آنحضرت ﷺ کی بےمثال ثابت قدمی:
"ترکن" رکون سے ہے ۔ جو ادنیٰ جھکاؤ اور خفیف میلان قلب کو کہتے ہیں اس کے ساتھ شَیْئًا قَلِیْلًا بڑھایا گیا تو ادنیٰ سے ادنیٰ ترین مراد ہو گا۔ پھر لَقَدْ کِدْتَّ فرما کر اس کے وقوع کو اور بھی گھٹا دیا ۔ یعنی اگر یہ بات نہ ہوتی کہ آپ پیغمبر معصوم ہیں جن کی عصمت کی سنبھال حق تعالیٰ اپنے فضل خصوصی سے کرتا ہے تو ان چالاک شریروں کی فریب بازیوں سے بہت ہی تھوڑا سا ادھر جھکنے کے قریب ہو جاتے مگر انبیاء کی عصمت کا تکفل ان کا پروردگار کر چکا ہے ۔ اس لئے اتنا خفیف جھکاؤ بھی نہ پایا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ میں تقوے کی فطری قوت کس قدر مضبوط اور ناقابل تزلزل تھی۔
القرآن :
قسم ہے تارے کی جب گرے۔ بہکا نہیں تمہارا رفیق اور نہ بے راہ چلا۔ اور نہیں بولتا اپنے نفس کی خواہش سے۔ یہ تو وحی ہے بھیجی ہوئی۔
[سورہ النجم : ١-٤]
آنحضرت ﷺ کی راست روی:
"رفیق" سے مراد نبی کریم ﷺ ہیں۔ یعنی نہ آپ غلط فہمی کی بناء پر راستہ سے بہکے، نہ اپنے قصد و اختیار سے جان بوجھ کر بے راہ چلے، بلکہ جس طرح آسمان کے ستارے طلوع سے لیکر غروب تک ایک مقرر رفتار سے معین راستہ پر چلے جاتے ہیں۔ کبھی ادھر اُدھر ہٹنے کا نام نہیں لیتے۔ آفتاب نبوت بھی اللہ کے مقرر کیے ہوئے راستہ پر برابر چلا جاتا ہے۔ ممکن نہیں کہ ایک قدم ادھر یا ادھر پڑ جائے۔ ایسا ہو تو ان کی بعثت سے جو غرض متعلق ہے وہ حاصل نہ ہو۔ انبیاء علیھم السلام آسمان نبوت کے ستارے ہیں جن کی روشنی اور رفتار سے دنیا کی رہنمائی ہوتی ہے اور جس طرح تمام ستاروں کے غائب ہونے کے بعد آفتاب درخشاں طلوع ہوتا ہے۔ ایسے ہی تمام انبیاء کی تشریف بری کے بعد آفتاب محمدی (ﷺ) مطلع عرب سے طلوع ہوا۔ پس اگر قدرت نے ان ظاہری ستاروں کا نظام اس قدر محکم بنایا ہے کہ اس میں کسی طرح کے تزلزل اور اختلال کی گنجائش نہیں تو ظاہر ہے کہ ان باطنی ستاروں اور روحانی آفتاب و ماہتاب کا انتظام کس قدر مضبوط و محکم ہونا چاہیئے۔ جن سے ایک عالم کی ہدایت و سعادت وابستہ ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات وحی ہیں: یعنی کوئی کام تو کیا۔ ایک حرف بھی آپ کے دہن مبارک سے ایسا نہیں نکلتا جو خواہش نفس پر مبنی ہو۔ بلکہ آپ جو کچھ دین کے باب میں ارشاد فرماتے ہیں وہ اللہ کی بھیجی ہوئی وحی اور اس کے حکم کے مطابق ہوتا ہے۔ اس میں وحی متلوّ کو قرآن اور غیر متلوّ کو حدیث کہا جاتا ہے۔
===================================
يٰأَيُّهَا الرَّسولُ بَلِّغ ما أُنزِلَ إِلَيكَ مِن رَبِّكَ ۖ وَإِن لَم تَفعَل فَما بَلَّغتَ رِسالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعصِمُكَ مِنَ النّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لا يَهدِى القَومَ الكٰفِرينَ {5:67} |
ترجمہ : اے رسول! پہنچا دے جو تجھ پر اترا تیرے رب کی طرف سے اور اگر ایسا نہ کیا تو تو نے کچھ نہ پہنچایا اس کا پیغام اور اللہ تجھ کو بچا لے گا لوگوں سے بیشک اللہ راستہ نہیں دکھلاتا قوم کفار کو |
تشریح :
یعنی آپ اپنا فرض ادا کئے جاؤ خدا تعالیٰ آپ کی جان اور عزت و آبرو کی حفاظت فرمانے والا ہے وہ تمام روئے زمین کے دشمنوں کو بھی آپ کے مقابلہ پر کامیابی کی راہ نہ دکھلائے گا، باقی ہدایت و ضلالت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ ایسی قوم جس نے کفر و انکار ہی پر کمر باندھ لی ہے اگر راہ راست پر نہ آئی تو تم غم نہ کرو اور نہ مایوس ہو کر اپنے فرض کو چھوڑو۔ نبی کریم ﷺ نے اس ہدایت ربانی اور آئین آسمانی کے موافق امت کو ہر چھوٹی بڑی چیز کی تبلیغ کی۔ نوع انسانی کے عوام و خواص میں سےجو بات جس طبقہ کے لائق اور جس کی استعداد کے مطابق تھی آپ نے بلا کم و کاست اور بے خوف و خطر پہنچا کر خدا کی حجت بندوں پر تمام کر دی اور وفات سے دو ڈھائی مہینے پہلے حجۃ الوداع کے موقع پر جہاں چالیس ہزار سے زائد خادمان اسلام اور عاشقان تبلیغ کا اجتماع تھا آپ نے علیٰ رؤس الاشہاد اعلان فرما دیا کہ "اے خدا تو گواہ رہ میں (تیری امانت) پہنچا چکا"۔ |
عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْقُلُ مَعَهُمُ الْحِجَارَةَ لِلْكَعْبَةِ وَعَلَيْهِ إِزَارُهُ ، فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ عَمُّهُ : يَا ابْنَ أَخِي ، لَوْ حَلَلْتَ إِزَارَكَ فَجَعَلْتَ عَلَى مَنْكِبَيْكَ دُونَ الْحِجَارَةِ ، قَالَ : فَحَلَّهُ ، فَجَعَلَهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ فَسَقَطَ مَغْشِيًّا عَلَيْهِ ، فَمَا رُئِيَ بَعْدَ ذَلِكَ عُرْيَانًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب كَرَاهِيَةِ التَّعَرِّي فِي الصَّلَاةِ وَغَيْرِهَا ..., رقم الحديث: 354]
ترجمہ :
حضرت جابرؓ بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کعبہ (کی تعمیر) کے لئے قریش کے ہمراہ پتھر اٹھاتے تھے اور آپ ﷺ (کے جسم) پر آپ کی ازار بندھی ہوئی تھی، تو آپ ﷺ سے آپ کے چچا عباسؓ نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! کاش تم اپنی ازار اتار ڈالتے اور اسے اپنے شانوں پر پتھر کے نیچے رکھ لیتے، جابرؓ کہتے ہیں کہ آپ نے ازار کھول کر اسے اپنے شانوں پر رکھ لیا، تو بیہوش ہو کر گر پڑے اس کے بعد آپ ﷺ کبھی برہنہ نہیں دیکھے گئے۔
(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 361)
دوسرے الفاظ میں یوں ہے کہ
وَطَمَحَتْ عَيْنَاهُ إِلَى السَّمَاءِ
[صحيح البخاري » كِتَاب الْحَجِّ » بَاب فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا، رقم الحديث: 1485]
اور آپ کی آنکھیں آسمان کی طرف چڑھ گئیں۔
وفي حديث أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ : فَنُودِيَ : يَا مُحَمَّدُ ، خَمِّرْ عَوْرَتَكَ ، فَذَلِكَ أَوَّلُ مَا نُودِيَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ فَمَا رُئِيَتْ لَهُ عَوْرَةٌ بَعْدُ وَلا قَبْلُ " .ترجمہ:
اور حضرت ابوالطفیلؓ کی روایت میں ہے کہ : اس وقت (غیب سے) کسی نے پکار کر کہا کہ اپنا ستر چھپائیے ، پس یہ پہلی (غیبی) پکار تھی اور الله ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے، چنانچہ پھر کبھی آپ کو برہنہ نہیں دیکھا گیا.
[دلائل النبوة للبيهقي » الْمَدْخَلُ إِلَى دَلائِلِ النُّبُوَّةِ وَمَعْرِفَةِ ... » حَدِيثُ هِنْدِ بْنِ أَبِي هَالَةَ فِي صِفَةِ النَّبِيِّ ... » بَابُ : مَا جَاءَ فِي بِنَاءِ الْكَعْبَةِ عَلَى طَرِيقِ ...رقم الحديث: 409]
ترجمہ :
حضرت زیدؓ بن حارثہؓ بیان کرتے ہیں کہ (مکّہ مکرمہ میں) تانبہ کا ایک بت تھا جس کو لوگ اساف اور نائلہ کہتے تھے، مشرکین جب طواف کرتے تو تبرکاً اس کو چھوتے تھے، ایک مرتبہ رسول الله ﷺ نے طواف کیا، میں نے بھی آپ کے ساتھ طواف کیا، جب میں اس بت کے پاس سے گذرا تو میں نے بھی اسے ہاتھ لگایا، رسول الله ﷺ نے فرمایا : اسے ہاتھ نہ لگانا. زید کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں ضرور ہاتھ لگا کر رہوں گا حتیٰ کہ دیکھ لوں کہ کیا ہوتا ہے، چنانچہ میں نے اس کو ہاتھ لگادیا ، تو آپ نے فرمایا : باز نہیں آؤگے؟ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ بعض راویوں نے اس روایت میں اتنا اضافہ اور کیا ہے کہ زید کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو نبوت سے سرفراز کیا اور آپ پر قرآن نازل فرمایا، آپ نے کبھی کسی بت کو نبوت سے قبل بھی ہاتھ نہیں لگایا، یہاں تک کہ الله تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے نوازا اور آپ پر قرآن نازل فرمایا.السنن الکبریٰ للنسائی:8132(8188)
المستدرک-الحاکم:4956]
تنبیہ :
الله کے رسول کے صحابہؓ کے دل پہلے سے کفر ، گناہ اور نافرمانی سے نفرت نہ کرتے تھے، بلکہ بعد میں الله نے ان کے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال کر ان کی نفرت پیدا کی؛ جیسا کہ الله تعالیٰ نے قرآن میں ان کی شان بیان فرمائی :
... اور اللہ نے محبت ڈال دی تمہارے دل میں ایمان کی اور کھبا دیا اسکو تمہارے دلوں میں اور نفرت ڈال دی تمہارے دل میں کفر اور گناہ اور نافرمانی کی وہ لوگ وہی ہیں نیک راہ پر.
[سورۃ الحجرات : ٧]
صحابہؓ میں سے خصوصاً حضرت عمر فاروقؓ سے شیطان کا خوف اور شیطانیت کا بھاگنا
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، قَال : سَمِعْتُ بُرَيْدَةَ ، يَقُولُ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ فَلَمَّا انْصَرَفَ جَاءَتْ جَارِيَةٌ سَوْدَاءُ , فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ نَذَرْتُ إِنْ رَدَّكَ اللَّهُ سَالِمًا أَنْ أَضْرِبَ بَيْنَ يَدَيْكَ بِالدُّفِّ وَأَتَغَنَّى ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنْ كُنْتِ نَذَرْتِ فَاضْرِبِي وَإِلَّا فَلَا " ، فَجَعَلَتْ تَضْرِبُ ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَهِيَ تَضْرِبُ ، ثُمَّ دَخَلَ عَلِيٌّ وَهِيَ تَضْرِبُ ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ وَهِيَ تَضْرِبُ ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ , فَأَلْقَتِ الدُّفَّ تَحْتَ اسْتِهَا , ثُمَّ قَعَدَتْ عَلَيْهِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ الشَّيْطَانَ لَيَخَافُ مِنْكَ يَا عُمَرُ ، إِنِّي كُنْتُ جَالِسًا وَهِيَ تَضْرِبُ فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَهِيَ تَضْرِبُ , ثُمَّ دَخَلَ عَلِيٌّ وَهِيَ تَضْرِبُ , ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ وَهِيَ تَضْرِبُ , فَلَمَّا دَخَلْتَ أَنْتَ يَا عُمَرُ أَلْقَتِ الدُّفَّ ".
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » أبوابُ الْمَنَاقِبِ » باب في مناقب عمر بن الخطاب رضي الله عنهرقم الحديث: 3652]
ترجمہ :
حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ کسی جہاد سے واپس تشریف لائے تو ایک سیاہ فام باندی حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو صحیح سلامت واپس لائے تو میں آپ ﷺ کے سامنے دف بجاؤں گی اور گانا گاؤں گی۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا اگر تم نے نذر مانی تھی تو بجا لو ورنہ نہیں اس نے دف بجانا شروع کیا تو حضرت ابوبکرؓ آگئے وہ بجاتی رہی پھر حضرت علیؓ اور عثمانؓ کے آنے پر بھی وہ دف بجاتی رہی لیکن اس کے بعد حضرت عمرؓ داخل ہوئے تو وہ دف نیچے رکھ کر اس پر بیٹھ گئی آپ ﷺ نے فرمایا: اے عمرؓ! تم سے شیطان بھی ڈرتا ہے کیونکہ میں موجود تھا اور یہ دف بجا رہی تھی پھر ابوبکرؓ، علیؓ، اور عثمانؓ (یکے بعد دیگرے) آئے تب بھی یہ بجاتی رہی لیکن جب تم آئے تو اس نے دف بجانا بند کر دیا۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَبَّاحٍ الْبَزَّارُ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ ، عَنْعُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا , فَسَمِعْنَا لَغَطًا وَصَوْتَ صِبْيَانٍ ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا حَبَشِيَّةٌ تُزْفِنُ وَالصِّبْيَانُ حَوْلَهَا ، فَقَالَ : " يَا عَائِشَةُ تَعَالَيْ فَانْظُرِي " ، فَجِئْتُ فَوَضَعْتُ لَحْيَيَّ عَلَى مَنْكِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهَا مَا بَيْنَ الْمَنْكِبِ إِلَى رَأْسِهِ ، فَقَالَ لِي : " أَمَا شَبِعْتِ أَمَا شَبِعْتِ " ، قَالَتْ : فَجَعَلْتُ أَقُولُ : لَا ، لِأَنْظُرَ مَنْزِلَتِي عِنْدَهُ ، إِذْ طَلَعَ عُمَرُ قَالَتْ : فَارْفَضَّ النَّاسُ عَنْهَا ، قَالَتْ : فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى شَيَاطِينِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ قَدْ فَرُّوا مِنْ عُمَرَ " ، قَالَتْ : فَرَجَعْتُ .
[جامع الترمذي » كِتَاب الدَّعَوَاتِ » أبوابُ الْمَنَاقِبِ » باب في مناقب عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، رقم الحديث: 3653]
ترجمہ :
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے کہ ہم نے شوروغل اور بچوں کی آواز سنی آپ ﷺ کھڑے ہوئے تو دیکھا کہ ایک حبشی عورت ناچ رہی ہے اور بچے اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: عائشہ ! آؤ دیکھو، میں گئی اور ٹھوڑی آنخضرت ﷺ کے کندھے پر رکھ کر اس عورت کو دیکھنے لگی میری ٹھوڑی آپ ﷺ کے کندھے اور سر کے درمیان تھی آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارا جی نہیں بھرا؟ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ آپ ﷺ کے نزدیک میری کیا قدرو منزلت ہے لہذا میں نے کہا نہیں اتنے میں حضرت عمرؓ آ گئے اور انہیں دیکھتے ہی سب بھاگ گئے اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں شیاطین جن و انس عمرؓ کو دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے پھر میں لوٹ آئی۔
(جاری ہے)
=======================
فرشتہ بھی معصوم ہوتے ہیں :
يٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قوا أَنفُسَكُم وَأَهليكُم نارًا وَقودُهَا النّاسُ وَالحِجارَةُ عَلَيها مَلٰئِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا يَعصونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُم وَيَفعَلونَ ما يُؤمَرونَ {سورۃ التحریم:6}
ترجمہ:
اے ایمان والو! بچاؤ اپنی جان کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے جسکی چھپٹیاں ہیں آدمی اور پتھر، اُس پر مقرر ہیں فرشتے تندخو زبردست، نافرمانی نہیں کرتے اللہ کی جو بات فرمائے اُنکو اور وہی کام کرتے ہیں جو اُنکو حکم ہو۔
معصوم ملائکہ کی طرح انبیاء بھی رسول ہیں۔
القرآن:
الله چُنتا ہے رسول(پیغام پہنچانے والا) ملائکہ میں سے(جبریل روح الامین کو) بھی اور لوگوں میں سے بھی۔۔۔
[سورۃ الحج:75]
یعنی
جبریل پیغام پہنچاتا ہے نبی کے دل پر
[البقرۃ:97، الشعراء:194]
اور انبیاء بھیجے جاتے امتوں کی طرف
[الانعام:42، یونس:47]
ہر قوم میں
[الرعد:7]
ہر بستی میں۔
[الاعراف:94]
انکی قوم کی زبان میں
[ابراھیم:4]
انہیں میں سے۔
[المؤمنون:32]
پیغامِ الٰہی پہنچانے والا روح
[الشعراء:193]
یعنی جبریل
[البقرۃ:97]
امین(امانتدار) ہے
[التکویر:21]
اور
رسول بھی امین ہیں۔
[حوالہ سورۃ الشعراء:107-125-143-162-178-193، الدخان:44]
بلکہ ناصح بھی ہیں۔
[سورۃ الاعراف:68]
ملائکہ رسول تو ہیں، نبی نہیں۔
القرآن:
کیا لوگوں کو تعجب ہوا کہ وحی بھیجی ہم نے ان(لوگوں)ہی میں سے ایک "مرد" پر کہ ڈرا(عذاب سے)لوگوں کو اور(جنت کی)خوشخبری دے ماننے والوں کو۔
[سورۃ یونس:2]
یوسف::109،النحل:43، الانبیاء:7
یعنی
انبیاء، ملائکہ اور عورت میں سے نہیں چنے جاتے۔
انسانی رسول میں نبوت کے علاؤہ دو اضافی فضائل کیا ہیں؟
القرآن:
(1)جن کو دی ہم نے(الگ)کتاب
اور
(الگ)حکم(شریعت)
اور
نبوت بھی
[سورۃ الانعام:89]
(2)۔۔۔تم میں ہر ایک کیلئے بنائی ہم نے(الگ)شریعت اور طریقہ۔۔۔
[سورۃ المائدۃ:48]
No comments:
Post a Comment