فاسق (گناہگار-نافرمان) کی اقسام»
فاسق(نافرمان) کی تین اقسام ہیں:
(1)کافر:-جو انکاری-جھٹلانے والا ہو۔
[حوالہ سورۃ الانعام:49، الاحقاف:20، البقرۃ:99][سورۃ الکافرون]
کافر کی 2 اقسام:
(1)پُر-امن کافر:
القرآن:
اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی، اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، ان کے ساتھ تم کوئی نیکی کا یا انصاف کا معاملہ کرو، یقینا اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
[سورۃ الممتحنہ:8]
(2)فسادی کافر:
القرآن:
اللہ تو تمہیں اس بات سے منع کرتا ہے کہ جن لوگوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملے میں جنگ کی ہے، اور تمہیں اپنے گھروں سے نکالا ہے، اور تمہیں نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے، تم ان سے دوستی رکھو۔ اور جو لوگ ان سے دوستی رکھیں گے، وہ ظالم ہیں۔
[سورۃ الممتحنہ:9]
جو تیرے راستہ میں روک بنتے ہیں، رسولوں کو جھٹلاتے ہیں، اولیاء (مومن بندوں) کو قتل کرتے ہیں۔
(2)منافق:-
[حوالہ سورۃ التوبہ:67، 8، 24، 80، 84، 96، المائدۃ:81][سورۃ المنافقون:6]
الَّذِيۡنَ يُسَارِعُوۡنَ فِى الۡكُفۡرِ مِنَ الَّذِيۡنَ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِاَفۡوَاهِهِمۡ وَلَمۡ تُؤۡمِنۡ قُلُوۡبُهُمۡ ۛۚ
ترجمہ:
جو لوگ جلدی کرتے ہیں کفر میں جنہوں نے اپنی زبانوں سے تو کہہ دیا ہے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، مگر ان کے دل ایمان نہیں لائے۔
[سورۃ المائدة:41]
«الَّذِي يَصِفُ الْإِسْلَامَ وَلَا يَعْمَلُ بِهِ»
جو باتیں تو اسلام کی کرے اور اس پر عمل نہ کرے۔
[کتاب الزهد(امام)وكيع بن الجراح» حدیث#471]
المنافق الذي يُظهِر الإسلامَ ويُبطِن الكفرَ۔
ترجمہ:
منافق وہ ہے جو اسلام کو ظاہر کرتا اور کفر کو چھپاتا ہے۔
[جامع المسائل-امام ابن تيمية(م728ھ): ج4 / ص133، بغية المرتاد في الرد على المتفلسفة والقرامطة والباطنية-امام ابن تيمية(م728ھ): ص338، عمدة الحفاظ في تفسير أشرف الألفاظ-امام الحلبي(م756ھ):4/ 207، الكواكب الدراري في شرح صحيح البخاري-امام الكرماني(م786ھ): ج1/ ص147، تفسير ابن عرفة(م803ھ) النسخة الكاملة: ج4/ ص70، ص254، المعتصر من المختصر من مشكل الآثار-امام الملطي(م803ھ): ج2/ ص320، اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح-امام البرماوي(م831ھ): ج1/ ص216، عمدة القاري شرح صحيح البخاري-امام بدر الدين العيني(م855ھ) : ج1 / ص217، فتح القريب المجيب على الترغيب والترهيب-امام حسن بن علي الفيومي(م870ھ) : ج3 / ص381، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح-الملا على القاري (م1014ھ) : ج1 /ص126، فيض القدير-المناوي(م1031ھ) : ج2 / ص385، كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم-التهانوي(م1158ھ) : ج2 /ص1652]
نفاق جس کے معنیٰ شریعت میں دو-رُخِی اختیار کرنے (یعنی شریعت میں ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے نکل جانا کے ہیں۔ چنانچہ اسی معنی پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:
بےشک منافقین بڑے فاسق ہیں۔
[سورۃ التوبہ:67]
یعنی شریعت سے نکل جانے والے۔ اور اللہ نے منافقین کو (درجہ میں) کافروں سے بدتر بنایا ہے۔
کچھ شک نہیں کہ منافق لوگ دوزخ کے سب سے نیچے کے درجہ میں ہوں گے۔
[سورۃ النساء:145]
منافق کی 3 اقسام:
ایمان کے بعد کفر کرنے والے-ایمان کے بعد کفر کرنے اور پھر کفر میں مزید بڑھنے والے
[حوالہ سورۃ آل عمران:90+86، النساء:137]
(1)اللہ اور اسکی آیات کا ٹیڑھا ملطلب لینے والے-ملحد
[حوالہ سورۃ آل عمران:7 (صحيح البخاري:4547) - سورۃ الاعراف:180، فصلت:40]
(2)دھوکہ دینے کیلئے:-ایمان کو ظاہر کرنے اور کفر کو چھپانے والے، اور توبہ نہ کرنے والے-زندیق
[حوالہ سورۃ البقرۃ:9-14، آل عمران:90، النساء:137]
الَّذِي يَدْعُو النَّاسَ إِلَى زَنْدَقَتِهِ
ترجمہ:
جو لوگوں کو اپنی اپنے زندقہ(بدعت) کی طرف بلاتا ہے۔
[تفسير الرازي:27/ 509، اللباب في علوم الكتاب-ابن عادل:17 /41، تفسير النيسابوري:6 /34، حاشية ابن عابدين:4 /242، تفسير حدائق الروح والريحان:25 /171]
الدَّاعِي إلَى زَنْدَقَتِهِ
ترجمہ:
اپنے زندقہ(بدعت) کی طرف بلانے والا۔
[حاشية ابن عابدين:4 /236، الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي:7 /5594]
(3)دین سے الٹے پاؤں پھرجانے والے-﴿اپنے دین کو بدلنے والے﴾-مرتد
[حوالہ سورۃ البقرۃ:143+217، سورۃ آل عمران:72، المائدۃ:54]
نفاق (منافقت) اور جہنم کی آگ سے نجات والے اعمال
http://raahedaleel.blogspot.com/2014/06/blog-post_13.html
(3)ایمان کے بعد فسق(نافرمانی) کرنے والا:-
[حوالہ سورۃ الحجرات:11، البقرۃ:197، 282، الحشر:19]
جو اپنی زبان سے ایمان لائے لیکن ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہوا۔
[سنن أبي داود:4880 {الجامع - معمر بن راشد:20251} سنن الترمذي:2032]
جسے اپنی برائی بری لگے۔
[سنن الترمذي:2165، السنن الكبرى-النسائي:9177، صحيح ابن حبان:4909]
گناہ اسکے نفس/سینے میں کھٹکے اور تو وہ یہ ناپسند کرے کہ لوگوں کو اسکی اطلاع ہو۔
[حاکم:2172، ترمذی:2389، مسلم:2553]
برائی دیکھے تو اپنی طاقت کے مطابق اسے روکے۔
[صحیح مسلم:49، سنن ابوداؤد:4340، سنن نسائی:5011، سنن ترمذی:2172، سنن ابن ماجه:1275]
مومنین، کافرین اور منافقین کی دو دو اقسام
امام ابن کثیرؒ(م774ھ) اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وَقَدْ قَسَّمَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ فِي أَوَّلِ الْوَاقِعَةِ وَآخِرِهَا وَفِي سُورَةِ الْإِنْسَانِ، إِلَى قِسْمَيْنِ: سَابِقُونَ وَهُمُ الْمُقَرَّبُونَ، وَأَصْحَابُ يَمِينٍ وَهُمُ الْأَبْرَارُ. فَتُلُخِّصَ مِنْ مَجْمُوعِ هَذِهِ الْآيَاتِ الْكَرِيمَاتِأَنَّ الْمُؤْمِنِينَ صِنْفَانِ: مُقَرَّبُونَ وَأَبْرَارٌ، وَأَنَّ الْكَافِرِينَ صِنْفَانِ: دُعَاةٌ وَمُقَلِّدُونَ، وَأَنَّ الْمُنَافِقِينَ -أَيْضًا-صِنْفَانِ: مُنَافِقٌ خَالِصٌ، وَمُنَافِقٌ فِيهِ شُعْبَةٌ مِنْ نِفَاقٍ، كَمَا جَاءَ فِي الصَّحِيحَيْنِ۔
ترجمہ:
اور یقینا اللہ نے مومنین کی دو قسمیں بیان کی ہیں:- سورة واقعہ[آیت:10، 27] کے شروع اور آخر میں، اور سورة انسان[آیت:5] میں:-(1)سابقین اور یہی مقربین بارگاہ ربانی ہیں، اور(2)اصحاب یمین۔ اور نیکوکار لوگ ہیں۔ پس ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ مومنوں کی دو جماعتیں ہیں:- (1)مقرب اور (2)ابرار۔ اور بےشک کافرین کی بھی دو قسمیں ہیں:-(1)کفر کی طرف بُلانے والے اور (2)ان کی تقلید کرنے والے۔[حوالہ سورۃ النور:39-40] اور بےشک منافقین کی بھی دو قسمیں ہیں:-(1)خالص-پکے منافق اور (2)وہ منافق جن میں نفاق کی ایک آدھ شاخ(نشانی/عادت) ہے۔
[تفسير ابن كثير - ت السلامة : جلد1/ صفحہ176]
حضرت ابوسعیدؓ الخدری سے {اور حضرت حذیفہؓ اور حضرت سلمان فارسيؓ سے موقوفا} روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
دل چار قسم کے ہیں: ایک تو صاف دل جو روشن چراغ کی طرح چمک رہا ہو، دوسرے وہ دل جو غلاف آلود ہیں، تیسرے وہ دل جو الٹے ہیں، اور چوتھے وہ دل جو مخلوط ہیں۔ (1)پہلا دل مومن کا ہے جو پوری طرح نورانی ہے، (2)دوسرا کافر کا دل ہے جس پر پردے پڑے ہوئے ہیں، (2)تیسرا دل خالص منافقوں کا ہے جو جانتا ہے اور انکار کرتا ہے، (2)چوتھا دل اس منافق کا ہے جس میں ایمان و نفاق دونوں جمع ہیں۔ ایمان کی مثال اس سبزے کی طرح ہے جو پاکیزہ پانی سے بڑھ رہا ہو اور نفاق کی مثال اس پھوڑے کی طرح ہے جس میں پیپ اور خون بڑھتا ہی جاتا ہو اب جو مادہ بڑھ جائے وہ سرے پر غالب آجاتا ہے۔
[مسند أحمد:11129، صفة النفاق ونعت المنافقين لأبي نعيم:161]
{الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي:1439، المصنف - ابن أبي شيبة:32423(30404)، السنة لعبد الله بن أحمد:820 (تفسير الطبري:1497، تفسير ابن كثير، الدر المنثور-سورة البقرة:88، سورة فصلت:5)}
{تفسير ابن أبي حاتم:8667+15206}
القرآن:
[سورۃ آل عمران:8]
کافر کا دل:
اور (پیغمبر ﷺ سے) کہتے ہیں کہ جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو اس کے لیے ہمارے دل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں.
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ : ہمارے دل غلاف میں ہیں۔ نہیں ! بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال رکھی ہے اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔
[سورة البقرة:88]
اور (یہ مال فیئ) ان لوگوں کا بھی حق ہے جو ان (مہاجرین اور انصار صحابہ) کے بعد آئے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہماری بھی مغفرت فرمایئے، اور ہمارے ان بھائیوں کی بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں، اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی بغض نہ رکھیے۔ اے ہمارے پروردگار ! آپ بہت شفیق، بہت مہربان ہیں۔
[سورۃ الحشر:10]
(1)کافر کا حکم»
القرآن:
اور بیشک ہم نے (اے محمد ﷺ!) آپ پر ایسی آیتیں اتاری ہیں جو حق کو آشکارہ کرنے والی ہیں، اور ان کا انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو نافرمان ہیں۔
[سوڑۃ البقرۃ:99]
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، ان کو عذاب پہنچ کر رہے گا، کیونکہ وہ نافرمانی کے عادی تھے۔
[سورۃ الانعام:49]
اور اس دن کو یاد کرو جب ان کافروں کو آگ کے سامنے پیش کیا جائے گا (اور کہا جائے گا کہ) تم نے اپنے حصے کی اچھی چیزیں اپنی دنیوی زندگی میں ختم کر ڈالیں (12) اور ان سے خوب مزہ لے لیا، لہذا آج تمہیں بدلے میں ذلت کی سزا ملے گی، کیونکہ تم زمین میں ناحق تکبر کیا کرتے تھے، اور کیونکہ تم نافرمانی کے عادی تھے۔
[سورۃ الاحقاف:20]
12: یعنی اگر تم نے دنیا میں کچھ اچھے کام کیے بھی تھے تو ہم نے دنیا ہی میں ان کا بدلہ عیش و عشرت کی شکل میں تمہیں دے دیا، اور تم نے اس کے مزے اڑا کر اپنا حصہ دنیا ہی میں لے لیا۔
(2)منافق کا بیان»
منافق دل میں ایمان نہیں کفر رکھتا ہے، یعنی اپنی برائی کو برائی نہیں مانتا، بس زبان اور عمل سے خود کا مومن ہونا ظاہر کرتا رہتا ہے۔
اللہ پاک کے فرمان:
جب منافق لوگ (اے پیغمبر!) تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ آپ واقعی اس کے رسول ہیں، اور اللہ (یہ بھی) گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق لوگ جھوٹے ہیں۔
[سورۃ المنافقون:1]
کچھ لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لے آئے، حالانکہ وہ (حقیقت میں) مومن نہیں ہیں۔
[سورۃ البقرۃ:8]
کے متعلق امام ابن جریجؒ(م150ھ) فرماتے ہیں:
الْمُنَافِقُ يُخَالِفُ قَوْلُه فِعْلَهُ، وسِرّه عَلَانِيَتَهُ، وَمَدْخَلُهُ مَخْرَجَهُ، وَمَشْهَدُهُ مَغِيبه
ترجمہ:
منافق کا قول اس کے فعل کے خلاف، اور اس کا باطن ظاہر کے خلاف، اور اس کا آنا جانے کے خلاف، اور اس کی موجودگی عدم موجودگی ہوا کرتی ہے۔
[تفسير الطبري(م310ھ): حدیث نمبر319 (1/ 2170 دار التربية والتراث)]
اعلانیہ-کھلم کھلا گناہ کرنا کفریہ نفاق ہے۔
حضرت حذیفہ بن الیمانؓ نے بیان کیا کہ آج کل کے منافق نبی کریم ﷺ کے زمانے کے منافقین سے بدتر ہیں۔ اس وقت چھپاتے تھے اور آج اس کا کھلم کھلا اظہار کر رہے ہیں۔
[صحيح البخاري:7113]
حضرت حذیفہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں جو نفاق تھا وہ آج ایمان کے بعد کفر اختیار کرلیتا ہے۔
[صحيح البخاري:7114]
پھر (بطورِ دلیل یہ آیت) پڑھی:
تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا، اور ان کے لیے اس دین کو ضرور اقتدار بخشے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور ان کو جو خوف لاحق رہا ہے، اس کے بدلے انہیں ضرور امن عطا کرے گا۔ (بس) وہ میری عبادت کریں، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور جو لوگ اس کے بعد بھی کفر کریں گے تو ایسے لوگ نافرمان ہوں گے۔
[سورۃ النور:55]
امام ابن کثیرؒ(م774ھ) اپنی تفسیر میں [سورۃ البقرۃ،آیت8] کے تحت لکھتے ہیں:
النِّفَاقُ: هُوَ إِظْهَارُ الْخَيْرِ وَإِسْرَارُ الشَّرِّ، وَهُوَ أَنْوَاعٌ: اعْتِقَادِيٌّ، وَهُوَ الَّذِي يَخْلُدُ صَاحِبُهُ فِي النَّارِ، وَعَمَلِيٌّ وَهُوَ مِنْ أَكْبَرِ الذُّنُوبِ
ترجمہ:
نفاق کہتے ہیں بھلائی ظاہر کرنے اور برائی پوشیدہ رکھنے کو۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں:- (1)اعتقادی اور (2)عملی۔
پہلی قسم کے منافقين {اگر بغیر توبہ مریں} تو ابدی جہنمی ہیں۔
[حوالہ سورۃ النساء:140، التوبہ:68 {البقرة:161، آل عمران:191، التوبه:84-185، محمد:34}]
اور دوسری قسم کے بدترین مجرم ہیں۔
[تفسير ابن كثير - ت السلامة : ج1/ ص176]
یعنی
عادلانہ حکم کے مطابق مجرم قابلِ سزا ہے لیکن فاضلانہ حکم کے مطابق اگر توبہ کرے تو معافی کے قابل، اور اگر اصلاح بھی کرلے تو اجر کے قابل ہو۔
امام کرمانیؒ(م786ھ) نے صحیح بخاری کی تشریح کرتے لکھتے ہیں:
مومن سے بھی نافرمانی ہوسکتی ہے:
لیکن مومن اپنی برائی کو برائی مانتا ہے۔ لہٰذا مومن توبہ(یعنی نافرمانی پر ندامت) اور اصلاح(یعنی نقصان کی تلافی کرکے بھلائی) کرتا ہے۔
لوگوں کے سامنے اپنی برائی ظاہر ہونے-اعلانیہ برائی کو پسند نہیں کرتا۔
وہ ایمان کا کمزور درجہ والا ہے، جسے ایمان کا اعلیٰ درجہ حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
دلائل:
اللہ پاک نے (ایمان وعمل میں کمی کوتاہی کرنے والوں کو ایمان والا) فرمایا:
(1) اے (زبان سے) ایمان لانے والو! (دل سے) ایمان لے آؤ۔۔۔
[سورۃ النساء:136 (موسوعة التفسير المأثور:20654)]
(2) اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ۔۔۔
[سورۃ البقرۃ:208]
یعنی دین میں پورا داخل نہ ہونے والوں کو بھی مومن کرکے مخاطب فرمایا۔
(3) اے ایمان والو! مت ہو ان جیسے جنہوں نے کفر(انکار)کیا۔۔۔
[سورۃ آل عمران:156]
یعنی کافرانہ باتیں، اعمال، شکل وصورت اختیار کرنے والوں کو بھی مومن کرکے مخاطب فرمایا۔
(4) اے ایمان والو ! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے۔۔۔۔
[سورۃ آل عمران:102]
یعنی اللہ سے ڈرنے میں کوتاہی کرنے والوں کو بھی مومن کرکے مخاطب فرمایا۔
(5) اے ایمان والو! توبہ کرو (لوٹ آؤ) الله کی طرف سچی توبہ کرتے ہوئے۔۔۔
[سورۃ التحریم:8]
یعنی سچی توبہ نہ کرنے والوں کو بھی مومن کرکے مخاطب فرمایا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنی زبان سے اور حال یہ ہے کہ ایمان اس کے دل میں داخل نہیں ہوا {نہیں پہنچا} {خالص نہیں ہوا} {دل سے ایمان نہیں لائے}، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو {مومنوں کو ایذاء نہ پہنچاؤ}{اور ان کو عار مت دلاؤ} اور ان کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو، اس لیے کہ جو ان کے عیوب کے پیچھے پڑے گا، اللہ اس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اور اللہ جس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اسے اسی کے گھر میں ذلیل و رسوا کر دے گا ۔
[سنن أبي داود:4880،
{سنن الترمذي:2032}
{مسند الروياني:305، المعجم الأوسط للطبراني:3778}
{التوبيخ والتنبيه لأبي الشيخ الأصبهاني:87، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:2511}
{الجامع - معمر بن راشد:20251}]
القرآن:
یہ دیہاتی کہتے ہیں کہ : ہم ایمان لے آئے ہیں۔ ان سے کہو کہ : تم ایمان تو نہیں لائے، البتہ یہ کہو کہ ہم نے ہتھیار ڈال دیے ہیں، (10) اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اور اگر تم واقعی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال (کے ثواب) میں ذرا بھی کمی نہیں کرے گا۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔
[سورۃ الحجرات:14 (تفسير البغوي:2007، الزمخشري،القرطبي،ابن كثير،الدر المنثور،المظهري،الألوسي)]
اور لوگوں میں ایک وہ شخص بھی ہے کہ دنیوی زندگی کے بارے میں اس کی باتیں تمہیں بڑی اچھی لگتی ہیں اور جو کچھ اس کے دل میں ہے اس پر وہ اللہ کو گواہ بھی بناتا ہے، حالانکہ وہ (تمہارے) دشمنوں میں سب سے زیادہ کٹر(جھگڑالو) ہے۔
[سورۃ البقرۃ:204 (البحر المحيط في التفسير-أبو حيان الأندلسي:2/ 338)]
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، تو ان کو اسی کوڑے لگاؤ، اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود فاسق ہیں۔
[سورۃ النور:4 (روح البيان-إسماعيل حقي:6/ 119)]
"ثلاثٌ لا يَستَخِفُّ بهم إلا منافقٌ: ذو الشيبة في الإسلام، وذو العلمِ، وإمامٌ مُقسِط".
[الأموال لابن زنجويه » بَابٌ : مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ تَوْقِيرِ أَئِمَّةِ الْعَدْلِ ... رقم الحديث: 49 - المعجم الكبير للطبراني » بَابُ الصَّادِ » مَنِ اسْمُهُ الصَّعْبُ » صُدَيُّ بْنُ الْعَجْلانِ أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ ... رقم الحديث: 7720(7817) - التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب، للمنذري:1/65، كتاب الْعلم، حديث:174 - مجمع الزوائد، للهيثمي: 1/132]
حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ عَمَّارٌ: ثَلَاثٌ لَا يَسْتَخِفُّ بِحَقِّهِنَّ إِلَّا مُنَافِقٌ بَيِّنٌ نِفَاقُهُ: الْإِمَامُ الْمُقْسِطُ وَمُعَلِّمُ الْخَيْرِ وَذُو الشَّيْبَةِ فِي الْإِسْلَامِ.
(1) اپنی برائی کو برا سمجھنے والا اعتقادی منافق نہیں، فاسق (گناہگار)مومن ہے۔
اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَذَلِكَ الْمُؤْمِنُ۔
ترجمہ:
جسے اپنی نیکی سے خوشی اور اپنی برائی سے تکلیف ہو(بری لگے) تو وہ مومن ہے۔
[سنن الترمذي:2165، السنن الكبرى-النسائي:9177، صحيح ابن حبان:4909]
القرآن:
اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول موجود ہیں۔ بہت سی باتیں ہیں جن میں وہ اگر تمہاری بات مان لیں تو خود تم مشکل میں پڑجاؤ۔ لیکن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے، اور اسے تمہارے دلوں میں پرکشش بنادیا ہے، اور تمہارے اندر کفر کی اور گناہوں اور نافرمانی کی نفرت بٹھا دی ہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو ٹھیک ٹھیک راستے پر آچکے ہیں۔
[سورۃ الحجرات:7 (تفسير ابن كثير)]
یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو (منافق) لوگ اپنے کئے پر بڑے خوش ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف ان کاموں پر بھی کی جائے جو انہوں نے کئے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کے لیے دردناک سزا (تیار) ہے۔
[سورۃ آل عمران:188 (تفسير الراغب الأصفهاني:3/ 1037)]
مومن تو وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور ترقی دیتی ہیں اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔
[سورۃ الانفال:2 (الإشارات الإلهية إلي المباحث الأصولية-الطوفي: صفحہ305)]
(2) اپنی برائی کو برا ماننے کی علامت:-
یہ ناپسند کرنا کہ لوگوں کو اس گناہ کی اطلاع ہو۔
اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
۔۔۔وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ {نَفْسِكَ} وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ۔
ترجمہ:
۔۔۔اور گناہ وہ ہے جو تیرے سینے {تيرے نفس} میں کھٹکے اور تو یہ ناپسند کرے کہ لوگوں کو اسکی اطلاع ہو۔
[مسند أحمد:22199 {17631}، صحيح مسلم:2553، {ترمذی:2389} حاکم:33+2171+2172+7047]
القرآن:
۔۔۔۔اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو۔۔۔
[سورۃ المائدۃ:2 (تفسير الثعلبي:1212+1213، تفسير البغوي:742)]
تم نیکی کے مقام تک اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچو گے جب تک ان چیزوں میں سے (اللہ کے لیے) خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہیں۔ اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
[سورۃ آل عمران:92 (تفسير الخازن:1/268)]
یعنی
اللہ کی محبت میں اسکی تعلیم کے مطابق خرچ کرنا یہ خوبی مومن کی ہے، کافر یا منافق کو یہ خوبی نصیب نہیں ہوتی۔
مومن اسی عمل/طریقہ کو نیکی مانتا ہے جو اللہ نے ہدایت کی۔
اعتقادی منافق کون؟
حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرِو بْنِ حَمْدَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عِمْرَان، وَسُلَيْمَانُ ابْنُ بِنْتِ شُرَحْبِيلَ، قَالا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الْعَمْيَاءِ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ هَجَانٍ، وَكَانَ قَدْ أَدْرَكَ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ لَمَّا دَخَلَ الشَّامَ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَقَامَ خَطِيبًا، وَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فِينَا خَطِيبًا كَقِيَامِي فِيكُمْ، فَقَالَ:
«أَمَارَةُ الْمُنَافِقِ الَّذِي لا تَسُؤُهُ سَيِّئَتُهُ، وَلا تَسُرُّهُ حَسَنَتُهُ، إِنْ عَمِلَ خَيْرًا لَمْ يَرْجُو مِنَ اللَّهِ فِي ذَلِكَ الْخَيْرِ ثَوَابًا، وَإِنْ عَمِلَ شَرًّا لَمْ يَخَفْ مِنَ اللَّهِ فِي ذَلِكَ الشَّرِّ عُقُوبَةً»
ترجمہ:
ہم سے ابو عمرو بن حمدان نے بیان کیا، کہا ہم سے حسن بن سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن سفیان نے بیان کیا، انہیں عبدالعزیز بن عمران نے اور ہم سے سلیمان بنت شرہبیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ رحمن بن ابی الامیہ نے مجھ سے حضرت سائب بن ھجانؓ کی روایت سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے، بیان کیا کہ جب حضرت عمر بن الخطاب شام میں داخل ہوئے تو آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور کھڑے ہو کر وعظ کیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے خطیب کی حیثیت سے کھڑے ہوئے جیسا کہ میں نے تمہارے درمیان کھڑا ہوں، پھر فرمایا:
"منافق کی علامت (یہ ہے) جسے اپنی برائی بری نہ لگے، اور اسے اسکی نیکی سے خوشی نہ ہو، اگر (بالفرض) وہ نیکی کرے تو اس نیکی میں اللہ سے اجر کی امید نہیں رکھتا اور اگر وہ برائی کرتا ہے تو اللہ سے نہیں ڈرتا اس برائی کی سزا میں۔"
[صفة النفاق ونعت المنافقين لأبي نعيم:67]
القرآن:
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس حکم کی طرف جو اللہ نے اتارا ہے اور آؤ رسول کی طرف، تو تم ان منافقوں کو دیکھو گے کہ وہ تم سے پوری طرح منہ موڑ بیٹھتے ہیں۔
[سورۃ النساء:61]
اور تاکہ ان منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے جو اللہ کے ساتھ بدگمانیاں رکھتے ہیں، برائی کا پھیرا انہی پر پڑا ہوا ہے، (5) اور اللہ ان سے ناراض ہے اس نے ان کو اپنی رحمت سے دور کردیا ہے، اور ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔
[سورۃ الفتح:6]
(5) یعنی وہ اپنے خیال میں مسلمانوں کے خلاف برے برے منصوبے بناتے ہیں، لیکن برائی کے پھیر میں وہ خود پڑے ہوئے ہیں، کیونکہ ایک طرف ان کے منصوبے ناکام ہوں گے، اور دوسری طرف انہیں اللہ تعالیٰ کے قہر کا سامنا کرنا پڑے گا۔[سورۃ الکافرون]
اللہ کی باتوں کا مذاق اڑانے والے اور اللہ والوں کے دشمن:
اور اس نے کتاب میں تم پر یہ حکم نازل کیا ہے کہ جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ ان کا انکار کیا جارہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ اس وقت تک مت بیٹھو جب تک وہ کسی اور بات میں مشغول نہ ہوجائیں، ورنہ تم بھی انہی جیسے ہوجاؤ گے۔ یقین رکھو کہ اللہ تمام منافقوں اور کافروں کو جہنم میں اکٹھا کرنے والا ہے۔ (اے مسلمانو) یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے (انجام کے) انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ چنانچہ اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملے تو (تم سے) کہتے ہیں کہ : کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کو (فتح) نصیب ہو تو (ان سے) کہتے ہیں کہ: کیا ہم نے تم پر قابو نہیں پالیا تھا؟ اور کیا (اس کے باوجود) ہم نے تمہیں مسلمانوں سے نہیں بچایا ؟ (83) بس اب تو اللہ ہی قیامت کے دن تمہارے اور ان کے درمیان فیصلہ کرے گا، اور اللہ کافروں کے لیے مسلمانوں پر غالب آنے کا ہرگز کوئی راستہ نہیں رکھے گا۔ یہ منافق (اپنے خیال میں) اللہ کے ساتھ دھوکا بازی کرتے ہیں، حالانکہ اللہ نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ (84) اور جب یہ لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو کسمساتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کے سامنے دکھاوا کرتے ہیں، اور اللہ کو تھوڑا ہی یاد کرتے ہیں۔ یہ کفر و ایمان کے درمیان ڈانواڈول ہیں، نہ پورے طور پر ان (مسلمانوں) کی طرف ہیں، نہ ان (کافروں) کی طرف۔ اور جسے اللہ گمراہی میں ڈال دے، تمہیں اس کے لیے ہدایت پر آنے کا کوئی راستہ ہرگز نہیں مل سکتا۔ اے ایمان والو ! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست (رازدار) مت بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ کے پاس اپنے خلاف (یعنی اپنے مستحق عذاب ہونے کی) ایک کھلی کھلی وجہ پیدا کردو؟ یقین جانو کہ) منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے، اور ان کے لیے تم کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔
[سورۃ النساء:140-145]
(83) یعنی ان لوگوں کو اصل غرض دنیوی مفادات سے ہے۔ اگر مسلمانوں کو فتح ہو اور مال غنیمت ہاتھ آئے تو یہ ان کے ساتھی ہونے کا دعویٰ کر کے ان سے مال بٹورنے کی فکر میں رہتے ہیں، اور اگر کبھی کافروں کا داؤ چل جائے تو ان پر یہ احسان جتلاتے ہیں کہ اگر ہماری مدد تمہارے ساتھ نہ ہوتی تو مسلمان تم پر غالب آجاتے۔ لہذا ہمیں ہماری ان خدمات کا مالی صلہ دو۔
(84) اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ جو سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے اللہ کو دھوکا دے دیا، تو در حقیقت یہ خود ہی دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اللہ کو کوئی دھوکا نہیں دے سکتا، اور اللہ تعالیٰ ان کو اس دھوکے میں پڑا رہنے دیتا ہے جو انہوں نے خود اپنے آپ کو اپنے اختیار سے دے رکھا ہے۔ اور اس جملے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ ان کو دھکے میں ڈالنے والا ہے۔ اس ترجمے کی بنیاد پر اس کا ایک مطلب بعض مفسرین (مثلا حضرت حسن بصری) نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کو اس دھوکے کی سزا آخرت میں اللہ تعالیٰ اس طرح دے گا کہ شروع میں ان کو بھی مسلمانوں کے ساتھ کچھ دور لے جایا جائے گا۔ اور مسلمانوں کو جو نور عطا ہوگا۔ اسی کی روشنی میں کچھ دور تک یہ بھی مسلمانوں کے ساتھ چلیں گے، اور یہ سمجھنے لگیں گے کہ ان کا انجام بھی مسلمانوں کے ساتھ ہوگا، مگر آگے جا کر ان سے روشنی چھین لی جائے گی، اور یہ بھٹکتے رہ جائیں گے، اور بالآخر دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے، جیسا کہ سورة حدید (12:57۔ 14) میں اس کا بیان آیا ہے۔
یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو (منافق) لوگ اپنے کئے پر بڑے خوش ہیں، اور چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف ان کاموں پر بھی کی جائے جو انہوں نے کئے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کے لیے دردناک سزا (تیار) ہے۔
[سورۃ آل عمران:188]
۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
کون منافق نہیں؟ عملی منافق اصلی منافق نہیں۔
دل میں ایمان کی تصدیق کے دلیل:- نفاق کا خوف آنا اور اس پر راضی نہ ہونا۔
أن رجلا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إني قرأت البارحة "براءة" فخشيت أن أكون قد نافقت، فقال: أتشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله? قال: نعم، قال: تحدث بذلك نفسك قال: لا، قال: أنت مؤمن۔
ترجمہ:
ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل میں نے (سورۃ) براءۃ پڑھی۔ تو مجھے ڈر ہوا کہ میں منافقت کر رہا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا: جی ہاں، اس نے کہا: اس(منافقت) کے بارے میں تم خود سے بات(تمنا) کرتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: تم مومن ہو۔
[أصول السنة-لابن أبي زمنين(م399ھ) : حدیث نمبر 170]
نفاق پر افسوس:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ حَرْمَلَةُ بْنُ زَيْدٍ الأَنْصَارِيُّ أَحَدُ بَنِي حَارِثَةَ، فَجَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، " الإِيمَانُ هَاهُنَا، وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى لِسَانِهِ، وَالنِّفَاقُ هَاهُنَا، وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى صَدْرِهِ، وَلا نَذْكُرُ اللَّهَ إِلا قَلِيلا.
فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَدَّدَ ذَلِكَ حَرْمَلَةُ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِطَرَفِ لِسَانِ حَرْمَلَةَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اجْعَلْ لَهُ لِسَانًا صَادِقًا، وَقَلْبًا شَاكِرًا وَارْزُقْهُ حُبِّي، وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّنِي، وَصَيِّرْ أَمْرَهُ إِلَى خَيْرٍ.
فَقَالَ لَهُ حَرْمَلَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي إِخْوَانًا مُنَافِقِينَ، كُنْتُ فِيهِمْ رَأْسًا، أَفَلا أَدُلُّكَ عَلَيْهِمْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ جَاءَنَا كَمَا جِئْتَنَا اسْتَغْفَرْنَا لَهُ كَمَا اسْتَغْفَرْنَا لَكَ، وَمَنْ أَصَرَّ عَلَى ذَلِكَ فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِ، وَلا نَخْرِقُ عَلَى أَحَدٍ سِتْرًا
ترجمہ:
حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ بنی حارثہ میں سے حرملہ بن زید انصاریؓ آپ کے پاس آئے اور آپ ﷺ سامنے بیٹھ گئے۔ پھر کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ، (ہم لوگوں کا) ایمان یہاں ہے اور اپنے ہاتھ سے زبان کی طرف اشارہ کیا، اور (ہم لوگوں کا) نفاق یہاں ہے اور اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا، اور ہم اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر نہت ہی تھوڑا۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ خاموش ہو گئے اور حرملہ نے یہ بات دہرائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرملہ کی زبان کی نوک پکڑ لی اور فرمایا:
اے اللہ! اسکی زبان سچی، اور دل شکر کرنے والی بنا، اور اسے میری محبت، اور مجھ سے محبت کرنے والوں کی محبت عطا فرما، اور اس کے معاملات کو بھلائی میں بدل دے۔
حرملہ نے آپ سے کہا:
یا رسول اللہ، میرے منافق بھائی ہیں اور میں ان میں سرفہرست تھا، تو کیا میں آپ کو ان کے بارے میں نہ بتاؤں؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو ہمارے پاس آئے جیسا کہ تم ہمارے پاس آئے، ہم اس کے لیے استغفار(اللہ سے معافی کی درخواست) کرتے ہیں جیسے ہم نے تمہارے لیے استغفار کیا، اور جو اس (منافقت) پر اصرار کرے(اڑا رہے) تو اللہ اس (کا فیصلہ کرنے) کا زیادہ حقدار ہے، اور ہم کسی کا پردہ نہیں توڑیں گے۔
[صفة النفاق ونعت المنافقين لأبي نعيم:5، تاريخ دمشق لابن عساكر:8727، أسد الغابة في معرفة الصحابة:1129]
وقال الهيثمي (9/ 410): رجاله رجال الصحيح
[جمع الفوائد من جامع الأصول:8960]
دل میں ایمان کی تصدیق کی دلیل:
(اللہ کی تعلیم کردہ) نیکی پسند آنا اور برائی بری لگنا۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، حَدَّثَنَا مَيْمُونُ بْنُ أَبِي مَيْمُونٍ، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ رَجُلا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنِّي أَخَافُ عَلَى نَفْسِي النِّفَاقَ.
فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتَ لَوْ حَضَرَتْكَ الصَّلاةُ وَأَنْتَ بِمَكَانٍ لا يَرَاكَ فِيهِ أَحَدٌ أَكُنْتَ مُصَلِّيًا لَهُ ذَلِكَ؟ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَمَنْ يَدَعْ هَذَا.
قَالَ: أَرَأَيْتَ لَوْ أَصَابَتْكَ جَنَابَةٌ تَحْتَ اللَّيْلِ، لَوْ يَعْلَمُ بِهَا أَحَدٌ، أَكُنْتَ مُغْتَسِلا؟ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَمَنْ يَدَعُ هَذَا! قَالَ: أَرَأَيْتَ لَوْ سَمِعْتَ أَحَدًا يَنْتَقِصُ كِتَابَ اللَّهِ، أَكُنْتَ مُقِرًّا لَهُ ذَلِكَ؟ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، مَا كُنْتُ لأَفْعَلَ! قَالَ: فَزَعَمَ أَنَّهُ قَالَ لَهُ قَوْلا حَسَنًا، وَقَالَ: لَسْتُ مُنَافِقًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ "
ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن عبداللہ نے حدیث بیان کی،انہوں نے کہا کہ: ہم سے محمد بن اسحاق ثقفی نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم سے قتیبہ بن سعید نے حدیث بیان کی، کہا ہم سے کثیر بن ہشام نے حدیث بیان کی، کہا ہم سے جعفر بن برقان نے حدیث بیان کی، کہا ہم سے میمون بن ابی میمون نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے پہنچی (خبر) کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا:
مجھے اپنے لیے نفاق (یعنی منافق ہونے) کا خوف ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:
تمہارا کیا خیال ہے اگر تم اس حالت میں نماز پڑھتے جبکہ تم ایسی جگہ ہوتے جہاں تمہیں کوئی بھی نماز پڑھتے نہ دیکھے تو کیا تم ایسے نماز پڑھنے والے ہوگے؟
اس نے کہا:
اللہ پاک ہے، کون اسے چھوڑے گا؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
تمہارا کیا خیال ہے اگر تم رات کے اندر جنابت سے متاثر ہو، اور اگر کسی کو اس کا علم ہو جائے تو کیا تم غسل کرو گے؟
اس نے کہا:
اللہ پاک ہے، کون اسے چھوڑے گا؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اگر تم نے کسی کو کتاب الٰہی میں نقص نکالتے ہوئے سنا تو کیا تم اس کا اقرار کرو گے؟
اس نے کہا:
اللہ پاک ہے، میں ایسا نہیں کروں گا!
اس(راوی آدمی) نے کہا:
آپ ﷺ نے اس آنے والے شخص کی بات کو اچھا سمجھا۔
تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم منافق نہیں، اگر اللہ نے چاہا۔
[صفة النفاق ونعت المنافقين لأبي نعيم(م430ھ): حدیث نمبر 175]
(3) مومن کے ایمان کا سب سے کمزور درجہ:-
دوسروں کو بھی کسی نہ کسی صورت (اعلانیہ-کبیرہ)برائی سے روکنا۔
اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(جب اعلانیہ برائی ہوتے دیکھو تو ہاتھ سے روکو، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکو)
۔۔۔فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ
ترجمہ:
پھر اگر اسکی بھی طاقت نہ ہو تو اسے دل سے
(روکے یعنی اسے برا سمجھے، اس سے دور رہے اور اپنے ماتحتوں کو روکے)
اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔
[صحیح مسلم:49، سنن ابوداؤد:4340، سنن نسائی:5011، سنن ترمذی:2172، سنن ابن ماجه:1275]
القرآن:
اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔
[سورۃ آل عمران:104]
(تفسير السمرقندي:1/ 236، تفسير الراغب الأصفهاني:2/ 774، تفسير البغوي:418)
وہ (حد سے گذرنے والے) جس بدی کا ارتکاب کرتے تھے، اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا طرز عمل نہایت برا تھا۔
[سورۃ المائدۃ:79 (تفسير ابن كثير)]
القرآن:
زمانے کی قسم۔ انسان درحقیقت بڑے گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کریں، اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کریں۔ (2)
[سورۃ العصر:1-3]
1: یعنی زمانے کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو لوگ ایمان اور نیک عمل سے محروم ہوتے ہیں، وہ بڑے گھاٹے میں ہیں اس لئے کہ ایسی بہت سی قوموں کو دنیا ہی میں آسمانی عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ہر زمانے میں اللہ کی نازل کی ہوئی کتابیں اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبر خبر دار کرتے رہے ہیں کہ اگر ایمان اور نیک عمل کی رَوِش اختیار نہ کی گئی تو آخرت میں بڑا سخت عذاب انسان کا منتظر ہے۔
2: اس سے معلوم ہوا کہ خود نیک بن جانا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اپنے اپنے اثرو رسوخ کے دائرے میں دوسروں کو حق بات اور صبر کی تلقین کرنا بھی ضروری ہے، صبر قرآن کریم کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان کی دلی خواہشات اسے کسی فریضے کی ادائیگی سے روک رہی ہوں یا کسی گناہ پر آمادہ کررہی ہوں اس وقت ان خواہشات کو کچلا جائے، اور جب کوئی ناگوار بات سامنے آئے تو اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر اعتراض سے اپنے آپ کو روکا جائے، ہاں تقدیر کا شکوہ کئے بغیر اس ناگوار چیز کے تدارک کی جائز تدبیر کرنا صبر کے خلاف نہیں ہے۔ مزید دیکھئے سورة آل عمران کی آخری آیت پر ہمارا حاشیہ۔
اعتقادی منافق اور عملی منافق:-کی مشترکہ علامات ظاہری (نافرمانیاں) ہوتی ہیں»
فاسق یعنی نافرمانی کا عادی ہونا۔
[حوالہ سورۃ التوبہ:67]
یتیموں کو دھکے دینا، مسکینوں کو کھلانے کا شوق نہ دلانا، نماز سے (عادتاً) غافل رہنا۔
[حوالہ سورۃ الماعون:2-4]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بے شک منافقین کی نشانیاں ہیں، وہ ان کے ذریعے سے پہچانے جاتے ہیں: ان کا(ایک دوسرے کے لیے)سلام لعنت ہے، ان کا کھانا لوٹ کا مال ہے، ان کا مالِ غنیمت خیانت سے ہے، وہ مساجد کے قریب نہیں آتے بلکہ دور رہتے ہیں، نماز کے آخر ہی میں آتے ہیں، تکبر کرتے ہیں، وہ الفت(یعنی کسی کے ساتھ مخلصانہ تعلق)نہیں رکھتے، ان کے ساتھ(بھی)الفت نہیں کی جاتی، رات کو لکڑیوں کی مانند ہوتے اور دن میں شور وغوغا کرتے ہیں۔‘‘
[مسند أحمد:7913(ت شاكر)، مشيخة يعقوب بن سفيان الفسوي:32، مسند البزار:8444، الإبانة الكبرى - ابن بطة:927، صفة النفاق ونعت المنافقين لأبي نعيم:69، أمالي ابن بشران:30، شعب الإيمان:2963(2702)]
القرآن:
اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں پر اس بات کی بندش لگا دے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے، اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان (مسجدوں) میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کو آخرت میں زبردست عذاب ہوگا۔
[سورۃ البقرۃ:114 (تفسير الرازي:4/ 15)]
۔۔۔ان کی مثال ایسی ہے جیسے یہ لکڑیاں ہیں جو کسی سہارے سے لگا رکھی ہیں۔۔۔
[سورۃ المنافقون:4 (تفسير ابن كثير)]
لکڑیاں اگر کسی دیوار کے سہارے لگی رکھی ہوں تو دیکھنے میں کتنی اچھی لگیں، ان کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا، اسی طرح یہ منافق لوگ دیکھنے میں کتنے اچھے لگیں، حقیقت میں بالکل بےمصرف ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہے، یہ لوگ جب آنحضرت ﷺ کی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو ان کا جسم اگرچہ مجلس میں ہوتا تھا ؛ لیکن دل و دماغ آپ ﷺ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، اس لحاظ سے بھی انہیں بےجان لکڑیوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ اور کوئی نماز بھاری نہیں۔
[بخاری:657،مسلم:626]
فجر کی جماعت
[موطا مالک:432]
فجر اور عشاء کی جماعت
[مجمع الزوائد:2149]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے،کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر کوئی آدمی لوگوں کو معمولی سے گوشت والی ہڈی یا بکری کے دو پایوں سے چمٹے ہوئے گوشت کی طرف بلائے، تو وہ اس کی دعوت قبول کرتے ہیں اور صورتِ حال یہ ہے، کہ انہیں اس نماز کے لیے دعوت دی جاتی ہے، تو وہ نہیں آتے۔بے شک میں نے پختہ ارادہ کیا ہے، کہ ایک آدمی کو حکم دوں، کہ وہ لوگوں کو باجماعت نماز ادا کروائے، پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں، جو اذان سننے کے باوجود آئے نہیں اور ان پر آگ جلاؤں۔ بلاشبہ اس سے(یعنی نماز باجماعت سے)منافق ہی پیچھے رہتا ہے۔‘‘
[المعجم الأوسط للطبراني:2763، مجمع الزوائد:2170 وَرِجَالُهُ مُوَثَّقُونَ]
نماز پڑھے بھی تو لوگوں دکھلانے کیلئے، جس کی علامات نماز کو سستی اور مختصر ذکر سے پڑھنا ہے۔
[حوالہ سورۃ النساء:142]
حضرت علی سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں یاد رکھیں گے منافقین:- سورۃ ھود، سورۃ برأۃ ، سورۃ یٰس ، سورۃ دخان اور سورۃ عم یتساءلون کو۔
[المعجم الأوسط-الطبراني:7570]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
چار عادتیں-نشانیاں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ (وہ عادتیں یہ ہیں):
(1)جب بولے تو جھوٹ بولے، (2)جب وعدہ کرے تو توڑ ڈالے، (3)جب کوئی چیز (راز،عہدہ وغیرہ) امانتاً دی جائے تو خیانت کرے، (4)جب کسی سے جھگڑے تو گالیاں دینے لگے۔
[صحيح البخاري:34، صحيح مسلم:58(210)]
اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور دعویٰ کرے کہ وہ مومن ہے۔
[مسند البزار:7843، 9881، الإبانة الكبرى - ابن بطة:931، الإيمان - ابن منده:530]
ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ، دو(عادتیں) چلی گئیں اور ایک رہ گئی(تو)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر اس میں نفاق کی ایک شاخ ہے اگر ان میں سے کچھ باقی نہیں۔
[صفة النفاق وذم المنافقين للفريابي:4، صفة النفاق ونعت المنافقين لأبي نعيم:43، معجم ابن عساكر:1286]
وَإِذَا غَنَمَ غَلَّ وَإِذَا أُمِرَ عَصَى وَإِذَا لَقِيَ جَبُنَ فَمَنْ كُنَّ فِيهِ فَفِيهِ النِّفَاقُ كُلُّهُ وَمَنْ كَانَ فِيهِ بَعْضُهُنَّ فَفِيهِ بَعْضُ النِّفَاقِ۔
ترجمہ:
اور جب مالِ غنیمت ملے تو خیانت کرے، اور جب حکم دیا جائے تو نافرمانی کرے، اور جب (دشمن کے لشکر سے) ملاقات ہو تو بزدلی کرے(بھاگے)، تو جس میں یہ (عادتیں) ہوں تو اس میں سارا نفاق ہے، اور جس کے پاس اس میں سے کچھ ہے تو اس میں کچھ نفاق ہے۔
[صفة النفاق وذم المنافقين للفريابي:20، الإبانة الكبرى - ابن بطة:926]
اور جب عہد کرے تو غداری کرے۔
[صحيح البخاري:34+2459+3178، صحيح مسلم:58، سنن أبي داود:4688،سنن الترمذي:2632]
تو اللہ بزرگ و برتر نے نازل فرمائی اسکی تصدیق میں:
اور انہی میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے فضل سے ہمیں نوازے گا تو ہم ضرور صدقہ کریں گے، اور یقینا نیک لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔ لیکن جب اللہ نے ان کو اپنے فضل سے نوازا تو اس میں بخل کرنے لگے، اور منہ موڑ کر چل دیے۔ نتیجہ یہ کہ اللہ نے سزا کے طور پر نفاق ان کے دلوں میں اس دن تک کے لیے جما دیا ہے جس دن وہ اللہ سے جاکر ملیں گے، کیونکہ انہوں نے اللہ سے جو وعدہ کیا تھا، اس کی خلاف ورزی کی، اور کیونکہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔[سورۃ التوبہ:75-77]
[الزهد لوكيع:400-472، سنن سعيد بن منصور:1206، الصمت لابن أبي الدنيا:516، السنة لأبي بكر بن الخلال:1640، المعجم الكبير للطبراني:9075]
واقعہ نزول:
حضرت ابو امامہ ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص جس کا نام ثعبلہ بن حاطب تھا، آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور درخواست کی کہ آپ میرے لیے مال دار ہونے کی دعا فرمادیں۔ آپ ﷺ نے شروع میں اسے سمجھایا کہ بہت مال دار ہونا مجھے اپنے لیے بھی پسند نہیں ہے۔ لیکن اس نے بار بار اصرار کیا، اور یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر میں مال دار ہوگیا تو ہر حق دار کو اس کا حق پہنچاؤں گا، آپ نے اس موقع پر حکیمانہ جملہ بھی ارشاد فرمایا کہ تھوڑا مال جس کا تم شکر ادا کرسکو اس زیادہ مال سے بہتر ہے جس کا شکر ادا نہ کرسکو۔
اس پر بھی اس کا اصرار جاری رہا تو آنحضرت ﷺ نے دعا فرما دی۔ چنانچہ وہ واقعی مال دار ہوگیا اور اس کے مال مویشی اتنے زیادہ ہوگئے کہ ان کی دیکھ بھال میں نمازیں چھوٹنے لگیں، پھر وہ ان جانوروں کی زیادتی کی وجہ سے مدینہ منورہ سے باہر جا کر رہنے لگا۔ شروع میں جمعہ کے دن مسجد میں آجاتا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ جمعہ کو آنا بھی چھوڑ دیا۔ جب آنحضرت ﷺ کی طرف سے لوگ زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے اس کے پاس پہنچے تو اس نے زکوٰۃ پر پھبتیاں کسیں، اور ٹال مٹول کر کے ان حضرات کو واپس بھیج دیا۔ اس آیت میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے۔[روح المعانی بحوالہ طبرانی و بیہقی]
منافقانہ عادتوں کی مختلف تعداد پر اشکال کا جواب:
امام بدر الدین العینیؒ نے فرمایا:
لَا مُنَافَاة، لِأَن الشَّيْء الْوَاحِد قد يكون لَهُ عَلَامَات، فَتَارَة يذكر بَعْضهَا، وَأُخْرَى جَمِيعهَا أَو أَكْثَرهَا۔
ترجمہ:
اس میں کوئی تضاد نہیں ہے، کیونکہ ایک چیز میں علامات ہوسکتی ہیں، بعض اوقات ان میں سے بعض کا ذکر ہوتا ہے اور بعض اوقات ان میں سے تمام یا اس سے زیادہ کا۔
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري:1 /221]
منافقین نماز سے بھی دھوکہ دیتے ہیں:
القرآن:
یہ منافق (اپنے خیال میں) اللہ کے ساتھ دھوکا بازی کرتے ہیں، حالانکہ اللہ نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ (1) اور جب یہ لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو کسمساتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کے سامنے دکھا وا کرتے ہیں، اور اللہ کو تھوڑا ہی یاد کرتے ہیں۔ یہ کفر و ایمان کے درمیان ڈانواڈول ہیں، (2) نہ پورے طور پر ان (مسلمانوں) کی طرف ہیں، نہ ان (کافروں) کی طرف۔ اور جسے اللہ گمراہی میں ڈال دے، تمہیں اس کے لیے ہدایت پر آنے کا کوئی راستہ ہرگز نہیں مل سکتا۔
[سورۃ النساء:142-143]
تشریح:
(1) یعنی یہ جو سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے اللہ کو دھوکا دے دیا، تو در حقیقت یہ خود ہی دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اللہ کو کوئی دھوکا نہیں دے سکتا، اور اللہ تعالیٰ ان کو اس دھوکے میں پڑا رہنے دیتا ہے جو انہوں نے خود اپنے آپ کو اپنے اختیار سے دے رکھا ہے۔
اور اس جملے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ ان کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے۔ اس ترجمے کی بنیاد پر اس کا ایک مطلب بعض مفسرین (مثلا: حضرت حسن بصریؒ) نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کو اس دھوکے کی سزا آخرت میں اللہ تعالیٰ اس طرح دے گا کہ شروع میں ان کو بھی مسلمانوں کے ساتھ کچھ دور لے جایا جائے گا۔ اور مسلمانوں کو جو نور عطا ہوگا۔ اسی کی روشنی میں کچھ دور تک یہ بھی مسلمانوں کے ساتھ چلیں گے، اور یہ سمجھنے لگیں گے کہ ان کا انجام بھی مسلمانوں کے ساتھ ہوگا، مگر آگے جا کر ان سے روشنی چھین لی جائے گی، اور یہ بھٹکتے رہ جائیں گے، اور بالآخر دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے، جیسا کہ سورة حدید (12:57۔ 14) میں اس کا بیان آیا ہے۔
(2) منافقین دھوکہ باز ہوتے ہیں، وہ صرف جھوٹ، خیانت، وعدہ خلافی اور گالم گلوچ جیسی بےدینی کے علاوہ ۔۔۔ دین کے ذریعہ سے بھی دھوکہ دیتے ہیں، اس کا دھوکہ نماز میں (۱)سستی اور (۲)دکھلاوے سے کھڑے ہونا اور (۳)اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرتے ہیں۔
منافقین تذبذب کا شکار اور گمراہ ہوتے ہیں۔
نفاق کے معنیٰ، اقسام اور ان کے احکام:
اعتقادی منافق کی علامات:
(1)مسلمانوں کے بجائے کافروں سے رازدارانہ-دلی دوستی رکھنے والے۔
القرآن:
منافقوں کو یہ خوشخبری سنا دو کہ ان کے لیے ایک دکھ دینے والا عذاب تیار ہے۔ (یہ منافقین وہ ہیں) جو مسلمانوں کے بجائے کافروں کو دوست بناتے ہیں، کیا وہ ان کے پاس عزت تلاش کر رہے ہیں ؟ حالانکہ عزت تو ساری کی ساری اللہ ہی کی ہے۔
[سورۃ النساء:138-139]
یعنی اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے سوا کسی اور کو خصوصی رازدار نہیں بناؤ۔
[حوالہ سورۃ التوبہ:16]
امام بخاریؒ(م256ھ) لکھتے ہیں:
كُلُّ شَيْءٍ أَدْخَلْتَهُ فِي شَيْءٍ
ترجمہ:
اس چیز(رازداری)میں ہر چیز داخل ہے۔
[صحيح البخاري - ط السلطانية: جلد4 / صفحہ107]
البتہ اصلاح کی خاطر کفار ومنافقین سے خاطر مدارات کا معاملہ رکھنے کی گنجائش ہے۔
القرآن:
تم ان میں سے بہت سوں کو دیکھتے ہو کہ انہوں نے (بت پرست) کافروں کو اپنا دوست بنایا ہوا ہے (55) یقینا جو کچھ انہوں نے اپنے حق میں اپنے آگے بھیج رکھا ہے وہ بہت برا ہے، کیونکہ (ان کی وجہ سے) اللہ ان سے ناراض ہوگیا ہے، اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔ اگر یہ لوگ اللہ پر اور نبی پر اور جو کلام ان پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان رکھتے تو ان (بت پرستوں) کو دوست نہ بناتے، لیکن (بات یہ ہے کہ) ان میں زیادہ تعداد ان کی ہے جو نافرمان ہیں۔
[سورۃ المائدۃ:80+81]
55: یہ ان یہودیوں کی طرف اشارہ ہے جو مدینہ منورہ میں آباد تھے اور انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ سے معاہدہ بھی کیا ہوا تھا، اس کے باوجود انہوں نے درپردہ مشرکین مکہ سے دوستیاں گانٹھی ہوئی تھیں، اور ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے، بلکہ ان کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ان سے یہ تک کہہ دیتے تھے کہ ان کا مذہب مسلمانوں کے مذہب سے اچھا ہے۔
(2)مسلمانوں کو دھوکہ-نقصان دینے کیلئے:-
مذہب کو استعمال کرنے والے، اپنے ایمان یا نیکی کا ثبوت "زبان-الفاظ" کے دعوے کرنے والے، اور جھوٹی قسمیں اٹھانے والے۔
حضرت عمر بن خطابؓ (اور حضرت عمران بن حصینؓ) سے روایت ہے کہ اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مجھے اپنی امت پر (تم پر میرے بعد) سب سے زیادہ خوف ہر اس (جھگڑالو) منافق کا ہے جو چرب زبانی کا بڑا ماہر ہوگا۔
[مسند احمد:143+310، مسند البزار:305 (مسند البزار:3514، صحیح ابن حبان:3783) سلسلة الأحاديث الصحيحة:1013، صحيح الترغيب والترهيب:132+2330، صحيح الجامع الصغير:239+1554+1556]
لیکن دل اور عمل سے جاہل(مخالف)ہوگا۔
[الأحادیث المختارۃ:236]
باتیں حق(نیکی)کی کرے گا اور عمل برائی کے۔
[شعب الایمان:1640]
جو ایمان کی پناہ لے گا اور عمل اسکے خلاف کرےگا۔
[مسند الفاروق:955]
ایمان والوں سے جھگڑے گا قرآنی تعلیم کے ذریعہ.
[مجمع الزوائد:887]
«الَّذِي يَصِفُ الْإِسْلَامَ وَلَا يَعْمَلُ بِهِ»
جو باتیں تو اسلام کی کرے اور اس پر عمل نہ کرے۔
[کتاب الزهد(امام)وكيع بن الجراح» حدیث#471]
قرآنی شاہدیاں»
سورۃ البقرۃ:8، سورۃ المنافقون:1
القرآن:
۔۔۔اور اگر وہ بات کریں تو تم ان کی باتیں سنتے رہ جاؤ۔۔۔
[سورۃ المنافقون:4 (تفسير السمعاني:5 /443)]
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي لَا أَتَخَوَّفُ عَلَى أُمَّتِي مُؤْمِنًا وَلَا مُشْرِكًا، أَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَحْجِزُهُ إِيمَانُهُ، وَأَمَّا الْمُشْرِكُ فَيَقْمَعُهُ كُفْرُهُ، وَلَكِنِّي أَتَخَوَّفُ عَلَيْهِمْ مُنَافِقًا، عَالِمَ اللِّسَانِ، يَقُولُ مَا يَعْرِفُونَ، وَيَعْمَلُ مَا يُنْكِرُونَ»
ترجمہ:
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں اپنی امت کے لیے کسی مومن یا مشرک سے نہیں ڈرتا۔ (کیونکہ) جہاں تک مومن کا تعلق ہے تو اس کا ایمان اس کیلئے رکاوٹ بنے گا۔ اور جہاں تک مشرک کا تعلق ہے تو اس کا کفر اس کیلئے رکاوٹ بنے گا۔ لیکن مجھے تم لوگوں کے حوالے سے منافق کا اندیشہ ہے جو زبان کا ماہر ہوگا جو ایسی باتیں کرے گا جن سے تم واقف(پسند کرتے) ہوگے، اور عمل وہ کرے گا جس کو تم برا قراردیتے ہو۔
[المعجم الأوسط للطبراني:7065، المعجم الصغير للطبراني:1024]
القرآن:
اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو کہہ دو کہ : جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
[سورۃ الحج:68]
ان سے پہلے نوح کی قوم اور ان کے بعد بہت سے گروہوں نے بھی (پیغمبروں کو) جھٹلایا تھا اور ہر قوم نے اپنے پیغمبر کے بارے میں یہ ارادہ کیا تھا کہ انہیں گرفتار کرلے، اور انہوں نے باطل کا سہارا لے کر جھگڑے کیے تھے تاکہ اس کے ذریعے حق کو مٹا دیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے ان کو پکڑ میں لے لیا۔ اب (دیکھ لو کہ) میری سزا کسی (سخت) تھی۔
[سورۃ غافر:5]
۔۔۔(مسلمانو) شیاطین اپنے دوستوں کو ورغلاتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے بحث کریں۔ اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو تم یقینا مشرک ہوجاؤ گے۔
[سورۃ الانعام:121]
ارے تمہاری بساط یہی تو ہے کہ تم نے دنیوی زندگی میں لوگوں سے جھگڑ کر ان (خیانت کرنے والوں) کی حمایت کرلی۔ بھلا اس کے بعد قیامت کے دن اللہ سے جھگڑ کر کون ان کی حمایت کرے گا، یا کون ان کا وکیل بنے گا ؟
[سورۃ النساء:108]
وہ تم سے حق کے معاملے میں اس کے واضح ہوجانے کے باوجود اس طرح بحث کر رہے تھے جیسے ان کو موت کی طرف ہنکا کرلے جایا جارہا ہو اور وہ (اسے) آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔
[الانفال:6]
(3)لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنے والے جن اور انسان۔۔۔گناہ کو نیکی اور نیکی کو گناہ کرکے پیش کرنے والے۔
[حوالہ سورۃ الناس:4-6]
القرآن:
دھوکہ دینے کیلئے بات کو سنہرا رنگ دیکر پیش کرتا ہے، شیاطین کی تعلیم سے۔
[سورۃ الانعام:112]
القرآن:
منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی طرح کے ہیں۔ وہ برائی کی تلقین کرتے ہیں اور بھلائی سے روکتے ہیں، (1) اور اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں۔ (2) انہوں نے اللہ کو بھلا دیا ہے، تو اللہ نے بھی ان کو بھلا دیا۔ بلاشبہ یہ منافق بڑے نافرمان ہیں۔ اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور تمام کافروں سے دوزخ کی آگ کا عہد کر رکھا ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہی ان کو راس آئے گی۔ اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال دی ہے، اور ان کے لیے اٹل عذاب ہے۔
[سورۃ التوبہ:67-68]
(1)یعنی اللہ کے عطاکرہ رزق میں سے خرچ نہیں کرتے ہیں۔
[حوالہ سورۃ یٰس:47]
اور دوسروں کو روزمرہ کی معمولی چیزیں دینے سے روکتے ہیں۔
[حوالہ سورۃ الماعون:7]
یعنی وہ (دوسروں کو) مسکین کو کھانا کھلانے کا شوق بھی نہیں دلاتے۔
[حوالہ سورۃ الحاقہ:34، الفجر:18، الماعون:3]
(2)یعنی وہ کنجوس ہیں۔ جہاں خرچ کرنا چاہیے وہاں خرچ نہیں کرتے۔
(4)نیک لوگوں سے جھگڑتے رہتے ہیں، شیاطین کے ورغلانے کے سبب۔
[حوالہ سورۃ الانعام:121]
پیغمبر اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔
[صحيح البخاري:17، 3784]
حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا:- تم سے صرف مومن ہی محبت کرتا ہے اور منافق ہی بغض رکھتا ہے۔
[سنن الترمذي:3736، سنن النسائي:5018]
پیغمبر اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تین قسم کے لوگوں کے حق میں کمی-کوتاہی منافق کے سوا کوئی نہیں کرسکتا:
(1)اسلام میں جس کی ڈاڑھی سفید ہوجاۓ۔۔۔بوڑھا مسلمان،
(2)خیر کی تعلیم دینے والا عالم،
(3)اور عادل حکمران.
[طبرانی:7819، جامع بيان العلم:898، مصنف ابن أبي شيبة:32562]
پیغمبر اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَمَنْ شَهِدَ شَهَادَةَ زُورٍ عَلَى مُسْلِمٍ أَوْ كَافِرٍ عُلِّقَ بِلِسَانِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ صُيِّرَ مَعَ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ
ترجمہ:
جو شخص کسی مسلمان یا کافر کے خلاف جھوٹی گواہی دے گا اس کی زبان قیامت کے دن لٹکی ہوگی، پھر وہ (بھی) جہنم کے سب سے نچلے درجے میں منافقوں کے ساتھ ہوگا۔
[مسند الحارث:205]
القرآن:
(اے پیغمبر ! مسلمانوں سے) کہہ دو کہ : اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، اور تمہارا خاندان، اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے اور وہ کاروبار جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں۔ تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔
[سورۃ التوبہ:24]ٰ
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
جس کی موت واقع ہوگئی اور اس نے جہاد کیا اور نہ اس کے دل میں اس کی بات (تمنا-نیت) کی تو وہ نفاق کے شعبہ پر مرا.
[سنن ابو داؤد:2502، حاكم:2418][صحیح مسلم:1910(4931)]
القرآن:
اور انہی میں وہ صاحب بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ : مجھے اجازت دے دیجیے، اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیے، (1) ارے فتنے ہی میں تو یہ خود پڑے ہوئے ہیں۔ اور یقین رکھو کہ جہنم سارے کافروں کو گھیرے میں لینے والی ہے۔
[سورۃ التوبہ:49]
(1)حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ منافقین میں ایک شخص جد بن قیس تھا۔ جب آنحضرت ﷺ نے اس کو غزوہ تبوک میں شامل ہونے کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں بڑا زن پرست آدمی ہوں، جب روم کی خوبصورت عورتوں کو دیکھوں گا تو مجھ سے صبر نہیں ہوسکے گا، اور میں فتنے میں مبتلا ہوجاؤں گا۔ لہذا مجھے اجازت دے دیجئے کہ میں اس جنگ میں شریک نہ ہوں، اور اس طرح مجھے فتنے میں مبتلا ہونے سے بچا لیجئے۔ اس آیت میں اس کی طرف اشارہ ہے (روح المعانی بحوالہ ابن المنذر و طبرانی وابن مردویہ)۔
القرآن:
جب منافق لوگ (اے پیغمبر!) تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ آپ واقعی اس کے رسول ہیں، اور اللہ (یہ بھی) گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق لوگ جھوٹے ہیں۔ انہوں نے اپنی قسموں کو ایک ڈھال بنا رکھا ہے۔ (1) پھر یہ لوگ دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت ہی برے ہیں وہ کام جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں۔ یہ ساری باتیں اس وجہ سے ہیں کہ یہ (شروع میں بظاہر) ایمان لے آئے پھر انہوں نے کفر اپنا لیا اس لیے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی، نتیجہ یہ کہ یہ لوگ (حق بات) سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ جب تم ان کو دیکھو تو ان کے ڈیل ڈول تمہیں بہت اچھے لگیں، اور اگر وہ بات کریں تو تم ان کی باتیں سنتے رہ جاؤ، (2) ان کی مثال ایسی ہے جیسے یہ لکڑیاں ہیں جو کسی سہارے سے لگا رکھی ہیں، (3) یہ ہر چیخ پکار کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ (4) یہی ہیں جو (تمہارے) دشمن ہیں، اس لیے ان سے ہوشیار رہو۔ اللہ کی مار ہو ان پر۔ یہ کہاں اوندھے چلے جارہے ہیں؟ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ، اللہ کے رسول تمہارے حق میں مغفرت کی دعا کریں، تو یہ اپنے سروں کو مٹکاتے ہیں، (5) اور تم انہیں دیکھو گے کہ وہ بڑے گھمنڈ کے عالم میں بےرخی سے کام لیتے ہیں۔ (اے پیغمبر) ان کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں، چاہے تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا، (6) یقین جانو اللہ ایسے نافرمان لوگوں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا۔ یہی تو ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر کچھ خرچ نہ کرو، یہاں تک کہ یہ خود ہی منتشر ہوجائیں گے، (7) حالانکہ آسمانوں اور زمین کے تمام خزانے اللہ ہی کے ہیں، لیکن منافق لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔ کہتے ہیں کہ : اگر ہم مدینہ کو لوٹ کر جائیں گے تو جو عزت والا ہے، وہ وہاں سے ذلت والے کو نکال باہر کرے گا، (8) حالانکہ عزت تو اللہ ہی کو حاصل ہے اور اس کے رسول کو، اور ایمان والوں کو، لیکن منافق لوگ نہیں جانتے۔
اے ایمان والو ! تمہاری دولت اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کرنے پائیں۔ اور جو لوگ ایسا کریں گے، وہ بڑے گھاٹے کا سودا کرنے والے ہوں گے۔ اور ہم نے تمہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے (اللہ کے حکم کے مطابق) خرچ کرلو، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو وہ یہ کہے کہ : اے میرے پروردگار ! تو نے مجھے تھوڑی دیر کے لیے اور مہلت کیوں نہ دے دی کہ میں خوب صدقہ کرتا، اور نیک لوگوں میں شامل ہوجاتا۔ اور جب کسی شخص کا معین وقت آجائے گا تو اللہ اسے ہرگز مہلت نہیں دے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
[سورۃ المنافقون]
1: جس طرح ڈھال سے تلوار کا بچاؤ کیا جاتا ہے، اسی طرح ان لوگوں نے اپنے بچاؤ کے لیے یہ قسمیں کھالی ہیں کہ وہ مومن ہیں، تاکہ دنیا میں کافروں کا جو برا انجام ہونے والا ہے، یہ اس سے بچ جائیں۔
2: یعنی ان کا ظاہری حلیہ بڑا پرکشش ہے، اور باتیں بڑی لچھے دار ہیں، کہ آدمی انہیں سنتا ہی رہ جائے، لیکن اندر سے ان میں نفاق کی نجاست بھری ہوئی ہے، روایات میں ہے کہ عبداللہ ابن ابی اپنے ڈیل ڈول کے اعتبار سے پرکشش شخصیت رکھتا تھا، اور اس کی باتیں بڑی فصاحت و بلاغت کی حامل ہوتی تھیں۔
3: لکڑیاں اگر کسی دیوار کے سہارے لگی رکھی ہوں تو دیکھنے میں کتنی اچھی لگیں، ان کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا، اسی طرح یہ منافق لوگ دیکھنے میں کتنے اچھے لگیں، حقیقت میں بالکل بےمصرف ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہے، یہ لوگ جب آنحضرت ﷺ کی مجلس میں بیٹھتے تو ان کا جسم اگرچہ مجلس میں ہوتا تھا ؛ لیکن دل و دماغ آپ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا، اس لحاظ سے بھی انہیں بےجان لکڑیوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔
4: چونکہ ان کے دل میں چور ہے، اس لیے اگر مسلمانوں میں کوئی شور ہو تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے خلاف کچھ ہو رہا ہے۔
5: قرآن کریم نے جو لفظ استعمال فرمایا ہے، اس کا ترجمہ سر کا موڑنا بھی ہوسکتا ہے، اور ہلانا بھی۔ حضرت شیخ الہند نے شاید اسی لیے اس کا ترجمہ مٹکانے سے کیا ہے جس میں ایک مکاری کا تصور پنہاں ہے، اور جو ان کی کیفیت کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔
6: مطلب یہ ہے کہ جب تک یہ لوگ اپنی منافقت سے توبہ کر کے صحیح معنی میں مسلمان نہیں ہوجاتے، اس وقت تک ان کی بخشش نہیں ہوگی۔
7: سورت کے تعارف میں جو واقعہ اوپر آچکا ہے، اس میں یہ بات عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہی تھی کہ مسلمانوں پر اپنا مال خرچ کرنا بند کردو، اس کے نتیجے میں معاذ اللہ صحابہ آنحضرت ﷺ کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔
8: یہ وہی بات ہے جو عبداللہ بن ابی نے کہی تھی اور پھر اس سے مُکر گیا تھا۔ تفصیلی واقعہ اوپر آچکا ہے۔
خلاصہ:
١- منافق کی تعریف:
جو شخص ظاہری شکل وصورت سے مسلمان نظر آئے اور ارکانِ اسلام کا بھی پابند ہو، لیکن وہ دل سے کفریہ عقائد پر قائم ہو یا اسلامی عقائد کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلا ہو، تو ایسے شخص کو شریعت کی زبان میں منافق کہا جاتا ہے۔
منافقین کی قسمیں:
منافقین کی دو قسمیں ہیں:
۱۔منافق اعتقادی :
وہ شخص جو بظاہر مسلمان ہو، لیکن درپردہ کافر ہو، منافق اعتقادی کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے اور وہ دوسرے کفار کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائے گا۔
۲۔ منافق عملی:
وہ شخص جو عقیدے کے اعتبار سے تو پکا اور سچا مسلمان ہو، لیکن اس کے اندر منافقین سے ملتی جلتی عادتیں ہوں، مثلاً جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا اور خیانت وغیرہ کا مرتکب ہونا، جھگڑے کے وقت بد زبانی کرنا، اس جیسے اور برے افعال میں مبتلا شخص مسلمان تو رہے گا، لیکن سخت گناہ گار ہو گا۔
منافقین کی علامات:
٢- قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں منافق کی بہت سی علامات بیان کی گئی ہیں، ان میں چند ایک یہ ہیں:
١- ایمان کا جھوٹا دعویٰ۔
٢- فریب کاری کرنے والے۔
٣- بظاہر اصلاح پسند مگر اندرون خانی فساد کی سازشیں کرنے والے۔
٥- ایمان والوں کو بے وقوف کہنے والے۔
٦- دین اور اہل دین ایمان والوں کا مذاق اڑانے والے۔
٧- ھدایت کے بدلے گمراہی قبول کرنے والے۔
٨- کفار سے دوستیاں کرنے والے۔
٩- نماز کے لیے سستی سے جانے والے۔
١٠- نمازوں کو وقت سے مؤخر کرنے والے۔
١١- جن پر عشاء اور فجر کی نماز بھاری ہو ۔
١٢- طبیعت کے مطابق دین کی باتوں پر عمل کرنے والے، جہاں کسی حکم شرعی میں ان کو مشقت ہوئی تو یہ اس سے دور بھاگ جانے والے۔
١٣- جہاد میں بزدلی کا مظاہرہ کرنے والے۔
١٤- اسلام کو کمزور کرنے کی سازشیں کرنے والے۔
١٥- لوگوں کو دین سے متنفر کرنے کے لیے احکام شریعت میں طرح طرح کے شکوک وشبہات پیدا کرنے والے۔
١٦- جب مسلمانوں کے پاس جائیں گے، تو کہیں گے ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، جب کافروں کے پاس جائیں گے تو کہیں گے، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
١٧- ہر بات میں جھوٹ بولنے والے۔
١٨- وعدے کی خلاف ورزی کرنے والے۔
١٩- امانت میں خیانت کرنے والے۔
٢٠- جھگڑے میں بدزبانی کرنے والے۔
نفاقِ اعتقادی کا حکم:
نفاقِ اعتقادی کا حکم یہ ہے کہ ایسا منافق کفار کے زمرے میں آتا ہے، اگر بغیر توبہ کے مرا تو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں جائے گا اور جہنم کے نچلے طبقے میں رکھا جائے گا۔
نفاقِ عملی کا حکم:
نفاقِ عملی کا مرتکب مسلمان ہی کہلائے گا، لیکن اس کا یہ عمل گناہ کبیرہ کی طرح ہے، اگر بغیر توبہ کے دنیا سے چلا گیا، تو اپنے گناہوں کی سزا پانے کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے گا، اس کے بعد ایمان کی وجہ سے جنت میں داخل ہو گا۔
کیا کسی مسلمان کو منافقین جیسی خصلتوں کی وجہ سے منافق کہا جا سکتا ہے؟
نفاق ایک مخفی چیز ہے، کسی شخص کے دل کے اندر عقیدہ ایمان ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے منافقین کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مطلع فرما دیا تھا، آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد چونکہ وحی کا سلسلہ موقوف ہو گیا ہے، اس لیے کسی کے متعلق منافق ہونے کا حکم لگانا جائز نہیں ہے، البتہ وہ برے افعال اور گناہ جن کا ارتکاب منافقین کیا کرتے تھے، بعض مسلمان ان میں ملوث ہو جاتے ہیں، لیکن چونکہ وہ مسلمان عقیدہ کے اعتبار سے مسلمان ہوتے ہیں، لہذا محض منافقوں جیسی خصلتوں کے اپنانے سے ان مسلمانوں کو منافق یا کافر نہیں کہا جائے گا، بلکہ فاسق کہا جائے گا۔
No comments:
Post a Comment