Thursday, 25 July 2024

ایمان کے معانی، فضائل، بنیادی ارکان اور اعمالِ کمالِ ایمان


مسلمانوں کی سربلندی کا واحد سبب»

ایمان رکھنا۔

القرآن:

(مسلمانو) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غمگین رہو، اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔

[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 139]


تفسیر:

جنگ احد کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ شروع میں مسلمان کافر حملہ آوروں پر غالب آگئے اور کفار کا لشکر پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے پچاس تیر انداز صحابہ کا ایک دستہ میدان جنگ کے ایک عقبی ٹیلے پر متعین فرمایا تھا، تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے، جب دشمن پسپا ہوا اور میدان جنگ خالی ہوگیا تو صحابہ نے اس کا چھوڑا ہوا ساز و سامان مال غنیمت کے طور پر اکھٹا کرنا شروع کردیا، تیر اندازوں کے اس دستے نے جب یہ دیکھا کہ دشمن بھاگ چکا ہے تو انہوں نے سمجھا کہ اب ہماری ذمہ داری پوری ہوچکی ہے اور ہمیں مال غنیمت جمع کرنے میں حصہ لینا چاہیے، ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے ٹیلہ چھوڑنے کی مخالفت کی، مگر ان میں سے اکثر نے وہاں ٹھہرنے کو بےمقصد سمجھ کر ٹیلہ چھوڑدیا، دشمن نے جب دور سے دیکھا کہ ٹیلہ خالی ہوگیا ہے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے ہیں تو انہوں نے موقع پاکر ٹیلے پر حملہ کردیا، حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے اپنی بساط کے مطابق ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر سب شہید ہوگئے اور دشمن اس ٹیلے سے اتر کر ان بیخبر مسلمانوں پر حملہ آور ہوگیا جو مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف تھے، یہ حملہ اس قدر غیر متوقع اور ناگہانی تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے لگے، اسی دوران کسی نے یہ افواہ اڑادی کہ آنحضرت ﷺ شہید ہوگئے ہیں، اس افواہ سے بہت سے مسلمانوں کے حوصلے جواب دے گئے، ان میں سے بعض میدان چھوڑ گئے، بعض جنگ سے کنارہ کش ہو کر ایک طرف کھڑے رہ گئے، البتہ آنحضرت ﷺ کے جاں نثار صحابہ کی ایک جماعت آپ کے ارد گرد مقابلہ کرتی رہی، کفار کا نرغہ اتنا سخت تھا کہ اس کشمکش میں آنحضرت ﷺ کا مبارک دانت شہید ہوگیا اور چہرہ مبارک لہو لہان ہوگیا، بعد میں جب صحابہ کو پتہ چلا کہ آپ کی شہادت کی خبر غلط تھی اور ان کے حواس بجا ہوئے تو ان میں سے بیشتر میدان میں لوٹ آئے، اور پھر کفار کو بھاگنا پڑا ؛ لیکن اس درمیانی عرصے میں ستر صحابہ کرام ؓ شہید ہوچکے تھے، ظاہر ہے کہ اس واقعے سے تمام مسلمانوں کو شدید صدمہ ہوا، قرآن کریم ان آیتوں میں انہیں تسلی بھی دے رہا ہے کہ یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جن سے مایوں اور دل شکستہ نہ ہونا چاہیے، اور اس طرف بھی متوجہ کررہا ہے کہ یہ شکست کچھ غلطیوں کا نتیجہ تھی جس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔

ایمان والے کون؟

القرآن:

ایمان لانے والے تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانا ہے، پھر کسی شک میں نہیں پڑے، اور جنہوں نے اپنے مال و دولت اور اپنی جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے۔ وہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔

[سورۃ الحجرات، آیت نمبر 15]

القرآن:

مومن تو وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور ترقی دیتی ہیں اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔

[سورۃ نمبر 8 الأنفال،آیت نمبر 2]

القرآن:

مومن تو وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں اور جب رسول کے ساتھ کسی اجتماعی کام(جہاد) میں شریک ہوتے ہیں تو ان سے اجازت لیے بغیر کہیں نہیں جاتے۔ (47) (اے پیغمبر) جو لوگ تم سے اجازت لیتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ اپنے کسی کام کے لیے تم سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جن کو چاہو، اجازت دے دیا کرو، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیا کرو۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

[سورۃ نمبر 24 النور،آیت نمبر 62]

تفسیر:

(47)یہ آیت غزوہ ٔ احزاب کے موقع پر نازل ہوئی، اس وقت عرب کے کئی قبیلوں نے مل کر مدینہ منورہ پر چڑھائی کی تھی اور آنحضرت ﷺ نے شہر کے دفاع کے لئے مدینہ منورہ کے گرد ایک خندق کھودنے کے لئے تمام مسلمانوں کو جمع کیا تھا، سارے مسلمان خندق کھودنے میں مصروف تھے، اور اگر کسی کو اپنے کسی کام سے جانا ہوتا تو آپ سے اجازت لے کرجاتا تھا، لیکن منافق لوگ اول تو اس کام کے لئے آنے میں سستی کرتے تھے، اور اگر آجاتے تو کبھی کسی بہانے سے اٹھ کر چلے جاتے، اور کبھی بلا اجازت ہی چپکے سے روانہ ہوجاتے، اس آیت میں ان کی مذمت اور ان مخلص مسلمانوں کی تعریف کی گئی ہے جو بلا اجازت نہیں جاتے تھے۔


القرآن:

حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مومن بھائی بھائی ہیں، اس لیے اپنے دو بھائیوں کے درمیان تعلقات اچھے بناؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے۔

[سورۃ نمبر 49 الحجرات، آیت نمبر 10]

************************






کیسے قوت(ظاہری اور باطنی) حاصل ہوتی ہے؟

عاجزی چھوڑ کر اسباب اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ پر اعتماد کرنے، نیکی کرنے میں بھی اللہ سے مدد مانگنے، پھر اللہ کی تقدیر وقدرت کے حوالے نتائج کرنے، اور اللہ پر توکل ویقین رکھنے سےقوت حاصل ہوتی ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَی اللَّهِ مِنْ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي کُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَی مَا يَنْفَعُکَ وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَلَا تَعْجَزْ وَإِنْ أَصَابَکَ شَيْئٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ کَانَ کَذَا وَکَذَا وَلَکِنْ قُلْ قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَائَ فَعَلَ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ۔

ترجمہ:
طاقتور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پسندیدہ ہے، ہر بھلائی میں ایسی چیز کی حرص کرو جو تمہارے لئے نفع مند ہو، اور اللہ سے مدد طلب کرتے رہو اور اس سے عاجز مت ہو، اور اگر تم پر کوئی مصیبت واقع ہوجائے تو یہ نہ کہو کاش میں ایسا ایسا کرلیتا کیونکہ کاش کا لفظ شیطان کا دروازہ کھولتا ہے۔
[صحیح مسلم:2664(6774)، سنن ابن ماجہ:79-4168، صحیح ابن حبان:5721-5722، السنن الکبریٰ للبیھقی:20173]

تشریح:
"طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے، لیکن ہر ایک میں بھلائی ہے۔" یہاں "قوت" سے مراد نفس کی مضبوطی اور آخرت کے معاملات میں پختہ عزم اور ذہنی استعداد ہے۔ ایسا مومن جہاد میں دشمن کے خلاف زیادہ جرات مندانہ اقدام کرتا ہے، اس کے تعاقب میں تیزی سے نکلتا ہے، معروف (نیکی) کے حکم اور منکر (برائی) کے روکنے میں زیادہ ثابت قدم ہوتا ہے، ہر طرح کی تکلیف اور مصیبت کو اللہ کی رضا کے لیے برداشت کرتا ہے، اور عبادات جیسے نماز، روزہ، ذکرو اذکار وغیرہ کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے۔ وہ ان عبادات کو حاصل کرنے اور ان کی حفاظت کرنے میں زیادہ سرگرم رہتا ہے۔ (اور ہر ایک میں بھلائی ہے) یعنی طاقتور اور کمزور دونوں مومنوں میں بھلائی پائی جاتی ہے، کیونکہ دونوں ایمان میں شریک ہیں، اور کمزور مومن بھی عبادات انجام دیتا ہے۔ 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو تمہارے لیے مفید ہو، اس کی حرص کرو، اللہ سے مدد مانگو، اور ناتوانی کا اظہار نہ کرو۔" "احْرِصْ" میں "ر" پر کسرہ(زیر) ہے اور "تَعْجِزْ" میں "ج" پر کسرہ(زیر) ہے۔ بعض روایات میں دونوں کے فتحہ(زبر) کی بھی روایت ہے۔ اس کا مطلب ہے: اللہ کی اطاعت اور اس کی رضا کے حصول کی کوشش کرو، اللہ سے مدد مانگو، اور نہ تو عبادت کرنے میں سستی کرو اور نہ ہی اللہ سے مدد طلب کرنے میں۔ 

آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: "اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہو کہ 'اگر میں یہ کرتا تو یوں ہوتا'، بلکہ کہو: 'اللہ نے تقدیر میں لکھ دیا تھا، جو وہ چاہے گا وہی ہوگا'۔ کیونکہ 'اگر' شیطان کے کام کو کھول دیتی ہے۔" امام قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں: بعض علماء کے نزدیک یہ ممانعت صرف اس شخص کے لیے ہے جو یہ کہے اور اسے یقین ہو کہ اگر وہ ایسا کرتا تو یہ مصیبت قطعاً نہ آتی۔ لیکن جو شخص اللہ کی مشیت(چاہت) کے ساتھ اسے جوڑے، مثلاً یہ کہے کہ "اللہ کی مشیت کے بغیر کچھ نہیں ہوتا"، تو یہ ممانعت اس پر لاگو نہیں ہوتی۔ ابو بکر صدیقؓ کا غارِ ثور میں یہ کہنا کہ "اگر کوئی اپنا سر اٹھاتا تو ہمیں دیکھ لیتا"[صحیح بخاری:4663] اس کی دلیل ہے، لیکن قاضی عیاضؒ کے مطابق یہ حجت نہیں، کیونکہ یہ مستقبل کے بارے میں خبر دینے کی حد تک ہے، نہ کہ تقدیر کے بعد اسے رد کرنے کی دعویٰ۔ اسی طرح امام بخاریؒ نے "باب ما يجوز من اللَّوّ" میں جو احادیث ذکر کی ہیں، جیسے "اگر تمہارے قوم کا کفر کا زمانہ نیا نہ ہوتا تو میں بیت اللہ کو ابراہیمؑ کی بنیادوں پر مکمل کرتا"[بخاری:123،مسلم:1333] یا "اگر میں بغیر گواہی کے سنگسار کرتا تو فلاں عورت کو سنگسار کر دیتا"[بخاری:5310،مسلم:1497]، اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کیلئے انہیں مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ [بخاری:887]، یہ تمام احتمالات مستقبل کے لیے ہیں، نہ کہ ماضی کے تقدیر پر اعتراض۔

القرآن:

جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے ہجرت کی ہے اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے، وہ اور جنہوں نے ان کو (مدینہ میں) آباد کیا اور ان کی مدد کی، یہ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی وارث ہیں۔ اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، (مگر) انہوں نے ہجرت نہیں کی، جب تک وہ ہجرت نہ کرلیں (اے مسلمانو) تمہارا ان سے وراثت کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ ہاں اگر دین کی وجہ سے وہ تم سے کوئی مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد واجب ہے سوائے اس صورت کے جبکہ وہ مدد کسی ایسی قوم کے خلاف ہو جس کے ساتھ تمہارا کوئی معاہدہ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے اچھی طرح دیکھتا ہے۔

[سورۃ الأنفال،آیت نمبر 72]

تفسیر:

(51)سورة انفال کی ان آخری آیات میں میراث کے کچھ وہ احکام بیان فرمائے گئے ہیں جو مسلمانوں کی مکہ مکرمہ سے ہجرت کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے یہ اصول شروع سے طے فرمادیا تھا کہ مسلمان اور کافر آپس میں ایک دوسرے کے وراث نہیں ہوسکتے، اب صورت حال یہ تھی کہ جو صحابہ کرام مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے تھے، ان میں سے بہت سے ایسے تھے کہ ان کے رشتہ دار جو ان کے وارث ہوسکتے تھے، سب مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے، ان میں سے اکثر وہ تھے جو کافر تھے اور مسلمان ہی نہیں ہوئے تھے، وہ مسلمانوں کے اس لئے وارث نہیں ہوسکتے تھے کہ ان کے درمیان کفر اور ایمان کا فاصلہ حائل تھا ؛ چنانچہ ان آیات نے واضح طور پر بتادیا کہ وہ نہ مسلمانوں کے وارث ہوسکتے ہیں اور نہ مسلمان ان کے وارث ہوسکتے ہیں اور مہاجرین کے کچھ ایسے رشتہ دار بھی تھے جو مسلمان تو ہوگئے تھے ؛ لیکن انہوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی، ان کے بارے میں بھی اس آیت نے یہ حکم دیا ہے کہ مہاجر مسلمانوں کا ان سے بھی وراثت کا کوئی رشتہ نہیں ہوسکتا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت تمام مسلمانوں کے ذمے فرض تھا کہ وہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کریں، اور انہوں نے ہجرت نہ کرکے اس فریضے کو ابھی تک ادا نہیں کیا تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ مہاجر مسلمان مدینہ منورہ میں تھے جو دارالاسلام تھا، اور وہ حضرات مکہ مکرمہ میں تھے جو اس وقت دارالحرب تھا، اور دونوں کے درمیان بڑی رکاوٹیں حائل تھیں، بہر صورت مہاجر مسلمانوں کے جو رشتہ دار مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ان کے ساتھ مہاجرین کا وراثت کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ اگر ان کا کوئی رشتہ دار مکہ مکرمہ میں فوت ہوتا تو اس کے ترکے میں ان مہاجرین کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا اور اگر ان مہاجرین میں سے کوئی مدینہ منورہ میں فوت ہوتا تو اس کی میراث میں اس کے مکی رشتہ داروں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا، دوسری طرف جو مہاجرین مدینہ منورہ آکر آباد ہوئے تھے ان کو انصار مدینہ نے اپنے گھروں میں ٹھہرایا تھا، آنحضرت ﷺ نے ہر مہاجر صحابی کا کسی انصاری صحابی سے بھائی چارہ قائم کردیا تھا جسے مؤاخات کہا جاتا ہے، اس آیت کریمہ نے یہ حکم دیا کہ اب مہاجرین کے وارث ان کے مکی رشتہ داروں کے بجائے وہ انصاری صحابہ کرام ہوں گے جن کے ساتھ ان کی مؤاخات قائم کی گئی ہے۔

(52) یعنی جن مسلمانوں نے ابھی تک ہجرت نہیں کی، اگرچہ وہ مہاجرین کے وارث نہیں ہیں، لیکن چونکہ بہر حال مسلمان ہیں، اس لئے اگر کافروں کے خلاف مسلمانوں سے کوئی مدد مانگیں تو مہاجر مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کی مدد کریں، البتہ ایک صورت ایسی بیان کی گئی ہے جس میں اس طرح کی مدد کرنا مہاجر مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے، اور وہ یہ کہ جن کافروں کے خلاف وہ مدد مانگ رہے ہیں ان سے مہاجر مسلمانوں کا کوئی جنگ بندی کا معاہدہ ہوچکا ہو، ایسی صورت میں اگر وہ اپنے مسلمان بھائیوں کا ساتھ دیتے ہوئے ان کے خلاف کوئی کاروائی کریں تو یہ بد عہدی ہوگی، اس لئے ایسی مدد کو ناجائز قرار دیا گیا ہے، اس سے زیادہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ جب کوئی معاہدہ ہوجائے تو اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے بھی اس کی خلاف ورزی کو اسلام نے جائز نہیں رکھا ؛ چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ کفار کے ہاتھوں پسے ہوئے مسلمانوں نے آنحضرت ﷺ سے کفار قریش کے خلاف مدد مانگی اور مسلمانوں کا دل بےتاب تھا کہ انکی مدد کریں، مگر چونکہ قریش کے لوگوں سے معاہدہ ہوچکا تھا، اس لئے ان کے صبر وضبط کا بہت کڑا امتحان پیش آیا، اور آنحضرت ﷺ کے حکم کے تحت وہ اس امتحان میں ثابت قدم رہے۔

القرآن:

اور جو لوگ ایمان لے آئے، اور انہوں نے ہجرت کی، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، وہ اور جنہوں نے انہیں آباد کیا اور ان کی مدد کی وہ سب صحیح معنوں میں مومن ہیں۔ ایسے لوگ مغفرت اور باعزت رزق کے مستحق ہیں۔

[سورۃ نمبر 8 الأنفال،آیت نمبر 74]

تفسیر:

(54)یعنی جن مسلمانوں نے ابھی ہجرت نہیں کی ہے، اگرچہ مومن وہ بھی ہیں، لیکن ان میں ابھی یہ کسر ہے کہ انہوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا، دوسری طرف مہاجرین اور انصار میں یہ کسر نہیں ہے، اس لئے وہ صحیح معنی میں مومن کہلانے کے مستحق ہیں۔

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
افضل طاقتور مومن کون؟
القرآن:
۔۔۔(درجے میں) نہیں برابر ہوسکتے تم میں سے وہ جنہوں نے خرچ کیا فتح(مکہ) سے پہلے، اور لڑائی بھی لڑی،  (ورنہ)یوں تو اللہ نے بھلائی(جنت) کا وعدہ سب(مومنوں) سے کر رکھا ہے۔۔۔
[سورۃ الحدید:10]
القرآن:
جن مسلمانوں کو کوئی معذوری لاحق نہ ہو اور وہ (جہاد میں جانے کے بجائے گھر میں) بیٹھ رہیں وہ اللہ کے راستے میں اپنے مال و جان سے جہاد کرنے والوں کے برابر نہیں ہیں۔ جو لوگ اپنے مال و جان سے جہاد کرتے ہیں ان کو اللہ نے بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت دی ہے۔ اور اللہ نے سب سے اچھائی کا وعدہ کر رکھا ہے۔ (61) اور اللہ نے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت دے کر بڑا ثواب بخشا ہے۔
[سورۃ النساء:95]
تفسیر:
(61) یہ اس حالت کا ذکر ہے جب جہاد ہر شخص کے ذمے فرض عین نہ ہو، ایسے میں جو لوگ جہاد میں جانے کے بجائے گھر میں بیٹھ گئے، اگرچہ ان پر کوئی گناہ نہیں ہے اور ان کے ایمان اور دوسرے نیک کاموں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان سے جنت کا وعدہ کیا ہوا ہے لیکن جو لوگ جہاد میں گئے ہیں ان کا درجہ گھر بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے، البتہ جہاں جہاد فرض عین ہوجائے یعنی مسلمانوں کا امیر تمام مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیدے یا جب کوئی دشمن مسلمانوں پر چڑھ آئے تو پھر گھر بیٹھنا حرام ہے۔



(صابر و شاکر)مومن کے ہر معاملے میں خیر ہی خیر ہے۔

حضرت صہیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ»
ترجمہ:
مومن آدمی کا بھی عجیب حال ہے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات کسی کو حاصل نہیں سوائے اس مومن آدمی کے کہ اگر اسے کوئی تکلیف بھی پہنچی تو اسے نے شکر کیا تو اس کے لئے اس میں بھی ثواب ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچا اور اس نے صبر کیا تو اس کے لئے اس میں بھی ثواب ہے۔
[صحیح مسلم:2999(7500)، صحيح ابن حبان:2896، شعب الایمان-للبيهقي:4169]

القرآن:
لہذا مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ اور میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 152]
القرآن:
۔۔۔یقینا اس میں ہر اس شخص کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو صبر کا بھی خوگر اور شکر کا بھی۔
[سورۃ نمبر 42 الشورى، آیت نمبر 33]










************************،


ایمان کی لغوی معنیٰ:
(1) ایمان لفظ امن سے لیا گیا ہے جو خوف کی ضد ہے۔

[مصباح اللغات: ص41]


فرامینِ رسول اللہ ﷺ:

أَشْرَفُ الْإِيمَانِ أَنْ يَأْمَنَكَ النَّاسُ 

ترجمہ:

اشرف ایمان یہ ہے کہ انسانیت تجھ سے امن میں رہے۔

[المعجم الصغیر-للطبراني:10، جامع الاحادیث-للسيوطي:3499]


الْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ.

ترجمہ:

مومن وہ ہے جس سے لوگ امن میں ہوں۔

[احمد:12561، ابن ماجہ:3934، حاکم:25، طبرانی:193، بغوی:14، ابن حبان:510، البزار:7432]




(2)تصدیق اور تسلیم کے ہیں۔
اور شریعت کی اصطلاح میں ایمان کہا جاتا ہے کہ وہ تمام چیزیں جو نبی کریم ﷺاللہ کی طرف سے لے کر آئے ہیں ، جو قطعیت کے ساتھ نبی کریم ﷺسے ثابت ہیں ، ان کی دل سے تصدیق کرنا، اور زبان سے اس کا اقرار کرنا یہ ایمان کہلاتا ہے۔
حوالہ
’’الإيمان في اللغة التصديق بالقلب وفي الاعتقاد بالقلب والإقرار باللسان ۔‘‘
[التعریفات» ج:1،ص:60،ط:دارالکتاب العربی ،بیروت]

ارکانِ ایمان»

حضرت علی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

الْإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ،  وَإِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ، وَعَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ.

ترجمہ:

ایمان، (بدیہی طور پر ثابت نبوی باتوں پر) (1)دل کے یقین کرنے اور (2)زبان سے اقرار کرنے اور (3)اعضاء سے عمل کرنے کا نام ہے۔

[سنن ابن ماجہ:65، المعجم الأوسط-للطبراني:6254-8580، شعب الایمان-للبيهقي:16]

﴿تفسير الثعلبي:244-1609.سورۃ البقرۃ:3﴾

﴿تفسیر الدر المنثور-للسيوطي:7/583.سورة الحجرات:14﴾



************************



ایمان کی اصطلاحی معنیٰ:
ایمان کی ایک معنیٰ شریعتِ محمدی ﷺ کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔
الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ
[سورہ المائدة:69]
اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔
لہٰذا ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو توحید کا اقرار کرکے شریعت محمدی ﷺ میں داخل ہوجائے۔

اور بعض نے آیت:
{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ }
[سورة يوسف 106]
اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں.

کو بھی اسی معنیٰ پر محمول کیا ہے۔
[المفردات في غريب القرآن: ص91-452-681]




ایمان کی اصل-بنیاد»
حکمِ رسول﴿محمد﴾ ﷺ کو ماننا۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ» 
ترجمہ:
نہیں مومن ہوسکتا تم میں کوئی ایک بھی جب تک کہ اسکی خواہش اس ﴿دین/حکم﴾ کے تابع (پیچھے چلنے والی) نہ ہوجائے جو میں لایا ہوں۔
[شرح السنة-للبغوي:104، المدخل،امام بیھقی: حديث#209]



القرآن:
تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 65]

القرآن:
اور جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا حتمی فیصلہ کردیں تو نہ کسی مومن مرد کے لیے یہ گنجائش ہے نہ کسی مومن عورت کے لیے کہ ان کو اپنے معاملے میں کوئی اختیار باقی رہے۔ اور جس کسی نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، وہ کھلی گمراہی میں پڑگیا۔

[سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر 36]









نہیں بن سکتا(سچاپکاکامل)مومن تم میں سے کوئی شخص جب تک...

(1)میں(نبی)اسے اسکی جان

[احمد:18047]

مال واھل

[نسائی:5014]

اسکے والدین واولاد

[بخاری13]

اور سارے لوگوں سے(بھی)زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔

[بخاری:14]

(2)۔۔۔اسے کفر کی طرف واپسی،آگ میں جانے کی طرح ناپسند ہو۔

[احمد:13959]

(3)۔۔۔اسکی خواہش پیچھے چلے(اس دین کے)جو میں لایا ہوں۔

[بغوی:104]

(4)۔۔۔اپنے مسلمان بھائی (پڑوسی)کیلئے وہی نہ چاہے جو وہ اپنے لئے چاہتا ہے۔

[بخاری:12]






دعا

























حضرت ابوھریرہ ﴿حضرت انس﴾ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ليس الإيمان بالتمنى  ولا بالتحلى ولكن هو ما وقر فى القلب وصدقه الفعل.

﴿العلم علمان: علم باللسان وعلم فى القلب فأما علم القلب فالعلم النافع وعلم اللسان حجة الله على ابن آدم﴾.

ترجمہ:

ایمان(صرف)تمنا اور تزئین کا نام نہیں بلکہ ایمان تو وہ(یقین)ہے جو دل میں پختہ ہوجاۓ اور عمل(بھی) اس کی تصدیق کرے۔

﴿علم دو ہیں: ایک وہ جو دل میں(اللہ کا ڈر پیدا کرتا)ہو، یہی علم نافع ہے۔ اور جو علم (مال، شہرت یا مقابلے کیلئے) زبان پر ہو، وہ تو اللہ کی حجت (الزامی دلیل) ہے اس کے بندوں پر۔﴾

[شعب الایمان-للبيهقي:66، جامع الاحادیث:19317﴿19318﴾، كنزالعمال:11]

القرآن:

’’نہ تمہاری تمنائیں (جنت میں جانے کیلئے) کافی ہیں اور نہ اہل کتاب کی آرزوئیں۔ جو بھی برا عمل کرے گا وہ اسکی سزا پائے گا۔۔۔‘‘

﴿تفسير الراغب الاصفهاني:4/168،سورة النساء:123﴾




حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ آرزوئیں کرنے اور خلوت اختیار کرنے کا نام ایمان نہیں ہے ۔ بلکہ(نبوی باتوں پر) جو (یقین) دلوں میں ثبت ہو اور اعمال اس کی تصدیق کریں۔ (لہٰذا) جو شخص اچھی بات(کلمہ) کہے اور نیک عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی بات(کلمہ) کو رد فرما دیتے ہیں اور جو شخص اچھی بات(کلمہ) کہے اور نیک عمل بھی کرے تو یہ عمل اس بات کو بلند کرتا(قبولیت کا شرف بخشتا) ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’...اسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلمہ اور نیک عمل اسے بلند کرتا ہے۔۔۔‘

﴿تفسير الدر المنثور-للسيوطي:7/10،سورة فاطر:10﴾







حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إن الرجل لا يكون مؤمنا حتى يكون قلبه مع لسانه سواء ويكون لسانه مع قلبه سواء ولا يخالف قوله عمله ويأمن جاره بوائقه۔

ترجمہ:

آدمی(کامل)مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا دل اس کی زبان کے موافق نہ ہوجاۓ(یعنی بدیہی طور پر ثابت نبوی باتوں پر اقرار کے ساتھ یقین ہو)،اور اس کا عمل اس کے قول(یعنی زبانی اقرار)کی مخالفت نہ کرے، اور امن سے ہو اس کا پڑوسی اس کے تکلیفوں سے۔

[الترغیب-لاصفھاني:53، جامع الاحادیث:6301-17374، كنزالعمال:85]






رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنی زبان سے اور حال یہ ہے کہ ایمان اس کے دل میں داخل نہیں ہوا {نہیں پہنچا} {خالص نہیں ہوا} {دل سے ایمان نہیں لائے}، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو {مومنوں کو ایذاء نہ پہنچاؤ}{اور ان کو عار مت دلاؤ} اور ان کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو، اس لیے کہ جو ان کے عیوب کے پیچھے پڑے گا، اللہ اس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اور اللہ جس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اسے اسی کے گھر میں ذلیل و رسوا کر دے گا ۔

[سنن أبي داود:4880،

{سنن الترمذي:2032}

{مسند الروياني:305، المعجم الأوسط للطبراني:3778}

{التوبيخ والتنبيه لأبي الشيخ الأصبهاني:87، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:2511}

{الجامع - معمر بن راشد:20251}]


القرآن:

یہ دیہاتی کہتے ہیں کہ : ہم ایمان لے آئے ہیں۔ ان سے کہو کہ : تم ایمان تو نہیں لائے، البتہ یہ کہو کہ ہم نے ہتھیار ڈال دیے ہیں، (10) اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اور اگر تم واقعی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال (کے ثواب) میں ذرا بھی کمی نہیں کرے گا۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔

[سورۃ الحجرات:14 (تفسير البغوي:2007، الزمخشري،القرطبي،ابن كثير،الدر المنثور،المظهري،الألوسي)]


القرآن:

اے (زبان سے) ایمان والو! (دل سے) ایمان رکھو اللہ پر، اور اس کے رسول پر، اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر اتاری ہے، اور ہر اس کتاب پر جو اس نے پہلے اتاری تھی۔ اور جو شخص اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا اور یومِ آخرت کا انکار کرے وہ بھٹک کر گمراہی میں بہت دور جا پڑا ہے۔

[سورۃ النساء:136]




تفصیلِ ایمان»

پوچھا گیا: ایمان کیا ہے؟
فرمایا:
(1)تم ایمان لاؤ الله ﴿اکیلے حقیقی خدا﴾ پر
یعنی
﴿گواہی دینا کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور گواہی دینا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ دینا، اور رمضان کے روزے رکھنا، اور یہ کہ تم مالِ غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرو﴾
﴿صحیح البخاري:53+87+7266﴾

اور تم ایمان لاؤ
(2)اسکے فرشتوں پر
(3)اور اسکی کتابوں پر
[مسند ابي حنيفة رواية الحصكفي» حديث#2]

اور تم ایمان لاؤ۔۔۔
(4)اسکے پیغمبروں پر
﴿اور عیسیٰ بندے اور رسول ہیں اللہ کے، اور وہ اس کا کلمہ (ہوجا) ہیں جو اس نے مریم کی طرف القا فرمایا، اور وہ اللہ کی طرف سے روح (حکم) ہیں۔ اور جنت حق ہے، اور جہنم بھی حق ہے۔﴾
﴿صحیح البخاري:3435﴾

(5)اور آخرت کے دن پر،

﴿اور تم ایمان لاؤ موت پر اور موت کے بعد زندہ کیے جانے پر، جنت وجھنم، حساب اور (اعمال تولنے والی)میزان پر، اس(اللہ)سے ملاقات پر﴾

﴿مسند احمد:2924، صحیح ابن حبان:173﴾


(6)اور اچھی بری ﴿ہر﴾ تقدیر پر۔

کہ وہ اللہ (بزرگ وبرتر) کی طرف سے ہے.
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي:1، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:321، الاعتقاد للبيهقي: ص134]

جب تم نے یہ (بنیادی) کام انجام دے دیا، تو تم یقینا ایمان لاچکے۔

[مسند احمد:2924، الأحاديث المختارة:8]




اعمالِ ایمان:

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تم جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کہ ایمان نہیں لاؤ گے اور پورے مومن نہیں بنو گے جب تک کہ آپس میں محبت نہیں کروگے کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جب تم اس پر عمل کروگے تو آپس میں محبت کرنے لگ جاؤ گے وہ یہ ہے کہ آپس میں ہر ایک آدمی کو سلام کیا کرو۔

[مسند احمد:9084، المعجم الکبیر للطبرانی:10396]


مسائل اور تخریج:

جنت میں صرف ایمان والے جائیں گے ایمان والوں سے محبت ایمان کی نشانی ہے اور کثرت سلام آپس میں محبت کا باعث ہے۔

[صحیح مسلم:194(54)]


ایمان کی نفی(انکار) کا ذکر جس میں اللہ تعالیٰ کی خاطر (مسلمانوں) سے محبت نہیں۔

[صحیح ابن حبان:236]


سلام کو پھیلانے کا بیان۔

[سنن الترمذي:2688]


ایمان کا چالیسواں شعبہ» نفرت اور حسد کو ترک کرنے کی تلقین کرنے کا بیان۔

[شعب الإيمان-للبیھقي:6613]

ایمان کا اکسٹھواں شعبہ» یہ دینداروں کے قریب آنے اور ان سے دوستی، اور ان کے درمیان سلام پھیلانے کے بیان میں۔

[شعب الإيمان-للبیھقي:8745]







اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جس شخص میں تین اوصاف موجود ہوں وہ ایمان کا مزہ چکھ لیتا ہے۔ (۱) جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے زیادہ اور کسی سے محبت نہ رکھتا ہو۔ (۲) جس شخص کو اپنے دین سے مرتد ہوجانا آگ میں جلا دیا جانے سے زیادہ محبوب ہو۔ (۳) جو اللہ کے لیے کسی سے دوستی رکھتا ہو اور اللہ کے لیے ہی کسی سے بغض رکھتا ہو۔

[صحیح بخاري:16، صحیح مسلم:43]





نصف ایمان:

فرمایا:

طھارت(پکیزگی) آدھا ایمان ہے.

[ترمذی:3519]





نصف ایمان:

فرمایا:

وضو(سے رہنا)آدھا ایمان ہے.

[احمد:23099]





صبر(یعنی احکامِ دین پر جمے رہنا) آدھا ایمان ہے.

[طبرانی:8544]


جس نے نکاح کیا،اس نے اپنا آدھا ایمان کامل کرلیا،اب اپنے باقی آدھے ایمان کے بارے میں الله سے ڈرے.

[المعجم الأوسط-للطبراني:7647]





اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جس نے الله ہی کی خاطر محبت کی، اور الله ہی کیلئے بغض رکھا، اور الله ہی کے واسطے دیا، اور الله ہی کیلئے روکا، تو اس کا ایمان"کامل"ہوگیا۔

[ابوداؤد:4681]








اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تمام لوگوں سے کامل ایمان والے وہ ہیں جو اخلاق میں اچھے ہوں، اور نرم پہلوؤں والے ہوں جو دوستی رکھتے ہیں اور دوست رکھے جاتے ہیں اور جو شخص نہ کسی کو دوست رکھے اور نہ اس کو کوئی دوست رکھے اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔‘‘

[الصحیحة:751۔ معجم الاوسط:4422۔، معجم الصغیر:35]






سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں اپنے دل میں ایسے خیالات پاتا ہوں کہ ان کو زبان پر لانے سے یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ کوئلہ بن جاؤں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ صریح ایمان ہے۔

[معجم الصغیر:65]





اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بندہ پورا ایمان نہیں لاتا جب تک کہ ہنسی مذاق میں بھی جھوٹ چھوڑدے اور جھگڑنا چھوڑدے اگرچہ سچا(حق پر) ہو.

[احمد:8630]




اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جس میں تین عادتیں پیدا ہوگئیں،اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا

یا فرمایا:تین باتیں ایمان کی تکمیل ہیں:

تھوڑے میں سے کچھ خرچ کرنا،اپنی جان سے انصاف کرنا(ہر نافرمانی سے بچانا)،اور عالم کو(خصوصا)سلام کرتے رہنا.

[جامع الاحادیث:40683]





اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تین عادتیں جس میں ہوئیں،اس کا ایمان مکمل ہوجاۓ گا:

وہ شخص جو الله کے بارے میں کسی کی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتا، اور نہ اپنے کسی عمل میں دکھلاوا کرتا ہے، اور جب اس کے سامنے دو کام آتے ہیں ایک دنیا کا اور ایک آخرت کا تو وہ(حکمِ خدا کے خلاف حاصل کی جانے والی) دنیا کے مقابلہ میں آخرت کے کام کو فوقیت(اور ترجیح)دیتا ہے.

[جامع الاحادیث:11197]




اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بندہ اس وقت تک ایمان کامل نہیں پاسکتا جب تک کہ اپنی زبان کو(غلط اور فضول استعمال سے بھی)روک لے۔

[جامع الاحادیث:17838]








اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ایمان کی پانچ(5)باتیں ایسی ہیں کہ اگر کسی شخص میں ان میں سے کوئی نہ ہو تو اس کا ایمان(کامل)نہیں:

حکمِ الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کرنا، فیصلہِ الہی(تقدیر) پر راضی رہنا، خود(کی چاہت)کو الله کے حوالہ کرنا، الله پر بھروسہ کرنا اور مصیبت کے پہلے جھٹکے میں صبر کرنا۔

[جامع الاحادیث،امام سیوطی:11982]



اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

وہ شخص کامل الایمان مومن نہیں جو مصیبت کو نعمت نہ سمجھے اور نرمی وآسانی کو مصیبت نہ سمجھے...(کیونکہ)ہر مصیبت کے بعد نرمی اور ہر آسانی کے بعد مصیبت تو آتی ہی ہے۔

[طبرانی:10949]






اللہ پر بھروسہ رکھتے چڑھائی کرتے گھس جانا۔

القرآن:

جو لوگ (اللہ کا) خوف رکھتے تھے، ان میں سے دو مرد جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا تھا۔ (20) بول اٹھے کہ : تم ان پر چڑھائی کر کے (شہر کے) دروازے میں گھس جاؤ۔ جب گھس جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے۔ اور اپنا بھروسہ صرف اللہ پر رکھو، اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو۔

[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 23]

تفسیر:

(20) یہ دو صاحبان حضرت یوشع اور حضرت کالب (علیہما السلام) تھے جو ہر مرحلے پر حضرت موسیٰ ؑ کے وفادار رہے تھے اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت سے بھی سرفراز فرمایا، انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اللہ پر بھروسہ کرکے آگے بڑھو تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق تم ہی غالب رہوگے۔





القرآن:

اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرجائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کردے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا، اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے جو مومنوں کے لیے نرم اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے۔ اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جو وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑے علم والا ہے۔

[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 54]




القرآن:

درحقیقت یہ تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، لہذا اگر تم مومن ہو تو ان سے خوف نہ کھاؤ، اور بس میرا خوف رکھو۔

[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 175]

القرآن:

شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بےحیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا، ہر بات جاننے والا ہے۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 268]

القرآن:

اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 208]




منافق کون؟

القرآن:

اے ایمان والو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ کے پاس اپنے خلاف (یعنی اپنے مستحقِ عذاب ہونے کی) ایک کھلی کھلی وجہ پیدا کردو؟ یقین جانو کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے، اور ان کے لیے تم کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔

[سورۃ النساء،آیت نمبر 144]

القرآن:

اے ایمان والو ! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان میں سے ایسے لوگوں کو جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے اور کافروں کو یار ومددگار نہ بناؤ، اور اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو تو اللہ سے ڈرتے رہو۔

[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 57]

تفسیر:

”یار و مددگارـ“ عربی لفظ ”ولی“ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ”ولی“ بنانے کو ”موالات“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی دوستی اور قلبی محبت کا تعلق ہے جس کے نتیجے میں دو آدمیوں کا مقصد زندگی اور ان کا نفع و نقصان ایک ہوجائے۔ اس قسم کا تعلق مسلمان کا صرف مسلمان ہی سے ہوسکتا ہے اور کسی غیر مسلم سے ایسا تعلق رکھنا سخت گناہ ہے اور اس آیت میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے، یہی حکم سورة نساء (4: 139) سورة مائدہ (5: 51) سورة توبہ (9: 23) سورة مجادلہ (28: 22) اور سورة ممتحنہ (60: 1) میں بھی دیا گیا ہے، البتہ جو غیر مسلم جنگ کی حالت میں نہ ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے، جیسا کے خود قرآن کریم نے سورة ممتحنہ (60: 8) میں واضح فرمادیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت پوری حیات طیبہ میں یہ رہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا، اسی طرح ان کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعاون کے وہ معاہدہ اور تجارتی معاملات بھی کئے جاسکتے ہیں جن کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں دوستی کے معاہدے کہا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ معاہدے یا معاملات اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف نہ ہوں اور ان میں کسی خلاف شرع عمل کا ارتکاب لازم نہ آئے، چنانچہ خود آنحضرت ﷺ نے اور آپ کے بعد صحابہ کرام نے ایسے معاہدات اور معاملات کیے ہیں، غیر مسلموں کے ساتھ موالات کی ممانعت کرنے کے بعد قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ : الا یہ کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لئے بچاؤ کا کوئی طریقہ احتیار کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار کے ظلم وتشدد سے بچاؤ کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے جس سے بظاہرموالات معلوم ہوتی ہو تو اس کی گنجائش ہے۔




القرآن:

کیا تم ان لوگوں سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑا، اور رسول کو (وطن سے) نکالنے کا ارادہ کیا، اور وہی ہیں جنہوں نے تمہارے خلاف (چھیڑ چھاڑ کرنے میں) پہل کی ؟ (12) کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ (اگر ایسا ہے) تو اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تم اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔ ان سے جنگ کرو تاکہ اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے، انہیں رسوا کرے، ان کے خلاف تمہاری مدد کرے، اور مومنوں کے دل ٹھنڈے کردے۔ اور ان کے دل کی کڑھن دور کردے، اور جس کی چاہے توبہ قبول کرلے (13) اور اللہ کا علم بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل۔

[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 13]

تفسیر:

(12) اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے مکہ مکرمہ میں ظلم شروع کیا اور یہ بھی کہ انہوں نے صلح حدیبیہ کو توڑنے میں پہل کی۔

(13) یعنی اس کا بھی امکان ہے کہ کفار توبہ کرکے مسلمان ہوجائیں، چنانچہ بہت سے لوگ اس کے بعد واقعی مسلمان ہوئے۔


القرآن:

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی مومن ہو تو سود کا جو حصہ بھی (کسی کے ذمے) باقی رہ گیا ہو اسے چھوڑ دو۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 278]





القرآن:

(یہ کامیاب سودا کرنے والے وہ ہیں جو) توبہ کرنے والے ! اللہ کی بندگی کرنے والے ! اس کی حمد کرنے والے ! روزے رکھنے والے ! (86) رکوع میں جھکنے والے ! سجدے گزرنے والے ! نیکی کی تلقین کرنے والے، اور برائی سے روکنے والے، اور اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے، (87) (اے پیغمبر) ایسے مومنوں کو خوشخبری دے دو۔

[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 112]

تفسیر:

(86) قرآن کریم نے یہاں جو لفظ استعمال کیا ہے وہ السائحون ہے اس لفظ کے اصل معنی تو سیاحت کرنے والے کے ہیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے اس کی تفسیر روزہ رکھنے سے فرمائی ہے اور یہی تفسیر متعدد صحابہ اور تابعین سے بھی منقول ہے (تفسیر ابن جریر) بظاہر روزے کو سیاحت اس لیے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح سفر میں انسان کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کے معمولات قائم نہیں رہتے، اسی طرح روزے میں بھی ان معمولات میں فرق آجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔

( 87) قرآن کریم نے بہت سے مواقع پر ”اللہ کی قائم کی ہوئی حدود“ اور ان کی حفاظت کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ بڑی معنی خیز اصطلاح ہے۔ اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے احکام دئیے ہیں۔ وہ کچھ حدود کے پابند ہیں۔ ان حدود میں رہ کر ان کو انجام دیا جائے تو وہ درست اور نیک کام ہیں۔ اور اگر حدود سے نکل جائیں تو وہی کام ناپسندیدہ اور بعض اوقات گناہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی عبادت بہت ثواب کا کام ہے، لیکن اگر کوئی شخص عبادت میں اتنا منہمک ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے جو حقوق رکھے ہیں، ان کو پامال کرنے لگے، تو وہ عبادت بھی ناجائز ہوجاتی ہے۔ تہجد کی نماز بڑی عظیم فضیلت کی چیز ہے، لیکن اگر کوئی شخص یہ نمازیں اس طرح پڑھے جس سے سونے والوں کی نیند میں خلل آئے تو یہ ناجائز ہے۔ والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی نفلی عبادت نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس کی وجہ سے بیوی بچوں کے حقوق پامال کرنے لگے تو یہ گناہ ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں بہت سی نیکیوں کا بیان کرنے کے بعد آخر میں حدود کی حفاظت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ کہ یہ حضرت تمام نیکیاں ان حدود میں رہ کر انجام دیتے ہیں جو ان کاموں کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھی ہیں۔ ان حدود کی تعلیم آنحضرت ﷺ نے اپنے قول اور فعل سے دی ہے اور ان کو سیکھنے کا بہترین طریقہ اس کے سوا کوئی اور نہیں ہے کہ انسان کسی اللہ والے کی صحبت میں رہے، اور اس کے طرز عمل کو دیکھ دیکھ کر ان حدود کو سمجھنے اور اپنی زندگی میں ان کو اتارنے کی کوشش کرے۔



مومنین کون؟ نیک اعمال والے۔

القرآن:

بےشک یہ قرآن راہنمائی کرتا ہے وہ راستہ جو سب سے زیادہ سیدھا ہے، اور خوشخبری دیتا ہے مومنین کو جو نیک عمل کرتے ہیں، انہیں  کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔

[سورۃ نمبر 17 الإسراء،آیت نمبر 9]

القرآن:

(نازل کی)ٹھیک سیدھی(کتاب) تاکہ ڈر سنائے عذاب سخت کا اس کی طرف سے اور خوشخبری دے مومنوں کو جو عمل کرتے ہیں اچھے کہ ان کے لیے ہے اجر اچھا۔

[سورۃ الكهف، آیت نمبر 2]

ترجمہ:

ایک سیدھی سیدھی کتاب جو اس نے اس لیے نازل کی ہے کہ لوگوں کو اپنی طرف سے ایک سخت عذاب سے آگاہ کرے اور جو مومن نیک عمل کرتے ہیں ان کو خوشخبری دے کہ ان کو بہترین اجر ملنے والا ہے۔



************************


ایمان کے فوائد و ثمرات:

ایمان کے فوائد و ثمرات بے حساب و بے شمار ہیں، چنانچہ دل' جسم' راحت' پاکیزہ زندگی اور دنیا و آخرت میں نہ جانے کتنے فوائد و ثمرات ہیں' مختصر یہ کہ دنیا و آخرت کی ساری بھلائیاں اور تمام تربرائیوں سے دوری (عافیت) یہ ایمان ہی کے ثمرات ہیں، ایمان کے چند فوائد و ثمرات حسب ذیل ہیں:

1۔ اللہ عز و جل کی ولایت پر رشک :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّـهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ"﴿٦٢﴾ (سورۃ یونس)
"سنو! بے شک اللہ کے اولیاء (دوستوں) کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔"

پھر ان کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا:

"الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ"﴿٦٣﴾ (سورۃ یونس)
"یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔"

نیز ارشاد ہے:
"اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ" (سورۃ البقرۃ :257)
"اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا ولی ہے ' وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔"

یعنی انہیں کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف، جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشنی کی طرف، گناہوں کی تاریکیوں سے نکال کراطاعت کی روشنی کی طرف اور غفلت کی تاریکیوں سے نکال کر بیداری اور ذکر کی روشنی کی طرف لاتا ہے۔




2۔ رضاء الٰہی کا حصول:
اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚأُولَـٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّـهُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٧١﴾ وَعَدَ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ"﴿٧٢﴾ (سورۃ توبۃ)
" مومن مرداور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست (معاون ومددگار) ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے منع کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکاة دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے ۔ ان مومن مرد وںاور مومن عورتوں سے اللہ تعالیٰ نے ان جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے، اور ان صاف ستھرے پاکیزہ محلات کا جو ان ہمیشگی والی جنتوں میں ہیں' اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے، یہی عظیم کامیابی ہے۔"

چنانچہ انہیں اللہ کی رضا ورحمت اور ان پاکیزہ محلوں کی کامیابی ان کے اس ایمان کے سبب حاصل ہوئی جس سے ا نھوں نے فریضہ ٔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی انجام دہی اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی تابعداری کرکے اپنے آپ کو اور دیگر لوگوں کو مکمل کیا تھا' اس طور پر یہ حضرات عظیم ترین فلاح و کامرانی سے ہمکنار ہوئے۔








3۔ کامل ایمان (سرے سے) جہنم میں داخل ہونے سے روکتا ہے' جب کہ کمزور (ناقص)ایمان جہنم میں ہمیشہ ہمیش کے لئے رہنے سے مانع ہوتا ہے، کیونکہ جو شخص ایمان لاکر تمام واجبات بجا لائے اور تمام حرام امور ترک کر دے وہ جہنم میں داخل نہیں ہو گا، اسی طرح جس شخص کے دل میں ذرا بھی ایمان ہوگا وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش نہیں رہے گا۔





4۔اللہ تعالیٰ تمام ناپسندیدہ چیزوں سے مومنوں کا دفاع کرتا ہے اور انہیں مصائب سے نجات عطا فرماتا ہے، اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"إِنَّ اللَّـهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا "﴿٣٨﴾(سورۃ الحج)
"اللہ تعالیٰ مومنوں کا دفاع کرتا ہے۔"

یعنی ہر ناپسندیدہ چیز سے، جن وانس کے شیاطین کے شر سے اور دشمنوں سے ان کا دفاع کرتا ہے، نیز پریشانیوں کے نزول سے قبل ہی انہیں ان سے دور کردیتا ہے اور نزول کے بعد انہیں ختم کردیتا ہے یا ان میں تخفیف کرتا ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:
"وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٧﴾ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ"﴿٨٨﴾ (سورۃ الانبیاء)
"اور مچھلی والے (یونس علیہ السلام) کو یاد کرو، جب وہ غصہ سے نکل کر گئے اور سوچا کہ ہم انہیں پکڑ نہ سکیں گے، بالآخر وہ اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھے کہ ''الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے ، بیشک میں ظالموں میں سے ہوگیا''۔ تو ہم نے ان کی پکار سن لی اور انہیں غم سے نجات دے دی، اور ہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں۔"

نیز ارشاد ہے:
"ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنجِ الْمُؤْمِنِينَ"﴿١٠٣﴾ (سورۃ یونس)
"پھر ہم اپنے پیغمبروں کو اور ایمان والوں کو نجات دے دیتے ہیں ، اسی طرح ہمارے ذمہ ہے کہ ہم ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔"

نیز اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ ﴿١٧١﴾ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُونَ ﴿١٧٢﴾وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ"﴿١٧٣﴾ (سورۃ الصافات)
"اور البتہ ہمارا وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لئے صادر ہو چکا ہے۔ کہ یقینا ان کی مدد کی جائے گی۔ اور یقینا ہمارا لشکر ہی غالب و فتح یاب ہو گا۔"

نیز ارشاد ہے:

"وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا"﴿٢﴾(سورۃ الطلاق)
"اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اس کے لئے سبیل پیدا فرمادیتا ہے۔"

یعنی لوگوں پر آنے والی ہرپریشانی سے نجات کی سبیل پیدا کردیتا ہے۔

نیز ارشاد ہے:
"وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا"﴿٤﴾ (سورۃ الطلاق)
"اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے ہر معاملہ میں آسانی پیدا کردیتا ہے۔"

چنانچہ متقی مومن کے مسائل اللہ تعالیٰ آسان فرماتاہے، اسے آسانی کی توفیق عطا کرتا ہے،پریشانی سے نجات دیتا ہے، دشواریوں کو سہل کرتا ہے، اسے اس کے ہر غم سے چھٹکارا اور ہر تنگی سے نجات کی سبیل عطا کرتا ہے ، اور اسے ایسے ذریعہ سے روزی عطا کرتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا، ان تمام باتوں کے شواہد کتاب وسنت میں بکثرت موجود ہیں۔



5۔ ایمان' دنیا و آخرت میں پاکیزہ زندگی عطا کرتا ہے، اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ"﴿٩٧﴾ (سورۃ النحل)
"جو مرد و عورت نیک عمل کرے دراں حالیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے یقینا نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے اوران کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے۔"

وہ اس طرح سے کہ ایمان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ایمان دل کا سکون و اطمینان، اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ روزی پر دل کی قناعت اور غیر اللہ سے بے تعلقی پیدا کرتا ہے ' اور یہی پاکیزہ زندگی ہے، کیونکہ دل کا سکون و اطمینان اوران تمام چیزوں سے دل کو تشویش نہ ہونا جن سے ایمان صحیح سے محروم شخص کو تشویش ہوتی ہے' یہی پاکیزہ زندگی کی بنیاد ہیں۔
[التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان از سعدی ، صفحہ :68]

اور پاکیزہ زندگی' پاکیزہ حلال روزی' قناعت، نیک بختی، دنیا میں عبادت کی لذت و حلاوت اور انشراح صدر کے ساتھ اطاعت کے کاموں کی بجا آوری کو شامل ہے۔
[تفسیر القرآن العظیم از ابن کثیر :2/566]

امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:''صحیح بات یہ ہے کہ پاکیزہ زندگی ان (مذکورہ) تمام چیزوں کو شامل ہے''

نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:
عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ " قد افلح من اسلم، ‏‏‏‏‏‏ورزق كفافا، ‏‏‏‏‏‏وقنعه الله بما آتاه".
ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مراد کو پہنچا اور چھٹکارا پایا اس نے جو اسلام لایا اور موافق ضرورت کے رزق دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی روزی پر قناعت دی۔"
[صحیح مسلم : زکاۃ کے احکام و مسائل، باب:کفایت شعاری اور قناعت پسندی کا بیان۔حدیث نمبر: 2426]


نیز آپ ﷺنے فرمایا:

عن انس بن مالك ، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " إن الله لا يظلم مؤمنا حسنة يعطى بها في الدنيا، ‏‏‏‏‏‏ويجزى بها في الآخرة، ‏‏‏‏‏‏واما الكافر فيطعم بحسنات ما عمل بها لله في الدنيا حتى إذا افضى إلى الآخرة لم تكن له حسنة يجزى بها".
ترجمہ:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ کسی مومن پر ایک نیکی کے لیے بھی ظلم نہ کرے گا، اس کا بدلہ دنیا میں دے گا اور آخرت میں بھی دے گا اور کافر کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ جب آخرت ہو گی تو اس کے پاس کوئی نیکی نہ رہے گی جس کا اس کو بدلہ دیا جائے۔"
[صحیح مسلم : قیامت اور جنت اور جہنم کے احوال ، باب :مومن کو نیکیوں کا بدلہ دنیا اور آخرت میں ملے گا۔ حدیث نمبر: 7089]








6۔ تمام اقوال واعمال کی صحت و کمال خود عمل کرنے والے کے دل میں ایمان و اخلاص کے اعتبار سے ہوا کرتی ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:

"فَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ" (سورۃ الانبیاء:94)

"تو جو بھی نیک عمل کرے دراں حالیکہ وہ مومن بھی ہو تو اس کی کوشش کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔"

یعنی ایسے شخص کی کوشش اکارت اور اس کا عمل ضائع نہیں کیا جائے گا' بلکہ اسے اس کی ایمانی قوت کے اعتبار سے (بڑھا کر) گنا در گنا (اجر) عطا کیا جائے گا۔

نیزارشاد گرامی ہے:
"وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا"﴿١٩﴾ (سورۃ الاسراء)
"اور جس کا ارادہ آخرت کا ہواور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہئے وہ کرتا بھی ہو اور وہ با ایمان بھی ہو ' تو یہی لوگ ہیں جن کی کو شش کی اللہ کے یہاں پوری قدردانی کی جائے گی۔"


''آخرت کے لئے کوشش'' کا مطلب آخرت سے قریب کرنے والے ا ن اعمال کی بجا آوری اور ان پر عمل کرنا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی زبانی مشروع فرمایا ہے۔








7۔ صاحب ایمان کو اللہ تعالیٰ صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرماتا ہے، اور صراط مستقیم میں اللہ اسے علم حق اور اس پر عمل کی نیز محبوب و پرمسرت چیزوں کے حصول پر شکرگزاری کی اور مصائب و پریشانیوں پر اظہار رضامندی اور صبر کی ہدایت دیتا ہے۔
اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُم بِإِيمَانِهِمْ" (سورۃ یونس:9)

"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیا انہیں ان کا پروردگار ان کے ایمان کے سبب ہدایت عطا فرماتا ہے۔"


امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:''اس بات کا احتما ل ہے کہ یہاں (آیت: ''بِإِيمَانِهِمْ'' میں) باء سببیت کے لئے ہو، اور اس صورت میں تقدیری عبارت یوں ہوگی کہ دنیا میں ان کے ایمان کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے روز صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے گاتاکہ وہ اس سے گزر کر جنت میں پہنچیں۔اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ باءاستعانت کے لئے ہو، جیساکہ امام مجاہد اللہ تعالیٰ کے قول(يَهْدِيهِمْ رَبُّهُم بِإِيمَانِهِمْ)کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے نور بنائے گا جس میں وہ چلیں گے

اور کہا گیا ہے کہ اس کے عمل کو ایک خوبصورت اورپاکیزہ خوشبو کی شکل دی جائے گی ، جب وہ اپنی قبر سے اٹھے گا تو وہ اس کے سامنے آکر اسے ہر قسم کی خیر و بھلائی کی بشارت دے گا، وہ (صاحب ایمان) اس سے کہے گا :تم کون ہو؟ وہ جواب دے گا کہ میں تمہارا عمل ہوں۔اور پھر اس کے سامنے ایک نور بنایا جائے گا جو اسے جنت میں داخل کردے گا۔



8۔ ایمان بندے کے لئے اللہ کی محبت پیدا کرتا ہے اور مومنوں کے دلوں میں اس کی محبت بھر دیتا ہے، اور جس سے اللہ عز وجل اور مومن بندے محبت کرنے لگیں اسے سعادت و کامرانی حاصل ہوتی ہے، اور مومنوں کی محبت کے فوائد بے شمار ہیں، جیسے ذکر خیراور زندگی میں اور مرنے کے بعداس کے لئے دعاء خیر وغیرہ۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَـٰنُ وُدًّا"﴿٩٦﴾ (سورۃ مریم)
"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے اللہ رحمن محبت پیدا کردے گا۔"



9۔ دین میں امامت کا حصول' یہ ایمان کے عظیم ترین ثمرات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ علم و عمل کے ذریعہ اپنے ایمان کی تکمیل کرنے والے مومن بندوں کوسچی زبان عطا فرمادے اور انہیں ایسے ائمہ بنادے جو اس کے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کریں اور ان کی اقتدا وپیروی کی جائے۔

ارشاد باری ہے:
"وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖوَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ"﴿٢٤﴾ (سورۃ السجدۃ)
" اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔"

چنانچہ صبر و یقین ہی سے دین میں امامت کا مقام حاصل ہوتا ہے، کیونکہ صبر و یقین ہی ایمان کی اساس اور کمال ہیں۔



10۔ بلندیٔ درجات کا حصول، اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"يَرْفَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ" (سورۃ المجادلۃ:11)
"اللہ تعالیٰ تم میں سے ایمان اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔"

چنانچہ یہ لوگ اللہ کے نزدیک اور اللہ کے بندوں کے نزدیک دنیا و آخرت میں پوری مخلوق میں سب سے اعلیٰ مقام کے مالک ہیں۔
انہیں یہ رتبۂ بلند محض ان کے سچے ایمان اور علم و یقین کی بدولت حاصل ہوا ہے۔



11۔ اللہ کی کرامت(عزت و مقام) اور ہر طرح سے امن وسکون کی بشارت کا حصول، جیساکہ اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ"﴿٢٢٣﴾ (سورۃ البقرۃ)
"اور مومنوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔"

(اس آیت کریمہ میں) اللہ نے بشارت کا مطلق ذکر فرمایا ہے تاکہ ہر طرح کی دیر سویر بھلائی کو شامل ہو، جب کہ درج ذیل آیت کریمہ میں بشارت کا مقید ذکر فرمایا ہے:
"وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ" (سورۃ البقرۃ:25)
"اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اس بات کی بشارت دیدیجئے کہ ان کے لئے ایسی جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔"

چنانچہ اہل ایمان کے لئے عام اور خاص خوشخبری ہے، اور انہی کے لئے دنیا و آخرت میں عمومی امن بھی ہے، جیساکہ ارشاد باری ہے:
"الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ" ﴿٨٢﴾ (سورۃ الانعام)
"جو لوگ ایمان لائے اوراپنے ایمان کو ظلم (شرک) کے ساتھ گڈمڈ نہیں کیا' ایسے ہی لوگوں کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر گامزن ہیں۔"

اور انہی کے لئے خاص امن بھی ہے،جیساکہ ارشاد ہے:
"فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ"﴿٤٨﴾ (سورۃ الانعام)
"توجو ایمان لے آئے اور اصلاح کر لے ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔"

چنانچہ (اس آیت کریمہ میں) اللہ تعالیٰ نے ان سے مستقبل کے خوف و ہراس کی اور ماضی کے رنج والم کی نفی فرمائی ہے، اور اسی سے ان کا امن و قرارمکمل ہوتا ہے، غرضیکہ مومن کے لئے دنیا و آخرت میں مکمل امن و سکون اور ہر خیر کی بشارت ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:
[التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان از سعدی ، صفحہ :77 تا 88]



12۔ ایمان سے گنا درگنا ثواب اور وہ مکمل نور حاصل ہوتا ہے جس کی روشنی میں بندہ اپنی زندگی میں چلتا ہے اور قیامت کے روز چلے گا، چنانچہ دنیا میں اپنے علم و ایمان کی روشنی میں چلتا ہے اور جب قیامت کے روز ساری روشنیاں گل ہوں گی تو وہ اپنے نور سے پل صراط پر چلے گا' یہاں تک کہ کرامت و نعمت کے مقام (جنت) میں جا داخل ہوگا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایمان پر بخشش و مغفرت مرتب فرمائی ہے، اور جس کے گناہ بخش دیئے جائیں وہ عذاب الٰہی سے محفوظ ہوکر اجر عظیم سے ہمکنار ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ"﴿٢٨﴾ (سورۃ الحدید)
"اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہراحصہ دے گا اور تمہیں وہ نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو گے اور تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا' اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔"








13۔ مومنوں کو اپنے ایمان کے سبب ہدایت و کامرانی نصیب ہوگی، اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ اور آپ سے پہلے کے انبیاء پر نازل کردہ احکام پر مومنوں کے ایمان ، ایمان بالغیب، نماز کی اقامت اور زکاة کی ادائیگی کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

"أُولَـٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ"﴿٥﴾ (سورۃ البقرۃ)
"یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر (گامزن) ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔"

چنانچہ یہی مکمل ہدایت و کامرانی ہے ، کامل و مکمل ایمان کے بغیر ہدایت و کامیابی کی کوئی سبیل نہیں۔








14۔ پند و نصائح سے استفادہ ایمان کے ثمرات میں سے ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:

"وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ"﴿٥٥﴾ (سورۃ الذاریات)
"اور آپ نصیحت فرمایئے کیونکہ نصیحت مومنوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔"

یہ اس لئے کہ ایمان' صاحب ایمان کو علمی و عملی طور پر حق کی پابندی اور اس کی اتباع پر آمادہ کرتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کے پاس نفع بخش نصائح کے حصول کا عظیم آلہ اور پوری تیاری ہوتی ہے اور حق کی قبولیت اور اس پر عمل سے کوئی چیز مانع نہیں ہوتی۔








15۔ایمان 'صاحب ایمان کو خوشی میں شکر گزاری ' پریشانی میں صبر اور اپنے تمام اوقات میں خیر و بھلائی حاصل کرنے پر آمادہ کرتا ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:

"مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرٌ ﴿٢٢﴾ لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗوَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ"﴿٢٣﴾ (سورۃ الحدید)
"تمہیں جو کوئی مصیبت دنیا میں یا (خاص) تمہاری جان میں پہنچتی ہے قبل اس کے کہ ہم اسے پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے' بلا شبہہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے لئے(نہایت) آسان ہے۔ تاکہ تم اپنے سے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہو اور نہ عطا کردہ کسی چیز پر اتراؤ' اور اللہ تعالیٰ اترانے ' فخر کرنے والے سے محبت نہیں کرتا۔"

نیز ارشاد باری ہے:
"مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗوَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ"(سورۃ التغابن)
"جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ اللہ کے حکم سے ہوا کرتی ہے، اور جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔"


اگر ایمان کے ثمرات میں سے صرف یہی ہوتا کہ ایمان' صاحب ایمان کو مصائب و مشکلات میں ' جن سے ہر ایک دوچار ہوتا ہے' تسلی دیتا ہے تو بھی کافی تھا، جب کہ ایمان و یقین سے شرف یابی (بذات خود) مصائب میں تسلی کا عظیم ترین سبب ہے، نبی کریم ﷺنے فرمایا:
عن صهيب ، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " عجبا لامر المؤمن، ‏‏‏‏‏‏إن امره كله خير، ‏‏‏‏‏‏وليس ذاك لاحد إلا للمؤمن إن اصابته سراء شكر، ‏‏‏‏‏‏فكان خيرا له، ‏‏‏‏‏‏وإن اصابته ضراء صبر، ‏‏‏‏‏‏فكان خيرا له".
ترجمہ:
صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مومن کا بھی عجب حال ہے اس کا ثواب کہیں نہیں گیا۔ یہ بات کسی کو حاصل نہیں ہے اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی تو وہ شکر کرتا ہے اس میں بھی ثواب ہے اور جو اس کو نقصان پہنچا تو صبر کرتا ہے اس میں بھی ثواب ہے۔"
[صحیح مسلم: زہد اور رقت انگیز باتیں ، باب : مومن کا معاملہ سارے کا سارا خیر ہے۔ حدیث نمبر: 2999]

صبر وشکر تمام بھلائیوں کا سر چشمہ ہیں، مومن اپنے تمام اوقات میں بھلائیوں کو غنیمت جانتا ہے اور ہر حالت میں فائدہ اٹھاتا ہے، نعمت و خوشحالی کے حصول پر اسے بیک وقت دو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں: محبوب و پسندیدہ امر کے حصول کی نعمت، اور اس سے بڑھ کر اس پر شکرگزاری کی توفیق کی نعمت، اور اس طرح اس پر نعمتوں کی تکمیل ہوتی ہے، اور پریشانی سے دوچار ہونے پر اسے بیک وقت تین نعمتیں حاصل ہوتی ہیں: گناہوں کے کفارہ کی نعمت، اس سے بڑھ کر مرتبہ صبر کے حصول کی نعمت، اور اس پر پریشانی کے آسان اور سہل ہونے کی نعمت ، کیونکہ جب اسے اجر و ثواب کے حصول کی معرفت اور صبر کی مشق ہوگی تو اس پر مصیبت آسان اور سہل ہوجائے گی،
[التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان از سعدی ، صفحہ 17، 88]








16۔ سچا ایمان ' شک و شبہہ ختم کر دیتا ہے اور ان تمام شکوک کی جڑ کاٹ دیتا ہے جو بہت سے لوگوں کو لاحق ہو کر انہیں دین کے اعتبار سے نقصان پہنچاتے ہیں، جن و انس کے شیاطین اور برائی کا حکم دینے والے نفوس کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کی بیماریوں کا سچے ایمان کے سوا کوئی علاج نہیں، اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا"(سورۃ الحجرات:15)

"بیشک (سچے حقیقی) مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان لائے اور پھر شک میں مبتلا نہ ہوئے۔"

ان وسوسوں کا علاج (مندرجہ ذیل) چار چیزیں ہیں:

1۔ ان شیطانی وسوسوں سے باز رہنا۔

2۔ ان وسوسوں کے ڈالنے والے یعنی شیطان کے شر سے (اللہ کی) پناہ مانگنا۔

3۔ایمانی عصمت (ڈھال) سے بچاؤ کرنا، چنانچہ بندہ کہے: ''آمنت باللہ'' میں اللہ پر ایمان لایا۔

4۔ان وسوسوں کے بارے میں زیادہ سوچنے سے باز رہنا۔
[التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان از سعدی ، صفحہ :83]








17۔اللہ عز وجل پر ایمان' خوشی وغم، خوف و امن، اطاعت و نافرمانی اور ان کے علاوہ ان سارے امور میں جو ہر شخص کو لا محالہ پیش آتے ہیں' مومنوں کا ماویٰ و ملجا ہے، چنانچہ وہ خوشی ومسرت کے وقت ایمان ہی کی طرف رجوع کرتے (پناہ لیتے) ہیں، چنانچہ وہ اللہ کی حمد کرتے اور اس کی ثنا بیان کرتے ہیں اور نعمتوں کو اللہ کے محبوب کاموں میں استعمال کرتے ہیں، اسی طرح پریشانیوں ، دشواریوں اور ہموم و غموم کے وقت مختلف انداز میں ایمان کی طرف رجوع کرتے (پناہ لیتے) ہیں، اپنے ایمان اور اس کی حلاوت و مٹھاس نیز اس پر مرتب ہونے والے اجر و ثواب سے تسلی حاصل کرتے ہیں اور رنج و ملال اور قلق و اضطراب کا مقابلہ دل کے سکون اور رنج و غم کو کافور کرنے والی پاکیزہ زندگی کی طرف رجوع کرکے کرتے ہیں، اور خوف کے وقت بھی ایمان ہی کی طرف رجوع کرتے اور اس سے اطمینان حاصل کرتے ہیں، اور اس سے ان کے ایمان ، ثابت قدمی، قوت اور بہادری میں اضافہ ہوتا ہے اور لاحق ہونے والا خوف جاتا رہتا ہے، جیسا کہ اللہ عز وجل نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ارشاد فرمایا:
"الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ﴿١٧٣﴾فَانقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ"﴿١٧٤﴾ (سورۃ آل عمران)
"وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کر لئے ہیں' تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے ان کے ایمان میں اضافہ کر دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔ (نتیجہ یہ ہوا کہ) یہ اللہ کی نعمت و فضل کے ساتھ لوٹے ' انہیں کوئی برائی نہ پہنچی' اور انہوں نے اللہ کی رضامندی کی پیروی کی' اوراللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔"








18۔ سچا ایمان ' بندے کو ہلاکت انگیز چیزوں سے محفوظ رکھتا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے' وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا:

عن ابي هريرة رضي الله عنه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن، ‏‏‏‏‏‏ولا يشرب الخمر حين يشرب وهو مؤمن، ‏‏‏‏‏‏ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن، ‏‏‏‏‏‏ولا ينتهب نهبة يرفع الناس إليه فيها ابصارهم حين ينتهبها وهو مؤمن".
ترجمہ:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :" زانی مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کر سکتا ۔ شراب خوار مومن رہتے ہوئے شراب نہیں پی سکتا ۔ چور مومن رہتے ہوئے چوری نہیں کر سکتا ۔ اور کوئی شخص مومن رہتے ہوئے لوٹ اور غارت گری نہیں کر سکتا کہ لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھی ہوئی ہوں اور وہ لوٹ رہا ہو۔"
[صحیح بخاری / کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں / باب : مالک کی اجازت کے بغیر اس کا کوئی مال اٹھا لینا ۔حدیث نمبر: 2475]
[صحیح مسلم ، کتاب :الایمان، باب: گناہوں سے ایمان میں کمی کا بیان، حدیث :57]

اور جس شخص سے یہ ساری چیزیں صادر ہوتی ہیں وہ اس کے ایمان کی کمزوری ، نور ایمانی کے فقدان اور اللہ تعالیٰ سے شرم و حیا کے ختم ہوجانے کا سبب ہوتی ہیں، یہ بات معروف اور مشاہدہ میں ہے ۔ صحیح سچا ایمان ' اللہ سے شرم و حیا ، اس کی محبت، اس کے ثواب کی قوی امید، اس کے عذاب کا خوف اور نور ایمانی کے حصول کی خواہش سے معمور ہوتا ہے، اور یہ ساری چیزیں صاحب ایمان کو ہر طرح کی بھلائی کا حکم دیتی ہیں اور ہر قسم کی برائی سے منع کرتی ہیں۔





19۔ مخلوق میں سب بہتر لوگ دو قسم کے ہیں، اور وہ اہل ایمان ہی ہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عن ابي موسى الاشعري رضی اللہ عنہ، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " مثل المؤمن الذي يقرا القرآن مثل الاترجة، ‏‏‏‏‏‏ريحها طيب، ‏‏‏‏‏‏وطعمها طيب، ‏‏‏‏‏‏ومثل المؤمن الذي لا يقرا القرآن مثل التمرة، ‏‏‏‏‏‏لا ريح لها، ‏‏‏‏‏‏وطعمها حلو ومثل المنافق الذي يقرا القرآن مثل الريحانة، ‏‏‏‏‏‏ريحها طيب، ‏‏‏‏‏‏وطعمها مر، ‏‏‏‏‏‏ومثل المنافق الذي لا يقرا القرآن كمثل الحنظلة، ‏‏‏‏‏‏ليس لها ريح، ‏‏‏‏‏‏وطعمها مر".
ترجمہ:
ابوموسیٰ اشعریٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مثال اس مؤمن کی جو قرآن پڑھتا ہے ترنج کی سی ہے کہ خوشبو اس کی عمدہ اور مزا اس کا اچھا ہے اور مثال اس مؤمن کی جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کی سی ہے کہ اس میں بو نہیں مگر میٹھا ہے۔ اور مثال اس منافق کی جو قرآن پڑھتا ہے اس پھول کے مانند ہے کہ بو اس کی اچھی ہے اور مزا اس کا کڑوا ہے، اور مثال اس منافق کی جو قرآن نہیں پڑھتا اندرائن کی سی ہے کہ اس میں خوشبو بھی نہیں اور مزا کڑوا ہے۔"
[صحیح مسلم: قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور ، باب : حافظ قرآن کی فضیلت۔ حدیث نمبر: 797]

چنانچہ لوگوں کی چار قسمیں ہیں:

پہلی قسم: وہ جو بذات خود اچھے ہیں، اور ان کی اچھائی دوسروں تک پہنچتی ہے، یہ سب سے بہتر قسم کے لوگ ہیں۔

چنانچہ یہ قرآن پڑھنے والا اور دینی علوم کی معرفت حاصل کرنے والا مومن خود اپنی ذات کے لئے بھی مفید ہے اور دوسروں کے لئے بھی نفع بخش ہے، ایسا شخص بابرکت ہے جہاں کہیں بھی ہو۔

دوسری قسم: جو بذات خود اچھا اور بھلائی والا ہے ، یہ وہ مومن شخص ہے جس کے پاس اتنا علم نہیں جس کا فائدہ غیروں کو بھی عام ہو۔

یہ (مذکورہ) دونوں قسموں کے لوگ مخلوق کے سب سے بہتر لوگ ہیں، اور ان میں ودیعت کردہ خیر و بھلائی مومنوں کے حالات کے اعتبارسے خود ان کے لئے محدود ہوتی ہے یا دوسروں کو بھی اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔

تیسری قسم: وہ جو خیر و بھلائی سے محروم ہے، لیکن اس کا نقصان غیروں تک نہیں پہنچتا ہے۔

چوتھی قسم: جو خود اپنی ذات کے لئے اور دوسروں کے لئے بھی نقصان دہ ہے ' یہ سب سے بدترین قسم کے لوگ ہیں۔

چنانچہ ساری خیر و بھلائی کا مرجع ایمان اور اس سے متعلقہ امور ہیں، اور ساری شر و برائی کا مرجع ایمان کا فقدان اور اس کی ضد (بے ایمانی) کے وصف سے متصف ہونا ہے۔
[التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان ا ز سعدی ، صفحہ :63 تا 90]








20۔ ایمان زمین میں خلافت (جانشینی) عطا کرتا ہے، ارشاد ہے:

"وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ"﴿٥٥﴾ (سورۃ النور)
"تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقینا ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے خوف و خطر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا ' وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے ، اور جولوگ اس کے بعد کفر کریں وہ یقینا فاسق ہیں۔"








21۔ ایمان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بندے کی مدد فرماتا ہے، ارشاد باری ہے:

"وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ"﴿٤٧﴾(سورۃ الروم)
"اور ہم پر مومنوں کی مدد کرنا حق (لازم )ہے۔"






22۔ ایمان بندے کو عزت (غلبہ و سربلندی )عطا کرتا ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:

"وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَـٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ"﴿٨﴾(سورۃ المنافقون)
"عزت صرف اللہ تعالیٰ ' اس کے رسول ۖاور مومنوں ہی کے لئے لیکن یہ منافق نہیں جانتے۔"








23۔ ایمان' اہل ایمان پر دشمنون کے غلبہ و تسلط کو روکتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَلَن يَجْعَلَ اللَّـهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا"﴿١٤١﴾ (سورۃ النساء)

اور اللہ تعالیٰ کافروں کو مومنوں پر ہرگز راہ (غلبہ و تسلط) نہ دے گا۔




24۔ مکمل امن و سکون اور ہدایت یابی :

اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ "﴿٨٢﴾ (سورۃ الانعام)

"جو لوگ ایمان لائے اوراپنے ایمان کو ظلم (شرک) کے ساتھ گڈمڈ نہیں کیا' ایسے ہی لوگوں کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر گامزن ہیں۔"




25۔ مومنوں کی کد و کاوش کی حفاظت:
اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا"﴿٣٠﴾(سورۃ الکھف)

"بیشک جو لوگ ایمان لائیں اور نیک اعمال انجام دیں تو ہم کسی نیک عمل کرنے والے کا اجر و ثواب ضائع نہیں کرتے۔"




26۔ مومنوں کے ایمان میں زیادتی اور اضافہ:

ارشاد باری ہے:
"وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ"﴿١٢٤﴾ (سورۃ التوبۃ)
"اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت سے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ ہو اہے' تو جو لوگ ایمان والے ہیں اس سورت نے ان کے ایمان میں اضافہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں۔"




27۔ مومنوں کی نجات:

اللہ عز وجل نے حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ میں فرمایا:

"فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ"﴿٨٨﴾ (سورۃ الانبیاء)

" تو ہم نے ان کی پکار سن لی، اور انہیں غم سے نجات دے دی، اور ہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں۔"



28۔ اہل ایمان کے لئے اجر عظیم:

اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا"﴿١٤٦﴾ (سورۃ النساء)

" اور عنقریب اللہ تعالیٰ مومنوں کو اجر عظیم سے نوازے گا۔"




29۔مومنوں کے لئے اللہ کی (خاص) معیت :

یہ خاص معیت ہے، یعنی توفیق، الہام اور درست راہ پر ثابت رکھنے کی معیت، اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَأَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ"﴿١٩﴾ (سورۃ الانفال)
"بیشک اللہ تعالیٰ مومنوں کے ساتھ ہے۔"



30۔ اہل ایمان خوف وملال سے امن میں ہوں گے، اللہ عز وجل کا ارشاد گرامی ہے:

"فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ "﴿٤٨﴾ (سورۃ الانعام)
"تو جو ایمان لائے اور اصلاح کر لے ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔"



31۔ بڑا اجر و ثواب:
اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا"﴿٩﴾ (سورۃ بنی اسرائیل)

"اور نیک اعمال کرنے والوں کو اس بات کی بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔"




32۔ کبھی نہ ختم ہونے والا اجر و ثواب:

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ"﴿٨﴾ (سورۃ حم سجدۃ / فصلت)

"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔"








33۔ قرآن کریم مومنوں کے لئے ہدایت و رحمت ہے

"يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ"﴿٥٧﴾ (سورۃ یونس)


اور شفاو رحمت ہے

"وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا"﴿٩﴾ (سورۃ بنی اسرائیل)

"اور نیک اعمال کرنے والوں کو اس بات کی بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔"
نیز ذریعۂ ہدایت اورشفا ہے

"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ"﴿٨﴾ (سورۃ حم سجدۃ / فصلت)

"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔"



34۔ اہل ایمان کے لئے اللہ کے یہاں بلند درجات، بخشش اور باعزت روزی ہے، ارشاد باری ہے:

"لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ"﴿٤﴾ (سورۃ الانفال)

"ان کے لئے ان کے رب کے پاس درجات، مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔"

[ماخوذ از (اسلام کا نور اور کفر کی تاریکیاں، داکٹر سعید بن علی بن وھف القحطانی حفظہ اللہ تعالیٰ)]






No comments:

Post a Comment