Islamic Affirmation:
A lullaby type remembrance with cheer and acclamation.
[حوالہ سورۃ النمل:60-64]
کلمہ توحید کے تقاضے
http://raahedaleel.blogspot.com/2016/11/blog-post_14.html
روزانہ تھلیل کہنے کی تعداد اور فضیلت:
الله کے آخری پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
*کیا ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھنا نجات کا سبب ہے؟*
صوفیائے کرام کے یہاں کلمہ طیبہ (لا إلٰه إلا اللّٰه)کا ستر ہزار کی تعداد میں ورد اپنی نجات کے لیے، اور دوسروں کی بحشش کے لیے پڑھنے کا معمول رہا ہے ۔ اور فقہاءِ کرام بھی اس کو جائز قرار دیتے ہیں، لیکن تلاش کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سندًا منقول ایسی کوئی روایت نہیں مل سکی جس میں ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھنے سے یا بخشوانے سے مغفرت کی بشارت کا ذکر ہو۔
الشيخ محمد بن أحمد نجم الدين الغيطی (981هـ) رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (الابتهاج في الكلام على الإسراء والمعراج)میں اس حدیث سے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا جواب نقل کیا ہے کہ یہ روایت نہ صحیح ہے ، نہ حسن اور نہ ضعیف ، بلکہ باطل اور من گھڑت ہے، اس لیے حدیث سمجھ کر یا بتاکر اس کو بیان کرنا جائز نہیں، البتہ بزرگوں کے کشف اور مجربات ومعمولات کے طور پر بیان کرنے کی گنجائش ہے ۔
باقی کلمہ طیبہ پڑھنے سےکسی مسلمان کا مغفرت ہوجانا اللہ تعالی کے فضل وکرم سے کوئی بعید نہیں ، اور نہ اس میں کوئی حیرانگی کی بات ہے۔کلمۂ طیبہ کے بہت سے فضائل احادیثِ مبارکہ میں وارد ہیں، ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتاہے کہ کلمہ طیبہ ایک مرتبہ پڑھنا بھی مغفرت کا، یا بالآخر مغفرت کا ذریعہ بن جاتاہے، لہذا اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کیے بغیر اگر مغفرت کی امید پر اپنے لیے یا کسی فوت شدہ شخص کے لیے ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ: صوفیاء کرام کے ہاں اس طرح فضیلت والے نفلی اعمال میں نیابت بھی جائز ہے، یعنی جس طرح بذات خود پڑھنے سے وہ فضیلت حاصل ہوگی، تو اسی طرح اس شخص کو بھی یہ فضیلت حاصل ہوگی جس کے لیے وہ عمل پڑھ کر بخشا جائے۔
المقفى الكبير للمقريزي (المتوفى:845ه) میں ہے:
"قال: وسمعت الشيخ أبا زيد القرطبيّ يقول: سمعت في بعض الآثار أنّ من قال: لا إله إلّا الله سبعين ألف مرّة كانت فداءه من النار. فعملت على ذلك رجاء بركة الوعد، فعملت منها لأهلي، وعملت أعمالا ادّخرتها لنفسي. وكان إذ ذاك يبيت معنا شابّ يقال إنّه يكاشف في بعض الأوقات بالجنّة والنار. وكانت الجماعة ترى له فضلا على صغر سنّة، وكان في قلبي منه شيء.
فاتّفق أن استدعا [نا] بعض الإخوان إلى منزله، فنحن نتناول الطعام والشابّ معنا إذ صاح صيحة منكرة واجتمع في نفسه، وهو يقول: يا عمّ، هذه أمّي في النار! - وهو يصيح بصياح عظيم لا يشكّ من سمعه أنّه عن أمر. فلمّا رأيت ما به من الانزعاج قلت في نفسي: اليوم أجرّب صدقه! - فألهمني الله السبعين الألف ولم يطّلع أحد على ذلك إلّا الله، فقلت في نفسي: الأثر حقّ، والذين رووه لنا صادقون. اللهمّ إنّ السبعين الألف [58 أ] فداء أمّ هذا الشابّ- فما استتممت الخاطر في نفسي إلى أن قال: يا عمّ، ها هي أخرجت! الحمد لله، الحمد لله! (قال): فخلصت لي فائدتان: إيماني بصدق الأثر، وسلامتي من الشابّ وعلمي بصدقه."
ترجمہ:
شیخ ابو زید قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے بعض آثار میں سنا ہے کہ جو شخص ستر ہزار بار "لا إله إلا الله" کہے، وہ اس کے لیے آگ سے آزادی کا سبب بن جاتا ہے۔ میں نے اس وعدے کی برکت کی امید پر اس پر عمل کیا، اپنے گھر والوں کے لیے بھی یہ عمل کیا، اور کچھ اعمال اپنے لیے بھی ذخیرہ کیے۔ اس وقت ہمارے ساتھ ایک نوجوان رہتا تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کبھی کبھی جنت اور دوزخ کے مناظر دیکھ لیتا ہے۔ لوگ اسے کم عمری کے باوجود فضیلت والا سمجھتے تھے، لیکن میرے دل میں اس کے بارے میں کچھ شک تھا۔
ایک دن ہمارے کسی دوست نے ہمیں اپنے گھر بلایا۔ ہم کھانا کھا رہے تھے، اور وہ نوجوان بھی ہمارے ساتھ تھا کہ اچانک اس نے ایک خوفناک چیخ ماری اور گھبرا گیا۔ وہ کہنے لگا: "اے چچا! میری ماں دوزخ میں ہے!" اور اس طرح زور سے چلایا کہ سننے والے کو یقین ہو جاتا کہ یہ کسی واقعے کی خبر ہے۔ جب میں نے اس کی گھبراہٹ دیکھی تو دل میں سوچا: "آج میں اس کی سچائی آزماتا ہوں!" تو اللہ نے مجھے ستر ہزار کا ذکر کرنے کی توفیق دی، اور اس بات کو اللہ کے سوا کسی نے نہیں جانا۔ میں نے دل ہی دل میں کہا: "یہ اثر (حدیث/روایت) سچا ہے، اور جو لوگ ہمیں یہ روایت سناتے ہیں، وہ سچے ہیں۔ اے اللہ! یہ ستر ہزار ذکر اس نوجوان کی ماں کی آزادی کا ذریعہ بن جائے۔" میرے دل میں یہ خیال پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ اس نے کہا: "اے چچا! وہ (میری ماں) نکل گئی! الحمدللہ، الحمدللہ!"
راوی کہتے ہیں: اس واقعے سے مجھے دو فائدے حاصل ہوئے:
1. مجھے اس اثر (روایت) کی سچائی پر یقین ہو گیا۔
2. میں اس نوجوان کے بارے میں اپنے شک سے پاک ہو گیا اور جان لیا کہ وہ سچا ہے۔
حوالہ
[المقفى الكبير للمقريزي: أبو عبد الله القرشي الزاهد المغربيّ (5/ 74) برقم الترجمة (1674)،ط. دار الغرب الاسلامي، بيروت ، الطبعة: الثانية، 1427 هـ - 2006 م]
ملا علی قاری رحمہ اللہ نے مرقاة المفاتیح، "باب ما علی الماموم من المتابعة للإمام" (۴/۲۵۴) میں ابن عربی رحمہ اللہ کی "الفتوحات المکیہ " کے حوالہ سے نقل کی ہے، جس کی کوئی سند نہیں، اور اس کی صحت کے لیے خود ابن عربی رحمہ اللہ کےپاس موجود کسی نوجوان کے کشف کا تذکرہ کیا ہے۔
"قَالَ الشَّيْخُ مُحْيِي الدِّينِ بْنُ الْعَرَبِيِّ: إنَّهُ بَلَغَنِي «عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ سَبْعِينَ أَلْفًا غُفِرَ لَهُ، وَمَنْ قِيلَ لَهُ غُفِرَ لَهُ أَيْضًا» ، فَكُنْتُ ذَكَرْتُ التَّهْلِيلَةَ بِالْعَدَدِ الْمَرْوِيِّ مِنْ غَيْرِ أَنْ أَنْوِيَ لِأَحَدٍ بِالْخُصُوصِ، بَلْ عَلَى الْوَجْهِ الْإِجْمَالِيِّ، فَحَضَرْتُ طَعَامًا مَعَ بَعْضِ الْأَصْحَابِ، وَفِيهِمْ شَابٌّ مَشْهُورٌ بِالْكَشْفِ، فَإِذَا هُوَ فِي أَثْنَاءِ الْأَكْلِ أَظْهَرَ الْبُكَاءَ فَسَأَلْتُهُ عَنِ السَّبَبِ فَقَالَ: أَرَى أُمِّي فِي الْعَذَابِ فَوَهَبْتُ فِي بَاطِنِي ثَوَابَ التَّهْلِيلَةِ الْمَذْكُورَةِ لَهَا فَضَحِكَ وَقَالَ: إِنِّي أَرَاهَا الْآنَ فِي حُسْنِ الْمَآبِ، قَالَ الشَّيْخُ: فَعَرَفْتُ صِحَّةَ الْحَدِيثِ بِصِحَّةِ كَشْفِهِ، وَصِحَّةَ كَشْفِهِ بِصِحَّةِ الْحَدِيثِ".
ترجمہ:
شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ہم تک پہنچی ہے کہ جو ستر ہزار مرتبہ لَاۤ اِلٰه اِلَّا الله پڑھے یا پڑھ کر کسی کو بخش بھی دے تو جس کو ثواب بخشا جائے گا اس کی مغفرت ہوجائے گی اور پڑھنے والے کو بھی بخش دیا جائے گا۔ تو میں اس کے بہت سے مجموعہ اپنے پاس پڑھ کر رکھ لیے، ایک مرتبہ ایک دعوت میں بعض ساتھیوں کے ساتھ جمع ہوا تو وہاں دسترخوان پر ایک نوجوان آیا جس کا کشف مشہور تھا، اس نے کھانا شروع کردیا، اتنے میں کھاتے کھاتے زور سے رونے لگا، وہ رویا تو میں نے پوچھا تم رو کیوں رہے ہو حالاں کہ دسترخوان پر اتنے عمدہ عمدہ کھانے کھا رہے ہو؟اس نے کہا: میں اپنی ماں کو عذاب میں دیکھ رہاہوں، میں نے اس کی ماں کو ستر ہزار لااِلٰه اِلَّا الله کا ثواب بخش دیا۔ تو وہ نوجوان زور سے ہنسا تو میں نے پوچھا تم کیوں ہنسے؟ اس نے کہا: میں اپنی ماں کو جنت میں دیکھ رہا ہوں۔ شیخ فرماتے ہیں کہ اس کے کشف سے میرا اس حدیث کی صحت پر یقین اور بڑھ گیا اور حدیث کی صحت سے اس کے کشف پر یقین اور بڑھ گیا کہ یہ واقعی ولی اللہ اور صاحبِ کشف ہے۔
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، للعلامة علي القاري، (المتوفى: 1014هـ) ص:879 ج:3 ط: دار الفكر، بيروت – لبنان]
تاہم احادیثِ مبارکہ کی تصحیح وتضعیف کشف وغیرہ کی وجہ سے نہیں ہوسکتی ہے، اس لیے اس روایت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا درست نہیں ہے۔
البتہ کلمۂ طیبہ کے دیگر بہت سے فضائل احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہیں، اور احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتاہے کہ یہ کلمہ ایک مرتبہ بھی اِخلاص کے ساتھ کہہ دیا جائے تو انسان کی اَبدی کامیابی اور کامل مغفرت کا، یا بالآخر مغفرت کا ذریعہ بن جاتاہے، لہذا اس کی نسبت آپ ﷺ کی طرف کیے بغیر اگر مغفرت کی امید پر ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لیا جائے تو اجر و ثواب سے خالی نہ ہوگا۔
*بریقہ محمودیہ (از محمد بن محمد بن مصطفیٰ الحنفی، متوفی 1156ھ) میں ہے:*
بریقہ محمودیہ(لمحمدبن محمد بن مصطفى بن عثمان الحنفي (المتوفى: 1156هـ)میں ہے:
"(... يهلل) نحو سبعين ألفًا كما هو المتعارف بناء على ما نقل عن محيي الدين بن العربي والذي أوصيك به على أن تحافظه على أن تشتري نفسك من الله بعتق رقبتك من النار بأن تقول: لا إله إلا الله سبعين ألف مرة فإن الله يعتق بها رقبتك من النار أو رقبة من يقولها من الناس.
ورد في ذلك خبر نبوي ولقد أخبرني أبو العباس أحمد بن علي القسطلاني أن الشيخ أبا الربيع المالقي كان على مائدة طعام، وكان قد ذكر هذا الذكر، وكان على المائدة شاب صغير من أهل الكشف فعندما مد يده إلى الطعام بكى وقال لأني رأيت أمي في جهنم قال أبو الربيع فوهبت في نفسي هذا التوحيد لإعتاق أمه فقال الصبي الحمد لله قد خرجت من النار مسرورة فأكل فقال أبو الربيع فصح عندي هذا الخبر النبوي وكشف هذا الصبي فمثل هذا الخبر وإن ضعيفا لكن يجوز العمل به في فضائل الأعمال سيما في تأييد نص ولم يخالف القياس ولهذا وقع في عمل بعض ووصاياه كملا خسرو وابن الكمال ووقع في مشكاة الأنوار وفي بعض مصنفات الشيخ عبد الرحمن البسطامي وأيضا بعض الثقة عن بعض كتب علي القاري فالأولى أن يأتي ذلك لنفسه أو لغيره لكن بلا أجرة ولو أعطي على طريق الصلة بلا عقد لجاز لكن الأولى عدمه أيضا؛ لأن ذلك قد يكون متعارفا والمعروف عرفًا كالمشروط شرطًا."
ترجمہ:
"...کہا جاتا ہے کہ ستر ہزار بار 'لا إله إلا الله' پڑھنا (جیسا کہ محی الدین ابن عربی سے منقول ہے) ایک مشہور عمل ہے۔ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اس پر عمل کرتے رہو تاکہ تم اپنے آپ کو اللہ سے اپنی گردن کو آگ سے آزاد کرانے کے عوض خرید لو۔ جو شخص ستر ہزار بار 'لا إله إلا الله' پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کی گردن کو آگ سے آزاد فرما دیتا ہے یا اس شخص کی گردن کو جو یہ ذکر کرے۔
اس سلسلے میں ایک نبوی اثر بھی منقول ہے۔ مجھے ابو العباس احمد بن علی القسطلانی نے بتایا کہ شیخ ابو الربیع المالقی ایک طعام کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، اور انہوں نے یہ ذکر کیا تھا۔ اس مجلس میں ایک صاحبِ کشف نوجوان بھی موجود تھا۔ جب اس نے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھایا تو رونے لگا اور کہنے لگا: 'میں نے اپنی ماں کو جہنم میں دیکھا ہے۔' ابو الربیع نے دل میں کہا: 'میں یہ تہلیل اس نوجوان کی ماں کی آزادی کے لیے ہبہ کرتا ہوں۔' اتنے میں لڑکا بولا: 'الحمد للہ! میری ماں آگ سے نکل گئی اور خوشی سے جنت میں داخل ہو گئی۔' پھر اس نے کھانا کھایا۔ ابو الربیع نے کہا: 'اس سے مجھ پر یہ نبوی اثر سچا ثابت ہوا، اور اس لڑکے کے کشف کی صداقت بھی واضح ہوئی۔' اگرچہ یہ اثر ضعیف ہے، لیکن فضائل اعمال میں اس پر عمل جائز ہے، خاص کر جب یہ کسی نص کی تائید کرے اور قیاس کے خلاف نہ ہو۔ اسی لیے یہ عمل بعض اولیاء جیسے ملا خسرو، ابن الکمال، 'مشکاة الانوار' اور شیخ عبد الرحمن البسطامی کی بعض تصانیف میں مذکور ہے۔ نیز علی القاری نے بھی اپنی کتب میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ یہ عمل اپنے لیے یا کسی اور کے لیے بلا معاوضہ کیا جائے۔ اگر کوئی ہدیہ دے تو بھی جائز ہے، لیکن بہتر یہی ہے کہ اس سے بھی اجتناب کیا جائے، کیونکہ یہ معروف نہیں، اور معروف چیز شرط کے برابر ہوتی ہے۔"
[بريقة محمودية:2/ 99. مطبعة الحلبي، الطبعة: 1348هـ ]
---
*خلاصة الأثر فی أعیان القرن الحادی عشر (از محمد امین بن فضل اللہ المحبی، متوفی 1111ھ) میں ہے:*
"قال: وكان الوالد يجمع جماعة يسبحون ألف تسبيحة يهديها لبعض الأموات ويهللون سبعين ألف تهليلة يهديها لبعضهم وكان أهل تريم يعتنون بهذا ويوصي بعضهم بمال لذلك وكان هو المتصدي لذلك والقائم به، وهذا المذكور تداوله الصوفية قديمًا وحديثًا وأوصى بعضهم بالمحافظة عليه وذكروا الله تعالى يعتق به رقبة من أهدى له، وأنه ورد في الحديث.
وذكر الإمام الرافعي أن شابًا كان من أهل الكشف ماتت أمه فبكى وصاح فسئل عن ذلك، فقال: إن أمي ذهبوا بها إلى النار، وكان بعض الإخوان حاضرا فقال اللهم إني قد هللت سبعين ألف تهليلة وإني أشهدك إني قد أهديتها الأم هذا الشاب فقال أخرجوا أمي من النار وأدخلوها الجنة قال المهدي المذكور فحصل لي صدق الخبر وصدق كشف الشاب ولكن قال ابن حجر أن الخبر المذكور وهو من قال لا إله إلا الله سبعين ألفا فقد اشترى نفسه من النار باطل موضوع قال الحافظ النجم الغيطي: لكن ينبغي للشخص أن يفعل ذلك اقتداء بالسادة الصوفية وامتثالا لأقوال من أوصى به وتبركا بأفعالهم وقد ذكره الولي العارف بالله تعالى سيدي محمد بن عراق في بعض رسائله قال وكان شيخه يأمر به وإن بعض إخوانه يهلل السبعين ألف ما بين الفجر وطلوع الشمس قال: وهذه كرامة من الله تعالى، وأما التسبيح فله أصل فقد أخرج الطبراني في الأوسط والخرائطي عن ابن عباس أنه قال: من قال إذا أصبح سبحان الله وبحمده ألف مرة فقد اشترى نفسه من الله وكان آخر يومه عتيق الله. قال النجم الغيطي وهذه فائدة عظيمة فينبغي أن يحافظ عليها."
ترجمہ:
"کہا گیا ہے کہ میرے والد ایک جماعت کو جمع کرتے تھے جو ایک ہزار تسبیحات پڑھ کر بعض اموات کو ہدیہ کرتے، اور ستر ہزار تہلیلات پڑھ کر بعض کو بخش دیتے۔ اہل ترم اس کی بہت قدر کرتے تھے، اور بعض اس کے لیے مال بھی وصیت کرتے تھے۔ یہ عمل صوفیاء میں قدیم و جدید رائج رہا ہے۔ بعض نے اس کی پابندی کی وصیت کی ہے، اور کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس شخص کی گردن کو آزاد کر دیتا ہے جس کے لیے یہ ہدیہ کیا جائے۔
امام رافعی نے ذکر کیا کہ ایک صاحبِ کشف نوجوان کی ماں فوت ہوئی تو وہ رونے لگا۔ جب اس سے وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا: 'میری ماں کو جہنم میں لے جایا جا رہا ہے۔' مجلس میں موجود ایک شخص نے کہا: 'اے اللہ! میں نے ستر ہزار تہلیلات پڑھی ہیں، اور میں تجھے گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں یہ اس نوجوان کی ماں کے لیے ہدیہ کرتا ہوں۔' اتنے میں لڑکا بولا: 'میری ماں کو جہنم سے نکال لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا۔' راوی نے کہا: 'اس سے مجھے اس خبر کی سچائی اور نوجوان کے کشف کی صداقت کا یقین ہو گیا۔' لیکن ابن حجر نے کہا کہ یہ خبر ('جو ستر ہزار بار لا إله إلا الله پڑھے، وہ اپنے آپ کو آگ سے خرید لے') باطل اور موضوع ہے۔ حافظ نجم الغیطی نے کہا: 'لیکن انسان کو چاہیے کہ وہ اسے سادات صوفیاء کی اقتدا اور ان کے اقوال کی پیروی میں پڑھے۔' تسبیح کا ایک اصل موجود ہے، جیسا کہ طبرانی اور خرائطی نے ابن عباس سے روایت کیا کہ جو شخص صبح کے وقت 'سبحان اللہ وبحمدہ' ایک ہزار بار پڑھے، وہ اپنے آپ کو اللہ سے خرید لیتا ہے۔"
[خلاصة الأثر:1/ 73، دارصادر، بيروت]
---
*علامہ ابن عابدین شامی (1252ھ) لکھتے ہیں:*
"و لاينبغي للإنسان أن يغفل عن العَتَاقة المعروفة بين الناس ، وهي قراءة (قل هو اللّٰه أحد) فقد ورد فيها أحاديثُ كثيرة ... ويحمل هذا على من اتفق له قراءة هذا العدد في عمره كله أو قرئ له بنية خالصة، والذي عليه أهل الشريعة والصوفية: أن المراد من أمثال تلك الأحاديث ما يعم الاستنابة والمباشرة، وقد علمنا ذلك من عمل الفريقين بحديث الاستخارة ...وكذلك عملُ الناس على قول ( لا إله إلا الله ) سبعين ألفًا، واستحسنه العلماء ، ويأتي ما ذكره الشيخ اليافعي والسَّنوسي مما يقويه."
ترجمہ:
"انسان کو چاہیے کہ وہ 'عتاقہ' (آزاد کرانے کے لیے قراءت) سے غافل نہ رہے، جیسا کہ 'قل ھو اللہ احد' کی تلاوت مشہور ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی احادیث آئی ہیں... یہ اسی پر منطبق ہوتا ہے جس نے اپنی زندگی میں یہ عدد پڑھ لیا ہو یا اس کی نیت خالص ہو۔ اہل شریعت اور صوفیاء کا موقف یہ ہے کہ ایسی احادیث میں نائب اور مباشر دونوں شامل ہیں، جیسا کہ ہم استخارہ کی حدیث پر عمل سے جانتے ہیں... اسی طرح لوگ 'لا إله إلا الله' ستر ہزار بار پڑھتے ہیں، اور علماء نے اسے اچھا سمجھا ہے۔ شیخ یافعی اور سنوسی نے بھی اس کی تائید میں کچھ ذکر کیا ہے۔"
[مجموع رسائل ابن عابدین، 1/226،229، رشیدیہ کوئٹہ]
---
*مجموع فتاوی ابن تیمیہ (652ھ) میں ہے:*
"سئل: عمن «هلّل سبعين ألف مرة، وأهداه للميت، يكون براءة للميت من النار» حديث صحيح؟ أم لا؟ وإذا هلّل الإنسان وأهداه إلى الميت يصل إليه ثوابه، أم لا؟
الجواب: إذا هلل الإنسان هكذا: سبعون ألفا، أو أقل، أو أكثر. وأهديت إليه نفعه الله بذلك، وليس هذا حديثا صحيحا، ولا ضعيفا. والله أعلم."
ترجمہ:
"سوال: کیا جو شخص ستر ہزار بار 'لا إله إلا الله' پڑھے اور اسے میت کو ہدیہ کرے، تو کیا یہ میت کے لیے جہنم سے آزادی کا سبب بن جاتا ہے؟ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اور کیا انسان کا پڑھا ہوا ثواب میت کو پہنچتا ہے؟
جواب: اگر کوئی شخص ستر ہزار بار یا اس سے کم یا زیادہ تہلیل پڑھے اور اسے میت کو ہدیہ کرے، تو اللہ تعالیٰ اس سے فائدہ پہنچاتا ہے۔ لیکن یہ نہ تو صحیح حدیث ہے، نہ ضعیف۔ واللہ اعلم۔"
[مجموع الفتاوی، 3/38، دار الکتب العلمیہ، 1408ھ]
---
*الفروق للقرافی (684ھ) میں ہے:*
"و كذلك التهليل الذي عادة الناس يعملونه اليوم ينبغي أن يعمل ويعتمد في ذلك على فضل الله تعالى وما ييسره ويلتمس فضل الله بكل سبب ممكن ومن الله الجود والإحسان هذا هو اللائق بالعبد."
ترجمہ:
"اسی طرح تہلیل، جسے آج کل لوگ کرتے ہیں، اس پر عمل کرنا چاہیے، اور اللہ کے فضل پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ بندے کو چاہیے کہ وہ ہر ممکن ذریعے سے اللہ کا فضل تلاش کرے، کیونکہ اللہ ہی جود و کرم کرنے والا ہے۔"
[الفروق، 3/194، عالم الکتب]
---
*شیخ محمد بن احمد نجم الدین الغیطی (981ھ) لکھتے ہیں:*
"و قد وقفت على صورة سوال للحافظ ابن حجر رحمه الله تعالى عن هذا الحديث: وهو من قال: لا إله إلا الله سبعين ألفاً؛ اشترى نفسه من الله تعالى، هل هو حديث صحيح أو حسن أو ضعيف؟ وصورة جوابه: أما الحديث يعني: المذكور: فليس بصحيح ولا حسن ولا ضعيف، بل هو باطل موضوع، لا تحل روايته إلا مقروناً ببيان حاله إنتهى. لكن ينبغي للشخص أن يفعلها اقتداءً بالسادة الصوفية، وامتثالاً لقول من أوصى بها، وتبركاً بأفعالهم."
ترجمہ:
"میں نے حافظ ابن حجر کا ایک سوال دیکھا جس میں ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تھا: 'جو ستر ہزار بار لا إله إلا الله پڑھے، وہ اپنے آپ کو اللہ سے خرید لیتا ہے'—کیا یہ حدیث صحیح، حسن یا ضعیف ہے؟ ان کا جواب تھا: 'یہ حدیث نہ صحیح ہے، نہ حسن، نہ ضعیف، بلکہ یہ باطل اور موضوع ہے۔ اسے بیان کیے بغیر روایت کرنا جائز نہیں۔' لیکن انسان کو چاہیے کہ وہ اسے سادات صوفیاء کی اقتدا اور ان کے اقوال کی پیروی میں پڑھے۔"
[الابتهاج، ص:6-7، المکتبة الرقمیة العالمیة]
---
*ایک ضعیف روایت میں ہے:*
"وعن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : إن لله تبارك وتعالى عمودا من نور بين يدي العرش فإذا قال العبد : لا إله إلا الله اهتز ذلك العمود فيقول الله تبارك وتعالى : اسكن فيقول : كيف أسكن ولم تغفر لقائلها ؟ فيقول : إني قد غفرت له فيسكن عند ذلك."
ترجمہ:
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 'اللہ تعالیٰ کے پاس عرش کے سامنے ایک نور کا ستون ہے۔ جب بندہ 'لا إله إلا الله' کہتا ہے تو وہ ستون ہلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 'ساکن ہو جا۔' وہ کہتا ہے: 'میں کیسے ساکن ہو جاؤں جب تک تو اس کے قائل کو معاف نہیں کرتا؟' اللہ فرماتا ہے: 'میں نے اسے معاف کر دیا۔' تب وہ ساکن ہو جاتا ہے۔'"
[رواه البزار، وفيه عبد الله بن إبراهيم بن أبي عمرو، وهو ضعيف جدا . كما في المجمع في «باب ما جاء في فضل لا إله إلا الله » (10/ 88)،ط. دار الفكر، بيروت، 1412هـ]
---
*حضرت عروہ بن مسعود الثقفی سے مروی ہے:*
"عن عروه بن مسعود الثقفي قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: لقنوا موتاكم لا اله الا الله ؛ فانها تهدم الخطايا كما يهدم السيل البنيان، قيل: يا رسول الله! كيف هي للاحياء؟ قال: هي للاحياء أهدم وأهدم."
ترجمہ:
"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 'اپنے مرنے والوں کو 'لا إله إلا الله' کی تلقین کرو، کیونکہ یہ گناہوں کو اس طرح گرادیتی ہے جیسے سیل بنیادوں کو بہا لے جاتا ہے۔' عرض کیا گیا: 'یا رسول اللہ! زندوں کے لیے یہ کیسی ہے؟' آپ نے فرمایا: 'زندوں کے لیے تو یہ اور بھی زیادہ گرانے والی ہے۔'"
[أخرجه أبو نعيم في معرفة الصحابة في ترجمة «عروة بن مسعود الثقفي» (ص:2189) برقم (2281)،ط. دار الوطن للنشرالسعودية، الطبعة الأولى: 1419هـ = 1998م]
No comments:
Post a Comment