Monday, 6 December 2021

سالگرہ Birthday کے شرعاً اور عقلاً ناجائز ہونے کے دلائل۔

 

یومِ میلاد منانا، جس کو (Birthday) ’برتھ ڈے‘ کہتے ہیں نہ کتاب وسنت سے ثابت ہے، نہ صحابہ کرامؓ اور سلفِ صالحینؒ کے عمل سے۔

شریعت نے بچوں کی پیدائش پر ساتویں دن عقیقہ رکھا ہے، جو مسنون ہے اور جس کا مقصد نسب کا پوری طرح اظہار اور خوشی کے اس موقع پر اپنے اعزہ و احباب اور غرباء کو شریک کرنا ہے۔ برتھ ڈے کا رواج اصل میں مغربی تہذیب کی ’بر آمدات میں سے ہے، جو حضرت مسیح علیہ السلام کا یومِ پیدائش بھی مناتے ہیں۔

آپ ﷺ نے دوسری قوموں کی مذہبی اور تہذیبی مماثلت اختیار کرنے کو ناپسند فرمایا ہے اس لیے جائز نہیں۔ مسلمانوں کو ایسے غیر دینی اعمال سے بچنا چاہئے۔

[جدید فقہی مسائل: ج1 / ص310]


غرباء ومساکین میں صدقہ کرنے کے بجائے غیرمستحقین پر فضول خرچی کرنا اسلامی نہیں کافرانہ تہذیب ہے۔


شرعی-عقلی دلیل:

(1)غیردینی باتوں سے اجتناب لازم ہے۔

الله پاک نے ارشاد فرمایا:

پھر (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں دین کی ایک خاص شریعت(طریقہ) پر رکھا ہے، لہذا تم اسی کی پیروی کرو، اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلنا جو حقیقت کا علم نہیں رکھتے۔

[سورۃ الجاثية، آیت#18]





شرعی-عقلی دلیل:

(2)  غیر مسلموں سے مماثلت اور غیر اسلامی تہذیب سے تاثر اور مشابہت۔

الله کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو شخص جس قوم کی مشابہت (یعنی ظاہری فضول طور طریقہ) اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہے۔
[سنن ابوداؤد:4033]

الله پاک نے فرمایا:
اے ایمان والو! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے کفر کیا۔۔۔۔
[سورۃ آل عمران:156]








(3)سالگرہ ایک فضول اور بے-مقصد خوشی ہے۔
سال گرہ کی خوشی ہی بے-معنی ہے کیونکہ انسان کی عمر حقیقتاً اس دنیا میں بڑھتی نہیں بلکہ گھٹتی ہے۔ کیا موت کے قریب ہونے کی خوشی منائی جاتی ہے؟
اگر عمر بڑھنے سے خوشی ہوتی تو لوگ اپنی عمر نہ چھپاتے یا کم ظاہر نہ کرتے۔


الله کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ "۔
ترجمہ:
کسی کے اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی (بےضرورت) کاموں کو ترک کردے۔
 (یعنی برے کام تو چھوڑنے ہی ہیں لیکن جن باتوں میں دنیا و آخرت کا کوئی فائدہ نہ ہو وہ بھی چھوڑو۔).

[سنن الترمذى:2317-2318 وقال: غريب. سنن ابن ماجه:3976 ، صحیح ابن حبان:229]

الله تعالیٰ نے فرمایا:
انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا، مگر اس پر ایک نگران مقرر ہوتا ہے، ہر وقت (لکھنے کے لیے) تیار۔
[سورۃ ق:18]
حالانکہ تم پر کچھ نگراں (فرشتے) مقرر ہیں ، وہ معزز لکھنے والے، جو تمہارے سارے کاموں کو جانتے ہیں۔
[سورۃ الانفطار:10-12]

اور ايک مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں۔  تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بےسمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں، اور اس کا مذاق اڑائیں۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔

[سورۃ لقمان: آیت#6]





(4)خلافِ ہدایت وخلافِ سنت عمل ہے۔

الله پاک نے فرمایا:
اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے (احکام کی) وضاحت کردے ، اور جو (نیک) لوگ تم سے پہلے گذرے ہیں ، تم کو ان کے طور طریقوں پر لے آئے ، اور تم پر (رحمت کے ساتھ) توجہ فرمائے ، اور اللہ ہر بات کا جاننے والا بھی ہے ، حکمت والا بھی ہے۔
[سورۃ النساء:26]

الله کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
سب سے اچھی بات کتاب اللہ اور سب سے اچھا طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے اور سب سے بری بات (دین میں) نئی بات نکالنا ہے۔ اور بلاشبہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ آ کر رہے گی، اور تم پروردگار سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔
[صحیح البخاری:7277]






(5)دیگر کبیرہ اور اعلانیہ گناہوں کا مجموعہ بھی ہے۔
جیسے: بےپردگی، موسیقی، تصویر سازی، اسراف وفضول خرچی وغیرہ

الله کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میری تمام امت کو معاف کیا جائے گا سوا گناہوں کو کھلم کھلا کرنے والوں کے اور گناہوں کو کھلم کھلا کرنے میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک شخص رات کو کوئی (گناہ کا) کام کرے اور اس کے باوجود کہ اللہ نے اس کے گناہ کو چھپا دیا ہے مگر صبح ہونے پر وہ کہنے لگے کہ اے فلاں! میں نے کل رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا۔ رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپائے رکھا، لیکن جب صبح ہوئی تو وہ خود اللہ کے پردے کو کھولنے لگا۔
[صحیح البخاری:6069]

الله پاک نے ارشاد فرمایا:
یاد رکھو کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں فحاشی(بری باتیں) پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
[سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 19]



القرآن:
اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور جن کو دنیوی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا ہے، اور اس (قرآن) کے ذریعے (لوگوں کو) نصیحت کرتے رہو، تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنے اعمال کے سبب اس طرح گرفتار ہوجائے کہ اللہ (کے عذاب) سے بچانے کے لیے اللہ کو چھوڑ کر نہ کوئی اس کا یارومددگار بن سکے نہ سفارشی، اور اگر وہ (اپنی رہائی کے لیے) ہر طرح کا فدیہ بھی پیش کرنا چاہے تو اس سے وہ قبول نہ کیا جائے۔ (چنانچہ) یہی (دین کو کھیل تماشا بنانے والے) وہ لوگ ہیں جو اپنے کیے کی بدولت گرفتار ہوگئے ہیں۔ چونکہ انہوں نے کفر اپنا رکھا تھا، اس لیے ان کے لیے کھولتے ہوئے پانی کا مشروب اور ایک دکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے۔
[سورۃ الأنعام، آیت#70]





No comments:

Post a Comment