اجماع کی لغوی معنىٰ
عربی کا لفظ اجماع، احسان کے وزن پر باب افعال کا مصدر ہے، لغت میں اس کے دو معنىٰ ہیں:
- کسی چیز کا پختہ ارادہ کرلینا۔ یعنی جب کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرلیتا ہے تو محاورہ میں کہا جاتا ہے "اجمع فلاں علیٰ کذا"۔ اس معنىٰ کے اعتبار سے ایک شخص کے عزم پر بھی اجماع کا اطلاق صحیح ہوگا۔ آیتِ قرآنی : فَأَجمِعوا أَمرَكُم {10:71} میں یہی معنى مراد ہے۔
- کسی چیز پر ایک سے زائد لوگوں کا اتفاق کرلینا۔ چناچہ جب قوم کسی بات پر متفق ہوجاتی ہے تو کہا جاتا ہے، "إجمع القوم على كذا"۔ اس معنىٰ کی رُو سے کسی بھی جماعت کے کسی بھی دینی آیا دنیوی امر (بات) پر اتفاق کو اجماع کہا جاتا ہے، حتیٰ کہ یہود و نصاریٰ کے اجماع کو بھی۔
[تاج العروس-الزبیدی: 5، ص: 307، کشاف اصطلاحات الفنون-التھانوی: 1، ص: 238]
اجماع کی اصطلاحی معنىٰ
اجماع کی سب سے زیادہ جامع و مانع تعریف حضرت ابن السبکی ؒ کی ہے:
” | هو إتفاق المجتهدي الأمة بعد وفاة محمد صلى الله عليه وسلم في عصر على أي أمر كان۔
ترجمہ: یہ امت (محمدیہ) کے مجتہدین کے اس اتفاق کا نام ہے جو حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں کسی بھی بات پر ہوا ہو۔ [جمع الجوامع على ہامش البنانی، 2، ص: 121]
| “ |
تعریف کی وضاحت:
«أمة» کی قید سے دوسری امتوں کا اجماع خارج ہوگیا۔ اور امت سے مراد : امتِ اجابت (جو اسلام لاچکے ہیں) ہے ، امتِ دعوت (جن کو دعوتِ اسلام دی جاۓ) نہیں ۔
«مجتہدین» کی قید سے مراد ماہر علماء مراد ہیں، جنہیں فقہاء بھی کہتے ہیں.
«بعد وفاة محمد صلى الله عليه وسلم» کی قید سے مراد اجماع کی ابتداء کے وقت کا بیان ہے ۔ جو اجماع نبی کریمﷺ کے زمانے میں ہوا ہو، اس کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ وہ تو نزول وحی کا زمانہ تھا۔ جس سے قطعی حکم نازل ہوجاتا تھا.
«في عصر» کی قید سے مراد نبوت کے زمانے کے بعد کسی بھی زمانے میں کیا ہوا اجماع قابل قبول ہوگا ، چاہے وہ صحابہ کے زمانے میں ہوا ہو یا اس کے بعد والے کسی زمانے میں۔
«على أي أمر كان» کی قید سے مراد صرف امر عام ہے. یعنی دینی امر کے ساتھ ساتھ عقلی یا دنیوی علوم و فنون میں اس علم و فن کے ماہروں کا اتفاق بھی اجماع میں شمار ہوگا.
لہٰذا مسائل فقہ میں فقہاء کا اجماع، مسائل نحو (عربی گرامر) میں نحوییں کا اجماع، مسائل اصول میں اصولیین کا اجماع اور مسائل کلام میں متکلمین کا اجماع معتبر ہوگا۔ (یعنی غیرعالم عوام یا علم کے دوسرے شعبے والوں کا اجماع معتبر نہیں۔)
حجیتِ اجماع قرآن مجید سے:
جمہور مسلمین اجماع کی حجیت کے قائل ہیں، اجماع کی حجیت کتاب وسنت سے ثابت ہے، ارشادِ باری تعالٰیٰ ہے:
(١) يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم ۖ فَإِن تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ۚ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا
ترجمہ:
اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور اولوا الاَمر کا جو تم میں سے ہوں، پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اسے لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف، اگر تم ایمان (ویقین) رکھتے ہو اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.
[سورۃ-النساء:59]
اس آیات میں ادلہ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے:
(1)اَطِيْعُوا اللّٰهَ سے مراد "قرآن" ہے،
(2)اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ سے مراد "سنّت" ہے،
(3) اُولِي الْاَمْرِ سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، ان میں اگر اختلاف و تنازع نہ ہو بلکہ اتفاق ہوجاتے تو اسے "اجماعِ فقہاء" کہتے ہیں.(یعنی اجماع_فقہاء کو بھی مانو).
(4)اور اگر ان اُولِي الْاَمْرِ(علماء و فقہاء) میں اختلاف ہو تو ہر ایک"مجتہد" کے اجتہاد و استنباط کو "قیاسِ شرعی" کہتے ہیں.
(٢) وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَاتَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا"۔
ترجمہ:
جو شخص رسول کی مخالفت کرے گا اس کے بعد کہ اس پر ہدایت واضح ہوچکی ہو اور اہلِ ایمان کے راستے کے علاوہ دوسرے راستہ کی پیروی کرے گا تو ہم اس کو اس طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھرگیا اور اسے جہنم میں داخل کریں گے۔
[سورۃ النساء:115]
آیتِ بالہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ کی مخالفت اور مؤمنین کی سبیل(راستے) کے علاوہ دوسروں کے سبیل(راستے) کی اتباع(پیچھے چلنے) پر وعید بیان فرمائی ہے اور جس چیز پر وعید بیان کی جائے وہ حرام ہوتی ہے؛ لہٰذا رسول کی مخالفت اور غیر سبیل مؤمنین کی اتباع دونوں حرام ہوں گی اور جب یہ دونوں حرام ہیں تو ان کی ضد یعنی (1)رسول اور (2)مؤمنین یعنی ایمان والوں کی جماعت کے سبیل اتباع واجب ہوگی اور مؤمنین کی سبیل اور اختیار کردہ راستہ کا نام ہی اجماع ہے؛ لہٰذا اجماع کی اتباع کا واجب ہونا ثابت ہوگیا اور جب اجماع کا اتباع واجب ہے تو اس کا حجت ہونا بھی ثابت ہوگیا۔ قاضی ابویعلیؒ (متوفی:۴۵۸ھ) اور علامہ آمدی نے اس آیت سے اجماع کی حجیت کے ثبوت پر بڑی نفیس بحث کی ہے جو لائقِ مطالعہ ہے۔
[الاحکام آمدی:۱/۲۸۷۔ اصول الفقہ ابوزہرہ:۱۶۱۔ ارشاد الفحول:۱۱۳]
اگر مسلمانوں کی جماعت (کمیونٹی) مختلف ممالک میں بکھری ہوئی ہو تو اس بکھری ہوئی جماعت کی پیروی کرنا کسی کے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بکھری ہوئی جماعت میں تو مسلمان، کافر، نیک اور بد سبھی شامل ہوں گے۔ اس وجہ سے مسلمانوں کی بکھری ہوئی کمیونٹی کی پیروی کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ جماعت کی پیروی کا اس کے سوا اور کوئی مطلب نہیں ہو سکتا کہ جس چیز کو پوری جماعت حلال یا حرام قرار دے، اس کی پیروی کی جائے۔
جو شخص مسلمانوں کی جماعت کے نقطہ نظر کے مطابق رائے رکھتا ہے اس نے جماعت کی پیروی کر لی ہے اور جو اس کے خلاف رائے رکھتا ہے تو وہ جماعت کی مخالفت کر رہا ہے۔ گروہ بندی سے ہی (دین کے احکام میں) غفلت پیدا ہوتی ہے۔ پوری مسلمان کمیونٹی میں (بحیثیت مجموعی) کتاب، سنت اور قیاس کے بارے میں غلطی نہیں پائی جائے گی۔
[کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی]
امام ابن کثیرؒ (م774ھ) نے فرمایا:
والذي عول عليه الشافعي رحمه الله في الاحتجاج على كون الإجماع حجة تحرم مخالفته، هذه الآية الكريمة، بعد التروي والفكر الطويل، وهو من أحسن الاستنباطات وأقواها۔
ترجمہ:
مزید غور وخوض اور طویل سوچ بچار کے بعد امام شافعیؒ نے اجماع کی حجیت اور اس کی مخالفت پر استدلال کے لئے جس آیت پر اعتماد کیا، وہ یہی آیت ہے، اور اس سے حجیت اجماع پر استدلال سب سے بہترین اور سب سے قوت والا استنباط ہے۔
حجیتِ اجماع احادیث سے
اجماع فقہاء و عابدین:
ترجمہ :
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا یا رسول الله ﷺ! اگر ہمیں کوئی ایسی بات (واقعہ) پیش آۓ جس کے متعلق (قرآن و سنّت میں) کوئی حکم یا ممانعت موجود نہ ہو تو میرے لئے آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ایسے معاملہ میں فقہاء و عابدین سے مشورہ کرلیا کرو اور کسی خاص شخص کی راۓ کو نافذ نہ کرو.
تشریح :
یہ حدیث دلائل اجماع میں بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے واضح ارشاد فرمایا ہے کہ جس امر میں کوئی نص موجود نہ ہو تو اس میں صرف فقہاء و مجتہدین کے قول پر عمل کرو اور (غیرفقیہ اور غیرعابد شخص کی) انفرادی راۓ پر نہ چلو. اجماع بھی فقہاء و مجتہدین (کا اتفاقی) قول ہوتا ہے، لہذا حدیث کی رو سے اجماع (فقہاء کے بعد عابدین) کا اتباع ضروری ٹھہرا.
امت بحیثیت مجموعی خطاء سے معصوم ہے۔
(2) عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْ قَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ۔
ترجمہ:
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: بےشک اللہ تعالیٰ میری امت کو یا (راوی نے) کہا کہ محمد صلى الله عليه وسلم کی اُمت کو گمراہی پر مجتمع نہیں کرے گا۔
[صحيح الترمذي»حدیث نمبر:2167، صحيح الكتب التسعة وزوائده:5646]
(3) نیز حدیث میں ہے:
"فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ، وَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ"۔
ترجمہ:
جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے اور جس چیز کو مسلمان بُرا سمجھیں وہ اللہ تعالٰیٰ کے نزدیک بھی بری ہے۔
[مسندِاحمد، حدیث نمبر 3600، فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل:541، المستدرك على الصحيحين للحاكم:4465]
(4) ایک اور موقع سے نبی ﷺ نے فرمایا:
"مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْراً فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ"
ترجمہ:
جو شخص جماعت سے بالشت برابر جدا ہوا تو اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے الگ کردی۔
[مسند أحمد:21561، سنن أبي داود:4758، مسند البزارؒ:4058]
(5) ایک جگہ ارشاد ہے:
"مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً"۔
ترجمہ:
جو جماعت سے الگ ہوجائے تواس کی موت جاہلیت کے طرز پر ہوگی۔
[مصنف عبدالرزاق، كتاب الصلاة، باب الأمراء يؤخرون الصلاة، حدیث نمبر:3779 المحقق: حبيب الرحمن الأعظمي]
[مسند أحمد:15681، الأحاديث المختارة:222-223]
ایک جگہ ارشاد ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :"لا يَجْمَعُ اللَّهُ هَذِهِ الأُمَّةَ , أَوْ قَالَ أُمَّتِي عَلَى الضَّلالَةِ أَبَدًا ، وَاتَّبَعُوا السَّوَادَ الأَعْظَمَ فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ"؛ ترجمہ:
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ: میری امت کسی گمراہی پر جمع (متفق) نہیں ہوگی، بس تم سوادِ اعظم (سب سے بڑی جماعت) کا اتباع کرو، کیونکہ جو شخص الگ راستہ اختیار کرے گا جہنم میں جا رہے گا۔ [الصحيحة:1331، حاکم:391-396، اللالکائي:154 ﴿ابن ماجہ:3950﴾ ]
یہ تمام احادیث قدرے مشترک اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ امت اجتماعی طور پر خطا سے محفوظ ہے، یعنی پوری امت خطا اور ضلالت پر اتفاق کرے ایسا نہیں ہوسکتا ہے اور جب ایسا ہو تو اجماع امت کے ماننے اور اس کے حجتِ شرعی ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے.
اجماع کی حجیت کے بارے میں امام بخاریؒ صحیح بخاری میں پورا باب نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ عَلَى اتِّفَاقِ أَهْلِ العِلْمِ، وَمَا أَجْمَعَ عَلَيْهِ الحَرَمَانِ مَكَّةُ، وَالمَدِينَةُ، وَمَا كَانَ بِهَا مِنْ مَشَاهِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمُهَاجِرِينَ، وَالأَنْصَارِ، وَمُصَلَّى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمِنْبَرِ وَالقَبْرِ‘‘۔
ترجمہ:
’’باب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علم والوں کے اتفاق کرنے کا جو ذکر فرمایا ہے اس کی ترغیب دی ہے اور مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان، اور مدینہ میں جو نبی ﷺ اور مہاجرین انصار کے متبرک مقامات ہیں اور نبی ﷺ کے نمازگاہ اور منبر اور قبر کا بیان‘‘۔
[صحیح البخاری: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، ج۹، ص۲۷۹]
امام مالکؒ نے اہلِ مدینہ کا اجماع بھی حجت قراردیا ہے۔ امام بخاریؒ کے کلام سے یہ نکلتا ہے کہ اہلِ مکہ اور اہلِ مدینہ دونوں کا اجماع بھی حجت ہے، امام بخاریؒ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اہلِ مدینہ اور اہلِ مکہ کا اجماع حجت ہے بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف کے وقت اس جانب کو ترجیح ہوگی جس پر اہل مکہ اور مدینہ اتفاق کریں‘‘۔
[فتح الباری شرح صحيح البخاری: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، قَوْلُهُ بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ،ج۱۲، ص۳۰۶]
امام مالک کیلئے مدینہ والوں کا عمل دلیلِ شرعی تھا۔
[تاریخ(امام)ابن خلدون:1/418، مقدمہ]
دلائل:
مدینہ والوں (علم وایمان میں) فضیلت:
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
يوشِكُ أن يَضربَ النَّاسُ أَكْبادَ الإبلِ يطلُبونَ العلمَ فلا يجدونَ أحدًا أعلمَ مِن عالِمِ المدينةِ.
ترجمہ:
عنقریب لوگ تلاشِ علم میں اونٹوں پر سوار ہو کر نکلیں گے،بس مدینہ کے عالم(امام مالک)سے زیادہ کسی کو علم میں نہیں پائیں گے۔
[سنن الترمذي: ابواب العلم، باب في عالم المدينة، حديث#2680]
إنَّ الإيمَانَ لِيأْرِزُ إلَى الْمَدِيْنَةِ ، كَمَا تأْرِزُ الحيةُ إلى جُحرِها.
ترجمہ:
ایمان(اسلام)سمٹ کر اس طرح مدینہ میں آۓ گا جس طرح سے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں چلا جاتا ہے۔
[صحیح البخاري:كتاب فضائل المدينة، باب الإيمان يأرز الى المدينة، حديث#1876]
لَا تَقُوْمِ السَّاعَةُ حَتّٰى تَنْفٍيَ الْمَدِيْنَةُ شِرَارَهَا كَمَا يَنْفِي الْكِيْرُ خَبَثَ الْحَدِيْدِ.
قیامت قائم نہیں ہوگی تاآنکہ مدینہ بدکار لوگوں کو دور کردے جس طرح بھٹی فولاد(لوہے) کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔
[صحیح مسلم: كتاب الحج، باب المدينة تنفي شرارها، حديث#1381]
حقیقت اجماع
اجماع اصل میں محض رائے ہے؛ جیسا کہ قیاس رائے ہے؛ البتہ اجماع وقیاس کے درمیان فرق یہ ہے کہ قیاس کے تحت جو رائے ہوتی ہے وہ انفرادی یا زیادہ سے زیادہ چند افراد کی ہوتی ہے اور "اجماع" ایک زمانے کے تمام مجتہدین کی متفقہ رائے کا نام ہے اسی اجتماعیت کی وجہ سے اس کوقیاس پر فوقیت حاصل ہے۔
[المدخل:۱۹۳۔ اصول الفقہ عبیداللہ الاسعدی:۲۱۲]
بدعتی اور فاسق مجتہد کا اجماع
اجماع میں تقویٰ اور تدین بھی ضروری ہے؛ کیونکہ ایسے شخص کی رائے اجماع میں قابلِ اعتبار نہ ہوگی جودین کا پابند نہ ہو یادین کی قطعی اور اصولی باتوں کی کوئی پرواہ نہ کرتا ہو اور فسق وفجور اور بدعت میں مبتلا ہو؛ کیونکہ ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں لائق مذمت ہے، امام مالکؒ، امام اوزاعیؒ، محمدبن حسنؒ وغیرہ ایسے شخص کو اہل ہویٰ وضلال کہتے ہیں اور اس کے اجماع کو معتبر نہیں مانتے۔
[الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم:۱/۲۳۷۔ المستصفی للغزالی:۱/۱۸۳]
البتہ علامہ صیرفی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ ایسے شخص کا اجماع بھی معتبر ہے؛ یہی قول امام غزالیؒ، علامہ آمدیؒ اوردیگر اصولی حضرات کا ہے؛ کیونکہ فاسق اور اہل بدعت بھی ارباب حل وعقد میں سے ہوتے ہیں اور لفظ "امت" کے مصداق میں شامل ہیں اور یہ بات بھی طے ہے کہ تقویٰ وتدین جب ہوگا تولوگوں کو اس کی رائے پر اعتماد ہوگا، جب تقویٰ کی شرط صرف رائے پر اعتماد کی خاطر ہے توظاہر ہے کہ تقویٰ اگرنہ بھی ہوتب بھی استنباط کی صلاحیت وصحت پر فی نفسہ کوئی اثر مرتب نہ ہوگا۔
[ارشاد الفحول:۱۳۱۔ المستصفی من علم الاصول الغزالی:۱/۱۸۳۔ البحرالمحیط:۴/۴۶۷۔ الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۳۲۶]
عامی کی مخالفت یا موافقت کا حکم
جمہور کے نزدیک عوام کے قول کا اجماع میں اعتبار نہ ہوگا چاہے وہ قول موافق ہو یامخالف ؛ کیونکہ اس کے لیے اجتہاد اور فکر ونظر کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے اور عامی میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے؛ لہٰذا ان کا قول انعقاد اجماع میں مسموع نہ ہوگا۔
[ارشاد الفحول:۱۳۳۔ المستصفی من علم الاصول الغزالی:۱/۱۸۳۔ الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی:۱/۱۵۱]
اجماع میں اکثریت واقلیت کی بحث
اجماع کے انعقاد کے لیے پوری امت کے مجتہدین کا متفق الرائے ہونا ضروری ہے، محض اکثریت کی رائے کواجماع کے لیے جمہور کافی نہیں سمجھتے؛ لیکن ابوبکررازیؒ، ابوالحسن خیاطؒ معتزلی اور ابنِ جریر طبریؒ کا خیال ہے کہ محض ایک دو آدمی مخالفت کریں تواجماع کے انعقاد پر اس سے کوئی اثرمرتب نہیں ہوگا، بعض حضرات کی رائے ہے کہ موافقین کے مقابلہ میں اگرچہ مخالفین کی تعداد کم ہو ؛لیکن حدتواتر تک پہنچی ہوئی ہو تواجماع منعقد نہیں ہوگا؛ اگرتواتر تک نہیں پہنچی ہو تواجماع منعقد ہوجائے گا۔
[فواع الرحموت:۲/۳۲۲۔ المستصفی الغزالی:۱/۱۷۴]
اقلیت واکثریت کی اس بحث میں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مخالفت اگراخلاص واجتہاد کی بناء پر ہوتو وہ اجماع کے انعقاد وعدمِ انعقاد میں ملحوظ ہوگی؛ ورنہ اگراخلاص واجتہاد کے بجائے حب جاہ یاکوئی دوسرا جذبہ مخالفت کے پیچھے کارفرما ہوتو ایسی مخالفت کا بالکل اعتبار نہ ہوگا؛ یہی وجہ ہے کہ خلیفہ اوّل کے انتخاب کے موقعہ پر حضرت سعد بن عبادہؓ نے مخالفت کی تھی؛ لیکن وہ معتبر نہیں مانی گئی اورحضرت ابوبکرصدیقؓ کی خلافت بالاجماع منعقد ہوئی۔
[اصول الفقہ الاسلامی:۱/۵۲۱۔ فقہی خدمات وتقاضے:۱۸۵]
کیا اجماع کسی خطہ کے ساتھ مخصوص ہے
چونکہ "لَاتَجْتَمِعُ أُمَّتِیْ" میں جو لفظ امت ہے اس کا عموم پوری امت کو شامل ہے اور اجماع کا دائرہ پوری امت کو محیط ہے، اس لیے نہ تومحض اہلِ مدینہ کا اجماع کافی ہے اور وہ نہ صرف اہلِ حرمین کا اور نہ تنہا اہلِ بصرہ وکوفہ کا اور نہ صرف اہلِ بیت کا۔
[المستصفیٰ للغزالی:۱/۱۵۷]
ڈاکٹر وہبہ زحیلی نے یہ لکھا ہے کہ کسی مخصوص خطہ کااجماع معتبر نہ ہوگا؛ کیونکہ یہ پوری امت کا اجماع نہیں ہے اجماع وہی معتبر ہے جوپوری امت کا ہو،علامہ قرافیؒ اور ابن حاجبؒ نے بھی یہی لکھا ہے کہ اجماع کسی بلدہ وخطہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔
[فواتح الرحوت:۲/۲۲۲۔ المستصفی للغزالی:۱/۱۸۷]
اجماع کے اعتبار کے لیے کیا مجتہدین کی موت ضروری ہے
چونکہ زندگی میں انسان کی رائے بدلتی رہتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ اجماع کے بعد کسی مجتہد کی رائے میں تبدیلی ہوجائے، جس کی وجہ سے اتفاق باقی نہ رہ سکے، اس لیے اصولی حضرات نے یہ بحث بھی کی ہے کہ کیا اس احتمال سے کہ کسی مجتہد کی رائے بدل سکتی ہے، اجماع غیرمعتبر ہوگا؟ اس سلسلہ میں اصولی حضرات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
[الاحکام آمدی:۱/۳۶۶۔ اصول الفقہ الاسلامی:۱/۵۲۷]
امام اعظم ابوحنیفہؒ، اشاعرہ، معتزلہ اور اکثرشوافع کا مسلک یہ ہے کہ اجماع کرنے والے مجتہدین کی وفات اجماع کے اعتبار کے لیے ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ جس لمحہ میں اتفاق وجود میں آتا ہے، اس لمحہ میں اجماع منعقد ہوجاتا ہے، اتفاق ہوجانے کے بعد مسئلہ نزاع سے خارج ہوجاتا ہے اور سب کے لیے لازم ہوجاتا ہے؛ اس لیے بعد میں رائے کی تبدیلی کا کوئی اثر اجماع کے انعقاد پر نہیں پڑےگا؛ یہاں تک کہ اجماع کے متصلاً بعد اگرکوئی شخص اللہ تعالیٰ کی قدرت ورحمت سے مجتہد بن جائے تواس کی بھی رائے کا اجماع کے لیے اعتبار نہیں ہوگا اور یہی موقف صحیح معلوم ہوتا ہے؛ کیونکہ جن نصوص سے اجماع کا حجت ہونا ثابت ہوتا ہے ان میں اطلاق ہے، مجتہدین کی وفات کی قید نہیں ہے، اس لیے ملامحب اللہ بہاریؒ نے بجا لکھا ہے: "الانقراض لامدخل لہ فی الاصابۃ ضرورۃ"۔ ترجمہ:وفات کا اجماع کی حجت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
امام غزالی رحمہ اللہ(م505ھ) کی عبارت اس موقع پر کافی وضاحت سے روشنی ڈالتی ہے، فرماتے ہیں:
"الْحُجَّةَ فِي اتِّفَاقِهِمْ لَا فِي مَوْتِهِمْ وَقَدْ حَصَلَ قَبْلَ الْمَوْتِ"۔
ترجمہ:
اجماع تو ان کے اتفاق سے حجت بن جاتا ہے، موت سے اس کا کیا سروکار ہے۔
[المستصفى-الغزالي: صفحہ152، نفائس الاصول فی شرح المحصول:۶/۲۷۸۶۔]
اجماع کی بنیاد
اجماع کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد کسی نہ کسی اصل شرعی پر ہو؛ کیونکہ اجماع اور قیاس خود کوئی مستقل دلیل نہیں ہیں، اجماع کے لیے ضروری ہے کہ اس کی اصل کتاب وسنت یا پھر قیاس میں موجود ہو ، اجماع کی اصل کی ضرورت اس لیے ہے کہ اہل اجماع بنفسِ نفیس احکام کو بیان نہیں کرسکتے؛ کیونکہ انشاء شریعت کا حق صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ کو حاصل ہے؛ یہی وجہ ہے کہ جن مسائل پر صحابہ کرامؓ نے اجماع کیا ہے ان سب میں وہ کسی نہ کسی اصل پر بحث کرتے ہوئے انہی پر اپنی آراء کی بنیاد رکھتے اور اس طرح اجماع کا انعقاد ہوجاتا ہے، میراث جدہ کے بارے میں صحابہ کرامؓ نے حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی خبر پر اعتماد کیا اور جمع بین المحارم کی حرمت کے سلسلہ میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت پر اعتماد کیا، اسی طرح حقیقی بھائیوں کی عدم موجودگی میں علاتی بھائیوں کا وراثت میں اعتبار کیا گیا ، اس مسئلہ میں صحابہ کرامؓ نے حضور ﷺ کی اس تعبیر پر اعتماد کیا جس میں یہ بیان کیا گیا ہے:
"وَدخولھم فِی عموم الاخوۃ"۔
اور جمہور علماء کرام کا کتاب وسنت کو اجماع کی اصل قرار دینے پر اتفاق ہے، جیسا کہ سطورِ بالا میں اس کی وضاحت ہوچکی ہے، ان میں اجماع کی اساس سنت ہے۔
[اصول الفقہ اسعدی:۲۱۵۔ اصول الفقہ ابوزہرہ:۱۶۵۔ البحرالمحیط:۴/۴۵۰۔ الکوکب المنیر:۲/۲۲۸]
فقہاء کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ قیاس واجتہاد بھی اجماع کی اصل بن سکتے ہیں یانہیں؟ اس سلسلے میں تین اقوال ملتے ہیں ؛لیکن دلیل کے اعتبار سے وزنی وہ بات معلوم ہوتی ہے جوعلامہ آمدیؒ نے بیان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ اجتہاد وقیاس کو بھی اجماع کی اصل قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کی کئی مثالیں صحابہ کرامؓ کی زندگی سے ملتی ہیں، مثلاً صحابہ کرامؓ کا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت پر اتفاق کرنا یہ محض اجتہاد اور رائے کی وجہ سےتھا؛ حتی کہ بعض صحابہ کرام نے یہ الفاظ تک کہے: "رضیہ رسول اللہ لدیننا افلا نرضاہ لدنیانا"۔ ترجمہ:اور بعض صحابہ کرامؓ نے یہ جملہ کہا "ان تولوھا ابابکر تجدوہ قویا فی امراللہ ضعیفاً فی بدنہ"۔
[الاحکام آمدی:۱/۲۸۰]
اسی طرح مانعینِ زکاۃ سے قتال کرنے پر ان حضرات کا اجماع ہوا وہ بھی قیاس ورائے کی بناء پر تھا، خنزیر کی چربی کی حرمت پر اجماع اس کے گوشت پر قیاس کے ذریعہ کیا گیا تھا، حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں شراب پینے والے کی حد اسی (۸۰) کوڑے بالاجماع مقرر کی گئی یہ بھی اجتہاد کی روشنی میں تھا؛ چنانچہ حضرت علیؓ نے کہا تھا کہ اس پر حدقذف جاری کرنی چاہیے؛ کیونکہ شرب خمر کے بعد عام طور پر تہمت زنی کی باتیں سرزد ہوتی ہیں، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا کہ اس پر حد جاری کرنی چاہیے اور اقلِ حد اسی کوڑے ہیں، ان کے علاوہ جنایت کا تاوان قریبی رشتہ داروں کا نفقہ اور ائمہ وقضاۃ کی عدالت کے متعلق جواجماع دورِ صحابہ کرامؓ میں کیا گیا یہ سب بطریق اجتہاد وقیاس تھا؛ لہٰذا اجتہاد اور قیاس کو بنیاد بناکر جو اجماع کیا جاتا ہے وہ بھی شرعاً قابلِ حجت ہے اور اس کی اتباع ضروری ہے۔
[الاحکام آمدی:۱/۲۸۰۔ اصول الفقہ اسعدی:۱۶۶۔ نفائس الاصول:۶/۲۸۷۴۔ حیات ابن تیمیہؒ:۶۸۵]
اجماع کی قسمیں:
اجماع کی دو صورتیں ہیں "اجماع صریحی اور اجماع سکوتی" اجماعِ صریحی یہ ہے کہ سب کے سب مجتہدین اپنی رائے کا صراحۃ اظہار کرکے اتفاق کریں اور اجماع سکوتی یہ ہے کہ ایک مجتہد اپنی رائے کا اظہار کرے اور بقیہ حضرات انکار نہ کریں ؛بلکہ خاموش رہیں، اجماع صریحی بالاتفاق معتبر ہے؛ لیکن سکوتی معتبر ہے یانہیں اس سلسلہ میں اصولی حضرات کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؛ لیکن اس بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ اجماعِ سکوتی نہ توہرصورت میں معتبر ہے نہ ہرحالت میں قابلِ رد ؛بلکہ رضا کی علامت کی شکل میں: "السکوت فی معرض البیان بیان"۔ کے اصول کے مطابق معتبر ہونا چاہیے اور اگررضا کی علامت نہ ہو یاانکار کی صراحت ہوتوقابل رد ہونا چاہیے۔
[ارشاد الفحول:۱۲۷۔:۱۸۹۔ حیات امام احمد بن حنبلؒ:۳۷۳۔ اصول الفقہ اسعدی:۲۱۵]
اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم
اجماعِ صحابہ بلااختلاف حجت ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ"۔
ترجمہ:
تم لوگ اچھی جماعت ہو کہ وہ جماعت لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہے۔
[سورۃ آل عمران:۱۱۰]
ایک جگہ اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ"۔
ترجمہ:
اور ہم نے تم کوایسی ہی ایک جماعت بنادی ہے جو (ہرپہلو سے) اعتدال پر ہے؛ تاکہ تم (مخالف) لوگوں کے مقابلہ میں گواہ ہو۔
[سورۃ البقرۃ:۱۴۳]
اِن آیات کے اولین مخاطب صحابہ کرامؓ ہیں اور "خیرامت" اور "امت وسط" کا اجماع شرعاً معتبر ہونا ہی چاہیے؛ نیزبہت سی احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کی تعریف کی ہے مثلاً ایک حدیث میں فرمایا:
"۔۔۔۔۔۔وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي۔۔۔۔۔"۔
ترجمہ:
۔۔۔۔۔اور میرے صحابہ میری امت کے نگہداشت ہیں۔۔۔۔۔۔
[صحیح مسلم، بَاب بَيَانِ أَنَّ بَقَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَانٌ لِأَصْحَابِهِ وَبَقَاءَ أَصْحَابِهِ أَمَانٌ لِلْأُمَّةِ ،حدیث نمبر:4596(2531))]
ایک حدیث میں ہے:
"أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمْ اقْتَدَيْتُمْ اهْتَدَيْتُمْ"۔
ترجمہ:
میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کی اقتداء کروگے راہ یاب ہوجاؤ گے۔
[شرح السنة للبربهاري: ص56، الشريعة للآجري:1166، الإبانة الكبرى لابن بطة:702، آداب الصحبة لأبي عبد الرحمن السلمي:192، تفسير الثعلبي:1183، جامع بيان العلم وفضله:1760، جامع الأصول:6369]
[منهاج السنة النبوية:7/142،فصل البرهان الثالث عشر " إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ " والجواب عليه]
ان کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جوصحابہ کرامؓ کے صدق اور حق پر ہونے کو ظاہر کرتی ہیں؛ پس آنحضورﷺ کا حضراتِ صحابہ کرام کے عادل اور صادق ہونے کی شہادت دینا اس بات کی بین دلیل ہے کہ ان حضرات کا اجماع معتبر ہوگا۔
اہلِ مدینہ کا اجماع
جمہور کے نزدیک صرف اہلِ مدینہ کا اجماع حجت نہیں ہے؛ البتہ امام مالکؒ سے منقول ہے کہ صرف اہلِ مدینہ کا اجماع معتبر ہے امام مالک رحمہ اللہ کی دلیل یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کے بارے میں مدنی آقا ﷺ نے فرمایا:
«الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي الْخَبَثَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ»۔
ترجمہ:
مدینہ طیبہ لوہار کی بھٹی کی طرح ہے، مدینہ اپنے خبث کو اس طرح دور کردیتا ہے، جس طرح لوہار کی بھٹی لوہے کے زنگ اور میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔
[مصنف ابن أبي شيبة:32423، مسند أحمد:15132]
اور خالص جوہر کو نکھار دیتی ہے۔
[صحيح البخاري:1883، صحيح مسلم:1383، سنن الترمذي:3920، سنن النسائي:4185]
لہٰذا خطاء بھی ایک قسم کا خبث ہے؛ پس جب مدینہ اور اہلِ مدینہ سے خبث منتفی ہے توان سے خطاء بھی منتفی ہوگی اور جب اہلِ مدینہ سے خطاء منتفی ہے توان کا قول صواب اور ان کی متابعت واجب ہوگی؛ لہٰذا اہلِ مدینہ کسی دینی امر پراتفاق کریں گے تووہ سب کے لیے حجت ہوگا اور ان کا اجماع اور اتفاق معتبر ہوگا؛ نیز مدینہ طیبہ دارالھجرت ہے صحابہ کرامؓ کا سب سے بڑا مرکزِ علم ہے، مدفن نبیﷺ ہے ،رسول اکرمﷺ کے احوال سے سب سے زیادہ اہلِ مدینہ واقف ہیں؛ پس جب مدینہ طیبہ اس قدر خصوصیات پر مشتمل ہے توحق اہلِ مدینہ کے اجماع سے باہر نہ ہوگا اور ان کے اجماع سے متجاوز نہ ہوگا۔
[المستصفی للغزالی:۱/۱۸۷۔ حیات امام مالک:۳۵۷]
- دلائل کا تنقیدی جائزہ
مگر واقعہ یہ ہے مذکورہ باتیں مدینہ اور اہلِ مدینہ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں؛لیکن نہ تووہ مدینہ کے علاوہ دوسرے مقامات کی فضیلت کی نفی نہیں کرتی ہیں اور نہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اجماع صرف اہلِ مدینہ کے ساتھ خاص ہے؛ کیونکہ مکۃ المکرمۃ بھی بہت سے فضائل پر مشتمل ہے، مثلاً بیت الحرام، رکنِ یمانی، مقامِ ابراہیم، زمزم، حجرِاسود، صفاومروہ اور دوسرے مناسکِ حج نیزرسول اللہﷺکا مولد ہے؛ مگریہ سب باتیں اس پر دلالت نہیں کرتی ہیں کہ اجماع صرف اہلِ مکہ کے ساتھ خاص ہے ،وجہ اس کی یہ ہے کہ کسی جگہ کے لوگوں کے اجماع کے معتبر ہونے میں اس جگہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ علم واجتہاد کا اعتبار ہوتا ہے اور علم واجتہاد میں مکہ، مدینہ اور شرق وغرب سب برابر ہیں؛ پس صحیح قول کے مطابق اجماع معتبر ہونے میں صرف علم واجتہاد کا اعتبار ہوگا ،مدنی یاغیرمدنی کا اعتبار نہ ہوگا۔
[البحرالمحیط:۴/۴۸۳۔ الاحکام لابن حزم:۴/۳۰۳۔ ارشادالفحول:۱۲۴۔ الاحکام آمدی:۱/۳۴۹۔ اصول احمدبن حنبل:۳۵۰]
اہلِ بیت کا اجماع
جمہور کے نزدیک اہلِ بیت کا انفرادی اجماع بھی قابلِ حجت نہیں ہے؛ لیکن روافض میں سے فرقہ "زیدیہ" اور "امامیہ"اس بات کا قائل ہے کہ حضورﷺ کے صرف اقرباء کا اجماع معتبر ہے اور وہ حضرات کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور عقل تینوں سے استدلال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا"۔
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ کویہ منظور ہے کہ اے گھروالو! تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تم کو (ہرطرح ظاہراً وباطناً) پاک صاف رکھے۔
[سورۃ الاحزاب:۳۳]
آیت بالا سے وہ اس طرح استدلال کرتے ہیں کہ کلمہ حصر (اِنَّمَا) کے ذریعہ اہلِ بیت سے رجس کی نفی فرمائی گئی ہے اور رجس سے مراد خطاء ہے اب مطلب یہ ہوگا کہ خطاء صرف اہلِ بیت سے منتفی ہے اور جس سے خطاء منتفی ہوتی ہے وہ معصوم عن الخطاء ہوتا ہے؛ لہٰذا اہلِ بیت معصوم عن الخطاء ہوں گے اور معصوم عن الخطاء کا قول صواب اور درست ہوتا ہے اور جوقول صواب ہو وہ قابلِ حجت ہوتا ہے؛ لہٰذا ان کا قول حجت ہوگا؛ نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
"إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَاإِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي"۔
ترجمہ:
میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑوں گا جب تک تم ان دونوں کو تھامے رکھو گے گمراہ نہ ہوگے، (1) کتاب اللہ (2)اور میرے اہلِ بیت۔
[سنن الترمذي: كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حدیث نمبر:3786]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ضلالت سے معصوم ہونا کتاب اللہ اور عترتِ رسول اللہﷺ میں منحصر ہے؛ لہٰذا ان کے علاوہ کوئی اور چیز میں ہدایت نہ ہوگی اور جب ایسا ہے تو ثابت ہوگیا کہ اہلِ بیت کا اتفاق واجماع حجت ہے ۔ اور ان کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اہلِ بیت شرف ونسب کے لحاظ سے دوسروں پرفوقیت رکھتے ہیں اور اسباب تنزیل اور رسول اللہﷺ کے اقول وافعال سے یہ حضرات زیادہ واقف ہیں؛ پس اس کرامت وشرافت اور خصوصیت کی وجہ سے اہلِ بیت اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کا اجماع معتبر ہو۔
- دلائل کا تنقیدی جائزہ
لیکن ان دلائل پر اگرغور کیا جائے توواقعہ یہ ہے کہ ان کا مدعی ثابت ہونا محل تامل ہے؛ جہاں تک آیت سے استدلال کی بات ہے تواس کی بنیاد اس پر ہے کہ آیت میں رجس سے مراد خطاء ہے؛ حالانکہ آیت میں رجس سے مراد خطا نہیں ہے؛ بلکہ رجس سے تہمت مراد ہے اور اس سے باری تعالیٰ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ازواجِ مطہرات سے ہم تہمت دور کرنا چاہتے ہیں اور جہاں تک حدیث کی بات ہے تووہ خبرِواحد ہے اور خود روافض کے نزدیک اخبار احاد اس لائق نہیں ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے؛ پس جب اخبار احاد ان کے یہاں عمل کے لائق نہیں ہیں توان سے ان کا استدلال کرنا کیسے صحیح ہوگا؟ اور ان کی دلیل عقلی کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ اجماع میں شرف نسب کا کوئی دخل نہیں ہے، اس میں توعلم واجتہاد کی صلاحیت کا اعتبار ہوتا ہے اور یہ باتیں اہلِ سنت کے علاوہ میں بھی ہوسکتی ہیں اور رہا رسول اکرمﷺ کے ساتھ مخالطت کا معاملہ تو یہ بات اہلِ بیت کے علاوہ دوسرے لوگوں میں بھی پائی جاتی تھی جوسفراور حضر میں آپﷺ کے ساتھ رہتے تھے؛ لہٰذا اس بنیاد پر بھی صرف اہلِ بیت کا قول حجت نہ ہوگا؛ بلکہ اہلِ بیت کی طرح دوسرے لوگوں کا قول اور اجماع بھی حجت ہوگا اگرصرف اہلِ بیت کا قول حجت ہوتا جیسا کہ روافض کہتے ہیں توجنگ "صفین" کے موقع پر حضرت علیؓ اپنے مخالفین پرنکیرفرماتے اور یہ کہتے کہ صرف میرا قول حجت ہے اور میں معصوم ہوں؛ حالانکہ حضرت علیؓ نے یہ نہیں فرمایا اور نہ مخالفین اپنی مخالفت سے باز آئے، الحاصل یہ قول بھی درست نہیں ہے۔
[المسودۃ فی الفقہ:۳۷۰۔ الاحکام آمدی:۱/۳۵۷۔ ارشاد الفحول:۱۲۴۔ الاحکام للآمدی:۱/۳۴۹۔ اصول احمد بن حنبلؒ:۳۵۰]
کن چیزوں میں اجماع کا اعتبار ہے؟
اجماع کا تعلق خالص دینی اور شرعی امور سے ہے الفاظ کے لغوی معنی کے سلسلے میں اجماع کا اعتبار نہیں، عقلی اور دنیوی امور وتدابیر میں بھی اجماع کا اعتبار نہیں؛ کیونکہ ایک مکلف کے افعال سے ان چیزوں کا کوئی تعلق نہیں۔
[اصول الفقہ للخضری:۲۸۱۔ فواتح الرحموت:۲/۲۴۶]
اجماع کا حکم
اجماع کا حکم یہ ہے کہ اگر کوئی اجماع قطعی کا انکار کرے تو وہ کافر ہوجائت گا، بعض اصولیین نے یہ تفریق کی ہے کہ اگر ضروریاتِ دین پر اجماع ہوا ہو اور وہ عوام وخواص کے درمیان متعارف ہو تو ان کا منکر کافر ہوگا؛ لیکن جو اجماع اس قبیل سے نہ ہو تو اس کے منکر کو کافر قرار نہیں دیا جائے گا، جیسا کہ بعض مسائل وراثت پر اجماع ہوا ہے اور فخر الاسلام بزدویؒ کا کہنا ہے کہ صحابہؓ کا جس مسئلہ پر اجماع ہوا ہو اس کا کوئی انکار کرے جیسے:- مانعینِ زکاۃ سے قتال وغیرہ تو اس کو کافر شمار کریں گے اور صحابہ کرامؓ کے بعد کے لوگوں کا اجماع کا کوئی منکر ہو تو وہ گمراہ اور ضال ہوگا۔
[الموسوعۃ الفقہیۃ:۲/۴۹۔ اصول البزدوی:۲۴۵۔ البحرالمحیط:۴/۵۲۴]
علامہ ابن تیمیہؒ اور اجماع
علامہ ابنِ تیمیہؒ کے نزدیک حجت ہونے کے اعتبار سے کتاب وسنت کے بعد اجماع کا درجہ ہے؛ چنانچہ فرماتے ہیں:فقہاء، صوفیہ اور عامۃ المسلمین کے نزدیک بالاتفاق اجماع حجت ہے؛ البتہ اہلِ بدعت مثلاً معتزلہ اور شیعہ وغیرہ اس کے مخالف ہیں۔
[الرسائل والمسائل:۵/۲۱۔ حیات ابنِ تیمیہؒ:۶۸۷]
اسی لیے علامہ ابنِ تیمیہؒ نے کئی مسائل میں اجماع کا حوالہ دیا ہے، مثلاً وہ ایک جگہ لکھتے ہیں حضرت امیرمعاویہ بن ابی سفیانؓ کا ایمان نقل متواتر سے ثابت ہے اور اہلِ علم کا اس پر اجماع ہے۔
[فتاویٰ ابن تیمیہ:۴/۴۳۳]
ایک جگہ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کی پاک بازی کے متعلق فرماتے ہیں یہ توکتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ اور سلف کے اجماع سے ثابت ہے۔
[فتاویٰ ابن تیمیہ:۴/۴۳۳]
ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں :کئی اہل علم نے اس بات پر علماء کا اجماع ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ، حضرت علیؓ سے اعلم تھے۔
[فتاویٰ:۴/۳۸۹]
مذکورہ عبارتوں کے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علامہ ابنِ تیمیہؒ دوسرے تمام اہلِ سنت والجماعت کی طرح اپنی تالیفات میں "اجماع" سے استدلال کرتے ہیں اور حق بات یہ ہے کہ جس امر پر صحابہ کرامؓ خصوصاً خلفاءِ راشدین اجماع کرلیں ان کا انکار کرنا زندقہ اور نفاق ہی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے۔
غیرمقلدین (عرف اہل حدیث) اور اجماع
غیرمقلدین کی ایک گمراہی یہ ہے کہ وہ اجماع کے منکر ہیں، ان کے نزدیک اسلامی عقیدہ کے اصول صرف کتاب وسنت ہیں؛ حتی کہ وہ اجماع صحابہ کے بھی منکر ہیں ان کا یہ عقیدہ بھی شیعوں کے ساتھ توافق اور مسلکی موافقت کا مظہر ہے ،شیعہ،معتزلہ اورغیرمقلدین کے علاوہ کوئی فرقہ ہمارے علم میں ایسا نہیں کہ جس نے اجماع کا انکار کیا ہو وہ اجماع کہ جس کے اصول دین ہونے پر حضراتِ صحابہؓ خلفاء راشدین اور پوری امت کا اتفاق ہے، علامہ ابنِ تیمیہؒ روافض پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"اجماع روافض کے نزدیک حجت نہیں ہے"۔
[منہاج السنۃ:۳/۲۶۶]
بہرِحال انکار اجماع روافض کا مذہب ہے اہلِ سنت کا مذہب نہیں؛ غیرمقلدین بھی اس مسئلہ میں شیعوں کے ساتھ ہیں، ان کے عقیدوں کی تفصیل نواب نورالحسن صاحب نے "عرف الجاوی "میں کی ہے؛ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:"دین اسلام کی اصل صرف دو ہیں:کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور اجماع کوئی چیز نہیں ہے اور فرماتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اجماع کی اس ہیئت کو دلوں سے نکال دیں جو دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے جواجماع کا دعویٰ کرتا ہے تواس کا یہ دعویٰ بہت بڑا ہے؛ کیونکہ وہ اس کوثابت نہیں کرسکتا۔
[عرف الجاری:۳]
ایک اور جگہ رقمطراز ہیں: "حق بات یہ ہے کہ اجماع ممنوع ہے"۔
[عرف الجاری:۳]
یہ توتھاغیرمقلدین کا عقیدہ ؛لیکن اس بارے میں سلفیوں کا عقیدہ غیرمقلدین کے بالکل برخلاف ہے، سلفی حضرات اجماع کوایک دلیلِ شرعی سمجھتے ہیں۔
[الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی،الاصل الثالث،فی الاجماع،۱/۷۳]
علامہ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کی کتابیں پڑھنے والوں پر یہ بات مخفی نہیں ہے۔
اجماع کی چند مثالیں:
مختلف مواقع پر مختلف احکام وطریقوں میں (1)پہلے عمل کو منسوخ کرنے والی ناسخ حدیث (2)یا جائز کے مقابلے میں افضل حکم وطریقہ کے اختلاف میں کسی ایک روایت کو ترجیح دیکر اسی پر جمع ومتفق ہونا، جیسے:
(۱)رسول اللہ ﷺ نے صرف دو رات تراویح باجماعت پڑھیں، اس کے بعد یہ فرماکر تراویح پڑھنی چھوڑ دی کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں یہ تمہارے اوپر فرض نہ کردی جائے۔
(صحيح البخاري:924+1129، صحيح مسلم:761)
پھر صحابہ کرامؓ کے درمیان عملاً وقولاً اختلاف رہا؛ پھر حضرت عمرؓ کے زمانہ میں پورے رمضان مواظبت (ہمیشگی) کے ساتھ بیس رکعات باجماعت تراویح پر صحابہ کرامؓ کا اجماع منعقد ہوگیا۔
(الطبقات الكبرى-ابن سعد: نمبر160، الحاوي الكبير-الماوردي:جلد2/ صفحہ291، الاستذكار-ابن عبد البر:2/ 68، الحوادث والبدع-الطرطوشي: ص56، المغني لابن قدامة - ت التركي-:2/ 604، الشرح الكبير على متن المقنع ط المنار:1/ 748، مختصر خلافيات البيهقي:2/ 277، سير أعلام النبلاء-الذهبي:1/ 400-401 بحوالہ سنن أبو داود:1429)جامع المسانيد والسنن-ابن كثير: حدیث نمبر 31
[نصب الراية-الزيلعي:۲/۱۵۳]
(۲)ایک مجلس کی تین طلاق سے ایک طلاق واقع ہو یا تین ہی واقع ہوں، یہ مسئلہ بھی صحابہ کرامؓ میں مختلف فیہ رہا؛ پھر حضرت عمرؓ کے دور میں اس پر صحابہؓ کا اجماع ہوگیا اور اس کے بعد سے جمہور اس پر متفق چلے آرہے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی واقع ہوتی ہیں۔
[شرح معاني الآثار-الطحاوي:4475، بحوالہ صحيح مسلم:1472]
(۳)رسول اللہﷺ سے نمازِ جنازہ کی تکبیرات پانچ بھی منقول ہیں اور سات، نو اور چار بھی؛ اسی لیے صحابہ کرامؓ کے مابین اس میں اختلاف رہا ہے، اس کے بعد حضرت عمرؓ نے صحابہ کو جمع کرکے فرمایا کہ تم صحابہ کی جماعت ہوکر اختلاف کر رہے ہو تو تمہارے بعد آنے والوں میں کتنا شدید اختلاف ہوگا؛ پس غور وخوص کرکے چار تکبیرات پر صحابہ کرامؓ کا اجماع منعقد ہوگیا۔
[المصنف - ابن أبي شيبة:11787(11445)، شرح معاني الآثار-الطحاوي: حدیث نمبر 2860، اختلاف العلماء للطحاوي - اختصار الجصاص:1/ 389(مسئلہ نمبر 365)، المحلى بالآثار-ابن حزم:3/ 347، التمهيد - ابن عبد البر:4/ 295+303، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع-الكاساني:1/ 312، المغني لابن قدامة - ت التركي:3 / 499]
(۴)اگر کوئی شخص متعدد بار چوری کرے اور ایک مرتبہ میں اس کا دایاں ہاتھ اور دوسری مرتبہ میں اس کا بایاں پیرکٹ چکا ہو اور پھرتیسری اور چوتھی بار چوری کرے تواس کے ہاتھ وپیر کاٹ کر سزادیجائے یاقطع کے علاوہ دیگر کوئی سزا دی جائے اس سلسلہ میں اختلاف رہا ہے، اس کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے ایک صورت متعین فرمادی کہ تیسری چوتھی مرتبہ میں قطع نہ ہوگا اور صحابہ کرامؓ نے اس پر سکوت اختیار کیا؛ پس یہی توارث ہوگیا، اس سے بھی معلوم ہوا کہ اس مسئلہ میں بھی صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے۔
[الخراج لأبي يوسف: صفحہ190، الأم للشافعي:6/ 142، الحاوي الكبير-الماوردي:13/ 325، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع-الكاساني:7/ 78، المجموع شرح المهذب-النووي:20/ 10 3، نصب الراية-الزيلعي:3/ 375، الدراية في تخريج أحاديث الهداية-ابن حجر العسقلاني:2/ 112]
[بحوالہ المصنف - ابن أبي شيبة:30149(28273)]
(موطأ مالك رواية محمد بن الحسن الشيباني:689، المصنف - عبد الرزاق:19970(18770)، سنن الدارقطني:3494(۳/۸۰)، السنن الكبرى - البيهقي:16536)
(۵)جماع بدون الانزال کے موجب غسل ہونے میں ابتداً صحابہ کرامؓ میں اختلاف تھا؛ چنانچہ انصار وجوبِ غسل کے قائل نہیں تھے اور مہاجرین وجوبِ غسل کے قائل تھے؛ لیکن جب حضرت عمرؓ نے انصار ومہاجرین دونوں کو جمع کرکے پوری صورت حال ان کے سامنے رکھی اور ان کو وجوبِ غسل پر آمادہ کیا تو حضرت عمرؓ کے اس فیصلہ پر سب متفق ہوگئے اور کسی نے کوئی نکیر نہیں کی۔
[المصنف - ابن أبي شيبة - ت الشثري:952(947)، مسند أحمد:21096، معجم الصحابة للبغوي:2/ 328، الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف-ابن المنذر:575، أحكام القرآن للطحاوي:1527، شرح معاني الآثار-الطحاوي:335+337+338+348، شرح مشكل الآثار-الطحاوي:3965، المعجم الكبير للطبراني:4536]
[التمهيد - ابن عبد البر - ت بشار:15/ 35، ]
(۶)امام طحاویؒ اور امام بیہقیؒ نے علقمہ بن ابی وقاصؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے اپنی ایک زمین جو بصرہ میں تھی حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ کے ہاتھ فروخت کی، کسی نے حضرت طلحہؓ سے کہا کہ آپ کو اس معاملہ میں خسارہ ہوگیا ہے، یہ سن کر حضرت طلحہؓ نے فرمایا: مجھے اختیار ہے؛ کیونکہ میں نے بغیر دیکھے زمین خریدی ہے، حضرت عثمانؓ سے کہا گیا کہ آپ کو خسارہ ہوگیا؛ انھوں نے فرمایا کہ مجھے اختیار ہے؛ کیونکہ میں اپنی زمین بغیر دیکھے فروخت کی ہے، دونوں حضرات نے جبیر بن مطعمؓ کو حکم(جج) مقرر کیا، حضرت جبیر بن مطعمؓ نے فیصلہ کیا کہ طلحہ کو خیار رؤیت حاصل ہے، عثمان کو حاصل نہیں ہے، یہ واقعہ صحابہ کرامؓ کی موجودگی میں پیش آیا؛ مگر کسی نے نکیر نہیں کی ، گویا اس پر صحابہ کرامؓ کا اجماع منعقد ہوگیا کہ خیار رؤیت مشتری کو حاصل ہوگا بائع کو حاصل نہ ہوگا۔
[شرح مشكل الآثار-الطحاوي:7325، السنن الكبرى - البيهقي:10424، التجريد للقدوري:10432، التمهيد - ابن عبد البر - ت بشار:8/ 125، المهذب في فقه الإمام الشافعي - الشيرازي:2 /15، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع-الكاساني: 5/ 292،الهداية في شرح بداية المبتدي-المرغيناني:3 /34، المجموع شرح المهذب-النووي:9 /288]
کیا اجماع کی اطلاع ممکن ہے؟
ابو مسلم اصفہانیؒ کا موقف یہ ہے کہ دورِ صحابہ کے بعد کے اجماع کی اطلاع متعذرہے؛ کیونکہ مجتہدین کسی ایک شہر میں نہیں رہے اور نہ ہیں؛ بلکہ شرق سے غرب تک پھیلے ہوئے ہیں، ان سب کی آراء کوحاصل کرنا عقلاً ممکن ہونے کے باوجود واقعاتی طور پر مشکل ہے، امام احمد، علامہ ابن تیمیہ اور آپ کے شاگرد رشید حافظ ابن القیم اور ظاہریہ کا بھی یہی خیال ہے امام احمدؒ نے تویہاں تک فرمایا ہے کہ:
"مَنْ ادَّعَى الْإِجْمَاعَ فَهُوَ كَاذِبٌ، لَعَلَّ النَّاسَ اخْتَلَفُوا، وَلَمْ يَنْتَهِ إلَيْهِ، فَيَقُولُ: لَا نَعْلَمُ النَّاسَ اخْتَلَفُوا"۔
ترجمہ:
جو کوئی اجماع کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے ، ممکن ہے کہ لوگوں کا اس میں اختلاف ہو اور اس کی اطلاع اس کو نہ ملی ہو، ایسی حالت میں یہ کہنا چاہیے ہمیں لوگوں کے اختلاف کا علم نہیں ہے۔
[المحلى بالآثار-ابن حزم:11/ 36، المسودة في أصول الفقه-ابن تيمية: ص315، المستدرك على مجموع الفتاوى-ابن تيمية:2/ 114، الصلاة - ابن القيم:1 /171، إعلام الموقعين-ابن القيم:1/ 24، 2/ 175، زاد المعاد-ابن القيم: 5/ 317، ارشاد الفحول:۱۱۱]
لیکن اکثر علماء کرام کا مسلک یہ ہے کہ اجماع کی اطلاع ممکن ہے، ہر بلد وخطہ کا والی اپنے یہاں کے مجتہدین کو جمع کرکے ان کی رائے لے یا مراسلات کے ذریعہ ان سے رابطہ قائم کرکے ان کی آراء حاصل کرلے، اس طرح اجماع کی اطلاع مل سکتی ہے، ماضی میں جو اجماع ہوئے کتابوں کے ذریعہ ان کی اطلاع تو ہے ہی، اس زمانہ میں ذرائع ابلاغ کی بہتات ہے اور اس کی سہولتیں ہیں ، ان سے فائدہ اٹھایا جائے تو حال میں ہونے والے اجماع کی بھی اطلاع بآسانی مل سکتی ہے۔
[فقہ اسلامی — خدمات وتقاضے: ص190۔ البحر المحيط في أصول الفقه-بدر الدين الزركشي:4/ 428، الإحكام في أصول الأحكام - الآمدي:1/ 284، المستصفى-الغزالي:1/ 157(۱/۱۷۵)۔ حیات امام ابن القیم:۲۹۲]
========================================
وہ مسائل جو قرآن وحدیث میں صراحتاً ثابت نہیں»
امام ابن المنذرؒ (م319ھ) اپنی کتاب الاجماع میں 765 مسائل جمع کئے ہیں، ان میں:
مسئلہ#1
أجمع أهل العلم على أن الصلاة لا تجزئ بطهارة إذا وجد المرء إليها السبيل.
ترجمہ:
اہلِ علم کا اجماع ہے کہ نماز بغیر وضو درست نہیں، اگر پالے کوئی (شخص) اس(وضو) تک پہنچنے کا راستہ(قدرت)۔
[الإجماع لابن المنذر: صفحہ 33، کتاب الوضو (الناشر:دار المسلم)]
تشریح:
یعنی اگر وضو پر قدرت نہ ہو، جیسے:-
(1)پانی تلاش کرنے کے باوجود نہ پاسکے
(2)اگر پانی پالے لیکن اسے خرید نہ سکے
(3) یا زخمی ہو اور پانی کے استعمال سے نقصان پہنچتا ہو
(4) یا انتہائی سردی میں ٹھنڈے پانی کے استعمال سے بیمار پڑنے کا اندیشہ ہو۔
(5)یا کمزور وبوڑھا شخص ہو اور ٹھنڈے پانی کے استعمال سے مرنے کا اندیشہ ہو۔
(6)اور اگر گرم پانی پالینے کی قدرت بھی ہو لیکن نماز کا وقت ختم ہورہا ہو اور نماز کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو وغیرہ وغیرہ
۔۔۔تو ایسے حالات میں بغیر وضو (صرف مٹی سے تیمم کرکے) نماز پڑھنا درست ہے۔
نوٹ:
(1)دینی اعمال کے متعلق یہ الفاظ نہ اللہ پاک نے فرمائے ہیں، اور نہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمائے ہیں۔
(2)یہ فقہی اصول وکُلّیہ ہے جو پورے قرآن اور تمام صحیح احادیث سے نکال کر، اپنے الفاظ میں، جامع اور عام فہم کرکے، فُقہاء(یعنی دین کی فِقہ-گہری سمجھ رکھنے والے والے ماہرین علماء) نے غیرواضح مسائل کا حل پیش کیا ہے، جس پر فقہاء کا اتفاق رہا۔
(3)کیونکہ دنیا کے دیگر کاموں اور شعبوں کی حفاظت کیلئے، تمام مسلمانوں کو دین میں فقہ یعنی گہری سمجھ حاصل کرنے کیلئے درکار مکمل توجہ، وقت، اور عمر دینا فرض نہیں بنایا۔
القرآن:
اور مسلمانوں کے لیے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ (ہمیشہ) سب کے سب (جہاد کے لیے) نکل کھڑے ہوں۔ لہذا ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک گروہ (جہاد کے لیے) نکلا کرے، تاکہ (جو لوگ جہاد میں نہ گئے ہوں وہ دین میں فِقہ حاصل کرنے کے لیے محنت کریں، اور جب ان کی قوم کے لوگ (جو جہاد میں گئے ہیں) ان کے پاس واپس آئیں تو یہ ان کو مُتنبہ(خبردار) کریں، تاکہ وہ (غلطیوں/نافرمانیوں سے) بچ کر رہیں۔
[سورۃ التوبہ:122]
مسئلہ#2
وأجمعوا على أن خروج الغائط من الدبر، وخروج البول من الذكر، وكذلك المرأة، وخروج المني، وخروج الريح من الدبر، وزوال العقل بأي وجه زال العقل: أحداث ينقض كل واحد منها الطهارة، ويوجب الوضوء۔
ترجمہ:
اور اجماع ہے اس پر کہ پیشاب، پاخانہ، منی، ہوا "خارج" ہونے نیز کسی بھی طرح عقل کے زائل ہونے(جیسے:-بیہوش،جنون،نیند وغیرہ) سے طہارت زائل ہوجاتی ہے، اور وضو واجب ہوتا ہے۔
[الإجماع لابن المنذر» كتاب الوضوء، جلد 1 صفحہ 33، ت فؤاد ط المسلم]
امت مسلمہ کے 765 اجماعی مسائل
فقہ اسلامی کی نادر کتابیں جو عصر حاضر کی تحقیقی کاوشوں کے نتیجہ میں سامنے آئیں انھی میں امام ابن المنذر نیشاپوری کی کتاب ’الاجماع‘ بھی ہے۔ اجماع کا معنی یہ ہے کہ مسلمان علما شریعت کے کسی حکم پر متفق ہو جائیں اور جب امت کا اجماع کسی شرعی حکم پر ثابت ہو جائے تو کسی کے لیے جائز نہیں کہ ان کے اجماع سے خروج کرے۔ کیونکہ امت مسلمہ کسی ضلالت کے اوپر جمع نہیں ہو سکتی۔ فقہ اسلامی کی لا متناہی بساط سے صرف اجماعی مسائل کا انتخاب بڑی دیدہ ریزی اور ہمت کا کام ہے۔ امام ابن المنذر نے امت کے اس تقاضہ کو پورا کیا اور اس موضوع پر سب سے پہلی کتاب قلمبند کی۔ زیر نظر کتاب ’امت مسلمہ کے اجماعی مسائل‘ ابن المنذر کی اسی کتاب کا اردو ترجمہ ہے جسے ہم اردو قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ترجمہ میں یکسانیت اور مسائل کے مفہوم کا خاص لحاظ رکھا گیا۔ تحقیقی حوالہ جات سے گریز کرتے ہوئے صرف مفید حواشی کا انتخاب کیا گیا۔ کتاب کو اردو میں منتقل کرنے کی ذمہ داری ابو القاسم عبدالعظیم نے بخوبی نبھائی ہے۔
مزيد تفصيلات کیلئے اس کتاب "اجماع اور اس کی شرعی حیثیت" کو مفت ڈاون لوڈ کرنے کیلئے یہ لنک پیشِ خدمت ہے۔
ma sha allah
ReplyDelete