Tuesday, 22 February 2022

سوال پوچھنے کے آداب



(1) غیرماہر عوام کے بجائے ماہرعالم سے سوال پوچھنا۔
القرآن:
﴿‌فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾
ترجمہ:
 لہذا اگر تمہیں خود علم نہیں ہے تو نصیحت کا علم رکھنے والوں سے پوچھ لو۔
[سورۃ النحل:43، الانبیاء:7]

حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نکلے، تو ہم میں سے ایک شخص کو ایک پتھر لگا، جس سے اس کا سر پھٹ گیا، پھر اسے احتلام ہوگیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا: کیا تم لوگ میرے لیے تیمم کی رخصت پاتے ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہم تمہارے لیے تیمم کی رخصت نہیں پاتے، اس لیے کہ تم پانی پر قادر ہو، چناچہ اس نے غسل کیا تو وہ مرگیا، پھر جب ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ ان کو مارے، جب ان کو مسئلہ معلوم نہیں تھا تو انہوں نے (جاننے والے سے) کیوں نہیں پوچھ لیا؟ نہ جاننے کا علاج پوچھنا ہی ہے، اسے بس اتنا کافی تھا کہ تیمم کرلیتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا (یہ شک موسیٰ کو ہوا ہے) ، پھر اس پر مسح کرلیتا اور اپنے باقی جسم کو دھو ڈالتا۔
[سنن ابو داؤد - پاکی کا بیان - حدیث نمبر 336]





(2)بغیر سوچے سمجھے غیرضروری سوال نہ کرنا۔
دوسروں سے تعلق رکھنے والے باتیں نہ پوچھنا-
عوام کے سامنے نہ پوچھنا۔
جلد جواب طلب نہ کرنا۔
جب یہ آیت نازل ہوئی: "اور لوگوں پر اللہ کا حق (فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی قدرت رکھے وہ اس کا حج کرے۔ {سورۃ آل عمران:97}
تو لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا ہر سال(حج فرض)ہے؟
آپ ﷺ خاموش رہے۔
لوگوں نے پھر پوچھا: آپ پھر بھی خاموش رہے۔
لوگوں نے تیسری بار پوچھا: تب آپ ﷺ نے فرمایا:
اگر میں ہاں کردیتا تو(ہر سال فرض)ہوجاتا۔
پھر اس پر یہ آیت نازل ہوئی:
مومنو! ایسی چیزوں کے بارے میں سوال مت کرو کہ اگر (ان کی حقیقتیں) تم پر ظاہر کر دی جائے تو تمہیں برا لگیں۔۔۔{سورۃ المائدۃ:101}
[ترمذی:814+3055، ابن ماجہ:2884]



سوال پوچھنے کے آداب
القرآن:
اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے بارے میں سوالات نہ کیا کرو جو اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں، اور اگر تم ان کے بارے میں ایسے وقت سوالات کرو گے جب قرآن نازل کیا جارہا ہو تو وہ تم پر ظاہر کردی جائیں گی۔ (البتہ) اللہ نے پچھلی باتیں معاف کردی ہیں۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا بردبار ہے۔
[سورۃ نمبر 5 المائدة,آیت نمبر 101]
تفسیر:
مطلب یہ ہے کہ اول تو جن باتوں کی کوئی خاص ضرورت نہ ہو ان کی کھوج میں پڑنا فضول ہے، دوسرے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض اوقات کوئی حکم مجمل طریقے سے آتا ہے اگر اس حکم پر اسی اجمال کے ساتھ عمل کرلیا جائے تو کافی ہے، اگر اللہ تعالیٰ کو اس میں مزید تفصیل کرنی ہوتی تو وہ خود قرآن کریم یا نبی کریم ﷺ کی سنت کے ذریعے کردیتا، اب اس میں بال کی کھال نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر نزول قرآن کے زمانے میں اس کا کوئی سخت جواب آجائے تو خود تمہارے لئے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں، چنانچہ اس آیت کے شان نزول میں ایک واقعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب حج کا حکم آیا اور آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو بتایا تو ایک صحابی نے آپ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا حج عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے یا ہر سال کرنا فرض ہے ؟ آنحضرت ﷺ نے اس سوال پر ناگواری کا اظہار فرمایا، وجہ یہ تھی کہ حکم کے بارے میں اصل یہی ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے خود یہ صراحت نہ کی جائے کہ اس پر با ربار عمل کرنا ہوگا (جیسے نماز روزے اور زکوٰۃ میں یہ صراحت موجود ہے) اس وقت تک اس پر صرف ایک بار عمل کرنے سے حکم کی تعمیل ہوجاتی ہے اس لئے اس سوال کی کوئی ضرورت نہیں تھی، آپ ﷺ نے صحابی سے فرمایا کہ اگر میں تمہارے جواب میں یہ کہہ دیتا کہ ہاں ہر سال فرض ہے تو واقعی پوری امت پر وہ ہر سال فرض ہوجاتا۔


اور مت سوال پوچھو کسی چیز کے بارے میں جب تک میں تمہیں نہ خبر دوں۔
[الطیالسی:36، البزار:7505، ابی یعلیٰ:3690]
کیونکہ کوئی پیغمبر اپنی خواہش سے سے کچھ نہیں کہتا، وہ تو بس خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت ونصیحت کو پہنچاتا ہے جب وہ نازل ہو۔
[قرآن مجید کی گواہی=سورۃ النجم:3-4]


حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب تک میں تم سے یکسو رہوں تم بھی مجھے چھوڑ دیا کرو (اور بغیرضرورت سوالات وغیرہ نہ کیا کرو) کیونکہ تم سے پہلے کی امتیں اپنے (غیرضروری) سوال اور انبیاء کے سامنے اختلاف کی وجہ سے تباہ ہوگئیں۔ پس جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو تم بھی اس سے پرہیز کرو اور جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو بجا لاؤ جس حد تک تم میں طاقت ہو۔
[صحيح البخاری - کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان - حدیث نمبر 7288]





قرآنی شاہدی:
﴿قَالَ يَانُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلَا ‌تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ﴾
ترجمہ:
اللہ نے فرمایا : اے نوح ! یقین جانو وہ (تیرا بیٹا) تمہارے گھر والوں (اہل بیت) میں سے نہیں ہے، (کیونکہ) وہ تو ناپاک عمل کا پلندہ ہے۔ لہذا مجھ سے ایسی چیز کا سوال نہ کرو جس کی تمہیں خبر نہیں، میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم نادانوں میں شامل نہ ہو۔
[سورۃ ھود:46]




(3) لوگوں کی برائی کے متعلق سوال نہ پوچھنا۔
ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے شر کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے تین بار فرمایا:
«لَا تَسْأَلُونِي عَنِ الشَّرِّ، وَاسْأَلُونِي عَنِ الْخَيْرِ، يَقُولُهَا ثَلَاثًا» ثُمَّ قَالَ: «أَلَا إِنَّ شَرَّ الشَّرِّ، شِرَارُ الْعُلَمَاءِ، وَإِنَّ خَيْرَ الْخَيْرِ، خِيَارُ الْعُلَمَاءِ»
ترجمہ:
مجھ سے شر کے بارے میں سوال مت کرو، بلکہ خیر کے بارے میں سوال کیا کرو، پھر فرمایا: شر میں بدتر شر علماء کا شر ہے اور تمام بھلائیوں میں اعلی درجہ کی بھلائی علماء کا خیر ہے۔
[مسند الدارمي:382]

حضرت معاذؓ کی دوسری روایت میں پوچھنے والے نے یہ سوال کیا:
أَيُّ النَّاسِ شَرٌّ؟
کون سے لوگ برے ہیں؟
تو آپ ﷺ نے فرمایا:
«اللَّهُمَّ غَفْرًا سَلْ عَنِ الْخَيْرِ، وَلَا تَسْأَلْ عَنِ الشَّرِّ، شِرَارُ النَّاسِ ‌شِرَارُ ‌الْعُلَمَاءِ فِي النَّاسِ»
ترجمہ:
اے اللہ بخش دے، بھلائی کا سوال کر اور برائی کا سوال نہ کر، لوگوں میں سب سے برے لوگ برے علماء ہیں۔
[مسند البزار:2649، مسند الشاميين للطبراني:447، حلية الأولياء:1/242 - 5/219، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:301، ]

بدترین علماء وہ ہیں جن کی عادت خیر(فائدے) کے بجائے برائی(عیب ونقصان)پھیلانے ہی کی عادت ہو۔




(4)مذاق اڑانے کیلئے سوال پوچھنا جائز نہیں۔
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: بعض لوگ رسول اللہ ﷺ سے مذاقاً سوالات کیا کرتے تھے۔ کوئی شخص یوں پوچھتا کہ میرا باپ کون ہے؟ کسی کی اگر اونٹنی گم ہوجاتی تو وہ یہ پوچھتے کہ میری اونٹنی کہاں ہوگی؟ ایسے ہی لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار گزرے۔ یہاں تک کہ پوری آیت پڑھ کر سنائی۔
[بخاری:4622]
آج کل یہ عادت عام ہوچکی ہے کہ دین کی باتوں کو محض دل لگی کیلئے پوچھا جاتا ہے، اپنے ناقص علم سے رب کے کامل علم وحکمت پر تبصرے کئے جاتے ہیں۔

حضرت علیؓ نے ایک شخص کو فرمایا:
سَلْ تَفَقُّهًا، ‌وَلا ‌تَسْأَلْ ‌تَعَنُّتًا۔
ترجمہ:
سوال پوچھ سمجھنے کیلئے، اور مت سوال پوچھ دشمنی/ذلیل کرنے کیلئے۔
[تفسير القرآن من الجامع لابن وهب:130، تفسير عبد الرزاق:2970، الشريعة للآجري:154، الأحاديث المختارة:494، جامع الأحاديث-السيوطي:33592]




(5)اللہ پاک کے علم، قدرت اور حکم کے خلاف سوال نہ پوچھنا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ستارہ شناسوں سے کچھ مت پوچھو، اور تقدیر(اللہ کے علم وقدرت) میں شک وشبہ مت رکھو، اور نہ قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرو، اور میرے اصحاب میں سے کسی کو برا بھلا نہ کہو، یہ بات محض ایمان ہے۔
[جامع الاحادیث:16423]

القرآن:
﴿لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ ‌وَهُمْ ‌يُسْأَلُونَ﴾
ترجمہ:
وہ (یعنی اللہ) جو کچھ کرتا ہے اس کا کسی کو جواب دہ نہیں ہے، اور ان سب کو جواب دہی کرنی ہوگی۔
[سورۃ الانبیاء:23]




(6)جو واقعہ پیش نہیں آیا اس کے متعلق سوال نہ کرنا۔
حضرت ابن عمر نے فرمایا:
جو واقعہ پیش نہیں آیا اس کے متعلق سوال نہ کرو،کیوں کہ میں نے حضرت عمر کو اس شخص کو برا بھلا کہتے ہیں جو انہونی باتوں کے متعلق سوال کرے
[جامع الاحادیث:31128]
کیونکہ جو کچھ ہونے والا ہے اللہ تعالی نے اسے بیان کردیا ہے۔
[دارمی:126]





(7) علم کو یاد ومحفوظ اور گہری سمجھ رکھنے والے کی موجودگی میں عام علماء سے سوال نہ کرنا۔
امام بخاریؒ اپنی "صحیح" لکھتے ہیں:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سے ابوقیس عبدالرحمٰن بن ثروان نے، انہوں نے ہزیل بن شرحبیل سے سنا، بیان کیا کہ حضرت ابوموسیٰ ؓاشعری سے بیٹی، پوتی اور بہن کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا اور بہن کو آدھا ملے گا۔ اور تو حضرت ابن مسعود ؓ کے یہاں جا، شاید وہ بھی یہی بتائیں گے۔ پھر حضرت ابن مسعود ؓ سے پوچھا گیا اور حضرت ابوموسیٰ ؓ کی بات بھی پہنچائی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں اگر ایسا فتویٰ دوں تو گمراہ ہوچکا اور ٹھیک راستے سے بھٹک گیا۔ میں تو اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا، پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا، اس طرح دو تہائی پوری ہوجائے گی اور پھر جو باقی بچے گا وہ بہن کو ملے گا۔ پھر حضرت ابوموسیٰ ؓ کے پاس آئے اور حضرت ابن مسعود ؓ کی بات ان تک پہنچائی تو انہوں نے کہا کہ جب تک یہ عالم تم میں موجود ہیں مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو۔
[بخاری:6736][طبرانی:8499، دارقطنی:4312، بیھقی:15654]

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا رضاعت وہی ہے جو ہڈی کو مضبوط کرے اور گوشت بڑھائے، تو حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے کہا: اس عالم کی موجودگی میں تم لوگ ہم سے مسئلہ نہ پوچھا کرو۔
[ابوداؤد:2059]
[مؤطأ مالک(الأعظمی):2249، مصنف عبد الرزاق:13895، بیھقی:15664]
[تفسير البغوي:536(سورۃ النساء:11) تفسير تفسير ابن كثير:2/ 484(سورۃ النساء:176)]

No comments:

Post a Comment