Monday 16 May 2022

فاسقوں (گناہگاروں-نافرمانوں) کی اقسام، درجات، احکام اور ان کے درمیان فرق



فاسق (گناہگار-نافرمان) کی اقسام»

فاسق(نافرمان) کی تین اقسام ہیں:

(1)کافر:-جو انکاری-جھٹلانے والا ہو۔

[حوالہ سورۃ الانعام:49، الاحقاف:20، البقرۃ:99][سورۃ الکافرون]

کافر کی 2 اقسام:

(1)پُر-امن کافر:

القرآن:

اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی، اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، ان کے ساتھ تم کوئی نیکی کا یا انصاف کا معاملہ کرو، یقینا اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

[سورۃ الممتحنہ:8]

(2)فسادی کافر:

القرآن:

اللہ تو تمہیں اس بات سے منع کرتا ہے کہ جن لوگوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملے میں جنگ کی ہے، اور تمہیں اپنے گھروں سے نکالا ہے، اور تمہیں نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے، تم ان سے دوستی رکھو۔ اور جو لوگ ان سے دوستی رکھیں گے، وہ ظالم ہیں۔

[سورۃ الممتحنہ:9]

جو تیرے راستہ میں روک بنتے ہیں، رسولوں کو جھٹلاتے ہیں، اولیاء (مومن بندوں) کو قتل کرتے ہیں۔

[مصنف ابن ابي شيبة:4968، سنن الكبري للبيهقي:3143، صحيح ابن خزيمة:1100]




(2)منافق:-

[حوالہ سورۃ التوبہ:67، 8، 24، 80، 84، 96، المائدۃ:81][سورۃ المنافقون:6]

الَّذِيۡنَ يُسَارِعُوۡنَ فِى الۡكُفۡرِ مِنَ الَّذِيۡنَ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِاَفۡوَاهِهِمۡ وَلَمۡ تُؤۡمِنۡ قُلُوۡبُهُمۡ‌ ‌ۛۚ 

ترجمہ:

جو لوگ جلدی کرتے ہیں کفر میں جنہوں نے اپنی زبانوں سے تو کہہ دیا ہے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، مگر ان کے دل ایمان نہیں لائے۔

[سورۃ المائدة:41]

«الَّذِي يَصِفُ الْإِسْلَامَ وَلَا يَعْمَلُ بِهِ»

جو باتیں تو اسلام کی کرے اور اس پر عمل نہ کرے۔

[کتاب الزهد(امام)وكيع بن الجراح» حدیث#471]

المنافق الذي يُظهِر ‌الإسلامَ ‌ويُبطِن ‌الكفرَ۔

ترجمہ:

منافق وہ ہے جو اسلام کو ظاہر کرتا اور کفر کو چھپاتا ہے۔

[جامع المسائل-امام ابن تيمية(م728ھ): ج4 / ص133، بغية المرتاد في الرد على المتفلسفة والقرامطة والباطنية-امام ابن تيمية(م728ھ): ص338، عمدة الحفاظ في تفسير أشرف الألفاظ-امام الحلبي(م756ھ):4/ 207، الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري-امام الكرماني(م786ھ): ج1/ ص147، تفسير ابن عرفة(م803ھ) النسخة الكاملة: ج4/ ص70، ص254، المعتصر من المختصر من مشكل الآثار-امام الملطي(م803ھ): ج2/ ص320، اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح-امام البرماوي(م831ھ): ج1/ ص216، عمدة القاري شرح صحيح البخاري-امام بدر الدين العيني(م855ھ) : ج1 / ص217، فتح القريب المجيب على الترغيب والترهيب-امام حسن بن علي الفيومي(م870ھ) : ج3 / ص381، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح-الملا على القاري (م1014ھ) : ج1 /ص126، فيض القدير-المناوي(م1031ھ) : ج2 / ص385، كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم-التهانوي(م1158ھ) : ج2 /ص1652]

منافق کی 3 اقسام:

ایمان کے بعد کفر کرنے والے-ایمان کے بعد کفر کرنے اور پھر کفر میں مزید بڑھنے والے

[حوالہ سورۃ آل عمران:90+86، النساء:137]

(1)اللہ اور اسکی آیات کا ٹیڑھا ملطلب لینے والے-ملحد

[حوالہ سورۃ آل عمران:7 (صحيح البخاري:4547) - سورۃ الاعراف:180، فصلت:40]

(2)دھوکہ دینے کیلئے:-ایمان کو ظاہر کرنے اور کفر کو چھپانے والے، اور توبہ نہ کرنے والے-زندیق

[حوالہ سورۃ البقرۃ:9-14، آل عمران:90، النساء:137]

الَّذِي ‌يَدْعُو النَّاسَ إِلَى زَنْدَقَتِهِ

ترجمہ:

جو لوگوں کو اپنی اپنے زندقہ(بدعت) کی طرف بلاتا ہے۔

[تفسير الرازي:27/ 509، اللباب في علوم الكتاب-ابن عادل:17 /41، تفسير النيسابوري:6 /34، حاشية ابن عابدين:4 /242، تفسير حدائق الروح والريحان:25 /171]

الدَّاعِي إلَى زَنْدَقَتِهِ

ترجمہ:

اپنے زندقہ(بدعت) کی طرف بلانے والا۔

[حاشية ابن عابدين:4 /236، الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي:7 /5594]

(3)دین سے الٹے پاؤں پھرجانے والے-﴿اپنے دین کو بدلنے والے﴾-مرتد

[حوالہ سورۃ البقرۃ:143+217، سورۃ آل عمران:72، المائدۃ:54]


نفاق (منافقت) اور جہنم کی آگ سے نجات والے اعمال

http://raahedaleel.blogspot.com/2014/06/blog-post_13.html



(3)ایمان کے بعد فسق(نافرمانی) کرنے والا:-

[حوالہ سورۃ الحجرات:11، البقرۃ:197، 282، الحشر:19]

جو اپنی زبان سے ایمان لائے لیکن ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہوا۔

[سنن أبي داود:4880 {الجامع - معمر بن راشد:20251سنن الترمذي:2032]

جسے اپنی برائی بری لگے۔

[سنن الترمذي:2165، السنن الكبرى-النسائي:9177، صحيح ابن حبان:4909]

گناہ اسکے نفس/سینے میں کھٹکے اور تو وہ یہ ناپسند کرے کہ لوگوں کو اسکی اطلاع ہو۔

[حاکم:2172، ترمذی:2389، مسلم:2553]

برائی دیکھے تو اپنی طاقت کے مطابق اسے روکے۔

[صحیح مسلم:49، سنن ابوداؤد:4340، سنن نسائی:5011، سنن ترمذی:2172، سنن ابن ماجه:1275]


*کفار کی مدد، اسلام اور مسلمانوں کی خلاف اور منافقین کے حق میں ہوتی ہے۔*
القرآن:
اور منافقوں کو یہ خوشخبری سنا دو کہ ان کے لیے ایک دکھ دینے والا عذاب تیار ہے۔ وہ منافق جو مسلمانوں کے بجائے کافروں کو دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کے پاس عزت تلاش کر رہے ہیں؟ حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کی ہے۔
[سورۃ نمبر 4 النساءآیت نمبر 139]
https://youtu.be/6GC_LOYZLpM

*فاسق اور منافق میں فرق»*
فاسق یعنی گناہگار، جو اسلام کو دل سے مانتا ہے لیکن عمل میں کمزور ہوتا ہے۔
اور
منافق وہ ہے جو اسلامی اعمال کا دکھلاوا کرتے ہوئے خود کو تو مومن ظاہر کرتا ہے لیکن دل میں اسلام کو نہیں مانتا، جس کی دلیل ونشانی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا اور ان سے مدد لینا ہے۔




مومنین، کافرین اور منافقین کی دو دو اقسام

امام ابن کثیرؒ(م774ھ) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

وَقَدْ قَسَّمَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ فِي أَوَّلِ الْوَاقِعَةِ وَآخِرِهَا وَفِي سُورَةِ الْإِنْسَانِ، إِلَى قِسْمَيْنِ: سَابِقُونَ وَهُمُ الْمُقَرَّبُونَ، وَأَصْحَابُ يَمِينٍ وَهُمُ الْأَبْرَارُ. فَتُلُخِّصَ مِنْ مَجْمُوعِ هَذِهِ الْآيَاتِ الْكَرِيمَاتِأَنَّ الْمُؤْمِنِينَ صِنْفَانِ: مُقَرَّبُونَ وَأَبْرَارٌ، وَأَنَّ الْكَافِرِينَ صِنْفَانِ: دُعَاةٌ وَمُقَلِّدُونَ، وَأَنَّ الْمُنَافِقِينَ -أَيْضًا-صِنْفَانِ: مُنَافِقٌ خَالِصٌ، وَمُنَافِقٌ فِيهِ ‌شُعْبَةٌ ‌مِنْ ‌نِفَاقٍ، كَمَا جَاءَ فِي الصَّحِيحَيْنِ۔

ترجمہ:

اور یقینا اللہ نے مومنین کی دو قسمیں بیان کی ہیں:- سورة واقعہ[آیت:10، 27] کے شروع اور آخر میں، اور سورة انسان[آیت:5] میں:-(1)سابقین اور یہی مقربین بارگاہ ربانی ہیں، اور(2)اصحاب یمین۔ اور نیکوکار لوگ ہیں۔ پس ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ مومنوں کی دو جماعتیں ہیں:- (1)مقرب اور (2)ابرار۔ اور بےشک کافرین کی بھی دو قسمیں ہیں:-(1)کفر کی طرف بُلانے والے اور (2)ان کی تقلید کرنے والے۔[حوالہ سورۃ النور:39-40] اور بےشک منافقین کی بھی دو قسمیں ہیں:-(1)خالص-پکے منافق اور (2)وہ منافق جن میں نفاق کی ایک آدھ شاخ(نشانی/عادت) ہے۔

[تفسير ابن كثير - ت السلامة : جلد1/ صفحہ176]



حضرت ابوسعیدؓ الخدری سے {اور حضرت حذیفہؓ اور حضرت سلمان فارسيؓ سے موقوفا} روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

دل چار قسم کے ہیں: ایک تو صاف دل جو روشن چراغ کی طرح چمک رہا ہو، دوسرے وہ دل جو غلاف آلود ہیں، تیسرے وہ دل جو الٹے ہیں، اور چوتھے وہ دل جو مخلوط ہیں۔ (1)پہلا دل مومن کا ہے جو پوری طرح نورانی ہے، (2)دوسرا کافر کا دل ہے جس پر پردے پڑے ہوئے ہیں، (2)تیسرا دل خالص منافقوں کا ہے جو جانتا ہے اور انکار کرتا ہے، (2)چوتھا دل اس منافق کا ہے جس میں ایمان و نفاق دونوں جمع ہیں۔ ایمان کی مثال اس سبزے کی طرح ہے جو پاکیزہ پانی سے بڑھ رہا ہو اور نفاق کی مثال اس پھوڑے کی طرح ہے جس میں پیپ اور خون بڑھتا ہی جاتا ہو اب جو مادہ بڑھ جائے وہ سرے پر غالب آجاتا ہے۔

[مسند أحمد:11129، صفة النفاق ونعت المنافقين لأبي نعيم:161]

{الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي:1439، المصنف - ابن أبي شيبة:32423(30404)، السنة لعبد الله بن أحمد:820 (تفسير الطبري:1497، تفسير ابن كثير، الدر المنثور-سورة البقرة:88، سورة فصلت:5)}

{تفسير ابن أبي حاتم:8667+15206}



مومن کا دل:

القرآن:

(ایسے لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ) اے ہمارے رب تو نے ہمیں جو ہدایت عطا فرمائی ہے اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا نہ ہونے دے، اور خاص اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا فرما۔ بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جو بےانتہا بخشش کی خوگر ہے۔

[سورۃ آل عمران:8]

کافر کا دل:

اور (پیغمبر ﷺ سے) کہتے ہیں کہ جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو اس کے لیے ہمارے دل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں.

[سورة فصلت:5]

اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ : ہمارے دل غلاف میں ہیں۔ نہیں ! بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال رکھی ہے اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔

[سورة البقرة:88]

گناہوں سے مخلوط دل:

اور (یہ مال فیئ) ان لوگوں کا بھی حق ہے جو ان (مہاجرین اور انصار صحابہ) کے بعد آئے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہماری بھی مغفرت فرمایئے، اور ہمارے ان بھائیوں کی بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں، اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی بغض نہ رکھیے۔ اے ہمارے پروردگار ! آپ بہت شفیق، بہت مہربان ہیں۔

[سورۃ الحشر:10]




(1)کافر کا حکم»

القرآن:

اور بیشک ہم نے (اے محمد ﷺ!) آپ پر ایسی آیتیں اتاری ہیں جو حق کو آشکارہ کرنے والی ہیں، اور ان کا انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو نافرمان ہیں۔

[سوڑۃ البقرۃ:99]

اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، ان کو عذاب پہنچ کر رہے گا، کیونکہ وہ نافرمانی کے عادی تھے۔

[سورۃ الانعام:49]

اور اس دن کو یاد کرو جب ان کافروں کو آگ کے سامنے پیش کیا جائے گا (اور کہا جائے گا کہ) تم نے اپنے حصے کی اچھی چیزیں اپنی دنیوی زندگی میں ختم کر ڈالیں (12) اور ان سے خوب مزہ لے لیا، لہذا آج تمہیں بدلے میں ذلت کی سزا ملے گی، کیونکہ تم زمین میں ناحق تکبر کیا کرتے تھے، اور کیونکہ تم نافرمانی کے عادی تھے۔

[سورۃ الاحقاف:20]

12: یعنی اگر تم نے دنیا میں کچھ اچھے کام کیے بھی تھے تو ہم نے دنیا ہی میں ان کا بدلہ عیش و عشرت کی شکل میں تمہیں دے دیا، اور تم نے اس کے مزے اڑا کر اپنا حصہ دنیا ہی میں لے لیا۔



(2)منافق کا بیان»

منافق دل میں ایمان نہیں کفر رکھتا ہے، یعنی اپنی برائی کو برائی نہیں مانتا، بس زبان اور عمل سے خود کا مومن ہونا ظاہر کرتا رہتا ہے۔

اللہ پاک کے فرمان:

جب منافق لوگ (اے پیغمبر!) تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ آپ واقعی اس کے رسول ہیں، اور اللہ (یہ بھی) گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق لوگ جھوٹے ہیں۔

[سورۃ المنافقون:1]

کچھ لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لے آئے، حالانکہ وہ (حقیقت میں) مومن نہیں ہیں۔

[سورۃ البقرۃ:8]

کے متعلق امام ابن جریجؒ(م150ھ) فرماتے ہیں:

الْمُنَافِقُ يُخَالِفُ قَوْلُه فِعْلَهُ، وسِرّه عَلَانِيَتَهُ، وَمَدْخَلُهُ مَخْرَجَهُ، وَمَشْهَدُهُ مَغِيبه

ترجمہ:

منافق کا قول اس کے فعل کے خلاف، اور اس کا باطن ظاہر کے خلاف، اور اس کا آنا جانے کے خلاف، اور اس کی موجودگی عدم موجودگی ہوا کرتی ہے۔

[تفسير الطبري(م310ھ): حدیث نمبر319 (1/ 2170 دار التربية والتراث)]



اعلانیہ-کھلم کھلا گناہ کرنا کفریہ نفاق ہے۔

حضرت حذیفہ بن الیمانؓ نے بیان کیا کہ آج کل کے منافق نبی کریم ﷺ کے زمانے کے منافقین سے بدتر ہیں۔ اس وقت چھپاتے تھے اور آج اس کا کھلم کھلا اظہار کر رہے ہیں۔

[صحيح البخاري:7113]

حضرت حذیفہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں جو نفاق تھا وہ آج ایمان کے بعد کفر اختیار کرلیتا ہے۔

[صحيح البخاري:7114]

پھر (بطورِ دلیل یہ آیت) پڑھی:

تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا، اور ان کے لیے اس دین کو ضرور اقتدار بخشے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور ان کو جو خوف لاحق رہا ہے، اس کے بدلے انہیں ضرور امن عطا کرے گا۔ (بس) وہ میری عبادت کریں، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور جو لوگ اس کے بعد بھی کفر کریں گے تو ایسے لوگ نافرمان ہوں گے۔

[سورۃ النور:55]





امام ابن کثیرؒ(م774ھ) اپنی تفسیر میں [سورۃ البقرۃ،آیت8] کے تحت لکھتے ہیں:

النِّفَاقُ: هُوَ إِظْهَارُ الْخَيْرِ وَإِسْرَارُ الشَّرِّ، وَهُوَ أَنْوَاعٌ: اعْتِقَادِيٌّ، وَهُوَ الَّذِي يَخْلُدُ صَاحِبُهُ فِي النَّارِ، وَعَمَلِيٌّ وَهُوَ مِنْ أَكْبَرِ الذُّنُوبِ

ترجمہ:

نفاق کہتے ہیں بھلائی ظاہر کرنے اور برائی پوشیدہ رکھنے کو۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں:- (1)اعتقادی اور (2)عملی۔

پہلی قسم کے منافقين {اگر بغیر توبہ مریں} تو ابدی جہنمی ہیں۔

[حوالہ سورۃ النساء:140، التوبہ:68 {البقرة:161، آل عمران:191، التوبه:84-185، محمد:34}]

اور دوسری قسم کے بدترین مجرم ہیں۔

[تفسير ابن كثير - ت السلامة : ج1/ ص176]

یعنی

عادلانہ حکم کے مطابق مجرم قابلِ سزا ہے لیکن فاضلانہ حکم کے مطابق اگر توبہ کرے تو معافی کے قابل، اور اگر اصلاح بھی کرلے تو اجر کے قابل ہو۔



امام کرمانیؒ(م786ھ) نے صحیح بخاری کی تشریح کرتے لکھتے ہیں:

أن هذه ‌الخصال ‌قد ‌توجد ‌في ‌المسلم المصدق بقلبه ولسانه مع أن الإجماع حاصل على أنه لا يحكم بكفره ولا بنفاق يجعله في الدرك الأسفل من النار۔
ترجمہ:
یہ (منافقانہ) صفات ایک مسلمان میں پائی جا سکتی ہیں جو اپنے دل اور زبان سے ایمان رکھتا ہو، حالانکہ اجماع یہ ہے کہ اس کے ساتھ کفر کا حکم نہیں لگایا جاتا، اور نہ ہی  اس نفاق کا جس سے ہوگا جہنم کے سب سے نیچے درجے میں۔
[الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري-الكرماني: جلد 1 / صفحہ148]
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري-بدر الدين العيني(م855ھ) : 1/ 221]
[فتح الباري لابن حجر(م852ھ) : 1 / 90]
[التوضيح لشرح الجامع الصحيح-ابن الملقن(م804ھ) : 3 / 55]
[فتح القريب المجيب على الترغيب والترهيب-حسن بن علي الفيومي(م870ھ) : 11/ 692]
[حاشية السيوطي(م911ھ) على سنن النسائي: 8/ 116]
[مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح-الملا على القاري(م1014ھ) : 1 /126]

[فيض القدير-المناوي(م1031ھ) : 1 /63]






مومن سے بھی نافرمانی ہوسکتی ہے:

لیکن مومن اپنی برائی کو برائی مانتا ہے۔ لہٰذا مومن توبہ(یعنی نافرمانی پر ندامت) اور اصلاح(یعنی نقصان کی تلافی کرکے بھلائی) کرتا ہے۔

لوگوں کے سامنے اپنی برائی ظاہر ہونے-اعلانیہ برائی کو پسند نہیں کرتا۔

وہ ایمان کا کمزور درجہ والا ہے، جسے ایمان کا اعلیٰ درجہ حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

دلائل:

اللہ پاک نے (ایمان وعمل میں کمی کوتاہی کرنے والوں کو ایمان والا) فرمایا:


(1) اے (زبان سے) ایمان لانے والو! (دل سے) ایمان لے آؤ۔۔۔

[سورۃ النساء:136 (موسوعة التفسير المأثور:20654)]


(2) اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔۔۔

[سورۃ البقرۃ:208]

یعنی دین میں پورا داخل نہ ہونے والوں کو بھی مومن کرکے مخاطب فرمایا۔


(3) اے ایمان والو! مت ہو ان جیسے جنہوں نے کفر(انکار)کیا۔۔۔

 [سورۃ آل عمران:156]

یعنی کافرانہ باتیں، اعمال، شکل وصورت اختیار کرنے والوں کو بھی مومن کرکے مخاطب  فرمایا۔


(4) اے ایمان والو ! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے۔۔۔۔

[سورۃ آل عمران:102]

یعنی اللہ سے ڈرنے میں کوتاہی کرنے والوں کو بھی مومن کرکے مخاطب فرمایا۔


(5) اے ایمان والو! توبہ کرو (لوٹ آؤ) الله کی طرف سچی توبہ کرتے ہوئے۔۔۔

[سورۃ التحریم:8]

یعنی سچی توبہ نہ کرنے والوں کو بھی مومن کرکے مخاطب فرمایا۔




رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنی زبان سے اور حال یہ ہے کہ ایمان اس کے دل میں داخل نہیں ہوا {نہیں پہنچا} {خالص نہیں ہوا} {دل سے ایمان نہیں لائے}، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو {مومنوں کو ایذاء نہ پہنچاؤ}{اور ان کو عار مت دلاؤ} اور ان کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو، اس لیے کہ جو ان کے عیوب کے پیچھے پڑے گا، اللہ اس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اور اللہ جس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اسے اسی کے گھر میں ذلیل و رسوا کر دے گا ۔

[سنن أبي داود:4880،

{سنن الترمذي:2032}

{مسند الروياني:305، المعجم الأوسط للطبراني:3778}

{التوبيخ والتنبيه لأبي الشيخ الأصبهاني:87، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:2511}

{الجامع - معمر بن راشد:20251}]


القرآن:

یہ دیہاتی کہتے ہیں کہ : ہم ایمان لے آئے ہیں۔ ان سے کہو کہ : تم ایمان تو نہیں لائے، البتہ یہ کہو کہ ہم نے ہتھیار ڈال دیے ہیں، (10) اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اور اگر تم واقعی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال (کے ثواب) میں ذرا بھی کمی نہیں کرے گا۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔

[سورۃ الحجرات:14 (تفسير البغوي:2007، الزمخشري،القرطبي،ابن كثير،الدر المنثور،المظهري،الألوسي)]

اور لوگوں میں ایک وہ شخص بھی ہے کہ دنیوی زندگی کے بارے میں اس کی باتیں تمہیں بڑی اچھی لگتی ہیں اور جو کچھ اس کے دل میں ہے اس پر وہ اللہ کو گواہ بھی بناتا ہے، حالانکہ وہ (تمہارے) دشمنوں میں سب سے زیادہ کٹر(جھگڑالو) ہے۔

[سورۃ البقرۃ:204 (البحر المحيط في التفسير-أبو حيان الأندلسي:2/ 338)]

اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، تو ان کو اسی کوڑے لگاؤ، اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود فاسق ہیں۔

[سورۃ النور:4 (روح البيان-إسماعيل حقي:6/ 119)]






حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے  فرمایا :
«ثَلَاثٌ لَا يَسْتَخِفُّ بِحَقِّهِمْ إِلَّا مُنَافِقٌ، ذُو الشَّيْبَةِ فِي الْإِسْلَامِ , وَالْإِمَامُ الْمُقْسِطُ , وَمُعَلِّمُ الْخَيْرِ»
ترجمہ:
تین شخص ایسے ہیں کہ جن کے حق کو منافق کے سوا کوئی شخص حقیر وذلیل نہیں سمجھ سکتا: ایک وہ شخص جو اسلام کی حالت میں بوڑھا ہوگیا، اور عادل بادشاہ اور خیر کی تعلیم دینے والا(عالم)۔
[جامع بيان العلم:1/542، رقم الحدیث:898، (مصنف ابن أبي شيبة:32562)]



حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"ثلاثٌ لا يَستَخِفُّ بهم إلا منافقٌ: ذو الشيبة في الإسلام، وذو العلمِ، وإمامٌ مُقسِط".
ترجمہ:
تین شخص ایسے ہیں کہ جن کو منافق کے سوا کوئی شخص حقیر وذلیل نہیں سمجھ سکتا: ایک وہ شخص جو اسلام کی حالت میں بوڑھا ہوگیا، دوسرا صاحبِ علم اور تیسرا عادل بادشاہ۔
[الأموال لابن زنجويه » بَابٌ : مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ تَوْقِيرِ أَئِمَّةِ الْعَدْلِ ... رقم الحديث: 49 - المعجم الكبير للطبراني » بَابُ الصَّادِ » مَنِ اسْمُهُ الصَّعْبُ » صُدَيُّ بْنُ الْعَجْلانِ أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ ... رقم الحديث: 7720(7817) - التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب، للمنذري:1/65، كتاب الْعلم، حديث:174 - مجمع الزوائد، للهيثمي: 1/132]


حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ عَمَّارٌ: ثَلَاثٌ لَا يَسْتَخِفُّ بِحَقِّهِنَّ إِلَّا مُنَافِقٌ بَيِّنٌ نِفَاقُهُ: الْإِمَامُ الْمُقْسِطُ وَمُعَلِّمُ الْخَيْرِ وَذُو الشَّيْبَةِ فِي الْإِسْلَامِ.
ترجمہ:
تین لوگ ایسے ہیں جن کے حقوق کو سوائے منافق کے  جس کا نفاق واضح ہے اور کوئی ہلکا نہیں سمجھتا: انصاف کرنے والا امام، خیر کی تعلیم دینے والا اور جو اسلام کی حالت میں بوڑھا ہوگیا۔

[مصنف ابن أبي شيبة : كِتَابُ الْسير، باب مَا جَاءَ فِي الْإِمَامِ الْعَادِلِ ... 32562(6/421)]



منافق اور فاسق (گناہگار) میں فرق»

(1) اپنی برائی کو برا سمجھنے والا اعتقادی منافق نہیں، فاسق (گناہگار)مومن ہے۔

اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَذَلِكَ الْمُؤْمِنُ۔

ترجمہ:

جسے اپنی نیکی سے خوشی اور اپنی برائی سے تکلیف ہو(بری لگے) تو وہ مومن ہے۔

[سنن الترمذي:2165، السنن الكبرى-النسائي:9177، صحيح ابن حبان:4909]


القرآن:

اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول موجود ہیں۔ بہت سی باتیں ہیں جن میں وہ اگر تمہاری بات مان لیں تو خود تم مشکل میں پڑجاؤ۔ لیکن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے، اور اسے تمہارے دلوں میں پرکشش بنادیا ہے، اور تمہارے اندر کفر کی اور گناہوں اور نافرمانی کی نفرت بٹھا دی ہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو ٹھیک ٹھیک راستے پر آچکے ہیں۔

[سورۃ الحجرات:7 (تفسير ابن كثير)]

یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو (منافق) لوگ اپنے کئے پر بڑے خوش ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف ان کاموں پر بھی کی جائے جو انہوں نے کئے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کے لیے دردناک سزا (تیار) ہے۔

[سورۃ آل عمران:188 (تفسير الراغب الأصفهاني:3/ 1037)]

مومن تو وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور ترقی دیتی ہیں اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔

[سورۃ الانفال:2 (الإشارات الإلهية إلي المباحث الأصولية-الطوفي: صفحہ305)]





(2) اپنی برائی کو برا ماننے کی علامت:-

یہ ناپسند کرنا کہ لوگوں کو اس گناہ کی اطلاع ہو۔

اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:

۔۔۔وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ {نَفْسِكَ} وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ۔

ترجمہ:

۔۔۔اور گناہ وہ ہے جو تیرے سینے {تيرے نفس} میں کھٹکے اور تو یہ ناپسند کرے کہ لوگوں کو اسکی اطلاع ہو۔

[مسند أحمد:22199 {17631}، صحيح مسلم:2553، {ترمذی:2389} حاکم:33+2171+2172+7047]


القرآن:

۔۔۔۔اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو۔۔۔

[سورۃ المائدۃ:2 (تفسير الثعلبي:1212+1213، تفسير البغوي:742)]

تم نیکی کے مقام تک اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچو گے جب تک ان چیزوں میں سے (اللہ کے لیے) خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہیں۔ اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

[سورۃ آل عمران:92 (تفسير الخازن:1/268)]

یعنی

اللہ کی محبت میں اسکی تعلیم کے مطابق خرچ کرنا یہ خوبی مومن کی ہے، کافر یا منافق کو یہ خوبی نصیب نہیں ہوتی۔

مومن اسی عمل/طریقہ کو نیکی مانتا ہے جو اللہ نے ہدایت کی۔



اعتقادی منافق کون؟

حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنِ حَمْدَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عِمْرَان، وَسُلَيْمَانُ ابْنُ بِنْتِ شُرَحْبِيلَ، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الْعَمْيَاءِ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ هَجَانٍ، وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ لَمَّا دَخَلَ الشَّامَ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَامَ خَطِيبًا، وَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِينَا خَطِيبًا كَقِيَامِي فِيكُمْ، فَقَالَ:

«أَمَارَةُ الْمُنَافِقِ الَّذِي لا تَسُؤُهُ سَيِّئَتُهُ، وَلا تَسُرُّهُ حَسَنَتُهُ، إِنْ عَمِلَ خَيْرًا لَمْ يَرْجُو مِنَ اللَّهِ فِي ذَلِكَ الْخَيْرِ ثَوَابًا، وَإِنْ عَمِلَ شَرًّا لَمْ يَخَفْ مِنَ اللَّهِ فِي ذَلِكَ الشَّرِّ عُقُوبَةً»

ترجمہ:

ہم سے ابو عمرو بن حمدان نے بیان کیا، کہا ہم سے حسن بن سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن سفیان نے بیان کیا، انہیں عبدالعزیز بن عمران نے اور ہم سے سلیمان بنت شرہبیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ رحمن بن ابی الامیہ نے مجھ سے حضرت سائب بن ھجانؓ کی روایت سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے، بیان کیا کہ جب حضرت عمر بن الخطاب شام میں داخل ہوئے تو آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور کھڑے ہو کر وعظ کیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے خطیب کی حیثیت سے کھڑے ہوئے جیسا کہ میں نے تمہارے درمیان کھڑا ہوں، پھر فرمایا:

"منافق کی علامت (یہ ہے) جسے اپنی برائی بری نہ لگے، اور اسے اسکی نیکی سے خوشی نہ ہو، اگر (بالفرض) وہ نیکی کرے تو اس نیکی میں اللہ سے اجر کی امید نہیں رکھتا اور اگر وہ برائی کرتا ہے تو اللہ سے نہیں ڈرتا اس برائی کی سزا میں۔"

[صفة النفاق ونعت المنافقين لأبي نعيم:67]


القرآن:

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس حکم کی طرف جو اللہ نے اتارا ہے اور آؤ رسول کی طرف، تو تم ان منافقوں کو دیکھو گے کہ وہ تم سے پوری طرح منہ موڑ بیٹھتے ہیں۔

[سورۃ النساء:61]

اور تاکہ ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے جو اللہ کے ساتھ بدگمانیاں رکھتے ہیں، برائی کا پھیرا انہی پر پڑا ہوا ہے، (5) اور اللہ ان سے ناراض ہے اس نے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا ہے، اور ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔

[سورۃ الفتح:6]

(5) یعنی وہ اپنے خیال میں مسلمانوں کے خلاف برے برے منصوبے بناتے ہیں، لیکن برائی کے پھیر میں وہ خود پڑے ہوئے ہیں، کیونکہ ایک طرف ان کے منصوبے ناکام ہوں گے، اور دوسری طرف انہیں اللہ تعالیٰ کے قہر کا سامنا کرنا پڑے گا۔[سورۃ الکافرون]



اللہ کی باتوں کا مذاق اڑانے والے اور اللہ والوں کے دشمن:

اور اس نے کتاب میں تم پر یہ حکم نازل کیا ہے کہ جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ ان کا انکار کیا جارہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ اس وقت تک مت بیٹھو جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں، ورنہ تم بھی انہی جیسے ہوجاؤ گے۔ یقین رکھو کہ اللہ تمام منافقوں اور کافروں کو جہنم میں اکٹھا کرنے والا ہے۔ (اے مسلمانو) یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے (انجام کے) انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ چنانچہ اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملے تو (تم سے) کہتے ہیں کہ : کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کو (فتح) نصیب ہو تو (ان سے) کہتے ہیں کہ: کیا ہم نے تم پر قابو نہیں پالیا تھا؟ اور کیا (اس کے باوجود) ہم نے تمہیں مسلمانوں سے نہیں بچایا ؟ (83) بس اب تو اللہ ہی قیامت کے دن تمہارے اور ان کے درمیان فیصلہ کرے گا، اور اللہ کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کا ہرگز کوئی راستہ نہیں رکھے گا۔ یہ منافق (اپنے خیال میں) اللہ کے ساتھ دھوکا بازی کرتے ہیں، حالانکہ اللہ نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ (84) اور جب یہ لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو کسمساتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کے سامنے دکھاوا کرتے ہیں، اور اللہ کو تھوڑا ہی یاد کرتے ہیں۔ یہ کفر و ایمان کے درمیان ڈانواڈول ہیں، نہ پورے طور پر ان (مسلمانوں) کی طرف ہیں، نہ ان (کافروں) کی طرف۔ اور جسے اللہ گمراہی میں ڈال دے، تمہیں اس کے لیے ہدایت پر آنے کا کوئی راستہ ہرگز نہیں مل سکتا۔ اے ایمان والو ! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست (رازدار) مت بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ کے پاس اپنے خلاف (یعنی اپنے مستحق عذاب ہونے کی) ایک کھلی کھلی وجہ پیدا کردو؟ یقین جانو کہ) منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے، اور ان کے لیے تم کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔

[سورۃ النساء:140-145]

(83) یعنی ان لوگوں کو اصل غرض دنیوی مفادات سے ہے۔ اگر مسلمانوں کو فتح ہو اور مال غنیمت ہاتھ آئے تو یہ ان کے ساتھی ہونے کا دعویٰ کر کے ان سے مال بٹورنے کی فکر میں رہتے ہیں، اور اگر کبھی کافروں کا داؤ چل جائے تو ان پر یہ احسان جتلاتے ہیں کہ اگر ہماری مدد تمہارے ساتھ نہ ہوتی تو مسلمان تم پر غالب آجاتے۔ لہذا ہمیں ہماری ان خدمات کا مالی صلہ دو۔

(84) اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جو سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے اللہ کو دھوکا دے دیا، تو در حقیقت یہ خود ہی دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اللہ کو کوئی دھوکا نہیں دے سکتا، اور اللہ تعالیٰ ان کو اس دھوکے میں پڑا رہنے دیتا ہے جو انہوں نے خود اپنے آپ کو اپنے اختیار سے دے رکھا ہے۔ اور اس جملے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ ان کو دھکے میں ڈالنے والا ہے۔ اس ترجمے کی بنیاد پر اس کا ایک مطلب بعض مفسرین (مثلا حضرت حسن بصری) نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کو اس دھوکے کی سزا آخرت میں اللہ تعالیٰ اس طرح دے گا کہ شروع میں ان کو بھی مسلمانوں کے ساتھ کچھ دور لے جایا جائے گا۔ اور مسلمانوں کو جو نور عطا ہوگا۔ اسی کی روشنی میں کچھ دور تک یہ بھی مسلمانوں کے ساتھ چلیں گے، اور یہ سمجھنے لگیں گے کہ ان کا انجام بھی مسلمانوں کے ساتھ ہوگا، مگر آگے جا کر ان سے روشنی چھین لی جائے گی، اور یہ بھٹکتے رہ جائیں گے، اور بالآخر دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے، جیسا کہ سورة حدید (12:57۔ 14) میں اس کا بیان آیا ہے۔






یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو (منافق) لوگ اپنے کئے پر بڑے خوش ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف ان کاموں پر بھی کی جائے جو انہوں نے کئے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کے لیے دردناک سزا (تیار) ہے۔

[سورۃ آل عمران:188]

۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔

کون منافق نہیں؟ عملی منافق اصلی منافق نہیں۔

دل میں ایمان کی تصدیق کے دلیل:- نفاق کا خوف آنا اور اس پر راضی نہ ہونا۔

أن رجلا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إني قرأت البارحة "براءة" فخشيت أن أكون قد نافقت، فقال: أتشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله? قال: نعم، قال: ‌تحدث ‌بذلك ‌نفسك قال: لا، قال: أنت مؤمن۔

ترجمہ:

ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل میں نے (سورۃ) براءۃ پڑھی۔ تو مجھے ڈر ہوا کہ میں منافقت کر رہا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا: جی ہاں، اس نے کہا: اس(منافقت) کے بارے میں تم خود سے بات(تمنا) کرتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: تم مومن ہو۔

[أصول السنة-لابن أبي زمنين(م399ھ) : حدیث نمبر 170]




نفاق پر افسوس:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ حَرْمَلَةُ بْنُ زَيْدٍ الأَنْصَارِيُّ أَحَدُ بَنِي حَارِثَةَ، فَجَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، "‌‌ الإِيمَانُ هَاهُنَا، وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى لِسَانِهِ، وَالنِّفَاقُ هَاهُنَا، وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى صَدْرِهِ، ‌وَلا ‌نَذْكُرُ ‌اللَّهَ ‌إِلا ‌قَلِيلا.

فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَدَّدَ ذَلِكَ حَرْمَلَةُ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِطَرَفِ لِسَانِ حَرْمَلَةَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اجْعَلْ لَهُ لِسَانًا صَادِقًا، وَقَلْبًا شَاكِرًا وَارْزُقْهُ حُبِّي، وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّنِي، وَصَيِّرْ أَمْرَهُ إِلَى خَيْرٍ.

فَقَالَ لَهُ حَرْمَلَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي إِخْوَانًا مُنَافِقِينَ، كُنْتُ فِيهِمْ رَأْسًا، أَفَلا أَدُلُّكَ عَلَيْهِمْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ جَاءَنَا كَمَا جِئْتَنَا اسْتَغْفَرْنَا لَهُ كَمَا اسْتَغْفَرْنَا لَكَ، وَمَنْ أَصَرَّ عَلَى ذَلِكَ فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِ، وَلا نَخْرِقُ عَلَى أَحَدٍ سِتْرًا

ترجمہ:

حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ بنی حارثہ میں سے حرملہ بن زید انصاریؓ آپ کے پاس آئے اور آپ ﷺ سامنے بیٹھ گئے۔ پھر کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ، (ہم لوگوں کا) ایمان یہاں ہے اور اپنے ہاتھ سے زبان کی طرف اشارہ کیا، اور (ہم لوگوں کا) نفاق یہاں ہے اور اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا، اور ہم اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر نہت ہی تھوڑا۔

چنانچہ رسول اللہ ﷺ خاموش ہو گئے اور حرملہ نے یہ بات دہرائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرملہ کی زبان کی نوک پکڑ لی اور فرمایا:

اے اللہ! اسکی زبان سچی، اور دل شکر کرنے والی بنا، اور اسے میری محبت، اور مجھ سے محبت کرنے والوں کی محبت عطا فرما، اور اس کے معاملات کو بھلائی میں بدل دے۔

حرملہ نے آپ سے کہا:

یا رسول اللہ، میرے منافق بھائی ہیں اور میں ان میں سرفہرست تھا، تو کیا میں آپ کو ان کے بارے میں نہ بتاؤں؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جو ہمارے پاس آئے جیسا کہ تم ہمارے پاس آئے، ہم اس کے لیے استغفار(اللہ سے معافی کی درخواست) کرتے ہیں جیسے ہم نے تمہارے لیے استغفار کیا، اور جو اس (منافقت) پر اصرار کرے(اڑا رہے) تو اللہ اس (کا فیصلہ کرنے) کا زیادہ حقدار ہے، اور ہم کسی کا پردہ نہیں توڑیں گے۔

[صفة النفاق ونعت المنافقين لأبي نعيم:5، تاريخ دمشق لابن عساكر:8727، أسد الغابة في معرفة الصحابة:‌‌1129]

وقال الهيثمي (9/ 410): رجاله رجال الصحيح

[جمع الفوائد من جامع الأصول:8960]



دل میں ایمان کی تصدیق کی دلیل:

(اللہ کی تعلیم کردہ) نیکی پسند آنا اور برائی بری لگنا۔

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، حَدَّثَنَا مَيْمُونُ بْنُ أَبِي مَيْمُونٍ، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ رَجُلا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنِّي‌‌ أَخَافُ عَلَى نَفْسِي النِّفَاقَ.

فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتَ لَوْ حَضَرَتْكَ الصَّلاةُ وَأَنْتَ  بِمَكَانٍ لا يَرَاكَ فِيهِ أَحَدٌ أَكُنْتَ مُصَلِّيًا لَهُ ذَلِكَ؟ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَمَنْ يَدَعْ هَذَا.

قَالَ: أَرَأَيْتَ لَوْ أَصَابَتْكَ جَنَابَةٌ تَحْتَ اللَّيْلِ، لَوْ يَعْلَمُ بِهَا أَحَدٌ، أَكُنْتَ مُغْتَسِلا؟ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَمَنْ يَدَعُ هَذَا! قَالَ: أَرَأَيْتَ لَوْ سَمِعْتَ أَحَدًا يَنْتَقِصُ كِتَابَ اللَّهِ، أَكُنْتَ مُقِرًّا لَهُ ذَلِكَ؟ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، مَا كُنْتُ لأَفْعَلَ! قَالَ: فَزَعَمَ أَنَّهُ قَالَ لَهُ قَوْلا حَسَنًا، وَقَالَ: لَسْتُ مُنَافِقًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ "

ترجمہ:

ہم سے ابراہیم بن عبداللہ نے حدیث بیان کی،انہوں نے کہا کہ: ہم سے محمد بن اسحاق ثقفی نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم سے قتیبہ بن سعید نے حدیث بیان کی، کہا ہم سے کثیر بن ہشام نے حدیث بیان کی، کہا ہم سے جعفر بن برقان نے حدیث بیان کی، کہا ہم سے میمون بن ابی میمون نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے پہنچی (خبر) کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا:

مجھے اپنے لیے نفاق (یعنی منافق ہونے) کا خوف ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:

تمہارا کیا خیال ہے اگر تم اس حالت میں نماز پڑھتے جبکہ تم ایسی جگہ ہوتے جہاں تمہیں کوئی بھی نماز پڑھتے نہ دیکھے تو کیا تم ایسے نماز پڑھنے والے ہوگے؟

اس نے کہا:

اللہ پاک ہے، کون اسے چھوڑے گا؟

آپ ﷺ نے فرمایا:

تمہارا کیا خیال ہے اگر تم رات کے اندر جنابت سے متاثر ہو، اور اگر کسی کو اس کا علم ہو جائے تو کیا تم غسل کرو گے؟

اس نے کہا:

اللہ پاک ہے، کون اسے چھوڑے گا؟

آپ ﷺ نے فرمایا:

کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اگر تم نے کسی کو کتاب الٰہی میں نقص نکالتے ہوئے سنا تو کیا تم اس کا اقرار کرو گے؟

اس نے کہا:

اللہ پاک ہے، میں ایسا نہیں کروں گا!

اس(راوی آدمی) نے کہا:

آپ ﷺ نے اس آنے والے شخص کی بات کو اچھا سمجھا۔

تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم منافق نہیں، اگر اللہ نے چاہا۔

[صفة النفاق ونعت المنافقين لأبي نعيم(م430ھ): حدیث نمبر 175]




(3) مومن کے ایمان کا سب سے کمزور درجہ:-

دوسروں کو بھی کسی نہ کسی صورت (اعلانیہ-کبیرہ)برائی سے روکنا۔

اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:

(جب اعلانیہ برائی ہوتے دیکھو تو ہاتھ سے روکو، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکو)

۔۔۔فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ

ترجمہ:

پھر اگر اسکی بھی طاقت نہ ہو تو اسے دل سے

(روکے یعنی اسے برا سمجھے، اس سے دور رہے اور اپنے ماتحتوں کو روکے)

اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔

[صحیح مسلم:49، سنن ابوداؤد:4340، سنن نسائی:5011، سنن ترمذی:2172، سنن ابن ماجه:1275]


القرآن:

اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔

[سورۃ آل عمران:104]

(تفسير السمرقندي:1/ 236، تفسير الراغب الأصفهاني:2/ 774، تفسير البغوي:418)

وہ (حد سے گذرنے والے) جس بدی کا ارتکاب کرتے تھے، اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا طرز عمل نہایت برا تھا۔

[سورۃ المائدۃ:79 (تفسير ابن كثير)]

القرآن:

زمانے کی قسم۔ انسان درحقیقت بڑے گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کریں، اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کریں۔ (2)

[سورۃ العصر:1-3]

1: یعنی زمانے کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو لوگ ایمان اور نیک عمل سے محروم ہوتے ہیں، وہ بڑے گھاٹے میں ہیں اس لئے کہ ایسی بہت سی قوموں کو دنیا ہی میں آسمانی عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ہر زمانے میں اللہ کی نازل کی ہوئی کتابیں اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبر خبر دار کرتے رہے ہیں کہ اگر ایمان اور نیک عمل کی رَوِش اختیار نہ کی گئی تو آخرت میں بڑا سخت عذاب انسان کا منتظر ہے۔

2: اس سے معلوم ہوا کہ خود نیک بن جانا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اپنے اپنے اثرو رسوخ کے دائرے میں دوسروں کو حق بات اور صبر کی تلقین کرنا بھی ضروری ہے، صبر قرآن کریم کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان کی دلی خواہشات اسے کسی فریضے کی ادائیگی سے روک رہی ہوں یا کسی گناہ پر آمادہ کررہی ہوں اس وقت ان خواہشات کو کچلا جائے، اور جب کوئی ناگوار بات سامنے آئے تو اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر اعتراض سے اپنے آپ کو روکا جائے، ہاں تقدیر کا شکوہ کئے بغیر اس ناگوار چیز کے تدارک کی جائز تدبیر کرنا صبر کے خلاف نہیں ہے۔ مزید دیکھئے سورة آل عمران کی آخری آیت پر ہمارا حاشیہ۔




اعتقادی منافق اور عملی منافق:-کی مشترکہ علامات ظاہری (نافرمانیاں) ہوتی ہیں»

فاسق یعنی نافرمانی کا عادی ہونا۔

[حوالہ سورۃ التوبہ:67]

یتیموں کو دھکے دینا، مسکینوں کو کھلانے کا شوق نہ دلانا، نماز سے (عادتاً) غافل رہنا۔

[حوالہ سورۃ الماعون:2-4]


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’بے شک منافقین کی نشانیاں ہیں، وہ ان کے ذریعے سے پہچانے جاتے ہیں: ان کا(ایک دوسرے کے لیے)سلام لعنت ہے، ان کا کھانا لوٹ کا مال ہے، ان کا مالِ غنیمت خیانت سے ہے، وہ مساجد کے قریب نہیں آتے بلکہ دور رہتے ہیں، نماز کے آخر ہی میں آتے ہیں، تکبر کرتے ہیں، وہ الفت(یعنی کسی کے ساتھ مخلصانہ تعلق)نہیں رکھتے، ان کے ساتھ(بھی)الفت نہیں کی جاتی، رات کو لکڑیوں کی مانند ہوتے اور دن میں شور وغوغا کرتے ہیں۔‘‘

[مسند أحمد:7913(ت شاكر)، مشيخة يعقوب بن سفيان الفسوي:32، مسند البزار:8444، الإبانة الكبرى - ابن بطة:927، صفة النفاق ونعت المنافقين لأبي نعيم:69، أمالي ابن بشران:30، شعب الإيمان:2963(2702)]

القرآن:

اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں پر اس بات کی بندش لگا دے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے، اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان (مسجدوں) میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کو آخرت میں زبردست عذاب ہوگا۔

[سورۃ البقرۃ:114 (تفسير الرازي:4/ 15)]

۔۔۔ان کی مثال ایسی ہے جیسے یہ لکڑیاں ہیں جو کسی سہارے سے لگا رکھی ہیں۔۔۔

[سورۃ المنافقون:4 (تفسير ابن كثير)]

لکڑیاں اگر کسی دیوار کے سہارے لگی رکھی ہوں تو دیکھنے میں کتنی اچھی لگیں، ان کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا، اسی طرح یہ منافق لوگ دیکھنے میں کتنے اچھے لگیں، حقیقت میں بالکل بےمصرف ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہے، یہ لوگ جب آنحضرت ﷺ کی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو ان کا جسم اگرچہ مجلس میں ہوتا تھا ؛ لیکن دل و دماغ آپ ﷺ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، اس لحاظ سے بھی انہیں بےجان لکڑیوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔


رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ اور کوئی نماز بھاری نہیں۔

[بخاری:657،مسلم:626]

فجر کی جماعت

[موطا مالک:432]

فجر اور عشاء کی جماعت

[مجمع الزوائد:2149]


لَيْسَ صَلَاةٌ أَثْقَلَ عَلَى الْمُنَافِقِينَ مِنَ الْفَجْرِ وَالْعِشَاءِ






حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے،کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اگر کوئی آدمی لوگوں کو معمولی سے گوشت والی ہڈی یا بکری کے دو پایوں سے چمٹے ہوئے گوشت کی طرف بلائے، تو وہ اس کی دعوت قبول کرتے ہیں اور صورتِ حال یہ ہے، کہ انہیں اس نماز کے لیے دعوت دی جاتی ہے، تو وہ نہیں آتے۔بے شک میں نے پختہ ارادہ کیا ہے، کہ ایک آدمی کو حکم دوں، کہ وہ لوگوں کو باجماعت نماز ادا کروائے، پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں، جو اذان سننے کے باوجود آئے نہیں اور ان پر آگ جلاؤں۔ بلاشبہ اس سے(یعنی نماز باجماعت سے)منافق ہی پیچھے رہتا ہے۔‘‘

[المعجم الأوسط للطبراني:2763، مجمع الزوائد:2170 وَرِجَالُهُ مُوَثَّقُونَ]

نماز پڑھے بھی تو لوگوں دکھلانے کیلئے، جس کی علامات نماز کو سستی اور مختصر ذکر سے پڑھنا ہے۔

[حوالہ سورۃ النساء:142]




حضرت علی سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں یاد رکھیں گے منافقین:- سورۃ ھود، سورۃ برأۃ ، سورۃ یٰس ، سورۃ دخان اور سورۃ عم یتساءلون کو۔

[المعجم الأوسط-الطبراني:7570]








خالص(پکے)منافق میں چار(بنیادی)نشانیاں-عادتیں:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

چار عادتیں-نشانیاں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ (وہ عادتیں یہ ہیں):

(1)جب بولے تو جھوٹ بولے، (2)جب وعدہ کرے تو توڑ ڈالے، (3)جب کوئی چیز (راز،عہدہ وغیرہ) امانتاً دی جائے تو خیانت کرے، (4)جب کسی سے جھگڑے تو گالیاں دینے لگے۔

[صحيح البخاري:34، صحيح مسلم:58(210)]

اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور دعویٰ کرے کہ وہ مومن ہے۔

[مسند البزار:7843، 9881، الإبانة الكبرى - ابن بطة:931، الإيمان - ابن منده:530]


ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ، دو(عادتیں) چلی گئیں اور ایک رہ گئی(تو)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر اس میں نفاق کی ایک شاخ ہے اگر ان میں سے کچھ باقی نہیں۔

[صفة النفاق وذم المنافقين للفريابي:4، صفة النفاق ونعت المنافقين لأبي نعيم:43، معجم ابن عساكر:1286]


‌وَإِذَا ‌غَنَمَ ‌غَلَّ وَإِذَا أُمِرَ عَصَى وَإِذَا لَقِيَ جَبُنَ فَمَنْ كُنَّ فِيهِ فَفِيهِ النِّفَاقُ كُلُّهُ وَمَنْ كَانَ فِيهِ بَعْضُهُنَّ فَفِيهِ بَعْضُ النِّفَاقِ۔

ترجمہ:

اور جب مالِ غنیمت ملے تو خیانت کرے، اور جب حکم دیا جائے تو نافرمانی کرے، اور جب (دشمن کے لشکر سے) ملاقات ہو تو بزدلی کرے(بھاگے)، تو جس میں یہ (عادتیں) ہوں تو اس میں سارا نفاق ہے، اور جس کے پاس اس میں سے کچھ ہے تو اس میں کچھ نفاق ہے۔

[صفة النفاق وذم المنافقين للفريابي:20، الإبانة الكبرى - ابن بطة:926]


اور جب عہد کرے تو غداری کرے۔

[صحيح البخاري:34+2459+3178، صحيح مسلم:58، سنن أبي داود:4688،سنن الترمذي:2632]

تو اللہ بزرگ و برتر نے نازل فرمائی اسکی تصدیق میں:

اور انہی میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے فضل سے ہمیں نوازے گا تو ہم ضرور صدقہ کریں گے، اور یقینا نیک لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔ لیکن جب اللہ نے ان کو اپنے فضل سے نوازا تو اس میں بخل کرنے لگے، اور منہ موڑ کر چل دیے۔ نتیجہ یہ کہ اللہ نے سزا کے طور پر نفاق ان کے دلوں میں اس دن تک کے لیے جما دیا ہے جس دن وہ اللہ سے جاکر ملیں گے، کیونکہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا، اس کی خلاف ورزی کی، اور کیونکہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔[سورۃ التوبہ:75-77]

[الزهد لوكيع:400-472، سنن سعيد بن منصور:1206، الصمت لابن أبي الدنيا:516، السنة لأبي بكر بن الخلال:1640، المعجم الكبير للطبراني:9075]

واقعہ نزول:

حضرت ابو امامہ ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص جس کا نام ثعبلہ بن حاطب تھا، آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور درخواست کی کہ آپ میرے لیے مال دار ہونے کی دعا فرمادیں۔ آپ ﷺ نے شروع میں اسے سمجھایا کہ بہت مال دار ہونا مجھے اپنے لیے بھی پسند نہیں ہے۔ لیکن اس نے بار بار اصرار کیا، اور یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر میں مال دار ہوگیا تو ہر حق دار کو اس کا حق پہنچاؤں گا، آپ نے اس موقع پر حکیمانہ جملہ بھی ارشاد فرمایا کہ تھوڑا مال جس کا تم شکر ادا کرسکو اس زیادہ مال سے بہتر ہے جس کا شکر ادا نہ کرسکو۔

اس پر بھی اس کا اصرار جاری رہا تو آنحضرت ﷺ نے دعا فرما دی۔ چنانچہ وہ واقعی مال دار ہوگیا اور اس کے مال مویشی اتنے زیادہ ہوگئے کہ ان کی دیکھ بھال میں نمازیں چھوٹنے لگیں، پھر وہ ان جانوروں کی زیادتی کی وجہ سے مدینہ منورہ سے باہر جا کر رہنے لگا۔ شروع میں جمعہ کے دن مسجد میں آجاتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ جمعہ کو آنا بھی چھوڑ دیا۔ جب آنحضرت ﷺ کی طرف سے لوگ زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے اس کے پاس پہنچے تو اس نے زکوٰۃ پر پھبتیاں کسیں، اور ٹال مٹول کر کے ان حضرات کو واپس بھیج دیا۔ اس آیت میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے۔[روح المعانی بحوالہ طبرانی و بیہقی]


منافقانہ عادتوں کی مختلف تعداد پر اشکال کا جواب:

امام بدر الدین العینیؒ نے فرمایا:

لَا مُنَافَاة، لِأَن الشَّيْء الْوَاحِد قد يكون لَهُ عَلَامَات، فَتَارَة يذكر بَعْضهَا، وَأُخْرَى جَمِيعهَا أَو أَكْثَرهَا۔

ترجمہ:

اس میں کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ ایک چیز میں علامات ہوسکتی ہیں، بعض اوقات ان میں سے بعض کا ذکر ہوتا ہے اور بعض اوقات ان میں سے تمام یا اس سے زیادہ کا۔

[عمدة القاري شرح صحيح البخاري:1 /221]








منافقین نماز سے بھی دھوکہ دیتے ہیں:

القرآن:

یہ منافق (اپنے خیال میں) اللہ کے ساتھ دھوکا بازی کرتے ہیں، حالانکہ اللہ نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ (1) اور جب یہ لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو کسمساتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کے سامنے دکھا وا کرتے ہیں، اور اللہ کو تھوڑا ہی یاد کرتے ہیں۔ یہ کفر و ایمان کے درمیان ڈانواڈول ہیں، (2) نہ پورے طور پر ان (مسلمانوں) کی طرف ہیں، نہ ان (کافروں) کی طرف۔ اور جسے اللہ گمراہی میں ڈال دے، تمہیں اس کے لیے ہدایت پر آنے کا کوئی راستہ ہرگز نہیں مل سکتا۔

[سورۃ النساء:142-143]

تشریح:

(1) یعنی یہ جو سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے اللہ کو دھوکا دے دیا، تو در حقیقت یہ خود ہی دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اللہ کو کوئی دھوکا نہیں دے سکتا، اور اللہ تعالیٰ ان کو اس دھوکے میں پڑا رہنے دیتا ہے جو انہوں نے خود اپنے آپ کو اپنے اختیار سے دے رکھا ہے۔

اور اس جملے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ ان کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے۔ اس ترجمے کی بنیاد پر اس کا ایک مطلب بعض مفسرین (مثلا: حضرت حسن بصریؒ) نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کو اس دھوکے کی سزا آخرت میں اللہ تعالیٰ اس طرح دے گا کہ شروع میں ان کو بھی مسلمانوں کے ساتھ کچھ دور لے جایا جائے گا۔ اور مسلمانوں کو جو نور عطا ہوگا۔ اسی کی روشنی میں کچھ دور تک یہ بھی مسلمانوں کے ساتھ چلیں گے، اور یہ سمجھنے لگیں گے کہ ان کا انجام بھی مسلمانوں کے ساتھ ہوگا، مگر آگے جا کر ان سے روشنی چھین لی جائے گی، اور یہ بھٹکتے رہ جائیں گے، اور بالآخر دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے، جیسا کہ سورة حدید (12:57۔ 14) میں اس کا بیان آیا ہے۔

(2) منافقین دھوکہ باز ہوتے ہیں، وہ صرف جھوٹ، خیانت، وعدہ خلافی اور گالم گلوچ جیسی بےدینی کے علاوہ ۔۔۔ دین کے ذریعہ سے بھی دھوکہ دیتے ہیں، اس کا دھوکہ نماز میں (۱)سستی اور (۲)دکھلاوے سے کھڑے ہونا اور (۳)اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرتے ہیں۔

منافقین تذبذب کا شکار اور گمراہ ہوتے ہیں۔






نفاق کے معنیٰ، اقسام اور ان کے احکام:

ذِكْرُ مَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ النِّفَاقَ عَلَى ضُرُوبٍ: نِفَاقُ كُفْرٍ، وَنِفَاقُ قَلْبٍ، وَلِسَانٍ، وَأَفْعَالٍ وَهِيَ دُونَ ذَلِكَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {إِنَّ الْمُنَافِقِينَ ‌فِي ‌الدَّرَكِ ‌الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ} [النساء: 145]
ترجمہ:
ان دلائل کا تذکرہ کہ نفاق مختلف قسم کا ہے: (1)کفر کا نفاق، اور(2)دل، زبان اور عمل کا نفاق اور وہ اس کے علاوہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {بےشک (بغیرتوبہ مرنے والے) منافقین جہنم کے سب سے نیچے والے درجے میں رہے گا۔} [النساء: 145]
[الإيمان - ابن منده: ج2 /ص603]







اعتقادی منافق کی علامات:

(1)مسلمانوں کے بجائے کافروں سے رازدارانہ-دلی دوستی رکھنے والے۔

القرآن:

منافقوں کو یہ خوشخبری سنا دو کہ ان کے لیے ایک دکھ دینے والا عذاب تیار ہے۔ (یہ منافقین وہ ہیں) جو مسلمانوں کے بجائے کافروں کو دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کے پاس عزت تلاش کر رہے ہیں ؟ حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کی ہے۔

[سورۃ النساء:138-139]

یعنی اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے سوا کسی اور کو خصوصی رازدار نہیں بناؤ۔

[حوالہ سورۃ التوبہ:16]


امام بخاریؒ(م256ھ) لکھتے ہیں:

كُلُّ شَيْءٍ أَدْخَلْتَهُ فِي شَيْءٍ

ترجمہ:

اس چیز(رازداری)میں ہر چیز داخل ہے۔

[صحيح البخاري - ط السلطانية: جلد4 / صفحہ107]

البتہ اصلاح کی خاطر کفار ومنافقین سے خاطر مدارات کا معاملہ رکھنے کی گنجائش ہے۔


القرآن:

تم ان میں سے بہت سوں کو دیکھتے ہو کہ انہوں نے (بت پرست) کافروں کو اپنا دوست بنایا ہوا ہے (55) یقینا جو کچھ انہوں نے اپنے حق میں اپنے آگے بھیج رکھا ہے وہ بہت برا ہے، کیونکہ (ان کی وجہ سے) اللہ ان سے ناراض ہوگیا ہے، اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔ اگر یہ لوگ اللہ پر اور نبی پر اور جو کلام ان پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان رکھتے تو ان (بت پرستوں) کو دوست نہ بناتے، لیکن (بات یہ ہے کہ) ان میں زیادہ تعداد ان کی ہے جو نافرمان ہیں۔

[سورۃ المائدۃ:80+81]

55: یہ ان یہودیوں کی طرف اشارہ ہے جو مدینہ منورہ میں آباد تھے اور انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ سے معاہدہ بھی کیا ہوا تھا، اس کے باوجود انہوں نے درپردہ مشرکین مکہ سے دوستیاں گانٹھی ہوئی تھیں، اور ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے، بلکہ ان کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ان سے یہ تک کہہ دیتے تھے کہ ان کا مذہب مسلمانوں کے مذہب سے اچھا ہے۔






(2)مسلمانوں کو دھوکہ-نقصان دینے کیلئے:-

مذہب کو استعمال کرنے والے، اپنے ایمان یا نیکی کا ثبوت "زبان-الفاظ" کے دعوے کرنے والے، اور جھوٹی قسمیں اٹھانے والے۔

حضرت عمر بن خطابؓ (اور حضرت عمران بن حصینؓ) سے روایت ہے کہ اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مجھے اپنی امت پر (تم پر میرے بعد) سب سے زیادہ خوف ہر اس (جھگڑالو) منافق کا ہے جو چرب زبانی کا بڑا ماہر ہوگا۔

[مسند احمد:143+310، مسند البزار:305 (مسند البزار:3514، صحیح ابن حبان:3783) سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌1013، صحيح الترغيب والترهيب:132+2330، صحيح الجامع الصغير:239+1554+1556]

لیکن دل اور عمل سے جاہل(مخالف)ہوگا۔

[الأحادیث المختارۃ:236]

باتیں حق(نیکی)کی کرے گا اور عمل برائی کے۔

[شعب الایمان:1640]

جو ایمان کی پناہ لے گا اور عمل اسکے خلاف کرےگا۔

[مسند الفاروق:955]

ایمان والوں سے جھگڑے گا قرآنی تعلیم کے ذریعہ.

[مجمع الزوائد:887]

جیساکہ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
«‌يَتَعَلَمُهُ ‌الْمُنَافِقُونَ، ثُمَّ يَجَادِلُونَ بِهِ الذِّينَ آمَنُوا»

’’منافق اس کو سیکھتے ہیں، پھر اس پر ایمان والوں سے جھگڑتے ہیں۔‘‘
[جامع المسانيد والسنن-ابن كثير:7679، غاية المقصد فى زوائد المسند-الهيثمي:873، مسند عقبة بن عامر-ابن قطلوبغا:159]
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار: 4/ 230 (8/ 347)]


«الَّذِي يَصِفُ الْإِسْلَامَ وَلَا يَعْمَلُ بِهِ»

جو باتیں تو اسلام کی کرے اور اس پر عمل نہ کرے۔

[کتاب الزهد(امام)وكيع بن الجراح» حدیث#471]

قرآنی شاہدیاں»

سورۃ البقرۃ:8، سورۃ المنافقون:1


القرآن:

۔۔۔اور اگر وہ بات کریں تو تم ان کی باتیں سنتے رہ جاؤ۔۔۔

[سورۃ المنافقون:4 (تفسير السمعاني:5 /443)]

عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي لَا أَتَخَوَّفُ عَلَى أُمَّتِي مُؤْمِنًا وَلَا مُشْرِكًا، أَمَّا ‌الْمُؤْمِنُ ‌فَيَحْجِزُهُ ‌إِيمَانُهُ، وَأَمَّا الْمُشْرِكُ فَيَقْمَعُهُ كُفْرُهُ، وَلَكِنِّي أَتَخَوَّفُ عَلَيْهِمْ مُنَافِقًا، عَالِمَ اللِّسَانِ، يَقُولُ مَا يَعْرِفُونَ، وَيَعْمَلُ مَا يُنْكِرُونَ»

ترجمہ:

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”میں اپنی امت کے لیے کسی مومن یا مشرک سے نہیں ڈرتا۔ (کیونکہ) جہاں تک مومن کا تعلق ہے تو اس کا ایمان اس کیلئے رکاوٹ بنے گا۔ اور جہاں تک مشرک کا تعلق ہے تو اس کا کفر اس کیلئے رکاوٹ بنے گا۔ لیکن مجھے تم لوگوں کے حوالے سے منافق کا اندیشہ ہے جو زبان کا ماہر ہوگا جو ایسی باتیں کرے گا جن سے تم واقف(پسند کرتے) ہوگے، اور عمل وہ کرے گا جس کو تم برا قراردیتے ہو۔

[المعجم الأوسط للطبراني:7065، المعجم الصغير للطبراني:1024]

القرآن:

اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو کہہ دو کہ : جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

[سورۃ الحج:68]

ان سے پہلے نوح کی قوم اور ان کے بعد بہت سے گروہوں نے بھی (پیغمبروں کو) جھٹلایا تھا اور ہر قوم نے اپنے پیغمبر کے بارے میں یہ ارادہ کیا تھا کہ انہیں گرفتار کرلے، اور انہوں نے باطل کا سہارا لے کر جھگڑے کیے تھے تاکہ اس کے ذریعے حق کو مٹا دیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے ان کو پکڑ میں لے لیا۔ اب (دیکھ لو کہ) میری سزا کسی (سخت) تھی۔

[سورۃ غافر:5]

۔۔۔(مسلمانو) شیاطین اپنے دوستوں کو ورغلاتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے بحث کریں۔ اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو تم یقینا مشرک ہوجاؤ گے۔

[سورۃ الانعام:121]

ارے تمہاری بساط یہی تو ہے کہ تم نے دنیوی زندگی میں لوگوں سے جھگڑ کر ان (خیانت کرنے والوں) کی حمایت کرلی۔ بھلا اس کے بعد قیامت کے دن اللہ سے جھگڑ کر کون ان کی حمایت کرے گا، یا کون ان کا وکیل بنے گا ؟

[سورۃ النساء:108]

وہ تم سے حق کے معاملے میں اس کے واضح ہوجانے کے باوجود اس طرح بحث کر رہے تھے جیسے ان کو موت کی طرف ہنکا کرلے جایا جارہا ہو اور وہ (اسے) آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔

[الانفال:6]



(3)لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنے والے جن اور انسان۔۔۔گناہ کو نیکی اور نیکی کو گناہ کرکے پیش کرنے والے۔

[حوالہ سورۃ الناس:4-6]

القرآن:

دھوکہ دینے کیلئے بات کو سنہرا رنگ دیکر پیش کرتا ہے، شیاطین کی تعلیم سے۔

[سورۃ الانعام:112]

القرآن:

منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی طرح کے ہیں۔ وہ برائی کی تلقین کرتے ہیں اور بھلائی سے روکتے ہیں، (1) اور اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں۔ (2) انہوں نے اللہ کو بھلا دیا ہے، تو اللہ نے بھی ان کو بھلا دیا۔ بلاشبہ یہ منافق بڑے نافرمان ہیں۔ اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور تمام کافروں سے دوزخ کی آگ کا عہد کر رکھا ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہی ان کو راس آئے گی۔ اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال دی ہے، اور ان کے لیے اٹل عذاب ہے۔

[سورۃ التوبہ:67-68]

(1)یعنی اللہ کے عطاکرہ رزق میں سے خرچ نہیں کرتے ہیں۔

[حوالہ سورۃ یٰس:47]

اور دوسروں کو روزمرہ کی معمولی چیزیں دینے سے روکتے ہیں۔

[حوالہ سورۃ الماعون:7]

یعنی وہ (دوسروں کو) مسکین کو کھانا کھلانے کا شوق بھی نہیں دلاتے۔

[حوالہ سورۃ الحاقہ:34، الفجر:18، الماعون:3]


(2)یعنی وہ کنجوس ہیں۔ جہاں خرچ کرنا چاہیے وہاں خرچ نہیں کرتے۔






(4)نیک لوگوں سے جھگڑتے رہتے ہیں، شیاطین کے ورغلانے کے سبب۔

[حوالہ سورۃ الانعام:121]


پیغمبر اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔

[صحيح البخاري:17، 3784]

حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا:- تم سے صرف مومن ہی محبت کرتا ہے اور منافق ہی بغض رکھتا ہے۔

[سنن الترمذي:3736، سنن النسائي:5018]


پیغمبر اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تین قسم کے لوگوں کے حق میں کمی-کوتاہی منافق کے سوا کوئی نہیں کرسکتا:

(1)اسلام میں جس کی ڈاڑھی سفید ہوجاۓ۔۔۔بوڑھا مسلمان،

(2)خیر کی تعلیم دینے والا عالم،

(3)اور عادل حکمران.

[طبرانی:7819، جامع بيان العلم:898، مصنف ابن أبي شيبة:32562]


پیغمبر اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

وَمَنْ شَهِدَ شَهَادَةَ زُورٍ عَلَى مُسْلِمٍ أَوْ كَافِرٍ عُلِّقَ بِلِسَانِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ صُيِّرَ مَعَ الْمُنَافِقِينَ ‌فِي ‌الدَّرْكِ ‌الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ

ترجمہ:

جو شخص کسی مسلمان یا کافر کے خلاف جھوٹی گواہی دے گا اس کی زبان قیامت کے دن لٹکی ہوگی، پھر وہ (بھی) جہنم کے سب سے نچلے درجے میں منافقوں کے ساتھ ہوگا۔

[مسند الحارث:205]







(5)کافروں سے جہاد نہیں کرتے۔

القرآن:

(اے پیغمبر ! مسلمانوں سے) کہہ دو کہ : اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، اور تمہارا خاندان، اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے اور وہ کاروبار جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں۔ تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔

[سورۃ التوبہ:24]ٰ


نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

جس کی موت واقع ہوگئی اور اس نے جہاد کیا اور نہ اس کے دل میں اس کی بات (تمنا-نیت) کی تو وہ نفاق کے شعبہ پر مرا.

[سنن ابو داؤد:2502، حاكم:2418][صحیح مسلم:1910(4931)]


القرآن:

اور انہی میں وہ صاحب بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ : مجھے اجازت دے دیجیے، اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیے، (1) ارے فتنے ہی میں تو یہ خود پڑے ہوئے ہیں۔ اور یقین رکھو کہ جہنم سارے کافروں کو گھیرے میں لینے والی ہے۔

[سورۃ التوبہ:49]

(1)حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ منافقین میں ایک شخص جد بن قیس تھا۔ جب آنحضرت ﷺ نے اس کو غزوہ تبوک میں شامل ہونے کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں بڑا زن پرست آدمی ہوں، جب روم کی خوبصورت عورتوں کو دیکھوں گا تو مجھ سے صبر نہیں ہوسکے گا، اور میں فتنے میں مبتلا ہوجاؤں گا۔ لہذا مجھے اجازت دے دیجئے کہ میں اس جنگ میں شریک نہ ہوں، اور اس طرح مجھے فتنے میں مبتلا ہونے سے بچا لیجئے۔ اس آیت میں اس کی طرف اشارہ ہے (روح المعانی بحوالہ ابن المنذر و طبرانی وابن مردویہ)۔


القرآن:

جب منافق لوگ (اے پیغمبر!) تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ آپ واقعی اس کے رسول ہیں، اور اللہ (یہ بھی) گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق لوگ جھوٹے ہیں۔ انہوں نے اپنی قسموں کو ایک ڈھال بنا رکھا ہے۔ (1) پھر یہ لوگ دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت ہی برے ہیں وہ کام جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں۔ یہ ساری باتیں اس وجہ سے ہیں کہ یہ (شروع میں بظاہر) ایمان لے آئے پھر انہوں نے کفر اپنا لیا اس لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، نتیجہ یہ کہ یہ لوگ (حق بات) سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ جب تم ان کو دیکھو تو ان کے ڈیل ڈول تمہیں بہت اچھے لگیں، اور اگر وہ بات کریں تو تم ان کی باتیں سنتے رہ جاؤ، (2) ان کی مثال ایسی ہے جیسے یہ لکڑیاں ہیں جو کسی سہارے سے لگا رکھی ہیں، (3) یہ ہر چیخ پکار کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ (4) یہی ہیں جو (تمہارے) دشمن ہیں، اس لیے ان سے ہوشیار رہو۔ اللہ کی مار ہو ان پر۔ یہ کہاں اوندھے چلے جارہے ہیں؟ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ، اللہ کے رسول تمہارے حق میں مغفرت کی دعا کریں، تو یہ اپنے سروں کو مٹکاتے ہیں، (5) اور تم انہیں دیکھو گے کہ وہ بڑے گھمنڈ کے عالم میں بےرخی سے کام لیتے ہیں۔ (اے پیغمبر) ان کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں، چاہے تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا، (6) یقین جانو اللہ ایسے نافرمان لوگوں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا۔ یہی تو ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو، یہاں تک کہ یہ خود ہی منتشر ہوجائیں گے، (7) حالانکہ آسمانوں اور زمین کے تمام خزانے اللہ ہی کے ہیں، لیکن منافق لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ : اگر ہم مدینہ کو لوٹ کر جائیں گے تو جو عزت والا ہے، وہ وہاں سے ذلت والے کو نکال باہر کرے گا، (8) حالانکہ عزت تو اللہ ہی کو حاصل ہے اور اس کے رسول کو، اور ایمان والوں کو، لیکن منافق لوگ نہیں جانتے۔

اے ایمان والو ! تمہاری دولت اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کرنے پائیں۔ اور جو لوگ ایسا کریں گے، وہ بڑے گھاٹے کا سودا کرنے والے ہوں گے۔ اور ہم نے تمہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے (اللہ کے حکم کے مطابق) خرچ کرلو، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو وہ یہ کہے کہ : اے میرے پروردگار ! تو نے مجھے تھوڑی دیر کے لیے اور مہلت کیوں نہ دے دی کہ میں خوب صدقہ کرتا، اور نیک لوگوں میں شامل ہوجاتا۔ اور جب کسی شخص کا معین وقت آجائے گا تو اللہ اسے ہرگز مہلت نہیں دے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

[سورۃ المنافقون]

1: جس طرح ڈھال سے تلوار کا بچاؤ کیا جاتا ہے، اسی طرح ان لوگوں نے اپنے بچاؤ کے لیے یہ قسمیں کھالی ہیں کہ وہ مومن ہیں، تاکہ دنیا میں کافروں کا جو برا انجام ہونے والا ہے، یہ اس سے بچ جائیں۔

2: یعنی ان کا ظاہری حلیہ بڑا پرکشش ہے، اور باتیں بڑی لچھے دار ہیں، کہ آدمی انہیں سنتا ہی رہ جائے، لیکن اندر سے ان میں نفاق کی نجاست بھری ہوئی ہے، روایات میں ہے کہ عبداللہ ابن ابی اپنے ڈیل ڈول کے اعتبار سے پرکشش شخصیت رکھتا تھا، اور اس کی باتیں بڑی فصاحت و بلاغت کی حامل ہوتی تھیں۔

3: لکڑیاں اگر کسی دیوار کے سہارے لگی رکھی ہوں تو دیکھنے میں کتنی اچھی لگیں، ان کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا، اسی طرح یہ منافق لوگ دیکھنے میں کتنے اچھے لگیں، حقیقت میں بالکل بےمصرف ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہے، یہ لوگ جب آنحضرت ﷺ کی مجلس میں بیٹھتے تو ان کا جسم اگرچہ مجلس میں ہوتا تھا ؛ لیکن دل و دماغ آپ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا، اس لحاظ سے بھی انہیں بےجان لکڑیوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔

4: چونکہ ان کے دل میں چور ہے، اس لیے اگر مسلمانوں میں کوئی شور ہو تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے خلاف کچھ ہو رہا ہے۔

5: قرآن کریم نے جو لفظ استعمال فرمایا ہے، اس کا ترجمہ سر کا موڑنا بھی ہوسکتا ہے، اور ہلانا بھی۔ حضرت شیخ الہند نے شاید اسی لیے اس کا ترجمہ مٹکانے سے کیا ہے جس میں ایک مکاری کا تصور پنہاں ہے، اور جو ان کی کیفیت کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔

6: مطلب یہ ہے کہ جب تک یہ لوگ اپنی منافقت سے توبہ کر کے صحیح معنی میں مسلمان نہیں ہوجاتے، اس وقت تک ان کی بخشش نہیں ہوگی۔

7: سورت کے تعارف میں جو واقعہ اوپر آچکا ہے، اس میں یہ بات عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہی تھی کہ مسلمانوں پر اپنا مال خرچ کرنا بند کردو، اس کے نتیجے میں معاذ اللہ صحابہ آنحضرت ﷺ کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔

8: یہ وہی بات ہے جو عبداللہ بن ابی نے کہی تھی اور پھر اس سے مُکر گیا تھا۔ تفصیلی واقعہ اوپر آچکا ہے۔





خلاصہ:

١- منافق کی تعریف:


جو شخص ظاہری شکل وصورت سے مسلمان نظر آئے اور ارکانِ اسلام کا بھی پابند ہو، لیکن وہ دل سے کفریہ عقائد پر قائم ہو یا اسلامی عقائد کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلا ہو، تو ایسے شخص کو شریعت کی زبان میں منافق کہا جاتا ہے۔


منافقین کی قسمیں:


منافقین کی دو قسمیں ہیں:


۱۔منافق اعتقادی :


وہ شخص جو بظاہر مسلمان ہو، لیکن درپردہ کافر ہو، منافق اعتقادی کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے اور وہ دوسرے کفار کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائے گا۔


۲۔ منافق عملی:


وہ شخص جو عقیدے کے اعتبار سے تو پکا اور سچا مسلمان ہو، لیکن اس کے اندر منافقین سے ملتی جلتی عادتیں ہوں، مثلاً جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا اور خیانت وغیرہ کا مرتکب ہونا، جھگڑے کے وقت بد زبانی کرنا، اس جیسے اور برے افعال میں مبتلا شخص مسلمان تو رہے گا، لیکن سخت گناہ گار ہو گا۔


منافقین کی علامات:


٢- قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں منافق کی بہت سی علامات بیان کی گئی ہیں، ان میں چند ایک یہ ہیں:


١- ایمان کا جھوٹا دعویٰ۔

٢- فریب کاری کرنے والے۔

٣- بظاہر اصلاح پسند مگر اندرون خانی فساد کی سازشیں کرنے والے۔

٥- ایمان والوں کو بے وقوف کہنے والے۔

٦- دین اور اہل دین ایمان والوں کا مذاق اڑانے والے۔

٧- ھدایت کے بدلے گمراہی قبول کرنے والے۔

٨- کفار سے دوستیاں کرنے والے۔

٩- نماز کے لیے سستی سے جانے والے۔

١٠- نمازوں کو وقت سے مؤخر کرنے والے۔

١١- جن پر عشاء اور فجر کی نماز بھاری ہو ۔

١٢- طبیعت کے مطابق دین کی باتوں پر عمل کرنے والے، جہاں کسی حکم شرعی میں ان کو مشقت ہوئی تو یہ اس سے دور بھاگ جانے والے۔

١٣- جہاد میں بزدلی کا مظاہرہ کرنے والے۔

١٤- اسلام کو کمزور کرنے کی سازشیں کرنے والے۔

١٥- لوگوں کو دین سے متنفر کرنے کے لیے احکام شریعت میں طرح طرح کے شکوک وشبہات پیدا کرنے والے۔

١٦- جب مسلمانوں کے پاس جائیں گے، تو کہیں گے ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، جب کافروں کے پاس جائیں گے تو کہیں گے، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔

١٧- ہر بات میں جھوٹ بولنے والے۔

١٨- وعدے کی خلاف ورزی کرنے والے۔

١٩- امانت میں خیانت کرنے والے۔

٢٠- جھگڑے میں بدزبانی کرنے والے۔


نفاقِ اعتقادی کا حکم:


نفاقِ اعتقادی کا حکم یہ ہے کہ ایسا منافق کفار کے زمرے میں آتا ہے، اگر بغیر توبہ کے مرا تو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں جائے گا اور جہنم کے نچلے طبقے میں رکھا جائے گا۔


نفاقِ عملی کا حکم:


نفاقِ عملی کا مرتکب مسلمان ہی کہلائے گا، لیکن اس کا یہ عمل گناہ کبیرہ کی طرح ہے، اگر بغیر توبہ کے دنیا سے چلا گیا، تو اپنے گناہوں کی سزا پانے کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے گا، اس کے بعد ایمان کی وجہ سے جنت میں داخل ہو گا۔


کیا کسی مسلمان کو منافقین جیسی خصلتوں کی وجہ سے منافق کہا جا سکتا ہے؟


نفاق ایک مخفی چیز ہے، کسی شخص کے دل کے اندر عقیدہ ایمان ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے منافقین کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مطلع فرما دیا تھا، آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد چونکہ وحی کا سلسلہ موقوف ہو گیا ہے، اس لیے کسی کے متعلق منافق ہونے کا حکم لگانا جائز نہیں ہے، البتہ وہ برے افعال اور گناہ جن کا ارتکاب منافقین کیا کرتے تھے، بعض مسلمان ان میں ملوث ہو جاتے ہیں، لیکن چونکہ وہ مسلمان عقیدہ کے اعتبار سے مسلمان ہوتے ہیں، لہذا محض منافقوں جیسی خصلتوں کے اپنانے سے ان مسلمانوں کو منافق یا کافر نہیں کہا جائے گا، بلکہ فاسق کہا جائے گا۔


فسق کے معنی اور احکام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ:

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔ ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اس سے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور ہم پناہ مانگتے ہیں اللہ کی اپنے نفسوں کے شر سے اور اپنے اعمال کی برائیوں سے۔ جس کو وہ گمراہ کر دے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد   صلی اللہ علیہ و سلم  اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
حمد و صلوٰۃ کے بعد
جب ہم نے جانا کہ سب سے پہلے اسلام کے اندر جو جھگڑا پیدا ہوا وہ ملت اسلامیہ کے فاسق آدمی کے بارے میں ہوا جو کہ ایک عرصہ تک رہا(مجموع الفتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ)۔ فسو کے عنوان پر لکھنے کی ضرورت اس وقت محسوس کی گئی جب تحقیق خوارجیوں نے ایک نئی بات نکالی وہ یہ کہ مؤحد لوگ اگر گناہ کریں گے تو کافر ہو جائیں گے اور آگ میں ہمیشہ رہیں گے۔
اور مرجئہ کا یہ گمان تھا کہ گناہ کرنے والا پکا مومن ہے (گناہ کرنے سے اس کے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑتا) اور معتزلہ نے کہا کہ گناہ کرنے والا دوسروں (مومن اور کافر) کے درمیان میں ہے۔ (نہ تو اس کو کافر کہا جا سکتا ہے اور نہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہے)۔ دنیا میں اور آخرت میں آگ میں ہمیشہ رہے گا۔
اور اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت سے رہنمائی کی سنت کے ماننے والوں کی، حق کی طرف، اس چیز میں جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔
انہوں نے کہا ان گنہگاروں کے بارے میں نیت میں تو یہ مومن لیکن ایمان ان کا ناقص ہے یا اپنے ایمان کی وجہ سے مومن ہے اور اپنے گناہوں کی وجہ سے فاسق ہیں اور یہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے منتظر ہوں گے اگر اللہ چاہے گا ان کو عذاب دے گا اپنے الفاظ کے ساتھ۔ اور اگر اللہ چاہے گا اپنی رحمت کے ساتھ ان کو بخش دے گا۔
جس طرح کہ گناہ کا تعلق ان وعیدوں میں سے ہے کہ جس پر انجام اور نتائج مرتب ہوتے ہیں جیسا کہ امام ابن تیمیہ نے فرمایا:
جان لو کہ کفر اور فسق کے مسائل ان اسماء اور احکام کے مسائل میں سے ہیں کہ جن کا تعلق آخرت میں وعدہ اور وعید سے ہے۔ اور جن کے ساتھ ہمنوائی اور دشمنی کا تعلق ہے۔ (مجموعہ الفتاویٰ 468/12
اور اسی بات پر مزید اضافہ یہ کہ اللہ کے نبی   صلی اللہ علیہ و سلم  نے کسی شخص پر فاسق ہونے کا حکم لگانے سے ڈڑایا ہے جب تک واضح نہ ہو جائے یا کوئی حجت قائم نہ ہو۔ جیسا کہ جناب ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے نبی   صلی اللہ علیہ و سلم  سے سنا آپ نے فرمایا:
کوئی آدمی کسی آدمی پر فاسق ہونے کا فتویٰ نہ لگائے اور نہ کافر ہونے کا فتویٰ لگائے۔ اگر وہ آدمی کافر یا فاسق نہیں ہے تو وہ بات اس (فتویٰ لگانے والے) کے اوپر لوٹا دی جاتی ہے۔ (متفق علیہ)۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:  اس حدیث کی شرح میں: اِلَّا اِرْتَدَتْ عَلَیْہِ کا معنی ہے کہ وہ فتویٰ اسی کے اپنے اوپر لوٹ آتا ہے اور یہ بات اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے سے کہے کہ تو فاسق ہے۔ اگر وہ آدمی فاسق نہیں ہے تو کہنے والا زیادہ مستحق ہے کہ اس کو فاسق کہا جائے۔ اور اگر وہ کسی کو فاسق کہے اور وہ آدمی فاسق ہو تو اس کا فاسق اس کے اپنے اوپر نہیں آئے گا۔ یعنی اس کو فاسق نہیں کہا جائے گا۔ اس لئے کہ اس نے بات بالکل ٹھیک کہی ہے کہ فلاں آدمی فاسق ہے۔ لیکن یہ بات بھی ضروری نہیں کہ اس کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہی فاسق رہے یعنی وہ اس گناہ کو کرے ہی نہیں جس کی وجہ سے اس نے اس پر فاسق ہونے کا فتوی لگایا ہے۔ (فتح الباری 466/10)
بلکہ اس صورت میں تفصیل باختصار ہے کہ اگر آدمی کسی کو نصیحت کرنے کا ارادہ کرے  یا پھر اس کی حالت بیان کر کے کسی دوسرے کا نصیحت کرے تو جائز ہے اور اگر وہ اس کو عار دلائے اور اس سے صرف اس کو تکلیف دینا مقصد ہو گی پھر ناجائز ہے۔ اس لئے کہ کسی کے عیب پر پردہ ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اس کو تعلیم دینا۔ اچھے انداز میں یا نصیحت کرنا۔ تو جتنا بھی ممکن ہو سکے  سات نرمی کا برتاؤ کرے اور اس میں سختی کرنا جائز نہیں اس لئے کہ یہ سختی کرنا اس کو برائی پر ابھارنے اور ہمیشہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ جیسا کہ بہت سے لوگوں کی طبیعت میں نفرت بھری ہوتی ہے اور یہ بات تو ضرور ہوتی ہے۔ اس وقت جب سمجھانے والا سامنے والے سے کم درجہ یا کم رتبہ ہو۔ (مجمع الفتاویٰ ابن تیمیہ 229/3۔ ابن وزیر الروض الباسم 112/2
امام ابن تیمیہ کہتے ہیں: بیشک میں تمام لوگوں میں سب سے منع کرنے والا ہوں اس بات سے کہ کسی کی طرف کفر اور فسق اور نافرمانی ہونے کی نسبت کی جائے۔ ہاں مگر وہ شخص کہ جس کے بارے میں یہ جان لیا جائے کہ اس کے اوپر (کفر یا فسق یا نافرمان ہونے) کی دلیل اس رسالت سے قائم ہو جائے کہ جس کی مخالفت سے کبھی کوئی کافر ہو جاتا ہے اور کوئی دوسرا فاسق ہو جاتا ہے اور کوئی نافرمان ہو جاتا ہے(مجموع الفتاویٰ 229/3۔ اور دیکھئے الروض الباسم ابن الاثیر 112/2)
اور اس وجہ سے اسی موضوع پر لکھنے کی ضرورت اور بھی محسوس کی گئی کہ فسق یہ ایک عام نام ہے جو کہ کفر اور تمام کبیرہ گناہ اور بقیہ تمام نافرمانی کے کاموں پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا (ان شاء اللہ) اور اسی وجہ سے (دین کے) علم نے فسق کی حد اور جس پر فسق کا اطلاق ہوتا ہے اس کا تعین کیا ہے اور یقینا آنے والے صفحات میں اس کے بارے میں جو کچھ تحقیق ہے وہ آئے گی۔ اور اللہ ہی ہمیں کافی ہے اور وہ بہتر کارساز ہے۔

معنی الفسق (فسق کا معنی):

فسق کا لغوی معنی ہے کسی چیز سے نکلنا یا ارادہ کرنا اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول   صلی اللہ علیہ و سلم  کی اطاعت سے نکلنا۔ اور فسق کا معنی ہے گناہ۔ اور جب کھجور اپنے چھلکے سے علیحدہ ہو جائے تو عرب لوگ کہتے ہیں: قد فسقت الرطبہ من قترھا۔ کہ کھجور اپنے چھلکے سے علیحدہ ہو گئی۔
اور کہا جاتا ہے: فسق فلان فی الدنیا فسقا۔
اور کہا جاتا ہے: رجل فاسق۔ و فِسْق و فُسَق۔ ہمیشہ گناہ کرنے والا۔
اور کہا جاتا ہے: فُوَسْیقَہَ چوہیا اور یہ فاسقہ کی تصغیر ہے۔ اس لئے کہ اس کا اپنے بل سے نکلنا لوگوں کی طرف اور فساد برپا کرنا (اس کا کام ہے)۔ اور تفسیق کا معنی عدل و انصاف کے الٹ ہے۔
فسق کا اصطلاحی معنی: 1۔   علماء نے اس کے بارے میں کئی اقوال بیان کئے ہیں۔ امام ابن عطیہ کہتے ہیں 155/1 فسق عام طور پر شریعت میں جس بارے میں استعمال کیا گیا ہے وہ ہے ’’اللہ رب العالمین کی اطاعت سے نکلنا (روگردانی کرنا) تحقیق یہ (فسق) واق ہوتا ہے اس پر جو کفر کر کے نکلے اور جو نافرمانی کر کے نکلے۔
2۔        اور اسی طرح امام قرطبی کا قول ہے: (تفسیر قرطبی 245/1)
3۔        امام شوکانی نے کہا تعریف کے بارے میں اور یہ جو اس نے کی ہے یہ لغوی معنی کے اعتبار سے کی ہے اور وہ نہیں اس نے اکتفا کیا۔ بعض خارجیوں پر جو کہ بعض سے زیادہ ہیں (فتح القدیر 57/1)
4۔ امام بیضاوی نے کہا: فاسق آدمی کبیرہ گناہ کی وہ سے اللہ کے دین سے نکل جانے والا ہوتا ہے۔ (تفسیر بیضاوی 41/1، تفسیر ابی سعود 131/1)
5۔        آلوسی نے کہا شریعت میں فسق کا معنی ہے سمجھدار لوگوں کا (اللہ رب العالمین اور اس کے رسول کی) اطاعت سے نکلنا۔ پس اس کا اطلاق کفر اور جو اس سے کم ہے گناہ پر کبیرہ و صغیرہ میں سے سب پر ہوتا ہے۔ اور اس نے خاص کیا ہے عرفِ عام میں کبیرہ گناہ کے مرتکب ہونے کو۔ پس اس نے اس کا اطلاق باقی تمام چیزوں کے ارتکاب پر نہیں کیا ہے مگر کچھ قرینہ کے کچھ جگہوں پر۔
ان تمام بیچ میں گذرنے والی تعریفات سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ عام طور پر فسق کی اصطلاح یہ ہے کہ فسق کفر سے زیادہ عام ہے۔ (مفردات الرأی ص 572، کلیات لکھنوی ص 693، نزھۃ العین النواطر ابن جوزی 72/2)
اس وجہ سے کہ فسق، کفر اور جو گناہ اس سے کمتر ہے سب کو شامل ہے لیکن اس کو خاص کیا ہے عرفِ عام میں گناہ کبیرہ کرنے والے کے ساتھ اسی وجہ سے۔
امام راغب الاصفہانی کہتے ہیں (آدمی پر) فسق واقع ہو جاتا ہے کم اور زیادہ گناہوں کی وجہ سے لیکن عرف عام میں زیادہ گناہ کرنے والے پر فسق کا فتویٰ لگایا جاتا ہے۔ (المفردات 572)۔

فسق کی اقسام اور فاسق کس کس کو کہا جائے

مختلف عبارات کی وجہ فسق کی کئی قسمیں شمار کی گئی ہیں۔ کچھ قسمیں فسق کی ایسی ہیں کہ جن کے کرنے سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے۔ اور کچھ قسمیں ایسی ہیں کہ جن کے کرنے سے آدمی اسلام سے نہیں نکلتا۔
1۔         جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہر وہ چیز کہ جس کی نسبت اللہ تعالیٰ کسی خاص نام کے ساتھ اہل اسلام کے علاوہ دوسروں کی طرف کی ہو جیسے خاسر (نقصان اٹھانے والا)، مسرف(فضول خرچی کرنے والا)۔ ظالم (ظلم کرنے والا)۔ فاسق (گناہ کرنے والا)۔ تو اس سے مراد کفر ہوتا ہے۔
اور جس کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کی طرف کی ہو تو اس سے مراد گناہ ہوتا ہے۔ (تفسیر ابن جریر142/1۔ الدر المنثور للسیوطی 105/1
اور تحقیق ابن عباس رضی اللہ عنہما، اور طاؤس اور عطاء اور کئی اہل علم سے منقول ہے کہ وہ کہتے ہیں ایک کفر کسی کفر سے کم ہے۔ اور کچھ گناہ دوسرے کچھ گناہوں سے کم ہے۔ (جامع الترمذی۔ کتاب الایمان)۔
اور امام محمد حضر المروزی رحمہ اللہ کہتے ہیں: فسق کی دو قسمیں ہیں۔ ایک فسق وہ جو دین اسلام سے منتقل کر دینا ہے اور دوسرا فسق وہ ہے جو دین اسلام سے (کسی دوسرے دین کی طرف) منتقل نہیں کرتا۔ پس کافر کو فاسق بھی کہا جاتا ہے اور فاسق مسلمان میں سے پہلے اپنے فسق کی وجہ سے ہے۔
اور یہاں پر ایک خاص معاملہ ہے جس کو ذکر کرنا بہت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ بیشک ایمان کے کئی حصے ہیں جیسا کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ و سلم  نے شعب الایمان کی صورت میں خبر دی۔ (ایمان ک ستر سے زائد حصے ہیں، ان میں سے سب سے بڑا حصہ ہے، اس بات کا اقرار کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور سب سے چھوٹا حصہ ہے کہ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا۔
(بخاری کتاب الایمان ص 92، صحیح مسلم کتاب الایمان ج 35)۔
پس اگر جو بھی اس کے مقابلے میں ہو یا اس کے الٹ ہو اسی طرح ہے۔  پس کفر کے بھی کئی درجات ہیں۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو دین (اسلام) سے خارج کر دیتا ہے اور ان میں سے بعض کفر ایسے بھی ہوتے ہیں جو کفر دوسرے کفر سے کم تر ہیں۔
اور اسی طرح نفاق، شرک، فسق، ظالم بھی ہیں۔ اور یہی اصل بات ہے کہ جس کے ساتھ اہل سنت ممتاز رہے ہیں۔ ان لوگوں سے جو بدعتی ہیں کہ جن کو وعیدیں سنائی گئیں ہیں اور مرجئہ فرقے سے۔

وہ کفر جو فسق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے

اور کفر کا فسق کبھی اعتقادی ہوتا ہے اور کبھی عملی۔
اعتقادی کفر کی مثال: فسق کیا منافقوں نے اللہ کے رسول   صلی اللہ علیہ و سلم  کے زمانہ میں۔ اللہ کا ارشاد ہے :
قُل اَنْفِقُوْا طَوْعًا اَوْ کَرْھًا لَّنْ یُّتَقَبَّلَ مِنْکُمْ اِنَّکُمْ کُنْتُمْ قَوْمًا فٰسِقِیْنَ (التوبہ: 53)
اے نبی آپ کہہ دیجئے کہ تم جس اپنی خوشی یا نا خوشی سے خرچ کرو بھی تو اللہ تعالیٰ ہرگز تم سے قبول نہیں کرے گا اس لئے کہ تم فاسق قوم ہو۔
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:کہ’’ بیشک تم فاسق قوم ہو‘‘ (یہ ان کے صدقات قبول نہ ہونے کی وجہ ہے) (فتح القدیر للشوکانی:369/2)
اور اللہ نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (التوبہ:67)
بیشک منافقین ہی فاسق لوگ ہیں
امام شوکانی نے (اس آیت کے بارے میں) ارشاد فرمایا: یہ ترکیب اس بات کا فائدہ دے رہی ہے کہ یہ (منافقین) فسق میں مکمل ہیں یعنی ’’مکمل فاسق ہیں‘‘
(فتح القدیر 379/2)
اور فسق عملی کی مثال کہ جس سے انسان دین اسلام سے نکل جاتا ہے ابلیس نے کیا جیسا کہ اللہ عزو جل نے ارشاد فرمایا:
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْا اِلَّا اِبْلِیْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ اَفَتَتَّخِذُوْنَہٗ وَ ذُرِّیَتَہٗ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِیْ وَھُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا۔
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو سب (فرشتوں) نے سجدہ کیا ، ابلیس کے علاوہ جو کہ جنوں میں سے تھا، اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی۔ کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے۔ ایسے ظالموں کا کیا ہی بُرا بدل ہے۔ (الکہف:50)
ابلیس نے فسق کیا اور یہ فسق سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے ہوا اور اپنے رب کے حکم کی پیروی سے روگردانی کرنے کی وجہ سے واقع ہوا۔ اور سجدہ کو ترک کرنا فعلاً و عملاً شمار کیا جاتا ہے جیسا کہ ایسی باتوں کو اصول کی کتابوں میں ذکر کیا جاتا ہے۔ (روضہ الناظر ابن قدمہ ص54)
اور یہ کفر کا فسق (وہ کفر جو فسق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے)
قرآن کریم کی بیشمار آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ اور جس طرح ابن الوزیر نے کہا ’’تحقیق سننے میں (قرآن میں) ایسی آیات ہیں جو کہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ کے رسول   صلی اللہ علیہ و سلم  ک زمانہ میں اکثر طور پر فاسق کا اطلاق کافر پر ہوتا تھا۔ (شوکانی ص:52، القواعد الأصولیہ، ابن لحام ص 62)۔ تھذیب میں امام شوکانی نے اپنی تفسیر 156/2 میں کیا۔ فسق کے نام کا اطلاق اس آدمی پر ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فرض کردہ احکامات کو چھوڑنے اور ایسا کرنے سے باز نہ آئے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (التوبہ:67)
بیشک منافقین ہی فاسق لوگ ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
وَلَقَد اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ وَمَا یَکْفُرُ بِھَآ اِلَّا الْفٰسِقُوْنَ
اور بیشک ہم آپ کی طرف واضح نشانیاں اتاریں جن کا انکار سوائے فاسقوں کے کوئی نہیں کرتا۔ (البقرۃ:99 )
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَأوَاھم النَّارُ کلَّمَا اَرَادُوْآ اَنْ یُّخْرُجُوْا مِنْھَا اُعِیْدُوْا فِیْھَا وَ قِیْلَ لَھُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارَ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ (السجدۃ:20)
اور جن لوگوں نے فسق (نافرمانی کی) ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے جب کبھی بھی اس (جہنم) سے باہر نکلنا چاہیں گے، اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ اپنے جھٹلانے کی وجہ سے عذاب چکھو۔
پس یہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ پہلے عرف عام میں فاسق کا کافر پر اطلاق کیا گیا ھر وہ سبقت لے گیا۔ سمجھ بوجھ کے بعد۔ (العواصم والقواصم 161-16-/2 بااختصار۔ ایثار الحق علی الخلق ص 451۔ تفسیر المنار 238/1)
بعض وہ دلائل جن کو پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، ہم ان میں مزید اضافہ کریں گے جیسا کہ کافر کو فاسق کہنے پر مثالیں دیں تھیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَقَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ (الذّٰرِیٰت:20)
اور نوح (علیہ السلام) کی قوم کا بھی اس سے پہلے (یہی حال ہو چکا تھا) وہ بھی بڑی فاسق قوم تھی۔
اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کے بارے میں ارشاد فرمایا:
وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآئَ مِنْ غَیْرِ سُوْئٍ فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰی فَرْعُوْنَ وَقَوْمِہٖ اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ۔
اور (اے موسیٰ علیہ السلام) اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالئے وہ سفید چمکیلا ہو کر نکلے گا بغیر کسی عیب کے، آپ نو نشانیاں فرعون اور اس کی قوم کی طر (لے کر جایئے) یقینا وہ نافرمانوں کا گروہ ہے۔ (النمل:12)
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کو ذکر کیا:
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ ۔ قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً یَتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ ۔
موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے میرے رب مجھے تو اپنے اور اپنے بھائی کے علاوہ کسی پر کوئی اختیار نہیں ہے، پس تو ہمارے اور نافرمانوں کے درمیان جدائی کر دے۔ ارشاد ہوا کہ اب زمین ان پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے۔ یہ (خانہ بدوش) ادھر ادھر سرگردان پھرتے رہیں گے، پس تم ان نافرمانوں کے بارے میں غمگین نہ ہو۔ (المائدہ:26-25)
اور اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
وَرَھْبَانِیَّۃَ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْہِمْ اِلّا ابْتِغَآئَ رِضْوَانِ اﷲ فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رِعَایَتِھَا فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْھُمْ اَجْرَھُمْ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ (الحدید:27)
ہاں رہبانیت (ترک دنیا) تو ان لوگوں نے خود ایجاد کر لی تھی، ہم نے اسے اللہ رب العالمین کی خوشنودی حاصل کرنے کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے فرض نہیں کیا تھا۔ سو انہوں نے اس کا پوری طرح خیال نہیں رکھا پھر بھی ہم نے ان کو اجر و ثواب دیا جو ان میں سے ایمان لائے تھے۔ اور ان میں زیادہ تر لوگ نافرمان تھے۔
اور ایک حدیث اس آیت کی تفسیر کے بارے میں جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً آئی ہے۔ (آپ نے فرمایا) مومن وہ لوگ ہیں جو میرے ساتھ ایمان لاتے ہیں اور میری تصدیق کر تے ہیں اور (نافرمان) فاسق وہ لوگ ہیں جو مجھے جھٹلاتے ہیں اور میرے بارے میں جھگڑا کرتے اور اللہ تعالیٰ نے مشرکین کا نام (فساق) ہمیشہ نافرمانی کرنے والے رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
کَیْفَ وَاِنْ یَّظْھَرُوْا عَلَیْکُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْکُمْ اِلًّا وَّلَا ذِمَّۃً یُرْضُوْنَکُمْ بِاَفْوَاھِہِمْ وَتَاْبٰی قُلُوْبُہُمْ وَاَکْثَرُھُمْ فٰسِقُوْنَ ۔
ان (مشرکوں) کے وعدوں کا کیا اعتبار۔ اگر وہ غالب آجاتے تم پر تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کرتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا۔ وہ تم کو اپنی زبانوں سے تو خوش کرتے ہیں لیکن ان کے دل نہیں مانتے اور زیادہ تر تو ان میں نافرمان ہیں۔ (التوبہ:8
اور قرآن میں ایسی دلیل بھی ہے کہ جس میں شرک کی قسموں میں سے بعض کو فسق قرار دیا گیا ہے۔
وَلَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اﷲِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ
اور ایسے (جانور یا چیزیں) مت کھاؤ کہ جن پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ اور یہ کام نافرمانی کے ہیں۔(الانعام:121)
پس اس کو امام شافعی نے اس بات پر محمول کیا ہے کہ ہر وہ چیز جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کی جائے۔ (تفسیر ابن کثیر 161/2)
اور اللہ عز و جل کا ارشاد ہے:
حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اﷲِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَتُ وَالنَّطِیْحَۃُ وَمَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکََََّیْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ … (المائدہ:3)
تم پر حرام کیا گیا مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو اور جو چوٹ کی وجہ سے مر گیا ہو اور جو اونچی جگہ سے گر کر مرا ہو اور جو کسی کے سینگ مارنے سے مرا ہو اور جسے درندے نے مار کھایا ہو۔ مگر جس کو تم ذبح کرو (اللہ کا نام لے کر وہ تمہارے لئے حلال ہے)۔ اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ تم قرعہ کے تیروں کے ذریعے فال گیری کرو۔ یہ سب بدترین گناہ ہیں۔
امام شوکانی اللہ تعالیٰ کے اس قول {ذٰلِکُمْ فِسْقٌ} ’’یہ بدترین گناہ ہیں‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں: یہ فسق کا اشارہ قرعہ کے تیروں سے بدفالی کرنے کی طرف ہے یا اس آیت میں مذکورہ تمام حرام کردہ چیزوں کی طرف ہے۔
اور فسق وہ گناہ ہے کہ جس کے کرنے میں کوئی حد نہ ہو اور اس کے کرنے پر سخت وعیدیں ہوں اس لئے کہ فسق کفر سے بھی زیادہ سخت ہے نہ کہ فسق یہ ہے کہ جس کے بارے میں ایک جماعت نے اصطلاح قائم کی ہے کہ فسق ایمان اور کفر کے درمیان ایک درجہ ہے (فتح القدیر:10/2
اور جب ہم منتقل ہوئے اس فسق کی طرف کہ جو ملت (دین) سے خارج کر دیتا ہے تو پھر اب اس کی تقسیم ممکن ہے۔ اعتقادی فسق اور عملی فسق کی طرف۔ فسقِ اعتقادی کی مثال جس کو امام ابن قیم نے ذکر کیا ہے۔ فسق کیا بدعتیوں نے (بدعتی وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جس کو اللہ نے حرام قرار دیا اس کو حرام سمجھتے ہیں اور جس (حکم) کو اللہ نے ضروری قرار دیا ہے اس (کام) کو وہ ضروری سمجھتے ہیں لیکن بہت سی ایسی باتیں وہ وہ اس کا انکار کرتے ہیںکہ جس کو اللہ اور اس کے رسول نے ثابت کیا ہے، جہالت کی بنا پر اور تاویل کرتے ہوئے۔ اور اپنے استاد کی تقلید کی وجہ سے۔ اور وہ ایسی چیزوں کو ثابت کرتے ہیں کہ جس کو اللہ اور اس کے رسول نے ثابت نہیں کیا۔
٭          اور یہ لوگ بے دین خارجیوں کی طرح ہیں۔ اور بہت سے رافضیوں اور قدریوں اور معتزلہ اور بہت سے جہمی لوگ جو کہ جہمی عقیدہ بنحقہ نہیں ہیں (یہ لوگ) ان کی طرح ہیں۔
٭          ہاں وہ لوگ جو بھی عقیدہ میں پختہ ہیں وہ رافضی عقیدے میں پختہ لوگوں کی طرح ہیں۔ ان دونوں گروہوں کے لئے اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ مدراج السالیکن۔
٭          فسق عام ہے بدعت کے مقابلہ سے جب فسق کا اطلاق بدعت یا اس کے علاوہ کسی اور پر کیا جائے اور اسی وجہ سے حافظ ابن صلاحن ے فرمایا کہ ہر بدعتی فاسق ہے اور ہر فاسق بدعتی نہیں۔ (فتاویٰ ابن صلاح صفحہ 28، مجموعہ رسائل منیریہ کے ضمن میں ج4)
اور دلالت کرتی ہے اس بات پر سعد بن ابی وقاص سے منقول روایت کہ جس میں خارجیوں کو فاسق کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ (بخاری کتاب التفسیر 4728)
٭          اور اسی طرح امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ ان (خارجیوں) کو فاسقوں کے نام سے تعبیر کرتے تھے(الاعتصام ، امام شافعی 84/1تحقیق سلم کی ہے۔
اس لئے کہ خارجی لوگ حق کے راستے سے نکل گئے تھے اور وہ دین سے علیحدہ ہو گئے۔ اللہ کے رسول کی گواہی دینے کی وجہ سے جس طرح وہ نکلے مسلمانوں کی رضامندی پر۔
اور عملی فسق کی مثالیں بہت زیادہ ہیں اور اس کا اطلاق کئی چیزوں پر ہوتا ہے جیسا کہ اس کے بارے میں شرعی دلائل موجود ہیں اور علماء کے بیانات اور جو اس کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے اس کو اس نے نہیں پکڑا (یاد کیا) کہ فسق کبیرہ گناہوں کے کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے یا پھر صغیرہ گناہوں کو بار بار کرنے پر ہوتا ہے (فتاوی نووی ص261)۔یا جس نے کبیرہ گناہ کو سمجھا (یاد کیا) ہے تحقیق اس (کبیرہ گناہ) کے بارے میں علماء نے بہت اختلاف کیا ہے۔ (صحیح مسلم، امام نووی 87-86/2۔ مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ 666-650/11، شرح طحاویہ 227-225/2، مدارج السالکین 327-320/1، الزواجر للھیثمی 10-5/1، الجواب الکافی ص 171-168، شرح رسالہ الصغائر والکبائر لابن نجیم و فتح الباری 412-409/10
اور شاید اس (کبیرہ گناہ کسے کہتے ہیں اس کے) مسئلہ میں جتنے بھی اقول ہیں ان میں سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ بیشک کبیرہ گناہ وہ ہے کہ جس کے کرنے میں دنیا میں حد لگائی جائے یا آخرت میں کوئی خاص وعید ہو ۔ مانند آگ کی وعید، غصہ کی وعید اور لعنت کی وعید وغیرہ وغیرہ۔ اور بیشک صغیرہ گناہ وہ ہے کہ جس کے کرنے پر کوئی حد دنیا میں نہ ہو اور آخرت میں کوئی وعید بھی نہ ہو۔
اور یہ بات عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور ابن عینیہ اور امام احمد بن حنبل اور ابو عبیدا القاسم بن سلام سے منقول ہے۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ 650/11، شرح طحاویہ 526/2 ۔ اضواء البیان للشافعی 199/7)۔
اور امام ابن صلاح نے فرمای: ہر وہ گناہ کہ جو گراں یا انتہائی بڑا ہو اور اس (گناہ) پر کبیرہ کے نام کا اطلاق کرنا صحیح ہو تو اس گناہ کو گناہ کبیرہ کہتے ہیں اور کوئی ایسی صفت ہو جو کہ بڑی ہو مطلق طور پر۔ پس یہ فرق ہے اس (کبیرہ گناہ) کا اس صغیرہ (گناہ) سے۔ اور اگر کبیرہ گناہ کی نسبت کی وجہ سے ہے اس گناہ کی طرف جو کہ اس سے کم درجہ کا ہے تو پھر یہ وہ کبیرہ گناہ نہیں ہو گا کہ جس پر گراں یا انتہائی بڑا ہونے کی صفت کا اطلاق ہو۔ پھر بیشک کبیرہ گناہ کے گراں اور اس کے انتہائی بڑا ہونے کے لئے کچھ علامات ہیں جو کہ اس کے کبیرہ ہونے کی پہچان کرا دیتی ہیں۔ اس میں 1۔ حد کا لگانا۔ 2۔ کتاب و سنت میں اس گناہ کو کرنے پر عذاب، آگ یا اس کے جیسی اور کسی چیز کی وعید ہونا۔  3۔ جس گناہ کو کرنے والے کی صفت دلائل (قرآن و حدیث) سے فاسق بتائی گئی ہو۔ 4۔ جس گناہ کے کرنے کی وجہ سے اس گناہ کو کرنے والے پر لعنت ہو جیسا کہ اللہ کے نبی   صلی اللہ علیہ و سلم  کا قول ہے (لَعَنَ اﷲُ مَنْ غَیَّر مَناز الْاَرْضِ)  اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو زمین کے نشانات مٹاتا ہے۔ (مسلم کتاب الاضاحی)۔ اور اس کے مشابہ اس کے لئے بہت سی دلیلیں کہ جن کو ہم شمار نہیں کر سکتے (فتاوی ابن صلاح ص 8۔ مجموع رسائل منیریہ ص   ج 1)۔
اور امام عز بن عبدالسلام نے فرمایا: کہ جب تو صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کے درمیان فرق معلوم کرنا چاہے تو گناہِ فاسدہ کو ان گناہِ کبیرہ کے ساتھ پرکھ کہ جن کا کبیرہ ہونے پر واضح دلائل موجود ہیں۔ اگر اس میں کوئی کبیرہ گناہوں میں جو سب سے کمتر ہے بھی کم پائے تو یہ گناہ صغیرہ ہے اور اگر اس گناہ کو تو کبیرہ گناہ کے سب سے کم درجہ والے گناہ کے برابر پائے یا اس سے زیادہ بڑا پائے تو یہ کبیرہ گناہ شمار ہو گا (قواعد الاحکام 19/1)۔
اور امام عزیز بن عبدالسلام نے ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا اور سب زیادہ بہتر بات یہ ہے کہ تو اس گناہ کو کبیرہ سمجھ لے کہ جس کو کرنے والا آسان ان گناہوں کے مانند کہ جو کہ کبیرہ گناہ
امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ’’جو کہ انتہائی ذہین تھے‘‘ اور جب کوئی کبیرہ گناہ کو مقرر کر کے ذہن نشین کر لے تو پھر اب پیا ایک معاملہ ہے کہ جس کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے وہ یہ کہ کبیرہ گناہ کے ساتھ، شرم و حیا اور خوف اور اس گناہ کو انتہائی بڑا سمجھنا یہ سب باتیں ملی ہوتی ہیں جبکہ صغائر کے ساتھ نہیں ملی ہوتیں۔ اور تحقیق صغیرہ گناہ کیا تو (تھوڑی سی حیاء اور بے پرواہی، خوف کا نہ ہونا اور اس گناہ کو بڑا نہ سمجھنا) ملی ہوتی ہیں جو کہ کبیرہ کے اندر نہیں ہوتیں بلکہ یہ خصلتیں صغیرہ گناہ کے اعلی درجہ کے گناہ تک لے جاتی ہیں۔
اور یہاں ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس کی جانچ پڑتال کے لئے دل نجس میں ہوتا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ صرف فعل کے اندر زیادتی کی کتنی مقدار ہوتی ہے۔ مدارج السالکین۔ اور ہاں وہ آدمی جو کہ صغیرہ گناہ ر ہمیشگی کرتا ہے تو اس کے متعلق امام عز بن سلام فرماتے ہیں جب صغیرہ گناہوں کو یہ سمجھ کر کیا جائے کہ ان کے کرنے میں کوئی حرج نہیں تو گویا ان کو کبیرہ گناہ کے مانند سمجھا جائیگا۔ اور اسی طرح جب مختلف صغیرہ گناہ جمع ہو جائیں تو ان کو کبیرہ گناہوں میں سب سے کمتر سمجھا جائیگا۔ (قواعد الاحکام:23-22/1
ان تمام جملوں کو (قرآن و حدیث کے) دلائل اور محدثین کے آثار سے ثابت کرنے کے بعد ہم ان چیزوں کو ذکر کرتے ہیں کہ جن برے کاموں پر فسق کا اطلاق ہوتا ہے مثلاً کسی پر تہمت (ایسا کام کسی آدمی کے اوپر ڈالے جو کہ اس نے نہ کیا ہو) لگانے والے کو قرآن مجید میں فاسق قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُہَدَآئَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (النور:۴ )۔
اور وہ لوگ جو کہ پاکدامن عورتوں پر (زنا کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو انہیں اسی کوڑے لگائے جائیں اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔
اور اسی طرح جھوٹ بولنے والے پر بھی فاسق کا اطلاق کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓــاَیُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْآ اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْآ اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ (الحجرات:6)
اے ایمان والو اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو تکلیف پہنچا دو  پھر اپنے کئے پر خود ہی پشیمان ہو۔
٭          اور امام لالکائی اللہ کے رسول   صلی اللہ علیہ و سلم  کی حدیث (سباب المسلم فسوق) بخاری کہ’’ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے‘‘ کے بارے میں شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یقینا جب کوئی مسلم کسی مسلمان کو گالی دیتا ہے اور اس پر تہمت لگاتا ہے تو گویا اس نے جھوٹ بولا اور جھوٹے لوگ فاسق ہوتے ہیں ان سے ایمان کا نام تک زائل ہو جاتا ہے۔
٭          اوراسی طرح حالت احرام میں جن کاموں سے روکا گیا ہے ان کو بھی فسق کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجْ (البقرۃ:197)
حج کے مہینے مقرر ہے اس لئے جو شخص ان میں حج کو لازم کرے وہ اپنی بیوی میل ملاپ نہ کرے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے۔
میں فسوق سے مراد یہاں پر ہر وہ کام ہے کہ جس کے کرنے سے احرام کی حالت میں روکا گیا ہے جیسا کہ یہی تفسیر ابن جریر نے اور ان کے علاوہ دوسروں نے ذکر کی ہے۔ (تفسیر ابن جریر 152/2)
اور اسی طرح برے القاب کے ساتھ دوسروں کو پکارنے کو بھی فسق کے ساتھ قرآن میں تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَنَابَزُوْا بِاالْقَابِ بِئْسَ اِثْمُ الْفُسُوْقَ بَعْدَ الْاِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (الحجرات:11)
اور تم آپس میں ایک دوسرے کو برے ناموں سے نہ پکارو۔ ایمان کے بعد فسق برا نام ہے۔ اور جو توبہ نہ کرے پس وہ ظالم لوگ ہیں۔
اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان گذشتہ سے پہلے ذکر کی گئی حدیث (سباب المسلم فسوق) کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جب تم کسی مسلمان کو گالی دو اور اس سے مسخرہ بازی کرو اور اس کو تم (طرح طرح) کے عیب لگاؤ تو تم اس بات کے مستحق ہو کہ تم کو (ان کاموں کے کرنے کی وجہ سے) فاسق کہا جائے۔ (الدر المنثور 564/5)
اور نبی اکرم   صلی اللہ علیہ و سلم  نے (اللہ کی) نعمتوں کا انکار کرنے والے کا نام فاسق رکھا ہے جیسا کہ حدیث میں اللہ کے رسول   صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا ہے (بیشک فساق جہنم میں ہوں گے) آپ سے کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول   صلی اللہ علیہ و سلم  فساق کون ہیں؟ آپ   صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا (عورتیں) ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول   صلی اللہ علیہ و سلم  کیا وہ ہماری مائیں اور ہماری بہنیں اور ہماری بیویاں نہیں ہیں؟ آپ   صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا ہاں کیوں نہیں لین ان کی حالت یہ ہے کہ جب ان کو کوئی چیز دی جاتی ہے تو وہ (اللہ کا) شکر ادا نہیں کرتی اور جب ان پر کوئی آزمائش آتی ہے تو وہ صبر نہیں کرتیں۔ (احمد 488-444/3۔ مجمع الزوائد۔ امام ہیثمی نے کہا اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں 73۔ امام البانی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ص 260)
پس جائز ہے کہ نعمتوں کے انکار کرنے والے کا نام فاسق رکھا جائے جیسا کہ شریعت نے اسی بارے میں اطلاق کیا ہے (کتاب الایمان 235)۔
٭          اور اسی طرح چوری کرنے والے کو بھی شریعت میں فاسق کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ جناب حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ کیا حال ہو گا ان لوگوں کا جو کہ کھوج لگاتے ہیں ہمارے گھروں کی اور ہمارے بہترین قسم کے اموال چرا کر لے جاتے ہیں تو آپ نے فرمایا یہی لوگ تو فاسق ہیں۔ اس کو بخاری نے نکالا ہے کتاب التفسیر ح 4658۔ اور اسی طرح چھوٹے نفاق والے آدمی کو بھی فاسق میں شمار کیا جاتا ہے۔
(6) امام ابن حزم نے فصل میں (28-287/3) اس آدمی کا رد کیا ہے کہ جس نے کبیرہ گناہ کرنے والے کو منافق کہا ہے اور اسی طرح امام ابو یعلی نے بھی اس بات کی نفی اپنی کتاب مسائل الایمان ص 363-335میں کی ہے۔ اور دیکھئے اصول الالکائی 1025/6۔
٭          امام ابن تیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فاسق کا نام منافق بھی رکھا جاتا ہے لیکن چھوٹا منافق مراد ہوتا ہے نہ کہ بڑا منافق اور صرف لفظ نفاق کا اطلاق بڑے نفاق پر ہوتا ہے جو کہ کفر کے اندر چھپا ہوتا ہے۔ اور چھوٹے نفاق کا اطلاق اس پر ہوتا ہے کہ جس کا ظاہر باطن واجبات دینیہ کو ادا کرنے میں مختلف ہو۔(مجموعہ الفتاویٰ 140/11)
حاشیہ میں امام حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں نفاق یہ ہے کہ زبان سے کچھ اور دل میںکچھ ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ اور۔ اس کو امام فریابی نے نکالا ہے منافقین کی خصلت میں ۔ (صفۃ المنافق ص 61) ۔ اور امام ابن تیمیہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر ظاہری طور پر کوئی شخص سچ بولنے والا یا وعدے کو پورا کرنے والا یا امانت دار ہے اور باطنی طور پر وہ جھوٹ بولنے والا اور وعدہ خلافی کرنے والا اور امانت میں خیانت کرے والا ہو یا اس جیسی دوسری مثالیں تو یہ منافقت چھوٹی منافقت ہے کہ جس کا کرنے والا فاسق ہے۔ (مجموعہ الفتاوی 143/11 اور 524/7)۔
اور دلالت کرتے ہیں اسی بات پر بہت سے صحابہ و محدثین کے اقوال۔ انم یں چند یہ ہیں:
1۔         ھرم بن حیان نے فرمایا : بچو تم فاسق عالم سے۔ یہ بات عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ نے ہرم بن حیان کی طرف خط بھیجا اور فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے اس خط میں یہ سوال لکھا کہ فاسق عالم سے کیا مراد ہے؟ تو ہرم بن حیان نے جناب عمر بن خطاب کو خط بھیجا اس میں انہوں نے لکھا :
اے امیر المؤمنین!  اللہ کی قسم یہ کلمات میں نے صرف بھلائی کی خاطر کہے ہیں کیونکہ امام بات کرتا ہے علم کے ساتھ اور عمل فاسقوں والے کرتا ہے تو یہ چیز لوگوں کو شش و پنج میں ڈال دیتی ہے اور وہ گمراہ ہو جاتے ہیں (دارمی:90/1
اور جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فاسق کا نام منافق رکھا ہے۔ آپ نے فرمایا بیشک سب سے زیادہ خوف کہ جس سے میں تمہارے بارے میں ڈرتا ہوں وہ جان بوجھ کر منافقت کرنے کا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کیسے جان بوجھ کر منافقت کرنا کیسے ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ بات تو حکمت و دانائی کی کرے اور عمل ظالم والے کرے یا فرمایا عمل برائی والے کرے۔ (اس کو محمد بن نصر نے کتاب تعظیم قدر الصلاۃ 633/2 میں نکالا ہے)۔
٭          اور جناب حذیفہ بن یمان سے سوال کیا گیا کہ منافق کون ہیں؟ آپ نے فرمایا جو اسلام کا نام لیوا ہے لیکن اسلام کے مطابق عمل نہیں کرتا۔ اس کی تشریح آگے آئے گی۔ اور اسی طرح نبی اکرم   صلی اللہ علیہ و سلم  نے رُوَبْضۃ فُوُیْسقاً کانام رکھا ہے۔ نبی اکرم   صلی اللہ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایا بیشک دجال کے سامنے کئی سال دھوکے ہوں گے جس میں جھوٹا سمجھا جائیگا۔ اس میں سچ بولنے والا آدمی اور سچا سمجھا جائے گا۔ ان میں جھوٹ بولنے والا۔ اور خیانت کرنے والا سمجھا جائے گا امانت دار آدمی کو۔ اور امانت دار سمجھا جائے گا جس اسمیں خیانت کرنیوالے کو اور بات کرنے اسمیں۔ رُوَیْضَہ آپ سے پوچھا گیا کہ رُوَیْضَہکیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ فاسق آدمی جو عوام الناس کے معاملات میں بات کرے۔ اور رُوَیْضَہ تفضیر ہے رابضہ کی اور رابضہ وہ آدمی ہے جو حکومتی معاملات کو نمٹانے سے تنگ آ چکا ہو۔ اور بیٹھے بیٹھے دوسروں کو حکم کر کے ان معاملات کا نمٹاتا ہو۔ (النھایۃ فی غیر الحدیث)  اور اسی طرح تحقیق کہا جاتا ہے کہ وہ گناہ جسکا نام فسق عملی رکھا جاتا ہے زیادہ بڑا ہے اس گناہ سے کہ جس کو فسق عملی نہیں کہا جاتا ہے۔
اور اسی طرح امام بیضاوی نے کہا اور فسق یہ ہے کہ جب گناہ میں سے کسی ایسی قسم پر عمل کیا جائے جو کہ اس کے بڑے ہونے پر دلالت کرتی ہوں گویا کہ وہ تجاوز کرنے والا ہو اس (گناہ) کی حد سے۔ (تفسیر بیضاوی 72/1)۔
اور الوسی نے کہا کہ فاسق وہ آدمی ہے جو کہ (اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی) نافرمانی کرنے والا، کسی بھی گناہ کو زیادہ کرنے والا ہو (روح المعانی 335/1)۔
اور جو کچھ بھی پیچھے گزر چکا ہے اس پر زیادتی یہ ہے کہ بیشک فسق عملی کی دو قسمیں ہیں۔ دوسرے اعتبار سے۔ جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: فسق عملی کی دو قسمیں ہیں 1۔ فسق عملی ملا وہ ہو گا نافرمانی کے ساتھ۔ 2۔ فسق عملی خود اکیلا ہو (نافرمانی اس کے ساتھ نہ ہو)۔
1۔         فسق علی نافرمانی کے ساتھ:  اس چیز کا مرتکب ہونا جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اور عصیان معنی یہ ہے کہ اللہ کے حکم کی نافرمانی کرنا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلٰکِنِ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَ زِیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَ کَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الرّٰشِدُوْنَ۔
اور لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنادیا ہے اور مزیّن کر دیا ہے اسکو تمہارے دلوں میں اور کفر اور فسق اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیا ہے یہی لوگ راہنمائی پانے والے ہیں۔(الحجرات :7)
اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
لَّا یَعِصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ۔
وہ (فرشتے) نہیں نافرمانی کرتے اسکی جس کا اللہ تعالیٰ انکو حکم کرتا ہے)۔(التحریم :6 (
اور موسیٰ علیہ السلام نے اپنی بھائی ھارون علیہ السلام سے کہا:
مَا مَنَعَکَ اِذْ رَاَیْتَہُمْ ضَلُّوْآ اَلَّا تَتَّبِعَنِ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ۔
انہیں گمراہ ہوتا ہوا دیکھتے ہوئے تجھے کس چیز نے روکا تھا کہ تو میرے پیچھے نہ آیا کیا تو بھی میرے حکم کا نافرمان بن بیٹھا۔(طٰہٰ :93-92)
بس فسق خاص ہے اللہ تعالیٰ کی صنع کردہ چیزوں کے مرتکب ہونے کیساتھ۔اور اس لئے اطلاع کیاجاتا ہے اس بہت سے معاملات کا ۔
جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے:
وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّہٗ فُسُوْقٌ بِکُمْ۔
اور اگر تم لوگ ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے۔ (البقرۃ:282)
اور نافرمانی خاص ہے (اللہ کے ) کسی حکم کی مخالفت کرنے کے ساتھ او رکبھی ا طلاق کیاجاتا ہے ان دونوں کا ایک دوسرے پر جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اِلَّآ اِبْلِیْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ۔
(پس سب نے سجدہ کیا )سوائے ابلیس کے یہ جنوں میں سے تھا اس نے اپنے پروردگار کے حکم کی نافرمانی کی)(الکہف:50)
اور اسی طرح (اللہ تعالیٰ کے ) حکم کی مخالفت کو بھی فسق کا نام دیا جاتا ہے ۔جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے :
وَ عَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی
آدم (علیہ السلام ) نے اپنے رب کی نافرمانی کی پس وہ بہک گئے) (طٰہٰ:121)
پس (اللہ کی) منع کردہ چیزوں پر اسکا مرتکب ہونا اسکا نام نافرمانی بھی رکھا جاتا ہے ّپس یہ (ایک کانام دوسرے نام پر اطلاق کرنا )علیحدہ علیحدہ ذکر ہونے کے وقت پر ہوگا اور جب یہ دونوں ملے ہوئے ذکر ہو تو ان میں سے ایک حکم کی مخالفت کیلئے ہوگا او ر دوسرا منع کردہ چیزوں کی مخالفت کیلئے ہوگا ۔(مدارج الساکین 1/362-361)
اور ان چھوٹے چھوٹے ورقہ کی لکھائی کے اختتام پر ہم متنبہ کرنا چاہتے ہیں ایک بات کی طرف بغیر کسی ضرورت کے وہ یہ ہے کہ اھل السنہ اور ان کے مخالفین کے درمیان فسق کامفہوم ملا جلا ہے ۔
پس کبیرہ گناہ کا مرتکب اھل السنہ والجماعۃ کے نزدیک فاسق ہے اپنے اس کبیرہ گناہ کرنے کی وجہ سے مگر وہ ایمان سے مکمل خارج نہیں ہوگا۔
ممکن ہے ایمان کا برقرار رہنا اس فسق اصغر کے ساتھ جیسا کہ یہ بات اھل السنہ کے نزدیک مسمّم ہے اور اسی وجہ سے وہ مومن ہے اپنے ایمان کی وجہ سے اور فاسق ہے اپنے اس کبیرہ گناہ کی وجہ سے اور اسکا معاملہ اللہ کی طرف ہے اگر چاہے تو اپنی رحمت
حاشیہ نمبر 1۔ یہ نسبت مطلق عام حکم کے لئے ہے پس ہم چھوڑ دیتے ہیں بات کو وعید کفر اور فسق کے دلائل کی وجہ سے اور ہم کسی بھی معین (گناہ )کاحکم نہیں لگاتے کہ یہ اس عام مطلق حکم میں داخل ہے یہاں کہ (قرآن اور حدیث سے) اسکے بارے میں کوئی ایسا فیصلہ قائم ہوجائے کہ جس میں کوئی ٹکراؤ نہ ہو۔دیکھئے مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ (10/330 ۔4/484۔28/499)
کے ساتھ اسکو بخش سے اور چاہے تو اپنے انصاف کے ساتھ اسکو عذاب دے اور اس (عذاب)کے بعد اس کو جنت کی طرف روانہ کر دے پس اھل السنہ والجماعۃ ا س بات پر متفق ہیں کہ بیشک ملّت (اسلامیہ )کے فاسق لوگ اگر وہ داخل کر دیئے گئے جہنم میں یا اسکے مستحق قرار دے دیئے گئے تو وہ ضرور بالضرور جنت میں (جہنم سے اپنے گناہوں کا عذاب پاکر)داخل کر دیئے جائینگے ۔(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ  4/ 486)
امام ابن تیمیہ اس مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔کہ اھل السنہ والجماعۃ کے اصولوں میں یہ بات  (بھی موجود ) ہے کہ دین اور ایمان (نام ہے)اقرار و عمل کا اقرار دل اور زبان کے ساتھ اور عمل دل اور جسم کے اعضاء کے ساتھ اور بیشک ایمان زیادہ ہوتا ہے (اللہ اور اسکے رسول کی )اطاعت کے ساتھ اور کم ہوتا ہے (ان دونوں کی )نافرمانی کے ساتھ ۔اور اس کے ساتھ ساتھ اھل السنہ والجماعۃ والے انیں کافر قرار دیتے ہیں ان لوگوں کو اھل القبلہ کو انکے مطلق نافرمانیوں اور کبیرہ گناہوں کی وجہ سے جیسا کہ خوارج (یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب اور اسلام سے خارج ہے)ایسے نافرمانوں اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب لوگوں کو کافر قرار دیتے ہیں بلکہ ایمانی بھائی چارگی برقرار رہتی ہے گناہ کے ساتھ بھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ
پس جس کسی کو اپنے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے تو اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیئے۔(البقرہ:178)
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ اِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بِیْنَہُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوْا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْ ٓ ئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِنْ فَآئَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا اِنِّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ ۔
(اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل میلاپ کرا دیا کرو پھر اگر اور دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑویہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کیساتھ صلح کرادو اور عدل کرو بیشک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے یار رکھو سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کر دیا کرو)(الحجرات:9-10)
اھل السنہ والجماعۃ کے لوگ فاسق آدی کانام ملت اسلامیہ سے مکمل طور پر نہیں نکالتے اور نہ ہی  اس کو جہنم میں ہمیشہ رہنے والا قرار دیتے ہیں جیسا کہ معتزلہ کا عقیدہ ہے ۔ کبیرہ گناہ کرنے والا نہ تومؤمن ہے او رنہ ہی کافر بلکہ ان دونوں کے درمیان میں ہے۔ (وہ کہتے ہیں کہ اور وہ جہنم میں ہمیشہ رہے گا) بلکہ فاسق تو مطلق ایمان کے نام میں داخل رہتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَ اِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَہُمْ مِّیْثَاقٌَ فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰیٓ اَھْلِہٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَھْرَیْنِ مَتَتَابِعَیْنَ تَوْبَۃً مِّنْ اللّٰہِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا۔
اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرناہے ۔اور اگر مقتول ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہوتو وارثانِ مقتول کو خون بہا دینا اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہیئے اور جس کو یہ مسیر نہ ہو وہ متواتر دو مہینے کے روزے رکھے۔یہ (کفارہ ) اللہ کی طرف سے (قبول) توبہ کیلئے ہے اور اللہ (سب کچھ ) جانتا ہے ۔اور بڑی حکمت والا ہے ۔ـ(النساء :92)
اور تحقیق کبھی نہیں داخل ہوتا فاسق مطلق ایمان کے نام میں جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے ۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا ۔
بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر اس سے کیا جاتا ہے تو انکے دل ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں انکو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ انہیں انکے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں ۔(الانفال:2)
او رنبی   صلی اللہ علیہ و سلم  کا ارشاد ہے ((لا یزنی الزانی حئن یزنی وھو مؤمن ولا یسرق السارق حئن یسرق وھو مؤمن ولا یشرب الخمر حین یشربہا ا وھو مؤمن ولا ینتہب نھبۃ ذات شرف  یرفع الناس الیہ فیہا أبصارھم حین ینتھبہا وھو مؤمن ))بخاری کتاب المظالم ح2475مسلم کتاب الایمان ح76)
کوئی بھی زانی زنا نہیںکرتا لیکن جس وقت وہ زنا کرتا ہے اور وہ مؤمن نہیں رہتا اور کوئی بھی چور چوری نہیں کرتا لیکن جس وقت وہ چوری کرتا ہے تو وہ مؤمن نہیں رہتا ا ور کوئی بھی شرابی شراب نہیں پیتا لیکن جس وقت وہ شراب پیتا ہے تووہ مؤمن نہیں رہتا اور انہیں لوٹنا کوئی بھی آدمی کسی ایسی چیز کو جو کہ بڑی قیمتی ہو لوگ اس لٹیرے کی طرف اپنی نگاہوں کو اٹھاتے ہیں جب وہ لوٹ رہا ہوتا ہے تو وہ (لٹیرا ) مؤمن نہیں رہتا ۔
اور ہم کہتے ہیں کہ وہ ناقص الایمان والا مؤمن ہے یا اپنے ایمان کی وجہ سے مؤمن ہے اور اپنے گناہ کی وجہ سے فاسق ہے اسے نہ مطلق مؤمن کانام دیا جائے گا اور نہ اس سے مطلق مؤمن کانام ختم کیاجائے گا۔(عقیدہ الواسطیہ شرح محمد خلیل ھراس ص156-152)
پس کبیرہ گناہ کے مرتکب ہونے کو صرف فسق میں شمار کرنا واجب ایمان کے مکمل ہونے کے منافی اور اس فسق کا ایمان کے ساتھ اکٹھا ہونا ممکن ہے اور اس فسق کو کرنے والا حقدار قرار دیاجائے گا وعید (جو کہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے) کا میں اھل السنۃ والجماعۃ کے لوگ (فاسق آدمی) کے لئے (ایمان کے ) نام اور (وعید کا ) حکم لگانے میں بعض (ایمان اور وعید ) کے قائل ہے یعنی وہ کہتے ہیں کہ (اس فاسق ) آدمی کے ساتھ آدمی کا بعض حصہ ہے نہ کہ مکمل ۔ اور اھل ایمان اور اس کے اجر وثواب کے حکم سے اس کے لئے اس کے اپنی نیک اعمال کی وجہ سے وہی ثواب کیا جائے گا جو کہ اھل ایمان کو ملتا ہے جیسا کہ اس کے لئے ثابت کیاجاتا ہے عذاب اس کے برے اعمال کی وجہ سے) دیکھئے شرح الاصفہانیۃ  ت:مخلوف:ص144)
اب جبکہ واضح ہوگیا فسق کا مفہوم اھل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک اب ہم گوش گزار کرتے ہیں آپکو فسق کا مفہوم (اھل السنۃ والجماعۃ کے) مخالفین کے نزدیک (کیاہے؟)
1 ۔ بہت بڑے بڑے شعراء میں سے ایسے بھی ہیں جو کہ ملّت اسلامیہ کے فاسق آدمی کومطلق طور پر مؤمن قرار دیتے ہیں یعنی اسکو وہ (شعرائ) سے پکا سچا مؤمن شمار کرتے ہیں ۔
جیسا کہ ان میں سے آمدی نام کے ایک شخص نے کہا اسی بات پر کبھی وہ شخص دل کے ساتھ تصدیق تو کرتا ہے اگرچہ ارکان اسلام میں سے کچھ کے ادا ء کرنے میں وہ انتہائی سستی کرتا ہے لیکن پھر بھی وہ پکا سچا مؤمن ہے اور اس پر کفر کی نفی کرنا واجب ہے اگرچہ اس پر اطاعت کے کاموں میں سستی کرکے اور (اللہ اور اس کے رسول کی ) منع کردہ چیزوں کا مرتکب ہوکر فاسق کانام لگانا صحیح بھی ہوں ۔(غایۃ المرام فی علم الکلام ص 312۔المواقف فی علم کلام ص389)
اور ایجی نے کبیرہ گناہوں کے مرتکب آدمی کو مطلق طور پر مومن قرار دیا ہے اور تحقیق پیچھے ہم اس بات کو ذکر کر چکے ہیں کبیرہ گناہوں کو مرتکب آدمی کو (اھل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک) مطلق مؤمن نہیں ٹھہرایا جائے گا۔
پس زانی یا شرابی کے بارے میں یہ نہیں کہاجائیگا کہ یہ مطلق مؤمن ہے لیکن ہم اسکے بارے میں قید لگاتے ہیں کہ وہ مؤمن ہے اپنے ایمان کے ساتھ اور فاسق ہے اپنے کبیرہ گناہ کے کرنے کی وجہ سے ۔ یا کم ایمان رکھنے والا مؤمن ہے(کیونکہ ایمان کم اور زیادہ ہوتا رہتا ہے) جو کہ آگے آنے والا ہے)
اور تحقیق عیب لگا دیا ہے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے اس قول پر آپ نے فرمایا ۔میں ان مرجئۃ (ما أعلم قوما أحمق فی رأیہم من ھذہ المرجئۃ لأنہم یقولون مؤمن ضالّ ومؤمن فاسق)
گر قوم سے زیادہ احمق اپنی رائے اختیار کرنے میں کسی اور قوم کو نہیں جانتا اس لئے کہ وہ کہتے ہیں مؤمن گمراہ ہے اور مؤمن فاسق ہے۔
اور اسی کم عقلی پر تمام شعراء کے اصول جدا جدا ہیں انکے جمہور (لوگوں ) کے قول سے اور وہ یہ ہے کہ بیشک ایمان نام ہے تصدیق کا (دل اور زبان سے )جبکہ وہ اعمال کو نکال دیتے ہیں ایمان کے نام سے ۔جبکہ معتزلہ (اسکا عقیدہ پیچھے بیان ہوچکا ہے) کے نزدیک فسق کا مفہوم پیچھے گزرنے والے تمام اقوال کے الٹ ہے) برعکس ہے وہ کہتے ہیں کہ فاسق نہ تو مؤمن ہے اور نہ ہی کافر بلکہ یہ دو منزلوں (مؤمن کافر) کے ایک منزل میں ہے اور معتزلہ میں سے سوائے امم کے کسی ایک نے بھی کبیرہ گناہ کے مرتکب کومؤمن نہیں کہا۔مقالات الاسلامیین 1/333)
عبدالجبار ہمدانی المعتزلی کہتا ہے کہ کبیرہ گناہ کرنے والے کے لئے دو ناموں (مؤمن اور کافر) کے درمیان ایک (تیسرا) نام مقرر ہے اور اس کا حکم بھی دو حکموں (مؤمن کا حکم اور کافر کا حکم ) کے درمیان ایک (تیسرا) حکم ہے نہ تو اسکا نام کافر ہوگا اورنہ ہی مؤمن بلکہ اسکا نام فاسق رکھا جائے گا اور اس طرح اسکا حکم (جزا و سزا کے لحاظ سے) کافر کے حکم میں ہوگا اور نہ ہی مؤمن کے حکم میں ہوگا بلکہ اس کے لئے ایک علیحدہ ہی تیسرا حکم ہوگا اور وہ ایک درجہ ہے ان دونوں (مؤمن اور کافر) کے درجوں کے درمیان اور جب کبیرہ گناہوں کا مرتکب شخص ان کے نزدیک ہی فاسق مؤمن نہیں ہے تو اسی وجہ سے یہ (معتزلہ) اس شخص پر جہنم میں ہمیشہ داخل ہونے کا حکم لگاتے ہیں ۔ (شرح اصول الخمسۃ:ص679)
جیسا کہ اسی عبدالجبار معتزلی نے کہا:
اور وہ شخص جو کہ دلیل دیتا ہے اس بات پر کہ فاسق آدمی جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور اسکو عذاب دیاجائے گا اسمیں ہمیشہ ہمیشہ ۔جو کہ ہم نے ذکر کر دیا ہے اس کے لئے تمام وعید سے متعلق ۔بیشک یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے تو دلیل دیتا ہے کہ فاسق ایسے کام کرتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ عذاب کامستحق ہوجاتا ہے تو یہ دلیل ہے اس بات پر کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داخل کیاجائیگا(جہنم میں) شرح اصول خمسہ ص666۔اور تحقیق ’’یزید معتزلی‘‘ نے بھی فسق کے مفہوم میں اپنی ہم نوا ہیوں کی موافقت کی ہے کہ جسکا ذکر ہم نے پہلے کر دیا ہے۔(دیکھئے کتاب العقد الثمین فی معرفۃ ر ب العالمین حسین بن بدر الدین ص57اور مصباح العلوم فی معرفۃ الحیّ القیوم رصّاص کی ص20۔
44/4/1422
بیوم الخمیس
یہ جو کچھ آسانی سے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آپ کی خدمت میں پیش کیا ا س بحث کے بارے میں جمع ہوسکا۔ اور درود و سلام ہو ہمارے نبی( صلی اللہ علیہ و سلم  ) پر اور آپکی آل اور آپکی تمام ساتھیوں پر ۔




No comments:

Post a Comment