Sunday, 13 June 2021

تحقیق اور حقِ تحقیق۔۔۔۔۔محلِ تحقیق، ضرورتِ تحقیق اور اہلِ تحقیق

تحقیق اور حقِ تحقیق:

برادرانِ اسلام! آج دنیا میں علمی پندار نے کچھ ایسی آزاد روی اختیار کرلی ہے کہ جاہلیت تو صرف ایک ہی فتنہ تھی لیکن یہ آزادی نت نئے فتنوں کو جنم دے رہی ہے۔ جس کو دیکھو وہ دین میں تحقیق کا مُدّعی ہے اور بلاجھجک کہتا ہے کہ میں تحقیق کررہا ہوں، اس بات پر اسے بہت بڑا فخر اور غرور ہے۔



تحقیق کا حکم:
اس مین شک نہیں ہے کہ دینِ اسلام ہی ایک تحقیقی دین ہے اور اس نے تحقیق کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ
ترجمہ:         
"اے ایمان والو! اگر آئے تمہارے پاس کوئی گنہگار خبر لے کر تو تحقیق کرلو، کہیں جا نہ پڑو کسی قوم پر نادانی سے، پھر کل کو اپنے کیے پر لگو پچھتانے"۔
[سورۃ الحجرات:6]
یعنی اکثر نزاعات اور مناقشات کی ابتداء جھوٹی خبروں سے ہوتی ہے اس لئے اول اختلاف و تفریق کے اس سرچشمہ کو بند کرنے کی تعلیم دی، یعنی کسی خبر کو یوں ہی بےتحقیق قبول نہ کرو۔
معلوم ہوا کہ دین و دنیا میں سارے فسادات کی بنیاد، عدم تحقیق ہے۔ اگر دنیا میں بے تحقیق باتوں پر عمل کروگے تو دنیا کا نقصان ہوگا، اگر دین میں بے تحقیق باتوں پر عمل کیا تو دین برباد ہوگا۔



عام خبریں جاننے پھیلانے سے پہلے 3 باتوں کی تحقیق کریں؟
خبر دینے والے سے پوچھیں کہ۔۔۔۔۔
(1)کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ بات سچ ہے؟
(2)کیا وہ بات اچھی ہے یا بری؟
(3)کیا مجھے یا کسی اور کو اس بات سے فائدہ ہوگا؟
جب کوئی خبر سچی، اچھی یا فائدہ مند نہیں تو سننے کی کیا ضرورت۔





تحقیق کا حق:
جس طرح دنیا میں ہر فن میں اسی کی بات تحقیق مانی جاتی ہے جو اس فن میں کامل مہارت رکھتا ہوں، نہ کہ کسی فن سے ناآشنا کی۔ مثلاً: ہیرے جواہرات کے بارے میں ماہر جوہری کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ کسی موچی کی، سونے کے بارے میں ماہر سنار کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ کسی کمہار کی، اور قانون میں تحقیقی بات ماہر قانون دان کی ہوگی نہ کہ کسی مداری کی۔ اسی طرح دین میں بھی دین کے ماہرین کی تحقیق مانی جائے گی نہ کہ ہر کندۂ ناتراش کی۔ اسی لیے اللہ نے جس طرح تحقیق کا حکم دیا یہ بات بھی واضح فرمادی کہ تحقیق کا حق کس کس کو ہے۔ فرمایا:
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا
ترجمہ:
اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اس کو مشہور کر دیتے ہیں، اور اگر اس کو پہنچا دیتے رسول تک اور اپنے حکم والوں تک تو تحقیق کرتے اس کو جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں اس کی، اور اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا تم پر اور اس کی مہربانی تو یقیناََ تم سب پیچھے ہو لیتے شیطان کے مگر تھوڑے۔
[سورۃ النساء:84]

یعنی ان منافقوں اور کم سمجھ مسلمانوں کی ایک خرابی یہ ہے کہ جب کوئی خبر آتی ہے تو اس کو بلا تحقیق مشہور کرنے لگتے ہیں اور اس میں اکثر نقصان اور فساد مسلمانوں کو پیش آتا ہے، منافق ضرر رسانی کی غرض سے اور کم سمجھ مسلمان کم فہمی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ کہیں سے کوئی خبر آئے تو چاہیے کہ اول پہنچائیں سردار تک اور اس کے نائبوں تک، جب وہ اس خبر کی تحقیق اور تسلیم کرلیں تو ان کے کہنے کے موافق اس کو کہیں نقل کریں اور اس پر عمل کریں۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالی نے تحقیق کرنے کا حق رسول اقدس ﷺ اور ان کے بعد اہلِ استنباط (یعنی قرآن وسنت کی گہرائی سے مسائل کا حل "نکالنے-ظاہر کرنے والے ماہرین) کو دیا ہے جس کو اصطلاح میں "مُجتَہِدین" کہتے ہیں۔




اہلِ استنباط کون؟
استنباط عربی زبان کا لفظ ہے اس کے معنیٰ ہیں کہ اللہ تعالی نے جو پانی زمین کی تہہ میں پیدا کرکے عوام کی نظروں سے چھپا رکھا ہے اس پانی کو کنواں وغیرہ بناکر "نکال لینا"۔ اللہ تعالی نے اجتہاد اور فقہ کی ایسی اہم مثال دی کہ ہر شخص آسانی سے سمجھ جائے۔ یہ مثال دے کر پہلی بات تو یہ سمجھا دی کہ انسانی زندگی کے لئے جتنا پانی ضروری ہے کہ اس کے بغیر نہ وضو، نہ غسل، نہ کپڑے صاف، نہ کھانا پکانا۔ اسی طرح اسلامی زندگی کے لیے فقہ ضروری ہے، عبادات ہوں یا معاملات، اقتصادیات ہوں یا سیاسیات، حدود ہوں یا تعزیرات، غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں فقہ کی رہنمائی کی ضرورت نہ ہو۔ دوسری بات یہ سمجھا دی کہ فقہ اور استنباط کسی شخص کی ذاتی خواہش کا نام نہیں۔ جس طرح زمین کی تہہ میں جو پانی ہے وہ اللہ تعالی کا ہی پیدا کیا ہوا ہے نہ کہ اس انسان کا جس نے کنواں کھود کر اس کو نکال لیا، جب بھی کوئی آدمی کسی کنوئیں کا پانی پیتا ہے تو اس عقیدے سے کہ اس پانی کا ایک ایک قطرہ خداوند قدوس کا ہی پیدا کیا ہوا ہے۔ ایک قطرہ بھی اس مستری نے پیدا نہیں کیا۔ اس نے صرف اپنی محنت اور اوزاروں کی مدد سے اس کو ظاہر کر دیا ہے تاکہ خلقِ خدا مستفید ہو، اسی طرح مُجتَہِد دین کے باریک مسائل کو اصولِ فقہ کی مدد سے عوام کے سامنے ظاہر کرتا ہے تاکہ خدا اور رسول کے ان مسائل پر عوام کے لئے عمل کرنا آسان ہو جائے۔ اسی لئے اصول فقہ میں ہر مُجتَہِد کا ایک ہی اعلان ہوتا ہے: "الْقِيَاسُ ‌مُظْهِرٌ ‌لَا ‌مُثْبِتٌ" کہ ہم قیاس کی مدد سے کتاب و سنت کی تہہ میں پوشیدہ مسئلے کو صرف ظاہر کرتے ہیں۔ حَاشَا وَكَلَّا ہم ہرگز کوئی مسئلہ اپنی ذات سے گھر کر کتاب وسنت کے ذمہ نہیں لگاتے۔
[شرح التلويح على التوضيح:1/30، البحر المحيط في أصول الفقه:7/17، فصول البدائع في أصول الشرائع:1/197]
تیسری بات یہ سمجھا دی کہ جس طرح اللہ تعالی نے جب زمین پیدا فرمائی اسی دن سے یہ پانی اس کی تہہ میں پیدا فرما دیا، البتہ اس کا نکالنا ضرورت کے مطابق ہوتا رہا کسی علاقے میں کنوئیں چار ہزار سال پہلے بن گئے، کسی ملک میں چار ہزار سال بعد لیکن جہاں بھی پانی نکالا گیا وہ خدا ہی کا پیدا کردہ پانی تھا۔ کوئی عقلمند یہ نہیں کہہ سکتا کہ جن علاقوں میں پہلے پانی نکل آیا وہ تو خدا کا پیدا کردہ تھا اور جن علاقوں میں بعد میں کنوئیں بنائے گئے وہ بعد میں کسی انسان کا پیدا کردہ تھا۔ پہلی صدی میں ائمہ اربعہ رحمہم اللہ نے جو اجتہادات فرمائے، وہ بھی کتاب وسنت ہی کے مسائل کا بیان اور تفصیل تھی۔ فرق صرف اس قدر رہا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مبارک زندگی جہاد میں گزر گئیں۔ اس لئے ان نفوسِ قدسیہ کو اس کی مکمل تفصیل اور "تدوین" کا موقع نہ ملا۔ یہ سعادت ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی قسمت میں تھی کہ کتاب وسنت کے ظاہر اور پوشیدہ مسائل کو پوری تشریح اور تفصیل کے ساتھ نہایت آسان اور عام فہم ترتیب سے "مدون" فرما دیا تاکہ قیامت تک کے مسلمانوں کو کتاب و سنت پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔



خلاصہ:
جس طرح ایک شخص نے کنواں بنالیا اور ہزاروں لوگ اس میں سے پانی پی رہے ہیں، وضو اور غسل کر کے نماز ادا کر رہے ہیں، کھانا پکانا ہو رہا ہے۔ اب کوئی شخص یہ شور مچا دے کہ اس کنوئیں کا تعارفی نام چوہدری نواب دین کا کنواں ہے اس لئے اس میں جو پانی ہے وہ خدا کا پیدا کیا ہوا نہیں بلکہ یہ پانی چودھری نواب دین کا پیدا کیا ہوا ہے۔ چودھری نواب دین خدا کا شریک بنا بیٹھا ہے، جو لوگ اس کنوئیں سے پانی پیتے ہیں وہ مشرک ہیں، نہ ان کا وضو صحیح ہے نہ غسل، نہ نماز درست ہے نہ روزہ، تو کیا کوئی عقل مند آدمی اس کی خرافات پر کان دھرے گا؟؟؟ یہی حال یہاں ہے کہ ائمہ مُجتَہِدین رحمہم اللہ نے کتاب وسنت کے مسائل کو ظاہر کر دیا اور کنوئیں کی شکل دے دی۔ مقلدین ان مسائل کے موافق نماز، روزہ، حج، زکوۃ، جہاد وغیرہ اعمال میں مصروف ہوگئے۔ ہمارے غیر مقلد دوست کبھی تو کہتے ہیں کہ یہ پانی خدا کا پیدا کیا ہوا نہیں، ورنہ اس کے ہر ہر قطرے پر اللہ تعالی کا نام لکھا ہوا دکھاؤ، کبھی یہ کہتے ہیں کہ ساری عمر ایک ہی کنوئیں کے پانی سے وضو کرنا یہ تو تقلید شخصی ہے، یہ شرک ہے۔ ہر نمازی کا فرض ہے کہ فجر کی نماز کا وضو اپنے گھر کے نلکے سے کرے، ظہر کا وضو دوسرے ضلع کے نلکے سے، عصر کا وضو دوسرے صوبے کے نلکے سے، مغرب کا وضو دوسرے ملک کے نلکے سے اور عشاء کا وضو دوسرے جہاں کے نلکے سے، ورنہ ایک ہی نلکے سے سب نمازوں کے لئے وضو کرنا کرانا تقلیدِ شخصی ہے اور شرک ہے۔ اہلسنت والجماعت کہتے ہیں کہ جب ہم کنوئیں کے محتاج ہیں تو جس کا پانی آسانی سے دستیاب ہو جائے ساری عمر اسی ایک کنوئیں کا پانی پینا، اسی کے پانی سے ساری عمر کھانا پکانا، اسی کے پانی سے ساری عمر وضو و غسل کرنا بالکل درست ہے، اس کو شرک کہہ کر تمام مسلمانوں کو مشرک بنانا دین کی کوئی خدمت نہیں۔




آمدم بر سر مطلب:
استنباط کا معنیٰ واضح کرنے کے بعد پھر اصل بات کی طرف توجہ کرتے ہیں کہ دین میں تحقیق کا حق صرف دو ہستیوں کو ہے: (1)رسول اللہ ﷺ اور (2)مُجتَہِد۔



رسول الله ﷺ کا مقام:
رسول دین میں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں گھڑتا بلکہ وہ اللہ ہی کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچاتا ہے اور صرف پہنچاتا ہی نہیں اسے سکھاتا بھی ہے۔ اس کی حیثیت مُعلّم کی بھی ہے کہ وہ اپنے قول، فعل اور تقریر سے اس پیغام کی تشریح کرتا ہے۔ وہ صرف مُبَلّغ اور مُعلّم ہی نہیں "مبین" (کھول کھول کر بیان کرنے والا) بھی ہے۔ خدا کی نگرانی میں اس کی وحی کی تشریح کرتا ہے۔ وہ قاضی اور حَکَم بھی ہے کہ احکامِ الہی کو نافذ کرتا ہے۔ اس کی پوری زندگی وحی کے مطابق ڈھلی ہونے کی وجہ سے پوری کائنات کے لئے اُسوۂ حَسَنہ ہے، وہ دین کے ہر فیصلے میں معصوم ہے۔ یہ درحقیقت اللہ تعالی کا بہت بڑا فضل اور مہربانی تھی کہ اپنی پاک وحی کی تشریح اپنی نگرانی میں معصوم پیغمبر ﷺ سے کروا دیں تاکہ بندوں کے لئے خدا کے احکام کے سمجھنے اور عمل کرنے میں کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو جائے، وہ حقوقِ بندگی پورے اطمینان کے ساتھ ادا کر سکیں لیکن شیطان جو اولادِ آدم کے گمراہ کرنے کی قسم کھا کر آیا تھا اس نے کتنے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لیا کہ خدا اور بندوں کے درمیان رسول کا واسطہ یقیناً ہے لیکن اتنا جتنا ڈاکئے اور چھٹی رساں کا ہوتا ہے۔ خدا کے کلام کو پہچانا اس کا کام ہے۔ سمجھنا ہمارا اپنا کام ہے، وہ لوگ دین کے نام پر لوگوں کو بے دین کرنے لگے اور شیطان کے پیچھے لگ کر یوں کہنے لگے کہ رسول ﷺ مخلوق ہے اگر اس کے کلام کو بھی مان لیا تو گویا مخلوق کو خدا کے برابر مان لیا اور یہ شرک ہے۔ چنانچہ پیغمبر پاک ﷺ سے منہ موڑ کر اپنی ذہنی سطح کے موافق اور اپنی خواہشات نفسانی کے موافق ایک نیا اسلام گھر لیا۔ اس نئے اسلام کو خدا کا اسلام اور اصلی اسلام کو رسول ﷺ کا گھڑا ہوا اسلام قرار دیا اور اپنا نام "اہلِ قرآن" رکھ لیا۔ وہ لوگ اپنی ہر خواہش کو قرآن کا نام دیتے ہیں۔ جن کا انگریز کے دور سے پہلے کوئی ترجمۂ قرآن نہیں وہ قرآن کے مالک بن بیٹھے اور پوری امت کو رسول ﷺ سمیت منکرِ قرآن قرار دیا۔ بھولے بھالے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ یہ غلط ہے کہ اہلِ قرآن نیا فرقہ ہے بلکہ جب سے قرآن ہے اسی وقت سے اہلِ قرآن ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ جب قرآن سچا تو اہلِ قرآن بھی سچے، تم قرآن کو سچا مان کر اہلِ قرآن کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے، پہلے معاذ اللہ قرآن کو جھوٹا کہو پھر اہلِ قرآن کو جھوٹا کہہ لینا۔ جب اہلِ قرآن کی خرافات جس کو وہ قرآن کے نام سے پیش کرتے ہیں غلط ثابت کیا جاتا ہے تو فوراََ جان چھڑا جاتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں مانتے، ہم صرف قرآن کو مانتے ہیں۔ اگر آج کے اہلِ قرآن کو ماننا ضروری ہوتا تو رسول پاک ﷺ کو ہی مان لیتے ان کو کیوں چھوڑتے۔ اس طرح وہ شیطانی خرافات پھیلاتے بھی ہیں اور جان بھی بچاتے ہیں۔ قرآن پاک نے خود اس طرز کو اتباعِ شیطان قرار دیا ہے نہ کہ اتباعِ قرآن۔



مُجتَہِد کا مقام:
مُجتَہِد شریعت ساز نہیں ہوتا، شریعت دان اور ماہرِ شریعت ہوتا ہے۔ وہ اگرچہ معصوم نہیں ہوتا لیکن مَطعُون بھی نہیں ہوتا کہ اس کے اجتہاد پر کوئی طعن کرے کیونکہ وہ اپنے ہر ہر اجتہاد میں مأجور(اجر دیا گیاRewarded ہوتا ہے۔ اگر وہ ثواب اور درستگی کو پالے تو دو اجر کا حقدار ہے ورنہ ایک اجر کا، اور یہ مقام امت میں مُجتَہِد کے علاوہ کسی کو نصیب نہیں کہ اس کی خطا پر بھی اجر کا وعدہ ہو۔

چنانچہ سیدنا حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
«إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ»۔
ترجمہ:
جب حاکم اجتہاد کرکے صحیح فیصلہ کرے تو اس کے لیے دوگنا اجر ہے اور اگر اجتہاد کے بعد غلط فیصلہ ہو جائے تو ایک اجر ہے۔
[صحیح بخاری:7352، صحیح مسلم:1716، سنن ابوداؤد:3574، سنن ابن ماجہ:2314، السنن الكبرىٰ النَّسائي:5887]

مُجتہد کے منصب کی وضاحت اِستنباط کی تشریح ہو چکی ہے۔ یہی دو ہستیاں دین میں تحقیق، تشریح اور تفصیل کے حقدار ہیں، یہی دو ہستیاں دین کی پہرے دار ہیں۔ یہ بھی اللہ تعالی کا بڑا فضل اور مہربانی ہے کہ تحقیق اور اجتہاد کا وہ ہم جیسے ضعیفوں کے کندھوں پر نہیں ڈالا بلکہ مُجتَہِدین کی تحقیق پر عمل کرنے کا حکم دے کر ایک طرف دین کو نااہلوں کی تحریف سے بچا لیا، دوسری طرف ہمیں اطمینان اور دلجمعی کی دولت سے نوازا کے ہمیں پورا اطمینان ہے کہ مُجتَہِد کی رہنمائی میں کیا ہوا عمل یقیناً بارگاہِ خداوندی میں مقبول ہے اور ایک اجر کا بھی پکا یقین ہے اور دوسرے اجر کی اس کی رحمتِ واسعہ سے امید ہے لیکن خدا کے فضل اور مہربانی کی بھی بعض لوگوں نے قدر نہ کی اور مُجتَہِدین سے بغاوت کرکے اپنی کم فہمی اور کج فہمی سے دین کی نئی نئی تشریحات شروع کر دیں۔ مُجتَہِد کے بارے میں خدا اور رسول ﷺ نے یہی بتایا تھا کہ وہ خدا اور رسول ﷺ کا مسئلہ ہی بتاتا ہے لیکن ان حضرات نے اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ مجھے ڈر ہے خدا اور رسول  کے خلاف مسئلہ بتاتا ہے۔ مُجتَہِد کی تقلید "شرک فی الرسالت" ہے۔ تمام حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی مشرک ہیں۔ ائمہ کرام نے دین کے ٹکڑے کر ڈالے ہیں۔ ائمہ مُجتَہِدین رحمہم اللہ کو چھوڑ کر اپنی اپنی حدیثِ نفس کا اتباع شروع کر دیا اور نام "اہلِ حدیث" رکھ لیا اور اپنے بھائیوں (اہلِ قرآن)کی طرح کہنے لگے کہ اہلِ حدیث نیا فرقہ نہیں۔ جب کہا جائے کہ ملکہ وکٹوریہ کے دور سے پہلے کسی حدیث کی کتاب کا ترجمہ یا حاشیہ یا شرح ہی کسی غیرمقلد کی دکھا دیں تو نہیں دکھاسکتے(کیونکہ جو حدیث کے امام گذرے ہیں وہ فقہ کے چار ائمہ کی تقلید کے مخالفت نہیں کرتے تھے، بلکہ اکثر ان کے مقلد تھے یا خود امام ورہبر لیکن غیرمقلد نہ تھے)۔ یہ غیرمقلد بس یہی کہتے ہیں کہ جب حدیث سچی تو اہلِ حدیث بھی سچے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جب تم قرآن کو سچا مانتے ہو لیکن ان اہلِ قرآن کو جھوٹا مانتے ہو تو پھر یہ کیوں درست نہیں کہ حدیث سچی ہوں مگر آج کے اہلِ حدیث جھوٹے ہوں۔ حالانکہ حدیث کی کی جتنی کتابیں آج ملتی ہیں وہ یا مُجتَہِدین کی لکھی ہوئی ہیں یا مقلدین کی، جن کا ذکر طبقاتِ حنفیہ، طبقاتِ مالکیہ، طبقاتِ شافعیہ اور طبقاتِ حنابلہ میں ہے۔ کسی مُحدث یا مؤرخ نے طبقاتِ غیر مقلدین یا طبقاتِ منکرینِ حدیث نامی کوئی کتاب لکھی ہی نہیں۔ حدیث کی ایک بھی مستند کتاب نہیں جس میں اجماع اور اجتہاد کے ماننے کو حرام یا شرک قرار دیا ہو، فقہ کے ماننے سے منع کیا ہو۔ اس کے مؤلف کے بارے میں صرف ایک ہی مستند حوالہ پیش کیا جاسکے کہ ۔۔۔ كان لا يجتهد ولا يقلد (یعنی) کہ نہ اس میں اجتہاد کی اہلیت تھی نہ تقلید کرتا تھا۔ اس لئے غیر مقلد تھا۔



نا اہل کا مقام:
رسول ﷺ اور مُجتَہِد کے علاوہ کسی کو کتاب و سنت میں تحقیق کا "اہل" قرار نہیں دیا گیا، جب وہ(غیرمُجتَہِد-غیرمقلد) نا اہل ہے تو اس کا کام اہل(مُجتَہِد) کی تقلید ہے، نہ کہ نا اہل ہو کر دین کی غلط تشریح کرنا۔ رسول اقدس  سے کسی سائل نے قیامت کے بارے میں سوال کیا، فرمایا: جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کر۔ سائل نے عرض کیا: حضرت! امانت کس طرح ضائع ہوتی ہے؟ فرمایا:
«إِذَا ‌وُسِّدَ ‌الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ»
جب کوئی معاملہ نااہلوں کے سپرد کردیا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔
[بخاری:59]

آپ ﷺ نے کیسی عالمگیر حقیقت کا انکشاف فرمایا۔ کیا جب ڈاکٹری نسخے وکیل لکھنا شروع کر دیں تو ڈاکٹری پر قیامت نہیں آجائے گی؟ جب سونے کی جانچ سناروں کے بجائے کمہار کرنے لگے تو قیامت نہیں آجائے گی؟ اسی طرح جب دین کی تشریحات نا اہل کریں گے تو کیا دین پر قیامت نہ آئے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دین کا علم (کتاب وسنت کے الفاظ) نہیں اٹھایا جائے گا (بلکہ کتاب و سنت یہی رہیں گی) مگر اس کے علماء اٹھا لیے جائیں گے یہاں تک کہ کوئی باقی نہ رہے گا تو لوگ ناواقف ہوں کو اپنا دینی پیشوا بنا لیں گے ، وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
[صحیح بخاری:100، صحیح مسلم:2673، سنن ترمذی:2652، سنن ابن ماجہ:52]

دین کے اصل علماء مُجتَہِدین ہی ہوتے ہیں بعد کے علماء ناقل ہیں۔ اور جو نا اہل ہو کر خود اجتہادی پر اتر آتے ہیں وہ (غیرمُجتَہِد-غیرمقلد) خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ہیں۔ اگرچہ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے اس گمراہی کا نام خوبصورت سا رکھ لیا جائے، جیسے انکارِ حدیث کی گمراہی کا نام اہلِ قرآن رکھ لیا گیا، صرف نام بدلنے سے حقیقت تو نہیں بدلتی۔ کیا تحریف القرآن کا نام تفہیم القرآن لکھنے سے حقیقت بدل گئی! تبرا بازی کا نام تنقیدِ صالح رکھ لینے سے حقیقت بدل گئی! ہرگز نہیں۔ جس طرح اہلِ قرآن ہر فاسق و فاجر بے علم کو قرآن کے سمجھنے سمجھانے کا حق دیتے ہیں مگر معصوم نبی سے یہ حق چھیننا چاہتے ہیں اسی طرح اہلِ حدیث ہر فاسق و فاجر اور ہر جاھل کندۂ ناتراش کو اجتہاد کا حق دیتے ہیں مگر ائمہ مجتہدین جن کا مجتہد ہونا دلیلِ شرعی یعنی اجماعِِ امت سے ثابت ہے اور وہ یقیناََ اپنے ہر فیصلے میں مأجور Rewarded ہیں ان سے یہ حق چھیننا چاہتے ہیں۔ اہلِ قرآن اور اہلِ حدیث کا ایک ہی مقصد ہے کہ لوگ نبی معصوم اور مجتہد ماجور کو چھوڑ کر جاہلوں کو اپنا دینی پیشوا بنا لیں جو خود گمراہ ہوں اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں۔




تحقیق یا مُنازَعَت(Research OR Dispute):
عام طور پر اہلِ قرآن کہتے ہیں کہ مُحدثین معصوم نہ تھے، ہم تحقیق کر کے ان کی غلطی کو غلطی اور صحیح کو صحیح کہتے ہیں۔ اور اہلِ حدیث کہتے ہیں کہ مُجتَہِدین معصوم تو نہیں تھے ہم تحقیق کرکے ان کے غلط اور صحیح اجتہاد کی جانچ کرتے ہیں۔ اس میں پہلی بات تو صحیح ہے مگر بات ادھوری ہے، جیسے مُحدثین معصوم نہیں اہلِ قرآن بھی معصوم نہیں، اور جس طرح مُجتَہِدین معصوم نہیں اہلِ حدیث بھی معصوم نہیں، مگر بات معصوم اور غیرمعصوم کی نہیں، بات "اہل" اور "نااہل" کی ہے۔ مُحدثین اپنے فن میں اہل ہیں، اور اہلِ قرآن خواہ اپنی جماعت میں کتنے بڑے مصنف ہوں (جیسے: محمد اسلم جیراجپوری سابق اہل حدیث، غلام احمد پرویز سابق اہل حدیث) لیکن محدثین کے سامنے فنِ حدیث میں نااہل ہیں۔ ان کی باتوں کو تحقیق نہیں کہا جائے گا بلکہ نااہل کی "مُنازَعَت" (یعنی باہمی نزاع، جھگڑا، تکرار، بحث، مخالفت) کہا جائے گا جو شرعاً گناہِ کبیرہ ہے۔ اسی طرح مُجتَہِدین اور غیرمقلدین میں یہ فرق نہیں کہ مُجتَہِدین غیرمعصوم ہیں اور غیرمقلدین معصوم ہیں، بلکہ فرق یہ ہے کہ وہ لوگ(یعنی مُجتَہِدین) "باجماعِ امت" اہلِ اجتہاد میں سے ہیں اور یہ لوگ(یعنی غیرمقلدین) "باجماعِ امتنااہل ہیں۔ اس لئے ان نااہلوں کا مُجتَہِدین سے الجھنا اگرچہ وہ اپنی جماعت کے بڑے آدمی ہوں (جیسے: محمد جوناگڑھی جس کی طرف نسبت کرکے اہل حدیث اپنے آپ کو محمدی کہتے ہیں) لیکن اجتہاد میں وہ نا اہل ہیں۔ مُجتَہِدین کی مخالفت کا نام تحقیق نہیں بلکہ نااہل کی مُنازَعَت ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب بیعت لیتے تو اس میں ایک یہ عہد لیتے کہ:
{لَا نُنَازِعَ ‌الأَمْرَ ‌أَهْلَهُ}
ہم اہلِ امر(یعنی کسی معاملہ کے اہل) سے منازعت نہیں کریں گے۔
[صحيح البخاري:7199، صحيح مسلم:1709]
عجیب بات ہے اتنی جرأت تو کھلے منکرین حدیث بھی نہیں کرتے کہ حدیث تو جس کو مُنازَعَت قرار دے یہ اس کا نام تحقیق رکھیں۔





ثواب یا گناہ:
یہ تو آپ پڑھ چکے ہیں کہ مُجتَہِد سے اگر خطا بھی ہو جائے تو اسے اجر ملتا ہے لیکن نااہل کا معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے، اگر وہ صحیح بات بھی پالے تو اسے اجر کی بجائے گناہ ہوگا۔
رسول اقدس ارشاد فرماتے ہیں:
جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے بات کی وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔
[ترمذی:2950]
اور فرمایا:
جس نے قرآن میں اپنی رائے لگائی اور درست بات بھی پا لی تو وہ بھی گنہگار ہے۔
[ابوداؤد:3652]

امام نوويؒ (م676ھ) فرماتے ہیں:
تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ مُجتَہِد ہر اجتہاد میں اجر پاتا ہے، اگر اس کا اجتہاد درست نکلا تو دو اجر کا مستحق ہے: ایک اجر اجتہاد کا دوسرا اس اصابت(درستگی) کا۔ اور اگر اجتہاد خطا نکلا تو بھی ایک اجر اجتہاد کا ملے گا۔ ہاں جو نااہل ہو اس کو اجتہاد سے حکم کرنا کسی حال میں جائز نہیں بلکہ وہ گنہگار ہے۔ اس کا حکم نافذ بھی نہ ہوگا۔ اگرچہ حق کے موافق ہو یا مخالف کیونکہ اس کا حق کو پالینا محض اتفاقی ہے کسی اصل شرعی پر مبنی نہیں۔ پس وہ تمام احکام میں گناہگار ہے۔ حق کے موافق ہو یا مخالف اور اس کے نکالے ہوئے تمام احکام مردود ہیں اس کا کوئی عذر شرعاً مقبول نہیں وہ دوزخی ہے ہے۔
[شرح النووي على صحیح مسلم: ج12/ ص14]

افسوس ہے کہ اہل قرآن اور اہل حدیث نے اس کبیرہ گناہ، جس کا ٹھکانہ دوزخ کے سوا کہیں نہیں، کا نام تحقیق رکھا ہوا ہے اور اس کو عمل بالقرآن اور عمل بالحدیث کہتے ہیں۔


نجات یا ہلاکت:
حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین چیزیں نجات دینے والی ہے اور تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں۔ فرمایا: نجات دینے والی یہ ہے: (1) چھپے اور ظاہر ہر حال میں الله سے ڈرنا، (2) خوشی یا ناراضگی ہر حال میں حق بات کہنا، (3) امیری ہو یا فقیری میانہ روی اختیار کرنا۔ اور ہلاک و برباد کرنے والی تین چیزیں یہ ہیں: (1) اپنی خواہش نفس کے پیچھے چلنا، (2) بخل کرنا، (3) اپنی رائے پر فخر کرنا۔ فرمایا: تینوں میں سے یہ (آخری) سب سے بڑی مہلک ہے۔
[مشكاة المصابيح:5122، سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌1802]
بلکہ جو اپنی رائے پر اتراتے ہیں ان پر ہدایت کا دروازہ ہی بند ہو جاتا ہے۔
[مشكاة المصابيح:(تفسیر سورۃ الجاثیۃ:23)]
حضرت شیخ عبد الغنی مجددی مدنی رحمہ اللہ ﴿وَإِعْجَابَ ‌كُلِّ ‌ذِي ‌رَأْيٍ بِرَأْيِهِ﴾ پر حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں :
﴿أَيْ: مِنْ غَيْرِ نَظَرٍ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَإِجْمَاعِ الْأُمَّةِ، وَالْقِيَاسِ عَلَى أَقْوَى الْأَدِلَّةِ وَتَرْكِ الِاقْتِدَاءِ بِنَحْوِ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ﴾
ترجمہ:
یعنی: (الله کی)کتاب اور (پیغمبر ﷺ کی)سنت ، اور(جمہور علماء کے ذریعہ)امت کے اجماع اور (مجتہد کے)قیاس کو دیکھے بغیر۔ اور(اپنی رائے وخواہش کو ترجیح دیکر) ائمہ اربعہ(یعنی چار مجتہد اماموں) کی اقتداء چھوڑنے والا اس حدیث کا مصداق ہے اور وہی ہلاکت میں گرنے والا ہے۔
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح : 8/ 3214، حدیث:5144، دار الفكر، بيروت - لبنان]

خلاصہ یہ نکلا کہ دین میں تحقیقی بات صرف وہی ہے جو اَدِلَّہ(دلائل) سے بواسطہ آئمہ (اماموں) سے ثابت ہو، جس بات پر ان کا اجماع ہوگا وہ حُجّتِ قاطعہ ہے اور جس پر ان کا اختلاف ہوگا وہ رحمتِ واسعہ(رحمت بھری گنجائش) ہے۔


اندھی تقلید:
ج کل بعض لوگ یہ طعنہ دیتے ہیں کہ یہ تو اندھی تقلید ہے۔ افسوس ان بیچاروں کو اندھی تقلید کا معنیٰ بھی نہیں آتا، اندھی تقلید اس کو کہتے ہیں کہ اندھا(یعنی غیرعالم اور نااہل) اندھے کے پیچھے چلے تو یہ دونوں کسی کھائی میں گر جائیں گے یہ اندھی تقلید ہے۔ اور اگر اندھا آنکھوں والے(یعنی اہل وماہر) کے پیچھے چلے تو وہ آنکھ والا اس اندھے کو بھی اپنی آنکھ کی برکت سے ہر کھائی سے بچا کر لے جائے گا اور منزل تک پہنچا دے گا۔ ائمہ مُجتَہِدین (یعنی وہ چار مشہور امام جن کے مجتہد ہونے میں امت کا اجماع ہے، جیسے:ابوحنیفہ، مالک، شافعی، احمد بن حنبل) وہ عارف (یعنی پہچاننے-جاننے والا واقف) بصیر(یعنی صاحب نظر-دانشمند) ہی نہ تھے بلکہ زیادہ پاک، زیادہ نیک، زیادہ پرہیزگار اور زیادہ علم یاد رکھنے والے بھی تھے۔ البتہ اندھی تقلید ان کے ہاں ہے جو خود بھی اندھے ہیں اور ان کے پیشوا بھی اجتہاد(علمی مہارت) کی آنکھ نہیں رکھتے اور اندھے ہیں۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
۔۔۔اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا»
ترجمہ:
تو لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
[صحیح بخاری:100، صحیح مسلم:2673، سنن ترمذی:2652، سنن ابن ماجۃ:52]

یہ اندھی تقلید ہے۔ اللہ تعالی ہمیں پیغمبر معصوم ﷺ اور مُجتَہِدین مأجور کی تحقیق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نئے فتنوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔

[ماخوذ = تجلیات صفدر (حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی) : ج 1 ص 117]



اصول :
ہر مجتھد کا حدیث سے استدلال کرنا (خود) دلیل ہے (کیوں)کہ حدیث اس کے نزدیک صحیح ہے۔
[قواعد فی علوم الحدیث، ص:58]


امام ابن حجر عسقلانیؒ بھی فرماتے ہیں:
وَقَدْ احْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَحْمَدُ وَابْنُ الْمُنْذِرِ وَفِي جَزْمِهِمَا بِذَلِكَ دَلِيلٌ عَلَى صِحَّتِهِ عِنْدَهُمَا.
ترجمہ:
اس حدیث (جس پر امام بیھقیؒ نے کلام کیا ہے) سے امام احمدؒ اور امام ابن منذرؒ نے احتجاج کیا (حجت ودلیل پکڑی) ہے، اور ان دونوں کا اس حدیث سے احتجاج پر جزم کرنا (یعنی زور دینا) ان کے نزدیک حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔
حوالہ جات:
[التلخيص الحبير:2/327، دار الكتب العلمية؛ الاستذكار:8 /198-199؛ التلخيص الحبير:2/285،قرطبة - مصر؛ سبل الهدى والرشاد:10/487؛ إرواء الغليل للالبانی:3/162(701)]

الأحكام الوسطى [1/61] لعبد الحق الأشبيلي - أيضاً - وتقع في مجلدين، ذكر في خطبتها أن سكوته عن الحديث دليل على صحته.
[تدوين السنة النبوية، ص:212؛ سبل الهدى والرشاد:12/378]


محلِ تحقیق، ضرورتِ تحقیق اور اہلِ تحقیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسول الکریم۔ اما بعد:
یہ بات حق بلا شک ہے کہ دینِ اسلام حق اور کامل ہے، نبی معصوم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اس کی تکمیل کا اعلان فرمایا۔ ہم سب اللہ تعالی کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور حضور کے رسول ﷺ ہونے پر راضی ہیں، اللہ استقامت اور اس کی اشاعت کی توفیق دیں۔

دوسری بات:
یہ بات بھی یقینی ہے کہ یہ دین برحق نبی سے ہم تک بواسطۂ امت پہنچا۔
(3) یہ بات بھی مسلم ہے کہ امت کا کوئی فرد بھی معصوم نہیں ہے۔ البتہ فرمان رسولِ معصوم ﷺ کے مطابق آپ کی امت کا اجماع معصوم عن الخطاء ہے۔

عَنْ ‌أَنَسٍ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: " إِنَّ اللهَ تَعَالَى قَدْ أَجَارَ أُمَّتِي أَنْ ‌تَجْتَمِعَ ‌عَلَى ‌ضَلَالَةٍ ۔
ترجمہ:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بےشک اللہ تعالیٰ نے دی پناہ میری امت کو (اس بات سے) کہ وہ جمع ومتفق ہو گمراہی پر۔ ..
[السنة لابن أبي عاصم:83، الأحاديث المختارة:2559، صَحِيح الْجَامِع الصغير: 1786 ، الصَّحِيحَة:1331]



اس سے صاف نتیجہ نکلا کہ نبی معصوم ﷺ سے دین کا جو حصہ اجماعِ معصوم کے واسطے سے ہم تک پہنچا وہ نہایت یقینی اور حجتِ قاطعہ ہے۔ اس میں کسی قسم کا شبہ نہیں لاریب فیہ۔ ایسے مسائل کو متواترات کہا جاتا ہے۔ اس کی چار قسمیں ہیں:

(1) تواترِ طبقہ:
وہ دین جو عوام خواص کے تواتر (متعدد،تسلسل) کے ساتھ ہم تک پہنچا، جیسے: قرآنِ پاک کا تواتر کہ ساری دنیا میں مسلمان عوام و خواص اس کی تلاوت کرتے آرہے ہیں۔ یہ سینہ اور سفینہ میں متواتر Frequent ہے اسی طرح حضور  کا دعویٰ نبوت، آپ ﷺ کا آخری نبی ہونا، ایسے عقائد کو ضروریاتِ دین کہتے ہیں، ان سب کو اسی "مفہوم" کے مطابق ماننا جس طرح پوری امت مانتی آرہی ہے ایمان ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا انکار یا تاویلِ باطل Invalid interpretation کرنا کفر ہے۔ نماز، رمضان کے روزے، حج کی فرضیت، زکوٰۃ کی فرضیت وغیرہ۔ جو کہے میں پانچوں نمازوں میں سے کسی ایک کو فرض نہیں مانتا وہ بھی کافر ہے اور جو کہے کہ میں نماز کو فرض مانتا ہوں لیکن نماز وہ نہیں جو مسلمان تواتر سے پڑھتے آرہے ہیں بلکہ صرف دل میں اللہ اللہ کرنے کا نام (نماز) ہے وہ بھی بلاشبہ کافر ہے۔

(2) تواترِ اعمال:
وہ روزمرہ کے عملی مسائل جو آپ ﷺ سے لے کر آج تک امت میں عملاً متواتر Frequent چلے آرہے ہیں۔ وضو، نماز کا طریقہ وغیرہ، عوام خاص ان کو ادا کرتے آرہے ہیں، اس کو "تواترِ فُقہاء" بھی کہتے ہیں۔

(3) تواترِ اسنادی:
وہ حدیث جس کے روایت کرنے والے ہر زمانے میں اس قدر کثیر ہوں کہ ان سب کے جھوٹ پر اتفاق کر لینے کو عقلِ سلیم محال(ناممکن) جانے۔ اس کو "تواترِ محدثین" بھی کہا کرتے ہیں جیسے آپ ﷺ کا یہ فرمان کہ: جس نے مجھ پر جھوٹ بولا اس نے اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لیا۔
[صحيح البخاري:107]
(اس حدیث کی متعدد اور مُتّصِل Connected سندیں(اسناد) Support of Narrators یعنی روایتیں ہر زمانے میں رہی ہیں کہ اس خبر کو پہنچانے والوں Narrators کے حالاتِ زندگی بھی جاننے والے علماء کی عقلِ سلیم کیلئے ان سب کا جھوٹ پر متفق ماننا مشکل ہے۔)

فائدہ:
تواترِ تعامل کی مثال رکعاتِ نماز، مقادیرِ زکاۃ، اسلام علیکم یا اھل القبور، توسل، دوا، علاج، تعویذات، میت کا غسل، کفن، دفن، تقلید وغیرہ۔

(4) تواترِ معنوی یا تواترِ قدر مشترک:
جیسے پہلی تکبیر کی رفع یدین، حیاتِ مسیح، معجزات، معراج، کرامات، اعادۂ روح فی القبر، سوال و جوابِ قبر، عذاب اور ثوابِ قبر، زیارتِ قبور، حیاۃ الانبیاء فی القبور وغیرہ۔ ان مسائل کی مثال سورج کی سی ہے جس کے لیے کسی گواہی کی ضرورت نہیں۔ اس لئے متواترات Frequent Matters سند Support اور اسماء الرجال Science of Biographies of Narrators کی بحث وتحقیق سے بالاتر Unnecessary ہیں۔ ان مسائل کی آسان پہچان یہ ہے کہ ائمۂ اربعہ (یعنی چاروں اماموں: ابوحنیفہؒ، مالکؒ، شافعیؒ اور حنبلی) کا ان پر اتفاق ہو۔

فائدہ:
قرآن پاک کی اگرچہ سات قراءتیں متواتر ہیں مگر ہمارے ہاں تلاوۃً متواتر صرف قاری عاصم کوفی کی قرأت اور قاری حفص کوفی کی روایت ہے اس لیے اسی معروف(قرأۃ وروایۃ) کی تلاوت کی جائے گی۔
معروف(مشہور ومتفقہ نیکی کی باتوں)کا حکم کرنا لازم ہے، تو عمل کرنا بھی لازم ہوا:
[حوالۂ قرآن» سورۃ آل عمران:104+110+114، الاعراف:157+199، التوبۃ:67+71+112، الحج:41، لقمان:17۔]

دین کا دوسرا حصہ:
دین کا دوسرا حصہ وہ ہے جو "شہرت" کے ساتھ ہمیں مِلا ہے، وہ مسائل جو قرنِ اول (دورِ صحابہ) میں متواتر نہ تھے، لیکن قرنِ ثانی اور ثالث(یعنی دورِ تابعین اور تبع تابعین) میں خوب مشہور ہوگئے، ان کی مثال چودھویں رات کے چاند کی ہے، اس کے لئے بھی کسی اِسنادی بحث وتحقیق کی ضرورت نہیں۔ اس میں صورتاً شبہ تھا جو ختم ہوگیا۔ ان مسائل پر اطمینان نصیب ہوگیا۔
[دلائل» مہاجر وانصار صحابہ  کی اتباع اور عمومی قبولیت(سورۃ التوبۃ:100) اور بہت سے  بعد والے بھی ہوں گے (سورۃ الواقعۃ:40)]

حدیث خَيْرِ الْقُرُونِ:

۔۔۔ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ» - قَالَ عِمْرَانُ: لاَ أَدْرِي أَذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ قَرْنَيْنِ أَوْ ثَلاَثَةً - قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ بَعْدَكُمْ قَوْمًا يَخُونُونَ وَلاَ يُؤْتَمَنُونَ، وَيَشْهَدُونَ وَلاَ يُسْتَشْهَدُونَ، وَيَنْذِرُونَ وَلاَ يَفُونَ، وَيَظْهَرُ فِيهِمُ السِّمَنُ».
ترجمہ :
۔۔۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے بعد(جڑے ہوئے)ہوں گے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد(جڑے ہوئے)ہوں گے ... تمہارے بعد ایسی قوم پیدا ہوگی جو خیانت کرے گی اور اس میں امانت نہیں ہوگی اور گواہی دیں گے حالانکہ انہیں گواہ نہ بنایا جائے گا اور نذر مانیں گے لیکن پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہوجائے گا۔
[بخاری:3650، مسلم:2535، ابوداؤد:4657 ترمذی:2221، نسائی:3809]

اسی مبارک دور میں فقہ حنفی مرتب اور مشہور ہوئی۔

بشارتِ امام ابوحنیفہؒ:
القرآن:
(1) ... اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے.
[سوره محمّد:38]
(2) ۔۔۔ اور (اس رسول کی بعثت) دوسرے لوگوں کے لئے بھی ہے جو ابھی ان (مسلمانوں سے) نہیں ملے...
[الجمعہ:3]

تفسیرِ نبوی:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! وہ دوسرے لوگ کون ہے جس کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے حضرت سلیمان فارسیؓ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا: اس کی قوم ۔۔۔ خدا کی قسم! اگر دین/ایمان(علم) ثُریا پر جا پہنچے تو بھی فارس کے لوگ یا ان میں ایک شخص وہاں سے اس کو اتار لائیں گے۔
[صحیح البخاری:4897، صحیح مسلم:2546، الجامع معمر بن راشد:19923، شرح السنة للبغوی:3999]

ماہرینِ حدیث کے نزدیک اس سے مراد امام ابوحنیفہؒ ہیں۔ دیکھئے:
(1) امامِ حرم ابنِ حجر مکیؒ شافعی
[الخیرات الحسان:1/24، دار الکتب العلمیہ، بیروت]
(2) امام جلال الدین سیوطیؒ شافعی
[تبییض الصحیفہ:1/31، دار الکتب العلمیہ، بیروت]
(3) نواب صدیق حسن بھوپالی غیرمقلد
[اتحاف النبلاء:1/224]


معتبر تاریخی گواہیاں:
امام سفیان بن عینیہؒ(107-198ھ)فرماتے ہیں:
فقہ حنفی کوفہ سے نکل کر آفاق تک پہنچ چکی ہے۔
[مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه، للذهبي: ص32، لجنة إحياء المعارف النعمانية، حيدر آباد الدكن بالهند]


امام الجرح والتعدیل امام یحییٰ بن معینؒ(م233ھ)فرماتے ہیں:
میں نے لوگوں کو فقہ حنفی پر عمل کرتے پایا۔
[أخبار أبي حنيفة وأصحابه، للصيمري: ص87، عالم الكتب - بيروت
تاريخ بغداد:15/ 473 ، دار الغرب الإسلامي - بيروت
وفيات الأعيان، لابن خلكان: 5/ 409 ،دار صادر - بيروت
تاريخ الإسلام، للذهبي:9/ 307 ، دار الكتاب العربي، بيروت]


امام عبداللہ بن مبارکؒ(118-181ھ) کے اشعار ہیں:
(لقد زَان الْبِلَاد وَمن عَلَيْهَا ... ‌إِمَام ‌الْمُسلمين ‌ابو ‌حنيفَة)
(بآثار وَفقه فِي حَدِيث ... كآثار الزبُور على الصَّحِيفَة)
[أخبار أبي حنيفة وأصحابه، للصيمري: ص87، عالم الكتب - بيروت]

(فما في المشرقين له نظير ... ولا بالمغربين ولا بكوفة)
(رأيت العايبين له سفاها ... خلاف الحق مع حجج ضعيفة)
[الفهرست، لابن النديم: ص251 دار المعرفة بيروت - لبنان]

يبيتُ مشمِّرًا سهرَ الليالي ... وصامَ نهارَه لله خيفَهْ
وصانَ لسانَه عن كل إِفْكٍ ... وما زالتْ جوارحه عفيفة
يعف عن المحارم والملاهي ... ومرضاةُ الإلهِ له وظيفهْ
فمن كأبي ‌حنيفةَ في نداهُ ... لأهل الفقر في السنةِ الجحيفَهْ
وكيف يحل أنْ يؤذَى فقيهٌ ... له في الدين آثارٌ شريفَهْ
وقد قال ابنُ إدريسٍ مقالًا ... صحيح النقل في حِكَمٍ لطيفَهْ
بأنَّ الناس في فقهٍ عيالٌ ... على فقهِ الإمام أبي ‌حنيفَهْ۔
[مرآة الزمان في تواريخ الأعيان، سبط ابن الجوزي:12/ 226 ، دار الرسالة العالمية، دمشق - سوريا]

ابن الندیم(م377ھ)لکھتے ہیں: 
والعلم ‌براً ‌وبحراً، شرقاً وغرباً، بعداً وقرباً، تدوينه - 
[الفهرست، لابن النديم: ص251 دار المعرفة بيروت - لبنان]

امام ابن خلدونؒ(م808ھ)لکھتے ہیں:
وأمّا أبو حنيفة فقلّده اليوم أهل العراق ومسلمة الهند والصّين وما وراء النّهر وبلاد العجم كلّها.
ترجمہ:
امام ابوحنیفہؒ کے مقلدین ہندوستان، چین، ما وراء النہر، اور عجم کے سارے شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
[تاريخ ابن خلدون:1/ 567، دار الفكر، بيروت]

علامیہ شکیب ارسلان(م1366ھ) لکھتے ہیں:
مسلمانوں کی اکثریت امام ابوحنیفہؒ کی مقلد ہے، سارے ترک اور بلقان کے مسلمان، روس اور افغانستان کے مسلمان، چین اور ہندوستان  کے مسلمان، عرب، شام اور عراق  کے اکثر مسلمان فقہ میں حنفی مسلک رکھتے ہیں۔
[حاشیۃ حسن المساعی: ص69]

1911ع کی مردم شماری (کے مطابق) :
اثنا عشری ایک کروڑ 37 لاکھ ،  زیدی 30 لاکھ ،  حنبلی 30 لاکھ ،  مالکی ایک کروڑ ، شافعی دس کروڑ ،  حنفی 37 کروڑ  سے زائد۔
[حاشیۃ حسن المساعی: ص69]


جس طرح ہمارے ملک میں سات قرأتوں میں سے صرف قاری عاصم کوفی کی قرأت ہی تلاوۃً متواتر ہے۔ اس لئے یہاں صرف امام صاحب کی ہی تقلید واجب ہے اور ان کی تقلید سے نکلنا (شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے مطابق) حرام بلکہ شریعت کی رسی کو گلے سے اتار پھینکنا ہے۔
حوالہ:
وَجب عَلَيْهِ أَن يُقَلّد لمَذْهَب أبي ‌حنيفَة وَيحرم عَلَيْهِ أَن يخرج من مذْهبه لِأَنَّهُ حِينَئِذٍ يخلع ربقة الشَّرِيعَة۔
[الإنصاف في بيان أسباب الاختلاف «الشاه ولي الله الدهلوي» : ص78 دار النفائس - بيروت]

جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
۔۔۔جو جماعت سے ایک بالشت بھی ہٹا (علیحدہ ہوا) اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے باہر نکال پھینکا۔۔۔
[سنن أبي داود:4758، سنن الترمذي:2863]


حدودِ خیر القرون:
عہدِ صحابہ 110/120ھ تک، عہدِ تابعین 170ھ تک اور تبع تابعین 220ھ تک ہے۔
حوالہ
أَنَّ مُدَّةَ الْقَرْنِ تَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ أَعْمَارِ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ وَاللَّهُ أَعْلَمُ وَاتَّفَقُوا أَنَّ آخِرَ مَنْ كَانَ مِنْ أَتْبَاعِ التَّابِعِينَ مِمَّنْ يُقْبَلُ قَوْلُهُ مَنْ عَاشَ إِلَى حُدُودِ ‌الْعِشْرِينَ ‌وَمِائَتَيْنِ 
[فتح الباري لابن حجر: ج7/ ص6 ، الناشر: دار المعرفة - بيروت، ١٣٧٩
لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح : 9 / 585۔ حدیث:6010]


مسائل کا تیسرا حصہ:

بنیادی عقائد اور روزمرہ کے اہم مسائل تو امت میں تواتر اور شہرت سے پھیلے۔ ہاں کبھی کبھار پیش آنے والے مسائل اخبارِ آحاد کے ذریعے ہم تک پہنچے۔ ان کا ثبوت پہلی رات کے چاند کی طرح ہے کہ گِرد و غُبار میں سب کو نظر نہ آئے تو اپنے ثبوت میں گواہوں کا محتاج ہوتا ہے پھر ان گواہوں کی توثیق وتعدیل دیکھنا پڑتی ہے۔ اور ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ ایک ملک میں چاند سب کو نظر آیا، وہاں اس کی رُؤیت متواتر ہے۔ دوسرے ملک میں چند قابلِ اعتماد آدمیوں کو نظر آیا، وہاں اس کا ثبوت ظِنِ غالب سے ہے۔ تیسرے ملک میں ایک بھی قابلِ اعتماد شخص کو نظر نہیں آیا، وہاں چاند کا ثبوت ہی نہیں۔ اب ایک ملک میں تواتر کے ساتھ عید کا ثبوت ہو گیا، دوسرے میں ظِنِ غالب کے ساتھ، تیسرے میں روزہ ہی رکھا گیا۔ حالانکہ رمضان میں عید پڑھنا حرام ہے اور عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے مگر ایک ملک کے مسلمانوں کا روزہ ہے اور دوسرے ملک میں عید، بالکل یہی حالت اخبارِ آحاد کی ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایک ملک میں اس خبرِ واحد کو عملی تواتر اور دوسرے علاقے میں سرے سے اس کا صحیح یا حسن ہونا ہی ثابت نہ ہو۔ اب جس ملک میں اس خبرِ واحد کو عملی تواتر نصیب ہوگا وہاں تو اس کے اسنادی بحث کی ضرورت نہیں ہوگی۔ دوسرے ملک میں صرف سند ہے تعامل نہیں (لہٰذا) سند کی بحث کی ضرورت ہوگی۔ اس لیے ایسی احادیث عمل کے لیے تحقیقی محتاج ہوتی ہیں۔





تحقیق کا حکم:

تحقیق کا حکم[سورۃ الحجرات:6]،

تحقیق کا حق[سورۃ النساء:83]،

محقق راستہ[سورۃ الفاتحہ:5-7، النساء:69-70]،

نااہل کا دخل درست نہیں، نبی ﷺ نے فرمایا: «جب کوئی امر (معاملہ) نااہلوں کے سپرد کردیا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔»[بخاری:59]، یہ ایسا ہی فساد ہے جیسے ڈاکٹری کی تحقیق کمہار کرے، سونے کی موچی، قانون کی تیلی، سائنس کی حجام، تو کیا ان علوم پر قیامت نہ آجائے گی؟

نبی ﷺ کا صحابہ سے اس پر عہد پر بیعت لینا کہ {لَا نُنَازِعَ ‌الأَمْرَ ‌أَهْلَهُ} یعنی ہم اہلِ معاملہ سے منازعت نہیں کریں گے۔[البخاري:7199، مسلم:1709] جیسے نسخہ پر ڈاکٹر سے، فیصلہ پر جج سے جھگڑنے کی اجازت نہیں، اسی طرح جو نہ مُجتَہِد امام Leader ہے، نہ عوام کی طرح مقتدی ومقلد Follower ہے، تو وہ غیرمقلد Non-follower کا حکم یہ ہے کہ «فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا» یعنی خود بھی گمراہ اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والے[البخاري:100، مسلم:2673]۔

جبکہ مُجتَہِد خطاء پر بھی اجریافتہ ہے۔

[البخاري:7352، مسلم:1716][شرح النووي على صحیح مسلم: ج12/ ص14]




تحقیق کے مدارج:

تین باتوں کی تحقیق عمل بالحدیث کے لیے ضروری ہے:

(1) یہ معلوم ہو کہ اس کا حضور ﷺ سے ثبوت ہے؟

(2) اس حدیث کا جو مطلب میں نے سمجھا ہے کیا واقعتاً مرادِ رسول ﷺ یہی ہے؟

(3) میں اس کا مُکلّف بھی ہوں؟ کیا اس کے معارض(ٹکراتی) کوئی دلیل نہیں؟

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ تینوں باتیں بیک وقت پورے یقین کے ساتھ نصیب تھیں، جب اپنی آنکھوں سے حضرت ﷺ کو کام کرتے دیکھ لیا یا اپنے کانوں سے سن لیا تو اس کے قول وفعلِ رسول ہونے کا یقین ہو گیا۔ اور آپ کے موقع و محل کو دیکھ کر مطلب بھی سمجھ میں آ گیا کیونکہ آپ ﷺ ہر شخص کی استعداد کے موافق اس سے خطاب فرماتے، اگر بالفرض سمجھ نہ آیا تو وہ پوچھ کر سمجھ لیتے، اور متعارض(ٹکراتی) روایات میں سے بھی ان کو ایک وقت میں ایک ہی قول یا فعل ملتا جس پر وہ سب عمل کرتے اور انہیں یقین ہوتا کہ ہم اس کے مخاطب اور مُکلّف ہیں۔ جب تک (1)ثبوت، (2)مراد کا صحیح ہونا اور (3)ٹکراؤ دور نہ ہو۔۔۔تحقیق مکمل نہیں ہوتی۔




امام ابوحنیفہؒ اور تحقیق:

امام حسن بن صالحؒ(م199ھ)فرماتے ہیں: 

كَانَ ابو حنيفَة ‌شَدِيد ‌الفحص عَن النَّاسِخ من الحَدِيث والمنسوخ فَيعْمل بِالْحَدِيثِ إِذا ثَبت عِنْده عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَعَن أَصْحَابه وَكَانَ عَارِفًا بِحَدِيث أهل الْكُوفَة وَفقه أهل الْكُوفَة شَدِيد الِاتِّبَاع لما كَانَ عَلَيْهِ النَّاس بِبَلَدِهِ وَقَالَ كَانَ يَقُول إِن لكتاب الله نَاسِخا ومنسوخا وَإِن للْحَدِيث نَاسِخا ومنسوخا وَكَانَ حَافِظًا لفعل رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم الْأَخير الَّذِي قبض عَلَيْهِ مِمَّا وصل إِلَى أهل بَلَده۔

ترجمہ:

ابو حنیفہؒ ناسخ منسوخ احادیث کی بہت چھان بین کرتے تھے۔ جب کوئی حدیثِ مرفوع(نبوی) یا اثرِ صحابی آپ کے نزدیک ثابت ہو جاتا تو اس پر عمل کرتے۔ آپ اہلِ کوفہ کی احادیث سے خوب آگاہ تھے اور ان پر بڑی سختی سے عامل رہتے تھے۔

[أخبار أبي حنيفة وأصحابه: ص25، المسودة في أصول الفقه: ص338]


امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں:

أَنى ‌آخذ ‌بِكِتَاب الله إِذا وجدته فَلَمَّا لم اجده فِيهِ اخذت بِسنة رَسُول الله والْآثَار الصِّحَاح عَنهُ الَّتِي فَشَتْ فِي أَيدي الثِّقَات عَن الثِّقَات فَإِذا لم اجد فِي كتاب الله وَلَا سنة رَسُول الله أخذت بقول أَصْحَابه من شِئْت وأدع قَول من شِئْت ثمَّ لَا أخرج عَن قَوْلهم إِلَى قَول غَيرهم فَإِذا انْتهى الْأَمر إِلَى ابراهيم وَالشعْبِيّ وَالْحسن وَابْن سِيرِين وَسَعِيد بن الْمسيب وَعدد رجَالًا قد اجتهدوا فلي أَن أجتهد كَمَا اجتهدوا۔

ترجمہ:

میں سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں، پھر جو بات نہ ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کی طرف رجوع کرتا ہوں، پھر اگر مجھے وہ بات نہ تو کتاب اللہ میں ملے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت میں تو میں صحابہ کرامؓ کے اقوال کی طرف رجوع کرتا ہوں، اور ان میں سے جس کے قول کو چاہتا ہوں لے لیتا ہوں اور جس کے قول کو چاہتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں، لیکن صحابہؓ کے اقوال سے باہر نہیں نکلتا، اور پھر جب معاملہ ابراہیم نخعیؒ، شعبیؒ، ابن سیرینؒ، حسن بصریؒ، عطاء بن ابی رباحؒ، سعید بن مسیبؒ وغیرہ تک پہنچتا ہے تو یہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے خود اجتہادات کیے، تو جس طرح انہوں نے اجتہادات کیے‘ میں بھی اجتہاد کرتا ہوں۔

[أخبار أبي حنيفة وأصحابه: ص24، المسودة في أصول الفقه: ص337، الحديث والمحدثون: ص285]


امام سفیان ثوریؒ(م161ھ)فرماتے ہیں:

كَانَ أَبُو حنيفَة ‌يركب ‌فِي ‌الْعلم أحد من سِنَان الرمْح كَانَ وَالله شَدِيد الْأَخْذ للْعلم ذابا عَن الْمَحَارِم مُتبعا لأهل بَلَده لَا يسْتَحل أَن يَأْخُذ إِلَّا بِمَا يَصح عِنْده من الْآثَار عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم شَدِيد الْمعرفَة بناسخ الحَدِيث ومنسوخه وَكَانَ يطْلب أَحَادِيث الثِّقَات وَالْآخر من فعل النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَمَا أدْرك عَلَيْهِ عَامَّة الْعلمَاء من أهل الْكُوفَة فِي اتِّبَاع الْحق أَخذ بِهِ وَجعله دينه۔

ترجمہ:

ابوحنیفہ علم کے حصول کے حوالے سے بہت سخت تھے اور وہ اس چیز کی شدت سے مخالت کرتے تھے کہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیا جائے، جب کوئی مستند روایت ان تک پہنچ جاتی جسے قابلِ اعتماد راویوں نے نقل کیا ہوتا، تو وہ ان کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اور وہ نبی اکرم ﷺ کے آخری عمل کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اور وہ اس چیز کے مطابق فتویٰ دیتے تھے جس پر انہوں نے کوفہ کے علماء کو پایا تھا، تو کچھ لوگوں نے اس حوالے سے ان پر تنقید کی ہے۔ اللہ مغفرت فرمائے ہم سب کی اور ان سب کی۔

[أصول الدين عند الإمام أبي حنيفة: ص151، الطبقات السنية في تراجم الحنفية: ص47، الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء-ابن عبد البر: ص142، أخبار أبي حنيفة وأصحابه-الصيمري: ص75]


ان عبارات سے امام صاحب کی تحقیق کا اندازہ معلوم ہوگیا۔

آپؒ کے اور رسول پاک ﷺ کے درمیان جو راوی تھے وہ صحابہ اور کبار تابعین تھے جن کی "خیریت" کتاب وسنت میں منصوص ہے۔ اس میں بھی آپ تمام علمائے اہلِ کوفہ (محدثین) کی اجماعی تحقیق کی بنا پر حدیث کی صحت مانتے تھے نہ کے امام بخاری(م256ھ) اور دیگر محدثین کی طرح صرف اپنی شخصی رائے سے حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا فیصلہ فرما دیتے تھے۔ پھر انکی سندوں کے اکثر راوی بھی خیرالقرون کے بعد کے ہیں۔




(2) مرادِ رسول ﷺ کی تحقیق:
جس طرح حدیث کے ثبوت کے بارے میں امام صاحبؒ کا خاص امتیاز ہے کہ صرف شخصی رائے پر مدار نہیں رکھا بلکہ محدثین اہلِ کوفہ کے اجماع پر عملِ صحابہ اور خیرالقرون کا ساتھ بھی معلوم کیا۔ عوام خواص سب کے تعامل کا احترام کیا اسی طرح مرادِ رسول ﷺ کے سمجھنے میں بھی آپؒ نے خاص امتیاز پیدا کیا۔ امام صاحبؒ نے شُوریٰ قائم فرمائی:
قَالَ ابْن أبي الْعَوام: حَدثنِي الطَّحَاوِيّ، كتب إليّ ابْن أبي ثَوْر، قَالَ: أَخْبرنِي، نوح أَبُو سُفْيَان، قَالَ لي الْمُغيرَة بن حَمْزَة: كَانَ أَصْحَاب أبي حنيفَة الَّذين دَوَّنوا مَعَه الْكتب ‌أَرْبَعِينَ ‌رجلا، ‌كبراء ‌الكبراء، اهـ. وَقَالَ ابْن أبي الْعَوام أَيْضا: حَدثنِي الطَّحَاوِيّ، كتب إِلَيّ مُحَمَّد بن عبد الله بن أبي ثَوْر "الرعيني" حَدثنِي سُلَيْمَان بن عمرَان حَدثنِي أَسد بن الْفُرَات، قَالَ: كَانَ أَصْحَاب أبي حنيفَة الَّذين دَوَّنوا الْكتب ‌أَرْبَعِينَ ‌رجلا، فَكَانَ فِي الْعشْرَة الْمُتَقَدِّمين: أَبُو يُوسُف، وَزفر بن الْهُذيْل، وَدَاوُد الطَّائِي، وَأسد بن عَمْرو، ويوسف بن خَالِد السَّمْتِي" أحد مَشَايِخ الشَّافِعِي": وَيَحْيَى بن زَكَرِيَّا بن أبي زَائِدَة، وَهُوَ الَّذِي كَانَ يَكْتُبهَا لَهُم ثَلَاثِينَ سنة، اهـ. وَبِهَذَا السَّنَد إِلَى أَسد بن الْفُرَات، قَالَ: قَالَ لي أَسد بن عَمْرو: كَانُوا يَخْتَلِفُونَ عِنْد أبي حنيفَة فِي جَوَاب الْمَسْأَلَة، فَيَأْتِي هَذَا بِجَوَاب، وَهَذَا بِجَوَاب، ثمَّ يرفعونها إِلَيْهِ، ويسألونه عَنْهَا، فَيَأْتِي الْجَواب من كثب - أَي من قرب -، وَكَانُوا يُقِيمُونَ فِي الْمَسْأَلَة ثَلَاثَة أَيَّام، ثمَّ يكتبونها فِي الدِّيوَان، اهـ. قَالَ الصيمرمي: حَدثنَا أَبُو الْعَبَّاس أَحْمد الْهَاشِمِي، ثَنَا أَحْمد بن مُحَمَّد الْمَكِّيّ ثَنَا عَلّي بن مُحَمَّد النَّخعِيّ حَدثنَا إِبْرَاهِيم بن مُحَمَّد الْبَلْخِي حَدثنَا مُحَمَّد بن سعيد الْخَوَارِزْمِيّ إِسْحَاق بن إِبْرَاهِيم، قَالَ: كَانَ أَصْحَاب أبي حنيفَة يَخُوضُونَ مَعَه فِي الْمَسْأَلَة، فَإِذا لم يحضر عَافِيَة - ابْن يزِيد القَاضِي -، قَالَ أَبُو حنيفَة: لَا تَرفعُوا الْمَسْأَلَة حَتَّى يحضر عَافِيَة، فَإِذا حضر عَافِيَة وَوَافَقَهُمْ، قَالَ أَبُو حنيفَة: أثبتوها۔
[أخبار أبي حنيفة وأصحابه، للصَّيْمَري: ص156]
[تاريخ بغداد ت بشار:‌‌6705 (14/ 254)]
[المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، لابن الجوزي:9 /51]
[تهذيب الكمال في أسماء الرجال، للمزي:14 /7]
[تذهيب تهذيب الكمال في أسماء الرجال، للذهبي:5/ 21 (3075)]
[المدخل إلى دراسة المذاهب الفقهية: ص91]
[السنة ومكانتها للسباعي ط المكتب الإسلامي:1/ 427]
[الجواهر المضية في طبقات الحنفية:308(1/ 140)، 665(2/ 211)]
[الطبقات السنية في تراجم الحنفية: ص169]
[الفوائد البهية في تراجم الحنفية: ص45+224]
[الموسوعة الفقهية الكويتية:27/ 369]


حدثنَا عبد الله بن مُحَمَّد الْبَزَّاز قَالَ ثَنَا مكرم قَالَ ثَنَا احْمَد قَالَ ثَنَا الْحُسَيْن بن حَمَّاد قَالَ كَانَ ‌أَصْحَاب ‌أبي ‌حنيفَة الَّذين كَانُوا ‌يلزمون الْحلقَة عشرَة وَكَانَ الْحفاظ للفقه كَمَا يحفظ الْقُرْآن أَرْبَعَة وهم زفر بن الْهُذيْل وَيَعْقُوب بن إِبْرَاهِيم وَأسد بن عَمْرو وعَلى بن مسْهر۔
[أخبار أبي حنيفة وأصحابه، للصَّيْمَري: ص74، الناشر: عالم الكتب - بيروت]

اس سے معلوم ہوا کہ مرادِ رسول ﷺ کے سمجھنے میں اما صاحبؒ نے صرف اپنی سوچ اور شخصی فہم پر مدار نہیں رکھا بلکہ تقریباََ چالیس فقہاء اور پورے اہلِ کوفہ کے تعامل کو سامنے رکھا۔



آخری عمل:
یہ بھی ثابت ہو گیا کہ امام صاحبؒ نے متعارضات میں آپ ﷺ کے آخری عمل کی پوری جستجو فرمائی، اس میں بھی تقریبا چالیس فقہاء اور تمام اہل کوفہ کے تعاون کو نظرانداز نہ فرمایا۔ پھر آپؒ کا مسئلہ پورے تواتر کے ساتھ دنیا میں پھیلا۔ جب امام صاحبؒ کا کوئی قول متعارضات کے بارے میں مل جائے گا تو ہم یہ جان لیں گے کہ اس مضمون کی حدیث باجماعِ محدثین کوفہ صحیح ہے۔ اور اس کا مطلب باجماعِ اہل کوفہ فقہاء یہی ہے اور یہ آنحضرت ﷺ کا آخری فعل ہے۔



نامکمل تحقیق:
تحقیق کا حق اللہ اور رسول نے "مُجتَہِد" کو دیا ہے۔ اس لئے مُجتَہِدین نے تین باتوں کی مکمل تحقیق کی ہے۔ محدثین میں سے جن لوگوں نے صحت کا التزام کیا ہے انہوں نے بھی صرف پہلی بات کی تحقیق کی ہے، یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف وغیرہ۔ وہ بھی صرف اپنی اپنی شخصی رائے سے، دوسرے اور تیسرے امر کی تحقیق انہوں نے نہیں کی۔ امام بخاریؒ(م256ھ) نے فرمایا:
‌فَعَلَيْك ‌بالفقه۔۔۔۔۔۔هَذَا ‌ثَمَرَة ‌الحَدِيث۔
[الغنية في شيوخ القاضي عياض: ص72، الحطة في ذكر الصحاح الستة: ص135]
امام ترمذیؒ(م279ھ) نے فرمایا:
‌الْفُقَهَاءُ وَهُمْ ‌أَعْلَمُ ‌بِمَعَانِي ‌الْحَدِيثِ۔
[سنن الترمذي:990 (2/305- ت بشار)(3/306- ت شاكر)، تحفة الأحوذي:4/58]
امام اعمشؒ(م148ھ) نے فرمایا:
«نَحْنُ صَيَادِلَةٌ ‌وَأَنْتُمُ ‌الْأَطِبَّاءُ»
[معجم الشيوخ لابن جميع الصيداوي(م402ھ) : ص79، جامع بيان العلم وفضله-ابن عبد البر (م463ھ):1973]
خود نبی ﷺ نے بھی فرمایا:
رُبَّ ‌حَامِلِ ‌فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ
[سنن أبي داود:3660، سنن  الترمذي:2847]
یہی وجہ ہے کہ ان محدثین کا کوئی اصول فقہ نہیں ہے، نہ ہی کوئی فقہ کی کتاب ہے،  جو لوگ خدا کو چھوڑ کر محدثین کا نام لیتے ہیں وہ ان کی تحقیق پر عمل کرنے کا بہانہ بناتے ہیں، انہیں نہ دین سے محبت ہے نہ محدثین سے، انہوں نے چونکہ تحقیق کے تین کاموں میں سے ایک کام کیا، دو خانے فقہاء کے لیے چھوڑ دیے، ان دو خالی خانوں میں یہ لوگ ٹانگ اڑا کر غلط مسائل بیان کر سکتے ہیں، کہیں مرادِ رسول کو بگاڑ دیا، کہیں ناسخ و منسوخ اور منسوخ کو ناسخ بنا ڈالا۔

لیکن فقہاء نے تینوں باتیں پوری تحقیق سے مکمل کر دیں، اس لئے وہاں ان حدیث نفس پر چلنے والوں کو اپنی نفس پرستی کے لیے کوئی خانہ نہیں ملتا، اس لئے یہ فقہاء سے ناراض ہیں۔


 

 

آخری عمل:

یہ بھی ثابت ہو گیا کہ امام صاحبؒ نے متعارضات میں آپ کے آخری عمل کی پوری جستجو فرمائی، اس میں بھی تقریبا چالیس فقہاء اور تمام اہل کوفہ کے تعاون کو نظرانداز نہ فرمایا۔ پھر آپؒ کا مسئلہ پورے تواتر کے ساتھ دنیا میں پھیلا۔ جب امام صاحبؒ کا کوئی قول متعارضات کے بارے میں مل جائے گا تو ہم یہ جان لیں گے کہ اس مضمون کی حدیث باجماعِ محدثین کوفہ صحیح ہے۔ اور اس کا مطلب باجماعِ اہل کوفہ فقہاء یہی ہے اور یہ آنحضرت کا آخری فعل ہے۔



   نامکمل تحقیق:

تحقیق کا حق اللہ اور رسول نے "مُجتَہِد" کو دیا ہے۔ اس لئے مُجتَہِدین نے تین باتوں کی مکمل تحقیق کی ہے۔ محدثین میں سے جن لوگوں نے صحت کا التزام کیا ہے انہوں نے بھی صرف پہلی بات کی تحقیق کی ہے، یہ حدیث صحیح ہے یا ضعیف وغیرہ۔ وہ بھی صرف اپنی اپنی شخصی رائے سے، دوسرے اور تیسرے امر کی تحقیق انہوں نے نہیں کی۔


امام بخاریؒ(م256ھ) نے فرمایا:

‌فَعَلَيْك ‌بالفقه۔۔۔۔۔۔هَذَا ‌ثَمَرَة ‌الحَدِيث۔

ترجمہ:

پس فقہ کو لازم کرلو ۔۔۔۔۔ یہ حدیث کا ثمر (fruit) ہے۔

[الغنية في شيوخ القاضي عياض: ص72، الحطة في ذكر الصحاح الستة: ص135]


امام ترمذیؒ(م279ھ) نے فرمایا:

‌الْفُقَهَاءُ وَهُمْ ‌أَعْلَمُ ‌بِمَعَانِي ‌الْحَدِيثِ۔

فقہاء احادیث کے معانی کو زیادہ جانتے ہیں۔

[سنن الترمذي:990 (2/305- ت بشار)(3/306- ت شاكر)، تحفة الأحوذي:4/58]


امام اعمشؒ(م148ھ) نے فرمایا:

«نَحْنُ صَيَادِلَةٌ ‌وَأَنْتُمُ ‌الْأَطِبَّاءُ»

ہم لوگ تو عطار(Pharmacists) ہیں اور آپ طبیب(Doctor) ہیں.

[معجم الشيوخ لابن جميع الصيداوي(م402ھ) : ص79، جامع بيان العلم وفضله-ابن عبد البر (م463ھ):1973]

[شرف اصحاب الحدیث ونصیحۃ اہل الحدیث: ص261]







جیسے
علامہ سیوطیؒ(المتوفى: 911ه) ’’الحاوی للفتاوی‘‘ میں لکھتے ہیں :
قَالَتِ الْأَقْدَمُونَ: الْمُحَدِّثُ بِلَا فِقْهٍ كَعَطَّارٍ غَيْرِ طَبِيبٍ، فَالْأَدْوِيَةُ حَاصِلَةٌ فِي دُكَّانِهِ وَلَا يَدْرِي لِمَاذَا تَصْلُحُ، وَالْفَقِيهُ بِلَا حَدِيثٍ كَطَبِيبٍ لَيْسَ بِعَطَّارٍ يَعْرِفُ مَا تَصْلُحُ لَهُ الْأَدْوِيَةُ إِلَّا أَنَّهَا لَيْسَتْ عِنْدَهُ.
ترجمہ:
پہلے اہلِ علم نے کہا ہے کہ وہ محدث جو فقہ نہ جانتا ہو اس عطار(دوا فروش) کی طرح ہے جو طبیب (ڈاکٹر) نہ ہو، سب دوائیں اس کی دکان میں موجود ہوتی ہیں اور وہ نہیں جانتا کہ وہ کس مرض کا علاج ہیں۔ اور فقیہ بلاحدیث اسی طرح ہے جیسے وہ طبیب جو جانتا تو ہے کہ یہ دوائیں کس مرض کی ہیں مگر وہ رکھتا نہیں۔

[الْحَاوِي لِلْفَتَاوِي: جلد 2 صفحہ 398(2/277)]




خود نبی نے بھی فرمایا:

«نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ ‌لَيْسَ ‌بِفَقِيهٍ.»

ترجمہ:

اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی پھر اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچا دیا، کیونکہ بہت سے حاملینِ فقہ ایسے ہیں جو فقہ کو اپنے سے زیادہ فقہ والے کو پہنچا دیتے ہیں، اور بہت سے فقہ کے حاملین خود فقیہ نہیں ہوتے ہیں۔

[سنن أبي داود:3660، سنن  الترمذي:2847، السنن الكبرى للنسائي:5816]



یہی وجہ ہے کہ ان محدثین کا کوئی اصول فقہ نہیں ہے، نہ ہی کوئی فقہ کی کتاب ہے،  جو لوگ خدا کو چھوڑ کر محدثین کا نام لیتے ہیں وہ ان کی تحقیق پر عمل کرنے کا بہانہ بناتے ہیں، انہیں نہ دین سے محبت ہے نہ محدثین سے، انہوں نے چونکہ تحقیق کے تین کاموں میں سے ایک کام کیا، دو خانے فقہاء کے لیے چھوڑ دیے، ان دو خالی خانوں میں یہ لوگ ٹانگ اڑا کر غلط مسائل بیان کر سکتے ہیں، کہیں مرادِ رسول کو بگاڑ دیا، کہیں ناسخ و منسوخ اور منسوخ کو ناسخ بنا ڈالا۔ لیکن فقہاء نے تینوں باتیں پوری تحقیق سے مکمل کر دیں، اس لئے وہاں ان حدیث نفس پر چلنے والوں کو اپنی نفس پرستی کے لیے کوئی خانہ نہیں ملتا، اس لئے یہ فقہاء سے ناراض ہیں۔



(جاری۔۔۔۔۔)

[ماخوذ=تجلیات صفدر(حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی) : ج 7 ص 69-75]





فنِ تحقیق اور عصری تقاضے


 

تعارف:
عصر حاضر میں دینی مدارس اور جامعات علوم اسلامیہ میں تحقیق کے ذوق کو پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔اس سلسلہ میں چند اہم باتیں پیش کی جاتی ہیں جو یقینا اس عظیم کام میں معاون ثابت ہوں گی۔اور میری دلی دعاہے کہ عالم اسلام کو جید اہل علم کی شکل میں نئے محققین ملیں جو امت مسلمہ کو درپیش فکری ونظریاتی مسائل کے احسن طریقے سے حل پیش کرسکیں۔ اس تحریر میں تحقیق کے معنی ومفہوم اور ضرورت واہمیت کے بارے میں گفتگو ہوگی۔سب سے پہلے یہ جانیے کہ تحقیق کا لغوی معنی کیاہے؟
تحقیق کا لغوی معنی
تحقیق باب تفعیل کا مصدر ہے۔جس کے معنی چھان بین اورتفتیش کے ہیں۔(۱) اوراس کا مادہ ح ق ق ہے۔مشہور لغت کے امام خلیل ابن احمد(م۱۷۰ھ )لکھتے ہیں:
الحقُّ نقیض الباطل(۲)
”الحق باطل کی ضد ہے “۔
اسی طرح ایک اور مشہور لغت کے ماہر ابن منظور افریقی (م۷۱۱ھ)لکھتے ہیں:
الحَقُّ: نَقِیضُ الْبَاطِلِ، وَجَمْعُہُ حُقوقٌ وحِقاقٌ․․․․․ وحَقَّ الأَمرُ یَحِقُّ ویَحُقُّ حَقّاً وحُقوقاً: صَارَ حَقّاً وثَبت(۳)
”حق باطل کی ضدہے۔اور اس کی جمع حقوق اور حقاق آتی ہے۔اور حَقَّ الامرُ کا معنی صحیح ہونا اور ثابت ہونا ہے۔“
چونکہ حق اور باطل دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قران کریم میں حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے کاحکم دیا گیاہے۔ارشاد ربانی ہے:
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۴)
”اور سچ میں جھوٹ نہ ملاؤ اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ۔“
اسی طرح سچائی کو ثابت اور باطل کا جھوٹ واضح کرنے کے لیے فرمایا:
لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ(الانفال:۸)
”تاکہ سچا کرے سچ کو اور جھوٹا کردے جھوٹ کو اور اگرچہ ناراض ہوں گناہ گار“۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
ارشاد ربانی ہے :
لِّیُنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیًّا وَّیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ(۵)
”تاکہ جو زندہ ہے اسے ڈرائے اور کافروں پر الزام ثابت ہو جائے“۔
مذکورہ بحث کوسمیٹے ہوئے اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق کا لغوی معنی ،چھان بین،حق وباطل میں فرق ،تفتیش اورثابت کرنا وغیرہ ہے۔
اور انگلش میں اس کے لیے Research کا لفظ استعمال ہوتاہے۔Re کے معنی ہیں دوبارہ اور Search کے معنی ہیں تلاش کرنا تو Research کے معنی ہوئے دوبارہ تلاش کرنا۔
اصطلاحی مفہوم
تحقیق کی بہت ساری تعریفات کی گئی ہیں۔جن میں لفظوں کی تعبیر کا فرق ہے تاہم مفہوم اور مدعا تقریبا سب کا قریب قریب ہے۔چند تعریفات آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔
۱- تحقیق ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجود مواد کے صحیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتاہے۔
۲- کسی امر کی شکل پوشیدہ یا مبہم ہو تو اس کی اصلی شکل کو دریافت کرنا تحقیق کہلاتاہے۔(۶)
3.  According to Oxford English Dictionary:
a.   "To Search into Matter of Subject to investigate of study closely".
(کسی موضوع کے مواد کی تحقیق کرنا ،تلاش کرنا یا باریک بینی سے مطالعہ کرنا۔)
b.   To Search again and repeatedly.(دوبارہ جستجو کرنا اور بار بار تلاش کرنا۔)             
4.  According to the Oxford Reference Dictionary:
To establish facts and reach new conclusion.
(حقائق متعین کرنا اور نئے نتائج تک پہنچنا۔)       
5.  According to Websters Third New International Dictionary:
a.   To search again or new. (از سر نو تلاش کرنا یا جدید تحقیق کرنا۔)
b.   To search or investigate enhanstively. (وسیع پیمانہ پر تلاش وجستجو کرنا )
      According to Pr. B.D.Panda research is abbreviation of:
      R =stands for        Rational Way of Thinking.
 (مبنی برعقل سوچ یا سوچنے کا عقلی طریقہ)                          
      E=stands for         Expert and Comprehensive Treatment.         
(ماہرانہ اور مکمل برتاو)
      S=stands for         Search for Solution. (حل کی تلاش)
      E=stands for         Exactness. (درستی وصحت)
      A=stands for         Analysis (تجزیہ)
      R=stands for         Relationship of Facts (حقائق کا تعلق)
      C=stands for         Critical Observation (تنقیدی مشاہدہ)
      H=stands for         Honesty and Hardship (دیانت اور مشکلات)
 تحقیق کی ضرورت واہمیت
عصر حاضر میں نت نئے چیلنجز اور درپیش مسائل کے حل لیے ”تحقیق“ کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔کسی بھی چیز کی اہمیت کااندازہ اس کی ضرورت سے ہوتاہے۔اور موجودہ زمانہ میں انسان کی ضروریات دن بدن بڑھ رہی ہیں؛ اس لیے مختلف شعبوں میں ضروریا ت کے پیش نظر ”تحقیق“ کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے؛چونکہ ہم لوگ اسلامیات کے طالب علم ہیں؛ اس لیے ہماری تحقیق کا دائرہ علوم اسلامیہ کے گرد ہوگا۔
اسلام میں تحقیق کی اہمیت
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی رہنمائی کے لیے اپنے بعد دو چیزیں چھوڑیں ،کتاب اللہ اور سنت جن کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا گیا۔چنانچہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اور ان کے تلامذہ تابعین، تبع تابعین ،ائمہ مجتہدین نے اپنی تمام تر تحقیقات میں مرکزی حیثیت قران وحدیث کودی۔اس لیے کہ قرآن کریم اجمال ہے تو حدیث اس کی تفصیل ہے۔ قرآن کریم متن ہے تو حدیث اس کی تشریح ہے۔قرآن وسنت جس طرح دیگر اہم دینی معاملات کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اس طرح تحقیق وتفکر اور تدبر کے بارے میں بھی واضح احکاما ت دیتے ہیں۔قران وسنت سے چند دلائل پیش کیے جاتے ہیں جن سے تحقیق کی اہمیت پر مزید روشنی ڈالی جاسکے گی۔
۱-  قرآن کریم کی روشنی میں تحقیق کا ثبوت
قرآن کریم کی متعدد آیات تحقیق کی طرف رہنمائی کرتی ہیں:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍٴ فَتَبَیَّنُوْآ اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(۷)
ترجمہ: اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لاے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کوئی نقصان پہنچا بیٹھو کسی قوم کوبے علمی (ونادانی)کی بناء پر تو پھر اس کے نتیجے میں تمہیں خود اپنے کیے پر شرمندگی اٹھانی پڑے۔
اسی طرح قرآن کریم میں متعدد مقامات پر لوگوں کے سوال نقل کرکے جواب کا ذکر ہے تاکہ ان کی معلومات میں اضافہ اور تحقیق کی راہیں ہموار ہوں۔
ارشاد باری تعالی ہے :
یَسَْلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّةِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ(۸)
”پوچھتے ہیں آپ سے یہ لوگ اے پیغمبر چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے بارے میں کہ ایسے کیوں ہوتا ہے؟ تو کہو کہ یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کہ تعین اور خاص کر حج کے اوقات و تواریخ کی علامتیں ہیں“۔
ارشاد باری تعالی ہے :
یَسَْلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ْ وَاِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا(۹)
”پوچھتے ہیں آپ سے اے پیغمبر شراب اور جوئے کے بارے میں تو انھیں بتا دو کہ ان دونوں چیزوں میں بڑا گناہ بھی ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے“۔
ارشاد باری تعالی ہے :
وَیَسَْلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ(۱۰)
”اور پوچھتے ہیں آپ سے کہ کیا خرچ کریں تو کہو کہ جو زیادہ ہو تمہاری ضرورتوں سے۔“
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر تدبر اور غور وفکر کا حکم دیاگیاہے۔ارشاد باری تعالی ہے :
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا(۱۱)
”کیا یہ لوگ غور نہیں کرتے اس قرآن (عظیم)میں؟ یا (ان کے) دلوں پر ان کے تالے پڑے ہوئے ہیں۔“
یہ تمام آیات تحقیق وتفکر کے بارے میں ہدایات دے رہی ہیں۔اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔اسی طرح قرآن کریم میں حضرت موسی کا تفصیلی واقعہ سورة الکہف میں آرہاہے، جب وہ مزید تعلیم وتحقیق کے لیے حضرت خضر  کے پاس پہنچے اور دورانِ سفربہت سی باتوں کا علم ہوا۔
۲-      احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں تحقیق کا ثبوت
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعدد ارشاداتِ عالیہ میں معاملات اور دیگر اہم امور میں غوروفکر اور تحقیق کرنے کا حکم دیا۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
”خَرَجْنَا فِی سَفَرٍ فَأَصَابَ رَجُلًا مِنَّا حَجَرٌ فَشَجَّہُ فِی رَأْسِہِ، ثُمَّ احْتَلَمَ فَسَأَلَ أَصْحَابَہُ فَقَالَ: ہَلْ تَجِدُونَ لِی رُخْصَةً فِی التَّیَمُّمِ؟ فَقَالُوا: مَا نَجِدُ لَکَ رُخْصَةً وَأَنْتَ تَقْدِرُ عَلَی الْمَاءِ فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُخْبِرَ بِذَلِکَ فَقَالَ: قَتَلُوہُ قَتَلَہُمُ اللَّہُ، أَلَا سَأَلُوا إِذْ لَمْ یَعْلَمُوا فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعِیِّ السُّؤَالُ، إِنَّمَا کَانَ یَکْفِیہِ أَنْ یَتَیَمَّمَ وَیَعْصِرَ -أَوْ یَعْصِبَ شَکَّ مُوسَیٰ - علَی جُرْحِہِ خِرْقَةً، ثُمَّ یَمْسَحَ عَلَیْہَا وَیَغْسِلَ سَائِرَ جَسَدِہِ“(۱۲)
”کہ ہم سفر کے لیے روانہ ہوئے راستہ میں ایک شخص کو پتھر لگا جس سے اس کا سر پھٹ گیا، اس کو احتلام ہوا اس نے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا تم مجھے تیمم کی اجازت دیتے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں ہم تیرے لیے تیمم کی کوئی گنجائش نہیں پاتے؛ کیونکہ تجھے پانی کے حصول پر قدرت حاصل ہے لہٰذا اس نے غسل کیا اور مر گیا جب ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لوگوں نے اس کو ناحق مار ڈالا، اللہ ان کو ہلاک کرے، جب ان کو مسئلہ معلوم نہ تھا تو ان کو پوچھ لینا چاہیے تھا؛کیونکہ نہ جاننے کا علاج معلوم کر لینا ہے، اس شخص کے لیے کافی تھا کہ وہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر کپڑا باندھ کر اس پر مسح کر لیتا اور باقی سارا بدن دھو ڈالتا۔“
علامہ ابوسلیمان الخطابی(م۳۸۸ھ)اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :
قلت فی ہذا الحدیث من العلم أنہ عابہم بالفتوی بغیر علم وألحق بہم الوعید بأن دعا علیہم وجعلہم فی الإثم قتلة لہ(۱۳)
”میں کہتا ہوں اس حدیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر علم کے فتوی دینے کی وجہ سے ان کی مذمت کی اور ان کے لیے وعید بیان کی ا س طریقے پر کہ ان کے لیے بد دعا کی اور گناہ میں ان کو اس کا قاتل قرار کردیا۔“
چونکہ بغیر تحقیق کے یہ فتوی ٰ دیا گیا تھا؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں سخت کلمات کہے۔اس لیے حکم دیا ”فَإِنَّمَا شِفَاء ُ الْعِیِّ السُّؤَالُ“ تحقیق سے انسان کو درست سمت کے انتخاب میں آسانی رہتی ہے ورنہ گمراہی کا اندیشہ ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّہَ لاَ یَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ العِبَادِ، وَلَکِنْ یَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُئُوسًا جُہَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا(۱۴)
”کہ اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے چھین کر نہیں اٹھائے گا؛ بلکہ علم کو علماء کے اٹھا لینے کے ذریعہ سے قبض کیا جائے گا؛ یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے پس ان سے پوچھا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے“۔
اس حدیث سے معلوم ہواکہ تحقیق کے ذریعہ گمراہی سے بچا جاسکتاہے۔
صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تحقیقی ذوق پیدا کرنے لیے کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے سوالات کیے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لاَ یَسْقُطُ وَرَقُہَا، وَہِیَ مَثَلُ المُسْلِمِ، حَدِّثُونِی مَا ہِیَ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِی شَجَرِ البَادِیَةِ، وَوَقَعَ فِی نَفْسِی أَنَّہَا النَّخْلَةُ، قَالَ عَبْدُ اللَّہِ: فَاسْتَحْیَیْتُ، فَقَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَخْبِرْنَا بِہَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ہِیَ النَّخْلَةُ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ: فَحَدَّثْتُ أَبِی بِمَا وَقَعَ فِی نَفْسِی، فَقَالَ: لَأَنْ تَکُونَ قُلْتَہَا أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ یَکُونَ لِی کَذَا وَکَذَا(۱۵)
” کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا درختوں میں ایک درخت ایسا ہے کہ اس میں پت جھڑ نہیں ہوتی اور وہ مومن کے مشابہ ہے(۱۶) مجھے بتاؤ کہ وہ کون سا درخت ہے؟ لوگوں کے خیال جنگل کے درختوں میں جا پڑے اور میرے دل میں یہ آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے؛ مگر میں (کہتے ہوئے) شرما گیا (بالآخر) سب لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ہماری سمجھ میں نہیں آیا)آپ ہمیں وہ درخت بتا دیجیے، عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ (عمر فاروق) سے، جو میرے دل میں آیا تھا ، بیان کیا تو وہ بولے اگر تو نے یہ کہہ دیا ہوتا، تو مجھے اس سے اور اس سے زیادہ محبوب تھا۔“
امام ابن بطال(م۴۴۹ھ)اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :
قال المہلب: معنی طرح المسائل علی التلامیذ لترسخ فی القلوب وتثبت، لأن ما جری منہ فی المذاکرة لا یکاد ینسی(۱۷)
مہلب نے کہا :شاگردوں سے سوالات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے دلوں میں وہ باتیں راسخ ہوجائیں؛ اس لیے کہ جن چیزوں کا مذاکرہ ہوتاہے، وہ جلدی بھولتی نہیں ہیں۔
ابن بطال  مزید لکھتے ہیں:
إنما أراد البخاری بہذا الباب لیبین أن الحیاء المانع من طلب العلم مذموم(۱۸)
”امام بخاری کی غرض اس باب (الحیاء فی العلم )کے قائم کرنے سے یہ بیان کرناہے کہ جوحیاء طلب علم سے مانع ہو وہ مذموم ہے۔“
اس واقعہ سے جو نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
(الف) دینی اور شرعی امور کے علاوہ دنیاوی باتوں کی تحقیق بھی کی جاسکتی ہے۔
(ب)             استاد ،طلباء سے ایسے سوالات کرسکتاہے، جن سے ان کے علم میں اضافہ ہو۔
(ج)               بزرگوں اور بڑوں کی مجالس میں ادب واحترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے۔
(د)                جس چیز کا علم نہ ہو اس کے بارے میں پوچھنے سے شرم نہیں کرنی چاہیے۔
حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کوجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
کَیْفَ تَقْضِی إِذَا عَرَضَ لَکَ قَضَاء ٌ؟، قَالَ: أَقْضِی بِکِتَابِ اللَّہِ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِی کِتَابِ اللَّہِ؟، قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فِی سُنَّةِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَا فِی کِتَابِ اللَّہِ؟ قَالَ: أَجْتَہِدُ رَأْیِی، وَلَا آلُو فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَدْرَہُ، وَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی وَفَّقَ رَسُولَ، رَسُولِ اللَّہِ لِمَا یُرْضِی رَسُولَ اللَّہِ(۱۹)
”فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے کہا اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا، آپ نے فرمایا: اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو؟ عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو؟ اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو؟ انھوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایاکہ اللہ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔“
یہ حدیث بھی بڑی وضاحت سے تحقیق کی اہمیت کو بیان کررہی ہے۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر قرآن وسنت سے تحقیق کرکے مسائل کا حل پیش کرنے کی صراحت فرمائی ،اور اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ اگر قرآ ن وسنت سے مطلوبہ مسئلہ نہ ملا تو اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا یہ محض اپنی رائے سے کام لینے کی طرف اشارہ نہیں تھا؛ بلکہ اس کے پیچھے بھی قرآن وسنت پر گہرے غوروفکر اور تحقیق سے قائم ہونے والی رائے مراد تھی۔
علامہ ابو سلیمان الخطابی  لکھتے ہیں:
قولہ اجتہد برأیی یرید الاجتہاد فی رد القضیة من طریق القیاس إلی معنی الکتاب والسنة ولم یرد الرأی الذی یسنح لہ من قبل نفسہ أو یخطر ببالہ عن غیر أصل من کتاب أو سنة(۲۰)
”حضرت معاذ کا فرمانا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اس سے ان کی مراد معاملات کے حل کرنے میں قرآن وسنت سے مستنبط علت کے ذریعے قیا س کرنا تھا۔ اور وہ رائے مراد نہیں تھی جو اپنی ذات سے ذہن یادل میں قرآن وسنت میں سے اصل کے بغیرپیدا ہو۔“
قرآن وسنت کو۱۴۰۰ سوسال سے زائد کا عرصہ گزر چکاہے۔اور ہرصدی میں بے شمار کتب لکھی گئیں۔ذخیرہ تفاسیر ،شروح احادیث اور کتب فقہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ امت مسلمہ نے بہت کام کیاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اب کونسے ایسے موضوعات ہیں جن پر کام کی ضرورت ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتاہے کہ ہر موضوع پر بڑے عمدہ انداز میں مدلل ومفصل کام ہوچکا ہے۔؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اسلاف اور کابرین نے اپنے اپنے زما نے میں وقت کی نزاکتوں کے پیش نظر اسلامی نقطہ نظرسے مسائل کاحل پیش کیا ہے۔جب ہم تاریخ اسلام پر نظر ڈالتے ہیں تو بہت سی علمی قدآور ایسی شخصیات کی فہرست سامنے آتی ہے کہ جن کے علمی رسوخ، تفقہ ،تفکراور علمی وتحقیقی تصانیف کے آگے نظریں عقیدت سے جھک جاتی ہیں اور زبان پر ان کے لیے دعائیہ کلمات آجاتے ہیں۔
عصر حاضر میں اسلامی تحقیقات کی ضرورت
اسلام ایک عالمگیر مذہب اور دینِ فطرت ہے۔جوقیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔تہذیبوں کے تصادم ،رسم ورواج کے اختلاف،علاقائی ثقافت کے مختلف ہونے سے نئے مسائل سامنے آرہے ہیں، ان کے اسلامی حل کے لیے تحقیق کی اشد ضرور ت ہے۔
سائنسی کمالات
اس وقت سائنسی ترقی اور کمالات نے جہاں بہت سی سہولیات کا سامان فراہم کیاہے وہیں بہت سے سوالات بھی پیدا کردیے ہیں۔مثلا ایک شخص فضامیں چکرکاٹ رہاہے ،چاند پر قدم رکھ چکاہے۔نماز کے اوقات کی تعیین اور قبلہ کی طرف رخ کیسے کرے۔خانہٴ کعبہ زمین پرہے اور وہ فضاء میں موجود ہے۔؟جہاز میں سفرکررہاہے سورج کی ٹکیہ نظر آرہی ہے؛ جبکہ جس شہر سے جہاز گزر رہا ہے وہاں سورج غروب ہے تو اب نماز جیسے اہم فریضے کی ادائیگی کیسے ہوگی۔؟ یا ایک شخص کسی آبدوز میں بیٹھ کر سمندر کی تہہ میں ہے، وہ کس طرف رخ کرکے نماز پڑھے گا۔ اسی طرح سحری وافطاری کے وقت کا تعین کیسے ہوگا؟
طبی مسائل
عصر حاضر میں علم الطب میں بھی بہت ترقی ہوئی ہے۔انسان کے پورے جسم پر تحقیقات جاری ہیں نت نئے تجربات ہورہے ہیں۔ایک شخص کے اعضاء دوسرے کو دیے جاسکتے ہیں۔؟کیا ڈی این اے ٹیسٹ کی بدولت کسی شخص پر حدجاری کی جاسکتی ہے یاکسی کا نسب ثابت کیا جاسکتاہے۔؟ کیا آپریشن سے مرد وعورت میں جنسی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔؟وغیرہ اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔
اسلامی بینکاری کا قیام
اس وقت ایک اہم کام سود سے پاک بینکاری نظام کا قیام ہے۔جس کی تشکیل عین شرعی قوانین کے مطابق ہو۔اگرچہ بعض اہل علم نے اس سلسلہ میں کوششیں کی ہیں؛ مگر اس پر دیگر اہل علم کے خدشات اور اعتراضات ہیں؛بلکہ فریقین کی طرف سے کتب مارکیٹ میں موجود ہیں۔اگرچہ اختلاف رائے مذمو م نہیں ہے؛ مگر عوام کو اس الجھن سے نکالنا تو ضروری ہے کہ کونسی رائے عصری تقاضوں کے مطابق ہے۔اور جولوگ اس نظام سے مطمئن نہیں ہیں، ان کے اعتراضات کو دور کرنا اور صحیح خطوط پر اس طرح کام کرنا کہ اس حوالے سے اضطرابی کیفیت کا خاتما ہو وقت کا اہم تقاضا ہے۔
سود کی حرمت پر تو کسی مسلمان کو شک وشبہ نہیں ہے۔؟مگر سود کا اطلاق کن صورتوں پر ہوگا اور کونسی صورتیں اس سے مستثنی ہیں۔؟اس بارے میں اختلاف شدید ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام میں بہت سے ایسے اہل علم گزرے ہیں اور موجود ہیں جن کی نظر میں بعض صورتیں ایسی ہیں جن پر سود کا اطلاق نہیں ہوتا؛ مگر دیگر اہل علم کی رائے اس کے برعکس ہے۔؟اس لیے سوو کی ایسی جامع ومانع تعریف ہو کہ جس پر عرب وعجم کے علماء کا اتفاق ہو۔یا کم از پاک وہند کے علماء تو متفق ہوں۔مگر اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ جب چار ایسے ممالک جن میں بالترتیب،حنفی، مالکی،شافعی، حنبلی فقہ نافذ ہو اور جب وہ آپس میں لین دین کریں گے تو اس کی کیا نوعیت ہوگی۔؟ اس لیے کہ سود کی حرمت کی جو علت ہرامام نے اپنے اجتہاد اور نصوص پر گہرے غوروفکرکے بعد نکالی ہے۔ وہ دوسرے امام کی بیان کردہ علت سے مختلف ہے تو پھر عالمی سطح پر لین دین کرتے وقت اس مسئلہ کا کیا حل ہوگا۔؟
مذہبی انتہاء پسندی اورفرقہ واریت کاخاتمہ
انسانی زند گی میں مذہب بے حد اہمیت کاحامل ہے۔انسانی زندگی کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کے لیے جس قدر مذہب اثر انداز ہوتاہے اتنی کوئی دوسری قوت نہیں ہے۔ انسان کو عقل یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ حیوانی زندگی سے نکل کر ایک مہذب معاشرے اور پرامن زندگی کے حصول کے لیے اسے کسی چیز کے سہارے کی ضرورت ہے اور وہ سہارا زندگی کے پیچیدہ راستوں پر مذہب کی صورت میں شمع بن کر اس کی رہنمائی کرتا ہے اور کامیاب ، مہذب اور پرسکون زندگی گزارنے میں اس کا معاون بنتا ہے جس کا کوئی مذہب نہ ہو اس کی زندگی بے معنی سی ہوتی ہے جب کہ جو مذہب سے وابستہ ہوتے ہیں ان کی زندگی کا کوئی مقصد اور مفہوم ہوتا ہے ۔
یہ مذہب ہی ہے جو زندگی کے تمام گوشوں کے بارے میں واضح لائحہ عمل رکھتا ہے۔جس کی بدولت انسان حقیقی کامیابیاں حاصل کرلیتاہے۔روحانی غذا بھی مذہب کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ انسا ن کی نظر اور فکر میں وسعت وعالمگیریت پیدا ہوجاتی ہے؛ مگر یہ سارے اثرات اس وقت مرتب ہوتے ہیں جب مذہب کو اس کی اصل پر باقی رکھتے ہوئے اس پرعمل کیا جائے اگر اس میں افراط وتفریط(زیادتی وکمی)پیدا ہوگئی تو مسائل سلجھنے کی بجائے مزید الجھ جائیں گے۔
پورا عالم اسلام مختلف تباہ کن مسائل سے دور چار ہے، ان میں مذہبی انتہاء وشدت پسندی بھی ہے، جس نے فرقہ وراریت کو مزید فروع دیاہے اور اس سے امن عامہ بری طرح متاثر ہوا ہے ،ایک دوسرے کا قتل عین ثواب سمجھ کر کیا جارہاہے۔مگر معمولی سے اختلاف رائے اور اظہار رائے کرنے پر ایک دوسرے پر سخت قسم کے فتوے لگائے جاتے ہیں اور بسا اوقات معاملات حد سے زیادہ سنگینی اختیارکرلیتے ہیں۔ان حالات میں ضرورت ہے مذہبی انتہاء پسندی کے پس منظر، اسباب کا غیرجانبدارانہ جائزہ لیتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کے خاتمہ کے لیے کوئی لائحہ عمل بنایا جائے تاکہعالم اسلام ہرقسم کے داخلی نقصانات سے محفوظ رہے۔
کرپشن کے نقصانات اور اس کا سدباب
اس وقت پاکستان کوکرپشن نے بری طرح کھوکھلا کردیاہے۔اعلی سے ادنی فرد کسی نہ کسی صورت میں کرپشن میں مبتلا ہے۔کرپشن کا مفہوم کیاہے۔؟کیا اس کا دائرہ صرف مالی بدعنوانی تک محدود ہے یا اور صورتیں بھی داخل ہیں۔؟آج کل رشوت کو ہدایا کے نا م سے موسوم کرکے وصول کیا جارہاہے۔ہدایہ اور تحائف کے بارے میں شریعت کا کیا موقف اور مزاج ہے۔؟کن صورتوں میں ہدایا کا شمار رشوت میں ہوگا۔؟یا تحائف اور ہدایا کا وصول کرنا ناجائز ہوگا۔؟کونسی صورتوں میں رشوت دی جاسکتی ہے؟
کوئی افسر اپنے ماتحت کو غلط کام کا حکم دے اور حکم عدولی کی صورت میں جانی یا مالی نقصان کا اندیشہ ہو توکیا حکم ہے؟یونیورسٹیز اور کالجز کے اساتذہ کا طلباء سے ہدایا اور تحائف وصول کرنا یا مطالبات کرنا ا ن کا کیا حکم ہے؟تحائف اور ہدایا وصول کرکے اساتذہ کا غیر معیاری گائیڈ نما کتب طلباء کو خریدنے کاحکم دینا۔ڈاکٹر اور ٹیچر کا اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنا ،سرکاری اوقات میں پرائیویٹ کلینک ،اکیڈمی چلانا،صحافی یا اینکر کا پیسوں کی خاطر بک جانا ،علماء سوء اور ان کا کردار، اپنے ماتحتوں سے غیرمہذب رویہ ،ملاوٹ اشیاء وغیرہ بیسیوں ایسے موضوعات ہیں جن پر حقائق کو مد نظررکھتے ہوئے کام کیا جاسکتاہے۔
معاشرتی رسوم ورواج کا جائزہ
اس وقت ہمارے معاشرہ میں بہت سی ایسی رسوم رائج ہوچکی ہیں، جن کے بارے میں اکثریت کو یہ ہی نہیں علم کہ کام شرعی ہے؛ اس لیے کررہے ہیں یا ایک رسم کے طور پر سرانجام دے رہے ہیں؟کونسے کام شرعا مباح ہیں اور کونسے ناجائز ہیں۔خوشی وغمی کا شرعی تصور کیاہے؟ اظہار مسرت وغم میں کس حد تک آگے بڑھا جاسکتاہے۔؟شادی وبیاہ اور تجہیز وتکفین کے حوالہ سے اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟بعض خاندانوں میں کزن میرج (چچازاد اور پھوپی زاد کی آپس میں شادی) کو سخت معیوب سمجھا جاتا ہے۔اس کا پس منظر کوئی خاندانی رواج ہے؟طبی رائے ہے؟وغیرہ
انٹرنیٹ ،ٹی وی ،کیمرہ کا استعمال
عصرحاضر میں بہت سی ایجادات منظر عام پر آئی ہیں۔ان کے استعمال کے حوالہ سے اسلام کا موقف کیاہے؟مثلا ٹی وی ،سی ڈی پلیئر،ڈی وی ڈی،کمپیوٹر،انٹرنیٹ ،کیبل ،موبائل فون وغیرہ کا استعمال کس حد تک جائز ہے۔ میوزک ومو سیقی،ناچ گانا،قوالی وغیرہ کے کیا احکامات ہیں؟کیمرہ کی تصویر کا حکم اور ہاتھ سے بنائی جانے والی تصاویر کی شرعی حیثیت متعین کرنا اسلامی محقق کی ذمہ داری ہے؛ تاکہ لوگوں پر صحیح صورتِ حال واضح ہوسکے۔
مستشرقین کا تعاقب
مستشرقین کے اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات، قرآن مجید اور بالخصوص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ پر اٹھائے گئے سوالات کے صحیح جوابات دینا اسلامیات کے اسٹوڈنٹ کی دینی واخلاقی ذمہ داری ہے۔جن میں نہ معذرت خواہانہ انداز ہو اور نہ ہی روح شریعت اور مزاج شریعت سے صرف نظرکیا گیا ہو۔
مغرب کی برتری کا جواب
آج یورپ کی برتری کے نعرے بلندہورہے ہیں کسی چیز کے صحیح اورمستند ہونے کے لیے یورپ کی تصدیق کافی سمجھی جاتی ہے او راسلامی تہذیب وتمدن کا مذاق اڑایا جارہاہے۔ایسے حالات میں اسلامیات کے محقق پر لازم ہے کہ وہ احکام اسلام کی ایسی توضیح وتشریح کرے جس سے اسلام کی صحیح ترجمانی ہو۔
اس کے علاوہ اور بھی موضوعات ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
تحقیق کے فوائد
تحقیق کے بہت سے فوائد ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
۱- نئی معلومات کاحصول
۲- اصل ماخذ تک رسائی
۳- کارکردگی میں اضافہ
۴- حقیقت سے آگاہی
۵- توہمات سے چھٹکارہ
۶- تعصبات کاخاتمہ
۷- صحیح وغلط کی پہچان
۸- ندامت سے بچاو
۹- علم میں وسعت وگہرائی کا پیدا ہونا
۱۰- صلاحیتوں کا نکھرنا
۱۱-صحیح نتائج تک رہنمائی
۱۲- جمود کا خاتمہ
۱۳- صحیح نظریات کی سچائی کا ادراک
۱۴- باطل اور جھوٹ کا رد
۱۵-قوت فیصلہ کا پیدا ہونا
۱۶- آلام ومصائب سے نجات
۱۷-ترقی میں ممد ومعاون
۱۸- پرسکون زندگی گزارنے کے طریقوں کا علم
۱۹- کائنات کے رازوں اور بھیدوں کا علم
۲۰- شکو ک وشبہات کی فضاء کا خاتمہ
طریق کار
اس کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ ہم قرآن وسنت اور ان کی توضیح وتشریح میں لکھی اپنے اسلاف کی کتب کی طرف مراجعت کریں گے اور ان اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مسائل کا حل پیش کریں گے، جن پر صدیوں غوروفکر ہوا اور وہ مزید نکھر کرسامنے آگئے ہیں۔
چونکہ ہم لوگ فقہ حنفی کے مطابق عمل کرتے ہیں؛ اس لیے دورانِ تحقیق فقہاء احناف کی کتب کوضرور مد نظر رکھیے۔ اور چونکہ دیگر ائمہ عظام ،مالکیہ،شوافع ،حنابلہ کی کتب بھی تحقیقی کاموں میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں، اس لیے کہ ائمہ اربعہ اور ان کے متبعین میں جتنے بھی نامور اہل علم گزرے ہیں وہ سب حق کی ہی اتباع کرنے والے تھے صرف حق کو فقہ حنفی کے ساتھ خاص سمجھنا یہ بہت بڑی غلطی ہے۔اس میں کوئی شک نہی کہ امام ابوحنیفہ کو جو اللہ تعالی نے فقہی بصیرت عطا فرمائی تھی اور جو آپ کی نصوص پر گہری نظر تھی اس کا مقابلہ کوئی آپ کا ہم عصر اور بعد کے افراد میں بھی کوئی نہ کرسکا؛ تاہم اپنے اپنے زمانے میں بہت سی علمی شخصیات گزر ی اور ان کے علمی کارنامے داد تحسین کے مستحق ہیں۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جو کام دار العلوم دیوبند ہندوستا ن اور اس کے فضلاء سے لیاہے بر صغیر اور دیگر اسلامی ممالک میں اس کی نظیر ملنی دشوار ہے۔الحمد للہ علماء دیوبند نے جس اعتدال اور للہیت وخلوص سے علوم اسلامیہ کی خدمت کی ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے دور ان تحقیق خاتم الفقہاء حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری  ،حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی،شیخ العرب والعجم حضرت سید حسین احمد مدنی  ،شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی ، علامہ ظفراحمد عثمانی، شیخ الحدیث مولانا یوسف بنوری ، شیخ التفسیر والحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع  ، مولانا مفتی عزیز الرحمن ، حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی  ومولانا بدر عالم میرٹھی اور بھی بہت سے نام ہیں جو طوالت کے خوف سے حذف کررہا ہوں کی علمی کتب کو ضرور مطالعہ میں رکھیے۔
ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا جس پر ہمارے اکابر نے کہیں نہ کہیں ضرور کچھ لکھا ہوگا شرط صرف تلاش اور کتب کی ورق گردانی کی ہے۔ان شاء اللہ العزیز اپنے دوسرے مقالہ میں اس پر بھی روشنی ڈالوں گا کہ حدیث وتفسیر وفقہ میں کونسی کتب میں زیادہ بہتر انداز میں مباحث کو سمیٹا گیاہے اور جو مسئلہ عام کتابوں میں نہ ہو تو وہ کن کتابوں میں ملے گا۔اور دیگر مفید امور پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔
$ $ $
حواشی:
(۱)    کیرانوی،وحیدالزمان،مولانا،القاموس الوحید،لاہور،ادارہ اسلامیات،۲۰۰۱ء ،صفحہ۳۶۰۔
(۲)   خلیل ابن احمد،ابو عبدالرحمن،کتاب العین،دارومکتبة الہلال،س ن،جلد۳،صفحہ۶۔
(۳)   ابن منطور،محمد بن مکرم،الافریقی،لسان العرب،بیروت،دار صادر،۱۴۱۴ھ،جلد۱۰،صفحہ۴۹۔
(۴)   القرآن،البقرہ:۴۲۔
(۵)   القرآن،یٰسین:۷۰۔
(۶)   اکرم رانا ،ڈاکٹر،اسلامی اصول تحقیق،ملتان،مکتبہ قاسمیہ۔
(۷)   القرآن،الحجرات:۶۔
(۸)   القران،البقرہ:۱۸۹۔
(۹)    القران،البقرہ:۲۱۹۔
(۱۰)  القران،البقرہ:۲۱۹۔
(۱۱)   القران،محمد:۲۴۔
(۱۲)  ابو داؤد،سلیمان بن الاشعث ،السجستانی،السنن،بیروت،المکتبة العصریہ،س ن،جلدا،صفحہ۹۳،حدیث نمبر۳۳۶۔
(۱۳) الخطابی،حمد بن محمد،ابو سلیمان،معالم السنن شرح سنن ابی داؤد،حلب،المطبعة العلمیة،۱۳۵۱ھ،جلد۱،صفحہ۱۰۴۔
(۱۴) البخاری،محمد بن اسماعیل ،ابو عبداللہ،الجامع الصحیح،دار طوق النجاة،۱۴۲۲ھ جلد۱،صفحہ۳۱،حدیث نمبر۱۰۰۔
(۱۵) البخاری،الجامع الصحیح،جلد۱،صفحہ۳۸،حدیث نمبر۱۳۱۔
(۱۶)  مومن کی کھجورکے درخت سے وجہ تشبیہ اس طرح ہے کہ جیسے کھجور کے پتے کبھی نہیں گرتے ،ہمیشہ رہتے ہیں ،اسی طرح مومن ہمیشہ ،نماز،روزہ،ذکر اللہ اور دیگر خیر اور بھلائی کے کام کرتا رہتاہے۔یہ کام اس سے منقطع نہیں ہوتے۔(ابن بطال،شرح صحیح البخاری،جلد۱،صفحہ۱۴۱)
(۱۷) ابن بطال،علی بن خلف،ابو الحسن،شرح صحیح البخاری،الریاض،مکتبة الرشد،۱۴۲۳ھ،جلد۱،صفحہ۱۴۱۔
(۱۸) ابن بطال،شرح صحیح البخاری،جلد۱،صفحہ۲۱۰۔
(۱۹)  ابو داؤد،السنن،۳،صفحہ۳۰۳،حدیث نمبر۳۵۹۲۔
(۲۰)                         الخطابی،معالم السنن شرح سنن ابی داؤد،جلد۴،صفحہ۱۶۵۔
$ $ $

عصر حاضر کی سائنسی تحقیق اور متعلقہ اسلامی احکام

 

 


 

          پچھلی دو تین صدیوں سے سائنسی ایجادات (scientific inventions) نے ہماری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ یہ سائنسی ایجادات ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتی ہیں، چاہے وہ ہماری روزمرہ کے استعمال کی اشیا ہوں یا جنگی سازو سامان، چاہے وہ طب (medical science) ہو یا مواصلاتی نظام (telecommunication systems) ۔ غرض زمین کی گہرائیوں سے لے کر آسمان کی بلندیوں تک، سمندروں میں پانی سے لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں تک، سائنسی ایجادات نے زندگی کے طول و عرض کو گھیر رکھا ہے۔ ہر سائنسی ایجاد کے پیچھے سائنسدانوں کی ایک ٹیم (team) کی انتھک محنت شامل ہوتی ہے اور وہ دن رات سائنسی تحقیق کر کے کسی ایجاد کو پایہٴ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔

          عمومی طور پر سائنسی ایجادات اور تحقیق کرنے کے لیے ڈاکٹریٹ (Doctor of Philosophy PhD) ایک باضابطہ ڈگری سمجھی جاتی ہے [1] ۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک انسان کے اندر سائنسی تحقیق اور ایجاد کرنے کی باقائدہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ آسان الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری (PhD) سائنسی تحقیق کرنے کے لیے ایک باضابطہ لائسنس (license) ہے ۔ ایک طالب علم کو تقریبا تین سے چار سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے اور اس دورن وہ کسی مضمون پر تحقیق کرتا ہے اور کوئی ایجاد کرتا ہے؛ چونکہ طالب علم کا یہ پہلا یا دوسرا تجربہ ہوتا ہے، لہٰذا وہ کوئی بڑی ایجاد نہیں کرپاتا؛ البتہ اپنے پی ایچ ڈی سپروائزر (PhD supervisor) کی سربراہی میں پہلے سے موجودہ ایجادات کے اندر تھوڑا سا تنوع پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب پی ایچ، ڈی کا طالبِ علم تین چار سال تک اس سارے عمل سے دو تین مرتبہ گزر جاتا ہے تو اس کو تھوڑی بہت سائنسی تحقیق اور ایجاد کرنے سے مناسبت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک پی ایچ ڈی کے طالبِ علم کو اپنی تحقیق اور ایجاد کو عالمی سطح پر منوانے کے لیے تحقیقی مقالے (research papers) لکھنے پڑتے ہیں [2] ۔ ان ہی تحقیقی مقالوں کی بنیاد پر سائنسدانوں اور پروفیسرز کی ایک کمیٹی اس کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازتی ہے۔

          اس مضمون کے اندر ہم سائنسی تحقیقات، ایجادات اور متعلقہ امور پر تفصیل سے معلومات فراہم کریں گے اور ہماری یہ کوشش ہوگی کہ انشااللہ اگر کوئی مسلمان سائنسدان اس مضمون کو پڑھ کر سائنسی تحقیقات اور ایجادات، اسلامی احکامات کی روشنی میں شروع کردے تو انشااللہ اس کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں گی۔جیسا کہ ہم سب لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ اللہ رب العزت نے ہماری کامیابی اپنے پورے کے پورے دین پر چلنے میں رکھی ہے۔چونکہ ہمارا دین، دینِ فطرت ہے، لہٰذا اس میں ہر ہر شعبے سے متعلق احکامات بھی موجود ہیں۔ اب چونکہ ہم اس مضمون میں سائنسی تحقیق اور اس سے متعلقہ امور پر بات کر رہے ہیں تو ہمیں اس شعبے سے متعلق اللہ تعالی کے احکامات اور حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ارشادات کو سامنے رکھنا ہو گا۔ ان احکامات کو جاننے کے لیے ہم نے حضرت مولانا مفتی محمد نعیم میمن صاحب دامت برکاتہم خلیفہ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید سے اس شعبے سے متعلق مسائل پوچھ کر اس مضمون میں شامل کیے ہیں۔ اگر سائنسدان اور پروفیسرحضرات سائنسی تحقیق کے شعبے میں ان احکامات کو سامنے رکھ کر تحقیق کریں گے تو انشااللہ، اللہ رب العزت دونوں جہانوں میں کامیاب کریں گے۔

          اب سب سے پہلے ہم سائنسی تحقیقی مقالہ (research paper) اور اس کی متعلقہ اقسام بیان کرتے ہیں؛ تاکہ قارئین کو سائنسی اصطلاحات سمجھنے میں آسانی ہو۔ سائنٹفک کمیونٹی کے اندرعمومی طور سے سب سے زیادہ اہمیت (weightage) حقِ سندِ ایجاد کو دی جاتی ہے، پھر جرنل کے مقالہ کو اور پھر کانفرنس کے تحقیقی مقالہ کو۔ ہم مثال کے طور پر یہ بات قارئین کو بتاتے چلیں کہ اگر کوئی سائنسدان کسی یونیورسٹی میں یا کسی سائنسی تحقیقاتی ادارے میں روزگار کے حصول کے لیے درخواست بھیجتا ہے تو اس کے لکھے ہوئے تحقیقی مقالہ جات کو دیکھا جاتا ہے کہ اس سائنسدان نے کتنے حقِ سندِ ایجاد رجسٹرڈ کروائے ہیں، کتنے اس نے جرنل کے تحقیقی مقالے لکھے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ حکومتی اداروں اور بین الاقوامی فنڈنگ اداروں سے پیسوں کے حصول کے لیے بھی یہ تحقیقی مقالے ہی معیار ہوتے ہیں۔ نیز محکماتی ترقی کے لیے بھی یہ تحقیقاتی مقالے دیکھے جاتے ہیں۔

ٹیبل نمبر: سائنسی تحقیقی مقالہ اور اس کی متعلقہ اقسام

سائنسی تحقیقی مقالہ

انگریزی نام

حقِ سندِ ایجاد

Patent

کتاب کا باب

Book Chapter

جرنل مقالہ

Journal Research Paper

میگزین مقالہ

Magazine Research Paper

کانفرنس مقالہ

Conference Research Paper

پوسٹر

Poster Abstract

ٹیکنیکل رپورٹ

Technical Report

 

          اب چونکہ کسی سائنسدان کی ترقی کا دارومدار کسی حد تک اس کے چھپے ہوئے تحقیقی مقالوں کی بنیاد پر ہوتا ہے، لہٰذا ہر سائنسدان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اچھی سے اچھی جگہ اور زیادہ سے زیادہ اس کے تحقیقی مقالہ جات چھپیں۔اس کی وجہ سے سائنسدانوں کے اندر ایک مقابلہ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو کہ اچھی سے اچھی ایجاد کا پیش خیمہ بنتی ہے؛ مگر اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے وہ یہ کہ بعض سائنسدان حضرات جن کو سائنسی تحقیق سے متعلق احکامات کا پتہ نہیں ہو تا، وہ اپنے قیاس پر ہی عمل کرتے ہیں اور یہ کوشش کرتے ہیں کے جائز ناجائز ہر طریقے سے ان کے تحقیقی مقالہ جات چھپ جائیں اور اس کے لیے وہ مختلف تاویلات کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ذیل میں ہم نے سائنسی تحقیق سے ایجاد تک کے مرحلے کو عمومی طور پر ایک تصویر کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہے (دیکھیے تصویر نمبر۱)۔ تصویر نمبر(۱) دیکھنے کے بعد یہ بات عیاں ہے کہ آئیڈیا سے لے کر ایجاد کے منظرِ عام ہونے تک ، ہر مرحلے پر دھوکہ دہی ہوسکتی ہے۔ اس دھوکہ دہی اور فریب سے بچنے کے لیے سائنسدانوں نے تحقیقی مقالوں کو جانچنے کا عمل وضع کیا ہے جو کو سائنسی اصطلاح میں تحقیقی مقالہ کا جانچنا (Peer Review) کہتے ہیں۔ کسی سائنسی تحقیقی مقالہ کے جانچنے کے طریقہٴ کار کو ہم نے عمومی طور پر ایک تصویر کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہے (دیکھیے تصویر نمبر۲)۔

تصویر نمبر 1: سائنسی تحقیقی اور ایجاد كا منظر عام پر آنا

ایجاد كا منظر عام پر آنا

¬

تحقیقی مقالہ كا چھپنا

¬

تحقیقی مقالہ لكھنا

¬

آئیڈیا اور اس كا جواز دینا

اب ہم حق تصنیف‏‏، حق ایجاد اور اس سے متعلقہ شرعی امور كا ذكر كرتے ہیں۔

تصویر نمبر (2):تحقیقی مقالہ كے جانچنے كا طریقہ كار [3]

3 تنقید نگاروں كی طرف سے تنقید كو مرتب كرنا

¬

تحقیقی مقالہ كم از كم 3 تنقید نگاروں كو بھیجنا

¬

ایڈیٹر كا تحقیقی مقالہ كو جانچنا

¬

مصنف كا تحقیقی مقالہ جرنل میں جمع كرنا

¯                                            

ایڈیٹر انچیف كو رائے دینا

®

تحقیقی مقالہ كو منظور كرنا

®

تحقیقی مقالہ كا چھپنا

                                       9 

تحقیقی مقالہ كو نامنظور كرنا

حقِ تصنیف اور حقِ ایجاد کی شرعی حیثیت

          وکی پیڈیا (wikipedia) میں سندِ حقِ ایجاد (patents) کی تعریف لکھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک طرح کے حقوق ہیں جو کہ ایک ملک ایک سائنسدان اور محقق کو ایک محدود وقت کے لیے دیتا ہے؛ تاکہ عوام کو اس کی ایجاد سے آگاہ کیا جائے[4] ۔ یہ ایک طرح کی فکری ملکیت (intellectual property) ہے۔ سندِ حقِ ایجاد (patents) دینے کے طریقہٴ کار اور قوانین ملک در ملک الگ الگ ہوتے ہیں۔ سندِ حقِ ایجاد (patents) میں اصل میں کسی دوسرے شخص کو بغیر اس کی اجازت کے وہ ایجاد بنانے، اس کا استعمال کرنے، اور اس کو بیچنے وغیرہ کے حق سے روکا جاتا ہے۔

          یہ بات بہت اہم ہے کہ جب سائنسدان کوئی ایجاد کرتا ہے تو وہ اپنی اس ایجاد کو تحقیقی مقالے (research paper) کے ذریعے منواسکتا ہے؛ البتہ سندِ حقِ ایجاد کے اندر بہت زیادہ تکنیکی تفصیلات ہوتی ہیں اور اس ایجاد کو بنانے کی تفصیلات بہت گہرائی میں ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے اندر زیادہ تر یہ سندِ حقِ ایجاد رجسٹرڈ کروائے جاتے ہیں۔ مثلا ایک کمپنی نے ایک سائنسدان سے ایک دوائی کی سندِ حقِ ایجاد خرید رکھا ہے تو صرف وہی کمپنی اس دوائی کو بنا سکتی ہے اور اس سے منافع حاصل کر سکتی ہے اور ا س کا کچھ حصہ سائنسدان کو بھی دے گی۔ اب ذیل میں ہم حقِ تصنیف اور سندِ حقِ ایجاد سے متعلق سوال و جواب پیش کرتے ہیں۔

          سوال :- مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی نے اپنی تصنیف جواھرالفقہ، جلد دوم، باب حقِ تصنیف اور حقِ ایجاد کی شرعی حیثیت کے اندر حقِ سندِ ایجاد کا ذکر کیا ہے [5]۔ اس میں حضرت مفتی صاحب نے لکھا ہے کہ اپنی کسی تصنیف اور ایجاد کو رجسٹرڈ کرواکر دوسروں کو اس کی اشاعت یا صنعت سے روکنا جائز نہیں! ۔ تو کیا سندِ حقِ ایجاد حاصل کرنا بھی شرعی طور پر جائز ہے؟

          جواب :- حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ عالی صاحب نے اس کی اجازت دی ہے کہ حقِ تصنیف بیچنا جائز ہے اور اس کی تفصیل فقہی مقالات، جلد اول حقوق مجردہ کی خرید و فروخت میں موجود ہے [6]۔

          سوال :- جو سائنسدان تحقیقی مقالے چھاپتے ہیں وہ مختلف پبلیشرز (publishers) کے ذریعے منظرِ عام پر آتے ہیں ۔ ٹیلی مواصلات (telecommunications) اور کمپیوٹر نیٹ ورکس (computer networks) سے متعلق جو مشہور پبلیشرز ہیں وہ (IEEE, Elsevier, Springer, Wiley, Inderscience, ACM etc) وغیرو ہیں۔ ہر سائنسدان پبلیشر کو کاپی رائٹ (copy right) دیتا ہے اور پھر وہ پبلیشر اس تحقیقی مقالے کو پیسوں کے عوض بیچتے ہیں۔ لہٰذا کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ نیز کیا تحقیقی مقالے بھی مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کے اس حکم کے ذیل میں آتے ہیں جو کہ انھوں نے جواھر الفقہ میں لکھا ہے یعنی اپنی کسی تصنیف اور ایجاد کو رجسٹرڈ کرواکر دوسروں کو اس کی اشاعت یا صنعت سے روکنا جائز نہیں؟

          جواب :-اب جائز ہے، جیسا کہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی صاحب کی تحقیق ہے [6]۔

          تحقیقی مقالوں سے متعلق شرعی احکام (Islamic Commandments related to Research Papers)

          حکومتِ پاکستان کے ذیلی ادارے اعلیٰ تعلیمی کمیشن (Higher Education Commission) نے معیار بنا رکھا ہے کہ اسسٹنٹ پروفیسر (Assistant Professor) کو ایسوسی ایٹ پروفیسر (Associate Professor) کے عہدے پر ترقی حاصل کرنے کے لیے ایک مخصوص تعداد میں تحقیقی مقالے شائع کرنے ہوں گے۔نیز عالمی سطح پر بھی اس سائنسدان اور محقق کو کافی پذیرائی ملتی ہے جو کہ زیادہ سے زیادہ تحقیقی مقالے لکھتا ہے اور اسی سائنسدان کو ریسرچ فنڈز (research funding) اور پی ایچ ڈی (PhD) کے طلبا ملتے ہیں جو کہ زیادہ سے زیادہ تحقیقی مقالے لکھتا ہے۔ لہذا ہر محقق اور سائنسدان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اعلی معیار کے تحقیقی مقالے لکھے؛ البتہ کچھ لوگ ان میں ایسے بھی شامل ہوتے ہیں جو کہ پروفیشنل (professional) طور پر تحقیق و ٹیکنالوجی (research and technology) میں اتنے مضبوط نہیں ہوتے، لہٰذا وہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے تحقیقی مقالہ شائع ہو جائے۔ اس کے لیے وہ پیسے دے کر بھی تحقیقی مقالے شائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، نیز وہ تحقیقی مقالے چھاپنے میں اپنے اثر و رسوخ کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان سب کوششوں کا بنیادی مقصد الگے گریڈ میں ترقی اور پذیرائی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اب اس تمہید کے بعد تحقیقی مقالوں سے متعلق سوال و جواب پیش کرتے ہیں۔

          سوال :- بعض مرتبہ دوستی یاری کے اندر یا دوسرے پر احسان کرنے کے لیے، کیا ایک شخص کا اپنے تحقیقی مقالے (research paper) میں نام ڈالنا درست ہے؟

          جواب :- جائز نہیں ہے۔

          سوال :- بعض پروفیسرز حضرات اور سائنسداں، تحقیقی مقالوں کے اندر ایک دوسرے کے نام ڈالتے ہیں؛ جبکہ اس سائنسداں یا پروفیسر نے اس تحقیقی مقالے کے اندر کوئی کام نہیں کیا ہوتا۔ کیا یہ شرعی طور پر جائز ہے؟

          جواب :- اگر اس ساتھی نے کام نہیں کیا تو اس کا نام ڈالنا خیانت ہو گا اور ایک قسم کا دھوکہ اور جھوٹ کا گناہ بھی لازم ہو گا۔

          سوال :- پیسے دے کر معیاری جرنلز (journals) کے اندر تحقیقی مقالہ چھپوانا جائز ہے یا نہیں؟

          جواب :- پیسے دے کر تحقیقی مقالہ شائع کرنا جائز نہیں اور یہ رقم رشوت شمار ہو گی۔

          سوال :- کیا غیر معیاری جرنلز میں چھاپنا جائز ہے؟

          جواب :- گنجائش ہے۔

          سوال :- کیا پیسے والے جرنلز میں چھاپنا جائز ہے؟

          جواب :- بغیر پیسوں کے چھپوایا جائے۔

          سوال :- کیا ہم کسی ساتھی کی مدد کرنے کی نیت سے اس کا نام تحقیقی مقالے میں ڈال سکتے ہیں؟

          جواب :- قانوناً گنجائش ہو تو ڈال سکتے ہیں یا پھر مقالہ میں اس سے کچھ کام لیا جائے؛ تاکہ جھوٹ لازم نہ آئے۔

          سوال :- کیا ہم کسی ادارے کی بااثر شخصیت کا نام، مثلا ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ (Head of Department) ، ڈین آف انجینئر نگ (Dean of Engineering) وغیرہ کا نام تعلقات بڑھانے کی خاطر تحقیقی مقالے میں ڈال سکتے ہیں؟

          جواب :- اگر قانوناً اجازت ہو تو ڈال سکتے ہیں، دھوکہ اور جھوٹ نہ ہو۔

          سوال :- کیا بیرون ملک کے کسی پروفیسر یا سائنسدان کا نام فنڈز حاصل کرنے کے لیے تحقیقی مقالے میں ڈال سکتے ہیں؟

          جواب :- اوپر کی شرط کے ساتھ۔

          سوال :- کیا ہم ایک وقت میں ایک تحقیقی مقالہ دو یا دو سے زیادہ جرنلز میں جمع کرواسکتے ہیں؛ جبکہ پبلشرز اس کی اجازت نہیں دیتے؟

          جواب :- ان کے علم میں لاکر ایسا کرلیں۔

          سوال :- کیا ایسا کرنا جائز ہے کہ چند سائنسداں مل جائیں اور ایک دوسرے کا نام تحقیقی مقالے میں ڈال دیا کریں؟

          جواب :- گنجائش ہے، اگر سب نے مل کر کام کیا ہے۔

          ان تمام تفصیلات کے بتانے کے بعد ہم دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت ہمیں پورے کے پورے دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

***

حواشی و حوالہ جات

http://en.wikipedia.org/wiki/Doctor_of_Philosophy [1]

http://en.wikipedia.org/wiki/Academic_paper#Scholarly_paper [2]

Peer review: The nuts and bolts, July 2012 [3]

http://www.senseaboutscience.org/resources.php/99/peer-review-the-nuts-and-bolts

http://en.wikipedia.org/wiki/Patent [4]

[5] مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی ، جواھر الفقہ، جلد دوم، باب حقِ تصنیف اور حقِ ایجاد کی شرعی حیثیت ۔

[6] حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ عالی ،فقہی مقالات، جلد اول حقوق مجردہ کی خرید و فروخت ۔

$ $ $

 

-------------------------------------------


No comments:

Post a Comment