Thursday, 25 July 2024

ایمان کے معانی، فضائل، بنیادی ارکان اور اعمالِ کمالِ ایمان


مسلمانوں کی سربلندی کا واحد سبب»

ایمان رکھنا۔

القرآن:

(مسلمانو) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غمگین رہو، اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔

[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 139]


تفسیر:

جنگ احد کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ شروع میں مسلمان کافر حملہ آوروں پر غالب آگئے اور کفار کا لشکر پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے پچاس تیر انداز صحابہ کا ایک دستہ میدان جنگ کے ایک عقبی ٹیلے پر متعین فرمایا تھا، تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے، جب دشمن پسپا ہوا اور میدان جنگ خالی ہوگیا تو صحابہ نے اس کا چھوڑا ہوا ساز و سامان مال غنیمت کے طور پر اکھٹا کرنا شروع کردیا، تیر اندازوں کے اس دستے نے جب یہ دیکھا کہ دشمن بھاگ چکا ہے تو انہوں نے سمجھا کہ اب ہماری ذمہ داری پوری ہوچکی ہے اور ہمیں مال غنیمت جمع کرنے میں حصہ لینا چاہیے، ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے ٹیلہ چھوڑنے کی مخالفت کی، مگر ان میں سے اکثر نے وہاں ٹھہرنے کو بےمقصد سمجھ کر ٹیلہ چھوڑدیا، دشمن نے جب دور سے دیکھا کہ ٹیلہ خالی ہوگیا ہے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے ہیں تو انہوں نے موقع پاکر ٹیلے پر حملہ کردیا، حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے اپنی بساط کے مطابق ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر سب شہید ہوگئے اور دشمن اس ٹیلے سے اتر کر ان بیخبر مسلمانوں پر حملہ آور ہوگیا جو مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف تھے، یہ حملہ اس قدر غیر متوقع اور ناگہانی تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے لگے، اسی دوران کسی نے یہ افواہ اڑادی کہ آنحضرت ﷺ شہید ہوگئے ہیں، اس افواہ سے بہت سے مسلمانوں کے حوصلے جواب دے گئے، ان میں سے بعض میدان چھوڑ گئے، بعض جنگ سے کنارہ کش ہو کر ایک طرف کھڑے رہ گئے، البتہ آنحضرت ﷺ کے جاں نثار صحابہ کی ایک جماعت آپ کے ارد گرد مقابلہ کرتی رہی، کفار کا نرغہ اتنا سخت تھا کہ اس کشمکش میں آنحضرت ﷺ کا مبارک دانت شہید ہوگیا اور چہرہ مبارک لہو لہان ہوگیا، بعد میں جب صحابہ کو پتہ چلا کہ آپ کی شہادت کی خبر غلط تھی اور ان کے حواس بجا ہوئے تو ان میں سے بیشتر میدان میں لوٹ آئے، اور پھر کفار کو بھاگنا پڑا ؛ لیکن اس درمیانی عرصے میں ستر صحابہ کرام ؓ شہید ہوچکے تھے، ظاہر ہے کہ اس واقعے سے تمام مسلمانوں کو شدید صدمہ ہوا، قرآن کریم ان آیتوں میں انہیں تسلی بھی دے رہا ہے کہ یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جن سے مایوں اور دل شکستہ نہ ہونا چاہیے، اور اس طرف بھی متوجہ کررہا ہے کہ یہ شکست کچھ غلطیوں کا نتیجہ تھی جس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔




ایمان والے کون؟

القرآن:

ایمان لانے والے تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانا ہے، پھر کسی شک میں نہیں پڑے، اور جنہوں نے اپنے مال و دولت اور اپنی جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے۔ وہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔

[سورۃ الحجرات، آیت نمبر 15]

القرآن:

مومن تو وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور ترقی دیتی ہیں اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔

[سورۃ نمبر 8 الأنفال،آیت نمبر 2]

القرآن:

مومن تو وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں اور جب رسول کے ساتھ کسی اجتماعی کام(جہاد) میں شریک ہوتے ہیں تو ان سے اجازت لیے بغیر کہیں نہیں جاتے۔ (47) (اے پیغمبر) جو لوگ تم سے اجازت لیتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ اپنے کسی کام کے لیے تم سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جن کو چاہو، اجازت دے دیا کرو، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیا کرو۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

[سورۃ نمبر 24 النور،آیت نمبر 62]

تفسیر:

(47)یہ آیت غزوہ ٔ احزاب کے موقع پر نازل ہوئی، اس وقت عرب کے کئی قبیلوں نے مل کر مدینہ منورہ پر چڑھائی کی تھی اور آنحضرت ﷺ نے شہر کے دفاع کے لئے مدینہ منورہ کے گرد ایک خندق کھودنے کے لئے تمام مسلمانوں کو جمع کیا تھا، سارے مسلمان خندق کھودنے میں مصروف تھے، اور اگر کسی کو اپنے کسی کام سے جانا ہوتا تو آپ سے اجازت لے کرجاتا تھا، لیکن منافق لوگ اول تو اس کام کے لئے آنے میں سستی کرتے تھے، اور اگر آجاتے تو کبھی کسی بہانے سے اٹھ کر چلے جاتے، اور کبھی بلا اجازت ہی چپکے سے روانہ ہوجاتے، اس آیت میں ان کی مذمت اور ان مخلص مسلمانوں کی تعریف کی گئی ہے جو بلا اجازت نہیں جاتے تھے۔


القرآن:

حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مومن بھائی بھائی ہیں، اس لیے اپنے دو بھائیوں کے درمیان تعلقات اچھے بناؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے۔

[سورۃ نمبر 49 الحجرات، آیت نمبر 10]




تخلیق سے پہلے تقدیر مقدر کرنا۔

حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«إِنَّ اللَّهَ قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَخْلَاقَكُمْ كَمَا قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَرْزَاقَكُمْ، وَإِنَّ اللَّهَ يعطي الدُّنْيَا مَنْ يُحِبُّ وَمَنْ لَا يُحِبُّ، ولا يُعْطِي الإيمان إلا مَنْ يُحِبُّ» .

ترجمہ:

بےشک اللہ رب العزت نے تمہارے درمیان اخلاق بھی ایسے ہی تقسیم فرمائے ہیں جیسا کہ رزق تقسیم فرمایا ہے۔ اور اللہ اس کو بھی دنیا عطا فرماتا ہے جس سے محبت فرماتا ہے اور اس کو بھی جس سے وہ محبت نہیں کرتا، البتہ ایمان صرف اسی کو عطا فرماتا ہے جس سے اسے محبت ہوتی ہے۔

[المستدرک الحاکم:94-95-7301]

تخریج:

[شعب الایمان-للبیھقی:599، شرح السنة للبغوي:2030، مجمع الزوائد:164-16854-17697، سلسلة الاحاديث الصحيحة:2714]

الزھد والرقاق لابن المبارک:1134، مصنف ابن ابی شیبہ:34545-34578، الأدب المفرد للبخاری:275، طبرانی:8990، شرح اصول اعتقاد-للالکائی:1697


القرآن:

اور کل جو لوگ اس جیسا ہونے کی تمنا کر رہے تھے، کہنے لگے : اوہو ! پتہ چل گیا کہ الله اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں وسعت کردیتا ہے، اور (جس کے لیے چاہتا ہے) تنگی کردیتا ہے۔ اگر الله نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو وہ ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا۔ اوہو ! پتہ چلا گیا کہ کافر لوگ فلاح نہیں پاتے۔

[سورۃ القصص، آیت نمبر 82]







کیسے قوت(ظاہری اور باطنی) حاصل ہوتی ہے؟

عاجزی چھوڑ کر اسباب اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ پر اعتماد کرنے، نیکی کرنے میں بھی اللہ سے مدد مانگنے، پھر اللہ کی تقدیر وقدرت کے حوالے نتائج کرنے، اور اللہ پر توکل ویقین رکھنے سےقوت حاصل ہوتی ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَی اللَّهِ مِنْ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي کُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَی مَا يَنْفَعُکَ وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَلَا تَعْجَزْ وَإِنْ أَصَابَکَ شَيْئٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ کَانَ کَذَا وَکَذَا وَلَکِنْ قُلْ قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَائَ فَعَلَ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ۔

ترجمہ:
طاقتور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پسندیدہ ہے، ہر بھلائی میں ایسی چیز کی حرص کرو جو تمہارے لئے نفع مند ہو، اور اللہ سے مدد طلب کرتے رہو اور اس سے عاجز مت ہو، اور اگر تم پر کوئی مصیبت واقع ہوجائے تو یہ نہ کہو کاش میں ایسا ایسا کرلیتا کیونکہ کاش کا لفظ شیطان کا دروازہ کھولتا ہے۔
[صحیح مسلم:2664(6774)، سنن ابن ماجہ:79-4168، صحیح ابن حبان:5721-5722، السنن الکبریٰ للبیھقی:20173]

تشریح:
"طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے، لیکن ہر ایک میں بھلائی ہے۔" یہاں "قوت" سے مراد نفس کی مضبوطی اور آخرت کے معاملات میں پختہ عزم اور ذہنی استعداد ہے۔ ایسا مومن جہاد میں دشمن کے خلاف زیادہ جرات مندانہ اقدام کرتا ہے، اس کے تعاقب میں تیزی سے نکلتا ہے، معروف (نیکی) کے حکم اور منکر (برائی) کے روکنے میں زیادہ ثابت قدم ہوتا ہے، ہر طرح کی تکلیف اور مصیبت کو اللہ کی رضا کے لیے برداشت کرتا ہے، اور عبادات جیسے نماز، روزہ، ذکرو اذکار وغیرہ کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے۔ وہ ان عبادات کو حاصل کرنے اور ان کی حفاظت کرنے میں زیادہ سرگرم رہتا ہے۔ (اور ہر ایک میں بھلائی ہے) یعنی طاقتور اور کمزور دونوں مومنوں میں بھلائی پائی جاتی ہے، کیونکہ دونوں ایمان میں شریک ہیں، اور کمزور مومن بھی عبادات انجام دیتا ہے۔ 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو تمہارے لیے مفید ہو، اس کی حرص کرو، اللہ سے مدد مانگو، اور ناتوانی کا اظہار نہ کرو۔" "احْرِصْ" میں "ر" پر کسرہ(زیر) ہے اور "تَعْجِزْ" میں "ج" پر کسرہ(زیر) ہے۔ بعض روایات میں دونوں کے فتحہ(زبر) کی بھی روایت ہے۔ اس کا مطلب ہے: اللہ کی اطاعت اور اس کی رضا کے حصول کی کوشش کرو، اللہ سے مدد مانگو، اور نہ تو عبادت کرنے میں سستی کرو اور نہ ہی اللہ سے مدد طلب کرنے میں۔ 

آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: "اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہو کہ 'اگر میں یہ کرتا تو یوں ہوتا'، بلکہ کہو: 'اللہ نے تقدیر میں لکھ دیا تھا، جو وہ چاہے گا وہی ہوگا'۔ کیونکہ 'اگر' شیطان کے کام کو کھول دیتی ہے۔" امام قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں: بعض علماء کے نزدیک یہ ممانعت صرف اس شخص کے لیے ہے جو یہ کہے اور اسے یقین ہو کہ اگر وہ ایسا کرتا تو یہ مصیبت قطعاً نہ آتی۔ لیکن جو شخص اللہ کی مشیت(چاہت) کے ساتھ اسے جوڑے، مثلاً یہ کہے کہ "اللہ کی مشیت کے بغیر کچھ نہیں ہوتا"، تو یہ ممانعت اس پر لاگو نہیں ہوتی۔ ابو بکر صدیقؓ کا غارِ ثور میں یہ کہنا کہ "اگر کوئی اپنا سر اٹھاتا تو ہمیں دیکھ لیتا"[صحیح بخاری:4663] اس کی دلیل ہے، لیکن قاضی عیاضؒ کے مطابق یہ حجت نہیں، کیونکہ یہ مستقبل کے بارے میں خبر دینے کی حد تک ہے، نہ کہ تقدیر کے بعد اسے رد کرنے کی دعویٰ۔ اسی طرح امام بخاریؒ نے "باب ما يجوز من اللَّوّ" میں جو احادیث ذکر کی ہیں، جیسے "اگر تمہارے قوم کا کفر کا زمانہ نیا نہ ہوتا تو میں بیت اللہ کو ابراہیمؑ کی بنیادوں پر مکمل کرتا"[بخاری:123،مسلم:1333] یا "اگر میں بغیر گواہی کے سنگسار کرتا تو فلاں عورت کو سنگسار کر دیتا"[بخاری:5310،مسلم:1497]، اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کیلئے انہیں مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ [بخاری:887]، یہ تمام احتمالات مستقبل کے لیے ہیں، نہ کہ ماضی کے تقدیر پر اعتراض۔

القرآن:

جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے ہجرت کی ہے اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے، وہ اور جنہوں نے ان کو (مدینہ میں) آباد کیا اور ان کی مدد کی، یہ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی وارث ہیں۔ اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، (مگر) انہوں نے ہجرت نہیں کی، جب تک وہ ہجرت نہ کرلیں (اے مسلمانو) تمہارا ان سے وراثت کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ ہاں اگر دین کی وجہ سے وہ تم سے کوئی مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد واجب ہے سوائے اس صورت کے جبکہ وہ مدد کسی ایسی قوم کے خلاف ہو جس کے ساتھ تمہارا کوئی معاہدہ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے اچھی طرح دیکھتا ہے۔

[سورۃ الأنفال،آیت نمبر 72]

تفسیر:

(51)سورة انفال کی ان آخری آیات میں میراث کے کچھ وہ احکام بیان فرمائے گئے ہیں جو مسلمانوں کی مکہ مکرمہ سے ہجرت کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے یہ اصول شروع سے طے فرمادیا تھا کہ مسلمان اور کافر آپس میں ایک دوسرے کے وراث نہیں ہوسکتے، اب صورت حال یہ تھی کہ جو صحابہ کرام مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے تھے، ان میں سے بہت سے ایسے تھے کہ ان کے رشتہ دار جو ان کے وارث ہوسکتے تھے، سب مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے، ان میں سے اکثر وہ تھے جو کافر تھے اور مسلمان ہی نہیں ہوئے تھے، وہ مسلمانوں کے اس لئے وارث نہیں ہوسکتے تھے کہ ان کے درمیان کفر اور ایمان کا فاصلہ حائل تھا ؛ چنانچہ ان آیات نے واضح طور پر بتادیا کہ وہ نہ مسلمانوں کے وارث ہوسکتے ہیں اور نہ مسلمان ان کے وارث ہوسکتے ہیں اور مہاجرین کے کچھ ایسے رشتہ دار بھی تھے جو مسلمان تو ہوگئے تھے ؛ لیکن انہوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی، ان کے بارے میں بھی اس آیت نے یہ حکم دیا ہے کہ مہاجر مسلمانوں کا ان سے بھی وراثت کا کوئی رشتہ نہیں ہوسکتا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت تمام مسلمانوں کے ذمے فرض تھا کہ وہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کریں، اور انہوں نے ہجرت نہ کرکے اس فریضے کو ابھی تک ادا نہیں کیا تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ مہاجر مسلمان مدینہ منورہ میں تھے جو دارالاسلام تھا، اور وہ حضرات مکہ مکرمہ میں تھے جو اس وقت دارالحرب تھا، اور دونوں کے درمیان بڑی رکاوٹیں حائل تھیں، بہر صورت مہاجر مسلمانوں کے جو رشتہ دار مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ان کے ساتھ مہاجرین کا وراثت کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ اگر ان کا کوئی رشتہ دار مکہ مکرمہ میں فوت ہوتا تو اس کے ترکے میں ان مہاجرین کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا اور اگر ان مہاجرین میں سے کوئی مدینہ منورہ میں فوت ہوتا تو اس کی میراث میں اس کے مکی رشتہ داروں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا، دوسری طرف جو مہاجرین مدینہ منورہ آکر آباد ہوئے تھے ان کو انصار مدینہ نے اپنے گھروں میں ٹھہرایا تھا، آنحضرت ﷺ نے ہر مہاجر صحابی کا کسی انصاری صحابی سے بھائی چارہ قائم کردیا تھا جسے مؤاخات کہا جاتا ہے، اس آیت کریمہ نے یہ حکم دیا کہ اب مہاجرین کے وارث ان کے مکی رشتہ داروں کے بجائے وہ انصاری صحابہ کرام ہوں گے جن کے ساتھ ان کی مؤاخات قائم کی گئی ہے۔

(52) یعنی جن مسلمانوں نے ابھی تک ہجرت نہیں کی، اگرچہ وہ مہاجرین کے وارث نہیں ہیں، لیکن چونکہ بہر حال مسلمان ہیں، اس لئے اگر کافروں کے خلاف مسلمانوں سے کوئی مدد مانگیں تو مہاجر مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کی مدد کریں، البتہ ایک صورت ایسی بیان کی گئی ہے جس میں اس طرح کی مدد کرنا مہاجر مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے، اور وہ یہ کہ جن کافروں کے خلاف وہ مدد مانگ رہے ہیں ان سے مہاجر مسلمانوں کا کوئی جنگ بندی کا معاہدہ ہوچکا ہو، ایسی صورت میں اگر وہ اپنے مسلمان بھائیوں کا ساتھ دیتے ہوئے ان کے خلاف کوئی کاروائی کریں تو یہ بد عہدی ہوگی، اس لئے ایسی مدد کو ناجائز قرار دیا گیا ہے، اس سے زیادہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ جب کوئی معاہدہ ہوجائے تو اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے بھی اس کی خلاف ورزی کو اسلام نے جائز نہیں رکھا ؛ چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ کفار کے ہاتھوں پسے ہوئے مسلمانوں نے آنحضرت ﷺ سے کفار قریش کے خلاف مدد مانگی اور مسلمانوں کا دل بےتاب تھا کہ انکی مدد کریں، مگر چونکہ قریش کے لوگوں سے معاہدہ ہوچکا تھا، اس لئے ان کے صبر وضبط کا بہت کڑا امتحان پیش آیا، اور آنحضرت ﷺ کے حکم کے تحت وہ اس امتحان میں ثابت قدم رہے۔

القرآن:

اور جو لوگ ایمان لے آئے، اور انہوں نے ہجرت کی، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، وہ اور جنہوں نے انہیں آباد کیا اور ان کی مدد کی وہ سب صحیح معنوں میں مومن ہیں۔ ایسے لوگ مغفرت اور باعزت رزق کے مستحق ہیں۔

[سورۃ نمبر 8 الأنفال،آیت نمبر 74]

تفسیر:

(54)یعنی جن مسلمانوں نے ابھی ہجرت نہیں کی ہے، اگرچہ مومن وہ بھی ہیں، لیکن ان میں ابھی یہ کسر ہے کہ انہوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا، دوسری طرف مہاجرین اور انصار میں یہ کسر نہیں ہے، اس لئے وہ صحیح معنی میں مومن کہلانے کے مستحق ہیں۔

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
افضل طاقتور مومن کون؟
القرآن:
۔۔۔(درجے میں) نہیں برابر ہوسکتے تم میں سے وہ جنہوں نے خرچ کیا فتح(مکہ) سے پہلے، اور لڑائی بھی لڑی،  (ورنہ)یوں تو اللہ نے بھلائی(جنت) کا وعدہ سب(مومنوں) سے کر رکھا ہے۔۔۔
[سورۃ الحدید:10]
القرآن:
جن مسلمانوں کو کوئی معذوری لاحق نہ ہو اور وہ (جہاد میں جانے کے بجائے گھر میں) بیٹھ رہیں وہ اللہ کے راستے میں اپنے مال و جان سے جہاد کرنے والوں کے برابر نہیں ہیں۔ جو لوگ اپنے مال و جان سے جہاد کرتے ہیں ان کو اللہ نے بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت دی ہے۔ اور اللہ نے سب سے اچھائی کا وعدہ کر رکھا ہے۔ (61) اور اللہ نے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت دے کر بڑا ثواب بخشا ہے۔
[سورۃ النساء:95]
تفسیر:
(61) یہ اس حالت کا ذکر ہے جب جہاد ہر شخص کے ذمے فرض عین نہ ہو، ایسے میں جو لوگ جہاد میں جانے کے بجائے گھر میں بیٹھ گئے، اگرچہ ان پر کوئی گناہ نہیں ہے اور ان کے ایمان اور دوسرے نیک کاموں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان سے جنت کا وعدہ کیا ہوا ہے لیکن جو لوگ جہاد میں گئے ہیں ان کا درجہ گھر بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے، البتہ جہاں جہاد فرض عین ہوجائے یعنی مسلمانوں کا امیر تمام مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیدے یا جب کوئی دشمن مسلمانوں پر چڑھ آئے تو پھر گھر بیٹھنا حرام ہے۔

************************




(صابر و شاکر)مومن کے ہر معاملے میں خیر ہی خیر ہے۔

حضرت صہیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ»
ترجمہ:
مومن آدمی کا بھی عجیب حال ہے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات کسی کو حاصل نہیں سوائے اس مومن آدمی کے کہ اگر اسے کوئی تکلیف بھی پہنچی تو اسے نے شکر کیا تو اس کے لئے اس میں بھی ثواب ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچا اور اس نے صبر کیا تو اس کے لئے اس میں بھی ثواب ہے۔
[صحیح مسلم:2999(7500)، صحيح ابن حبان:2896، شعب الایمان-للبيهقي:4169]

القرآن:
لہذا مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ اور میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 152]
القرآن:
۔۔۔یقینا اس میں ہر اس شخص کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو صبر کا بھی خوگر اور شکر کا بھی۔
[سورۃ نمبر 42 الشورى، آیت نمبر 33]

نصرت الٰہی سے محرومی کے اسباب!
”آج کل پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اور یہ ظلم کرنے والے غیر مسلم ہیں تو مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی مدد کیوں نہیں آتی؟“

بلاشبہ یہ سوال آج کل تقریباً ہر دین دار مسلمان کی زبان پر ہے اور اس کے دل و دماغ کو پریشان کئے ہوئے ہے اور اسے سمجھ نہیں آتا کہ اگر مسلمان حق پر ہیں اور یقینا حق پر ہیں، تو ان کی مدد کیوں نہیں کی جاتی اور ان کے اعداء و مخالفین یہود و نصاریٰ اور کفار و مشرکین، جو یقینا باطل پر ہیں، کے خلاف اللہ تعالیٰ کا جوش انتقام حرکت میں کیوں نہیں آتا؟ اور ان کو تہس نہس کیوں نہیں کردیا جاتا؟ یا کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو مسلمانوں پر فوقیت و برتری کیونکر حاصل ہے؟ اور ان کو اس قدر ڈھیل کیوں دی جارہی ہے؟ اس کے برعکس مسلمانوں کو روزبروز ذلت و ادبار کا سامنا کیونکر ہے؟

اس سوال کے جواب میں راقم الحروف نے جو کچھ لکھا، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے قارئین بینات کی خدمت میں پیش کردیا جائے، ملاحظہ ہو:

برادر عزیز! آپ کا سوال معقول اور بجا ہے، کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں پر جس قدر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور مسلمان جس قدر ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں، شاید ہی کسی دوسری قوم پر کبھی ایسا وقت آیا ہو؟اس سب کے باوجود مسلمانوں کے حق میں اللہ کی مدد کا نہ آنا،واقعی قابل تشویش ہے،اور آپ کی طر ح ہر مسلمان اس تشویش میں مبتلا ہے۔

لہٰذا آپ کے سوال کے جواب کے سلسلہ میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا، اگر آپ نے ان کو ذہن نشین کرلیا تو امید ہے کہ انشأاللہ آپ کو مسلمانوں کے حق میں اللہ کی مدد نہ آنے کے اسباب و وجوہ سمجھ آجائیں گے۔

دراصل یہاں دو امور ہیں، ایک یہ کہ تمام مسلمان عموماً اللہ تعالیٰ کی مدد سے کیوں محروم ہیں؟ دوسرے یہ کہ خاص طور پر وہ نیک صالح مسلمان، جو واقعی اللہ تعالیٰ کے دین کے محافظ ہیں، ان پر مصائب و بلایا کے پہاڑ کیوں توڑے جارہے ہیں ؟ ان کے حق میں اللہ کی مدد آنے میں تاخیر کیوں ہورہی ہے؟ اور ان کے دشمنوں کو اس قدر ڈھیل کیوں دی جارہی ہے؟

اول: سب سے پہلے یہ کہ تمام مسلمان اللہ کی مدد سے کیوں محروم ہیں؟ اس سلسلہ میں عرض ہے:

۱:- اس وقت مسلمان من حیث القوم مجموعی اعتبار سے تقریباً بدعملی کا شکار ہوچکے ہیں۔

۲:- اس وقت مسلمانوں میں ذوقِ عبادت اور شوقِ شہادت کا فقدان ہے، بلکہ مسلمان بھی … الا ماشاء اللہ … کفار و مشرکین کی طرح موت سے ڈرنے لگے ہیں۔

۳:- اس وقت تقریباً مسلمانوں کو دین، مذہب، ایمان، عقیدہ سے زیادہ اپنی، اپنی اولاد اور اپنے خاندان کی دنیاوی راحت و آرام کی فکر ہے۔

۴:- آج کل مسلمان…الا ماشاء اللہ…موت، مابعد الموت، قبر، حشر، آخرت، جہنم اور جنت کی فکر و احساس سے بے نیاز ہوچکے ہیں اور انہوں نے کافر اقوام کی طرح اپنی کامیابی و ناکامی کا مدار دنیا اور دنیاوی اسباب و ذرائع کو بنالیا ہے، اس لئے تقریباََ سب ہی اس کے حصول و تحصیل کے لئے دیوانہ وار دوڑ رہے ہیں۔

۵:- اس وقت …الا ماشاء اللہ… مسلمانوں کا اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد، بھروسہ اور توکل نہیں رہا، اس لئے وہ دنیا اور دنیاوی اسباب و وسائل کو سب کچھ باور کرنے لگے ہیں۔

۶:- جب سے مسلمانوں کا اللہ کی ذات سے رشتہ عبدیت کمزور ہوا ہے، انہوں نے عبادات و اعمال کے علاوہ قریب قریب سب ہی کچھ چھوڑ دیا ہے، حتی کہ بارگاہ الٰہی میں رونا، بلبلانا اور دعائیں مانگنا بھی چھوڑ دیا ہے۔

۷:- جس طرح کفر و شرک کے معاشرہ اور بے خدا قوموں میں بدکرداری، بدکاری، چوری، ڈکیتی، شراب نوشی، حرام کاری ، حرام خوری، جبر ، تشدد، ظلم اور ستم کا دور دورہ ہے، ٹھیک اسی طرح نام نہاد مسلمان بھی ان برائیوں کی دلدل میں سرتاپا غرق ہیں۔

۸:- معدودے چند، اللہ کے جو بندے، اس غلاظت کدہ میں نور کی کرن اور امید کی روشنی ثابت ہوسکتے تھے، ان پر اللہ کی زمین تنگ کردی گئی، چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ جو مسلمان قرآن و سنت، دین و مذہب کی پاسداری اور اسوئہ نبوت کی راہ نمائی میں زندگی گزارنا چاہتے تھے، انہیں تشدد پسند، دہشت گرد، رجعت پسنداورملک و ملت کے دشمن وغیرہ کہہ کر ٹھکانے لگادیا گیا۔

۹:- نام نہاد مسلمانوں نے کافر اقوام کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر اور ان کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے کر دین و مذہب سے وابستگی رکھنے والے مخلصین کے خلاف ایسا طوفان بدتمیزی برپا کیا اور ان کو اس قدر مطعون و بدنام کیا کہ کوئی سیدھا سادا مسلمان، اسلام اور اسلامی شعائر کو اپناتے ہوئے بھی گھبراتا ہے۔

۱۰:- اسلام دشمن میڈیا، اخبارات، رسائل و جرائد میں اسلام اور مسلمانوں کو اس قدر خطرناک، نقصان دہ، ملک و ملت دشمن اور امن مخالف باور کرایا گیا کہ اب خود مسلمان معاشرہ ان کو اپنانے اور گلے لگانے پر آمادہ نہیں۔

۱۱:- مادیت پسندی نے نام نہاد مسلمان کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ اب اس کو حلال و حرام کی تمیز تک نہیں رہی، چنانچہ …الا ماشاء اللہ … اب کوئی مسلمان حلال و حرام کی تمیز کرتا ہو، اس لئے مسلم معاشرہ میں بھی، سود، جوا، رشوت، لاٹری، انعامی اسکیموں کا دور دورہ ہے۔

۱۲:- جو لوگ سود خوری کے مرتکب ہوں، اللہ تعالیٰ کا ان کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ ظاہر ہے جو مسلمان سود خور ہیں، وہ اللہ تعالیٰ سے حالت جنگ میں ہیں، اور جن لوگوں سے اعلانِ جنگ ہو، کیا ان کی مدد کی جائے گی؟

۱۳:- جو معاشرہ عموماً چوری ڈکیتی، مار دھاڑ، اغوا برائے تاوان، جوئے، لاٹری، انعامی اسکیموں اور رشوت پر پل رہا ہو، اور جہاں ظلم و تشدد عروج پر ہو، جہاں کسی غریب کی عزت و ناموس اور مال و دولت محفوظ نہ ہو، وہاں اللہ کی رحمت نازل ہوگی یا اللہ کا غضب؟ پھر یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کفر کے ساتھ حکومت چل سکتی ہے، مگر ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتی، اس لئے کہ اللہ کی مدد مظلوم کے ساتھ ہوتی ہے۔ چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اور ظالم چاہے مسلمان ہی کیوں نہ ہو، اللہ کی مدد سے محروم ہوتا ہے۔

۱۴:- جس قوم اور معاشرہ کی غذا، لباس، گوشت، پوست حرام مال کی پیداوار ہوں، ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں،جیساکہ حدیث شریف میں ہے:

”عن ابی ھریرة رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم : ان اللّٰہ طیب لا یقبل الا طیباََ، وان اللّٰہ امرالموٴمنین بما امربہ المرسلین فقال: ”یاایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا“ وقال تعالیٰ: ”یا ایھا الذین آمنوا کلوا من طیبات ما رزقناکم“ ثم ذکر الرجل یطیل السفر اشعث اغبر یمد یدیہ الیٰ السماء یارب، یارب، ومطعمہ حرام، ومشربہ حرام، وملبسہ حرام، وغذی بالحرام فانیٰ یستجاب لذالک، رواہ مسلم.“ (مشکوٰة،ص:۲۴۱)

 ترجمہ: ”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاک، پاکیزہ ہیں اور پاک، پاکیزہ ہی قبول فرماتے ہیں، اور بے شک اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا، پس اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اے رسولوں کی جماعت! پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ اور اعمال صالحہ کرو“ اسی طرح مومنوں سے فرمایا: ”اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں دی ہیں“ پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا جو طویل سفر کی وجہ سے غبار آلود اور پراگندہ بال ہے اور دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلاکر کہتا ہے: اے رب! ،اے رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام کا، پینا حرام کا، لباس حرام کا اور اس کی غذا حرام کی ہے، تو اس کی دعا کیونکر قبول ہوگی؟“

 ۱۵:- بایں ہمہ وہ مقبولانِ الٰہی، جو مخلوق خدا کی اس مجبوری اور مقہوری پر کڑھتے ہیں ، روتے ہیں، بلبلاتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے بارگاہِ الٰہی میں دعائیں کرنا چاہتے ہیں، ان کو بارگاہ الٰہی سے یہ کہہ کر روک دیا جاتا ہے کہ اپنی ذات کے لئے اور اپنی ضرورت کے لئے دعا کرو، میں قبول کروں گا لیکن عام لوگوں کے حق میں تمہاری دعا قبول نہیں کروں گا۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے:

”عن انس بن مالک رضي الله تعالى عنه اراہ مرفوعاََ قال: یأتی علی الناس زمان یدعوالموٴمن للجماعة فلایستجاب لہ، یقول اللّٰہ: ادعنی لنفسک ولما یحزبک من خاصة امرک فاجیبک، واما الجماعة فلا! انھم اغضبونی. وفی روایة: فانی علیھم غضبان.“ (کتاب الرقائق ص:۱۵۵،۳۸۴)

ترجمہ: ”حضرت انس رضی اللہ عنہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم  نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ مومن، مسلمانوں کی جماعت کے لئے دعا کرے گا، مگر قبول نہیں کی جائے گی، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، تو اپنی ذات کے لئے اور اپنی پیش آمدہ ضروریات کے لئے دعا کر، میں قبول کروں گا، لیکن عام لوگوں کے حق میں قبول نہیں کروں گا، اس لئے کہ انہوں نے مجھے ناراض کرلیا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ میں ان سے ناراض ہوں۔“

 ۱۶:- پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ آسمان سے اچھے یا بُرے فیصلے اکثریت کے عمل اور بدعملی کے تناظر میں نازل ہوتے ہیں، اس لئے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم معاشرہ کی اکثریت کے اعمال و افعال اور سیرت و کردار کا کیا حال ہے؟ کیا ایسا معاشرہ جہاں دین، دینی اقدار کا مذاق اڑایا جاتا ہو، جہاں قرآن و سنت کا انکار کیا جاتا ہو، جہاں اس میں تحریف کی جاتی ہو، جہاں ان کو من مانے مطالب ، مفاہیم اور معانی پہنائے جاتے ہوں، جہاں حدود اللہ کا انکار کیا جاتا ہو، جہاں سود کو حلال اور شراب کو پاک کہا جاتا ہو، جہاں زنا کاری و بدکاری کو تحفظ ہو، جہاں ظلم و تشدد کا دور دورہ ہو، جہاں مسلمان کہلانا دہشت گردی کی علامت ہو، جہاں بے قصور معصوموں کو کافر اقوام کے حوالہ کیا جاتا ہو، جہاں بدکار و مجرم معزز اور معصوم ذلیل ہوں، جہاں توہین رسالت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جاتا ہو، جہاں باغیانِ نبوت کو اقتدار کی چھتری مہیا ہو، جہاں محافظین دین و شریعت کو پابند سلاسل کیا جاتا ہو، جہاں کلمہ حق کہنے والوں کو گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہو، جہاں کافر اقوام کی کاسہ لیسی کی جاتی ہو، جہاں یہود و نصاریٰ کی خوشنودی کے لئے مسلم ممالک پر اسلام دشمنوں کی چڑھائی کو سند جواز مہیا کی جاتی ہو، جہاں دینی مدارس و مساجد پر چڑھائی کی جاتی ہو، ان پر بمباری کی جاتی ہو، ہزاروں معصوموں کو خاک و خون میں تڑ پایا جاتا ہو، ان پر فاسفورس بم گراکر ان کا نام و نشان مٹایا جاتا ہو، جہاں مسلمان طالبات اور پردہ نشین خواتین کو درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہو، ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی جاتی ہو، ان کے جسم کے چیتھڑے اڑائے جاتے ہوں، ان کو دفن کرنے کے بجائے ان کی لاشوں کو جلایا جاتا ہو، جہاں تاتاری اور نازی مظالم کی داستانیں دہرائی جاتی ہوں، جہاں دین دار طبقہ اور علماء و صلحاء پر زمین تنگ کی جاتی ہو، جہاں اغیار کی خوشنودی کے لئے اپنے شہریوں کے خلاف آپریشن کلین اپ کئے جاتے ہوں، جہاں ہزاروں ،لاکھوں مسلمانوں کو اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور کیا جاتا ہو، جہاں دین و شریعت کا نام لینا جرم اور عریانی فحاشی، پتنگ بازی اور میراتھن ریس کی سرپرستی کی جاتی ہو، جہاں عریانی و فحاشی کو روشن خیالی و اعتدال پسندی کا نام دیا جاتا ہو، جہاں دینی مدارس بند اور قحبہ خانے کھولے جاتے ہوں، جہاں عوام نانِ شبینہ کے محتاج ہوں اور اربابِ اقتدار ۲۰/۲۰ لاکھ روپے ایک رات ہوٹل کے قیام کا کرایہ ادا کرتے ہوں، جہاں اپنے اقتدار اور حکومت کے تحفظ کے لئے دین و مذہب اور شرم و حیاء کی تمام حدود کو پھلانگا جاتا ہو، وہاں اللہ کی رحمت نازل ہوگی؟ یا اللہ کا عذاب و عقاب؟؟؟

بلاشبہ آج کا دور دجالی فتنے اور نئے نئے نظریات کا دور ہے، زمانہ بوڑھا ہوچکا ، ہم جنس پرستی کو قانونی جواز حاصل ہوچکا، ناچ گانے کی محفلیں عام ہوچکیں، دیکھا جائے تو یہ قرب قیامت کا وقت ہے، اس وقت مسلمانوں سے اللہ کی حفاظت و مدد اٹھ چکی ہے، مسلمانوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں، سچی بات یہ ہے کہ یہ اللہ کی ناراضگی، ظاہر داری، چاپلوسی، انانیت، خود پسندی اور امت کے زوال کا وقت ہے، فتنہ و فساد عروج پر ہیں، خیر سے محروم لوگوں کی کثرت ہے اور خدا کی لعنت و غضب کا وقت ہے، اور یہود و نصاریٰ کی نقالی کامیابی کی معراج شمار ہونے لگی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگوں اور معاشرہ کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا قدر و قیمت ہوسکتی ہے؟ چنانچہ ایسے ہی دور کے لوگوں کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ :

”عن مرداس الاسلمی رضي الله تعالى عنه قال النبی صلى الله عليه وسلم: یذھب الصالحون الاول فالاول، وتبقیٰ حفالة کحفالة الشعیر اوالتمر لایبالیھم اللّٰہ بالة.“ (صحیح بخاری کتاب الرقائق، ص:۹۵۲، ج:۲)

ترجمہ: ”حضرت مرداس اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: نیک لوگ یکے بعد دیگرے رخصت ہوتے جائیں گے، جیسے چھٹائی کے بعد ردی جو یا کھجوریں باقی رہ جاتی ہیں، ایسے ناکارہ لوگ رہ جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوئی پرواہ نہیں کرے گا۔“

۱۷:- اس کے علاوہ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ: مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد کا وعدہ ضرور ہے لیکن ساتھ ہی اللہ کی مدد آنے کے لئے یہ شرط بھی ہے کہ:

   ”یاایھا الذین آمنوا ان تنصروا اللّٰہ ینصرکم ویثبت اقدامکم“ (محمد:۷)

ترجمہ: ”اگر تم اللہ کے دین کی مدد کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کریں گے، اور تمہارے قدموں کو ثابت کریں گے۔“

 لہٰذا جب سے مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد چھوڑ دی ہے، اللہ تعالیٰ نے بھی مسلمانوں سے اپنی رحمت و عنایت اور مدد کا ہاتھ اٹھالیا ہے، چنانچہ آج ہر طرف مسلمانوں پر کافر اس طرح ٹوٹ رہے ہیں جس طرح دسترخوان پر چنے ہوئے کھانے پر لوگ ٹوٹتے ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

”عن ثوبان رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم : یوشک الامم ان تداعیٰ علیکم کما تداعیٰ الآکلة الیٰ قصعتھا، فقال قائل: ومن قلة نحن یومئذٍ؟ قال: بل انتم یومئذٍ کثیر! ولکنکم غثاء کغثاء السیل، ولینزعن اللّٰہ من صدورعدوکم المھابة منکم، ولیقذفن اللّٰہ فی قلوبکم الوھن! فقال قائل: یارسول اللّٰہ! وما الوھن؟ قال: حب الدنیا وکراھیة الموت!“ (ابوداؤد ص:۵۹)

ترجمہ: ”حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ وقت قریب آتا ہے، جب تمام کافر قومیں تمہارے مٹانے کے لئے… مل کر سازشیں کریں گی … اور ایک دوسرے کو اس طرح بلائیں گی جیسے دسترخوان پر کھانا کھانے والے … لذیذ … کھانے کی طرف ایک دوسرے کو بلاتے ہیں، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہماری قلت تعداد کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہوگا؟ فرمایا: نہیں! بلکہ تم اس وقت تعداد میں بہت ہوگے، البتہ تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ناکارہ ہوگے، یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب اور دبدبہ نکال دیں گے، اور تمہارے دلوں میں بزدلی ڈال دیں گے، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! بزدلی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔“               

بتلایا جائے جس معاشرہ کا یہ حال ہو، اور جن مسلمانوں کے اعمال و اخلاق کا یہ منظر نامہ ہو، وہاں اللہ کی مدد آئے گی یا اللہ کا عذاب؟

……………………………………………………………………….

دوم : رہی یہ بات کہ کفار و مشرکین اور اغیار کے مظالم کا شکار صرف اور صرف دین دار مسلمان ہی کیوں ہیں؟

 اگر بدکردار مسلمانوں اور اربابِ اقتدار نے اللہ کو ناراض کر رکھا ہے تو ان کی سزا ان نہتے معصوموں کو کیوں دی جاتی ہے؟ اور ان کے حق میں اللہ تعالیٰ کی مدد کیوں نہیں آتی؟ چاہئے تو یہ تھا کہ جرم و سزا کے فلسفہ کے تحت سزا بھی ان ہی لوگوں کو دی جاتی ،جنہوں نے اللہ کو ناراض کررکھا ہے، مگر اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ نیک صالح مسلمان، اور دین و مذہب کے متوالے ،کفار کے مظالم کی تلوار سے ذبح ہورہے ہیں، ان کو بے نام کیا جارہا ہے، ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے، ان کی جان و مال اور عزت و ناموس برباد کی جارہی ہے، ان پر اللہ کی زمین تنگ کی جارہی ہے، اپنے اور پرائے سب ہی ان کے دشمن اور ان کی جان کے پیاسے ہیں، کوئی بھی ان کے لئے کلمہ خیر کہنے کا روادار نہیں ہے، بلکہ ان پر ہر طرف سے آگ و آہن کی بارش اور بارود کی یلغار ہے، آخر ایسا کیوں ہے؟؟

اسی طرح ارشاد الٰہی :”الا ان نصراللّٰہ قریب“ … بے شک اللہ کی مدد قریب ہے… کا وعدہ کب پورا ہوگا؟

اس سلسلہ میں بھی چند معروضات پیش کرنا چاہوں گا:

۱:- دنیا باخدا مسلمانوں کے لئے قید خانہ اور کفار و مشرکین کے لئے جنت ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

”عن ابی ہریرة رضی اللّٰہ عنہ قال، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ”الدنیا سجن المؤمن وجنة الکافر“ (ترمذی ص:۵۶ ج:۲)

 ترجمہ: ”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت ہے۔“

یعنی دنیا میں عموماً کافر کی نسبت، ایک مومن کو آفات و مصائب کا سامنا زیادہ کرنا پڑتا ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ کافر کی دنیاوی کروفر اور راحت و آرام اور مومن کی تکلیف و تعذیب کو دیکھ کر پریشان نہیں ہونا چاہئے، بلکہ مومن کی دنیا کی تکلیف و تعذیب اور مصائب و آلام کا، اس کی جنت کے ساتھ اور کافر کی ظاہری کروفر، خوش عیشی اور راحت و آرام کا اس کی جہنم کے ساتھ مقابلہ کیا جائے تو سمجھ میں آجائے گا کہ جس طرح کافر کی دنیاوی راحت و آسائش کی، اس کی جہنم کی سزا کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں، اسی طرح مسلمان کی دنیا کی عارضی تکالیف و مشکلات اس کی جنت اور آخرت کی راحت و آرام کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔

۲:- دنیا دارالعمل اور آخرت دارالجزا ہے اور ظاہر ہے جو شخص عملی میدان میں جتنا محنت و مشقت اور جہد و مجاہدہ برداشت کرے گا، بعد میں اسی تناسب سے اسے راحت و آرام میسر آئیگا اور جو شخص میدانِ عمل میں جتنا کوتاہی کرے گا، بعد میں اسی تناسب سے اُسے ذلت و رسوائی اور فضیحت و شرمندگی کا سامنا کرنا ہوگا، ٹھیک اسی طرح مقربین بارگاہِ خداوندی کو بھی آخرت کی کھیتی یعنی دنیا میں جہد مسلسل اور محنت و مشقت کا سامنا ہے، مگر عاقبت و انجام کے اعتبار سے جلد یا بدیر راحت و آرام ان کا مقدر ہوگا، دوسری طرف کافر اگرچہ یہاں ہر طرح کی راحت و آرام سے سرفراز ہیں، مگر مرنے کے ساتھ ہی عذاب جہنم کی شکل میں ان کی راحت و آرام اور ظلم و عدوان کا ثمرہ ان کے سامنے آجائے گا۔

۳:- کسی مسلمان کی تخلیق کا مقصد دنیا اور اس کی راحتوں کا حصول نہیں، بلکہ مسلمان کو جنت اور جنت کی لازوال و ابدی نعمتوں کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور جنت کا حصول کچھ آسان نہیں، بلکہ جنت کے سامنے یا اردگرد مشکلات و مصائب کی باڑھ لگائی گئی ہے اور دوزخ کے اردگرد خواہشات کی باڑھ کی گئی ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

”عن انس رضی اللّٰہ عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: حفت الجنة بالمکارہ وحفت النار بالشہوات.“ (ترمذی ص:۸۰ج:۲)

ترجمہ: ”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جنت کے گرد ناگواریوں اورمشقتوں کی باڑھ کی گئی ہے، اور دوزخ کے گرد خواہشات کی باڑھ کی گئی ہے۔“

اس لئے کسی نیک صالح مسلمان کا دنیا میں مشکلات و مصائب اور مکروہات سے دوچار ہونا دراصل حصولِ جنت میں کامیابی کی نشانی ہے، اور کفار و مشرکین اور معاندین کیلئے دنیاوی راحت و آرام یا خواہشات نفسانیہ کا مہیا ہونا ان کے عذابِ نار و سقر سے دوچار ہونے کی علامت ہے۔

۴:- بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آخرت کے عذاب سے بچانے کے لئے دنیا ہی میں انہیں مصائب و تکالیف میں مبتلا فرماتے ہیں‘ تاکہ اس کی کمی کوتاہیوں کا معاملہ یہیں نمٹ جائے اور آخرت میں ان کو کسی عذاب سے دوچار نہ ہونا پڑے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

”عن انس رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا اراد اللّٰہ بعبدہ الخیر عجل لہ العقوبة فی الدنیا، واذا اراد اللّٰہ بعبدہ الشر امسک عنہ بذنبہ حتی یوافی بہ یوم القیامة.

وبہٰذا الاسناد عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ان عظم الجزاء مع عظم البلأ، وان اللّٰہ اذا احب قوماً ابتلاہم، فمن رضی فلہ الرضا ومن سخط فلہ السخط.“ (ترمذی،ج:۲)

ترجمہ: ”حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں، تو دنیا میں ہی اس کو فوری سزا دے دیتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کے گناہ کی سزا موخر کردیتے ہیں، یہاں تک کہ قیامت کے دن اس کو پوری سزا دیں گے۔

نیز آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ بندے کو جتنا بڑا ابتلاء پیش آئے، اتنی بڑی جزا اس کو ملتی ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت فرماتے ہیں تو اسے … مصائب و آلام سے … آزماتے ہیں، پس جو شخص… ہر حالت میں ا للہ تعالیٰ سے … راضی رہا، اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اور جو شخص ناراض ہوا اس کے لئے ناراضی ہے۔“

اس حدیث کی تشریح میں حضرت اقدس مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمة الله عليه لکھتے ہیں:

” اس حدیث میں دو مضمون ارشاد ہوئے، ایک یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی سزا دنیا ہی میں دے دیتے ہیں، اس کی سزا کو آخرت پر نہیں اٹھا رکھتے، بلکہ مختلف مصائب میں اس کو مبتلا کرکے پاک و صاف کردیتے ہیں۔ چنانچہ اگر اس کو کانٹابھی چبھتا ہے تو وہ بھی اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے، اور اگر لکھنے والے کے ہاتھ سے قلم گر جاتا ہے تو وہ بھی اس کے لئے کفارہ بن جاتا ہے۔ اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ کسی بندئہ مومن کو کوئی تکلیف اور صدمہ یا پریشانی پیش آئے اسے اپنے گناہوں کا خمیازہ سمجھنا چاہئے۔ دوسری یہ کہ بندئہ مومن کا مصائب و آلام میں مبتلا ہونا اس کے مردود ہونے کی علامت نہیں، بلکہ اس کے ساتھ حق تعالیٰ شانہ کا لطف و انعام ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے اس کے گناہوں کے کفارہ کا دنیا ہی میں انتظام فرمادیا۔

اس کے برعکس جس بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتے ہیں اسے گناہوں کے باوجود ڈھیل اور مہلت دیتے ہیں، وہ احمق یہ سمجھتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت معزز ہے حالانکہ اس کے ساتھ مکرو استدراج کا معاملہ ہورہا ہے کہ اس کی معصیتوں اور نافرمانیوں کے باوجود اسے ڈھیل دی جارہی ہے، اور قیامت کے دن جب بارگاہِ خداوندی میں پیش ہوگا، اسے اس کی بدعملیوں کا پورا پورا بدلہ چکا دیا جائے گا، الا یہ کہ حق تعالیٰ شانہ محض اپنے فضل و احسان سے عفو و درگزر کا معاملہ فرمائے … بشرطیکہ وہ مسلمان ہو کیونکہ کفر و شرک کی معافی نہیں ہے … ناقل۔

اس حدیث پاک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کبھی حق تعالیٰ شانہ کا لطف قہر کی شکل میں ہوتا ہے اور کبھی قہر لطف کی شکل میں، اس نکتہ کو حضرات عارفین خوب سمجھتے ہیں، ور نہ عام لوگوں کی نظر اس پر نہیں جاتی۔“ (دنیا کی حقیقت ص:۱۹۷، ۱۹۸، ج:۱)

۵:- دنیا کا اصول ہے کہ جس سے زیادہ تعلق خاطر ہو یا جس کو کسی لائق بنانا ہو، اس کو کڑی آزمائش و امتحان سے گزارا جاتا ہے، اور اس کی چھوٹی چھوٹی حرکت و سکون پر گرفت کی جاتی ہے، چنانچہ اسی موقع پر فرمایا گیا ہے کہ: ”حسنات الابرار سیئات المقربین“ … ابرار کی نیکیاں مقربین کی سیئات شمار ہوتی ہیں … یعنی مقربین کا مقام اتنا اونچا ہے کہ جو کام ابرار کریں اور وہ نیکی کہلائے، اگر وہی کام مقربین کریں تو ان کے درجہ کے اعتبار سے وہ بھی سیئہ اور گناہ شمار ہوتا ہے، گویا نیک و صالح مسلمان درجہ قرب الٰہی پر فائز ہیں اور ان کو آخرت میں جن مراتب ِ عالیہ سے سرفراز کرنا ہے، دنیاوی تکالیف و مشکلات کی بھٹی میں ڈال کر ان کو کندن بنانے کی سعی کی جارہی ہے۔

۶:- جس کا جتنا اللہ تعالیٰ سے قرب ہوگا اس کو اسی تناسب سے مصائب و بلایا اور شدائد و محن سے دوچار کیا جائے گا، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

”عن مصعب بن سعد عن ابیہ قال قلت، یا رسول اللّٰہ! ای الناس اشد بلاءً؟ قال: الانبیأ ثم الأمثل فالأمثل، فیتبلیٰ الرجل علیٰ حسب دینہ فان کان فی دینہ صلباً اشتد بلائہ، وان کان فی دینہ رقة ابتلی علی حسب دینہ، فما یبرح البلاء بالعبد حتی یترکہ یمشی علی الارض وما علیہ خطیئة.“ (ترمذی، ج:۲، ص:۶۲)

ترجمہ: ”حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ فرمایا: انبیاء علیہم السلام کی، پھر جو ان سے قریب تر ہو، پھر جو ان سے قریب تر ہو، آدمی کو اس کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے، پس اگر وہ اپنے دین میں پختہ ہو تو اس کی آزمائش بھی کڑی ہوتی ہے، اگر اس کے دین میں کمزوری ہو تو اسے اس کے دین کی بقدر آزمائش میں ڈالا جاتا ہے، پس آزمائش بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ اس کو ایسا کرکے چھوڑتی ہے کہ وہ زمین پر ایسی حالت میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں رہتا۔“

اس لئے موجودہ کیا، ہمیشہ سے مصائب و مشکلات اور شدائد و محن اللہ کے مقربین کا طرئہ امتیاز رہا ہے۔

۷:- بعض اوقات مقربین بارگاہِ الٰہی کے پیمانہٴ خلوص، اخلاص، صبر، تحمل، تسلیم ، رضا، عزم، ہمت، دینی پختگی اور تصلّب کو ناپنے کیلئے ان پر امتحانات و آزمائشیں آتی ہیں، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:

الف:- ”ولنبلونکم بشئی من الخوف والجوع ونقص من الاموال والأنفس والثمرات، وبشر الصابرین، الذین اذا اصابتہم مصیبة قالوا اناللّٰہ وانا الیہ راجعون.“ (البقرہ: ۱۵۵)

ترجمہ: ”اور ہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر خوف سے اور فاقہ سے اور مال اور جان اور پھلوں کی کمی سے ۔اور آپ ایسے صابرین کو بشارت سنادیجئے کہ ان پر جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہیں اور ہم سب اللہ تعالیٰ کے پاس جانے والے ہیں۔“

ب:- ”الٓمٓ، احسب النّاس ان یترکوا ان یقولوا آمنّا وہم لایفتنون، ولقد فتنّا الّذین من قبلہم فلیعلمنّ اللّٰہ الّذین صدقوا ولیعلمنّ الکٰذبین۔“ (عنکبوت: ۱،۲،۳)

ترجمہ: ”کیا یہ سمجھتے ہیں لوگ، کہ چھوٹ جائیں گے اتنا کہہ کر کہ ہم یقین لائے اور ان کو جانچ نہ لیں گے، اور ہم نے جانچا ہے ان کو جو ان سے پہلے تھے، سو البتہ معلوم کرے گا اللہ جو لوگ سچے ہیں اور البتہ معلوم کرے گا جھوٹوں کو۔“

ج:- ”عن خباب بن الارت قال: شکونا الی النّبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلم وہو متوسّد بردةً لہ فی ظلّ الکعبة فقلنا: الا تستنصرلنا، الا تدعو اللّٰہ لنا؟ قال کان الرّجل فی من قبلکم یحفرلہ فی الارض فیجعل فیہا فیجاء بالمنشار فیوضع علٰی رأسہ فیشق باثنین وما یصدّہ عن دینہ، ویمشط بامشاط الحدید مادون لحمہ من عظم او عصب وما یصدہ ذلک عن دینہ …“ (صحیح بخاری، ص:۵۱۰، ج:۱)

ترجمہ: ”حضرت خباب بن الارت رضي الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم بیت اللہ کے سائے میں اپنی چادر سے ٹیک لگاکر تشریف فرما تھے، کہ ہم نے آپ سے … کفار کے مظالم کی شکایت کرتے ہوئے … عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ہمارے لئے اللہ سے مدد اور دعا کیوں نہیں مانگتے؟… آپ یہ سن کر ایک دم سیدھے ہوکر بیٹھ گئے … اور فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص کے لئے گڑھا کھودا جاتا، اسے اس میں کھڑا کیا جاتا اور اس کے سر پر آری چلاکر اسے چیر کر دو ٹکڑے کردیا جاتا، مگر یہ سب کچھ اس کو اس کے دین سے نہ ہٹاسکا، اسی طرح کسی کے جسم پر لوہے کی کنگھی چلاکر اس کا گوشت اور پٹھے اس کی ہڈیوں سے اُدھیڑ دیئے جاتے، مگر یہ سب کچھ اس کو اس کے دین سے نہیں ہٹاسکتا۔“

گویا ان حضرات کو اپنے دین و مذہب کی خاطر اس قدر اذیتیں دی گئیں اور انہوں نے اس پر صبر و برداشت کیا تو تمہیں بھی ان معمولی تکالیف پر حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے بلکہ صبر و برداشت سے کام لینا چاہئے اور اللہ کی نصرت و مدد پر نگاہ رکھنی چاہئے جلد یا بدیر اللہ کی مدد آکر رہے گی۔

۸:- اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے مقربین کو تکالیف و مصائب سے دوچار کرکے دراصل ان کی نیکیوں اور اعمالِ حسنہ کا پورا پورا بدلہ اور جزا دنیا کے بجائے آخرت میں دینا چاہتے ہیں، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

”یود اہل العافیة یوم القیامة حین یعطی اہل البلاء الثواب لو ان جلودہم کانت قرضت فی الدنیا بالمقاریض.“ (ترمذی ص:۶۳ ج:۲)

ترجمہ: ”قیامت کے دن جب اہل ِ مصائب کو بدلہ عطا کیا جائے گا تو اہل عافیت … جو ان مصیبتوں سے محفوظ رہے… یہ آرزو کریں گے کہ کاش! دنیا میں ان کے چمڑے قینچیوں سے کاٹ دیئے جاتے۔“

۹:- بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد اور نصرت پر قادر ہے، وہ چاہے تو کسی عام مظلوم کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتے نازل کرسکتا ہے اور نہ چاہے تو بنی اسرائیل جیسی ناہنجار قوم کے ہاتھوں اپنے مقرب و مقدس انبیاء علیہم السلام کو جامِ شہادت نوش کرادے، مگر بایں ہمہ خدا پرست اور اہلِ حق نہ دل چھوٹا کرتے ہیں اور نہ مایوس و بزدل ہوتے ہیں؟ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: .

الف:- ”ویقتلون النبیین بغیر الحق“ (البقرہ:۶۱)… اور وہ بنی اسرائیل… خون کرتے تھے پیغمبروں کا ناحق…

ب:- ”ویقتلون الانبیاء بغیر حق، ذالک بما عصوا وکانوا یعتدون“ (آل عمران:۱۱۲)… اور قتل کرتے رہے ہیں پیغمبروں کا ناحق، یہ اس واسطے کہ نافرمانی کی انہوں نے اور حد سے نکل گئے…

ج:- ”وکأیّن من نّبی قٰتل معہ ربیّون کثیر فما وہنوا لما اصابہم فی سبیل اللّٰہ وما ضعفوا وما استکانوا واللّٰہ یحبُّ الصّابرین.“ (آل عمران: ۱۴۶)

ترجمہ: ”اور بہت نبی ہیں جن کے ساتھ ہوکر لڑتے ہیں بہت خداکے طالب، پھر نہ ہارے ہیں کچھ تکلیف پہنچنے سے، اللہ کی راہ میں اور نہ سست ہوئے ہیں اور نہ دب گئے ہیں اور اللہ محبت کرتا ہے ثابت قدم رہنے والوں سے۔ “

۱۰:- ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد فوراً آجائے، بلکہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی مدد و نصرت میں بھی اتنی تاخیر فرماسکتے ہیں کہ وہ مایوسی کے قریب ہوجائیں، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:

الف:- ”حتی اذا استیئس الرسل وظنوا انہم قد کذبوا جاء ہم نصرنا فنجی من نشاء ولا یرد بأسنا عن القوم المجرمین.“ (یوسف:۱۱۰)

ترجمہ: ”یہاں تک کہ پیغمبر…اس بات سے…مایوس ہوگئے اور ان پیغمبروں کو گمان غالب ہوگیا کہ ہمارے فہم نے غلطی کی، ان کو ہماری مدد پہنچی، پھر… اس عذاب سے … ہم نے جس کو چاہا وہ بچالیا گیا اور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے نہیں ہٹتا۔“

ب:- ”ام حسبتم ان تدخلوا الجنّة ولمّا یأتکم مثل الّذین خلوا من قبلکم مسّتہم البأساء والضّرّاء وزلزلوا حتی یقول الرسول والذین آمنوا معہ متیٰ نصر اللہ، الا ان نصراللّٰہ قریب.“ (البقرہ: ۲۱۴)

ترجمہ: ”کیا تم کو یہ خیال ہے کہ جنت چلے جاؤگے حالانکہ تم پر نہیں گزرے حالات ان لوگوں جیسے جو ہوچکے تم سے پہلے کہ پہنچی ان کو سختی اور تکلیف اور جھڑ جھڑائے گئے، یہاں تک کہ کہنے لگا رسول اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے کب آوے گی اللہ کی مدد؟ سن رکھو اللہ کی مدد قریب ہے۔“

اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ کفار و مشرکین کے مقابلہ میں نیک و صالح مسلمانوں کے لئے فوراً نصرت الٰہی کا آنا کوئی ضروری نہیں، اس کے علاوہ مدد و نصرت الٰہی میں تاخیر کا ہوجانا جہاں کفار و مشرکین اور ان کے موقف کی صداقت کی دلیل نہیں، وہاں نیک صالح اور متقین و مومنین کے بارگاہِ الٰہی میں مبغوض و مقہور ہونے کی علامت بھی نہیں، کیونکہ دورِ حاضر کے نیک و صالح مومنین و متقین، اپنی جگہ کتنا ہی مقرب بارگاہ الٰہی کیوں نہ ہوں، بہرحال وہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے مرتبہ و مقام کو نہیں پہنچ سکتے، لہٰذا اگر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی مدد و نصرت میں تاخیر ہوسکتی ہے تو دورِ حاضر کے نیک صالح مومنین و مجاہدین کی مدد میں تاخیر کیوں نہیں ہوسکتی؟

۱۱:- اس سب سے ہٹ کر سچی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ موجودہ صورت حال میں جہاں اہل ِ ایمان کو مصائب و آلام سے دوچار کرکے ان کے درجات بلند کرنا چاہتے ہیں، وہاں ان بدباطن کفار و مشرکین اور نام نہاد مسلمانوں پر اتمام حجت کرنا چاہتے ہیں، تاکہ کل قیامت کے دن وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں غوروفکر کی مہلت اور صحیح صورتِ حال کا اندازہ نہیں ہوسکا تھا۔

الغرض موجودہ صورت حال سے جہاں نیک صالح لوگوں اور مقربین بارگاہِ الٰہی کے درجات بلند ہورہے ہیں، وہاں ان بدباطنوں کو ڈھیل دی جارہی ہے، چنانچہ ارشاد الٰہی ہے: ”واملی لہم ان کیدی متین“ (القلم:۴۵) … اور میں ان کو ڈھیل دیتا ہوں مگر میری تدبیر غالب ہے، اسی طرح: ”وانتظروا انا منتظرون“ (ھود:۱۲۲)… تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کررہے ہیں… مرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ کون فائدہ میں تھا اور کون نقصان میں؟؟

فسوف تریٰ اذا انکشف الغبار

اتحت رجلک فرس ام حمار

وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد والہ واصحابہ اجمعین

_____________________________









************************،


ایمان کی لغوی معنیٰ:
(1) ایمان لفظ امن سے لیا گیا ہے جو خوف کی ضد ہے۔

[مصباح اللغات: ص41]


فرامینِ رسول اللہ ﷺ:

أَشْرَفُ الْإِيمَانِ أَنْ يَأْمَنَكَ النَّاسُ 

ترجمہ:

اشرف ایمان یہ ہے کہ انسانیت تجھ سے امن میں رہے۔

[المعجم الصغیر-للطبراني:10، جامع الاحادیث-للسيوطي:3499]


الْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ.

ترجمہ:

مومن وہ ہے جس سے لوگ امن میں ہوں۔

[احمد:12561، ابن ماجہ:3934، حاکم:25، طبرانی:193، بغوی:14، ابن حبان:510، البزار:7432]




(2)تصدیق اور تسلیم کے ہیں۔
اور شریعت کی اصطلاح میں ایمان کہا جاتا ہے کہ وہ تمام چیزیں جو نبی کریم ﷺاللہ کی طرف سے لے کر آئے ہیں ، جو قطعیت کے ساتھ نبی کریم ﷺسے ثابت ہیں ، ان کی دل سے تصدیق کرنا، اور زبان سے اس کا اقرار کرنا یہ ایمان کہلاتا ہے۔
حوالہ
’’الإيمان في اللغة التصديق بالقلب وفي الاعتقاد بالقلب والإقرار باللسان ۔‘‘
[التعریفات» ج:1،ص:60،ط:دارالکتاب العربی ،بیروت]

ارکانِ ایمان»

حضرت علی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

الْإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ،  وَإِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ، وَعَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ.

ترجمہ:

ایمان، (بدیہی طور پر ثابت نبوی باتوں پر) (1)دل کے یقین کرنے اور (2)زبان سے اقرار کرنے اور (3)اعضاء سے عمل کرنے کا نام ہے۔

[سنن ابن ماجہ:65، المعجم الأوسط-للطبراني:6254-8580، شعب الایمان-للبيهقي:16]

﴿تفسير الثعلبي:244-1609.سورۃ البقرۃ:3﴾

﴿تفسیر الدر المنثور-للسيوطي:7/583.سورة الحجرات:14﴾



************************



ایمان کی اصطلاحی معنیٰ:
ایمان کی ایک معنیٰ شریعتِ محمدی ﷺ کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔
الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ
[سورہ المائدة:69]
اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔
لہٰذا ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو توحید کا اقرار کرکے شریعت محمدی ﷺ میں داخل ہوجائے۔

اور بعض نے آیت:
{ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ }
[سورة يوسف 106]
اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں.

کو بھی اسی معنیٰ پر محمول کیا ہے۔
[المفردات في غريب القرآن: ص91-452-681]




ایمان کی اصل-بنیاد»
حکمِ رسول﴿محمد﴾ ﷺ کو ماننا۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ» 
ترجمہ:
نہیں مومن ہوسکتا تم میں کوئی ایک بھی جب تک کہ اسکی خواہش اس ﴿دین/حکم﴾ کے تابع (پیچھے چلنے والی) نہ ہوجائے جو میں لایا ہوں۔
[شرح السنة-للبغوي:104، المدخل،امام بیھقی: حديث#209]



القرآن:
تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 65]

القرآن:
اور جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا حتمی فیصلہ کردیں تو نہ کسی مومن مرد کے لیے یہ گنجائش ہے نہ کسی مومن عورت کے لیے کہ ان کو اپنے معاملے میں کوئی اختیار باقی رہے۔ اور جس کسی نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، وہ کھلی گمراہی میں پڑگیا۔

[سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر 36]









نہیں بن سکتا(سچاپکاکامل)مومن تم میں سے کوئی شخص جب تک...

(1)میں(نبی)اسے اسکی جان

[احمد:18047]

مال واھل

[نسائی:5014]

اسکے والدین واولاد

[بخاری13]

اور سارے لوگوں سے(بھی)زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔

[بخاری:14]

(2)۔۔۔اسے کفر کی طرف واپسی،آگ میں جانے کی طرح ناپسند ہو۔

[احمد:13959]

(3)۔۔۔اسکی خواہش پیچھے چلے(اس دین کے)جو میں لایا ہوں۔

[بغوی:104]

(4)۔۔۔اپنے مسلمان بھائی (پڑوسی)کیلئے وہی نہ چاہے جو وہ اپنے لئے چاہتا ہے۔

[بخاری:12]






دعا

























حضرت ابوھریرہ ﴿حضرت انس﴾ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ليس الإيمان بالتمنى  ولا بالتحلى ولكن هو ما وقر فى القلب وصدقه الفعل.

﴿العلم علمان: علم باللسان وعلم فى القلب فأما علم القلب فالعلم النافع وعلم اللسان حجة الله على ابن آدم﴾.

ترجمہ:

ایمان(صرف)تمنا اور تزئین کا نام نہیں بلکہ ایمان تو وہ(یقین)ہے جو دل میں پختہ ہوجاۓ اور عمل(بھی) اس کی تصدیق کرے۔

﴿علم دو ہیں: ایک وہ جو دل میں(اللہ کا ڈر پیدا کرتا)ہو، یہی علم نافع ہے۔ اور جو علم (مال، شہرت یا مقابلے کیلئے) زبان پر ہو، وہ تو اللہ کی حجت (الزامی دلیل) ہے اس کے بندوں پر۔﴾

[شعب الایمان-للبيهقي:66، جامع الاحادیث:19317﴿19318﴾، كنزالعمال:11]

القرآن:

’’نہ تمہاری تمنائیں (جنت میں جانے کیلئے) کافی ہیں اور نہ اہل کتاب کی آرزوئیں۔ جو بھی برا عمل کرے گا وہ اسکی سزا پائے گا۔۔۔‘‘

﴿تفسير الراغب الاصفهاني:4/168،سورة النساء:123﴾




حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ آرزوئیں کرنے اور خلوت اختیار کرنے کا نام ایمان نہیں ہے ۔ بلکہ(نبوی باتوں پر) جو (یقین) دلوں میں ثبت ہو اور اعمال اس کی تصدیق کریں۔ (لہٰذا) جو شخص اچھی بات(کلمہ) کہے اور نیک عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی بات(کلمہ) کو رد فرما دیتے ہیں اور جو شخص اچھی بات(کلمہ) کہے اور نیک عمل بھی کرے تو یہ عمل اس بات کو بلند کرتا(قبولیت کا شرف بخشتا) ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’...اسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلمہ اور نیک عمل اسے بلند کرتا ہے۔۔۔‘

﴿تفسير الدر المنثور-للسيوطي:7/10،سورة فاطر:10﴾







حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إن الرجل لا يكون مؤمنا حتى يكون قلبه مع لسانه سواء ويكون لسانه مع قلبه سواء ولا يخالف قوله عمله ويأمن جاره بوائقه۔

ترجمہ:

آدمی(کامل)مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا دل اس کی زبان کے موافق نہ ہوجاۓ(یعنی بدیہی طور پر ثابت نبوی باتوں پر اقرار کے ساتھ یقین ہو)،اور اس کا عمل اس کے قول(یعنی زبانی اقرار)کی مخالفت نہ کرے، اور امن سے ہو اس کا پڑوسی اس کے تکلیفوں سے۔

[الترغیب-لاصفھاني:53، جامع الاحادیث:6301-17374، كنزالعمال:85]





رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنی زبان سے اور حال یہ ہے کہ ایمان اس کے دل میں داخل نہیں ہوا {نہیں پہنچا} {خالص نہیں ہوا} {دل سے ایمان نہیں لائے}، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو {مومنوں کو ایذاء نہ پہنچاؤ}{اور ان کو عار مت دلاؤ} اور ان کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو، اس لیے کہ جو ان کے عیوب کے پیچھے پڑے گا، اللہ اس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اور اللہ جس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اسے اسی کے گھر میں ذلیل و رسوا کر دے گا ۔

[سنن أبي داود:4880،

{سنن الترمذي:2032}

{مسند الروياني:305، المعجم الأوسط للطبراني:3778}

{التوبيخ والتنبيه لأبي الشيخ الأصبهاني:87، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:2511}

{الجامع - معمر بن راشد:20251}]


القرآن:

یہ دیہاتی کہتے ہیں کہ : ہم ایمان لے آئے ہیں۔ ان سے کہو کہ : تم ایمان تو نہیں لائے، البتہ یہ کہو کہ ہم نے ہتھیار ڈال دیے ہیں، (10) اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اور اگر تم واقعی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال (کے ثواب) میں ذرا بھی کمی نہیں کرے گا۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔

[سورۃ الحجرات:14 (تفسير البغوي:2007، الزمخشري،القرطبي،ابن كثير،الدر المنثور،المظهري،الألوسي)]


القرآن:

اے (زبان سے) ایمان والو! (دل سے) ایمان رکھو اللہ پر، اور اس کے رسول پر، اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر اتاری ہے، اور ہر اس کتاب پر جو اس نے پہلے اتاری تھی۔ اور جو شخص اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا اور یومِ آخرت کا انکار کرے وہ بھٹک کر گمراہی میں بہت دور جا پڑا ہے۔

[سورۃ النساء:136]



تفصیلِ ایمان»

پوچھا گیا: ایمان کیا ہے؟
فرمایا:
(1)تم ایمان لاؤ الله ﴿اکیلے حقیقی خدا﴾ پر
یعنی
﴿گواہی دینا کہ نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور گواہی دینا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ دینا، اور رمضان کے روزے رکھنا، اور یہ کہ تم مالِ غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرو﴾
﴿صحیح البخاري:53+87+7266﴾

اور تم ایمان لاؤ
(2)اسکے فرشتوں پر
(3)اور اسکی کتابوں پر
[مسند ابي حنيفة رواية الحصكفي» حديث#2]

اور تم ایمان لاؤ۔۔۔
(4)اسکے پیغمبروں پر
﴿اور عیسیٰ بندے اور رسول ہیں اللہ کے، اور وہ اس کا کلمہ (ہوجا) ہیں جو اس نے مریم کی طرف القا فرمایا، اور وہ اللہ کی طرف سے روح (حکم) ہیں۔ اور جنت حق ہے، اور جہنم بھی حق ہے۔﴾
﴿صحیح البخاري:3435﴾

(5)اور آخرت کے دن پر،

﴿اور تم ایمان لاؤ موت پر اور موت کے بعد زندہ کیے جانے پر، جنت وجھنم، حساب اور (اعمال تولنے والی)میزان پر، اس(اللہ)سے ملاقات پر﴾

﴿مسند احمد:2924، صحیح ابن حبان:173﴾


(6)اور اچھی بری ﴿ہر﴾ تقدیر پر۔

کہ وہ اللہ (بزرگ وبرتر) کی طرف سے ہے.
[مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي:1، شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:321، الاعتقاد للبيهقي: ص134]

جب تم نے یہ (بنیادی) کام انجام دے دیا، تو تم یقینا ایمان لاچکے۔

[مسند احمد:2924، الأحاديث المختارة:8]



اعمالِ ایمان:

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تم جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کہ ایمان نہیں لاؤ گے اور پورے مومن نہیں بنو گے جب تک کہ آپس میں محبت نہیں کروگے کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جب تم اس پر عمل کروگے تو آپس میں محبت کرنے لگ جاؤ گے وہ یہ ہے کہ آپس میں ہر ایک آدمی کو سلام کیا کرو۔

[مسند احمد:9084، المعجم الکبیر للطبرانی:10396]


مسائل اور تخریج:

جنت میں صرف ایمان والے جائیں گے ایمان والوں سے محبت ایمان کی نشانی ہے اور کثرت سلام آپس میں محبت کا باعث ہے۔

[صحیح مسلم:194(54)]


ایمان کی نفی(انکار) کا ذکر جس میں اللہ تعالیٰ کی خاطر (مسلمانوں) سے محبت نہیں۔

[صحیح ابن حبان:236]


سلام کو پھیلانے کا بیان۔

[سنن الترمذي:2688]


ایمان کا چالیسواں شعبہ» نفرت اور حسد کو ترک کرنے کی تلقین کرنے کا بیان۔

[شعب الإيمان-للبیھقي:6613]

ایمان کا اکسٹھواں شعبہ» یہ دینداروں کے قریب آنے اور ان سے دوستی، اور ان کے درمیان سلام پھیلانے کے بیان میں۔

[شعب الإيمان-للبیھقي:8745]







اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جس شخص میں تین اوصاف موجود ہوں وہ ایمان کا مزہ چکھ لیتا ہے۔ (۱) جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے زیادہ اور کسی سے محبت نہ رکھتا ہو۔ (۲) جس شخص کو اپنے دین سے مرتد ہوجانا آگ میں جلا دیا جانے سے زیادہ محبوب ہو۔ (۳) جو اللہ کے لیے کسی سے دوستی رکھتا ہو اور اللہ کے لیے ہی کسی سے بغض رکھتا ہو۔

[صحیح بخاري:16، صحیح مسلم:43]





نصف ایمان:

فرمایا:

طھارت(پکیزگی) آدھا ایمان ہے.

[ترمذی:3519]




نصف ایمان:

فرمایا:

وضو(سے رہنا)آدھا ایمان ہے.

[احمد:23099]




صبر(یعنی احکامِ دین پر جمے رہنا) آدھا ایمان ہے.

[طبرانی:8544]


جس نے نکاح کیا،اس نے اپنا آدھا ایمان کامل کرلیا،اب اپنے باقی آدھے ایمان کے بارے میں الله سے ڈرے.

[المعجم الأوسط-للطبراني:7647]





اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جس نے الله ہی کی خاطر محبت کی، اور الله ہی کیلئے بغض رکھا، اور الله ہی کے واسطے دیا، اور الله ہی کیلئے روکا، تو اس کا ایمان"کامل"ہوگیا۔

[ابوداؤد:4681]








اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تمام لوگوں سے کامل ایمان والے وہ ہیں جو اخلاق میں اچھے ہوں، اور نرم پہلوؤں والے ہوں جو دوستی رکھتے ہیں اور دوست رکھے جاتے ہیں اور جو شخص نہ کسی کو دوست رکھے اور نہ اس کو کوئی دوست رکھے اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔‘‘

[الصحیحة:751۔ معجم الاوسط:4422۔، معجم الصغیر:35]






سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں اپنے دل میں ایسے خیالات پاتا ہوں کہ ان کو زبان پر لانے سے یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ کوئلہ بن جاؤں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ صریح ایمان ہے۔

[معجم الصغیر:65]





اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بندہ پورا ایمان نہیں لاتا جب تک کہ ہنسی مذاق میں بھی جھوٹ چھوڑدے اور جھگڑنا چھوڑدے اگرچہ سچا(حق پر) ہو.

[احمد:8630]




اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جس میں تین عادتیں پیدا ہوگئیں،اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا

یا فرمایا:تین باتیں ایمان کی تکمیل ہیں:

تھوڑے میں سے کچھ خرچ کرنا،اپنی جان سے انصاف کرنا(ہر نافرمانی سے بچانا)،اور عالم کو(خصوصا)سلام کرتے رہنا.

[جامع الاحادیث:40683]





اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تین عادتیں جس میں ہوئیں،اس کا ایمان مکمل ہوجاۓ گا:

وہ شخص جو الله کے بارے میں کسی کی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتا، اور نہ اپنے کسی عمل میں دکھلاوا کرتا ہے، اور جب اس کے سامنے دو کام آتے ہیں ایک دنیا کا اور ایک آخرت کا تو وہ(حکمِ خدا کے خلاف حاصل کی جانے والی) دنیا کے مقابلہ میں آخرت کے کام کو فوقیت(اور ترجیح)دیتا ہے.

[جامع الاحادیث:11197]




اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بندہ اس وقت تک ایمان کامل نہیں پاسکتا جب تک کہ اپنی زبان کو(غلط اور فضول استعمال سے بھی)روک لے۔

[جامع الاحادیث:17838]








اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ایمان کی پانچ(5)باتیں ایسی ہیں کہ اگر کسی شخص میں ان میں سے کوئی نہ ہو تو اس کا ایمان(کامل)نہیں:

حکمِ الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کرنا، فیصلہِ الہی(تقدیر) پر راضی رہنا، خود(کی چاہت)کو الله کے حوالہ کرنا، الله پر بھروسہ کرنا اور مصیبت کے پہلے جھٹکے میں صبر کرنا۔

[جامع الاحادیث،امام سیوطی:11982]



اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

وہ شخص کامل الایمان مومن نہیں جو مصیبت کو نعمت نہ سمجھے اور نرمی وآسانی کو مصیبت نہ سمجھے...(کیونکہ)ہر مصیبت کے بعد نرمی اور ہر آسانی کے بعد مصیبت تو آتی ہی ہے۔

[طبرانی:10949]






اللہ پر بھروسہ رکھتے چڑھائی کرتے گھس جانا۔

القرآن:

جو لوگ (اللہ کا) خوف رکھتے تھے، ان میں سے دو مرد جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا تھا۔ (20) بول اٹھے کہ : تم ان پر چڑھائی کر کے (شہر کے) دروازے میں گھس جاؤ۔ جب گھس جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے۔ اور اپنا بھروسہ صرف اللہ پر رکھو، اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو۔

[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 23]

تفسیر:

(20) یہ دو صاحبان حضرت یوشع اور حضرت کالب (علیہما السلام) تھے جو ہر مرحلے پر حضرت موسیٰ ؑ کے وفادار رہے تھے اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت سے بھی سرفراز فرمایا، انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اللہ پر بھروسہ کرکے آگے بڑھو تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق تم ہی غالب رہوگے۔





القرآن:

اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرجائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کردے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا، اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے جو مومنوں کے لیے نرم اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے۔ اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جو وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑے علم والا ہے۔

[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 54]




القرآن:

درحقیقت یہ تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، لہذا اگر تم مومن ہو تو ان سے خوف نہ کھاؤ، اور بس میرا خوف رکھو۔

[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 175]

القرآن:

شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بےحیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا، ہر بات جاننے والا ہے۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 268]

القرآن:

اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 208]




منافق کون؟

القرآن:

اے ایمان والو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ کے پاس اپنے خلاف (یعنی اپنے مستحقِ عذاب ہونے کی) ایک کھلی کھلی وجہ پیدا کردو؟ یقین جانو کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے، اور ان کے لیے تم کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔

[سورۃ النساء،آیت نمبر 144]

القرآن:

اے ایمان والو ! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان میں سے ایسے لوگوں کو جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے اور کافروں کو یار ومددگار نہ بناؤ، اور اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو تو اللہ سے ڈرتے رہو۔

[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 57]

تفسیر:

”یار و مددگارـ“ عربی لفظ ”ولی“ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ”ولی“ بنانے کو ”موالات“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی دوستی اور قلبی محبت کا تعلق ہے جس کے نتیجے میں دو آدمیوں کا مقصد زندگی اور ان کا نفع و نقصان ایک ہوجائے۔ اس قسم کا تعلق مسلمان کا صرف مسلمان ہی سے ہوسکتا ہے اور کسی غیر مسلم سے ایسا تعلق رکھنا سخت گناہ ہے اور اس آیت میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے، یہی حکم سورة نساء (4: 139) سورة مائدہ (5: 51) سورة توبہ (9: 23) سورة مجادلہ (28: 22) اور سورة ممتحنہ (60: 1) میں بھی دیا گیا ہے، البتہ جو غیر مسلم جنگ کی حالت میں نہ ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے، جیسا کے خود قرآن کریم نے سورة ممتحنہ (60: 8) میں واضح فرمادیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت پوری حیات طیبہ میں یہ رہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا، اسی طرح ان کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعاون کے وہ معاہدہ اور تجارتی معاملات بھی کئے جاسکتے ہیں جن کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں دوستی کے معاہدے کہا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ معاہدے یا معاملات اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف نہ ہوں اور ان میں کسی خلاف شرع عمل کا ارتکاب لازم نہ آئے، چنانچہ خود آنحضرت ﷺ نے اور آپ کے بعد صحابہ کرام نے ایسے معاہدات اور معاملات کیے ہیں، غیر مسلموں کے ساتھ موالات کی ممانعت کرنے کے بعد قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ : الا یہ کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لئے بچاؤ کا کوئی طریقہ احتیار کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار کے ظلم وتشدد سے بچاؤ کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے جس سے بظاہرموالات معلوم ہوتی ہو تو اس کی گنجائش ہے۔




القرآن:

کیا تم ان لوگوں سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑا، اور رسول کو (وطن سے) نکالنے کا ارادہ کیا، اور وہی ہیں جنہوں نے تمہارے خلاف (چھیڑ چھاڑ کرنے میں) پہل کی ؟ (12) کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ (اگر ایسا ہے) تو اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تم اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔ ان سے جنگ کرو تاکہ اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے، انہیں رسوا کرے، ان کے خلاف تمہاری مدد کرے، اور مومنوں کے دل ٹھنڈے کردے۔ اور ان کے دل کی کڑھن دور کردے، اور جس کی چاہے توبہ قبول کرلے (13) اور اللہ کا علم بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل۔

[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 13]

تفسیر:

(12) اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے مکہ مکرمہ میں ظلم شروع کیا اور یہ بھی کہ انہوں نے صلح حدیبیہ کو توڑنے میں پہل کی۔

(13) یعنی اس کا بھی امکان ہے کہ کفار توبہ کرکے مسلمان ہوجائیں، چنانچہ بہت سے لوگ اس کے بعد واقعی مسلمان ہوئے۔



القرآن:

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی مومن ہو تو سود کا جو حصہ بھی (کسی کے ذمے) باقی رہ گیا ہو اسے چھوڑ دو۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 278]





القرآن:

(یہ کامیاب سودا کرنے والے وہ ہیں جو) توبہ کرنے والے ! اللہ کی بندگی کرنے والے ! اس کی حمد کرنے والے ! روزے رکھنے والے ! (86) رکوع میں جھکنے والے ! سجدے گزرنے والے ! نیکی کی تلقین کرنے والے، اور برائی سے روکنے والے، اور اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے، (87) (اے پیغمبر) ایسے مومنوں کو خوشخبری دے دو۔

[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 112]

تفسیر:

(86) قرآن کریم نے یہاں جو لفظ استعمال کیا ہے وہ السائحون ہے اس لفظ کے اصل معنی تو سیاحت کرنے والے کے ہیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے اس کی تفسیر روزہ رکھنے سے فرمائی ہے اور یہی تفسیر متعدد صحابہ اور تابعین سے بھی منقول ہے (تفسیر ابن جریر) بظاہر روزے کو سیاحت اس لیے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح سفر میں انسان کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کے معمولات قائم نہیں رہتے، اسی طرح روزے میں بھی ان معمولات میں فرق آجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔

( 87) قرآن کریم نے بہت سے مواقع پر ”اللہ کی قائم کی ہوئی حدود“ اور ان کی حفاظت کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ بڑی معنی خیز اصطلاح ہے۔ اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے احکام دئیے ہیں۔ وہ کچھ حدود کے پابند ہیں۔ ان حدود میں رہ کر ان کو انجام دیا جائے تو وہ درست اور نیک کام ہیں۔ اور اگر حدود سے نکل جائیں تو وہی کام ناپسندیدہ اور بعض اوقات گناہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی عبادت بہت ثواب کا کام ہے، لیکن اگر کوئی شخص عبادت میں اتنا منہمک ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے جو حقوق رکھے ہیں، ان کو پامال کرنے لگے، تو وہ عبادت بھی ناجائز ہوجاتی ہے۔ تہجد کی نماز بڑی عظیم فضیلت کی چیز ہے، لیکن اگر کوئی شخص یہ نمازیں اس طرح پڑھے جس سے سونے والوں کی نیند میں خلل آئے تو یہ ناجائز ہے۔ والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی نفلی عبادت نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس کی وجہ سے بیوی بچوں کے حقوق پامال کرنے لگے تو یہ گناہ ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں بہت سی نیکیوں کا بیان کرنے کے بعد آخر میں حدود کی حفاظت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ کہ یہ حضرت تمام نیکیاں ان حدود میں رہ کر انجام دیتے ہیں جو ان کاموں کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھی ہیں۔ ان حدود کی تعلیم آنحضرت ﷺ نے اپنے قول اور فعل سے دی ہے اور ان کو سیکھنے کا بہترین طریقہ اس کے سوا کوئی اور نہیں ہے کہ انسان کسی اللہ والے کی صحبت میں رہے، اور اس کے طرز عمل کو دیکھ دیکھ کر ان حدود کو سمجھنے اور اپنی زندگی میں ان کو اتارنے کی کوشش کرے۔



مومنین کون؟ نیک اعمال والے۔

القرآن:

بےشک یہ قرآن راہنمائی کرتا ہے وہ راستہ جو سب سے زیادہ سیدھا ہے، اور خوشخبری دیتا ہے مومنین کو جو نیک عمل کرتے ہیں، انہیں  کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔

[سورۃ نمبر 17 الإسراء،آیت نمبر 9]

القرآن:

(نازل کی)ٹھیک سیدھی(کتاب) تاکہ ڈر سنائے عذاب سخت کا اس کی طرف سے اور خوشخبری دے مومنوں کو جو عمل کرتے ہیں اچھے کہ ان کے لیے ہے اجر اچھا۔

[سورۃ الكهف، آیت نمبر 2]

ترجمہ:

ایک سیدھی سیدھی کتاب جو اس نے اس لیے نازل کی ہے کہ لوگوں کو اپنی طرف سے ایک سخت عذاب سے آگاہ کرے اور جو مومن نیک عمل کرتے ہیں ان کو خوشخبری دے کہ ان کو بہترین اجر ملنے والا ہے۔



************************


ایمان کے فوائد و ثمرات:

ایمان کے فوائد و ثمرات بے حساب و بے شمار ہیں، چنانچہ دل' جسم' راحت' پاکیزہ زندگی اور دنیا و آخرت میں نہ جانے کتنے فوائد و ثمرات ہیں' مختصر یہ کہ دنیا و آخرت کی ساری بھلائیاں اور تمام تربرائیوں سے دوری (عافیت) یہ ایمان ہی کے ثمرات ہیں، ایمان کے چند فوائد و ثمرات حسب ذیل ہیں:

1۔ اللہ عز و جل کی ولایت پر رشک :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّـهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ"﴿٦٢﴾ (سورۃ یونس)
"سنو! بے شک اللہ کے اولیاء (دوستوں) کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔"

پھر ان کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا:

"الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ"﴿٦٣﴾ (سورۃ یونس)
"یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔"

نیز ارشاد ہے:
"اللَّـهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ" (سورۃ البقرۃ :257)
"اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا ولی ہے ' وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔"

یعنی انہیں کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف، جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشنی کی طرف، گناہوں کی تاریکیوں سے نکال کراطاعت کی روشنی کی طرف اور غفلت کی تاریکیوں سے نکال کر بیداری اور ذکر کی روشنی کی طرف لاتا ہے۔




2۔ رضاء الٰہی کا حصول:
اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚأُولَـٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّـهُ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٧١﴾ وَعَدَ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ"﴿٧٢﴾ (سورۃ توبۃ)
" مومن مرداور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست (معاون ومددگار) ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے منع کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکاة دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے ۔ ان مومن مرد وںاور مومن عورتوں سے اللہ تعالیٰ نے ان جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے، اور ان صاف ستھرے پاکیزہ محلات کا جو ان ہمیشگی والی جنتوں میں ہیں' اور اللہ تعالیٰ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے، یہی عظیم کامیابی ہے۔"

چنانچہ انہیں اللہ کی رضا ورحمت اور ان پاکیزہ محلوں کی کامیابی ان کے اس ایمان کے سبب حاصل ہوئی جس سے ا نھوں نے فریضہ ٔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی انجام دہی اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی تابعداری کرکے اپنے آپ کو اور دیگر لوگوں کو مکمل کیا تھا' اس طور پر یہ حضرات عظیم ترین فلاح و کامرانی سے ہمکنار ہوئے۔








3۔ کامل ایمان (سرے سے) جہنم میں داخل ہونے سے روکتا ہے' جب کہ کمزور (ناقص)ایمان جہنم میں ہمیشہ ہمیش کے لئے رہنے سے مانع ہوتا ہے، کیونکہ جو شخص ایمان لاکر تمام واجبات بجا لائے اور تمام حرام امور ترک کر دے وہ جہنم میں داخل نہیں ہو گا، اسی طرح جس شخص کے دل میں ذرا بھی ایمان ہوگا وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش نہیں رہے گا۔





4۔اللہ تعالیٰ تمام ناپسندیدہ چیزوں سے مومنوں کا دفاع کرتا ہے اور انہیں مصائب سے نجات عطا فرماتا ہے، اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"إِنَّ اللَّـهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا "﴿٣٨﴾(سورۃ الحج)
"اللہ تعالیٰ مومنوں کا دفاع کرتا ہے۔"

یعنی ہر ناپسندیدہ چیز سے، جن وانس کے شیاطین کے شر سے اور دشمنوں سے ان کا دفاع کرتا ہے، نیز پریشانیوں کے نزول سے قبل ہی انہیں ان سے دور کردیتا ہے اور نزول کے بعد انہیں ختم کردیتا ہے یا ان میں تخفیف کرتا ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:
"وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٨٧﴾ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ"﴿٨٨﴾ (سورۃ الانبیاء)
"اور مچھلی والے (یونس علیہ السلام) کو یاد کرو، جب وہ غصہ سے نکل کر گئے اور سوچا کہ ہم انہیں پکڑ نہ سکیں گے، بالآخر وہ اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھے کہ ''الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے ، بیشک میں ظالموں میں سے ہوگیا''۔ تو ہم نے ان کی پکار سن لی اور انہیں غم سے نجات دے دی، اور ہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں۔"

نیز ارشاد ہے:
"ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنجِ الْمُؤْمِنِينَ"﴿١٠٣﴾ (سورۃ یونس)
"پھر ہم اپنے پیغمبروں کو اور ایمان والوں کو نجات دے دیتے ہیں ، اسی طرح ہمارے ذمہ ہے کہ ہم ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔"

نیز اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ ﴿١٧١﴾ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُونَ ﴿١٧٢﴾وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ"﴿١٧٣﴾ (سورۃ الصافات)
"اور البتہ ہمارا وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لئے صادر ہو چکا ہے۔ کہ یقینا ان کی مدد کی جائے گی۔ اور یقینا ہمارا لشکر ہی غالب و فتح یاب ہو گا۔"

نیز ارشاد ہے:

"وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا"﴿٢﴾(سورۃ الطلاق)
"اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اس کے لئے سبیل پیدا فرمادیتا ہے۔"

یعنی لوگوں پر آنے والی ہرپریشانی سے نجات کی سبیل پیدا کردیتا ہے۔

نیز ارشاد ہے:
"وَمَن يَتَّقِ اللَّـهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا"﴿٤﴾ (سورۃ الطلاق)
"اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے ہر معاملہ میں آسانی پیدا کردیتا ہے۔"

چنانچہ متقی مومن کے مسائل اللہ تعالیٰ آسان فرماتاہے، اسے آسانی کی توفیق عطا کرتا ہے،پریشانی سے نجات دیتا ہے، دشواریوں کو سہل کرتا ہے، اسے اس کے ہر غم سے چھٹکارا اور ہر تنگی سے نجات کی سبیل عطا کرتا ہے ، اور اسے ایسے ذریعہ سے روزی عطا کرتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا، ان تمام باتوں کے شواہد کتاب وسنت میں بکثرت موجود ہیں۔



5۔ ایمان' دنیا و آخرت میں پاکیزہ زندگی عطا کرتا ہے، اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ"﴿٩٧﴾ (سورۃ النحل)
"جو مرد و عورت نیک عمل کرے دراں حالیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے یقینا نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے اوران کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے۔"

وہ اس طرح سے کہ ایمان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ایمان دل کا سکون و اطمینان، اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ روزی پر دل کی قناعت اور غیر اللہ سے بے تعلقی پیدا کرتا ہے ' اور یہی پاکیزہ زندگی ہے، کیونکہ دل کا سکون و اطمینان اوران تمام چیزوں سے دل کو تشویش نہ ہونا جن سے ایمان صحیح سے محروم شخص کو تشویش ہوتی ہے' یہی پاکیزہ زندگی کی بنیاد ہیں۔
[التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان از سعدی ، صفحہ :68]

اور پاکیزہ زندگی' پاکیزہ حلال روزی' قناعت، نیک بختی، دنیا میں عبادت کی لذت و حلاوت اور انشراح صدر کے ساتھ اطاعت کے کاموں کی بجا آوری کو شامل ہے۔
[تفسیر القرآن العظیم از ابن کثیر :2/566]

امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:''صحیح بات یہ ہے کہ پاکیزہ زندگی ان (مذکورہ) تمام چیزوں کو شامل ہے''

نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:
عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ " قد افلح من اسلم، ‏‏‏‏‏‏ورزق كفافا، ‏‏‏‏‏‏وقنعه الله بما آتاه".
ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مراد کو پہنچا اور چھٹکارا پایا اس نے جو اسلام لایا اور موافق ضرورت کے رزق دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی روزی پر قناعت دی۔"
[صحیح مسلم : زکاۃ کے احکام و مسائل، باب:کفایت شعاری اور قناعت پسندی کا بیان۔حدیث نمبر: 2426]


نیز آپ ﷺنے فرمایا:

عن انس بن مالك ، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " إن الله لا يظلم مؤمنا حسنة يعطى بها في الدنيا، ‏‏‏‏‏‏ويجزى بها في الآخرة، ‏‏‏‏‏‏واما الكافر فيطعم بحسنات ما عمل بها لله في الدنيا حتى إذا افضى إلى الآخرة لم تكن له حسنة يجزى بها".
ترجمہ:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ کسی مومن پر ایک نیکی کے لیے بھی ظلم نہ کرے گا، اس کا بدلہ دنیا میں دے گا اور آخرت میں بھی دے گا اور کافر کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ جب آخرت ہو گی تو اس کے پاس کوئی نیکی نہ رہے گی جس کا اس کو بدلہ دیا جائے۔"
[صحیح مسلم : قیامت اور جنت اور جہنم کے احوال ، باب :مومن کو نیکیوں کا بدلہ دنیا اور آخرت میں ملے گا۔ حدیث نمبر: 7089]








6۔ تمام اقوال واعمال کی صحت و کمال خود عمل کرنے والے کے دل میں ایمان و اخلاص کے اعتبار سے ہوا کرتی ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:

"فَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ" (سورۃ الانبیاء:94)

"تو جو بھی نیک عمل کرے دراں حالیکہ وہ مومن بھی ہو تو اس کی کوشش کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔"

یعنی ایسے شخص کی کوشش اکارت اور اس کا عمل ضائع نہیں کیا جائے گا' بلکہ اسے اس کی ایمانی قوت کے اعتبار سے (بڑھا کر) گنا در گنا (اجر) عطا کیا جائے گا۔

نیزارشاد گرامی ہے:
"وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا"﴿١٩﴾ (سورۃ الاسراء)
"اور جس کا ارادہ آخرت کا ہواور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہئے وہ کرتا بھی ہو اور وہ با ایمان بھی ہو ' تو یہی لوگ ہیں جن کی کو شش کی اللہ کے یہاں پوری قدردانی کی جائے گی۔"


''آخرت کے لئے کوشش'' کا مطلب آخرت سے قریب کرنے والے ا ن اعمال کی بجا آوری اور ان پر عمل کرنا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی زبانی مشروع فرمایا ہے۔








7۔ صاحب ایمان کو اللہ تعالیٰ صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرماتا ہے، اور صراط مستقیم میں اللہ اسے علم حق اور اس پر عمل کی نیز محبوب و پرمسرت چیزوں کے حصول پر شکرگزاری کی اور مصائب و پریشانیوں پر اظہار رضامندی اور صبر کی ہدایت دیتا ہے۔
اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُم بِإِيمَانِهِمْ" (سورۃ یونس:9)

"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیا انہیں ان کا پروردگار ان کے ایمان کے سبب ہدایت عطا فرماتا ہے۔"


امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:''اس بات کا احتما ل ہے کہ یہاں (آیت: ''بِإِيمَانِهِمْ'' میں) باء سببیت کے لئے ہو، اور اس صورت میں تقدیری عبارت یوں ہوگی کہ دنیا میں ان کے ایمان کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے روز صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے گاتاکہ وہ اس سے گزر کر جنت میں پہنچیں۔اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ باءاستعانت کے لئے ہو، جیساکہ امام مجاہد اللہ تعالیٰ کے قول(يَهْدِيهِمْ رَبُّهُم بِإِيمَانِهِمْ)کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے نور بنائے گا جس میں وہ چلیں گے

اور کہا گیا ہے کہ اس کے عمل کو ایک خوبصورت اورپاکیزہ خوشبو کی شکل دی جائے گی ، جب وہ اپنی قبر سے اٹھے گا تو وہ اس کے سامنے آکر اسے ہر قسم کی خیر و بھلائی کی بشارت دے گا، وہ (صاحب ایمان) اس سے کہے گا :تم کون ہو؟ وہ جواب دے گا کہ میں تمہارا عمل ہوں۔اور پھر اس کے سامنے ایک نور بنایا جائے گا جو اسے جنت میں داخل کردے گا۔



8۔ ایمان بندے کے لئے اللہ کی محبت پیدا کرتا ہے اور مومنوں کے دلوں میں اس کی محبت بھر دیتا ہے، اور جس سے اللہ عز وجل اور مومن بندے محبت کرنے لگیں اسے سعادت و کامرانی حاصل ہوتی ہے، اور مومنوں کی محبت کے فوائد بے شمار ہیں، جیسے ذکر خیراور زندگی میں اور مرنے کے بعداس کے لئے دعاء خیر وغیرہ۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَـٰنُ وُدًّا"﴿٩٦﴾ (سورۃ مریم)
"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے اللہ رحمن محبت پیدا کردے گا۔"



9۔ دین میں امامت کا حصول' یہ ایمان کے عظیم ترین ثمرات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ علم و عمل کے ذریعہ اپنے ایمان کی تکمیل کرنے والے مومن بندوں کوسچی زبان عطا فرمادے اور انہیں ایسے ائمہ بنادے جو اس کے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کریں اور ان کی اقتدا وپیروی کی جائے۔

ارشاد باری ہے:
"وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖوَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ"﴿٢٤﴾ (سورۃ السجدۃ)
" اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔"

چنانچہ صبر و یقین ہی سے دین میں امامت کا مقام حاصل ہوتا ہے، کیونکہ صبر و یقین ہی ایمان کی اساس اور کمال ہیں۔



10۔ بلندیٔ درجات کا حصول، اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"يَرْفَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ" (سورۃ المجادلۃ:11)
"اللہ تعالیٰ تم میں سے ایمان اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔"

چنانچہ یہ لوگ اللہ کے نزدیک اور اللہ کے بندوں کے نزدیک دنیا و آخرت میں پوری مخلوق میں سب سے اعلیٰ مقام کے مالک ہیں۔
انہیں یہ رتبۂ بلند محض ان کے سچے ایمان اور علم و یقین کی بدولت حاصل ہوا ہے۔



11۔ اللہ کی کرامت(عزت و مقام) اور ہر طرح سے امن وسکون کی بشارت کا حصول، جیساکہ اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ"﴿٢٢٣﴾ (سورۃ البقرۃ)
"اور مومنوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔"

(اس آیت کریمہ میں) اللہ نے بشارت کا مطلق ذکر فرمایا ہے تاکہ ہر طرح کی دیر سویر بھلائی کو شامل ہو، جب کہ درج ذیل آیت کریمہ میں بشارت کا مقید ذکر فرمایا ہے:
"وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ" (سورۃ البقرۃ:25)
"اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اس بات کی بشارت دیدیجئے کہ ان کے لئے ایسی جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔"

چنانچہ اہل ایمان کے لئے عام اور خاص خوشخبری ہے، اور انہی کے لئے دنیا و آخرت میں عمومی امن بھی ہے، جیساکہ ارشاد باری ہے:
"الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ" ﴿٨٢﴾ (سورۃ الانعام)
"جو لوگ ایمان لائے اوراپنے ایمان کو ظلم (شرک) کے ساتھ گڈمڈ نہیں کیا' ایسے ہی لوگوں کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر گامزن ہیں۔"

اور انہی کے لئے خاص امن بھی ہے،جیساکہ ارشاد ہے:
"فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ"﴿٤٨﴾ (سورۃ الانعام)
"توجو ایمان لے آئے اور اصلاح کر لے ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔"

چنانچہ (اس آیت کریمہ میں) اللہ تعالیٰ نے ان سے مستقبل کے خوف و ہراس کی اور ماضی کے رنج والم کی نفی فرمائی ہے، اور اسی سے ان کا امن و قرارمکمل ہوتا ہے، غرضیکہ مومن کے لئے دنیا و آخرت میں مکمل امن و سکون اور ہر خیر کی بشارت ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:
[التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان از سعدی ، صفحہ :77 تا 88]



12۔ ایمان سے گنا درگنا ثواب اور وہ مکمل نور حاصل ہوتا ہے جس کی روشنی میں بندہ اپنی زندگی میں چلتا ہے اور قیامت کے روز چلے گا، چنانچہ دنیا میں اپنے علم و ایمان کی روشنی میں چلتا ہے اور جب قیامت کے روز ساری روشنیاں گل ہوں گی تو وہ اپنے نور سے پل صراط پر چلے گا' یہاں تک کہ کرامت و نعمت کے مقام (جنت) میں جا داخل ہوگا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایمان پر بخشش و مغفرت مرتب فرمائی ہے، اور جس کے گناہ بخش دیئے جائیں وہ عذاب الٰہی سے محفوظ ہوکر اجر عظیم سے ہمکنار ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ"﴿٢٨﴾ (سورۃ الحدید)
"اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دوہراحصہ دے گا اور تمہیں وہ نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم چلو پھرو گے اور تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا' اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔"








13۔ مومنوں کو اپنے ایمان کے سبب ہدایت و کامرانی نصیب ہوگی، اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ اور آپ سے پہلے کے انبیاء پر نازل کردہ احکام پر مومنوں کے ایمان ، ایمان بالغیب، نماز کی اقامت اور زکاة کی ادائیگی کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

"أُولَـٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ"﴿٥﴾ (سورۃ البقرۃ)
"یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر (گامزن) ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔"

چنانچہ یہی مکمل ہدایت و کامرانی ہے ، کامل و مکمل ایمان کے بغیر ہدایت و کامیابی کی کوئی سبیل نہیں۔








14۔ پند و نصائح سے استفادہ ایمان کے ثمرات میں سے ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:

"وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ"﴿٥٥﴾ (سورۃ الذاریات)
"اور آپ نصیحت فرمایئے کیونکہ نصیحت مومنوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔"

یہ اس لئے کہ ایمان' صاحب ایمان کو علمی و عملی طور پر حق کی پابندی اور اس کی اتباع پر آمادہ کرتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کے پاس نفع بخش نصائح کے حصول کا عظیم آلہ اور پوری تیاری ہوتی ہے اور حق کی قبولیت اور اس پر عمل سے کوئی چیز مانع نہیں ہوتی۔








15۔ایمان 'صاحب ایمان کو خوشی میں شکر گزاری ' پریشانی میں صبر اور اپنے تمام اوقات میں خیر و بھلائی حاصل کرنے پر آمادہ کرتا ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی ہے:

"مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّـهِ يَسِيرٌ ﴿٢٢﴾ لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗوَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ"﴿٢٣﴾ (سورۃ الحدید)
"تمہیں جو کوئی مصیبت دنیا میں یا (خاص) تمہاری جان میں پہنچتی ہے قبل اس کے کہ ہم اسے پیدا کریں وہ ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے' بلا شبہہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے لئے(نہایت) آسان ہے۔ تاکہ تم اپنے سے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہو اور نہ عطا کردہ کسی چیز پر اتراؤ' اور اللہ تعالیٰ اترانے ' فخر کرنے والے سے محبت نہیں کرتا۔"

نیز ارشاد باری ہے:
"مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۗوَمَن يُؤْمِن بِاللَّـهِ يَهْدِ قَلْبَهُ"(سورۃ التغابن)
"جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ اللہ کے حکم سے ہوا کرتی ہے، اور جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔"


اگر ایمان کے ثمرات میں سے صرف یہی ہوتا کہ ایمان' صاحب ایمان کو مصائب و مشکلات میں ' جن سے ہر ایک دوچار ہوتا ہے' تسلی دیتا ہے تو بھی کافی تھا، جب کہ ایمان و یقین سے شرف یابی (بذات خود) مصائب میں تسلی کا عظیم ترین سبب ہے، نبی کریم ﷺنے فرمایا:
عن صهيب ، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " عجبا لامر المؤمن، ‏‏‏‏‏‏إن امره كله خير، ‏‏‏‏‏‏وليس ذاك لاحد إلا للمؤمن إن اصابته سراء شكر، ‏‏‏‏‏‏فكان خيرا له، ‏‏‏‏‏‏وإن اصابته ضراء صبر، ‏‏‏‏‏‏فكان خيرا له".
ترجمہ:
صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مومن کا بھی عجب حال ہے اس کا ثواب کہیں نہیں گیا۔ یہ بات کسی کو حاصل نہیں ہے اگر اس کو خوشی حاصل ہوئی تو وہ شکر کرتا ہے اس میں بھی ثواب ہے اور جو اس کو نقصان پہنچا تو صبر کرتا ہے اس میں بھی ثواب ہے۔"
[صحیح مسلم: زہد اور رقت انگیز باتیں ، باب : مومن کا معاملہ سارے کا سارا خیر ہے۔ حدیث نمبر: 2999]

صبر وشکر تمام بھلائیوں کا سر چشمہ ہیں، مومن اپنے تمام اوقات میں بھلائیوں کو غنیمت جانتا ہے اور ہر حالت میں فائدہ اٹھاتا ہے، نعمت و خوشحالی کے حصول پر اسے بیک وقت دو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں: محبوب و پسندیدہ امر کے حصول کی نعمت، اور اس سے بڑھ کر اس پر شکرگزاری کی توفیق کی نعمت، اور اس طرح اس پر نعمتوں کی تکمیل ہوتی ہے، اور پریشانی سے دوچار ہونے پر اسے بیک وقت تین نعمتیں حاصل ہوتی ہیں: گناہوں کے کفارہ کی نعمت، اس سے بڑھ کر مرتبہ صبر کے حصول کی نعمت، اور اس پر پریشانی کے آسان اور سہل ہونے کی نعمت ، کیونکہ جب اسے اجر و ثواب کے حصول کی معرفت اور صبر کی مشق ہوگی تو اس پر مصیبت آسان اور سہل ہوجائے گی،
[التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان از سعدی ، صفحہ 17، 88]








16۔ سچا ایمان ' شک و شبہہ ختم کر دیتا ہے اور ان تمام شکوک کی جڑ کاٹ دیتا ہے جو بہت سے لوگوں کو لاحق ہو کر انہیں دین کے اعتبار سے نقصان پہنچاتے ہیں، جن و انس کے شیاطین اور برائی کا حکم دینے والے نفوس کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کی بیماریوں کا سچے ایمان کے سوا کوئی علاج نہیں، اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا"(سورۃ الحجرات:15)

"بیشک (سچے حقیقی) مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان لائے اور پھر شک میں مبتلا نہ ہوئے۔"

ان وسوسوں کا علاج (مندرجہ ذیل) چار چیزیں ہیں:

1۔ ان شیطانی وسوسوں سے باز رہنا۔

2۔ ان وسوسوں کے ڈالنے والے یعنی شیطان کے شر سے (اللہ کی) پناہ مانگنا۔

3۔ایمانی عصمت (ڈھال) سے بچاؤ کرنا، چنانچہ بندہ کہے: ''آمنت باللہ'' میں اللہ پر ایمان لایا۔

4۔ان وسوسوں کے بارے میں زیادہ سوچنے سے باز رہنا۔
[التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان از سعدی ، صفحہ :83]








17۔اللہ عز وجل پر ایمان' خوشی وغم، خوف و امن، اطاعت و نافرمانی اور ان کے علاوہ ان سارے امور میں جو ہر شخص کو لا محالہ پیش آتے ہیں' مومنوں کا ماویٰ و ملجا ہے، چنانچہ وہ خوشی ومسرت کے وقت ایمان ہی کی طرف رجوع کرتے (پناہ لیتے) ہیں، چنانچہ وہ اللہ کی حمد کرتے اور اس کی ثنا بیان کرتے ہیں اور نعمتوں کو اللہ کے محبوب کاموں میں استعمال کرتے ہیں، اسی طرح پریشانیوں ، دشواریوں اور ہموم و غموم کے وقت مختلف انداز میں ایمان کی طرف رجوع کرتے (پناہ لیتے) ہیں، اپنے ایمان اور اس کی حلاوت و مٹھاس نیز اس پر مرتب ہونے والے اجر و ثواب سے تسلی حاصل کرتے ہیں اور رنج و ملال اور قلق و اضطراب کا مقابلہ دل کے سکون اور رنج و غم کو کافور کرنے والی پاکیزہ زندگی کی طرف رجوع کرکے کرتے ہیں، اور خوف کے وقت بھی ایمان ہی کی طرف رجوع کرتے اور اس سے اطمینان حاصل کرتے ہیں، اور اس سے ان کے ایمان ، ثابت قدمی، قوت اور بہادری میں اضافہ ہوتا ہے اور لاحق ہونے والا خوف جاتا رہتا ہے، جیسا کہ اللہ عز وجل نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ارشاد فرمایا:
"الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ﴿١٧٣﴾فَانقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ"﴿١٧٤﴾ (سورۃ آل عمران)
"وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کر لئے ہیں' تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے ان کے ایمان میں اضافہ کر دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔ (نتیجہ یہ ہوا کہ) یہ اللہ کی نعمت و فضل کے ساتھ لوٹے ' انہیں کوئی برائی نہ پہنچی' اور انہوں نے اللہ کی رضامندی کی پیروی کی' اوراللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔"








18۔ سچا ایمان ' بندے کو ہلاکت انگیز چیزوں سے محفوظ رکھتا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے' وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا:

عن ابي هريرة رضي الله عنه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ "لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن، ‏‏‏‏‏‏ولا يشرب الخمر حين يشرب وهو مؤمن، ‏‏‏‏‏‏ولا يسرق حين يسرق وهو مؤمن، ‏‏‏‏‏‏ولا ينتهب نهبة يرفع الناس إليه فيها ابصارهم حين ينتهبها وهو مؤمن".
ترجمہ:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :" زانی مومن رہتے ہوئے زنا نہیں کر سکتا ۔ شراب خوار مومن رہتے ہوئے شراب نہیں پی سکتا ۔ چور مومن رہتے ہوئے چوری نہیں کر سکتا ۔ اور کوئی شخص مومن رہتے ہوئے لوٹ اور غارت گری نہیں کر سکتا کہ لوگوں کی نظریں اس کی طرف اٹھی ہوئی ہوں اور وہ لوٹ رہا ہو۔"
[صحیح بخاری / کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں / باب : مالک کی اجازت کے بغیر اس کا کوئی مال اٹھا لینا ۔حدیث نمبر: 2475]
[صحیح مسلم ، کتاب :الایمان، باب: گناہوں سے ایمان میں کمی کا بیان، حدیث :57]

اور جس شخص سے یہ ساری چیزیں صادر ہوتی ہیں وہ اس کے ایمان کی کمزوری ، نور ایمانی کے فقدان اور اللہ تعالیٰ سے شرم و حیا کے ختم ہوجانے کا سبب ہوتی ہیں، یہ بات معروف اور مشاہدہ میں ہے ۔ صحیح سچا ایمان ' اللہ سے شرم و حیا ، اس کی محبت، اس کے ثواب کی قوی امید، اس کے عذاب کا خوف اور نور ایمانی کے حصول کی خواہش سے معمور ہوتا ہے، اور یہ ساری چیزیں صاحب ایمان کو ہر طرح کی بھلائی کا حکم دیتی ہیں اور ہر قسم کی برائی سے منع کرتی ہیں۔





19۔ مخلوق میں سب بہتر لوگ دو قسم کے ہیں، اور وہ اہل ایمان ہی ہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عن ابي موسى الاشعري رضی اللہ عنہ، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " مثل المؤمن الذي يقرا القرآن مثل الاترجة، ‏‏‏‏‏‏ريحها طيب، ‏‏‏‏‏‏وطعمها طيب، ‏‏‏‏‏‏ومثل المؤمن الذي لا يقرا القرآن مثل التمرة، ‏‏‏‏‏‏لا ريح لها، ‏‏‏‏‏‏وطعمها حلو ومثل المنافق الذي يقرا القرآن مثل الريحانة، ‏‏‏‏‏‏ريحها طيب، ‏‏‏‏‏‏وطعمها مر، ‏‏‏‏‏‏ومثل المنافق الذي لا يقرا القرآن كمثل الحنظلة، ‏‏‏‏‏‏ليس لها ريح، ‏‏‏‏‏‏وطعمها مر".
ترجمہ:
ابوموسیٰ اشعریٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مثال اس مؤمن کی جو قرآن پڑھتا ہے ترنج کی سی ہے کہ خوشبو اس کی عمدہ اور مزا اس کا اچھا ہے اور مثال اس مؤمن کی جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کی سی ہے کہ اس میں بو نہیں مگر میٹھا ہے۔ اور مثال اس منافق کی جو قرآن پڑھتا ہے اس پھول کے مانند ہے کہ بو اس کی اچھی ہے اور مزا اس کا کڑوا ہے، اور مثال اس منافق کی جو قرآن نہیں پڑھتا اندرائن کی سی ہے کہ اس میں خوشبو بھی نہیں اور مزا کڑوا ہے۔"
[صحیح مسلم: قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور ، باب : حافظ قرآن کی فضیلت۔ حدیث نمبر: 797]

چنانچہ لوگوں کی چار قسمیں ہیں:

پہلی قسم: وہ جو بذات خود اچھے ہیں، اور ان کی اچھائی دوسروں تک پہنچتی ہے، یہ سب سے بہتر قسم کے لوگ ہیں۔

چنانچہ یہ قرآن پڑھنے والا اور دینی علوم کی معرفت حاصل کرنے والا مومن خود اپنی ذات کے لئے بھی مفید ہے اور دوسروں کے لئے بھی نفع بخش ہے، ایسا شخص بابرکت ہے جہاں کہیں بھی ہو۔

دوسری قسم: جو بذات خود اچھا اور بھلائی والا ہے ، یہ وہ مومن شخص ہے جس کے پاس اتنا علم نہیں جس کا فائدہ غیروں کو بھی عام ہو۔

یہ (مذکورہ) دونوں قسموں کے لوگ مخلوق کے سب سے بہتر لوگ ہیں، اور ان میں ودیعت کردہ خیر و بھلائی مومنوں کے حالات کے اعتبارسے خود ان کے لئے محدود ہوتی ہے یا دوسروں کو بھی اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔

تیسری قسم: وہ جو خیر و بھلائی سے محروم ہے، لیکن اس کا نقصان غیروں تک نہیں پہنچتا ہے۔

چوتھی قسم: جو خود اپنی ذات کے لئے اور دوسروں کے لئے بھی نقصان دہ ہے ' یہ سب سے بدترین قسم کے لوگ ہیں۔

چنانچہ ساری خیر و بھلائی کا مرجع ایمان اور اس سے متعلقہ امور ہیں، اور ساری شر و برائی کا مرجع ایمان کا فقدان اور اس کی ضد (بے ایمانی) کے وصف سے متصف ہونا ہے۔
[التوضیح والبیان لشجرۃ الایمان ا ز سعدی ، صفحہ :63 تا 90]








20۔ ایمان زمین میں خلافت (جانشینی) عطا کرتا ہے، ارشاد ہے:

"وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ"﴿٥٥﴾ (سورۃ النور)
"تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقینا ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے خوف و خطر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا ' وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے ، اور جولوگ اس کے بعد کفر کریں وہ یقینا فاسق ہیں۔"








21۔ ایمان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بندے کی مدد فرماتا ہے، ارشاد باری ہے:

"وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ"﴿٤٧﴾(سورۃ الروم)
"اور ہم پر مومنوں کی مدد کرنا حق (لازم )ہے۔"






22۔ ایمان بندے کو عزت (غلبہ و سربلندی )عطا کرتا ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:

"وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَـٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ"﴿٨﴾(سورۃ المنافقون)
"عزت صرف اللہ تعالیٰ ' اس کے رسول ۖاور مومنوں ہی کے لئے لیکن یہ منافق نہیں جانتے۔"








23۔ ایمان' اہل ایمان پر دشمنون کے غلبہ و تسلط کو روکتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"وَلَن يَجْعَلَ اللَّـهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا"﴿١٤١﴾ (سورۃ النساء)

اور اللہ تعالیٰ کافروں کو مومنوں پر ہرگز راہ (غلبہ و تسلط) نہ دے گا۔




24۔ مکمل امن و سکون اور ہدایت یابی :

اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ "﴿٨٢﴾ (سورۃ الانعام)

"جو لوگ ایمان لائے اوراپنے ایمان کو ظلم (شرک) کے ساتھ گڈمڈ نہیں کیا' ایسے ہی لوگوں کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر گامزن ہیں۔"




25۔ مومنوں کی کد و کاوش کی حفاظت:
اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلًا"﴿٣٠﴾(سورۃ الکھف)

"بیشک جو لوگ ایمان لائیں اور نیک اعمال انجام دیں تو ہم کسی نیک عمل کرنے والے کا اجر و ثواب ضائع نہیں کرتے۔"




26۔ مومنوں کے ایمان میں زیادتی اور اضافہ:

ارشاد باری ہے:
"وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ"﴿١٢٤﴾ (سورۃ التوبۃ)
"اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت سے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ ہو اہے' تو جو لوگ ایمان والے ہیں اس سورت نے ان کے ایمان میں اضافہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں۔"




27۔ مومنوں کی نجات:

اللہ عز وجل نے حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ میں فرمایا:

"فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنجِي الْمُؤْمِنِينَ"﴿٨٨﴾ (سورۃ الانبیاء)

" تو ہم نے ان کی پکار سن لی، اور انہیں غم سے نجات دے دی، اور ہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں۔"



28۔ اہل ایمان کے لئے اجر عظیم:

اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:

"وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّـهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا"﴿١٤٦﴾ (سورۃ النساء)

" اور عنقریب اللہ تعالیٰ مومنوں کو اجر عظیم سے نوازے گا۔"




29۔مومنوں کے لئے اللہ کی (خاص) معیت :

یہ خاص معیت ہے، یعنی توفیق، الہام اور درست راہ پر ثابت رکھنے کی معیت، اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:

"وَأَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ"﴿١٩﴾ (سورۃ الانفال)
"بیشک اللہ تعالیٰ مومنوں کے ساتھ ہے۔"



30۔ اہل ایمان خوف وملال سے امن میں ہوں گے، اللہ عز وجل کا ارشاد گرامی ہے:

"فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ "﴿٤٨﴾ (سورۃ الانعام)
"تو جو ایمان لائے اور اصلاح کر لے ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔"



31۔ بڑا اجر و ثواب:
اللہ عز وجل کا ارشاد ہے:
"وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا"﴿٩﴾ (سورۃ بنی اسرائیل)

"اور نیک اعمال کرنے والوں کو اس بات کی بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔"




32۔ کبھی نہ ختم ہونے والا اجر و ثواب:

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ"﴿٨﴾ (سورۃ حم سجدۃ / فصلت)

"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔"








33۔ قرآن کریم مومنوں کے لئے ہدایت و رحمت ہے

"يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ"﴿٥٧﴾ (سورۃ یونس)


اور شفاو رحمت ہے

"وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا"﴿٩﴾ (سورۃ بنی اسرائیل)

"اور نیک اعمال کرنے والوں کو اس بات کی بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔"
نیز ذریعۂ ہدایت اورشفا ہے

"إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ"﴿٨﴾ (سورۃ حم سجدۃ / فصلت)

"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔"



34۔ اہل ایمان کے لئے اللہ کے یہاں بلند درجات، بخشش اور باعزت روزی ہے، ارشاد باری ہے:

"لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ"﴿٤﴾ (سورۃ الانفال)

"ان کے لئے ان کے رب کے پاس درجات، مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔"

[ماخوذ از (اسلام کا نور اور کفر کی تاریکیاں، داکٹر سعید بن علی بن وھف القحطانی حفظہ اللہ تعالیٰ)]


ایمان بچائیے!

ہم اللہ کے بندے ہیں ، ہم پر اسی کی بندگی واجب ہے، اس کے علاوہ کسی کی بندگی جائز نہیں ، یہی ’’توحید‘‘ ہے، بندگی سکھانے کے لیے اللہ نے نبیوں  کو بھیجا یہی ’’رسالت‘‘ ہے، پہلے نبی حضرت آدم اور آخری نبی جناب محمد رسول اللہ… ہیں ، اللہ اور رسول کی باتوں  کو ماننا ہی ’’اسلام‘‘ ہے، اسلام ہر انسان کا اصلی مذہب ہے، اسی پر انسان کو پیدا کیاگیا ہے؛ مگر ماں  باپ اور مخالفِ اسلام ماحول کی وجہ سے انسان اپنے اصل مذہب سے ہٹ جاتا ہے، حدیث شریف میں  ہے:


                کُلُّ مولودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہ یُہَوِّدَانِہٖ أو یُنَصِّرانِہٖ أو یُمَجِّسَانِہٖ (بخاری۱۳۸۵)


                ترجمہ: ’’ہربچہ (اسلام کی) قابلیت پر پیدا ہوتا ہے؛ لیکن اس کے ماں  باپ اُسے یہودی بنالیتے ہیں ، یا نصرانی بنالیتے ہیں ، یا مجوسی بنالیتے ہیں ۔‘‘


                اللہ تعالیٰ نے سارے انسانوں  کو اس کے اصلی مذہب پر چلنے کا حکم فرمایا ہے، اس کے لیے ’’عہد الست‘‘ میں  اپنی معرفت کی ایک جھلک دکھاکر دلوں  میں  ایمان کی ایک چمک ڈال دی تھی، اگر انسان اپنے خراب ماحول سے متاثر نہ ہوتو وہ بلاتکلف اسلام ہی کو مانے گا، اسی کو یاد دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:


                فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حنیفًا، فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا(روم:۳۰)


                ترجمہ: لہٰذا تو ایک طرف ہوکر دین (اسلام) پر سیدھا منھ کیے چلا جا، اللہ کی دی ہوئی قابلیت وصلاحیت پر، جس پر اس نے لوگوں  کو پیدا کیا ہے۔‘‘


                سارے انسانوں  کا مذہب اسلام ہی ہے، آٹھ سو سال بعد حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے گمراہی آئی اور چند لوگوں  نے بتوں  کی پوجا شروع کردی؛ اس لیے اللہ نے جنت کی خوش خبری دینے والے اور جہنم سے ڈرانے والے نبیوں  کو بھیجا۔ (بقرہ:۲۱۳ روح البیان)


                اصلی مذہب یعنی اسلام کو قبول نہ کرنے والے جہنم میں  جائیں  گے؛ اس لیے ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ پوری کائنات کے انسانوں  کی خیرخواہی کریں  اور اُن کو فطری مذہب کی طرف بلائیں ، اسی کا نام ’’دعوت‘‘ ہے۔ اگر وہ سارے انسانوں  کو دعوت پہنچا نہیں  سکتے تو کم سے کم اپنے مسلمان بھائیوں  کو سنبھالیں  کہ وہ بھٹک نہ جائیں !


ایمان سب سے بڑی نعمت


                دنیا میں  اللہ تعالیٰ نے جتنی نعمتیں  اُتاری ہیں ، اُن میں  سب سے بڑی نعمت ایمان ہے، اس کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے، فقہائے کرام نے اس کی وضاحت کی ہے کہ اگر اسلام کی حفاظت کے لیے مسلمانوں  کو جان، مال اور نسل (اولاد) سب کچھ قربان کردینے کی نوبت آئے تو بھی اس میں  دریغ نہ کرے (موافقات امام شاطبی)


                آج ہم دنیا کو دیکھ رہے ہیں ، لذت لے رہے ہیں ؛ اس لیے اس کی قدر ہے، آخرت میں  جنت کو دیکھیں گے اس کی لذت لیں گے تو سمجھ میں  آئے گا کہ جنت کے مقابلے میں  دنیا کی لذت کی کوئی حیثیت نہیں ؛ لیکن یہ دنیا اسی حد تک مفید ہے؛ جب تک کہ اس کے ذریعے اللہ کی فرماں  برداری کی جائے، اگر اس کی وجہ سے اللہ کی نافرمانی ہونے لگے تو دنیا کو تھوک دینا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔


                قارون کو اللہ تعالیٰ نے ’’حافظِ تورات‘‘ بنایا تھا؛ مگر دنیا کی محبت اس میں  اتنی داخل ہوگئی کہ وہ زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے لگا اور دین سے پھرگیا، اللہ تعالیٰ نے اُسے پوری دولت کے ساتھ زمین میں  دھنسا دیا، اس کے دھنسنے سے پہلے بہت سے لوگ اس کی دولت پر رال ٹپکارہے تھے؛ مگر جب معلوم ہوا کہ وہ عذاب میں  گرفتار ہوگیا تو لوگوں  نے کہا: توبہ توبہ، دنیا کوئی چیز نہیں ، مال ودولت سب فانی ہیں ، باقی صرف اللہ کی ذات ہے اور آخرت کا ثواب سب سے بہتر ہے اور وہ ایمان اور عمل صالح پر جمنے کے بعد ہی نصیب ہوگا۔ (قصص:۷۹-۸۰)


ایمان کے لیے نبیوں  کی فکر


                دنیا میں  اللہ کا پیغام نبیوں  نے پہنچایا ہے، خود اس پیغام پر ایمان لائے اور عمل کرکے دوسروں  کو بتایا، لوگوں  کو ایمان کی دعوت دی، ماننے والوں  کو جنت کی خوش خبری دی اورنہ ماننے والوں  کو جہنم سے ڈرایا، اس دنیا میں  نبیوں  کے علاوہ کسی کے ایمان کے باقی رہنے کی کوئی گارنٹی نہیں ، پھربھی انبیائے کرامؑ نے ایمان کی فکر کی، ایمان کے ضائع ہونے سے ڈرنے اور ڈرتے رہنے کی تلقین فرمائی۔


                حضرت ابراہیم  اور حضرت یعقوب علیہما السلام نے اپنی اولاد کو ایمان پر جمے رہنے اور ایمان پر ہی مرنے کی وصیت فرمائی:


                وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیمُ بَنِیہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللَّہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّینَ فَلا تَمُوتُنَّ إِلّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (بقرہ:۱۳۲)


                ترجمہ: اور اسی بات کی ابراہیم اور یعقوب نے اپنے بیٹوں  کو تاکید کی کہ اے میرے بیٹو! یقینا اللہ نے تمہارے لیے اس دین کو چن دیا ہے؛ لہٰذا ہرگز نہ مرنا؛ مگر اس حالت میں  کہ تم مسلمان رہو!


                حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد سے ایمان پر باقی رہنے کا وعدہ لیا تھا، انھیں  فکرتھی کہ میں  تو مسلمان ہوں ، زندہ ہوں  تو اولاد کی نگرانی کررہا ہوں ؛ لیکن چوں کہ نبیوں  کی اولاد کے ایمان کی کوئی گارنٹی نہیں  تھی کہ وہ ایمان پر باقی رہے گی یا نہیں ؟ اس لیے انھوں  نے وعدہ لیا، جب سب نے مسلمان رہنے کا اقرار کیا اور ان کو اطمینان دلایا تب اُن کی پریشانی دور ہوئی، آیت ملاحظہ ہو!


                أَمْ کُنْتُمْ شُہَدَائَ إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیہِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِی قَالُوا نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ آبَائِکَ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ (بقرہ:۱۳۳)


                ترجمہ: کیاتم موجود تھے جب یعقوب کو موت آئی؟ جب انھوں  نے اپنے بیٹوں  سے کہا: تم میرے بعد کس کی بندگی کروگے؟ انھوں  نے کہا: ہم آپ کے اور آپ کے باپ دادا ابراہیم، اسماعیل اوراسحاق کے معبود کی بندگی کریں گے جو ایک معبود ہے اور ہم اُسی کے فرماں  بردار ہیں ۔


                اور حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی:


                تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَاَلْحِقْنِي بالصالحین (یوسف:۱۰۱)


                ترجمہ: مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں  موت دیجیے! اور نیک لوگوں  سے ملا دیجیے!


                اوپر کی تینوں  آیتوں  کو بار بار پڑھیے کہ انبیائے کرام کو ایمان کی کتنی فکر تھی کہ وہ اپنے ایمان اور اپنی اولاد کے ایمان کے لیے بڑے فکرمند تھے، ایمان کی حالت میں  جینا اور ایمان کی حالت میں  مرنا چاہتے تھے اور ایمان کی دولت کو اپنی نسل اور آنے والی اولاد میں  باقی رکھنا چاہتے تھے؛ اس لیے ہم مسلمانوں  کو سب سے زیادہ ایمان کی فکر ہونی چاہیے، ایمان کے ساتھ ہی دنیا اچھی ہے اگر ایمان نہ ہوتو دنیا کی کوئی چیز اچھی نہیں ، ہمیں  ہمیشہ چوکنّا رہنا چاہیے اور ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں  ایمان ضائع نہ ہوجائے، خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ ایمان چلا جائے اور ہمیں  پتہ بھی نہ چلے، حدیث شریف میں  ہے کہ ایمان کے لیے مؤمن فکر مند رہتا ہے اور منافق بے فکر رہتا ہے (بخاری ۱/۲۱۹)


                ایمان بچانے کی فکر انبیائے کرامؑ کواسی لیے تھی کہ


                ایمان کا باقی رہنا ہی جہنم سے بچنے کا ذریعہ ہے، دنیا تو بس دھوکے کا سامان ہے:


                فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلّا مَتَاعُ الْغُرُورِ۔ (آل عمران:۱۸۵)


                ترجمہ: چنانچہ جو دوزخ سے دور رکھاگیا اور جنت میں  داخل کیاگیا تو وہ کامیاب ہوچکا اور دنیوی زندگی بس دھوکے کا سامان ہے۔


ایمان کے لیے دعائے نبوی


                رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایمان ویقین کی دعا مانگتے اور کفر وارتداد سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے، ذیل میں   دعائیں  ذکر کی جاتی ہیں :


                ۱-            اللّٰہُمَّ أعْطِني إیمانًا صَادِقًا ویَقینًا لیس بعدَہٗ کُفرٌ۔ (صحیح ابن خزیمہ، حدیث:۱۱۱۹)


                اے اللہ! مجھے ایسا سچا ایمان اوریقین عطا فرمائیے جس کے بعد کفر(وارتداد) نہ ہو!


                ۲-           اَللّٰہُمَّ إني أَعُوْذُبِکَ مِنَ الکُفْرِ۔ (نسائی:۱۳۴۷)


                اے اللہ! میں  کفر (وارتداد) سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں ۔


                ہمیں  بھی اپنے لیے اپنی اولاد اور امت مسلمہ کے لیے سچے ایمان کی دعا کرنی چاہیے اور کفر وارتداد سے اللہ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے!


                ۳-          یا مُقَلِّبَ القلوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلٰی دِیْنِکَ۔ (مشکوٰۃ)


                اے دلوں  کو الٹنے پلٹنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جمادیجیے!


ہندوستانیوں  کی قوتِ ایمانی


                اس میں  کوئی شک نہیں  کہ ہندوستان کی آزادی میں  مسلمانوں  نے اپنے خون بہائے ہیں ، جانیں  دی ہیں ، تختۂ دار کو چوما ہے؛ تب جاکر یہ ہندوستان آزاد ہوا ہے؛ لیکن آج یہ فرقہ پرست مسلمانوں  کی قربانیوں  کی کوئی قدر نہیں  کررہے ہیں  اور انھیں  تاریخ کے صفحات سے کھرچ کر ختم کردینا چاہتے ہیں ؛ غرض یہ کہ اگرایمان کی مضبوطی نہ ہوتی تو یہ ملک آزاد نہ ہوتا، اس وقت لوگوں  کو عیسائیت کی دعوت دی جاتی تھی کہ اگر عیسائی بن جائو تو جان بچ جائے گی؛ مگر کسی نے اسلام کو نہیں  چھوڑا۔


                سرخیل مجاہد آزادی شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندیؒ اپنے شاگرد حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھیؒ سے فرمارہے تھے کہ ہم ہندوستانیوں  کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ پھانسی کے وقت بھی کوئی خوف زدہ نہیں  ہورہا تھا، ان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں :


                ’’پھانسی گڑی ہوئی تھی اور ان ناکردہ مظلوموں  کا پَرّا بندھا ہوا تھا (یعنی لائن لگی تھی) جن کو پھانسی کا حکم دیا جاچکا تھا، وہ لوگ آنکھوں  سے دیکھ رہے تھے کہ ایک نعش کو اتارا جارہا ہے اور دوسرے زندہ کو چڑھایا جارہا ہے، اس طرح موت ان کی نظر کے سامنے تھی اور ان کو عین الیقین تھا کہ چند منٹ بعد میرا شمار مُردوں  میں  ہوا چاہتا ہے؛ بایں  ہمہ کوئی جھوٹوں  بھی ان کے متعلق ضعفِ ایمان کا یہ الزام نہیں  لگا سکتا کہ کسی بچہ نے بھی موت سے ڈرکر اسلام سے انحراف یا تبدیل مذہب کا خیال کیا ہو، باوجود قلتِ علم اور غلبۂ جہالت کے ان کا ایمان اتنا پختہ تھا کہ مرنا قبول تھا؛ مگر مذہب پر حرف آنا قبول نہ تھا۔‘‘ (تذکرہ الخلیل ص۱۶۸، بحوالہ کفروارتداد کا زمانہ اور امت مسلمہ کی بے حسی، ص۱۸۱)


قیامت کے قریب مسلمانوں  کی آزمائش


                ہم لوگ آج جو صورتِ حال دیکھ رہے ہیں ، اس کی پیش گوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کردی تھی کہ اخیرزمانے میں  مسلمانوں  کو ایمان پر رہنا بڑا مشکل ہوگا، ایمان پر باقی رہنا ایسا ہوگا جیسے ہاتھ میں  انگارہ لینا، بہت سے لوگ صبح کو مسلمان رہیں گے اور شام کو کافر ہوجائیں گے جس طرح لوگ جُٹ کے جٹ ایمان میں  داخل ہوے اسی طرح جٹ کے جٹ ایمان سے نکل بھی جائیں گے؛ یہاں  تک کہ قیامت سے پہلے مسلمانوں  کی بہت ساری جماعتیں  مورتی پوجا کرنے لگیں  گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں !ذیل میں  چند حدیثیں  ملاحظہ فرمائیں :


                ۱- حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:


                یأتي عَلی النَّاسِ زَمانٌ، اَلصَّابِرُ فِیْہِمْ علی دینہٖ کالقابِضِ عَلَی الجَمَرْ۔(ترمذی۲۲۶۰)


                ترجمہ: مسلمانوں  پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ان میں  اپنے دین پر جمے رہنے والا انگارے کو پکڑنے والے کی طرح (پریشان) ہوگا۔


                ۲- حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:


                بَادِرُوْا بالأعمال فِتَنًا، کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمْ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤمِنًا وَیُمْسِيْ کَافِرًا أوْ یُمْسِيْ مُؤمنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا، یَبِیْعُ دِیْنَہٗ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیا۔


                ترجمہ: فتنوں  کی وجہ سے نیکیاں  جلدی جلدی کرو، (فتنے) تاریک رات کے ٹکڑوں  کی طرح ہیں ؛ آدمی صبح کو مسلمان رہے گا اور شام کو کافر ہوجائے گا یا شام کو مسلمان رہے گا اور صبح کو کافر ہوجائے گا، وہ اپنے دین کو دنیا کے سامان کے بدلے بیچے گا۔


                ۳- ایک موقع سے حضرت جابرؓ روتے ہوے فرمانے لگے کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ لوگ اللہ کے دین میں  جُٹ کے جٹ داخل ہوے ہیں ؛ لیکن آگے (ایسازمانہ آئے گا کہ لوگ) جٹ کے جٹ اسلام سے نکلیں گے۔ (مسنداحمد ۳/۳۴۳)


برصغیر کے مسلمانوں  کا سنگین مسئلہ


                حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں  ندویؒ ہندوستان میں  ارتداد کے مسئلے کو سنگین مسئلہ سمجھتے تھے اور بار بار اس کی طرف مسلمانوں  کو متوجہ کرتے تھے، ایک موقع سے انھوں  نے فرمایا:


                ’’برصغیر کے مسلمانوں  کا اس وقت میرے نزدیک سب سے اہم ترین مسئلہ جس کو وہ خود مسئلہ نہیں  سمجھ رہے ہیں  اور اس کی سنگینی و ہولناکی کا خود ان کو اندازہ نہیں  ہے، وہ نئی نسل میں  بڑھتے فکری ارتداد کاہے، میری گناہ گار آنکھیں  دیکھ رہی ہیں  کہ اگر اس کی نزاکت کا امت کو احساس نہیں  ہوا تو یہ تہذیبی وفکری ارتداد امت کو اندر سے کھوکھلا کرکے رکھ دے گا اور اس ملک میں  مسلمانوں  کی ایک بڑی تعداد کچھ دنوں  کے بعد نام کی مسلمان رہ جائے گی اور غیرشعوری طور پر وہ بتدریج ایمان وتوحید کی نعمت سے محروم ہوجائے گی۔‘‘ (فکر وخبر بھٹکل)


ارتداد کی صورتیں


                عام لوگ یہ سمجھتے ہیں  کہ مرتد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلمان یہودی ہوجائے، عیسائی ہوجائے، یا مندر میں  جائے، بھجن گائے، پوجا پاٹ کرے، گھنٹی بجائے اور بتوں  کو سجدہ کرے؛ حالاں کہ ایسی بات نہیں ، آدمی روزہ نماز کے ساتھ بھی مرتد ہوسکتا ہے، قرآن کی تلاوت کے ساتھ بھی مرتد ہوسکتا ہے، حدیث شریف کے پڑھنے پڑھانے کے ساتھ بھی مرتد ہوسکتا ہے؛ جب کہ وہ اللہ کو ایک نہ مان رہا ہو، اللہ کے حکم کو نہ مان رہا ہو، قرآن کا مذاق اڑا رہا ہو، سنت نبوی کو حقارت سے دیکھ رہا ہو، متواتر احکام کا انکار کررہا ہو، مثلاً زکوٰۃ کا انکار کرتا ہو جناب محمد رسول اللہ … کو آخری نبی نہ مان رہا ہو، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے اترنے کا انکار کررہا ہو، آج قادیانی اس کی مثال ہیں ، شکیل بن حنیف اور ان کے ماننے والے بھی اسی زمرے میں  آتے ہیں ، یہ لوگ قرآن وسنت کو پڑھتے پڑھاتے ہیں ، روزہ نماز کرتے ہیں ، زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں  پھر بھی وہ اسلام میں  داخل نہیں ۔


                آج کے جدید تعلیم یافتہ لوگ بھی خوب گمراہ ہورہے ہیں ، ان کی گمراہی کو ’’فکری ارتداد‘‘ کا نام دیا جانا بہتر ہے:


                (۱)           کوئی عورتوں  کو دیے ہوئے اسلامی حقوق کو کم سمجھ رہا ہے۔


                (۲)         یا عورتوں  کی حق تلفی تصور کررہا ہے۔


                (۳)         کوئی میراث میں  بعض صورتوں  میں  عورتوں  کو مردوں  کے مقابلے میں  آدھا دینے پر اعتراض کررہا ہے۔


                (۴)         کوئی عورتوں  کو میراث دینے ہی کو غلط تصور کررہا ہے کہ جب اسلام میں  ان کے ذمے خرچے نہیں  ہیں  تو ان کو میراث کیوں  دی جارہی ہے؟


                (۵)         کوئی مردوں  کو طلاق کا حق دیے جانے پر اعتراض کررہا ہے۔


                (۶)          کوئی ازواجِ مطہرات پر اعتراض کی تائید کررہا ہے۔


                (۷)         کوئی صحابۂ کرامؓ پر کیچڑاچھال رہا ہے۔


                (۸)         کوئی اسلامی سزائوں  کو وحشیانہ سمجھ رہاہے۔


                (۹)          کوئی مرد کو چار شادیوں  کے حق دینے پر اعتراض کررہا ہے۔


                (۱۰)        کوئی روزہ کو بے فائدہ سمجھتا ہے اور کوئی نماز کو بے کار تھکنے سے تعبیر کرتا ہے۔


                یہ سب لوگ گمراہی اور ارتداد کا شکار ہیں ، ہمیں  ان سب کے ایمان کی فکر کرنی ہے، ان سب کو خالص اسلام کی طرف بلانا ہے، بہ ظاہر مسلمان کی صورت میں  مرتد کی مثال حدیث شریف میں  آئی ہے کہ اخیرزمانے میں  لوگ نماز روزہ کریں گے، حج کریں گے؛ مگر مرتد ہوں گے۔


                حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:


                سَیَأتي عَلٰی أُمَّتِيْ زمانٌ یُصَلِّيْ فِيْ الْمَسْجِدِ، مِنْہُمْ ألفُ رَجُلٍ وزیادۃٌ لا یکونُ فِیْہِمْ مؤمنٌ۔ (دیلمی ۳۲۶۵)


                ترجمہ: ’’آگے میری امت پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ مسجد میں  نماز پڑھیں گے، ان میں  سے ہزار آدمی اور اس سے زیادہ آدمی ہوں گے (مگر) ان میں کوئی ایمان والا نہ ہوگا۔‘‘


                ایک روایت میں  حضرت عبداللہ بن عمر بن العاصؓ فرماتے ہیں  کہ لوگوں  پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ حج کررہے ہوں گے، نماز روزہ کررہے ہوں گے؛ لیکن ان میں  کوئی ایمان والا نہ ہوگا۔ (اتحاف الجماعۃ ۲/۶۸)


غیروں  کی خواہش ہے کہ تم بھی غیرمسلم ہوجائو!


                آج عالمی پیمانے پر غیرمسلمین مسلمانوں  کو اسلام سے پھیرنا چاہ رہے ہیں  وہ اپنے کفر پر جمے ہوے ہیں ، وہ کیا اسلام قبول کریں گے؛ البتہ وہ اپنے جیسا سارے مسلمانوں  کو بنانا چاہ رہے ہیں ، وہ برابر اسی کوشش میں  لگے ہیں ۔ قرآن مجید نے اس کی صراحت فرمائی ہے:


                ۱- وَدُّوا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُونُون سوائً (نساء:۸۹)


                ترجمہ: وہ تو یہی چاہتے ہیں  کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں  (اسی طرح) تم بھی کافر ہوکر برابر ہوجائو۔


                ۲- وَلَا یَزَالُونَ یُقَاتِلُونَکُمْ حَتّی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ إنِ اسْتَطَاعُوْا۔ (بقرہ:۲۱۷)


                ترجمہ: وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں  تک کہ تمہیں  تمہارے دین سے پھیردیں  اگر ان کا بس چلے۔


                ۳- وَدَّ کثیرٌ مِنْ أہلِ الکتابِ لَوْ یَرُدُّونَکُمْ مِنْ بَعْدِ إیمانِکُمْ کفّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أنْفُسِہِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الحقُّ۔ (بقرہ:۱۰۹)


                ترجمہ: بہت سے اہل کتاب تو اپنے حسد سے حق ظاہر ہونے کے بعد بھی یہ چاہتے ہیں  کہ کسی طرح سے تمہیں  ایمان لانے کے بعد پھر کفر کی طرف لوٹاکر لے جائیں ۔


                ۴- وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الیَہُوْدُ وَلاَ النَّصَاریٰ حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ۔ (بقرہ:۱۲۰)


                ترجمہ: اور تم سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی؛ یہاں  تک کہ تم ان کے مذہب پر چلنے لگو!


مسلمانوں  کا جواب


                سارے غیرمسلمین مسلمانوں  کو اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں ، یہود ونصاریٰ اپنے مذہب کی پیروی کرانا چاہتے ہیں  اور دوسرے مشرکین اپنے مذہب کی تو اس کا کیا جواب ہونا چاہیے؟


                اللہ تعالیٰ نے خود اس کا جواب مذکورہ بالا آیت کے بعد دیا ہے:


                قل: إنَّ ہُدی اللّٰہِ ہُو الہدیٰ (بقرہ:۱۲۰)


                ترجمہ: (ان سب سے) کہہ دیجیے کہ جو راستہ اللہ دکھائے وہی راستہ ہے۔


                یعنی سارے مذاہب غلط اور منسوخ ہیں  اُن کے یہاں  اللہ تعالیٰ کی ہدایت موجود نہیں ، صرف قرآن میں  اللہ کی ہدایت ہے؛ اس لیے اسی کی پیروی کی جاسکے گی، کسی اور کی پیروی گمراہی ہوگی۔


غیرمسلم کی بات ماننے والا جہنم میں


                کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی شرما حضوری میں  سامنے والے کی بات مان لیتا ہے؛ اس لیے اس کی وضاحت قرآن نے کردی ہے کہ اگر کوئی مسلمان دوسرے مذہب کو مانے گا اور دوسرے مذہب کے ماننے والوں  کی ہاں  میں  ہاں  ملائے گا تو اس کی خیر نہیں ؛ اس لیے کہ اسلام کی قطعیت کھل کر سامنے آچکی ہے، اگر کوئی اسلام کو چھوڑے گا تو آخرت میں  اس کا کوئی یارومددگار نہ ہوگا:


                وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أہْوائَہُمْ بَعْدَ الذي جَائَکَ مِنَ العِلْمِ، مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَليٍ وَّلا نصیر (بقرہ:۱۲۰)


                ترجمہ: اور (اے مخاطب!) اگر تونے ان کی خواہشوں  کی پیروی کی اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے (تو) اللہ سے (بچانے والا) تیرا نہ کوئی یار ہوگا اور نہ مددگار!


مکمل اسلام کو مانو!


                ہمارے لیے یہ جائز نہیں  کہ ہم اپنے کو مسلمان بھی کہیں  اور اسلام کے خلاف ہونے والے شبہات کو بھی ٹھنڈے پیٹوں  قبول کریں ، قرآن پر شبہات کو اپنے دلوں  میں  رکھیں ، انبیاء اور صحابہ پر اعتراض کرنے والوں  کا ساتھ دیں  اور ’’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘ والا تصور رکھیں ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے پورے اسلام میں  داخل ہونے کا حکم فرمایا ہے، یکسو ہوکر اللہ والے ہوجائیں ، یہی مطلوب ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :


                یَـٰٓأَیُّہَا لَّذِینَ ئَامَنُواْ دْخُلُواْ فِی لسِّلْمِ کَآفَّۃ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ الشَّیْطَانِ۔ (بقرہ:۲۰۸)


                ترجمہ: اے وہ لوگو جو (اسلام کو) مان چکے ہو! اسلام میں  پورے پورے داخل ہوجائو! اور شیطانوں  کے قدموں  پر نہ چلو!


اسلام سے پھرجانے والا اصل کافر سے بدتر


                ایک ہے اسلام قبول نہ کرنا، یہ بہت بڑی محرومی کی بات ہے؛ اس لیے کہ کلمہ کے بغیر انسان کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک قابلِ قبول نہیں  ہوتا، چاہے وہ خیرات میں  اپنی پوری دولت دے دے تب بھی اس کو آخرت میں  کچھ نہیں  ملے گا، جو ملنا ہے اسی دنیا میں  مل جائے گا، آخرت کی کامیابی کے لیے ایمان شرط ہے، کافر محروم ہوتا ہے؛ مگر ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرنا، اس سے زیادہ بُرا ہے۔


                ’’الردۃُ: ہِيَ أَفْحَشُ أنْوَاعِ الکفرِ ویُحْبَطُ بِہَا العَمَلُ۔ (إعانۃُ الطالبین ۴/۱۴۹)


                اسلام سے پھرجانا، کفر کی قسموں  میں  سب سے بُری قسم ہے اور اس کی وجہ سے نیکیاں  برباد ہوجاتی ہیں ۔


                اسلام سے پھر جانے والوں  کے چہرے قیامت کے دن کالے کلوٹے ہوں گے، انھیں  ہمیشہ کے لیے جہنم کی سزا ہوگی، قرآنِ پاک میں  اس کی وضاحت ہے:


                فأمَّا الذین اسْوَدَّتْ وُجوہُہُمْ، أکَفَرْتُم بَعْدَ إیمانِکم فَذُوْقُوا العَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُون (آل عمران:۱۰۶)


                ترجمہ: تو رہے وہ لوگ جن کے چہرے کالے ہوں گے، (ان سے پوچھا جائے گا:) کیا تم نے ایمان کے بعد کفر کیا تھا؟ تو عذاب چکھو! اس وجہ سے کہ تم (اسلام کا) انکار کرتے تھے۔


اسلام سے پھرنے والا جہنم میں


                اسلام سے پھرنے والا بدبخت ہوجاتا ہے، اس کی ساری نیکیاں  برباد ہوجاتی ہیں ، دنیا میں  کیا ہوا کوئی اچھا عمل اُسے کام نہیں  آئے گا، نہ تومرتد ہونے سے پہلے کی نیکی کام آئے گی اورنہ ہی مرتد ہونے کے بعد کی نیکی کام آئے گی؛ بلکہ وہ دیکھنے میں  ہی نیکی ہوگی حقیقت میں  نیکی نہیں  ہوسکتی؛ اس لیے کہ نیکی وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نیک کہہ دیں  اور قبول فرمالیں !


                مرتد جہنم میں  جائے گا، اس کی صراحت بھی آیت کریمہ میں  ہے:


                وَمَنْ یَرْتَدِدْ مِنکُمْ عَن دِینِہٖ فَیَمُتْ وَہُوَ کَافِرٌ فَأُوْلَـٰٓئِکَ حَبِطَتْ أَعْمَٰلُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَأُوْلَـٰٓئِکَ أَصْحَٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیہَا خَٰلِدُونَ۔(بقرہ:۲۱۷)


                ترجمہ: اور تم میں  سے جو اپنے دین سے پھر جائے پھر کافر ہی مرجائے تو یہی وہ لوگ ہیں  کہ ان کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں  میں  برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخ (میں  جانے) والے ہیں  وہ اُسی میں  ہمیشہ رہیں گے۔


اسلام سے پھرنے والے کی توبہ


                اگر کوئی مسلمان اپنی کوتاہی اور نادانی سے اسلام سے پھر جائے، یا اسلام کے کسی حکم کا انکار کربیٹھے، جس سے ایمان چلاجاتا ہے، پھر وہ توبہ کرکے اسلام میں  دوبارہ آنا چاہے تو اللہ کا دروازہ اس کے لیے کھلا ہے وہ توبہ کرکے پھر اسلام میں  داخل ہوجائے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :


                توبہ قبول کرنا بس اللہ کے ذمے ہے ان لوگوں  کی جو نادانی میں  گناہ کربیٹھتے ہیں  پھر جلدہی توبہ کرتے ہیں  تو وہی لوگ ہیں  جن کی توبہ اللہ قبول فرماتے ہیں ۔ (نسائی:۱۷)


اسبابِ ارتداد


                اسلام کبھی معلوب نہیں  ہوسکتا، اس کی حقانیت آفتاب کی طرح روشن ہے؛ البتہ عالمی منظرنامے پر مسلمان مغلوب نظر آرہے ہیں ، یہ ہمارے شامتِ اعمال کی وجہ سے ہے، اس کے اسباب اور عوامل پراگر غور کیا جائے اور تفصیل لکھی جائے تو بڑی طویل ہوجائے گی، ذیل میں  چند اسباب اور وجوہ ذکر کیے جارہے ہیں ، جس سے آج کی حالتِ زار کو سمجھنے میں  مدد ملے گی:


                ۱- سب سے پہلی وجہ اسلامی اقتدار کا زوال ہے، ’’عثمانیہ حکومت‘‘ کے زوال کے بعد سے اب تک مسلمان مظلوم ومقہور ہیں  اور ان کو دبانے کی عالمی کوششیں  ہوتی رہی ہیں ، آج کی عالمی طاقتیں  مسلمانوں  کے برسرِ اقتدار آنے سے خوف زدہ ہیں ؛ اس لیے وہ مختلف مسائل اور مصائب میں  مسلمانوں  کو مبتلاکرکے اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔


                یہودی سازش اور عیسائی مشنریاں  سب سے آگے ہیں ،یہ سب مسلمانوں  کواصل دین سے پھیرنا چاہتی ہیں ، چرچ کے تحت چلنے والے ’’این جی اوز‘‘ کی سرگرمیاں  بھی مسلمانوں  کو مرتد بنانے کی کوششوں  میں  پیش پیش ہیں ، وہ ایک طرف مسلمانوں  کو کھلے طور پر عیسائی بنانے کی مہم چلارہے ہیں ، دوسری طرف وہ عام مسلمانوں  کو فکری ارتداد کی طرف لے جارہے ہیں ۔ ان کی خواہش ہے کہ اگر مکمل نہ بدل سکے تو کم از کم قرآن وسنت میں  شک وشبہ پیدا ہوجائے، جس سے اسلام بیزاری کی راہ ہموار ہوجائے، اس کے لیے وہ قرآن کو بدلنے کی مہم بھی چلارہے ہیں ، قرآن کے مقابلے میں  شام کے بشارالاسد کی تیار کردہ ’’البرہان الحق‘‘ اسی کی کڑی ہے۔ بہت سے ممالک میں  ارتداد کی لہرچل رہی ہے، مثلاً الجزائر، افریقہ، لبنان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش ان سب میں  سرفہرست  ہندوستان ہے۔ جہاں  مختلف طریقوں  سے لوگوں  کو مذہب سے دور کیا جارہا ہے۔ تمل ناڈو، تلنگانہ، آندھرا پردیش، مہاراشٹرا، کشمیر اور یوپی سب ارتداد کی زد میں  ہیں ۔ یہاں  ’’قادیانی‘‘ بھی اسلامی لباس پہن کر اسلام سے پھیرنے کا کام کررہے ہیں ، ’’شکیل بن حنیف‘‘ کا فتنہ بھی قادیانی فتنہ کا نیا ایڈیشن ہے، اس کا مقصد بھی مرتد بنانا ہے، اس کے ماننے والے مسجد میں  لمبی لمبی نمازیں  پڑھتے ہیں ، سفید کرتا پاجامہ پہن کر ہاتھوں  میں  تسبیح رکھ کر یہ باور کرانا چاہتے ہیں  کہ وہ بھی مسلمان ہیں ؛ حالاں کہ وہ اسلام سے خارج ہیں ، حدیث شریف میں  نماز روزہ کرنے والے مرتد کا ذکر موجود ہے، یہ سب اسی کے مصداق ہیں ۔


                ۲- شدت پسند ہندو یہ چاہتے ہیں  کہ ہندوستان سے جمہوریت مٹ جائے، اصول وقوانین ختم ہوجائیں ، ’’آئینِ ہند‘‘ کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اور پورا ملک فرقہ پرست کے ہاتھوں  کا کھلونا بن جائے، اس کے لیے وہ کوششیں  کررہے ہیں ، اسلام کے مختلف احکامات پر اعتراض کرتے ہیں ، قرآن کی آیتوں  پر اعتراض کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ پر اعتراض کرتے ہیں ،ازواجِ مطہرات کو نشانہ بناتے ہیں ، محمد بن قاسم اور اورنگ زیب عالم گیر کے کارناموں  میں عیوب نکالتے ہیں ، جمہوریت پسند لیڈران پر تنقید کرتے ہیں ؛ تاکہ وہ اپنے مقصد میں  کامیاب ہوجائیں  اور مسلمان اسلام کے تئیں  شکوک وشبہات میں  پڑکر پہلے فکری ارتداد میں  مبتلا ہوں ، اسلام سے نفرت کریں  پھر اسلام کو چھوڑدیں ۔


                مسلمان لڑکیوں  کو مرتد بنانے کی سازش بھی یہی لوگ کررہے ہیں ، آر، ایس، ایس سے وابستہ ’’ہندوجاگرن منچ‘‘ نے سیکڑوں  مسلمان لڑکیوں  کو ہندو گھرانوں  کی بہو بنانے کا ہدف بنا رکھا ہے اور مسلم لڑکیوں  سے شادی کرنے پر انعامات رکھ رکھے ہیں ۔ (قومی آواز بیورو ۲۹؍نومبر ۲۰۱۷ء)


                مسلمانوں  کو اسلام سے ہٹانے کی سازش کے لیے جو تدبیریں  کی جارہی ہیں  ان میں  سے ’’وندے ماترم‘‘ کو اسکولوں  میں  لازم کرنا ہے، ’’شری رام‘‘ کے نعرے لگوانا اور اس کے لیے مجبور کرنا ہے، ’’این، آر، سی اور سی، اے، اے‘‘ بھی اسی کی ایک کڑی ہے اور ’’گھرواپسی‘‘ نام کی تحریک تو کھلے طور پر اسلام سے پھیرنے کی تحریک ہے؛ حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو کلمہ پڑھنے والوں  کے لیے بنایا ہے اور جب تک کلمہ پڑھنے والے رہیں گے تبھی تک یہ دنیا رہے گی اور ہم سب کے باوا آدمؑ مسلمان تھے۔ اس دنیا میں  رہنے والا جب تک آدم علیہ السلام کے مذہب پر ہے تب تک وہ اپنے ہی گھر میں  ہے واپسی کی ضرورت اس کو ہے، جس نے آدم کے گھر کو چھوڑدیا ہے۔


                آدم علیہ السلام سے نوح علیہ السلام تک سارے لوگ مسلمان رہے اور انسان کا اصل مذہب اسلام ہی ہے اس لیے گھرواپسی کا صحیح مطلب یہ ہونا چاہیے کہ سارے انسان دوسرے مذاہب کو چھوڑ کر اسلام کے سائے میں  آجائیں  اور اپنے پیدا کرنے والے اللہ کی عبادت کرکے اور اس کے قانون پر عمل کرکے زندگی کو پرسکون بنائیں  اور مرنے کے بعد جنت کے مستحق ہوجائیں ؛ تاکہ مرنے کے بعد افسوس نہ ہوکہ کاش اسلام کو مانا ہوتا تو جہنم کی سزا نہ ہوتی!


۳- اسکولوں ، کالجوں  میں  ارتداد


                علم سیکھنے سکھانے کا کوئی انکار نہیں  کرتا؛ مگر کوئی مسلمان یہ نہیں  چاہتا کہ علم حاصل کرنے میں  ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھے، جو علم ایمان کے لیے خطرہ ہو وہ لعنت ہے، ہندوستان میں  بہت سے اسکول ہیں ، جہاں  اسباق کے بعد پانچ منٹ ’’اشلوک‘‘ پڑھایا جاتا ہے اور اسکول انتظامیہ اس پر اصرار کرتی ہے، مسلمان بچوں  کو الگ کرنے کے مطالبے کو قبول نہیں  کرتی، بعض اسکولوں  میں  ’’وندے ماترم‘‘ ضروری ہے، وہاں  بھی مسلمان بچوں  کو الگ رکھنے کی بات مانی نہیں  جاتی، بعض اسکولوں  میں  ’’سرسوتی‘‘ کی مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بچوں  کو کچھ پڑھایا جاتا ہے۔ اس مورتی کو تعلیم کی دیوی کہا جاتا ہے۔ اس پر پھول چڑھائے جاتے ہیں  اور پانی بھی ۔ بعض اسکولوں  میں  ’’سوریہ نمسکار‘‘ کرایا جاتا ہے، یہ سب اعمال شرک ہیں ، ان سے بندہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، یہ صریح ارتداد ہے، ایسے اسکولوں  میں  تعلیم دلانا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟


                اور بعض اسکولوں  میں  اسلام کے خلاف مواد داخل نصاب ہے، شرکیہ باتیں  کتابوں  میں  جبراً پڑھائی جاتی ہیں ؛ جب کہ جمہوری ملک ہے یہاں  ہر مذہب کے ماننے والوں  کو اپنے مذہب پر رہنے کی اجازت ہے؛ اس لیے کوئی زور زبردستی نہیں  ہونی چاہیے!


                بعض اسکولوں  میں  قرآن کی آیات کے خلاف بچوں  کا ذہن بنایا جاتا ہے، خصوصاً جہاد کی آیتوں  کو نکالنے کی بات کی جاتی ہے؛ جب کہ کوئی مسلمان کسی مذہب کی کتاب کے خلاف کچھ نہیں  کہتا، اسلام کی یہی تعلیم ہے کہ تم کسی کے معبود کو بُرا نہ کہو کہ وہ بدلے میں  اللہ کو بُرا کہنے لگیں :


                لَا تَسُبُّوا الّذِیْنَ یَدْعُونَ مِنْ دونِ اللّٰہ فَیَسُبُّوْا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ۔ (انعام:۱۰۸)


                ترجمہ: تم ان لوگوں  کو گالی نہ دو جو اللہ کے علاوہ کی پوجا کرتے ہیں  کہ وہ نہ جاننے کی وجہ سے دشمنی میں  اللہ کو گالی دے بیٹھیں ۔


۴- مفلسی کی وجہ سے ارتداد


                آج بہت سے علاقوں  میں  مسلمان غریب ونادار ہیں ، ان کی مفلسی نے انھیں  پریشان کررکھا ہے؛ اس لیے بعض عیسائی مشنریاں  ان کو مال کا لالچ دے کر عیسائی بنالیتی ہیں ، مشرکین انھیں  مشرک بنالیتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح کفر سے پناہ مانگی ہے اسی طرح فقروفاقے سے بھی پناہ مانگی ہے؛ اس لیے کہ بہت سی مرتبہ غریبی انسان کو کفر سے قریب کردیتی ہے۔


                حدیث شریف میں  آیا ہے:  ’’کاد الفقرُ أن یکونَ کُفْرًا‘‘ (بیہقی)


                نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں  دعاء بھی منقول ہے:


                اَللّٰہُمَّ اِنّيْ أعُوْذُبِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ۔ (حصن حصین)


                ترجمہ: اے اللہ! میں  (اسلام کا) انکار کرنے اور محتاج ہونے سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں ۔


۵- عشق میں  ارتداد


                مخلوط تعلیم کی وجہ سے لڑکے لڑکیاں  ایک ساتھ رہتے ہیں ، اس پر سیکس کی تعلیم کا لزوم پٹرول میں  آگ لگانے کا کام کرتی ہے، آن لائن تعلیم نے بھی تعلقات کی پاکیزگی ختم کردی ہے۔


                بے پردگی کی وجہ سے بھی گندے تعلقات ہوجاتے ہیں  معاشقے میں  ذات پات کی کوئی قید نہیں  ہوتی، جس کی وجہ سے مسلم اور غیرمسلم لڑکے لڑکیاں  ایک دوسرے کے مذہب کو محض شادی کے لیے قبول کرلیتے ہیں ، ان میں  نہ تو مسلمان ہونے والوں  کو اسلام سے کوئی تعلق ہوتا ہے اورنہ غیرمسلم ہونے والوں  کو؛ دونوں  مذہب بے زار ہوتے ہیں ، مسلمانوں  کو اپنی اولاد پر کڑی نظر رکھنی ضروری ہے؛ تاکہ ارتداد سے بچ سکیں ۔


خیرالقرون میں  مرتدین کا مقابلہ


                رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام ؓکے زمانے میں  بھی ارتداد کی ہوا چلی تھی، وہ بھی اللہ کی مصلحت تھی، اللہ تعالیٰ نے امت کے لیے ایسے موقع سے رسول اللہ … اور صحابۂ کرامؓ کا نمونہ دکھانا چاہا؛ تاکہ اگر بعد میں  بھی ارتداد کی لہر چلے تواس کا مقابلہ اسی انداز سے کیا جاسکے۔


                (الف) کچھ لوگوں  نے اسلام سے پھر کردوبارہ بتوں  کی پوجا شروع کردی تھی، اہل کتاب منافقین کی پلاننگ بھی تھی کہ ایمان میں  جھوٹ موٹ صبح کو داخل ہوجائو اور شام کو پھر جائو اور پوچھنے پر کہہ دو کہ ہم نے غور کیا؛ مگر ہمیں  اسلام سمجھ میں  نہیں  آیا، اس طرح جو لوگ پکے مسلمان ہیں  ان کا ایمان کمزور ہوجائے گا؛ لیکن ان کی یہ سازش چلی نہیں  اللہ تعالیٰ نے پردہ فاش کردیا:


                وَقَالَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْ أَہْلِ الْکِتَٰبِ ئَامِنُواْ بِالَّذِیٓ أُنزِلَ عَلَی الَّذِینَ ئَامَنُواْ وَجْہَ النَّہَارِ وَاکْفُرُوٓاْ ئَاخِرَہٗ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ۔ (آل عمران:۷۲)


                ترجمہ: اور اہل کتاب میں  سے ایک جماعت نے کہا: جو کچھ مسلمانوں  پر اترا ہے اس پر صبح کو ایمان لائو اور شام کو اس کا انکار کردو، شاید کہ وہ پھر جائیں !


                ایک عیسائی منافقت سے ایمان لایا اور سول اللہ … سے قریب ہوگیا؛ لیکن چنددنوں  بعد وہ مرتد ہوگیا، عیسائیت میں  داخل ہوگیا، پھر بتوں  کی پوجا کرنے لگا، جب وہ مرا تو لوگوں  نے قبر میں  دفن کیا؛ مگر زمین نے قبول نہیں  کیا، باہر کردیا، لوگوں  نے دوبارہ دفن کیا، پھر باہر کردیاگیا، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں !


                (ب) یمامہ کے کچھ لوگوں  نے مسیلمہ کذاب کی پیروی شروع کردی، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں  نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی نبوت میں  شریک کرلینے کا مطالبہ کیا، جسے آپ نے مسترد کردیا؛ لیکن اس نے یمامہ میں  چالیس ہزار لوگوں  کو ہم نوا بنالیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت میں  بغاوت پر اترآیا اورنہ ماننے والوں  کو قتل کرنا شروع کردیا، خلیفۂ اول کو چیلنج دیا توآپ نے پہلے حضرت عکرمہ بن ابی جہل کو یمامہ بھیجا؛ لیکن کامیابی نہ ملی؛ بالآخر حضرت خالد بن ولیدؓ نے تیرہ ہزار کے لشکر کے ساتھ یمامہ کا رخ کیا اور گھمسان کی جنگ ہوئی، حضرت وحشی بن حربؓ نے مسیلمہ کو ایسا نیزہ مارا کہ وہ ڈھیر ہوگیا اور اس فتنے کا خاتمہ ہوا۔


                (ج) صنعا (یمن) کے اسود عنسی نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں  نبوت کا دعویٰ کیا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی کوشش فرمائی کہ وہ ایمان لے آئے؛ مگر وہ شعبدہ بازی کے ساتھ مسلمانوں  کو گمراہ کرتا رہا تو آپ … نے یمن کے مسلمانوں  کے نام فتنہ کی سرکوبی کے لیے خط بھیجا؛ بالآخر فیروزنامی ایک بہادر شخصیت نے اس کا کام تمام کردیا اور اس کے مرنے کی اطلاع اس وقت ہوئی جب حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ بنائے جاچکے تھے۔


                (د) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرماجانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں  کچھ لوگوں  نے زکوٰۃ کا انکار کیا، روزہ نماز کا انکار نہیں  کیا، کلمہ کا انکار نہیں  کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے ان لوگوں  سے جہاد کا ارادہ فرمایا تو حضرت عمرؓ نے اعتراض کیا کہ کیا آپ ان لوگوں  سے جہاد کریں  گے جو کلمہ پڑھتے ہیں ؟ تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا کہ ہاں ! جو نماز اور زکوٰۃ میں  فرق کرے گا اس سے میں  جہاد کروں گا؛ اس لیے کہ وہ بھی مرتد ہے۔


                مذکورہ بالا واقعات سے معلوم ہوا کہ ارتداد کا مقابلہ کرنا مسلمانوں  کے لیے بہت ضروری ہے، مرتد ہونے والا اگر کوئی اعتراض کرے تو اس کے اعتراض کو سناجائے گا اس کا جواب دیا جائے گا؛ اس لیے کہ اسلام مدلل مذہب ہے، اس میں  داخل ہونے کے لیے کوئی زبردستی نہیں ، اسلام تلوار سے نہیں  پھیلا ہے، اسلام کے کسی حکم میں  کسی کو شبہ ہوتو اس شبہ کو دور کرنا مسلمانوں  کی ذمہ داری ہے، ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں  مذہب کی آزادی ہے، یہاں  مرتد کو قتل کرنے اور ان سے جہاد کرنے کی بات تو نہیں  کہی جاسکتی؛ اس لیے کہ سزائوں  کے نفاذ کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے؛ البتہ دلائل سے سمجھا جائے گا اور مسلمان بھائیوں  کے فکری ارتداد کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی اور یہ مسلمانوں  کی مذہبی ذمہ داری ہے۔ اس میں  جمہوریت رکاوٹ نہیں  ہے۔


ارتداد سے بچنے کی تدبیریں


                اب سوال یہ ہے کہ آج ہندوستان کے موجودہ ماحول میں   ہمیں  فتنۂ ارتداد کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اپنے بھائیوں  کو جہنم سے بچانے کی تدبیریں  سوچنی چاہیے اور اس کے لیے مناسب اقدامات سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے؛ اگرچہ ہم تعداد میں  کم ہیں ؛ مگر مایوس نہیں ہونا چاہیے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : بہت سی چھوٹی جماعتیں  بڑی جماعتوں  پر اللہ کے حکم سے غالب آجاتی ہیں  اور اللہ جمے رہنے والوں  کے ساتھ ہیں ۔ (بقرہ:۲۴۹)


                مسلمانوں  کو ارتداد سے کیسے بچایا جائے؟ ان کے ایمان کی حفاظت کس طرح کی جائے؟ تو اس سلسلے میں  چند صورتیں  ذہن میں  آرہی ہیں  اللہ کرے کہ وہ مفید ثابت ہوجائیں :


۱-            ارتداد کی عالمی اورملکی سازش کا جائزہ لیا جائے اور ممکن حد تک ہر طرح کی کوشش کی جائے؛ تاکہ مسلمان بھائیوں  کا ایمان محفوظ رہے۔


۲-           اہلِ وطن سے بحث ومباحثہ نہ کیا جائے، اس سے بات الجھتی ہے؛ نتیجہ ہاتھ نہیں  آتا۔


۳-          غریب مسلمانوں  کے تعاون کا نظام بنایا جائے۔


۴-          ایسے اسکول اور کالج سے بچا جائے جہاں  نونہالانِ امت ارتداد سے محفوظ نہیں  رہ سکتے۔


۵-           مسلمان اپنے اسکول کھولیں  اور پاکیزہ ماحول میں  نونہالان کو تعلیم دیں ۔ مخلوط تعلیم سے بچا جائے، اسی طرح ’’مکاتب‘‘ کے قیام پر توجہ دی جائے، اگر مستقل مکاتب نہ قائم کرسکیں  تو مساجد میں  مکاتب کا نظام بنائیں !


۶-           دینی تعلیم کے فروغ کی کوشش کی جائے، عقیدے سمجھائے جائیں ، عموماً عقیدہ نہ جاننے کی وجہ سے لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں ۔


۷-          مسلمانوں  کے اندر دینی غیرت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، دین اسلام کی اہمیت کو سمجھایا جائے۔


۸-          نماز کا اہتمام کیا جائے اور ایک دوسرے کو مسجد سے قریب کرنے کی ہرممکن کوشش ہو، ’’تبلیغی جماعت‘‘ کے احباب اس پر زیادہ توجہ رکھیں !


۹-           اگر محسوس ہوکہ کوئی ایمان پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو اس سے دور رہا جائے، ایسوں  کی صحبت ہرگز اختیار نہ کی جائے۔


۱۰-         اپنی اولاد اور خاندان پر گہری نظر رکھی جائے! غلط صحبتوں  سے بچایا جائے۔


۱۱-          معاشرے میں  پردے کا التزام کیا جائے؛ تاکہ گندے تعلقات نہ ہونے پائیں ، جو اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا سبب بنتے ہیں ۔


۱۲-         اسلام پر ہونے والے اعتراضات نہ سنے جائیں ، عموماً موبائل پر بہت سے لوگ اسلام کے خلاف باتیں  کرتے رہتے ہیں ، اُن کو نہ سنا جائے، صرف قابلِ اعتماد اور صحیح عقیدہ لوگوں کی باتیں  سنی جائیں !


۱۳-         علماء اعتراضات کا جواب تیار کریں  اور ان کو شائع کریں ، اس کا ایک نظام بنایا جائے، اسلام کے خلاف اعتراضات جمع کیے جائیں  پھر جواب تیار کرکے کئی زبانوں  میں  انھیں  پھیلایا جائے؛ تاکہ شکوک وشبہات والوں  کے لیے شفا کا ذریعہ ہو!


۱۴-         مدارسِ اسلامیہ میں  باقاعدہ دفاعِ اسلام کا نظام بنایا جائے!


۱۵-         تعارفِ اسلام کے کتابچے تیار کیے جائیں  اور وہ مسلمانوں  تک پہنچائے جائیں  اور غیروں  کو بھی دیے جائیں !


۱۶-         جمعہ کی تقریروں  میں  ایمان کی اہمیت اور اس کے عقیدے بیان کیے جائیں ۔


۱۷-         جہاں  ارتداد کا خطرہ ہو وہاں  مبلغین بھیجے جائیں ، مساجد میں  اس کا نظام مضبوط انداز میں  بنایا جائے! اس کے لیے مساجد میں  باصلاحیت فکرمند اماموں  کا تقرر کیا جائے جو وقت پر کام آسکیں ، جن کے اندر تقریر کی صلاحیت ہو۔


۱۸-         کفریہ الفاظ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے! اس لیے کہ ان الفاظ سے آدمی ایمان سے نکل جاتا ہے، یا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوجاتاہے اور ا ُسے پتہ بھی نہیں  چلتا۔


۱۹-          مختصرکورس تیار کیا جائے جس میں  ایمانیات کی باتیں  ہوں  اسلام کا تعارف، اہمیت ، عقیدے، ارکانِ اسلام، دعائیں  اور دیگر ضروری معلومات ہوں  کہ اس کا پڑھنے والا، عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق اورمعاشرت سب کو سمجھ لے۔


۲۰-        عوام اور علماء کے تعلقات کو مضبوط کیا جائے؛ ان کا قرب جتنا رہے اتنا ہی ارتداد سے بچ سکیں گے۔ صحبتِ صالحین کی ترغیب دی جائے، اس کے بڑے فائدے ہیں ۔


۲۱-         کالجوں  میں  تعارفِ اسلام اور اسلام پر اعتراضات سے متعلق محاضرات کا نظام بنایا جائے۔


۲۲-        اسکول اور کالج کی چھٹیوں  کے موقع کو غنیمت جان کر طلبہ وطالبات کو دین سمجھانے کا نظام بنایا جائے! سنڈے کلاس کا نظام بنایا جائے۔


۲۳-        چھوٹی ہجرت کی جائے، مثلاً جہاں  غیرمسلمین زیادہ ہیں ، مسجدیں  نہیں  ہیں  یا دور ہیں ، ان علاقوں  کو چھوڑ کر کثیر مسلم علاقے میں  رہائش اختیار کی جائے، اس کے بڑے فائدے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:


                أنا بَریئٌ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ یُقِیْمُ بَیْنَ أظْہُرِ المُشْرِکِینَ (ابوداؤد)


                ترجمہ: میں  ہراُس مسلمان سے بے تعلق ہوں  جو مشرکین کے درمیان رہتے ہیں ۔


                لَا تُسَاکنوا المشرکینَ وَلَا تُجَامِعُوْہُمْ! فَمَنْ سَاکَنَہُمْ أو جَامَعَہُمْ فلیس مِنَّا۔ (ترمذی)


                ترجمہ: مشرکین کے درمیان رہائش اختیار نہ کرو اور ان کے ساتھ جمع نہ رہو؛ اس لیے کہ جو ان کے ساتھ رہائش اختیار کرے گا یا اُن کے ساتھ جمع رہے گا تو وہ ہم (مسلمانوں ) میں  سے نہیں ہے۔


۲۴-        حفاظتِ اسلام کے لیے دعائوں  کا اہتمام کیا جائے!


                اَللّٰہُمَّ أرنا الحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتباعَہٗ وأرِنَا الباطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجتِنَابَہٗ!


٭           ٭           ٭



فتنوں کے دور میں ایمان کی حفاظت!


اللہ رب العز ت نے ہمیں انسا ن کی صور ت میں وجو د بخشا ، یہ اللہ کا انتہا ئی عظیم انعام ہے ، اللہ کی مخلو ق میں انس و جن ہی مستحقِ جزا ء و سزا ء ہیں؛ اس لیے کہ اللہ نے انسا ن کو قو تِ ارادہ عطا کیا، پھرعقل دی جس سے وہ خبیث وطیب میں تمیز کر سکے ، اپنے نفع و نقصا ن کو سمجھ سکے ، اور اسے ہدایت وضلا لت کے درمیا ن امتحا ن کے لیے چھوڑ دیا ، اس کی ہدایت کے لیے انبیا ء علیہم السلا م کو مبعو ث کیا ،جنہوں نے وحی کی روشنی میں ہدایت کی را ہیں بتائیں ، انبیا ء کے سلسلے کو احمد ِمصطفی محمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہائی جامع وحی ناز ل کی ، جس میں انسا ن کو اللہ سے مر بو ط رکھنے کی تعلیم ، اللہ کی مر ضیا ت کے مطابق قو ل و فعل کے لیے احکامِ فقہیہ کی تعلیم ، اخلاق کی درستگی کی لیے تزکیہٴ نفس کی تعلیم ، حقو ق العبا دکے لیے معاشر ت کی تعلیم ، اور کسب ِحلا ل کے لیے معیشت کی تعلیم بھی مکمل جامعیت کے ساتھ دی اسی طرح قیامت تک آ نے والے فتنو ں سے مطلع کیا گیا ، غرضیکہ ان تمام امور کی تعلیم دی گئی جو انسا ن کی دنیوی ضرو رت کو بہ حسن و خو بی پورا کر نے کے ساتھ ساتھ آ خر ت کی کا میا بی کی مکمل ضا من ہو ، جب تک امت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیما ت پر عمل کرتی رہی دنیوی کا میا بیا ں قدم بو سی کرتی رہیں؛ مگر جہاں امت نے تعلیمات ِنبویہ سے انحر ا ف کیا اور اپنی خواہشا ت کے مطا بق قرآ ن وحدیث کی باطل تاویلا ت کر نی شروع کردی تو اللہ نے اس کو ہرطرح کی دنیو ی پریشا نی میں مبتلا کر دیا ۔ قر آن کریم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا  ﴿اَنْتُمُ الْأعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُوٴْمِنِیْن﴾”تم ہی سر بلند رہو گے اگر صفتِ ایمان کے ساتھ متصف رہے ۔“


                ایک سنگین مسئلہ : مسلما نو ں کو بڑی سنجیدگی کے سا تھ اس مسئلہ پر غو ر وفکر کرنے کی ضرو رت ہے کہ مقصد ِحیات کیا ہے ؟ اور آج کا انسا ن مقصد ِحیا ت کو پس پشت ڈال کر کہاں جا رہا ہے ؟


                لو گوں کا عجیب حا ل ہے ، زندگی ایسی گز ار رہے ہیں، جیسے مر نا ہی نہیں ہے۔ اور زندگی کا حساب دینا ہی نہیں ہے ؛ حالا نکہ نہ تو مو ت سے کوئی بچ سکتا ہے اور نہ حساب و کتا ب سے ۔ مغر ب نے ما دّیت یعنی دنیا پر ستی کو لو گو ں کے ذہن ودما غ پر ایسا سوار کردیاہے کہ دینی علم اور فکر آخرت میں رسو خ کے بغیر دنیاداری سے بچنا انتہائی دشو ار ہے ۔ اہل مغر ب نے دنیو ی تعلیم میں لو گوں کو ایسا مشغو ل کیا کہ دینی تعلیم کے لیے فرصت ہی نہیں بچی اور ٹیلی ویژن پر اخبار بینی، اسپور ٹ ، سیر یل، فلم ، ناچ ، گا نے اور مختلف پروگراموں میں ایسا مشغو ل کیا کہ دین کے لیے وقت ہی نہیں بچا ، نہ دین سیکھنے کا وقت ہے اور نہ اس پر عمل کر نے کی فرصت ۔


دنیوی تعلیمی نصاب میں مادی افکار کی زہرافشانی:


                دنیوی تعلیمی نصاب میں ما دّی افکار کا زہر اور اس کے ایما ن سو ز اثرا ت ،افکار ، اعتقادات اور تہذیب و ثقا فت کو بھی شامل کیا اور خوا ہ مخواہ یہ ثابت کیا کہ ”مذہب “ انسان کانجی مسئلہ ہے، اجتما عی زندگی میں اس کی کوئی ضر ور ت نہیں؛بلکہ انسا ن کو نجی زندگی میں مذہب سے دور رکھنے کے لیے تعلیم دی کہ اسے اپنی زندگی گزا ر نے میں کسی خدائی پا بند ی کا لحا ظ کر نے کی ضرو ر ت نہیں۔ جو کچھ کر نا ہو سب دنیا ہی کے لیے کر و ، اپنی ہر چیز کو دنیا کی کا میا بی کے لیے قر با ن کردو ، اپنا مال، اپنی جا ن، اپنا وقت ، اپنی اولا د سب کو دنیا داری میں مشغو ل کر دو ۔ اللّٰھُمَّ احْفَظْنَا مِنْہ․


                یہو د ونصا ریٰ نے یہ بھی ثابت کر نے کی کو شش کی کہ حقا ئق کا جو بھی ادراک ہو تا ہے وہ محض مشاہد ہ اور تجر بہ سے حا صل ہو تا ہے ۔اس کے لیے کسی ”نبی“ اور ”رسول ‘‘ کی ضرو ر ت نہیں، اور اسی خطرناک حر بہ کے ذریعہ عور ت کو آ زا دی دلا ئی ، جو آ زادی نہیں بر با دی کا با عث ہو ئی ۔ آج دنیا کے حالا ت اس پر گواہ ہیں اور جب عو ر ت گھر سے بے پر دہ ہو کر با ہر آ ئی تو زناکاری کے لیے لائسنس جاری ہو نے لگے ، مر د اور عورت کی رضا مندی کو زنا کی فہرست سے خارج کر دیا، جس کے سبب یور پ میں خا ندا نی نظا م جو تبا ہ ہو ا، وہ دنیا والو ں کے سامنے ہے ۔ گویا ”مَنْ حَفَرَ بِئْراً لأخِیْہِ وَقَعَ فِیْہ“ کا یو رپ صحیح مصدا ق ٹھہر ا ،جو اپنے بھا ئی کے لیے کو ا ں کھو دتا ہے خودہی اس میں گر تا ہے ۔


                معاشر ے کے معصو م بچو ں کی نصابی کتا بو ں میں جنسیت کے مواد کو شا مل کیا اور العیاذ باللہ انسان کو یہ با و ر کرانے کی کوشش کی کہ یہ دنیا میں محض جنسی ضرو ر ت پور ی کرنے کے لیے ہے، اس طرح انسا ن کو اشرف المخلو قات کے درجہ سے اتا ر کر دیگر حیو ا نو ں کی صف میں لاکھڑ ا کردیا۔


                یہ دشمنا نِ ایما ن نہیں؛ بلکہ دشمنا نِ انسا نیت ہیں۔ محض اپنے مفا د کی خا طرمسلما نو ں ہی کو نہیں؛ بلکہ پورے انسا نی معاشر ے کو عا لمگیر پیما نے پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔


                  اپنے ایما ن کی حفا ظت یہ ہمار ا اولین تر جیح ہو نی چا ہیے؛ کیو نکہ اگر ایما ن سے ہا تھ دھو بیٹھے، تو نا قابلِ تلافی نقصان اٹھا نا پڑے گا ،جس پر مو ت کے بعد کف ِافسو س ملنے سے بھی کوئی فا ئدہ نہ ہو گا اور اس کے بعد عذابِ جہنم سے خلا صی کی بھی کوئی صور ت نہیں ہو گی، جیسا کہ قر آ ن کریم نے جابجا بیان کیا ہے ۔لہٰذ ا اس مسئلہ کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے مند رجہ ذیل ہدا یا ت پر عمل کیا جائے۔


                (۱) علما ء ربا نین کی تحر یرو ں، تقریروں اور ان کی مجالس سے فتنہ کو جا نا جا ئے اور اس کے انجام پر نظر رکھی جا ئے اور اس سے بچنے کی مکمل تدا بیر اختیا ر کی جائے ۔مثلا ً ”قیا مت کی نشا نیاں“ (عمرا ن اشرف عثما نی ) ”عالمی یہودس تنظیمیں “ مفتی ابولبابہ صاحب دامت برکاتہم۔


                (۲) دعاء کا اہتمام کیا جائے اور رو رو کر اللہ سے مانگا جائے۔


                (۳) اسلامی فر ائض کا خا ص اہتمام کیا جائے مثلا ً نما ز ، رو ز ہ، حج ، زکوٰة اور ہر حالت میں ان فرائض کو ادا کرنے کی انتھک کوشش کی جا ئے ۔


                (۴) مقصد ِحیا ت” اللہ کی عبا دت اورا س کی رضا مندی کا حصو ل“ ہر حالت میں پیش نظر رکھا جا ئے ۔ اور اخلا ص کے ساتھ اس پر عمل کر نے کی کوشش کی جا ئے جس سے اللہ راضی ہو تے ہیں، اورہراس قو ل و عمل سے بچاجائے ،جس سے اللہ نا را ض ہو تے ہوں۔


                (۵) آخرت کی فکر اپنے اندر پیدا کی جائے اور اس کے لیے صالحین کی صحبت اختیار کی جائے اورایسی کتا بیں پڑھی جائیں، اور گھرمیں اس کی تعلیم کی جائے جو فکر آ خر ت پید ا کر تی ہوں ۔


                (۶) اسلا م کے بار ے میں ادھو ری معلو ما ت رکھنے والو ں سے بچا جائے۔


                (۷) دینی تعلیم حا صل کر نے کا نظا م بنا یا جا ئے، ہمار ی تمام پریشا نیو ں کا حل دینی تعلیم کے سیکھنے اور اس پر عمل کر نے میں ہے ، ہمارے بچے ، بڑے، عو رتیں ، جوا ن؛ سب کو خو ب اچھی طر ح اسلا می عقا ئد سے واقف ہو نا چا ہیے ، نما ز ، رو زہ ، زکوٰة اور حج کے احکام ہر ایک کے لیے ضروری ہیں، اور تا جر کے لیے تجا رت کے احکا م، جس کا جو پیشہ ہو اس پیشہ کے احکا م سے واقف ہو نا فر ض ہے ۔ یا تو صحیح العقیدہ علما ء سے براہِ راست سیکھاجائے یا گھر میں ا ن کی کتا بو ں کی تعلیم کی جائے، مثلاً اسلا م کی بنیا دی تعلیما ت (حضرت مو لا نا اشر ف علی تھا نوی)، تحفة المسلمین (مو لا نا عاشق الٰہی میرٹھی )، حیاةالمسلمین ، بہشتی زیو ر (حضرت مو لا نا اشر ف علی تھانوی)، دینی تعلیم کا رسالہ ، تعلیمات ِاسلام(مفتی کفا یة اللہ ) ، اسلا می عقیدے (مولانا عبد الحق ) ، وغیرہ مگر علما ء سے براہ ِراست سیکھنا زیا دہ بہتر ہے ۔


                (۸) صالحین کی صحبت اختیار کی جائے اور ان کے سا منے اپنے باطنی احو ال رکھ کر علا ج کروا یا جائے اور تز کیہٴ نفس کی فکر کی جائے ، اس سے متعلق کتا بیں پڑھی جا ئیں ۔


                 (۹) اپنے بچو ں کی دینی تر بیت کی جائے اور فیشن پر ستی سے دور رکھا جائے ، گھر کا ما حو ل دینی بنا یا جائے ادعیہٴ ماثور ہ کا خود بھی عا دی بنیں اور گھر والو ں کو بھی بنا ئیں ، صبح و شا م کی مسنو ن دعائیں او راذکار کا خاص اہتمام کیا جا ئے ۔


                (۱۰) بُر ے لو گو ں اوربری تہذیب سے مکمل پر ہیز کیا جا ئے ۔خاص طور پر ٹیلیویژن ، ویڈیو، میوزک ، ناچ گا نا سے بچا جا ئے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ٹی وی صر ف خبر و ں کے لیے رکھا ہے مگر انھیں یہ سو چنا چاہیے کہ مر نے کے بعد دنیا بھر کی خبر و ں کا سو ال نہیں ہو گا ؛بلکہ خو د آپ کی خبرلی جا ئے گی او ر پھر جزاء وسز ا کا فیصلہ ہو گا ۔


                (۱۱) قر آ ن کو پڑھا جائے اس کو سمجھا جا ئے اور اس پر عمل کیا جائے ،جیسا کہ صحابہ  نے کیا؛ مگر افسو س کے امت نے قر آ ن کو پس پشت ڈا لدیا نہ اس کی تلا و ت ہوتی ہے نہ اس کو سمجھنے کی سعی اور نہ اس پر عمل ۔ لہٰذا ائمہ مساجد اور علما ء سب سے پہلے اس کو صحت اور تجو ید کے سا تھ پڑھنا سیکھیں ، ائمہ اور علماء بھی فکرمندی سے امت کو قر آ ن کی تعلیم دیں اور جو لو گ قرآ ن فہمی کے اصو ل وقو ا عد سے مکمل واقف ہوں ان سے قرآ ن کو سمجھا جا ئے۔


                عو ا م کے لیے عا م فہم تفا سیر یہ ہیں :


                (۱)معارف القرآ ن (حضرت مفتی شفیع صاحب  )


                (۲)ہدایتُ القرآن (حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری زیدمجدہ)


                (۳) آ سا ن تر جمہ قر آ ن (حضرت مو لا نا مفتی تقی عثما نی زیدمجدہ)


                (۴) ترجمہ شیخ الہند مع فوائد عثمانی۔


                (۱۲)وقت کی قدر کریں اور ہر وقت ایسا عمل کریں جس سے آخر ت کا فا ئدہ ہو۔


                  آج انسان کا سب سے بڑ ا مسئلہ وقت کا ضیا ع ہے ، لو گو ں کو بے ہو دہ با تو ں میں مبتلا کرکے دشمنا نِ انسانیت نے بڑ ا ظلم ڈھا یا ہے ، موبائل ، ٹی وی ، انٹر نیٹ ، تفریح گا ہیں وغیرہ کو اتنا عا م کیا جا رہا ہے کہ اللہ کی پنا ہ انسان آ خر ت کی تیا ری سے بے خبر ہو کر ان میں مصر و ف ہے۔


                 (۱۳) سیرت نبوی کا خاص طور پر مطالعہ کیاجائے آپ … کی سیرت اور زندگی قیا مت تک آنے والو ں کے لیے اسوہ اور نمو نہ ہے۔ اس مو ضو ع پر سب سے عمدہ کتا ب عارف با للہ حضرت مولانا عبد الحئی عارفی رحمة اللہ علیہ کی ”اسوہ ٴرسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم“ہے،(اس کا انگلش میں ترجمہThe Ways Of Holy Prophet Mohammad ہو چکا ہے ) آپ نے اسے سیرتِ نبو ی پر عمل کر نے ہی کے لیے لکھا ہے۔ اس کے علا وہ سیر تِ خا تم الا نبیا ء اور تفصیلی مطالعہ کے لیے سیر ت المصطفیٰ، مولانا ادریس کا ندھلو ی اور سیرت النبی مولانا سید سلیمان ندوی۔


٭٭٭


————————————




No comments:

Post a Comment