نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کالے رنگ کی چادر اوڑھنا اور سیاہ عمامہ باندھنا ثابت ہے، البتہ مکمل کالا لباس پہننا ثابت نہیں، تاہم سیاہ لباس پہننے کی ممانعت کے حوالہ سے کوئی روایت بھی نہیں ملی، اس لیے فی نفسہ کالا لباس پہننا مرد و عورت دونوں کے لیے جائز ہے، لیکن اس زمانے میں خاص طور پر محرم کے مہینے میں کالے رنگ کا لباس پہننا روافض کا شعار بن چکا ہے، اس لیے جن ایام میں یہ لوگ سیاہ لباس پہنتے ہیں اس دوران اس طبقے کے ساتھ مشابہت سے بچنے کے لیے سیاہ لباس سے اجتناب لازم ہے، نیز فوتگی یا کسی غم کے موقع پر اظہارِ غم کے طور پر سیاہ لباس زیب تن کرنا بے اصل و بدعت ہے، جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
واللہ اعلم
فتوی نمبر :171798
تاریخ اجراء :Aug 7, 2019
کالے رنگ کے کپڑے پہننا جائز ہے بشرطیکہ کسی خاص رسم یا عقیدہ یا سوگ کی بنیاد پرنہ ہو، علامہ شامیؒ نے تو کالے رنگ کا لباس پہننے کو مستحب قرار دیا ہے، کیوں کہ نبی ﷺ سے سیاہ (کالے ) رنگ کا لباس پہننا ثابت ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ فتح مکہ والے دن جب نبی ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر کالا عمامہ تھا۔ [ترمذی:2813] ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی ﷺ ایک صبح گھر سے نکلے دراں حالیکہ آپ ﷺ پر کالے بالوں کی چادر تھی۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے لیے سیاہ چادر بنائی تو آپ ﷺ نے اسے زیب تن فرمایا۔ غرض فی نفسہ کالے رنگ کے کپڑے پہننے میں تو کوئی حرج نہیں ہے البتہ آج کے دور میں مکمل کالا لباس بعض اہل باطل کا شعار بن چکا ہے؛ اس لیے بہتر ہے کہ پورے کالے لباس سے جہاں تک ہوسکے احتیاط رکھیں،(خصوصاً جن دنوں میں وہ کالے لباس کا اہتمام کرتے ہیں ان دنوں میں تو بالکلیہ اجتناب کریں)؛ تاکہ ان کی مشابہت سے بچ جائیں، کیوں کہ فساق و فجار کی مشابہت اختیار کرنا شرعا ممنوع ہے۔
حوالہ جات
(1) حدثنا أحمد بن منيع، قال: حدثنا يحيى بن زكريا بن أبي زائدة قال: أخبرني أبي، عن مصعب بن شيبة، عن صفية بنت شيبة، عن عائشة، قالت: خرج النبي صلى الله عليه وسلم ذات غداة وعليه مرط من شعر أسود.هذا حديث حسن غريب صحيح".
[سنن الترمذي ت بشار (4/ 416): حدیث نمبر 2813 ، باب ما جاء في الثوب الأسود]
(2) حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا همام، عن قتادة، عن مطرف، عن عائشة، رضي الله عنها، قالت: " صنعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم بردة سوداء، فلبسها، فلما عرق فيها وجد ريح الصوف، فقذفها - قال: وأحسبه قال: - وكان تعجبه الريح الطيبة".وفي الحدیث جواز لبس السواد وهو متفق علیه.
[سنن أبي داود (4/ 54): حدیث نمبر 4074، باب في السواد]
[بذل المجهود، باب في السواد، دار البشائر الإسلامیة۱۲/۱۰۱، تحت رقم الحدیث۴۰۷۴، سهارنپور قدیم۵/۵۱]
(وندب لبس السواد)
(قوله: وندب لبس السواد)؛ لأن محمداً ذكر في السير الكبير في باب الغنائم حديثاً يدل على أن لبس السواد مستحب".
[الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 755)]
"وفي التتارخانية: ولا تعذر في لبس السواد، وهي آثمة إلا الزوجة في حق زوجها فتعذر إلى ثلاثة أيام. قال في البحر: وظاهره منعها من السواد تأسفاً على موت زوجها فوق الثلاثة".
[الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 533)]
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200094
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
No comments:
Post a Comment