Monday 10 September 2012

مسئلہ تین(3) طلاق کے دلائل

سعودی علماء نجدیہ وہابیہ کی راۓ:
مجموعہ رسائل و مسائل علماء نجد کے جامع شيخ عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي الحنبلي، الشيخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهابؒ كا فرمان لکھتے ہیں کہ:
ہمارے نزدیک امام ابن القیمؒ اوران کے شیخ (ابن تیمیہؒ) أهل السنة میں سے حق کے امام ہیں، اور ان کی کتابیں ہمارے نزدیک مستند کتابیں ہیں، لیکن ہم ہر مسئلہ میں ان (امام ابن القیمؒ اور امام ابن تیمیہؒ) کی تقلید نہیں کرتے کیونکہ سوائے ہمارے نبی محمد ﷺ کے ہر کسی کا قول لیا بهی جاتا ہے اور چهوڑا بهی جاتا ہے، لہذا ہم نے کئی مسائل میں ان دونوں (امام ابن القیمؒ اورامام ابن تیمیہؒ) کی مخالفت کی ہے جو کہ ایک معلوم بات ہے، مثلا: انہی مسائل میں سے ایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقوں کا مسئلے میں ہم أئمہ أربعہؒ (یعنی چاروں اماموں أبوحنیفہؒ، مالکؒ، شافعیؒ، أحمد بن حنبلؒ) کی پیروی کرتے ہیں، (یعنی ایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں)، یہی أئمہ أربعہؒ اور جمہور أمت کا اور یہی شیخ ابن عبدالوهابؒ اور اس کے پیروکاروں(وھابیوں) کا مسلک ہے.



=========================================
ائمہ اربعہ اور جمہور علمائے سلف وخلف کا مسلک یہ ہے کہ ایک مجلس میں یا ایک ہی کلمہ کے ذریعہ تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور ان کے ذریعہ بیوی مغلظہ بائنہ ہوجاتی ہے اور حلالہ شرعیہ کے بغیر شوہر اول کے لیے حلال نہیں ہوتی۔ یہی قول اکثر صحابہ تابعین اور بعد کے ائمہ اربعہ میں سے اکثر اہل علم کا ہے، اور یہی قول قرآن وحدیث واجماع صحابہ سے ثابت ہے۔


مسئلہ تین(3) طلاق کے دلائل:
شرعی حلالہ کیا ہے؟

دلیل نمبر-1:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَوْلُهُ: ﴿فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾[سورۃ البقرۃ:230] يَقُولُ: ‌إِنْ ‌طَلَّقَهَا ‌ثَلاثًا ‌فَلا تَحِلُّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ.
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ کے اس فرمان:
{پھر اگر اس نے طلاق دیدی اسے تو وہ حلال نہیں اس کیلئے یہاں تک کہ وہ نکاح کرلے اس کے علاوہ سے۔}[سورۃ البقرۃ:230]
کے متعلق فرماتے ہیں: ’’اگر کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں وہ اس کے لیے حلال نہیں حتی کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے۔‘‘
[تفسير الطبري(م310ھ): حدیث#4882 ، ط دار التربية والتراث]
[تفسير ابن أبي حاتم(م327ھ) : حدیث#2230]
[السنن الكبرى - البيهقي(م458ھ) - ط العلمية:15202، ‌‌بَابُ نِكَاحِ الْمُطَلَّقَةِ ثَلَاثًا]


حکمت:
(1)یہ نقد سزا میاں بیوی دونوں کے ناروا رویہ کی بناء پر ہے تاکہ وہ طلاق تک بات نہ بڑھائیں اور یہ انتہائی قدم نہ اٹھایا جائے۔

(2)یا یہ شوہر کے حق میں نقد سزا ہے طلاق کے فضول/غلط استعمال کے سبب، اور عورت کے حق میں بداخلاق شوہر سے رہائی کا راستہ ہے۔

مزید دیکھئے:
[اعلام الموقعين عن رب العالمين=رب العالمین کی طرف سے لکھنے والوں کے لیے معلومات]












(قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَالْقُرْآنُ يَدُلُّ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ عَلَى أَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَةً لَهُ دَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ ‌بِهَا ‌ثَلَاثًا ‌لَمْ ‌تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ۔
ترجمہ:
امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ(م150ھ) فرماتے ہیں: ’’قرآن کریم کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے اور الله اسے خوب جانتا ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، خواہ اس نے اس سے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو تو وہ عورت اس شخص کے لیے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے۔‘‘
[تفسير الإمام الشافعي: ج1 / ص370][کتاب الام ؛ امام الشافعی: ج5 ص197]
[السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية: 7/ 544][معرفة السنن والآثار - البيهقي: حدیث#14788]













دلیل نمبر-2:
أَنَّ ‌سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ أَخْبَرَهُقَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، ‌فَطَلَّقَهَا ‌ثَلَاثًا ‌قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
{وَفِیْ رِوَایَۃ ٍ}
قَالَ فَطَلَّقَھَا ثَلاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَنْفَذَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد الساعدیؓ نے خبر دی کہحضرت عویمرؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ رحمت ہو اللہ آپ پر اور سلامتی بھی! اگر میں اس کو اپنے پاس روکوں اور بیوی بناکر رکھوں تو میں نے پھر اس پر جھوٹ کہا۔ پھر اس نے آپ ﷺ کے حکم صادر فرمانے سے پہلے ہی اس کو تین طلاقیں دے دیں۔
(اور دوسری روایت میں ہے کہ)
اس نے اس کو (یعنی حضرت عویمرؓ نے اپنی بیوی کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین طلاقیں دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نافذ کردیا۔
[صحيح البخاري: حدیث#5259، ‌‌بَابُ مَنْ أَجَازَ طَلَاقَ الثَّلَاثِباب:اس شخص کی دلیل جس نے تین طلاقوں کو جائز کہا۔]
[سنن ابی داود:2250]

یہ دورِ نبوی میں تین طلاق دینے اور نبی ﷺ کا تینوں نافذ کرنے کی واضح اور صحیح دلیل ہے۔



دلیل نمبر-3:
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا یَحْیٰ عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَۃَاَنَّ رَجُلاً طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلٰثاً فَتَزَوَّجَتْ فَطَلَّقَ فَسُئِلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَتَحِلُّ لِلْاَوَّلِ؟ قَالَ:لَاحَتّٰی یَذُوْقَ عُسَیْلَتَھَا کَمَا ذَاقَ الْاَوَّلُ۔
ترجمہ:
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، اُس نے کسی اورمرد سے نکاح کیا اور(ہمبستری سے پہلے)اسے طلاق دے دی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیاکہ وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں!جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے ہمبستری نہ کرے (اور لطف اندوز نہ ہوجائے ) جیساکہ پہلا خاوند ہوا۔‘‘
[صحیح بخاری:5261 بَابُ مَنْ أَجَازَ طَلَاقَ الثَّلَاثِباب:اس شخص کی دلیل جس نے تین طلاقوں کو جائز کہا۔]






























:دلیل نمبر4
عن الحسن قال: حدثنا عبد الله بن عمر "أنه طلق امرأته تطليقة وهي حائض، ثم أراد أن يتبعها بتطليقتين أخريين عند القرءين الباقيين، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا ابن عمر! ما هكذا أمرك الله، إنك قد أخطأت السنة، والسنة أن تستقبل الطهر فتطلق لكل قرء، فأمرني رسول الله صلى الله عليه وسلم مراجعتها، وقال: إذا هي طهرت فطلق عند ذلك، أو أمسك.
فقلت: يا رسول الله! أرأيت لو كنت ‌طلقتها ‌ثلاثًا، أكان ‌يحل لي أن أراجعها؟ قال: لا، كانت تبين منك، فتكون معصية"۔
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی، پھر ارادہ کیا کہ باقی دو طلاقیں بھی بقیہ دو قراء (حیض یا طہر) کے وقت دے دیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ’’تجھے اللہ تعالی نے اس طرح تو حکم نہیں دیا تو نے سنت کی خلاف ورزی کی ہے سنت تو یہ ہے کہ جب طہر(پاکی) کا زمانہ آئے تو ہر طہر کے وقت اس کو طلاق دے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ تو رجوع کرلے! چنانچہ میں نے رجوع کر لیا پھر آپ  نے مجھ سے فرمایا: ’’جب وہ طہر کے زمانہ میں داخل ہو تو اس کو طلاق دے دینا اور مرضی ہو تو بیوی بناکر رکھ لینا۔‘‘ اس پر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ تو بتلائیں کہ اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لیے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کر لیتا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں وہ تجھ سے جدا ہو جاتی اور یہ (کام کرنا ) گناہ ہوتا۔
[شرح مختصر الطحاوي للجصاص(م370ھ) : ج5 / ص18]
[مسند أحمد(م241ھ) ت شاكر:5321]
[سنن الدارقطني(م385ھ) :3974]
[السنن الكبرى - البيهقي(م458ھ) - ط العلمية:14939+14955]







دلیل نمبر5
سَلَمَةُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِيهِ  «أَنَّ حَفْصَ بْنَ الْمُغِيرَةِ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ ‌تَطْلِيقَاتٍ ‌فِي ‌كَلِمَةٍ ‌وَاحِدَةٍ , فَأَبَانَهَا مِنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَبْلُغْنَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَابَ ذَلِكَ عَلَيْهِ»۔
ترجمہ:
حضرت سلمہ نے اپنے باپ (ابو سلمہ) رضی اللہ عنہا سے نقل فرماتے ہیں کہ حفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک کلمہ کے ساتھ تین طلاقیں دیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بیوی کو اس سے جدا کردیا اورہم کویہ بات نہیں پہنچی کہ اس وقت سے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ پر کسی قسم کاعیب لگایا ہو(یعنی ناراضگی کا اظہار کیا ہو)۔
[سنن الدارقطني(م385ھ): حدیث نمبر3922+3921]
[الخلافيات - البيهقي(م458ھ) - ت النحال:4363]



دلیل نمبر-6:
عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ , قَالَ: كَانَتْ عَائِشَةُ الْخَثْعَمِيَّةُ عِنْدَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , فَلَمَّا أُصِيبَ عَلِيٌّ وَبُويِعَ الْحَسَنُ بِالْخِلَافَةِ , قَالَتْ: لِتَهْنِكَ الْخِلَافَةَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ , فَقَالَ: يُقْتَلُ عَلِيٌّ وَتُظْهِرِينَ الشَّمَاتَةَ اذْهَبِي فَأَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا , قَالَ: فَتَلَفَّعَتْ نِسَاجَهَا وَقَعَدَتْ حَتَّى انْقَضَتْ عِدَّتُهَا وَبَعَثَ إِلَيْهَا بِعَشَرَةِ آلَافٍ مُتْعَةً وَبَقِيَّةً بَقِيَ لَهَا مِنْ صَدَاقِهَا , فَقَالَتْ: مَتَاعٌ قَلِيلٌ مِنْ حَبِيبٍ مَفَارِقٍ , فَلَمَّا بَلَغَهُ قَوْلُهَا بَكَى وَقَالَ: لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ جَدِّي , أَوْ حَدَّثَنِي أَبِي , أَنَّهُ سَمِعَ جَدِّي يَقُولُ: «أَيُّمَا رَجُلٍ طَلَّقَ ‌امْرَأَتَهُ ‌ثَلَاثًا ‌مُبْهَمَةً أَوْ ثَلَاثًا ‌عِنْدَ الْإِقْرَاءِ لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ» لَرَاجَعْتُهَا
ترجمہ:
حضرت سوید بن غفلہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’حضرت عائشہ خثعمیہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے نکاح میں تھیں(جب حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا اور حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کرکے ان کو اپنا خلیفہ منتخب کرلیا اس موقع پر) انہوں نے آپ ؓ کو کہا : ’’اے امیر المؤمنین! آپ کو خلافت مبارک ہو اس پر حضرت حسنؓ نے فرمایا کہ کیا یہ مبارک باد حضرت علیؓ کی شہادت پر ہے؟ تو اس پر خوشی کا اظہار کر رہی ہے؟ جا! تجھے تین طلاقیں ہیں۔ عدت گزرنے پر حضرت حسنؓ نے اس کو بقیہ مہر اور مزید دس ہزار دیے تو وہ جواب میں کہنے لگی کہ طلاق دینے والی جیب سے یہ مال کم ملا ہے اس پر حضرت حسنؓ رو دیے) اور فرمایا کہ اگر میں نے اپنے نانا جان (محمد رسول اللہ ﷺ) سے یہ نہ سنا ہوتا یا یہ فرمایا کہ مجھے میرے والد حضرت علیؓ نے میرے نانا جان کی یہ حدیث اگر نہ سنائی ہوتی کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص اپنی بیوی کو ایک دفعہ تین طلاقیں دے دے یا تین طہروں میں تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے۔‘‘ تو میں ضرور اس کی طرف رجوع کرلیتا۔
[سنن الدارقطني(م385ھ): حدیث نمبر3972]
[تفسير القرطبي(م671ھ):3/ 202، ‌‌سورة البقرة (2): آية 236]
[إتحاف المهرة لابن حجر:4285(14151)]




دلیل نمبر-7:
ہزار طلاق دینے کا حکم:
عَنْ دَاوُدَ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: طَلَّقَ جَدِّي امْرَأَةً لَهُ ‌أَلْفَتَطْلِيقَةٍ، ‌فَانْطَلَقَ أَبِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا اتَّقَى اللَّهَ جَدُّكَ، أَمَّا ثَلَاثٌ فَلَهُ، وَأَمَّا تِسْعُ مِائَةٍ وَسَبْعَةٌ وَتِسْعُونَ فَعُدْوَانٌ وَظُلْمٌ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى عَذَّبَهُ، وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ»۔
ترجمہ:
حضرت داود بن عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے دیں تو میرے والد نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر اس واقعہ کا ذکر کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تیرے والد اللہ سے نہیں ڈرتے؟ (یوں تو)اسے صرف تین طلاقوں کا حق ہے، اور نو سو ستانوے زیادتی اور ظلم ہیں، اگر اللہ تعالیٰ چاہیں تو اس کو عذاب دے دیں، اور اگر چاہیں تو معاف کردیں۔‘‘
[مصنف عبد الرزاق(م211ھ) - ت الأعظمي: حدیث نمبر11339 ، ‌‌بَابُ الْمُطَلِّقِ ثَلَاثًا]
[زهر الفردوس = الغرائب الملتقطة من مسند الفردوسابن حجر العسقلاني (م852ھ): حدیث نمبر787]
نوٹ:
والد کو بھی جد(دادا) کہا جاتا ہے۔



دلیل نمبر-8:
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: «كَانَ عُمَرُ إِذَا أُتِيَ بِرَجُلٍ ‌قَدْ ‌طَلَّقَ ‌امْرَأَتَهُ ‌ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ أَوْجَعَهُ ضَرْبًا وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا»۔
ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی ایسا آدمی لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہوتیں توحضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کو سزا دیتے اور ان میاں بیوی کے درمیان جدائی کردیتے تھے۔‘‘
[مصنف ابن أبي شيبة(م235ھ) : حدیث نمبر 17790، ‌‌مَنْ كَرِهَ أَنْ يُطَلِّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا]
[أحكام القرآن لإسماعيل القاضي(م282ھ) : حدیث نمبر 429]





دلیل نمبر-9:
عَنْ شَرِيكِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَلِيٍّ فَقَالَ: إِنِّي طَلَّقْتُ امْرَأَتِي عَدَدَ الْعَرْفَجِ؟ قَالَ: تَأْخُذُ مِنَ ‌الْعَرْفَجِ ‌ثَلَاثًا، وَتَدَعُ سَائِرَهُ۔
ترجمہ:
شریک بن ابی نمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’ ’ایک آدمی حضرت علیؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے اپنی بیوی کوعرفج درخت کے عدد کے برابر طلاق دی ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’عرفج درخت سے تین کو لے لے اور باقی تمام چھوڑ دے۔‘‘
[مصنف عبد الرزاق(م211ھ) - ت الأعظمي: حدیث نمبر 11341، ‌‌بَابُ الْمُطَلِّقِ ثَلَاثًا]




دلیل نمبر-10:
قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ الْکَبِیْرُ أَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ التَّابِعِیُّ الْکُوْفِیُّ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ حُسَیْنٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ دِیْناَرٍ عَنْ عَطَائٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ أَتَاہُ رَجُلٌ فَقَالَ طَلَّقْتُ اِمرَأتِیْ ثَلاَثًا فَقَالَ عَصَیْتَ رَبَّکَ وَحَرُمَتْ عَلَیْکَ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَکَ۔
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس ایک آدمی آکر کہنے لگا میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: ’’تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور تیری بیوی تجھ پر حرام ہوگئی حتی کہ وہ تیرے علاوہ کسی اور مرد سے نکاح کرلے۔‘‘
[مسند ابی حنیفۃ بروایۃ قاضی ابی یوسف بحوالہ جامع المسانید للخوارزمی ج2ص148]
شواہد:
[إعراب القرآن للنحاس(م338ھ): 4 / 297]

عَنْ ‌مُجَاهِدٍ قَالَ: «كُنْتُ عِنْدَ ‌ابْنِ ‌عَبَّاسٍ فَجَاءَهُ ‌رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ رَادُّهَا إِلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ فَيَرْكَبُ الْحَمُوقَةَ ثُمَّ يَقُولُ: يَا ابْنَ ‌عَبَّاسٍ يَا ابْنَ ‌عَبَّاسٍ، وَإِنَّ اللهَ قَالَ: {وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} وَإِنَّكَ لَمْ تَتَّقِ اللهَ فَلَا أَجِدُ لَكَ مَخْرَجًا ‌عَصَيْتَ ‌رَبَّكَ، وَبَانَتْ مِنْكَ امْرَأَتُكَ، وَإِنَّ اللهَ قَالَ (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ)»
ترجمہ:
امام مجاہد کہتے ہیں: میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس تھا کہ ایک آدمی آیا اور ان سے کہنے لگا کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی ہے، ابن عباس ؓ خاموش رہے، یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ وہ اسے اس کی طرف لوٹا دیں گے، پھر انہوں نے کہا: تم لوگ بیوقوفی تو خود کرتے ہو پھر آ کر کہتے ہو: اے ابن عباس! اے ابن عباس! حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، وہ اس کے لئے راستہ نکال دیتا ہے۔ [سورۃ الطلاق:2] اور تو اللہ سے نہیں ڈرا لہٰذا میں تیرے لیے کوئی راستہ بھی نہیں پاتا، تو نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی لہٰذا تیری بیوی تیرے لیے بائنہ ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے شروع میں دو۔ [سورۃ الطلاق:1]۔

[سنن أبي داود:2197، باب نسخ المراجعة بعد التطليقات الثلاث]
[مصنف عبد الرزاق - ت الأعظمي:11352، ‌‌بَابُ الْمُطَلِّقِ ثَلَاثًا]
























********************
تین طلاقوں کے تین واقع ہونے پر اجماع امت:


:دلیل نمبر11
1: قَدْ قَالَ الْاِمَامُ أَبُوْبَکْرِ ابْنُ الْمُنْذِرِ النِّیْشَابُوْرِیُّ: وَأجْمَعُوْا عَلٰی أَنَّ الرَّجُلَ اِذَاطَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثًا أَنَّھَالَاتَحِلُّ لَہُ اِلَّابَعْدَ زَوْجٍ عَلٰی مَا جَائَ بِہ حَدِیْثُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ:أَوْ اَجْمَعُوْاعَلٰی أَنَّہُ اِنْ قَالَ لَھَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً اِلَّا ثَلاَثاً اَنَّھَا اُطْلِقَ ثَلاَ ثًا۔
ترجمہ:
امام ابن المنذر رحمہ اللہ(م318ھ) نے فرمایا :’’فقہاء اورمحدثین امت نے اس پر اجماع کیا ہے کہ جب مرد اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں رہتی۔ ہاں! جب وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے تواب حلال ہو جاتی ہے کیونکہ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وارد ہوئی ہے ۔ ابن المنذر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ فقہاء ومحدثین کا اس پر بھی اجماع ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو کہا اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً اِلَّا ثَلَاثاً (تجھے تین طلاقیں ہیں مگر تین طلاق) تو تین ہی واقع ہوں گی۔‘‘
[کتاب الاجماع، لابن المنذر: ص92]


دلیل نمبر12
2: قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ أَبُوْجَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ الطَّحَاوِیُّ مَنْ طَلَّقَ اِمْرَأتَہُ ثَلاَثاً فَاَوْقَعَ کُلاًّ فِیْ وَقْتِ الطَّلَاقِ لَزِمَہُ مِنْ ذٰلِکَ …
فَخَاطَبَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ بِذَلِكَ النَّاسَ جَمِيعًا ، وَفِيهِمْ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَضِيَ عَنْهُمْ ، الَّذِينَ قَدْ عَلِمُوا مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَلِكَ ، فِي ذَلِكَ ، فِي زَمَنِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمْ يُنْكِرْهُ عَلَيْهِ مِنْهُمْ مُنْكِرٌ ، وَلَمْ يَدْفَعْهُ دَافِعٌ ، فَكَانَ ذَلِكَ أَكْبَرَ الْحُجَّةِ فِي نَسْخِ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَلِكَ. لِأَنَّهُ لَمَّا كَانَ فِعْلُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‌جَمِيعًا ‌فِعْلًا ‌يَجِبُ بِهِ الْحُجَّةُ ، كَانَ كَذَلِكَ أَيْضًا إِجْمَاعُهُمْ عَلَى الْقَوْلِ إِجْمَاعًا يَجِبُ بِهِ الْحُجَّةُ۔
ترجمہ:
محدث کبیر امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ(م321ھ) فرماتے ہیں:’’جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اورتینوں کو طلاق کے وقت واقع بھی کردیا تو اس سے لازم ہو جائیں گی (دلیل اس کی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ)
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کو اس چیز کے متعلق خطاب فرمایا کہ تین طلاقیں تین ہی ہوں گی اوران لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی بھی موجود تھے جو حضور علیہ السلام کے عہد مبارک میں اس معاملہ سے بخوبی واقف تھے لیکن کسی نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات کا انکار نہ کیا اورنہ ہی کسی نے اسے رد کیا۔ تو یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ اس سے پہلے جو کچھ معاملہ رہا، منسوخ ہے۔ اس لیے کہ جس طرح تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا فعل اتنی قوت رکھتا ہے کہ اس سے دلیل پکڑنا واجب ہے اسی طرح حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کاکسی بات پر اجماع کرنا بھی حجت ہے (جیساکہ اس مسئلہ طلاق میں ہے ).
 [شرح معاني الآثار-الطحاوي:4475، بحوالہ صحيح مسلم:1472]

(سنن الطحاوی ج2ص34باب الرجل یطلق امرأتہ ثلاثاً معا، ونحوہ فی مسلم ج1 ص477 )


:دلیل نمبر13
3: قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْمُفَسِّرُ الْقَاضِیُّ ثَنَائُ اللّٰہِ الْعُثْمَانِیُّ فِیْ تَفْسِیْرِ ھٰذِہِ الْآیَۃِ{أَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ}لَاَنَّ قَوْلَہُ أَلطَّلَاَقُ عَلٰی ھٰذَا التَّاوِیْلِ یُشْمِلُ الطَّلَقَاتِ الثَّلاَثَ اَیْضاً…لٰکِنَّھُمْ اَجْمَعُوْا عَلیٰ اَنَّہُ مَنْ قَالَ لِاِمْرَأتِہِ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثاً یَقَعُ ثَلاَثٌ بِالْاِجْمَاعِ ۔
(تفسیر مظہری ج2ص300)
ترجمہ:
مفسر قرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ آیت {اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ} کی ت فسیر میں فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’اَلطَّلَاقُ‘‘اس تفسیر کے مطابق (جو پہلے ذکر کی ہے) تین طلاقوں کو بھی شامل ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ فقہاء ومحدثین نے اس بات پر اجماع کیاہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کوکہا’’اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثاً ‘‘(تجھے تین طلاقیں ہیں) تو بالاجماع تین ہی واقع ہوجائیں گی۔
==========================================
ایک ساتھ تین طلاق دینے کا حکم

کیا فرماتے علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ
میں نے اپنی بیوی کو ۱۲/مارچ ۲۰۰۹ء کو تین طلاقیں دیں اور کچھ دن بعد عدالت سے بھی طلاق کے کاغذات لئے، جس پر میری طرف سے تحریری طلاق درج تھی، طلاق کے بعد میری بیوی اپنے والدین کے گھر چلی گئی، انہوں نے گھر سے نکالا تو وہ نانی ، نانا کے ہاں گئی، اس کے نانا نے لڑکی کو اور مجھے محمدی مسجد لے گئے، جہاں سے انہوں فتویٰ دیا کہ یہ طلاق رجعی ہے اورہمارا دوبارہ تجدید نکاح کرایا۔ اب کیا ہمارا یہ نکاح تھا یا نہیں؟
مستفتی راحیل الدین مکان نمبر ۱۳۴۵ گولیمار نمبر۲ کراچی۔

الجواب بعون الوہاب:

واضح رہے کہ از روئے قرآن وحدیث وجمہور صحابہ کرام، تابعین وتبع تابعین، ائمہ مجتہدین بالخصوص چاروں ائمہ کرام امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل ان تمام حضرات کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:


:دلیل نمبر14
”الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان“ (بقرہ:۲۲۹)

اور اگلی آیت میں ہے:

”فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ…“ (بقرہ:۲۳۰)

یعنی دو طلاق دینے تک تو مرد کو رجوع کا اختیار ہے، لیکن جب تیسری طلاق بھی دیدی تو اب مرد کے لئے رجوع کا حق باقی نہیں رہتا، عورت اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے۔

چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں علامہ قرطبی فرماتے ہیں:

”ترجم البخاری علی ہذہ الایة باب من اجاز الطلاق الثلاث بقولہ تعالیٰ الطلاق مرتان، فامساک بمعروف او تسریح باحسان، وہذا اشارة الی ان ہذہ التعدید انما ہو فسخة لہم فمن ضیق علی نفسہ لزمہ قال علمائنا: واتفق ائمة الفتویٰ علی لزوم ایقاع الطلاق الثلاث فی کلمة واحدة وہو قول جمہور السلف… المشہور عن الحجاج بن ارطاة وجمہور السلف والائمة انہ لازم واقع ثلاثاً ولافرق بین ان یوقع ثلاثًا مجتمعة فی کلمة او متفرقة فی کلمات…“ (الجامع لاحکام القرآن ج:۳/۱۲۹)

اسی طرح احکام القرآن للجصاص میں ہے:

”قال ابوبکر: قولہ تعالیٰ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان الایة: یدل علی وقوع الثلاث معاً مع کونہ منہیاً عنہا…“ (ج:۱/۴۶۷)

اسی طرح حدیث میں ہے:


امام بخاری اور تین طلاق کا ثبوت:
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، " أَنَّ رَجُلًا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَتْ ، فَطَلَّقَ ، فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَتَحِلُّ لِلْأَوَّلِ ؟ قَالَ : لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَهَا كَمَا ذَاقَ الْأَوَّلُ " .
محمد بن بشار، یحیی ، عبیداللہ ، قاسم، بن محمد، حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو "تین طلاق"  دیدیں تو اس عورت نے (دوسرا) نکاح کرلیا پھر اس نے (صحبت کئے بغیر) بھی طلاق دے دی تو آنحضرت ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا کہ کیا وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں جب تک کہ اس کا شوہر اس سے لطف اندوز نہ ہو لے جس طرح پہلا شوہر لطف اندوز ہوا تھا۔

باب: اس شخص کی دلیل جس نے تین طلاقوں کو جائز کہا ہے، اس لئے کہ اللہ نے فرمایا: طلاق دو بار ہے، پھر قاعدے کے مطابق روک لینا یا اچھی طرح چھوڑ دینا...
[سورۃ البقرۃ:229]

امام ابن حجر عسقلانیؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ:
”وَهِيَ بِإِيقَاعِ الثَّلَاثِ أَعَمُّ مِنْ أَنْ تَكُونَ مَجْمُوعَةً أَوْ مُفَرَّقَةً“
ترجمہ:
اور یہ تینوں واقع ہوجانا عام حکم ہے اگرچہ آپ مجموعی(اکٹھی) دیں یا الگ الگ کرکے دیں۔
[فتح الباري:9/362، ط دار المعرفة - بيروت]

في طلاق زوجتك وتعديت حدوده بإيقاع الثلاث في كلمة واحدة۔
ترجمہ:
اور تیرا اپنی بیوی کو طلاق دینے اور (شرعی) حدود سے تجاوز کرنے کے سبب ایک کلمہ سے تینوں طلاقوں کا واقع ہوجانا(شرعی حکم ہے)۔
[شرح سنن أبي داود - ابن رسلان: 9/625، الناشر: دار الفلاح] 




























غیرشرعی طریقہ سے دی گئی طلاقیں بھی نافذ ہوجاتی ہیں:


حالتِ حیض میں طلاق دینا ممنوع ہے، مگر دی گئی تو طلاق ہوجاتی ہے، ورنہ رجوع کرنے کا حکم نہ ہوتا، ایسے ہی تین طلاق دینے سے بھی طلاق ہوجاتی ہیں اور بیوی حرام ہوجاتی ہے.

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ نَافِعٍ ، " أَنَّ ابْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا طَلَّقَ امْرَأَةً لَهُ وَهِيَ حَائِضٌ تَطْلِيقَةً وَاحِدَةً ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَاجِعَهَا ، ثُمَّ يُمْسِكَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ عِنْدَهُ حَيْضَةً أُخْرَى ، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَطْهُرَ مِنْ حَيْضِهَا ، فَإِنْ أَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا ، فَلْيُطَلِّقْهَا حِينَ تَطْهُرُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُجَامِعَهَا ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ " ، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا سُئِلَ عَنْ ذَلِكَ ، قَالَ لِأَحَدِهِمْ : إِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْكَ ، حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَكَ . وَزَادَ فِيهِ غَيْرُهُ . عَنْ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ : لَوْ طَلَّقْتَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِي بِهَذَا .
ترجمہ:
نافعؒ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمربن خطاب رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دے دی تو ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ رجوع کرلے، پھر اس کو روکے رکھ، یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے، پھر اس کے پاس اسے دوسرا حیض آجائے، پھر اس کو رہنے دے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے، اگر وہ اس کو طلاق دینا چاہتا ہے تو طلاق دے دے جب کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے لیکن صحبت سے پہلے، یہی وہ عدت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس میں عورتوں کو طلاق دی جائے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا تو ایک شخص سے کہا کہ جب تو اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے تو وہ تجھ پر حرام ہے، یہاں تک کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے، اور دوسرے لوگوں نے اس میں اضافہ کے ساتھ لیث سے بواسطہ نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا کہ کاش! تو عورت کو ایک یا دو طلاقیں دیتا اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا مجھے حکم دیا تھا۔





حدیث میں ہے:

”عن مجاہد قال کنت عند ابن عباس فجاء ہ رجل فقال انہ طلق امراتہ ثلاثاً قال فسکت حتی ظنت انہ رآدہا الیہ ثم قال ینطلق احدکم فیرکب الحموقة ثم یقول: یا ابن عباس یا ابن عباس وان الله تعالیٰ قال ومن یتق الله یجعل لہ مخرجاً، وانک لم تتق الله فلااجد لک مخرجاً، عصیت ربک وبانت منک امراتک“۔ (سنن ابی داؤد ج:۱/۲۹۹ ط حقانیہ)

ترجمہ:
”مجاہد سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں (کیا حکم ہے) حضرت ابن عباس نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش ہوگئے (مجاہد کہتے ہیں) مجھے گمان ہونے لگا کہ شاید ابن عباس اس کی بیوی کو واپس لوٹانے والے ہیں پھر ابن عباس نے فرمایا: کہ تم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں کہ ان پر حماقت سوار ہوتی ہے، پھر میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے یا ابن عباس یا ابن عباس جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے راستہ نکالتا ہے اور تو اللہ تعالیٰ سے ڈر انہیں (اور بیک وقت تین طلاقیں دیدی) اس لئے قرآن کے مطابق تمہارے لئے کوئی راستہ نہیں پاتا تونے خدا کی نافرمانی کی ہے اور تمہاری بیوی تم پر حرام ہوگئی ہے اور تم سے جدا ہوگئی ہے“۔

اور ابوداؤد اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

”روی ہذا الحدیث حمید الاعرج وغیرہ عن مجاہد عن ابن عباس… کلہم قالوا فی الطلاق الثلاث انہ اجاز ہا قال وبانت منک…“ (ابی داؤد ج:۱/۲۹۹ ط حقانیہ)

یعنی ان حضرات نے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے یہ تمام رواة متفقہ طور پر نقل فرمارہے ہیں کہ ابن عباس نے تین طلاقوں کو نافذ فرمادیا اور فتویٰ دیا کہ عورت جدا ہوگئی۔ اسی طرح نسائی شریف کی حدیث میں ہے:

دورِ نبوت میں اکٹھی تین (3) طلاق ہونے کا ثبوت:
”عن محمود بن لبید قال اخبر رسول الله ﷺ عن رجل طلق امراتہ ثلاث تطلیقات جمیعاً فقام غضباناً ثم قال ایلعب بکتاب الله وانا بین اظہر کم حتی قال رجل وقال یا رسول الله الا اقتلہ“۔
ترجمہ:
…”محمود بن لبید سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپ علیہ الصلاة و السلام کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دیدیں ہیں۔ آپ علیہ السلام نے غضبناک ہوکر تقریر فرمائی کہ کیا کتاب اللہ کے ساتھ کھیل کیا جارہا ہے، حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں، آنحضرت اکا یہ غصہ دیکھ کر ایک صحابی کھڑے ہوگئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اسے قتل نہ کردوں“۔

[المحدث : ابن كثير | المصدر : إرشاد الفقيه: 2/194 | خلاصة حكم المحدث : إسناده جيد قوي
المحدث : ابن حجر العسقلاني | المصدر : بلوغ المرام: 320 | خلاصة حكم المحدث : رواته موثقون
لمحدث : ابن القيم | المصدر : زاد المعاد5/220 | خلاصة حكم المحدث : إسناده على شرط مسلم
المحدث : الرباعي | المصدر : فتح الغفار: 1507/3 | خلاصة حكم المحدث : رواته موثقون
المحدث : ابن عثيمين | المصدر : شرح بلوغ المرام لابن عثيمين5/95 | خلاصة حكم المحدث : [ثابت]
المحدث : ابن عثيمين | المصدر : شرح البخاري لابن عثيمين5/11 | خلاصة حكم المحدث : سنده جيد أو صحيح
المحدث : الألباني | المصدر : تخريج مشكاة المصابيح: 3227 - غاية المرام: 261 - التعليقات الرضية: 243/2 | خلاصة حكم المحدث : صحيح]




حدیث مذکورہ بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاقیں مجتمعاً واقع ہوجاتی ہیں۔ اگر واقع نہ ہوتیں تو آنحضرت ﷺ غضبناک نہ ہوتے اور فرمادیتے کہ کوئی حرج نہیں رجوع کرلو۔

اسی طرح مؤطا امام مالک میں ہے
”عن مالک بلغہ ان رجلاً قال لابن عباس انی طلقت امرأتی مأة تطلیقة ما ذاتری علی؟ فقال لہ ابن عباس طلقت منک بثلاث وسبع وتسعون اتخذت بہا آیات اللہ ہزوا“ (ص:۵۱۰)

ترجمہ:
…”ایک شخص نے ابن عباس سے کہا میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں ہیں، اس کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: تین طلاقوں سے تو عورت تجھ سے جدا ہوگئی اور بقیہ ستانوے طلاقوں سے تونے اللہ کی آیات کا تمسخر کیا ہے“۔

اور طحاوی شریف میں ہے
”عن مالک بن حارث قال رجل الی ابن عباس فقال ان عمی طلق امراتہ ثلاثاً فقال: ان عمک عصی الله فاثمہ الله واطاع الشیطان فلم یجعل لہ مخرجا فقلت کیف تری فی رجل یحلہا لہ فقال من یخادع الله یخادعہ…“
(باب الرجل یطلق امراتہ ثلاثا معا ج:۲/۳۴)

ترجمہ:…”مالک بن حارث فرماتے ہیں کہ ایک شخص ابن عباس کے پاس آیا اور کہا میرے چچا اپنی عورت کو دفعةً تین طلاقیں دے بیٹھے ہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا: تیرے چچا نے خدا کی نافرمانی کی اور شیطان کی اطاعت کی اور آپ نے اس کے لئے کوئی گنجائش نہیں نکالی۔ مالک بن حارث فرماتے ہیں، میں نے عرض کیا :آپ اس شخص کے متعلق کیا فرماتے ہیں جو اس عورت کو اس شوہر کے لئے حلال کرے؟ آپ نے فرمایا: جو اللہ سے چالبازی کرے گا اللہ بھی اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرے گا“۔

اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

”عن انس قال کان عمر اذا اتی برجل قد طلق امراتہ ثلاثاً فی مجلس او جعہ ضرباً وفرق بینہما…“ (ج:۵/۱۱) وفیہ ایضا عن معمر عن الزہری فی رجل طلق امراتہ ثلاثاً جمیعاً قال ان من فعل فقد عصی ربہ وبانت منہ امراتہ“ (ج:۵/۱۱)

ترجمہ:
…”حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروقؓ کے پاس ایسا شخص لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دی ہوتیں تو آپ اس کو سزا دیتے ہیں اور دونوں میں تفریق کردیتے ہیں۔ تو قرآنی آیات وتفاسیر واحادیث سے روز روشن کی طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دقعةً تین طلاقیں دینے سے تین ہی شمار ہوتی ہیں۔“

لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے چونکہ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں تو اس سے بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب شوہر کے لئے رجوع کرنا جائز نہیں اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ اس سے نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہے۔


باقی غیر مقلدین کا منسلکہ فتویٰ از روئے قرآن وحدیث اور جمہور صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین اور چاروں ائمہ کے متفقہ مسلک کے خلاف ہے، جیساکہ اوپر لکھا گیا ہے اور جس حدیث کو بطور استدلال پیش کیا ہے، اس حدیث سے تین طلاقوں کو ایک شمار کرنے کا استدلال کرنا تمام فقہاء کے نزدیک باطل ہے۔مذکورہ حدیث حضرت عبد اللہ ابن عباس کی ہے اس حدیث سے استدلال کرنا اس لئے درست نہیں ہے کہ اس حدیث کو ابوداؤد نے بھی روایت کیا ہے اور اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت غیر مدخولہ کے متعلق ہے، عام نہیں ہے۔واضح رہے کہ عورتیں دو قسم کی ہیں؛


(۱) غیر مدخولہ (جس کے ساتھ ہمبستری نہ ہوئی ہو)

(٢) مدخولہ (جس کے ساتھ صحبت ہوچکی ہو) غیر مدخولہ عورت کو اگر الگ الگ لفظوں میں اس طرح طلاق دی جائے۔ ”تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے“تو پہلے ہی لفظ سے وہ بائنہ ہوجاتی ہے یعنی نکاح سے نکل جاتی ہے اور ایسی عورت پر عدت بھی لازم نہیں ہوتی، جب یہ عورت پہلے ہی لفظ سے بائنہ ہوگی اور اس پر عدت بھی نہیں تو اس کے بعد وہ طلاق کا محل نہ رہی، اس بناء پر دوسری اور تیسری طلاق لغو ہوتی ہے، اسی اعتبار سے حدیث میں کہا گیا ہے کہ اگر تین طلاقیں دی جائیں تو ایک شمار ہوتی ہیں۔ حضور اکرم ا حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر کے ابتدائی سالوں میں غیر مدخولہ کو طلاق دینے کا یہی طریقہ تھا۔ مگر بعد میں لوگوں نے جلد بازی شروع کردی اور ایسی غیر مدخولہ کو ایک ساتھ ایک لفظ میں تین طلاق دینے لگے تو حضرت عمر نے فرمایا کہ اب تین طلاق ہی ہوں گی۔ کہ (انت طالق ثلاثا) کہہ کر طلاق دی ہے اور یہ لفظ نکاح قائم ہونے کی حالت میں بولا ہے۔ (ابوداؤد شریف ج:۱/۳۰۶)


طلاق کے متعلق حضرت عمرؓ کے فیصلہ کی وضاحت:




























دوسرا جواب یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی زمانہ میں جب ”انت طالق، انت طالق، انت طالق“ کہا جاتا تو عموماً لوگوں کی دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید کی نیت ہوتی، استیناف کی نیت نہیں ہوتی تھی اور اس زمانہ میں لوگوں میں دین اور تقویٰ اور خوف آخرت اور خوف خدا غالب تھا دنیا کی خاطر دروغ بیانی کا خطرہ تک دل میں نہ آتا تھا۔ آخرت میں جوابدہی اور آخرت کے عذاب کا اتنا استحضار رہتا کہ مجرم بذات خود حاضر ہوکر اپنے جرم کا اقرار کرتا اور اپنے اوپر شرعی حد جاری کرنے کی درخواست کرتا، اس بناء پر ان کی بات پر اعتماد کرکے ایک طلاق کا حکم کیا جاتا، اسی اعتبار سے حدیث میں کہا گیا ہے کہ اس زمانے میں تین طلاقیں ایک شمار کی جاتی تھیں مگر جیسے جیسے عہد نبوی سے بعد ہوتا گیا اور بکثرت عجمی لوگ بھی حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے، ان میں تقویٰ وخوف آخرت کا معیار کم ہونے لگا اور پہلے جیسی سچائی، امانت داری اور دیانت داری نہ رہی، دنیا اور عورت کی خاطر دروغ بیانی ہونے لگی، جس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔

حضرت عمرؓ کے پاس عراق سے ایک سرکاری خط آیا کہ یہاں ایک شخص نے اپنی بیوی کو یہ جملہ کہا ہے ”حبلک علی غاربک“ (تیری رسی تیری گردن پر ہے) حضرت عمر بن خطاب نے اپنے عامل کو لکھا کہ ”ان مرہ ان یوافینی بمکة فی الموسم“ اس کو کہو کہ حج کے زمانہ میں مکہ مکرمہ میں مجھ سے ملے۔ حضرت عمر حج کے زمانہ میں کعبہ کا طواف کررہے تھے کہ اس آدمی (عراقی) نے آپ سے ملاقات کی اور سلام کیا، حضرت عمر نے فرمایا: تم کون ہو، اس نے کہا: میں وہی ہوں جس کو آپ نے حج کے زمانہ میں طلب کیا تھا، حضرت عمر نے فرمایا: تجھے رب کعبہ کی قسم سچ بتا ”حبلک علی غاربک“ سے تیری کیا نیت تھی، اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ نے اگر اس مبارک جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ قسم لی ہوتی تو میں صحیح نہ بتاتا، حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس جملے سے فراق کا یعنی عورت کو اپنے نکاح سے الگ کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا: عورت تیرے ارادے کے مطابق تجھ سے علیحدہ ہوگئی۔

(موطأ امام مالک ص:۵۱۱ ماجاء فی الخلیة والبریة واشباء ذلک بحوالہ فتاویٰ رحیمہ ۴/۳۴۳)

یہ عراقی ایک عورت کے لئے جھوٹی قسم کھانے کے لئے اور دروغ بیانی کے لئے تیار تھا مگر کعبة اللہ اور حرم شریف کی عظمت وتقدس کا خیال رکھتے ہوئے کذب بیانی سے احتراز کیا۔

حضرت عمر نے عوام کی جب یہ حالت دیکھی، نیز آپ کی نظر اس حدیث پر تھی؛

”اکرموا اصحابی فانہم خیارکم، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم، ثم یظہر الکذب حتی ان الرجل یحلف ولایستحلف ویشہد ولایستشہد…الخ“۔
(مشکوٰة المصابیح، باب مناقب الصحابة ج:۳/۵۵۴ ط سعید)

یعنی عہد نبوت سے جیسے جیسے دوری ہوتی چلی جائے گئی، دینداری کم ہوتی رہے گی اور کذب ظاہر ہو گا۔ حضرت عمر نے موجودہ اور آئندہ حالات کو پیش نظر رکھ کر صحابہ سے مشورہ کیا کہ جب ابھی یہ حالت ہے تو آئندہ کیا حالت ہوگی اور لوگ عورت کو الگ کردینے کی نیت سے تین طلاق دیں گے اور پھر غلط بیانی کرکے کہیں گے کہ ہم نے ایک طلاق کی نیت کی تھی۔ آپ نے اس چور دروازے کو بند کرنے کے لئے فیصلہ کیا کہ لوگوں نے ایسی چیز میں جلد بازی شروع کردی جس میں انہیں دیر کرنی چایئے تھی، اب جو شخص تین مرتبہ طلاق دے گا، ہم اسے تین ہی قرار دیں گے۔ صحابہ کرام نے اس فیصلہ سے اتفاق کیا اور کسی ایک نے بھی حضرت عمر کی مخالفت نہ کی، چنانچہ طحاوی شریف میں ہے:

”فخاطب عمربذلک الناس جمیعا وفیہم اصحاب رسول اللہ ا ورضی اللہ عنہم الذین قد علموا ما تقدم من ذلک فی زمن رسول اللہ ا فلم ینکرہ علیہ منہم ولم یدفعہ دافع…“ (ج:۲/۳۴)

محقق علامہ ابن ہمام ؒ فرماتے ہیں:

”ولم ینقل عن احد منہم انہ خالف عمر حین امضی الثلاث وہی یکفی فی الاجماع…“ (حاشیہ ابوداؤد ج:۱/۳۰۶)

یعنی کسی ایک صحابی سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ جب حضرت عمر نے صحابہ کی موجودگی میں تین طلاق کا فیصلہ کیا، ان میں سے کسی ایک نے بھی… حضرت عمر کے خلاف کیا ہو اور اس قدر بات اجماع کے لئے کافی ہے۔ امام نووی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”فاختلف العلماء فی جوابہ وتاویلہ فالاصح ان معناہ انہ کان فی اول الامر اذا قال لہا انت طالق، انت طالق، انت طالق، ولم ینو تاکیداً ولااستینافاً یحکم بوقوع طلقة لقلة ارادتہم الاستنیاف بذلک فحمل علی الغالب الذی ہو ارادة التاکید فلما کان فی زمن عمر وکثر استعمال الناس بہذہ الصیغة وغلب منہم ارادة الاستیناف بہا حملت الاطلاق علی الثلاث عملاً بالغالب السابق الی الفہم…“ 

یعنی حدیث حضرت ابن عباسؓ کی بالکل صحیح تاویل اور اس کی صحیح مراد یہ ہے کہ شروع زمانہ میں جب کوئی انت طالق، انت طالق، انت طالق (یعنی تجھے طلاق، تجھے طلاق، تجھے طلاق) کہہ کر طلاق دیتا تو عموماً اس زمانہ میں دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید (تصدیق confirmation بات پکی کرنے) کی نیت ہوتی تھی، استیناف (يعني دوسری بار شروع کرنے) کی نیت نہ ہوتی تھی، جب حضرت عمرؓ کا زمانہ آیا اور لوگوں نے اس جملہ کا استعمال بکثرت شروع کیا اور عموماً ان کی نیت طلاق کی دوسرے اور تیسرے لفظ سے استیناف ہی کی ہوتی تھی، اس لئے اس جملہ کا جب کوئی استعمال کرتا تو عرف کی بناء پر تین طلاقوں کا حکم کیا جاتا۔
(نووی شرح مسلم ج:۱/۴۷۸ ط قدیمی)


مسئلہ تین طلاق میں حضرت ابنِ عباسؓ کی مختلف معارض احادیث کا جواب:

حدیثِ مسلم میں منقول، قولِ حضرت ابنِ عباسؓ
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکرؓ اور دور خلافت عمرؓ کے دو سال تک تین طلاق ایک ہی شمار کی جاتی تھیں، سو عمر بن خطابؓ نے کہا اس حکم میں جو انہیں مہلت دی گئی تھی جلدی شروع کردی ہے، پس اگر ہم تین ہی نافذ کردیں تو مناسب ہوگا، چنانچہ انہوں نے تین طلاق ہی واقعہ ہو جانے کا حکم دے دیا۔




حدیثِ طحاوی میں منقول قولِ حضرت ابنِ عباسؓ:
پھر یہی حضرت ابنِ عباسؓ اس کے بعد فتویٰ دیتے ہیں کہ جو شخص اپنی بیوی کو بیک وقت تین (٣) طلاقیں دے تو اس کی طلاق لازم ہوجاتے گی اور وہ عورت اس پر حرام ہو جائیگی.
[سنن طحاوی:221+222]


تشریح : 1

شارحِ مسلم امام نوویؒ(٦٣١-٦٧٦ھ )فرماتے ہیں:
المراد أن المعتاد في الزمن الأول کان طلقة واحدة وصار الناس في زمن عمر رضي اللہ عنہ یوقعون الثلاث دفعة فنفذہ فعلی ھذا یکون إخبارا عن اختلاف عادة الناس لا عن تغیر حکم في مسئلة واحدة.
ترجمہ:
مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں نافذ کیا تو اس طور پر یہ حدیث لوگوں کی "عادتوں" کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ واحدہ میں "حکم" کے بدلنے کی اطلاع ہے۔
[شرح مسلم: ج۱ ص۴۷۸]


تشریح  : 2

امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کے استاد امام ابن ابی شیبہؒ نے، پھر امام ابو داودؒ اور امام بیہقیؒ نے اس قول میں یہ بھی روایت کیا ہے کہ یہ اس عورت کے بارے میں ہے جس کی رخصتی نہیں ہوئی۔ امام نسائیؒ نے بھی یہی باب بندھا ہے؛ (بیوی سے دخول/جماع سے قبل تین علیحدہ طلاقیں دینا)
اور امام ابوداؤد نے تو حضرت ابن عباس سے یہ زائد الفاظ روایت کئے ہیں کہ:
إِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا 
ترجمہ:
جب آدمی اپنی بیوی کو دخول(جماع)سے پہلے تین طلاقیں دے دیتا۔
 [ابوداؤد:2199، بیھقی:14985]

اور ایسی عورت کے بارے میں خود حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی وضاحت (ابن_ابی شیبہ : ٥/٢٥) پر موجود ہے کہ اگر اس کو یوں کہا جاۓ تجھے طلاق، طلاق، طلاق، تو اس کی ایک ہی طلاق پڑتی ہے (اس صورت میں دوبارہ نکاح بغیر شرعی حلالہ کے جائز ہے اور سوچ و بچار کی گنجائش ہے) اور اگر یوں اس کو طلاقیں دی جائیں کہ تجھے تین طلاق تو اس سے تین طلاقیں ہی واقع ہوجاتی ہیں، اب بغیر شرعی حلالہ کے اس کے نکاح نہیں ہوسکتا، یہ وہ جلد بازی ہے جس میں سوچ بچار کا موقع نہیں رہتا.

وقد احتج من انتصر لقول الجمهور بأن حديث ابن عباس الواقع في الصحيحين إنما رواه عنه من أصحابه طاوس ، وأن جلة أصحابه رووا عنه لزوم الثلاث ، منهم سعيد بن جبير ، ومجاهد ، وعطاء ، وعمرو بن دينار وجماعة غيرهم ، وأن حديث ابن إسحاق وهم ، وإنما روى الثقات أنه طلق ركانة زوجه البتة لا ثلاثا . 
ترجمہ:
جمہور (علماء کی راۓ و مذھب) کی حمایت کرنے والے یہ استدلال کرتے ہیں کہ صحیحین میں موجود حضرت ابنِ عباسؓ کی حدیث کی روایت ان کے اصحاب میں سے "طاوس" نے کی ہے، جبکہ ان کے بیشتر اصحاب نے، جن میں سعید بن جبیرؒ ، مجاہدؒ ، عطاءؒ اور عمرو بن دینارؒ ہیں اور ان کے علاوہ ایک جماعت نے تین طلاقوں کے واقع ہوجانے کا قول نقل کیا ہے اور (حضرت رکانہؓ کے تین طلاق کے ایک ہونے کی بواسطہ عکرمہؓ کے حضرت ابنَ عباسؓ کی بیان شدہ) ابنِ اسحاق کی حدیث "وہم" ہے، ثقہ(قابل اعتماد) راویوں کے الفاظ تو یہ ہیں کہ حضرت رکانہؓ نے اپنی بیوی کو طلاقِ بتہ (تعلق قطع کرنے والی) دی تھی، اس میں تین کے الفاظ نہیں ہیں۔

طلاقِ بتہ کا مطلب:
طلاق بتہ کیا ہوتی ہے؟ اگرچہ اس کی مختلف تعریفیں بیان کی گئی ہیں‘ امام ترمذی اختلاف کیا ہے اہل علم نے طلاق بتہ میں کہ حضرت علی سے مروی ہے کہ وہ تین طلاق ہیں اور حضرت عمر سے کہ وہ ایک طلاق ہے جبکہ حضرت رکانہ کی حدیث کی حدیث سے یہ بات ثابت ہے ہے کہ حضرت رکانہ کی طلاق کو حضورۖ نے ایک اس وقت قرار دیا جبکہ انہوں نے حلف کے ساتھ بیان دیا کہ میری نیت تین طلاق کی نہیں تھی۔
تاہم ان سب سے بہتر تعریف وہ ہے جو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمائی کہ:
لَوْ كَانَ الطَّلَاقُ أَلْفاً، مَا أَبْقَتِ الْبَتَّةُ مِنْهُ شَيْئاً. مَنْ قَالَ الْبَتَّةَ، فَقَدْ رَمَى الْغَايَةَ الْقُصْوَى۔
ترجمہ:
’’اگر طلاق ایک ہزار تک درست ہوتی تو بتہ اس میں سے کچھ باقی نہ رکھتا۔ جس نے بتہ کہا تو وہ انتہا کو پہنچ گیا۔
[موطأ مالك - رواية يحيى - ت الأعظمي:2023، أخرجه أبو مصعب الزهري، 1568 في الطلاق؛ والحدثاني، 343 في الطلاق، كلهم عن مالك به]
[الأم للشافعي:5/ 149][مصنف ابن أبي شيبة:18147+18148]















































یہ ہے حدیث حضرت ابن عباسؓ کا مطلب محدثین کی نظر میں اور یہی تشریح اور مقصد صحیح ہے۔ جو مطلب غیر مقلدین بیان کرتے ہیں، وہ صحیح نہیں۔ اس لئے کہ راوی حدیث حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے خود تین طلاقوں کے نفاذ کا فتویٰ دیا ہے، جیساکہ مذکور ہوچکا ہے۔

علامہ ابن قیمؒ نے بھی باوجود اس تشدد وتصلب کے جوان کو اس مسئلہ میں تھا، حضرت ابن عباسؓ کے اس فتویٰ ”ایک مجلس میں تین طلاقیں تین ہیں اور اس کے بعد رجعت جائز نہیں“ سے انکار نہیں کیا، بلکہ اس فتویٰ کے ثابت ہونے کا صاف اقرار کیا ہے۔ چنانچہ (اغاثة اللفہان) میں فرماتے ہیں:
”فقد صح بلاشک ابن مسعود وعلی ابن عباس الالزام بالثلاث ان اوقعہا جملة“۔ (ص:۱۷۹)
اور چونکہ یہ مسئلہ حلال وحرام کے متعلق ہے، اگر واقعی تین کو ایک سمجھا جاتا تو اس کے راوی صرف حضرت ابن عباسؓ ہی کیوں ہیں، ان کے علاوہ دوسرے صحابہ کرامؓ سے اس کے بارے میں کوئی روایت نہیں ہے، جبکہ ان سے بڑے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروقؓ اس کے برخلاف فیصلہ فرماتے ہیں اور یہ صحابہ کرام کے سامنے کی بات ہے اور ایک صحابی نے بھی اس حکم کے خلاف نہیں کیا جس سے اس مسئلہ پر ان کا اجماع معلوم ہوتا ہے۔ الغرض تین طلاقیں شرعاً واقع ہوچکی ہیں، بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ سے حرام ہوگئی ہے، گمراہ لوگوں سے فتویٰ لے کر حرام کو حلال بنانے کی کوشش کرنا بدترین گناہ ہے، لہذا دونوں میں علیحدگی ضروری ہے، بصورت دیگر اگر ایک ساتھ رہے تو حرام کے اندر مبتلا ہوں گے چنانچہ حدیث میں ہے:

بیوی سے زنا کیسے؟
”وَمن أَعْلَام السَّاعَة… وَأَن يكثر أَوْلَاد الزِّنَا قيل لِابْنِ مَسْعُود وهم مُسلمُونَ قَالَ نعم يَأْتِي على النَّاس ‌زمَان يُطلق الرجل الْمَرْأَة طَلاقهَا فيقيم على فرشها ‌فهما ‌زانيان مَا أَقَامَا“۔ 
ترجمہ:
…اور قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ زنا کی اولاد کی کثرت ہوجائے گی، پوچھا گیا حضرت ابن مسعود سے کیا وہ مسلمان ہوں گے؟ فرمایا: ہاں! وہ مسلمان ہوں گے، ایک زمانہ آئے گا لوگوں پر کہ مرد اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا، لیکن پھر بھی اس کے ساتھ اس کے بستر پر رہے گا جب تک دونوں اس طرح رہیں گے زنا کار ہوں گے“۔
[الخصائص الكبرى-السيوطي(م911ھ) : جلد 2 / صفحہ 270]

حرامہ کیا ہے؟
قَالَ: «يَأْتِي عَلَى النَّاسِ ‌زَمَانٌ يُطَلِّقُ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ، ثُمَّ يَجْحَدُ طَلَاقَهَا فَيُقِيمُ عَلَى فَرْجِهَا، ‌فَهُمَا ‌زَانِيَانِ مَا أَقَامَا»
ترجمہ:
…فرمایا کہ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ مرد اپنی بیوی کو طلاق دے گا پھر طلاق دینے سے انکار کرے گا پھر اس سے ہم بستری کرتا رہے گا پس جب تک وہ دونوں اس طرح رہیں گے زناکار ہوں گے“۔
[المعجم الكبير للطبراني(م360ھ): حدیث نمبر 10556, المعجم الأوسط للطبراني:4861]
[ترتيب الأمالي الخميسية للشجري(م499ھ): حدیث نمبر 2803]

لہذا صورت مسئولہ میں سائل کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی تھیں، سائل نے بغیر حلالہ شرعی جو دوبارہ نکاح کرکے ایک عرصہ ساتھ گذاراہے، دونوں حرام کاری میں مبتلا رہے، فی الفور علیحدگی کے بعد دونوں پر توبہ و استغفار لازم ہے۔






کیا قرآن حکیم سے بیک وقت تین طلاق کا ثبوت نہیں؟



اسلام دین فطرت اور ایک جامع نظام زندگی ہے جو راستی وسچائی کا آخری بیان ہونے کی بنا پر کسی ترمیم وتبدیلی کی گنجائش نہیں رکھتا۔ اس کی تعلیمات میں ایک طر ف صلابت وقطعیت ہے تو دوسری طرف وہ اپنے اندر بے کراں جامعیت اور ہمہ گیری لیے ہوئے ہے۔ جس میں ہردم رواں پیہم دواں زندگی کے مسائل کے حل کی بھرپور صلاحیت ہے۔
قرآن حکیم جو خدائے لم یزل کا ابدی فرمانِ ہدایت ہے اصول وکلیات سے بحث کرتا ہے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان وحیِ ترجمان سے ان اصول وکلیات کی تشریح وتوضیح فرمائی ہے اور اپنے معصوم عمل سے ان کی تطبیق وتنفیذ کا مثالی نمونہ پیش کیاہے۔ صحابہٴ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین وتابعین عظام، ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین قانون اسلامی کے انھیں دونوں ماخذوں یعنی کتاب وسنت کی روشنی میں اجماع واجتہاد کے ذریعہ اپنے اپنے دور میں پیش آمدہ مسائل وحوادث کا حل امت کے سامنے پیش کرتے رہے جس کا سلسلہ علماء حق کے ذریعہ کسی نہ کسی حد تک آج بھی جاری ہے۔
مغربی تہذیب جس کی بنیاد ہی اباحیت اور مذہبی واخلاقی قدروں کی پامالی پر ہے بدقسمتی سے آج پوری دنیا پر حاوی ہے۔ جس سے ہمارا ملک بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ مغربی تہذیب کی اسی اباحیت پسندی کی بنا پر آج کل بے ضرورت مسائل کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور ملک کا روشن خیال طبقہ جو نہ صرف مغربی تہذیب کادلدادہ ہے؛ بلکہ اس کا ترجمان ونمائندہ بھی ہے۔ ان بے ضرورت مسائل کو اٹھاتا رہتا ہے، حتیٰ کہ ایسے مسائل جو عہد صحابہ میں اجماعی طور پر طے پاچکے ہیں ان میں بھی تشکیک والتباس اور شکوک وشبہات ظاہر کرکے (جس کی انھیں بہ طور خاص تعلیم دی گئی ہے) ان کے لیے علماء سے من چاہے فتویٰ وفیصلہ کا ناروا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔
مزید برآں عربی زبان وادب، قرآن وحدیث اور ان سے متعلق ضروری علم سے واجبی واقفیت کے بغیر یہ طبقہ دینی وشرعی مسائل میں اجتہاد کے فرائض انجام دینے کے خبط میں بھی مبتلا ہے اور کوشاں ہے کہ ائمہ مجتہدین وسلف صالحین کے بے لوث جہدوعمل کے ثمرات اور ان کی مخلصانہ کاوش سے حاصل شدہ متاع گراں مایہ جو مختلف مذاہب فقہ کی شکل میں امت کے پاس موجود ہے اسے نذر آتش کرکے از سر نو مسائل کے حل تلاش کیے جائیں؛ چنانچہ ”طلاق ثلاث“ کا مسئلہ اس کی زندہ مثال ہے جو آج کل ہمارے ان روشن خیال دانشوروں کی اجتہاد پسند اور ا باحیت نواز فکر ونظر سے گزرکر زبان وقلم کا ہدف بنا ہوا ہے اور عورتوں کی مفروضہ مظلومیت کا نام لے کر اسلام اور علماء اسلام کو دل کھول کر طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہا ہے، ایک ایسا مسئلہ جو چودہ سو برس پہلے طے پاچکا ہے جسے تمام صحابہ، جمہور تابعین، تبع تابعین، اکثر محدثین، فقہاء مجتہدین، بالخصوص ائمہ اربعہ اور امت کے سواد اعظم کی سند قبولیت حاصل ہے جس کی پشت پر قرآن محکم اور نبی مرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث قویہ ہیں۔ اس کے خلاف آواز اٹھاکر اور عامة المسلمین کو اس کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا کرکے یہ اسلام کے نادان دوست اسلام کی کون سی خدمت انجام دینا چاہتے ہیں خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ ان لوگوں کو قطعاً اس کی پرواہ نہیں ہے کہ ان کے اس طرز عمل کا سلف پر کیا اثر پڑے گا، ان کے متعلق عوام کا کیا تصور قائم ہوگا اور ان اکابر اسلام پر عوام کا اعتماد باقی رہے گا یا نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ان کے اس غیر معقول رویہ سے نہ صرف ملت کی تضحیک ہورہی ہے؛ بلکہ اسلام مخالف عناصر کے لیے مسلم پرسنل لاء میں ترمیم وتبدیلی کا جواز بھی فراہم ہورہاہے؛ مگر ہمارے یہ دانشور چپ وراست سے آنکھیں بند کرکے شوقِ اجتہاد اور جوشِ تجدد میں اپنے ناوک قلم سے دینی احکام ومسائل میں رخنہ اندازی میں مصروف ہیں۔ (فالی اللّٰہ المشتکی)
نکاح کی اہمیت
اسلامی شریعت میں نکاح کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن وحدیث میں اس سے متعلق خصوصی احکامات صادر ہوئے ہیں اور ان کی ترغیب صریح ارشادات نبوی میں موجود ہے۔ ایک طویل حدیث کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فمن رغب عن سنتی فلیس منی“ جو میری سنت نکاح سے اعراض کرے گا وہ میرے طریقہ سے خارج ہے۔ (بخاری شریف، ج:۲، ص:۵۵۷)
ایک اور حدیث میں فرمایا ”ان سنتنا النکاح“ نکاح ہماری سنت ہے۔ (مسند امام احمد، ج:۵، ص:۱۶۳)
ایک حدیث میں نکاح کو تکمیل ایمان کا ذریعہ بتایا گیا ہے، خادم رسول انس بن مالک راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”من تزوج فقد استکمل نصف الایمان فلیتق اللّٰہ فی النصف الباقی“
جس نے نکاح کرلیا اس نے اپنے نصف ایمان کی تکمیل کرلی؛ لہٰذا اسے چاہیے کہ بقیہ نصف کے بارے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔ (مشکوٰة ۲۶۷ وجمع الفوائد ج۱، ص۲۱۶)
انھیں جیسی احادیث کے پیش نظر امام اعظم ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ نے عبادات نافلہ میں اشتغال کے مقابلہ میں نکاح کو افضل قرار دیا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ نکاح کی ایک حیثیت اگر باہمی معاملہ کی ہے تو اسی کے ساتھ عام معاملات و معاہدات سے بالاتر یہ سنت وعبادت کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ نکاح کی اسی خصوصی اہمیت کی بنا پر اس کے انعقاد اور وجود پذیر ہونے کے لیے باجماع کچھ ایسے آداب اور ضروری شرائط ہیں جو دیگر معاملات، خرید وفروخت وغیرہ میں نہیں ہیں، مثلاً ہر عورت اور ہر مرد سے نکاح درست نہیں، اس سلسلے میں اسلامی شریعت کا ایک مستقل قانون ہے جس کی رو سے بہت سی عورتوں اور مردوں کا باہم نکاح نہیں ہوسکتا۔ دیگر معاملات کے منعقد ومکمل ہونے کے لیے گواہی شرط نہیں ہے، جب کہ نکاح کے انعقاد کے واسطے گواہوں کا موجود ہونا شرط ہے، اگر مرد وعورت بغیر گواہوں کے نکاح کرلیں تو یہ نکاح قانونِ شرع کے لحاظ سے باطل اور کالعدم ہوگا۔
یہ خصوصی احکام اور ضروری پابندیاں بتارہی ہیں کہ معاملہٴ نکاح کی سطح دیگر معاملات و معاہدات سے بلند ہے، شریعت کی نگاہ میں یہ ایک بہت ہی سنجیدہ اور قابلِ احترام معاملہ ہے جو اس لیے کیا جاتا ہے کہ باقی رہے، یہاں تک کہ موت ہی زوجین کو ایک دوسرے سے جدا کردے۔ یہ ایک ایسا قابلِ قدر رشتہ ہے، جو تکمیلِ انسانیت کا ذریعہ اور رضائے الٰہی واتباعِ سنت کا وسیلہ ہے، جس کے استحکام پر گھر، خاندان اور معاشرے کا استحکام موقوف ہے اور جس کی خوبی وخوشگواری پر معاشرے کی خوبی وبہتری کا دارومدار ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے انقطاع اور ٹوٹنے سے صرف فریقین (میاں بیوی) ہی متاثر نہیں ہوتے؛ بلکہ اس سے پورے نظام خانگی کی چولیں ہل جاتی ہیں اور بسا اوقات خاندانوں میں فساد ونزاع تک کی نوبت پہنچ جاتی ہے جس سے معاشرہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اسی بناء پر بغیر ضرورت طلاق (جو رشتہٴ نکاح کو منقطع کرنے کا شرعی ذریعہ ہے) خدائے دوجہاں کے نزدیک ایک ناپسندیدہ اورناگوار عمل ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”أبغض الحلال الی اللّٰہ عز وجل الطلاق“ اللہ کی حلال کردہ چیزوں میں طلاق سے زیادہ مبغوض اور کوئی چیز نہیں۔ (سنن ابی داؤد ج۱، ص۳۰۲، المستدرک للحاکم ج۲، ص۱۶۹ وقال الذہبی صحیح علی شرط مسلم)
اسلام کا ضابطہٴ طلاق
اس لیے جو اسباب ووجوہ اس بابرکت اور محترم رشتہ کو توڑنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، انھیں راہ سے ہٹانے کا کتاب وسنت کی تعلیمات نے مکمل انتظام کردیا ہے۔ زوجین کے باہمی حالات ومعاملات سے متعلق قرآن وحدیث میں جو ہدایتیں دی گئی ہیں، ان کا مقصد یہی ہے کہ یہ رشتہ کمزور ہونے کی بجائے پائیدار اور مستحکم ہوتا چلا جائے۔ ناموافقت کی صورت میں افہام وتفہیم، پھر زجر وتنبیہ اور اگر اس سے کام نہ چلے اور بات بڑھ جائے تو خاندان ہی کے افراد کو حکم وثالث بناکر معاملہ طے کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
لیکن بسااوقات حالات اس حد تک بگڑ جاتے ہیں کہ اصلاح حال کی یہ ساری کوششیں بے سود ہوجاتی ہیں اور رشتہ ازدواج سے مطلوب ثمرات وفوائد حاصل ہونے کے بجائے زوجین کا باہم مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے۔ ایسی ناگزیر حالت میں ازدواجی تعلق کا ختم کردینا ہی دونوں کے لیے؛ بلکہ پورے خاندان کے لیے باعث راحت ہوتا ہے، اس لیے شریعت اسلامی نے طلاق اور فسخ نکاح کا قانون بنایا، جس میں طلاق کا اختیار صرف مرد کو دیاگیا جس میں عادتاً وطبعاً عورت کے مقابلہ میں فکر وتدبراور برداشت وتحمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے، علاوہ ازیں مرد کی قوامیت وافضلیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہ اختیار صرف اسی کو حاصل ہو؛ لیکن عورت کو بھی اس حق سے یکسر محروم نہیں کیا کہ وہ ”کالمیت فی ید الغسال“ شوہر کے ہر ظلم و جور کا ہدف بنی رہے اور اپنی رہائی کے لیے کچھ نہ کرسکے؛ بلکہ اسے بھی یہ حق دیا کہ شرعی عدالت میں اپنا معاملہ پیش کرکے قانون کے مطابق طلاق حاصل کرسکتی ہے یا نکاح فسخ کراسکتی ہے۔
پھر مرد کو طلاق کا اختیار دے کر اسے بالکل آزاد نہیں چھوڑدیا؛ بلکہ اسے تاکیدی ہدایت دی کہ کسی وقتی وہنگامی ناگواری میں اس حق کو استعمال نہ کرے، اس پر بھی سخت تنبیہ کی گئی کہ حق طلاق کو دفعتاً استعمال کرنا غیر مناسب اورنادانی ہے؛ کیونکہ اس صورت میں غور وفکر اور مصالح کے مطابق فیصلہ لینے کی گنجائش ختم ہوجائے گی، جس کا نتیجہ حسرت وندامت کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی بھی تاکید کی گئی کہ حیض کے زمانہ میں یا ایسے طہر میں جس میں ہم بستری ہوچکی ہے طلاق نہ دی جائے؛ کیونکہ اس صورت میں عورت کو خوامخواہ طول عدت کا ضرر پہنچ سکتا ہے؛ بلکہ اس حق کے استعمال کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جس طہر میں ہم بستری نہیں کی گئی ہے ایک طلاق دے کر رک جائے، عدت پوری ہوجانے پر رشتہ نکاح ختم ہوجائے گا۔ دوسری یا تیسری طلاق کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اگر دوسری یا تیسری طلاق دینی ہی ہے تو الگ الگ طہر میں دی جائے۔
پھر معاملہ نکاح کے توڑنے میں یہ لچک رکھی کہ ایک یا دو بار صریح لفظوں میں طلاق دینے سے فی الفور نکاح ختم نہیں ہوگا؛ بلکہ عدت پوری ہونے تک یہ رشتہ باقی رہے گا۔ دوران عدت اگر مرد طلاق سے رجوع کرلے تو نکاح سابق بحال رہے گا، جب کہ دیگر معاملات بیع وشراء وغیرہ میں یہ گنجائش نہیں ہے۔ نیز عورت کو ضرر سے بچانے کی غرض سے حق رجعت کو بھی دوطلاق تک محدود کردیاگیا؛ تاکہ کوئی شوہر محض عورت کو ستانے کے لیے ایسا نہ کرسکے کہ ہمیشہ طلاق دیتا رہے اور رجعت کرکے قید نکاح میں اسے محبوس رکھے؛ بلکہ شوہر کو پابند کردیاگیا کہ اختیار رجعت صرف دو طلاقوں تک ہی ہے، تین طلاقوں کی صورت میں یہ اختیار ختم ہوجائے گا؛ بلکہ فریقین اگر باہمی رضا سے نکاح ثانی کرنا چاہیں تو ایک خاص صورت کے علاوہ یہ نکاح درست اور حلال نہیں ہوگا۔ آیت پاک ”الطلاق مرتان“ اور ”فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ“ میں یہی قانون بیان کیاگیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی نے تیسری طلاق دے دی تو معاملہ نکاح ختم ہوگیا اور اب مرد کو نہ صرف یہ کہ رجعت کا اختیار نہیں؛ بلکہ تین طلاقوں کے بعد اگریہ دونوں باہمی رضا سے پھر رشتہٴ نکاح میں منسلک ہونا چاہیں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے تاوقتیکہ یہ عورت عدتِ طلاق گزارکر دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے، نیز حقوقِ زوجیت سے بہرہ ور ہوتے ہوئے دوسرے شوہر کے ساتھ رہے پھر اگر اتفاق سے یہ دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے یا وفات پاجائے تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے۔ آیت کریمہ ”فان طلقہا فلا جناح علیہما ان یتراجعا“ میں اسی نکاحِ جدید کا بیان ہے۔ یعنی پھر اگر یہ دوسرا شوہر اس کو طلاق دے دے تو ان پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ دوبارہ باہم رشتہٴ ازدواج قائم کرلیں۔ شریعتِ اسلامی کے وضع کردہ اس ضابطہٴ طلاق پر اگر پورے طور پر عمل کیا جائے تو طلاق دینے کے بعد نہ کسی شوہر کو حسرت وندامت سے دوچار ہونا پڑے گا اورنہ ہی کثرتِ طلاق کی یہ وبا باقی رہے گی، جس کے نتیجہ میں طرح طرح کے ناگوار مسائل پیدا ہوتے ہیں جو نہ صرف مسلم معاشرہ کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں؛ بلکہ اسلام مخالف عناصر کو اسلامی قانونِ طلاق میں کیڑے نکالنے اور طعنہ زنی کا موقع فراہم کررہے ہیں۔ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ کا ارشاد ہے: ”لو ان الناس اصابو احد الطلاق ما ندم رجل طلق امرأتہ“ اگر لوگ طلاق سے متعلق پابندیوں پر قائم رہیں تو کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے کر گرفتار ندامت نہیں ہوگا۔ (احکام القرآن جصاص رازی ج۱، ص۳۸۷)
اس موقع پرایک سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ اگر کسی نے ازراہِ حماقت وجہالت طلاق کے مستحسن اور بہتر طریقہ کو چھوڑ کر غیر مشروع طور پر طلاق دے دی، مثلاً الگ الگ تین طہروں میں طلاق دینے کے بجائے ایک ہی مجلس میں یا ایک ہی تلفظ میں تینوں طلاقیں دے ڈالیں تو اس کا اثر کیا ہوگا؟
آج کل ایک خاص مقصد کے تحت ایک مخصوص طبقہ مختلف ذرائع سے عامة المسلمین کو یہ باور کرانے کی کوشش میں مصروف ہے کہ ایک مجلس یا ایک تلفظ میں دی گئی تین طلاقیں شرعاً ایک ہی شمارہوں گی اور اس طرح دی گئی تین طلاقوں کے بعد ازدواجی تعلق برقرار اور شوہر کو رجعت کا اختیار باقی رہے گا؛ جب کہ ظاہر قرآن، احادیث صحیحہ، آثار صحابہ اور اقوال فقہاء ومحدثین سے ثابت ہے کہ مجلسِ واحد یا کلمہٴ واحدہ کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔ شریعتِ اسلامی کا یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر عہدِ فاروقی میں حضراتِ صحابہ کا اجماع واتفاق ہوچکا ہے، جس کے بعد اختلاف کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ اسی بنا پر ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بیک زبان کہتے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق چاہے بیک لفظ دی جائیں یا الگ الگ لفظوں سے واقع ہوجاتی ہیں اور تین طلاقوں کے بعد چاہے، وہ جس طرح بھی دی گئی ہوں رجعت کرنا ازروئے شرع ممکن نہیں ہے۔ یہی جمہور سلف وخلف کا مسلک ہے۔ ذیل میں اس مسئلہ سے متعلق قرآن کی تین آیتوں کی تفسیرپیش کی جارہی ہیں۔
(۱)     آیت پاک الطلاق مرتان الخ کی تفسیر
مسئلہ زیربحث میں ضروری ہے کہ سب سے پہلے قرآن حکیم کی ”آیت طلاق“ پر غور کرلیا جائے؛ کیونکہ مسئلہٴ طلاق میں اس کی حیثیت ایک بنیادی ضابطہ اور قانون کی ہے۔ اس آیت کی تفسیر وتاویل معلوم ہوجانے سے انشاء اللہ مسئلہ کی بہت ساری گتھیاں از خود سلجھ جائیں گی۔
عہدِ جاہلیت میں طلاقیں دینے اور پھر عدت میں رجوع کرلینے کی کوئی حد نہیں تھی، سیکڑوں طلاقیں دی جاسکتی تھیں اور پھر عدت کے اندر رجوع کیاجاسکتا تھا، بعض لوگ جنھیں اپنی بیویوں سے کسی بناء پر کدہوجاتی اور وہ انھیں ستانا اور پریشان کرنا چاہتے تو طلاقیں دے دے کر عدت میں رجوع کرتے رہتے تھے، نہ خود ان کے ازدواجی حقوق ادا کرتے اورنہ انھیں آزاد کرتے اور اس طرح وہ مجبور محض اور بے بس ہوکر رہ جاتی تھیں، جب تک طلاق سے متعلق اسلام میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا مسلمانوں میں بھی طلاق کایہی طریقہ جاری رہا، امام قرطبی لکھتے ہیں: ”وکان ہذا اوّل الاسلام برہة“ (جامع احکام القرآن ج۳، ص۱۲۶) ابتدائے اسلام میں ایک عرصہ تک یہی طریقہ رائج رہا۔
اخرج البیہقی بسندہ عن ہشام ہِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ: ”کَانَ الرَّجُلُ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ مَا شَاءَ أَنْ یُطَلِّقَہَا وَإِنْ طَلَّقَہَا مِائَةً أَوْ أَکْثَرَ إِذَا ارْتَجَعَہَا قَبْلَ أَنْ تَنْقَضِیَ عِدَّتُہَا حَتَّی قَالَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِہِ لَا أُطَلِّقُکِ فَتَبِینِی وَلَا أُؤْوِیکِ إِلِیَّ قَالَتْ: وَکَیْفَ ذَاکَ؟ قَال: أُطَلِّقُکِ فَکُلَّمَا ہَمَّتْ عِدَّتُکِ أَنْ تَنْقَضِیَ ارْتَجَعْتُکِ وَأَفْعَلُ ہَکَذَا! فَشَکَتِ الْمَرْأَةُ ذَلِکَ إِلَی عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فَذَکَرَتْ عَائِشَةُ ذَلِکَ رسول اللّٰہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَکَتَ فَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا حَتَّی نَزَلَ الْقُرْآنُ (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ) الآیة، فَاسْتَأْنَفَ النَّاسُ الطَّلَاقَ فَمَنْ شَاءَ طَلَّقَ وَمَنْ شَاءَ لَمْ یُطَلِّقْ“ وَرَوَاہُ أَیْضًا قُتَیْبَةُ بْنُ سَعِیدٍ وَالْحُمَیْدِیُّ عَنْ یَعْلَی بْنِ شَبِیبٍ وَکَذَلِکَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ یَسَارٍ بِمَعْنَاہُ وَرُوِیَ نُزُولُ الآیَةِ فِیہِ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا (سنن الکبریٰ للبیقہی مع الجوہر النقی ج۷، ص۳۳۳ مطبوعہ حیدرآباد)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مرد اپنی بیوی کو جتنی طلاقیں دینا چاہتا دے سکتا تھا، اگرچہ وہ طلاقیں سیکڑوں تک پہنچ جائیں ، بشرطیکہ عدت پوری ہونے سے پہلے رجوع کرلے، یہاں تک کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں تجھے اس طرح طلاق نہ دوں گا کہ تو مجھ سے الگ ہوجائے اورنہ میں تجھے اپنی پناہ ہی میں رکھوں گا، اس عورت نے پوچھا کہ یہ معاملہ تم کس طرح کروں گے، اس نے جواب دیا: میں تجھے طلاق دوں گا اور جب عدت پوری ہونے قریب ہوگی تو رجوع کرلوں گا، طلاق اور رجعت کا یہ سلسلہ جاری رکھوں گا، اس عورت نے اپنے شوہر کی اس دھمکی کی شکایت حضرت عائشہ سے کی، حضرت عائشہ نے اس کا ذکر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سن کر خاموش رہے اس پر کچھ فرمایا نہیں؛ تاآنکہ قرآن حکیم کی آیت (الطلاق مرتان الخ) نازل ہوگئی، تو اس وقت سے لوگوں نے آیت کے مطابق طلاق کی ابتدا کی جس نے چاہا اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور جس نے چاہا نہ دی، امام بیہقی کہتے ہیں کہ اس روایت کو قتیبہ بن سعید اور حمیدی نے بھی یعلی بن شبیب کے واسطہ سے نقل کیا ہے، اسی طرح محمد ابن اسحاق امام المغازی نے ہشام کے واسطہ سے حضرت عائشہ سے الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ اسے بیان کیا ہے۔
وأخرج ابن مردویة بسندہ عن عائشة قالت لم یکن للطلاق وقت یطلق الرجل امرأة ثم یراجعہا مالم تنقص العدة فوقت لہم الطلاق ثلاثا یراجعہا فی الواحدة والثنتین ولیس فی الثالثة رجعة حتی تنکح زوجا غیرہ (تفسیر ابن کثیر ج۱، ص۲۷۲)
”حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ طلاق کی کوئی حد نہیں تھی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے کر عدت کے اندر رجوع کرلیا کرتاتھا تو ان کے لیے تین طلاق کی حد مقرر کردی گئی ایک اور دو طلاقوں تک رجعت کرسکتا ہے، تیسری کے بعد رجعت نہیں تاوقتیکہ مطلقہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے۔“
اس روایت کے بارے میں حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے ورواہ الحاکم فی مستدرکہ وقال صحیح الاسناد، اس روایت کو امام حاکم نے مستدرک میں نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔
حضرت ابن عباس کی روایت ہے:
أخرج أبوداوٴد عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما ”المطلقات یتربصن فانفسہن ثلاثة قروء ولا یحل لہن أن یکتمن ما خلق اللّٰہ فی أرحامہن“ الآیة وذلک أن الرجل کان اذا طلق امرأتہ فہو أحق برجعتہا وان طلقہا ثلاثًا فنسخ ذلک فقال ”الطلاق مرتان“ (بذل المجہود شرح سنن أبو داود باب فی سنخ المراجعة بعد التطلیقات الثلاث ج۲، ص۶۱)
”مطلقہ عورتیں انتظار میں رکھیں اپنے آپ کو تین حیض تک اور انھیں حلال نہیں اس چیز کا چھپانا جواللہ نے ان کے رحم میں پیدا کی ہے، دستور یہ تھا کہ مرد جب اپنی بیوی کو طلاق دیتا تو رجعت کا حق رکھتا تھا، اگرچہ تین طلاقیں دی ہوں پھر اس طریقہ کو منسوخ کردیاگیا، اللہ جل شانہ نے فرمایا: الطلاق مرتان، یعنی طلاق رجعی دو ہیں۔
الفاظ کے فرق کے ساتھ سبب نزول سے متعلق اسی طرح کی روایتیں موطا امام مالک اور جامع ترمذی اور تفسیر طبری وغیرہ میں بھی ہیں، ان تمام روایتوں کا حاصل یہ ہے کہ آیت کریمہ ”الطلاق مرتان“ کے ذریعہ قدیم طریقہ کو منسوخ کرکے طلاق اور رجعت دونوں کی حد متعین کردی گئی کہ طلاق کی تعداد تین ہے اور رجعت دو طلاقوں تک کی جاسکتی ہے اس کے بعد رجعت کا اختیار ختم ہوجائے گا ”فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ“ دو کے بعد اگر تیسری طلاق دے دی تو بیوی حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ کسی مرد سے نکاح کرلے، حدیث میں ”تنکح زوجا غیرہ“ کی تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ دوسرا شوہر لطف اندوز صحبت بھی ہو۔
قدوة المفسرین امام ابن جریر طبری متوفی ۳۰۹ھ سبب نزول کی روایت متعدد سندوں سے ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
فتاویل الآیة علی ہذا الخبر الذی ذکرنا، عدد الطلاق الذی لکم أیہا الناس فیہ علی ازواجکم الرجعة اذا کن مدخولا بہن تلطیقتان ثم الواجب بعد التطلیقتین امساک بمعروف او تسریح باحسان لانہ لا رجعة لہ بعد التطلیقتین ان سرحہا فطلقہا الثلاث
”آیت پاک کی تفسیر ان روایتوں کے پیش نظر جو ہم نے اوپر ذکر کی ہیں یہ ہے کہ طلاق کی وہ تعداد جس میں تمھیں اے لوگو اپنی مطلقہ بیویوں سے رجعت کا حق ہے؛ جبکہ ان سے ہم بستری ہوچکی ہو دو طلاقیں ہیں۔ ان دو طلاقوں کے بعد خوش اسلوبی کے ساتھ نکاح میں روک لینا ہے یا حسن سلوک کے ساتھ چھوڑ دینا ہے، اس لیے کہ دو طلاقوں کے بعد رجعت نہیں ہے، اگر چھوڑنا چاہے تو تیسری طلاق دے دے۔“
اس کے بعد آیت سے متعلق دوسرا قول ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
وقال الآخرون انما انزل ہذہ الآیة علی نبی اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) تعریفاً من اللّٰہ تعالیٰ ذکرہ عبادہ سنة طلاقہم نسائہم اذا ارادوا طلاقہن لا دلالتہ علی القدر الذی تبین بہ المرأة من زوجہا وتاویل الآیة علی قول ہٰوٴلاء سنة الطلاق التی سنتہا وابحتہا لکم ان اردتم طلاق نسائکم ان تطلقوہن ثنتین فی کل طہر واحدة ثم الواجب بعد ذلک علیکم اما ان تمکسوہن بمعروف او تسرحوہن باحسان
”اور دیگر حضرات فرماتے ہیں کہ یہ آیت منجانب اللہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اللہ کی طرف سے بندوں کو اپنی بیویوں کو طریقہ طلاق سکھانے کے لیے، اس آیت کا مقصد طلاق بائن کی تعداد بیان کرنا نہیں ہے، ان حضرات کے اس قول کے تحت آیت کی تفسیر یہ ہوگی کہ طلاق کا طریقہ جو میں نے جاری اور تمہارے لیے مباح کیا، یہ ہے کہ اگر تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو انھیں دو طلاقیں ایک ایک طہر میں دو، ان دو طلاقوں کے بعد تم پر واجب ہوگا کہ انھیں دستور شرعی کے مطابق روک لو یا خوبصورتی کے ساتھ چھوڑ دو۔“
شان نزول سے متعلق ان دونوں روایتوں ا ور ان کے تحت آیت کی تفسیر نقل کرنے کے بعد اپنی ترجیحی رائے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
(۱) والذی أولی بظاہر التنزیل ما قالہ عروة وقتادة ومن قال مثل قولہما من ان الآیة انما ہی دلیل علی عدد الطلاق الذی یکون بہ التحریم وبطلان الرجعة فیہ والذی یکون فیہ الرجعة منہ وذلک ان اللّٰہ تعالیٰ ذکرہ قال فی الآیة التی تتلوہا ”فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ“ فعرف عبادہ القدر الذی بہ تحرم المرأة علی زوجہا الا بعد زوج ولم یبین فیہا الوقت الذی یجوز الطلاق فیہ والوقت الذی لایجوز فیہ (جامع البیان فی تفسیر القرآن، ج۳، ص۲۵۹)
”ظاہر قرآن سے زیادہ قریب وہی بات ہے جو عروہ، قتادہ وغیرہ نے کہی ہے، یعنی یہ آیت دلیل ہے اس عددطلاق کی جس سے عورت حرام اور رجعت کرنی باطل ہوجائے گی اور جس طلاق کے بعد رجعت ہوسکتی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے بعد ”فان طلّقہا فلا تحل لہ“ کا ذکر کرکے بندوں کو طلاق کی اس تعداد کو بتایا ہے جس سے عورت اپنے شوہر پر حرام ہوجائے گی؛ مگر یہ کہ دوسرے شوہر سے رشتہٴ نکاح قائم کرلے، اس موقع پر ان اوقات کا ذکر نہیں فرمایا ہے جن میں طلاق جائز اورناجائز ہوتی ہے۔“
امام ابن جریر طبری کے علاوہ حافظ ابن کثیر اورامام رازی نے بھی اسی تفسیر کو راجح قرار دیاہے، نیز علامہ سید آلوسی حنفی نے اس کو ”الیق بالنظم و اوفق بسبب النزول“ (یعنی نظم قرآن سے زیادہ مناسب اور سبب نزول سے خوب چسپاں ہے) بتایا ہے۔ (روح المعانی ج۲، ص۱۳۵)
آیت پاک ”الطلاق مرتان“ کی اس تفسیر کا (جسے امام طبری وغیرہ نے اولیٰ اور راجح قرار دیا ہے) سبب نزول سے موافق ہونا تو ظاہر ہے، رہی بات نظم قرآن کے ساتھ اس تفسیر کی مناسبت ومطابقت کی تو اس کو سمجھنے کے لیے آیت کے سیاق وسباق پر نظر ڈالیے، آیت زیر بحث سے پہلے ”والمطلقات یتربصن بانفسہن ثلثة قروء“ کا ذکر ہے طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں تین حیض تک ”بعد ازاں اس مدت انتظار میں شوہر کے حق رجعت کا حکم بیان فرمایا گیا وبعولتہن احق بردہن فی ذلک ان ارادوا اصلاحًا“ اور ان کے شوہر حق رکھتے ہیں ان کے لوٹالینے کا اس مدت میں اگر چاہیں سلوک سے رہنا۔
اس آیت کے نزول کے وقت قدیم رواج کے مطابق حق رجعت بغیر کسی قید کے بحالہ باقی تھا چاہے سیکڑوں طلاقیں کیوں نہ دی جاچکی ہوں۔ (تفسیر ابن کثیر ج۱، ص۲۷۱) اور اس بے قید حق رجعت سے عورتیں جس ناقابل برداشت مصیبت میں مبتلا ہوجاتی تھیں، اس کا اندازہ سببِ نزول سے متعلق اوپر مذکور روایت سے ہوچکا ہے؛ چنانچہ اس کے بعد آیت ”الطلاق مرتان“ نازل ہوئی، جس کے ذریعہ قدیم طریقہ کو ختم کرکے ایک جدید قانون نافذ کردیاگیا کہ رجعت کا حق صرف دو طلاقوں تک ہوگا، اس کے بعد طلاق کی آخری حد بیان کرنے کے لیے ارشاد ہوا ”فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ“ اور تین طلاقیں دے دیں تو اب عورت اس کے لیے حلال نہ ہوگی تاوقتیکہ دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے (اور دوسرا شوہر اس کی صحبت سے لطف اندوز نہ ہولے۔ الحدیث) اس کے ساتھ ازدواجی رشتہ قائم کرنا جائز نہ ہوگا۔
کلام خداوندی کے اس انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت ”الطلاق مرتان“ کا مقصد نزول طلاق رجعی کی حد اور طلاقوں کی انتہائی تعداد بیان کرنا ہے، قطع نظر اس کے کہ یہ طلاق بلفظ واحد دی گئی ہو یا بالفاظ مکررہ۔ ایک مجلس میں دی گئی ہو یا الگ الگ مختلف مجلسوں میں، بس یہی دو باتیں اس آیت سے ثابت ہوتی ہیں، تفریق مجلس کے لیے اس آیت میں ادنیٰ اشارہ بھی نہیں ہے، لفظ ”مرتان“ کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ دو طلاقیں بیک وقت وبیک کلمہ نہ دی جائیں؛ بلکہ الگ الگ الفاظ سے دی جائیں۔
مرتین کے معنی کی تحقیق
پھر ”مرتان“ کا لفظ ”مرة بعد اخری“ یعنی یکے بعد دیگرے (ایک کے بعد دوسرا) کے معنی میں قطعی بھی نہیں ہے؛ کیونکہ یہ لفظ جس طرح یکے بعد دیگرے کے معنی میں استعمال کیاگیا ہے، اسی طرح ”عددان“ یعنی دوچند اور ڈبل کے معنی میں بھی استعمال کیاگیا ہے، جس کی چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔
الف: اولئک یوتون اجرہم مرتین یہ لوگ (یعنی مومنین اہل کتاب) دیے جائیں گے اپنا اجر وثواب دوگنا۔
ب: اسی طرح ازواج مطہرات رضوان اللّٰہ علیہن اجمعین کے بارے میں ارشاد ربانی ہے۔ ومن یقنت منکن للّٰہ ورسولہ وتعمل صالحا نوٴتہا اجرہا مرتین اور جو کوئی تم میں اطاعت کرے اللہ کی اوراس کے رسول کی اور عمل کرے اچھا تو ہم دیں گے اس کو اس کا ثواب دوگنا۔
ان دونوں قرآنی آیتوں میں ”مرتین“ عددین یعنی دو چند اور دوہرے ہی کے معنی میں ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کو الگ الگ دو مرتبہ ثواب دیا جائے گا۔
اب حدیث سے دو مثالیں بھی ملاحظہ کیجیے۔
(۱) بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”العبد اذا نصح لسیدہ وأحسن عبادة ربہ کان لہ اجرہ مرتین غلام جب اپنے آقا کا خیرخواہ ہوگا اور اپنے رب کی عبادت میں مخلص تو اسے دوہرا اجر ملے گا“ یہاں مرتین مضاعفین یعنی دوگنے اور دوہرے ہی کے معنی میں ہے۔
(۲)صحیح مسلم شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان أہل مکة سأل رسول اللہ ان یریہم آیة فاراہم انشقاق القمر مرتین“(صحیح مسلم ج۲، ص۳۷۳)
”مکہ والوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ طلب کیا تو آپ نے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا معجزہ دکھایا۔“
اس حدیث میں ”مرتین“ فلقتین یعنی دوٹکڑے کے معنی میں ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ نے انھیں ”مرة بعد أخری“ یکے بعد دیگرے شق القمر کا معجزہ دکھایا؛ کیونکہ سیرت رسول سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ شق القمر (چاند کے دو ٹکڑے ہونے) کا معجزہ صرف ایک بار ظاہر ہواہے؛ چنانچہ خود حافظ ابن القیم نے اپنی مشہور کتاب ”اغاثة اللہفان“ میں حدیث مذکور کو نقل کرکے مرتین کا معنی سقتین وفلقتین ہی بیان کیا ہے اوراس کے بعد لکھا ہے۔
ولما خفی ہذا علی من لم یحط بہ علما زعم ان الانشقاق وقع مرة بعد مرة فی زمانین وہٰذا مما یعلم أہل الحدیث ومن لہ خبرة بأحوال الرسول وسیرتہ أنہ غلط وأنہ لم یقع الانشقاق الامرة واحدة (بحوالہ اعلاء السنن،ج۱۱، ص۱۷۹)
”مرتین کا یہ معنی جن لوگوں پر ان کی کم علمی کی بناء پر مخفی رہا انھوں نے سمجھ لیا کہ شق القمر کا معجزہ مختلف زمانوں میں متعدد بار ظاہر ہوا ہے، علماء حدیث اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال اور سیرت سے واقف اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مرتین کا یہ معنی اس جگہ غلط ہے، کیونکہ شق القمر کا معجزہ صرف ایک ہی بار ظہور میںآ یا ہے۔“
حافظ ابن القیم نے مرتین کی مراد سے متعلق اس موقع پر جو اصول ذکر کیا ہے کہ اگر مرتان سے افعال کا بیان ہوگا تو اس وقت تعداد زمانی یعنی یکے بعد دیگرے کے معنی میں ہوگا، کیونکہ دو کاموں کاایک وقت میں اجتماع ممکن نہیں ہے، مثلاً جب کوئی یہ کہے کہ ”اکلتُ مرّتین“ تو اس کا لازمی طور پر معنی یہ ہوگا کہ میں نے دوبار کھایا؛ اس لیے کہ دو اکل یعنی کھانے کا دو عمل ایک وقت میں نہیں ہوسکتا اور جب مرتین سے اعیان یعنی ذات کا بیان ہوگا تواس وقت یہ ”عددین“ دو چند اور ڈبل کے معنی میں ہوگا، کیونکہ دو ذاتوں کا ایک وقت میں اکٹھا ہونا ممکن ہے۔
موصوف کے اس اصول کے اعتبار سے بھی آیت پاک ”الطلاق مرتان“ میں مرتین، عددین کے معنی میں ہوگا؛ کیونکہ اوپر کی تفصیل سے یہ بات منقح ہوچکی ہے کہ اس آیت میں طلاق رجعی کی تعداد بیان کی گئی ہے۔ تطلیق یعنی طلاق دینے کی کیفیت کا بیان نہیں ہے اور طلاق ذات اور اسم ہے فعل نہیں ہے۔
البتہ امام مجاہد وغیرہ کے قول پر (جن کے رائے میں آیت مذکورہ طریقہٴ طلاق بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے ”الطلاق“ تطلیق یعنی طلاق دینے کے معنی میں ہوگا اور طلاق دینا ایک فعل ہے تو اس وقت ”مرتین“ کا معنی مرة بعد اخریٰ اور یکے بعد دیگرے ہوگا، اس معنی کی صورت میں بھی ”الطلاق مرتان“ سے صرف اتنی بات ثابت ہوگی کہ دو طلاقیں الگ الگ آگے پیچھے دی جائیں بیک کلمہ نہ دی جائیں، اس سے زیادہ کوئی اور قید مثلاً تفریق مجلس وغیرہ کی تو اس آیت میں اس کا معمولی اشارہ بھی نہیں ہے؛ اس لیے اگر ایک مجلس یا ایک طہر میں انت طالق، انت طالق تجھ پر طلاق ہے، تجھ پر طلاق ہے۔ الگ الگ تلفظ کے ذریعہ طلاق دی جائے تو یہ صورت ”الطلاق مرتان“ طلاق یکے بعد دیگرے ہے، کے عین مطابق ہوگی، لہٰذا اس آیت کے مطابق یہ دونوں طلاقیں ایک مجلس یا ایک طہر میں ہونے کے باوجود واقع ہوجائیں گی اور جب اس آیت کی رو سے ایک مجلس یا ایک طہر کی متعدد تلفظ سے دی گئی طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں تو ایک تلفظ سے دی گئی طلاقیں بھی واقع ہوجائیں گی؛ کیونکہ ایک مجلس میں دی گئی دونوں طلاقوں (یعنی ایک تلفظ سے اور متعدد تلفظ سے) کا حکم بغیر کسی اختلاف کے سب کے نزدیک یکساں ہے۔ (دیکھیے احکام القرآن امام جصاص رازی ج۱، ص۳۸۶، المطبعة السلفیة، مصر)
اسی بناء پر جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ آیت ”الطلاق مرتان“ میں طلاق دینے کا طریقہ بتایا گیا ہے اور ”مرتین“ مرة بعد اخریٰ یکے بعد دیگرے کے معنی میں ہے وہ حضرات بھی اسی کے قائل ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔ اگرچہ طلاق دینے کا یہ طریقہ غلط ہے؛ لیکن غلط طریقہ اختیار کرنے سے طلاق کے وقوع پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، ہاں اس طرح طلاق دینے والاغلط طریقہ اختیار کرنے کا مجرم ہوگا۔
آیت طلاق پر اس تفصیلی بحث سے یہ بات کھل کر معلوم ہوگئی کہ آیت پاک میں واقع لفظ ”مرتین“ کا معنی مرة بعد اخریٰ یعنی یکے بعد دیگرے بھی صحیح ہے اور ثنتین یعنی دو کا معنی بھی درست ہے۔ نیز دونوں معنی کے اعتبار سے ایک مجلس یا ایک تلفظ میں دی گئی تین طلاقیں اس آیت کی رو سے واقع ہوجائیں گی اور اس کے بعد بحکم قرآن ”فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ“ حق رجعت ختم ہوجائے گا؛ اس لیے جو لوگ کہتے ہیں کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کے بعد بھی حق رجعت باقی رہتا ہے وہ قانون الٰہی کی مقررہ حد کو توڑ رہے ہیں اور ایک چور دروازہ نکال رہے ہیں؛ تاکہ ظالم شوہروں کو مزید ظلم کا موقع ہاتھ آجائے یا کم از کم قانون کے دائرہٴ اثر کو محدود اور تنگ کررہے ہیں؛ جب کہ اس تحدید کا کوئی ثبوت نہ آیت کریمہ میں ہے اورنہ اس کاکوئی اشارہ ان روایتوں میں ہے جو اس آیت کے سبب نزول سے متعلق ہیں۔ علاوہ ازیں قانون بحیثیت قانون کے اس طرح کی حدبندیوں کو برداشت بھی نہیں کرتا وہ تو اپنے جملہ متعلقات کو حاوی ہوتا ہے نیز اس تفصیل سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک بتاتے ہوئے بہ طور استدلال کے اس آیت کو پیش کرتے ہیں ان کا یہ طرز عمل خالص مغالطہ پر مبنی ہے، علمی استدلال سے اس کاکوئی تعلق نہیں ہے۔
(۲) حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ ایک مجلس میں تین طلاق کے وقوع پر آیت کریمہ ”فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی نکح زوجاً غیرہ“ سے استدلال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔
فالقرآن واللّٰہ أعلم یدل علی ان من طلق زوجة لہ دخل بہا أو لم یدخل بہا ثلثة لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ (کتاب الام، ج۵، ص۱۶۵ و سنن الکبریٰ، ج۱، ص۳۳۳)
”اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ قرآن حکیم کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں خواہ اس نے اس سے ہم بستری کی ہو یا نہ کی ہو وہ عورت اس کے لیے حلال نہ ہوگی تاوقتیکہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے۔“
امام شافعی کا استدلال فان طلقہا کے عموم سے ہے؛ کیونکہ ”فان طلق“ فعل شرط ہے جو عموم کے صیغوں میں سے ہے، جیساکہ اصول کی کتابوں میں مصرح ہے، لہٰذا اس کے عموم میں ایک مجلس کی تین طلاقیں بھی داخل ہوں گی۔
یہی بات علامہ ابن حزم ظاہری بھی لکھتے ہیں، چنانچہ ”فان طلقہا فلا تحل لہ الآیة“ کے تحت لکھتے ہیں۔
فہذا یقع علی الثلاث مجموعة ومفرقة ولا یجوز أن یخص بہذہ الآیة بعض ذلک دون بعض بغیر نص (المحلی، ج۱۰، ص۲۰۷) یعنی فان طلقہا کا لفظ ان تین طلاقوں پر بھی صادق آتا ہے جو اکٹھی دی گئی ہوں اور ان پر بھی جو الگ الگ دی گئی ہوں اور بغیرکسی نص کے اس آیت کو خاص کسی ایک قسم کی طلاق پر محمول کرنا درست نہیں ہے۔
ایک بے بنیاد مفروضہ
اس صحیح استدلال کی تردید میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آیت کے عموم سے اکٹھی طلاقیں خارج ہیں؛ کیونکہ شریعت اسلامی میں اس طرح مجموعی طلاقیں دینی ممنوع ہیں، اب اگر ان ممنوع طلاقوں کو آیت کے عموم میں داخل مان کر ان کے نفاذ کو تسلیم کرلیا جائے تو شریعت کی ممانعت کا کوئی معنی ہی نہ ہوگا اور یہ رائیگاں ہوجائے گا۔
بظاہر ان لوگوں کی یہ بات بڑی وقیع اور چست نظر آتی ہے؛ لیکن اصول وضوابط اور شرعی نظائر میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حیثیت ایک بے بنیاد مفروضہ سے زیادہ کی نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس جواب میں سبب اوراس کے اثر وحکم کو گڈمڈ کرکے یہ غلط نتیجہ برآمد کرلیاگیا ہے؛ جب کہ اسباب اور ان پر مرتب ہونے والے احکام و آثار الگ الگ دو حقیقتیں ہیں۔ اسباب کے استعمال کا مکلف بندہ ہے اور ان سباب پر احکام کا مرتب کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، لہٰذا جب شریعت کی جانب سے یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں کام کا فلاں حکم ہے تو بندئہ مکلف سے جب بھی وہ فعل وجود میں آئے گا لامحالہ اس کا اثر اور حکم بھی ظہور پذیر ہوگا؛ البتہ اگر وہ فعل غیرمشروع طور پر اللہ تعالیٰ کی اذن واجازت کے خلاف صادر ہوگا تواس کا کرنے والا عند اللہ معصیت کار ہوگا اور اس عصیان پر اس سے مواخذہ ہوسکتا ہے۔ رہا معاملہ اس فعل پر اس کے حکم واثر کے مرتب ہونے کا تو فعل کے جائز وناجائز ہونے کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، اس بات کو ایک مثال سے سمجھیے، اللہ تعالیٰ عز شانہ نے فعل مباشرت یعنی عورت کے ساتھ ہم بستری کو وجوبِ غسل کے لیے سبب بنایا ہے اب اگر کوئی شخص جائز طور پر اپنی بیوی سے مباشرت کرے تواس پر شریعت کی رو سے غسل فرض ہوجائے گا۔ اسی طرحاگر کوئی بدکار کسی اجنبی عورت کے ساتھ یہی کام کرے تو اس فعل کے حرام وممنوع ہونے کے باوجود اس پر بھی شرعاً غسل فرض ہوجائے گا، افعال شرعی میں اس کے نظائر بہت ہیں اس موقع پر ان نظائر کاجمع کرنا مقصود نہیں ہے؛ بلکہ مسئلہ کی وضاحت پیش نظر ہے؛ اس لیے اسی ایک نظیر پر اکتفا کیا جارہا ہے۔
بعینہ یہی صورت طلاق کی بھی ہے۔ اللہ رب العزت نے فعل طلاق کو قید نکاح سے رہائی کا سبب اور ذریعہ قرار دیا ہے، لہٰذا جب شخص مکلف سے فعل طلاق کا صدور ہوگا تو لازمی طور پر اُس کے اثر وحکم کا بھی ثبوت ہوگا۔ چاہے طلاق کا یہ عمل شریعت کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق وقوع میںآ یا ہو یا غیرمشروع طور پر؛ البتہ غیرمشروع اور ممنوع طریقہ اختیار کرنے کی بنا پر وہ شریعت کی نگاہ میں قصور وار ہوگا اور اس کی بندگی واطاعت شعاری کا تقاضا ہوگا کہ ممکن حد تک اس غلطی کو درست کرنے کی کوشش کرے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی زوجہ کو بحالت حیض ایک طلاق دے دی تھی، جس کا ناجائز وممنوع ہونا شرعاً مسلم ہے، اس کے باوجود اس طلاق کو نافذ مانا گیا۔ پھر چونکہ یہ ایک طلاق تھی جس کے بعد رجعت کا حق باقی رہتا ہے۔ لہٰذا رجعت کرکے اس غلطی کی تلافی کا موقع تھا؛ اسی لیے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں رجعت کی ہدایت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ رجعت کرلینے کے بعد اگر طلاق دینے ہی کی مرضی ہوتو طہر یعنی پاکی کے زمانہ میں جو مجامعت اور ہم بستری سے خالی ہو طلاق دینا، حضرت عبداللہ بن عمرکے اس طلاق کا واقعہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، سنن کبریٰ، سنن دارقطنی وغیرہ کتب حدیث میں دیکھا جاسکتا ہے۔ حضرت ابن عمر کی یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ ممنوع اور ناجائزطور پر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اس صریح وصحیح نص کے مقابلہ میں اس قیاسی مفروضہ کی کیا حیثیت ہے یہ ارباب علم ودانش پر مخفی نہیں، عیاں را چہ بیاں۔
عجیب انداز فکر
پھر یہ بات بھی کس قدر دلچسپ بلکہ مضحکہ خیز ہے کہ جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو اس کے ممنوع وغیر مشروع ہونے کی بناپر آیت کے عموم سے خارج اور غیر نافذ کہہ کر اسے ایک طلاق قرار دیتے ہیں، وہی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تین طلاقوں کی یہ ایک طلاق بھی ممنوع غیرمشروع اور طلاق بدعی ہے پھر بھی یہ ممنوع طلاق نافذ ہوجائے گی؛ جب کہ ان کے مفروضہ کے مطابق وہ نافذ نہیں ہونی چاہیے، ملاحظہ ہوگروہ اہل حدیث (غیرمقلدین) کے رئیس اعظم جناب نواب صدیق حسن خاں قنوجی مرحوم کے فرزند ارجمند جناب نواب میرنورالحسن خاں المتوفی ۱۳۳۶ھ کی حسب ذیل عبارت:
”اوازادلہ متقدمہ ظاہر است کہ سہ طلاق بیک لفظ یا دریک مجلس بدون تخلل رجعت یک طلاق باشد اگرچہ بدعی بود ایں صورت منجملہ صور طلاق بدعی واقع است با آنکہ فاعلش آثم باشد نہ سائر صور بدعی کہ در آنہا طلاق واقع نمی شود“ (عرف الجادی من جنان ہدی الہادی ص۱۲۱، م مطبع صدیقی بھوپال ۱۳۰۱ھ)
”اوپر بیان کردہ دلیلوں سے ظاہر ہے کہ ایک لفظ کی تین طلاقیں یا ایک مجلس کی تین طلاقیں جب کہ درمیان میں رجعت نہ ہو ایک طلاق ہوگی، اگرچہ یہ بھی بدعی ہوگی طلاق بدعی کی یہ قسم دیگر بدعی طلاقوں کے برخلاف نافذ ہوگی اور اس کا مرتکب گنہگار بھی ہوگا اور طلاق بدعی کی بقیہ ساری قسموں میں طلاق واقع نہیں ہوں گی۔“
سوال یہ ہے کہ ممنوع اور غیر مشروع ہونے میں ایک مجلس کی تین طلاقیں اور تین طلاقوں کی یہ ایک طلاق دونوں برابر اور یکساں ہیں یا دونوں کی ممنوعیت وغیرہ مشروعیت میں تفاوت ہے اگر دونوں میں تفاوت اور کمی بیشی ہے تو اس تفاوت پر شرعی نص درکار ہے۔ بالخصوص جو لوگ دوسروں سے ہر بات پر کتاب وسنت کی نص کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں، ان پریہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس دعویٰ پر قرآن وحدیث سے کوئی واضح دلیل پیش کریں اوراگر دونوں کی ممنوعیت یکساں ہے اوریہی بات جناب میرنورالحسن خاں مرحوم کی عبارت سے ظاہر ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ مفروضہ خود ان لوگوں کے نزدیک بھی مسلم اور قابل عمل نہیں ہے؛ بلکہ مغالطہ اندازی کے لیے ایک ایسی بات چلتا کردی گئی ہے جو واقعیت سے یکسر بے بہرہ اور محروم ہے۔
(۳) ”تلک حدود اللّٰہ ومن یتعد حدود اللّٰہ فقد ظلم نفسہ لا تدری لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امرا الآیة“
”یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں جو کوئی اللہ کی حدوں سے آگے بڑھا تو اس نے اپنے اوپر ظلم کیا اس کو کیا خبر کہ شایداللہ پیدا کردے اس طلاق کے بعد کوئی نئی صورت۔“
اس آیت پاک کا ظاہر یہی بتارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین طلاقوں کاجو حق مرد کو دیا ہے اگر وہ اس کو بیک دفعہ استعمال کرلے تو تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی؛ البتہ ایسا کرنا خود اس کی اپنی مصلحت کے خلاف ہوگا؛ کیونکہ اگر تین طلاقوں کو ایک شمار کرکے حق رجعت دے دیاجائے تو پھر اس کہنے کا کیا معنی ہوگا کہ ”لا تدری لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امرا“ اسے کیا معلوم کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعدکوئی نئی صورت یعنی باہمی موافقت وغیرہ کی پیدا فرمادے؛ اس لیے کہ تین کوایک شمار کرنے کی صورت میں تو رجعت کا حق اور موافقت کی صورت باقی ہی ہے۔
چنانچہ شارح صحیح مسلم امام نووی لکھتے ہیں:
”احتج الجمہور بقولہ تعالیٰ ومن یتعد حدود اللّٰہ فقد ظلم نفسہ الآیة قالوا معناہ ان المطلق قد یحدث لہ ندم فلا یمکنہ تدارکہ لوقوع البینونة فلو کانت الثلاث لاتقع ولم یقع طلاقہ ہذا الا رجعیا فلا یندم“ (صحیح مسلم مع الشرح، ج۱، ص۴۷۸)
”جمہور نے تین طلاقوں کے تین واقع ہونے پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد ”ومن یتعد حدود اللّٰہ فقد ظلم نفسہ“ سے استدلال کیا ہے، یہ کہتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ طلاق دینے والے کو بسا اوقات اپنی حرکت پر ندامت ہوتی ہے تو بیک دفعہ تینوں طلاقیں دے دینے کی صورت میں زوجین کے درمیان جدائی واقع ہوجانے سے اس ندامت کا تدارک اور ازالہ نہ ہوسکے گا اگر بیک دفعہ کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتیں تو ندامت کس بات پر ہوتی؛ کیونکہ رجعت کے ذریعہ اس کے تدارک اور ازالہ کی گنجائش موجود ہی ہے۔“
اسی بات کو امام جصاص رازی اپنے انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں:
ومن یتعد حدود اللّٰہ فقد ظلم نفسہ، یدل علی أنہ طلق لغیر السنة وقع طلاقہ وکان ظالما لنفسہ بتعدیة حدود اللّٰہ لأنہ ذکر عقیب العدة فابان أن من طلقہ لغیر العدة فطلاقہ واقع لأنہ لو لم یقع طلاقہ لم یکن ظالمًا لنفسہ ویدل علی أنہ أراد وقوع طلاقہ مع ظلم نفسہ قولہ تعالیٰ عقیبہ، لا تدری لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک أمرا، یعنی یحدث لہ ندم فلا ینفعہ لأنہ قد طلق ثلاثًا (احکام القرآن، ج۳، ص۴۵۴، مطبوعہ مصر)
”آیت پاک ”ومن یتعد حدود اللّٰہ“ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب مرد طلاق بدعی دے گاتو وہ واقع ہوجائے گی اور وہ اللہ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرنے کی بنا پر اپنی ذات پر ظلم کرنے والا ہوگا یہ دلالت اس طور پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ”فطلقوہن لعدتہن“ (طلاق دو انھیں ان کی عدت کے موقع پر) کے بعد اس آیت کو ذکر فرمایا ہے تواس سے ظاہر ہوا کہ جو غیر عدت میں یعنی طلاق بدعی دے گا اس کی طلاق واقع ہوجائے گی ورنہ اپنی ذات پر ظلم کرنے والا کیوں ہوگا اور اس بات پر دلالت کہ ”من یتعد حدود اللّٰہ“ کی مراد اپنے نفس پر ظلم کرنے کے باوجود اس کی طلاق کا واقع ہوجانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وہ ارشاد جو اس کے بعد آرہا ہے یعنی لا تدری لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امرا یعنی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل میں طلاق پر ندامت پیداکردے اوریہ ندامت اس کے واسطے مفید نہ ہوگی؛ کیونکہ وہ تین طلاقیں دے چکا ہے۔“
علامہ علاء الدین ماردینی نے اس آیت کی یہی تفسیر قاضی اسماعیل کی کتاب احکام القرآن کے حوالے سے امام شعبی، ضحاک، عطاء، قتادہ اور متعدد صحابہ سے نقل کی ہے (الجوہر النقی مع سنن الکبریٰ للبیہقی ج۷، ص۳۲۸) نیز امام قرطبی علامہ جار اللہ زمخشری اور امام فخرالدین رازی نے بھی اپنی اپنی تفسیروں میں یہی لکھا ہے کہ اس آیت سے ایک مجلس کی تین طلاقوں کے وقوع کا ثبوت فراہم ہوتا ہے (دیکھیے الجامع لاحکام القرآن، للقرطبی، ج۱۸، ص۱۵۶-۱۵۷ ، والکشاف للزمخشری ج۴، ص۱۰۹ اور مفاتیح الغیب المشتہر بالتفسیر الکبیر الامام الرازی ج۸، ص۱۵۹)
ان تینوں آیات قرآنیہ سے جن پر ائمہٴ تفسیر کی تشریحات کی روشنی میں گذشتہ صفحات میں بحث کی گئی ثابت ہوتا ہے کہ ایک مجلس میں یا ایک لفظ سے دی گئی تین طلاقیں تینوں واقع ہوجائیں گی اس کے برعکس کسی آیت سے اشارة بھی یہ بات نہیں نکلتی کہ بیک مجلس یا بیک کلمہ دی ہوئی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گی۔
$ $ $




کیا قرآن حکیم سے بیک وقت تین طلاق کا ثبوت نہیں؟



اسلام دین فطرت اور ایک جامع نظام زندگی ہے جو راستی وسچائی کا آخری بیان ہونے کی بنا پر کسی ترمیم وتبدیلی کی گنجائش نہیں رکھتا۔ اس کی تعلیمات میں ایک طر ف صلابت وقطعیت ہے تو دوسری طرف وہ اپنے اندر بے کراں جامعیت اور ہمہ گیری لیے ہوئے ہے۔ جس میں ہردم رواں پیہم دواں زندگی کے مسائل کے حل کی بھرپور صلاحیت ہے۔
قرآن حکیم جو خدائے لم یزل کا ابدی فرمانِ ہدایت ہے اصول وکلیات سے بحث کرتا ہے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان وحیِ ترجمان سے ان اصول وکلیات کی تشریح وتوضیح فرمائی ہے اور اپنے معصوم عمل سے ان کی تطبیق وتنفیذ کا مثالی نمونہ پیش کیاہے۔ صحابہٴ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین وتابعین عظام، ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین قانون اسلامی کے انھیں دونوں ماخذوں یعنی کتاب وسنت کی روشنی میں اجماع واجتہاد کے ذریعہ اپنے اپنے دور میں پیش آمدہ مسائل وحوادث کا حل امت کے سامنے پیش کرتے رہے جس کا سلسلہ علماء حق کے ذریعہ کسی نہ کسی حد تک آج بھی جاری ہے۔
مغربی تہذیب جس کی بنیاد ہی اباحیت اور مذہبی واخلاقی قدروں کی پامالی پر ہے بدقسمتی سے آج پوری دنیا پر حاوی ہے۔ جس سے ہمارا ملک بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ مغربی تہذیب کی اسی اباحیت پسندی کی بنا پر آج کل بے ضرورت مسائل کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور ملک کا روشن خیال طبقہ جو نہ صرف مغربی تہذیب کادلدادہ ہے؛ بلکہ اس کا ترجمان ونمائندہ بھی ہے۔ ان بے ضرورت مسائل کو اٹھاتا رہتا ہے، حتیٰ کہ ایسے مسائل جو عہد صحابہ میں اجماعی طور پر طے پاچکے ہیں ان میں بھی تشکیک والتباس اور شکوک وشبہات ظاہر کرکے (جس کی انھیں بہ طور خاص تعلیم دی گئی ہے) ان کے لیے علماء سے من چاہے فتویٰ وفیصلہ کا ناروا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔
مزید برآں عربی زبان وادب، قرآن وحدیث اور ان سے متعلق ضروری علم سے واجبی واقفیت کے بغیر یہ طبقہ دینی وشرعی مسائل میں اجتہاد کے فرائض انجام دینے کے خبط میں بھی مبتلا ہے اور کوشاں ہے کہ ائمہ مجتہدین وسلف صالحین کے بے لوث جہدوعمل کے ثمرات اور ان کی مخلصانہ کاوش سے حاصل شدہ متاع گراں مایہ جو مختلف مذاہب فقہ کی شکل میں امت کے پاس موجود ہے اسے نذر آتش کرکے از سر نو مسائل کے حل تلاش کیے جائیں؛ چنانچہ ”طلاق ثلاث“ کا مسئلہ اس کی زندہ مثال ہے جو آج کل ہمارے ان روشن خیال دانشوروں کی اجتہاد پسند اور ا باحیت نواز فکر ونظر سے گزرکر زبان وقلم کا ہدف بنا ہوا ہے اور عورتوں کی مفروضہ مظلومیت کا نام لے کر اسلام اور علماء اسلام کو دل کھول کر طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہا ہے، ایک ایسا مسئلہ جو چودہ سو برس پہلے طے پاچکا ہے جسے تمام صحابہ، جمہور تابعین، تبع تابعین، اکثر محدثین، فقہاء مجتہدین، بالخصوص ائمہ اربعہ اور امت کے سواد اعظم کی سند قبولیت حاصل ہے جس کی پشت پر قرآن محکم اور نبی مرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث قویہ ہیں۔ اس کے خلاف آواز اٹھاکر اور عامة المسلمین کو اس کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا کرکے یہ اسلام کے نادان دوست اسلام کی کون سی خدمت انجام دینا چاہتے ہیں خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ ان لوگوں کو قطعاً اس کی پرواہ نہیں ہے کہ ان کے اس طرز عمل کا سلف پر کیا اثر پڑے گا، ان کے متعلق عوام کا کیا تصور قائم ہوگا اور ان اکابر اسلام پر عوام کا اعتماد باقی رہے گا یا نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ان کے اس غیر معقول رویہ سے نہ صرف ملت کی تضحیک ہورہی ہے؛ بلکہ اسلام مخالف عناصر کے لیے مسلم پرسنل لاء میں ترمیم وتبدیلی کا جواز بھی فراہم ہورہاہے؛ مگر ہمارے یہ دانشور چپ وراست سے آنکھیں بند کرکے شوقِ اجتہاد اور جوشِ تجدد میں اپنے ناوک قلم سے دینی احکام ومسائل میں رخنہ اندازی میں مصروف ہیں۔ (فالی اللّٰہ المشتکی)
نکاح کی اہمیت
اسلامی شریعت میں نکاح کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن وحدیث میں اس سے متعلق خصوصی احکامات صادر ہوئے ہیں اور ان کی ترغیب صریح ارشادات نبوی میں موجود ہے۔ ایک طویل حدیث کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فمن رغب عن سنتی فلیس منی“ جو میری سنت نکاح سے اعراض کرے گا وہ میرے طریقہ سے خارج ہے۔ (بخاری شریف، ج:۲، ص:۵۵۷)
ایک اور حدیث میں فرمایا ”ان سنتنا النکاح“ نکاح ہماری سنت ہے۔ (مسند امام احمد، ج:۵، ص:۱۶۳)
ایک حدیث میں نکاح کو تکمیل ایمان کا ذریعہ بتایا گیا ہے، خادم رسول انس بن مالک راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”من تزوج فقد استکمل نصف الایمان فلیتق اللّٰہ فی النصف الباقی“
جس نے نکاح کرلیا اس نے اپنے نصف ایمان کی تکمیل کرلی؛ لہٰذا اسے چاہیے کہ بقیہ نصف کے بارے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔ (مشکوٰة ۲۶۷ وجمع الفوائد ج۱، ص۲۱۶)
انھیں جیسی احادیث کے پیش نظر امام اعظم ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ نے عبادات نافلہ میں اشتغال کے مقابلہ میں نکاح کو افضل قرار دیا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ نکاح کی ایک حیثیت اگر باہمی معاملہ کی ہے تو اسی کے ساتھ عام معاملات و معاہدات سے بالاتر یہ سنت وعبادت کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ نکاح کی اسی خصوصی اہمیت کی بنا پر اس کے انعقاد اور وجود پذیر ہونے کے لیے باجماع کچھ ایسے آداب اور ضروری شرائط ہیں جو دیگر معاملات، خرید وفروخت وغیرہ میں نہیں ہیں، مثلاً ہر عورت اور ہر مرد سے نکاح درست نہیں، اس سلسلے میں اسلامی شریعت کا ایک مستقل قانون ہے جس کی رو سے بہت سی عورتوں اور مردوں کا باہم نکاح نہیں ہوسکتا۔ دیگر معاملات کے منعقد ومکمل ہونے کے لیے گواہی شرط نہیں ہے، جب کہ نکاح کے انعقاد کے واسطے گواہوں کا موجود ہونا شرط ہے، اگر مرد وعورت بغیر گواہوں کے نکاح کرلیں تو یہ نکاح قانونِ شرع کے لحاظ سے باطل اور کالعدم ہوگا۔
یہ خصوصی احکام اور ضروری پابندیاں بتارہی ہیں کہ معاملہٴ نکاح کی سطح دیگر معاملات و معاہدات سے بلند ہے، شریعت کی نگاہ میں یہ ایک بہت ہی سنجیدہ اور قابلِ احترام معاملہ ہے جو اس لیے کیا جاتا ہے کہ باقی رہے، یہاں تک کہ موت ہی زوجین کو ایک دوسرے سے جدا کردے۔ یہ ایک ایسا قابلِ قدر رشتہ ہے، جو تکمیلِ انسانیت کا ذریعہ اور رضائے الٰہی واتباعِ سنت کا وسیلہ ہے، جس کے استحکام پر گھر، خاندان اور معاشرے کا استحکام موقوف ہے اور جس کی خوبی وخوشگواری پر معاشرے کی خوبی وبہتری کا دارومدار ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے انقطاع اور ٹوٹنے سے صرف فریقین (میاں بیوی) ہی متاثر نہیں ہوتے؛ بلکہ اس سے پورے نظام خانگی کی چولیں ہل جاتی ہیں اور بسا اوقات خاندانوں میں فساد ونزاع تک کی نوبت پہنچ جاتی ہے جس سے معاشرہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اسی بناء پر بغیر ضرورت طلاق (جو رشتہٴ نکاح کو منقطع کرنے کا شرعی ذریعہ ہے) خدائے دوجہاں کے نزدیک ایک ناپسندیدہ اورناگوار عمل ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”أبغض الحلال الی اللّٰہ عز وجل الطلاق“ اللہ کی حلال کردہ چیزوں میں طلاق سے زیادہ مبغوض اور کوئی چیز نہیں۔ (سنن ابی داؤد ج۱، ص۳۰۲، المستدرک للحاکم ج۲، ص۱۶۹ وقال الذہبی صحیح علی شرط مسلم)
اسلام کا ضابطہٴ طلاق
اس لیے جو اسباب ووجوہ اس بابرکت اور محترم رشتہ کو توڑنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، انھیں راہ سے ہٹانے کا کتاب وسنت کی تعلیمات نے مکمل انتظام کردیا ہے۔ زوجین کے باہمی حالات ومعاملات سے متعلق قرآن وحدیث میں جو ہدایتیں دی گئی ہیں، ان کا مقصد یہی ہے کہ یہ رشتہ کمزور ہونے کی بجائے پائیدار اور مستحکم ہوتا چلا جائے۔ ناموافقت کی صورت میں افہام وتفہیم، پھر زجر وتنبیہ اور اگر اس سے کام نہ چلے اور بات بڑھ جائے تو خاندان ہی کے افراد کو حکم وثالث بناکر معاملہ طے کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
لیکن بسااوقات حالات اس حد تک بگڑ جاتے ہیں کہ اصلاح حال کی یہ ساری کوششیں بے سود ہوجاتی ہیں اور رشتہ ازدواج سے مطلوب ثمرات وفوائد حاصل ہونے کے بجائے زوجین کا باہم مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے۔ ایسی ناگزیر حالت میں ازدواجی تعلق کا ختم کردینا ہی دونوں کے لیے؛ بلکہ پورے خاندان کے لیے باعث راحت ہوتا ہے، اس لیے شریعت اسلامی نے طلاق اور فسخ نکاح کا قانون بنایا، جس میں طلاق کا اختیار صرف مرد کو دیاگیا جس میں عادتاً وطبعاً عورت کے مقابلہ میں فکر وتدبراور برداشت وتحمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے، علاوہ ازیں مرد کی قوامیت وافضلیت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہ اختیار صرف اسی کو حاصل ہو؛ لیکن عورت کو بھی اس حق سے یکسر محروم نہیں کیا کہ وہ ”کالمیت فی ید الغسال“ شوہر کے ہر ظلم و جور کا ہدف بنی رہے اور اپنی رہائی کے لیے کچھ نہ کرسکے؛ بلکہ اسے بھی یہ حق دیا کہ شرعی عدالت میں اپنا معاملہ پیش کرکے قانون کے مطابق طلاق حاصل کرسکتی ہے یا نکاح فسخ کراسکتی ہے۔
پھر مرد کو طلاق کا اختیار دے کر اسے بالکل آزاد نہیں چھوڑدیا؛ بلکہ اسے تاکیدی ہدایت دی کہ کسی وقتی وہنگامی ناگواری میں اس حق کو استعمال نہ کرے، اس پر بھی سخت تنبیہ کی گئی کہ حق طلاق کو دفعتاً استعمال کرنا غیر مناسب اورنادانی ہے؛ کیونکہ اس صورت میں غور وفکر اور مصالح کے مطابق فیصلہ لینے کی گنجائش ختم ہوجائے گی، جس کا نتیجہ حسرت وندامت کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی بھی تاکید کی گئی کہ حیض کے زمانہ میں یا ایسے طہر میں جس میں ہم بستری ہوچکی ہے طلاق نہ دی جائے؛ کیونکہ اس صورت میں عورت کو خوامخواہ طول عدت کا ضرر پہنچ سکتا ہے؛ بلکہ اس حق کے استعمال کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جس طہر میں ہم بستری نہیں کی گئی ہے ایک طلاق دے کر رک جائے، عدت پوری ہوجانے پر رشتہ نکاح ختم ہوجائے گا۔ دوسری یا تیسری طلاق کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اگر دوسری یا تیسری طلاق دینی ہی ہے تو الگ الگ طہر میں دی جائے۔
پھر معاملہ نکاح کے توڑنے میں یہ لچک رکھی کہ ایک یا دو بار صریح لفظوں میں طلاق دینے سے فی الفور نکاح ختم نہیں ہوگا؛ بلکہ عدت پوری ہونے تک یہ رشتہ باقی رہے گا۔ دوران عدت اگر مرد طلاق سے رجوع کرلے تو نکاح سابق بحال رہے گا، جب کہ دیگر معاملات بیع وشراء وغیرہ میں یہ گنجائش نہیں ہے۔ نیز عورت کو ضرر سے بچانے کی غرض سے حق رجعت کو بھی دوطلاق تک محدود کردیاگیا؛ تاکہ کوئی شوہر محض عورت کو ستانے کے لیے ایسا نہ کرسکے کہ ہمیشہ طلاق دیتا رہے اور رجعت کرکے قید نکاح میں اسے محبوس رکھے؛ بلکہ شوہر کو پابند کردیاگیا کہ اختیار رجعت صرف دو طلاقوں تک ہی ہے، تین طلاقوں کی صورت میں یہ اختیار ختم ہوجائے گا؛ بلکہ فریقین اگر باہمی رضا سے نکاح ثانی کرنا چاہیں تو ایک خاص صورت کے علاوہ یہ نکاح درست اور حلال نہیں ہوگا۔ آیت پاک ”الطلاق مرتان“ اور ”فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ“ میں یہی قانون بیان کیاگیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی نے تیسری طلاق دے دی تو معاملہ نکاح ختم ہوگیا اور اب مرد کو نہ صرف یہ کہ رجعت کا اختیار نہیں؛ بلکہ تین طلاقوں کے بعد اگریہ دونوں باہمی رضا سے پھر رشتہٴ نکاح میں منسلک ہونا چاہیں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے تاوقتیکہ یہ عورت عدتِ طلاق گزارکر دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے، نیز حقوقِ زوجیت سے بہرہ ور ہوتے ہوئے دوسرے شوہر کے ساتھ رہے پھر اگر اتفاق سے یہ دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے یا وفات پاجائے تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے۔ آیت کریمہ ”فان طلقہا فلا جناح علیہما ان یتراجعا“ میں اسی نکاحِ جدید کا بیان ہے۔ یعنی پھر اگر یہ دوسرا شوہر اس کو طلاق دے دے تو ان پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ دوبارہ باہم رشتہٴ ازدواج قائم کرلیں۔ شریعتِ اسلامی کے وضع کردہ اس ضابطہٴ طلاق پر اگر پورے طور پر عمل کیا جائے تو طلاق دینے کے بعد نہ کسی شوہر کو حسرت وندامت سے دوچار ہونا پڑے گا اورنہ ہی کثرتِ طلاق کی یہ وبا باقی رہے گی، جس کے نتیجہ میں طرح طرح کے ناگوار مسائل پیدا ہوتے ہیں جو نہ صرف مسلم معاشرہ کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں؛ بلکہ اسلام مخالف عناصر کو اسلامی قانونِ طلاق میں کیڑے نکالنے اور طعنہ زنی کا موقع فراہم کررہے ہیں۔ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ کا ارشاد ہے: ”لو ان الناس اصابو احد الطلاق ما ندم رجل طلق امرأتہ“ اگر لوگ طلاق سے متعلق پابندیوں پر قائم رہیں تو کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دے کر گرفتار ندامت نہیں ہوگا۔ (احکام القرآن جصاص رازی ج۱، ص۳۸۷)
اس موقع پرایک سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ اگر کسی نے ازراہِ حماقت وجہالت طلاق کے مستحسن اور بہتر طریقہ کو چھوڑ کر غیر مشروع طور پر طلاق دے دی، مثلاً الگ الگ تین طہروں میں طلاق دینے کے بجائے ایک ہی مجلس میں یا ایک ہی تلفظ میں تینوں طلاقیں دے ڈالیں تو اس کا اثر کیا ہوگا؟
آج کل ایک خاص مقصد کے تحت ایک مخصوص طبقہ مختلف ذرائع سے عامة المسلمین کو یہ باور کرانے کی کوشش میں مصروف ہے کہ ایک مجلس یا ایک تلفظ میں دی گئی تین طلاقیں شرعاً ایک ہی شمارہوں گی اور اس طرح دی گئی تین طلاقوں کے بعد ازدواجی تعلق برقرار اور شوہر کو رجعت کا اختیار باقی رہے گا؛ جب کہ ظاہر قرآن، احادیث صحیحہ، آثار صحابہ اور اقوال فقہاء ومحدثین سے ثابت ہے کہ مجلسِ واحد یا کلمہٴ واحدہ کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔ شریعتِ اسلامی کا یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر عہدِ فاروقی میں حضراتِ صحابہ کا اجماع واتفاق ہوچکا ہے، جس کے بعد اختلاف کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ اسی بنا پر ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بیک زبان کہتے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق چاہے بیک لفظ دی جائیں یا الگ الگ لفظوں سے واقع ہوجاتی ہیں اور تین طلاقوں کے بعد چاہے، وہ جس طرح بھی دی گئی ہوں رجعت کرنا ازروئے شرع ممکن نہیں ہے۔ یہی جمہور سلف وخلف کا مسلک ہے۔ ذیل میں اس مسئلہ سے متعلق قرآن کی تین آیتوں کی تفسیرپیش کی جارہی ہیں۔
(۱)     آیت پاک الطلاق مرتان الخ کی تفسیر
مسئلہ زیربحث میں ضروری ہے کہ سب سے پہلے قرآن حکیم کی ”آیت طلاق“ پر غور کرلیا جائے؛ کیونکہ مسئلہٴ طلاق میں اس کی حیثیت ایک بنیادی ضابطہ اور قانون کی ہے۔ اس آیت کی تفسیر وتاویل معلوم ہوجانے سے انشاء اللہ مسئلہ کی بہت ساری گتھیاں از خود سلجھ جائیں گی۔
عہدِ جاہلیت میں طلاقیں دینے اور پھر عدت میں رجوع کرلینے کی کوئی حد نہیں تھی، سیکڑوں طلاقیں دی جاسکتی تھیں اور پھر عدت کے اندر رجوع کیاجاسکتا تھا، بعض لوگ جنھیں اپنی بیویوں سے کسی بناء پر کدہوجاتی اور وہ انھیں ستانا اور پریشان کرنا چاہتے تو طلاقیں دے دے کر عدت میں رجوع کرتے رہتے تھے، نہ خود ان کے ازدواجی حقوق ادا کرتے اورنہ انھیں آزاد کرتے اور اس طرح وہ مجبور محض اور بے بس ہوکر رہ جاتی تھیں، جب تک طلاق سے متعلق اسلام میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا مسلمانوں میں بھی طلاق کایہی طریقہ جاری رہا، امام قرطبی لکھتے ہیں: ”وکان ہذا اوّل الاسلام برہة“ (جامع احکام القرآن ج۳، ص۱۲۶) ابتدائے اسلام میں ایک عرصہ تک یہی طریقہ رائج رہا۔
اخرج البیہقی بسندہ عن ہشام ہِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ: ”کَانَ الرَّجُلُ یُطَلِّقُ امْرَأَتَہُ مَا شَاءَ أَنْ یُطَلِّقَہَا وَإِنْ طَلَّقَہَا مِائَةً أَوْ أَکْثَرَ إِذَا ارْتَجَعَہَا قَبْلَ أَنْ تَنْقَضِیَ عِدَّتُہَا حَتَّی قَالَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِہِ لَا أُطَلِّقُکِ فَتَبِینِی وَلَا أُؤْوِیکِ إِلِیَّ قَالَتْ: وَکَیْفَ ذَاکَ؟ قَال: أُطَلِّقُکِ فَکُلَّمَا ہَمَّتْ عِدَّتُکِ أَنْ تَنْقَضِیَ ارْتَجَعْتُکِ وَأَفْعَلُ ہَکَذَا! فَشَکَتِ الْمَرْأَةُ ذَلِکَ إِلَی عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فَذَکَرَتْ عَائِشَةُ ذَلِکَ رسول اللّٰہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَکَتَ فَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا حَتَّی نَزَلَ الْقُرْآنُ (الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیحٌ بِإِحْسَانٍ) الآیة، فَاسْتَأْنَفَ النَّاسُ الطَّلَاقَ فَمَنْ شَاءَ طَلَّقَ وَمَنْ شَاءَ لَمْ یُطَلِّقْ“ وَرَوَاہُ أَیْضًا قُتَیْبَةُ بْنُ سَعِیدٍ وَالْحُمَیْدِیُّ عَنْ یَعْلَی بْنِ شَبِیبٍ وَکَذَلِکَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ یَسَارٍ بِمَعْنَاہُ وَرُوِیَ نُزُولُ الآیَةِ فِیہِ عَنْ ہِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا (سنن الکبریٰ للبیقہی مع الجوہر النقی ج۷، ص۳۳۳ مطبوعہ حیدرآباد)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مرد اپنی بیوی کو جتنی طلاقیں دینا چاہتا دے سکتا تھا، اگرچہ وہ طلاقیں سیکڑوں تک پہنچ جائیں ، بشرطیکہ عدت پوری ہونے سے پہلے رجوع کرلے، یہاں تک کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں تجھے اس طرح طلاق نہ دوں گا کہ تو مجھ سے الگ ہوجائے اورنہ میں تجھے اپنی پناہ ہی میں رکھوں گا، اس عورت نے پوچھا کہ یہ معاملہ تم کس طرح کروں گے، اس نے جواب دیا: میں تجھے طلاق دوں گا اور جب عدت پوری ہونے قریب ہوگی تو رجوع کرلوں گا، طلاق اور رجعت کا یہ سلسلہ جاری رکھوں گا، اس عورت نے اپنے شوہر کی اس دھمکی کی شکایت حضرت عائشہ سے کی، حضرت عائشہ نے اس کا ذکر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سن کر خاموش رہے اس پر کچھ فرمایا نہیں؛ تاآنکہ قرآن حکیم کی آیت (الطلاق مرتان الخ) نازل ہوگئی، تو اس وقت سے لوگوں نے آیت کے مطابق طلاق کی ابتدا کی جس نے چاہا اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور جس نے چاہا نہ دی، امام بیہقی کہتے ہیں کہ اس روایت کو قتیبہ بن سعید اور حمیدی نے بھی یعلی بن شبیب کے واسطہ سے نقل کیا ہے، اسی طرح محمد ابن اسحاق امام المغازی نے ہشام کے واسطہ سے حضرت عائشہ سے الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ اسے بیان کیا ہے۔
وأخرج ابن مردویة بسندہ عن عائشة قالت لم یکن للطلاق وقت یطلق الرجل امرأة ثم یراجعہا مالم تنقص العدة فوقت لہم الطلاق ثلاثا یراجعہا فی الواحدة والثنتین ولیس فی الثالثة رجعة حتی تنکح زوجا غیرہ (تفسیر ابن کثیر ج۱، ص۲۷۲)
”حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ طلاق کی کوئی حد نہیں تھی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے کر عدت کے اندر رجوع کرلیا کرتاتھا تو ان کے لیے تین طلاق کی حد مقرر کردی گئی ایک اور دو طلاقوں تک رجعت کرسکتا ہے، تیسری کے بعد رجعت نہیں تاوقتیکہ مطلقہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے۔“
اس روایت کے بارے میں حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے ورواہ الحاکم فی مستدرکہ وقال صحیح الاسناد، اس روایت کو امام حاکم نے مستدرک میں نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔
حضرت ابن عباس کی روایت ہے:
أخرج أبوداوٴد عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما ”المطلقات یتربصن فانفسہن ثلاثة قروء ولا یحل لہن أن یکتمن ما خلق اللّٰہ فی أرحامہن“ الآیة وذلک أن الرجل کان اذا طلق امرأتہ فہو أحق برجعتہا وان طلقہا ثلاثًا فنسخ ذلک فقال ”الطلاق مرتان“ (بذل المجہود شرح سنن أبو داود باب فی سنخ المراجعة بعد التطلیقات الثلاث ج۲، ص۶۱)
”مطلقہ عورتیں انتظار میں رکھیں اپنے آپ کو تین حیض تک اور انھیں حلال نہیں اس چیز کا چھپانا جواللہ نے ان کے رحم میں پیدا کی ہے، دستور یہ تھا کہ مرد جب اپنی بیوی کو طلاق دیتا تو رجعت کا حق رکھتا تھا، اگرچہ تین طلاقیں دی ہوں پھر اس طریقہ کو منسوخ کردیاگیا، اللہ جل شانہ نے فرمایا: الطلاق مرتان، یعنی طلاق رجعی دو ہیں۔
الفاظ کے فرق کے ساتھ سبب نزول سے متعلق اسی طرح کی روایتیں موطا امام مالک اور جامع ترمذی اور تفسیر طبری وغیرہ میں بھی ہیں، ان تمام روایتوں کا حاصل یہ ہے کہ آیت کریمہ ”الطلاق مرتان“ کے ذریعہ قدیم طریقہ کو منسوخ کرکے طلاق اور رجعت دونوں کی حد متعین کردی گئی کہ طلاق کی تعداد تین ہے اور رجعت دو طلاقوں تک کی جاسکتی ہے اس کے بعد رجعت کا اختیار ختم ہوجائے گا ”فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ“ دو کے بعد اگر تیسری طلاق دے دی تو بیوی حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ کسی مرد سے نکاح کرلے، حدیث میں ”تنکح زوجا غیرہ“ کی تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ دوسرا شوہر لطف اندوز صحبت بھی ہو۔
قدوة المفسرین امام ابن جریر طبری متوفی ۳۰۹ھ سبب نزول کی روایت متعدد سندوں سے ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
فتاویل الآیة علی ہذا الخبر الذی ذکرنا، عدد الطلاق الذی لکم أیہا الناس فیہ علی ازواجکم الرجعة اذا کن مدخولا بہن تلطیقتان ثم الواجب بعد التطلیقتین امساک بمعروف او تسریح باحسان لانہ لا رجعة لہ بعد التطلیقتین ان سرحہا فطلقہا الثلاث
”آیت پاک کی تفسیر ان روایتوں کے پیش نظر جو ہم نے اوپر ذکر کی ہیں یہ ہے کہ طلاق کی وہ تعداد جس میں تمھیں اے لوگو اپنی مطلقہ بیویوں سے رجعت کا حق ہے؛ جبکہ ان سے ہم بستری ہوچکی ہو دو طلاقیں ہیں۔ ان دو طلاقوں کے بعد خوش اسلوبی کے ساتھ نکاح میں روک لینا ہے یا حسن سلوک کے ساتھ چھوڑ دینا ہے، اس لیے کہ دو طلاقوں کے بعد رجعت نہیں ہے، اگر چھوڑنا چاہے تو تیسری طلاق دے دے۔“
اس کے بعد آیت سے متعلق دوسرا قول ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
وقال الآخرون انما انزل ہذہ الآیة علی نبی اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) تعریفاً من اللّٰہ تعالیٰ ذکرہ عبادہ سنة طلاقہم نسائہم اذا ارادوا طلاقہن لا دلالتہ علی القدر الذی تبین بہ المرأة من زوجہا وتاویل الآیة علی قول ہٰوٴلاء سنة الطلاق التی سنتہا وابحتہا لکم ان اردتم طلاق نسائکم ان تطلقوہن ثنتین فی کل طہر واحدة ثم الواجب بعد ذلک علیکم اما ان تمکسوہن بمعروف او تسرحوہن باحسان
”اور دیگر حضرات فرماتے ہیں کہ یہ آیت منجانب اللہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اللہ کی طرف سے بندوں کو اپنی بیویوں کو طریقہ طلاق سکھانے کے لیے، اس آیت کا مقصد طلاق بائن کی تعداد بیان کرنا نہیں ہے، ان حضرات کے اس قول کے تحت آیت کی تفسیر یہ ہوگی کہ طلاق کا طریقہ جو میں نے جاری اور تمہارے لیے مباح کیا، یہ ہے کہ اگر تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو انھیں دو طلاقیں ایک ایک طہر میں دو، ان دو طلاقوں کے بعد تم پر واجب ہوگا کہ انھیں دستور شرعی کے مطابق روک لو یا خوبصورتی کے ساتھ چھوڑ دو۔“
شان نزول سے متعلق ان دونوں روایتوں ا ور ان کے تحت آیت کی تفسیر نقل کرنے کے بعد اپنی ترجیحی رائے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
(۱) والذی أولی بظاہر التنزیل ما قالہ عروة وقتادة ومن قال مثل قولہما من ان الآیة انما ہی دلیل علی عدد الطلاق الذی یکون بہ التحریم وبطلان الرجعة فیہ والذی یکون فیہ الرجعة منہ وذلک ان اللّٰہ تعالیٰ ذکرہ قال فی الآیة التی تتلوہا ”فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ“ فعرف عبادہ القدر الذی بہ تحرم المرأة علی زوجہا الا بعد زوج ولم یبین فیہا الوقت الذی یجوز الطلاق فیہ والوقت الذی لایجوز فیہ (جامع البیان فی تفسیر القرآن، ج۳، ص۲۵۹)
”ظاہر قرآن سے زیادہ قریب وہی بات ہے جو عروہ، قتادہ وغیرہ نے کہی ہے، یعنی یہ آیت دلیل ہے اس عددطلاق کی جس سے عورت حرام اور رجعت کرنی باطل ہوجائے گی اور جس طلاق کے بعد رجعت ہوسکتی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے بعد ”فان طلّقہا فلا تحل لہ“ کا ذکر کرکے بندوں کو طلاق کی اس تعداد کو بتایا ہے جس سے عورت اپنے شوہر پر حرام ہوجائے گی؛ مگر یہ کہ دوسرے شوہر سے رشتہٴ نکاح قائم کرلے، اس موقع پر ان اوقات کا ذکر نہیں فرمایا ہے جن میں طلاق جائز اورناجائز ہوتی ہے۔“
امام ابن جریر طبری کے علاوہ حافظ ابن کثیر اورامام رازی نے بھی اسی تفسیر کو راجح قرار دیاہے، نیز علامہ سید آلوسی حنفی نے اس کو ”الیق بالنظم و اوفق بسبب النزول“ (یعنی نظم قرآن سے زیادہ مناسب اور سبب نزول سے خوب چسپاں ہے) بتایا ہے۔ (روح المعانی ج۲، ص۱۳۵)
آیت پاک ”الطلاق مرتان“ کی اس تفسیر کا (جسے امام طبری وغیرہ نے اولیٰ اور راجح قرار دیا ہے) سبب نزول سے موافق ہونا تو ظاہر ہے، رہی بات نظم قرآن کے ساتھ اس تفسیر کی مناسبت ومطابقت کی تو اس کو سمجھنے کے لیے آیت کے سیاق وسباق پر نظر ڈالیے، آیت زیر بحث سے پہلے ”والمطلقات یتربصن بانفسہن ثلثة قروء“ کا ذکر ہے طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں تین حیض تک ”بعد ازاں اس مدت انتظار میں شوہر کے حق رجعت کا حکم بیان فرمایا گیا وبعولتہن احق بردہن فی ذلک ان ارادوا اصلاحًا“ اور ان کے شوہر حق رکھتے ہیں ان کے لوٹالینے کا اس مدت میں اگر چاہیں سلوک سے رہنا۔
اس آیت کے نزول کے وقت قدیم رواج کے مطابق حق رجعت بغیر کسی قید کے بحالہ باقی تھا چاہے سیکڑوں طلاقیں کیوں نہ دی جاچکی ہوں۔ (تفسیر ابن کثیر ج۱، ص۲۷۱) اور اس بے قید حق رجعت سے عورتیں جس ناقابل برداشت مصیبت میں مبتلا ہوجاتی تھیں، اس کا اندازہ سببِ نزول سے متعلق اوپر مذکور روایت سے ہوچکا ہے؛ چنانچہ اس کے بعد آیت ”الطلاق مرتان“ نازل ہوئی، جس کے ذریعہ قدیم طریقہ کو ختم کرکے ایک جدید قانون نافذ کردیاگیا کہ رجعت کا حق صرف دو طلاقوں تک ہوگا، اس کے بعد طلاق کی آخری حد بیان کرنے کے لیے ارشاد ہوا ”فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ“ اور تین طلاقیں دے دیں تو اب عورت اس کے لیے حلال نہ ہوگی تاوقتیکہ دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے (اور دوسرا شوہر اس کی صحبت سے لطف اندوز نہ ہولے۔ الحدیث) اس کے ساتھ ازدواجی رشتہ قائم کرنا جائز نہ ہوگا۔
کلام خداوندی کے اس انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت ”الطلاق مرتان“ کا مقصد نزول طلاق رجعی کی حد اور طلاقوں کی انتہائی تعداد بیان کرنا ہے، قطع نظر اس کے کہ یہ طلاق بلفظ واحد دی گئی ہو یا بالفاظ مکررہ۔ ایک مجلس میں دی گئی ہو یا الگ الگ مختلف مجلسوں میں، بس یہی دو باتیں اس آیت سے ثابت ہوتی ہیں، تفریق مجلس کے لیے اس آیت میں ادنیٰ اشارہ بھی نہیں ہے، لفظ ”مرتان“ کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ دو طلاقیں بیک وقت وبیک کلمہ نہ دی جائیں؛ بلکہ الگ الگ الفاظ سے دی جائیں۔
مرتین کے معنی کی تحقیق
پھر ”مرتان“ کا لفظ ”مرة بعد اخری“ یعنی یکے بعد دیگرے (ایک کے بعد دوسرا) کے معنی میں قطعی بھی نہیں ہے؛ کیونکہ یہ لفظ جس طرح یکے بعد دیگرے کے معنی میں استعمال کیاگیا ہے، اسی طرح ”عددان“ یعنی دوچند اور ڈبل کے معنی میں بھی استعمال کیاگیا ہے، جس کی چند مثالیں پیش کی جارہی ہیں۔
الف: اولئک یوتون اجرہم مرتین یہ لوگ (یعنی مومنین اہل کتاب) دیے جائیں گے اپنا اجر وثواب دوگنا۔
ب: اسی طرح ازواج مطہرات رضوان اللّٰہ علیہن اجمعین کے بارے میں ارشاد ربانی ہے۔ ومن یقنت منکن للّٰہ ورسولہ وتعمل صالحا نوٴتہا اجرہا مرتین اور جو کوئی تم میں اطاعت کرے اللہ کی اوراس کے رسول کی اور عمل کرے اچھا تو ہم دیں گے اس کو اس کا ثواب دوگنا۔
ان دونوں قرآنی آیتوں میں ”مرتین“ عددین یعنی دو چند اور دوہرے ہی کے معنی میں ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کو الگ الگ دو مرتبہ ثواب دیا جائے گا۔
اب حدیث سے دو مثالیں بھی ملاحظہ کیجیے۔
(۱) بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”العبد اذا نصح لسیدہ وأحسن عبادة ربہ کان لہ اجرہ مرتین غلام جب اپنے آقا کا خیرخواہ ہوگا اور اپنے رب کی عبادت میں مخلص تو اسے دوہرا اجر ملے گا“ یہاں مرتین مضاعفین یعنی دوگنے اور دوہرے ہی کے معنی میں ہے۔
(۲)صحیح مسلم شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان أہل مکة سأل رسول اللہ ان یریہم آیة فاراہم انشقاق القمر مرتین“(صحیح مسلم ج۲، ص۳۷۳)
”مکہ والوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ طلب کیا تو آپ نے چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا معجزہ دکھایا۔“
اس حدیث میں ”مرتین“ فلقتین یعنی دوٹکڑے کے معنی میں ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ نے انھیں ”مرة بعد أخری“ یکے بعد دیگرے شق القمر کا معجزہ دکھایا؛ کیونکہ سیرت رسول سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ شق القمر (چاند کے دو ٹکڑے ہونے) کا معجزہ صرف ایک بار ظاہر ہواہے؛ چنانچہ خود حافظ ابن القیم نے اپنی مشہور کتاب ”اغاثة اللہفان“ میں حدیث مذکور کو نقل کرکے مرتین کا معنی سقتین وفلقتین ہی بیان کیا ہے اوراس کے بعد لکھا ہے۔
ولما خفی ہذا علی من لم یحط بہ علما زعم ان الانشقاق وقع مرة بعد مرة فی زمانین وہٰذا مما یعلم أہل الحدیث ومن لہ خبرة بأحوال الرسول وسیرتہ أنہ غلط وأنہ لم یقع الانشقاق الامرة واحدة (بحوالہ اعلاء السنن،ج۱۱، ص۱۷۹)
”مرتین کا یہ معنی جن لوگوں پر ان کی کم علمی کی بناء پر مخفی رہا انھوں نے سمجھ لیا کہ شق القمر کا معجزہ مختلف زمانوں میں متعدد بار ظاہر ہوا ہے، علماء حدیث اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال اور سیرت سے واقف اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مرتین کا یہ معنی اس جگہ غلط ہے، کیونکہ شق القمر کا معجزہ صرف ایک ہی بار ظہور میںآ یا ہے۔“
حافظ ابن القیم نے مرتین کی مراد سے متعلق اس موقع پر جو اصول ذکر کیا ہے کہ اگر مرتان سے افعال کا بیان ہوگا تو اس وقت تعداد زمانی یعنی یکے بعد دیگرے کے معنی میں ہوگا، کیونکہ دو کاموں کاایک وقت میں اجتماع ممکن نہیں ہے، مثلاً جب کوئی یہ کہے کہ ”اکلتُ مرّتین“ تو اس کا لازمی طور پر معنی یہ ہوگا کہ میں نے دوبار کھایا؛ اس لیے کہ دو اکل یعنی کھانے کا دو عمل ایک وقت میں نہیں ہوسکتا اور جب مرتین سے اعیان یعنی ذات کا بیان ہوگا تواس وقت یہ ”عددین“ دو چند اور ڈبل کے معنی میں ہوگا، کیونکہ دو ذاتوں کا ایک وقت میں اکٹھا ہونا ممکن ہے۔
موصوف کے اس اصول کے اعتبار سے بھی آیت پاک ”الطلاق مرتان“ میں مرتین، عددین کے معنی میں ہوگا؛ کیونکہ اوپر کی تفصیل سے یہ بات منقح ہوچکی ہے کہ اس آیت میں طلاق رجعی کی تعداد بیان کی گئی ہے۔ تطلیق یعنی طلاق دینے کی کیفیت کا بیان نہیں ہے اور طلاق ذات اور اسم ہے فعل نہیں ہے۔
البتہ امام مجاہد وغیرہ کے قول پر (جن کے رائے میں آیت مذکورہ طریقہٴ طلاق بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے ”الطلاق“ تطلیق یعنی طلاق دینے کے معنی میں ہوگا اور طلاق دینا ایک فعل ہے تو اس وقت ”مرتین“ کا معنی مرة بعد اخریٰ اور یکے بعد دیگرے ہوگا، اس معنی کی صورت میں بھی ”الطلاق مرتان“ سے صرف اتنی بات ثابت ہوگی کہ دو طلاقیں الگ الگ آگے پیچھے دی جائیں بیک کلمہ نہ دی جائیں، اس سے زیادہ کوئی اور قید مثلاً تفریق مجلس وغیرہ کی تو اس آیت میں اس کا معمولی اشارہ بھی نہیں ہے؛ اس لیے اگر ایک مجلس یا ایک طہر میں انت طالق، انت طالق تجھ پر طلاق ہے، تجھ پر طلاق ہے۔ الگ الگ تلفظ کے ذریعہ طلاق دی جائے تو یہ صورت ”الطلاق مرتان“ طلاق یکے بعد دیگرے ہے، کے عین مطابق ہوگی، لہٰذا اس آیت کے مطابق یہ دونوں طلاقیں ایک مجلس یا ایک طہر میں ہونے کے باوجود واقع ہوجائیں گی اور جب اس آیت کی رو سے ایک مجلس یا ایک طہر کی متعدد تلفظ سے دی گئی طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں تو ایک تلفظ سے دی گئی طلاقیں بھی واقع ہوجائیں گی؛ کیونکہ ایک مجلس میں دی گئی دونوں طلاقوں (یعنی ایک تلفظ سے اور متعدد تلفظ سے) کا حکم بغیر کسی اختلاف کے سب کے نزدیک یکساں ہے۔ (دیکھیے احکام القرآن امام جصاص رازی ج۱، ص۳۸۶، المطبعة السلفیة، مصر)
اسی بناء پر جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ آیت ”الطلاق مرتان“ میں طلاق دینے کا طریقہ بتایا گیا ہے اور ”مرتین“ مرة بعد اخریٰ یکے بعد دیگرے کے معنی میں ہے وہ حضرات بھی اسی کے قائل ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔ اگرچہ طلاق دینے کا یہ طریقہ غلط ہے؛ لیکن غلط طریقہ اختیار کرنے سے طلاق کے وقوع پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، ہاں اس طرح طلاق دینے والاغلط طریقہ اختیار کرنے کا مجرم ہوگا۔
آیت طلاق پر اس تفصیلی بحث سے یہ بات کھل کر معلوم ہوگئی کہ آیت پاک میں واقع لفظ ”مرتین“ کا معنی مرة بعد اخریٰ یعنی یکے بعد دیگرے بھی صحیح ہے اور ثنتین یعنی دو کا معنی بھی درست ہے۔ نیز دونوں معنی کے اعتبار سے ایک مجلس یا ایک تلفظ میں دی گئی تین طلاقیں اس آیت کی رو سے واقع ہوجائیں گی اور اس کے بعد بحکم قرآن ”فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ“ حق رجعت ختم ہوجائے گا؛ اس لیے جو لوگ کہتے ہیں کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کے بعد بھی حق رجعت باقی رہتا ہے وہ قانون الٰہی کی مقررہ حد کو توڑ رہے ہیں اور ایک چور دروازہ نکال رہے ہیں؛ تاکہ ظالم شوہروں کو مزید ظلم کا موقع ہاتھ آجائے یا کم از کم قانون کے دائرہٴ اثر کو محدود اور تنگ کررہے ہیں؛ جب کہ اس تحدید کا کوئی ثبوت نہ آیت کریمہ میں ہے اورنہ اس کاکوئی اشارہ ان روایتوں میں ہے جو اس آیت کے سبب نزول سے متعلق ہیں۔ علاوہ ازیں قانون بحیثیت قانون کے اس طرح کی حدبندیوں کو برداشت بھی نہیں کرتا وہ تو اپنے جملہ متعلقات کو حاوی ہوتا ہے نیز اس تفصیل سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک بتاتے ہوئے بہ طور استدلال کے اس آیت کو پیش کرتے ہیں ان کا یہ طرز عمل خالص مغالطہ پر مبنی ہے، علمی استدلال سے اس کاکوئی تعلق نہیں ہے۔
(۲) حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ ایک مجلس میں تین طلاق کے وقوع پر آیت کریمہ ”فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی نکح زوجاً غیرہ“ سے استدلال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔
فالقرآن واللّٰہ أعلم یدل علی ان من طلق زوجة لہ دخل بہا أو لم یدخل بہا ثلثة لم تحل لہ حتی تنکح زوجاً غیرہ (کتاب الام، ج۵، ص۱۶۵ و سنن الکبریٰ، ج۱، ص۳۳۳)
”اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ قرآن حکیم کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں خواہ اس نے اس سے ہم بستری کی ہو یا نہ کی ہو وہ عورت اس کے لیے حلال نہ ہوگی تاوقتیکہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے۔“
امام شافعی کا استدلال فان طلقہا کے عموم سے ہے؛ کیونکہ ”فان طلق“ فعل شرط ہے جو عموم کے صیغوں میں سے ہے، جیساکہ اصول کی کتابوں میں مصرح ہے، لہٰذا اس کے عموم میں ایک مجلس کی تین طلاقیں بھی داخل ہوں گی۔
یہی بات علامہ ابن حزم ظاہری بھی لکھتے ہیں، چنانچہ ”فان طلقہا فلا تحل لہ الآیة“ کے تحت لکھتے ہیں۔
فہذا یقع علی الثلاث مجموعة ومفرقة ولا یجوز أن یخص بہذہ الآیة بعض ذلک دون بعض بغیر نص (المحلی، ج۱۰، ص۲۰۷) یعنی فان طلقہا کا لفظ ان تین طلاقوں پر بھی صادق آتا ہے جو اکٹھی دی گئی ہوں اور ان پر بھی جو الگ الگ دی گئی ہوں اور بغیرکسی نص کے اس آیت کو خاص کسی ایک قسم کی طلاق پر محمول کرنا درست نہیں ہے۔
ایک بے بنیاد مفروضہ
اس صحیح استدلال کی تردید میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آیت کے عموم سے اکٹھی طلاقیں خارج ہیں؛ کیونکہ شریعت اسلامی میں اس طرح مجموعی طلاقیں دینی ممنوع ہیں، اب اگر ان ممنوع طلاقوں کو آیت کے عموم میں داخل مان کر ان کے نفاذ کو تسلیم کرلیا جائے تو شریعت کی ممانعت کا کوئی معنی ہی نہ ہوگا اور یہ رائیگاں ہوجائے گا۔
بظاہر ان لوگوں کی یہ بات بڑی وقیع اور چست نظر آتی ہے؛ لیکن اصول وضوابط اور شرعی نظائر میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حیثیت ایک بے بنیاد مفروضہ سے زیادہ کی نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس جواب میں سبب اوراس کے اثر وحکم کو گڈمڈ کرکے یہ غلط نتیجہ برآمد کرلیاگیا ہے؛ جب کہ اسباب اور ان پر مرتب ہونے والے احکام و آثار الگ الگ دو حقیقتیں ہیں۔ اسباب کے استعمال کا مکلف بندہ ہے اور ان سباب پر احکام کا مرتب کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، لہٰذا جب شریعت کی جانب سے یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں کام کا فلاں حکم ہے تو بندئہ مکلف سے جب بھی وہ فعل وجود میں آئے گا لامحالہ اس کا اثر اور حکم بھی ظہور پذیر ہوگا؛ البتہ اگر وہ فعل غیرمشروع طور پر اللہ تعالیٰ کی اذن واجازت کے خلاف صادر ہوگا تواس کا کرنے والا عند اللہ معصیت کار ہوگا اور اس عصیان پر اس سے مواخذہ ہوسکتا ہے۔ رہا معاملہ اس فعل پر اس کے حکم واثر کے مرتب ہونے کا تو فعل کے جائز وناجائز ہونے کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، اس بات کو ایک مثال سے سمجھیے، اللہ تعالیٰ عز شانہ نے فعل مباشرت یعنی عورت کے ساتھ ہم بستری کو وجوبِ غسل کے لیے سبب بنایا ہے اب اگر کوئی شخص جائز طور پر اپنی بیوی سے مباشرت کرے تواس پر شریعت کی رو سے غسل فرض ہوجائے گا۔ اسی طرحاگر کوئی بدکار کسی اجنبی عورت کے ساتھ یہی کام کرے تو اس فعل کے حرام وممنوع ہونے کے باوجود اس پر بھی شرعاً غسل فرض ہوجائے گا، افعال شرعی میں اس کے نظائر بہت ہیں اس موقع پر ان نظائر کاجمع کرنا مقصود نہیں ہے؛ بلکہ مسئلہ کی وضاحت پیش نظر ہے؛ اس لیے اسی ایک نظیر پر اکتفا کیا جارہا ہے۔
بعینہ یہی صورت طلاق کی بھی ہے۔ اللہ رب العزت نے فعل طلاق کو قید نکاح سے رہائی کا سبب اور ذریعہ قرار دیا ہے، لہٰذا جب شخص مکلف سے فعل طلاق کا صدور ہوگا تو لازمی طور پر اُس کے اثر وحکم کا بھی ثبوت ہوگا۔ چاہے طلاق کا یہ عمل شریعت کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق وقوع میںآ یا ہو یا غیرمشروع طور پر؛ البتہ غیرمشروع اور ممنوع طریقہ اختیار کرنے کی بنا پر وہ شریعت کی نگاہ میں قصور وار ہوگا اور اس کی بندگی واطاعت شعاری کا تقاضا ہوگا کہ ممکن حد تک اس غلطی کو درست کرنے کی کوشش کرے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی زوجہ کو بحالت حیض ایک طلاق دے دی تھی، جس کا ناجائز وممنوع ہونا شرعاً مسلم ہے، اس کے باوجود اس طلاق کو نافذ مانا گیا۔ پھر چونکہ یہ ایک طلاق تھی جس کے بعد رجعت کا حق باقی رہتا ہے۔ لہٰذا رجعت کرکے اس غلطی کی تلافی کا موقع تھا؛ اسی لیے ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں رجعت کی ہدایت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ رجعت کرلینے کے بعد اگر طلاق دینے ہی کی مرضی ہوتو طہر یعنی پاکی کے زمانہ میں جو مجامعت اور ہم بستری سے خالی ہو طلاق دینا، حضرت عبداللہ بن عمرکے اس طلاق کا واقعہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، سنن کبریٰ، سنن دارقطنی وغیرہ کتب حدیث میں دیکھا جاسکتا ہے۔ حضرت ابن عمر کی یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ ممنوع اور ناجائزطور پر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اس صریح وصحیح نص کے مقابلہ میں اس قیاسی مفروضہ کی کیا حیثیت ہے یہ ارباب علم ودانش پر مخفی نہیں، عیاں را چہ بیاں۔
عجیب انداز فکر
پھر یہ بات بھی کس قدر دلچسپ بلکہ مضحکہ خیز ہے کہ جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو اس کے ممنوع وغیر مشروع ہونے کی بناپر آیت کے عموم سے خارج اور غیر نافذ کہہ کر اسے ایک طلاق قرار دیتے ہیں، وہی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تین طلاقوں کی یہ ایک طلاق بھی ممنوع غیرمشروع اور طلاق بدعی ہے پھر بھی یہ ممنوع طلاق نافذ ہوجائے گی؛ جب کہ ان کے مفروضہ کے مطابق وہ نافذ نہیں ہونی چاہیے، ملاحظہ ہوگروہ اہل حدیث (غیرمقلدین) کے رئیس اعظم جناب نواب صدیق حسن خاں قنوجی مرحوم کے فرزند ارجمند جناب نواب میرنورالحسن خاں المتوفی ۱۳۳۶ھ کی حسب ذیل عبارت:
”اوازادلہ متقدمہ ظاہر است کہ سہ طلاق بیک لفظ یا دریک مجلس بدون تخلل رجعت یک طلاق باشد اگرچہ بدعی بود ایں صورت منجملہ صور طلاق بدعی واقع است با آنکہ فاعلش آثم باشد نہ سائر صور بدعی کہ در آنہا طلاق واقع نمی شود“ (عرف الجادی من جنان ہدی الہادی ص۱۲۱، م مطبع صدیقی بھوپال ۱۳۰۱ھ)
”اوپر بیان کردہ دلیلوں سے ظاہر ہے کہ ایک لفظ کی تین طلاقیں یا ایک مجلس کی تین طلاقیں جب کہ درمیان میں رجعت نہ ہو ایک طلاق ہوگی، اگرچہ یہ بھی بدعی ہوگی طلاق بدعی کی یہ قسم دیگر بدعی طلاقوں کے برخلاف نافذ ہوگی اور اس کا مرتکب گنہگار بھی ہوگا اور طلاق بدعی کی بقیہ ساری قسموں میں طلاق واقع نہیں ہوں گی۔“
سوال یہ ہے کہ ممنوع اور غیر مشروع ہونے میں ایک مجلس کی تین طلاقیں اور تین طلاقوں کی یہ ایک طلاق دونوں برابر اور یکساں ہیں یا دونوں کی ممنوعیت وغیرہ مشروعیت میں تفاوت ہے اگر دونوں میں تفاوت اور کمی بیشی ہے تو اس تفاوت پر شرعی نص درکار ہے۔ بالخصوص جو لوگ دوسروں سے ہر بات پر کتاب وسنت کی نص کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں، ان پریہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس دعویٰ پر قرآن وحدیث سے کوئی واضح دلیل پیش کریں اوراگر دونوں کی ممنوعیت یکساں ہے اوریہی بات جناب میرنورالحسن خاں مرحوم کی عبارت سے ظاہر ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ مفروضہ خود ان لوگوں کے نزدیک بھی مسلم اور قابل عمل نہیں ہے؛ بلکہ مغالطہ اندازی کے لیے ایک ایسی بات چلتا کردی گئی ہے جو واقعیت سے یکسر بے بہرہ اور محروم ہے۔
(۳) ”تلک حدود اللّٰہ ومن یتعد حدود اللّٰہ فقد ظلم نفسہ لا تدری لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امرا الآیة“
”یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں جو کوئی اللہ کی حدوں سے آگے بڑھا تو اس نے اپنے اوپر ظلم کیا اس کو کیا خبر کہ شایداللہ پیدا کردے اس طلاق کے بعد کوئی نئی صورت۔“
اس آیت پاک کا ظاہر یہی بتارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین طلاقوں کاجو حق مرد کو دیا ہے اگر وہ اس کو بیک دفعہ استعمال کرلے تو تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی؛ البتہ ایسا کرنا خود اس کی اپنی مصلحت کے خلاف ہوگا؛ کیونکہ اگر تین طلاقوں کو ایک شمار کرکے حق رجعت دے دیاجائے تو پھر اس کہنے کا کیا معنی ہوگا کہ ”لا تدری لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امرا“ اسے کیا معلوم کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعدکوئی نئی صورت یعنی باہمی موافقت وغیرہ کی پیدا فرمادے؛ اس لیے کہ تین کوایک شمار کرنے کی صورت میں تو رجعت کا حق اور موافقت کی صورت باقی ہی ہے۔
چنانچہ شارح صحیح مسلم امام نووی لکھتے ہیں:
”احتج الجمہور بقولہ تعالیٰ ومن یتعد حدود اللّٰہ فقد ظلم نفسہ الآیة قالوا معناہ ان المطلق قد یحدث لہ ندم فلا یمکنہ تدارکہ لوقوع البینونة فلو کانت الثلاث لاتقع ولم یقع طلاقہ ہذا الا رجعیا فلا یندم“ (صحیح مسلم مع الشرح، ج۱، ص۴۷۸)
”جمہور نے تین طلاقوں کے تین واقع ہونے پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد ”ومن یتعد حدود اللّٰہ فقد ظلم نفسہ“ سے استدلال کیا ہے، یہ کہتے ہیں کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ طلاق دینے والے کو بسا اوقات اپنی حرکت پر ندامت ہوتی ہے تو بیک دفعہ تینوں طلاقیں دے دینے کی صورت میں زوجین کے درمیان جدائی واقع ہوجانے سے اس ندامت کا تدارک اور ازالہ نہ ہوسکے گا اگر بیک دفعہ کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتیں تو ندامت کس بات پر ہوتی؛ کیونکہ رجعت کے ذریعہ اس کے تدارک اور ازالہ کی گنجائش موجود ہی ہے۔“
اسی بات کو امام جصاص رازی اپنے انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں:
ومن یتعد حدود اللّٰہ فقد ظلم نفسہ، یدل علی أنہ طلق لغیر السنة وقع طلاقہ وکان ظالما لنفسہ بتعدیة حدود اللّٰہ لأنہ ذکر عقیب العدة فابان أن من طلقہ لغیر العدة فطلاقہ واقع لأنہ لو لم یقع طلاقہ لم یکن ظالمًا لنفسہ ویدل علی أنہ أراد وقوع طلاقہ مع ظلم نفسہ قولہ تعالیٰ عقیبہ، لا تدری لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک أمرا، یعنی یحدث لہ ندم فلا ینفعہ لأنہ قد طلق ثلاثًا (احکام القرآن، ج۳، ص۴۵۴، مطبوعہ مصر)
”آیت پاک ”ومن یتعد حدود اللّٰہ“ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب مرد طلاق بدعی دے گاتو وہ واقع ہوجائے گی اور وہ اللہ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کرنے کی بنا پر اپنی ذات پر ظلم کرنے والا ہوگا یہ دلالت اس طور پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ”فطلقوہن لعدتہن“ (طلاق دو انھیں ان کی عدت کے موقع پر) کے بعد اس آیت کو ذکر فرمایا ہے تواس سے ظاہر ہوا کہ جو غیر عدت میں یعنی طلاق بدعی دے گا اس کی طلاق واقع ہوجائے گی ورنہ اپنی ذات پر ظلم کرنے والا کیوں ہوگا اور اس بات پر دلالت کہ ”من یتعد حدود اللّٰہ“ کی مراد اپنے نفس پر ظلم کرنے کے باوجود اس کی طلاق کا واقع ہوجانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وہ ارشاد جو اس کے بعد آرہا ہے یعنی لا تدری لعل اللّٰہ یحدث بعد ذلک امرا یعنی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل میں طلاق پر ندامت پیداکردے اوریہ ندامت اس کے واسطے مفید نہ ہوگی؛ کیونکہ وہ تین طلاقیں دے چکا ہے۔“
علامہ علاء الدین ماردینی نے اس آیت کی یہی تفسیر قاضی اسماعیل کی کتاب احکام القرآن کے حوالے سے امام شعبی، ضحاک، عطاء، قتادہ اور متعدد صحابہ سے نقل کی ہے (الجوہر النقی مع سنن الکبریٰ للبیہقی ج۷، ص۳۲۸) نیز امام قرطبی علامہ جار اللہ زمخشری اور امام فخرالدین رازی نے بھی اپنی اپنی تفسیروں میں یہی لکھا ہے کہ اس آیت سے ایک مجلس کی تین طلاقوں کے وقوع کا ثبوت فراہم ہوتا ہے (دیکھیے الجامع لاحکام القرآن، للقرطبی، ج۱۸، ص۱۵۶-۱۵۷ ، والکشاف للزمخشری ج۴، ص۱۰۹ اور مفاتیح الغیب المشتہر بالتفسیر الکبیر الامام الرازی ج۸، ص۱۵۹)
ان تینوں آیات قرآنیہ سے جن پر ائمہٴ تفسیر کی تشریحات کی روشنی میں گذشتہ صفحات میں بحث کی گئی ثابت ہوتا ہے کہ ایک مجلس میں یا ایک لفظ سے دی گئی تین طلاقیں تینوں واقع ہوجائیں گی اس کے برعکس کسی آیت سے اشارة بھی یہ بات نہیں نکلتی کہ بیک مجلس یا بیک کلمہ دی ہوئی تین طلاقیں ایک شمار ہوں گی۔
$ $ $

معترضین سے سوالات :
(١) حدیثِ مسلم کے قول سے تین طلاق سے مراد ہر قسم کی تین طلاقیں ہیں تو تین الگ الگ "طهر" میں دی گئی تین طلاقیں بھی کیا ایک ہونگی؟
(٢) حدیثِ مسلم میں اکٹھا تین طلاق کا ترجمہ جو کرتے ہیں، وہ کس لفظ کا ترجمہ کرتے ہیں؟ اس میں نہ ہی ایک مجلس کا لفظ ہے نہ جميعاً کا.
(٣) صبح، شام، رات یا تین دنوں یا ہفتوں میں ایک ایک کرکے تین طلاقیں کوئی الگ مجلس اور الگ وقت میں دے تو کیا وہ بھی ایک ہونگی؟
(٤) اکٹھی تین طلاق دینا اللہ کی آیت سے استہزاء اور رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) کی ناراضگی کا سبب ہے. تو کیا صحابہِ کرام (رضی الله عنھم) بلا-روک ٹوک دورِ نبوت، دورِ صدیقی اور دورِ فاروقی کے دو ابتدائی سالوں میں یہ گناہ کرتے رہے اور بدعی طلاق دیکر بدعتی بنتے رہے؟ صحابہِ کرام (رضی الله عنھم) کے بارے میں یہ نظریہ رفض (شیعہ) کا تو ہے، کیا غیر مقلدین کا بھی ہے؟؟؟


(٥) اسی طرح کی "متعہ" پر ایک حدیثِ مسلم (کتاب النکاح: نکاحِ متعہ) میں حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک مٹھی کھجور یا ایک مٹھی آٹے کے عوض مقررہ دنوں کے لئے رسول اللہ ﷺ اور ابوبکرؓ کے زمانہ میں متعہ کر لیتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمرؓ نے عمرو بن حریث کے واقعہ کی وجہ سے متعہ سے منع فرمایا دیا۔
اس مسئلہ پر بھی شیعہ کی طرح کیا آپ بھی یہ ثابت مانتے ہو یا مانوگے؟ کہ نبی ﷺ اور حضرت ابو بکرؓ کے زمانہ میں جوازِ متعہ پر سب صحابہ کا اجماع تھا، حضرت عمرؓ کا روکنا ایک سیاسی حکم تھا، کوئی شرعی حکم نہیں تھا، اسی لئے حضرت ابنِ عباسؓ نے پہلے اجماع کے اصل حکمِ شرعی پر قائم رہتے ان سے اختلاف کیا. کیا یہ صحیح ہے یا نہیں؟ تو کیوں؟
(٦) حضرت عمرؓ کو یہ حق ہے کہ وہ کسی (سیاسی) ضرورت کی ماتحت الله کے حلال کو حرام کردے؟ اور کیا وہ الله کے حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنے والے احبار و رہبان تھے یا خلیفہ راشد؟ اور کیا بقیہ صحابہؓ نے ان کو یہود کی طرح "ارباب من دون الله" بنایا تھا؟ 
(٧) حضرت عمرؓ کے بعد دورِ عثمانی میں کتنے صحابہِ کرام  (رضی اللہ عنہم) الله و رسول ﷺ کے ارشاد پر فتویٰ دیتے اور کتنے حضرت عمرؓ کے قول پر؟ اور خود حضرت عثمانؓ کس کے ساتھ تھے؟
(٨) حضرت علیؓ کے زمانہِ خلافت میں ان کا اپنا فتویٰ اور ان کے مفتیوں کا فتویٰ الله و رسول ﷺ کی شریعت پر رہا حضرت عمرؓ کی؟

نوٹ :
صرف الله اور رسول ہی کے اقوال کو دلیل و حجت ماننے والے غیر-مقلد اہلِ حدیث حضرات ان سوالوں کا جواب اپنے دعویٰ اور اصول کے مطابق کسی غیر-معصوم کے اقوال کے سواۓ صرف قرآن و حدیث ہی سے دیں. شکریہ





======================================
مسئلہ طلاق ثلاثہ مسند احمد اور ابو داؤد دو روایت حدیث رکانہ کا جائزہ اور جواب اور غیرمقلدین کو چیلنج
1 دلیل:۔
حضرت رکانہؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے رکانہ تم رجوع کر لو۔ انہوں نے کہا کہ حضرت ! میں نے تو بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں تم رجوع کر لو۔ (((ابو داؤد جلد ۱ ص۲۹۷ و سنن الکبرٰی جلد ۷ ص۳۳۹)))
اس روایت سے ثابت ہوا کہ تین طلاقوں کے بعد بھی رجوع ثابت ہئ اور یہ جبھی ہو سکتا ہے کہ تین طلاقیں بیک وقت واقع نہ ہوں ورنہ رجوع کا کیا معنٰی۔
الجواب:۔
اس روایت سے تین طلاقوں کے عدم وقوع پر استدلال صحیح نہیں ہے۔
اولاً۔ اس لئے کہ اس کی سند میں بعض بنی ابی رافع موجود ہیں جو مجہول ہے۔
٭چنانچہ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ رکانہ ؓ کی وہ حدیث جس میں آتا ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں دی تھیں وہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس میں مجہول راوی موجود ہیں۔ (((شرح مسلم جلد ۱ ص۴۷۸)))
٭اور علامہ ابن حزم ؒ فرماتے ہیں کہ بعض بنی ابی رافع مجہول ہیں اور مجہول سند سے حجت قائم نہیں ہو سکتی۔ (((محلی جلد ۱۰ص۱۶۸)))
لہذا اس روایت کی سند ایسی نہیں کہ ا س سے استدلال کیا جا سکے اور خصوصاً حلال و حرام کے مسئلہ میں اور وہ بھی قرآن و حدیث اور جمہور امت کے اجماع کے مقابلہ میں۔ اور یہ مسئلہ بھت ہی نازک ہے جو کہ ایک طرف تو ساری عمر بدکاری کرنے کا جرم ہے تو دوسری طرح اس بدکاری کو حلال سمجھنے کا جرم جو کہ کفر ہے۔
٭حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہانپویؒ (المتوفٰی ۱۳۴۶ھ) فرماتے ہیں کہ مستدرک میں بعض بنی ابی رافع کو تعیین بھی آئی ہے کہ وہ محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع تھے۔ (((بذل المجہور جلد ۳ص۶۹) ))لیکن یہ نہایت ہی ضعیف اور کمزور راوی ہے۔ علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ اس کو منکر الحدیث اور امام ابن معین لیس بشیؒ اور امام ابو حاتکم ؒ اسکو ضعیف الحدیث اور منکرالحدیث جداً کہتے ہیں۔ امام دارقطنی ؒ فرماتے ہیں کہ وہ متروک ہے علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ محدثین انکی تضعیف کرتے ہیں کہ وہ نہایت ہی ضعیف اور کمزور راوی ہے۔ (((میزان ص۹۷ج۳، تہذیب التہذیب )))
٭محدث ابن عدیؒ انکو کوفہ کے ”شیعہ“ میں بیان کرتے ہیں۔ (((تہذیب التہذیب ص۳۲۱ ج۹)))
جن کا مذھب یہ ہے کہ وہ تین طلاقوں کو ایک ہی تصور کرتے ہیں، قرآن سنت صحابہ تابعین کو چھوڑ کر) اور ایک اور روایت میں بھی شیعہ راویوں نے گڑ بڑ کی ہے چنانچہ امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ جن راویوں نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہ ؓ بن عمرؓ نے بجالت حیض اپنی بیوی کو تین طلاقی دی تھیں وہ سب کے سب شیعہ ہیں صحیح روایت یہ ہے کہ انہوں نے صرف ایک ہی طلاق دی تھی۔ (((سنن دارقطنی جلد ۲ ص۴۲۷)))
٭اور امام بخاری فرماتے ہیں کہ جس راوی کے بارے میں میں منکر الحدیث کہوں تو اس سے روایت کرنا جائز نہیں
(((میزان الاعتدال جلد ۱ ص۵ طبقات سبکی جلد ۳ص۹ و تدریب الراوی ص۲۳۵)))
گویا امام بخاری کی تحقیق کے رو سے اس روایت کا بیان کرنا ہی جائز نہیں ہے۔

اور ثانیاً:۔
حضرت رکانہؓ کی صحیح روایت میں بجائے تین طلاق کے بتہ(یعنی تعلق قطع کرنے والی) کا لفظ ہے۔ چنانچہ امام ابو داؤد ؒ فرماتے ہیں کہ:۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَکِيُّ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُکَانَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ فَأَتَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا أَرَدْتَ قَالَ وَاحِدَةً قَالَ آللَّهِ قَالَ آللَّهِ قَالَ هُوَ عَلَی مَا أَرَدْتَ قَالَ أَبُو دَاوُد وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ أَنَّ رُکَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا لِأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتِهِ وَهُمْ أَعْلَمُ ۔۔۔۔ الخ
” سلیمان بن داؤد، جریر بن حازم، زبیر بن سعید، عبد اللہ، علی بن یزید سے روایت ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا تیری نیت کیا تھی؟ بولا ایک طلاق کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا اللہ کی قسم کھا سکتے ہو؟ اس نے کہا ہاں واللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر تو وہی ہے جو تیری نیت تھی (یعنی ایک ہی طلاق واقع ہو گی) ابو داؤد ؒ فرماتے ہیںحضرت رکانہ کی یہ روایت (جس میں بتہ کا لفظ موجود ہے) ابن جریجؒ کی رویت سے زیادہ صحیح ہے جس میں آتا ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں دی تھیں کیونکہ بتہ والی حدیث ان کے گھر والے بیان کرتے ہیں اور وہ اس کو زیادہ جانتے ہیں“۔
(((ابو داؤد جلد ۱ص۳۰۱ وکذا فی سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۲۳۹)))

بتہ یعنی ایک ایسا جملہ جس سے نیت ایک طلاق کی بھی ہو سکتی ہے اور تین طلاق کی بھی اس لئے رسول اللہﷺ ان سے قسم لے رہے ہیں، تھوڑی سی بھی عقل رکھنے والا شخص سمجھ سکتا ہے کہ قسم کیوں لے رہے ہیں ورنہ ایک ہی طلاق ہونی تھی تو کہہ دیتے ایک کی نیت ہے یعنی ایک دی ہے تب بھی رجوع کر لو اور اگر تین دیں ہیں تب بھی رجوع کر لو لیکن رسول اللہﷺ کو اس بات کا باخوبی علم تھا کہ تین طلاق کے بعد بیوی حرام ہو جاتی ہے ۔ ایسے لفظ سے اگر ایک کی نیت کی ہے تو ایک واقع اور تین کی نیت کی ہے تو تین واقع ہو جائیں گی۔ یعنی هُوَ عَلَی مَا أَرَدْتَ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر تو وہی ہے جو تیری نیت تھی۔
یعنی کہ یہاں سے بھی اکھٹی تین طلاق کے واقع ہو جانے کا قوی ثبوت مل جاتا ہے لھذا غیرمقلد رافضی ہے پکا۔
اس روایت کو امام ابو داؤد نے وہیں صحیح کہا ہے ۔
وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ(((ابو داؤد جلد ۱ص۳۰۱)))

٭ قاضی شوکانی ؒ لکھتے ہیں کہ:۔
”واثبت ماروی فی تصتہ رکانہؓ انہ طلقھا البتہ لا ثلاثا
”حضرت رکانہ ؓ کے واقعہ میں ثابت اور صحیح روایت یہ ہے کہ انہوں نے بتہ طلاق دی تھی نہ کہ تین“ (((نیل الاوطار جلد۶ ص۲۴۶)))
الغرض اس روایت سے تین طلاقوں کا اثبات اور پھر تین کو ایک قرار دینا اور پھر خاوند کو رجوع کا حق دینا ظلم عظیم ہے قرآن کا سنت کا امت مسلمہ کا مذاق ہے۔ اور حلال و حرام کے بنیادی مسئلہ میں ایسی ضعیف و کمزور اور مجمل روایتوں پر اعتماد بھی کب جائز ہے؟ اور پھر وہ بھی صحیح اور صریح روایات اور اجماع امت کے مقابلہ میں۔
غیرمقلدین کی پیش کردہ روایت کے راوی ابن عباسؓ ہیں،
چنانچہ حضرت ابن عباسؓ کی باسند صحیح روایت موجود ہے کہ:۔
”ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، حضرت ابن عباسؓ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہم نے یہ خیال کہ شاید وہ اس عورت کو واپس اسے دلانا چاہتے ہیں مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو ااے ابن عباس ‌! ابن عباس اے ابن عباسؓ؟ بات یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالٰی سے نہ ڈرے تو اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکل سکتی جب تم نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی ہے تو اب تمہارے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں تمہاری بیوی اب تم سے بالکل علٰیحدہ ہو چکی ہے۔ (((سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۱)))
اکٹھی تین طلاق دینا گناہ ہے، جیسے یہاں پر اکٹھی تین طلاقیں دی گئیں جس کی وجہ یہ ہےکہ ابن عباسؓ نے کہا تم نے حماقت کا ارتکاب کیا یعنی اکٹھی طلاق دے دیں ہیں جو کہ واقع ہو چکی ہیں، ورنہ نہ تو کبھی ایک طلاق دینے سے گناہ ہے نہ ہی الگ الگ تین طلاق دینے سے یعنی شرعی طریقہ سے۔ لیکن غیرمقلدین کے نزدیک اکھٹی سے تو طلاق واقع تک نہیں ہوتی معاذ اللہ ثم معاذ اللہ جو کہ کھلا کفر ہے۔ اور یہ روایت ہے بھی صحیح۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اسناد و صحیح (((تعلیق المغنی ص۴۳۰)))
٭ایک روایت میں اتا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی حضرت ابن عباسؓ نے یہ فتویٰ دیا کہ تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں باقی ۹۷ کے ساتھ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ مسخرہ کیا ہے۔ (((موطا امام مالک ص۱۹۹ دارقطنی جلد ۲ ص۴۳۰، و طحاوی جلد ۲ ص۳۰، و سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۳)))
اور اس کے علاوہ بھی بے شمار روایات موجود ہیں بفضلہ تعالٰی۔
یہاں پر بھی بالکل واضح ہے کہ اس شخص نے ااکھٹی طلاقیں دیں اور وہ بھی ۱۰۰ تین اپنی جگہ واقع ہو گئیں باقی گناہ کبیرہ۔
ایک نظر
٭راوی پر زبردست جرحین۔
٭ راوی کا خود شیعہ ہونا ۔ اور یہ مذھب شیعوں کا ہے۔(تین ایک )
٭روایت کرنے والے صحابی ابن عباس ؓ کا اپنا مذھب جو کہ صحیح سند سے ثابت ہے اس کے بلکل مخالف ہے۔
٭محدثین کرام کا اس پر کلام کرنا ۔

تین طلاقوں کی جگہ "بتہ" کے ہونے کا ثبوت۔
٭ امام بخاریؒ اس راوی کو منکر الحدیث کہنا ، اور منکر الحدیث سے رویت لینے کا منع کرنا۔
٭باسند صحیح روایت سے مسلک حق اہل سنت والجماعت کا مذھب ثابت ہونا اور روفض غیرمقلدین کا مذھب کا رد ہونا۔
اب بھی نہ مانیں غیرمقلد تو اللہ آپ کو پکڑے گا ،بس ہم صرف اتنا ہی کہیں گے کہ انگریز سے جو اپ نے اپنی جماعت کا نام اہل حدیث الارٹ کروایا تھا اسے وہ واپس کر دیں۔ شکریہ۔
(ہم غیرمقلد روافض کو کھلا چیلنج دیتے ہیں )
کوئی ایک ہی صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کریں جس میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین نہ کہا گیا ہو ایک ہی کہا گیا ہو اور اس روایت کا کوئی راوی شیعہ نہ ہو اور اس روایت کے کسی ایک بھی راوی کا اپنا فتوی اس حدیث کے خلاف نہ ہو۔ صرف ایک حدیث پیش کریں صرف ایک ہی جس میں یہ تین چیزیں نہ ہوں۔ لیکن غیرمقلد روافض میں یہ جرأت کہاں۔

2دلیل:۔
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت رکانہ ؓ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی تھیں جس پر وہ بہت ہی پیشمان ہوئے ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم نے کس طرح طلاق دی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تم رجوع کر لو ۔۔۔۔۔۔ الخ مسند احمد جلد ۱ص۲۶۵ و سنن الکبریٰ جلد ۷ص۳۳۹) قاضی شوکانی فرماتے ہیں کہ اسکی تخریج امام احمد ؒ اور ابو یعلٰی نے کی ہے اور ماما ابو یعلٰی نے اس کی تصحیح کی ہے۔ (نیل ص۲۴۶ جلد ۶)
الجواب:۔
یہ روایت ہر گز قابل احتجاج نہیں ہے ۔
اولاً:۔ اس کی سند میں محمد بن اسحاق واقع ہے ۔
٭ امام نسائیؒ فرماتے ہیں کہ وہ قوی نہیں ہے۔ (((ضعفاء صغیر للنسائی ص۵۲)))
٭ امام ابو حاتمؒ فرماتے ہیں کہ ہو ضعیف ہے۔ (((کتاب العلل جلد ۱ص۴۳۳)))
٭ امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ ہو قابل احتجاج نہیں محدث سلیمان تمییؒ فرماتے ہیں کہ وہ کذاب تھا ، امام ہشامؒ بن عروہ کہتے ہیں کہ وہ کذاب تھا امام یحیٰ ؒ بن سعید القطان فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا وہں کہ وہ کذاب ہے۔ (((میزان ص۲۱ ج۳)))
٭ امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ ہو دجالوں میں سے ایک دجال تھا ۔ (((تہذیب التہذیب جلد ۹ ص۴۱ و تاریخ بغداد جلد ۱ ص۲۲۳)))
٭ امام مالک نے اس کو کذاب بھی فرمایا ہے۔ (((تاریخ بغداد جلد ۱ ص۲۲۳)))
٭اس پر شیعہ اور قدری ہونے کا الزام بھی ہے۔ (((تقریب ص۲۹۰)))
٭امام خطیب بغدادی ؒ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق کے بارے میں امام مالک ؒ کا کلام مشہور ہے اور حدیث کا علم رکھنے والوں میں سے کسی پر مخفی نہیں ہے۔(((تاریخ بغداد جلد ۱ ص۳۲۴)))
٭ علامہ ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ حلال و حرام کے بارے میں اس سے احتجاج صحیح نہیں ہے۔ (((تذکرہ الحفاظ جلد ۱ص۱۶۳)))
اور یہی ہمارا مذھب ہے ایسے راویوں سے روایت نہیں لی جاسکتی خاص کر احکام میں تو ہرگز ہرگز ہرگز قابل قبول ہی نہیں۔
٭حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ محمد بن اسحاق سے جب کہ وہ متفرد ہو ا حکام کے بارے میں تو احتجاج نہیں کیا جا سکتا چہ جائیکہ جب وہ اپنے سے ثبت اور ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہو۔(((محصلہ الدرایہ ص۱۹۳)))

٭نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد ایک سند کی تحقیق جس میں محمد بن اسحاق اتا ہے لکھتے ہیں کہ:۔
”در سندش نیز ہماںمحمد بن اسحاق است و محمد بن اسحاق حجت نیست “۔(((دلیل الطالب ص۲۳۹)))
یعنی اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے اور یہ حجت نہیں ۔

٭حافظ ابن رشد ؒ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق کی یہ روایت وہم پر مبنی ہے کیونکہ ثقہ راوی یوں روایت کرتے ہیں کہ حضرت رکانہؓ نے اپنی بیوی کو بتہ طلاق دی تھی نہ کہ تین۔
(((ہدایۃ المجتہد جلد ۲ ص۶۱)))

و ثانیاً:۔
اگر تنہا محمد بن اسحاق ہی اس سند کا راوی ہوتا تو اس کے ضعیف اور ناقبل احتجاج ہونے کے لیے یہی کافی تھا مگر غضب تو یہ ہے کہ اس سند میں داؤد بن حصین بھی ہے جو عکرمہؒ سے روایت کرتا ہے ۔

٭امام ابو زرعہؒ فرماتے ہیں کہ وہ ضعیف تھا ۔ اممام سفیان بن عینیہ ؒ فرماتے ہیں کہ ہم اس کی حدیث سے گریز کیا کرتے تھے۔ محدث عباس دوریؒ کہتے ہیں وہ میرے نزدیک ضعیف ہے (((میزان جلد ۱ص۳۱۷)))

٭ امام ابن حاتم ؒ فرماتے ہیں کہ وہ منکر الحدیث تھا، محدث جوزقانیؒ کہتے ہیں کہ محدثین ان کی حدیظ کو قابل تعریف نہیں سمجھتے تھے۔ (((تہذیب التہذیب جلد ۳ص۱۸۱)))

٭امام علیؒ بن مدینیؒ اور امام ابو داؤد ؒ فرماتے ہیں کہ وہ داؤد بن حصین کی روایت عکرمہ سے منکر ہوتی ہے۔ (((میزان جلد ۱ص۳۱۷))) اور یہ روایت بھی عکرمہ سے ہے۔

٭حافظ ابن حجرؒ ان سے متعلق یہ فیصلہ دیتے ہیں کہ ثقہ الافی عکرمۃ (((تقریب ص۱۱۶))) کہ ہو ثقہ ہے مگر عکرمہ ؒ کی روایت میں وہ ثقہ نہیں ہے۔ اسی لیے امما بیہقیؒ فرماتے ہیں کہ اس اس حدیث سے حجت قائم نہیں ہو سکتی ۔(((سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۹)))

٭حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث معلول ہے۔ (((تلخیص الجیر ص۲۱۹)))

٭علامہ ذہبیؒ اس روایت کو داؤد بن حصین کے مناکیر میں شمار کرتے ہیں۔ (((میزان جلد ۱ص۳۱۷)))

٭مولانا شمس الحق صاحب عظیم آبادی لکھتے ہیں کہ حافظ ابن القیم نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ۔(((تعلیق المغنی جلد ۲ص۳۳۶) ))لیکن مولانا حافظ محمد عبداللہ روپڑی صاحب غیرمقلد فرماتے ہیں کہ مگر ابن قیم کا یہ کہنا ٹھیک نہیں کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ اسناد کے حسن ہونے سے حدیث اس وقت حسن ہو سکتی ہے جب حدیث میں کوئی اور عیب نہ ہو اور یہاں اور عیب موجود ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کو معلول کہا ہے۔ خاص کہ جب امام احمد کا فتویٰ بھی اس کے خلاف ہے تو پھر معلولیت کا شبہ اور پختہ ہوجاتا ہے۔ (((ضمیہ ص۱۶)))

ابن قیم ؒ کو اس پر سخت سزائیں بھی ملیں۔ خود غیرمقلد ین کے گھر کی گواہی ملاحظہ ہو (((فتاویٰ ثنائیہ جلد ۲ص۲۱۹)))

یہ ہیں وہ روایت جن سے زمانہ حال کے غیرمقلد روافض قرآن و حدیث اور جمہور امت کے اجماع کے مقابلہ میں حرام کو حلال کرنے کا ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔اللہ اکبر کبیرہ

الحاصل تین طلاقوں کو ایک قرار دینا اور غیر مدخول بہا کی متفرق طور پر دی گئی تین طلاقوں پر ہت مطلقہ کا حکم چسپاں کرنا نہ رویۃ ثابت ہے اور نہ دریۃ بلکہ یہ نری غلط فہمی ہے اور ہوم کا نتیجہ ہے ۔ ایسی غلطی پہلے کے لوگوں کو بھی ہو جایا کرتی تھی مگر وہ باانصاف اور دیانت دار لوگ تھے اس لیے وہ غلطی پر آگاہ ہونے پر اس کو چھوڑ دیتے تھے۔ مگر آج تو تعصب اور ضد کو چھوڑنا پسند نہیں کیا جاتا ۔ الااماشاء اللہ تعالٰی حضرت محمد بن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ مجھےبعض ایسے راویوں نے جن پر مجھے اعتماد اور بھروسہ تھا یہ حدیث سنائی کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو بحالت حیض تین طلاقیں دیدی تھیں اور پھر آنحضرت ﷺ نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا تھا میں بیس ۲۰ سال تک اسی غلط فہمی کا شکار رہا لیکن بعد کو مجھےے ابو غلاب یونسؓ بن جبیرؒ نے جو نہات ثقہ اور ثبت راوی تھے یہ روایت سنایہ کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی تھی نہ کہ تین اور تین کی نسبت ان کی طرف غلط ہے۔ 
(((محصلہ مسلم جلد ۱ص۴۷۷ و سنن الکبریٰ ص۳۳۴)))

اس قسم کی غلط فہمی کا واقع ہوجانتاا تو مستعبد امر نہیں مگر دلائل کے بعد اس پر جمہود خالص تعصب ہے ۔ اللہ تعالٰی تمام اہل اسلام کو اس سے محفوظ و مصون رکھے آمین۔

غیرمقلدین کی پیش کردہ روایت ابن عباسؓ سے ہے اور یہ امام احمد بن حنبل نے بھی نقل کی ہے۔

اب دیکھتے ہیں ابن عباسؓ کا مذھب کیا تھا۔

چنانچہ حضرت ابن عباسؓ کی باسند صحیح روایت موجود ہے کہ:۔
”ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں، حضرت ابن عباسؓ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہم نے یہ خیال کہ شاید وہ اس عورت کو واپس اسے دلانا چاہتے ہیں مگر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھر کہتے ہو ااے ابن عباس ‌! ابن عباس اے ابن عباسؓ؟ بات یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالٰی سے نہ ڈرے تو اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکل سکتی جب تم نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی ہے تو اب تمہارے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں تمہاری بیوی اب تم سے بالکل علٰیحدہ ہو چکی ہے۔ (((سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۱)))

اکٹھی تین طلاق دینا گناہ ہے، جیسے یہاں پر اکٹھی تین طلاقیں دی گئیں جس کی وجہ یہ ہےکہ ابن عباسؓ نے کہا تم نے حماقت کا ارتکاب کیا یعنی اکٹھی طلاق دے دیں ہیں جو کہ واقع ہو چکی ہیں، ورنہ نہ تو کبھی ایک طلاق دینے سے گناہ ہے نہ ہی الگ الگ تین طلاق دینے سے یعنی شرعی طریقہ سے۔ لیکن غیرمقلدین کے نزدیک اکھٹی سے تو طلاق واقع تک نہیں ہوتی معاذ اللہ ثم معاذ اللہ جو کہ کھلا کفر ہے۔ اور یہ روایت ہے بھی صحیح۔

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اسناد و صحیح (((تعلیق المغنی ص۴۳۰)))

٭ایک روایت میں اتا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی حضرت ابن عباسؓ نے یہ فتویٰ دیا کہ تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں باقی ۹۷ کے ساتھ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ مسخرہ کیا ہے۔
(((موطا امام مالک ص۱۹۹ دارقطنی جلد ۲ ص۴۳۰، و طحاوی جلد ۲ ص۳۰، و سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۳۳۳)))

اور اس کے علاوہ بھی بے شمار روایات موجود ہیں بفضلہ تعالٰی۔

اب دیکھتے ہیں خود امام احمد بن حنبلؒ کا مذھب کیا تھا۔

امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ:۔
”جس شخص نے ایک ہی کلمہ میں تین طلاقیں دے دیں تو بے شک اس نے جہالت کا ارتکاب کیا مگر اس کی بیوی اسس پر حرام ہو جائے گی اور اس کے لئے وہ کبھی حلال نہیں ہو سکتی جب تک وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے“۔
(کتاب الصلوۃ ص۴۷)

اتنی واضح دلیل سبحان اللہ العظیم

ایک نظر:۔

٭ دونوں راویوں پر محدثین کرامؒ نے کافی تعداد میں جرحین کر رکھی ہیں۔

٭شیعہ اور قدری ہونے کا الزام اور شیعوں کا بھی یہی مذھب ہے۔

٭ احکام میں قوی نہیں ۔

٭روایت کرنے والے صحابی ابن عباس ؓ کا اپنا مذھب جو کہ صحیح سند سے ثابت ہے اس کے بلکل مخالف ہے۔

٭نقل کرنے والے امام احمد بن حنبل کا اپنا مذھب اس سے جد ا ہے۔

٭باسند صحیح روایت سے مسلک حق اہل سنت والجماعت کا مذھب ثابت ہونا اور روفض غیرمقلدین کا مذھب کا رد ہونا۔

اب بھی نہ مانیں غیرمقلد تو اللہ آپ کو پکڑے گا ،بس ہم صرف اتنا ہی کہیں گے کہ انگریز سے جو اپ نے اپنی جماعت کا نام اہل حدیث الارٹ کروایا تھا اسے وہ واپس کر دیں۔ شکریہ۔
(ہم غیرمقلد روافض کو کھلا چیلنج دیتے ہیں )

کوئی ایک ہی صحیح صریح غیر معارض حدیث پیش کریں جس میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین نہ کہا گیا ہو ایک ہی کہا گیا ہو اور اس روایت کا کوئی راوی شیعہ نہ ہو اور اس روایت کے کسی ایک بھی راوی کا اپنا فتوی اس حدیث کے خلاف نہ ہو۔ صرف ایک حدیث پیش کریں صرف ایک ہی جس میں یہ تین چیزیں نہ ہوں۔

==========================================

ایسی نا اتفاقی کہ نباہ کی کوئی صورت نہ ہو تو طلاق دینا ہی مصلحت ہے:
القرآن:
 علیکم ان طلقتم النسآء۔
تم پر کو ئی حرج نہیں کہ عورتوں کو (بوقت ضرورت) طلاق دے دو۔
[سورۃ البقرۃ:230]
اور حدیث رزین میں ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت سودہ ؓ کے طلاق دینے کا اردہ فرمایا تھا پھر ان کے عرض کرنے پر طلاق نہیں دی۔

بعض لوگ تو طلاق دینے کو اس قدر عیب اور عار کی بات سمجھتے ہیں کہ خواہ کیسی ہی مصلحت وضرورت ہو اور خواہ زوجین (میاں بیوی) میں کتنی ہی نا اتفاقی ہو جس کی وجہ سے کوئی ایک (شوہر یا بیوی) یادونوں حقوق زوجیت ادا کرنے سے قاصر ہوں (کو تاہی کرتے ہو) اور خواہ زوجہ میں کسی درجہ کی بددینی ہوجس کی اصلاح شوہر کی قدرت سے خارج ہوگئی ہو۔
 (قابل اعتبار مجبوری نہ ہو۔ اس وقت بے شک مکروہ ہے)

مصلحت اور ضرورت کے موقع پر طلاق موجبِ عار نہیں:
من جملہ اُن کے ایک غلطی یہ ہے کہ اس کے اِیقاع (یعنی طلاق دینے) کے متعلق بہت اِفراط و تفریط ہورہا ہے، چناںچہ بعض لوگ تو طلاق دینے کو اس قدر عار وعیب سمجھتے ہیں کہ خواہ کیسی ہی مصلحت وضرورت ہو اور خواہ باہم زوجین(میاں بیوی) میں کتنی ہی نا اتفاقی ہو، جس سے ایک یا دونوں حقوقِ زوجیت ادا کرنے سے قاصر ہوں اور خواہ زوجہ میں کسی درجے کی بد دینی ہو، جس کی اصلاح شوہر کی قدرت سے خارج ہوگئی ہو، چناںچہ یہی اسباب ہیں مشروعیتِ طلاق (طلاق کے مشروع ہونے) کے چناںچہ عورت کے موذی ہونے یا بالکلیہ تارکِ صلاۃ ہونے کی صورت میں ۔ُفقہا نے طلاق کو مستحب اور مرد کی طرف سے عورت کے حقوق ادا نہ ہوسکنے کی صورت میں واجب کہا ہے، کَمَا فِيْ رَدِّ الْمُحْتَارِ مگر پھر بھی خلافِ وضع خاندانی ہونے کے خیال سے اس کو گوارا نہیں کرتے اور عمر بھر اپنی زندگی یا زوجہ کی زندگی تلخ کرتے ہیں اور اس ناگواری کا سبب ان کا أَبْغَضُ الْمُبَاحَاتِ( جائز چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ) ہونا نہیں ہے، کیوںکہ وہ ان مصالح وضرورت کے وقت مباحِ مطلق ہے بلا مبغوضیت کے (بالکل جائز، بغیر ناپسندیدگی کے)۔ اور جب اس کا استحباب یا وجوب( مستحب یا واجب ہونا) بعض صورتوں میںثابت ہے اور استحباب ووجوب کا مبغوضیت (مستحب اور واجب کی ناپسندیدگی) کے ساتھ مجتمع ہونا محال ہے (جمع ہونا ناممکن ہے) اور قرآنِ مجید میں نص ہے: {لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ} اور حدیثِ رزین میں ہے کہ حضورﷺ نے حضرت سودہ ؓ کو طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تھا، پھر ان کے عرض کرنے پر طلاق نہیں دی (کَذَا فِيْ الْمِشْکاۃِ) اسی طرح صحابہ ؓ سے بہ کثرت منقول ہے (کَذَا فِيْ رَدِّ الْمُحْتَارِ) تو پھر علی الاطلاق اس کو مبغوض کیسے کہہ سکتے ہیں؟ بلکہ یہ مبغوضیت اسی صورت میں ہے جب کہ کوئی داعی معتد بہ (قابلِ اعتبار محرّک) نہ ہو، اس وقت بے شک مکروہ ہے۔ (نَقَلَہُ فِيْ الدُّرِّ الْمُخْتَارِ عَنِ الْکَمَالِ)۔ اور حلال ہونا مبغوض کے منافی نہیں، کیوںکہ حلال مکروہ کو بھی شامل ہے، تو حلال کی تفسیر یہ ہوگی:
مَا لَیْسَ فِعْلُہُ بِلَازِمٍ الشَّامِلُ لِلْمُبَاحِ وَالْمَنْدُوْبِ وَالْوَاجِبِ وَالْمَکْرُوْہِ۔ 
ترجمہ:
ایسا فعل جس کا کرنا ہی لازم نہ ہو، اس میں مباح ، مستحب، واجب اور مکروہ سب ہی شامل ہیں۔
[البحر الرائق]


==========================================

مملکت عربیہ سعودیہ کے بڑے علماء کی آفیشل ویب سائٹ سے 






No comments:

Post a Comment