Thursday, 10 June 2021

متواتر عمل سند(حدیث) کا محتاج نہیں، ورنہ۔۔۔

دین کے مسائل تین طرح کی اخبار (احادیث) سے ثابت ہوتے ہیں:

(1) متواترات:
کسی محسوس واقعہ (مَثَلاً : کسی قول یا فعل وغیرہ) کو خود سننے اور دیکھنے والوں کی ابتداء سے آخر (اب) تک ہر زمانہ میں ایسی بڑی تعداد اس واقعہ کی خبر دے کہ ان سب کا جھوٹ یا غلطی پر متفق ہونا عادتاً محال سمجھا جاۓ.
[الاحکام فی اصول الاحکام: جلد1 / صفحہ 151؛ التوضیح والتلویح: جلد2 / صفحہ 2-3؛ تسہیل الوصول: صفحہ140؛ فتح الملھم : 1/ 5-6]
یعنی عقل یہ باور نہ کرے کہ ان سب نے سازش کرکے جھوٹ بولا ہوگا یا ان سب کو مغالطہ لگ گیا ہوگا۔





ترجمہ:
متواترات، علم یقینی(بدیہی) کا فائدہ دیتی ہیں۔
وَالمُتَواتِرُ لا يُبْحَثُ عَن رِجَالِهِ، بَل يَجِبُ العَمَلُ بِهِ مِن غَيْرِ بَحْثٍ في رواته
ترجمہ:
اور متواتر(frequent, continual) کے رجال(transmitters) کے متعلق بحث نہیں کی جاتی (کہ وہ سچے-قابلِ اعتماد تھے یا نہیں، گواہوں کی کثرتِ تعداد کی وجہ سے) بلکہ بغیربحث کے اس(متواتر خبر) پر عمل(یقین) کرنا واجب(لازم) ہے۔



جیسے:-
()قبلہ اول بیت المقدس کا منسوخ ہونا اور قبلہ آخر بیت الله کا ناسخ بننا۔
()پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ  پر نازل کردہ الله کی کتاب کے الفاظ اور پیغمبرانہ تشریح(احادیث) کو متعدد سینوں میں یاد رکھنے، دوسروں تک پہنچانے اور کتابوں میں محفوظ کرنے والے (پاک-نیک-مضبوط یادداشت والے گواہ) ہر زمانہ میں، اتنی تعداد میں رہے اور بڑھتے ہی جارے ہیں، کہ جن کا کسی جھوٹی بات پر متفق ہونا عقلاً اور عادتاً محال ہے۔



دنیاوی باتوں میں:-
(1)انسان کے وجود سے پہلے سورج چاند کے موجود ہونے پر یقین
(2)کون شخص کس کا باپ/دادا ہے، اس پر یقین
(3)چاند پر انسان کے قدم رکھنے پر یقین
(4)آنکھوں سے نہ دکھنے والی چیزوں پر یقین:-
انتہائی چھوٹی مخلوق جیسے:-جراثیم، بیکٹیریا، وائرس، فنگس وغیرہگ،
انتہائی ہلکی مخلوق جیسے:- تمام گئسز، سانس، روح، خوشبو وغیرہ
انتہائی بڑی مخلوق جیسے:- بڑے بڑے سیارے، ستارے، گیلیکسیز وغیرہ







(2) مشہورات:
اصولِ حدیث میں مشہورات ان اخبار و احادیث کو کہتے ہیں جنہیں دو سے زائد راوی(Transmitters) روایت(Transmit) کریں لیکن وہ تواتر کی حد تک نہ پہنچیں.

اور اصول فقہ میں:- اول (صحابہ کے) زمانہ میں تو وہ واقعہ خبرِ واحد ہو، پھر وہ پھیل جاۓ کہ دوسرے یا بعد کے زمانوں میں اتنی قوم اس کو روایت کرے کہ جن کا جھوٹ پر اتفاق کا وہم نہ ہو۔
[نور الأنوار: صفحہ 180]

اگر وہ (خبر/واقعہ) اول زمانہ میں بھی اس طرح (متعدد لوگوں سے روایت ہوتی چلی آتی) ہو تو وہ متواتر ہوگی، اور اگر وہ دوسرے زمانہ میں بھی اس طرح نہ ہو تو وہ (اخبار/واقعات) آحاد سے ہیں۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ اصولیین(Jurists-Scholars of Fiqh) کے نزدیک مشہورات آحاد(یعنی وہ خبریں جنھیں ہر دور کے "ایک" راوی نے بیان کیا ہو) اور متواتر (کے درمیان) کی قسم ہے، اور محدثین(Scholars of Hadith) کے نزدیک وہ آحاد کی قسم ہے جو تواتر کی حد تک نہ پہنچے.
[رد المختار: جلد 1 / صفحہ 446]





(3) آحاد:
یہ خبرِ واحد کی جمع ہے، اور جس خبر یا واقعہ کو (ہر دور میں چند) ایک شخص روایت(Transmit) کرے، اسے لغتاً خبرِ واحد کہتے ہیں، اور اصطلاحاً جس میں متواتر کی تمام شرائط نہ ہوں۔ پھر متواتر(خبر) چونکہ علمِ یقینی کا فائدہ دیتی ہے اس لئے وہ مردود نہیں صرف مقبول ہوتی ہیں، لیکن آحاد(واحد کی خبریں) مقبول بھی ہوتی ہیں اور مردود بھی، اس لئے کہ ان کا واجب العمل ہونا ان کے راویوں کا حالات پر مبنی ہے۔
[شرح نخبة الفكر]
اس لئے وہ اخبار آحاد اپنی سند اور ان میں موجود راویوں کے حالات پر مقبول و مردود اوصاف کی تحقیق سے واجب العمل یا متروک العمل سمجھی جائیں گی.



موضوع اور من گھڑت روایات اور انکارِ حدیث کا فتنہ
متواتر عمل سند کا محتاج نہیں، ورنہ۔۔۔

علمِ حدیث، تاریخِ حدیث، موضوعِ حدیث، ضرورتِ حدیث

متونِ حدیث، اقسامِ حدیث، قواعد الحدیث

فن اسماء الرجال

http://raahedaleel.blogspot.com/2012/09/funasmaa-ul-rijaal.html

رجال الحدیث

غریب الحدیث

ضعیف حدیث پر عمل کے شرائط

روحِ شریعت : بزرگوں پر اعتماد

اصولِ محدثین : ضعیف حدیث "تلقی بالقبول" کے سبب صحیح کا حکم رکھتی ہے.
اصولِ جرح و تعدیل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
[مندرجہ مضمون الزامی جواب ہے، یعنی معترض کا اعتراض رفع کرنے کی بجائے ویسا ہی اعتراض اُس پر وارد کر دینا جیسا کہ اس نے کیا ہے.]

متواتر عمل سند کا محتاج نہیں، ورنہ۔۔۔۔

اہلِ اصول کے ہاں دین کے مسائل تین طرح کے ثابت ہوتے ہیں:
(1) متواترات، (2) مشہوات، (3) آحاد۔
اور اہلِ اصول متواترات کی مثال میں قرآن اور نماز کا ذکر بطور مثال کرتے ہیں۔ جس طرح قرآن پاک تلاوۃً متواتر ہے، اسی طرح نماز عملاً متواتر ہے۔ بلکہ حقیقت میں نماز قرآن پاک سے بھی زیادہ متواتر ہے، کیوں کہ قرآن پاک روزانہ ایک دفعہ بھی ختم کرنا فرض نہیں مگر نماز ہر مکلف مسلمان پر روزانہ پانچ مرتبہ پڑھنی فرض ہے۔ دوسری بات یہ یاد رکھیں کہ متواترات سند کی محتاج نہیں ہوتیں۔ اسی طرح مسلمان قرآن پاک کی ہر ہر آیت کی سند تلاش نہیں کرتے۔ اسی طرح نماز کی روزمرہ پیش آنے والے مسائل اور طریقہ عملاً متواتر ہیں۔ وہ بھی سند کا محتاج نہیں ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ رافضیوں کے ایک گروہ نے متواتر قرآن کا انکار کر دیا ہے اور دوسرے گروہ نے متواتر نماز کی صحت کا انکار کر دیا ہے۔ اور دوسرے گروہ سے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اگر متواترات کے لیے بھی سند ضروری ہے اس کے بغیر ثبوت نہیں ہو سکتا تو۔۔۔۔

(1) قرآن پاک کی ہر ہر آیت کریمہ کو سند سے ثابت کردیں، بصورتِ دیگر قرآن کے ثبوت کا انکار کریں جیسے متواتر نماز کا انکار کیا ہے۔

(2) قرآن پاک کی آیات اور سورتوں کی ترتیب کو فرداً فرداً سند سے ثابت کرو، ورنہ بڑے بھائیوں کی طرح اس متواتر ترتیب کا انکار کردیں۔

(3) قرآن و حدیث کے ترجمہ کے لیے لغت کی ضرورت ہے۔ اس متواتر لغت سے قرآن کے ہر ہر لفظ کا معنیٰ واضح لغت تک سند سے ثابت کریں، ورنہ لغت اور اس کے معنیٰ کا اسی طرح برملا انکار کریں جس طرح متواتر نماز کا انکار کیا ہے؟؟؟

(4) متواتر قرآن کے بارے میں کوئی یہ کہے کہ میں اس کو اس لیے نہیں مانتا کہ اس کی ہر آیت کے ثبوت اور ترتیب کی سند مجھے نہیں ملی تو اسے آپ کافر کہتے ہیں یا نہیں۔ تو جو شخص متواتر نماز کے ثبوت کا انکار کرے اس کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟؟؟

(5) جو قرآن پاک تلاوۃً متواتر ہے اس میں ایک آیت کریمہ یوں ہے:
وَٱلَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ۔ وَٱلنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّىٰ۔ وَمَا خَلَقَ ٱلذَّكَرَ وَٱلْأُنثَىٰٓ۔ (سورۃ اللیل:1-3)
اور بخاری شریف میں ﴿وَٱلذَّكَرَ وَٱلْأُنثَىٰٓ﴾ ہے۔ امام بخاری سند کے ساتھ بخاری میں پانچ جگہ لائے ہیں: (حدیث نمبر: 3742، 3743، 3761، 4943، 4944، 6178)۔ کوئی شخص قرآن پاک میں یہ آیت اس طرح چھاپ دے، اور یہ کہے کہ یہ سند سے ثابت ہے اور وہ بے سند اور بے ثبوت ہے، اس کی بھی سند بخاری میں دکھاؤ ورنہ میں اس کو ہرگز نہیں مانتا، تو کیا یہ درست ہے؟ اور کیا آپ نے کوئی ایسا قرآن شائع کیا ہے؟؟؟





(6) جو قرآن پاک تلاوۃً متواتر ہے اس میں ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ ٱلْأَقْرَبِينَ﴾(سورۃ الشعراء:214) ہے، بخاری نے صحیح سند کے ساتھ یہ بھی روایت کیا ہے: وَرَهْطَكَ ‌مِنْهُمُ ‌المُخْلَصِينَ[صحيح البخاري:4971] اب کوئی شخص اس طرح قرآن شائع کرے اور اسی طرح تلاوت کریں اور یہ شور مچائے کہ لوگوں نے بے سند اور بے ثبوت آیتوں کو قرآن میں شامل کیا ہوا ہے اور اس صحیح سند والی آیتوں کو قرآن سے نکال رکھا ہے۔ اسی طرح وہ تواتر قران کو غلط کہیں جس طرح آپ متوازن نماز کو کہتے ہیں تو کیا یہ درست ہے؟؟؟

(7) متواتر قرآن میں ایک آیت یوں ہے: ﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ﴾ [سورۃ المسد:1] ، مگر بخاری شریف[حدیث#4971] میں صحیح سند کے ساتھ (مزید) اس کے ساتھ (وَقَدْ ‌تَبَّ) بھی ہے۔ اب کوئی شخص متواتر قرآن میں درج آیت کو بے سند کے کر ماننے سے اسی طرح انکار کردے جس طرح آپ نے متواتر نماز کو پسند کے ماننے سے انکار کر دیا ہے اور بخاری کی سند والی آیت کو قرآن میں شامل کرے تو کیا یہ جائز ہے؟ اگر یہ جائز نہیں تو آپ کا متواتر نماز کے خلاف بخاری کی کوئی حدیث دیکھ کر متواتر نماز کو غلط کہنا کس طرح جائز ہے؟؟؟

(8) مسلمانوں میں عملاً یہ متواتر ہے کہ مرد عورتیں سب بیٹھ کر پیشاب کرتے ہیں، جبکہ بخاری[224، 225، 226، 2471] پر چار جگہ، اور مسلم[273]، ابوداؤد[23]، ترمذی[13]، نسائی[18، 26، 27، 28]، ابن ماجہ[305، 306] ، مسند احمد[18150، 23246، 23345، 23414] پر آنحضرت ﷺ کا کھڑے ہو کر پیشاب فرمانا ثابت ہے۔ اس لئے اہل حدیث کے مرد عورتیں ہمیشہ کھڑے ہو کر پیشاب کریں، بلکہ اگر کوئی اہل حدیث مرد یا عورت بیٹھ کر پیشاب کر رہے ہوں، ان کو اسی حالت میں کھڑا کر دیا کریں کہ ساری امت تو بخاری مسلم کی متفق علیہ حدیث کے خلاف بیٹھ کر پیشاب کرنے کی وجہ سے دوزخی بن گئی ہے، تم کیوں دوزخی بن رہے ہو؟ اور بار بار مطالبہ کریں کہ بخاری و مسلم کی اس حدیث کا منسوخ ہونا صرف بخاری مسلم سے دکھاؤ؟ ورنہ تم سب کے سب گمراہ ہو۔ تو کیا یہ جائز طریقہ ہے؟

(9) ہمارے ملک میں عموماً وضو کے وقت مسواک کرتے ہیں، اگرچہ اہل حدیث کے ہاں مسواک کا عمل "عمل النادر کالمعدوم" ہے، مگر ایک آدمی کہتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر میرے لیے اپنی امت کو مشقت میں ڈالنے والی بات نہ ہوتی تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔
[بخاری:887، مسلم:252، ابوداؤد:47، ترمذی:22+23، نسائی:7، ابن ماجہ:287، احمد:607+967+7339+7853+9179 +9549+10617+17032+17048+21674 +23486]
اس لیے مسواک بوقتِ اقامت کیا کرو۔ جو بوقتِ وضو مسواک کرتے ہیں وہ صحاح ستہ کی اس حدیث کی مخالفت کی وجہ سے گنہگار ہیں۔

(10) ایک حدیث میں ہے:
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ «إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ، ‌يَشُوصُ فَاهُ ‌بِالسِّوَاكِ» رسول اللہ ﷺ جب بھی رات کو اٹھتے تو اپنے منہ کو مسواک سے صاف فرماتے۔
[بخاري:245، مسلم:255، ابوداؤد:55]
آج کل اکثر اہل حدیث اس حدیث پر عمل نہیں کر رہے۔ کیا یہ اونچی آمین کی حدیث سے زیادہ صحیح حدیث نہیں ہے؟ اس پر عمل کرانے کے لیے رسالے، جلسے، کتابیں، چیلینج بازیاں، سب کچھ ہو رہا ہے۔ اس پر نہ خود عمل نہ دوسروں کو چیلنج۔ وجہ فرق کیا ہے؟

(11) ایک حدیث میں ہے: كَانَ يَبْدَأُ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا ‌دَخَلَ بَيْتَهُ؟ قَالَتْ: «‌بِالسِّوَاكِ» (مختصراً) آپ ﷺ جب بھی گھر تشریف لاتے تو ہمیشہ پہلے مسواک کرتے۔ [مسلم:253، ابن ماجه:290ابوداؤد:51، نسائی:8] کیا اہل حدیثوں کے ساتھ ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا، کسی مرد یا عورت کو اس حدیث پر عمل کرتے نہیں دیکھا، حالانکہ یہ حدیث سینے پر ہاتھ باندھنے والی ضعیف حدیث کے مقابلے میں بہت قوی ہے، اُس ضعیف حدیث پر عمل کے لئے پورے ملک میں شور ہے اور اِس صحیح حدیث پر عمل نہ کوشش؟

(12) ایک حدیث میں ہے: «‌إِذَا ‌اسْتَأْذَنَكُمْ نِسَاؤُكُمْ بِاللَّيْلِ إِلَى المَسْجِدِ، فَأْذَنُوا لَهُنَّ» رات کو جس وقت بھی تمہاری عورتیں مسجد میں جانے کی اجازت مانگیں، ان کو دے دیا کرو۔  [بخاري:865، مسلم:442، احمد:5211+6304+6444] اس صحیح حدیث پر غیر مقلد مردوں اور عورتوں نے عمل چھوڑ رکھا ہے۔ کیا یہ حدیث حضرت جابر کی آٹھ تراویح والی ضعیف ترین روایت سے بھی گئی گزری ہے؟ اُس پر عمل کے لیے چیلنج بازیاں اور اِس پر عمل بلکل ترک، وجہِ فرق کیا ہے؟

(13) امت کا متواتر عمل یہ ہے کہ جوتا اتار کر نماز پڑھتے ہیں، بخاری ومسلم میں جوتے اتار کر نماز پڑھنے کی کوئی حدیث نہیں، بلکہ اس کے خلاف جوتے پہن کر نماز پڑھنے کی حدیث ہے: يُصَلِّي ‌فِي ‌نَعْلَيْهِ ۔۔۔۔۔ یعنی آپ ﷺ ہمیشہ ہمیشہ جھوتے پہن کر نماز پڑھتے تھے۔
[بخاری:386+5850، مسلم:554، نسائی:727، ابن ماجه:1037، ترمذي:400، احمد:16364+16353]
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جوتے اتار کر نماز پڑھنا بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث کے خلاف ہے۔ یہ نماز نبی پاک ﷺ والی نماز ہرگز نہیں۔ تو کیا واقعتاً امت کے متواتر عمل کو ان احادیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط کہا جائے گا؟ یاد رہے کہ جوتے پہن کر نماز پڑھنے والی حدیث کو محدثین متواتر کہتے ہیں۔
[شرح معاني الآثار،الطحاوي:2911، مجموعة رسائل علمية(الوادعي):ص7، سلسلة الأحاديث الصحيحة:6/1066(2943)]
جس سے نماز میں متواتر حدیث کے مخالف ہو، کیا وہ نماز صحیح ہوگی؟ ایک طرف حدیث ہے جو سنداً متواتر ہے، دوسری طرف حدیث کے مخالف عامل ہیں۔

(14) بخاری [516] اور مسلم [543] پر بے: (كَانَ ‌يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ ‌أُمَامَةَ) کہ آپ ﷺ ہمیشہ بچی کو اٹھا کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ جبکہ اس فعل کے ترک یا نسخ کی کوئی حدیث بخاری مسلم میں نہیں، جب کہ امت کی متواتر نماز میں یہ عمل نہیں، اب کیا یہ متواتر نماز بخاری مسلم کی متفق علیہ حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے باطل ہے؟ اگر کوئی شخص اس متفق علیہ حدیث پر عمل کرنے کی کوشش کرے کہ جب کوئی اہل حدیث مرد یا عورت نماز کی نیت باندھے ان پر ایک بچی سوار کر دے تو کیا اس صورت کو زندہ کرنے پر فی بچہ لادنے پر سو شہید کا ثواب ملے گا یا نہیں، تو کیوں؟؟؟

(15) بخاری[353+354+355+356+360+370] اور مسلم[517+518+519] کی متفق علیہ حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی، اور محدثین نے اس حدیث کو متواتر قرار دیتے ہیں، مگر امت کا متواتر عمل اس متواتر حدیث کے خلاف تین کپڑوں میں نماز ادا کرنے کا ہے۔ اب اگر کوئی اہل حدیث امت کی متواتر نماز کو غلط قرار دے اور متواتر حدیث پر عمل کروانے کے لیے اہل حدیث مرد عورتوں کے کپڑے نماز میں اتارنا شروع کردے، صرف ایک ایک پڑا رہنے دے تو کیا اس متواتر حدیث پر عمل کرانے کی کوشش میں اسے فی مردوعورت ہے سو سو شہید کا ثواب ملے گا یا نہیں، تو کیوں؟؟؟

(16) ایک اہلِ حدیث جس کو متفق علیہ احادیث کی مخالفت برداشت نہیں، وہ دوسرے اہل حدیثوں کو چار تکبیروں کے ساتھ ترجیع والی اذان (یعنی اذان میں شہادتین کو پست آواز سے ادا کرنا، پھر بلند آواز سے پڑھنے) سے روکتا ہے، کیونکہ بلا ترجیع اذان بخاری [605+606] مسلم [378] ترمذی [193] ابوداؤد [508] نسائی [627] ابن ماجہ[729+730] مسند احمد[22027] پر ہے، اور امت کا متواتر عمل بھی ہے، اور چار تکبیروں کے ساتھ ترجیع والی اذان نہ بخاری میں ہے نہ مسلم میں۔ باقی اہل حدیث اس پر ضد کرتے ہیں کہ ہم متفق علیہ حدیث کی مخالفت کریں گے تو ان میں سے کس کو سچا اہلحدیث سمجھیں؟

(17) اہل سنت والجماعت کا متواتر عمل یہ آرہا ہے کہ وہ نماز میں ثناء ﴿سُبْحَانَكَ ‌اللَّهُمَّ۔۔۔﴾ پڑھتے ہیں، جب کہ بخاری و مسلم میں میں﴿اللَّهُمَّ ‌بَاعِدْ ‌بَيْنِي۔۔۔﴾ کی کوئی مرفوع حدیث نہیں، وہاں ﴿﴾ ہے۔[بخاری:744، مسلم:598]
تو﴿سُبْحَانَكَ ‌اللَّهُمَّ۔۔۔﴾پڑھنے والوں کی بوجہ مخالفت متفق علیہ حدیث کے باطل ہوگی یا نہیں؟؟؟

(18) بخاری[1927]، مسلم[1106] میں ہے کہ آپ ﷺ روزہ رکھ کر ہمیشہ بیوی سے مباشرت فرماتے۔ ایک اہلحدیث کہتا ہے آپ کا وزن دگی بھر میں ایک روزہ بھی (ایسا) ثابت نہیں کہ گھر میں روزہ رکھا ہو اور بیوی سے مباشرت نہ کی ہو۔ جو شخص بھی روزہ رکھتا ہے اور بیوی سے مباشرت نہیں کرتا میاں بیوی دونوں کا روزہ خلافِ سنت ہے۔

(19) بخاری[297] مسلم[301] پر ہے کہ آنحضرت ﷺ ہمیشہ حائضہ بیوی کی گود میں ٹیک لگا کر قرآن پاک کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ اس لئے حائضہ کی گود میں ٹیک لگا کر قرآن پاک کی تلاوت کرنا تو سنت سے ثابت ہے۔ جو اہل حدیث مسجد کی چٹائی پر بیٹھ کر تلاوت کرتے ہیں، یہ بخاری مسلم کی کسی حدیث سے ثابت نہیں۔

(20) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ وضو کے بعد ہمیشہ کسی بیوی کا بوسہ لیتے، پھر نماز پڑھتے اور دوبارہ وضو نہ کرتے۔[ترمذي:86، نسائی:170، ابن ماجہ:502، احمد:25766] ایک اہلحدیث کا کہنا ہے کہ جس طرح وضو میں کلی کرنا یا ناک میں پانی ڈالنا ترک کرنے سے وضو خلاف سنت ہے، ایسے ہی وضو کے بعد بیوی کا بوسہ لینے سے بھی وضو خلاف سنت ہوتا ہے،اور خلاف سنت وضو سے نماز بھی خلاف سنت ہے۔ جبکہ امت کا متواتر عمل ہر وضو میں کلی کرنے پر تو ہے مگر ہر وضو کے بعد بوسہ لینے پر نہیں ہے۔ تو یہاں متواتر عمل کا ساتھ دیا جائے گا۔ یہ خلاف تواتر حدیث کا؟

(21) تمام امت کی متواتر نماز میں یہ ہے کہ رکوع میں ﴿سُبْحَانَ ‌رَبِّي ‌الْعَظِيمَ﴾ پڑھتے ہیں، مگر یہ تسبیح "متفق علیہ" حدیث میں نہیں بلکہ اس کے خلاف یہ ہے: (سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي)[بخاري:794، مسلم:484]
تو کیا رکوع سجدے میں مذکورہ تسبیحات پڑھنے والوں کی نمازوں کو اس لیے باطل قرار دیا جائے گا کہ یہ "متفق علیہ" حدیث کے خلاف ہیں، یا عملی تواتر کا لحاظ کر کے ان کو سنت کہا جائے گا؟

بات دور نکل گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کا جس قدر قرآن تلاوۃً متواتر ہے، اسی طرح نماز اس سے بھی زیادہ عملاً متواتر ہے۔ اس متواتر قرآن کو جس طرح سندو کے ماتحت کرنا قرآن دشمنی ہے، کیونکہ ایک تو یقینی کو ظنی(غیریقینی) کر دیا، دوسرے تواتر سے ثابت کو بیس پسند کہہ کر اس کے ثبوت کا انکار ہے۔
اس ساری بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ:
(1) اہل سنت والجماعت جو نماز پڑھتے ہیں وہ عمل قرآن پاک سے زیادہ متواتر ہے، اور غیر مقلد جو نماز پڑھتے ہیں وہ عملی تواتر کے خلاف ہے۔
(2) اہل سنت والجماعت کی نماز یقین الثبوت ہے مثلِ قرآن، اور غیر مقلدین کی نماز ظنی الثبوت ہے اور وہ ظنی بھی ایسا جو یقین سے ٹکرا رہا ہے۔
(3) اہل سنت والجماعت کی نماز کی مکمل ترکیب جس طرح روزمرہ ہر جگہ پڑھی جاتی ہے  عملی تواتر سے ثابت ہے، اور غیر مقلدین کی نماز کے روز مرہ پیش آنے والے مسائل اور مکمل ترکیب اخبار آحاد سے ظنی طور پر بھی ثابت نہیں۔یہی وجہ ہے کہ غیر مقلد علماء اپنی مکمل نماز صرف قرآن و حدیث سے ثابت کرنے سے ایسے بھاگتے ہیں ہیں ﴿‌كَأَنَّهُمْ ‌حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ 0 فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ﴾  بیچارے اردو دان حضرات کو دھوکے میں ڈالتے ہیں کہ بخاری و مسلم کا اردو ترجمہ پڑھ لو مکمل نماز کا طریقہ میں جائے گا۔
ایک پروفیسر صاحب کو اسی دھوکے میں ڈالا، میں نے اس سے مکمل نماز کے بارے میں سوالات کیے، وہ ان کی احادیث نہ نکال سکا، آخر اس نے دھوکہ دینے والے اسکالر صاحب سے کہا کہ آپ نے پندرہ سال قرآن حدیث پڑھا اور پچاس سال سے پڑھا رہے ہیں، آپ ہی قرآن کی ہر آیت کی سند اور ترتیب اور اپنی نماز کے ہر مسئلے کا ثبوت اور ترتیب بخاری مسلم سے نکال دیں۔ اب تو اسکالر صاحب ایسے خاموش ہوئے جیسے: ﴿‌صُمٌّ ‌بُكْمٌ﴾ والی آیت ان کے لیے ہی نازل ہوئی ہو اور ﴿‌فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ﴾  کا منظر بن گیا۔ آخر اسے پروفیسر نے کہا کہ تم نے 65 سال قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا اور 65 سال کے مطالعے سے اپنی "ظنی" نماز کے مکمل مسائل جو روزمرہ عمل میں ہے نہ ثابت کر سکے تو ہم لوگوں کو کس چکر میں ڈال دیا ہے کہ متواتر کو چھوڑ کر زمین نماز پڑھیں اور کامل کو چھوڑ کر ناقص کی طرف آئیں، ثابت کی بجائے غیرثابت پڑھیں۔










٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
[مندرجہ مضمون الزامی جواب ہے، یعنی معترض کا اعتراض رفع کرنے کی بجائے ویسا ہی اعتراض اُس پر وارد کر دینا جیسا کہ اس نے کیا ہے.]

غیر مقلدین سے سند کی تحقیق کے بارے میں سوالات:
یہ چند علمی سوالات ہیں، ان کے جوابات صرف قرآن پاک یا صحیح حدیث سے عنایت فرمائیں؟
(1) امام مسلم [صیح مسلم:27] پر امام ابن سیرین(م110ھ) سے نقل فرماتے ہیں:
پہلے زمانے میں کوئی حدیث بیان کرتا تو اس سے سند نہ پوچھتے۔ پھر جب فتنہ پھیلا (یعنی گمراہی شروع ہوئی اور بدعتیں روافض اور خوارج اور مرجیہ اور قدریہ کی شائع ہوئیں) تو لوگوں نے کہا: اپنی اپنی سند بیان کرو۔ پھر دیکھا جائے گا اگر روایت کرنے والے اہل سنت ہیں تو قبول کی جائے گی روایت ان کی اور جو بدعتی ہیں تو نہ قبول کریں گے روایت ان کی۔
اور امام عبداللہ بن مبارک (م181ھ) کا فرمان نقل فرماتے ہیں:
اسناد، دین میں داخل ہے اور اگر اسناد نہ ہوتی تو ہر شخص جو چاہتا کہہ ڈالتا (اور اپنی بات چلا دیتا)۔
سوال یہ ہے کہ جب پہلی صدی میں سند دین نہیں تھی تو دوسری صدی میں کس وہیں سے اسے دین قرار دیا گیا، کیا پہلی صدی کے لوگ معاذ اللہ بے دین ہی تھے؟؟؟

(2) سند کی تحقیق فرض ہے یا سنت یا واجب یا مستحب، صرف ایک صریح آیت یا صحیح صریح حدیث پیش فرمائیں، جس سے سند کے مطالب و تحقیق کا فرض ہونا ثابت ہو۔ اور یہ بھی فرمائیں کہ پہلی صدی والے مسلمان اس آیت یا حدیث کو کیوں نہیں مانتے تھے؟
ابن سیرین اور ابن مبارک نے بھی کوئی آیت یا حدیث پیش نہیں کی، محض قیاسی وجہ بیان کی ہے۔

(3) خیر القرون والوں نے اپنے قیاس سے یہ اصول بنایا کہ اہل بدعت سے حدیث نہ لی جائے، مگر بعد والوں نے خصوصا صحاح ستہ والوں نے اس اصول کو نہیں مانا، مثلاً: امام بخاریؒ مندرجہ ذیل راویوں سے حدیث لاتے ہیں:
(1) عمر بن ذر الهمداني جو مرجئہ کے سردار تھے۔
[تهذيب التهذيب: ج7/ ص444-445، الناشر: مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند]
(2) ابومعاویہ بھی خبیث مرجئہ کے رئیس تھے۔
[تهذيب التهذيب:6/ 139]
(3) عبد العزیز بن ابی رواد والی مرجئہ سے تھے۔
[تهذيب التهذيب:6/ 339]
(4) اسحاق بن سوید، حضرت علی کا سخت دشمن تھا۔
[تهذيب التهذيب:1/ 236]
(5) حریز بن عثمان، صبح و شام حضرت علی پر ستر ستر مرتبہ لعنت بھیجتا تھا اور اپنے مذہب کا داعی تھا۔
[تهذيب التهذيب:2/ 240]
(6) جریر بن عبدالحمید حضرت معاویہ کو اعلانیہ گالیاں دیتا تھا۔
[تهذيب التهذيب:2/ 77]
(7) بہز بن اسد، حضرت عثمان کا مخالف بدمذہب تھا۔
[تهذيب التهذيب:1/ 498]
(8) واحد بن یعقوب غالی شیعہ تھا، حضرت عثمان کو گالیاں دیتا تھا۔
[تهذيب التهذيب:5/ 109]
(9) عوف بن ابی جمیلہ قادری رافضی شیطان تھا۔
[تهذيب التهذيب:8/ 167]
(10) عبد الملک بن اعین، ذراہ اور حمران تینوں بھائی رافضی تھے اور ان میں بڑا خبیث کال والا عبدالملک ہی تھا۔
[تهذيب التهذيب:6/ 385-386]
یہ دس راوی بطور مثال لکھے ہیں،ورنہ بخاری مسلم میں ایسے راوی بہت ہیں۔

(4) خیرالقرون کے خلاف جس طرح امام بخاری نے بہت سے اہل بدعت کی حدیث لی ہے، خیرالقرون کا اصول تھا کہ اہل سنت سے حدیث لی جائے مگر امام بخاری نے بہت سے اہل سنت بلکہ ائمہ اہل سنت سے حدیث نہیں لی۔

(5) جب اسناد دین ہے اور تو تعلیقاتِ بخاری جن کی اسانید محدثین کو نہیں ملی یا ترمذی کے فی الباب کی بعض سندیں نہیں ملیں، اس بارے میں امام بخاری اور امام مسلم کو بے دین کہا جائے گا؟ یا بعد والے سب محدثین کو کم علم کہا جائے گا؟

(6) آجکل جو لوگ اپنی تقریر یا تحریر میں احادیث پیش کرتے ہیں وہ نہ سند بیان کرتے ہیں نا رواۃ کی توثیق(Authentication) بیان کرتے ہیں، ایسی کتاب لکھنے والے یا ایسی تقریر کرنے والے اور ان کے پڑھنے سننے والے سب بے دین ہیں یا نہیں؟؟؟

(7) تقريب التهذيب، تهذيب التهذيب، خلاصہ، طبقات الحفاظ، ميزان الاعتدال وغیرہ کتب کتبِ اسماء الرجال جن پر آج کل تنفیذِ حدیث کا مدار ہے، یہ سب بھی سند اقوال کا مجموعہ ہیں، اور اکثر جرحیں بے دلیل (بلا معقول وجہ) بھی ہیں، ان کے لکھنے یا پڑھنے والوں کے دین کے بارے میں کیا حکم ہے؟ مثلاً: آٹھویں صدی کا ایک آدمی بغیر سند کے دوسری صدی کے آدمی کا قول نقل کرتا ہے۔

(8) جب پہلی صدی کے اصول حدیث (کہ سند کا مطالبہ ضروری نہیں) دوسری صدی والوں نے نہیں مانا (کہ سند کو دین قرار دے دیا) اور دوسری صدی والے اصول حدیث کہ اہل سنت کی حدیث قبول اور اہل بدعت کی حدیث مردود ہے کو صحاح ستہ والوں نے نہیں مانا نا کہ بہت سے اہل بدعت کی احادیث لے لیں اور بہت سے امام اہلسنت کی احادیث رد کر دیں تو بعد والوں کا بنایا ہوا اصول حدیث جو آج رائج ہے اس کا ماننا کس آیت یا حدیث صحیح کی بنا پر ضروری ہے اور پہلے لوگ اس آیت وحدیث پر عمل سے کیوں محروم رہے؟؟؟

(9) ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ (اسناد دین میں سے ہے)، دوسری طرف محدثین یہ بھی فرماتے ہیں کہ صحت سند، صحت متن کو مستلزم نہیں۔ کیا یہ صحیح احادیث کے انکار کا چور دروازہ تو نہیں؟؟؟

(10) محدثین یہ بھی فرماتے ہیں کہ حدیث کی سند صحیح نہ ہو، لیکن امت میں تلقی بالقبول حاصل ہو تو وہ حدیث بھی صحیح ہے۔
[تدریب الراوی:1/ 66، التمهيد - ابن عبد البر:10/ 251، 16/ 218 ، مقدمة ابن الصلاح:80]
اب سند کی کیا حیثیت رہی؟

(11) تهذيب التهذيب میں صحاح ستہ کے رواۃ کا ذکر ہے جن کی تعداد تقریباً ساڑھے بارہ ہزار ہے، اور "میزان الاعتدال" ضعیف راویوں کے لیے مرتب کی گئی ہے جس میں تعداد تقریبا گیارہ ہزار ہے، گویا صحاح ستہ کے رواۃ کا اگر یہ حال ہے تو باقی کتب حدیث کا کیا حال ہوگا، اور سند کی تحقیق اور تنقید میں اولیت راوی کو ہی حاصل ہے؟ باقی سند کے عیوب الگ رہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

غیر مقلدین(نام نہاد اہل حدیث) سے چند سوالات

غیر مقلدین سے چند سوالات
سوال1۔ کیا قرآن پاک میں نماز پڑھنے کا طریقہ بالتفصیل موجود ہے؟
(نوٹ) بالتفصیل سے مراد شرائط، ارکان، واجبات، سنن موکدہ، مستحبات، مباحات، مکروہات اور مفسدات ہیں، ان میں ہر ایک کی تعداد، ہر ایک کی تعریف،ہر ایک کے عمد اور سہوا چھوٹ جانے کا حکم صرحة موجود ہونا ہے۔
سوال2۔کیا بخاری شریف میں نماز پڑھنے کا طریقہ بالتفصیل و بالترتیب موجود ہے؟
سوال3۔کیا مسلم شریف میں نماز پڑھنے کا طریقہ بالتفصیل و بالترتیب موجود ہے؟
سوال4۔کیاسنن نسائی میں نماز پڑھنے کا طریقہ بالتفصیل و بالترتیب موجود ہے؟
سوال5۔ کیا جامع ترمذی میں نماز پڑھنے کا طریقہ بالتفصیل و بالترتیب موجود ہے؟
سوال6۔ کیا سنن ابی داؤد میں نماز پڑھنے کا طریقہ بالتفصیل و بالترتیب موجود ہے؟
سوال7۔ کیا سنن ابن ماجہ میں نماز پڑھنے کا طریقہ بالتفصیل و بالترتیب موجود ہے؟
(نوٹ) جب صحاح ستہ میں سے کسی ایک کتاب میں بھی نماز کے مکمل مسائل بالتفصیل وبالترتیب موجود نہیں تو یہ چھ6محدثین نماز کس طرح پڑھا کرتے تھے
سوال8۔ کیا کسی محدث نے نماز کی ایسی جامع کتاب مرتب فرمائی ہے جس میں نماز کا طریقہ مکمل بالتفصیل و بالترتیب ہو، اس میں ہر ہر مسئلہ صحیح، غیر معارض سے پیش فرمایا ہو۔ اور اس کتاب کی صحت پر کوئی آیت یا حدیث صریح دلیل ہو؟
سوال9۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زیر نگرانی کوئی ایسی کتاب مرتب کروائی، جس میں نماز کا مکمل طریقہ بالتفصیل و بالترتیب درج ہو؟ اور وہ کتاب آج تک امت میں متداول ہو؟
سوال10۔ کیا خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں سے کسی خلیفہ راشد نے اپنی زیر نگرانی کوئی نماز کی ایسی جامع کتاب مرتب کروائی جس کو آج تک امت میں تلقی بالقبول کا شرف حاصل ہو؟
سوال11۔ اس امت میں سب سے پہلے کس نے نماز کو بالتفصیل و بالترتیب مرتب کروایا، جن کی مرتب نماز امت میں آج تک متداول ہے؟
(نوٹ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت میں فرائض کا حساب ہوگا، اور ان میں اگر کمی ہوگی تو نوافل سے پوری کی جائے گی،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں فرائض اور سنتوں کا بیان فرمایا ہے۔
(نماز پڑھنے سے پہلے جو باتیں ضروری ہیں، ان کو ائمہ مجتہدین شرائط نماز کہتے ہیں، ائمہ اربعہ کی فقہ دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ امت کا اجماع ہے کہ نماز کی کچھ شرائط ہیں)
سوال12۔ آپ یہ بتائیں کہ نماز کی شرائط قرآن کریم میں کتنی مذکور ہیں؟ اور کیا کیا ہیں؟
سوال13۔ آپ یہ بیان فرمادیں کہ نماز کے ارکان کون کون سے ہیں؟ اور رکن کی تعریف کیا ہے؟
سوال14۔آپ یہ بیان فرمادیں کہ نماز میں واجبات کتنے ہیں؟ نیز واجب کی تعریف بھی بیان فرمائیں؟
سوال15۔ آپ یہ بیان فرمائیں کہ نماز میں کتنی چیزیں سنت موکدہ ہیں؟ اور سنت موکدہ کی تعریف بھی بیان فرمادیں؟
سوال16۔ آپ کے نزدیک نماز میں کتنے کام مستحب ہیں اور مستحب کی تعریف بھی بیان ہو؟ (قرآن، و صریح صریح غیر معارض حدیث سے)
سوال17۔ آپ کے نزدیک نماز میں کتنے کام مباح ہیں،اور مباح کی تعریف بھی بیان فرمائیں؟ (قرآن، و صریح صریح غیر معارض حدیث سے)
سوال18۔ آپ کے نزدیک کتنی چیزوں سے نماز مکروہ ہوتی ہے، اور مکروہ کی تعریف بھی بیان فرمائیں؟ (قرآن، و صریح صریح غیر معارض حدیث سے)
سوال19۔ آپ کے نزدیک نماز میں کتنی چیزوں نماز کو فاسد کردیتی ہیں؟ باطل اور فاسد کی تعریف بھی بیان فرمائیں؟ (قرآن، و صریح صریح غیر معارض حدیث سے)
سوال20۔ آپ کے یہاں فجر کے نماز کی کتنی رکعتیں ہیں؟سنت اور فرض کا لفظ صراحة حدیث میں ہو۔
سوال21۔ آپ کی یہاں ظہر کی کتنی رکعت ہیں؟ فرض ، سنت و نفل کا لفظ صراحة حدیث میں موجود ہو۔
سوال22۔ آپ کی یہاں عصر کی کتنی رکعت ہیں؟ سنت اور فرض کی صراحت حدیث میں ہو۔
سوال23۔ آپ کے یہاں مغرب کی کتنی رکعات ہیں؟ فرض و سنت کی تفصیل صراحة حدیث میں ہو۔
سوال24۔ آپ کے یہاں عشاءکی کتنی رکعت ہیں؟ فرض، سنت و نفل کی تفصیل صراحة حدیث میں موجود ہو۔
سوال25۔ آپ کے یہاں جو مجتہدین، محدثین، اور دیگر مسلمان نماز کی شرائط، ارکان، واجبات، سنن،مکروہات و مفسدات کے قائل ہیں، وہ مسلمان ہیں یا کافر؟
سوال26۔تکبیر تحریمہ فرض ہے یا واجب یا سنت یا مستحب؟ حکم صراحة آیت یا حدیث میں مذکور ہو۔
سوال27۔ آپ کے یہاں تکبیر تحریمہ امام کے لئے بلند آواز سے کہنا سنت ہے اور مقتدی کے لئے آہستہ آواز سے۔ یہ حدیث میں دکھائیں؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


قطرات العطر
اصولِ حدیث پر حافظ الحدیث ابن حجر عسقلانی﷫ کی سب سے پہلی اور اہم تصنیف [نخبة الفکر فی مصطلح أهل الأثر] ہے جو علمی حلقوں میں مختصر نام [نخبة الفکر] سے جانی جاتی ہے اور اپنی افادیت کے پیش نظر اکثر مدارسِ دینیہ میں شاملِ نصاب ہے۔ اس مختصر رسالہ میں حافظ ابن حجرؒ نے علومِ حدیث کے تمام اہم مباحث کا احاطہ کیا ہے۔ حدیث اور اصول میں نخبۃ الفکر کو وہی مقام حاصل ہے جو علمِ لغت میں خلیل بن احمد کی کتاب العین کو۔ مختصر ہونے کے باوجود یہ اصولِ حدیث میں اہم ترین مصدر ہے کیونکہ بعد میں لکھی جانے والی کتب اس سے بے نیاز نہیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے ہی اس کتاب کی شرح [نزهة النظر فی توضیح نخبة الفکر فی مصطلح أهل الأثر] کے نام سے لکھی جسے متن کی طرح قبولِ عام حاصل ہوا۔ اور پھر ان کے بعد کئی اہلِ علم نے عربی اردو زبان میں نخبۃ الفکر کی شروح لکھی۔
زیر نظر کتاب ’’قطرات العطر شرح اردو نخبۃ الفکر‘‘ مولانا محمد محمود عالم صفدر اوکاڑی کی کاوش ہے۔ شارح نے اس میں حل کتاب کےعلاوہ شوافع کے اصولِ حدیث کے ساتھ ساتھ حنفیہ کے اصول حدیث کو بھی بیان کیا ہے۔



سلعۃ القربہ
اصولِ حدیث پر حافظ الحدیث ابن حجر عسقلانی﷫ کی سب سے پہلی اور اہم تصنیف [نخبة الفکر فی مصطلح أهل الأثر] ہے جو علمی حلقوں میں مختصر نام [نخبة الفکر] سے جانی جاتی ہے اور اپنی افادیت کے پیش نظر اکثر مدارسِ دینیہ میں شاملِ نصاب ہے۔ اس مختصر رسالہ میں حافظ ابن حجرؒ نے علومِ حدیث کے تمام اہم مباحث کا احاطہ کیا ہے۔ حدیث اور اصول میں نخبۃ الفکر کو وہی مقام حاصل ہے جو علمِ لغت میں خلیل بن احمد کی کتاب العین کو۔ مختصر ہونے کے باوجود یہ اصولِ حدیث میں اہم ترین مصدر ہے کیونکہ بعد میں لکھی جانے والی کتب اس سے بے نیاز نہیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے ہی اس کتاب کی شرح [نزهة النظر فی توضیح نخبة الفکر فی مصطلح أهل الأثر] کے نام سے لکھی جسے متن کی طرح قبولِ عام حاصل ہوا۔ اور پھر ان کے بعد کئی اہلِ علم نے عربی اردو زبان میں نخبۃ الفکر کی شروح لکھی۔
زیر نظر کتاب ’’سلعۃ القربہ اردو شرح نخبۃ الفکر‘‘ شارح صحیح بخاری امام ابن حجر عسقلانیؒ کی اصولِ حدیث پر مشہور درسی کتاب [نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر] کا اردو ترجمہ ہے۔ نخبۃ الفکر کا یہ ترجمہ محمد عبد الحی کلفلیتوی نے کیا ہے۔ اس کتاب کے ساتھ مولانا خیر محمد کا اصول حدیث کے متعلق رسالہ ’’خیر الاصول فی حدیث الرسول‘‘ بھی شاملِ اشاعت ہے ۔





تحفۃ الدرر 
اصولِ حدیث پر حافظ الحدیث ابن حجر عسقلانی﷫ کی سب سے پہلی اور اہم تصنیف [نخبة الفکر فی مصطلح أهل الأثر] ہے جو علمی حلقوں میں مختصر نام [نخبة الفکر] سے جانی جاتی ہے اور اپنی افادیت کے پیش نظر اکثر مدارسِ دینیہ میں شاملِ نصاب ہے۔ اس مختصر رسالہ میں حافظ ابن حجرؒ نے علومِ حدیث کے تمام اہم مباحث کا احاطہ کیا ہے۔ حدیث اور اصول میں نخبۃ الفکر کو وہی مقام حاصل ہے جو علمِ لغت میں خلیل بن احمد کی کتاب العین کو۔ مختصر ہونے کے باوجود یہ اصولِ حدیث میں اہم ترین مصدر ہے کیونکہ بعد میں لکھی جانے والی کتب اس سے بے نیاز نہیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے ہی اس کتاب کی شرح [نزهة النظر فی توضیح نخبة الفکر فی مصطلح أهل الأثر] کے نام سے لکھی جسے متن کی طرح قبولِ عام حاصل ہوا۔ اور پھر ان کے بعد کئی اہلِ علم نے عربی اردو زبان میں نخبۃ الفکر کی شروح لکھی۔
زیر نظر کتاب ’’تحفۃ الدرر‘‘ بھی اردو زبان میں نخبۃ الفکر کی اہم شرح ہے۔ جس سے طلباء و اساتذہ کے لیے نخبۃ الفکر سے استفادہ اور اس میں موجود اصطلاحات حدیث کو سمجھنا آسا ن ہوگیا ہے۔ یہ شرح مولانا سعید احمد پالن پوری کی کاوش ہے۔ اللہ تعالی ٰ مصنف وشارح کی علمی کاوش کو قبول فرمائے اور اسے طلباء کے لیے مفید بنائے (آمین)


No comments:

Post a Comment