اللہ تعالی نے اس کے علاوہ ہر قسم کے غیر شرعی طریقہ کو حرام قرار دیا ہے اور آخرت کے سخت عذاب کا مستوجب قرار دیا ہے اور جنسی تسکین کے غیر شرعی طریقوں پر شریعت میں دنیاوی سزائیں (حدود اور تعزیرات) بھی متعین ہیں۔
پس ہم جنس پرستی جنسی خواہش کے پورا کرنے کا غیر شرعی اور غیر فطری طریقہ ہے، اسی گناہ کی بناء پر لوط علیہ السلام کی قوم کو اللہ تعالی نے سخت عذاب دیا تھا اور شریعت میں بھی ہم جنس سے استمتاع کرنے والے کے لیے سخت سزا متعین کی گئی ہے، لہذا ہم جنس پرستی سخت حرام اور بہت بڑا گناہ ہے، اس کے کامل اجنتاب کرنا ضروری اور لازم ہے۔
لہٰذا جو کام اللہ تعالیٰ نے ناجائز اور حرام بتلاتے ہیں، سائنس ان میں کتنی خوبیاں بتلائے، حقیقةً وہ کام غلط اور حرام ہی رہیں گے، کیونکہ گندے اور خراب کام ہی اللہ نے حرام کیے ہیں۔ پس ہم جنسی کی طرف میلان اور رجحان تو فطرت (Nature) کا تقاضہ ہوسکتا ہے لیکن جائز حدود تک ہی رہے گا، اگر یہ میلان ناجائز حدود میں داخل ہورہا ہے تو یہ نفسانیت اور شیطانت ہے، لہٰذا آپ ہم جنس میں کسی نیک اور صالح شخص سے تعلق قائم کریں، اور ہر ناجائز اور گناہ کے کام سے پرہیز کریں۔
الحدیث:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّهُ لَعَنَ الْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ، وَالْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ»۔
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتوں پر اور عورتوں سے مشابہت کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے۔
[سنن أبي داود:4097، مسند أحمد:2262+3058]
القرآن:
اور مت ڈھانکو حق کو جھوٹ کے ساتھ۔۔۔
[سورۃ البقرۃ:42]
اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے کفر اختیار کرلیا ہے۔۔۔
[سورۃ آل عمران:156]
نفسیاتی بیماری کا علاج کیا جاتا ہے، سچ کو جھوٹ سے مت بدلو۔
﴿وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ﴾ .
ترجمہ:
اور ہم نے لوط کو بھیجا، جب اس نے اپنی قوم سے کہا : کیا تم اس بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا جہاں کے کسی شخص نے نہیں کی ؟
[سورۃ الاعراف:80]
حضرت لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے، جو اپنے مقدس چچا کی طرح عراق میں پیدا ہوئے تھے، اور جب انہوں نے وہاں سے ہجرت کی تو حضرت لوط ؑ بھی ان کے ساتھ وطن سے نکل آئے، بعد میں حضرت ابراہیم ؑ فلسطین کے علاقے میں آباد ہوئے، اور حضرت لوط ؑ کو اللہ تعالیٰ نے اردن کے شہرسدوم (sodom) میں پیغمبر بناکر بھیجا، سدوم ایک مرکزی شہر تھا اور اس کے مضافات میں عمورہ وغیرہ کئی بستیاں آباد تھیں، کفر وشرک کے علاوہ ان بستیوں کی شرمناک بدعملی یہ تھی کہ وہ ہم جنسی (homosexuality) کی لعنت میں گرفتار تھے جس کا ارتکاب قرآن کریم کی تصریح کے مطابق ان سے پہلے دنیا کے کسی فرد نے نہیں کیا تھا، حضرت لوط ؑ نے انہیں اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچائے اور عذاب سے بھی ڈرایا، لیکن جب یہ لوگ اپنی خباثت سے باز نہ آئے تو ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی اور ان تمام بستیوں کو الٹ دیا گیا، آج بحر میت (dead sea) کے نام سے جو سمندر ہے، کہتے ہیں کہ یہ بستیاں یا تو اس میں ڈوب گئی ہیں یا اس کے آس پاس تھیں جن کا نشان واضح نہیں رہا، حضرت لوط ؑ کا اس قوم کے ساتھ نسبی تعلق نہیں تھا پھر بھی اس آیت میں اسے حضرت لوط ؑ کی قوم کہا گیا ہے کیونکہ یہ وہ امت تھی جس کی طرف ان کو بھیجا گیا تھا . ان کے واقعے سب سے زیادہ تفصیل سورة ہود (69:11 تا 83) میں آئے گی۔ اس کے علاوہ سورة حجر (52:15 تا 84) ، سورة شعراء (160:26 تا 174) اور سورة عنکبوت (26:29 تا 35) میں بھی ان کے واقعے کی کچھ تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ نیز سورة ذاریات (24:51 تا 37) اور سورة تحریم (10:66) میں بھی ان کے مختصر حوالے آئے ہیں۔
اس میں چار مسائل ہیں :
مسئلہ نمبر 2۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان: کیا تم اس بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو اس میں بےحیائی سے مراد مذکروں(یعنی مرد کا مردوں) کے ساتھ فعلِ بد(برا کام) کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا زکر بےحیائی کے لفظ کے ساتھ کیا ہے تاکہ وہ یہ بیان کرے کی یہ زنا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :
﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً﴾ [سورۃ الاسراء:32]
تم زنا کے قریب نہ جاؤ بلاشبہ یہ بےحیائی ہے۔
علماء نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے جو اس پر واجب ہوگا جس نے اس برے فعل کا ارتکاب کیا اس کے بعد کہ اس کے حرام ہونے پر تمام کا اجماع ہے۔ لہٰذا امام مالکؒ(م179ھ) نے فرمایا :
اسے رجم (سنگسار) کیا جائے گا۔
[احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 786]
چاہے محصن(شادی شدہ) ہو یا غیر محصن (غیرشادی شدہ) ۔
اور اسی طرح اسے بھی رجم کیا جائے گا جس کے ساتھ یہ فعل کیا گیا، بشرطیکہ وہ بالغ(عاقل) ہو۔
اور آپ سے یہ بھی مروی ہے :
اسے رجم کیا جائے گا اگر وہ محصن ہو اور اگر غیر محصن ہو تو اسے قید کیا جائے گا اور تادیبی سزا دی جائے گی۔
یہی مذہب(راستہ/رائے) (تابعین میں) حضرات عطاءؒ، ابراہیم نخعیؒ اور ابن مسیبؒ وغیرہم رحمۃ اللہ علیہم کا ہے۔
اور امام اعظم ابوحنیفہؒ(م150ھ) نے کہا ہے :
محصن اور غیر محصن دونوں کو تعزیر لگائی جائے گی ۔
[احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 786]
اور یہ امام مالکؒ(م179ھ) سے بھی مروی ہے۔
اور امام شافعیؒ(م204ھ) نے کہا ہے :
زنا پر قیاس کرتے ہوئے اسے زنا کی حد(شرعی سزا) لگائی جائے گا۔
[احکام القرآن لابن العربی، جلد 2، صفحہ 786]
امام مالکؒ(م179ھ) نے اس ارشاد اللہ تعالیٰ سے استدلال کیا ہے :
وامطرنا علیھم حجارۃ من سجیل
[سورۃ الحجر:74]
اور ہم نے برسائے ان پر کھنگر کے پتھر۔
پس یہ ان کے لیے سزا اور ان کے فعل کا بدلہ ہے۔
اور اگر کہا جائے :
اس میں دو وجہوں سے کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے، ایک تو یہ کہ قوم لوط کو دیگر تمام امتوں کی طرح کفر اور تکذیب پر سزا دی گئی اور یہ کہ ان کے بچے اور بڑے سب ہی اس میں داخل ہیں۔ پس یہ باب الحدود(یعنی شرعی سزاؤں کے بیان) سے اس کے خارج(یعنی الگ، جدا، علیحدہ) ہونے پر دلیل ہے۔
تو کہا جائے گا کہ :
جہاں تک پہلی وجہ ہے تو وہ غلط ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں خبر دی ہے کہ انہوں نے معاصی(یعنی نافرمانیوں) کا ارتکاب کیا پس انکے بدلے اللہ تعالیٰ نے انہیں پکڑ لیا۔ ان معاصی میں سے یہ بھی ہے۔
اور رہی دوسری وجہ تو ان میں سے کچھ یہ فعل کرنے والے تھے اور ان میں سے کچھ راضی تھے، تو جَمْہُور(یعنی عوام) کے اس پر سُکُوت(یعنی خاموشی) اختیار کرنے کی وجہ سے تمام کو سزا دی گئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اپنے بندوں کے بارے میں سنت ہے۔ اور فاعلین پر سزا کا امر مسلسل باقی رہے گا۔ واللہ اعلم
ابو داؤد، ابن ماجہ، ترمذی، نسائی اور دارقطنی نے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
” جسے تم قول لوط کا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول بہ دونوں کو قتل کر دو “
[سنن ابی داؤد، کتاب الحدود، جلد 2، صفحہ 257، حدیث نمبر 3869، ضیاء القرآن پبلی کیشنز]
۔ یہ لفظ ابو داؤد اور ابن ماجہ کے ہیں۔
اور ترمذی میں ہے:
” وہ دونوں محصن ہوں یا محصن نہ ہوں۔ “
[جامع ترمذی، کتاب الحدود، جلد 1، صفحہ 176، حدیث نمبر 2550، ضیاء القرآن پبلی کیشنز]
ابو داؤد اور دارقطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے ایسے غیر شادی شدہ جو ان کے بارے روایت کیا ہے جو عمل لواطت کی حالت میں پایا جائے۔ آپ نے فرمایا :
اسے رجم کیا جائے گا۔
[سنن ابن داؤد، کتاب الحدود، جلد 2، صفحہ 257، ایضا، حدیث نمبر 3780، ضیاء القرآن پبلی کیشنز]۔
اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے ایک آدمی کو جلا دیا اس کا نام فجائہ تھا، اس نے قوم لوط کا عمل کیا تھا اور یہی رائے حضرت علی بن ابی طالب ؓ کی تھی، کیونکہ جب حضرت خالد بن ولید ؓ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی طرف اس کے بارے لکھا تو آپ نے حضور نبی مکرم ﷺ کے اصحاب کو جمع کیا اور اس بارے میں ان سے مشور طلب کیا۔ تو حضرت علی ؓ نے کہا : بلاشبہ یہ ایسا گناہ ہے جو سابقہ امتوں میں سے سوائے ایک امت کے کسی نے نہیں کیا اور اس کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے (بطور سزا معاملہ) کیا اس کے بارے تم جانتے ہو، میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ اسے آگ کے ساتھ جلا دیا جائے۔ تو اصحاب رسول اللہ ﷺ کی رائے اسی پر متفق ہوئی کہ اسے آگ کے ساتھ جلا دیا جائے۔ نتیجہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی طرف اسے آگ کے ساتھ جلا دینے کا حکم بھیجا تو انہوں نے اسے جلا دیا۔ پھر ایسے لوگوں کو ابن زبیرؓ نے اپنے زمانہ میں جلایا۔ پھر ہشام بن ولید نے انہیں جلانے کی سزا دی۔ پھر خالد قشیری نے عراق میں انہیں جلایا۔ روایت ہے کہ حضرت ابن زبیر ؓ کے زمانہ میں سات افراد لواطت کے جرم میں پکڑے گئے۔ تو آپ نے ان کے بارے میں پوچھ گچھ کی تو آپ نے ان میں سے چار کو شادی شدہ پایا تو آپ نے ان کے بارے حکم صادر کیا پس انہیں حرم سے باہر نکال کر رجم کردیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گئے اور تین کو حد جاری کردی اور آپ کے پاس حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر ؓ تھے لیکن ان دونوں نے اس حکم پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اور یہی موقف امام شافعیؒ کا ہے۔
حضرت ابن العربیؒ(م543ھ) نے کہا ہے :
وہ موقف جسے امام مالک(م179ھ) نے اپنایا ہے وہ حق کے زیادہ قریب ہے اور وہ سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح اور اعتماد کے لحاظ سے زیادہ قوی ہے۔ اور جہاں تک احناف کا قول ہے تو انہوں نے کہا : زنا کی سزا تو معلوم ہے، تو یہ گناہ جب اس کے سوا ہے تو پھر ضروری ہے کہ وہ اسکی حد میں اس کے ساتھ شریک نہ ہو۔ اور وہ اس بارے میں اس حدیث کو ترجیح دیتے ہیں:
(مَنْ وَضَعَ حَدًّا فِي غَيْرِ حَدٍّ فَقَدْ تَعَدَّى وَظَلَمَ)
( جس نے غیر حد کی جگہ حد لگائی تو اس نے زیادتی اور ظلم کیا.)
اور یہ بھی کہ اس نے ایسی فرج (یعنی عورت کی شرمگاہ) میں وطی(یعنی جنسی فعل، ہم بستری، مباشرت، جماع) کی ہے جس کے ساتھ نہ حِلَّت(یعنی حلال و جائز ہونے)کا تعلق ہے اور نہ اِحْصان(یعنی مجرد اور غیر شادی شدہ ہونے) کا، نہ مہر واجب ہوتا ہے اور نہ نسب ثابت ہوتا ہے، پس اس کے ساتھ حد کا کوئی تعلق نہیں۔
[أحكام القرآن لابن العربي: جلد 2، صفحہ 787]
مسئلہ نمبر۔ 3
اگر کسی نے چوپائے کے ساتھ بدکاری کی تو اس کے بارے کہا گیا ہے کہ نہ اس آدمی کو قتل کیا جائے گا اور نہ اس چوپائے کو۔
اور یہ قول بھی ہے :
دونوں کو مار ڈالا جائے گا۔ اسے ابن منذر نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے بیان کیا ہے۔ اور اس باب میں ایک اور حدیث ہے جسے ابو داؤد اور دارقطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
” جس نے کسی جانور کے ساتھ بدکاری کی تو تم اسے قتل کردو اور اس کے ساتھ اس کے ساتھ اس چوپائے کو بھی قتل کردو “.
[سنن ابن ماجہ، کتاب الحدود، جلد 1، صفحہ 187]
تو عکرمہؒ کہتے ہیں: میں نے ابن عباسؓ سے پوچھا: اس چوپایہ کا کیا جرم ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ ﷺ نے یہ صرف اس وجہ سے فرمایا کہ ایسے جانور کے گوشت کھانے کو آپ نے برا جانا۔
[سنن ابی داؤد، كِتَابِ الْحُدُودِ، بَابٌ فِيمَنْ أَتَى بَهِيمَةً، حدیث نمبر 4464]
ابن منذرؒ نے کہا ہے :
اگر یہ حدیث ثابت ہے تو پھر اس کے مطابق قول کرنا واجب ہے اور اگر ثابت نہیں تو پھر چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کثرت سے استغفار کرے جس نے اس طرح کا فعل کیا اور اگر حاکم اسے تعزیر لگائے تو یہ اچھا اور حسن ہے۔ واللہ اعلم
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چوپائے کا قتل اس لیے ہے تاکہ وہ کسی بدشکل شے کو جنم نہ دے۔ پس اس کا قتل اس معنی کے لیے مصلحت ہوتا ہے اس کے باوجود کہ یہ سنت سے ثابت ہے۔ واللہ اعلم
ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے فرمایا :
وہ آدمی جس نے کسی چوپائے سے بدکاری کی اس پر حد نہیں ہے۔
ابو داؤد نے کہا ہے :
اسی طرح حضرت عطا نے بھی کہا ہے۔
اور حکم نے کہا ہے :
میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ اسے کوڑے لگائے جائیں، لیکن وہ حد کی مقدار کو نہ پہنچیں۔ اور حسن نے کہا ہے : وہ زانی کے قائم مقام ہی ہے۔
[ایضا۔ حدیث نمبر 3782، ضیاء القرآن پبلی کیشنز]۔
اور زہریؒ نے کہا ہے :
اسے سو کوڑے مارے جائیں گے چاہے وہ محصن ہو یا محصن نہ ہو۔
امام مالکؒ، ثوریؒ، احمد رحمۃ اللہ علیہم اور اصحاب رائے نے کہا ہے :
اسے تعزیر لگائی جائے گی۔
یہ حضرت عطاءؒ نخعی اور حکمؒ سے مروی ہے۔
امام شافعیؒ سے ایک روایت اس سے مختلف ہے۔ اور یہ اس باب میں آپ کے مذہب کے زیادہ مشابہ ہے۔
اور جابرؒ بن زید نے کہا ہے :
اس پر حد قائم کی جائے گی، مگر چوپایہ اس کا ہوجائے گا۔
مسئلہ نمبر 4۔
قولہ تعالیٰ : آیت : ما سبقکم بھا من احد من العلمین
اس میں من استغراق جنس کے لیے ہے، یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم سے پہلے کسی امت میں کوئی لواطت کرنے والا نہ تھا اور ملحد گمان کرتے ہیں کہ وہ ان سے پہلے بھی تھے۔ لیکن سچ وہی ہے جو قرآن کریم میں آیا ہے۔ اور نقاش نے بیان کیا ہے کہ ابلیس ان کے عمل کی اصل تھا اس طرح کہ اس نے انہیں اپنی طرف بلایا اللہ اس پر لعنت کرے۔ پس وہ ان کا آپس میں ایک دوسرے سے نکاح کردیتا تھا۔
حسن نے کہا ہے :
وہ یہ عمل غرباء ( اجنبیوں) سے کرتے تھے۔
[تفسیر بصری، جلد 3، صفحہ 103]
آپس میں ایک دوسرے سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
ابن ماجہ نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
” بلاشبہ جس کے بارے میں اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف رکھتا ہوں وہ قوم لوط کا عمل ہے “
[سنن ابن ماجہ، کتاب الحدود، جلد 1 صفحہ 187۔ ایضا، حدیث نمبر 2552، ضیاء القرآن پبلی کیشنز]
اور حضرت محمد بن سیرینؒ نے کہا ہے :
جانوروں میں سے خنزیر اور گدھے کے سوا کوئی نہیں ہے جو قوم لوط کے عمل کی مثل عمل کرتا ہو۔
[سورہ اعراف ج آیت نمبر ۸۰، ج نمبر ۷ ص نمبر ۲۴۲،دار الکتب المصریۃ]
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:
"وعن ابن عباس وأبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ملعون من عمل عمل قوم لوط» . رواه رزين وفي رواية له عن ابن عباس أن عليا أحرقهما وأبا بكر هدم عليهما حائطا وعنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا ينظر الله عز وجل إلى رجل أتى رجلا أو امرأة في دبرها» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب.
(«ملعون من عمل عمل قوم لوط» . رواه رزين) وفي الجامع الصغير: «ملعون من سب أباه ملعون من سب أمه، ملعون من ذبح لغير الله، ملعون من غير تخوم الأرض، ملعون من كمه أعمى عن طريق، ملعون من وقع على بهيمة، ملعون من عمل بعمل قوم لوط» . رواه أحمد بسند حسن عن ابن عباس."
[کتاب الحدود ،ج نمبر ۶ ص نمبر ۲۳۵۱،دار الفکر]
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو وطئ امرأة في دبرها أو لاط بغلام لم يحد عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ويعزر ويودع في السجن حتى يتوب وعندهما يحد حد الزنا فيجلد إن لم يكن محصنا ويرجم إن كان محصنا، ولو فعل هذا بعبده أو أمته أو بزوجته بنكاح صحيح أو فاسد لا يحد إجماعا كذا في الكافي.ولو اعتاد اللواطة قتله الإمام محصنا كان أو غير محصن كذا في فتح القدير".
[کتاب الحدود، باب رابع، ج نمبر ۲ ص نمبر ۱۵۰،دار الفکر]
تاریخ کا خطرناک قانون، ہوش ربا انکشاف
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: "مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ، فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِهِ"۔
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کو تم پاؤ کہ وہ قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) کر رہا ہے، تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو۔
[سنن ابن ماجه:2561، سنن أبي داود:4462، سنن الترمذي:1456]
القرآن:
اور نہ قتل کرو کسی جان کو جسے حرمت دی(احترام دیا-حرام ٹھہرایا) اللہ نے مگر حق کے ساتھ(قتل کرسکتے ہو)
[سورۃ الانعام:151، الاسراء:33، الفرقان:68]
پھر جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اس زمین کے اوپر والے حصے کو نیچے والے حصے میں تبدیل کردیا، اور ان پر پکی مٹی کے تہہ بر تہہ پتھر برسائے۔
[سورۃ ھود:82]
خنثیٰ مشکل کا نکاح صحیح نہیں ہے جب تک کہ ان کی جنسی حالت، مرد یا عورت ہونا معلوم نہ ہوجائے، پس اگر اس کا مرد ہونا معلوم ہوجائے تو عورت سے نکاح درست ہے اور عورت ہونا معلوم ہوجائے تو مرد سے نکاح کرنا درست ہے، اور اگر اس نے کسی سے نکاح کرلیا تو حالت کے ظہور تک نکاح موقوف رہے گا۔
حوالہ
لَوْ زَوَّجَ الْأَبُ هَذَا الْخُنْثَى امْرَأَةً قَبْلَ بُلُوغِهِ أَوْ زَوْجَةً فَالنِّكَاحُ مَوْقُوفٌ لَا يَفْسُدُ وَلَا يَبْطُلُ وَلَا يَتَوَارَثَانِ حَتَّى يَسْتَبِينَ أَمْرُ الْخُنْثَى؛ لِأَنَّ التَّوَارُثَ حُكْمُ النِّكَاحِ النَّافِذِ لَا حُكْمُ النِّكَاحِ الْمَوْقُوفِ.
فَإِنْ زَوَّجَهُ الْأَبُ امْرَأَةً وَبَلَغَ وَظَهَرَ عَلَامَاتُ الرِّجَالِ وَنَحْوُهُ حُكِمَ بِجَوَازِ النِّكَاحِ إلَّا أَنَّهُ إذَا لَمْ يَصِلْ إلَيْهَا فَإِنَّهُ يُؤَجَّلُ سَنَةً كَمَا يُؤَجَّلُ غَيْرُهُ إذَا لَمْ يَصِلْ إلَى امْرَأَتِهِ․
[البحر الرائق شرح كنز الدقائق-ابن نجيم: جلد 8 / صفحہ 540]
[الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية: 6 / 439]
[الفتاوی التاتارخانیة: ۲۰/ ۲۰۱، کتاب الخنثی، مسائل نکاح الخنثی المشکل]
اے ایمان والو! اگر کوئی بھی گناہگار تمہارے پاس کوئی بھی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو۔ پھر تمکو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔
اے ایمان والو! اگر کوئی بھی گناہگار تمہارے پاس کوئی بھی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو۔ پھر تمکو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔
ہم جنس پرستی کا سیلاب اور ہماری ذمہ داریاں
معاشرے کی وہ حس تیزی سے
کند ہوتی جا رہی ہے جو کسی نازیبا حرکت پر آتش زیرپا ہوجایا کر تی تھی اور اس حرکت
کے مر تکب کے خلاف احتجاج کی ایک تند و تیز لہر بن کر ا بھرتی تھی۔ یہی و جہ ہے کہ
دور حاضر میں لادینی قوتیں اپنے تمام ترمذموم ہتھکنڈوں کے ساتھ ہمارے گھر کی دہلیز
پر ڈیرا جما ٰئے بیٹھی ہیں اور ہماری سوچ کے دھاروں کو اپنی تعفن زدہ فکر سے آلودہ
کرنے کے لیے مصروف کار ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ اگر ہماری بے حسی کے باعث لادینیت کی
ا ن بپھری ہوئی موجوں نے ہمارے گھروں کا مو رچہ بھی سر کر لیا تو پھر آنے والی
نسلوں کا خدا ہی حافظ ہے۔ ہمارا حال تویہ ہے کہ جب مغرب کے ا س تہذیبی سیلاب کی
کوئی تندوتیز لہر ہمارے دل و دما غ سے ٹکراتی ہے تو بس انفرادی سطح پر کوئی اکا
دکا صداے احتجاج بلند ہوتی ہے اور وہ بھی وقت کے ساتھ خامو ش ہو جاتی ہے اور
کاروبار زندگی پھر سے اپنی ڈگر پر رواں دواں ہو جا تا ہے۔
مو رخہ ۱۲ ؍اگست ۲۰۰۵ کو روزنامہ پاکستان میں
’’گندے نالے پر ایک اورگھر ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے ایک کالم کی وساطت سے
معلوم ہوا کہ مغربی تہذیب کے زیر اثر .ہم جنس پرستی کی لہر باقاعدہ اور منظم طور
پر ہمارے ملک میں داخل ہو چکی ہے اور اس کار بد کو پاکستان میں فروغ دینے کے لیے
چار سنٹرز قا ئم ہو چکے ہیں۔ کالم کے مطابق پاکستان کے چاربڑے شہر کراچی، ملتان،
لاہور اوراسلام آباد بچوں کی سیکس مارکیٹ بن چکے ہیں۔یہ"Gay sex centers" کہلاتے ہیں اور ان
کی سرگرمیاں اور ان کے بارے میں معلومات کا طریقہ اتنا اوپن ہے کہMIRC چینل پرآپ net chat کر سکتے ہیں۔ "Gay Pakistani" سا ئٹ بالکل ویسے
ہی آپریٹ کر تی ہے ، جیسے Gay America اور Gay
India۔ اس
سائٹ کو سرکاری یا غیر سرکاری طو ر پر کبھی Lock نہیں کیا گیا۔ راقم نے اس سا ئٹ کو خود چیک کیا ہے۔ جب آپ اس سا
ئٹ پر جاتے ہیں تو آپ سے ASL یعنی Age,
sex &
Location پوچھا جائے گا۔ پھر Status یعنی Body, Weight & Color۔ یہ تفصیلات یوں دی اور
لی جاتی ہیں جیسے منڈی سے کسی چوپائے کو خریدتے اور بیچتے ہوئے درکار ہوتی ہیں۔
پھر آئی ڈی کا تبادلہ کیا جا تا ہے، Contact لیا اور دیا جاتا ہے۔ ریٹ کبھی وہاں اور کبھی بعد میں موقع پر طے
کیا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ عیاشی کو ہی زندگی کا مقصد اور حاصل سمجھتے ہیں۔ ان کی
روشن خیالی یہیں سے شروع ہو تی ہے اور یہیں پر ختم ہو جا تی ہے ۔
یہ چھوٹی عمر کے غریب
بروس [پیشہ ور] ملتان میں بسوں کے اڈے ، شاہ رکن عالم کالونی ، کھاد فیکٹری سے
بہاول پور مظفر گڑ ھ بائی پاس ، پوری ایل شیپ پٹی ہے جہاں ٹین ایجرز دستیاب ہو تے
ہیں۔ پولیس، ٹرک ڈرائیورز، دوسرے شہروں سے آنے والے تاجر اور عیاش زمین دار ان سے
براہ راست رابطہ کر تے ہیں، جب کہ پڑھے لکھے اور امیر تاجر نیٹ پر رابطہ کرتے ہیں
اور ہوٹلوں میں ملاقاتیں کرتے ہیں ۔
قارئین ! یہ ہے وہ طوفان
جو ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اس ملک میں پھیلایا جا رہا ہے جب کہ اس کی روک
تھام کے لیے نہ حکومتی سطح پر کو ئی باقاعدہ پلاننگ کی گئی ہے اور نہ عوامی سطح
پر۔اس قبیح عمل کے پھیلاؤ کا ذمہ دار وہ نام نہاد مہذب معاشرہ ہے جس کو نہ صرف
اپنی ہم جنس پرستانہ تہذیب پر فخر ہے بلکہ وہ اس شنیع فعل کو قانونی شکل دینے کے
لیے بیتاب ہے۔ اس ضمن میں روزنامہ پاکستان میں ۳۱ ؍ مئی ۲۰۰۵ کو شائع ہونے والی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں :
برازیل کے شہر ساؤ پاؤلو
میں ہم جنس پرستوں کا ایک بہت بڑا جلوس نکالا گیا جس میں بعض اندازوں کے مطابق
تقریباً بیس لاکھ افراد نے حصہ لیا ۔اگر یہ تعداد صحیح ثابت ہوئی تو یہ دنیا میں
ہم جنس پرستوں کا سب سے بڑا جلوس ہو گا۔ ہم جنس پرستوں کا مطالبہ تھا کہ انھیں آپس
میں شادی کا قانونی حق دیا جائے۔
ایک دوسری خبر کے مطابق
ہم جنس پرستوں کے مطالبے کو تسلیم کر تے ہوئے ایک امریکی عدالت نے ان کو شادی کا
قانونی حق دے دیا ہے ۔ ملاحظہ ہو:
امریکی عدالت نے ہم جنس
پرستوں کو شادی کی قانونی اجازت دے دی ۔ نیو یارک کی اسٹیٹ کورٹ کے جج ڈورس لنگ
کوہن نے اپنے فیصلے میں ہم جنس پرستوں کو شادی کا لائسنس جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔
اپنے فیصلے میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم جنس پرست بھی برابر کے بنیادی حقوق کے حامل
امریکی باشندے ہیں اور ان کو مخالف جنس کے شادی شدہ جوڑوں کی طرح تمام قانونی اور
معاشرتی حقوق حاصل ہیں جب کہ ہم جنس پرستی کے مخالفین ایسی شادیوں کو روکنے کے لیے
آئینی ترامیم کے حق میں ہیں ۔پانچ ہم جنس پرست جوڑوں نے جن کے بچے بھی ہیں، ریاستی
عدالت میں اپیل کی تھی۔ ( نوائے وقت لاہور، ۶ فروری ۲۰۰۵)
تیسری خبر میں کینیڈا کی
اسمبلی کا ایک فیصلہ مذکور ہے جو پارلیمنٹ نے تقریباً ۸۰ فی صد اراکین کی متفقہ رائے سے منظور کیا:
کینیڈاکی پارلیمنٹ نے
مذہبی گروپوں اور اعتدال پسند سیاستدانوں کی مخالفت کے باوجود ملک بھر میں ہم جنس
شادیوں کی اجازت کے قانون کی بھاری اکثریت سے منظوری دے دی۔کینیڈا، بلجیم اور نیدر
لینڈ کے بعد دنیا کا تیسرا ملک ہے جس کی ۱۵۸ رکنی پارلیمنٹ میں سے ۱۳۳ ارکان پارلیمنٹ نے ہم جنس شادیوں کی اجازت کے بل کے حق میں ووٹ دیا۔
کینیڈا کے زیادہ تر صوبے پہلے ہی ہم جنس شادیوں کی اجازت دے چکے ہیں اور کینیڈا
میں Gay اور لیزبئین جوڑوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے بارے میں عام خیال
پایاجاتا ہے جہاں پر ان کی یونین پر پابندی ہے۔اقلیتی لبرل حکومت نے کہاکہ اس نے
ملک کے دس صوبوں میں سے آٹھ میں عدالت کی طرف سے ہم جنس شادیوں پر پابندی
کوکینیڈاکے حقوق اور آزاد ی کے چارٹر کے منافی قرار دینے اور مستردکرنے کے بعد
قانون تیار کیا ہے جسے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا اور پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے
اس قانون کو پاس کیا ہے۔ کینیڈا Gayشادیوں
اور دوسرے سماجی امور کے بارے میں لچک دار موقف رکھتا ہے جب کہ امریکہ میں صدر بش
نے کانگریس سے درخواست کی ہے کہ وہ ہم جنس شادیوں پر پابندی سے متعلق آئینی ترامیم
کی حمایت کرے۔ (روزنامہ پاکستان لاہور، ۳۰ جون ۲۰۰۵)
نام نہاد مہذب دنیاکے
قانون ساز اداروں اور عدلیہ کے ان ’’مبنی بر انصاف‘‘ قوانین اور فیصلوں کے متعلق
اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ
خرد کا نام
جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
آئیے اس ناپاک اور خبیث
عمل کے متعلق آسمانی تعلیمات کا جائزہ لے کر قانون الٰہی کے آئینے میں انسانیت کا
مستقبل دیکھنے کی کوشش کریں کیونکہ قانون الٰہی ہر قسم کے تغیروتبدل سے ماورا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فلن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ولن تجد لسنۃ اللہ تحویلا (فاطر : ۴۳)
’’اور تم اللہ کے قانون
میں ہرگز نہ کوئی تبدیلی پاؤ گے اور نہ اس کا فیصلہ ٹل سکتا ہے۔‘‘
قرآن کریم میں مختلف قسم
کی بد اعمالیوں اور برائیوں میں ملوث افراد اور ان برائیوں کو دیکھتے ہوئے ان کے
بارے میں جانتے بوجھتے خاموش رہنے والوں کو بڑے عجیب انداز میں وعیدسنائی گئی ہے :
افامن اھل القری ان یاتیھم باسنا بیاتا وھم نائمون O او امن اھل القری ان
یاتیہم باسنا ضحی وھم یلعبون O افامنوا مکراللہ فلا یامن مکراللہ الا القوم الخسرون O (اعراف: ۹۷۔۹۹)
’’کیا پھر بھی ان بستیوں
کے باسی اس بات سے بے فکر ہو گئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آپڑے اس حال
میں کہ وہ سو رہے ہوں ؟اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہو گئے
ہیں کہ ان پرہمارا عذاب دن چڑھے آپڑے جس وقت کہ وہ اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں؟ کیا
پھر وہ اللہ کی پکڑ سے بے خوف ہو گئے ہیں؟ سو اللہ کی پکڑ سے بجز ان کے جن کی شامت
ہی آگئی ہو، اور کوئی بے فکر نہیں ہوتے۔‘‘
دین اسلام زندگی میں جنس
کی اہمیت کو پوری طرح تسلیم کرتا ہے لیکن اس کی تسکین کے لیے اسلام نے نکاح کا
پاکیزہ نظام عطا کیا ہے۔ رشتہ ازدواج سے باہر مرد وعورت سے ہر قسم کے جنسی تعلق کو
اسلام سخت ترین جرم قرار دیتا ہے جو موجب تعزیر ہے۔ جنس کے منحرف رویوں میں سب سے
بدترین جرم، مرد کا مرد سے غیر فطری جنسی تعلق یعنی ہم جنس پرستی homosexuality ہے ،لیکن افسوس کہ
’’مہذب‘‘ دنیاکی مختلف پارلیمنٹوں نے اس جرم کے لیے باقا عدہ سند جواز عطا کر دی
ہے۔ وہاں سماج کے ہر طبقے میں اس پرعمل کرنے والے موجود ہیں۔ اسلام اس غیر فطری
فعل کو سخت ترین جرم اور گناہ قرار دیتا ہے ۔یہاں تک کہ اس کے دستور اساسی قرآن
کریم میں ایک جلیل القدر پیغمبر حضرت لوط علیہ السلام کی دعوت کا اہم ترین نکتہ اس
حرام کام کی اصلاح بیان کیا دیا گیا ہے۔
قرآن کریم کے مطالعے سے
معلوم ہوتا ہے کہ ہم جنس پرستی کا آغاز حضرت لوط علیہ السلام کی قوم نے کیا ۔ان سے
پہلے دنیا کی قوموں میں اس عمل کا عمومی معاشرتی سطح پر کوئی رواج نہ تھا ۔یہی
بدبخت قوم ہے جس نے اس ناپاک عمل کو ایجاد کیا۔ اس سے زیادہ شرارت ،خباثت اور بے
حیائی یہ تھی کہ وہ اپنی اس بدکرداری کو عیب نہیں سمجھتے تھے بلکہ علی الاعلان فخر
کے ساتھ اس کو سر انجام دیتے تھے۔اس کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح آیاہے:
ولوطا اذ قال لقومہ اتاتون الفاحشتہ ما سبقکم بھا من احد من العالمین
O انکم لتاتون الرجال شھوۃ من دون النساء بل انتم قوم مسرفون O (الاعراف: ۱۸۰، ۸۱)
’’(اور یاد کرو) لوط کا
واقعہ جس وقت اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم اس کھلی بے حیائی کا ارتکاب
کرتے ہوجسے تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔ تم اپنی شہوانی خواہش
کی تکمیل کے لیے عورتوں کے بجائے مردوں کے پاس آتے ہو۔ یقیناًتم حد سے گزرنے والے
ہو ۔‘‘
قوم نے پیغمبر وقت حضرت
لوط علیہ السلام کی نصیحت کو سن کر ان کا مذاق اڑایا اور شہر سے نکال دینے کی
دھمکی دی اور ستم بالائے ستم یہ کہ عذاب الٰہی کا مطالبہ خود اپنی زبانوں سے کر
دیا ۔قوم کے جواب کو قرآن کریم نے اس انداز میں نقل فرمایا ہے :
فما کان جواب قومہ الا ان قالو ا ائتنا بعذاب اللہ ان کنت من
الصادقین O (العنکبوت: ۲۹)
’’پس لوط کی قوم کا جواب
اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ کہنے لگے، تو ہمارے پاس اللہ کا عذاب لے آ اگر تو سچا
ہے ۔‘‘
چنانچہ اس عمل بد کی وجہ
سے ان پر اللہ کا عذاب آیا ۔قرآن میں مذکور ہے :
فلما جاء امرنا جعلنا عا لیھا سافلھا وامطرنا علیھا حجارۃ من سجیل
منضود O مسومۃ عند ربک وما ھی من الظا لمین ببعید (ہود: ۸۲، ۸۳)
’’پھر جب ہماراحکم آپہنچا
تو ہم نے اس بستی کو زیروزبر کر دیا اور ان پر کنکریلے پتھربرسائے جو تہ بہ تہ تھے،
تیرے رب کی طرف سے نشان دار تھے اور یہ بستی ان ظالموں سے کچھ دور نہیں ہے ۔‘‘
درج بالا آیات میں اللہ
تعالیٰ نے اس عمل قبیح کا ارتکاب کرنے والے اور اس پرخاموش تماشائی بننے والوں کو
متنبہ فرمایا ہے کہ جیسے ہمارے عذاب کا کوڑا قوم لوط پر برسا، ایسے ہی تم لوگوں پر
بھی برس سکتا ہے ۔اعاذنااللہ منہ
قوم لوط کی یہ بستیاں
(سدوم وعمورہ) اردن میں اس جگہ واقع تھیں جہاں آج بحر میت یا بحر لوط واقع ہے۔
یہاں پہلے سمندر نہیں تھا۔ جب قوم لوط پر عذاب آیا اور زمین کا تختہ الٹ دیا گیا
اور سخت زلزلے اور بھونچال آئے، تب یہ زمین تقریباً چار سو میٹر سمندر سے نیچے چلی
گئی اور پانی ابھر آیا۔اسی لیے اس کا نام بحر میت یا بحر لوط ہے۔(قصص القرآن از
مولاناحفظ الرحمن سیوہاروی)
پیکر شرم وحیا حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں اس فعل بد پر شدیدترین وعید سنائی ہے اور اسے
سخت ترین جرم قرار دیا ہے۔ ایک موقع پر فرمایا:
ملعون من عمل قوم لوط (رواہ الترمذی)
’’اس شخص پر لعنت ہے جو
قوم لوط کا عمل کرے۔‘‘
لعن اللہ من عمل قوم لوط (مسند احمد)
’’ اللہ تعالیٰ اس شخص
پرلعنت کرتاہے جو قوم لوط کا عمل کرے۔‘‘
ان اخوف ما اخاف علی امتی عمل قوم لوط (رواہ الترمذی وابن ماجہ)
’’سب سے زیادہ خطرناک چیز
جس کا مجھ کو اپنی امت پر خطرہ (اندیشہ) ہے، وہ قوم لوط کا عمل ہے۔‘‘
مختلف احادیث میں اس عمل
کی مختلف سزائیں بیانکی گئی ہیں ۔حضرت عبد اللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:
من وجدتموہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلو الفاعل والمفعول بہ (رواہ ابو
داود)
’’جس کسی کو تم قوم لوط
کاعمل کرتے ہوئے پاؤ تو اس حرکت کے کرنے والے اور جس کے ساتھ یہ حرکت کی جارہی ہو،
دونوں کی گردن اڑادو۔ ‘‘
اس مضمون پر اور بیسیوں
روایات موجود ہیں لیکن اہم ترین حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کی
بیان کردہ روایت ہے ۔فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے مدینہ میں ہمیں ایک روز خطبہ دیا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات
مبارکہ کا مدینہ میں آخری خطبہ تھا ۔اس کے بعد آپ اپنے پروردگارکے پاس چلے گئے۔ آپ
نے مبارک وعظ میں فرمایا:
من نکح امراۃ فی دبرھا او رجلا او صبیا حشر یوم القیامۃ وریحہ انتن
من الجیفۃ یتاذی بہ الناس حتی یدخل النار واحبط اللہ اجرہ ولا یقبل منہ صرفا ولا
عدلا ویدخل فی تابوت من النار۔
’’جس کسی نے اپنی بیوی یا
کسی مرد یا کسی لڑکے کے ساتھ پچھلی طرف سے بد فعلی کی ، قیامت کے روز اس کے جسم کی
بدبو مردار کی بدبو سے زیادہ ہو گی جس کی وجہ سے لوگ سخت اذیت محسوس کریں گے، یہاں
تک کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ اللہ تعالی اس کے اجر کو ضائع کر دیں گے اور اس
کی فرض عبادت یا نفلی عبادت قبول نہ ہو گی۔ جہنم میں اسے آگ سے بنے ہوئے صندوق میں
رکھا جائے گا۔‘‘
حضر ات صحابہ کرام سے
ایسے مجرم کے سلسلے میں مختلف سزائیں منقول ہیں، مثلاً آگ میں جلادیا جائے، نیچے
کھڑاکرکے اس کے اوپر دیوار گرا دی جائے، کسی بلند مقام سے اسے اوندھے منہ گرا دیا
جائے ،اور اس کے ساتھ ہی اس کے اوپر پتھروں کی بارش کر دی جائے ،وغیرہ۔
قرآن وحدیث کے علاوہ دیگر
آسمانی کتب نے بھی اس عمل قبیح کی شدید مذمت کی ہے ۔ تورات میں اس کی مذمت ان
الفاظ میں آئی ہے:
’’اور اگر کوئی مرد سے
صحبت کرے جیسے عورت سے کرتے ہیں تو ان دونوں نے نہایت مکروہ کام کیا ہے۔ سو وہ
دونوں ضرور جان سے مارے جائیں۔ ان کا خون ان ہی کی گردن پر ہوگا۔‘‘ (احبار، ۲۰
: ۱۳)
قارئین کرام! آپ نے درج
بالا دلائل وبراہین کی روشنی میں ہم جنس پرستی کے قبیح ہونے کے متعلق آسمانی
تعلیمات کامطالعہ کیااور اس فعل بد کاارتکاب کرنے والوں کے انجام سے با خبر ہوئے۔
اب انصاف کاتقاضا یہ ہے کہ آسمانی تعلیمات کا ہر حقیقی پیروکار، خواہ وہ مسلمان ہو
یا عیسائی یا یہودی اس عمل قبیح کی روک تھام کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار
لائے۔ تاہم جو لوگ خود کو آزاد خیال تصور کرتے ہیں، ان پر بھی لازم ہے کہ وہ
انسانی معاشرے کی فلاح وبہبود کے لیے اس معاشرتی برائی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے
اپنی تمام تر کوششیں صرف کریں کیونکہ صرف اس صورت میں ایک فلاحی انسانی معاشرہ
تشکیل پاسکتا ہے۔
ہم جنس پرستی جس طرح
انسان کی روحانی زندگی کے لیے سم قاتل ہے، ایسے ہی انسان کی جسمانی زندگی کے لیے
بھی انتہائی نقصان دہ اور خطرناک ہے۔ جدید طبی تحقیقات کے مطابق Aids ایک ایسی بیماری ہے جو
اس بد چلنی کی وجہ سے پھیلتی ہے ۔یہ ہمارے جسم کے دفاعی نظام کو کمزور کر دیتی ہے۔
اس بیماری نے حال ہی میں ان تمام ممالک میں تہلکہ مچادیا ہے جن میں ہم جنس پرستی
اور فحاشی کو برا نہیں جاناجاتا ہے۔یہ چھوت کی بیماری ہے ،جو ایک سے دوسرے کو لگتی
ہے اور اس بیماری کے وائرس کو (LAY) Human lyphadenopathy virus کہاجاتاہے۔ اس بیماری کواس وقت تک کنٹرول نہیں کیا جا سکتاجب تک
اس فعل بد اور فحاشی کو ختم نہ کیا جائے، لیکن افسوس صد افسوس اس برے عمل کو ختم
کرنے کی بجائے مختلف NGOs کی طرف سے safe sexکے نام پر اس عمل کے
نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کو ختم کرنے کے لیے مختلف پمفلٹ تقسیم کیے جاتے
ہیں اور مختلف ادویات متعارف کروائی جاتی ہیں تاکہ یہ عمل زیادہ ’’اچھے‘‘ اور
’’مطمئن‘‘ انداز میں فروغ پاسکے۔
شاید دنیا اس غلط فہمی
میں مبتلا ہے کہ مختلف قسم کی ادویات کے ذریعے سے ہم جنس پرستی سے پیدا ہونے والی
بیماریوں کو کنٹرول کرکے اس فعل قبیح کی قباحت وشناعت کو ختم کیا جا سکتا ہے لیکن
ایسا ہونا ممکن نہیں۔ ایں خیال است ومحال است وجنوں۔ safe sex کی اس مہم کے ذریعے سے نہ ہم جنس پرستی کی شناعت کم ہو گی
،اور نہ ا س کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل میں کوئی کمی ہی آئے گی۔ایسا تو
ممکن ہے کہ ادویات کے ذریعے کسی ایک بیماری کو کنٹرول کر لیا جائے لیکن جلد ہی اس
سے بھی مہلک کوئی اور بیماری ظاہر ہو کر میڈیکل سائنس کے لیے چیلنج بن جائے گی
کیونکہ جب تک بیماریوں کی جڑ یعنی ہم جنس پرستی اور فحاشی اور عریانی کو معاشرے سے
نہیں اکھاڑ پھینکا جائے گا، اس وقت تک بیماریاں ظاہر ہوتی رہیں گی ۔اس ضمن میں
مخبر صادق جناب نبی کریمﷺ کا فرمان ملاحظہ فرمائیں:
لم یظھر الفاحشۃ فی قوم قط حتی یعلنوا بھا الا مشی فیھم الطاعون
والاوجاع التی لم تکن مضت فی اسلافھم الذین مضوا ( رواہ ابن ماجہ)
’’جب کسی قوم میں فحاشی
اور عریانی ظاہر ہو جائے اور وہ اس کو علانیہ کرنے لگے تو ان میں طاعون کی بیماری
پھیل جائے گی اور ایسی ایسی بیماریاں پیدا ہونگی جو ان کے آباؤ اجداد میں نہ تھیں۔
‘‘
درج بالا حدیث میں نت نئی
بیماریوں کا بنیادی سبب فحاشی اور عریانی کو قرار دیا گیا ہے۔کاش! ہمارے ارباب
اقتدارکو بھی یہ بات سمجھ میںآجائے کہ نت نئی بیماریوں کو صرف ہسپتالوں، جدید
میڈیکل انسٹی ٹیوٹس یا میڈیکل ٹریننگ سنٹرز کے قیام کے ذریعے سے ختم نہیں کیا جا
سکتا، جب تک کہ بنیادی سبب ،عریانی وفحاشی کے خاتمہ کی کو ئی سنجیدہ کوشش نہ کی
جائے۔
ہم جنس پرستی کی لعنت نے
جدید نام نہاد مہذب دنیا میں کیا تہلکہ مچایاہے، اس کا اندازہ ایک امریکی اداکار
راک ہڈسن کے درج ذیل واقعے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
راک ہڈسن ایک امریکی
اداکار تھا۔ وہ بڑا خوبصورت اور جوان تھا۔ بہت بڑا ایکٹر تھا اور کروڑوں میں
کھیلتا تھا۔ اس کی بنیادی دلچسپی ہم جنسیت سے تھی اور وہ غیر فطری افعال کا مرتکب
ہو تارہتاتھا۔ اس نے رواج کے مطابق شادی بھی کی۔ چونکہ جنس مخالف سے اسے کوئی
دلچسپی نہ تھی، اس لیے وہ شادی جلد ہی ختم ہو گئی۔ اس نے غیر فطری افعال کے لیے
اپنے ہی جیسے متعدد افراد سے جنسی تعلقات رکھے ہوئے تھے جن میں سے کسی سے اسے ایڈز
کی بیماری لاحق ہو گئی۔ بیماری کی تشخیص کے بعد وہ تقریباً تین سال زندہ رہا مگر
یہ تین سال ایک عام زندگی کے نہ تھے۔ وہ اکثر بیمار رہتا تھا۔ اس کے وزن میں چالیس
پونڈ کمی ٓا گئی۔ بات چیت کے دوران بھی اسے سانس چڑھ جاتا تھا۔ اسے روزانہ نت نئی
تکالیف گھیرتی رہتیں۔ جب وہ سیر کے لے پیرس گیا تو اس کی حالت زیادہ خراب ہو گئی۔
وہاں اسے ایک ایسے ہسپتال میں داخل کیا گیا جو صرف ایڈز کا علاج کرتا تھا، لیکن
وہاں پر صرف فرانسیسی مریض داخل کیے جاتے تھے۔ امریکا کے صدرکی اہلیہ (نینسی ریگن)
نے فرانس کے صدر سے ذاتی التماس کی اور راک ہڈسن اس خصوصی شفاخانہ میں داخل ہوا۔
کافی عرصہ زیرعلاج رہنے کے بعد وہ جان کنی کی کیفیت میں امریکالایاگیا جہاں اس کی
موت واقع ہوئی۔ اس کی رفیقہ کارالزبتھ ٹیلرنے اس کی موت پر ایڈز کے خلاف تحقیقاتی
کام کرنے والے ڈاکٹروں کے لیے فنڈمیں چالیس لاکھ ڈالر جمع کرکے دیے ۔اس کے مرنے کے
کچھ عرصہ بعد ایک نوجوان نے امریکی عدالت میں دعویٰ کیاکہ راک ہڈسن کے اس کے ساتھ
غیر فطری تعلقات رہے ہیں۔ چونکہ راک ہڈسن ایڈز سے مرا ہے،اس لیے اندیشہ موجود ہے
کہ مدعی کو بھی غالباً ایڈز ہو جائے گی۔ اس لیے عدالت اسے راک ہڈسن کی جائیداد میں
سے ہرجانہ دلوائے۔عدالت نے مدعی کی ذہنی اذیت اور دہشت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو
چار لاکھ ڈالر بطور ہرجانہ اور معاوضہ دلوائے۔ (امراض جلداور علاج نبویﷺ،ڈاکٹرخالد محمود غزنوی )
یہ تو صرف ایک واقعہ
ہے۔نہ جانے ہم جنس پرستی کی اس لعنت نے کتنے لوگوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ ان
تکلیف دہ حالات میں ہر مسلمان کی خصوصی اور درد دل رکھنے والے اور انسانیت کی فلاح
وبہبود کے متمنی افراد کی یہ عمومی ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے دائرہ کار میں
انفرادی واجتماعی سطح پر ہم جنس پرستی کے نقصانات کو اجاگر کرکے اس کے خلاف بھر
پور کردار ادا کریں۔اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں :
۱۔ قومی اخبارات، رسائل
وجرائد،خصوصاً مذہبی رسائل ہم جنس پرستی کے متعلق آسمانی تعلیمات سے لوگوں کو آگاہ
کریں۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قلم کی قوت عطافرمائی ہے، وہ اس نعمت کا شکریہ
اداکرتے ہوئے اس کے ذریعے سے ہم جنس پرستی کے خلاف بھر پورآواز بلند کریں۔
۲۔ وارثان منبر ومحراب
اپنے دروس، جمعۃالمبار ک کے خطبات اور نجی محافل میں عامۃالناس کو ہم جنس پرستی کے
تصور،اس کے آغاز ،اس کے نقصانات اور اس کے نتیجے میں قوم لوط کی تباہی وبربادی کے
متعلق آگاہ کریں اور انہیں اخلاقی طور پر آمادہ کریں کہ وہ اپنے نونہالوں کو جو کہ
ان کا بھی اور پاکستان کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کا بھی مستقبل ہیں، بلیرڈگیمز کی
دوکانوں ، ویڈیو گیمز کے مراکز، سنوکر کلبوں ، تھیٹرز ، منی سینماز اور دیگر ایسے
مقامات میں جانے سے روکیں جہاں ہر طبقے ،ہر عمر اور ہر مزاج و فطرت کے لوگ جمع
ہوکر مختلف قسم کی گیمز کھیلتے ہیں۔
۳۔ تعلیمی درس گاہیں، خواہ
وہ دینی ہوں یا عصری ، اس ضمن میں طلبہ کی فکری تربیت کرتے ہوئے انھیں ہم جنس
پرستی کی حقیقت اور اس کے دینی و دنیاوی نقصانات سے روشناس کرائیں ۔ یہ بات یقینی
ہے کہ مختلف NGOs کی طرف سے کی جانے والی
کوششوں کے مقابلے میں تعلیمی اداروں کی تھوڑی سی کاوش بھی بہترین نتائج کا باعث بنے
گی۔
۴۔ جدوجہد کا ایک دائرہ
کار یہ بھی ہے کہ حضرت لوط کی قوم کی تباہی کا مکمل قرآنی واقعہ،اس برائی کی مذمت
میں مذکور احادیث نبویہ،اس برائی کے روحانی اور طبی نقصانات کو کتابچے کی صورت میں
شائع کرواکر عامۃالناس میں تقسیم کرنے کا اہتمام کیا جائے ۔
امت مسلمہ ہی نہیں، بلکہ
ہر وہ شخص جو آسمانی تعلیمات کی حقانیت و صداقت پر یقین رکھتا ہے اور ہر وہ شخص جو
انسانیت کی فلاح و بہبود کا حامی ہے، اسے اس برائی کے خلاف اپنا پورا کردار ادا
کرنا چاہیے۔
قارئین !آخر میں ہمیں کچھ
وقت کے لیے پوری قوت فکر کو مجتمع کرتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ کہیں بحرلوط کی کوئی
طوفانی لہرپھر انسانیت کا پیچھا تو نہیں کر رہی؟یہ سوچتے ہوئے یہ فرمان الہٰی بھی
پیش نظر رہے: وما ھی من الظالمین ببعید (سورہ ہود) ’’اور قوم لوط کی یہ (تباہ
وبرباد ہونے والی )بستی ان ظالموں سے دور تو نہیں ۔‘‘
شرمناک خواہش
گندگی کی چاہت کا علاج
مغربی کلچر
مرد کی مرد سے شادی
جنسى طور پر عاجز شخص سے شادى كرنے كا حكم`
عورت كے ليے جنسى طور پر عاجز شخص سے شادى كرنا جائز ہے؛ كيونكہ جماع بيوى كا حق ہے اور اس نے يہ حق ساقط كر ديا ہے، اور جب وہ ايسا كر لے يعنى اپنا حق ساقط كر لے تو پھر نكاح كے بعد اسے اس كے مطالبے كا حق حاصل نہيں رہتا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ بيوى كے ليے فسخ نكاح كا حق ثابت ہونے والے عيوب بيان كرنے كے بعد كہتے ہيں:
اور ان عيوب ميں يہى بھى شامل ہے كہ اگر خاوند جماع كرنے سے عاجز ہو . ان كا كہنا ہے كہ: ان عيوب سے اختيار ثابت ہونے كے ليے شرط يہ ہے كہ عقد نكاح كے وقت اس عيب كا علم نہ ہو، اور نہ ہى عقد نكاح كے بعد اس عيب پر راضى ہو، اور اگر عقد نكاح ميں يا بعد ميں اسے اس عيب كا علم ہو جائے اور وہ اس پر راضى ہو جائے تو اسے كوئى اختيار نہيں، ہمارے علم كے مطابق اس ميں كوئى اختلاف نہيں ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 142 ).
اور المدونۃ ميں درج ہے:
" ميں كہتا ہوں: يہ بتائيں كہ اگر عورت ايسے شخص سے شادى كر لے جس كا عضو تناسل كٹا ہوا ہو، يا وہ خصى ہو اور عورت اس كا علم بھى ركھتى ہو ؟
تو ان كا كہنا تھا: اس عورت كو كوئى اختيار نہيں ہوگا، امام مالك كا يہى كہنا ہے.
وہ كہتے ہيں: امام مالك رحمہ اللہ كا كہنا ہے: اگر عورت نے خصى مرد سے شادى كر لى اور اسے علم نہ تھا تو عورت كو جب علم ہو اسى وقت اسے اختيار حاصل ہے "
ديكھيں: المدونۃ ( 2 / 144 ).
مزيد آپ الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 69 ) كا بھى مطالعہ كريں.
ہم نے جو نكاح كے جواز كا ذكر كيا ہے اس كے ساتھ يہ بھى ہے كہ آپ كے ليے افضل اور بہتر يہى ہے كہ آپ اس حالت ميں اس شخص سے شادى مت كريں، كيونكہ جماع اور پھر اس كے نتيجہ ميں اولاد كا ہونا ايك فطرى امر ہے جس كى مرد اور عورت دونوں كو ضرورت ہوتى ہے.
اور اب تو آپ اپنا يہ حق ختم كر رہى ہيں، ليكن آپ كو كيا علم كہ ايك يا دو برس بعد كيا ہو اور آپ اس كى خواہش كرنے لگيں، كيونكہ نكاح تو مستقل طور پر ہوتا ہے، كوئى كھيل نہيں.
اس ليے امام احمد رحمہ اللہ عورت كے ولى كے بارہ ميں كہا كرتے تھے:
مجھے يہ پسند نہيں كہ عورت كا ولى اس كى شادى كسى ايسے شخص سے كر دے جو جماع كرنے سے عاجز ہو، اور اگر وہ عورت اس وقت راضى بھى ہو گئى تو رخصتى اور دخول كے وقت اسے ناپسند كريگى؛ كيونہ عورتوں كى حالت جماع وغيرہ كرنا ہے، اور انہيں بھى وہى كچھ اچھا لگتا ہے جو ہم مردوں كو اچھا لگتا اور پسند ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ اس پر تعليق لگاتے ہوئے كہتے ہيں:
" يہ اس ليے كہ اس ميں ہميشہ كا نقصان ہے، اور اس كى ہميشگى پر رضامندى موثوق نہيں.... اور ہو سكتا ہے يہ عدوات و اختلاف كا سبب بن جائے "
ديكھيں: المغنى ( 10 / 67 ).
اور پھر آپ پر يہ مخفى نہيں كہ يہ شخص آپ كے ليے ا جنبى اور غير محرم ہے، اس ليے جب تك آپ كا اس سے نكاح نہ ہو جائے آپ كے ليے اس كے ساتھ كسى بھى قسم كا تعلق ركھنا جائز نہيں.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو توفيق نصيب كرے اور آپ كى معاونت فرمائے، اور آپ كے ليے خير و بھلائى ميں آسانى پيدا كرے.
واللہ اعلم .
جنسى طور پر عاجز اور ہيجڑے كى شادى كا حكم اور دونوں ميں فرق
اول:
1 ـ خنثى لغت عرب ميں اس شخص كو كہتے ہيں جو نہ تو خالص مرد ہو اور نہ ہى خالص عورت، يا پھر وہ شخص جس ميں مرد و عورت دونوں كے اعضاء ہوں ، يہ خنث سے ماخوذ ہے جس كا معنى نرمى اور كسر ہے، كہا جاتا ہے خنثت الشئ فتخنث، يعنى: ميں نے اسے نرم كيا تو وہ نرم ہو گئى، اور الخنث اسم ہے.
اور اصطلاح ميں: اس شخص كو كہتے ہيں جس ميں مرد و عورت دونوں كے آلہ تناسل ہوں، يا پھر مردانہ یا زنانہ کوئی عضو ہی نہ ہو، اور صرف پيشاب نكلنے والا سوراخ ہو.
2 ـ اور المخنث: نون پر زبر كے ساتھ: اس كو كہتے ہيں جو كلام اور حركات و سكنات اور نظر ميں عورت كى طرح نرمى ركھے، اس كى دو قسميں ہيں:
پہلى قسم:
جو پيدائشى طور پر ہى ايسا ہو، اس پر كوئى گناہ نہيں.
دوسرى قسم:
جو پيدائشى تو ايسا نہيں، بلكہ عمدا حركات و سكنات اور كلام ميں عورتوں سے مشابہت اختيار کرتا ہے، تو ايسے شخص كے متعلق صحيح احاديث ميں لعنت وارد ہے، چنانچہ خنثی کے مقابلے میں مخنت کے مرد ہونے کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے.
3 ـ خنثى كى دو قسميں ہيں: خننثى مشكل اور خنثى غير مشكل.
ا ـ خنثى غير مشكل:
جس ميں مرد يا عورت كى علامات پائى جائيں، اور يہ تعین ہو جائے كہ يہ مرد ہے يا عورت، تو يہ خنثى مشكل نہيں ہو گا، بلكہ يہ مرد ہے اور اس ميں زائد اعضاء پائے جاتے ہیں، يا پھر يہ عورت ہو گى جس ميں كچھ زائد اعضاء ہيں، اور اس كے متعلق اس كى وراثت اور باقى سارے احكام ميں علامات کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔
ب ـ خنثى مشكل:
يہ وہ ہے جس ميں مردانہ یا زنانہ کسی قسم كى علامات ظاہر نہ ہوں، اور يہ معلوم نہ ہو سكے كہ يہ مرد ہے يا عورت، يا پھر اس كى علامات ميں تعارض پايا جائے.
تو اس سے يہ حاصل ہوا كہ خنثى مشكل كى دو قسميں ہيں:
ايك تو وہ جس كے دونوں آلے ہوں، اور اس ميں علامات بھى برابر ہوں، اور دوسری ايسى قسم جس ميں دونوں ميں سے كوئى بھى آلہ نہ ہو بلكہ صرف سوراخ ہو۔
4 ـ جمہور فقھاء كہتے ہيں كہ اگر بلوغت سے قبل خنثى آلہ تناسل سے پيشاب كرے تو يہ بچہ ہوگا، اور اگر اندام نہانی سے پيشاب كرے تو يہ بچى ہوگی۔
اور بلوغت كے بعد درج ذيل اسباب ميں سے كسى ايك سے واضح ہو جائيگا:
اگر تو اس كى داڑھى آ گئى، يا پھر ذكر سے منى کا اخراج ہو، يا اسکی وجہ سے عورت حاملہ ہوجائے، يا اس تك پہنچ جائے تو يہ مرد ہے، اور اسى طرح اس ميں بہادرى و شجاعت كا آنا، اور دشمن پر حملہ آور ہونا بھى اس كى مردانگى كى دليل ہے، جيسا كہ علامہ سيوطى نے اسنوى سے نقل كيا ہے.
اور اگر اس كے پستان ظاہر ہو گئے، يا اس سے دودھ نكل آيا، يا پھر حيض آ گيا، يا اس سےجماع كرنا ممكن ہو تو يہ عورت ہے، اور اگر اسے ولادت بھى ہو جائے تو يہ عورت كى قطعيت پر دلالت كرتى ہے، اسے باقى سب مد مقابل علامات پر مقدم كيا جائےگا۔
اور رہا ميلان كا مسئلہ تو اگر سابقہ تمام نشانیاں موجود نہ ہوں تو پھر ميلان سے استدلال كيا جائيگا، چنانچہ اگر وہ مردوں كى طرف مائل ہو تو عورت ہے، اور اگر وہ عورتوں كى طرف مائل ہو تو مرد ہے، اور اگر وہ كہے كہ ميں دونوں كى طرف ايك جيسا ہى مائل ہوں، يا پھر ميں دونوں ميں سے كسى كى طرف بھى مائل نہيں تو پھر يہ خنثی مشكل ہے.
سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
فقہ ميں جہاں بھى خنثى كو مطلق بيان كيا جائے تو اس سے خنثى مشكل مراد ہوتا ہے. انتہى مختصرا
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 20 / 21 - 23 ).
دوم:
الخنثى: [یعنی خنثى مشكل ] اس كے دونوں آلے يعنى مردانہ اور زنانہ دونوں عضو ہوں تو اس كى دو قسميں ہيں:
ايكٍ تو ايسى قسم ہے جس کے بارے میں مرد یا عورت کا حکم لگانا ممکن نہیں، اور دوسرى وہ قسم جس كے بارے ميں تعیین کی جاسکتی ہو، اس كى علامات ميں ميلان شامل ہے، چنانچہ اگر تو وہ عورت كى طرف مائل ہو تو وہ مرد ہے، اور اگر اس كا ميلان مردوں كى جانب ہے تو وہ عورت ہو گى.
اور جنسى طور پر عاجز وہ شخص ہو گا جس كا عضو تناسل تو ہے ليكن كسى بيمارى يا نفسياتى يا عصبى يا كسى اور سبب كے باعث وہ جماع كى طاقت نہ ركھتا ہو، جس كے نتيجہ ميں نہ تو اس سے جماع ہو گا، اور نہ ہى استمتاع اور نہ ہى اولاد پيدا ہو گى.
اس سے يہ واضح ہوا كہ جنسى طور پر ہر عاجز شخص ہيجڑا يعنى خنثى نہيں ہوتا، بلكہ ہو سكتا ہے وہ كسى بيمارى كے سبب جنسى طور پر کمزور ہو، اس كا ہیجڑا پن كے ساتھ كوئى تعلق ہى نہيں، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ وہ مخنث ہو ليكن وہ جنسى طور پر وطئ كرنے پر قادر ہو.
ا ـ رہا ہيجڑے كى شادى كا مسئلہ تو اس كے متعلق عرض ہے كہ:
اگر تو وہ غير مشكل ہے تو اس كى حالت كے مطابق اس كى دوسرى جنس سے شادى كى جائيگا، اور اگر وہ خنثى مشكل ہے تو اس كى شادى كرنا صحيح نہيں، اس كا سبب يہ ہے كہ احتمال ہے كہ وہ مرد ہو تو مرد مرد سے كيسے شادى كر سكتا ہے ؟! اور يہ بھى احتمال ہے كہ وہ عورت ہو تو عورت عورت سے كيسے شادى كر سكتى ہے؟!
اور اگر وہ عورت كى طرف مائل ہو اور مرد ہونے كا دعوى كرے تو يہ اس كے مرد ہونے كى علامت ہے، اور اسى طرح اگر وہ مرد كى طرف مائل ہو اور عورت ہونے كا دعوى كرے تو وہ عورت ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" خنثى يا تو مشكل ہو گا يا پھر غير مشكل، اگر وہ غير مشكل ہو اور اس ميں مردوں كى علامات ظاہر ہوں تو مرد ہے اور اسے مردوں كے احكام حاصل ہونگے، يا پھر اس ميں عورتوں كى علامات ظاہر ہوں تو وہ عورت ہے اور اسے عورتوں كے احكام حاصل ہوں گے.
اور اگر وہ خنثى مشكل ہے اس ميں نہ تو مردوں اور نہ ہى عورتوں كى علامات ظاہر ہوں تو اس كے نكاح ميں ہمارے اصحاب كا اختلاف ہے:
خرقى كا كہنا ہے كہ اس ميں ہیجڑے کی اپنی بات معتبر ہوگی اور اسے مانا جائيگا، اگر تو وہ كہتا ہے كہ وہ مرد ہے، اور اس كى طبيعت عورتوں سے نكاح كى طرف مائل ہوتى ہے تو اسے عورت سے نكاح كا حق حاصل ہے، اور اگر وہ يہ بيان كرے كہ وہ عورت ہے اور اس كى طبيعت مردوں كى طرف مائل ہوتى ہے تو اس كى مرد سے شادى كى جائيگى؛ كيونكہ یہ ایسی بات ہے جو اسی جنس سے تعلق رکھنے والا ہی کہہ سکتا ہے، اور اس میں کسی پر زبردستی بھی نہیں ہوگی، تو بالكل اسکی بات معتبر ہوگی جیسے عورت کی بات حيض اور عدت ميں قبول کی جاتا ہے، وہ اپنے آپ كو جانتا ہے كہ اس كى طبيعت اور شہوت كس جنس كى طرف مائل ہوتى ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے حيوانات ميں عادت بنائى ہے كہ مذكر مؤنث كى طرف مائل ہوتا ہے، اور مؤنث مذكر كى طرف مائل ہوتا ہے.
اور يہ ميلان نفس اور شہوت ميں ايك ايسا معاملہ ہے جسے کوئی اور نہیں جان سكتا صرف صاحب ميلان اور شہوت كو پتہ چلتا ہے، چنانچہ جب ظاہرى علامات کے ذریعے ہم کوئی فیصلہ نہیں کر پائے تو ہمیں مجبورا اندرونی معاملات پر کی طرف رجوع کرنا پڑا"
ديكھيں: المغنى ( 7 / 319 ).
اور يہ كہنا كہ خنثى مشكل كى شادى صحيح نہيں يہ جمہور علماء كا قول ہے، اگر وہ اپنى طبيعت ميں ميلان اور شہوت ديكھے تو پھر كيا كرے ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ:
ہم اسے كہيں گے صبر كرو، حتى كہ اللہ تعالى آپ كى حالت اس سے بہتر كر دے.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نكاح كے باب ميں " خنثى مشكل " جس میں مردانہ اور زنانہ دونوں اعضائے تناسل ہوں، يعنى مرد كا عضو تناسل بھى اور عورت كى شرمگاہ بھى اور دونوں سے پیشاب کرنے کی وجہ سے يہ واضح نہ ہو كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت ، اور اس ميں كوئى ايسى چيز نہ ہو جو اسے امتياز كرے كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت تو اس كى شادى كرنا صحيح نہيں، نہ تو وہ عورت سے شادى كرے اور نہ ہى مرد سے، عورت سے شادى اس ليے نہ كرے كيونكہ احتمال ہے كہ وہ خود بھى عورت ہو، اور عورت كى عورت سے شادى نہيں ہو سكتى، اور نہ ہى كسى مرد سے شادى كرے كيونكہ احتمال ہے كہ وہ خود بھى مرد ہو اور مرد كى مرد سے شادى نہيں ہو سكتى.
وہ اسى طرح بغير شادى كے ہى رہے حتى كہ اس كا معاملہ واضح ہو جائے، اور جب واضح ہو جائے تو اگر وہ مردوں ميں ہو تو عورت سے شادى كر لے، اور اگر عورتوں ميں شامل ہو تو مرد سے شادى كر لے، يہ اس وقت تك حرام ہے جب تك اس كا معاملہ واضح نہيں ہو جاتا۔
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 160 ).
اور شيخ رحمہ اللہ اس كو مكمل كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" اور اگر اسے شہوت آتی ہو لیکن وہ شرعى طور پر شادى نہیں کرسکتا تو اب وہ كيا كرے ؟
ہم اسے كہيں گے كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے جو كوئى بھى طاقت ركھتا ہے وہ شادى كرے كيونكہ يہ اس كى آنكھوں كو نيچا كر ديتى ہے، اور شرمگاہ كو محفوظ كرتى ہے، اور جو استطاعت نہيں ركھتا وہ روزے ركھے "
تو ہم اسے كہيں گے كہ تم روزے ركھو.
اور اگر وہ كہتا ہے كہ: ميں روزے ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتا تو اسے ايسى ادويات دى جا سكتى ہيں جو اسے ٹھنڈا کردیں، اور يہ قول غير مشروع طريقہ سے منى خارج كرنے سے بہتر ہے.
ديكھيں: الشرح المتتع ( 12 / 161 ).
ب ـ اور جنسى طور پر عاجز شخص كى شادى كے متعلق عرض ہے كہ:
شريعت ميں اس كے ليے كوئى مانع نہيں، ليكن اس كے ليے ضرورى ہے كہ وہ جس سے شادى كر رہا ہے اس كے سامنے واضح كرے كہ وہ جنسى طور پر عاجز ہے يعنى اپنى پورى حالت بيان كرے، اور اگر بيان نہيں كرتا تو گنہگار ہوگا، اور عورت كو فسخ نكاح كا حق دیا جائے گا؛ كيونكہ استمتاع اور اولاد شادى كے عظيم مقاصد ميں شامل ہيں، اور يہ ان حقوق ميں شامل ہيں جو خاوند اور بيوى دونوں ميں مشترك ہيں "
اور الموسوعۃ الفقہيۃ ميں درج ہے:
" العنۃ: يعنى شہوت نہ ہونا: جمہور فقھاء كے ہاں يہ ايك ايسا عيب ہے جو ايك برس كى مہلت دينے كے بعد بيوى كو خاوند سے عليحدگى كا اختيار ديتا ہے.
حنابلہ ميں سے ايك جماعت جن ميں ابو بكر اور المجد ـ يعنى ابن تيميہ کے داداـ شامل ہيں، انہوں نے اختيار كيا ہے كہ عورت كو فوراً فسخِ نکاح كا اختيار حاصل ہے.
اور جمہور کی دلیل وہ وقعہ ہے جس میں عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے شہوت سے عاجز شخص كے ليے ايك برس كى مہلت دی تھى ؛ اور اسکی دلیل یہ بھی ہے كہ بیوی شادی عفت اور عصمت کیلئے کرتی ہے، اور شادی ہی واحد راستہ ہے جس سے یہ ہدف حاصل ہوسکتا ہے، چنانچہ اگر شادی کی کسی صورت میں یہ ہدف حاصل نہ ہو تو فریقین کو فسخ کا حق حاصل ہے، اور علماء اس پر متفق ہيں كہ خريد و فروخت ميں عيب كى وجہ سے تھوڑا سا بھى مال جاتا رہے تواس ميں اختيار ثابت ہو جاتا ہے، جبکہ عيب كى وجہ سے بالاولى نكاح كا مقصد فوت ہو جائيگا " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 31 / 16 )
ليكن بعض اوقات کوئی عورت جو عمر رسیدہ يا كسى مرض كى بنا پر شہوت سے خالی ہو تو وہ راضى ہو سكتى ہے، تو پھر خدمت اور انس و محبت، نان ونفقہ، باہمی تعاون اور دوسرے مقاصد نكاح كے ليے اس سے شادى كرنے ميں كيا مانع ہے ؟
شيخ ابراہيم بن محمد بن سالم ضويان الحنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور جس كو شہوت نہيں مثلا عنين اور بڑى عمر كے شخص كے ليے شادى كرنا مباح ہے؛ كيونكہ شريعت ميں اس كى ممانعت نہيں ہے.
ديكھيں: منار السبيل ( 2 / 911 ).
" العنين " جماع سے عاجز شخص كو كہتے ہيں، اور بعض اوقات وہ جماع كى خواہش تو ركھتا ہے ليكن وہ جماع نہيں كر سكتا.
اگر بيوى كو معلوم ہو جائے كہ خاوند جنسى طور پر كمزور ہے اور وہ اس كے ساتھ رہنے پر راضى ہو جائے تو بيوى كا حق فسخ ساقط ہو جائيگا.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اگر اس نے [نکاح کے] وقت كہا كہ: ميں وطئ سے عاجز شخص پر راضى ہوئى تو مستقل طور پر اس كا اختيار ساقط ہو جاتا ہے"، مثلا ايسى عورت جو جماع كى استطاعت نہ ركھنے والے خاوند پر راضى ہو گئى، اور پھر باقى عورتوں كى طرح اس عورت كو بھى نكاح كى شہوت پيدا ہو گئى اور وہ اپنا نكاح فسخ كرنا چاہے تو ہم كہيں گے:
تمہیں كوئى اختيار نہيں، اور اگر وہ كہے كہ: اس وقت تو ميں اس كو پسند كرتى اور اس پر راضى تھى، ليكن اب مدت زيادہ ہو گئى ہے اور ميں اس كو نہيں چاہتى، تو ہم اسے كہيں گے: اب تجھے كوئى اختيار نہيں، كيونكہ يہ كوتاہى تيرى جانب سے ہى تھى "
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 211 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 102553 ) اور ( 10620 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
خلاصہ يہ ہوا كہ:
خنثى يعنى ہيجڑے كى اگر حقيقت حال كا علم نہ ہو كہ آيا وہ مرد ہے يا عورت، تو اس كى شادى كرنا جائز نہيں، اور اگر اس كى حالت واضح ہو كہ وہ مرد ہے: تو اس كى شادى كرنا صحيح ہے، ليكن يہ ضرورى ہے كہ ایسی حالت ميں ڈاكٹر سے رائے طلب كى جائے جو موروثی بیماریوں اور اس صورتِ حال کا ماہر ہو تا كہ اس كى حالت اور اس سے شادى كے امكان كى وضاحت کرسکے.
ليكن جنسى طور پر كمزور يا پھر جنسى طور پر عاجز شخص كى شادى صحيح ہے، ليكن شادى سے قبل اسے اپنى حالت بيان كرنا ضرورى ہے، اگر وہ حالت بيان اور واضح كرتا ہے تو اس كى اس كے ساتھ صحيح ہے جسے علم ہو كہ وہ اسى حالت ميں اس كے ساتھ رہ سكتى ہے، مثلا كہ عورت بھى اسى طرح كى ہو اور اسے مردوں كى خواہش نہ ہو، ليكن نوجوان لڑكى تو شادى ميں وہى كچھ چاہتى ہے جس طرح دوسرى نوجوان لڑكىاں چاہتى ہیں.
اس ليے ہم ايسا كرنے کا مشورہ نہیں دینگے كيونكہ ہو سكتا ہے وہ عورت خيال كرے كہ وہ صبر كر لے گى، ليكن بعد ميں وہ صبر نہ كر سكے، اور جو اسے حاصل نہيں ہو سکا اسکے لئے حرام كے متعلق سوچنا شروع كر دے ـ اللہ اس سے محفوظ ركھے ـ.
بہر حال معاملہ جو بھى ہو: ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ يہ خطرات میں مت پڑیں، اور ایسی شخصیت کے مالک آدمی سے شادی کرکے اپنے آپ کو دھوکے میں مت ڈالیں.
واللہ اعلم .
اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور
مشیت الہیہ سے جہان ہست و بود اور دنیائے رنگ و بو کو وجود بخشا، پھر اپنی منشاء
کے مطابق اس پورے سنسار کو زمین و آسمان، فضاؤں اور خلاؤں، سمندروں، نہروں اور
دریاؤں، افق کی پنہائیوں اور کہکشاؤں کی جھرمٹوں میں تقسیم کر کے اس کی رنگا رنگی
اور حسن و جمال میں چار چاند لگا دئیے، لیکن اس پوری کائنات کا خلیفہ اور اس کا
امین حضرت آدم علیہ السلام اور نسل انسانی کو قرار دیا، حضرت انسان کو اللہ تعالیٰ
نے نہ صرف یہ کہ خلافت ارضی کا طرۂ امتیاز عطا فرمایا بلکہ اشرف المخلوقات اور
تعظیم و تکریم کے اس مقام پر پہنچا دیا جہاں تک دیگر مخلوقات کی رسائی ممکن نہیں.
(البقرة ٣٠، التين ٤)
حضرت آدم علیہ السلام کی ذریت میں جو
لوگ بھی پیدا ہونگے انہیں "انسان" یا "بشر" کے نام سے یاد کیا
جائے گا اور بحیثیت انسان و بشر وہ اشرف المخلوقات کے زمرے میں شامل ہونگے، خواہ
وہ بچے ھوں، جوان ھوں یا بوڑھے، مرد ہوں یا عورت اور چاہے ان دونوں جنسوں کے
درمیان تیسری جنس یعنی مخنث ہوں، وہ بہرحال انسانوں میں شامل اور انسانی کرامت و
وقار کے مستحق ہیں، یہ عزت و تکریم انسان کا ایسا پیدائشی وصف ہے جسے نہ سلب کیا
جا سکتا ہے اور نہ ہی کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے؛ اس لیے بحثیت انسان دنیا کا ہر
فرد خواہ مرد ہو، عورت ہو، مخنث ہو، مومن ہو، کافر ہو، وہ کرامت انسانی سے مشرف
ہوگا(الإسراء ٧٠) احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے اسی کرامت انسانی کے پیش نظر ایک مرتبہ ایک یہودی کے جنازے کو دیکھ کر کھڑے
ھوگیے تھے(صحيح البخاري حديث نمبر ١٣١٢ | كِتَابٌ : الْجَنَائِزُ | بَابُ
مَنْ قَامَ لِجَنَازَةِ يَهُودِيٍّ) جس سے صاف ظاہر ہے کہ بحیثیت انسان ہر فردِ
بشر معزز ھے۔
ہمارے معاشرے میں انسانوں کی تیسری
جنس یعنی مخنث حضرات کو نہایت بری نظر سے دیکھا جاتا ہے، معاشرے میں ان کی عزت و
وقار حتی کہ انسانیت تک متاثر نظر آتی ہے، ظاہر ہے کہ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں
ہے، وہ پیدائشی طور پر اسی انداز میں پیدا ہوئے ہیں؛ اس لئے اس تخلیقی عیب یا
پیدائشی عذر کی بناء پر انہیں نہ مطعون کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی گری نظر سے دیکھا
جاسکتا ہے؛ بلکہ ضروری ہے کہ ان کے ساتھ وہی معاملہ، حسن سلوک اور حسن عمل روا
رکھا جائے جو عام انسانوں کے ساتھ برتا جاتا ہے، اس میں کمی کوتاہی کرنا انسانیت
کو شرمسار کرنے یا بشریت کو برا سمجھنے کے مترادف ہے، اس لئے اس سلسلے میں عام
انسانوں کو محتاط رہنا چاہیے، مخنث حضرات کو بھی اس سلسلے میں کسی نا اہلی یا
احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اپنی دنیوی زندگی کو بہتر سے بہترین
بنانے اور دینی حالت کو عمدہ سے عمدہ ترین بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ نکتہ
نہایت اہم اور توجہ کے قابل ہے کہ مخنث حضرات کی پیدائش عام انسانوں کے گھروں میں
ہی ہوتی ہے، بذات خود مخنث تو اس بات پر قادر ہوتے نہیں کہ ان کے یہاں توالد و
تناسل ہوسکے، اس لئے جس طرح عام بچوں کی پرورش کی جاتی ہے اسی طرح اگر خدا نہ
خواستہ کسی کےگھر ایسا بچہ ہو جو تیسری جنس کا ہو تو اس کی بھی نگہداشت اور پرورش
اچھے انداز میں کی جانی چاہیے، اسے زیور علم و ادب سے آراستہ اور اخلاق و عمل سے
پیراستہ کرکے ایک اچھا باعزت فرد بنانے کی کوشش کرنا چاہیے؛ نا یہ کہ اسے مخثنثین
کے حوالے کر کے ناچ گانے پر لگانے کا ذریعہ بنا دیا جائے، یہ نہایت برا اقدام اور
غیر شرعی عمل ہے، ہمارے معاشرے میں بکثرت دیکھنے میں آتا ہے کہ ایسے بچوں کو انہیں
کے حوالے کر دیا جاتا ہے جہاں ان کی زندگی بالکل بیکار ہوجاتی ہے۔ اس غیر شرعی عمل
سے اجتناب ضروری ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے جس طرح دین اسلام
کے مخاطب عام انسان ہیں ویسے ہی مخنث حضرات بھی اس کے مخاطب ہیں، چنانچہ جس طرح
غیر مسلموں کے لئے ضروری ہے کہ وہ دین اسلام کو سمجھیں اور کلمۂ محمدی پڑھ کر
دائرہ اسلام میں داخل ہوکر ابدی جنت کے حقدار ھوں اسی طرح ہیجڑوں کے لئے بھی ضروری
ہے کہ اگر وہ غیر مسلم گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں تو اسلام کو سمجھ کر دائرۂ ایمان
میں داخل ہوجائیں ورنہ جس طرح عام کافروں کا انجام جہنم ہے ان کا انجام بھی وہی
ھوگا، نیز مسلمانوں کے لیے جس طرح غیر مسلموں کے درمیان دعوت دین کی تبلیغ کی ذمہ
داری ہے خواجہ سراؤں کے درمیان بھی تبلیغ ضروری ہے۔
دین اسلام قبول کرلینے یا پیدائشی
مسلمان ہونے کے بعد جس طرح عام مسلمان شریعت اسلامی کے مطابق زندگی گزارنے کے مکلف
ہیں اسی طرح مخنث حضرات بھی شریعت اسلامی کے احکام و ہدایات کے مکلف ہیں، اخروی
کامیابی کے لئے مخنث حضرات کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کی پیروی
کریں اور شریعت کے مطابق اپنی مومنانہ زندگی بسر کریں۔
قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں
علیحدہ طور پر مخنثین کے احکام و مسائل بیان نہیں کئے گئے ہیں اور نہ ہی انہیں
مخصوص ہدایات دی گئی ہے غالباً اس کی وجہ یہی ہے کہ جس طرح عام مومن مرد و خواتین
سے شرعی احکام کی مخاطبت ہے وہ لوگ بھی اس کے مخاطب ہیں، لیکن فقہاء اسلام جو کہ
شریعت کے نبض شناس اور دین اسلام کے مزاج کے سب سے بڑے واقف کار ہیں انہوں نے قدرے
تفصیل سے ان کے احکام و مسائل پر گفتگو کی ہے، اور دینی بصیرت اور مجتہدانہ صلاحیت
سے ان کے احکام بیان کردیے ہیں جو انکی زندگی گزارنے کے لیے کافی ہیں، ذیل میں
انہیں احکام و ہدایات اور اسلامی تعلیمات کو پیش کیا جاتا ہے تاکہ جن لوگوں تک یہ
تحریر پہنچ سکے وہ ان احکام و مسائل سے خود بھی اشنا ہوں اور ضرورت مندوں کو اس سے
واقف کرا سکیں۔
مخنثین کی جسمانی کیفیت و مزاج کو
دیکھتے ہوئے فقہاء کرام نے مخنثین کی دو قسمیں بیان کی ہیں، ایک قسم کو عربی
اصطلاح میں خنثیٰ مشکل کہا جاتا ہے اور دوسری قسم کو خنثیٰ غیر مشکل کا نام دیا
جاتا ہے، خنثیٰ غیر مشکل ایسے مخنثین کو کہتے ہیں جن میں مذکر یا مونث کی علامات
اس طرح نمایاں طور پر موجود ہوں کہ انہیں مذکر یا مونث کے زمرے میں شامل کیا جا
سکتا ہو، مخنثین کی اس قسم کے احکام بہت آسان ہیں، کیوں کہ ان کے اندر اگر مردانہ
علامات ہیں مثلاً داڑھی نکلی ہوئی ہے، یا ذکر سے منی کا اخراج ہوتا ہے، یا عورت کو
حاملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا شجاعت و مردانگی کے جوہر رکھتے ہیں یا خواتین
کی طرف جنسی میلان رکھتے ہیں وغیرہ تو انہیں مرد تصور کیا جائے گا اور ان کے احکام
وہی ہونگے جو عام مردوں کے ہوتے ہیں اور اگر خواتین کی علامات موجود ہوں مثلاً
پستان نکلے ہوئے ہوں، یا حیض آتا ہو، یا کسی مرد سے وطی کرانے پر قادر ہوں یا
مردوں کی طرف جنسی میلان رکھتے ہوں وغیرہ وغیرہ تو انہیں خواتین کے زمرے میں شامل
کیا جائے گا اور عمومی احکام وہی ہونگے جو خواتین کے ہوتے ہیں. (الفتاوى الهندية
٤٣٣/٦ كتاب الخنثى، زكريا جديد)
مخنثین کی دوسری قسم جسے فقہی اصطلاح
میں خنثیٰ مشکل کہا جاتا ہے ایسے مخنثین کو کہا جاتا ہے جن میں مرد و عورت دونوں
کی علامات پائی جاتی ہوں یعنی عورت اور مرد دونوں کی شرمگاہ موجود ہوں، یا دونوں
میں سے کوئی نہ ہو بلکہ پیشاب کے مقام پر صرف سوراخ ہو جس سے پیشاب کی ضرورت پوری
ہوجاتی ہو، فقہاء کرام کے یہاں اس قسم میں تفصیل ملتی ہے۔ (الموسوعة الفقهية
٢٢/٢٠)
*مخنث کے شرعی احکام:*
خنثیٰ غیر مشکل کے بارے میں مذکورہ
بالا سطور سے معلوم ہوچکا ہے کہ ان کے احکام عام مرد و عورت کے جیسے ہیں، البتہ
خنثیٰ مشکل یعنی جس کے مرد یا عورت ہونے کا فیصلہ کرنا ممکن نہ ہو ان کے احکام درج
ذیل ہیں:
ستر عورت: مخنث ستر عورت کے معاملے
میں خواتین کے مانند ہونگے کیونکہ اس میں احتیاط اور پردہ داری زیادہ ہے، چنانچہ
جس طرح عورتوں کے لئے قدم اور ہتھیلیوں کے علاوہ پورا جسم چھپانا ضروری ہے ان کے
لیے بھی ضروری ہوگا، اور استنجاء اور غسل کے لیے کسی کے سامنے برہنہ نہیں ہوسکتے،
(رد المحتار ١٥٥/١ فروع في الطهارة، ٤٠٥/١ مطلب في ستر العورة بيروت)
شرمگاہ کے چھونے سے نقض وضو: اگر
کوئی مخنث وضو کرنے کے بعد اپنی شرمگاہ چھو لے تو اس سے اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا
(الاختيار لتعليل المختار ١٠/١)
وجوب غسل جنابت: اگر حیض یا احتلام
کی وجہ سے مخنثین ناپاک ہوں تو ان پر بھی غسل واجب ہوگا، البتہ اگر کسی عورت سے
جماع کریں تو اس وقت تک غسل واجب نہیں ہوگا جب تک انزال نہ ہوجائے ( الدر المختار
مع رد المحتار ١٦٢/١ سنن الغسل بيروت)
مخنث کی اذان: کسی گھر نے اگر مخنث
پیدا ہو تو اس کے بھی کان میں اذان دی جائے گی، البتہ اگر نماز کے لیے کوئی مخنث
اذان دیتا ہے تو باتفاق فقہاء کرام اس کی اذان کا اعتبار نہیں ہوگا، (الموسوعة
الفقهية ٢٤/٢٠، الدر المختار مع رد المحتار ٣٩١/١ فائدة التسليم بعد الأذان)
اعتکاف: مخنث کے لئے اعتکاف کرنا نہ
گھر میں درست ہے اور نہ ہی مسجد میں، اس لئے کہ مذکر اور مونث دونوں کا احتمال
ہونے کی وجہ سے کسی میں بھی کرنا درست نہیں ہوسکتا (رد المحتار ٤٤١/٢ باب
الاعتکاف)
نماز باجماعت میں صف کی ترتیب: اگر
مخنثین تنہا نماز پڑھیں تو کوئی بات ہی نہیں، لیکن جب جماعت میں شریک ہونگے تو
پہلے مردوں کی صف ہوگی پھر بچوں کی اور پھر ان کے پیچھے مخنثین کی صف ہوگی
(الموسوعة الفقهية ٢٥/٢٠)
مخنثین کی نماز کا طریقہ خواتین کے
اعتبار سے ہوگا چنانچہ وہ نیت اپنی پستان کے نیچے باندھیں گے۔ (الدر المختار مع رد
المحتار ٤٨٧/١ فروع قرأ بالفارسية)
مخنث کی امامت: فقہاء کرام کا اس بات
پر اتفاق ہے کہ مخنثین کی امامت درست نہیں ہے، البتہ اگر صرف خواتین ہوں تو خواتین
کے لئے مخنث کی امامت کراہت کیساتھ درست ہے (الموسوعة الفقهية ٢٥/٢٠ بدائع الصنائع
١٤٠/١ فصل شرائط أركان الصلاة)
مخنث کا حج و احرام: مخنثین بھی اگر
حج کی استطاعت رکھتے ہوں تو ان پر بھی حج فرض ہے، البتہ حج کی شرائط کے لیے وہی
شرائط ہیں جو خواتین کے ہیں؛ یعنی محرم کا ہونا وغیرہ، نیز حالت احرام میں بھی جس
طرح خواتین سلے کپڑے پہنتی ہیں ویسے ہی مخنثین بھی سلے کپڑے پہنیں گے۔ (الموسوعۃ
الفقہیہ ٢٦/٢٠)
نظر اور خلوت: فقہاء کرام نے کتب فقہ
میں اس کی بھی صراحت کردی ہے کہ مخنثین کے پاس تنہائی میں نہ غیر محرم مرد رہ سکتا
ہے اور نہ غیر محرم عورت، اور یہ بغیر محرم کے سفر بھی نہیں کرسکتے۔ (الاختيار
لتعليل المختار ٣٩/٣ فصل احكام الخنثى)
شادی بیاہ: مخنثین کی شادی اور نکاح
کے سلسلے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ اگر وہ خنثیٰ غیر مشکل
ہیں تو جو جنس غالب ہے اس کے مخالف جنس سے نکاح کر سکتے ہیں لیکن اگر خنثیٰ مشکل
ہیں تو پھر ان سے نکاح کرنا درست نہیں ہے، کیوں کہ وہ محل نکاح نہیں ہے، البتہ اگر
پچپن میں ان کے باپ نے ان کی شادی کسی مرد یا عورت سے کرا دی ہو اور جوان ہوکر وہ
جماع کے قابل ہوں تو یہ جائز اور نافذ ہوگا اور اگرکوئی جماع پر قادر نہیں ہوا تو
پھر نکاح باطل ہوجائے گا ، اس سلسلے میں امام مالک اور امام شافعی رحمہ اللہ کی
بھی تحقیق یہی ہے کہ نہ ان سے نکاح کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی سے نکاح کر
سکتے ہیں (رد المحتار على الدر المختار ٤/٣ كتاب النكاح، مواهب الجليل شرح مختصر
خليل ٤٣٢/٦)
رضاعت: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا اس سلسلے میں یہ نقطۂ نظر ہے کہ اگر کسی مخنث کی
چھاتی میں دودھ پیدا ہوگیا اور اس نے کسی بچہ کو دودھ پلا دیا تو حرمت رضاعت ثابت
نہیں ہوگی کیونکہ اس کا مؤنث ہونا یقینی نہیں ہے اور شک کی بناء پر حرمت رضاعت
ثابت نہیں ہوتی (رد المحتار ٢١٩/٣ باب الرضاع، کشاف القناع ٥٤٥/٥)
مخنث کی گواہی کا حکم: جمہور فقہاء
کرام کا اتفاق ہے کہ مخنثین گواہی کے سلسلے میں مؤنث کی طرح ہیں، گویا مخنث کی
گواہی ایک عورت کی گواہی کے برابر ہے، لہذا جن مسائل میں خواتین کی گواہی معتبر ہے
ان میں مخنث کی بھی معتبر ہوگی (فتح القدير ٤٢٢/٧ باب من تقبل شهادته و من لا
تقبل، روضة الطالبين ٣/٩)
مخنث کے لئے منصب قضاء: مالکیہ اور
شافعیہ کے نزدیک مخنث کو قاضی بنانا جائز نہیں ہے کیوں کہ اس کا مذکر ہونا حتمی
نہیں ہے، اس لئے منصب قضاء سے مخنث کو سرفراز کرنا درست نہیں ہے اور اس کا فیصلہ
نافذ بھی نہیں ہوگا۔ (الشرح الصغير ١٨٧/٤، الكافي ٤٣٣/٣) لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ
اللہ کی تحقیق میں اس مسئلے میں بھی مخنث خواتین کے درجہ میں ہونگے چنانچہ جن
مسائل میں خواتین کا فیصلہ نافذ ھوگا مخنثین کا بھی نافذ ہوگا اور جن چیزوں میں
خواتین کا فیصلہ ناقابلِ عملی روایت ہوگا مخنثین کا بھی ناقابل قبول ہوگا مثلا
حدود و قصاص وغیرھ میں۔ ( الدر المختار مع رد المحتار ٤٤١/٥ مطلب في جعل المرأة
شاهدة في الوقف)
قصاص، دیت اور حدود: فقہاء کرام کا
اس سلسلے میں بھی اتفاق ہے کہ اگر کوئی مرد یا عورت کسی مخنث کو قتل کردے تو ان کو
بھی قصاص کے طور پر قتل کیا جائے گا، اسی طرح اگر کوئی مخنث کسی مرد یا عورت کو
قتل کردے تو اسے بھی بطورِ قصاص قتل کیا جائے گا (الموسوعة الفقهية ٢٨/٢٠)
اگر کسی نے مخنثین کو قتل کر دیا اور
قصاص کے بجائے دیت کا مطالبہ ہوا تو آدھی دیت مرد کی اور آدھی دیت عورت کی ادا کی
جائے گی؛ کیوں کہ اس کا مذکر و مؤنث ہونا متیقن نہیں ہے، البتہ عاقلہ کا معاملہ ہو
تو مخنثین عاقلہ میں شامل نہیں ہونگے اور ان پر دیت کا حصّہ واجب نہیں ہوگا (
الموسوعۃ الفقہیہ ٢٩/٢٠ مواھب الجليل شرح مختصر خليل ٤٣٣/٦، المغني لابن قدامة
الحنبلي ٦٢/٨)
اگر کوئی شخص کسی مخنث پر زنا کی
تہمت لگاتا ہے تو اس پر حد قذف جاری نہیں ہوگی، کیونکہ اگر وہ مذکر ہے تو نامرد کے
درجے میں ہے اور اگر عورت ہے تو رتقاء کے درجے میں ہے، اور ان دونوں پر تہمت لگانے
والے پر حد قذف جاری نہیں ہوتی ہے۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ١٠٩/٥ فصل فی
شرط جواز کل نوع، الفتاوى الهندية ٤٣٥/٦ كتاب الخنثى، زكريا جديد)
ختنہ: مخنث میں اگر مردانہ آلہ بھی
موجود ہے تو اس کا بھی ختنہ کیا جائے گا، اس کا ختنہ مرد و عورت میں سے کوئی بھی
کر سکتا ہے، لیکن اگر بڑا ہوگیا ہے تو کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس کو یونہی گوارہ
کیا جاسکتا ہے۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ٣٢٨/٧ الفتاوى الهندية ٤٣٤/٦ كتاب
الخنثى، زكريا جديد)
لباس و پوشاک: مخنثین جو لباس پہنیں
گے اس میں ستر اور اسلامی شرائط و آداب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، لباس میں وہ
خواتین کا لباس پہنیں کیوں کہ وہ زیادہ ساتر ہوتا ہے، البتہ ریشم کے کپڑے اور سونے
چاندی کے زیورات پہننا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تحقیق میں مکروہ تحریمی ہے کیوں
کہ انکی حالت مشتبہ ھے اس لیۓ احتیاط کا تقاضا ہے کہ اس سے دور رہیں۔ (العناية على
هامش فتح القدير ،٥١٩/١٠ فصل في أحكام الخنثى، الموسوعة الفقهية ٣٠/٢٠)
غسل میت، تکفین و تدفین: اگر کسی
مخنث کا انتقال ہوجائے تو اس کو غسل نہیں دیا جائے گا، بلکہ اس کو تیمم کرایا جائے
گا، اگر غیر محرم تیمم کرانے والا ہے تو ہاتھ میں کپڑا لپیٹ کر کرائے گا اور اگر
محرم ہے تو بغیر کپڑے کے بھی کرا سکتا ہے، (فتح القدیر ١٠٥/٢ فصل في الغسل، بدائع
الصنائع في ترتيب الشرائع ٣٢٨/٧ فصل في حكم الخنثى المشكل)
مخنث کو جب کفن دیا جائے گا تو
عورتوں کا کفن پانچ کپڑے دیں گے، اور تکفین کی ترتیب وہی ہوگی جو خواتین کی ہوتی
ہے، (الدر المختار مع رد المحتار ٢٠٤/٢باب صلاة الجنازة، الموسوعة الفقهية ٣١/٢٠)
جس عام مسلمانوں کی تدفین مسلمانوں
کے قبرستان میں ہوتی ہے اسی طرح مخنث کو بھی مسلمانوں کے قبرستان میں شرعی طریقہ
پر دفن کیا جائے گا، اس کی نماز جنازہ خواتین کے مطابق ہوگی اور تدفین میں بھی
خواتین کی طرح پردے کا التزام کیا جائے گا، نیز تدفین کے بعد قبر کو برابر کر دینا
مستحب ہے۔ (الموسوعة الفقهية ٣١/٢٠ رد المحتار ٢٣٦/٢ مطلب في دفن الميت)
میراث: مخنث اپنے انتقال کے بعد جو
بھی ترکہ چھوڑے گا اس کے وارثین اس کے حقدار ہونگے اور شرعی نقطہ نظر سے اس کی
تقسیم عمل میں آئے گی، اسی طرح اگر مخنث وارث ہوا یعنی اس کے کسی مورث کا انتقال
ہوا تو اس کو بھی میراث میں حصہّ ملے گا، البتہ اس کا حصہ سب سے کم رہے گا جسے
"اقل النصیبین" کی تعبیر سے بیان کیا جاتا ہے (الفتاوى الهندية ٤٤٩/٦
كتاب الخنثى الباب التاسع، الموسوعة الفقهية ٣٢/٢٠)
مذکورہ بالا سطور میں وہ احکام جو
مخنثین سے متعلق بہت بنیادی اور اہم ہیں صرف انہیں کو بیان کیا گیا ہے، ان کی
روشنی میں بہت سے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں، اور جو معلوم نہ ہوں کسی باخبر عالم
دین اور مفتی سے بھی دریافت کئے جاسکتے ہیں۔ مذکورہ بالا تحریر مشتے نمونہ از
خروارے کی مصداق سپرد قرطاس کی گئی ہے، شائقین فن فقہ کی مطولات سے استفادہ کر کے
ان کے تفصیلی دلائل اور دیگر احکام سے واقف ہوسکتے ہیں۔ فقط۔
No comments:
Post a Comment