Monday, 29 November 2021

گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کروانے والے تین (3) اعمال

اللہ پاک نے فرمایا:

ہاں مگر جو کوئی توبہ کرلے، ایمان لے آئے، اور نیک عمل کرے تو اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

[سورۃ الفرقان:70]

یعنی حالت کفر میں انہوں نے جو برے کام کیے تھے، وہ ان کے نامہ اعمال سے مٹا دئیے جائیں گے، اور اسلام لا کر جو نیک عمل کیے ہوں گے وہ ان کی جگہ لے لیں گے۔



(حديث قدسي) - حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي رَجَاءٍ الْمِصِّيصِيُّ ، قَالَ : ثنا وَكِيعٌ ، قَالَ : ثنا الأَعْمَشُ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يُؤْتَى بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، فَيُقَالُ : اعْرِضُوا عَلَيْهِ صِغَارَ ذُنُوبِهِ ، وَيَخْبَأُ عَنْهُ كِبَارُهَا ، فَيُقَالُ : عَمِلْتَ يَوْمَ كَذَا كَذَا وَكَذَا ، وَعَمِلْتَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا ، وَعَمِلْتَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا ثَلاثَ مَرَّاتٍ ، قَالَ : وَهُوَ مُقِرٌّ لَيْسَ بِمُنْكِرٍ ، وَهُوَ مُشْفِقٌ مِنَ الْكَبَائِرِ أَنْ تَجِيءَ ، قَالَ : فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا ، قَالَ : أَعْطُوهُ مَكَانَ كُلِّ سَيِّئَةٍ حَسَنَةً ، فَيَقُولُ : يَا رَبِّ إِنَّ لِي ذَنُوبًا مَا رَأَيْتُهَا هَاهُنَا ، فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ ، ثُمَّ تَلا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ (سورة الفرقان آية 70) .

ترجمہ :
(حدیث قدسی یعنی وہ حدیث ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں)
حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:
قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کے سامنے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو پیش کرو (چنانچہ اس کے سامنے صغیرہ گناہ لائے جائیں گے) اور کبیرہ گناہ چھپا لیے جائیں گے، اور اس سے کہا جائے گا کہ تم نے فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا اور  فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا اور فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا  اور فلاں فلاں دن ایسا ایسا کیا تھا تین مرتبہ۔
(آگے) فرمایا:
وہ ہر گناہ کا اقرار کرے گا کسی کا بھی انکار نہیں کرے گا اور کبیرہ گناہوں کے آنے کے خوف سے ڈر رہا ہوگا۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
پھر ارادہ فرمائے گا الله اس سے بھلائی کا، تو حکم ہوگا کہ ہر گناہ کے بدلے اسے ایک نیکی دے دو۔
وہ کہے گا کہ اے میرے رب! میرے بہت سے گناہ ایسے ہیں جنہیں ابھی تک میں نے دیکھا ہی نہیں ہے۔
حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ اس بات پر میں نے نبی کریم ﷺ کو اتنا ہنستے ہوئے دیکھا کہ دندانِ مبارک ظاہر ہوگئے۔
پھر (یہ آیت) نبی ﷺ نے تلاوت فرمائی:
۔۔۔سو ان کو بدل دے گا، اللہ برائیوں کی جگہ بھلائیاں اور ہے اللہ بخشنے والا مہربان.
(سورۃ الفرقان :70)
[المعجم الكبير للطبراني » ‌‌عَطَاءٌ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ » رقم الحديث: 11480+12501]
[تفسير الطبري(م310ھ):19/ 312-سورۃ الفرقان:70]
[تفسير البغوي-(م516ھ) «حدیث1573» ج3 / ص458 - إحياء التراث]
[تفسير الثعلبي، تفسير السمعاني، تفسير القرطبي، تفسير الخازن، تفسير ابن كثير]

نوٹ:
اس فضیلت کے حصول کیلئے تین(3) اعمال اور شرائط یہ ہیں:
(1)توبہ کرنا ۔۔۔۔۔ یعنی (ہر گناہ پر) دل میں نادم-پشیمان-شرمندہ ہونے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم-پختہ ارادہ کرنا۔
(2)ایمان لانا یعنی اس گناہ کو برا ماننا۔۔۔اسکی برائی ونقصان جاننا۔
(3)نیک عمل کرنا۔۔۔ یعنی فوراً بطورِ کفارہ اور پھر ہمیشہ صبح وشام رب ہی کو پکارتے رہنے کی عادت ڈالے۔
لہٰذا
تینوں میں سے کوئی ایک شرط بھی ادا نہ کی جائے یا کسی ایک شرط کو مکمل ادا نہ کیا جائے تو یہ فضیلت حاصل نہ ہوگی۔
مثلاً:
اعلانیہ گناہ کئے لیکن اعلانیہ توبہ نہ کی، یا بندوں کے حقوق میں ظلم کیا اور ان کے حقوق کو ادا نہ کیا وغیرہ
یا
گناہ کے گناہ ہونے کا اقرار نہ کیا اور دل میں برا نہ مانا۔ اسی طرح ایمانیات کی دیگر تمام ضروری باتوں کا علم حاصل نہ کیا اور نہ مانا یا انکاری رہا۔





























حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ما من قوم اجتمعوا يذكرون الله عز وجل لا يريدون بذلك إلا وجهه؛ إلا ناداهم منادٍ من السماء: أن قوموا مغفوراً لكم، قد بُدِّلَتْ سيئاتُكم حسناتٍ۔

ترجمہ:

جو قوم جمع ہو اللہ کے ذکر کے لئے ، نہ ہو ان کا ارادہ اس میں سوائے اس(الله)کی رضا کے، تو آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ اٹھو! اللہ نے تمہیں بخش دیا، تمہاری برائیاں بھلائیوں سے بدل گئیں۔

[صحيح الترغيب والترهيب:1504، الترغيب في فضائل الأعمال وثواب ذلك لابن شاهين:160، مسند أبي يعلى الموصلي:4141، الأحاديث المختارة:2675، مسند البزار:6467، مسند احمد:12453، ا لمعجم الأوسط-الطبراني:1556، مجمع الزوائد:16764]


تفسیر ابن کثیر»سورۃ الکھف:28


یہ حدیث حضرت عبدالله بن مغفل اور حضرت سہیل بن حنظلہ سے بھی روایت کی گئی ہے۔

[الصَّحِيحَة:2210، صحيح الجامع:5610

شعب الإيمان-البيهقي:530+684، مصنف ابن أبي شيبة:29477+35713، المعجم الكبير للطبراني:6039]





حضرت سہیل بن حنظلہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کوئی قوم اللہ کا ذکر کرنے نہیں بیٹھتی پھر وہ فارغ ہوتی ہے مگر یہاں تک ان کو کہا جاتا ہے کہ اٹھو، اللہ نے تمہارے گناہوں کی مغفرت کردی اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔
[طبرانی:6039، صحيح الجامع الصغير:5610]

فجر اور عصر کے بعد ذکر ودعا کرنے کی فضیلت:

القرآن:

اور اپنے آپ کو استقامت سے ان لوگوں کے ساتھ رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔ (22) اور تمہاری آنکھیں دنیوی زندگی کی خوبصورتی کی تلاش میں ایسے لوگوں سے ہٹنے نہ پائیں۔ اور کسی ایسے شخص کا کہنا نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے، اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہوا، اور جس کا معاملہ حد سے گزر چکا ہے۔

[سورۃ الکھف:28]

تفسیر:

22: بعض کفار کا مطالبہ یہ بھی تھا کہ جو غریب اور کم حیثیت لوگ آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہتے ہیں، اگر آپ انہیں اپنے پاس سے ہٹادیں تو ہم آپ کی بات سننے کو تیار ہوں گے، موجودہ حالت میں ہم ان غریبوں کے ساتھ بیٹھ کر آپ کی کوئی بات نہیں سن سکتے، یہ آیت اس مطالبے کو رد کرکے آنحضرت ﷺ کو ہدایت دے رہی ہے کہ آپ اس مطالبے کو نہ مانیں اور اپنے غریب صحابہ کی رفاقت نہ چھوڑیں، اور اس ضمن میں ان غریب صحابہ کرام کی فضیلت اور ان کے مقابلے میں ان مالدار کافروں کی برائی بیان فرمائی گئی ہے۔ یہی مضمون سورة انعام (6۔ 52) میں بھی گزرچکا ہے۔








ہر گناہ پر توبہ اور اجتماعی ذکر کی فضیلت:
حضرت ابو ہریرہ‌ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌ﷺ ‌نے فرمایا:
کچھ لوگ تمنا کریں  گے کہ کاش وہ بہت زیادہ برائیاں کرتے، صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! کس وجہ سے؟ آپ ﷺ ‌نے فرمایا: وہ لوگ جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دے گا۔
[مستدرك الحاكم:7643، الصحيحة:2177]
یعنی
(1)ہر گناہ پر توبہ کرنے ۔۔۔۔۔ یعنی دل میں نادم-پشیمان-شرمندہ ہونے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم-پختہ ارادہ کرنے۔
(2)ایمان لانے یعنی اس گناہ کو برا ماننے۔
(3)اور نیک اعمال یعنی صبح وشام رب ہی کو پکارتے رہنے کی عادت کے سبب۔
[تفسیر سورۃ الفرقان:70]




1 comment:

  1. السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
    شومیٔ قسمت آج ایک حدیث کی جستجو میں گوگل پر’’راہ دلیل ‘‘ تک رسائی ہوئی ۔ دین کی جو خدمت آپ لوگ انجام دے رہے ہیں اللہ رب العزت سے دُعا گو ہوں کہ وہ آپ کی کاوشوں کو شرف قبولیت بخشے اور اس کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ آمین

    ReplyDelete