Tuesday, 21 December 2021

تہلیل - یعنی اللہ کا ذکر کرنے - مراد لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ کہنے - کے معنی، تشریح اور فضائل

 Islamic Affirmation:

A lullaby type remembrance with cheer and acclamation.

تَھلِیل - یعنی خوشی اور جلال کا نعرہ۔
یعنی لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ کہنا۔

لَا = نہیں ہے
إِلَهَ = کوئی خدا-معبود (عبادت یعنی سجدہ-نیاز-پکارے جانے وغیرہ کے قابل)
إِلَّا ‌اللَّهُ = سوائے اللہ کے۔



ایک مرتبہ یہ کلمہ توحید کہنے کی فضیلت:
اللہ کے آخری پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لوگوں میں اعلان کردو: جس نے کہا: نہیں ہے کوئی اِلٰه(خدا-معبود) سوا اللہ کے، وہ داخل ہوگا جنت میں۔
[صحيح ابن حبان:151]
تفسیر سورۃ النساء:48، محمد:16






القرآن:
ان کا حال یہ تھا کہ جب ان سے یہ کہا جاتا کہ ﴿اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں﴾ تو یہ اکڑ دکھاتے تھے۔
[سورۃ نمبر 37 الصافات، آیت نمبر 35]

لہذا یقین جانو کہ ﴿اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے﴾ اور اپنے قصور پر بھی بخشش کی دعا مانگتے رہو، اور مسلمان مردوں اور عورتوں کی بخشش کی بھی(بخشش مانگو)، اور اللہ تم سب کی نقل و حرکت اور تمہاری قیام گاہ کو خوب جانتا ہے۔
[سورۃ نمبر 47 محمد، آیت نمبر 19]






حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الطَّالْقَانِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ مُبَارَكٍ عَنْ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَسْتَخْلِصُ رَجُلًا مِنْ أُمَّتِي عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَنْشُرُ عَلَيْهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ سِجِلًّا كُلُّ سِجِلٍّ مَدَّ الْبَصَرِ ثُمَّ يَقُولُ لَهُ أَتُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا أَظَلَمَتْكَ كَتَبَتِي الْحَافِظُونَ قَالَ لَا يَا رَبِّ فَيَقُولُ أَلَكَ عُذْرٌ أَوْ حَسَنَةٌ فَيُبْهَتُ الرَّجُلُ فَيَقُولُ لَا يَا رَبِّ فَيَقُولُ بَلَى إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَةً وَاحِدَةً لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ فَتُخْرَجُ لَهُ بِطَاقَةٌ فِيهَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَيَقُولُ أَحْضِرُوهُ فَيَقُولُ يَا رَبِّ مَا هَذِهِ الْبِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلَّاتِ فَيُقَالُ إِنَّكَ لَا تُظْلَمُ قَالَ فَتُوضَعُ السِّجِلَّاتُ فِي كَفَّةٍ قَالَ فَطَاشَتْ السِّجِلَّاتُ وَثَقُلَتْ الْبِطَاقَةُ وَلَا يَثْقُلُ شَيْءٌ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
ترجمہ:
حضرت ابن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن اللہ ساری مخلوق کے سامنے میرے ایک امتی کو باہر نکالے گا اور اس کے سامنے ننانوے رجسڑ کھولے گا جن میں سے ہر رجسڑ تاحد نگاہ ہوگا اور اس سے فرمائے گا کیا تو ان میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے؟ کیا میرے محافظ کاتبین نے تجھ پر ظلم کیا ہے۔؟ وہ کہے گا نہیں اے پروردگار اللہ فرمائے گا کیا تیرے پاس کوئی عذر یا کوئی نیکی ہے؟ وہ آدمی مبہوت ہو کر کہے گا نہیں اے پروردگار اللہ فرمائے گا کیوں نہیں ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے آج تجھ پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا چناچہ کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا جائے گا جس میں یہ لکھا ہوگا کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ فرمائے گا اسے میزان عمل کے پاس حاضر کرو وہ عرض کرے گا کہ پروردگار کاغذ کے اس پرزے کا اتنے بڑے رجسڑوں کے ساتھ کیا مقابلہ؟ اس سے کہا جائے گا کہ آج تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا چناچہ ان رجسڑوں کو ایک پلڑے میں رکھا جائے گا ان کا پلڑا اوپر ہوجائے گا اور کاغذ کے اس پرزے والا پلڑا جھک جائے گا کیونکہ اللہ کے نام سے زیادہ بھاری کوئی چیز نہیں جو رحمان بھی ہے اور رحیم بھی ہے۔
[مسند احمد:(6699)]





حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ أَنَّ نَوْفًا وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ الْعَاصِي اجْتَمَعَا فَقَالَ نَوْفٌ لَوْ أَنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا فِيهِمَا وُضِعَ فِي كِفَّةِ الْمِيزَانِ وَوُضِعَتْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فِي الْكِفَّةِ الْأُخْرَى لَرَجَحَتْ بِهِنَّ وَلَوْ أَنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا فِيهِنَّ كُنَّ طَبَقًا مِنْ حَدِيدٍ فَقَالَ رَجُلٌ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ لَخَرَقَتْهُنَّ حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ فَعَقَّبَ مَنْ عَقَّبَ وَرَجَعَ مَنْ رَجَعَ فَجَاءَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ كَادَ يَحْسِرُ ثِيَابَهُ عَنْ رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ أَبْشِرُوا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ هَذَا رَبُّكُمْ قَدْ فَتَحَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ السَّمَاءِ يُبَاهِي بِكُمْ الْمَلَائِكَةَ يَقُولُ هَؤُلَاءِ عِبَادِي قَضَوْا فَرِيضَةً وَهُمْ يَنْتَظِرُونَ أُخْرَى
ترجمہ:
حضرت ابن عمرو ؓ اور نوف کسی مقام پر جمع ہوئے، نوف کہنے لگے کہ اگر آسمان و زمین اور ان کے درمیان موجود تمام چیزوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور لاالہ الا اللہ کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو یہ دوسرا پلڑا جھک جائے گا، اگر آسمان و زمین اور ان میں موجود تمام چیزیں لوہے کی سطح بن جائیں اور ایک آدمی لاالہ اللہ اللہ کہہ دے تو یہ کلمہ لوہے کی ان تمام چادروں کو پھاڑتے ہوئے اللہ کے پاس پہنچ جائے۔ حضرت ابن عمرو ؓ کہنے لگے کہ ہم لوگوں نے ایک دن مغرب کی نماز نبی کریم ﷺ کے ساتھ ادا کی، جانے والے چلے گئے اور بعد میں آنے والے بعد میں آئے نبی کریم ﷺ اس حال میں تشریف لائے کہ آپ ﷺ کے کپڑے گھٹنوں سے ہٹنے کے قریب تھے اور فرمایا اے گروہ مسلمین تمہیں خوشخبری ہو تمہارے رب نے آسمان کا ایک دروازہ کھولا ہے اور وہ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر فرما رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرے ان بندوں نے ایک فرض ادا کردیا ہے اور دوسرے کا انتظار کر رہے ہیں۔
[مسند احمد:6583(6462)]





حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ حَدَّثَنَا أَبِي سَمِعْتُ الصَّقْعَبَ بْنَ زُهَيْرٍ يُحَدِّثُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيٌّ عَلَيْهِ جُبَّةٌ مِنْ طَيَالِسَةٍ مَكْفُوفَةٌ بِدِيبَاجٍ أَوْ مَزْرُورَةٌ بِدِيبَاجٍ فَقَالَ إِنَّ صَاحِبَكُمْ هَذَا يُرِيدُ أَنْ يَرْفَعَ كُلَّ رَاعٍ ابْنِ رَاعٍ وَيَضَعَ كُلَّ فَارِسٍ ابْنِ فَارِسٍ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا فَأَخَذَ بِمَجَامِعِ جُبَّتِهِ فَاجْتَذَبَهُ وَقَالَ لَا أَرَى عَلَيْكَ ثِيَابَ مَنْ لَا يَعْقِلُ ثُمَّ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ فَقَالَ إِنَّ نُوحًا عَلَيْهِ السَّلَام لَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ دَعَا ابْنَيْهِ فَقَالَ إِنِّي قَاصِرٌ عَلَيْكُمَا الْوَصِيَّةَ آمُرُكُمَا بِاثْنَتَيْنِ وَأَنْهَاكُمَا عَنْ اثْنَتَيْنِ أَنْهَاكُمَا عَنْ الشِّرْكِ وَالْكِبْرِ وَآمُرُكُمَا بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَإِنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا فِيهِمَا لَوْ وُضِعَتْ فِي كِفَّةِ الْمِيزَانِ وَوُضِعَتْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فِي الْكِفَّةِ الْأُخْرَى كَانَتْ أَرْجَحَ وَلَوْ أَنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا حَلْقَةً فَوُضِعَتْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَلَيْهَا لَفَصَمَتْهَا أَوْ لَقَصَمَتْهَا وَآمُرُكُمَا بِسُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ فَإِنَّهَا صَلَاةُ كُلِّ شَيْءٍ وَبِهَا يُرْزَقُ كُلُّ شَيْءٍ
ترجمہ:
حضرت ابن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک دیہاتی آدمی آیا جس نے بڑا قیمتی جبہ جس پر دیباج و ریشم کے بٹن لگے ہوئے تھے پہنا ہوا تھا نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے اس ساتھی نے تو مکمل طور پر فارس ابن فارس (نسلی فارسی آدمی) کی وضع اختیار کر رکھی ہے ایسا لگتا ہے کہ جسے اس کے یہاں فارسی نسل کے ہی بچے پیدا ہوں گے اور چرواہوں کی نسل ختم ہوجائے گی پھر نبی کریم ﷺ نے اس کے جبے کو مختلف حصوں سے پکڑ کر جمع کیا اور فرمایا کہ میں تمہارے جسم پر بیوقوفوں کالباس نہیں دیکھ رہا؟ پھر فرمایا اللہ کے نبی حضرت نوح (علیہ السلام) کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ میں تمہیں ایک وصیت کررہاہوں جس میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں اور دو باتوں سے روکتا ہوں حکم تو اس بات کا دیتاہوں کہ لاالہ الا اللہ کا اقرار کرتے رہنا کیونکہ اگر ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھاجائے اور لاالہ الا اللہ کو دوسرے پلڑے میں تو لاالہ الا اللہ والا پلڑا جھک جائے گا اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمین ایک مبہم حلقہ ہوتیں تو لاالہ الا اللہ انہیں خاموش کرا دیتا اور دوسرا یہ کہ و سبحان اللہ وبحمدہ کا ورد کرتے رہنا کہ یہ ہر چیز کی نماز ہے اور اس کے ذریعے مخلوق کو رزق ملتا ہے۔
[مسند احمد:(6804)، حاکم:154، الصحیحہ:134]

تفسیر ابن کثیر:
ساتوں آسمان اور زمین اور ان کی ساری مخلوقات اس کی پاکی بیان کرتی ہیں، اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، لیکن تم لوگ ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا بردبار، بہت معاف کرنے والا ہے۔
[سورۃ الإسراء،آیت نمبر 44]


تفسیر الدر المنثور:
انہوں نے کہا کہ : اے نوح ! تم ہم سے بحث کرچکے، اور بہت بحث کرچکے۔ اب اگر تم سچے ہو تو لے آؤ وہ (عذاب) جس کی دھکمی ہمیں دے رہے ہو۔
[سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 32]





کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کی خاص فضیلت


اللہ عزوجل کے ذکر کرنے کے ثواب کا بیان


(۳۰۰۷۶) حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ آدَمَ ، عَن مُفَضَّلٍ ، عَن مَنْصُورٍ ، عَن مُجَاہِدٍ ، عَنْ أَبِی بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الحارث بن ہِشَامٍ ، عَن کَعْبٍ ، قَالَ : قَالَ مُوسَی : یَا رَبِّ دُلَّنِی عَلَی عَمَلٍ إذَا عَمِلْتہ کَانَ شُکْرًا لَکَ فِیمَا اصْطَنَعْت إلَیَّ ، قَالَ : یَا مُوسَی قُلْ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ، أَوْ قَالَ : لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ، قَالَ : فَکَأَنَّ مُوسَی أَرَادَ مِنَ الْعَمَلِ مَا ہُوَ أَنْہَکُ لِجِسْمِہِ مِمَّا أُمِرَ بِہِ ، قَالَ : فَقَالَ لَہُ : یَا مُوسَی لَوْ أَنَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعَ وَالأَرْضِینَ السَّبْعَ وُضِعَتْ فِی کِفَّۃٍ ، وَوُضِعَتْ لاَ إلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فِی کِفَّۃٍ لَرَجَحَتْ بِہِنَّ۔
ترجمہ:
حضرت کعب فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ نے عرض کیا: اے میرے رب! میری راہنمائی فرما دیں کسی ایسے عمل کی جانب جب میں اس عمل کو کروں تو یہ میری طرف سے آپ کا شکر ہوجائے ان تمام کاموں کے بدلے جو آپ نے میرے ساتھ بھلائی کے کیے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: اے موسیٰ! تم یہ کلمات پڑھ لیا کرو! اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں یا یوں ارشاد فرمایا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اس ہی کا ملک ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے۔ اور وہ ہرچیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ حضرت کعب فرماتے ہیں۔ گویا حضرت موسیٰ کوئی ایسا عمل چاہ رہے تھے کہ جس چیز کا حکم دیا جائے وہ ان کے جسم کو بہت زیادہ تھکا دے۔ حضرت کعب فرماتے ہیں کہ پس اللہ نے ان سے ارشاد فرمایا: اے موسیٰ! اگر ساتوں آسمانوں کو اور ساتوں زمینوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور کلمہ طیبہ ( اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ) اس کے دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو کلمہ والا پلڑا جھک جائے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ:30075(30076)]





عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ مُوسَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَبِّ عَلِّمْنِي شَيْئًا أَذْكُرُكَ بِهِ، أَوْ أَدْعُوكَ بِهِ. فَقَالَ: يَا مُوسَى، قُلْ: لَا إِلَهَ إِلا اللَّهُ. فَقَالَ: يَا رَبِّ، كُلُّ عِبَادِكَ يَقُولُ هَذَا، إِنَّمَا أُرِيدُ شَيْئًا تَخُصُّنِي بِهِ. قَالَ: يَا مُوسَى، لَوْ أَنَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعَ وَعَامِرَهُنَّ غَيْرِي، وَالأَرَضِينَ السَّبْعَ وُضِعْنَ فِي كِفَّةٍ، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ فِي كِفَّةٍ، لَمَالَتْ بِهِنَّ لَا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ".
ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ: "اللہ کے نبی موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرض کیا کہ اے میرے رب مجھ کو کوئی کلمہ تعلیم فرما جس کے ذریعے میں تیرا ذکر کروں (یا کہا کہ جس کے ذریعے میں تجھے پکاروں) تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ 
اے موسیٰؑ! لاالہ الا اللّٰہ کہا کرو۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے رب! یہ کلمہ تو تیرے سارے ہی بندے کہتے ہیں، میں تو وہ کلمہ چاہتا ہوں جو آپ خصوصیت سے مجھے ہی بتائیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: اے موسیٰؑ! اگر ساتوں آسمان اور میرے سواوہ سب کائنات جس سے آسمانوں کی آبادی ہے اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھی جائیں اور لاالہ الا اللّٰہ دوسرے پلڑے میں تو لاالہ الا اللّٰہ کا وزن ان سب سے زیادہ ہوگا۔
(شرح السنہ للبغوی)

تشریح
موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بندگی اور محبت کا جو خاص تعلق تھا اور اس کی بناء پر قربِ خصوصی کی جو قدرتی خواہش تھی اسی کی وجہ سے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے استدعا کی کہ مجھے ذکر کا کوئی خاص کلمہ تعلیم فرمایا جائے، اللہ تعالیٰ نے ان کو لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ بتایا جو افضل الذکر ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ میری استدعا کسی خاص کلمہ کے لئے ہے جس سے مجھے ہی نوازا جائے۔ الغرض کلمہ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ کا عموم اس کی قدر و قیمت اور عظمت کے بارے میں ان کے لئے حجاب بن گیا۔ اس لئے ان کو بتایا گیا کہ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ کی حقیقت زمین و آسمان کی ساری کائنات کے مقابلے میں زیادہ قیمتی اور بھاری ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت عامہ ہے کہ اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ یہ نعمت عظمیٰ ہر عامی کو بھی پہنچا دی ہے۔ بہرکیف انبیاء و مرسلینؑ کے لئے بھی کوئی کلمہ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ سے زیادہ قیمتی اور بابرکت نہیں ہے۔ 
اس بے بہا نعمتِ خداوندی کا شکر یہی ہے کہ اس کلمہ پاک کو اپنا ورد بنایا جائے اور اس کی کثرت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے خاص رابطہ قائم کیا جائے۔










دَخَلْتُ الجَنَّةَ فَرَأيْتُ فِي عارِضَتِي الجَنَّةِ مَكْتُوباً ثلاثة أسطر بالذهب: السطر الأول لا إله إِلَّا الله محمَّدٌ رَسوُلُ الله والسَّطرُ الثَّانِي ما قدمنا وَجَدْنا وَمَا أكَلْنا رَبِحْنا وَمَا خَلَّفْنا خَسِرْنا والسَّطْرُ الثَّالِثُ أُمَّةٌ مُذْنِبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ.
[جامع الصغير:٦٧٠٧، جامع الاحادیث-السيوطي:١٢٢٧٥، كنزالعمال:١٠٣٩٥]






 


اِلٰه (خدا-معبود) کا قرآنی مفہوم:
اِلٰه کہتے ہیں جو سب کا خالق، کائنات کا نظام سنبھالنے والا، دعائیں سننے والا، تکلیفیں دور کرنے والا، سب کو ہدایت اور رزق دینے والا ہو۔
[حوالہ سورۃ النمل:60-64]


القرآن:
بھلا وہ کون ہے جو قبول کرتا بےقرار(مجبور ولاچار)کی (دعا)جب وہ پکارے اور دور کردیتا ہے تکلیف۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو کیا (پھر بھی تم کہتے ہو کہ) الله کے ساتھ کوئی اور اِلٰه ہے؟ بہت کم تم سمجھتے ہو۔
[سورة النمل:62]

یعنی وہ ہستی جو (1)پکارنے والوں کی غائبانہ پکار سنتی ہو اور (2)تکلیف دور کرنے پر قادر ہو۔۔۔وہی إِلَهَ ہے۔
لہٰذا
جو سب کے خالق ومالک الله کے علاؤہ کسی مخلوق میں یہ دو باتیں مانے وہ الله کے ساتھ مخلوق کو برابری کا درجہ دیتے حصہ دار اور شریک بناکر شرک جیسا خالق کے ساتھ عظیم ظلم کرتا ہے۔


کلمہ کی قرآنی تفسیر:
الله کے سوا کوئی اِلٰه نہیں
[دلائلِ قرآن-محمد:19،انبیاء:22]
۔۔۔یعنی۔۔۔
کوئی عبادت کے لائق نہیں
[فصلت:14]
کوئی غیب جاننے والا نہیں
[نمل:65]
کوئی گناہوں کا بخشنے والا نہیں
[آل عمران:135]
کوئی ڈرنے-ڈرانے کے لائق نہیں
[توبۃ:12،احزاب:39]
کوئی آسمانی فضا میں اڑتے پرندے تھامنےوالا نہیں
[نحل:79،ملک:19]
کوئی تکلیف دور ہٹانے-والا نہیں
[انعام:17،یونس:107]



کلمہ کی حدیثی تفسیر:
پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر فرض نماز کے بعد یہ پڑھا کرتے تھے: کوئی معبود نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے، ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں، اسی کی ہے بادشاہت اور اسی کیلئے ہے تعریف اور وہ ہر بات پر قادر ہے، اے اللہ جو کچھ تو دے، اس کو کئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کا کوئی دینے والا نہیں اور کوشش والے کی کوشش تیرے سامنے کچھ فائدہ نہیں دیتی۔ 
[صحیح بخاری»حدیث#844]

نہیں ہے کوئی گناہوں کا بخشنے والا سوائے تیرے
[بخاری:834]


نہیں ہے کوئی شفا دینے والا سوائے تیرے
[بخاری:5742]

نہیں ہے کوئی کاشف(یعنی تکلیف ٹالنے والا) سوائے تیرے۔
[بخاری:5744]

نہیں ھدایت دیتا بہتر اخلاق کی سوائے تیرے۔۔۔نہیں دور کرتا ہے برے اخلاق سے سوائے تیرے
[ابوداؤد:834]

نہیں لاتا کوئی بھلائی سوائے تیرے اور نہیں دفع کرتا ہے کوئی برائی سوائے تیرے
[جامع معمر بن راشد:19512]

نہیں ہے کوئی مالک ان دونوں(یعنی تیرے فضل اور تیری رحمت کے)سوائے تیرے۔
[مصنف ابن ابی شیبۃ:29579]

میری حق پر کوئی مدد نہیں کرسکتا سوائے تیرے، اور نہیں دے سکتا کوئی اسے سوائے تیرے۔
[ترمذی:3570]

نہیں ہے کوئی نحوست سوائے تیری طرف سے اور نہیں ہے کوئی خیر سوائے تیرے خیر کے۔
[مصنف ابن ابی شیبۃ:26411]










کلمہ کی فضیلت:
الله پاک کے آخری پیغمبر محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ
ترجمہ:
۔۔۔اور ہر تہلیل (یعنی لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ کہنا) بھی صدقہ(نیکی) ہے۔۔۔
[صحیح مسلم:720(2329)]

الله کے رسول ﷺ نے فرمایا:
جس نے کہا کہ: لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ، وہ داخل ہوگا جنت میں.
[صحیح (امام) ابن حبان(م354ھ) » کتاب الایمان » باب فرض الایمان » حدیث#169]
 تفسیر سورۃ النساء:48، 116

۔۔۔اس(کلمہ)کا اخلاص یہ ہے کہ یہ(کلمہ)اسے روک دے اللہ کی حرام کردہ باتوں سے.
[طبرانی:5074]

ہمیشہ کلمہ لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ اپنے پڑھنے والے کو نفع دیتا ہے اور اس سے عذاب و بلا دور کرتا ہے جب تک کہ اس کے حقوق سے بے پروائی نہ برتی جاۓ۔۔۔(یعنی)...الله کی نافرمانی کھلے طور پر کی جاۓ پھر نہ اس کا انکار کیا جاۓ اور نہ ہی ان کو روکنے/بدلنے کی کوشش کی جاۓ۔
[الترغیب-الاصبھانی:307]

میں ایسا کلمہ(یعنی لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ)جانتا ہوں کہ جو بھی اپنی موت کے وقت اُس کو پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اُس سے(موت کی)تکلیف دور کردے،اُس کا رنگ چمکنے لگے اور وہ خوش کردینے والا منظر دیکھے...
[الأسماء و الصفات للبیھقی:172]

”لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ“ اپنے پڑھنے والے کو کسی نہ کسی دن ضرور کام دےگا، اگرچہ اس سے پہلے اُسے(اپنے گناہوں کی وجہ سے)کچھ نہ کچھ سزا ملی ہو۔
[صحیح ابن حبان:3004]

جو بندہ بھی اخلاص کے ساتھ کہے: ”لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ“ تو اُس(کی دعاؤں)کیلئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ کلمہ عرشِ الٰہی تک جا پہنچتا ہے، بشرطیکہ(اس کا کہنے والا)کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے۔
[ترمذی:3590]

یہ ایسا کلمہ ہے کہ اس سے کوئی عمل آگے نہیں بڑھ سکتا اور یہ(پچھلے)کسی گناہ کو چھوڑتا نہیں ہے۔
[ابن ماجہ:3797]

اگر مرنے والا اسے(دل کے یقین سے)کہے تو(قیامت کے دن)وہ کلمہ اعمال ناموں کیلئے نور بن جاتا ہے، اور اس کا جسم اور روح موت کے وقت اس کی وجہ سے خوشی اور تروتازگی پاتے ہیں۔
[ابن ماجہ:3795]

اس سے اس کا چہرہ منور ہوجاتا ہے، اور الله اسے مصیبت سے کشادگی دیتا ہے۔‏
[احمد:1384]

جھنم حرام ہوجاتی ہے
‏[حاکم:1298]

جہنّم سے ہر اُس شخص کو نکال لو جس نے کہا ہو ”لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ“ اور اُس کے دل میں ایک ذَرَّہ برابر بھی ایمان ہو۔اور ہر اُس شخص کو نکال لو جس نے”لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ“کہا ہو،یا مجھے یاد کیا ہو،یا کسی موقعے پر مجھ سے ڈرا ہو۔
[ترمذی:2593، احمد:12772 حاکم:234]


کلمہ



روزانہ تھلیل کہنے کی تعداد اور فضیلت:

الله کے آخری پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:

وَهَلِّلِي اللهَ مِئَةَ تَهْلِيلَةٍ ۔۔۔ أَحْسِبُهُ قَالَ تَمْلَأُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَا يُرْفَعُ يَوْمَئِذٍ لِأَحَدٍ عَمَلٌ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَ بِمِثْلِ مَا أَتَيْتِ بِهِ.
ترجمہ:
اور سو(100)مرتبہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰه (یعنی نہیں ہے کوئی خدا سوائے الله کے) کہو،  یہ آسمان و زمین کو بھر دے گا، اس دن کسی شخص کا عمل اتنا بلند نہیں ہوگا سوائے اس شخص کے جو اسی طرح کہے۔
[السلسلة الأحاديث الصحيحة:1316]


 
.....لا تَذَرُ ذَنباً، ولا يَسبِقُها عَمَلٌ".
ترجمہ:
.....یہ(عمل) نہیں چھوڑتا کوئی گناہ، اور نہیں بڑھتا اس سے کوئی عمل۔
[صحيح الترغيب والترهيب:1553]



 
.....وَمِائَةً بِالْعَشِيِّ كَانَ كَمَنْ أَعْتَقَ مِائَةَ رَقَبَةٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيل
ترجمہ:
۔۔۔اور سو(100) بار "شام" کو بھی اللہ کی تہلیل  (یعنی لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ) کہے تو وہ ایسا ہو جائے گا گویا اس نے اولاد اسماعیل میں سے سو(100) غلام آزاد کئے۔۔۔
[ترمذی:3471]



 
مَا مِنْ عَبْدٍ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , مِائَةَ مَرَّةٍ إِلَّا بَعَثَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَوَجْهُهُ كَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ , وَلَمْ يُرْفَعْ لِأَحَدٍ يَوْمَئِذٍ عَمَلٌ أَفْضَلُ مِنْ عَمَلِهِ إِلَّا مَنْ قَالَ مِثْلَ قَوْلِهِ أَوْ زَادَ
ترجمہ:
جو بندہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ سو مرتبہ کہے تو اللہ پاک اس کو قیامت کے روز اس حال میں اٹھائیں گے کہ اس کا چہرہ چودھویں چاند کی مانند چمکتا ہوگا اور اس روز اس کے عمل سے بڑھ کر کسی کا عمل نہیں ہوسکتا، الایہ کہ کوئی اسی جیسا عمل کرے یا اس سے بھی زیادہ۔
[مسند الشاميين للطبراني:994]













جس شخص کا خاتمہ توحید پر ہو
 
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَعَافِرِيِّ ثُمَّ الْحُبُلِيّ،‏‏‏‏ قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  إِنَّ اللَّهَ سَيُخَلِّصُ رَجُلًا مِنْ أُمَّتِي عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَنْشُرُ عَلَيْهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ سِجِلًّا كُلُّ سِجِلٍّ مِثْلُ مَدِّ الْبَصَرِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ أَتُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا ؟ أَظَلَمَكَ كَتَبَتِي الْحَافِظُونَ ؟ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لَا يَا رَبِّ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ أَفَلَكَ عُذْرٌ ؟ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لَا يَا رَبِّ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَةً فَإِنَّهُ لَا ظُلْمَ عَلَيْكَ الْيَوْمَ، ‏‏‏‏‏‏فَتَخْرُجُ بِطَاقَةٌ فِيهَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ احْضُرْ وَزْنَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ يَا رَبِّ مَا هَذِهِ الْبِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلَّاتِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكَ لَا تُظْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَتُوضَعُ السِّجِلَّاتُ فِي كَفَّةٍ وَالْبِطَاقَةُ فِي كَفَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَطَاشَتِ السِّجِلَّاتُ وَثَقُلَتِ الْبِطَاقَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللَّهِ شَيْءٌ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَاابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ يَحْيَى بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏بِمَعْنَاهُ وَالْبِطَاقَةُ هِيَ الْقِطْعَةُ.
ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میری امت کے ایک شخص کو چھانٹ کر نکالے گا اور سارے لوگوں کے سامنے لائے گا اور اس کے سامنے  (اس کے گناہوں کے)  ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے، ہر دفتر حد نگاہ تک ہوگا، پھر اللہ عزوجل پوچھے گا: کیا تو اس میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے؟ کیا تم پر میرے محافظ کاتبوں نے ظلم کیا ہے؟ وہ کہے گا: نہیں اے میرے رب! پھر اللہ کہے گا: کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے؟ تو وہ کہے گا: نہیں، اے میرے رب! اللہ کہے گا  (کوئی بات نہیں)  تیری ایک نیکی میرے پاس ہے۔ آج کے دن تجھ پر کوئی ظلم  (و زیادتی)  نہ ہوگی، پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس پر «أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله»  میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد  ( ﷺ  )  اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں  لکھا ہوگا۔ اللہ فرمائے گا: جاؤ اپنے اعمال کے وزن کے موقع پر  (کانٹے پر)  موجود رہو، وہ کہے گا: اے میرے رب! ان دفتروں کے سامنے یہ پرچہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اللہ فرمائے گا: تمہارے ساتھ زیادتی نہ ہوگی۔ آپ  ( ﷺ  )  نے فرمایا: پھر وہ تمام دفتر  (رجسٹر)  ایک پلڑے میں رکھ دیئے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں، پھر وہ سارے دفتر اٹھ جائیں گے، اور پرچہ بھاری ہوگا۔  (اور سچی بات یہ ہے کہ)  اللہ کے نام کے ساتھ  (یعنی اس کے مقابلہ میں)  جب کوئی چیز تولی جائے گی، تو وہ چیز اس سے بھاری ثابت نہیں ہوسکتی ۔   
 امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔   
[سنن الترمذي: حديث نمبر 2639، سنن ابن ماجة:4300]

   













مرنے سے پہلے، زندگی بھر کے، بغیرمانگے، اللہ کے انعامات کا شکر ادا کرلو۔۔۔بےشک جنت میں داخلہ اللہ کی رحمت(رضا) ہی سے ہوگا، لیکن اعمال ہی (1)قیامت کے حساب، (2)جہنم کے عذاب اور (3)جنت میں سب سے نیچے پیچھے ہونے کی دائمی ندامت سے بچانے کا وسیلہ ہیں۔






No comments:

Post a Comment