہيں؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كسى بھى مہينہ ميں ذبح كر ليا كرو.... "
[ابوداؤد:2830، ابن ماجہ:3137، نسائی:4233]
ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بالكل اصل ميں عتيرہ كو باطل نہيں كيا، بلكہ ماہ رجب ميں ذبح كرنا باطل كيا ہے.
ماہ رجب ميں روزے ركھنا:
خاص كر ماہ رجب ميں روزے ركھنے كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اور نہ ہى صحابہ كرام سے كى كوئى فضيلت وارد نہيں.
بلكہ اس ماہ ميں بھى وہى روزے مشروع ہيں جو دوسرے مہينوں ميں مشروع ہيں، مثلا سوموار اور جمعرات اور ايام بيض يعنى تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كا روزہ، اور ايك دن چھوڑ كر دوسرے دن كا روزہ ركھنا، اور سرر شہر، اس كے بارہ ميں علماء كہتے ہيں كہ يہ ماہ كا ابتدا ہے، اور بعض درميان اور بعض آخر قرار ديتے ہيں.
عمر رضى اللہ تعالى عنہ ماہ رجب ميں روزہ ركھنے سے منع كيا كرتے تھے كيونكہ اس سے جاہليت سے مشابہت ہوتى ہے جيسا كہ خرشۃ بن حر بيان كرتے ہيں كہ:
" ميں نے عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو ديكھا كہ وہ رجبيوں كے ہاتھوں كو مار رہے تھے حتى كہ انہوں نے اپنے ہاتھ كھانے ميں ڈا لديے اور عمر كہہ رہے تھے: اس ماہ كى ت وجاہليت والے تعظيم كيا كرتے تھے "
ديكھيں: الارواء الغليل ( 957 ) علامہ البانى نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
امام ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تين ماہ مسلسل ( يعنى رجب اور شعبان اور رمضان ) روزے نہيں ركھے جيسا كہ بعض لوگ كرتے ہيں، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كبھى رجب كے روزے ركھے، اور نہ ہى اسے مستحب قرار ديا.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ " تبيين العجب بما ورد في فضل رجب " ميں كہتے ہيں:
" ماہ رجب كى فضيلت ميں كوئى بھى ايسى حديث وارد نہيں جو قابل حجب ہو، اور مجھ سے قبل يہى امام ابو اسماعيل الھروى رحمہ اللہ بھى كہہ چكے ہيں، اور اسى طرح ہم نے ان كے علاوہ دوسروں سے بھى روايت كيا ہے.
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوىٰ جات ميں درج ہے:
" ماہ رجب ميں كسى دن كو روزے كے ليے خاص كرنے كے متعلق ہمارے علم ميں تو كوئى شرعى دليل نہيں ہے "
ماہ رجب ميں عمرہ كرنا:
احاديث سے دليل ملتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ماہ رجب ميں عمرہ نہيں كيا، جيسا كہ مجاہد كہتے ہيں كہ:
" ميں اور عروہ بن زبير مسجد ميں گئے تو عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے حجرہ كے پاس بيٹھے ہوئے تھے ان سے دريافت كيا گيا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتنے عمرے كيے تھے ؟
انہوں نے فرمايا: چار عمرے كيے جن ميں ايك عمرہ رجب ميں تھا، چنانچہ ہم نے انہيں اس كا جواب دينا مناسب نہ سمجھا.
وہ كہتے ہيں: ہم نے ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے كمرہ سے مسواك كرنے كى آواز سنى ( يعنى عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا مسواك كر رہى تھيں تو اس كى آواز آئى ) عروہ كہنے لگے:
اماں جان اے ام المومنين كيا آپ نے سنا نہيں كہ ابو عبد الرحمن كيا كہہ رہے ہيں ؟
تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں: وہ كيا كہہ رہے ہيں ؟
انہوں نے جواب ديا: ابو عبد الرحمن كہہ رہے ہيں: كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چار عمرے كيے اور ان ميں سے ايك عمرہ ماہ رجب ميں تھا "
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں: اللہ تعالى ابو عبد الرحمن پر رحم فرمائے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جتنے بھى عمرے كيے تو وہ ہر عمرہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كبھى عمرہ رجب ميں نہيں كيا "
[بخاری:1775، مسلم:1271، ابوداؤد:1790، نسائی:1817]
اور مسلم(3036) كى روايت ميں ہے كہ:
" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى يہ بات ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سن رہے ليكن انہوں نے نہ تو ہاں كہا اور نہ ہى نہ.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے انكار پر ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى خاموشى اس بات كى دليل ہے كہ يہ معاملہ ان پر مشتبہ ہوگيا يا پھر وہ بھول گئے تھے.
اس ليے ماہ رجب كو عمرہ كے ليے مخصوص كرنا نئى ايجاد كردہ بدعت ہے، اور يہ اعتقاد ركھنا كہ ماہ رجب ميں عمرہ كرنے كى كوئى فضيلت متعين ہے، اس سلسلہ ميں كوئى نص اور دليل وارد نہيں، اور اس كے ساتھ يہ بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ماہ رجب ميں عمرہ كرنا ثابت نہيں ہے.
شيخ على بن ابراہيم العطار رحمہ اللہ المتوفى ( 724 ھـ ) كا كہنا ہے:
مجھے يہ علم ہوا ہے كہ اہل مكہ مكرمہ كى عادت ہے كہ ماہ رجب ميں وہ كثرت سے عمرہ كرتے ہيں، مجھے تو اس كى كوئى دليل نہيں ملتى بلكہ حديث سے يہ ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
" رمضان المبارك ميں عمرہ كرنا حج كے برابر ہے "
اور شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ اپنے فتاوى جات ميں كہتے ہيں:
" ماہ رجب كے كسى بھى دن كو كسى عمل و زيارت كے ساتھ مخصوص كرنے كى كوئى اصل اور دليل نہيں ملتى، كيونكہ امام ابو شامہ نے كتاب البدع و الحودث ميں يہى فيصلہ كيا ہے كہ:
" جن عبادات كو شريعت نے اوقات كے ساتھ مخصوص نہيں كيا انہيں كسى وقت كے ساتھ متعين نہيں كرنا چاہيے كہ كسى عبادت كى شريعت اسلاميہ نے فضيلت بيان كى يا اس ميں سب نيكى كے كام كو افضل قرار ديا تو موقع غنيمت جانتے ہوئے كوئى اور وقت مقرر كر ليا جائے، اس ليے ماہ رجب ميں كثرت سے عمرہ كرنے كا انكار كيا ہے " اھـ
ليكن اگر كوئى شخص رجب ميں عمرہ كرنے كى فضيلت كا اعتقاد ركھے بغير ويسے ہى عمرہ كرنے جائے، يا پھر اس ليے كہ اس وقت اسے عمرہ كرنا آسان تھا تو ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
ماہِ رجب ميں ايجاد كردہ بدعات:
دين ميں بدعات كى ايجاد بہت ہى خطرناك چيز ہے، اور يہ چيز كتاب و سنت كے مخالف و منافى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس دنيا سے گئے تو دين اسلام كى تكميل ہو چكى تھى.
ارشاد بارى تعالى ہے:
{ آج ميں نے تمہارے ليے تمہارا دين مكمل كر ديا ہے، اور اپنى نعمت تم پر پورى كر دى ہے، اور تمہارے ليے دين اسلام كو دين ہونے پر رضامند ہو گيا }.
[سورۃ المائدۃ:3]
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسى چيز ايجاد كى جو اس دين ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "
[بخاری:2697]
اور مسلم كى روايت ميں ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے "
كچھ لوگوں نے ماہ رجب ميں كئى ايك بدعات ايجاد كر ركھى ہيں جن ميں سے چند ايك ذيل ميں دى جاتى ہيں:
ـ صلاۃ الرغائب:
يہ نماز خير القرون كے بعد منظر عام پر آئى اور خاص كر چوتھى صدى ہجرى ميں اسے كچھ كذاب قسم كے افراد نے اسے گھڑا، اور يہ نماز ماہ رجب كى پہلى رات ادا كى جاتى ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" صلاۃ الرغائب ايك بدعت ہے اور اس كے بدعت ہونے پر آئمہ كرام كا اتفاق ہے مثلا امام شافعى امام مالك اور امام ابو حنيفہ ثورى، اوزاعى ليث وغيرہ كا اتفاق ہے، اس سلسلہ ميں مروى حديث محدثين كے ہاں بالاجماع من گھڑت اور جھوٹى ہے. اھـ
ـ يہ بھى مروى ہے كہ ماہ رجب ميں عظيم قسم كے حادثات ہوئے ہيں، اس سلسلہ ميں بھى كوئى صحيح روايت نہيں؛ يہ بيان كيا جاتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ماہ رجب كى پہلى رات پيدا ہوئے، اور ستاويسويں رجب آپ كو مبعوث كيا گيا.
اور يہ بھى كہا جاتا ہے كہ: پچيس رجب مبعوث ہوئے، ليكن اس ميں سے كچھ بھى صحيح نہيں ہے.
اور قاسم بن محمد سے مروى ہے كہ ستائيس رجب كو معراج ہوئى "
يہ روايت بھى صحيح نہيں، ابراہيم حربى وغيرہ نے ا سكا انكار كيا ہے، چنانچہ اس ماہ رجب ميں ستائيس رجب كو معراج كا قصہ پڑھنا اور معراج كا جشن بھى منايا جاتا ہے.
اور اس رات كو عبادت كے ليے مخصوص كرنا اور دن كو روزہ ركھنا، يا پھر اس دن اور رات ميں فرحت و سرور اور خوشى كا اظہار جائز نہيں، اور اسى طرح جشن معراج منانا بھى صحيح نہيں ہے، اور اس كے علاوہ دوسرے جشن منانا جس ميں حرام كام مثلا مرد و عورت كا اختلاط اور موسيقى اور گانا بجانا شامل ہوتا ہے يہ سب حرام ہے.
اس پر مستزاد يہ كہ اس تاريخ كو بالجزم نہ تو معراج ہوئى اور نہ ہى اسراء، اور اگر يہ ثابت بھى ہو جائے تو پھر يہ چيز اس جشن كو منانے كے ليے جواز فراہم نہيں كرتى، كيونكہ اس امت كے بہتر ترين لوگ صحابہ كرام سے يہ ثابت نہيں ہے، اور اگر يہ نيكى ہوتى تو صحابہ كرام ہم سے سبقت لے جاتے.
ـ پندرہ رجب كو نماز ام داود ادا كرنا.
ـ فوت شدگان كى روح كى جانب سے ماہ رجب ميں صدقہ وخيرات كرنا.
ـ ماہ رجب ميں كى جانے والى مخصوص دعائيں، يہ سب من گھڑت اور بدعت ہيں.
ـ خاص كر ماہ رجب ميں قبرستان جا كر قبروں كى زيارت كرنا بھى ايك بدعت ہے، كيونكہ سال كے كسى بھى دن قبرستان جايا جا سكتا ہے كوئى مخصوص نہيں كرنا چاہيے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اپنى حرمت كى تعظيم كرنے كى توفيق نصيب فرمائے، اور ظاہرى اور باطنى طور پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كى پيروى كرنے كى توفيق دے، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى اس پر قادر ہے.
رجب المرجب کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ رجب اسلامی وقمری سال کا ساتواں مہینہ ہے ،اس کا شمار حرمت کے چار مہینوں میں ہوتا ہے،حرمت کے چار مہینے جس طرح قبل ازاسلام معزز ومحترم جانے جاتے تھے اسی طرح بعد از اسلام بھی ان کو وہی حیثیت حاصل ہے ،اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ﴿ِنَّ عِدَّةَ الشُّہُورِ عِندَ اللّہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْراً فِیْ کِتَابِ اللّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ﴾(سورة التوبة،آیت:36پارہ:10)یعنی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے،جو اللہ تعالی کی کتاب(لوح محفوظ)کے مطابق اس دن سے چلی آ رہی ہے جس دن اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا تھا،ان (بارہ مہینوں )میں سے چار حرمت والے مہنے ہیں،یہی دین (کا) سیدھا سادہ(تقاضا) ہے۔ ذوالقعدہ،ذوالحجہ،محرم اور رجب یہ حرمت کے چار مہینے ہیں ان مہینوں میں جہاں نیک کام کا اجرو ثواب دوگنا ہو جاتا ہے ،اسی طرح گنا ہ کے ارتکاب پر وبال اور عذاب بھی دوسرے مہینوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے،علامہ قرطبی فرماتے ہیں”فیضٰعف فیہ العقاب بالعمل السيّء کما یضاعف بالعمل الصالح“(تفسیر قرطبی :8/134،دار الکتب المصریہ) حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں میں ہر عبادت کا ثواب زیادہ ہوتا ہے ا ور ان میں کوئی گناہ کرے تو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔“حضرت مفتی صاحب ”منھاأربعة حرم“کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ”ان کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا ہے، ایک تو اس لیے کہ ان میں قتل وقتال حرام ہے،اور دوسرا اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں ۔ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے ۔ان میں پہلا حکم تو شریعت ِاسلام میں منسوخ ہوگیا مگر دوسرا حکم (احترام وادب)اور ان میں عبادت گزاری کا اہتمام اسلام میں ابھی باقی ہے۔“(معارف القرآن:4/370 تا372) رجب عربی زبان کا لفظ ہے۔ ترجیب سے مشتق ہے۔ اس کے معنی تعظیم وتکریم کے آتے ہیں،بعض حضرات نے اس کا معنی ”ڈرنا “سے کیا ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے مہینوں کی طرح اس مہینہ میں بھی اللہ تعالی سے خوب ڈرنا چاہیے۔یہ مہینہ حرمت کے مہینوں میں ہونے کی وجہ سے محترم اور متبرک ہے اسی طرح اس میں عبادت کا اجر وثواب بھی زیادہ ہے،اس مہینے کے بہت سے فضائل احادیث مبارکہ میں وارد ہوئے ہیں۔احادیث مبارکہ میں اس مہینہ میں روزے رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے اوراس پر بہت زیادہ اجروثواب کی خوشخبری دی گئی ہے۔ رجب کا مہینہ شروع ہوتاتو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے”اللّٰھمّ بارک لنا في رجب وشعبان،وبلّغنا رمضان“ یعنی:اے اللہ!رجب اور شعبان کے مہینے میں ہمیں برکت عطا فرما ئیے اور ہمیں رمضان تک پہنچا دیجئے۔ (شعب الایمان :5،348، رقم:3534، مکتبة الرشد، ریاض) اسلام نے اس مہینہ کو بہت معزز ومحترم بتلایا ہے ،مگر افسوس،صد افسوس کہ بعد کے جہلاء نے اس مہینہ میں بہت سی من گھڑت خرافات شروع کردیں جس کا دین ِ اسلام اور شریعتِ محمدیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ قرآن وحدیث میں ان کے بارے میں کوئی ذکر ملتا ہے۔ صحابی رسول،کاتب رسول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی یوم وفات 22رجب صحابی رسول،کاتب وحی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کا دن ہے،علامہ طبری لکھتے ہیں :” مات معاویةبدمشق سنة ستین یوم الخمیس لثمان بقین من رجب“(تاریخ طبری:5،324،دار التراث، بیروت) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جن کے بارے میں اللہ کے رسول نے دعا کرتے ہوئے فرمایا تھا:”اللّٰھم اجعلہ ھادیا مھدیا واھد بہ“(جامع الترمذی :2/247)اے اللہ! تو معاویہ کو ہادی اور ہدایت یافتہ بنا،ان کو ہدایت عطافرما اور اس کے ذریعے ہدایت دے۔ایک اور جگہ فرمایا: اللّٰھم علّم معاویة الکتاب والحساب وقہ العذاباے اللہ! معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم عطا فرما،اور اس کو عذاب سے محفوظ فرما۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ”اللّٰھمّ علّمہ الکتاب ومکن لہ في البلادووقہ العذاب“(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،ج:9ص:356طبع بیروت)یعنی اے اللہ! معاویہ کو کتاب سکھا دے اور شہروں میں اس کے لیے ٹھکانے بنا دے اور اس کو عذاب سے بچا لے۔ایک دفعہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہا کو کسی مشورے کے لیے طلب فرمایا،مگر دونوں حضرات مشورہ نہ دے سکے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ادعوا معاویة احضروہ أمرکم فإنّہ قويّ أمین“(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:9/356)ترجمہ:معاویہ کو بلاوٴاور معاملے کو ان کے سامنے رکھو ،کیونکہ وہ قوی ہیں (مشورہ دیں گے)اور امین ہیں(غلط مشورہ نہیں دیں گے) ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار کاتبان ِوحی میں ہوتا ہے اس پر تمام امت کا اجماع ہے ۔علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے کاتبین میں سے سب سے زیادہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہے اور اس کے بعد دوسرا درجہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا تھا ،یہ دونوں حضرات دن رات آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ لگے رہتے اور اس کے سوا کوئی کام نہ کرتے تھے۔“(ابن حزم ،جوامع السیرة،ص:27) ٭...حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مراسلہ ء نبوی کے قاری تھے۔(مسند احمد:3/441،مجمع الزوائد،البدایة والنھایة) ٭...آپ رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا عظیم اعتماد تھا کہ خصوصی خطوط کے محرر رہے۔(الاصابة:3/393) ٭...آپ رضی اللہ عنہ کو پہلوئے نبوت میں بیٹھنے کا شرف حاصل رہا۔ ٭...آپ رضی اللہ عنہ کونبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے بال مبارک تراشنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔(تاریخ ابن عساکر) ٭...آپ رضی اللہ عنہ غزوات میں بھی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے،چنانچہ غزوہ حنین میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے 100،اونٹ اور40،اوقیہ بھی عنایت فرمائے ۔(بخاری ومسلم) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کامقام حضرت عبد اللہ ابن مبارک کی نگاہ میں عبد اللہ ابن مبارک رحمةاللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ حضرت معاویہ افضل ہیں یا عمربن عبد العزیز؟حضرت عبد اللہ ابن مبارک نے جواب دیا: ”جومٹی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی رفاقت میں پڑی وہ عمربن عبدالعزیز سے ہزار درجہ افضل ہے۔“ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقام حضرت پیرانِ پیر کی نگاہ میں پیرانِ پیرحضرت عبد القادرجیلانی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:”میں معاویہ کے راستے میں بیٹھوں،اس کے گھوڑے کے پاوٴں کی مٹی میرے اوپر پڑے میں اسے اپنے لیے باعثِ نجات اور فخرسمجھتاہوں۔“ ٭...حضرت عمیربن سعیدرضی اللہ عنہ حمص کے والی تھے، ان کوحضرت عمررضی اللہ عنہ نے معزول کرکے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کومقررفرمایا تو اس موقع پر حضرت عمیرنے فرمایاکہ: معاویہ کو صرف خیرکے ساتھ یادکرو،کیونکہ میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کومعاویہ کے حق میں یہ دعاکرتے ہوئے سنا : ”اے اللہ! معاویہ کو ہدایت عطافرما۔“ کونڈوں کی شرعی وتاریخی حیثیت:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی ابدی کامیابی کو اپنی اطاعت و فرمانبرداری میں رکھا ہے، انسان اس کامیابی کو اللہ تعالیٰ کی عبادت و رضا سے حاصل کرنے کیلیے ہر ممکن کو شش کرتا ہے مگر چونکہ انسان کی کامیابی شیطان کو اچھی نہیں لگتی تو جب انسان کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، شیطان اگر چہ اس سے خوش ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پر یشانی کی بات یہ ہوتی ہے کہ گناہ گار انسان جب ندامت و شرمندگی سے اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے گا تو اپنے گناہ سے بالکل پاک صاف ہوجائے گا اور شیطان سوچتا ہے، میری ساری محنت رائیگاں جائے گی، تو پھر…انسان کو ایک ایسے گناہ میں مبتلا کر کے مطمئن ہو جاتا ہے کہ اس کے ارتکاب پر انسان کو توبہ کی توفیق نہیں ملتی، اور وہ گناہ ”بدعت“ ہے۔ جی ہاں ! بدعت بہت ہی سنگین گناہ ہے، کیوں کہ بدعتی سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ بہت بڑی نیکی کر رہا ہے جبکہ وہ اپنے عمل کو گناہ تصور ہی نہیں کرتا تو وہ توبہ کیسے کرے گا؟ تو بدعتی ہمیشہ توبہ سے محروم رہتا ہے۔ انہی بدعات میں سے ایک قبیح بدعت 22 رجب کے کونڈوں کی رسم ہے۔ یہ بغضِ صحابہ اور تو ہینِ صحابہ پر مبنی رسم دشمنان صحابہ کی ایجاد کردہ ہے۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ22رجب کی شب کو عورتیں نہا دھو کر با وضو ہو کر خاص طریقہ کے مطابق پوریاں بنا کر مٹی کے کورے کو نڈوں میں بھر کے…چوکی یا صاف چادر پر رکھ کر ایک منظوم کتاب پڑھواتی ہیں، اس رسم کی ابتداء سنہ1906ء میں ریاست رام پور (یوپی)سے ہوئی۔ کونڈوں کی من گھڑت کہانی: رجب کے کونڈوں کو ثابت کرنے کے لیے ایک جھوٹی کہانی کا سہارا لیا جاتا ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدینے میں ایک غریب لکڑہارے کی بیوی نے امام جعفر صادق رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو22 رجب کو میرے نام کے کونڈے بھرے گا پھر اللہ سے جو بھی دعا کریگا وہ قبول ہوگی ورنہ قیامت کے دن وہ میرا گریبان پکڑلے۔ چنانچہ اس لکڑہارے کی بیوی نے ایسا ہی کیا ۔اس کا شوہر بہت سا مال لیکر واپس لوٹااور ایک شاندار محل تعمیر کر کے رہنے لگا،اور وزیر کی بیوی نے کونڈوں کو نہ ماناتو اس کے شوہر کی وزارت ختم ہوگئی۔پھر اس نے توبہ کی اور کونڈے بھرے تو دوبارہ وزیر بن گیا۔اس کے بعد بادشاہ اورقوم ہر سال دھوم دھام سے یہ رسم منانے لگے۔ یہ ایک قبیح بدعت و رسم ہے جو دشمنان صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایجاد کردہ ہے،اس کی ایجاد صرف اور صرف بغضِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے اظہار کے لیے ہے ۔اس کا دین ِاسلام اور شریعتِ محمدیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :رجب کے کونڈوں کی کوئی حیثیت نہیں،یہ گھڑی ہوئی باتیں ہیں،ان کو ترک کر دینا چاہئے…ان کو شرعی سمجھ کر پکانا، بنانا،کھانا بدعت ہے۔“(کفایت المفتی:2/283،ادارہ الفاروق کراچی) حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”کونڈوں کی مروجہ رسم محض بے اصل،خلافِ شرع اور بدعت ہے۔22رجب نہ حضرت جعفرصادق رحمہ اللہ کی تاریخِ ولادت ہے اور نہ ہی تاریخِ وفات ،اس کا حضرت جعفرصادق رحمہ اللہ کے ساتھ کیا تعلق؟22رجب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ ِ وفات ہے۔اس رسم کو محض پردہ پوشی کے لیے حضرت جعفرصادق رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔درحقیقت یہ رسم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خوشی میں منائی جاتی ہے۔جس وقت یہ رسم بجا لائی گئی اس وقت اہل سنت کا غلبہ تھا( اس لیے خفیہ منائی گئی)،لہٰذا برادران اہل سنت کو اس رسم سے بہت دور رہنا چاہئے،نہ خود اس رسم کو بجا لائیں اور نہ ہی اس میں شرکت کریں۔“ (فتاوی محمودیہ:1/220، ادارہ الفاروق کراچی) حضرت مفتی رشید احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:کونڈوں کی مروجہ رسم دشمنان صحابہ رضی اللہ عنھم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر اظہار مسرت کے لیے ایجاد کی ہے․․․․․․․مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہرگز ایسی رسم نہ کریں،دوسروں کو بھی اس کی حقیقت سے آگاہ کر کے اس سے بچانے کی کوشش کریں۔ (احسن الفتاوی:1/368) حضرت مولاناخیرمحمد جالندھری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اس رسم میں ہرگز شرکت نہیں کرنی چاہئے، بلکہ حتی الوسع اسے مٹانے کی کوشش کرنی چاہئے، اس دن نیک مقصد کے تحت خیرات کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی ،کیونکہ اس میں تشبہ بالروافض ہے،نیزان کے مکروہ ترین عمل کو تقویت دیناہے، اس عمل کی بنیادی غرض ہی صحابی رسول کی توہین اور مسلمانوں کے جذبات کومجروح کرنا ہے۔“ (خیر الفتاوی:1/572) حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: ”آج کل معاشرے میں فرض، واجب کے درجہ میں جو چیز پھیل گئی ہے وہ کونڈے ہیں، نماز پڑھے نہ پڑھے، روزہ رکھے نہ رکھے، گناہوں سے بچے نہ بچے لیکن کونڈے ضرور کرے،․․․․خدا جانے یہ کونڈے کہاں سے نکل آئے، نہ قرآن کریم سے ثابت ہیں، نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم سے، نہ تابعین سے نہ تبع تابعین سے اور نہ بزرگانِ دین سے، اس کی کوئی اصل نہیں،․․․(بس) ہماری قوم مزہ اور لذت کی خوگر ہے،․․․․․اس طرح کی چیزوں نے امت کو خرافات میں مبتلا کر دیا۔ حقیقت روایات میں کھو گئی ․․․․․․․․ یہ امت خرافات میں کھو گئی۔ (مأخوذ ازاصلاحی بیانات:1/54) شیعہ کتابوں سے ثبوت: رجب کی 22 تاریخ میں مومنین کے ماموں، صحابی رسول، کاتبِ وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر خوشی اور شکر کا دن ہے۔ انتہائی معتبر شیعہ کتب سے حوالہ جات پیش ہیں: (1)شیخ مفید اپنی کتاب مسار الشیعہ میں کہتے ہیں: وفي اليوم الثاني والعشرين منه سنة (60) ستين من الهجرة كان هلاك معاوية بن أبي سفيان، وسنه يومئذ ثمان وسبعون سنة، وهو يوم مسرة للمؤمنين.، وحزن لأهل الكفر والطغيان۔ ترجمہ: اس ماہ (یعنی رجب) کی 22 تاریخ، ساٹھ ہجری کو معاویہ بن ابی سفیان ہلاک ہوا، اور اس کی عمر اس دن 78 سال تھی، اور یہ مومنین(یعنی اہل شیعہ) کیلئے مسرت و شادمانی کا دن ہے، جبکہ اہل کفر(یعنی اہل سنت) کیلئے غم کا دن ہے۔ [مسار الشیعہ: صفحہ59] (2)اور شیخ مفید نے کہا: معاویہ کا انتقال ہوا دارالفناء سے دارالبقاء کی طرف اس مہینہ کی 22 تاریخ میں، اور اس دن روزہ رکھ کر اللہ کا شکر کیا جائے اس نعمت پر۔ [زاد المعاد-علامہ باقر مجلسی:ص34 رجب کے آخری عشرہ کے اعمال] (3)ابن طاووس اپنی کتاب اقبال الاعمال میں لکھتا ہے: اليوم الثاني والعشرون منه سنة ستين من الهجرة أهلك الله أحد فراعنة هذه الأمة معاوية بن أبي سفيان عليه اللعنة، فيستحب صيامه شكرا لله على هلاكه ترجمہ: اس ماہ کی 22 تاریخ ، ساٹھ ہجری کو اللہ نے اس امت کے فرعونوں میں سے ایک فرعون معاویہ بن ابی سفیان کو ہلاک کیا، اس دن کا روزہ مستحب ہے تاکہ اس کی ہلاکت پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔ [اقبال الاعمال ج 3 ص 260] (4)اسی طرح شیخ طوسی اپنی کتاب مصباح المتھجد میں کہتا ہے وفي اليوم الثاني والعشرين منه كان وفاة معاوية بن أبي سفيان۔ ترجمہ: اس ماہ کی 22 تاریخ کو معاویہ ابن ابی سفیان کی وفات ہوئی۔ [مصباح المتھجد ص 812] (5)اسی طرح شیعہ عالم نعمت اللہ الجزائری اپنی کتاب انوار النعمانیہ میں کہتا ہے وفي الثاني والعشرين منه هلك معاوية ترجمہ: اس ماہ کی 22 تاریخ کو معاویہ ہلاک ہوا۔ [انوار النعمانیہ ج 2 ص 97 باب نور فی ذکر الشھور الاثنی عشر] شب معراج منانے کی حقیقت 27رجب کی شب، شب معراج کے نام سے مشہور ہے ،اس رات میں خاص طریقے پر خاص تعداد میں نفل نمازیں پڑھی جاتی ہیں، ان کو ”صلوٰة الرغائب“کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،اس شب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اس شب کو معراج پر تشریف لے گئے تھے ،پہلی بات تو یہ کہ واقعہ معراج کی تا ریخ میں اختلاف ہے ،کسی نے بھی تعیین کے ساتھ نہیں لکھا ہے کہ یہ واقعہ ستائیس رجب کی شب کو پیش آیا ہے ،بالفرض والمحال اگر تسلیم کر بھی لیا جائے تو پھر قرآن وحدیث اور صحابہ وتابعین میں سے اس رات میں اس مخصو ص عبادت کے بارے میں کہیں بھی منقول نہیں ہے بلکہ محدثین اور فقہاء نے اس کی بھر پور تردید فرمائی ہے۔ علامہ محی الدین امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ: 27 رجب اور شعبان کی پندرہویں رات کی مخصوص نمازیں سنت نہیں، بلکہ ناجائز اور بدعت ہیں۔ حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”اس شب کے لیے خصوصی نوافل کا اہتمام کہیں ثابت نہیں ،نہ کبھی حضور صلی الله علیہ وسلم نے کیا ، نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے، نہ تابعین عظام رحہم اللہ نے کیا۔ علامہ حلبی تلمیذ شیخ ابن ہمام رحمہ اللہ نے غنیتہ المستملی، ص:411 میں، علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے الجر الر ائق شرح کنز الد قائق ،ج:2، ص: 56، میں، علا مہ طحطا وی نے مراقی الفلاح ،ص:22 میں، اس رواج پر نکیر فرمائی ہے اور اس کے متعلق جو فضائل نقل کرتے ہیں ان کو ردکیا ہے۔(فتاویٰ محمودیہ:3/284،ادارہ الفاروق کراچی) 27 رجب کا روزہ عوام الناس میں ستائیس رجب کے روزے کو فضیلت والا سمجھا جاتاہے اوروہ رجب کی ستا ئیسویں تاریخ کو روزہ رکھنے کا ثواب ایک ہزار روزہ کے برابر سمجھتے ہیں۔ اسی واسطے اس روزہ کو” ہزاری روزہ“ کہتے ہیں ،مگر یہ فضیلت ثابت نہیں، کیونکہ اکثر روایات اس بارے میں موضوع ہیں اور بعض جو موضوع نہیں وہ بھی بہت زیادہ ضعیف ہیں، اس لیے اس دن کے روزہ کو زیادہ ثواب کاباعث یا اس دن کے روزہ کے متعلق سنت ہونے کا اعتقا دنہ رکھاجائے۔علماء کرام نے اپنی تصانیف میں اس کی بہت تردید کی ہے ،حافظ ابن حجر عسقلانی نے ”تبیین العجب بما ورد في فضل رجب“کے نام سے اس موضوع پر مستقل کتاب لکھی ہے،جس میں انہوں نے رجب سے متعلق پائی جانے والی تمام ضعیف اور موضوع روایات پر محدثانہ کلام کرتے ہوئے سب کو باطل کردیا ہے۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ رجب کے مہینے میں ”تبارک“ اور27 رجب کو روزہ رکھنے کے متعلق فرماتے ہیں:”اس امر کا التزام نا درست اور بدعت ہے“۔(فتاویٰ رشید یہ مع تا لیفات رشید یہ،ص: 148) حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”ستائیسویں رجب کے روزے کو جوعوام ہزارہ روزہ کہتے ہیں اور ہزارروزوں کے برابر اس کا ثواب سمجھتے ہیں، اس کی کچھ اصل نہیں ہے۔(فتاوٰی دار العلوم مد لل و مکمل: 6/491۔ 492) حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”ماہ رجب میں تاریخ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات وار دہوئی ہیں، لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجہ صحت کو نہیں پہنچیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”ماثبت بالسنتہ“ میں ذکر کیا ہے۔ بعض بہت ضیعف ہیں اور بعض موضوع (من گھڑت) ہیں“۔ (فتاوٰی محمودیہ، 3/281،ادارہ الفاروق کراچی) حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: ”27 رجب کے روزہ کا کوئی ثبوت نہیں۔“ (سات مسائل صفحہ:5) حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بدعت کا سد باب کیا یہ تمام فتاوی جات ماضی قریب کے ہیں، مگر اس سے بڑھ کر یہ کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِخلافت میں بعض لوگ 27رجب کو روزہ لازم سمجھ کررکھنے لگے ۔جب حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتہ چلا کہ 27 رجب کا خاص اہتمام کر کے لوگ روزہ رکھ رہے ہیں، تو چونکہ ان کے یہاں دین سے ذرا ادھر ادھر ہونا ممکن نہیں تھا،چنانچہ وہ فوراً گھر سے نکل پڑے ،اور ایک ایک شخص کو جاکر زبر دستی فرماتے کہ” تم میرے سامنے کھانا کھاؤ ،اور اس بات کا ثبوت دو کہ تمہاراروزہ نہیں ہے“، باقاعدہ اہتمام کر کے لوگوں کو کھانا کھلایا ،حضرت عمر فاروق کا یہ عمل اور صحابہ کرام کا خاموش رہنااس لیے تھا تاکہ لوگوں کو یہ خیال نہ ہو کہ آج کا روزہ زیادہ فضیلت کا ہے،بلکہ جیسے اور دنوں میں نفلی روزہ رکھے جا سکتے ہیں ،اسی طرح اس دن کا بھی نفلی روزہ رکھا جاسکتا ہے دونوں میں کوئی فرق نہیں، آپ نے یہ اہتمام اس لیے فرمایا تا کہ، بدعت کا سدباب ہو، اور دین کے اندر اپنی طرف سے زیادتی نہ ہو جاہلیت میں جس انداز سے رجب کی تعظیم کی جاتی تھی اس کے پیشِ نظر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے اس دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا، خرشہ بن الحر سے روایت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ رجب کا روزہ رکھنے پر لوگوں کی ہتھیلیوں پر مارتے تھے یہاں تک وہ اپنا ہاتھ کھانے میں ڈال دیتے تھے، (یعنی اپنے سامنے لوگوں سے روزہ افطار کروادیتے تھے) اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : رجب اور رجب کیا ہے؟ رجب تو ایک مہینہ ہے جس کی اسلام میں تعظیم کی جاتی تھی، پھر جب اسلام آیا تو اس کی جاہلیت والی عظمت کوترک کردیا گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ سے رجب کا روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا کہ تو آپ ﷺ نے فرمایا تم شعبان کا روزہ کیوں نہیں رکھتے؟ خلاصہ یہ کہ رجب کے روزہ کی ممانعت جاہلیت کی تعظیم والے پہلو کے پیش نظر ہے یا اس روزے کو لازم یا زیادہ فضیلت کا باعث سمجھ کر رکھنے کی وجہ سے ہے، اگر کسی شخص کی عادت (مثلاً) پیر اور جمعرات کے روزے رکھنے کی ہو اور 27 رجب پیر یا جمعرات کو آجائے (جیساکہ اس مرتبہ 27 رجب بروزِ جمعرات ہے) تو ایسے شخص کے لیے اس دن روزہ رکھنے میں حرج نہیں ہے۔ كنز العمال (8/ 653): "24580- عن خرشة بن الحر قال: "رأيت عمر بن الخطاب يضرب أكف الرجال في صوم رجب حتى يضعوها في الطعام، فيقول: رجب وما رجب! إنما رجب شهر كانت تعظمه الجاهلية فلما جاء الإسلام ترك". "ش طس". مصنف ابن أبي شيبة (2/ 345): "حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن وبرة، عن عبد الرحمن، عن خرشة بن الحر، قال: رأيت عمر يضرب أكف الناس في رجب، حتى يضعوها في الجفان، ويقول: كلوا، فإنما هو شهر كان يعظمه أهل الجاهلية ". مصنف ابن أبي شيبة (2/ 345): "حدثنا وكيع، عن سفيان، عن زيد بن أسلم، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن صوم رجب فقال: «أين أنتم من شعبان»؟" عمدة القاري شرح صحيح البخاري (10/ 256): " وكراهية ابْن عمر صَوْم عَاشُورَاء نَظِيره كَرَاهِيَة من كره صَوْم رَجَب إِذا كَانَ شهراً يعظمه الْجَاهِلِيَّة فكره أَن يعظم فِي الْإِسْلَام مَا كَانَ يعظم فِي الْجَاهِلِيَّة من غير تَحْرِيم صَوْمه على من صَامَهُ". اس رات میں جاگ کر کونسی برائی کرلی اس سے اس بات کا جواب بھی معلوم ہوگیا کہ بعض لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ” اگر ہم نے اس رات میں جاگ کر عبادت کرلی اور دن میں روزہ رکھ لیا تو کو نسا گناہ کرلیا؟کیا ہم نے چوری کرلی؟ یا شراب پی لی ؟یا ڈاکا ڈالا؟ ہم نے رات میں عبادت ہی تو کی ہے، اور اگر دن میں روزہ رکھ لیا تو کیا خرابی کا کام کیا؟“ دین ”اتباع“ کا نام ہے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتلا دیا کہ خرابی یہ ہوئی کہ، اس دن کے اندر روزہ رکھنے کا حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے نہیں دیا،اور” خود ساختہ اہتمام والتزام ہی اصل خرابی ہے“، سارے دین کا خلاصہ ” اتباع“ ہے ،کہ ہمارا حکم مانو، نہ روزہ رکھنے میں کچھ رکھا ہے، نہ افطار کرنے میں کچھ رکھا ہے، اور نہ نماز پڑھنے میں کچھ رکھا ہے، جب ہم کہیں کہ نماز پڑھو تو نماز پڑھنا عبادت ہے، اور جب ہم کہیں کہ نماز نہ پڑھو تو نماز نہ پڑھنا عبادت ہے،جب ہم کہیں کہ روزہ رکھو تو روزہ رکھنا عبادت ہے اور جب ہم کہیں کہ روزہ نہ رکھو تو روزہ نہ رکھنا عبادت ہے، اگر اس وقت روزہ رکھو گے تو یہ دین کے خلاف ہوگا۔ تو دین کا سارا کمال ”اتباع “ میں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ حقیقت دل میں اتاردے تو ساری بدعتوں کے خود ساختہ التزامات کی جڑکٹ جائے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہر خرافات کو عبادات کے درجہ میں سمجھا جاتا ہے اور جوان کو نہ کرے اسے برابھلا کہا جاتا ہے، حالانکہ خود ان خرافات کی کوئی اصل نہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کی وفات پر خوشی یہ ایک مسلمان کیسے کر سکتا ہے، مگر افسوس کہ دشمنان صحابہ کی ایجاد کردہ خرافات ان کی دیکھادیکھی اہل سنت میں بھی عام ہوتی چلی گئی، اور حالت یہ ہے کہ نادان اور ناواقف مسلما ن ان خرافات کو بڑے اہتمام سے کرتے ہیں۔ یہ بات تمام مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ایسی رسمیں جو بغض صحابہ اور تو ہین صحابہ پر مبنی ہیں اسے ہم اہلسنت بڑے اہتمام سے عبادت سمجھ کر ادا کریں، تمام مسلما نوں پر لازم ہے کہ ان تمام خرافات کو حتی الوسع مٹانے کی کوشش کریں اور نا وا قف مسلمانوں کودین کی حقیقت سے آگاہ کریں، کہں ایسا نہ ہو کہ کل قیامت کے دن ہمیں دشمنان صحابہ کی صف میں کھڑا کردیا جائے۔ رجب کی روٹی رجب المرجب کا مہینہ جب آتا ہے تو کچھ لوگ جمعہ کے دن میٹھی روٹی پکاتے ہیں اور اکتالیس مرتبہ سورہ ملک پڑھتے ہیں، اس کو ”تبارک“کہتے ہیں اور روٹی کو میت کی طرف سے فدیہ صدقہ خیرات سمجھ کر تقسیم کرتے ہیں ۔شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں، رجب کی روٹی کے بارے میں مفتی محمودحسن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”یہ نہ قرآن سے ثابت ہے نہ حدیث شریف سے نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نہ فقہا و محدثین کی کتب سے بلکہ من گھڑت ہے ،ایسی چیز کو شریعت میں بدعت کہتے ہیں، اس کاترک کرنا واجب ہے۔“(فتاوی محمودیہ: 3 /282،ادارہ الفاروق کراچی) ان مذکورہ بالا تمام باتوں کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اصل کی جانب لوٹ آئیں اور بدعات وخرافات سے توبہ تائب ہو کر فرائض،واجبات اور سنن کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں ۔اس سے پہلے جتنی بھی خرافات کی ہیں اس کی اللہ تعالی سے خوب گڑگڑا کر معافی مانگیں اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کریں، اللہ ہم سب کو اس تو فیق عطافرمائے۔آمین ! |
ماہ رجب کے واقعات اور بدعات
رجب، شوال، ذوالقعدہ ،ذو الحجہ کا شمار اشہر حرم میں کیا جاتا ہے، ان مہینوں میں جنگ وجدال حرام قرار دیا گیا ہے۔بعثت نبوی سے قبل عہد جاہلیت میں ان چار مہینوں کا بے حد ادب و احترام کیا جاتا تھا اور عرب اپنی بدویانہ زندگی کی وجہ سے لوٹ مار،فتنہ فساد اور ڈاکہ زنی جیسی عادتوں کے خوگر ہونے کے باجود ان ایام میں اپنی تمام سرگرمیاں موقوف کردیتے تھے اور ہر طرف امن و امان ،صلح و آشتی کا دور دورہ ہو جاتا تھا۔اسلام نے ان مہینوں کی حرمت و عظمت کے تصور کو باقی رکھا اور ہر قسم کی انسانیت دشمن سرگرمیاں حرام قرار دے کر ان مہینوں کو امن کا گہوارہ بنانے کا حکم دیا ۔قرآن عظیم الشان ان مہینوں کی حرمت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:﴿ان عدة الشہور عنداللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السموات والارض ومنہا اربعة حرم﴾․
ترجمہ: مہینوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ ماہ ہے جو اللہ کی کتاب میں اسی دن سے درج ہے۔جب کہ اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں رجب کے متعلق ذکر کیا جارہا ہے ۔لہذا مناسب یہ ہے کہ اس عظمت و اہمیت کے حامل مہینے کے ہر پہلو کو مختصراً بیان کیا جائے۔ لغوی حیثیت ما رجب کو اگرلغوی نظر سے دیکھاجائے تو اس کی لغوی معنی تعظیم اور قربانی کے آتا ہے۔چناں چہ لسان العرب میں اس کی تصریح ان الفاظ کے ساتھ کی گئی ہے۔ ورجب سموہ بذلک لتعظیمہم ایاہ فی الجاہلیة عن القتال فیہ․ وفی الحدیث: ہل تدرون ما العتیرہ؟ ہی التی یسمونہا الیہ الترجیب التعظیم وذبح النسائک فی رجب․ یعنی عربوں نے زمانہ جاہلیت میں اس مہینہ کی تعظیم کرنے اور جنگ وجدال سے باز رہنے کی وجہ سے اس کا نام رجب رکھا تھا۔ حدیث میں آ یاہے کہ کیاتم لوگ جانتے ہو کہ عتیرہ کیا ہے؟وہی ہے جس کو اہل عرب رجبیہ کہتے تھے ترجیب کے معنی تعظیم اور رجب کے مہینہ میں قربانی کرنے کے آتے ہیں ۔اور بعض لغات کی کتابوں میں رجب کے معنی بہرے کے بھی ذکر کیے گئے ہیں ،اس معنی کے اعتبار سے رجب کے مہینہ کا نام رکھنے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینہ میں قتل و غارت گری بند ہوجاتی تھی ،راستے پرامن ہو جاتے تھے اور پورے مہینہ میں امن و امان رہتا تھا،اس لیے لوگوں کی حالت کے مطابق اس مہینہ کا نام رجب ہے کہ گویا اس مہینہ میں لوگوں کی حالت بہروں کی طرح ہو جاتی تھی،لیکن بعض لوگوں میں جو رجب کے مہینہ کے بارے میں بہرا ہونے کی معنی کی وجہ سے جویہ مشہور ہوا ہے کہ قیامت کے دن یہ مہینہ بہر ا ہو جائے گا ”لوگوں کے عیوب اور جرائم بیان کرنے سے “اس کی کوئی اصل نہیں۔(بحوالہ”ماثبت بالسنہ فی ایام السنہ“ص169تا170 محدث دہلوی )۔ تاریخی حیثیت تاریخی حیثیت سے یہ مہینہ خاص اہمیت کا حامل ہے اور اسلامی مہینوں میں اس عتبار سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً تحویل قبلہ کا واقعہ ماہ رجب ہی میں پیش آیا ہے۔اس کے علاوہ اسلامی تاریخ کا اہم واقعہ معراج اسی مہینہ میں پیش آیا ہے بنسبت دیگر اسلامی مہینوں کے ماہ رجب میں احتمال زیادہ ہے۔ بہر حال واقعہ معراج ایک حیران کن اور حیرت انگیر واقعہ ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو دین کو عقل کی کسوٹی پر کھتے ہیں، آخر ان کا نتیجہ گم راہی ہوتی ہے اور وہ لوگ اس اظہر من الشمس حقیقت کا انکار کر بیٹھتے ہیں،لیکن واقعہ معراج نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے اور معجزے کی تعریف یہ ہے کوئی”خارق العادة“کام کا صدورنبی سے ہوجائے تو معجزہ کہلاتا ہے ،جب کہ عام ولی سے ہوجائے تو وہ کرامت ہوتا ہے۔ اس واقعے کا پورا تذکرہ ،بخاری شریف ومسلم شریف میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے، اس کے علاوہ نماز کی فرضیت بھی واقعہ معراج میں ہوئی ہے،اسی طرح غزوہ تبوک بھی ماہ رجب میں پیش آیا ہے۔ غزوہ موتہ میں رومیوں کو اپنی شکست فاش کا بڑا رنج وقلق تھا، وہ مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتے تھے،مسلمانوں سے ٹکر لینے کی تیاری کی خبر برابر موصول ہورہی تھی اور انہوں نے فوج کو تبوک پر جمع کیاتھا۔جس کی سرکوبی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ضروری سمجھی اور باوجود سخت مشکلات ،گرمی اور دیگر سازو سامان کی کمی کے مسلمانوں نے ان کے سامنے سینے تانے رکھے اور ان مغروروں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ پہلی صدی ہجری ہی میں ماہ رجب 2ھ میں مصر و اسکندریہ کے بادشاہ”مقوقسقبطی“نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو تحفہ بھیجا ۔(تقویم تاریخی از عبدالقدوس ہاشمی صاحب ص2) اس کو حضور صلی الله علیہ وسلم نے جب اسلام کی دعوت کا خط لکھا تو اس نے بڑے اچھے طریقے سے خط کا جواب دیا اور حضورصلی الله علیہ وسلم کے لیے درج ذیل تحفے بھیجےدوعدد باندیاں، جن میں ایک حضرت ماریہ قبطیہ بھی تھیں۔جن سے حضور صلی الله علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے۔ ایک ہزار مثقال سونایعفور نامی حماردلدل نامی خچر 30 عدد مصر کے نفیس کپڑے عمدہ شہدلکڑی کی شامی سرمہ دانی کنگھا آئینہ۔ (بحوالہ عہد نبوت کے ماہ وسال ص334)۔ ماہ رجب 2ھ میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی کے ساتھ حضرت فاطمہ کا نکاح کیا۔نکاح کا خطبہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خود پڑھا۔اس پر وقار مبارک تقریب میں خلفائے راشدین سمیت دیگر اصحاب کرام شریک تھے۔ اسی صدی کے ماہ رجب میں صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم حضرت سعد بن عبادہ کی وفات ہوئی۔(صحابہ انسائیکلو پیڈ یا ص 557) ماہ رجب میں صحابی رسول الله صلی الله علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن سلام بھی فوت ہوئے۔ (تقویم تاریخی)اور حضرت حفصہ کا ارتحال، وصحابی رسول صلی الله علیہ وسلم اسامہ بن زید کی وفات ہوئی۔دوسری صدی کے ہجری ہی میں حضرت عمر بن عبدالعزیز،حسن بصری(یعنی حضرت حسن ابن ابی الحسن )اور امام اعظم امام ابو حنیفہ جیسی شخصیات بھی اس دار فانی سے رخصت ہوئیں۔ اس کے علاوہ اسی صدی کے ماہ رجب میں رومیوں نے ایشیائے کوچک کے سرحدی شہر”کمخ“پر حملے کے ساتھ”ملیطہ“شہر قبضہ کیا، یہاں جتنے مسلمان تھے ان کو قتل اور ان کی عورتوں کو قید کر لیا۔(ابن اثیر ج 5ص167) اسی صدی کے ماہ رجب میں 151ھ میں لعین حکیم مقنع نے آگ میں کود کر خودکشی کی۔(تقویم تاریخی ص40)یہ اصلا ماوراء النہر (وسطی ایشیا)”مرو“کا باشندہ تھا۔ اس نے سونے کا ایک چہرہ بنا کر اپنے چہرہ پر لگالیا اور خدائی کا دعوی کردیا۔اس کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے خودان کے جسم میں حلول کیا ،وغیرہ ۔ بہر حال خلیفہ مہدی نے اس کی سرکوبی کے لیے لشکر بھیجے،بالآخر مقنع کا قلعہ”بسام“ محاصرہ میں لے لیا گیا ،اس کے تیس ہزار متبعین نے مسلمانوں سے امن طلب کیا اور قلعہ سے باہر نکل آئے، اس کے ساتھ صرف دو ہزار افراد باقی بچے ،آخرکار مقنع کو اپنی ناکامی کا یقین ہوگیا تو اس نے آگ جلا کر اپنے اہل و عیال کو اس میں دھکیل دے دیا، پھر خود بھی آگ میں کود کر جل مرا مسلمانوں نے قلعہ میں داخل ہوکر مقنع کی لاش آگ سے نکالی اور اس کا سر خلیفہ مہدی کے پاس روانہ کیا۔(تاریخ اسلام حصہ دوم ص314 از مولانا اکبر شاہ خان)ماہ رجب 204 ھ میں حضرت امام شافعی،ماہ رجب 259ھ میں محدث وقت حضرت حجاج بن شاعر،ماہ رجب 261ھ میں امام مسلم ( شہر ہ آفاق تصنیف ”صحیح مسلم “)ماہ رجب 280ھ میں امام ترمذی نے بھی رحلت فرمائی۔ان کے تعارف کے لیے ان کی تین لازوال تصانیف کا تذکرہ ہی کافی ہے، ترمذی جو کہ صحاح ستہ میں شامل ہے،2العلل3الشمائل۔ جس میں آپ علیہ السلام کا حلیہ مبارکہ وروزمرہ کے معمولات مذکورہیں، جب کہ ماہ رجب632 میں صاحب ہدایہ نے (ظفر المحصلین ص191) ،خواجہ معین الدین چشتی نے (تذکرہ اولیاء ص9)اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے ماہ رجب 1225 ھ میں وفات پائی۔ (مقدمہ تفسیر مظہری)ماہ رجب 1362ھ میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوینے (اکابر علماء دیوبند ص33)،ماہ رجب 13274ھ میں مولانا محمد اعزاز علی(صاحب نفحة العرب) اہم اکابر امت مسلمہ نے اس دار بے بقاکو الوداع کہا۔ اسی طرح ماضی قریب کے مشہور علماء میں سے مفسر بے بدل حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی (صاحب معارف القرآن)نے 8رجب 1349ھ میں حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب نے ماہ رجب 1400ھ میں اور حضرت علامہ محمد یوسف بنوری کے جانشین حضرت مولانا مفتی احمدالرحمن نے ماہ رجب1406 ھ میں رحلت فرمائی۔ رجب اور غیر شرعی رسومات بعض لوگ ماہ رجب میں مختلف قسم کی رسومات کرتے ہیں۔جنکا نہ کوئی شرعی ثبوت ہے نہ ان کا شریعت کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔لیکن پھر بھی اکثر لوگ ان بدعات ورسومات کو عین دین سمجھ کر آگے ترویج بھی کرتے ہیں۔حالاں کہ غیر شرعی رسومات و بدعات کرنے پر قرآن و احادیث میں سخت ترین وعیدیں اور عذاب کی تہدید وار د ہوئی ہے لہذا خود بھی ان سے بچنا اور دوسروں کوبھی نہ کرنے کی ترغیب دینی چاہیے۔ مثلاً ماہ رجب میں بعض لوگ ”کونڈوں“ کے نام سے ایک خاص قسم کی رسم کرتے ہیں۔جس کا ثبوت شرع کے بجائے یہ ہے کہ مولوی مظہر علی سندیلوی اپنے روزنامچہ میں 1911ء کو ایک نادر یاد داشت لکھتے ہیں کہ آج مجھے ایک نئی رسم دریافت ہوئی جو میر ے اور میرے گھر والوں میں رائج ہوئی جو اس سے پہلے میری جماعت میں نہیں آئی تھی۔وہ یہ ہے کہ21 رجب کو بوقت شام میدہ شکر اور گھی ،دودھ ملا کر ٹکیاں پکائی جائیں۔اور اس پر امام جعفر صادق کا فاتحہ اور 22 رجب کی صبح کو عزیز و اقارب کو بلاکر یہ ٹکیاں کھلائی جائیں۔ یہ سب باتیں اوران کا تذکرہ کرنے سے مقصد اس رسم کے غیر شرعی ہونے کو ثابت کرنا تھا ،اس کے علاوہ مزید تحقیق کے لیے درج ذیل فتاویٰ مستندہ دیکھی جاسکتی ہیں، جن میں اس رسم کو خلاف شرع قرار دے کر بدعت اور گناہ سے موسوم کیا گیا ہے۔(کفایة المفتی ج1ص242، فتاوی محمودیہ ج1 ص220)وغیرہ۔ اسی طرح 27رجب کی رات میں خاص طریقے پر نمازیں پڑھنا جس کو ”صلوة الراغب“کا نام دیا جاتاہے،یہ بھی غیر شرعی اور بے اصل ہے اور وہ روایات جو اس پر دلیل کے لیے پیش کی جاتی ہیں وہ خود ساختہ ،موضوع اور ناقابل اعتبارہیں۔ اسی طریقے سے عام لوگوں میں یہ بات بھی بہت مشہو ر ہے کہ ستائیسویں رجب کو روزہ رکھنا اس کا ثواب ایک ہزار روزہ کے برابر ہے۔ یہی وجہ تسمیہ بنا کر اس دن کے روزے کوہزاری روزہ کہتے ہیں ۔ یہ بھی بدعت اور خودسا ختہ رسم ہے ،جس کی بے اصلیت درج ذیل مستند فتوی میں دیکھی جاسکتی ہے۔ فتاوی رشیدیہ مع تالیفات رشیدیہ ص148 فتاویٰ دارالعلوم مدلل و مکمل ج2 صفحہ491۔ فتاوی محمودیہ ج1ص184۔ ست مسائل صفحہ 5۔ عمدة الفقہ ج 3ص 195 ملاحظہ ہوں۔ ان کے علاوہ دیگر مستند کتب و فتاویٰ میں اس کے متعلق بہت اہتمام کے ساتھ تردید ہوئی ہے۔ لہٰذا !تمام مسلمانوں سے گذارش ہے کہ ان تمام تربدعات سے خود بھی بچیں اور اہل خانہ کو بھی ان رسومات محضہ کے متعلق وعیدات اور عذابوں کو بیان کرکے ان سے گریز کرنے کی دعوت دیں ،ورنہ قیامت کے دن بہت سخت ترین عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ رب کریم ہم سب کو ترک بدعات اور صراط مستقیم پر چلنا سکھا دے۔ آمین ثم آمین۔ |
ماہ رجب اور مسلمان
اسلامی دنیا میں یہ مہینہ رجب کے نام سے موسوم ہے۔ ایک ضعیف روایت یہ پھیلی ہوئی ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کی معراج اسی مہینہ میں ہوئی تھی۔ بہت سے مسلمان اسی روایت کو مان کراس مہینہ میں طرح طرح کی خوشی کرتے اور بہت سی رسمیں بجالاتے ہیں ۔ اول تو یہ روایت ہی ثبوت کو نہیں پہنچی ہے ،لیکن جو لوگ اس کے ماننے ہی پر زور دے رہے ہیں ، ذرا وہ اپنے دل میں سوچیں کہ اس کے ماننے کے بعد خوشی منانے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے؟ آیا وہی جس کے وہ عادی ہیں یا کچھ اور ؟ ایسا نہ ہو کہ ہم خوشی منانے کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کر بیٹھیں جو ہمارے رسول صلی الله علیہ وسلم کا ناپسند کیا ہوا اور ہمارے خدا کی ناخوشی کا باعث ہو۔
خوشی منانے کے دنیا میں بہت سے طریقے ہیں۔ بعض قومیں خوشی کے وقت شراب پیتی ہیں، بعض آتش بازی میں اپنا روپیہ پھونکتی ہیں، لیکن مسلمان کا کام تو یہ نہیں کہ ان طریقوں سے اپنی خوشی کو ظاہر کرے۔ اس لیے کہ ہمارے سچے مذہب نے ان سب صورتوں کو ہمارے لیے منع کر دیا ہے ۔ دنیا کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ان طریقوں سے نمائشی خوشی چند لمحوں کے لیے ہو جاتی ہے، لیکن بعد کو رنج او رتکلیف بہت زیادہ ہوتی ہے اور دل کی فرحت وراحت تو ایک لمحہ کے لیے بھی ان طریقوں سے نہیں ہوتی۔ مسلمان کو اتنانا سمجھ تو نہ ہونا چاہیے کہ اس کی ناسمجھی پر دوسری قومیں ہنسیں اور وہ دنیا میں بھی اپنا نقصان کرے اور آخرت میں بھی اس کو شرمندگی اور پچھتاوا ہو۔
مسلمان کو معراج کا مرتبہ تو خدا کے فضل وکرم سے روزانہ حاصل ہو سکتا ہے اور وہ بھی ایک بار نہیں، کم از کم پانچ بار۔ اس کی معراج نماز ہے۔ رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کو معراج میں خدا کی حضوری نصیب ہوئی تھی، امّت محمدی پر خدائے کریم کی یہ حد سے بڑھی ہوئی مہربانی ہے کہ اس کے ہر فرد کو دن میں کم از کم پانچ مرتبہ خدا کے دربار میں حاضری کے موقعے ہیں، پس جو لوگ واقعہٴ معراج نبوی صلی الله علیہ وسلم کو اس مہینہ میں مان کر اس کی زیادہ عزت وعظمت کرتے ہیں انہیں تو واجب ہے کہ اس مہینہ میں وہ خود بھی اس دولت کے حاصل کرنے کی اور زیادہ کوشش کریں اور نماز کو حضور قلب اور جماعت وطہارت کے ساتھ ادا کرنے میں پوری ہمت ومستعدی کو کام میں لائیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے دنیا میں بھی ان کے قلبکو راحت ومسرت حاصل ہو گی۔ سب بھائی بھائی امن اور چین سے رہیں گے اور آخرت میں خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی خوش نودی کی دولت ہاتھ آئے گی۔
بہت سے ناواقف بھائی ( اور بہنیں) رجب کی پہلی جمعرات کو بہت سی رسمیں بجالاتے ہیں، اس مہینہ کی بعض تاریخوں میں بہت سی پوریاں پکا کر مٹھائی کے ساتھ ایک خاص مقام پر بیٹھ کر کھانا بڑا ثواب جانتے ہیں اور بعض راتوں کو خوب روشنی کرکے جلسہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ ساری باتیں بعض انسانوں نے دوسری قوموں کی دیکھا دیکھی دل سے گڑھ لی ہیں ، ان میں سے کوئی شے نہ خداکی بتائی ہوئی ہے ،نہ اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اور نہ کسی صحابی کی۔ بعض بزرگوں نے اس مہینہ میں چند نمازوں کا خاص ثواب لکھا ہے ۔ اکثر علماء کے نزدیک یہ رائے بھی صحیح نہیں لیکن اگر صحیح بھی ہو تو بہرحال نماز ہی کی فضیلت رہی ۔ باقیتیل ، بتی، گھی ، شکر ، میدہ وغیرہ پر روپیہ پھینکنے کا حکم کسی مستند صوفی، کسی سچے فقیر، کسی صاحب دل نے بھی کہیں نہیں دیا ہے ۔ مسلمان کا کام یہ ہے کہ بری رسموں سے دوسروں کو بچائے، نہ یہ کہ دوسروں کی بری رسمیں خود اختیار کرے۔
اسلامی جنتری میں ساتواں مہینہ رجب کا کہلاتا ہے۔ ہندوستان میں اس کی خاص شہرت اس بنا پر ہے کہ اس مہینہ کی چھٹی تاریخ کو یہاں کے ایک مشہور ولی خواجہ معین الدین حسن چشتی نے اس دار فانی سے رحلت فرمائی تھی اور اسی مہینہ کے ابتدائی عشرہ میں ان کا عرس بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ عرس کے موقع پر جو بہت سی مخالف شرع رسمیں انجام دی جاتی ہیں ، ان پر بے شبہ ماتم کیجیے کہ آج کوئی بھی اسلامی شعار اپنی اصلیت پر نہیں قائم ہے ،لیکن کیا آپ کو نفس واقعہ کی اہمیت سے انکار ہے ؟کیا خواجہ کی شخصیت کی عظمت آپ کے دل میں نہیں؟ کیا خواجہ کی زندگی اور موت دونوں کے بابرکت ہونے میں آپ کو شبہ ہے؟ الله کے نیک اور بزگزیدہ بندوں کی زندگی او رموت دونوں بابرکت ہوتی ہیں، کیا خواجہ کی شخصیت اس قانون سے مستثنیٰ ہے؟
وہ ایک شخص تھا جس نے اپنا رشتہ ماسوا سے توڑ کر الله سے جوڑ رکھا تھا۔ وہ ایک شخص تھا جس کی عمر کی ایک ایک گھڑی طاعت الہٰی میں بسر ہوتی تھی۔ وہ ایک شخص تھا جس کی زندگی صدق وصفا، زہد وتقویٰ ، عبادت وطہارت کی عملی تفسیر تھی، وہ ہندوستان میں آیا اور تن تنہا ایسے وقت آیا جب سارا ملک گم راہی وجہالت سے گونج رہا تھا، اس اکیلے نے بے یارومددگار اس کفروشرک کی سر زمین پر توحید کا جھنڈا بلند کیا۔ اس کی تبلیغ ہماری انجمنوں کی طرح نمائشی نہ تھی، اس کی تبلیغ سچی تبلیغ تھی۔ اس کے سینہ سے جو سانس نکلتی تھی تبلیغ کرتی تھی۔ اس کے جسم کارُواں رُواں دعوت اسلام کا کام کررہا تھا۔ اس پر بلائیں آئیں، آفتیں ٹوٹیں، مصیبتیں امڈیں، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اس سر زمین پر اسلام وتوحید کا پودا لگا دیا۔ اس کے پاس نہ کوئی سرمایہ تھا نہ خزانہ ، نہ فوج تھی نہ سپاہی، نہ توپ تھی نہ تلوار، نہ لیکچر تھے نہ رسالے، البتہ سچائی کا سرمایہ تھا، خلوص کی فوج تھی اور صداقت کی تلوار تھی، وہ اس سچے سرکار صلی الله علیہ وسلم کا سچا سپاہی تھا، جو ساری دنیا کے لیے اتھاہ پریم کاسا گر بن کر آیا تھا، اس نے اپنے اسی پریم کے بل سے سب کے دلوں کو موہ لیا۔
بڑ ے بڑے راکشس اس کے مٹانے اور دبانے کو جھپٹے، پر آپ ہی اس سے ٹکڑا کر چکنا چور ہو کر رہ گئے ۔ کیا خواجہ کے زمانہ میں بھی مسلمانان ہند کی تعداد سات کروڑ تھی؟ کیا خواجہ کے پاس بھی کسی تبلیغی انجمن کا کوئی بڑا دفتر تھا؟ کیا خواجہ بھی پوسٹروں کے ذریعہ سے تبلیغ کا کام انجام دیتے تھے؟ پھر یہ کیا ہے کہ خواجہ ، باوجود اس بے سروسامانی کے، باوجود اپنی تنہائی کے، باوجود بے یارومددگار ہونے کے کام یاب ہو گئے اور ہم باوجود اپنے ذرائع وسائل کے، باوجود اپنے اخبار ورسائل کے،باوجود اپنی انجمنوں اوراپنے دفتروں کے، باوجود اپنی کثرت تعداد کے قدم قدم پر ناکام ہو رہے ہیں؟ کیا خواجہ کی زندگی سے ہم کوئی سبق اور ہدایت نہیں حاصل کرسکتے؟ آپ کہتے ہیں کہ خواجہ کے مزار پر جانا ناجائز ہے، اس لیے کہ وہاں بہت سے مراسم شرک ادا کیے جاتے ہیں، لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ خواجہ کے مزار پر جاکر بجائے ان سے اولاد مانگنے کے، بجائے ان سے مقدمہ میں اپنی جیت چاہنے کے ، بجائے ان سے کسی بڑے عہدہ کی طلب کرنے کے ، محض یہ تصور جمائیں، دل میں یہ نقشہ قائم کریں ، دماغ کے اندر یہ سبھار چائیں کہ جس قادر مطلق نے بے یارومدد گار، یک وتنہا معین الدین حسن سنجری سے بت کدہٴ ہند میں اشاعت اسلام ودعوت توحید کا کام لیا، وہی ہماری نیتوں میں خلوص، ہمارے دلوں میں ایمان، ہماری ہمتوں میں استقامت نصیب کرے اور جو فیضان الہٰی اجمیر کے اس اچھے اور سچے بندے کے حصہ میں آیا تھاکاش! اس کا عشر عشیر ،اس کا کوئی ادنیٰ حصہ بھی ہم بدکار وخطا شعار بندوں کے حصہ میں آجائے ! کیا یہ تصور بھی مشرکانہ ہے؟ کیا دل میں اس آرزو کا پیدا ہونا اور لب پر اس دعا کا آنا بھی کوئی جرم، کوئی معصیت ہے؟!
خوشی منانے کے دنیا میں بہت سے طریقے ہیں۔ بعض قومیں خوشی کے وقت شراب پیتی ہیں، بعض آتش بازی میں اپنا روپیہ پھونکتی ہیں، لیکن مسلمان کا کام تو یہ نہیں کہ ان طریقوں سے اپنی خوشی کو ظاہر کرے۔ اس لیے کہ ہمارے سچے مذہب نے ان سب صورتوں کو ہمارے لیے منع کر دیا ہے ۔ دنیا کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ان طریقوں سے نمائشی خوشی چند لمحوں کے لیے ہو جاتی ہے، لیکن بعد کو رنج او رتکلیف بہت زیادہ ہوتی ہے اور دل کی فرحت وراحت تو ایک لمحہ کے لیے بھی ان طریقوں سے نہیں ہوتی۔ مسلمان کو اتنانا سمجھ تو نہ ہونا چاہیے کہ اس کی ناسمجھی پر دوسری قومیں ہنسیں اور وہ دنیا میں بھی اپنا نقصان کرے اور آخرت میں بھی اس کو شرمندگی اور پچھتاوا ہو۔
مسلمان کو معراج کا مرتبہ تو خدا کے فضل وکرم سے روزانہ حاصل ہو سکتا ہے اور وہ بھی ایک بار نہیں، کم از کم پانچ بار۔ اس کی معراج نماز ہے۔ رسول خدا صلی الله علیہ وسلم کو معراج میں خدا کی حضوری نصیب ہوئی تھی، امّت محمدی پر خدائے کریم کی یہ حد سے بڑھی ہوئی مہربانی ہے کہ اس کے ہر فرد کو دن میں کم از کم پانچ مرتبہ خدا کے دربار میں حاضری کے موقعے ہیں، پس جو لوگ واقعہٴ معراج نبوی صلی الله علیہ وسلم کو اس مہینہ میں مان کر اس کی زیادہ عزت وعظمت کرتے ہیں انہیں تو واجب ہے کہ اس مہینہ میں وہ خود بھی اس دولت کے حاصل کرنے کی اور زیادہ کوشش کریں اور نماز کو حضور قلب اور جماعت وطہارت کے ساتھ ادا کرنے میں پوری ہمت ومستعدی کو کام میں لائیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے دنیا میں بھی ان کے قلبکو راحت ومسرت حاصل ہو گی۔ سب بھائی بھائی امن اور چین سے رہیں گے اور آخرت میں خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی خوش نودی کی دولت ہاتھ آئے گی۔
بہت سے ناواقف بھائی ( اور بہنیں) رجب کی پہلی جمعرات کو بہت سی رسمیں بجالاتے ہیں، اس مہینہ کی بعض تاریخوں میں بہت سی پوریاں پکا کر مٹھائی کے ساتھ ایک خاص مقام پر بیٹھ کر کھانا بڑا ثواب جانتے ہیں اور بعض راتوں کو خوب روشنی کرکے جلسہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ ساری باتیں بعض انسانوں نے دوسری قوموں کی دیکھا دیکھی دل سے گڑھ لی ہیں ، ان میں سے کوئی شے نہ خداکی بتائی ہوئی ہے ،نہ اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اور نہ کسی صحابی کی۔ بعض بزرگوں نے اس مہینہ میں چند نمازوں کا خاص ثواب لکھا ہے ۔ اکثر علماء کے نزدیک یہ رائے بھی صحیح نہیں لیکن اگر صحیح بھی ہو تو بہرحال نماز ہی کی فضیلت رہی ۔ باقیتیل ، بتی، گھی ، شکر ، میدہ وغیرہ پر روپیہ پھینکنے کا حکم کسی مستند صوفی، کسی سچے فقیر، کسی صاحب دل نے بھی کہیں نہیں دیا ہے ۔ مسلمان کا کام یہ ہے کہ بری رسموں سے دوسروں کو بچائے، نہ یہ کہ دوسروں کی بری رسمیں خود اختیار کرے۔
اسلامی جنتری میں ساتواں مہینہ رجب کا کہلاتا ہے۔ ہندوستان میں اس کی خاص شہرت اس بنا پر ہے کہ اس مہینہ کی چھٹی تاریخ کو یہاں کے ایک مشہور ولی خواجہ معین الدین حسن چشتی نے اس دار فانی سے رحلت فرمائی تھی اور اسی مہینہ کے ابتدائی عشرہ میں ان کا عرس بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ عرس کے موقع پر جو بہت سی مخالف شرع رسمیں انجام دی جاتی ہیں ، ان پر بے شبہ ماتم کیجیے کہ آج کوئی بھی اسلامی شعار اپنی اصلیت پر نہیں قائم ہے ،لیکن کیا آپ کو نفس واقعہ کی اہمیت سے انکار ہے ؟کیا خواجہ کی شخصیت کی عظمت آپ کے دل میں نہیں؟ کیا خواجہ کی زندگی اور موت دونوں کے بابرکت ہونے میں آپ کو شبہ ہے؟ الله کے نیک اور بزگزیدہ بندوں کی زندگی او رموت دونوں بابرکت ہوتی ہیں، کیا خواجہ کی شخصیت اس قانون سے مستثنیٰ ہے؟
وہ ایک شخص تھا جس نے اپنا رشتہ ماسوا سے توڑ کر الله سے جوڑ رکھا تھا۔ وہ ایک شخص تھا جس کی عمر کی ایک ایک گھڑی طاعت الہٰی میں بسر ہوتی تھی۔ وہ ایک شخص تھا جس کی زندگی صدق وصفا، زہد وتقویٰ ، عبادت وطہارت کی عملی تفسیر تھی، وہ ہندوستان میں آیا اور تن تنہا ایسے وقت آیا جب سارا ملک گم راہی وجہالت سے گونج رہا تھا، اس اکیلے نے بے یارومددگار اس کفروشرک کی سر زمین پر توحید کا جھنڈا بلند کیا۔ اس کی تبلیغ ہماری انجمنوں کی طرح نمائشی نہ تھی، اس کی تبلیغ سچی تبلیغ تھی۔ اس کے سینہ سے جو سانس نکلتی تھی تبلیغ کرتی تھی۔ اس کے جسم کارُواں رُواں دعوت اسلام کا کام کررہا تھا۔ اس پر بلائیں آئیں، آفتیں ٹوٹیں، مصیبتیں امڈیں، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اس سر زمین پر اسلام وتوحید کا پودا لگا دیا۔ اس کے پاس نہ کوئی سرمایہ تھا نہ خزانہ ، نہ فوج تھی نہ سپاہی، نہ توپ تھی نہ تلوار، نہ لیکچر تھے نہ رسالے، البتہ سچائی کا سرمایہ تھا، خلوص کی فوج تھی اور صداقت کی تلوار تھی، وہ اس سچے سرکار صلی الله علیہ وسلم کا سچا سپاہی تھا، جو ساری دنیا کے لیے اتھاہ پریم کاسا گر بن کر آیا تھا، اس نے اپنے اسی پریم کے بل سے سب کے دلوں کو موہ لیا۔
بڑ ے بڑے راکشس اس کے مٹانے اور دبانے کو جھپٹے، پر آپ ہی اس سے ٹکڑا کر چکنا چور ہو کر رہ گئے ۔ کیا خواجہ کے زمانہ میں بھی مسلمانان ہند کی تعداد سات کروڑ تھی؟ کیا خواجہ کے پاس بھی کسی تبلیغی انجمن کا کوئی بڑا دفتر تھا؟ کیا خواجہ بھی پوسٹروں کے ذریعہ سے تبلیغ کا کام انجام دیتے تھے؟ پھر یہ کیا ہے کہ خواجہ ، باوجود اس بے سروسامانی کے، باوجود اپنی تنہائی کے، باوجود بے یارومددگار ہونے کے کام یاب ہو گئے اور ہم باوجود اپنے ذرائع وسائل کے، باوجود اپنے اخبار ورسائل کے،باوجود اپنی انجمنوں اوراپنے دفتروں کے، باوجود اپنی کثرت تعداد کے قدم قدم پر ناکام ہو رہے ہیں؟ کیا خواجہ کی زندگی سے ہم کوئی سبق اور ہدایت نہیں حاصل کرسکتے؟ آپ کہتے ہیں کہ خواجہ کے مزار پر جانا ناجائز ہے، اس لیے کہ وہاں بہت سے مراسم شرک ادا کیے جاتے ہیں، لیکن کیا یہ ممکن نہیں کہ خواجہ کے مزار پر جاکر بجائے ان سے اولاد مانگنے کے، بجائے ان سے مقدمہ میں اپنی جیت چاہنے کے ، بجائے ان سے کسی بڑے عہدہ کی طلب کرنے کے ، محض یہ تصور جمائیں، دل میں یہ نقشہ قائم کریں ، دماغ کے اندر یہ سبھار چائیں کہ جس قادر مطلق نے بے یارومدد گار، یک وتنہا معین الدین حسن سنجری سے بت کدہٴ ہند میں اشاعت اسلام ودعوت توحید کا کام لیا، وہی ہماری نیتوں میں خلوص، ہمارے دلوں میں ایمان، ہماری ہمتوں میں استقامت نصیب کرے اور جو فیضان الہٰی اجمیر کے اس اچھے اور سچے بندے کے حصہ میں آیا تھاکاش! اس کا عشر عشیر ،اس کا کوئی ادنیٰ حصہ بھی ہم بدکار وخطا شعار بندوں کے حصہ میں آجائے ! کیا یہ تصور بھی مشرکانہ ہے؟ کیا دل میں اس آرزو کا پیدا ہونا اور لب پر اس دعا کا آنا بھی کوئی جرم، کوئی معصیت ہے؟!
ماہ رجب اور واقعہٴ معراج النبی ﷺ
اسلامی سال کا ساتواں مہینہ رجب المرجب ہے۔ رجب اُن چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں الله تبارک وتعالی نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے :﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّہُورِ عِندَ اللّہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْراً فِیْ کِتَابِ اللّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ﴾․(سورة التوبہ، آیت:36)
الله کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہیں، جو الله کی کتاب (یعنی لوح محفوظ) کے مطابق اُس دن سے نافذ ہیں جس دن الله نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے ہیں… ان چار مہینوں کی تحدیث قرآن کریم میں نہیں ہے، بلکہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کو بیان فرمایا ہے اور وہ یہ ہیں ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب، معلوم ہوا کہ حدیث نبوی کے بغیر قرآن کریم نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ ان چار مہینوں کو اشہر حرم کہا جاتا ہے۔ ان مہینوں کو حرمت والے مہینے اس لیے کہتے ہیں کہ ان میں ہر ایسے کام جو فتنہ وفساد، قتل وغارت گری او رامن وسکون کی خرابی کا باعث ہو، سے منع فرمایا گیا ہے، اگرچہ لڑائی جھگڑا سال کے دیگر مہینوں میں بھی حرام ہے، مگر ان چار مہینوں میں لڑائی جھگڑا کرنے سے خاص طور پر منع کیا گیا ہے۔ ان چار مہینوں کی حرمت وعظمت پہلی شریعتوں میں بھی مسلّم رہی ہے، حتی کہ زمانہ جاہلیت میں بھی ان چار مہینوں کا احترام کیا جاتا تھا۔ رجب کا مہینہ شروع ہونے پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم الله تعالیٰ سے یہ دعا مانگا کرتے تھے” اللھم بارک لنا فی رجب وشعبان، وبلغنا رمضان“ اے الله! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمیں برکت عطا فرما اور ماہ رمضان تک ہمیں پہنچا۔ ( مسند احمد، بزار، طبرانی، بیہقی) لہٰذا ماہ رجب کے شروع ہونے پر ہم یہ دعایا اس مفہوم پر مشتمل دعا مانگ سکتے ہیں۔اس دعا سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک رمضان کی کتنی اہمیت تھی کہ ماہِ رمضان کی عبادت کو حاصل کرنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم رمضان سے دو ماہ قبل دعاؤں کا سلسلہ شروع فرما دیتے تھے۔ ماہ رجب کو بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعائے برکت حاصل ہوئی، جس سے ماہِ رجب کا کسی حد تک مبارک ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ماہ رجب میں کسی خاص نماز پڑھنے کا یا کسی معین دن کے روزے رکھنے کی خاص فضیلت کا کوئی ثبوت احادیث صحیحہ سے نہیں ملتا ہے۔ نماز وروزہ کے اعتبار سے یہ مہینہ دیگر مہینوں کی طرح ہی ہے۔ البتہ رمضان کے پورے ماہ کے روزے رکھنا ہر بالغ مسلمان مرد وعورت پر فرض ہیں او رماہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کی ترغیب احادیث میں موجود ہے۔ ماہ رجب میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کوئی عمرہ ادا کیا یا نہیں؟ اس بارے میں علماء ومؤرخین کی رائے مختلف ہیں۔ البتہ دیگر مہینوں کی طرح ماہ رجب میں بھی عمرہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ اسلاف سے بھی اس ماہ میں عمرہ ادا کرنے کے ثبوت ملتے ہیں۔ البتہ رمضان کے علاوہ کسی اور ماہ میں عمرہ ادا کرنے کی کوئی خاص فضیلت احادیث میں موجود نہیں ہے۔ واقعہ معراج النبی ﷺ اس واقعہ کی تاریخ اور سال کے متعلق مؤرخین او راہل سیر کی رائے مختلف ہیں، ان میں سے ایک رائے یہ ہے کہ نبوت کے بارہویں سال 27/رجب کو51 سال5 مہینہ کی عمر میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو معراج ہوئی، جیسا کہ علامہ قاضی محمد سلیمان منصورپوری رحمة الله علیہ نے اپنی کتاب ”مہر نبوت“ میں تحریر فرمایا ہے۔ اسراء کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں۔ مسجد حرام( مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ کا سفر ،جس کا تذکرہ سورہٴ بنی اسرائیل﴿سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی﴾ میں کیا گیا ہے، اس کو اسراء کہتے ہیں ۔ اور یہاں سے و ہ سفر آسمانوں کی طرف ہوا، اس کا نام معراج ہے، معراج عروج سے نکلا ہے، جس کے معنی چڑھنے کے ہیں۔حدیث میں ” عرج بی“ یعنی مجھ کو اوپر چڑھایا گیا کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس لیے اس سفر کا نام معراج ہو گیا۔ اس مقدس واقعہ کو اسراء او رمعراج دونوں ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس واقعہ کا ذکر سورہٴ نجم کی آیات میں بھی ہے:﴿ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی،فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْْنِ أَوْ أَدْنَی ، فَأَوْحَی إِلَی عَبْدِہِ مَا أَوْحَی﴾ پھر وہ قریب آیا او رجھک پڑا، یہاں تک کہ وہ دو کمانوں کے فاصلے کے برابر قریب آگیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک، اس طرح الله کو اپنے بندے پر جو وحی نازل فرمائی تھی، وہ نازل فرمائی۔ سورہ النجم کی آیات18-13 میں وضاحت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے (اس موقع پر) بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں:﴿وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَةً أُخْرَی، عِندَ سِدْرَةِ الْمُنْتَہَی، عِندَہَا جَنَّةُ الْمَأْوَی ، ِذْ یَغْشَی السِّدْرَةَ مَا یَغْشَی ، مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی ، لَقَدْ رَأَی مِنْ آیَاتِ رَبِّہِ الْکُبْرَی﴾ اور حقیقت یہ ہے انہوں نے اس ( فرشتے) کو ایک او رمرتبہ دیکھا ہے۔ اس بیر کے درخت کے پاس، جس کا نام سدرة المنتہی ہے، اسی کے پاس جنت الماویٰ ہے، اس وقت اس بیر کے درخت پر وہ چیزیں چھائی ہوئی تھیں جو بھی اس پر چھائی ہوئی تھیں۔ (نبی کی) آنکھ نہ تو چکرائی اور نہ حد سے آگے بڑھی، سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بہت کچھ دیکھا ہے۔ احادیث متواترہ سے ثابت ہے، یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی ایک بڑی تعدا سے معراج کے واقعہ سے متعلق احادیث مروی ہیں۔ انسانی تاریخ کا سب سے لمبا سفر قرآن کریم اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے کہ اسراء ومعراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں ،بلکہ جسمانی تھا، یعنی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا یہ سفر کوئی خواب نہیں تھا، بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ مختلف مراحل سے گزر کر اتنا بڑا سفر، الله تعالیٰ نے اپنی قدرت سے صرف رات کے ایک حصہ میں مکمل کر دیا۔ الله تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا پیدا کرنے والا ہے، اس کے لیے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے، کیوں کہ وہ تو قادر مطلق ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے تو ارادہ کرنے پر چیز کا وجود ہو جاتا ہے۔ معراج کا واقعہ پوری انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم، مبارک اور بے نظیر معجزہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خالق کائنات نے اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کو دعوت دے کر، اپنا مہمان بنانے کا وہ شرف عظیم عطا فرمایا جو نہ کسی انسان کو کبھی حاصل ہوا ہے او رنہ کسی مقرب ترین فرشتے کو۔ واقعہٴ معراج کا مقصد واقعہ معراج کے مقاصد میں جو سب سے مختصر او رعظیم بات قرآن کریم ( سورہ بنی اسرائیل) میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ( الله تعالیٰ) نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں… اس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اپنے حبیب محمد صلی الله علیہ وسلم کو وہ عظیم الشان مقام ومرتبہ دینا ہے جو کسی بھی بشر، حتی کہ کسی مقرب ترین فرشتہ کو نہیں ملا ہے او رنہ ملے گا نیز اس کے مقاصد میں امت مسلمہ کو یہ پیغام دینا ہے کہ نماز ایسا مہتم بالشان عمل اور عظیم عبادت ہے کہ اس کی فرضیت کااعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر، بلند واعلیٰ مقام پر، معراج کی رات میں ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت ں کے ذریعہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم تک نہیں پہنچا ،بلکہ الله تعالیٰ نے فرضیتِ نماز کا تحفہ بذات خود اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ نماز الله جل شانہ سے تعلق قائم کرنے اور اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کو مانگنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ نماز میں الله تبارک وتعالی سے مناجات ہوتی ہے۔ واقعہٴ معراج کی مختصر تفصیل اس واقعہ کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس سونے کا طشت لایا گیا، جو حکمت او رایمان سے پُر تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم کا سینہ چاک کیا گیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا گیا، پھر اسے حکمت اورایمان سے بھر دیا گیا اور پھر بجلی کی رفتار سے زیادہ تیز چلنے والی ایک سواری یعنی براق لایا گیا، جو لمبا سفید رنگ کا چوپایا تھا، اس کا قد گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا وہ اپنا قدم وہاں رکھتا تھا، جہاں تک اس کی نظر پڑتی تھی۔ اس پر سوار کرکے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو بیت المقدس لے جایا گیا اور وہاں تمام انبیائے کرام نے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھی۔ پھر آسمانوں کی طرف لے جایا گیا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام، دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام، تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد البیت المعمور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے سامنے کر دیا گیا، جہاں روزانہ ستر ہزار فرشتے الله کی عبادت کے لیے داخل ہوتے ہیں، جو دوبارہ اس میں لوٹ کر نہیں آتے۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کو سدرة المنتہی تک لے جایا گیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس کے پتے اتنے بڑے ہیں جیسے ہاتھی کے کان ہوں او راس کے پھل اتنے بڑے بڑے ہیں جیسے مٹکے ہوں۔ جب سدرة المنتہی کو الله کے حکم سے ڈھانکنے والی چیزوں نے ڈھانک لیا تو اس کا حال بدل گیا، الله کی کسی بھی مخلوق میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کے حسن کو بیان کر سکے۔ سدرة المنتہی کی جڑ میں چار نہریں نظر آئیں، دو باطنی نہریں اور دو ظاہری نہریں۔ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے دریافت کرنے پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ باطنی دو نہریں جنت کی نہریں ہیں اور ظاہری دو نہریں فرات اور نیل ہیں( فرات عراق اور نیل مصر میں ہے)۔ نماز کی فرضیت اس وقت الله تبارک وتعالی نے ان چیزوں کی وحی فرمائی جن کی وحی اس وقت فرمانی تھی اور پچاس نمازیں فرض کیں۔ واپسی پر حضرت موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر حضو راکرم صلی االله علیہ وسلم چند مرتبہ الله تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوئے او رنماز کی تخفیف کی درخواست کی۔ ہر مرتبہ پانچ نمازیں معاف کر دی گئیں، یہاں تک کہ صرف پانچ نمازیں رہ گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر بھی مزید تخفیف کی بات کہی، لیکن اس کے بعد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کہا کہ مجھے اس سے زیادہ تخفیف کا سوال کرنے میں شرم محسوس ہوتی ہے اور میں الله کے اس حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔ اس پر الله تعالیٰ کی طرف سے یہ ندا دی گئی:﴿ لا یبدل القول لدی․﴾ کہ میرے پاس بات بدلی نہیں جاتی ہے یعنی میں نے اپنے فریضہ کا حکم باقی رکھا اور اپنے بندوں سے تخفیف کر دی اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس بنا کر دیتا ہوں۔ غرض کہ ادا کرنے میں پانچ ہیں اور ثواب میں پچاس ہی ہیں۔ نماز کی فرضیت کے علاوہ دیگر دو انعام اس موقعہ پر حضور اکرم صلی الله علیہ سلم کو الله تعالیٰ سے انسان کا رشتہ جوڑنے کا سب سے اہم ذریعہ ،یعنی نماز کی فرضیت کا تحفہ ملا اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا اپنی امت کی فکر اور الله کے فضل وکرم کی وجہ سے پانچ نماز کی ادائیگی پر پچاس نمازوں کا ثواب دیا جائے گا۔ سورة البقرہ کی آخری دو آیات ﴿ آمن الرسولُ﴾ سے لے کر آخر تک) عنایت فرمائی گئی۔ اس قانون کا اعلان کیا گیاکہ حضور صلی الله علیہ و سلم کے امتیوں کے شرک کے علاوہ تمام گناہوں کی معافی ممکن ہے، یعنی کبیرہ گناہوں کی وجہ سے ہمیشہ عذاب میں نہیں رہیں گے، بلکہ توبہ سے معاف ہو جائیں گے یا عذاب بھگت کر چھٹکارا مل جائے گا، البتہ کافر او رمشرک ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ معراج میں دیدار الھی زمانہٴ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے کہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم شب معراج میں دیدار خداوندی سے مشرف ہوئے یا نہیں؟ او راگر رؤیت ہوئی تو وہ رؤیت بصری تھی یا رؤیت قلبی تھی؟ البتہ ہمارے لیے اتنا مان لینا ان شاء الله کافی ہے کہ یہ واقعہ برحق ہے، یہ واقعہ رات کے صرف ایک حصہ میں ہوا، نیز بیداری کی حالت میں ہوا ہے اور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا یہ ایک بڑا معجزہ ہے۔ قریش کی تکذیب اور ان پر حجت قائم ہونا رات کے صرف ایک حصہ میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جانا، انبیائے کرام کی امامت کرنا، پھر وہاں سے آسمانوں تک تشریف لے جانا، انبیائے کرام سے ملاقات او رپھر الله جل شانہکے دربار میں حاضری، جنت ودوزخ کو دیکھنا، مکہ مکرمہ تک واپس آنا اور واپسی پر قریش کے ایک تجارتی قافلہ سے ملاقات ہونا، جو ملک شام سے واپس آرہا تھا۔ جب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے صبح کو معراج کا واقعہ بیان کیا تو قریش تعجب کرنے لگے او رجھٹلانے لگے او رحضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے پاس گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے فرمایا کہ اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو سچ فرمایا ہے۔ اس پر قریش کے لوگ کہنے لگے کہ کیا تم اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ عجیب باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آسمانوں سے آپ کے پاس خبر آتی ہے۔ اسی وجہ سے ان کا لقب صدیق پڑ گیا۔ اس کے بعد جب قریش مکہ کی جانب سے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے بیت المقدس کے احوال دریافت کیے گئے تو الله تبارک نے بیت المقدس کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے لیے روشن فرما دیا، اُس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم حطیم میں تشریف فرما تھے۔ قریش مکہ سوال کرتے جارہے تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم جواب دیتے جارہے تھے۔ سفر معراج کے بعض مشاہدات اس اہم وعظیم سفر میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو جنت ودوزخ کے مشاہدہ کے ساتھ مختلف گناہ گاروں کے احوال بھی دکھائے گئے، جن میں سے بعض گناہ گاروں کے احوال اس جذبہ سے تحریر کر رہا ہوں کہ ان گناہوں سے ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔ کچھ لوگ اپنے سینوں کو ناخنوں سے چھیل رہے تھے حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر گزرا جن کے ناخون تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اورسینوں کو چھیل رہے تھے۔ میں نے جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں ( یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) او ران کے بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔ (ابوداؤد) سود خوروں کی بدحالی حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے سیر کرائی گئی میں ایسے لوگوں پر بھی گزرا جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے جیسے ( انسانوں کے رہنے کے) گھر ہوتے ہیں ،ان میں سانپ تھے ،جو باہر سے ان کے پیٹوں میں نظر آرہے تھے۔ میں نے کہا کہ اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا یہ سود کھانے والے ہیں۔ ( مشکوٰة المصابیح) کچھ لوگوں کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے آپ صلی الله علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے، کچل جانے کے بعد پھر ویسے ہی ہو جاتے تھے، جیسے پہلے تھے۔ اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا، ختم نہیں ہو رہا تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ لوگ نماز میں کاہلی کرنے والے ہیں۔ (انوار السراج فی ذکر الاسراء والمعراج، شیخ مفتی عاشق الہٰی) زکوٰة نہ دینے والوں کی بدحالی آپ صلی الله علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کی شرم گاہوں پر آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے ہیں او راونٹ وبیل کی طرح چرتے ہیں او رکانٹے دار وخبیث درخت اور جہنم کے پتھر کھا رہے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوٰة ادا نہیں کرتے ہیں۔( انوار السراج فی ذکر الاسراء والمعراج، شیخ مفتی عاشق الہٰی) سڑا ہوا گوشت کھانے والے لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے، یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں او رپکا ہوا گوشت نہیں کھا رہے ہیں ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال اور طیب عورت موجود ہے، مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورت کے ساتھ شب باشی کرتے ہیں اور صبح تک اسی کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ عورتیں ہیں جو حلال اور طیب شوہر کو چھوڑ کر کسی زانی اور بد کار شخص کے ساتھ رات گزارتی ہیں۔ (انوار السرج فی ذکر الاسراء والمعراج، شیخ مفتی عاشق الہٰی) سدرة المنتہی کیا ہے؟ احادیث میں سدرة المنتہی اور السدرة المنتہی دونوں طرح استعمال ہوا ہے ۔ قرآن کریم میں سدرة المنتہی استعمال ہوا ہے ۔ سدرة کے معنی بیر کے ہیں او رمنتہی کے معنی انتہا ہونے کی جگہ کے ہیں۔ اس درخت کا یہ نام رکھنے کی وجہ صحیح مسلم میں اس طرح ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اوپر سے جو احکام نازل ہوتے ہیں وہ اسی پر منتہی ہو جاتے ہیں اور جو بندوں کے اعمال نیچے سے اوپر جاتے ہیں وہ وہاں پر ٹھہر جاتے ہیں، یعنی آنے والے احکام پہلے وہاں آتے ہیں، پھر وہاں سے نازل ہوتے ہیں اور نیچے سے جانے والے جو اعمال ہیں وہ وہاں ٹھہرجاتے ہیں پھر اوپر اٹھائے جاتے ہیں۔ واقعہٴ معراج النبی صلی الله علیہ وسلم سے متعلق کوئی خاص عبادت ہر سال ہمارے لیے مسنون یا ضروری نہیں ہے۔ تاریخ کے اس بے مثال واقعہ کو بیان کرنے کا اہم مقصد یہ ہے کہ اس عظیم الشان واقعہ کی کسی حد تک تفصیلات سے واقف ہوں اور ہم اُن گناہوں سے بچیں جن کے ارتکاب کرنے والوں کا برا انجام نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس سفر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر امت کو بیان فرمایا۔ الله تبارک وتعالیٰ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور دونوں جہاں کی کام یابی وکام رانی عطا فرمائے۔ آمین! |
ماہِ رجب میں کی جانے والی بدعات |
رتبے کے اعتبار سے عبادات کی دو قسمیں
کتب ِ احادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انسان جتنی بھی عبادات سرانجام دیتا ہے ان کی اللہ رب العزت کے ہاں مرتبے کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں،ایک :جو مکان کے بدلنے کے ساتھ مرتبے کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہیں، دوسری:جو زمانے کے بدلنے سے مرتبے کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہیں۔
پہلی قسم کی مثال:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ، ارشاد فرمایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے : ”کسی شخص کا اپنے گھر میں اکیلے نماز ادا کرنا ایک نماز کے برابر اجر رکھتا ہے اور محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنا پچیس نمازوں کے برابراجر رکھتا ہے اورجامع مسجد میں نماز ادا کرنا پانچ سو نمازوں کے برابراجر رکھتاہے اورمسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرناپچاس ہزار نمازوں کے برابر اجر رکھتا ہے اور مسجد حرام میں نماز ادا کرنا ایک لاکھ نمازوں کے برابر اجر رکھتا ہے اور مسجد نبوی میں نماز ادا کرنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر اجر رکھتا ہے “۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،رقم الحدیث:7008، دارالحرمین،بیروت)
اسی طرح حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”جو شخص اپنے گھر میں وضو کر کے مسجدِ قباء میں آئے اور وہاں نماز ادا کرے تو اس کے لیے ایک عمرہ ادا کرنے کے برابر اجر لکھا جاتا ہے۔“(سنن ابن ماجہ،باب ما جاء فی الصلاة فی مسجد قباء،رقم الحدیث:1412،داراحیاء الکتب العربیہ)
ان دونوں مثالوں میں دیکھیں کہ مکان بدلا،جگہ بدلی تو عبادت کی قیمت بھی بدلتی گئی،ایک ہی نماز ہے، لیکن اس کا اجر ،جگہ کے بدلنے سے کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔
اب دوسری قسم کی مثال دیکھیں:ایک شخص کسی بھی عام دن میں روزہ رکھے تو اسے ایک روزے کا اجر ملے گا،لیکن رمضان کا ایک روزہ اتنا اجر رکھتا ہے کہ ساری زندگی روزے رکھنے کا اتنا اجر نہیں بن سکتا،اسی طرح کچھ دوسرے ایام ہیں جن میں روزے کا اجر بدلتا جاتا ہے،مثلاً:حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے9 ذی الحجہ کے دن روزہ رکھنے کے اجر کے بارے میں سوال کیا گیا ، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”اس ایک دن کا روزہ رکھنا اس شخص کے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے“۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث:1162،بیت الافکار)
دوسری روایت میں ہے کہ ارشاد فرمایا:”اس دن کاروزہ موجودہ گذرنے والے سال اور آنے والے سال کے (صغیرہ )گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے“۔(المعجم الکبیر:5089،مکتبة العلوم والحکم)۔”اسی طرح 9 اور10 محرم کا روزہ بھی ایک سال گذشتہ کے (صغیرہ)گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے“۔(صحیح مسلم،رقم:1162،بیت الافکار)
اس کے علاوہ کسی بھی نفل عمل کے بارے میں دیکھیں کہ عام دنوں میں اس کا ایک ہی اجر ہے، لیکن یہی نفل عمل رمضان المبارک میں فرائض کے برابر حصول ِ اجر کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ دن میں ادا کی گئی نفل نماز اور رات کے وقت ادا کی گئی نفل نماز (نمازِ تہجد)کے اجر میں زمین آسمان کا فرق ہے،نمازِ تہجد کو حدیثِ پاک میں ”افضل الصلاة بعد الفریضة“کہا گیا ہے۔(صحیح مسلم ،رقم الحدیث:1163،بیت الافکار)اور پھر صرف اسی پر بس نہیں، بلکہ عام راتوں میں اد ا کی گئی نفل نمازیں ایک طرف اور لیلة القدر کی ایک رات میں ادا کی گئی نفل نماز دوسری طرف،دونوں کے اجر میں شرق و غرب کا فرق ہے،اس کے بارے میں توفرمایا گیا کہ﴿لیلة القدر خیر من ألف شھر﴾۔
مندرجہ بالا مثالوں سے بخوبی واضح ہو چکا ہو گا کہ زمانے کے بدلنے سے اللہ کے ہاں عبادات کا بھی رتبہ بدل جاتا ہے ، لیکن اس جگہ ایک بات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے کہ مختلف زمانوں میں جن جن عبادات سے متعلق اجر و ثواب کی زیادتی بتلائی گئی ہے وہ سب کی سب ”منزّل من اللہ“ ہیں ،ان کے اجر و ثواب کی زیادتی کی خبر بذریعہ وحی بزبان ِ نبوت معلوم ہوئی ہے،انسان خود اپنی چاہت سے، اپنی سوچ سے، کسی خاص دن میں، کسی خاص عبادت کا الگ سے کوئی اجر مقرر نہیں کر سکتا۔
رجب کا مہینہ
چناں چہ سال کے خاص مہینوں میں ایک خاص مہینہ ”رجب المرجب “ بھی ہے،اس مہینے کی سب سے پہلی خصوصیت اس مہینے کا ”اشھر حرم “میں سے ہونا ہے۔(صحیح البخاری،کتاب بدء الخلق،باب ماجاء فی سبع أرضین،رقم الحدیث:3197،دار طوق النجاة)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:” ملتِ ابراہیمی میں یہ چار مہینے ادب واحترام کے تھے ،اللہ تعالی ٰ نے ان کی حرمت کو برقرار رکھا اور مشرکینِ عرب نے جو اس میں تحریف کی تھی اس کی نفی فرما دی“۔(معارف القرآن للکاندھلوی:431/3،بحوالہ حاشیہ سنن ابن ماجہ،ص:125)
رجب کی پہلی رات
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم رجب کے مہینہ کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرمایا کرتے تھے:”اللہم بارِک لنا في رجَب وشعبان و بلِّغْنا رمَضَان․“(مشکاة المصابیح،کتاب الجمعہ، الفصل الثالث،رقم الحدیث:1369،دارالکتب العلیہ) ترجمہ:اے اللہ ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرمااور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا دے۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ”یعنی ان مہینوں میں ہماری طاعت و عبادت میں برکت عطا فرمااور ہماری عمر دراز کر کے رمضان تک پہنچا، تا کہ رمضان کے اعمال روزہ اور تراویح وغیرہ کی سعادت حاصل کریں“۔(مرقاة المفاتیح:418/3،دارالکتب العلمیہ)
ماہِ رجب کے چاند کو دیکھ کر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم دعا فرماتے تھے ،اسی کے ساتھ بعض روایات سے اس رات میں قبولیتِ دعا کا بھی پتہ چلتا ہے ، جیسا کہ ”مصنف عبدالرزاق“میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :”پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں کی جاتی، وہ شبِ جمعہ،رجَب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں رات،عید الفطر کی رات اور عید الاضحیٰ کی رات“۔(مصنف عبد الرزاق،رقم الحدیث: 7927،4/317،المجلس العلمی)
ماہِ رجب میں روزے
رجب میں روزے رکھنے سے متعلق الگ سے کوئی خاص فضائل منقول نہیں ہیں ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک کتاب ”تبیین العجب بما ورد في فضل رجب“ لکھی،جس میں انہوں نے بہت سی ان احادیث کو جمع کر کے ان کی اسنادی حیثیت کو واضح کیا ہے جو فضائل ِ رجب سے متعلق نہایت ضعیف یا موضوع تھیں آپ نے فرمایا ”ماہِ رجب میں خاص رجب کی وجہ سے کسی روزے کی مخصوص فضیلت صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے۔“(تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب،مقدمہ،ص:11)۔
البتہ روزہ خود ایک نیک عمل ہے اور پھر رجب کا ”اشھرحرم“ میں سے ہونا ،تو یہ دونوں مل کے عام دنوں سے زائد حصول ِ اجر کا باعث بن جاتے ہیں، لہذا اس مہینے میں کسی بھی دن کسی خاص متعین اجر کے اعتقاد کے بغیر روزہ رکھنا یقینا مستحب اور حصول ِخیر کا ذریعہ ہو گا، حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ نے (امداد الفتاویٰ:2/85 میں)ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ:”……دوسری حیثیت رجب میں صرف” شہر ِ حرام“ ہونے کی ہے، جو اس(رجب)میں اور بقیہ اشہرحُرم میں مشترک ہے، پہلی حیثیت سے قطع نظر صرف اس دوسر ی حیثیت سے اس میں روزہ رکھنے کو مندوب فرمایا گیا“۔
چناں چہ کسی دن کو خاص کر کے روزہ رکھنے اور اس کے بارے میں عجیب و غریب فضائل بیان کرنے کی مثال 27رجب کا روزہ ہے ، جو عوام الناس میں ”ہزاری روزہ “ کے نام سے مشہور ہے۔(اس پر تفصیلی کلام آگے آرہا ہے)
ماہِ رجب کی بدعات
اسلام سے قبل ہی سے ماہِ رجب میں بہت سی رسومات اور منکرات رائج تھیں، جن کو اسلام نے یکسر ختم کرکے رکھ دیا،ان میں سے ایک رجب کے مہینے میں قربانی کا اہتمام ہے،جس کو قرآن پاک کی اصطلاح میں ”عتیرہ “ کے نام سے واضح کیا گیا ہے، اسی مہینے میں زکاة کی ادائیگی اور پھر موجودہ زمانے میں ان کے علاوہ بی بی فاطمہ کی کہانی ،22رجب کے کونڈوں کی رسم،27 رجب کی شب”جشنِ شب ِ معراج“اور اگلے دن کا روزہ جس کو”ہزاری روزہ “کہا جاتا ہے،وغیرہ وغیرہ سب ایسی رسومات و بدعات ہیں جن کا شرع شریف میں کوئی ثبوت نہیں ہے ،ذیل میں 27 رجب سے متعلق ہونے والی منکرات اور ہزاری روزے سے متعلق کچھ عرض کیا جائے گا۔
ستائیسویں رجب / شبِ معراج
رجب کی ستائیسویں شب میں موجودہ زمانے میں طرح طرح کی خرافات پائی جاتی ہیں ،اس رات حلوہ پکانا،رنگین جھنڈیاں ، آتش بازی اور مٹی کے چراغوں کو جلا کے گھروں کے درو دیوار پر رکھنا وغیرہ وغیرہ،جن کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر اِن کو عبادت اور ثواب سمجھ کے کیا جاتا ہے تو یہ بدعت کہلائیں گی کیوں کہ نہ تو اِن سب اُمور کو ہمارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بنفسِ نفیس کیا ،نہ ان کے کرنے کا حکم کیا اور نہ ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا اور نہ ہی کرنے کا حکم کیا۔اور اگر ان اُمور کو عبادت سمجھ کے نہیں کیا جاتا، بلکہ بطورِ رسم کیا جاتا ہے تو ان میں فضول خرچی،اسراف اور آتش بازی کی صورت میں جانی نقصان کا خدشہ، سب اُمور شرعاً حرام ہیں۔
اِن تمام اُمور کو اِس بنیاد پر سرانجام دیا جاتا ہے کہ 27 ویں رجب میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو سفرِ معراج کروایا گیا،عوام کے اس رات اِس اہتمام سے پتہ چلتا ہے کہ رجب کی ستائیسویں شب کو ہی حتمی اور قطعی طور پر شبِ معراج سمجھا جاتا ہے ،حالانکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو سفرِ معراج کب کروایا گیا؟ اِس بارے میں تاریخ،مہینے بلکہ سال میں بھی بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے،جس کی بنا پر ستائیسویں شب کو ہی شبِ معراج قرار دینا یکسر غلط ہے،اگرچہ مشہور قول یہی ہے۔
دوسری بات ! شبِ معراج جِس رات یا مہینے میں بھی ہو ،اُس رات میں کسی قسم کی بھی متعین عبادت شریعت میں منقول نہیں ہے،یہ الگ بات ہے کہ اِس رات میں سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو بہت بڑا شرف بخشا گیا،آپ کے ساتھ بڑے اعزاز و اکرام والا معاملہ کیا گیااور آپ صلی الله علیہ وسلم کو آسمانوں پر بلوا کے بہت سے ہدیے دیے گئے، لیکن امت کے لیے اس بارے میں کسی قسم کی کوئی فضیلت والی بات کسی نے نقل نہیں کی۔
شبِ معراج افضل ہے یا شبِ قدر؟
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اِن دونوں راتوں (شبِ قدر اور شبِ معراج) میں سے کون سی رات افضل ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے حق میں لیلة المعراج افضل ہے اور امت کے حق میں لیلة القدر ، اس لیے کہ اِس رات میں جن انعامات سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو مختص کیا گیا وہ ان (انعامات ) سے کہیں بڑھ کے ہیں جو (انعامات آپ صلی الله علیہ وسلم کو) شبِ قدر میں نصیب ہوئے اور امت کو جو حصہ (انعامات)شبِ قدر میں نصیب ہوا ،وہ اس سے کامل ہے جو(امت کو شبِ معراج میں ) حاصل ہوا ، اگرچہ امتیوں کے لیے شبِ معراج میں بھی بہت بڑا اعزاز ہے، لیکن اصل فضل ،شرف اور اعلیٰ مرتبہ اُس ہستی کے لیے ہے جس کو معراج کروائی گئی،صلی اللہ علیہ وسلم۔(مجموع الفتاویٰ،کتاب الفقہ ،کتاب الصیام،رقم الحدیث: 723،25 /130،دار الوفاء)
علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی قسم کا ایک لمبا سوال وجواب ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نقل کیا ہے اور اس کے بعدلکھا ہے کہ ”اِس جیسے اُمور میں کلام کرنے کے لیے قطعی حقائق کی ضرورت ہوتی ہے اور اِن کا علم ”وحی کے بغیر ممکن نہیں“ اور اِ س معاملے میں کسی تعیین کے بارے میں وحی خاموش ہے، لہذٰا بغیر علم کے اِس بارے میں کلام کرنا جائز نہیں ہے“۔(زاد المعاد، التفاضل بین لیلة القدر و لیلة الإسراء:۱/57،58،موٴسسة الرسالة)․
چناں چہ ! جب اتنی بات متعین ہو گئی کہ امت کے حق میں شبِ معراج کی کوئی فضیلت منصوص نہیں ہے، علاوہ اس بات کے کہ اس رات کا 27 رجب کو ہی ہونا بھی قطعی نہیں ہے تو اِس رات کو یا اِس کے دن کو کسی عبادت کے لیے جداگانہ طور پر متعین کرنا کسی طرح درست نہیں ہے،اب ذیل میں شبِ معراج کے وقتِ وقوع کے بارے میں جمہور علماء کی تحقیق پیش کی جائے گی۔
واقعہ معراج کب پیش آیا؟
علمائے سیر کا اس میں اختلاف ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو معراج کب کروائی گئی ،اس بارے میں (یعنی جِس سال میں معراج کروائی گئی ) عموماً دس اقوال ملتے ہیں: اکثرعلمائے کے نزدیک اتنی بات تو متعین ہے کہ واقعہ معراج ”بعثت“ کے بعد پیش آیا ،البتہ بعثت کے بعد کے زمانے میں اختلاف ہے، چناں چہ ابن سعد کا قول ہے کہ معراج ہجرت سے ایک سال قبل کروائی گئی۔ ابن جوزی کا قول ہے کہ معراج ہجرت سے آٹھ ماہ قبل ہوئی۔ ابو الربیع بن سالم کا کہنا ہے کہ ہجرت سے چھ ماہ قبل ہوئی۔ ابراہیم الحربی کا کہنا ہے کہ ہجرت سے گیارہ ماہ قبل ہوئی۔ ابن عبد البرّ کی رائے ہجرت سے ایک سال اور دو ماہ قبل کی ہے۔ ابن فارس کی رائے ہجرت سے ایک سال اور تین ماہ قبل کی ہے ۔ سدّی نے ہجرت سے ایک سال اور پانچ ماہ قبل کا قول نقل کیا ہے۔ ابن الأثیر نے ہجرت سے تین سال قبل کا قول اختیار کیا ہے۔ زہری سے نقل کیا گیا ہے کہ واقعہ معراج ہجرت سے پانچ سال قبل پیش آیا۔ ایک قول بعثت سے پہلے وقوعِ معراج کا بھی ہے، لیکن یہ قول شاذ ہے، اس کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
اِن اقوال میں سے سب سے زیادہ مشہور قول جس کو ترجیح دی گئی ہے وہ ہجرت سے ایک سال قبل کا ہے۔(فتح الباری:7/254، دارالسلام، سبلُ الہدیٰ والرشاد:3/65 ،دارالکتب العلمیہ)
معراج کس مہینے میں ہوئی؟
جس طرح وقوع ِ معراج کے سال میں اختلاف ہے، اسی طرح مہینے کی تعیین میں اختلاف ہے کہ واقعہ ِ معراج کس مہینے میں پیش آیا؟اس بارے میں بعض جگہ پانچ مہینوں کا ذکر مختلف اقوال میں ملتا ہے اور بعض جگہ چھ مہینوں کا۔ بہت سارے علما کے نزدیک ربیع الاول کے مہینے میں واقعہ معراج پیش آیا۔ ابراہیم بن اسحاق الحربی نے ربیع الاخر کے مہینے میں معراج کا ہونا لکھا ہے۔ عبدالغنی بن سرور المقدسی نے رجب کے مہینے کو ترجیح دی ہے،یہی قول مشہور بھی ہے۔ سدّی نے شوّال میں معراج کا ہونا لکھا ہے۔ ابن فارس نے ذوالحجہ میں معراج کا ہونا لکھا ہے۔(شرح المواہب للزرقانی:2/70،دارالکتب العلمیہ، عمدة القاری:17/27، دار الکتب العلمیہ)
معراج کس رات میں ہوئی؟
علامہ زرقانی نے لکھا ہے کہ اس بارے میں تین اقوال مشہورہیں: پہلا قول جمعے کی رات کا ہے،دوسرا قول ہفتہ کی رات اور تیسرا قول پیر کی رات کا ہے،چوں کہ معراج کی تاریخ میں سخت اختلاف ہے، اس لیے رات کی تعیین میں حتمی قول اختیار کرنا آسان نہیں ہے۔( سُبُل الہدیٰ والرشاد:3/65، دارالکتب العلمیہ)۔
تعیین شبِ معراج میں اتنا اختلاف کیوں ؟
علمائے سیر نے خوب تحقیق کے بعد اُن صحابہ کی تعداد اور نام لکھے ہیں، جنہوں نے قصہ معراج کو نقل کیا ،کسی نے مختصر اور کسی نے تفصیل سے،چناں چہ علامہ قسطلانی نے (المواہب اللدنیہ :2/345،میں)چھبیس صحابہ کے نام شمار کیے ہیں اور علامہ زرقانی نے اس کتاب کی شرح میں ان صحابہ کے ناموں میں اضافہ کرتے ہوئے پینتالیس کی تعداد اور ان کے نام ذکر کیے ہیں،(شرح العلامة الزرقانی : 8/76،دارالکتب العلمیہ)۔
اس تفصیل کے بعد قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس قصے کی تفصیل بیان کرنے والے اصحاب ِ رسول کی اتنی بڑی تعداد ہے اور اس کے باوجود جس رات میں یہ واقعہ پیش آیا اس رات کی حتمی تاریخ کسی نے بھی نقل نہیں کی ،آخر کیوں؟کتبِ سیر میں غور کرنے کے بعد سوائے اس کے کوئی اور بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگرچہ اِس رات میں اتنا بڑا واقعہ پیش آیا لیکن اس کی بنا پر اس رات کو کسی مخصوص عبادت کے لیے متعین کرنا نہ تو کسی کو سُوجھا اور نہ ہی زبانِ نبوت سے اس بارے میں کوئی حکم صادر ہوا اور نہ ہی اس رات کی اس طرح سے تعظیم کسی صحابیِ رسول کے ذہن میں پیدا ہوئی،لیکن اس کے باوجود یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ اگرچہ اس سے کوئی حکم ِ شرعی وابستہ نہیں تھا، تاہم بمقتضائے محبت ہی اس طرف توجہ کی جاتی ، جب حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کے خدوخال اور نقش و نگار کو بھی بمقتضائے محبت ضبط کرنے کا اہتمام کیا گیا تو آخر اس شب سے اس قدر بے اعتنائی کی کیا وجہ؟تو اس سوال کے جواب میں حضرت مولانا مفتی رشید احمدصاحب لدھیانوی فرماتے ہیں:”کہ اس شب میں خرافات و بدعات کی بھر مار کا شدید خطرہ تھا ، حضور صلی الله علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سدّ باب کی غرض سے اس کو مبہم رکھنا ہی ضروری سمجھا۔ “(سات مسائل،ص:16، دارالافتاء والارشاد ،کراچی)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا عشقِ رسول صلی الله علیہ وسلم
کیا کسی بھی درجے میں یہ بات سوچی جا سکتی ہے کہ العیاذ باللہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے عشق و محبت نہ تھی، یا اُن کو اس رات میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو ملنے والے اتنے بڑے اعزاز کی خوشی نہیں ہوئی،ہر گز نہیں ! اُن سے بڑا عاشقِ رسول کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا، لیکن اُن کا عشق حقیقی تھا، جس کی بنا پر اُن سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو ہی نہیں سکتا تھا ،جو سرکارِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی منشا کے خلاف ہوتا،وہ تو خیر کے کاموں کی طرف بہت تیزی سے لپکنے والے تھے،لہذا اگر اس رات میں کوئی مخصوص عبادت ہوتی تو وہ ضرور اسے سرانجام دیتے اور اسے امت تک بھی پہنچاتے،لیکن ایسا کوئی بھی اقدام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تاریخ میں نہیں ملتاتو جب کوئی خیر کا کام ان کو نہیں سُوجھا تو وہ ”خیر “ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ وہ بدعت ہو گا، جیسا کہ علامہ شاطبی نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے :”کل عبادة لم یتعبدھا أصحاب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فلا تعبدوھا“․(الاعتصام للشاطبي،باب فی فرق البدع والمصالح المرسلة:۱/۴۱۱،دارالمعرفة) ترجمہ:”ہر وہ عبادت جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کیا ،سو تم بھی اسے مت کرو“۔
بدعت کی پہچان کے لیے معیار
تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہوا ہے کہ :”وأما أھل السنة والجماعة فیقولون فيکل فعلٍ و قولٍ لم یثبُت عن الصحابة، ہو بدعةٌ؛ لأنہ لو کان خیراً سبقونا إلیہ، إنہم لم یترکوا خصلةً من خصالِ خیرٍ إلا وقد بادَروا إلیہا․“ (تفسیر ابن کثیر، الأحقاف:۱۱، دارالسلام)
ترجمہ:اہل سنت والجماعت یہ فرماتے ہیں کہ جو فعل حضرات ِ صحابہ رضوان اللہ علیہم سے ثابت نہ ہو تو اس کا کرنا بدعت ہے، کیوں کہ اگر وہ اچھا کام ہوتا تو ضرور حضرات ِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہم سے پہلے اُس کام کو کرتے، اِس لیے کہ انہوں نے کسی نیک اور عمدہ خصلت کو تشنہ عمل نہیں چھوڑا، بلکہ وہ ہر(نیک ) کام میں سبقت لے گئے۔
اصلاحی خطبات سے ایک اقتباس
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہ فرماتے ہیں کہ: ”27رجب کی شب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ یہ شب ِ معراج ہے اور اس شب کو بھی اسی طرح گذارنا چاہیے جس طرح شب قدر گذاری جاتی ہے اور جو فضیلت شب قدر کی ہے ، کم وبیش شب معراج کی بھی وہی فضیلت سمجھی جاتی ہے، بلکہ میں نے تو ایک جگہ یہ لکھا ہوا دیکھا کہ ”شبِ معراج کی فضیلت شبِ قدر سے بھی زیادہ ہے“ اور پھر اس رات میں لوگوں نے نمازوں کے بھی خاص خاص طریقے مشہور کر دیے کہ اس رات میں اتنی رکعات پڑھی جائیں اور ہر رکعت میں فلاں فلاں سورتیں پڑھی جائیں ، خدا جانے کیا کیا تفصیلات اس نماز کے بارے میں مشہور ہو گئیں ، خوب سمجھ لیجیے،یہ سب بے اصل باتیں ہیں ،شریعت میں ان کی کوئی اصل اور کوئی بنیاد نہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ27 رجب کے بارے میں یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتاکہ یہ وہی رات ہے جس میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تھے ، کیوں کہ اس باب میں مختلف روایتیں ہیں ، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے ، بعض روایتوں میں رجب کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں کوئی اور مہینہ بیان کیا گیا ہے،اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتاکہ کون سی رات صحیح معنوں میں معراج کی رات تھی، جس میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تھے، اس سے آپ خوداندازہ کر لیں کہ اگر شب معراج بھی شب قدر کی طرح کوئی مخصوص رات ہوتی،اور اس کے بارے میں کوئی خاص احکام ہوتے جس طرح شب قدر کے بارے میں ہیں تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا،لیکن چوں کہ شب معراج کی تاریخ محفوظ نہیں تو اب یقینی طور سے 27رجب کو شب معراج قرار دینا درست نہیں اور اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم 27رجب کو ہی معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے جس میں یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیااور جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو یہ مقام ِ قرب عطا فرمایا اور اپنی بارگاہ میں حاضری کا شرف بخشا، اور امت کے لیے نمازوں کا تحفہ بھیجا تو بے شک وہی ایک رات بڑی فضیلت والی تھی ، کسی مسلمان کو اس کی فضیلت میں کیا شبہ ہو سکتا ہے ؟ لیکن یہ فضیلت ہر سال آنے والی27رجب کی شب کو حاصل نہیں ۔
پھردوسری بات یہ ہے کہ (بعض روایات کے مطابق)یہ واقعہ معراج سن 5 نبوی میں پیش آیا ، یعنی حضور صلی الله علیہ وسلم کے نبی بننے کے پانچویں سال یہ شب معراج پیش آئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد 18 سال تک آپ صلی الله علیہ وسلم دنیا میں تشریف فرما رہے، ان اٹھارہ سال کے دوران یہ کہیں ثابت نہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے شب معراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو ، یا اس کو منانے کا حکم دیاہو ، یااس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو ، یا اس کے بارے میں یہ فرمایا ہو کہ اس رات میں شب قدر کی طرح جاگنا زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے نہ تو آپ کا ایسا کو ئی ارشاد ثابت ہے اور نہ آپ کے زمانے میں اس رات میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے ، نہ خود آپ صلی الله علیہ وسلم جاگے اور نہ آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تاکید فرمائی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طور پر اس کا اہتمام فرمایا۔
پھر سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد تقریباً سو سال تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا میں موجود رہے ، اس پوری صدی میں کوئی ایک واقعہ ثابت نہیں ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے 27رجب کو خاص اہتمام کر کے منایا ہو، لہٰذا جو چیز حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے نہیں کی اور جو چیز آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کی ، اس کودین کا حصہ قرار دینا ، یا اس کو سنت قراردینا یا اس کے ساتھ سنت جیسامعاملہ کرنا بدعت ہے، اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں (العیاذ باللہ)حضور صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ جانتا ہوں کہ کونسی رات زیادہ فضیلت والی ہے، یا کوئی شخص یہ کہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ مجھے عبادت کا ذوق ہے، اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ عمل نہیں کیا تو میں اس کو کروں گا، تو اس کے برابر کوئی احمق نہیں“۔(اصلاحی خطبات :1/48-51،میمن اسلامک پبلشرز)
”حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحہم اللہ تعالیٰ اور تبع تابعین رحہم اللہ تعالیٰ دین کو سب سے زیادہ جاننے والے ، دین کو خوب سمجھنے والے ، اور دین پر مکمل طور پر عمل کرنے والے تھے ، اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ان سے زیادہ دین کو جانتا ہوں ، یا ان سے زیادہ دین کا ذوق رکھنے والا ہوں، یا ان سے زیادہ عبادت گذار ہوں تو حقیقت میں وہ شخص پاگل ہے، وہ دین کی فہم نہیں رکھتا۔ لہذا اس رات میں عبادت کے لیے خاص اہتمام کرنا بدعت ہے ، یوں تو ہر رات میں اللہ تعالیٰ جس عبادت کی توفیق دے دیں وہ بہتر ہی بہتر ہے،لہذا آج کی رات بھی جاگ لیں ، لیکن اس رات میں اور دوسری راتوں میں کوئی فرق اور نمایاں امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔“(اصلاحی خطبات:1/5،52، میمن اسلامک پبلشرز)
ہزاری روزہ
عوام الناس میں یہ مشہور ہے کہ 27 رجب کو روزہ کی بڑی فضیلت ہے، حتی کہ اس بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس ایک دن کے روزے کا اجر ایک ہزار روزے کے اجر کے برابر ہے، جس کی بنا پر اسے ”ہزاری روزے “کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے،حالانکہ شریعت میں اس روزے کی مذکورہ فضیلت صحیح روایات میں ثابت نہیں ہے،اس بارے میں اکثر روایات موضوع ہیں اور بعض روایات جو موضوع تو نہیں لیکن شدید ضعیف ہیں، جس کی بنا پر اس دن کے روزے کے سنت ہونے کے اعتقاد یا اس دن روزے پر زیادہ ثواب ملنے کے اعتقاد پر روزہ رکھنا جائز نہیں ہے،اس بارے میں اکابرین علمائے امت نے امت کے ایمان و اعمال کی حفاظت کی خاطر راہنمائی کرتے ہوئے فتاوی صادر فرمائے ،جو ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں:
”فتاویٰ رشیدیہ “میں ہے:
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمہ اللہ ماہِ رجب میں ہونے والی ”رسمِ تبارک“ اور ”رجب کے ہزاری روزے“ کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”اِن دونوں امر کاا لتزام نا درست اور بدعت ہے اور وجوہ اِن کے ناجائز ہونے کی (کتاب)اصلاح الرسوم، براہینِ قاطعہ اور اریجہ میں درج ہیں“(فتاویٰ رشیدیہ،ص:148،ادارہ اسلامیات)۔
”فتاویٰ محمودیہ“ میں ہے:
حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”ماہِ رجب میں تواریخ ِ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات وارد ہوئی ہیں ، لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجہ صحت کو نہیں پہنچیں ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”ما ثبت بالسنة“میں ذکر کیا ہے کہ:”بعض (روایات) بہت ضعیف اور بعض موضوع(من گھڑت)ہیں“۔(فتاویٰ محمودیہ:3/281،جامعہ فاروقیہ، کراچی)
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ:”عوام میں 27 رجب کے متعلق بہت بڑی فضیلت مشہور ہے، مگر وہ غلط ہے، اس فضیلت کا اعتقاد بھی غلط ہے، اِس نیت سے روزہ رکھنا بھی غلط ہے،”ما ثبت بالسنة “میں اِ س کی تفصیل موجود ہے۔“(فتاویٰ محمودیہ:10/202،جامعہ فاروقیہ،کراچی)
”فتاویٰ دارالعلوم دیوبند“ میں ہے:
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”ستائیسویں رجب کے روزے کو جسے عوام”ہزارہ روزہ“کہتے ہیں اور ہزار روزوں کے برابر اس کا ثواب سمجھتے ہیں ، اس کی کچھ اصل نہیں ہے۔“ (فتاویٰ دارالعلوم دیو بند مکمل و مدلل:6/406، مکتبہ حقانیہ ، ملتان)
”فتاویٰ رحیمیہ “میں ہے:
حضرت مولانا مفتی سید عبد الرحیم صاحب لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :”ستائیسویں رجب کے بارے میں جو روایات آئی ہیں وہ موضوع اور ضعیف ہیں ، صحیح او ر قابل ِ اعتماد نہیں ، لہٰذا ستائیسویں رجب کا روزہ عاشوراء کی طرح مسنون سمجھ کرہزار روزوں کا ثواب ملے گا، اس اعتقاد سے رکھنا ممنوع ہے“۔(فتاویٰ رحیمیہ :7/274، دارالاشاعت،کراچی)
”بہشتی زیور “میں ہے:
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (رجب کے چاند کے بارے میں )لکھتے ہیں:”اس کو عام لوگ ”مریم روزہ کا چاند“کہتے ہیں اور اس کی ستائیس تاریخ میں روزہ رکھنے کو اچھا سمجھتے ہیں کہ ایک ہزار روزوں کا ثواب ملتا ہے، شرع میں اس کی کوئی قوی اصل نہیں ، اگر نفل روزہ رکھنے کو دل چاہے اختیار ہے، خدا تعالیٰ جتنا چاہیں ثواب دے دیں، اپنی طرف سے ہزار یا لاکھ مقرر نہ سمجھے ، بعضی جگہ اس مہینے میں ”تبارک کی روٹیاں“پکتی ہیں، یہ بھی گھڑی ہوئی بات ہے، شرع میں اس کا کوئی حکم نہیں ، نہ اس پر کوئی ثواب کا وعدہ ہے، اس واسطے ایسے کام کو دین کی بات سمجھنا گناہ ہے“۔(بہشتی زیور:6/60،دارالاشاعت، کراچی)
”عمدة الفقہ“میں ہے:
حضرت مولانا سید زوّار حسین شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”ہزاری روزہ یعنی ستائیس رجب المرجب کا روزہ ، عوام میں اس کا بہت ثواب مشہور ہے، بعض احادیثِ موضوعہ (من گھڑت احادیث)میں اس کی فضیلت آئی ہے، لیکن صحیح احادیث اور فقہ کی معتبر کتابوں میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے بلکہ بعض روایات میں ممانعت آئی ہے، پس اس کو ضروری اور واجب کی مانند سمجھ کر روزہ رکھنا یا ہزار روزہ کے برابر ثواب سمجھ کر رکھنا بدعت و منع ہے“۔(عمدة الفقہ :3/195،زوار اکیڈمی)
خلاصہ کلام
مندرجہ بالا تفصیل سے 27 رجب کے روزے کی بے سند و بے بنیادمشہور ہوجانے والی فضیلت کی حقیقت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے،کہ اس دن کو خاص فضیلت والا دن سمجھ کر یا خاص عقیدت کے ساتھ مخصوص ثواب کے اعتقاد سے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔
اللہ رب العزت محض اپنے فضل وکرم سے صحیح نہج پر اپنے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی اور ان کو اوروں تک پہچانے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
کتب ِ احادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انسان جتنی بھی عبادات سرانجام دیتا ہے ان کی اللہ رب العزت کے ہاں مرتبے کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں،ایک :جو مکان کے بدلنے کے ساتھ مرتبے کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہیں، دوسری:جو زمانے کے بدلنے سے مرتبے کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہیں۔
پہلی قسم کی مثال:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ، ارشاد فرمایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے : ”کسی شخص کا اپنے گھر میں اکیلے نماز ادا کرنا ایک نماز کے برابر اجر رکھتا ہے اور محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنا پچیس نمازوں کے برابراجر رکھتا ہے اورجامع مسجد میں نماز ادا کرنا پانچ سو نمازوں کے برابراجر رکھتاہے اورمسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرناپچاس ہزار نمازوں کے برابر اجر رکھتا ہے اور مسجد حرام میں نماز ادا کرنا ایک لاکھ نمازوں کے برابر اجر رکھتا ہے اور مسجد نبوی میں نماز ادا کرنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر اجر رکھتا ہے “۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،رقم الحدیث:7008، دارالحرمین،بیروت)
اسی طرح حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”جو شخص اپنے گھر میں وضو کر کے مسجدِ قباء میں آئے اور وہاں نماز ادا کرے تو اس کے لیے ایک عمرہ ادا کرنے کے برابر اجر لکھا جاتا ہے۔“(سنن ابن ماجہ،باب ما جاء فی الصلاة فی مسجد قباء،رقم الحدیث:1412،داراحیاء الکتب العربیہ)
ان دونوں مثالوں میں دیکھیں کہ مکان بدلا،جگہ بدلی تو عبادت کی قیمت بھی بدلتی گئی،ایک ہی نماز ہے، لیکن اس کا اجر ،جگہ کے بدلنے سے کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔
اب دوسری قسم کی مثال دیکھیں:ایک شخص کسی بھی عام دن میں روزہ رکھے تو اسے ایک روزے کا اجر ملے گا،لیکن رمضان کا ایک روزہ اتنا اجر رکھتا ہے کہ ساری زندگی روزے رکھنے کا اتنا اجر نہیں بن سکتا،اسی طرح کچھ دوسرے ایام ہیں جن میں روزے کا اجر بدلتا جاتا ہے،مثلاً:حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے9 ذی الحجہ کے دن روزہ رکھنے کے اجر کے بارے میں سوال کیا گیا ، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”اس ایک دن کا روزہ رکھنا اس شخص کے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے“۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث:1162،بیت الافکار)
دوسری روایت میں ہے کہ ارشاد فرمایا:”اس دن کاروزہ موجودہ گذرنے والے سال اور آنے والے سال کے (صغیرہ )گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے“۔(المعجم الکبیر:5089،مکتبة العلوم والحکم)۔”اسی طرح 9 اور10 محرم کا روزہ بھی ایک سال گذشتہ کے (صغیرہ)گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے“۔(صحیح مسلم،رقم:1162،بیت الافکار)
اس کے علاوہ کسی بھی نفل عمل کے بارے میں دیکھیں کہ عام دنوں میں اس کا ایک ہی اجر ہے، لیکن یہی نفل عمل رمضان المبارک میں فرائض کے برابر حصول ِ اجر کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ دن میں ادا کی گئی نفل نماز اور رات کے وقت ادا کی گئی نفل نماز (نمازِ تہجد)کے اجر میں زمین آسمان کا فرق ہے،نمازِ تہجد کو حدیثِ پاک میں ”افضل الصلاة بعد الفریضة“کہا گیا ہے۔(صحیح مسلم ،رقم الحدیث:1163،بیت الافکار)اور پھر صرف اسی پر بس نہیں، بلکہ عام راتوں میں اد ا کی گئی نفل نمازیں ایک طرف اور لیلة القدر کی ایک رات میں ادا کی گئی نفل نماز دوسری طرف،دونوں کے اجر میں شرق و غرب کا فرق ہے،اس کے بارے میں توفرمایا گیا کہ﴿لیلة القدر خیر من ألف شھر﴾۔
مندرجہ بالا مثالوں سے بخوبی واضح ہو چکا ہو گا کہ زمانے کے بدلنے سے اللہ کے ہاں عبادات کا بھی رتبہ بدل جاتا ہے ، لیکن اس جگہ ایک بات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے کہ مختلف زمانوں میں جن جن عبادات سے متعلق اجر و ثواب کی زیادتی بتلائی گئی ہے وہ سب کی سب ”منزّل من اللہ“ ہیں ،ان کے اجر و ثواب کی زیادتی کی خبر بذریعہ وحی بزبان ِ نبوت معلوم ہوئی ہے،انسان خود اپنی چاہت سے، اپنی سوچ سے، کسی خاص دن میں، کسی خاص عبادت کا الگ سے کوئی اجر مقرر نہیں کر سکتا۔
رجب کا مہینہ
چناں چہ سال کے خاص مہینوں میں ایک خاص مہینہ ”رجب المرجب “ بھی ہے،اس مہینے کی سب سے پہلی خصوصیت اس مہینے کا ”اشھر حرم “میں سے ہونا ہے۔(صحیح البخاری،کتاب بدء الخلق،باب ماجاء فی سبع أرضین،رقم الحدیث:3197،دار طوق النجاة)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:” ملتِ ابراہیمی میں یہ چار مہینے ادب واحترام کے تھے ،اللہ تعالی ٰ نے ان کی حرمت کو برقرار رکھا اور مشرکینِ عرب نے جو اس میں تحریف کی تھی اس کی نفی فرما دی“۔(معارف القرآن للکاندھلوی:431/3،بحوالہ حاشیہ سنن ابن ماجہ،ص:125)
رجب کی پہلی رات
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم رجب کے مہینہ کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرمایا کرتے تھے:”اللہم بارِک لنا في رجَب وشعبان و بلِّغْنا رمَضَان․“(مشکاة المصابیح،کتاب الجمعہ، الفصل الثالث،رقم الحدیث:1369،دارالکتب العلیہ) ترجمہ:اے اللہ ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرمااور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا دے۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ”یعنی ان مہینوں میں ہماری طاعت و عبادت میں برکت عطا فرمااور ہماری عمر دراز کر کے رمضان تک پہنچا، تا کہ رمضان کے اعمال روزہ اور تراویح وغیرہ کی سعادت حاصل کریں“۔(مرقاة المفاتیح:418/3،دارالکتب العلمیہ)
ماہِ رجب کے چاند کو دیکھ کر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم دعا فرماتے تھے ،اسی کے ساتھ بعض روایات سے اس رات میں قبولیتِ دعا کا بھی پتہ چلتا ہے ، جیسا کہ ”مصنف عبدالرزاق“میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :”پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں کی جاتی، وہ شبِ جمعہ،رجَب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں رات،عید الفطر کی رات اور عید الاضحیٰ کی رات“۔(مصنف عبد الرزاق،رقم الحدیث: 7927،4/317،المجلس العلمی)
ماہِ رجب میں روزے
رجب میں روزے رکھنے سے متعلق الگ سے کوئی خاص فضائل منقول نہیں ہیں ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک کتاب ”تبیین العجب بما ورد في فضل رجب“ لکھی،جس میں انہوں نے بہت سی ان احادیث کو جمع کر کے ان کی اسنادی حیثیت کو واضح کیا ہے جو فضائل ِ رجب سے متعلق نہایت ضعیف یا موضوع تھیں آپ نے فرمایا ”ماہِ رجب میں خاص رجب کی وجہ سے کسی روزے کی مخصوص فضیلت صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے۔“(تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب،مقدمہ،ص:11)۔
البتہ روزہ خود ایک نیک عمل ہے اور پھر رجب کا ”اشھرحرم“ میں سے ہونا ،تو یہ دونوں مل کے عام دنوں سے زائد حصول ِ اجر کا باعث بن جاتے ہیں، لہذا اس مہینے میں کسی بھی دن کسی خاص متعین اجر کے اعتقاد کے بغیر روزہ رکھنا یقینا مستحب اور حصول ِخیر کا ذریعہ ہو گا، حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ نے (امداد الفتاویٰ:2/85 میں)ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ:”……دوسری حیثیت رجب میں صرف” شہر ِ حرام“ ہونے کی ہے، جو اس(رجب)میں اور بقیہ اشہرحُرم میں مشترک ہے، پہلی حیثیت سے قطع نظر صرف اس دوسر ی حیثیت سے اس میں روزہ رکھنے کو مندوب فرمایا گیا“۔
چناں چہ کسی دن کو خاص کر کے روزہ رکھنے اور اس کے بارے میں عجیب و غریب فضائل بیان کرنے کی مثال 27رجب کا روزہ ہے ، جو عوام الناس میں ”ہزاری روزہ “ کے نام سے مشہور ہے۔(اس پر تفصیلی کلام آگے آرہا ہے)
ماہِ رجب کی بدعات
اسلام سے قبل ہی سے ماہِ رجب میں بہت سی رسومات اور منکرات رائج تھیں، جن کو اسلام نے یکسر ختم کرکے رکھ دیا،ان میں سے ایک رجب کے مہینے میں قربانی کا اہتمام ہے،جس کو قرآن پاک کی اصطلاح میں ”عتیرہ “ کے نام سے واضح کیا گیا ہے، اسی مہینے میں زکاة کی ادائیگی اور پھر موجودہ زمانے میں ان کے علاوہ بی بی فاطمہ کی کہانی ،22رجب کے کونڈوں کی رسم،27 رجب کی شب”جشنِ شب ِ معراج“اور اگلے دن کا روزہ جس کو”ہزاری روزہ “کہا جاتا ہے،وغیرہ وغیرہ سب ایسی رسومات و بدعات ہیں جن کا شرع شریف میں کوئی ثبوت نہیں ہے ،ذیل میں 27 رجب سے متعلق ہونے والی منکرات اور ہزاری روزے سے متعلق کچھ عرض کیا جائے گا۔
ستائیسویں رجب / شبِ معراج
رجب کی ستائیسویں شب میں موجودہ زمانے میں طرح طرح کی خرافات پائی جاتی ہیں ،اس رات حلوہ پکانا،رنگین جھنڈیاں ، آتش بازی اور مٹی کے چراغوں کو جلا کے گھروں کے درو دیوار پر رکھنا وغیرہ وغیرہ،جن کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر اِن کو عبادت اور ثواب سمجھ کے کیا جاتا ہے تو یہ بدعت کہلائیں گی کیوں کہ نہ تو اِن سب اُمور کو ہمارے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بنفسِ نفیس کیا ،نہ ان کے کرنے کا حکم کیا اور نہ ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا اور نہ ہی کرنے کا حکم کیا۔اور اگر ان اُمور کو عبادت سمجھ کے نہیں کیا جاتا، بلکہ بطورِ رسم کیا جاتا ہے تو ان میں فضول خرچی،اسراف اور آتش بازی کی صورت میں جانی نقصان کا خدشہ، سب اُمور شرعاً حرام ہیں۔
اِن تمام اُمور کو اِس بنیاد پر سرانجام دیا جاتا ہے کہ 27 ویں رجب میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو سفرِ معراج کروایا گیا،عوام کے اس رات اِس اہتمام سے پتہ چلتا ہے کہ رجب کی ستائیسویں شب کو ہی حتمی اور قطعی طور پر شبِ معراج سمجھا جاتا ہے ،حالانکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو سفرِ معراج کب کروایا گیا؟ اِس بارے میں تاریخ،مہینے بلکہ سال میں بھی بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے،جس کی بنا پر ستائیسویں شب کو ہی شبِ معراج قرار دینا یکسر غلط ہے،اگرچہ مشہور قول یہی ہے۔
دوسری بات ! شبِ معراج جِس رات یا مہینے میں بھی ہو ،اُس رات میں کسی قسم کی بھی متعین عبادت شریعت میں منقول نہیں ہے،یہ الگ بات ہے کہ اِس رات میں سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو بہت بڑا شرف بخشا گیا،آپ کے ساتھ بڑے اعزاز و اکرام والا معاملہ کیا گیااور آپ صلی الله علیہ وسلم کو آسمانوں پر بلوا کے بہت سے ہدیے دیے گئے، لیکن امت کے لیے اس بارے میں کسی قسم کی کوئی فضیلت والی بات کسی نے نقل نہیں کی۔
شبِ معراج افضل ہے یا شبِ قدر؟
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اِن دونوں راتوں (شبِ قدر اور شبِ معراج) میں سے کون سی رات افضل ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے حق میں لیلة المعراج افضل ہے اور امت کے حق میں لیلة القدر ، اس لیے کہ اِس رات میں جن انعامات سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو مختص کیا گیا وہ ان (انعامات ) سے کہیں بڑھ کے ہیں جو (انعامات آپ صلی الله علیہ وسلم کو) شبِ قدر میں نصیب ہوئے اور امت کو جو حصہ (انعامات)شبِ قدر میں نصیب ہوا ،وہ اس سے کامل ہے جو(امت کو شبِ معراج میں ) حاصل ہوا ، اگرچہ امتیوں کے لیے شبِ معراج میں بھی بہت بڑا اعزاز ہے، لیکن اصل فضل ،شرف اور اعلیٰ مرتبہ اُس ہستی کے لیے ہے جس کو معراج کروائی گئی،صلی اللہ علیہ وسلم۔(مجموع الفتاویٰ،کتاب الفقہ ،کتاب الصیام،رقم الحدیث: 723،25 /130،دار الوفاء)
علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی قسم کا ایک لمبا سوال وجواب ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نقل کیا ہے اور اس کے بعدلکھا ہے کہ ”اِس جیسے اُمور میں کلام کرنے کے لیے قطعی حقائق کی ضرورت ہوتی ہے اور اِن کا علم ”وحی کے بغیر ممکن نہیں“ اور اِ س معاملے میں کسی تعیین کے بارے میں وحی خاموش ہے، لہذٰا بغیر علم کے اِس بارے میں کلام کرنا جائز نہیں ہے“۔(زاد المعاد، التفاضل بین لیلة القدر و لیلة الإسراء:۱/57،58،موٴسسة الرسالة)․
چناں چہ ! جب اتنی بات متعین ہو گئی کہ امت کے حق میں شبِ معراج کی کوئی فضیلت منصوص نہیں ہے، علاوہ اس بات کے کہ اس رات کا 27 رجب کو ہی ہونا بھی قطعی نہیں ہے تو اِس رات کو یا اِس کے دن کو کسی عبادت کے لیے جداگانہ طور پر متعین کرنا کسی طرح درست نہیں ہے،اب ذیل میں شبِ معراج کے وقتِ وقوع کے بارے میں جمہور علماء کی تحقیق پیش کی جائے گی۔
واقعہ معراج کب پیش آیا؟
علمائے سیر کا اس میں اختلاف ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو معراج کب کروائی گئی ،اس بارے میں (یعنی جِس سال میں معراج کروائی گئی ) عموماً دس اقوال ملتے ہیں: اکثرعلمائے کے نزدیک اتنی بات تو متعین ہے کہ واقعہ معراج ”بعثت“ کے بعد پیش آیا ،البتہ بعثت کے بعد کے زمانے میں اختلاف ہے، چناں چہ ابن سعد کا قول ہے کہ معراج ہجرت سے ایک سال قبل کروائی گئی۔ ابن جوزی کا قول ہے کہ معراج ہجرت سے آٹھ ماہ قبل ہوئی۔ ابو الربیع بن سالم کا کہنا ہے کہ ہجرت سے چھ ماہ قبل ہوئی۔ ابراہیم الحربی کا کہنا ہے کہ ہجرت سے گیارہ ماہ قبل ہوئی۔ ابن عبد البرّ کی رائے ہجرت سے ایک سال اور دو ماہ قبل کی ہے۔ ابن فارس کی رائے ہجرت سے ایک سال اور تین ماہ قبل کی ہے ۔ سدّی نے ہجرت سے ایک سال اور پانچ ماہ قبل کا قول نقل کیا ہے۔ ابن الأثیر نے ہجرت سے تین سال قبل کا قول اختیار کیا ہے۔ زہری سے نقل کیا گیا ہے کہ واقعہ معراج ہجرت سے پانچ سال قبل پیش آیا۔ ایک قول بعثت سے پہلے وقوعِ معراج کا بھی ہے، لیکن یہ قول شاذ ہے، اس کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
اِن اقوال میں سے سب سے زیادہ مشہور قول جس کو ترجیح دی گئی ہے وہ ہجرت سے ایک سال قبل کا ہے۔(فتح الباری:7/254، دارالسلام، سبلُ الہدیٰ والرشاد:3/65 ،دارالکتب العلمیہ)
معراج کس مہینے میں ہوئی؟
جس طرح وقوع ِ معراج کے سال میں اختلاف ہے، اسی طرح مہینے کی تعیین میں اختلاف ہے کہ واقعہ ِ معراج کس مہینے میں پیش آیا؟اس بارے میں بعض جگہ پانچ مہینوں کا ذکر مختلف اقوال میں ملتا ہے اور بعض جگہ چھ مہینوں کا۔ بہت سارے علما کے نزدیک ربیع الاول کے مہینے میں واقعہ معراج پیش آیا۔ ابراہیم بن اسحاق الحربی نے ربیع الاخر کے مہینے میں معراج کا ہونا لکھا ہے۔ عبدالغنی بن سرور المقدسی نے رجب کے مہینے کو ترجیح دی ہے،یہی قول مشہور بھی ہے۔ سدّی نے شوّال میں معراج کا ہونا لکھا ہے۔ ابن فارس نے ذوالحجہ میں معراج کا ہونا لکھا ہے۔(شرح المواہب للزرقانی:2/70،دارالکتب العلمیہ، عمدة القاری:17/27، دار الکتب العلمیہ)
معراج کس رات میں ہوئی؟
علامہ زرقانی نے لکھا ہے کہ اس بارے میں تین اقوال مشہورہیں: پہلا قول جمعے کی رات کا ہے،دوسرا قول ہفتہ کی رات اور تیسرا قول پیر کی رات کا ہے،چوں کہ معراج کی تاریخ میں سخت اختلاف ہے، اس لیے رات کی تعیین میں حتمی قول اختیار کرنا آسان نہیں ہے۔( سُبُل الہدیٰ والرشاد:3/65، دارالکتب العلمیہ)۔
تعیین شبِ معراج میں اتنا اختلاف کیوں ؟
علمائے سیر نے خوب تحقیق کے بعد اُن صحابہ کی تعداد اور نام لکھے ہیں، جنہوں نے قصہ معراج کو نقل کیا ،کسی نے مختصر اور کسی نے تفصیل سے،چناں چہ علامہ قسطلانی نے (المواہب اللدنیہ :2/345،میں)چھبیس صحابہ کے نام شمار کیے ہیں اور علامہ زرقانی نے اس کتاب کی شرح میں ان صحابہ کے ناموں میں اضافہ کرتے ہوئے پینتالیس کی تعداد اور ان کے نام ذکر کیے ہیں،(شرح العلامة الزرقانی : 8/76،دارالکتب العلمیہ)۔
اس تفصیل کے بعد قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس قصے کی تفصیل بیان کرنے والے اصحاب ِ رسول کی اتنی بڑی تعداد ہے اور اس کے باوجود جس رات میں یہ واقعہ پیش آیا اس رات کی حتمی تاریخ کسی نے بھی نقل نہیں کی ،آخر کیوں؟کتبِ سیر میں غور کرنے کے بعد سوائے اس کے کوئی اور بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگرچہ اِس رات میں اتنا بڑا واقعہ پیش آیا لیکن اس کی بنا پر اس رات کو کسی مخصوص عبادت کے لیے متعین کرنا نہ تو کسی کو سُوجھا اور نہ ہی زبانِ نبوت سے اس بارے میں کوئی حکم صادر ہوا اور نہ ہی اس رات کی اس طرح سے تعظیم کسی صحابیِ رسول کے ذہن میں پیدا ہوئی،لیکن اس کے باوجود یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ اگرچہ اس سے کوئی حکم ِ شرعی وابستہ نہیں تھا، تاہم بمقتضائے محبت ہی اس طرف توجہ کی جاتی ، جب حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کے خدوخال اور نقش و نگار کو بھی بمقتضائے محبت ضبط کرنے کا اہتمام کیا گیا تو آخر اس شب سے اس قدر بے اعتنائی کی کیا وجہ؟تو اس سوال کے جواب میں حضرت مولانا مفتی رشید احمدصاحب لدھیانوی فرماتے ہیں:”کہ اس شب میں خرافات و بدعات کی بھر مار کا شدید خطرہ تھا ، حضور صلی الله علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سدّ باب کی غرض سے اس کو مبہم رکھنا ہی ضروری سمجھا۔ “(سات مسائل،ص:16، دارالافتاء والارشاد ،کراچی)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا عشقِ رسول صلی الله علیہ وسلم
کیا کسی بھی درجے میں یہ بات سوچی جا سکتی ہے کہ العیاذ باللہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے عشق و محبت نہ تھی، یا اُن کو اس رات میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو ملنے والے اتنے بڑے اعزاز کی خوشی نہیں ہوئی،ہر گز نہیں ! اُن سے بڑا عاشقِ رسول کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا، لیکن اُن کا عشق حقیقی تھا، جس کی بنا پر اُن سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو ہی نہیں سکتا تھا ،جو سرکارِ دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی منشا کے خلاف ہوتا،وہ تو خیر کے کاموں کی طرف بہت تیزی سے لپکنے والے تھے،لہذا اگر اس رات میں کوئی مخصوص عبادت ہوتی تو وہ ضرور اسے سرانجام دیتے اور اسے امت تک بھی پہنچاتے،لیکن ایسا کوئی بھی اقدام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تاریخ میں نہیں ملتاتو جب کوئی خیر کا کام ان کو نہیں سُوجھا تو وہ ”خیر “ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ وہ بدعت ہو گا، جیسا کہ علامہ شاطبی نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے :”کل عبادة لم یتعبدھا أصحاب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فلا تعبدوھا“․(الاعتصام للشاطبي،باب فی فرق البدع والمصالح المرسلة:۱/۴۱۱،دارالمعرفة) ترجمہ:”ہر وہ عبادت جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کیا ،سو تم بھی اسے مت کرو“۔
بدعت کی پہچان کے لیے معیار
تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہوا ہے کہ :”وأما أھل السنة والجماعة فیقولون فيکل فعلٍ و قولٍ لم یثبُت عن الصحابة، ہو بدعةٌ؛ لأنہ لو کان خیراً سبقونا إلیہ، إنہم لم یترکوا خصلةً من خصالِ خیرٍ إلا وقد بادَروا إلیہا․“ (تفسیر ابن کثیر، الأحقاف:۱۱، دارالسلام)
ترجمہ:اہل سنت والجماعت یہ فرماتے ہیں کہ جو فعل حضرات ِ صحابہ رضوان اللہ علیہم سے ثابت نہ ہو تو اس کا کرنا بدعت ہے، کیوں کہ اگر وہ اچھا کام ہوتا تو ضرور حضرات ِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہم سے پہلے اُس کام کو کرتے، اِس لیے کہ انہوں نے کسی نیک اور عمدہ خصلت کو تشنہ عمل نہیں چھوڑا، بلکہ وہ ہر(نیک ) کام میں سبقت لے گئے۔
اصلاحی خطبات سے ایک اقتباس
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہ فرماتے ہیں کہ: ”27رجب کی شب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ یہ شب ِ معراج ہے اور اس شب کو بھی اسی طرح گذارنا چاہیے جس طرح شب قدر گذاری جاتی ہے اور جو فضیلت شب قدر کی ہے ، کم وبیش شب معراج کی بھی وہی فضیلت سمجھی جاتی ہے، بلکہ میں نے تو ایک جگہ یہ لکھا ہوا دیکھا کہ ”شبِ معراج کی فضیلت شبِ قدر سے بھی زیادہ ہے“ اور پھر اس رات میں لوگوں نے نمازوں کے بھی خاص خاص طریقے مشہور کر دیے کہ اس رات میں اتنی رکعات پڑھی جائیں اور ہر رکعت میں فلاں فلاں سورتیں پڑھی جائیں ، خدا جانے کیا کیا تفصیلات اس نماز کے بارے میں مشہور ہو گئیں ، خوب سمجھ لیجیے،یہ سب بے اصل باتیں ہیں ،شریعت میں ان کی کوئی اصل اور کوئی بنیاد نہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ27 رجب کے بارے میں یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتاکہ یہ وہی رات ہے جس میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تھے ، کیوں کہ اس باب میں مختلف روایتیں ہیں ، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے ، بعض روایتوں میں رجب کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں کوئی اور مہینہ بیان کیا گیا ہے،اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتاکہ کون سی رات صحیح معنوں میں معراج کی رات تھی، جس میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تھے، اس سے آپ خوداندازہ کر لیں کہ اگر شب معراج بھی شب قدر کی طرح کوئی مخصوص رات ہوتی،اور اس کے بارے میں کوئی خاص احکام ہوتے جس طرح شب قدر کے بارے میں ہیں تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا،لیکن چوں کہ شب معراج کی تاریخ محفوظ نہیں تو اب یقینی طور سے 27رجب کو شب معراج قرار دینا درست نہیں اور اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم 27رجب کو ہی معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے جس میں یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیااور جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو یہ مقام ِ قرب عطا فرمایا اور اپنی بارگاہ میں حاضری کا شرف بخشا، اور امت کے لیے نمازوں کا تحفہ بھیجا تو بے شک وہی ایک رات بڑی فضیلت والی تھی ، کسی مسلمان کو اس کی فضیلت میں کیا شبہ ہو سکتا ہے ؟ لیکن یہ فضیلت ہر سال آنے والی27رجب کی شب کو حاصل نہیں ۔
پھردوسری بات یہ ہے کہ (بعض روایات کے مطابق)یہ واقعہ معراج سن 5 نبوی میں پیش آیا ، یعنی حضور صلی الله علیہ وسلم کے نبی بننے کے پانچویں سال یہ شب معراج پیش آئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد 18 سال تک آپ صلی الله علیہ وسلم دنیا میں تشریف فرما رہے، ان اٹھارہ سال کے دوران یہ کہیں ثابت نہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے شب معراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو ، یا اس کو منانے کا حکم دیاہو ، یااس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو ، یا اس کے بارے میں یہ فرمایا ہو کہ اس رات میں شب قدر کی طرح جاگنا زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے نہ تو آپ کا ایسا کو ئی ارشاد ثابت ہے اور نہ آپ کے زمانے میں اس رات میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے ، نہ خود آپ صلی الله علیہ وسلم جاگے اور نہ آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تاکید فرمائی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طور پر اس کا اہتمام فرمایا۔
پھر سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد تقریباً سو سال تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیا میں موجود رہے ، اس پوری صدی میں کوئی ایک واقعہ ثابت نہیں ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے 27رجب کو خاص اہتمام کر کے منایا ہو، لہٰذا جو چیز حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے نہیں کی اور جو چیز آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کی ، اس کودین کا حصہ قرار دینا ، یا اس کو سنت قراردینا یا اس کے ساتھ سنت جیسامعاملہ کرنا بدعت ہے، اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں (العیاذ باللہ)حضور صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ جانتا ہوں کہ کونسی رات زیادہ فضیلت والی ہے، یا کوئی شخص یہ کہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ مجھے عبادت کا ذوق ہے، اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ عمل نہیں کیا تو میں اس کو کروں گا، تو اس کے برابر کوئی احمق نہیں“۔(اصلاحی خطبات :1/48-51،میمن اسلامک پبلشرز)
”حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحہم اللہ تعالیٰ اور تبع تابعین رحہم اللہ تعالیٰ دین کو سب سے زیادہ جاننے والے ، دین کو خوب سمجھنے والے ، اور دین پر مکمل طور پر عمل کرنے والے تھے ، اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ان سے زیادہ دین کو جانتا ہوں ، یا ان سے زیادہ دین کا ذوق رکھنے والا ہوں، یا ان سے زیادہ عبادت گذار ہوں تو حقیقت میں وہ شخص پاگل ہے، وہ دین کی فہم نہیں رکھتا۔ لہذا اس رات میں عبادت کے لیے خاص اہتمام کرنا بدعت ہے ، یوں تو ہر رات میں اللہ تعالیٰ جس عبادت کی توفیق دے دیں وہ بہتر ہی بہتر ہے،لہذا آج کی رات بھی جاگ لیں ، لیکن اس رات میں اور دوسری راتوں میں کوئی فرق اور نمایاں امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔“(اصلاحی خطبات:1/5،52، میمن اسلامک پبلشرز)
ہزاری روزہ
عوام الناس میں یہ مشہور ہے کہ 27 رجب کو روزہ کی بڑی فضیلت ہے، حتی کہ اس بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس ایک دن کے روزے کا اجر ایک ہزار روزے کے اجر کے برابر ہے، جس کی بنا پر اسے ”ہزاری روزے “کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے،حالانکہ شریعت میں اس روزے کی مذکورہ فضیلت صحیح روایات میں ثابت نہیں ہے،اس بارے میں اکثر روایات موضوع ہیں اور بعض روایات جو موضوع تو نہیں لیکن شدید ضعیف ہیں، جس کی بنا پر اس دن کے روزے کے سنت ہونے کے اعتقاد یا اس دن روزے پر زیادہ ثواب ملنے کے اعتقاد پر روزہ رکھنا جائز نہیں ہے،اس بارے میں اکابرین علمائے امت نے امت کے ایمان و اعمال کی حفاظت کی خاطر راہنمائی کرتے ہوئے فتاوی صادر فرمائے ،جو ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں:
”فتاویٰ رشیدیہ “میں ہے:
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمہ اللہ ماہِ رجب میں ہونے والی ”رسمِ تبارک“ اور ”رجب کے ہزاری روزے“ کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”اِن دونوں امر کاا لتزام نا درست اور بدعت ہے اور وجوہ اِن کے ناجائز ہونے کی (کتاب)اصلاح الرسوم، براہینِ قاطعہ اور اریجہ میں درج ہیں“(فتاویٰ رشیدیہ،ص:148،ادارہ اسلامیات)۔
”فتاویٰ محمودیہ“ میں ہے:
حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”ماہِ رجب میں تواریخ ِ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات وارد ہوئی ہیں ، لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجہ صحت کو نہیں پہنچیں ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”ما ثبت بالسنة“میں ذکر کیا ہے کہ:”بعض (روایات) بہت ضعیف اور بعض موضوع(من گھڑت)ہیں“۔(فتاویٰ محمودیہ:3/281،جامعہ فاروقیہ، کراچی)
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ:”عوام میں 27 رجب کے متعلق بہت بڑی فضیلت مشہور ہے، مگر وہ غلط ہے، اس فضیلت کا اعتقاد بھی غلط ہے، اِس نیت سے روزہ رکھنا بھی غلط ہے،”ما ثبت بالسنة “میں اِ س کی تفصیل موجود ہے۔“(فتاویٰ محمودیہ:10/202،جامعہ فاروقیہ،کراچی)
”فتاویٰ دارالعلوم دیوبند“ میں ہے:
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”ستائیسویں رجب کے روزے کو جسے عوام”ہزارہ روزہ“کہتے ہیں اور ہزار روزوں کے برابر اس کا ثواب سمجھتے ہیں ، اس کی کچھ اصل نہیں ہے۔“ (فتاویٰ دارالعلوم دیو بند مکمل و مدلل:6/406، مکتبہ حقانیہ ، ملتان)
”فتاویٰ رحیمیہ “میں ہے:
حضرت مولانا مفتی سید عبد الرحیم صاحب لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :”ستائیسویں رجب کے بارے میں جو روایات آئی ہیں وہ موضوع اور ضعیف ہیں ، صحیح او ر قابل ِ اعتماد نہیں ، لہٰذا ستائیسویں رجب کا روزہ عاشوراء کی طرح مسنون سمجھ کرہزار روزوں کا ثواب ملے گا، اس اعتقاد سے رکھنا ممنوع ہے“۔(فتاویٰ رحیمیہ :7/274، دارالاشاعت،کراچی)
”بہشتی زیور “میں ہے:
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (رجب کے چاند کے بارے میں )لکھتے ہیں:”اس کو عام لوگ ”مریم روزہ کا چاند“کہتے ہیں اور اس کی ستائیس تاریخ میں روزہ رکھنے کو اچھا سمجھتے ہیں کہ ایک ہزار روزوں کا ثواب ملتا ہے، شرع میں اس کی کوئی قوی اصل نہیں ، اگر نفل روزہ رکھنے کو دل چاہے اختیار ہے، خدا تعالیٰ جتنا چاہیں ثواب دے دیں، اپنی طرف سے ہزار یا لاکھ مقرر نہ سمجھے ، بعضی جگہ اس مہینے میں ”تبارک کی روٹیاں“پکتی ہیں، یہ بھی گھڑی ہوئی بات ہے، شرع میں اس کا کوئی حکم نہیں ، نہ اس پر کوئی ثواب کا وعدہ ہے، اس واسطے ایسے کام کو دین کی بات سمجھنا گناہ ہے“۔(بہشتی زیور:6/60،دارالاشاعت، کراچی)
”عمدة الفقہ“میں ہے:
حضرت مولانا سید زوّار حسین شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”ہزاری روزہ یعنی ستائیس رجب المرجب کا روزہ ، عوام میں اس کا بہت ثواب مشہور ہے، بعض احادیثِ موضوعہ (من گھڑت احادیث)میں اس کی فضیلت آئی ہے، لیکن صحیح احادیث اور فقہ کی معتبر کتابوں میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے بلکہ بعض روایات میں ممانعت آئی ہے، پس اس کو ضروری اور واجب کی مانند سمجھ کر روزہ رکھنا یا ہزار روزہ کے برابر ثواب سمجھ کر رکھنا بدعت و منع ہے“۔(عمدة الفقہ :3/195،زوار اکیڈمی)
خلاصہ کلام
مندرجہ بالا تفصیل سے 27 رجب کے روزے کی بے سند و بے بنیادمشہور ہوجانے والی فضیلت کی حقیقت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے،کہ اس دن کو خاص فضیلت والا دن سمجھ کر یا خاص عقیدت کے ساتھ مخصوص ثواب کے اعتقاد سے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔
اللہ رب العزت محض اپنے فضل وکرم سے صحیح نہج پر اپنے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی اور ان کو اوروں تک پہچانے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔
فضائل ماہِ رجب سے متعلقہ احادیث کی تحقیق
ایک کتابچہ بنام’’کفن کی واپسی‘‘مؤلفہ جناب الیاس قادری (امیردعوت اسلامی) پڑھنے کا موقعہ ملا،جس میں ماہ رجب کے فضائل اور اس کے مخصوص اعمال کے متعلق احادیث ذکرکی گئیں ہیں، حقیقت یہ ہے کہ رسالہ میں تحریر کردہ تمام احادیث شدیدضعیف یاپھر موضوع و من گھڑت ہیں، عبادات اور دیگر اعمالِ صالحہ کی طرف عوام الناس کی ترغیب اچھی بات ہے لیکن اس کیلئے ضعیف وموضوع روایات کا سہارالینا انتہائی غلط بلکہ مجرمانہ فعل ہے، مؤلف کی دیگرکتب بھی اس کی طرح اسی باطل روش کا آئینہ دار ہیں، مذکورہ کتابچہ کے متعلق کچھ گذارشات پیشِ خدمت ہیں۔
v موصوف لکھتے ہیں :
’’رجب المرجب کے قدر دانو! تعلیم و تعلم اور کسب حلال میں رکاوٹ نہ ہو ،ماں باپ بھی منع نہ کریں تو جلدی جلدی اور بہت جلدی مسلسل تین ماہ کے یا جس سے جتنے بن پڑیں اتنے روزوں کیلئے کمربستہ ہوجائے۔‘‘ (کفن کی واپسی :صفحہ :2)
تبصرہ:
اس عبارت میں موصوف نے بہت زیادہ غلو سے کام لیا ہے، مسلسل تین ماہ کے روزے رکھنے کی ترغیب دلائی ہے ،جو کئی وجوہ سے غلط ہے :
اولاً: نبی ﷺ نے روزوں میں وصال کرنے سےمنع فرمایا۔(یعنی بغیر فاصلہ دئے روزانہ ،پےدرپہ روزے رکھنا)
(صحیح بخاری :1961 ،صحیح مسلم :1102 )
بلکہ نبی مکرّمﷺنے بھی کبھی تین مہینے کے روزے مسلسل نہیں رکھے، دلیل یہ ہے کہ سیدہ ام سلمۃ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : کہ نبی ﷺ نے کبھی کسی پورے مہینے کے روزے نہیں رکھے ،البتہ رمضان کے ساتھ شعبان کو ملا لیا کرتے تھے ۔ (سنن ابوداؤد :2336 ،سنن نسائی: 2353، مسند احمد :26653 ،سنن دارمی : 1780 ،سنن الکبری :7966 )
اسی طرح سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺنے جب سے ہجرت کی آپ نے سوائے رمضان کے کسی مہینے کے مکمل روزے نہیں رکھے ۔ (سنن نسائی :2183 ،مسند احمد :1998 ،شرح السنۃ :1809)
خلاصہ یہ ہےکہ نبی مکرّم ﷺکا اپنا معمول بھی یہی تھا کہ آپ نے کبھی تین مہینے کے اکٹھے روزے نہیں رکھے ۔
ثانیاً:نبی مکرّمﷺنے تو شعبان کے بھی آخری ایام کے روزے رکھنے سےمنع فرمایا ہے یعنی شعبان و رمضان دو مہینوں کے لگاتارروزے رکھنے سے منع فرمایاہے۔
(سنن ابو داؤد :2337 ،ترمذی :738 ،مصنف عبدالرزق :7316،7325،مصنف ابن ابی شیبۃ :9026)
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رمضان کے روزوں میں کسی قسم کی سستی یا ضعف(کمزوری) نہ آجائے۔
ثالثاً:اس کی کوئی صحیح صریح دلیل بھی نہیں ملتی ۔اور عبادات کی تعیین بغیر کسی صحیح صریح روایت کے کرنا، بالخصوص اس وقت کہ جب وہ دیگر نصوص کے بھی خلاف ہو، یہ بہت بڑی جرأت ہوگی ،اسے نیکی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ یہ چیز مستقبل میں بدعت کا روپ دھار سکتی ہے۔
v ماہِ رجب کی فضيلت کے حوالہ سے موصوف نے ایک روایت نقل کی :
’’رجب کے پہلے دن کا روزہ تین سال کا کفارہ ہے ،اور دوسرے دن کا روزہ دوسالوں کا اور تیسرے دن کا ایک سال کا کفارہ ہے ،پھر ہر دن کا روزہ ایک ماہ کا کفارہ ہے ۔‘‘
(کفن کی واپسی :صفحہ :2 ،بحوالہ الجامع الصغیر :5051)
تبصرہ:
موصوف نے اسے الجامع الصغیر کے حوالے سے روایت کیا ہے، اس روایت کو الخلال نے فضائل شھر رجب میں بالسند روایت کیا ہے، وہاں یہ روایت کچھ یوں درج ہے :
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ التَّمَّارُ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الطلالاينوسِيُّ أَبُو بَكْرٍ الصَّيْدَلانِيُّ ثنا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ الْمُقْرِئُ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ثنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْعُقَيْلانِيُّ عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانٍ مَوْلَى عُثْمَانَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِي اللَّه عَنْهُمَا قَالَ:قَالَ رَسُول اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْمُ أَوَّلِ يَوْمٍ في رجب كفارة ثلاث سِنِينَ وَالثَّانِي كَفَّارَةُ سَنَتَيْنِ وَالثَّالِثُ كَفَّارَةُ سنةٍ ثُمَّ كُلُّ يومٍ شَهْرٍ. (فضائل شھر رجب للخلال: 10)
اس کی سند میں محمد بن عبداللہ سے لے کر ابو عبداللہ العسقلانی تک روایت کرنے والے مجھول ہیں ۔جس روایت میں ایک راوی مجہول ہو وہ روایت محدّثین کے اصول کے مطابق درست قرار نہیں پاتی تو جس روایت میں کئی ایک راوی مجھول ہوں ایسی روایت درست و قابلِ عمل کیسے ہوسکتی ہے ؟ لہٰذا یہ روایت شدید ضعیف ہےاوررسول اللہ ﷺسے ثابت نہیں،اس لئے یہ قابلِ عمل نہیں ہے۔
v ایک اور روایتشعب الایمان کے حوالے سے نقل کرتے ہیں :
’’سیدنابلال رضی اللہ عنہ نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت نبی ﷺناشتہ کررہے تھے ۔فرمایا :اے بلال ! ناشتہ کرلو ، عرض کی ، یا رسول اللہ عز و جل و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم !میں روزہ دار ہوں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نےفرمایا :ہم اپنی روزی کھارہےہیں اور بلال کا رزق جنت میں بڑھ رہا ہے ۔ اے بلال ! کیاتمہیں خبر ہےکہ جب تک روزے دار کے سامنے کچھ کھایا جائے تب تک اس کی ہڈیاں تسبیح کرتی ہیں ، اسے فرشتے دعائیں دیتے ہیں ۔‘‘(کفن کی واپسی :4)
تبصرہ:
اس روایت کی سند میں محمدبن عبدالرحمن ،نامی راوی ہے جس کے بارے میں اقوال علماء ملاحظہ فرمائیں :
امام ابن عدی کہتے ہیں :یہ بقیہ کے مجہول اساتذہ میں سے ہے اور منکر الحدیث ہے ۔
امام ابو حاتم کہتے ہیں:متروک الحدیث ،جھوٹ بولتا تھاااور حدیث گھڑتا تھا۔
امام خلیلی کہتے ہیں:منکر روایات بیان کرتا تھا ۔
امام عقیلی کہتے ہیں :اس کی حدیث منکر ہے اس کی کوئی اصل نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی متابعت ہے اور یہ مجہول بالنقل ہے ۔
امام مزی کہتے ہیں:یہ ضعیف و متروک راویوں میں سے ہے ۔
امام حافظ ابن حجر کہتے ہیں:محدثین نے اس کو جھوٹا قرار دیا ہے ۔
امام دارقطنی کہتے ہیں:متروک الحدیث ہے ۔
امام ذهبي نے فرمایا:تالف(ہلاک شدہ)۔
امام ابو الفتح الازدي کہتے ہیں: جھوٹا ہے اور متروک الحدیث ہے ۔
[دیکھئے:تہذیب الکمال :6/410، تقریب التھذیب :2/195، میزان العتدال : 3/592، کتاب الضعفاء :4/1260، الجرح والتعدیل للذھبی :2/439، لسان المیزان :6/281 ]
یہی اس روایت کی اصل آفت ہے، لہذا یہ روایت موضوع ہے ۔
اب روایت کا درجہ واضح ہوتے ہی اس فضیلت کی شرعی حیثیت واضح ہوگئی ۔
v موصوف کی تحریر کردہ ایک حکایت :
’’بصرہ کی ایک نیک بی بی نے بوقتِ وفات اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ مجھے اس کپڑے کا کفن پہنانا جسے پہن کر میں رجب المرجب میں عبادت کیا کرتی تھی ۔ بعد از انتقال بیٹے نے کسی اور کپڑے میں کفنا کر دفنا دیا ۔ جب قبرستان سے گھر آیا تو یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس نے جو کفن دیا تھا وہ گھر میں موجود اور وصیت کردہ کپڑے اپنی جگہ سے غائب تھے ۔ اتنے میں غیب سے آواز آئی ، اپنا کفن واپس لے لو ہم نے اس کو اسی کفن میں کفنایا ہے (جس کی اس نے وصیت کی تھی) جو رجب کے روزے رکھتا ہے ہم اس کو اس کی قبر میں غمگین نہیں رہنے دیتے ۔‘‘(کفن کی واپسی :9)
اسی واقعے کی بناء پر موصوف نے اپنے اس رسالے کا نام کفن کی واپسی رکھا ہے اوریہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ موصوف کی اکثر کتب کے نام اسی طرز کے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ موصوف قصے، کہانیوں اور ناولوں سے خاصا لگاؤ رکھتے ہیں ، اگر وہ اس لگاؤ کو اپنی ذات تک ہی محدود رکھیں تو الگ مسئلہ ہے، لیکن پوری شریعت کو ناول ہی بنا کے رکھ دینا اور لوگوں کو بھی اس میں مشغول کرکے رکھ دینا انتہائی غلط کاری ہے۔
اور جہاں تک اس مذکورہ واقعہ کا معاملہ ہے ، یہ میزان ِشرعیہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ اس لئے کہ :
اولاً :یہ کوئی حدیث نہیں ۔
ثانیاً :یہ نصوص ِشرعیہ کے خلاف ہے ۔کیوں کہ نصوصِ شرعیہ میں رجب کے روزوں کی کوئی فضیلت ثابت ہی نہیں۔
ثالثاً:یہ ایک بلا سند حکایت ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ،محض سنی سنائی کہانیوں میں سےایک کہانی ہے جس کی بنیاد پر کسی شرعی عمل کو جاری نہیں کیاجاسکتا ۔
رابعا ً:یہ روایت موصوف نے " نزھۃ المجالس " نامی کتاب سے نقل کی ہے جس کی حیثیت کا ذکر آگے آرہا ہے ۔
v شعب الایمان کے حوالے سے پیش کردہ ایک اور روایت:
’’ جنت میں ایک نہر ہے جس کا نام رجب ہے اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جو ماہ رجب میں ایک روزہ رکھے اللہ عز و جل اسے اس نہر سے سیراب فرمائے گا ۔‘‘ (بحوالہ شعب الایمان ،کفن کی واپسی :12)
تبصرہ:
اس روایت کی سند میں دو راوی مجھول ہیں ، ایک منصور بن زید اور دوسرا موسی بن عمران مجھول ہیں ،بعض نے اس روایت کو موضوع تک قرار دیا ہے،تفصیل کے لئے دیکھئے:الآثار الموضوعۃ :(59) ،سلسلۃ الضعیفۃ : (4/1898) ،میزان : (4/189) ،المتناھیۃ : (2/912) ،فوائد حدیثیۃ :(161) ،
اس حدیث کے حوالے سے اقوال علماء بھی ملاحظہ فرمائیے :
امام ابن الجوزی : لا یصح و فیہ مجاھیل لا ندری من ھم ،(العلل المتناھیۃ :2/912) یعنی : یہ روایت صحیح نہیں اس میں کئی مجھول راوی ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ہیں ؟
امام ذھبی: منصور بن یزید حدث عنہ محمد بن المغیرۃفی فضل رجب لا یعرف ، والخبر باطل ۔۔(میزان الاعتدال :1284) یعنی :منصور بن یزید سے محمد بن المغیرۃ رجب کی فضیلت میں غیر معروف باتین بیان کرتا ہے ۔اور یہ خبر باطل ہے ۔ اسی طرح محمد بن مغیرہ بن بسام کے ترجمے میں اس روایت کو باطل قرار دیا ۔(میزان الاعتدال :8664)
تنبیہ : امام ذھبی کی جرح منصور بن یزید پر ہے ،جبکہ سند میں راوی منصور بن زید ہے ،اسی طرح اس سند کے حوالے سے بعض مزید وھم بھی ہیں ،مثلاً یہاں شعب الایمان میں موسی بن عمران ہے، جبکہ فضائل شھر رجب میں موسی بن عمرہے ،ابن حبان رحمہ اللہ اس روایت کو المجروحین میں موسی بن عمیر العنبری کے ترجمے کے تحت لائے ہیں ،جس پر تعلیقات میں امام دارقطنی نے اس پر جو کلام کیا ہے،اس کا خلاصہ یہ ہے:
ابو حاتم (ابن حبان ) سے یہاںموسی بن عمیر کے بارے میں غلطی ہوئی ہے ۔ موسی بن عمیر تین ہیں ،ان میں سے جو عمرمیں سب سے بڑا اور پہلے ہے،وہ موسی بن عمیر العنبری ہے، یہ ثقہ ہے۔
دوسرا موسی بن عمیر، جو انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے یہ ضعیف و مجھول شیخ ہے۔
تیسرا موسی بن عمیر الجعدی ہے ۔۔۔ (تعلیقات الدارقطنی :230)
الغرض یہ روایت ضعیف ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس کے بعض طرق کی نشاندہی کرتے ہوئے یہی فیصلہ دیا۔ (تبیین العجب :80)
v الجامع الصغیر کے حوالے سے پیش کردہ روایت:
’’پانچ راتیں ایسی ہیں کہ جس میں دعا رد نہیں کی جاتی (1)رجب کی پہلی رات (2) پندرہ شعبان (3) جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات (4) عید الفطر کی رات (5) عید الاضحی کی رات ۔ ‘‘ (کفن کی واپسی :13)
تبصرہ:
موصوف نے یہ روایت الجامع الصغیرکے حوالے سے نقل کی اور وہاں یہ روایت تاریخ دمشق کے حوالے سے منقول ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت بھی موضوع ہے ،اس روایت کی سندمیں بندار راوی ہے ،جس کے بارے میں تاریخ دمشق میں ابن عساکر نے یہ قول نقل کیا ہے :
عبد العزيز النخشبي أنه قال:" لا تسمع منه، فإنه كذاب ".(تاریخ دمشق :10/408 ،2604،میزان الاعتدال :1/362،لسان المیزان :1/113) یعنی عبداالعزیز النخشبی کہتے ہیں کہ بندار سے روایت نہ سنو !یہ جھوٹا ہے۔
اسی طرح اس میں ایک اور راوی ابراھیم بن یحی بھی کذاب ہے،جس پر سند کا اصل مدار ہے ۔ جیسا کہ امام یحی نے بھی اس کے بارے میں یہی کہا ہے کہ یہ کذاب راوی ہے ۔
اسی طرح ابو قعنب بھی مجھول ہے ۔
v طبرانی کبیر کے حوالے سے تحریر کردہ حدیث:
’’رجب بہت عظمت والا مہینہ ہے ،اللہ تعالی اس ماہ میں نیکیاں دگنی کردیتا ہے ،جس نے رجب کا ایک روزہ رکھا گویا اس نے ایک سال کے روزے رکھے اور جس نے سات روزے رکھے تو دوزخ کے ساتوں دروازے اس پر بند کردیئے جائیں گے اور اگر کسی نے آٹھ روزے رکھے تو اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے اور جو دس روزے رکھ لے تو اللہ عز و جل سے جس چیز کو مانگے وہ اسے عطا کرے گا اور جو پندرہ روزے رکھے تو آسمان سے ایک منادی ندا کرتا ہے تمہارے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اب اپنے اعمال دوبارہ شروع کرو اور جو اس سے بھی زائد روزے رکھے تو اللہ تعالی اس پر مزید کرم فرمائے گا اور ماہ رجب ہی میں اللہ تعالی نے نوح (علیہ السلام ) کو کشتی میں سوار کروایا تو نوح (علیہ السلام )نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے ہم نشینوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔‘‘ (بحوالہ طبرانی کبیر ، کفن کی واپسی :15)
تبصرہ:
یہ روایت موضوع ہے ؛اس میں ایک راوی عثمان بن مطر جو کہ اس روایت کے لئے آفت ہے اسکے بارے درجِ ذیل اہلِ علم فرماتے ہیں:
امام ابن حبان :یہ اثبات راویوں سے موضوع روایات بیان کرتا ہے ۔
حافظ ابن حجر:اس کے ضعیف ہونے پر امت کا اجماع ہے ۔ (تبیین العجب :97)
امام بخاری :یہ منکر الحدیث ہے۔
امام یحی بن معین : کان ضعیفا ضعیفا ۔یہ ضعیف ہے ضعیف ہے۔
امام علی بن مدینی نے اسے ضعیف جدا سخت ضعیف قرار دیا ہے ۔
امام ابو زرعۃ : یہ ضعیف الحدیث ہے۔
امام ابوحاتم :یہ ضعیف الحدیث ، منکر الحدیث ہے ۔
امام ابوداؤد اور امام النسائی : یہ ضعیف ہے۔
امام ابن عدی :اس کی ساری احادیث میں سے بعض (صرف لوگوں کی زبانوں پر) مشہور ہیں اور بعض منکر ہیں۔
امام دارقطنی نے بھی اسے الضعفاء والمتروکین میں ذکر کیا ہے ۔
امام حاکم: یہ منکر الحدیث ہے۔
اسی طرح ابن الجوزی نے بھی اسے الضعفاء میں ذکر کیا ہے ۔
[تہذیب الکمال :،5/138،تاریخ بغداد :11/278،تاریخ کبیر : 6/213، الضعفاء :3/946، الکامل :2/250، الضعفاء والمتروکین :407، المجروحین :2/99،]
اسی طرح اس کا دوسرا راوی عبدالغفور ہے وہ بھی کذاب ہے ۔
امام ابن حبان:یہ ان لوگوں میں سے ہے جو ثقہ راویوں کی طرف منسوب کرکے موضوع روایات بیان کرتے ہیں اس کی حدیث لکھنا، بیان کرنا جائز نہیں ،البتہ اعتبار (شواہد )کے لئے۔
اما م ہیثمی :یہ متروک ہے ۔
امام یحی بن معین : اس کی حدیث کوئی چیز نہیں ۔
امام بخاری :اسے محدثین نے چھوڑ دیا ہے ۔
امام ابن عدی : یہ ضعیف و منکر الحدیث ہے ۔
[دیکھئے: میزان الاعتدال ; 2/495، الکامل :1/329]
اسی طرح اس میں ایک راوی عبدالعزیز بن سعید مجھول ہے ۔
لطیفہ :
مذکورہ روایت میں عثمان بن مطر نامی شخص ضعیف راوی ہے ،بقول حافظ ابن حجر اس کے ضعف پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے ،مگر موصوف قادری صاحب اسے "صحابی "سمجھ کر لکھتے ہیں: ’’حضرت سیدنا عثمان بن مطر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ۔۔۔۔۔۔‘‘ (کفن کی واپسی :15)
قارئین کرام اسی سے ہی موصوف کے مبلغ علم کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
نہ تم سمجھے نہ ہم آئے کہیں سے
پسینہ پونچھئے ذرا جبیں سے
v احمد رضا خان کے حوالے سے تحریر کردہ روایت :
’’ فوائد نہاد میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ، رؤف رحیم صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، ستائیس رجب کو مجھے نبوت عطا ہوئی جو اس دن کا روزہ رکھے اور افطار کے وقت دعا کرے دس برس کے گناہوں کا کفارہ ہو ۔‘‘ (بحوالہ فتاوی رضویہ ، کفن کی واپسی :17)
تبصرہ:
موصوف نےیہ فتاوی رضویہ سے نقل کیا ہے اور قابلِ تعجب بات یہ ہے کہ خود احمد رضا صاحب نے اس کے متعلق لکھا ہےکہ، ’’ اسنادہ منکر‘‘ یعنی اس کی سند منکر ہے ۔(فتاوی رضویہ :حوالہ مذکورہ ) ا ب اندازہ لگائیے جس روایت کے منکر ہونے کو احمد رضا خان بھی مان رہے ہیں اور لکھ بھی رہے ہیں مگر موصوف نہ جانے کیوں احمد رضا صاحب کے یہ الفاظ کھاگئے!!
ضرورت ہے خدا کے لئے نادم ہوجا
کر رہا ہے تیرے اغماض کا شکوہ کوئی
v تنزیہ الشریعہ کے حوالےسے پیش کردہ روایت :
’’ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جو رجب کی ستائیس کا روزہ رکھے اللہ تعالی اس کیلئے ساٹھ مہینوں (پانچ سال ) کے روزوں کا ثواب لکھے گا اور یہ وہ دن ہے جس میں جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام محمد عربی صلی اللہ تعالی علیہ و اٰلہ وسلم کیلئے پیغمبری لے کر نازل ہوئے ۔‘‘ (کفن کی واپسی :18)
تبصرہ:
اولاً : یہ روایت موقوف ہے ۔
ثانیاً: اس میں شھر بن حوشب راوی اگرچہ صدوق ،حسن الحدیث ہےمگر کثیر الارسال ،والاوھام بھی ہے ۔ اسی طرح شھر بن حوشب سے روایت کرنے والا مطر بن طھمان بھی صدوق ہے ،مگر کثیر الخطاء ہے۔
امام ابن سعدکہتے ہیں کہ : یہ حدیث میں ضعیف ہے۔
امام یحی بن سعید، مطر الوراق کی برے حافظے میں ابن ابی لیلی سے تشبیہ دیتے تھے ۔امام ابو زرعہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کو صالح اس انداز میں کہا کہ گویا کہ ان کو لین الحدیث کہہ رہے ہو۔امام نسائی کہتے ہیں : قوی نہیں ہے ۔امام ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیااور فرمایا یہ کبھی کبھی خطا کرتا ہے ۔امام عجلی فرماتے ہیں کہ یہ صدوق ہے ۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ میرے نزدیک حجت نہیں اور جب یہ کسی حدیث میں اختلاف کرے تو قابلِ حجت نہیں ۔امام ابن عدی نے اسے ضعفاء میں لاکر اس کی احادیث کی مثالیں دیں اور فرمایا :اس راوی کے ضعف کے باوجو داس کی احادیث کو جمع کیا جائے گا ،اور لکھا جائے گا ۔
امام دارقطنی کہتے ہیں:یہ قوی نہیں ہے ۔امام ساجی کہتے ہیں: صدوق ہے، وہم کرتا ہے ۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: صدوق ہے اور بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا ہے ۔اور اس کی حدیث عطا بن ابی رباح سے ضعیف ہے ۔
[دیکھئےتہذیب الکمال :5994،طبقات ابن سعد :،تاريخ الكبير: 7 / 1752،ضعفاء النسائی : 567 ،ضعفاء العقيلی :213، الجرح والتعديل: 8 /1319 ،الكامل لابن عدی: 3 /140 ،ثقات ابن حبان:435/5، سير أعلام النبلاء:5/ ،452ميزان الاعتدال: 4 / 8587 )]
معلوم ہوا کہ یہ اگرچہ صدوق راوی ہے اور اس کی روایت متابعت وغیرہ میں چل سکتی ہے مگر ساتھ ہی یہ کثیر الخطا بھی ہے ۔
لہذا یہاں ان دونوں راویوں سے خطاء و وہم ہوا ہے اس لئے کہ اولاً:یہ صحیح روایات کے خلاف ہے ،ثانیا: ًاس روایت کے مقابلے میں سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہی ایک اور روایت بھی ہے جس میں ہے کہ اٹھارہ ذوالحجہ کا روزہ ساٹھ مہینوں کے اجر کے برابر ہے ۔ (دیکھئے :تاریخ دمشق :8/290)
اس روایت کو بھی کثیر علماء نے ضعیف قرار دے رکھا ہے ۔نیز امام ذھبی نے اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :ھذا حدیث منکر جدا ، بل کذب ، فقد ثبت فی الصحیح ما معناہ : ان صیام شھر رمضان بعشرۃ اشھر ، فکیف یکون صیام یوم واحد یعدل ستین شھرا ؟ ھذا باطل ۔۔۔ (انسان العیون للحلبی: باب حجۃ الوداع ،385/3، کشف الخفاء : حرف المیم ، 2/307،)
یعنی : یہ حدیث بہت زیادہ منکر ہے بلکہ جھوٹ ہے ،جبکہ صحیح روایت میں تو یہ ہے کہ رمضان کا روزہ تودس مہینوں کے برابر ہے ،بھلا کیسے یہ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک روزہ 60 مہینوں کے روزوں کے برابر ہو۔سو یہ خبر باطل ہے ۔
تنبیہ : اگرچہ رمضان کے بارے میں یہ روایت بھی ہمیں نہیں ملی، البتہ یہاں تک تو بات مسلم ہے کہ رمضان کی عبادت کا مقام سب سے اعلی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ مذکورہ روایت کو بھی کئی ایک علماء نے ضعیف قرار دے رکھا ہے ،مثلاً:
قال ابو الخطاب :ھذا حدیث لا یصح (کتاب الباعث لابی شامۃ ) یعنی :یہ حدیث صحیح نہیں ۔
تنزیہ الشریعہ سے استدلال :
ثالثاً: موصوف نے تنزیہ الشریعہ کا حوالہ دیا ہے، حالانکہ علماء و طلباء بخوبی جانتے ہیں کہ اس کتاب کا موضوع ہی من گھڑت اور معلول روایات کی نشاندہی ہے یعنی اس کتاب میں لوگوں کے علم و معرفت کے لئے وہ روایات جمع کی گئی ہیں کہ جو من گھڑت و ضعیف ہوں تاکہ کوئی بھی ان روایات کو دلیل نہ بنا سکے اور ان روایات کی بناء پر کسی عمل کی بنیاد نہ رکھی جاسکے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ موصوف کے حوالے میں اس کتاب ہی پر اکتفاء کس بات کی چغلی کھا رہا ہے ،اب دو باتوں میں سے ایک ضرور ہے یا تو موصوف کو دھوکا دینے کی عادت ہوگئی ہے جانتے بوجھتے ہوئے بھی وہ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں ،یا پھر موصوف علمی اعتبار سے بالکل ہی کورے ہیں اورصرف ہر رطب ویابس جمع کرنا اورصحیح اور سقیم کی تمیز کئے بغیر انہیں بیان کرنا ،لوگوں میں پھیلاناہی ان کا شیوہ ہے۔
ٹوٹیں گے اپنے ہاتھ یا کھولیں گے یہ نقاب
سلطان عشق کی یہی فتح و شکست ہے
v شعب الایمان کے حوالے سےتحریر کردہ ایک اور روایت :
’’ رجب میں ایک دن اور رات ہے جو اس دن روزہ رکھے اور رات کو قیام (عبادت)کرے تو گویا اس نے سو سال کے روزے رکھے اور یہ رجب کی ستائیس تاریخ ہے ۔ اسی دن محمد صلی اللہ تعالی علیہ و اٰلہ وسلم کو اللہ عز وجل نے مبعوث فرمایا۔‘‘ (کفن کی واپسی :18)
تبصرہ :
حسب سابق یہ روایت بھی منکر ہے۔
اس میں ھیاج نامی راوی ضعیف ہے ۔
اقوال العلماء پیشِ خدمت ہیں:
امام ابن حجر :ضعیف ہے اس کا بیٹا خالد بڑی منکر روایات بیان کرتا ہے ۔
امام ابن معین :یہ ضعیف ہے اور کوئی چیز نہیں ہے ۔
امام ابو داؤد :اسے محدثین نے چھوڑ دیا ہے یہ کچھ بھی نہیں ہے ۔
امام صالح بن محمد:ھیاج منکر الحدیث ہے ،اس کی حدیث نہیں لکھی جائے گی ،البتہ ایک یا دو تین اعتبار (شواہد)کے لئے۔
امام حاکم:یہ احادیث جس کے بارے میں صالح کا (مذکورہ بالا خیال ہے ) اس میں اصل گناہ اس (ھیاج)کے بیٹے خالد کی طرف سے ہے ،اس کا بوجھ اسی پر ہے ۔
امام یحی بن احمد بن زیاد الھروی :ھیاج کی احادیث کا انکار اس کے بیٹے خالد کی جہت سے ہے ۔
امام ابو حاتم :اس کی حدیث لکھی جائے گی اور اس سے حجت نہیں لی جائے گی ۔ابن حبان : یہ مرجیٔ تھا اورثقات کی طرف منسوب کرکے موضوع روایات بیان کیا کرتا تھا ۔
[تہذیب الکمال :7/437، تاریخ کبیر :8/124، الجرح والتعدیل :9/138،میزان الاعتدال :4/240، لسان المیزان :9/262، تاریخ بغداد :14/80،تقریب التہذیب :2/331،تبیین العجب ؛117،118]
ھیاج کا بیٹا خالد بھی ضعیف ہے ،جیسا کہ مذکورہ بالا اقوال سے واضح ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت بھی ضعیف ہے ، لہذا اس سے استدلال بھی صحیح نہیں ۔
v شعب الایمان کے حوالے سے ایک اور روایت:
’’ رجب میں ایک رات ہے کہ ا س میں نیک عمل کرنے والے کو سو برس کی نیکیوں کا ثواب ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے ۔ جو اس میں بارہ رکعت پڑھے ، ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور کوئی ایک سورت اور ہر دو رکعت پر التحیات اور آخر میں سلا م پھیرنے کے بعدسو بار سبحان اللہ والحمدللہ و لاالہ الا اللہ واللہ اکبر سو بار درود پاک پڑھے اور اپنی دنیا و آخرت سے جس چیز کی چاہے دعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالی اس کی سب دعائیں قبول فرمائے گا سوائے اس دعا کے جو گناہ کیلئے ہو ۔ ‘‘ (کفن کی واپسی :19)
تبصرہ:
اس کی سند میں محمد بن فضل راوی ہے ،جس کی ائمہ نے تکذیب کی ہے ۔
اس کے بارے اہلِ علم کے اقوال :
امام احمد :اس کی حدیث جھوٹوں والی ہے ۔امام یحی: اس کی حدیث کو لکھا نہیں جائے گا ۔الفلاس : یہ کذاب راوی ہے ۔
امام ابن ابی شیبہ نے بھی اسے کذاب قرار دیا ہے ۔
کئی ایک علماء نے اسے متروک کہا ہے ۔
[دیکھئے: الجرح والتعدیل :8/56 ، الضعفاء :4/120 ، الکامل :6/170،المیزان :6/4 ،تقریب التہذیب :2/208]
v مجمع الزوائد کے حوالے سےتحریر کردہ روایت:
’’ جس نے ماہ حرام میں تین دن جمعرات ، جمعہ اور ہفتہ کا روزہ رکھا اسکے لئے دو سال کی عبادت کا ثواب لکھا جائے گا ۔ ‘‘
(بحوالہ مجمع الزوائد ، کفن کی واپسی :24)
موصوف لکھتے ہیں: ماہ حرام سے مراد چار ماہ ذوالقعدہ ،ذوالحجہ،محرم اور رجب ہیں ،ان چاروں مہینوں میں سے جس ماہ میں بھی ان تین دنوں کا روزہ رکھ لیں گے تو ان شاء اللہ عز و جل دو سال کی عبادت کاثواب پائیں گے۔(کفن کی واپسی :24)
تبصرہ:
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مجمع الزوائد میں محولہ مقام میں جو روایت موجود ہے اس میں دو سا ل کی عبادت کے الفاظ ہی نہیں ہیں بلکہ وہاں 60 مہینوں کی عبادت کے الفاظ ہیں ۔
ثانیاً : مذکورہ محولہ مقام پر اس روایت کی اسنادی حیثیت کو علامہ ہیثمی نےخود واضح کر دیا، جسے موصوف نےعادۃ بیان نہیں کیا اور مخفی رکھا ہے ،ہم اسے بیان کئے دیتے ہیں، چنا چہ امام ہیثمی نے جو سند پر بحث کی ہے وہ درج ذیل ہے :
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ مُوسَى الْمَدَنِيِّ عَنْ مَسْلَمَةَ، وَيَعْقُوبُ مَجْهُولٌ وَمَسْلَمَةُ هُوَ ابْنُ رَاشِدٍ الْحِمَّانِيُّ ; قَالَ فِيهِ أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِيُّ: مُضْطَرِبُ الْحَدِيثِ. وَقَالَ الْأَزْدِيُّ فِي الضُّعَفَاءِ: لَا يُحْتَجُّ بِهِ، وَأَوْرَدَ لَهُ هَذَا الْحَدِيثَ. (مجمع الزوائد : 5151)
امام ہیثمی فرماتے ہیں:طبرانی نے اسے اوسط میں ِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ مُوسَى الْمَدَنِيِّ عَنْ مَسْلَمَةَ، کے طریق سے بیان کیا ہے اس میں یعقوب نامی راوی مجھول ہے اور مسلمۃ نامی راوی ، وہ راشد الحمانی کابیٹا ہے جس کے بارے میں ابو حاتم رازی نے کہا ہے کہ:یہ مضطرب الحدیث ہے اور ازدی نے الضعفاء میں کہا ہے کہ: اس سے دلیل نہیں لی جاتی ۔اور ازدی نے اس کی یہ روایت بھی درج کی(جو دلیل لئے جانے کے قابل نہیں ہے) ۔
قارئین نے ملاحظہ کیا کہ اس روایت کے کتنے راویوں کو خودصاحب مجمع الزوائد نے ضعیف قرار دیا ہے ۔مگر بلا دریغ موصوف اس روایت کو مجمع الزوائد کے حوالے سے نقل توکررہے ہیں ۔مگرصاحبِ کتاب نے جو اس روایت کا ضعف بیان کیا اور اسکے راوی پر جرح بیان کی وہ چھپا گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
بسا آرزو کہ خاک شد
تنبیہ : جیسا کہ گزر چکا کہ علامہ ہیثمی نے جو روایت ذکر کی ہے، اس میں ساٹھ ماہ کاذکر ہے ،البتہ اس روایت کا حوالہ طبرانی اوسط کا دے کر جس سند پر کلام کیا ہے ،وہ روایت وہی ہے جو الیاس قادری صاحب نے اپنے کتابچہ میں ذکر کی ہے،(کہ ماہ حرام کے دن کے روزوں کی فضیلت دوسال کے برابر ہے )نیز اسے روایت کرنے کے بعد خود امام طبرانی نے اس کی اسنادی حیثیت کی طرف کچھ یوں اشارہ فرمایا: لم یرو ھذا الحدیث عن مسلمۃ الا یعقو ب تفرد بہ محمد بن یحییٰ ۔(طبرانی اوسط حدیث نمبر :1789) یعنی :اس حدیث کو مسلمہ سے یعقوب کے علاوہ کوئی نہیں بیان کرتا ،اور یعقوب سے روایت لینے میں محمد بن یحی متفرد ہیں ۔
اور یعقوب نامی راوی کی حیثیت امام ہیثمی نے بیان کردی کہ وہ مجہول ہے۔
v نزھۃ المجالس کے حوالے سے تحریر کردہ واقعہ :
’’ایک بار حضرت سیدنا عیسی روح اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کا گزر ایک جگمگاتے نورانی پہاڑ پر ہوا ۔ آپ علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی عز وجل میں عرض کی ،یا اللہ عز و جل ! اس پہاڑ کو قوت گویائی عطافرما ۔وہ پہاڑ بول پڑا ، یا روح اللہ(علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام ) آپ کیا چاہتے ہیں ؟ فرمایا ، اپنا حال بیان کر ۔پہاڑ بولا : میرے اندر ایک آدمی رہتا ہے ۔ سیدنا عیسی روح اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام نے بارگاہ الہی عز وجل میں عرض کی ، یا اللہ اس کو مجھ پر ظاہر فرمادے۔ یکایک پہاڑ شق ہوگیا اور اس میں سے چاند سا چہرہ چمکاتے ہوئے ایک بزرگ برآمد ہوئے ۔ انہوں نے عرض کیا ، میں حضرت سیدنا موسی کلیم اللہ (علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام )کا امتی ہوں میں نےاللہ عز و جل سے یہ دعا کی ہوئی ہے کہ وہ مجھے اپنے پیارے محبوب ، نبی آخری زمان صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم کی بعثت مبارکہ تک زندہ رکھے تاکہ میں انکی زیارت بھی کروں اور ان کی امتی بننے کا شرف بھی حاصل کروں ۔ الحمدللہ عز و جل میں اس پہاڑ میں چھ سو سال سے اللہ کی عبادت میںمشغول ہوں ۔ حضرت سیدنا عیسیٰ روح اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی ، یا اللہ عز و جل ! کیا روئے زمین پر کوئی بندہ اس شخص سے بڑھ کر بھی تیرے یہاں مکرم ہے ؟ ارشاد ہوا ، اے عیسیٰ علیہ السلام ! امت محمدی میں سے جو ماہ رجب کا ایک روزہ رکھ لے وہ میرے نزدیک اس سے بھی زیادہ مکرم ہے ۔ ‘‘(کفن کی واپسی :26)
تبصرہ :
نزھۃ المجالس کے بارے میں اہل علم میں معروف ہے کہ اس میں بکثرت ضعیف و موضوع روایات اور قصے ہیں، چناچہ خود ایک مکتبہ نے اسےمترجَم شائع کیا مگراندر والے ٹائیٹل پہ کچھ یوں لکھا ہوا ہے:
یہ مشہور کتاب نزہۃ المجالس عجیب و غریب قصص و نادر حکایات ،امام شافعی کے مذہب کے موافق فقہی مسائل ، موضوع روایات اور بعض صحیح احادیث کے بیش بہا نہایت دلچسپ ذخیرے پر مشتمل ہے ۔
(مطبوعہ سعید ایچ ایم کمپنی ادب منزل پاکستان چوک کراچی ،)
دیکھئے اس کتاب کا تعارف کرواتے ہوئےخود یہ مذکورہ مکتبہ لکھتا ہے کہ بعض صحیح احادیث ،اور جب اس سے پہلے قصص ، موضوع روایات کی بات کی تو بعض کا لفظ استعمال نہیں کیا یعنی خود مذکورہ مکتبہ کو بھی یہ مسلم ہے کہ اس میں بکثرت ضعیف و موضوع روایات و قصص ہیں اور صحیح روایات بہت کم ہیں ۔
ثانیاً:اس واقعے کی کوئی سند پیش نہیں کی گئ ،لہذا بلا سندمن گھڑت واقعہ کو کسی نبی کی طرف منسوب کرنا کبیرہ گناہ اور قابلِ مذمّت فعل ہے ۔
ثالثا ً : کتب رجال کو کھنگال ماریئے ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ نبی ﷺ کا کوئی ایسا صحابی ہو اور اس کا یہ مذکورہ بالا قسم کا واقعہ ہو ،یعنی یہ ایک بلا سند و جھوٹا واقعہ ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ موصو ف کا دیگر کتابچوں کی طرح یہ کتابچہ بھی ضعیف ، موضوعات و من گھڑت روایات اور قصوں و حکایتوں سے مملوء ہے لہذا اس میں بیان کردہ رجب سے متعلقہ تمام فضائل کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ۔
دیگر بیان کردہ ضعیف روایتوں کی طرح ایک ضعیف روایت میں تورجب کے پورے مہینے کے روزوں سے بھی روکا گیا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ :1743، طبرانی الکبیر :10681، شعب الایمان :3/375 )
اب موصوف نے اسے نہ جانے کیوں اپنے اس کتابچےکا حصہ نہیں بنایا ؟
آپ ہی اپنی اداؤں پر غور کریں
ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
اللہ کی توفیق و عون سے ماہ رجب کے حوالے سے موصوف کی موضوع وضعیف کے مجموعہ سے پُرتحریرکی حقیقت قارئین کی خدمت میں پیش کی جا چکی ہے۔
اب یہاں مناسب ہے کہ بعض اسلاف کے اقوال بھی اس باب میں پیش کردیئے جائیں ۔ جن سے مزید رجب کی فضیلت اور اس کے روزوں کی فضیلت میں موجود روایات کی حقیقت واضح ہوجائے گی ۔
(1) معروف محدث و امام شارح صحیح بخاری شریف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم یرد فی فضل شھر رجب ، ولا فی صیامہ ، ولا فی صیام شئی منہ معین ، ولا فی قیام لیلۃ مخصوصۃفیہ حدیث صحیح یصلح للحجۃو قد سبقنی الی الجزم بذلک الامام ابو اسمٰعیل الھروی الحافظ ، رویناہ عنہ باسناد صحیح ، و کذلک رویناہ عن غیرہ ۔ (تبیین العجب :71)
یعنی :رجب کے مہینے کی فضیلت کے حوالے سےکوئی صحیح روایت وارد نہیں ہوئی اور نہ ہی رجب کے روزوں کے بارے میں ، اور اسے مخصوص روزوں اور قیام کے بارے میں بھی کوئی صحیح روایت وارد نہیں جو حجت کے قابل ہو ۔اور مجھ سے پہلے یہی بات امام ابو اسمعیل نے کہی ہے جسے ہم نے سند صحیح کے ساتھ بیان کیا ہے ۔
(2) امام ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واماالصیام،فلم یصح فی فضل صوم رجب بخصوصہ شئی عن النبی ﷺ ولا عن الصحابۃ (لطائف المعارف :228)
یعنی :نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ سے رجب کے روزوں سے متعلق کچھ بھی ثابت نہیں۔
(3) امام عبداللہ انصاری کے بارے میں آتا ہے :
كَانَ عَبْد اللَّهِ الأَنْصَارِيّ لَا يَصُوم رَجَب وَينْهى عَن ذَلِك يَقُول: مَا صَحَّ فِي فضل رَجَب وَفِي صِيَامه عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم شئ(الموضوعات لابن الجوزی :کتاب الصیام ،،2/208المغنی عن الحفظ والکتاب :باب صیام رجب و فضلہ ،1/371)
یعنی : امام عبداللہ انصاری رجب کے روزے نہیں رکھتے تھے اور اس سے روکتے تھے اور فرمایا کرتے تھے :رجب کی فضیلت اور اس کے روزوں کے حوالے سے کوئی صحیح روایت مروی نہیں ۔
(4)علی بن ابراہیم العطارکہتے ہیں:
ان ما روی فی فضل صیام رجب ، فکلہ موضوع و ضعیف ، لا اصل لہ (الفوائد المجموعۃ :392)
یعنی :رجب کے روزوں کے بارے میں جو کچھ مروی ہے وہ سب ضعیف و موضوع ہے ۔
(5)امام ابن القیم رحمہ اللہ :
و کل حدیث فی ذکر صوم رجب و صلوۃ بعض اللیالی فیہ ، فھوکذب مفتری۔ (المنار المنیف :84)
یعنی :رجب اور اس کی بعض راتوں کے قیام کے حوالے سے تمام روایات جھوٹ اور بہتان ہیں ۔
ضروری وضاحت :
ہماری مذکورہ تمام گزارشات سے واضح ہوگیا کہ رجب کے روزوں کی فضیلت اور رجب کی دیگر مخصوص عبادات کسی صحیح حدیث یا اثر سے ثابت نہیں ہیں، البتہ یہاں کچھ باتوں کی وضاحت ضروری ہے:
1) اگر ایک شخص کی مسلسل روزے رکھنے کی کوئی ترتیب بنی ہوئی ہے اور اسی ترتیب میں رجب کا مہینہ بھی آرہا ہے تو اس جہت سے یہ روزے رکھے جاسکتے ہیں ، مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ روزے مسلسل نہ ہوں یعنی لگاتار و پے درپہ بغیر گیپ کے نہ ہوں ،کیونکہ رسولِ اکرم ﷺنے اس سے منع فرمایا ہے اور فرمایا:" سب افضل روزہ سیدنا داؤد علیہ السلام کے روزے ہیں وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن فاصلہ رکھتے" یعنی ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھتے اس سے زیادہ کی شرعاً اجازت نہیں،اگر کسی نے مسلسل نفلی روزے رکھنے ہوں تو وہ سیدنا داؤد علیہ السلام کی طرح رکھے ۔
2) کفاروں و قضاء کی صورت میں مسلسل روزے رکھےجاسکتے ہیں کیونکہ وہ واجبی روزے ہیں نہ کہ نفلی۔
رسولِ اکرمﷺکی سنّتِ مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر اسلامی مہینہ کی 13،14،1ٍ5 تاریخ کے روزے اور ہر پیر و جمعرات کے روزے عام مہینوں کی طرح ماہِ رجب میں بھی رکھے جاسکتے ہیں ، لیکن ان کا ماہِ رجب سے کسی بھی قسم کا کوےی تعلق نہیں ، آپﷺ عموماً پورے سال میں اس ترتیب سے روزے رکھتے تھے۔
رب کریم ہمیں تمام بدعات وناجائزرسومات سے بچا کر توحید و سنت پر کار بند رکھے ۔(آمین )
وآخرُ دعوانا ان الحمدُ للہ ربّ العالمین
No comments:
Post a Comment