Monday 12 August 2013

نبی معصوم کیوں؟؟؟


اگر انبیاء معصوم نہ ہوں تو وہ اطاعت(فرمانبرداری) کے قابل کیسے ہوتے؟
جبکہ اللہ نے انبیاء کی رسالت (یعنی بھیجے جانے) کا مقصد ہی ان کی اطاعت قرار دیا ہے:

وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا لِيُطاعَ بِإِذنِ اللَّهِ ۚ {سورۃ النساء:64}
اور ہم نے جو پیغمبر بھیجا ہے اس لئے بھیجا ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے
یعنی اللہ تعالیٰ جس رسول کو اپنے بندوں کی طرف بھیجتا ہے سو اسی غرض کے لئے بھیجتا ہے کہ اللہ کے حکم کے موافق بندے ان کے کہنے کومانیں تو اب ضرور تھا کہ یہ لوگ رسول کے ارشاد کو بلاتامل پہلے ہی سے دل و جان سے تسلیم کرتے

اطاعتِ نبوی کافی کیوں؟

مَن يُطِعِ الرَّسولَ فَقَد أَطاعَ اللَّهَ ۖ وَمَن تَوَلّىٰ فَما أَرسَلنٰكَ عَلَيهِم حَفيظًا {سورۃ النساء:80}

جس نے حکم مانا رسول کا اس نے حکم مانا اللہ کا اور جو الٹا پھرا تو ہم نے تجھ نہیں بھیجا ان پر نگہبان 

آپ کی رسالت کو محقق فرما کر اب اللہ تعالیٰ آپ کے متعلق یہ حکم سناتا ہے کہ جو ہمارے رسول اللہ کی فرمانبرداری کرے گا وہ بیشک ہمارا تابعدار ہے اور جو اس سے روگردانی کرے گے تو ہم نے تجھ کو اے رسول! ان لوگوں پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا کہ ان کو گناہ نہ کرنے دے، ہم انکو دیکھ لیں گے تیرا کام صرف پیغام پینچانا ہے، آگے ثواب یاعقاب یہ ہمارا کام ہے۔




عقیدہ عصمتِ انبیاء:

امام اعظم ابو حنیفہؒ ، علم عقائد کے موضوع پر لکھی گئی اپنی معروف تصنیف ’’الفقہ الا کبر‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: 

والأنبياء عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام كلهم منزهون عَن الصَّغَائِر والكبائر وَالْكفْر والقبائح وَقد كَانَت مِنْهُم زلات وخطايا۔
ترجمہ:
’’تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام چھوٹے اور بڑے(گناہوں) اور کفر و قبائح سے، بالکل مُنَزَّہ (پاکیزہ، بَری، بالاتر) تھے۔ ہاں البتہ لغزش اور بھول چوک ان سے بھی سرزد ہوتی رہی ہے۔‘‘
[أبو حنيفة النعمان، الفقه الأكبر، صفحة ٣٧ (الناشر: مكتبة الفرقان - الإمارات العربية)]






وَما أَرسَلنا مِن قَبلِكَ مِن رَسولٍ وَلا نَبِىٍّ إِلّا إِذا تَمَنّىٰ أَلقَى الشَّيطٰنُ فى أُمنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ ما يُلقِى الشَّيطٰنُ ثُمَّ يُحكِمُ اللَّهُ ءايٰتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَليمٌ حَكيمٌ {سورۃ الحج:52}
اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر (اس کا یہ حال تھا کہ) جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آرزو میں (وسوسہ) ڈال دیتا تھا۔ تو جو (وسوسہ) شیطان ڈالتا ہے اللہ اس کو دور کردیتا ہے۔ پھر اللہ اپنی آیتوں کو مضبوط کردیتا ہے۔ اور خدا علم والا اور حکمت والا ہے
شیطان سے معصومیت: 


...نبی نہیں کہتے لوگوں کو کہ میری عبادت کرو الله کے علاؤہ...
[سورۃ آل عمران:79-80]
...تمام نبیین فرمانبردار تھے...
[المائدۃ:44]
اور شان نہیں ہے کسی نبی کی کہ وہ خیانت کرے-چھپائے...
[سورۃ آل عمران:161]

معصوم وہ ہے جسے الله بچائے رکھے۔[بخاری:7198]

۔۔۔اور الله بچاتا ہے(اے محمد ﷺ)تجھے لوگوں سے۔۔۔
[سورۃ المائدۃ:67]
اور اگر ہم(اے نبی!)آپ کو تھام نہ لیتے تو قریب تھا کہ کچھ نہ کچھ آپ ان(کافروں)کی طرف جھک جاتے(نرم پڑجاتے)۔
[سورۃ الإسراء:74]
اور(اے کفارِ مکّہ!) نہیں بہکا ہے تمہارا صاحب(محمد)اور نہ ہی وہ بھٹکا۔ اور نہیں بولتا اپنی خواہش سے۔ یہ تو وحی(حکم)ہے بھیجی ہوئی۔
[سورۃ النجم:2-4]






احادیث سے دلائل

(1)عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِينُهُ مِنَ الْجِنِّ " ، قَالُوا : وَإِيَّاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : " وَإِيَّايَ إِلَّا أَنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ ، فَأَسْلَمَ فَلَا يَأْمُرُنِي إِلَّا بِخَيْرٍ "۔
ترجمہ:
حضرت عبداللہؓ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک آدمی کے ساتھ اس کا جن ساتھی مقرر کیا گیا ہے۔ صحابہؓ کرام نے عرض کیا آپ کے ساتھ بھی اے اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا: اور میرے ساتھ بھی مگر اللہ نے میری اس پر مدد فرمائی تو وہ مسلمان ہو گیا، پس وہ مجھے نیکی ہی کا حکم کرتا ہے۔

تفسیرعبدالرزاق﴿حدیث#838»سورۃ الانعام:112﴾﴿حدیث#2957»سورۃ ق:27﴾




(2) عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَا تَلِجُوا عَلَى الْمُغِيبَاتِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ أَحَدِكُمْ مَجْرَى الدَّمِ " ، قُلْنَا : وَمِنْكَ ، قَالَ : " وَمِنِّي وَلَكِنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ ، فَأَسْلَمُ " .
[جامع الترمذي » كِتَاب الرَّضَاعِ » بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الدُّخُولِ عَلَى الْمُغِيبَات ... رقم الحديث: 1172]
ترجمہ :
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس عورت کا خاوند موجود نہ ہو اس عورت کے پاس مت جاؤ کیونکہ شیطان انسان کے خون کی جگہ میں گردش کرتا ہے لوگوں نے عرض کی آپ کا بھی۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ لیکن اللہ نے اس کے خلاف میری مدد کی اور  اس نے اسلام قبول کرلیا۔
[ترمذی:1172، نسائی:3412]
تفسیر الدرالمنثور»سورۃ الزخرف:36
[سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر  621 (45565- دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان : شیطان انسان کے خون کی رگوں میں گردش کرتا ہے۔]




(3) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآَلِهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ حِينَ قَالُوا : خَشِينَا أَنَّ الَّذِي بِرَسُولِ اللَّهِ ذَا الْجَنْبِ ، قَالَ : " إِنَّهَا مِنَ الشَّيْطَانِ ، وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُسَلِّطَهُ عَلَيَّ " .
[المستدرك على الصحيحين » رقم الحديث: 8235]
ترجمہ :
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ کی علالت میں کسی نے آپ سے کہا : ہمیں اندیشہ ہے کہ آپ کو کہیں ذات الجنب کی بیماری نہ ہو ، آپ نے فرمایا : یہ بیماری شیطانی اثر ہے اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ شیطان کو الله تعالیٰ میرے اوپر مسلط فرمادے۔
( رواہ ام سلمہ و ابن عباس)


خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن
[السلسلة الاحادیث الصحيحة:7/1016]


نوٹ :
" ذات الجنب" ایک مشہور بیماری ہے اس بیماری سے پہلو کے اندر دل اور سینہ کے قریب پھنسیاں ہو جاتی ہیں اور اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مریض کا سانس رکتا ہے اور بخار اور کھانسی رہتی ہے۔

" ذات الجنب " ایک بیماری ہے اس کی صورتیں ہیں، ایک تو یہ کہ سینے میں ورم ہو جاتا ہے اور یہ اگرچہ عضلات میں پیدا ہوتا ہے مگر پھر باطن سے ظاہر میں آ جاتا ہے اور یہ صورت خطرناک ہے اور اس کا شمار مہلک امراض میں ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذات الجنب کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ریاح غلیظہ کے رک جانے کی وجہ سے پہلو میں ایک درد ہوتا ہے یہاں حدیث میں جس ذات الجنب کا ذکر ہے اس سے مراد یہی دوسری صورت ہے کیونکہ " عود ہندی " ریاحی امراض کی دوا ہے 



(5) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ الْمَسْجِدَ فَلْيُسَلِّمْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَلْيَقُلْ : اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ ، وَإِذَا خَرَجَ فَلْيُسَلِّمْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَلْيَقُلْ : اللَّهُمَّ اعْصِمْنِي مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ " .
ترجمہ :
حضرت ابوہریرہؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو نبی ﷺ پر سلام بھیجے اور یہ کہے (اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ) اور جب مسجد سے نکلے تو نبی ﷺ پر سلام بھیجے اور کہے (اللَّهُمَّ اعْصِمْنِي مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ) اے اللہ ! مجھے محفوظ رکھئے شیطان مردود سے ۔
[سنن ابن ماجه » كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَالْجَمَاعَاتِ » بَاب الدُّعَاءِ عِنْدَ دُخُولِ الْمَسْجِدِ، رقم الحديث: 765]
صحيح الجامع الصغير:514






معصوم بچپن:
(6) حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ ، فَأَخَذَهُ فَصَرَعَهُ ، فَشَقَّ عَنْ قَلْبِهِ ، فَاسْتَخْرَجَ الْقَلْبَ ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ عَلَقَةً ، فَقَالَ : هَذَا حَظُّ الشَّيْطَانِ مِنْكَ ، ثُمَّ غَسَلَهُ فِي طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ بِمَاءِ زَمْزَمَ ، ثُمَّ لَأَمَهُ ، ثُمَّ أَعَادَهُ فِي مَكَانِهِ ، وَجَاءَ الْغِلْمَانُ يَسْعَوْنَ إِلَى أُمِّهِ يَعْنِي ظِئْرَهُ ، فَقَالُوا : إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ ، فَاسْتَقْبَلُوهُ وَهُوَ مُنْتَقِعُ اللَّوْنِ ، قَالَ أَنَسٌ : وَقَدْ كُنْتُ أَرَى أَثَرَ ذَلِكَ الْمِخْيَطِ فِي صَدْرِهِ ۔
ترجمہ :
حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس حضرت جبریل آئے اور اس وقت آپ ﷺ لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے حضرت جبریل نے آپ کو پکڑا، آپ کو پچھاڑا، اور دل کو چیر کر اس میں سے جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا نکالا، اور کہا کہ یہ آپ میں شیطان کا حصہ تھا، پھر اس دل کو سونے کے طشت میں زم زم کے پانی سے دھویا، پھر اسے جوڑ کر اس جگہ میں رکھ دیا، اور لڑکے دوڑتے ہوئے آپ کی رضاعی والدہ کی طرف آئے، اور کہنے لگے کہ محمد ﷺ قتل کردئے گئے، یہ سن کر سب دوڑے دیکھا صرف آپ کا رنگ خوف کی وجہ سے بدلا ہوا ہے۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے سینہ مبارک میں اس سلِائی کا نشان دیکھا تھا۔




شرفِ نبوت سے پہلے معصوم جوانی:
(7) أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " مَا هَمَمْتُ بِقَبِيحٍ مِمَّا يَهُمُّ بِهِ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ إِِلا مَرَّتَيْنِ مِنَ الدَّهْرِ ، كِلْتَاهُمَا عَصَمَنِي اللَّهُ مِنْهُمَا ، قُلْتُ لَيْلَةً لِفَتًى كَانَ مَعِي مِنْ قُرَيْشٍ بِأَعْلَى مَكَّةَ فِي غَنَمٍ لأَهْلِنَا نَرْعَاهَا : أَبْصِرْ لِي غَنَمِي حَتَّى أَسْمُرَ هَذِهِ اللَّيْلَةَ بِمَكَّةَ كَمَا يَسْمُرُ الْفِتْيَانُ ، قَالَ : نَعَمْ ، فَخَرَجْتُ ، فَلَمَّا جِئْتُ أَدْنَى دَارٍ مِنْ دُورِ مَكَّةَ سَمِعْتُ غِنَاءً ، وَصَوْتَ دُفُوفٍ ، وَمَزَامِيرَ ، قُلْتُ : مَا هَذَا ؟ قَالُوا : فُلانٌ تَزَوَّجَ فُلانَةَ ، لِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشِ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنْ قُرَيْشٍ ، فَلَهَوْتُ بِذَلِكَ الْغِنَاءِ ، وَبِذَلِكَ الصَّوْتِ حَتَّى غَلَبَتْنِي عَيْنِي ، فَنِمْتُ ، فَمَا أَيْقَظَنِي إِِلا مَسُّ الشَّمْسِ ، فَرَجَعْتُ إِِلَى صَاحِبِي ، فَقَالَ : مَا فَعَلْتَ ؟ فَأَخْبَرْتُهُ ، ثُمَّ فَعَلْتُ لَيْلَةً أُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ ، فَخَرَجْتُ ، فَسَمِعْتُ مِثْلَ ذَلِكَ ، فَقِيلَ لِي : مِثْلُ مَا قِيلَ لِي ، فَسَمِعْتُ كَمَا سَمِعْتُ ، حَتَّى غَلَبَتْنِي عَيْنِي ، فَمَا أَيْقَظَنِي إِِلا مَسُّ الشَّمْسِ ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِِلَى صَاحِبِي ، فَقَالَ لِي : مَا فَعَلْتَ ؟ فَقُلْتُ : مَا فَعَلْتُ شَيْئًا " ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " فَوَاللَّهِ ، مَا هَمَمْتُ بَعْدَهُمَا بِسُوءٍ مِمَّا يَعْمَلُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ ، حَتَّى أَكْرَمَنِي اللَّهُ بِنُبُوَّتِهِ " .
ترجمہ :
حضرت علیؓ بن ابی طالب سے مروی ہے کہ میں نے رسول الله ﷺ کو یہ فرماتے ہوۓ خود سنا کہ جن ناشائستہ حرکات کا جاہلیت کے لوگ عام طور پر ارادہ کیا کرتے تھے بجز دو مرتبہ کے میرے دل میں کبھی ان کا خطرہ نہیں گزرا اور ان دونوں مرتبہ میں بھی الله تعالیٰ نے مجھ کو ان میں شرکت کرنے سے بچالیا ہے. ایک مرتبہ تو ایسا ہوا کہ ایک قریشی نوجوان جو مکّہ مکرمہ کی بالائی جانب میں اپنی بکریاں چرایا کرتا تھا وہ میرے ساتھ تھا، میں نے اس سے کہا کہ تم ذرا میری بکریوں کی بھی دیکھ بھال رکھنا میں بھی اور نوجوانوں کی طرح آج مکّہ مکرمہ میں جاکر افسانہ گوئی کے شغل کا ارادہ کر رہا ہوں، اس نے کہا : اچھی بات ہے، جب میں چلا اور مکّہ مکرمہ کی آبادی کے قریب ایک گھر کے نزدیک پہنچا تو میں نے گانے، دف اور باجہ بجانے کی آوازیں سنیں. میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟ تو لوگوں نے کہا  کہ فلاں قریشی شخص کا فلاں عورت سے نکاح ہوا ہے، میں اس گانے بجانے کے قصہ میں پڑ کر قصہ گوئی کی محفل کی شرکت سے غافل ہوگیا اور اس زور کی نیند آئی کہ پھر دھوپ کی تیزی سے ہی میری آنکھ کھلی. میں اپنے رفیق کے پاس لوٹ آیا، اس نے پوچھا : کہو ، یہاں سے جاکر تم نے کیا کیا ؟ تو میں نے از اول تا آخر سارا ماجرا اس کو سنا دیا. (پھر) ایک شب میں نے اس سے ایسا ہی کہا ، وہ راضی ہوگیا ، پھر میں قصہ گوئی کے لیے نکلا ، پھر مجھے گانے کی آواز آئی اور جیسا شادی کا قصہ مجھ سے پہلے کہا گیا تھا اس مرتبہ پھر وہی مجھ سے کہا گیا. اس قصہ میں لگ کر میں پھر ایسا غافل ہوا کہ مجھ کو نیند آگئی حتیٰ کہ دھوپ کی تیزی سے میری آنکھ کھلی. جب میں اپنے رفیق کے پاس آیا، اس نے  مجھ سے پوچھا : کہو یہاں سے جاکر تم نے کیا کیا ؟ میں نے کہا: میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا . الله کی قسم پھر اس کے بعد پھر کبھی میں نے کسی ایسی حرکت کا ارادہ نہیں کیا جس کے جاہلیت کے لوگ عادی تھے، یہاں تک کہ الله تعالیٰ نے مجھے شرف نبوت سے نوازدیا
[صحیح ابن حبان:6272، مسند البزار:640، المستدرك الحاكم:7619]




(8) اقوال میں عصمت»
عَنْ ‌عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: «كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ، فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ، وَقَالُوا: أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا، فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ بِإِصْبَعِهِ إِلَى فِيهِ، فَقَالَ: اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ.»
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ میں ہر اس حدیث کو جو رسول اللہ ﷺ سے سنتا یاد رکھنے کے لیے لکھ لیتا، تو قریش کے لوگوں نے مجھے لکھنے سے منع کر دیا، اور کہا: کیا تم رسول اللہ ﷺ سے ہر سنی ہوئی بات کو لکھ لیتے ہو؟ حالانکہ رسول اللہ ﷺ بشر ہیں، غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں باتیں کرتے ہیں، تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا، پھر رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:  لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس(منہ)سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
[ابوداؤد:3646، احمد:6510، دارمی:501]
اور نہیں وہ بولتا اپنی خواہش سے۔
[تفسیر ابن کثیر»سورۃ النجم:3]



انتقال کے بعد بھی عصمتِ نبوی:
(9) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : "تَسَمَّوْا بِاسْمِي ، وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي ، وَمَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ فِي صُورَتِي ، وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ " .

ترجمہ :
حضرت ابوہریرہؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: میرا نام رکھ لو، مگر میری کنیت (جو ابوالقاسم ہے) نہ رکھو اور (یقین کرلو کہ) جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو یقینا اس نے مجھے دیکھ لیا اس لئے کہ شیطان میری صورت نہیں بناسکتا اور جو شخص عمدا میرے اوپر جھوٹ بولے تو اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانا آگ میں تلاش کرے۔


عصمت(معصومیت)کا معنیٰ:
اُن کے اقوال وافعال، عبادات وعادات، معاملات ومقامات اور اخلاق واحوال میں حق تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ کی بدولت اُن کو مداخلتِ نفس وشیطان، اور خطا ونسیان سے، "محفوظ" رکھتا ہے، اور محافظ ملائکہ کو ان پر متعین کردیتا ہے، تاکہ بشریت کا غُبار اُن کے پاک دامن کو آلودہ نہ کردے، اور نفسِ بہیمیہ اپنے بعض امور اُن پر مسلّط نہ کردے، اور اگر قانونِ رضائے الٰہی کے خلاف اُن سے شاذ ونادر کوئی امر واقع ہو بھی جائے تو فی الفور حافظِ حقیقی﴿اللہ تعالیٰ﴾اس سے انہیں آگاہ کردیتا ہے، اور جس طرح بھی ہوسکے غیبی عصمت ان کو راہِ راست کی طرف کھینچ لاتی ہے۔
[منصبِ امامت(شاہ اسماعیل شہید)» ص71]


معصوم کون ؟؟؟
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " مَا بَعَثَ اللَّهُ مِنْ نَبِيٍّ ، وَلَا اسْتَخْلَفَ مِنْ خَلِيفَةٍ إِلَّا كَانَتْ لَهُ بِطَانَتَانِ : بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَحُضُّهُ عَلَيْهِ ، وَبِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالشَّرِّ وَتَحُضُّهُ عَلَيْهِ ، فَالْمَعْصُومُ مَنْ عَصَمَ اللَّهُ تَعَالَى "

ترجمہ :
حضرت ابوسعید خدریؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ نہیں بھیجا الله نے کوئی (ایسا) نبی، اور نہ خلیفہ بنایا کسی (ایسے) خلیفہ کو مگر اس کے لئے دو باطن ہوتے ہیں، ایک باطن تو اس کو خیر کا حکم دیتا ہے اور اس کو شوق دلاتا ہے، دوسرا باطن اس کو شر کا حکم دیتا ہے اور شر کی طرف ابھارتا ہے اور معصوم وہ ہے جسے اللہ محفوظ رکھے۔

[صحيح البخاري » 7198، مسند أحمد:11834، السنن الكبرى للنسائي:7777]
تفسير القرطبي:سورۃ آل عمران:118

تشریح :
دو چھپے ہوئے رفیقوں سے مراد فرشتہ اور شیطان ہیں یہ دونوں انسان کے باطن میں رہتے ہیں چنانچہ فرشتہ اور شیطان ہیں یہ دونوں انسان کے باطن میں رہتے ہیں چنانچہ فرشتہ تو نیک کام کرنے کی ہدایت کرتا رہتا ہے اور نیکی کی ترغیب دیتا ہے جب کہ شیطان برے کام کرنے پر اکساتا رہتا ہے اور برائی کی طرف دھکیلتا رہتا ہے ۔
" اور معصوم وہ ہے الخ " کے ذریعہ انبیاء کرام صلوٰۃ اللہ علیہم اجمعین ، خلفاء راشدین اور بعض دوسرے خلفاء وامراء کا حال بیان کیا گیا ہے جن کو اللہ نے شیطان کے شر و فتنہ سے محفوظ رکھا ہے ۔ 
" دو رفیقوں " سے مراد وزیر و مشیر ہو سکتے ہیں جو خلیفہ کے ساتھ ہر دم رہنے کی وجہ سے بطانہ (استرا) سے مشابہ ہو گئے ہیں ، چنانچہ ہر نبی اور خلیفہ کے ساتھ جو مشیر کار اور مصاحب رہتے تھے ان میں دو مختلف خیالات کے حامل افراد بھی ہوتے تھے یا ان کے ساتھ دو جماعتیں ہوتی تھیں جو آپس میں مختلف الرائے ہوتی تھیں جیسا کہ عام طور پر امراء وسلاطین اور والیان ریاست کے یہاں دیکھا جاتا ہے کہ جو لوگ ان کے صاحب ، مشیران کار اور کار پرداز ہوتے ہیں ان کے خیالات اور آراء کا بعد بین المشرقین ہوتا ہے ، چنانچہ ان میں سے جو لوگ اچھے خیالات کے اور صائب ہوتے ہیں وہ اپنے والی وامیر کو اچھے مشورہ دیتے ہیں اور جن کے خیالات فاسد ہوتے ہیں یا جن کے طبائع میں برائی کا مادہ ہوتا ہے وہ اپنے والی وامیر کو غلط مشورے دیتے ہیں اور ان کو برائی کی راہ پر چلانا چاہتے ہیں آگے اللہ کی مصلحت کار فرما ہوتی ہے کہ وہ جس والی وامیر کو چاہتا ہے برے مصاحبین کے خیالات اور ان کے مشورے قبول کرنے سے بچاتا ہے ۔
انبیاء چونکہ چنے ہوۓ ہوتے ہیں تو الله تعالیٰ ان کو معصوم (محفوظ) ان کی نبوت سے پہلے شروع سے کرتے ہیں، جبکہ غیر نبی کو بعد میں ان کے سچے ارادہ و عمل کو خود اپنانے سے محفوظ بنادیتے ہیں. کیونکہ اسی کی اتباع کا حکم دیا جاتا ہے جو اس (الله) کے حکم کے تابع (پیروی کرنے والا) و منیب (رجوع کرنے والا) ہوتا ہے اور غیر نبی (مہاجر و انصار صحابہؓ کی اتباع کرنے والوں پر اپنی رضا و جنت کی عظیم کامیابی کی خوشخبری اور حکم بھی دیا ، فرمایا اور جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو انکے پیرو ہوئے نیکی کے ساتھ اللہ راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے اور تیار کر رکھے ہیں واسطے انکے باغ کہ بہتی ہیں نیچے ان کےنہریں رہا کریں انہی میں ہمیشہ یہی ہے بڑی کامیابی [سورہ التوبہ : ١٠٠] اور فرمایا : ... اور راہ چل اس کی جو رجوع ہوا میری طرف ... [لقمان : ١٥] کیونکہ ان کے دل پہلے سے کفر ، گناہ اور نافرمانی سے نفرت نہ کرتے تھے، بلکہ بعد میں الله نے ان کے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال کر ان  چیزوں کی نفرت پیدا کی؛ جیسا کہ الله تعالیٰ نے قرآن میں ان کی شان بیان فرمائی : ... اور اللہ نے محبت ڈال دی تمہارے دل میں ایمان کی اور کھبا دیا اسکو تمہارے دلوں میں اور نفرت ڈال دی تمہارے دل میں کفر اور گناہ اور نافرمانی کی وہ لوگ وہی ہیں نیک راہ پر. [سورہ الحجرات : ٧]
اسی لئے ان کی طرح سچا ایمان لانے کا (کلمہ گو منافقین کو) حکم فرمایا : اور جب کہا جاتا ہے ان کو ایمان لاؤ جس طرح ایمان لائے سب لوگ تو کہتے ہیں : کیا ہم ایمان لائیں جس طرح ایمان لائے بیوقوف ، جان لو وہی ہیں بیوقوف لیکن نہیں جانتے [البقرہ : ١٣]؛



====================================
گمراہی سے معصوم نبی
القرآن : اور اگر ہم آپ (ﷺ) کو تھام نہ لیتے تو قریب تھا کہ کچھ نہ کچھ آپ ان کی طرف جھک جاتے۔
[سورۃ بنی اسرائیل : ٧٤]

آنحضرت ﷺ کی بےمثال ثابت قدمی:
"ترکن" رکون سے ہے ۔ جو ادنیٰ جھکاؤ اور خفیف میلان قلب کو کہتے ہیں اس کے ساتھ شَیْئًا قَلِیْلًا بڑھایا گیا تو ادنیٰ سے ادنیٰ ترین مراد ہو گا۔ پھر لَقَدْ کِدْتَّ فرما کر اس کے وقوع کو اور بھی گھٹا دیا ۔ یعنی اگر یہ بات نہ ہوتی کہ آپ پیغمبر معصوم ہیں جن کی عصمت کی سنبھال حق تعالیٰ اپنے فضل خصوصی سے کرتا ہے تو ان چالاک شریروں کی فریب بازیوں سے بہت ہی تھوڑا سا ادھر جھکنے کے قریب ہو جاتے مگر انبیاء کی عصمت کا تکفل ان کا پروردگار کر چکا ہے ۔ اس لئے اتنا خفیف جھکاؤ بھی نہ پایا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ میں تقوے کی فطری قوت کس قدر مضبوط اور ناقابل تزلزل تھی۔
**********************
القرآن :
قسم ہے تارے کی جب گرے۔ بہکا نہیں تمہارا رفیق اور نہ بے راہ چلا۔ اور نہیں بولتا اپنے نفس کی خواہش سے۔ یہ تو وحی ہے بھیجی ہوئی۔
[سورہ النجم : ١-٤]
آنحضرت ﷺ کی راست روی:
"رفیق" سے مراد نبی کریم ﷺ ہیں۔ یعنی نہ آپ غلط فہمی کی بناء پر راستہ سے بہکے، نہ اپنے قصد و اختیار سے جان بوجھ کر بے راہ چلے، بلکہ جس طرح آسمان کے ستارے طلوع سے لیکر غروب تک ایک مقرر رفتار سے معین راستہ پر چلے جاتے ہیں۔ کبھی ادھر اُدھر ہٹنے کا نام نہیں لیتے۔ آفتاب نبوت بھی اللہ کے مقرر کیے ہوئے راستہ پر برابر چلا جاتا ہے۔ ممکن نہیں کہ ایک قدم ادھر یا ادھر پڑ جائے۔ ایسا ہو تو ان کی بعثت سے جو غرض متعلق ہے وہ حاصل نہ ہو۔ انبیاء علیھم السلام آسمان نبوت کے ستارے ہیں جن کی روشنی اور رفتار سے دنیا کی رہنمائی ہوتی ہے اور جس طرح تمام ستاروں کے غائب ہونے کے بعد آفتاب درخشاں طلوع ہوتا ہے۔ ایسے ہی تمام انبیاء کی تشریف بری کے بعد آفتاب محمدی (ﷺ) مطلع عرب سے طلوع ہوا۔ پس اگر قدرت نے ان ظاہری ستاروں کا نظام اس قدر محکم بنایا ہے کہ اس میں کسی طرح کے تزلزل اور اختلال کی گنجائش نہیں تو ظاہر ہے کہ ان باطنی ستاروں اور روحانی آفتاب و ماہتاب کا انتظام کس قدر مضبوط و محکم ہونا چاہیئے۔ جن سے ایک عالم کی ہدایت و سعادت وابستہ ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات وحی ہیں: یعنی کوئی کام تو کیا۔ ایک حرف بھی آپ کے دہن مبارک سے ایسا نہیں نکلتا جو خواہش نفس پر مبنی ہو۔ بلکہ آپ جو کچھ دین کے باب میں ارشاد فرماتے ہیں وہ اللہ کی بھیجی ہوئی وحی اور اس کے حکم کے مطابق ہوتا ہے۔ اس میں وحی متلوّ کو قرآن اور غیر متلوّ کو حدیث کہا جاتا ہے۔


===================================
جانِ نبی کی حفاظت
يٰأَيُّهَا الرَّسولُ بَلِّغ ما أُنزِلَ إِلَيكَ مِن رَبِّكَ ۖ وَإِن لَم تَفعَل فَما بَلَّغتَ رِسالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعصِمُكَ مِنَ النّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لا يَهدِى القَومَ الكٰفِرينَ {5:67}
ترجمہ :
اے رسول! پہنچا دے جو تجھ پر اترا تیرے رب کی طرف سے اور اگر ایسا نہ کیا تو تو نے کچھ نہ پہنچایا اس کا پیغام اور اللہ تجھ کو 
بچا لے گا لوگوں سے بیشک اللہ راستہ نہیں دکھلاتا قوم کفار کو
تشریح :
یعنی آپ اپنا فرض ادا کئے جاؤ خدا تعالیٰ آپ کی جان اور عزت و آبرو کی حفاظت فرمانے والا ہے وہ تمام روئے زمین کے دشمنوں کو بھی آپ کے مقابلہ پر کامیابی کی راہ نہ دکھلائے گا، باقی ہدایت و ضلالت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ ایسی قوم جس نے کفر و انکار ہی پر کمر باندھ لی ہے اگر راہ راست پر نہ آئی تو تم غم نہ کرو اور نہ مایوس ہو کر اپنے فرض کو چھوڑو۔ نبی کریم ﷺ نے اس ہدایت ربانی اور آئین آسمانی کے موافق امت کو ہر چھوٹی بڑی چیز کی تبلیغ کی۔ نوع انسانی کے عوام و خواص میں سےجو بات جس طبقہ کے لائق اور جس کی استعداد کے مطابق تھی آپ نے بلا کم و کاست اور بے خوف و خطر پہنچا کر خدا کی حجت بندوں پر تمام کر دی اور وفات سے دو ڈھائی مہینے پہلے حجۃ الوداع کے موقع پر جہاں چالیس ہزار سے زائد خادمان اسلام اور عاشقان تبلیغ کا اجتماع تھا آپ نے علیٰ رؤس الاشہاد اعلان فرما دیا کہ "اے خدا تو گواہ رہ میں (تیری امانت) پہنچا چکا"۔







عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْقُلُ مَعَهُمُ الْحِجَارَةَ لِلْكَعْبَةِ وَعَلَيْهِ إِزَارُهُ ، فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ عَمُّهُ : يَا ابْنَ أَخِي ، لَوْ حَلَلْتَ إِزَارَكَ فَجَعَلْتَ عَلَى مَنْكِبَيْكَ دُونَ الْحِجَارَةِ ، قَالَ : فَحَلَّهُ ، فَجَعَلَهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ فَسَقَطَ مَغْشِيًّا عَلَيْهِ ، فَمَا رُئِيَ بَعْدَ ذَلِكَ عُرْيَانًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب كَرَاهِيَةِ التَّعَرِّي فِي الصَّلَاةِ وَغَيْرِهَا ..., رقم الحديث: 354]
ترجمہ : 
حضرت جابرؓ بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کعبہ (کی تعمیر) کے لئے قریش کے ہمراہ پتھر اٹھاتے تھے اور آپ ﷺ (کے جسم) پر آپ کی ازار بندھی ہوئی تھی، تو آپ ﷺ سے آپ کے چچا عباسؓ نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! کاش تم اپنی ازار اتار ڈالتے اور اسے اپنے شانوں پر پتھر کے نیچے رکھ لیتے، جابرؓ کہتے ہیں کہ آپ نے ازار کھول کر اسے اپنے شانوں پر رکھ لیا، تو بیہوش ہو کر گر پڑے اس کے بعد آپ ﷺ کبھی برہنہ نہیں دیکھے گئے۔
(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر  361)
دوسرے الفاظ میں یوں ہے کہ
وَطَمَحَتْ عَيْنَاهُ إِلَى السَّمَاءِ
[صحيح البخاري » كِتَاب الْحَجِّ » بَاب فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا، رقم الحديث: 1485]
اور آپ کی آنکھیں آسمان کی طرف چڑھ گئیں۔

وفي حديث أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ : فَنُودِيَ : يَا مُحَمَّدُ ، خَمِّرْ عَوْرَتَكَ ، فَذَلِكَ أَوَّلُ مَا نُودِيَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ فَمَا رُئِيَتْ لَهُ عَوْرَةٌ بَعْدُ وَلا قَبْلُ " .
ترجمہ:
اور حضرت ابوالطفیلؓ کی روایت میں ہے کہ : اس وقت (غیب سے) کسی نے پکار کر کہا کہ اپنا ستر چھپائیے ، پس یہ پہلی (غیبی) پکار تھی اور الله ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے، چنانچہ پھر کبھی آپ کو برہنہ نہیں دیکھا گیا.
[دلائل النبوة للبيهقي » الْمَدْخَلُ إِلَى دَلائِلِ النُّبُوَّةِ وَمَعْرِفَةِ ... » حَدِيثُ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ فِي صِفَةِ النَّبِيِّ ... » بَابُ : مَا جَاءَ فِي بِنَاءِ الْكَعْبَةِ عَلَى طَرِيقِ ...رقم الحديث: 409]




(8) حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، وَيَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ ، قَالَ : كَانَ صَنَمٌ مِنْ نُحَاسٍ ، يُقَالُ لَهُ : إِسَافٌ ، أَوْ نَائِلَةُ ، يَتَمَسَّحُ بِهِ الْمُشْرِكُونَ إِذَا طَافُوا ، فَطَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطُفْتُ مَعَهُ ، فَلَمَّا مَرَرْتُ مَسَحْتُ بِهِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا تَمَسَّهُ " ، قَالَ زَيْدٌ فَطُفْتُ ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي : لأَمَسَّنَّهُ حَتَّى أَنْظُرَ مَا يَكُونُ ، فَمَسَحْتُهُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَلَمْ تُنْهَ ؟ " قُلْتُ : زَادَ فِيهِ غَيْرُهُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو بِإِسْنَادِهِ ، قَالَ زَيْدٌ : فَوَالَّذِي هُوَ أَكْرَمَهُ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ مَا اسْتَلَمَ صَنَمًا حَتَّى أَكْرَمَهُ اللَّهُ بِالَّذِي أَكْرَمَهُ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ.
ترجمہ :
حضرت زیدؓ بن حارثہؓ بیان کرتے ہیں کہ (مکّہ مکرمہ میں) تانبہ کا ایک بت تھا جس کو لوگ اساف اور نائلہ کہتے تھے، مشرکین جب طواف کرتے تو تبرکاً اس کو چھوتے تھے، ایک مرتبہ رسول الله ﷺ نے طواف کیا، میں نے بھی آپ کے ساتھ طواف کیا، جب میں اس بت کے پاس سے گذرا تو میں نے بھی اسے ہاتھ لگایا، رسول الله ﷺ نے فرمایا : اسے ہاتھ نہ لگانا. زید کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں ضرور ہاتھ لگا کر رہوں گا حتیٰ کہ دیکھ لوں کہ کیا ہوتا ہے، چنانچہ میں نے اس کو ہاتھ لگادیا ، تو آپ نے فرمایا : باز نہیں آؤگے؟  امام بیہقی فرماتے ہیں کہ بعض راویوں نے اس روایت میں اتنا اضافہ اور کیا ہے کہ زید کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو نبوت سے سرفراز کیا اور آپ پر قرآن نازل فرمایا، آپ نے کبھی کسی بت کو نبوت سے قبل بھی ہاتھ نہیں لگایا، یہاں تک کہ الله تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے نوازا اور آپ پر قرآن نازل فرمایا.
السنن الکبریٰ للنسائی:8132(8188)
المستدرک-الحاکم:4956]


تنبیہ :
الله کے رسول کے صحابہؓ کے دل پہلے سے کفر ، گناہ اور نافرمانی سے نفرت نہ کرتے تھے، بلکہ بعد میں الله نے ان کے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال کر ان کی نفرت پیدا کی؛ جیسا کہ الله تعالیٰ نے قرآن میں ان کی شان بیان فرمائی :
... اور اللہ نے محبت ڈال دی تمہارے دل میں ایمان کی اور کھبا دیا اسکو تمہارے دلوں میں اور نفرت ڈال دی تمہارے دل میں کفر اور گناہ اور نافرمانی کی وہ لوگ وہی ہیں نیک راہ پر.
[سورۃ الحجرات : ٧]





صحابہؓ میں سے خصوصاً حضرت عمر فاروقؓ سے شیطان کا خوف اور شیطانیت کا بھاگنا 


حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، قَال : سَمِعْتُ بُرَيْدَةَ ، يَقُولُ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ فَلَمَّا انْصَرَفَ جَاءَتْ جَارِيَةٌ سَوْدَاءُ , فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ نَذَرْتُ إِنْ رَدَّكَ اللَّهُ سَالِمًا أَنْ أَضْرِبَ بَيْنَ يَدَيْكَ بِالدُّفِّ وَأَتَغَنَّى ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنْ كُنْتِ نَذَرْتِ فَاضْرِبِي وَإِلَّا فَلَا " ، فَجَعَلَتْ تَضْرِبُ ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَهِيَ تَضْرِبُ ، ثُمَّ دَخَلَ عَلِيٌّ وَهِيَ تَضْرِبُ ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ وَهِيَ تَضْرِبُ ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ , فَأَلْقَتِ الدُّفَّ تَحْتَ اسْتِهَا , ثُمَّ قَعَدَتْ عَلَيْهِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ الشَّيْطَانَ لَيَخَافُ مِنْكَ يَا عُمَرُ ، إِنِّي كُنْتُ جَالِسًا وَهِيَ تَضْرِبُ فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَهِيَ تَضْرِبُ , ثُمَّ دَخَلَ عَلِيٌّ وَهِيَ تَضْرِبُ , ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ وَهِيَ تَضْرِبُ , فَلَمَّا دَخَلْتَ أَنْتَ يَا عُمَرُ أَلْقَتِ الدُّفَّ ".
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » أبوابُ الْمَنَاقِبِ » باب في مناقب عمر بن الخطاب رضي الله عنهرقم الحديث: 3652]


ترجمہ : 
حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ کسی جہاد سے واپس تشریف لائے تو ایک سیاہ فام باندی حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو صحیح سلامت واپس لائے تو میں آپ ﷺ کے سامنے دف بجاؤں گی اور گانا گاؤں گی۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا اگر تم نے نذر مانی تھی تو بجا لو ورنہ نہیں اس نے دف بجانا شروع کیا تو حضرت ابوبکرؓ آگئے وہ بجاتی رہی پھر حضرت علیؓ اور عثمانؓ کے آنے پر بھی وہ دف بجاتی رہی لیکن اس کے بعد حضرت عمرؓ داخل ہوئے تو وہ دف نیچے رکھ کر اس پر بیٹھ گئی آپ ﷺ نے فرمایا: اے عمرؓ! تم سے شیطان بھی ڈرتا ہے کیونکہ میں موجود تھا اور یہ دف بجا رہی تھی پھر ابوبکرؓ، علیؓ، اور عثمانؓ (یکے بعد دیگرے) آئے تب بھی یہ بجاتی رہی لیکن جب تم آئے تو اس نے دف بجانا بند کر دیا۔ 




حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَبَّاحٍ الْبَزَّارُ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ ، عَنْعُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا , فَسَمِعْنَا لَغَطًا وَصَوْتَ صِبْيَانٍ ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا حَبَشِيَّةٌ تُزْفِنُ وَالصِّبْيَانُ حَوْلَهَا ، فَقَالَ : " يَا عَائِشَةُ تَعَالَيْ فَانْظُرِي " ، فَجِئْتُ فَوَضَعْتُ لَحْيَيَّ عَلَى مَنْكِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهَا مَا بَيْنَ الْمَنْكِبِ إِلَى رَأْسِهِ ، فَقَالَ لِي : " أَمَا شَبِعْتِ أَمَا شَبِعْتِ " ، قَالَتْ : فَجَعَلْتُ أَقُولُ : لَا ، لِأَنْظُرَ مَنْزِلَتِي عِنْدَهُ ، إِذْ طَلَعَ عُمَرُ قَالَتْ : فَارْفَضَّ النَّاسُ عَنْهَا ، قَالَتْ : فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى شَيَاطِينِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ قَدْ فَرُّوا مِنْ عُمَرَ " ، قَالَتْ : فَرَجَعْتُ .
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » أبوابُ الْمَنَاقِبِ » باب في مناقب عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، رقم الحديث: 3653]


ترجمہ :
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے کہ ہم نے شوروغل اور بچوں کی آواز سنی آپ ﷺ کھڑے ہوئے تو دیکھا کہ ایک حبشی عورت ناچ رہی ہے اور بچے اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: عائشہ ! آؤ دیکھو، میں گئی اور ٹھوڑی آنخضرت ﷺ کے کندھے پر رکھ کر اس عورت کو دیکھنے لگی میری ٹھوڑی آپ ﷺ کے کندھے اور سر کے درمیان تھی آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارا جی نہیں بھرا؟ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ آپ ﷺ کے نزدیک میری کیا قدرو منزلت ہے لہذا میں نے کہا نہیں اتنے میں حضرت عمرؓ آ گئے اور انہیں دیکھتے ہی سب بھاگ گئے اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں شیاطین جن و انس عمرؓ کو دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے پھر میں لوٹ آئی۔


(جاری ہے)

=======================

فرشتہ بھی معصوم ہوتے ہیں :


يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قوا أَنفُسَكُم وَأَهليكُم نارًا وَقودُهَا النّاسُ وَالحِجارَةُ عَلَيها مَلٰئِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا يَعصونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُم وَيَفعَلونَ ما يُؤمَرونَ {سورۃ التحریم:6}
ترجمہ:
اے ایمان والو! بچاؤ اپنی جان کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے جسکی چھپٹیاں ہیں آدمی اور پتھر، اُس پر مقرر ہیں فرشتے تندخو زبردست، نافرمانی نہیں کرتے اللہ کی جو بات فرمائے اُنکو اور وہی کام کرتے ہیں جو اُنکو حکم ہو۔


معصوم ملائکہ کی طرح انبیاء بھی رسول ہیں۔
القرآن:
الله چُنتا ہے رسول(پیغام پہنچانے والا) ملائکہ میں سے(جبریل روح الامین کو) بھی اور لوگوں میں سے بھی۔۔۔
[سورۃ الحج:75]
یعنی
جبریل پیغام پہنچاتا ہے نبی کے دل پر
[البقرۃ:97، الشعراء:194]
اور انبیاء بھیجے جاتے امتوں کی طرف
[الانعام:42، یونس:47]
ہر قوم میں
[الرعد:7]
ہر بستی میں۔
[الاعراف:94]
انکی قوم کی زبان میں
[ابراھیم:4]
انہیں میں سے۔
[المؤمنون:32]


پیغامِ الٰہی پہنچانے والا روح
[الشعراء:193]
یعنی جبریل
[البقرۃ:97]
امین(امانتدار) ہے
[التکویر:21]
اور
رسول بھی امین ہیں۔
[حوالہ سورۃ الشعراء:107-125-143-162-178-193، الدخان:44]
بلکہ ناصح بھی ہیں۔
[سورۃ الاعراف:68]


ملائکہ رسول تو ہیں، نبی نہیں۔
القرآن:
کیا لوگوں کو تعجب ہوا کہ وحی بھیجی ہم نے ان(لوگوں)ہی میں سے ایک "مرد" پر کہ ڈرا(عذاب سے)لوگوں کو اور(جنت کی)خوشخبری دے ماننے والوں کو۔
[سورۃ یونس:2]
یوسف::109،النحل:43، الانبیاء:7
یعنی
انبیاء، ملائکہ اور عورت میں سے نہیں چنے جاتے۔


انسانی رسول میں نبوت کے علاؤہ دو اضافی فضائل کیا ہیں؟
القرآن:
(1)جن کو دی ہم نے(الگ)کتاب
اور
(الگ)حکم(شریعت)
اور
نبوت بھی
[سورۃ الانعام:89]
(2)۔۔۔تم میں ہر ایک کیلئے بنائی ہم نے(الگ)شریعت اور طریقہ۔۔۔
[سورۃ المائدۃ:48]


No comments:

Post a Comment