اللہ کے رسول (پیغمبر) محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:
يَا أَبَا الدَّرْدَاءِ، مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ {مُخْلِصًا} وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ.....وَإِنْ زَنَى، وَإِنْ سَرَقَ، وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي الدَّرْدَاءِ.
ترجمہ:
اے ابودرداء! جس نے شہادت (اعلانیہ گواہی) دی {اخلاص کے ساتھ} کہ "نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور میں اللہ کا پیغمبر ہوں" تو واجب ہوجاتی ہے اس کیلئے جنت.......اگرچہ اس نے (اسلام قبول کرنے سے پہلے) زنا کی ہو یا چوری کی ہو، اگرچہ ابودرداء کی ناک خاک آلود ہو۔
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي:9 {الآثار لأبي يوسف:891} مسند أحمد:27491، السنن الكبرى-النسائي:10898+10899، المعجم الأوسط للطبراني:2932، مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم: ص175، المتفق والمفترق-الخطيب البغدادي:902]
دوسری موقع کی روایت میں ہے:
مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ.....وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ.....عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ۔
ترجمہ:
جو بھی بندہ کہے کہ، نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے، پھر وہ اسی (اقرار) پر مرے، وہ داخل ہوگا جنت میں.......اگرچہ اس نے زنا کیا ہو یا چوری کی ہو.......اگرچہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔
[مسند أحمد:21466، صحيح البخاري:5827، صحيح مسلم:94]
مختلف روایات کے مختلف الفاظ کی کمی وزیادتی کے سبب، سب نکتوں یا
شرطوں کی صحیح اور پوری ادائیگی سے (بالآخر ہمیشہ) جنت میں داخلے یا جھنم کے حرام
ہونے کی فضیلت صحیح ثابت ہے۔
اختلافِ الفاظ سے تفسیر حدیث بالحدیث:
مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ (جس نے کہا: نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے)
مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ (جس بھی بندہ نے کہا: نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے، پھر وہ اسی پر مر گیا۔)
[صحيح البخاري:5489، صحيح مسلم:94]
إِذَا مَاتَ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ(جب کوئی مرتے وقت کہے: نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے)
[صحيح البخاري:6443]
مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ (جس نے گواہی دی کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے)
[صحيح البخاري:385+3252، صحيح مسلم:29، سنن الترمذي:2638، سنن النسائي:3968]
یا فرمایا:
مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ (جس کا آخری کلام ہو کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے)
[مسند أحمد:22034+22127، سنن أبي داود:3116، مسند البزار:2626]
مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ (جسے اس حالت میں موت آئی کہ وہ
جانتا یعنی یقین سے مانتا ہو کہ ۔۔۔ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے)
[صحيح مسلم:26، السنن الكبرى-النسائي:10887، صحيح ابن حبان:201]
مَنْ مَاتَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ (جسے اس حالت میں موت آئی کہ وہ گواہی دیتا
ہو کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور میں اللہ کا پیغمبر ہوں)
[مسند أبي داود الطيالسي:2077، مسند أحمد:12332، السنن الكبرى-النسائي:10890]
مَنْ لَقِيَ اللَّهَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ (جس نے اللہ سے ملاقات کی اس حال میں
کہ وہ گواہی دیتا ہو کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور میں اللہ کا پیغمبر ہوں)
[التاريخ الكبير للبخاري:12060، التوحيد لابن خزيمة:2/ 799، معجم الصحابة للبغوي:560، مسند الشاميين للطبراني:2180، حلية الأولياء-أبو نعيم:7/ 174]
کلمہ کی جگہ دوسری مواقع پر فرمایا:
(1) لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا (اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرے)
[صحيح البخاري:129، صحيح مسلم:93، سنن ابن ماجه:2618]
(2) مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللهِ نِدًّا (جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ نہ پکارتا ہو (غائبانہ مدد کیلئے) اللہ کے علاوہ کو)
[صحيح البخاري:4497 (تفسیر سورۃ البقرة:165)، قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة:1/ 256، عمدة القاري:8/ 5]
کلمہ کی قرآنی تفسیر:
الله کے سوا۔۔۔
کوئی اِلٰه نہیں
[دلائلِ قرآن-محمد:19،انبیاء:22]
۔۔۔یعنی۔۔۔
کوئی عبادت کے لائق نہیں
[فصلت:14]
کوئی غیب جاننے والا نہیں
[نمل:65]
کوئی گناہوں کا بخشنے والا نہیں
[آل عمران:135]
کوئی ڈرنے-ڈرانے کے لائق نہیں
[توبۃ:12،احزاب:39]
کوئی آسمانی فضا میں اڑتے پرندے تھامنےوالا نہیں
[نحل:79،ملک:19]
کوئی تکلیف دور ہٹانے-والا نہیں
[انعام:17،یونس:107]
کلمہ کی حدیثی تفسیر:
پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر فرض نماز کے بعد یہ پڑھا کرتے تھے: کوئی معبود نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے، ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں، اسی کی ہے بادشاہت اور اسی کیلئے ہے تعریف اور وہ ہر بات پر قادر ہے، اے اللہ جو کچھ تو دے، اس کو کئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کا کوئی دینے والا نہیں اور کوشش والے کی کوشش تیرے سامنے کچھ فائدہ نہیں دیتی۔
[صحیح بخاری»حدیث#844]
نہیں ہے کوئی گناہوں کا بخشنے والا سوائے تیرے
[بخاری:834]
نہیں ہے کوئی شفا دینے والا سوائے تیرے
[بخاری:5742]
نہیں ہے کوئی کاشف(یعنی تکلیف ٹالنے والا) سوائے تیرے۔
[بخاری:5744]
نہیں ھدایت دیتا بہتر اخلاق کی سوائے تیرے۔۔۔نہیں دور کرتا ہے برے اخلاق سے سوائے تیرے
[ابوداؤد:834]
نہیں لاتا کوئی بھلائی سوائے تیرے اور نہیں دفع کرتا ہے کوئی برائی سوائے تیرے
[جامع معمر بن راشد:19512]
نہیں ہے کوئی مالک ان دونوں(یعنی تیرے فضل اور تیری رحمت کے)سوائے تیرے۔
[مصنف ابن ابی شیبۃ:29579]
میری حق پر کوئی مدد نہیں کرسکتا سوائے تیرے، اور نہیں دے سکتا کوئی اسے سوائے تیرے۔
[ترمذی:3570]
نہیں ہے کوئی نحوست سوائے تیری طرف سے اور نہیں ہے کوئی خیر سوائے تیرے خیر کے۔
[مصنف ابن ابی شیبۃ:26411]
دعا میں توحید سے کفر وشرک
القرآن:
(جواب دیا جائے گا کہ :) تمہاری یہ حالت اس لیے ہے کہ اللہ کو تنہا پکارا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے، اور اگر اس کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرایا جاتا تھا تو تم مان لیتے تھے۔ اب تو فیصلہ اللہ ہی کا ہے جس کی شان بہت اونچی، جس کی ذات بہت بڑی ہے۔
[سورۃ نمبر 40 غافر، آیت نمبر 12]
فوائد وفضائل:
(1) دَخَلَ الْجَنَّةَ (وہ جنت میں داخل ہوگا۔)
[مسند أبي داود الطيالسي:445]
(2) وَلَمْ تَمَسَّهُ النَّارَ (اور اسے آگ نہیں چھوئے گی)یعنی ہمیشہ کیلئے۔
[مسند الحميدي:373]
فَإِنَّ اللهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ (تو اللہ حرام کرچکا اس پر جہنم کو)یعنی ہمیشہ کیلئے۔
[صحيح البخاري:425+1186+5401]
يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ (جہنم سے نکالے گا)
[صحيح البخاري:44+7410+7510]
(3) أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ (وہ شخص قیامت کے دن میری شفاعت سے سب سے زیادہ نصیب والا ہوگا لوگوں میں)
[صحيح البخاري:99+6570]
============================
کس حالت وکیفیت سے کلمہ کہے؟؟؟
(1) حضرت ابوہریرہؓ سے مروی صحیح حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ، أَوْ نَفْسِهِ.
ترجمه:
”میری شفاعت کا حقدار خوش نصیب ترین شخص قیامت کے دن وہ ہے جو خلوص دل یا خلوص
نفس کے ساتھ یہ شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں“.
[صحيح البخاري:99+6201، مسند أحمد:8858، السنة لابن أبي عاصم:825، مسند البزار:8469، السنن الكبرى-النسائي:5811، التوحيد لابن خزيمة:2/ 699، حديث السراج:2626، الشريعة للآجري:788، الترغيب في فضائل الأعمال لابن شاهين:3، الإيمان-ابن منده:904+905+906، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة-اللالكائي:2045، البعث والنشور للبيهقي ت الشوامي: ص384، جامع بيان العلم وفضله:1406، شرح السنة للبغوي:4336]
(2) عتبان بن مالکؓ سے مروی صحیح حدیث میں نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:
فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ
ترجمہ:
”اللہ تعالیٰ نے ہر ایسے آدمی کا جہنم میں جلنا حرام کردیا ہے جو لَآ
اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کہے اور اس بات سے اللہ کی خوشنودی کا طالب ہو“۔
[صحيح البخاري:425+1186+5401، صحيح مسلم:33، صحيح ابن خزيمة:1653، صحيح ابن حبان:223]
(3) امام نسائی ”الیوم واللیلۃ“ میں دو صحابیوں سے مروی حدیث روایت
کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے
فرمایا:
مَا قَالَ عبد قطّ لَا إِلَه إِلَّا الله وَحده لَا شريك لَهُ لَهُ الْملك وَله الْحَمد وَهُوَ على كل شَيْء قدير مخلصا بهَا روحه مُصدقا بهَا قلبه لِسَانه إِلَّا فتق لَهُ أَبْوَاب السَّمَاء حَتَّى ينظر الله إِلَى قَائِلهَا وَحقّ لعبد نظر الله إِلَيْهِ أَن يُعْطِيهِ سؤله
ترجمہ:
”جو آدمی دل کے پورے خلوص اور زبان کی سچائی کے ساتھ یہ کہتا ہے:
لَا
اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ
وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیٍ قَدِیْر
ترجمہ:
”اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ تنہا ہے اور
لاشریک ہے، بادشاہی اسی کی ہے حمد وثناءصرف اسی کا حق ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت
رکھنے والا ہے“
تو ان کلمات کیلئے اللہ تعالیٰ آسمان کے پٹ کھول دیتا ہے یہاں تک
کہ زمین میں ان کلمات کے کہنے والے پر نگاہ فرماتا ہے اور بس جس بندہ پر اللہ
تعالیٰ نگاہ فرما لے اس کا حق ہو جاتا ہے کہ وہ جو مانگے سو دیا جائے“۔
[عمل اليوم والليلة للنسائي:28، السنن الكبرى-النسائي:9772، التوحيد لابن خزيمة:2/ 905، صحيح الكتب التسعة وزوائده:7279]
توضیح:
ان احادیث کے الفاظ پر غور فرمائیے مَنْ قَالَ لا اِلٰہَ الَّا اللہ
والی وہ مطلق حدیث جو مشہور و معروف ہے اب ان احادیث کے الفاظ سے مقید کردی گئی۔
یعنی مَنْ قَالَ لا اِلٰہَ الَّا اللہ ، دَخَلَ الْجَنَّۃ ”جس نے بھی لا الہ الا
اللہ پڑھ لیا وہ جنت میں جائے گا“ والی جو حدیث بغیر شروط کا ذکر کئے ایک جگہ بیان
ہوگئی، اوپر کی ان حدیثوں میں اب اس کی ایک شرط بیان ہوگئی کہ یہ لا الہ الا اللہ
یوں ہی زبان سے پڑھ لینا کافی نہیں، جس کی بنیاد پر آدمی کی جنت کھری ہو جائے، بلکہ اس
پڑھنے کی جو کئی ایک شروط ہیں ان میں ایک شرط یہ ہے جو کہ اوپر کی حدیثوں میں آپ
دیکھتے ہیں۔ اِن حدیثوں میں یہ الفاظ غور طلب ہیں:
* ایک جگہ فرمایا:
خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ، أَوْ نَفْسِهِ.
یعنی اُس نے یہ کلمہ ”دل کے اخلاص کے ساتھ“ کہا ہو۔
* دوسری جگہ فرمایا:
يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ
یعنی اُس نے ”صرف اللہ کا چہرہ (رضا و خوشنودی) پانے کیلئے“ یہ کلمہ کہا ہو۔
* تیسری جگہ فرمایا:
مخلصا بهَا روحه مُصدقا بهَا قلبه لِسَانه
یعنی ”دل کے اخلاص اور زبان کی سچائی کے ساتھ“۔
پس کلمہ کی یہ ایک باقاعدہ شرط ہے کہ کلمہ گوئی معاشرتی رسم یا
دکھاوے کی چیز نہ ہو۔ نہ ہی یہ کوئی لوگوں کی دیکھا دیکھی کہہ دیے جانے والے کچھ
کلمات۔ ضروری ہے کہ یہ ایک با مقصد عمل ہو اور خدا کو پانے کی ایک سنجیدہ کوشش۔
اخلاص (کی علامت) کیا ہے؟؟؟
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ , قَالَ : قَالَ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ
قَالَ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُخْلِصًا دَخَلَ الْجَنَّةَ " ، قِيلَ :
وَمَا إِخْلَاصُهَا ؟ قَالَ : " أَنْ تَحْجُزَهُ عَنْ مَحَارِمِ اللَّهِ
عَزَّ وَجَلَّ "
ترجمہ:
حضرت زید بن ارقمؓ رسول الله ﷺ
سے نقل فرماتے ہیں کہ : جو شخص "اخلاص" کے ساتھ لَا إِلَهَ إِلَّا
اللَّهُ کہے، وہ جنت میں داخل ہوگا، کسی نے پوچھا کہ کلمہ کے اخلاص (کی علامت) کیا
ہے؟ آپ نے فرمایا کہ الله کی حرام کردہ کاموں سے وہ)کلمہ( اسے روک دے۔
[نوادر الأصول في أحاديث الرسول-الحكيم الترمذي: ج1/ ص91]
[موضح
أوهام الجمع والتفريق للخطيب » أوهام أبي بكر الشيرازي » باب الميم » ذكر مُحَمَّد بْن عَبْد الرَّحْمَنِ
بْن غزوان الخزاعي ... رقم الحديث: 431(2 : 429)]
خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن
القرآن:
چنانچہ تمہارے رب کی قسم ! ہم ایک ایک کر کے ان سب سے پوچھیں گے۔ کہ وہ کیا کچھ کیا کرتے تھے۔
[تفسير القرطبي =سورة الحجر:92-93]
[تفسير القرطبي =سورة الحجر:92-93]
پھر کیا تم نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہے
[تفسير ابن رجب الحنبلي=سُورَةُ الجَاثِيَةِ:23]
یقین جانو کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔
[تفسیر الدر المنثور=سورة النساء:145]
2 - عن أنس بن مالك
[المشيخة الكبرى - قاضي المارستان(م535ھ) : حدیث نمبر 716]
[المنتقى من مسموعات مرو للضياء المقدسي(م643ھ): حدیث نمبر 798]
3 - مَن قال : لا إلهَ إلَّا اللهُ مخلِصًا دخل الجنَّةَ قيل
: وما إخلاصُها ؟ قال : أن تَحجزَك عمَّا حرَّمَ اللهُ .
الصفحة أو الرقم: 1/523 | خلاصة حكم المحدث : مرسل
کبیرہ گناہوں سے اجتناب:
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا قَالَ عبد لَا إِلَه إِلَّا الله مخلصاً إِلَّا فتحت لَهُ أَبْوَاب السَّمَاء حَتَّى تُفْضِي إِلَى الْعَرْش مَا اجْتنبت الْكَبَائِر۔
ترجمہ:
جو بھی بندہ اخلاص کے ساتھ لا الہ اللہ پڑھتا ہے، تو اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، بشرط یہ کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جاتا ہو۔
[مسند البزار:9762، السنن الكبرى للنسائي:10601، صحيح الترغيب والترهيب:1524]
«مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ نَفَعَتْهُ يَوْمًا مِنْ دَهْرِهِ وَلَوْ بَعْدَمَا يُصِيبُهُ الْعَذَابُ»
ترجمہ:
جو شخص لا الہ الا اللہ کہے گا، ایک دن یہ کلمہ اسے فائدہ دے گا، اگرچہ اس سے پہلے اس نے جو کچھ بھی کیا ہو۔
[مسند البزار:8292، المعجم الأوسط للطبراني:3486+6396، صحيح الترغيب:1525، صحيح الجامع:6434]
=========================
کلمہ
کا حق:
لا تزالُ لا إلهَ إلَّا
اللهُ تنفعُ من قالها وترُدُّ عنهم العذابَ والنِّقمةَ ما لم يستخفُّوا بحقِّها
قالوا يا رسولَ اللهِ وما الاستخفافُ بحقِّها قال يُظهرُ العملَ الصَّالحَ بمعاصي
اللهِ فلا يُنكِرُ ولا يُغيِّرُ۔[جامع الأحاديث، للسيوطي:16399]
ہمیشہ
(کلمہ) لا الہ الا اللہ اپنے پڑہنے والے کو نفع دیتا ہے اور اس سے عذاب وبلا کو دور
کرتا ہے جب تک کہ اس کے حقوق سے بےپروائی نہ برتی جائے۔ پوچھا گیا کہ اے اللہ کے
رسول! اس (کلمہ) کے حق سے بےپرواہی کیا ہے؟ فرمایا: اللہ
کی نافرمانی کھلے طور پر کی جائے پھر نہ اس کا انکار کیا جائے اور نہ ہی ان کو
روکنے یا بدلنے کی کوشش کی جائے۔
[ رَوَاهُ
الْحَاكِم والأصبهاني عَن إبان عَن أنس انْظُر: الْجَامِع الْكَبِير للسيوطي ج1ص
889، وكنز الْعمَّال حَدِيث 223 ج 1ص 63، وَالتَّرْغِيب والترهيب ج3 ص 231]
الصفحة أو الرقم: 3/233 | خلاصة حكم المحدث : [لا يتطرق إليه احتمال التحسين]
=============================
کلمہ توحید کی فضیلت :
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الِلَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
: " مَنْ قَالَ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ ، دَخَلَ
الْجَنَّةَ " .
فرمایا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے: جس نے
کہا: نہیں ہے کوئی معبود سوا اللہ کے، وہ داخل ہوگا جنت میں۔
نوٹ :
معبود یعنی غائبانہ حاجات میں پکارے جانے کے
قابل ہر شیئ کا جاننے والا خالق اور نفع ونقصان کا مالک سمجھتے جس کی غلامی کی
جائے۔
الصفحة أو الرقم: 151 | خلاصة حكم المحدث : أخرجه في صحيحه
الصفحة أو الرقم: 169 | خلاصة حكم المحدث : أخرجه في صحيحه
الصفحة أو الرقم: 798/2 | خلاصة حكم المحدث : [أشار في المقدمة أنه صح وثبت
بالإسناد الثابت الصحيح]
الصفحة أو الرقم: 814/2 | خلاصة حكم المحدث : [أشار في المقدمة أنه صح وثبت
بالإسناد الثابت الصحيح]
الصفحة أو الرقم: 3/127 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
تخريج الحديث
|
|
|
|
م
|
طرف الحديث
|
الصحابي
|
اسم
الكتاب
|
أفق
|
العزو
|
المصنف
|
سنة
الوفاة
|
1
|
مسند أحمد بن حنبل
|
21491
|
21554
|
أحمد بن حنبل
|
241
|
||
2
|
جابر بن عبد الله
|
صحيح ابن حبان
|
202
|
200
|
أبو حاتم بن حبان
|
354
|
|
3
|
جابر بن عبد الله
|
مسند أبي يعلى الموصلي
|
1803
|
1820
|
أبو يعلى الموصلي
|
307
|
|
4
|
جابر بن عبد الله
|
إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة
|
14
|
20
|
البوصيري
|
840
|
|
5
|
جابر بن عبد الله
|
إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة
|
121
|
162
|
البوصيري
|
840
|
|
6
|
جابر بن عبد الله
|
مسند عبد بن حميد
|
1045
|
1038
|
عبد بن حميد
|
249
|
|
7
|
جابر بن عبد الله
|
المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي جزء
|
6
|
4
|
الهيثمي
|
807
|
|
8
|
معاذ بن جبل
|
المعجم الكبير للطبراني
|
16522
|
63
|
سليمان بن أحمد الطبراني
|
360
|
|
9
|
معاذ بن جبل
|
المعجم الكبير للطبراني
|
16535
|
79
|
سليمان بن أحمد الطبراني
|
360
|
|
10
|
معاذ بن جبل
|
معجم ابن الأعرابي
|
378
|
374
|
ابن الأعرابي
|
340
|
|
11
|
معاذ بن جبل
|
الثاني من الفوائد المنتقاة لأبي القاسم
الأزجي
|
10
|
---
|
أبو القاسم عبد العزيز بن علي الأزجي
|
330
|
|
12
|
معاذ بن جبل
|
التاسع عشر من الخلعيات
|
11
|
---
|
علي بن الحسن الخلعي
|
492
|
|
13
|
معاذ بن جبل
|
الخامس من الخلعيات
|
40
|
---
|
علي بن الحسن الخلعي
|
492
|
|
14
|
معاذ بن جبل
|
الإيمان لابن منده
|
92
|
1 : 235
|
محمد بن إسحاق بن منده
|
395
|
|
15
|
معاذ بن جبل
|
الإيمان لابن منده
|
107
|
1 : 246
|
محمد بن إسحاق بن منده
|
395
|
|
16
|
معاذ بن جبل
|
شعب الإيمان للبيهقي
|
116
|
127
|
البيهقي
|
458
|
|
17
|
أبو شيبة بن مالك
|
التاريخ الكبير للبخاري
|
976
|
11512
|
محمد بن إسماعيل البخاري
|
256
|
|
18
|
أبو شيبة بن مالك
|
الكني والأسماء للدولابي
|
262
|
232
|
أبو بشر الدولابي
|
310
|
|
19
|
عبد الله بن عمر
|
تاريخ بغداد للخطيب البغدادي
|
540
|
3 : 146
|
الخطيب البغدادي
|
463
|
|
20
|
معاذ بن جبل
|
ملء العيبة
|
78
|
---
|
ابن رشيد السبتي
|
721
|
خْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ قُتَيْبَةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ ، عَنِ ابْنِ جَابِرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ ، حَدَّثَنِي جُنَادَةُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الِلَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ شَهِدَ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ، وَأَنَّ عِيسَى عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ ، وَأَنَّ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ حَقٌّ ، أَدْخَلَهُ الِلَّهِ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ شَاءَ " .
کلمہ پر ایمان لانے کی فضیلت:
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ سفید کپڑے پہنے ہوئے سو رہے تھے، پھر میں حاضر ہوا تو
آپ بیدار ہوچکے تھے، آپ نے فرمایا جس بندہ نے لا الہ الا اللہ کہا پھر اس حال میں
مر گیا تو جنت میں داخل ہوگا، میں نے کہا اگرچہ زنا کرے اور چوری کرے، آپ نے
فرمایا اگرچہ زنا کرے اور چوری کرے، میں نے کہا اگرچہ زنا کرے اور چوری کرے،
آپ نے فرمایا: اگرچہ زنا کرے اور چوری کرے، میں نے کہا اگرچہ زنا کرے اور چوری کرے،
آپ نے فرمایا: اگرچہ زنا کرے اور چوری کرے اور ابوذر کی ناک خاک آلود ہو، اور ابوذر رضی اللہ عنہ جب بھی اس
حدیث کو بیان کرتے تو کہتے کہ وان رغم انف ابی ذر، ابوعبداللہ (بخاری) نے کہا یہ
اس صورت میں ہے کہ موت کے وقت ہو یا اس سے پہلے ہو، جب کہ توبہ کرے اور نادم
ہو اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے تو بخش دیا جائے گا۔
[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 779, لباس کا
بیان :, سفید کپڑوں کا بیان]
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 273, ایمان کا بیان : اس بات کے بیان
میں کہ جو اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تو وہ
جنت میں داخل ہوگا اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے ہوئے مرا وہ دوزخ میں
داخل ہوگا]
اسحاق بن منصور، معاذ بن ہشام، اپنے والد سے، قتادہ، حضرت انس
بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور
معاذ بن جبل ایک سواری پر سوار تھے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے پیچھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے معاذ حضرت معاذ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا حاضر ہوں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے پھر فرمایا اے معاذ! حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول
میں حاضر ہوں خدمت اقدس میں موجود ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو
بندہ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اللہ اس پر ضرور دوزخ حرام
کر دے گا، حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کیا میں اس فرمان کی لوگوں کو اطلاع نہ کر دوں کہ وہ خوش ہوجائیں
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر ایسا ہوگا تو اعمال چھوڑ کر لوگ اسی پر
بھروسہ کر بیٹھیں گے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی موت کے وقت گناہ کے خوف کی
وجہ سے یہ حدیث بیان کی۔
[صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 151 (7290) - ایمان کا بیان
: جو شخص عقیدہ تو حید پر مرے گا وہ قطعی طور پر جنت میں داخل ہوگا]
مسلم بن ابراہیم، ہشام، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
کہ جو شخص لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ دے اور اس کے دل میں ایک جو کے برابر
نیکی (ایمان) ہو وہ دوزخ سے نکالا جائے گا اور جو لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے
اور اس کے دل میں گہیوں کے ایک دانے کے برابر خیر (ایمان) ہو وہ (بھی) دوزخ سے
نکالا جائے گا اور جو شخص لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے اور اس کے دل میں ایک ذرہ
برابر نیکی (ایمان) ہو وہ بھی دوزخ سے نکالا جائے گا، ابوعبداللہ نے کہا کہ ابان
نے بروایت قتادہ، انس، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بجائے خیر کے ایمان کا لفظ
روایت کیا ہے۔
[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 43, ایمان کا بیان : صحیح مسلم:جلد
اول:حدیث نمبر 478]
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2281 حدیث قدسی حدیث متواتر مکررات
11 متفق علیہ 10
معاذ بن فضالہ، ہشام، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو
قیامت کے دن اسی طرح جمع کرے گا، لوگ کہیں گے کاش ہم اپنے پروردگار کی خدمت میں
شفاعت پیش کریں تاکہ ہمیں اس جگہ سے نکال کر آرام دے، چنانچہ آدم علیہ السلام کی
خدمت میں آئیں گے اور کہیں گے کہ اے آدم علیہ السلام کیا آپ لوگوں کی حالت نہیں
دیکھ رہے ہیں، اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور فرشتوں سے آپ کو سجدہ
کرایا اور آپ کو تمام چیزوں کے نام بتائے ہمارے لئے ہمارے رب کے پاس سفارش کیجئے
تاکہ ہمیں اس موجودہ حالات سے نجات ملے، وہ کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں، اور ان
کے سامنے اپنی غلطی بیان کریں گے، جس کے وہ مرتکب ہوئے تھے، بلکہ تم لوگ حضرت نوح
علیہ السلام کے پاس جاؤ کہ وہ سب سے پہلے رسول ہیں جن کو اللہ نے زمین والوں کے
پاس بھیجا ہے چنانچہ وہ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ کہیں گے کہ میں اس
قابل نہیں اور وہ اپنی غلطی یاد کر کے کہیں گے کہ تم اللہ کے خلیل ابراہیم (علیہ
السلا م) کے پاس جاؤ، وہ لوگ حضرت ابراہیم کے پاس آئیں گے تو وہ بھی کہیں کہ میں
اس لائق نہیں ہوں اور ان کے سامنے اپنی غلطی بیان کریں گے اور کہیں گے کہ موسیٰ
علیہ السلام کے پاس جاؤ، اللہ نے ان کو تورات دی اور ان سے ہم کلام ہوا، لوگ حضرت
موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں اور وہ
اپنی غلطی کا تذکرہ کریں گے کہیں گے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کہ اللہ کے
بندے اور اس کے رسول ہیں اور کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں تو لوگ حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کے پاس آئیں گے تو وہ کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں تم محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے پاس جاؤ وہ ایسے بندے ہیں جن کے اگلے پچھلے گناہ بخشے جا چکے ہیں،
لوگ میرے پاس آئیں گے میں چلوں گا اور اپنے رب سے حاضری کی اجازت چاہوں گا، مجھے
حاضری کی اجازت دی جائے گی جب میں اپنے پروردگار کو دیکھوں گا تو سجدہ میں گر پڑوں
گا اور اللہ تعالیٰ اس طرح مجھے چھوڑ دے گا جس قدر مجھے چھوڑنا چاہے گا، پھر اللہ
تعالیٰ مجھ سے فرمائے گا اے محمد سر اٹھاؤ اور کہو سنا جائے گا، مانگو دیا جائے گا
اور سفارش کرو قبول کی جائے گی، میں اپنے رب کی وہ حمد بیان کروں گا جو میرے
پروردگار نے مجھے سکھائی ہوگی پھر سفارش کروں گا اور اللہ میرے لئے ایک حد مقرر
فرمائے گا تو میں ان کو جنت میں داخل کروں گا، پھر واپس ہوں گا اور اپنے رب کو
دیکھ کر سجدہ میں گر پڑوں گا اللہ مجھے اسی طرح چھوڑ دے گا جس قدر وہ چاہے گا پھر
کہا جائے گا کہ اے محمد! سر اٹھاؤ کہو سنا جائے گا مانگو دیا جائے گا اور سفارش
کرو منظور ہو گی، پھر واپس ہو کر عرض کروں گا اے رب! دوزخ میں وہی رہ گئے جن کو
قرآن نے روک رکھا ہے اور ان پر ہمیشگی واجب ہوگئی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا دوزخ سے وہ شخص نکل جائے گا جس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا ہو اور
اس کے قلب میں ایک جو برابر ایمان ہوگا، پھر وہ شخص دوزخ سے نکل جائے گا، جس نے
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا اور اس کے دل میں گہیوں برابر ایمان ہوگا، پھر دوزخ
سے وہ شخص نکلے گا جس نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا ہو اور اس کے دل میں ذرہ
برابر ایمان ہو،
[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2376 (7087) - توحید
کا بیان : خدائے بزرگ
و برتر کا قیامت کے دن انبیاء وغیرہ سے کلام کرنے کا بیان]
میں مسلسل اپنے رب سے سفارش کرتا رہوں گا حتی کہ عرض کروں گا: ہر اس شخص کے بارے میں بھی میری شفاعت قبول فرمائیے جس نے لا اله الا اللہ کہا ہو۔
پروردگار فرمائیں گے:
یہ تمہارا حق نہیں اے محمد! یہ میرے لئے ہے، میری عزت کی قسم! میرے حلم کی قسم! میری رحمت کی قسم! میں آج جہنم میں کسی بھی ایسے شخص کو نہ چھوڑوں گا، جس نے لا اله الا اللہ کہا ہو۔(شرک نہ کیا ہو)۔
[مسند ابویعلی:2786]
(صحیح مسلم:193، السنة لابن ابي.عاصم:827، مستخرج ابي عوانة:520، الايمان-ابن منده:873، )
تفسیرالقرطبي»سورة مريم:87
No comments:
Post a Comment