اللہ پاک نے فرمایا:
ہاں مگر جو کوئی توبہ کرلے، ایمان لے آئے، اور نیک عمل کرے تو اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ الفرقان:70]
یعنی حالت کفر میں انہوں نے جو برے کام کیے تھے، وہ ان کے نامہ اعمال سے مٹا دئیے جائیں گے، اور اسلام لا کر جو نیک عمل کیے ہوں گے وہ ان کی جگہ لے لیں گے۔
(حديث قدسي) - حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي رَجَاءٍ الْمِصِّيصِيُّ ، قَالَ : ثنا وَكِيعٌ ، قَالَ : ثنا الأَعْمَشُ ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يُؤْتَى بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، فَيُقَالُ : اعْرِضُوا عَلَيْهِ صِغَارَ ذُنُوبِهِ ، وَيَخْبَأُ عَنْهُ كِبَارُهَا ، فَيُقَالُ : عَمِلْتَ يَوْمَ كَذَا كَذَا وَكَذَا ، وَعَمِلْتَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا ، وَعَمِلْتَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا ثَلاثَ مَرَّاتٍ ، قَالَ : وَهُوَ مُقِرٌّ لَيْسَ بِمُنْكِرٍ ، وَهُوَ مُشْفِقٌ مِنَ الْكَبَائِرِ أَنْ تَجِيءَ ، قَالَ : فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا ، قَالَ : أَعْطُوهُ مَكَانَ كُلِّ سَيِّئَةٍ حَسَنَةً ، فَيَقُولُ : يَا رَبِّ إِنَّ لِي ذَنُوبًا مَا رَأَيْتُهَا هَاهُنَا ، فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ ، ثُمَّ تَلا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ (سورة الفرقان آية 70) " .
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ما من قوم اجتمعوا يذكرون الله عز وجل لا يريدون بذلك إلا وجهه؛ إلا ناداهم منادٍ من السماء: أن قوموا مغفوراً لكم، قد بُدِّلَتْ سيئاتُكم حسناتٍ۔
ترجمہ:
جو قوم جمع ہو اللہ کے ذکر کے لئے ، نہ ہو ان کا ارادہ اس میں سوائے اس(الله)کی رضا کے، تو آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ اٹھو! اللہ نے تمہیں بخش دیا، تمہاری برائیاں بھلائیوں سے بدل گئیں۔
[صحيح الترغيب والترهيب:1504، الترغيب في فضائل الأعمال وثواب ذلك لابن شاهين:160، مسند أبي يعلى الموصلي:4141، الأحاديث المختارة:2675، مسند البزار:6467، مسند احمد:12453، ا لمعجم الأوسط-الطبراني:1556، مجمع الزوائد:16764]
تفسیر ابن کثیر»سورۃ الکھف:28
یہ حدیث حضرت عبدالله بن مغفل اور حضرت سہیل بن حنظلہ سے بھی روایت کی گئی ہے۔
[الصَّحِيحَة:2210، صحيح الجامع:5610
شعب الإيمان-البيهقي:530+684، مصنف ابن أبي شيبة:29477+35713، المعجم الكبير للطبراني:6039]
فجر اور عصر کے بعد ذکر ودعا کرنے کی فضیلت:
القرآن:
اور اپنے آپ کو استقامت سے ان لوگوں کے ساتھ رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو اس لیے پکارتے ہیں کہ وہ اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔ (22) اور تمہاری آنکھیں دنیوی زندگی کی خوبصورتی کی تلاش میں ایسے لوگوں سے ہٹنے نہ پائیں۔ اور کسی ایسے شخص کا کہنا نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے، اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہوا، اور جس کا معاملہ حد سے گزر چکا ہے۔
[سورۃ الکھف:28]
تفسیر:
22: بعض کفار کا مطالبہ یہ بھی تھا کہ جو غریب اور کم حیثیت لوگ آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہتے ہیں، اگر آپ انہیں اپنے پاس سے ہٹادیں تو ہم آپ کی بات سننے کو تیار ہوں گے، موجودہ حالت میں ہم ان غریبوں کے ساتھ بیٹھ کر آپ کی کوئی بات نہیں سن سکتے، یہ آیت اس مطالبے کو رد کرکے آنحضرت ﷺ کو ہدایت دے رہی ہے کہ آپ اس مطالبے کو نہ مانیں اور اپنے غریب صحابہ کی رفاقت نہ چھوڑیں، اور اس ضمن میں ان غریب صحابہ کرام کی فضیلت اور ان کے مقابلے میں ان مالدار کافروں کی برائی بیان فرمائی گئی ہے۔ یہی مضمون سورة انعام (6۔ 52) میں بھی گزرچکا ہے۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
ReplyDeleteشومیٔ قسمت آج ایک حدیث کی جستجو میں گوگل پر’’راہ دلیل ‘‘ تک رسائی ہوئی ۔ دین کی جو خدمت آپ لوگ انجام دے رہے ہیں اللہ رب العزت سے دُعا گو ہوں کہ وہ آپ کی کاوشوں کو شرف قبولیت بخشے اور اس کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ آمین