Wednesday, 23 February 2022

آسمانی مذاہب کی متفقہ تعلیم


آسمانی مذاہب کی تعلیم کا مقصد Purpose »
نیکی کا شوق Motivation دلانا اور برائی سے ڈرانا۔

ایک لمبی روایت Narration میں ہے کہ

حضرت ابوذر ؓ نے (اللہ کے پیغمبر محمد ﷺ سے) عرض کیا:

اے اللہ کے پیغمبر! حضرت موسیٰ ؑ کے صحیفوں میں کیا تھا؟

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

كَانَتْ عِبَرًا كُلُّهَا۔۔۔۔اسکی ساری باتیں عبرت(نصیحت وتن٘بیہہ) کی تھیں۔

(1) عَجِبْتُ لِمَنْ أَيْقَنَ بِالْمَوْتِ ثُمَّ هُوَ يَفْرَحُ۔

تعجب ہے اس شخص پر جسے موت کا یقین ہے پھر بھی وہ(برائی کرکے)خوش ہوتا ہے!


(2) وَعَجِبْتُ لِمَنْ أَيْقَنَ بِالنَّارِ ثُمَّ هُوَ يَضْحَكُ

اور تعجب ہے اس شخص پر جسے جہنم کا یقین ہے، پھر بھی وہ(گناہ کرکے)ہنستا ہے!


(3) وَعَجِبْتُ لِمَنْ أَيْقَنَ بِالْقَدَرِ ثُمَّ هُوَ يَنْصَبُ

اور تعجب ہے اس شخص پر جسے تقدیر (یعنی ہر چیز کے خالق ومالک اللہ کے علم وقدرت) پر یقین ہے پھر بھی وہ (نیکی میں کوشش کرنے سے) تھکتا ہے!


(4) عَجِبْتُ لِمَنْ رَأَى الدُّنْيَا وَتَقَلُّبَهَا بِأَهْلِهَا ثُمَّ اطْمَأَنَّ إِلَيْهَا

اور تعجب ہے اس شخص پر جسے دنیا کیلئے دنیا والوں کا بےسکون ہونا تو نظر آرہا ہے پھر بھی وہ دنیا ہی پر ٹِکا (جَما) ہوا ہے!


(5) وَعَجِبْتُ لِمَنْ أَيْقَنَ بِالْحِسَابِ غَدًا ثُمَّ هُوَ لَا يَعْمَلُ

اور تعجب ہے اس شخص پر جسے حساب کا یقین ہے پھر بھی وہ برے کام کرتا ہے!

حوالہ جات:
[صحيح (امام) ابن حبان (المتوفی 384 ھجری) : حدیث نمبر 361]
[الأربعون حديثا للآجري(م360ھ) : حدیث نمبر 44]
[حلية الأولياء (امام) أبو نعيم الأصبهاني (م430ھ) : جلد1 / ص167]

(6) وَعَجِبْتُ لِمَنْ أَيْقَنَ ‌بِالْجَنَّةِ وَهُوَ لَا يَعْمَلُ الْحَسَنَاتِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ

اور تعجب ہے اس شخص پر جسے جنت کا یقین ہے پھر بھی وہ نیکی کی عادت نہیں اختیار کرتا۔ نہیں ہے کوئی (حقیقی) معبود علاوہ اللہ کے محمد پیغمبر ہے اللہ کا۔

حوالہ جات:
[تنبيه الغافلين بأحاديث سيد الأنبياء والمرسلين للسمرقندي (م373ھ) : حدیث نمبر 139]
[تاريخ دمشق لابن عساكر(م571ھ) : ج60 ص137]
[ترتيب الأمالي الخميسية للشجري(م499ھ) : حدیث نمبر 915]
[تاريخ الطبري(م310ھ) : ج1/ ص 452]




قرآن حکیم کی گواہی:

کامیابی اس نے پائی ہے جس نے پاکیزگی اختیار کی۔ اور اپنے رب کا نام لیا، اور نماز پڑھی۔ لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو۔ حالانکہ آخرت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے۔ یہ بات یقینا پچھلے (آسمانی) صحیفوں میں بھی درج ہے۔ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔

[سورۃ الاعلیٰ:15-19]
[تفسير (امام)ابن كثير(م774ھ) - ت السلامة : ج2 / ص472 سورۃ الاعلیٰ:19]



تشریح:
یہ آسمانی متفقہ نصیحتیں پیغمبر محمد ﷺ کی نبوت(غیبی خبریں بتلانے) اور رسالت(یعنی پیغامِ خداوندی پہنچانے کی ذمہ داری) ملنے کے واضح دلائل میں سے ہیں۔


ہمارے علم کی پُہنچ(حد):
القرآن:
لہذا (اے پیغمبر) تم ایسے آدمی کی فکر نہ کرو جس نے ہماری نصیحت سے منہ موڑ لیا ہے، اور دنیوی زندگی کے سوا وہ کچھ اور چاہتا ہی نہیں۔ ایسے لوگوں کے علم کی پہنچ بس یہیں تک ہے۔ تمہارا پروردگار ہی خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک چکا ہے، اور وہی خوب جانتا ہے کون راہ پا گیا ہے۔
[سورۃ النجم:29-30]
دنیا چھوڑوانا مقصد نہیں کیونکہ یہ تو عیسائیوں کی رہبانیت اور بدعت(یعنی غیردین کو دین بنانا) ہے۔
[حوالہ سورۃ الحدید:27]
آسمانی تعلیم کا مقصد:-
نیکی کا شوق دلانا اور برائی سے روکنا ہے۔
رب کی ہدایت ونصیحت کا مقصد اس کی نعمتوں کو ظلم کے بجائے جائز طریقے سے حاصل کرنے کا شوق دلانا اور ظلم سے روکنا مقصد ہے۔

لہٰذا

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے اپنے علم سے ماننے والوں کو دنیا کے بعد کا علم بھی دیا۔
اور
بےحساب درود وسلام ان تمام پیغمبروں اور علماء پر کہ جنہوں نے اس علم کو محفوظ رکھنے اور ہم تک پہنچانے کیلئے سخت سے سخت تکلیفیں برداشت کیں۔




*پیغمبرانہ نصیحت کیسی ہوتی ہے؟*
جو نصیحت ہر چیز کے پیدا کرنے والے کی طرف بلائے، وہ پیغمبرانہ نصیحت ہوتی ہے۔ تاکہ خالق کی تعلیم کردہ حقیقی نیکی کا شوق دلایا جائے اور حقیقی برائی سے ڈرایا جائے۔
القرآن:
*تو کیا یہ لوگ (1)اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے پیدا کیا گیا؟ اور (2)آسمان کو کہ اسے کس طرح بلند کیا گیا؟ اور (3)پہاڑوں کو کہ انہیں کس طرح گاڑا گیا؟ اور (4)زمین کو کہ اسے کیسے بچھایا گیا؟ اب (اے پیغمبر) تم نصیحت کیے جاؤ۔ تم تو بس نصیحت کرنے والے ہو۔*
[القرآن - سورۃ نمبر 88 الغاشية
آیت نمبر 21]
*۔۔۔اگر نصیحت کرنے کا فائدہ ہو۔*
[سورۃ الاعلیٰ:9]
*۔۔۔کیونکہ تم زبردستی کرنے والے(جبار)نہیں۔۔۔*
[سورۃ ق:45]
*۔۔۔کیونکہ تم اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہو، اور نہ ہی مجنون۔*
[سورۃ الطور:29]

*آیات کا پسمنظر:*
جب اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں وہ چیزیں بیان کیں جو جنت میں ہوں گی تو انکار کرنے والوں نے اس کو بڑا عجیب سمجھا اور اس کو جھٹلایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بطورِ نمونہ اپنی کاریگری بیان کی۔ تخصیص ان چار چیزوں کی اس لئے ہے کہ عرب کے لوگ اکثر جنگلوں میں چلتے پھرتے رہتے تھے ، اس وقت ان کے سامنے اونٹ ہوتے تھے اور اوپر بغیر ستون کے آسمان کو ایسی چھت بنایا کہ اس تک کوئی چیز نہیں پہنچ سکتی جو اسے تبدیل کردے، اور نیچے زمین کو سطح بچھونا بنایا اور اطراف میں پہاڑ گاڑدیئے جو زمین کو ہلنے نہیں دیتے ، اس لئے ان علامات میں غور کرنے کے لئے ارشاد فرمادیا گیا۔ اونٹ عرب کے لئے زندگی گزارنے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ ان کے لئے اس میں بہت سارے منافع تھے، جیسے: دیگر جانوروں کے مقابل بغیر زیادہ کھلانے پلانے کے ریگستان میں تیز سواری کے قابل ہونا، اس کے دودھ سے کھانے پینے کا حل، گوشت اور چمڑہ سے نفع بھی اٹھانا وغیرہ، پس جیسا کہ ان کے لئے دنیا میں یہ بنایا تو ایسے ہی اہل جنت کے لئے جنت میں یہ تمام چیزیں بنائیں۔ تو ہے کوئی الله کے علاؤہ جو اس جیسا بناسکے؟




*ہر چیز دلیل ہے اسکے بنانے والے کی۔۔۔*
دلیل(guide) اس "بیان" کو کہتے ہیں جس سے دعوىٰ(claim) ثابت کیا جاۓ۔
یعنی دعویٰ(claim) ایک چیز ہے اور جس دوسری چیز سے دعویٰ ثابت(prove) یا واضح(clear) کیا جاۓ اسے دلیل(guide) کہتے ہیں۔
جیسے:
پیغمبرانہ نصیحت ہمیں الله کی طرف راہ دکھائے...یا کائنات کی ہر چیز ہمیں اس کے بنانے والے کی طرف راہنمائی کرے تو یہ نصیحت/چیزوں کے وجود کو دلیل کہتے ہیں۔

ہر طرف اللہ کی قدرت دیکھنے والی نظر رکھنا، آنکھوں کی عبادت ہے۔



مَبادِیات:ابتدائی بنیادی باتیں:
(1)آسمانی ہدایت کے ذرائع:
اب ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ ہر چیز کے خالق ومالک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت بندوں تک کیسے پہنچے؟ تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں یہ نظام قائم فرمایا کہ انسانوں ہی میں سے کچھ منتخب بندوں(یعنی پیغمبروں) کو اپنے اور عام بندوں کے درمیان واسطہ بنایا، اور ان پر کتابیں، صحیفے اور ہدایتیں بذریعہ وحی نازل فرمائیں، ایسے منتخب انسانوں کو ’’رسول‘‘ اور ’’نبی‘‘ کہا جاتا ہے، رسول کے معنیٰ ’’قاصِد‘‘(پیغام لے جانے والا سفیر) کے آتے ہیں، اور نبی کے معنیٰ ’’اللہ کی طرف سے غیبی خبریں بتانے والے‘‘ کے آتے ہیں۔  (سلامتی ہو ان سب پر)
[مستفاد:- فتح الملہم: ۱؍۱۱۲]
ان پیغمبروں کا سلسلہ سیدنا حضرت آدمؑ سے شروع ہوا، اور آخری پیغمبر محمد ﷺ پر ختم ہوا، اس درمیان ہزاروں پیغمبر وقفہ وقفہ سے دنیا کے مختلف خطوں میں مبعوث کئے گئے، جن کی بنیادی، مشترک اور متفقہ  تعلیمات:- عقیدۂ (۱)توحید یعنی ہر چیز کے ایک/اکیلے خالق کی عبادت کرنا، (۲)رسالت یعنی خالق کے بھیجے ہوئے سارے پیغمبروں کو ماننا (۳)اور آخرت یعنی مرنے کے بعد زندگی میں خالق سے ملاقات ہونے اور اپنے اپنے اعمال کا بدلہ ملنے کو ماننا- تھیں؛ البتہ جزئی احکامات میں قدرے فرق رہا، یہ سب انبیاء علیہم السلام اپنی خداداد صلاحیتوں اور حیرت انگیز کمالات کی وجہ سے بقیہ تمام انسانوں سے ممتاز رہے، اور ان کے ہاتھوں پر ایسے معجزات اور ناقابل تردید نشانیاں ظاہر ہوئیں جنہیں دیکھ کر لوگ یہ یقین کرنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ واقعی اللہ کے منتخب بندے اور رسول ہیں۔

پیغمبروں کے بعض امتیازات:
خاص طور پر تمام پیغمبروں میں دو باتیں سب سے نمایاں تھیں :
(۱) کسی بھی پیغمبر نے دنیا میں کسی استاذ کے سامنے شاگردی اختیار نہیں کی؛ بلکہ ان کو جو بھی معلومات اور کمالات حاصل ہوئے، وہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھے، ان کی تحصیل کی میں کسی انسان کا واسطہ نہ تھا۔
(۲) ہر پیغمبر ہر طرح کی برائی اور گناہ سے محفوظ رکھا گیا، تمام تر جسمانی قوت وطاقت اور استعداد پائے جانے کے باوجود حرام باتوں سے محفوظ رہنا، جسے شریعت کی اصطلاح میں ’’عصمت‘‘ کہتے ہیں، یہ انبیاء علیہم السلام کا خاص امتیاز رہا، اور یہ اس وجہ سے تھا؛ تاکہ جب وہ اپنی قوم کو بھلائی کی طرف دعوت دینے کے لئے جائیں تو کوئی شخص ان کے کردار پر انگلی رکھنے کی ہمت نہ کرسکے۔ [شرح فقہ اکبر: ص۵۶]
ان پیغمبروں پر اللہ کی طرف سے ’’وحی‘‘(یعنی نصیحت) کا نزول ہوتا تھا، جو دو طرح کی ہوتی تھی، بعض وحی(نصیحت) ایسی ہوتی تھیں جن کا تعلق کتابِ خداوندی سے تھا، اور دیگر وحی(نصیحت) عام ہدایات سے متعلق ہوتی تھیں، ان کو بعینہٖ کتاب کی طرح پڑھنا ضروری نہ تھا، اول کو ’’وحی متلو‘‘(یعنی وہ نصیحت جسے پڑھا جائے گا نماز میں) اور دوسری کو ’’وحی غیر متلو‘‘(یعنی وہ نصیحت جسے نہیں پڑھا جائے گا نماز میں) کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔

سابقہ تمام پیغمبروں اور کتابوں پر ایمان لانا لازمی ہے۔
پچھلے پیغمبروں پر نازل شدہ کتابیں اپنے اپنے زمانہ میں ماننا (یعنی یقین اور عمل دونوں) ضروری تھیں، اسی لئے قرآنِ پاک میں جہاں ایمانیات کا ذکر ہے، ان میں رسولوں کے ساتھ اُن پر نازل شدہ کتابوں پر بھی "یقین" کو ضروری قرار دیا گیا ہے، جیساکہ ارشادِ خداوندی ہے:
اے ایمان والو! یقین کرو اللہ پر اور اس کے رسول(محمد) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول(محمد) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر بھی جو پہلے (پیغمبروں پر) نازل کی تھی، اور جو کوئی یقین نہ رکھے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور کتابوں پر اور پیغمبروں پر اور آخرت کے دن پر، وہ بہک کر بہت دور جا پڑا۔
[سورۃ النساء: ۱۳۶]
نیز ارشادِ خداوندی ہے:
مان لیا رسول(محمد) نے جو کچھ اترا اس پر اس کے رب کی طرف سے اور مسلمانوں نے بھی (یقین کرلیا)، سب نے مانا اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور اس کے رسولوں(پیغمبروں) کو، وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے (یعنی کسی کا انکار نہیں کرتے) اور کہہ اٹھے کہ ہم نے سنا اور قبول کیا، اے رب! ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری طرف لوٹ کر جانا ہے۔
[سورۃ البقرۃ: ۲۸۵]
اس سے معلوم ہوا کہ اپنے اپنے زمانہ میں تمام پیغمبر بھی مرکزِ ہدایت اور مُطاع (جس کے حکم کی تعمیل کی جائے) تھے، اسی طرح ان پر نازل ہونے والی کتابیں بھی حتمی حیثیت رکھتی تھیں، اور ان کی رہنمائی کے بغیر نجات کا کوئی سوال نہ تھا، اور ان رسولوں(پیغمبروں) کے بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ کل قیامت میں کوئی یہ نہ کہے کہ ہمارے پاس ہدایت نہیں پہنچی۔ اسی کو قدرے تفصیل کے ساتھ قرآنِ پاک کی ان آیات میں واضح فرمایا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
ارشادِ خداوندی ہے:
ہم نے (اے محمد!) آپ کی طرف اسی طرح وحی بھیجی جیسے وحی بھیجی نوح پر اور ان کے بعد آنے والے نبیوں پر، اور ہم نے وحی بھیجی ابراہیم پر اور اسماعیل پر اور اسحق پر اور یعقوب پر اور اس کی اولاد پر اور عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان پر، اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی، اور بھیجے ایسے رسول جن کے احوال ہم نے آپ کو اس سے پہلے سنائے، اور ایسے رسول جن کے حالات کا آپ کے سامنے ہم نے ذکر نہیں کیا، اور باتیں کی اللہ نے موسیٰ سے بول کر،اور ہم نے پیغمبر بھیجے خوش خبری اور ڈرانے والے؛ تاکہ باقی نہ رہے لوگوں کو اللہ پر الزام کا موقع رسولوں کے بعد، اور اللہ زبردست اور حکمت والا ہے۔
[سورۃ النساء: ۱۶۳-۱۶۴-۱۶۵]
الغرض سیدنا حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دنیا میں بھیجتے وقت اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت فرمائی تھی، اسی کے مطابق دنیا میں پیغمبروں کے ذریعہ رہنمائی کا تسلسل جاری رکھا گیا۔

چار (4) بڑی کتابیں: اور متعدد صحیفے نازل ہوئے:
(1)پیغمبر موسیٰ پر تورات نازل کی گئی۔
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اور اس کے بعد پے درپے رسول بھیجے۔ اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کی۔ پھر یہ آخر کیا معاملہ ہے کہ جب کبھی کوئی رسول تمہارے پاس کوئی ایسی بات لے کر آیا جو تمہاری نفسانی خواہشات کو پسند نہیں تھی تو تم اکڑ گئے؟ چنانچہ بعض (انبیاء) کو تم نے جھٹلایا، اور بعض کو قتل کرتے رہے۔
[سورۃ البقرۃ:87]

توریت ”عبرانی“ زبان کا لفظ ہے، جس کا معنیٰ قانون ہے۔

قرآنی اصطلاح میں تورات سے مراد وہ کتاب ہے جو عبرانی زبان میں بنی اسرائیل کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے (طور کے) جبل پر حضرت موسیٰ عليه السلام پر نازل فرمائی تھی۔ پہلے وہ قانون تختیوں پر لکھے تھے۔[سورۃ الاعراف:143-145]جس میں وعظ ونصیحت اور ہر بات کی تفصیل تھی۔[سورۃ الاعراف:154]رب کی ہدایت اور رحمت تھی[سورۃ الاعراف:154]

اور ان (کافر) لوگوں نے جب یہ کہا کہ اللہ نے کسی انسان پر کچھ نازل نہیں کیا تو انہوں نے اللہ کی صحیح قدر نہیں پہچانی۔ (33) (ان سے) کہو کہ : وہ کتاب کس نے نازل کی تھی جو موسیٰ لے کر آئے تھے، جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی، اور جس کو تم نے متفرق کاغذوں کی شکل میں رکھا ہوا ہے۔ (34) جن (میں سے کچھ) کو تم ظاہر کرتے ہو، اور بہت سے حصے چھپالیتے ہو، اور (جس کے ذریعے) تم کو ان باتوں کی تعلیم دی گئی تھی جو نہ تم جانتے تھے، نہ تمہارے باپ دادا ؟ (اے پیغمبر ! تم خود ہی اس سوال کے جواب میں) اتنا کہہ دو کہ : وہ کتاب اللہ نے نازل کی تھی۔ پھر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو کہ یہ اپنی بےہودہ گفتگو میں مشغول رہ کر دل لگی کرتے رہیں۔
[سورۃ الانعام:91]
(33) یہاں سے بعض یہودیوں کی تردید مقصود ہے، پیغمبر محمد ﷺ کی مخالفت کرتے ہوئے ایک مرتبہ ان کے ایک سردار مالک بن صیف نے غصے میں آکر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اللہ نے کسی انسان پر کچھ نازل نہیں کیا۔
(34) یعنی پوری کتاب کو ظاہر کرنے کے بجائے تم نے اسے حصوں میں بانٹ رکھا ہے۔ جو حصے تمہارے مطلب کے مطابق ہوتے ہیں ان کو تو عامل لوگوں کے سامنے ظاہر کردیتے ہو، مگر جو حصے تمہارے مفادات کے خلاف ہوتے ہیں، انہیں چھپالیتے ہو۔


(2)پیغمبر داود پر زبور نازل کی گئی۔
[حوالہ قرآن=سورۃ النساء:163، الاسراء:55 الانبیاء:105]
”زبور“ کے معنی ”نوشتہ“ اور ”کتاب“ کے ہیں۔
(3)پیغمبر عیسیٰ پر انجیل نازل کی گئی۔
انجیل یونانی لفظ ”انگیلیوں“ سے معرب ہے، اس کا معنیٰ ہے: خوش خبری کی باتیں۔ قرآنی اصطلاح میں انجیل سے مراد وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی راہ نمائی کے لیے بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ پر نازل فرمائی۔ یہ کتاب وعظ ونصائح اور اخلاقی تعلیمات پر مشتمل تھی۔ چوں کہ حضرت عیسیٰ بالاتفاق عبرانی النسل تھے، اس لیے بظاہر یہ کتاب بھی عبرانی زبان میں اتری ہوگی۔
[سورۃ المائدۃ:46، الحدید:27]
(4)آخری پیغمبر محمد پر قرآن نازل ہوا۔
[سورۃ البقرۃ:185، الانعام:19، یوسف:3، الحجر:87، طٰہٰ:2، الشوریٰ:7، الدھر/الانسان:23]

کہہ دو کہ: اے اہل کتاب ! جب تک تم تورات اور انجیل پر اور جو (کتاب) تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس (اب) بھیجی گئی ہے اس کی پوری پابندی نہیں کرو گے، تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہوگی جس پر تم کھڑے ہوسکو۔ اور (اے رسول) جو وحی اپنے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کی گئی ہے وہ ان میں سے بہت سوں کی سرکشی اور کفر میں مزید اضافہ کر کے رہے گی، لہذا تم ان کافر لوگوں پر افسوس مت کرنا۔
[سورۃ المائدۃ:65]

اہل کتاب کون؟
اہل کتاب صرف یہود اور نصاریٰ(عیسائی) نہیں ہیں بلکہ زبور یا کسی اور آسمانی کتاب کو ماننے والے بھی اہلِ کتاب میں شامل ہیں۔
حوالہ
‌‌‌أهل ‌الكتاب: ‌هم ‌اليهود ‌المشهور ببني إسرائيل والنصارى وغيرُهما ممن اعتقدوا ديناً سماوياً ولهم كتابٌ منزل كصحف إبراهيم وتوراة موسى وزبور داود وإنجيل عيسى على نبينا وعليهم الصلاة والسلام
[قواعد الفقه-البركتي:ص198، التعريفات الفقهية-البركتي: ص39][سورۃ البقرۃ:113]
حضرت موسی علیہ السلام پر توریت اور حضرت عیسی علیہ السلام پر انجیل نازل ہوئی، یہ دونوں آسمانی کتابیں تھیں، لہٰذا ان پر ایمان لانے والوں کو اہل کتاب کہا جاتا ہے، دوسرے لوگ جو کسی آسمانی کتاب کو نہیں مانتے تھے وہ کفار اور مشرکین تھے ان کے مقابلہ میں آسمانی کتاب پر ایمان لانے والوں کو اہل کتاب کہا گیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہود ونصاری ہی پائے جاتے تھے، اس لیے اہل کتاب سے یہی لوگ مراد ہیں، اگرچہ اپنے مفہوم کے لحاظ سے یہود ونصاری کے علاوہ لوگ بھی اس کا مصداق ہوسکتے ہیں، جو کسی آسمانی کتاب پر ایمان لاتے تھے۔



چار(4) بڑی کتابوں کے علاوہ صحیفے:
چار مشہور بڑی کتابوں کے علاوہ جو چھوٹی کتابیں نازل ہوئی ہیں، ان ہی کو صحیفے کہتے ہیں۔
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ : یہ (پیغمبر محمد) ہمارے پاس اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں لے آتے؟ بھلا کیا ان کے پاس پچھلے (آسمانی) صحیفوں کے مضامین کی گواہی نہیں آگئی؟
[سورۃ طٰہٰ:133]
اس آیت کی تشریح دو طرح کی جاسکتی ہے، ایک یہ کہ یہ قرآن وہ کتاب ہے جس کی پیشین گوئی پچھلے آسمانی صحیفوں میں موجود تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان صحیفوں نے قرآن کریم کی حقانیت کی گواہی دی تھی، اور دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ یہ قرآن کریم پچھلے آسمانی صحیفوں کے مضامین کی تصدیق کر کے ان کی گواہی دے رہا ہے، حالانکہ نبی کریم ﷺ جن کی زبان مبارک پر یہ کلام جاری ہوا ہے وہ اُمّی ہیں(یعنی جس نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا) ، اور ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے، جس سے وہ پچھلی کتابوں کا علم حاصل کرسکتے۔ اب جو ان آسمانی کتابوں کے مضامین ان کی زبان پر جاری ہو رہے ہیں، اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ مضامین اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں، اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اس سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کی نبوت کی اور کیا نشانی چاہتے ہو۔

ویدوں كی حقیقت:
ہم نہ تو سنسکرت زبان سے واقف ہیں نہ تو اہل ہنود کے وید کا مطالعہ کیا ہے، امکان ہے کہ وید آسمانی کتاب ہو، ہم اس کی تکذیب نہیں کرتے ہیں، نہ ہی اس کی تصدیق کرتے ہیں کیونکہ وید کے بارے میں ہمارے پاس کوئی قطعی ثبوت نہیں ہے۔


حضرت خاتم النبیین ں کی بعثتِ مبارکہ
تاآں کہ وہ مبارک دور آیا جب ان سب ہدایتوں کی آخری مرحلہ میں تکمیل ہوگئی، اور سید الاولین والآخرین، امام الانبیاء والمرسلین، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ’’رحمۃ للعالمین‘‘ بن کر کائنات کی ہدایت کے لئے مبعوث کئے گئے، اورآپ کو ’’خاتم النبیین‘‘ کا لقب عطا ہوا؛ کیوںکہ آپ پر نازل کردہ شریعت کے بعد اب مزید کسی ہدایت کی ضرورت نہ رہی تھی۔ چناںچہ حجۃ الوداع کے موقع پر قرآنِ کریم کی ایک آیت کے ذریعہ یہ اعلان کرایا گیا:
أَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلَامَ دِیْنًا۔ (المائدۃ: ۳)
آج میں پورا کرچکا تمہارے لئے تمہارا دین، اور میں نے تم پر اپنا احسان مکمل کردیا، اور میں نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کرلیا۔
نیز اعلان ہوا :
إِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الإِْسْلَامُ۔
(اٰل عمران: ۱۹)
بے شک اللہ کے نزدیک دین یہی اسلام (حکم برداری) ہے۔
نیز ارشاد ہوا:
وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الإِْسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِیْ الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ۔ (اٰل عمران: ۸۵)
اور جو کوئی دین اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب چاہے تو ہرگز اس کی طرف سے قبول نہ ہوگا، اور وہ آخرت میں خسارے والوںمیں ہوگا۔
اور متعدد جگہ ارشاد فرمایا گیا:
ہُوَ الَّذِيْ أَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ۔ (براءۃ : ۳۳)
اسی نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور کیا دین دے کر؛ تاکہ اس کو غلبہ دے ہر دین پر،اگرچہ مشرکین کو برا لگے۔
اورپیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کوحکم دیا گیا کہ آپ اعلان فرمادیں:
قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِيْ أَدْعُوْا إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ، فَسُبْحَانَ اللّٰہِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ (یوسف: ۱۰۸)
آپ فرمادیجئے کہ یہ میری راہ ہے، میں اور جو لوگ میرے ساتھ ہیں وہ سمجھ بوجھ کر اللہ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ پاک ہے، اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔
مذکورہ بالا آیات یہ واضح کررہی ہیں کہ اب انسانیت کی نجات اور فلاح صرف اور صرف شریعتِ محمدی کی پیروی ہی میں منحصر ہے، اب تمام سابقہ شریعتیں اور کتابیں دینِ محمدی کی آمد کے بعد منسوخ ہوچکی ہیں۔


(2) تورات، زبور اور انجیل وغیرہ پچھلی آسمانی کتابیں صرف کتاب اللہ ہیں، کلام اللہ نہیں ہیں، کلام اللہ آسمانی کتابوں میں صرف قرآن کریم ہے ، صحیح بات یہی ہے۔
مختصر دلائل حسب ذیل ہیں:
(۱)قرآن وحدیث میں کہیں تورات ، زبور اور انجیل کو کلام اللہ نہیں کہا گیا ہے؛ بلکہ قرآن کریم میں انہیں کُتُب اور صُحُف فرمایا گیا ہے:
”﴿كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ﴾“ [سورۃ البقرۃ، آیت:285]
”﴿صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى﴾“ [سورۃ الاعلیٰ، آیت:19]
جبکہ قرآن کریم کو متعدد جگہ کلام اللہ کہا گیا ہے۔ چناں چہ: ”حتّی یسمع کلام اللہ“ [سورہٴ توبہ، آیت:6]، یُریدون أن یبدلوا کلام اللہ [سورہٴ فتح، آیت:15]، کتبِ سماویہ کی عبارتیں کلام اللہ نہیں ہیں، صرف ان کا مضمون من جانب اللہ ہے، ان کی حیثیت احادیث قدسیہ کی طرح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ جلّ شانہ کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے۔ وہ بعینہ کلام اللہ نہیں ہوتیں۔

(۲)اللہ تعالیٰ نے کلام اللہ کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے، جب کہ کُتبِ سماویہ کی حفاظت کا اعلان نہیں فرمایا: ﴿إِنَّا نَحْنُ ‌نَزَّلْنَا ‌الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾”حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر (یعنی قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔“ [سورۃ الحجر:9] یہی وجہ ہے کہ وہ ہر قسم کے تغیرات سے پاک وصاف ہے، آج تک کلام اللہ میں ایک زیرو زبر کا بھی تغیر نہیں ہوا؛ جب کہ کتبِ سماویہ میں اس قدر تغیرات ہوئے کہ آج کوئی کتاب اپنی اصل عبارت کے ساتھ محفوظ نہ رہی، یہ خود دلیل ہے کہ دیگرآسمانی کتابیں کلام اللہ نہیں ہیں۔ موجودہ دور میں یہودیوں کے سب سے بڑے پادری: موسی میمون نے بھی لکھا ہے کہ توریت اِملاء کرائی گئی ہے۔

قرآن اللہ کا کلام ہے اور اللہ کی مقدس کتاب ہے، جب سے نازل ہوئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک اپنی اصلی زبان یعنی عربی میں موجود ہے، سب سے سچی کتاب ہے اس میں آج تک کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔ قرآن پاک میں پچھلی آسمانی کتابوں کے محرف ہونے کا جگہ جگہ تذکرہ آیا ہے، یہ سب سے بڑی دلیل ان کے محرف ہونے کی موجود ہے، آج بھی ان کتابوں کو آپ دیکھ لیجیے کہیں عبرانی، سریانی زبان میں نہیں ملیں گی بلکہ انگریزی میں ملیں گی، نہ ہی دنیا میں کوئی عبرانی زبان کا جاننے والا ملے گا، لیکن قرآن الحمد للہ عربی زبان میں نازل ہوا، اور الحمد للہ عربی زبان کے جاننے والے بولنے والے کروڑوں سے بھی زائد لوگ موجود ہیں، اور ان شاء اللہ قیامت تک موجود رہیں گے۔ اور قرآن بھی قیامت تک ہر قسم کی تحریف سے محفوظ رہے گا۔ یہودی عیسائی جو کچھ بھی جھوٹ بنائیں، اللہ کے کلام کے مقابلہ میں ان کی من گھڑت باتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔


(۳)کلام اللہ مُعجز ہوتا ہے، جبکہ کتبِ سماویہ مُعجز نہیں ہیں ، نیز کلام اللہ میں تحدّی پائی جاتی ہے، قرآن پاک میں اللہ نے شک کرنے والوں کو تحدّی فرمائی ہے، یعنی: انہیں چیلنج دیا ہے ”وإن کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فأتوا بسورة من مثلہ“ (سورہ بقرہ، آیت:)، کتبِ سماویہ کے بارے میں یہ اعجاز اور تحدّی نہیں ملتی، اس سے صاف پتہ چلتاہے کہ یہ کلام اللہ نہیں ہیں۔

(۴)جس طرح اللہ کی ذات ازلی اور ابدی ہے، اسی طرح اللہ کی صفت بھی ازلی اور ابدی ہے، کلام اللہ بھی اللہ کی صفت ہے، یہ بھی ازلی اورابدی ہے، یعنی: ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، کبھی اس کو فنا لاحق نہ ہوگا، کتبِ سماویہ اگر کلام اللہ ہوتیں تو یہ کبھی فنا نہ ہوتیں، حالانکہ کتبِ سماویہ سب مٹ گئیں اور ناپید ہوگئیں، اس کے برخلاف قرآن کریم جب سے نازل ہوا ہے، آج تک من وعن موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا، اللہ کی ذات جس طرح ماوراء الوری ہے اسی طرح اللہ کا کلام بھی ماوراء الوری ہے ، قرآن کریم کی عبارت بلاشبہہ ماوراء الوری ہے؛ لیکن دیگر کتبِ سماویہ کی عبارت ماوراء الوری نہیں ہے۔ (تفصیل کے لیے درس قرآن کی سات مجلسیں، مجموعہ ملفوظات: شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیرحمہ اللہ  ملاحظہ فرمائیں)۔اور متاخرین اور دیگر بعض اہل علم کی کتابوں میں جو قرآن کریم کے علاوہ دیگر کتب سماویہ پر کلام اللہ کا اطلاق کیا گیا ہے، وہ مجاز پر محمول ہے ،حقیقت پر محمول نہیں ہے۔

(۵)پس معلوم ہوا کہ زید کی بات صحیح ہے، اُس پر کفر یا ضلالت کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ۔
[مزید دیکھئے:- براہین قاسمیہ، ص: ۱۱۵، درس قرآن کی سات مجلسیں، مجموعہ ملفوظات حضرت مولانا حسین احمد مدنی، خطبات حکیم الاسلام:۱۶۹/۱، تحفة القاری : ۴۵/۹]



موجودہ توریت و انجیل کا تاریخی پس منظر:

موجودہ توریت کا تعارف
یہود کے بنیادی مذہبی لٹریچر کو ”بائبل“ کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل یونانی لفظ ”ببلیا“ بمعنی ”کتاب“ سے ماخوذ ہے۔ اسے عربی میں ”العہد العتیق“ انگلش میں (Old Testsament) ،اردو میں ”عہد نامہ قدیم“ یا ”پرانہ عہد نامہ“ کہتے ہیں۔ یہ بائبل ایک کتاب کا نام نہیں، بلکہ انتالیس کتابوں پر مشتمل مجموعہ کانام ہے۔ یہ مجموعہ تین حصوں میں منقسم ہے۔

پہلاحصہ (توریت)پہلاحصہ پانچ کتابوں اور ایک سو ستاسی ابواب پر مشتمل ہے۔خاص اسی حصے کو یہودی الہامی کتاب سمجھتے ہیں اور تورات کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ تورات عبرانی زبان کا لفظ ہے اور اس کا معنی ہے: تعلیم، قانون، شریعت۔ اسے عبرانی میں ”توراہ“، انگریزی میں (Torah) اور عربی میں توراة کہا جاتا ہے۔
دوسرا حصہ (صحائف انبیاء):دوسرا حصہ مختلف انبیائے کرام علیہم السلام سے موسوم ”صحائف“ اور بنی اسرائیل کے تاریخی واقعات پر مشتمل ہے۔ یہ حصہ بائیس کتابوں پر مشتمل ہے۔

تیسرا حصہ (ادبی مجموعہ)تیسرا حصہ زیادہ تر مذہبی ادبی تحریروں پر مشتمل ہے، اس میں بارہ کتابیں ہیں۔

واضح رہے کہ عہد نامہ قدیم کے دو نسخے ہیں۔ ایک عبرانی اور دوسرا یونانی۔ یہودیوں کے ہاں معتبر نسخہ عبرانی ہے اور مسیحیوں کے ہاں یونانی۔ چوں کہ ہما ری گفتگو کا موضوع عہدنامہ قدیم کا پہلا حصہ تورات ہے، اس لیے تورات کی کتابوں کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔

توریت کی پانچ کتابوں کا مختصر تعارف
پیدائش (Genesis)
پچاس ابواب پر مشتمل اس کتاب میں آسمان وزمین کی تخلیق سے لے کر حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات تک کے احوال بیان کیے گئے ہیں۔

خروج (Exodus)
چالیس ابواب پر مشتمل اس کتاب میں فرعون موسیٰ کی تخت نشینی اور بنی اسرائیل کو ایذا رسانی، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت ملنا، فرعون کے سامنے معجزات کا ظہور اور اس کا انکار، فرعون کا لشکریوں سمیت بحر قلزم میں غرق ہونا اور بنی اسرائیل کا صحرائے سینا میں بخیر پہنچ جانا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کوہ طور پر جانا اور بعض احکام شریعت اس میں مذکور ہیں۔

احبار (Leviticus)
ستائیس ابواب پر مشتمل اس کتاب میں فقہی احکام مذکور ہیں۔

شمار، گنتی (Numbers)
چھتیس ابواب پر مشتمل اس کتاب میں بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کی تقسیم اور ان کی مردم شماری، آپ کی بہن مریم کی وفات، حضرت ہارون علیہ السلام کی وفات، آپ کو آپ کی موت کے قریب ہونے کا علم، حضرت یوشع کو خلیفہ بنانا، بلعم باعوراء کی نافرمانی اور اس کا مقتول ہونا۔ نیز آپ کے بعض غزوات کا بیان ہے۔

استثناء (Deuteronomy)
چونتیس ابواب پر مشتمل اس کتاب میں وہ احکام مذکور ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ”موآب“ کی سرزمین میں نازل ہوئے۔ آپ کی وفات تک پیش آنے والے واقعات بھی اس میں مذکور ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں توریت کی کیفیت
زمانہ قدیم میں تحریر قلم وقرطاس سے وجود میں نہیں آتی تھی، بلکہ لوہا، پیتل، پتھر، لکڑی پر نقوش کندہ کردیے جاتے تھے، وہی تحریر کہلاتی۔ روئی اور ریشم سے وجود میں آنے والا کاغذ آٹھویں صدی عیسوی میں ایجاد ہوا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی توریت پتھر یا لکڑی کے تختوں پر منقوش تھی۔ توریت اسی نقش شدہ کیفیت میں نازل ہوئی تھی یا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے ان پر نقش فرمائی تھی؟ اس میں دونوں احتمال ہیں، جو مفسرین کرام نے قرآنی آیت : ﴿وَکَتَبْنَا لَہُ فِیْ الأَلْوَاحِ مِن کُلِّ شَیْْء ٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِیْلاً لِّکُلِّ شَیْْء ٍ﴾ (الأعراف: 145) ”اور ہم نے ان کو تختیوں پر ہر چیز لکھ دی، نصیحت اور تفصیل ہر چیز سے متعلق“ کی تفسیر میں بیان فرمائے ہیں۔

پتھر اور لکڑی کی یہ تختیاں انتہائی قیمتی ہوتی تھیں، اس لیے آپ نے لکڑی کا ایک صندوق بنوایا، اسی ایک نسخے کو اس میں محفوظ رکھا، ہر کس وناکس کو براہ راست اس سے استفادے کی اجازت نہیں تھی۔ توریت کے حفظ کے رواج کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کی سرکش طبیعت سے واقف تھے، ان کی طرف سے تحریف توریت کا خدشہ بھی لگا رہتا تھا، چناں چہ موجودہ توریت کی کتاب ”استثناء“ میں ہے:
”جب حضرت موسیٰ اس شریعت کی باتوں کو ایک کتاب میں لکھ چکا اور وہ ختم ہوگئیں تو موسیٰ نے لاویوں سے، جو خداوند کے عہد کے صندوق کو اٹھایا کرتے تھے، کہا کہ وہ اس شریعت کی کتاب کو لے کر خداوند اپنے خدا کے عہد کے صندوق کے پاس رکھ دو، تاکہ وہ تیرے برخلاف گواہ رہے، کیوں کہ میں تیری بغاوت اور گردن کشی کو جانتا ہوں، دیکھو! ابھی تو میرے جیتے جی تم خداوند سے بغاوت کرتے ہو، میرے مرنے کے بعد کتنا زیادہ کروگے“؟! (استثناء، باب: 31، آیت: 24،25،26)

ان حالات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تورات کی پیشگی حفاظت کی خاطر دو وصیتیں فرمائیں۔

ہر سات سال کے آخر میں جب اسرائیلی جمع ہوں توریت پڑھ کر سنائی جائے۔

ہر اسرائیلی بادشاہ اس کی ایک نقل اتروا کر اپنے پاس رکھے اور اسے پڑھتا رہے۔

پہلی وصیت سے متعلق ”استثناء“ میں ہے:
”اس صندوق میں توریت رکھ کر اسے بنی لاوی اور اسرائیل کے سب بزرگوں کے سپرد کیا اور انہیں یہ حکم بھی ارشاد فرمایا تھا کہ ہر سات سال کے آخر میں جب سب اسرائیلی جمع ہوں، تو ان کو توریت پڑھ کر سنانا۔“ (استثناء،31: 9 تا13 )

دوسری وصیت سے متعلق ”استثناء“ میں ہے:
”اور جب وہ تخت پر جلوس کرے تو اس شریعت کی، جو لاوی کاہنوں کے پاس رہے گی، ایک نقل اپنے لیے کتاب میں اتار لے اور وہ اسے اپنے پاس رکھے اور اپنی ساری عمر اسے پڑھا کرے، تاکہ وہ خداوند اپنے خدا کا خوف ماننا اوراس شریعت اور آئین کی سب باتوں پر عمل کرنا سیکھے۔“(استثناء،17: 18، 19)

یہودیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ان دونوں وصیتوں کے ساتھ وہی افسوس ناک سلوک کیا جس کااندیشہ اس ضدی اور ہٹ دھرم قوم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہوچکا تھا، چناں چہ حضرت موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ کے خلیفہ حضرت یوشع علیہ السلام نے تو اپنی زندگی میں دوبار اسے پڑھ کر قوم کو سنایا، لیکن اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد تک پڑھ کر سنانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اور نہ ہی بادشاہ کے لیے دوسرا نسخہ نقل کرانے کا ثبوت ملتا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد توریت پر کیا گزری؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد زمام خلافت حضرت یوشع علیہ السلام کے ہاتھ میں آئی، آپ اکتیس سال تک بنی اسرائیل کے منتظم اور مدبر رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وصیت کے مطابق اسرائیلی اجتماع کو دو بار توریت پڑھ کر بھی سنائی۔ آپ کی وفات کے بعد زمام خلافت حضرت ہارون علیہ السلام کے پوتے حضرت فیخاس بن الیعزر بن ہارون کے ہاتھ میں آئی، جنہوں نے پچیس سال تک قوم کی قیادت فرمائی اور انہیں شریعت پر کاربند رکھا۔ اس تمام عرصہ میں توریت کا صرف ایک ہی نسخہ تھا، جو پہلے حضرت یوشع علیہ السلام کے پاس اور پھر حضرت فیخاس کے پاس رہا، جو یہودیوں کے کاہن اعظم تھے۔ توریت سنبھالنے کا اعزاز اسی خاندان کے پاس تھا۔ عوام کو براہ راست دیکھنے پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ حضرت یوشع علیہ السلام کے بعد توریت کی سات سالہ اجتماعی سماعت بھی موقوف ہوگئی۔ حضرت فیخاس کی وفات کے بعد اقتدار کی باگ ڈور ”صور صیدا“ نامی اسرائیلی کے پاس آئی۔ یہ پہلا اسرائیلی قائد تھا جس نے اعلانیہ بت پرستی اختیار کر کے ارتداد اپنایا اور اسی کے عہد اقتدار میں پہلی بار بنی اسرائیل نے اجتماعی طور پر بت پرستی اختیار کی اور مرتد ہوئے۔ اس کے عہد سے لے کر حضرت طالوت علیہ السلام کے عہد تک جو کم وبیش ساڑھے پانچ سو سال کا عرصہ ہے، بنی اسرائیل نے سات مرتبہ اجتماعی ارتداد اختیار کیا۔ مختلف ادوار میں کیے گئے ارتداد کی مجموعی مدت کم وبیش ایک سو چودہ سال ہے، جس کی پوری تفصیل علامہ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ نے ”الملل والنحل“ میں بیان فرمائی۔

ارتدادا کا پہلا دورانیہ آٹھ سا ل تک،دوسرا دورانیہ اٹھارہ سال تک، تیسرا دورانیہ بیس سال تک ،چوتھا دورانیہ سات سال تک ،پانچواں دورانیہ تین سال تک ،چھٹا دورانیہ اٹھارہ سال تک ،ساتواں دورانیہ چالیس سال تک رہا۔

سوچنے کا مقام ہے، جو لوگ چھوٹے سے شہر میں قیام پذیر ہوں، ان کے دین کے پیروکار اس شہر کے علاوہ کہیں نہ پائے جاتے ہوں، ساڑھے پانچ سو سال تک انہوں نے تورات کی سماعت موقوف کر رکھی ہو ، اس کے حفظ کارواج تھا، نہ درس و تدریس کا، پھر سوا سو سال تک پوری قوم کفر کی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکتی رہی ہو اس صورت حال میں تورات کے محفوظ ہونے کا تصور کیونکر کیا جا سکتا ہے ؟!

تورات کی گمشدگی اور بازیافت ہونے کا افسانہ
مذکورہ عہد کے آخری منتظم حضرت شموئیل  اسرائیلی نبی تھے، جو اختلاف روایت کے ساتھ بیس برس یا چالیس برس تک بنی اسرائیل کے منتظم رہے انہوں نے اپنے بڑھاپے میں حضرت طالوت کو (جنہیں اسرائیلی روایت میں ”ساوٴل“کہا جاتا ہے)، اسرائیلیوں کا بادشاہ مقرر کیا،حضرت طالوت حضرت یوسف  کے چھوٹے بھائی بنیامین کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے،بیس برس تک بادشاہی کرنے کے بعد دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے اور زمام اقتدار حضرت داوٴد علیہ السلام کے ہاتھوں میں آگیا، جن کی مدت سلطنت چالیس سال تک رہی، آپ کے بعد آپ کے اقتدار کے وارث حضرت سلیمان علیہ السلام ہوئے اور چالیس سال تک اس شان سے بادشاہی فرمائی کہ تا قیامت ان جیسی بادشاہی کا دعوے دار کوئی نہیں ہو سکتا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں پہلی باراس صندوق کو کھولا گیا ،جس میں تورات کے محفوظ رکھے جانے کا دعویٰ تھا،لیکن جب اسے کھولا گیا تو اس میں تورات مفقود تھی……،چناں چہ یہود و نصاریٰ کی مزعومہ الہامی کتاب اس حقیقت سے یوں نقاب کشائی کرتی ہے،”اور اس صندوق میں کچھ نہ تھا سوائے پتھرکی ان دولوحوں کے، جن کو وہاں موسیٰ  نے حورب میں رکھ دیا تھا، جس وقت کہ خداوند نے بنی اسرائیل سے، جب وہ ملک مصر سے نکل آئے، عہد باندھا تھا “۔(سلاطین ،8۔9)

تورات کی زیارت ،تلاوت اور سماعت تو صدیوں سے موقوف تھی، اب گمشدگی کا راز بھی کھل گیا۔

یہاں کئی تاریخی سوالات اٹھتے ہیں ،یہ صندوق بنی ہارون کی تولیت میں تھا اور انتہائی با برکت متصور کیا جاتا تھا، اس سے اس قدر اجتماعی غفلت کیوں کر ممکن ہوئی ؟ پھراسے بازیاب کرانے کے لیے بنی اسرائیل نے کیا سرگرمی دکھائی ؟اجتماعی ارتداد کے ادوار میں اسے خود اسرائیلی کاہنوں نے ضائع تو نہیں کر دیا تھا؟

یہودی تاریخ اتنے بڑے قومی جرم سے خاموشی سے گزر جاتی ہے اور پھر تین سو ستاون سالوں کے بعد اچانک تورات کی بازیافت ہونے کی خوش خبری سناتی ہے ،اس قدر طویل عرصے کی گمشدگی کے بعد کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے کہ یہ وہی تورات ہے جو اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ پر ناز ل فرمائی تھی اور تحریف و تبدیلی جیسے تمام تغیرات سے محفوظ رہی؟

ہم ان سوالات کو یہیں چھوڑ کر تورات کے متعلق تاریخی حقائق کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہیں ۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل باہمی اختلاف کا شکار ہو گئے، بالآخر سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، ایک گروہ نے یربیعام کو بادشاہ بناکر اس کا نام”اسرائیلی حکومت “رکھ لیا ،دوسرے گروہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے بیٹے رحبعام کو اپنا بادشاہ بنا کر اپنی سلطنت کا نام ”یہوداہ کی سلطنت “رکھ لیا، پہلی سلطنت کا حلقہ اثر شمال کا علاقہ بشمول شرق اردن تھا اور پایہ تخت سامریہ تھا، دوسری سلطنت کا حلقہ اثر جنوب کے علاقوں میں تھا اور پایہ تخت یروشلم تھا۔

یہودی موٴرخین کے بیان کے مطابق گمشدہ تورات یوسیاہ بادشاہ کے عہدمیں دریافت ہوئی تھی اور یوسیاہ بادشاہ” یہوداہ کی سلطنت“ کا بادشاہ تھا۔

یوسیاہ کے عہد تک سلطنت یہوداہ کی مدت 357سال بنتی ہے، جس میں باایمان رہنے کی مجموعی مدت ایک سو بارہ سال ہے، اس کے علاوہ دو سو پینتالیس سال تک پوری قوم کفروبت پرستی میں مبتلا رہی اس پورے عرصے فقط چار بادشاہ مومن تھے،باقی کافر تھے یا کفر نواز تھے۔ اس کی مکمل تفصیل عہدنامہ قدیم کی کتاب ”تواریخ“ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ پھر یوسیاہ کے عہد میں تورات کیسے دریافت ہوئی ؟اسے انہیں کی زبانی سنیے!

”اور سردار کاہن خلقیاہ نے سافن منشی سے کہا کہ مجھے خداوندکے گھر میں توریت کی کتاب ملی ہے اور خلقیاہ نے وہ کتاب سافن کو دی اور اس نے اس کو پڑھا، اور سافن منشی بادشاہ کے پاس آیا اور بادشاہ کو خبر دی کہ تیرے خادموں نے وہ نقدی، جو ہیکل میں ملی، لے کر ا ن کارگزاروں کے ہاتھوں میں سپرد کی جو خداوند کے گھر کی نگرانی رکھتے ہیں ،سافن منشی نے بادشاہ کو یہ بھی بتایا کہ خلقیاہ کاہن نے ایک کتاب میرے حوالے کی ہے اور سافن نے اسے بادشاہ کے حضو ر پڑھا،جب بادشاہ نے توریت کی کتاب کی باتیں سنی تو اپنے کپڑے پھاڑ دیے اور بادشاہ نے خلقیاہ کاہن اور سافن کے بیٹے ”اخی قام“اور میکایاہ کے بیٹے عکبور اور سافن منشی اور عسایاہ کو ،جو بادشاہ کا ملازم تھا، یہ حکم دیا کہ یہ کتاب جو ملی ہے اس کی باتوں کے باے میں تم جا کر میری اور سب لوگوں اور سارے یہوداہ کی طرف سے خداوند سے دریافت کرو ،کیوں کہ خداوند کا بڑا غضب ہم پر اسی کے سبب سے بھڑکا ہے کہ ہمار ے باپ دادا نے اس کتاب کی باتوں کو نہ سنا۔“(سلاطین 22:8تا13)

یہاں دو باتیں قابل غور ہیں ۔

کم و بیش ساڑھے تین صدیوں سے گمشدہ کتاب کے متعلق خارجی دلائل کے بغیر کیسے یقین کر لیا جائے کہ یہ حقیقی تورات ہے ؟

بالفرض اسے حقیقی تورات فرض کر لیا جائے تو اس کے محفوظ اور غیر متبدل ہونے کا یقین کیونکر کیا جا سکتا ہے ؟

اللہ تعالی نے یہودیوں کو تورات کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی، لیکن انہوں نے اسے ضائع کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ،اس لیے قرآن کریم میں ا ن کی مثال گدھے سے دی گئی ،جس کی پیٹھ پر کتابوں کا بوجھ لدا ہو، لیکن وہ اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے ۔﴿مثل الذین حملوا التوراة ثم لم یحملوھا کمثل الحمار یحمل اسفارا﴾(مثال ان لوگوں کی جن پر بوجھ رکھا گیا تھا تورات کا، پھر انہوں نے اس کو نہیں اٹھایا گدھے کی مثال ہے جو اٹھاتا ہے کتابوں کا بوجھ )الجمعہ :5:

دریافت شدہ تورات کے ساتھ یہودیو ں کا سلوک اور بُخْتَ نَصَّر کاحملہ
یوسیاہ نے سترہ سال با حالت ایمان حکومت کی اور بالآخر مصری شاہ کے ہاتھوں شہید ہو گئے، ان کے بعد ان کے بیٹے نے زمام اقتدار اپنے ہاتھوں میں لی، اس نے حکومت سنبھالتے ہی کفر اختیار کیا اور بت پرستی کا اعلان کیا، ہارونی کاہن سے تورات لے کر جہاں کہی اللہ کا نام پایا مٹا یا، تین مہینے حکومت کرنے کے بعد شاہ مصر کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔

اس کی جگہ اس کا بھائی ”یہویا قیم “والی ملت ہوا، اس نے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے رعایا سمیت کفر کا اعلان کیا،بت خانے تعمیر کرائے، ہارونی کاہن سے کتاب لے کر اسے جلا ڈالا اور اس کا نام و نشان مٹا دیا، گیارہ سال حکومت کر کے یہ مر گیا، اس کے بعد امور مملکت اس کے بیٹے ”یہویاکین“ نے اپنے ہاتھ میں لیے، وہ بھی کافر اور بت پرست تھاتین مہینے حکومت کی تھی کہ بخت نصر خدائی کوڑا بن کر ان پر برسا اور یہ گرفتار ہو گیا، اس کی جگہ اس کا چچا ”متنیابن یوسیاہ“ والی ہوا، وہ بھی مرتد اور بت پرستی میں مبتلا تھا رعایا بھی اس کی پیروکار تھی، اس کی سلطنت گیارہ سال رہی، بالآخر یہ بھی بخت نصر کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔

بخت نصر نے 598ق م یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا، یہودیوں نے کچھ عرصے بعد بغاوت کی، جس کے نتیجے میں بخت نصر نے شہر کو تہس نہس کر دیا، ہیکل کو آگ لگا کر خاکستر کر دیا سترہزار یہودی قتل ہوئے ،باقی ماندہ یہودی، مرد ،عورتوں ،بچوں کو قیدی بنا کر اپنے ہمراہ عراق لے گیا۔

عموما ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ بخت نصر کے حملے میں ہیکل کے ساتھ تورات بھی نذر آتش ہو گئی ،حالاں کہ تورات کو تو یہودی خود اس سے پہلے جلا چکے تھے، جیسا کہ گزشتہ صفحے میں بیان کیا گیا۔

بخت نصر کے حملے کی روئیداد ،تواریخ،میں یوں مذکور ہے :
”خدا کے گھر کے سب ظروف، کیا بڑے کیا چھوٹے اور خدا وند کے گھر کے خزانے اور بادشاہ اور اس کے سرداروں کے خزانے ،یہ سب وہ بابل لے گیا اور انہوں نے خدا کے گھر کوجلا دیا اور یروشلم کی فصیل ڈھا دی اور اس کے تمام محل آگ سے جلا دیے اور اس کے سب قیمتی ظروف کو برباد کیا او ر جو تلوار سے بچے وہ ان کو بابل لے گیا، وہاں وہ اس کے اور اس کے بیٹوں کے غلام رہے جب تک فار س کی سلطنت شروع نہ ہوئی ۔(تواریخ :2:36:8:19:20)

تواریخ 2باب36آیت21میں قید کا یہ زمانہ ستر برس لکھا ہے، عہد غلامی کے اس طویل عرصے میں وہ اپنے طور طریقے ،طرز معاشرت ،بلکہ اپنی قدیمی زبان عبرانی، جس میں تورات نازل ہوئی تھی،وہ بھی بھلا چکے تھے، چناں چہ مفتاح الکتاب رومن ص:26،مطبوعہ 1856ء میں ہے ۔

”جب وہ اپنے ملک میں لوٹ آئے تو کلدی زبان کے سوا، جونواحی بابل میں رائج تھی ،عبرانی اچھی طرح نہ سمجھتے تھے۔“

تورات تو پہلے نذر آتش کر چکے تھے یا بخت نصر کے ہاتھوں کروا چکے تھے،اب تورات کی زبان سے بھی نابلد ہو گئے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور تک اکثر و بیشتر یہودی ،یونانی یا دوسری مماثل زبانیں بولتے تھے ۔

ستر سالہ غلامی سے رہائی اور توریت کی از سرنو کتابت
شاہ بابل اور شاہ ایران کے درمیان جنگ ہوئی، انجام کار ایرانی فاتح سائرس نے 539 ق م بابل پر قبضہ کر لیا، جس نے اسرائیلی قوم کی قابل رحم حالت اور مسکنت دیکھ کر انہیںآ زاد کر دیا، واپس بیت المقدس جانے کی اجازت دے دی، چناں چہ اسرائیلی ایک بار پھر اپنے وطن بیت المقدس پہنچ گئے، قید غلامی سے آزاد ہونے والے ان افراد میں حضرت عزیر علیہ السلام بھی تھے، جنہیں اسرائیلی لٹریچر میں عزرا نبی یا عزرا کاہن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس طویل عرصے تک تورات کی معدومی کی بناء پر آپ نے تورات کو اپنے حافظے سے ازسر نو لکھنا شروع کیا چناں چہ کتاب عزراہ میں ہے ۔

”یہی عزرا بابل سے گیا اور وہ موسی کی شریعت میں جسے خداوند اسرائیل کے خدا نے دیا تھا ،ماہر فقیہ تھا ۔“(عزرا :7:6)

یاد رہے یہاں ماہر فقیہ کہا گیا ہے، نہ کہ ماہر حافظ، کیٹو اپنے انسائیکلوپیڈیا ببلیکل لٹریچر میں لکھتا ہے ۔

”یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ عزرا نے تمام عہد عتیق کو محض حافظہ کی مدد سے ازسر نو تحریر کیا ،کیوں کہ ان کتابوں کے تمام نسخے تغافل شعاری کی وجہ سے معدوم ہو چکے تھے ۔“یہاں ایک نسخہ کو تمام نسخے بتلانا بھی غلط فہمی میں ڈالنا ہے، اگر ایک سے زائد نسخے ہوتے تو وہ اس قدر قلیل عرصے میں معدوم نہ ہوتے ۔

تورات کے مرتب و مدون ہونے کی بناء پر اسرائیلیوں میں آپ کا نام انتہائی احترام سے لیا جاتا ہے ،بعض فرقوں نے آپ کی تعظیم میں غلو کرتے ہوئے آپ کو ”ابن اللہ “قرار دیا، (سبحان اللہ عما یصفون)حضور صلی الله علیہ وسلم نے آپ کے متعلق ارشاد فرمایا!

” یہ مجھے نہیں معلوم کے آپ نبی تھے یا نہیں؟(سنن ابی داوٴد ،رقم الحدیث ۔4674)

قارئین انصاف فرمائیں !جس کتاب کا ستر سال تک کوئی وجود نہ تھا، پھر ستر سال کے بعد بابلیوں کی غلامی سے آزادی پانے والے ضعیف العمر عزرا کاہن نے اپنی یاداشت پر اعتماد کرتے ہوئے مرتب کیا ہو اس پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے ؟!



حضرت عزیرعلیہ السلام کی مرتب کردہ ”توریت “بھی نذر آتش
حضرت عزیر علیہ السلام کے بعد شاہ انطاکیہ 198ق م انیٹوکس ثالث نے اسرائیلی ریاست پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کر لیا، یہودیوں کا قتل عام کیا، تورات کے جس قدر نسخے جہاں ملے نذر آتش کرا دیے اور اعلان کر دیا کہ جس کے پاس تورا ت ملی یا کوئی شخص شریعت کے احکام پر عمل کرتا ہوا پایا گیا اسے قتل کر دیا جائے گا، یہودیوں کے سابقہ باہمی اختلاف و انتشار کی وجہ سے ایک گروہ مکمل اس ظالم بادشاہ کا ساتھ دیتا رہا، 175ق م اینٹوکس چہارم نے بیت المقدس میں بت رکھوا کر یہودیوں سے بت پرستی کرائی، اس کی ظالمانہ کارروائیوں کے رد عمل میں باغی تحریک اٹھی، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے فلسطین کو یونانی قبضے سے آزاد کرالیا، ایک بار پھر اسرائیلی سلطنت قائم ہو گئی، جو 67ق م تک قائم رہی ۔

اسرائیلیوں کے باہمی اختلاف و افتراق نے ایک بار پھر رومیوں کو حملے کی دعوت دی ایک گروہ نے اس کی خفیہ مدد کی چناں چہ 63ق م میں رومی سردار پومپی نے فلسطین پر حملہ کر کے اسے اپنی سلطنت کا حصے بنا دیا، لیکن انتظامی امور مقامی لوگوں کے سپردکر دیے اور ہیرود یہودی کو ان پر علامتی بادشاہ مقرر کیا ،اسی بادشاہ نے اپنی فاحشہ محبوبہ کی فرمائش پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سر قلم کرایا، محض اس لیے کہ وہ احکام الہٰی سے روگردانی کرنے پر سرزنش کرتے رہتے تھے، حضرت زکریا علیہ السلام پر جھوٹا الزام لگا کر بیت المقدس کے اندر انہیں سنگسار کیا، حضرت عیسیٰ  کو کنواری ماں کی ناجائز اولاد قرار دے کر انہیں بزعم خود لعنتی سزا، یعنی صلیب پر موت دلوانے کی کوششوں کو کام یابی سے ہم کنار کیا ۔

انبیاء علیہم السلام کی تکذیب وقتل ،فحاشی ،عریانی ،ظاہر پرستی، فسق وعصیا ن میں سرتاپا مبتلا اس قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا، پہلے ان کی سلطنت کے تین ٹکڑے ہوئے ،پھر خود اسرائیلی اور رومی ملی بھگت کے نتیجے میں 70ء میں رومی بادشاہ ٹائٹس نے ان کی سلطنت کو تہہ و بالا کر ڈالا، یہودیوں کے قتل عام میں سوا لاکھ سے زیادہ یہودی مارے گئے اور بقیہ آوارہ جہاں ہو گئے، یہاں تک کہ عالم کفر نے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے قائم کردہ اپنے ادارے ،اقوام متحدہ کے ذریعے فلسطین کو دو حصوں میں بانٹ کر اس کے مرکزی مقامات یہودیوں کے حوالے کر کے اسے اسرائیلی مملکت کا نام دے دیا۔

اسرائیلیوں کے قومی حادثات کا تاریخی تسلسل دیکھ کر تاریخ کے طالب علم کے ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں، مثلاً؛
1-ان پر آشوب حالات اور دربدری کے عہد میں مرتب کردہ کتابوں کو جو خود یہودی ،ربیوں ،کاہنوں کے نوشتہ ہیں ، انہیں آسمانی کتاب یا ان کے ہم پلہ کتاب کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ؟
2-ان حالات میں تحریر کردہ کتابوں کی استنادی حیثیت کوتاریخ کس حد تک تسلیم کرتی ہے ؟
3-نیز ان کاتبوں کے ذاتی احوال کے متعلق ہمیں تاریخ کیا معلومات دے سکتی ہے ؟
4-اپنی شرارتو ں کے رد عمل میں مسلسل انتقام کا شکار ہونے والی قوم سے کیا غیر جانب دارانہ موقف کی امید رکھی جا سکتی ہے ؟!

موجود ہ توریت کے محرف ہونے کے عقلی شواہد
موجودہ بائبل ہو یا اس کا پہلا حصہ تورات ہو،ان کے مندرجات خود محرف ہونے کی گواہی دیتے ہیں جن میں اللہ تعالی کی گستاخیاں، انبیا علیہم السلام پر شراب نوشی ،بدکاری و اور بت پرستی کی تہمتیں، کتابوں کے مضامین میں باہمی اختلاف اور تضادات کی بھرمار ہے، مثلا کتاب پیدائش کے انیسویں باب میں حضرت لوط پر شرا ب نوشی اور سگی بیٹیوں کے ساتھ زنا کرنے کا واقعہ مذکور ہے، اسی کتاب کے نویں باب کی آیت نمبر بیس تا پچیس میں حضرت نوح علیہ السلام پر شراب نوشی کا الزام عائد ہے، اسی کتاب میں حضرت یعقوب علیہ السلام کو ناشکرا، بے صبرا،جلد باز ٹھہرایا گیا ہے، بلکہ اللہ تعالی سے رات بھر کشتی کا ذکر بھی اسی میں ہے ،اسی طرح اسی کتاب میں حضرت یوسف علیہ السلام پر بھائیوں کی چغل خوری کا الزام عائد کیا گیا ہے ، کتاب خروج میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر قتل عمد اور مقتول کو ریت میں دبا کر چلے جانے کا الزام عائد کیا گیا ہے ،اسی کتاب کے تینتیسویں باب میں حضرت ہارون علیہ السلام پر شرک و کفر ،بچھڑا بنا کر اس کی عبادت میں پیش پیش رہنے کا الزام دھر دیا ہے ، تالمود جو تورات کی معتبر تفسیر ہے، اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر خفیہ عشق بازی اور بدکاری کی تہمت دھر دی ہے، کتاب سموئیل کے گیارہویں بارہویں باب میں حضرت داوٴد علیہ السلام پر اپنے فوجی جوان کی بیوی کو قصر شاہی کی چھت سے عریاں نہاتے ہوئے دیکھ کر فریفتہ ہونے ،پھر اسی شاہی محل میں بلا کر بدکاری کرنے، اس کے شوہر کو جنگ میں مروا کر اس کی بیوی کو مستقل ہتھیا لینے کا بھونڈا اور شرمناک الزام مزے لے لے کر بیان کیا گیا ہے ، حضرت سلیمان علیہ السلام پر بت پرست اور مشرکہ عورتوں کے دام فریب میں پھنسنے اور پھر ان کو اپنے نکاح میں لانے اور ان کی محبت میں بت پرستی کا میلان رکھنے کا الزام سلاطین کے باب نمبر گیارہ میں مذکور ہے ،خدا کے غضب کی ماری اس قوم نے اپنی بدکاریوں کو ہلکا بنانے اور انہیں وجہ جواز بخشنے کے لیے ان سب الزامات کا نشانہ ایسی مقدس جماعت کو بنا ڈالا جو اس سے بری تھے۔ ایک شریف انسان سے کبھی ایسی حرکتیں سرزد نہیں ہوسکتی جو انہوں نے اللہ کے برگزیدہ بندوں انبیا کے متعلق بیان کی ہیں۔

ان مندرجات کو دیکھنے کے بعد اسے اللہ کی کتاب سمجھنے والا شخص احمق ہی ہو سکتاہے ۔

علامہ ابن حزم الاندلسی  نے اپنے عہد کے ان ”دانش وروں “پر اظہار تعجب کرتے ہوئے انہیں جاہل اور قرآن و سنت کی تعلیمات سے عاری قرار دیا تھا، جو عہد عتیق و جدید کے غیر محرف ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے ،اگر وہ آج ہمارے عہد میں ہوتے تو غامدی کے دانش کدے میں استشراقی گھاٹ میں سیراب ہونے والے ایک ایسے گروہ کی بھی وہ ”زیارت“ کر لیتے جو دروغ گوئی ،تناقض بیانی ،اللہ اور اس کے رسولوں کی گستاخیوں اور فحش قصوں پر مشتمل، پہیلیوں کے اس مجموعے کو رشدو ہدایت کا بے بہا خزانا قرار دیتا ہے، بلکہ اسے حجت قرار دے کر قرآنی اشاروں کی راہ نمائی میں کتاب مقدس کی عبارتوں سے موسیقی اور مجسمہ سازی کا جواز بھی ڈھونڈ لاتا ہے ۔فالی اللہ المشتکی۔

چناں چہ غامدی صاحب لکھتے ہیں:
”سوم یہ کہ الہامی لٹریچر کے خاص اسالیب ،یہودو نصاریٰ کی تاریخ، انبیائے بنی اسرائیل کی سرگزشتوں اور اسی طرح کے دوسرے موضوعات سے متعلق قرآن کے اسالیب واشارات کو سمجھنے اور اس کے اجمال کی تفصیل کے لیے قدیم صحیفے ہی اصل ماخذ ہوں گے ۔“(میزان ،اصول ومبادی ،ص، 47،طبع پنجم)

ان کے ایک شاگرد رقم طراز ہیں۔
”بائبل تورات، زبور، انجیل اور دیگر صحف سماوی کا مجموعہ ہے، اپنی اصل کے لحاظ سے یہ اللہ کی شریعت اور حکمت کا بیان ہے، اس کے مختلف حاملین نے اپنے مذہبی تعصبات کی بنا پر اگرچہ اس کے بعض اجزاء کو ضائع کر دیااور بعض میں تحریف کر دی، تاہم اس کے باوجود اس کے اندر رشدو وہدایت کے بے بہا خزانے موجود ہیں، اس کے مندرجات کو اگر اللہ تعالی کی آخری محفوظ کتاب قرآن مجید کی روشنی میں سمجھا جائے تو فلاح انسانی کے لیے تو اس سے بہت کچھ اخذو استفادہ کیا جا سکتا ہے ،اس کتاب مقدس میں موسیقی اور آلات موسیقی کا ذکرمتعدد مقامات پر موجود ہے ان سے بصراحت یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیغمبروں کے دین میں موسیقی یا آلات کو کبھی ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔“ (منظور الحسن ،ماہنامہ اشراق، مارچ2004المورد لاہور)

توریت کے مختلف نسخے اور ان کے متعلق اہل کتاب کا باہمی اختلاف
ابھی تک جس تورات کی تاریخی حالت بیان کی گئی تھی ،اسے ”یہودی تورات “کہا جاتا ہے، اس کے مقابلے میں ایک دوسری تورات بھی ہے ،جسے ”سامری تورات “کہا جاتا ہے ۔

بخت نصر کی ستر سالہ غلامی سے آزادی پانے کے بعد جب یہ فلسطین واپس لوٹے تو ہیکل کی ازسر نو تعمیر شروع کی ،جو بخت نصر کے حملے میں بری طرح جھلس کر بے نام و نشان ہو گیا تھا، اس تعمیر میں سامری فرقے نے حصہ لینا چاہا، لیکن اسرائیلیوں نے انہیں شریک کرنے سے انکار کر دیا، کیوں کہ سامری یہودی مذہب تو رکھتا تھا، لیکن اسرائیلی خاندان سے تعلق نہیں رکھتا تھا،اس لیے اسرائیلی ان کے ساتھ نسلی تعصب رکھتے تھے، چناں چہ سامری فرقے نے اپنا الگ معبد بنایا اور الگ سے تورات مرتب کی، جسے سامری تورات کہا جاتا ہے ۔

چناچہ جی ،ٹی ،مینلی(پادری) اپنی کتاب ”ہماری کتاب مقدسہ“ میں لکھتا ہے ۔
”توریت کا سامری نسخہ عہد عتیق کے نسخوں میں اہم ترین اور صحیح ترین نسخہ ہے ،شاید اس کا آغاز آٹھویں صدی قبل از مسیح ایسے ماحول اور اسباب کے باعث ہوا جن کا ذکردوسرے سلاطین کے سترھویں باب میں ہے، اسے آسانی سے دوسرے تراجم کی صف میں شامل کر سکتے ہیں، ان میں سے کچھ اس نسخہ سے نقل کیے گئے ہیں جو فلسطین میں ”نب لوس“ میں ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ نسخہ مسیحی صدی کے آغاز میں تیار ہوا تھا ،قریباً چھ ہزار جگہوں میں اس کا متن میسوریٹک نسخے سے مختلف ہے ان اختلافات میں سے اکثر ایسے ہیں جو غیر ضروری گرائمر کے اختلافات ہیں، چند ایسے ہی جوجان بوجھ کر عمل میں لائے گئے ہیں ۔(ہماری کتب مقدسہ :ص:42)

پادری صاحب کی تشریح کے مطابق سامری تورات میں چھے ہزار مقامات ایسے ہیں جو یہودی تورات سے مختلف ہیں ،اسرائیلی، سامری تورات کی اور سامری، اسرائیلی تورات کی تکذیب کرتے ہیں اور اسے محرف سمجھتے ہیں، ہم ان دونوں کی ایک دوسرے کے متعلق بیان کی تصدیق کرتے ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ دونوں محرف ہیں ۔

پھر یہودی تورات کے دو نسخے ہیں، ایک اسرائیلیوں کے ہاں قابل اعتنا سمجھا جاتا ہے، اسے عبرانی نسخہ کہا جاتا ہے، دوسرا مسیحیوں کے ہا ں معتبر گردانا جاتا ہے، اسے یونانی نسخہ اور سبیعینہ کہا جاتا ہے مسیحیوں کے اس معتبر نسخے کی سات کتابیں متنازعہ ہیں، مسیحیوں کا کیتھو لک فرقہ اسے درست اور پروٹسنٹ فرقہ اسے جعلی قرار دیتا ہے ۔

بائبل کی موجودہ کتابوں میں بعض ایسی کتب کا تذکرہ ہے جن کا حوالہ تو دیا گیا ہے، مگر وہ مجموعے میں شامل اشاعت نہیں ہے ،جن کی تعداد ڈیڑھ درجن سے زائد ہے ۔

ان کتابوں کی اس ناگفتہ بہ حالت دیکھنے کے بعد ادنی عقل رکھنے والا شخص بھی اسے آسمانی نہیں کہہ سکتا اور نہ قرآن کریم ان لچر اور بے ہودہ کتابوں کی تصدیق کا حکم دیتا ہے ۔

قرآن کریم موجودہ توریت وانجیل کی تصدیق نہیں کرتا
قرآن کریم میں جہاں جہاں توریت و انجیل کی تصدیق کی بات آتی ہے وہاں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کا حضرت موسیٰ  پر تورات اور حضرت عیسیٰ  پر انجیل کا نازل کرنا حق و سچ ہے ،قرآن اس نزول کی تصدیق کرتا ہے، مسلمان اس نزول پر ایمان رکھتے ہیں، نہ کہ مجہول الحال لوگوں کی کذب بیانی پر مشتمل نوشتہ کتابوں پر، اگر چہ ان کا نام تورات و انجیل رکھ لیا جائے۔ مولانا ادریس کاندھلوی  اپنے ایک رسالے ”اسلام اور نصرانیت “میں لکھتے ہیں ۔”موجودہ تورات و انجیل وہ تورات نہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوئی تھیں، اصل تورات و انجیل کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے، جس کا خود علمائے یہود و نصاریٰ کو اعتراف ہے اور اقرار ہے۔ “ (اسلام اور نصرانیت:47)

موجودہ توریت اور یہودی ،مسیحی مفکرین کا نقطہ نظر
پہلی صدی عیسوی تک تمام یہودی و مسیحی علماء کے نزدیک پورے عہدہ قدیم کو وحی اور اسے لفظ بہ لفظ منزل من السماء سمجھا جاتا تھا، بعض عبارتوں کو معنوی طور پر غلط اور بعض عبارتوں کو اخلاقی لحاظ سے پست اور مذموم قرار دیا؟ ”پوفری“نامی مسیحی عالم (متوفی ،304ع)نے یہ ثابت کیا کہ صحیفہ دانیال بابل کی جلا وطنی کے چار سو سال بعد لکھا گیا ،اسی طرح ایک ہسپانوی یہودی عالم ابن عزرا ،متوفی 11 27ع نے تحقیق سے ثابت کیا کہ تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کی تالیف ہے، کئی محققین نہ صرف یہ عقیدہ رکھتے ہیں بلکہ اس کی تبلیغ کرتے ہیں ،بلکہ اب اکثر یہودی تورات کے متعلق تنزیل لفظی کا عقیدہ ہی نہیں رکھتے، چناں چہ مولانا دریا آبادی اپنی تفسیر ”تفسیر ماجدی“سورة آل عمران کی آیت نمبر تین کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔

”موجودہ بول چال میں تورات نام ہے متعدد صحیفوں کے مجموعے کا،جن میں سے ہر صحیفہ کسی نہ کسی نبی کی جانب منسوب ہے ،لیکن ان میں سے کسی ایک صحیفے کی بھی تنزیل لفظی کا دعویٰ کسی یہودی کو نہیں۔“ (انسائیکلوپیڈیا،برٹانیکا جلد نمبر 3ص:613)

موجودہ انجیل کی حقیقت
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی تھے اور بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے تھے اس لیے حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکار عہدنامہ عتیق پر بھی یہود کی طرح ایمان رکھتے ہیں، مسیحی حضرات جس کتاب کو انجیل کے نام سے موسوم کرتے ہیں اسے عہد جدید اور ”نیا عہد نامہ “کہا جاتا ہے، دونوں عہد کے مجموعہ کو کیتھولک فرقے کے ہاں ”کتاب مقدس “اور پروٹسنٹ کے ہاں ”کلام مقدس“ کہا جاتاہے، اسے عربی میں ”الکتاب المقدس“اور انگریزی میں بائبل کہا جاتا ہے ،عہد نامہ انجیل سے مراد وہ چار اناجیل ہیں جو مختلف لوگوں نے تحریر کی ہیں، مسیحی ان اناجیل اربعہ کو آسمانی کتاب نہیں سمجھتے، بلکہ اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ان اناجیل میں سے کوئی انجیل حضرت عیسی علیہ السلام کے عہد مبارک میں نہیں پائی جاتی تھی، اس لیے علی بن احمد بن حزم اندلسی نے فرمایا ”مسیحیوں نے ان اناجیل کے متعلق انسانی تصنیف کا اقرار کرکے ہمیں اس کے انسانی تصنیف کے ثبوت پر دلائل قائم کرنے کی مشقت سے آزاد کر دیا ہے ۔“(الملل والنحل لابن حزم :ص:241)

پہلی انجیل متیٰ نامی شخص کی تصنیف ہے اور 28 ابواب پر مشتمل ہے۔

دوسری انجیل ہرقس نامی شخص کی تصنیف ہے جو12 ابواب پر مشتمل ہے اور تیسری انجیل لوقا نامی شخص کی جانب منسوب ہے، جو24 ابواب پر مشتمل ہے ،چوتھی انجیل یوحنا نامی شخص کی تصیف ہے، جو 21 ابواب پر مشتمل ہے ۔

ان چاروں اناجیل کی تصانیف کا زمانہ مختلف فیہ ہے اور اس کی تعیین پر مسیحی علماء کا اتفاق نہ ہو سکا۔

واضح رہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت پر بالاتفاق ایک سو بیس افراد ایمان لائے تھے، سب اپنا ایمان خفیہ رکھتے تھے، ظاہری اعمال میں یہود کے ساتھ موافقت کرتے تھے، یہود کے مذہبی دن ”سبت“کی پابندی کرتے تھے۔

اگر کسی کا ایمان ظاہر ہوتا تو شہید کر دیا جاتا، کئی مسیحی مومن افشا ایمان کے بعد شہادت سے سرفراز ہوئے ،حضرت مسیح عیسیٰ علیہ السلام کے رفع سماوی کے تین سو سال تک مسیحیوں کی یہی حالت رہی ، اسی دوران حقیقی انجیل ،جو اللہ تعالی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمائی تھی، ان کے درمیان سے جاتی رہی اس کے نام پر کئی انسانی تصانیف انجیل کے نام پر مروج ہو گئیں، جو کذب بیانی اور اللہ تعالی کی بے ادبی و گستاخی ،انبیاء علیہم السلام پر بہتان بازی اور فحش بیانی میں تورات سے بھی سبقت لے گئیں ،پھر ان مروج انجیل میں چار اناجیل ،انجیل متی ،انجیل مرقس۔انجیل لوقا، انجیل یوحنا کا طریقہ انتخاب کسی داستاں سے کم نہیں اس کا بیان ایک مستقل مضمون کا متقاضی ہے۔

خلاصہ کلام
مسیحی تاریخ کا مدار اور ماخذمذکورہ اناجیل اربعہ ہیں ،اس لیے ان سے بحث و تمحیص کرتے ہوئے ان باتو ں کو ذہن نشین رکھیں ۔
1-یہ انجیلیں حضرت عیسی علیہ السلام کی املا کردہ نہیں ہیں ،بلکہ حضرت مسیح نے انہیں دیکھا تک نہیں ۔
2-اس کے لکھنے والے لوگ مجہول اور غیر معروف ہیں ،کسی کی حیات پردے میں ہے ،کسی کی خدمات اور مذکورہ انجیلوں سے ان کا تفصیلی تعلق بھی واضح نہیں ہے ۔
3-ان کی تصانیف مخصوص لوگوں کی قیادت ،مختلف حالات ، اور زبانوں کے موافق ہوئی ہے ۔
4-اصل انجیلوں کی گمشدگی پر تمام مسیحی علماء کا اتفاق ہے ۔

چور الٹا کوتوال کو ڈانٹے
وعظ و شفا کے نا م پر علم و دین سے لا تعلق غریب مسلمانوں کو ورغلانے کے لیے مسیحی مشنریوں نے مختلف طریقہائے واردات اختیار کر رکھے ہیں، ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ تمہارے عقیدے کے موافق حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا ضروری ہے یا نہیں؟ مسلمان اس کا جواب ہاں میں دیتے ہیں ۔پھر دوسرا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ مسلمان قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں اور قرآن کریم تورات وانجیل پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے یا نہیں ؟مسلمان اس کا جواب بھی ہاں میں دیتے ہیں ۔ اس کے بعد موجودہ انجیل کی روشنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ”ابن اللہ “کے حق میں وعظ شروع کر دیا جاتا ہے ۔

اس دوران اگر کوئی مسلمان موجودہ انجیل کو محرف قرار دے یا اس کی تعلیمات پر نقطہ اعتراض اٹھائے تو اس سے مطالبہ شروع کر دیا جاتا ہے کہ اگر یہ اصلی انجیل نہیں ہے تو قرآن مجید میں جس انجیل کی تصدیق کی گئی ہے وہ لا کر دکھاوٴ۔

پادری حضرا ت کے اس مطالبے پر تعجب ہوتا ہے، قرآن کریم نے کب موجودہ تورات وانجیل کی تصدیق کی ہے یا اس پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے ؟نیز اللہ تعالی کی نازل کردہ کتاب انجیل مقدس کی حفاظت کی ذمے داری، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کی تھی یا امت محمدیہ علی صاحبہا الف تحیہ کی ؟ان کی حقیقی کتابوں اور تعلیمات سے غفلت برتنے کا نا قابل معافی جرم کا طوق تم نے اپنے گلے میں ڈالا یا ہم نے ؟اپنے مذکورہ جرائم پر اظہار ندامت کرتے ہوئے اسلام کے دامن رحمت سے وابستہ ہونے کے بجائے الٹا مسلمانوں سے اصلی انجیل دکھانے کا مطالبہ کس منہ سے کرتے ہو؟






فرمانِ نبوی کی قرآنی تشریح:

(1)ناحق خوش ہونے والے کون؟

یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو لوگ اپنے (برے)کاموں پر بڑے خوش ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف ان کاموں پر بھی کی جائے جو انہوں نے کئے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کے لیے دردناک سزا (تیار) ہے۔

[سورۃ آل عمران، آیت نمبر 188]

اگر تم(پاک، نیک اور سچے فرمانبرداروں)کو کوئی بھلائی مل جائے تو ان(ناپاک، بدکار، نافرمانوں) کو برا لگتا ہے، اور اگر تمہیں کوئی گزند پہنچے تو یہ اس سے خوش ہوتے ہیں، اگر تم صبر اور تقوی سے کام لو تو ان کی چالیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گی۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ سب اللہ کے (علم اور قدرت کے) احاطے میں ہے۔

[سورۃ آل عمران، آیت نمبر 120]

پھر انہیں جو نصیحت کی گئی تھی، جب وہ اسے بھلا بیٹھے تو ہم نے ان پر ہر نعمت کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ جو نعمتیں انہیں دی گئی تھیں، جب وہ ان پر اترانے لگے تو ہم نے اچانک ان کو آپکڑا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بالکل مایوس ہو کر رہ گئے۔

[سورۃ الانعام، آیت نمبر 44]

اگر تم(پاک، نیک اور سچے فرمانبرداروں)کو کوئی بھلائی مل جائے تو ان(منافقوں)کو دکھ ہوتا ہے، اور اگر تم پر کوئی مصیبت آپڑے تو کہتے ہیں کہ: ہم نے تو پہلے ہی اپنا بچاؤ کرلیا تھا، اور (یہ کہہ کر) بڑے خوش خوش واپس جاتے ہیں۔

[سورۃ التوبہ، آیت نمبر 50]

جن لوگوں کو (غزوہ تبوک سے) پیچھے رہنے دیا گیا تھا، وہ رسول اللہ کے جانے کے بعد اپنے (گھروں میں) بیٹھے رہنے سے بڑے خوش ہوئے، اور ان کو یہ بات ناگوار تھی کہ وہ اللہ کے راستے میں اپنے مال و جان سے جہاد کریں، اور انہوں نے کہا تھا کہ : اس گرمی میں نہ نکلو۔ کہو کہ : جہنم کی آگ گرمی میں کہیں زیادہ سخت ہے۔ کاش۔ ان کو سمجھ ہوتی۔

[سورۃ التوبہ، آیت نمبر 81]

اور جب ہم انسان(یعنی بھلانے والے) کو اپنی طرف سے کسی رحمت کا مزہ چکھا کر پھر اس سے واپس لے لیتے ہیں تو وہ مایوس (نہ پکارنے والا) ناشکرا(احسان بھلا دینے والا) بن جاتا ہے۔ اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اسے نعمتوں کا مزہ چکھا دیں تو وہ کہتا ہے کہ ساری تکلیفیں مجھ سے دور ہوگئیں۔ پھر وہ فخر کرتے ہوئے (اترا کر شیخیاں بگھارتے ہوئے) خوش ہونے لگتا ہے۔

[سورۃ ھود، آیت نمبر 9-10]



No comments:

Post a Comment