مسلمانوں کی سربلندی کا واحد سبب»
ایمان رکھنا۔
القرآن:
(مسلمانو) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غمگین رہو، اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 139]
تفسیر:
جنگ احد کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ شروع میں مسلمان کافر حملہ آوروں پر غالب آگئے اور کفار کا لشکر پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے پچاس تیر انداز صحابہ کا ایک دستہ میدان جنگ کے ایک عقبی ٹیلے پر متعین فرمایا تھا، تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے، جب دشمن پسپا ہوا اور میدان جنگ خالی ہوگیا تو صحابہ نے اس کا چھوڑا ہوا ساز و سامان مال غنیمت کے طور پر اکھٹا کرنا شروع کردیا، تیر اندازوں کے اس دستے نے جب یہ دیکھا کہ دشمن بھاگ چکا ہے تو انہوں نے سمجھا کہ اب ہماری ذمہ داری پوری ہوچکی ہے اور ہمیں مال غنیمت جمع کرنے میں حصہ لینا چاہیے، ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے ٹیلہ چھوڑنے کی مخالفت کی، مگر ان میں سے اکثر نے وہاں ٹھہرنے کو بےمقصد سمجھ کر ٹیلہ چھوڑدیا، دشمن نے جب دور سے دیکھا کہ ٹیلہ خالی ہوگیا ہے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے ہیں تو انہوں نے موقع پاکر ٹیلے پر حملہ کردیا، حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے اپنی بساط کے مطابق ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر سب شہید ہوگئے اور دشمن اس ٹیلے سے اتر کر ان بیخبر مسلمانوں پر حملہ آور ہوگیا جو مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف تھے، یہ حملہ اس قدر غیر متوقع اور ناگہانی تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے لگے، اسی دوران کسی نے یہ افواہ اڑادی کہ آنحضرت ﷺ شہید ہوگئے ہیں، اس افواہ سے بہت سے مسلمانوں کے حوصلے جواب دے گئے، ان میں سے بعض میدان چھوڑ گئے، بعض جنگ سے کنارہ کش ہو کر ایک طرف کھڑے رہ گئے، البتہ آنحضرت ﷺ کے جاں نثار صحابہ کی ایک جماعت آپ کے ارد گرد مقابلہ کرتی رہی، کفار کا نرغہ اتنا سخت تھا کہ اس کشمکش میں آنحضرت ﷺ کا مبارک دانت شہید ہوگیا اور چہرہ مبارک لہو لہان ہوگیا، بعد میں جب صحابہ کو پتہ چلا کہ آپ کی شہادت کی خبر غلط تھی اور ان کے حواس بجا ہوئے تو ان میں سے بیشتر میدان میں لوٹ آئے، اور پھر کفار کو بھاگنا پڑا ؛ لیکن اس درمیانی عرصے میں ستر صحابہ کرام ؓ شہید ہوچکے تھے، ظاہر ہے کہ اس واقعے سے تمام مسلمانوں کو شدید صدمہ ہوا، قرآن کریم ان آیتوں میں انہیں تسلی بھی دے رہا ہے کہ یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جن سے مایوں اور دل شکستہ نہ ہونا چاہیے، اور اس طرف بھی متوجہ کررہا ہے کہ یہ شکست کچھ غلطیوں کا نتیجہ تھی جس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔
ایمان والے کون؟
القرآن:
ایمان لانے والے تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانا ہے، پھر کسی شک میں نہیں پڑے، اور جنہوں نے اپنے مال و دولت اور اپنی جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے۔ وہی لوگ ہیں جو سچے ہیں۔
[سورۃ الحجرات، آیت نمبر 15]
القرآن:
مومن تو وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور ترقی دیتی ہیں اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 8 الأنفال،آیت نمبر 2]
القرآن:
مومن تو وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں اور جب رسول کے ساتھ کسی اجتماعی کام(جہاد) میں شریک ہوتے ہیں تو ان سے اجازت لیے بغیر کہیں نہیں جاتے۔ (47) (اے پیغمبر) جو لوگ تم سے اجازت لیتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ اپنے کسی کام کے لیے تم سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جن کو چاہو، اجازت دے دیا کرو، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیا کرو۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ نمبر 24 النور،آیت نمبر 62]
تفسیر:
(47)یہ آیت غزوہ ٔ احزاب کے موقع پر نازل ہوئی، اس وقت عرب کے کئی قبیلوں نے مل کر مدینہ منورہ پر چڑھائی کی تھی اور آنحضرت ﷺ نے شہر کے دفاع کے لئے مدینہ منورہ کے گرد ایک خندق کھودنے کے لئے تمام مسلمانوں کو جمع کیا تھا، سارے مسلمان خندق کھودنے میں مصروف تھے، اور اگر کسی کو اپنے کسی کام سے جانا ہوتا تو آپ سے اجازت لے کرجاتا تھا، لیکن منافق لوگ اول تو اس کام کے لئے آنے میں سستی کرتے تھے، اور اگر آجاتے تو کبھی کسی بہانے سے اٹھ کر چلے جاتے، اور کبھی بلا اجازت ہی چپکے سے روانہ ہوجاتے، اس آیت میں ان کی مذمت اور ان مخلص مسلمانوں کی تعریف کی گئی ہے جو بلا اجازت نہیں جاتے تھے۔
القرآن:
حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مومن بھائی بھائی ہیں، اس لیے اپنے دو بھائیوں کے درمیان تعلقات اچھے بناؤ، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے۔
[سورۃ نمبر 49 الحجرات، آیت نمبر 10]
تخلیق سے پہلے تقدیر مقدر کرنا۔
حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«إِنَّ اللَّهَ قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَخْلَاقَكُمْ كَمَا قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَرْزَاقَكُمْ، وَإِنَّ اللَّهَ يعطي الدُّنْيَا مَنْ يُحِبُّ وَمَنْ لَا يُحِبُّ، ولا يُعْطِي الإيمان إلا مَنْ يُحِبُّ» .
ترجمہ:
بےشک اللہ رب العزت نے تمہارے درمیان اخلاق بھی ایسے ہی تقسیم فرمائے ہیں جیسا کہ رزق تقسیم فرمایا ہے۔ اور اللہ اس کو بھی دنیا عطا فرماتا ہے جس سے محبت فرماتا ہے اور اس کو بھی جس سے وہ محبت نہیں کرتا، البتہ ایمان صرف اسی کو عطا فرماتا ہے جس سے اسے محبت ہوتی ہے۔
[المستدرک الحاکم:94-95-7301]
تخریج:
[شعب الایمان-للبیھقی:599، شرح السنة للبغوي:2030، مجمع الزوائد:164-16854-17697، سلسلة الاحاديث الصحيحة:2714]
الزھد والرقاق لابن المبارک:1134، مصنف ابن ابی شیبہ:34545-34578، الأدب المفرد للبخاری:275، طبرانی:8990، شرح اصول اعتقاد-للالکائی:1697
القرآن:
اور کل جو لوگ اس جیسا ہونے کی تمنا کر رہے تھے، کہنے لگے : اوہو ! پتہ چل گیا کہ الله اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں وسعت کردیتا ہے، اور (جس کے لیے چاہتا ہے) تنگی کردیتا ہے۔ اگر الله نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو وہ ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا۔ اوہو ! پتہ چلا گیا کہ کافر لوگ فلاح نہیں پاتے۔
[سورۃ القصص، آیت نمبر 82]
کیسے قوت(ظاہری اور باطنی) حاصل ہوتی ہے؟
عاجزی چھوڑ کر اسباب اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ پر اعتماد کرنے، نیکی کرنے میں بھی اللہ سے مدد مانگنے، پھر اللہ کی تقدیر وقدرت کے حوالے نتائج کرنے، اور اللہ پر توکل ویقین رکھنے سےقوت حاصل ہوتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَی اللَّهِ مِنْ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي کُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَی مَا يَنْفَعُکَ وَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَلَا تَعْجَزْ وَإِنْ أَصَابَکَ شَيْئٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّي فَعَلْتُ کَانَ کَذَا وَکَذَا وَلَکِنْ قُلْ قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَائَ فَعَلَ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ۔
ترجمہ:
طاقتور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پسندیدہ ہے، ہر بھلائی میں ایسی چیز کی حرص کرو جو تمہارے لئے نفع مند ہو، اور اللہ سے مدد طلب کرتے رہو اور اس سے عاجز مت ہو، اور اگر تم پر کوئی مصیبت واقع ہوجائے تو یہ نہ کہو کاش میں ایسا ایسا کرلیتا کیونکہ کاش کا لفظ شیطان کا دروازہ کھولتا ہے۔
[صحیح مسلم:2664(6774)، سنن ابن ماجہ:79-4168، صحیح ابن حبان:5721-5722، السنن الکبریٰ للبیھقی:20173]
تشریح:
"طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے، لیکن ہر ایک میں بھلائی ہے۔" یہاں "قوت" سے مراد نفس کی مضبوطی اور آخرت کے معاملات میں پختہ عزم اور ذہنی استعداد ہے۔ ایسا مومن جہاد میں دشمن کے خلاف زیادہ جرات مندانہ اقدام کرتا ہے، اس کے تعاقب میں تیزی سے نکلتا ہے، معروف (نیکی) کے حکم اور منکر (برائی) کے روکنے میں زیادہ ثابت قدم ہوتا ہے، ہر طرح کی تکلیف اور مصیبت کو اللہ کی رضا کے لیے برداشت کرتا ہے، اور عبادات جیسے نماز، روزہ، ذکرو اذکار وغیرہ کی طرف زیادہ رغبت رکھتا ہے۔ وہ ان عبادات کو حاصل کرنے اور ان کی حفاظت کرنے میں زیادہ سرگرم رہتا ہے۔ (اور ہر ایک میں بھلائی ہے) یعنی طاقتور اور کمزور دونوں مومنوں میں بھلائی پائی جاتی ہے، کیونکہ دونوں ایمان میں شریک ہیں، اور کمزور مومن بھی عبادات انجام دیتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو تمہارے لیے مفید ہو، اس کی حرص کرو، اللہ سے مدد مانگو، اور ناتوانی کا اظہار نہ کرو۔" "احْرِصْ" میں "ر" پر کسرہ(زیر) ہے اور "تَعْجِزْ" میں "ج" پر کسرہ(زیر) ہے۔ بعض روایات میں دونوں کے فتحہ(زبر) کی بھی روایت ہے۔ اس کا مطلب ہے: اللہ کی اطاعت اور اس کی رضا کے حصول کی کوشش کرو، اللہ سے مدد مانگو، اور نہ تو عبادت کرنے میں سستی کرو اور نہ ہی اللہ سے مدد طلب کرنے میں۔
آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: "اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہو کہ 'اگر میں یہ کرتا تو یوں ہوتا'، بلکہ کہو: 'اللہ نے تقدیر میں لکھ دیا تھا، جو وہ چاہے گا وہی ہوگا'۔ کیونکہ 'اگر' شیطان کے کام کو کھول دیتی ہے۔" امام قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں: بعض علماء کے نزدیک یہ ممانعت صرف اس شخص کے لیے ہے جو یہ کہے اور اسے یقین ہو کہ اگر وہ ایسا کرتا تو یہ مصیبت قطعاً نہ آتی۔ لیکن جو شخص اللہ کی مشیت(چاہت) کے ساتھ اسے جوڑے، مثلاً یہ کہے کہ "اللہ کی مشیت کے بغیر کچھ نہیں ہوتا"، تو یہ ممانعت اس پر لاگو نہیں ہوتی۔ ابو بکر صدیقؓ کا غارِ ثور میں یہ کہنا کہ "اگر کوئی اپنا سر اٹھاتا تو ہمیں دیکھ لیتا"[صحیح بخاری:4663] اس کی دلیل ہے، لیکن قاضی عیاضؒ کے مطابق یہ حجت نہیں، کیونکہ یہ مستقبل کے بارے میں خبر دینے کی حد تک ہے، نہ کہ تقدیر کے بعد اسے رد کرنے کی دعویٰ۔ اسی طرح امام بخاریؒ نے "باب ما يجوز من اللَّوّ" میں جو احادیث ذکر کی ہیں، جیسے "اگر تمہارے قوم کا کفر کا زمانہ نیا نہ ہوتا تو میں بیت اللہ کو ابراہیمؑ کی بنیادوں پر مکمل کرتا"[بخاری:123،مسلم:1333] یا "اگر میں بغیر گواہی کے سنگسار کرتا تو فلاں عورت کو سنگسار کر دیتا"[بخاری:5310،مسلم:1497]، اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کیلئے انہیں مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ [بخاری:887]، یہ تمام احتمالات مستقبل کے لیے ہیں، نہ کہ ماضی کے تقدیر پر اعتراض۔
القرآن:
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے ہجرت کی ہے اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے، وہ اور جنہوں نے ان کو (مدینہ میں) آباد کیا اور ان کی مدد کی، یہ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی وارث ہیں۔ اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، (مگر) انہوں نے ہجرت نہیں کی، جب تک وہ ہجرت نہ کرلیں (اے مسلمانو) تمہارا ان سے وراثت کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ ہاں اگر دین کی وجہ سے وہ تم سے کوئی مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد واجب ہے سوائے اس صورت کے جبکہ وہ مدد کسی ایسی قوم کے خلاف ہو جس کے ساتھ تمہارا کوئی معاہدہ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے اچھی طرح دیکھتا ہے۔
[سورۃ الأنفال،آیت نمبر 72]
تفسیر:
(51)سورة انفال کی ان آخری آیات میں میراث کے کچھ وہ احکام بیان فرمائے گئے ہیں جو مسلمانوں کی مکہ مکرمہ سے ہجرت کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ نے یہ اصول شروع سے طے فرمادیا تھا کہ مسلمان اور کافر آپس میں ایک دوسرے کے وراث نہیں ہوسکتے، اب صورت حال یہ تھی کہ جو صحابہ کرام مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئے تھے، ان میں سے بہت سے ایسے تھے کہ ان کے رشتہ دار جو ان کے وارث ہوسکتے تھے، سب مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے، ان میں سے اکثر وہ تھے جو کافر تھے اور مسلمان ہی نہیں ہوئے تھے، وہ مسلمانوں کے اس لئے وارث نہیں ہوسکتے تھے کہ ان کے درمیان کفر اور ایمان کا فاصلہ حائل تھا ؛ چنانچہ ان آیات نے واضح طور پر بتادیا کہ وہ نہ مسلمانوں کے وارث ہوسکتے ہیں اور نہ مسلمان ان کے وارث ہوسکتے ہیں اور مہاجرین کے کچھ ایسے رشتہ دار بھی تھے جو مسلمان تو ہوگئے تھے ؛ لیکن انہوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی، ان کے بارے میں بھی اس آیت نے یہ حکم دیا ہے کہ مہاجر مسلمانوں کا ان سے بھی وراثت کا کوئی رشتہ نہیں ہوسکتا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت تمام مسلمانوں کے ذمے فرض تھا کہ وہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کریں، اور انہوں نے ہجرت نہ کرکے اس فریضے کو ابھی تک ادا نہیں کیا تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ مہاجر مسلمان مدینہ منورہ میں تھے جو دارالاسلام تھا، اور وہ حضرات مکہ مکرمہ میں تھے جو اس وقت دارالحرب تھا، اور دونوں کے درمیان بڑی رکاوٹیں حائل تھیں، بہر صورت مہاجر مسلمانوں کے جو رشتہ دار مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے، چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ان کے ساتھ مہاجرین کا وراثت کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ اگر ان کا کوئی رشتہ دار مکہ مکرمہ میں فوت ہوتا تو اس کے ترکے میں ان مہاجرین کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا اور اگر ان مہاجرین میں سے کوئی مدینہ منورہ میں فوت ہوتا تو اس کی میراث میں اس کے مکی رشتہ داروں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا، دوسری طرف جو مہاجرین مدینہ منورہ آکر آباد ہوئے تھے ان کو انصار مدینہ نے اپنے گھروں میں ٹھہرایا تھا، آنحضرت ﷺ نے ہر مہاجر صحابی کا کسی انصاری صحابی سے بھائی چارہ قائم کردیا تھا جسے مؤاخات کہا جاتا ہے، اس آیت کریمہ نے یہ حکم دیا کہ اب مہاجرین کے وارث ان کے مکی رشتہ داروں کے بجائے وہ انصاری صحابہ کرام ہوں گے جن کے ساتھ ان کی مؤاخات قائم کی گئی ہے۔
(52) یعنی جن مسلمانوں نے ابھی تک ہجرت نہیں کی، اگرچہ وہ مہاجرین کے وارث نہیں ہیں، لیکن چونکہ بہر حال مسلمان ہیں، اس لئے اگر کافروں کے خلاف مسلمانوں سے کوئی مدد مانگیں تو مہاجر مسلمانوں پر واجب ہے کہ ان کی مدد کریں، البتہ ایک صورت ایسی بیان کی گئی ہے جس میں اس طرح کی مدد کرنا مہاجر مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے، اور وہ یہ کہ جن کافروں کے خلاف وہ مدد مانگ رہے ہیں ان سے مہاجر مسلمانوں کا کوئی جنگ بندی کا معاہدہ ہوچکا ہو، ایسی صورت میں اگر وہ اپنے مسلمان بھائیوں کا ساتھ دیتے ہوئے ان کے خلاف کوئی کاروائی کریں تو یہ بد عہدی ہوگی، اس لئے ایسی مدد کو ناجائز قرار دیا گیا ہے، اس سے زیادہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ جب کوئی معاہدہ ہوجائے تو اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے بھی اس کی خلاف ورزی کو اسلام نے جائز نہیں رکھا ؛ چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ کفار کے ہاتھوں پسے ہوئے مسلمانوں نے آنحضرت ﷺ سے کفار قریش کے خلاف مدد مانگی اور مسلمانوں کا دل بےتاب تھا کہ انکی مدد کریں، مگر چونکہ قریش کے لوگوں سے معاہدہ ہوچکا تھا، اس لئے ان کے صبر وضبط کا بہت کڑا امتحان پیش آیا، اور آنحضرت ﷺ کے حکم کے تحت وہ اس امتحان میں ثابت قدم رہے۔
القرآن:
اور جو لوگ ایمان لے آئے، اور انہوں نے ہجرت کی، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، وہ اور جنہوں نے انہیں آباد کیا اور ان کی مدد کی وہ سب صحیح معنوں میں مومن ہیں۔ ایسے لوگ مغفرت اور باعزت رزق کے مستحق ہیں۔
[سورۃ نمبر 8 الأنفال،آیت نمبر 74]
تفسیر:
(54)یعنی جن مسلمانوں نے ابھی ہجرت نہیں کی ہے، اگرچہ مومن وہ بھی ہیں، لیکن ان میں ابھی یہ کسر ہے کہ انہوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا، دوسری طرف مہاجرین اور انصار میں یہ کسر نہیں ہے، اس لئے وہ صحیح معنی میں مومن کہلانے کے مستحق ہیں۔
🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
افضل طاقتور مومن کون؟
القرآن:
۔۔۔(درجے میں) نہیں برابر ہوسکتے تم میں سے وہ جنہوں نے خرچ کیا فتح(مکہ) سے پہلے، اور لڑائی بھی لڑی، (ورنہ)یوں تو اللہ نے بھلائی(جنت) کا وعدہ سب(مومنوں) سے کر رکھا ہے۔۔۔
[سورۃ الحدید:10]
القرآن:
جن مسلمانوں کو کوئی معذوری لاحق نہ ہو اور وہ (جہاد میں جانے کے بجائے گھر میں) بیٹھ رہیں وہ اللہ کے راستے میں اپنے مال و جان سے جہاد کرنے والوں کے برابر نہیں ہیں۔ جو لوگ اپنے مال و جان سے جہاد کرتے ہیں ان کو اللہ نے بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت دی ہے۔ اور اللہ نے سب سے اچھائی کا وعدہ کر رکھا ہے۔ (61) اور اللہ نے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت دے کر بڑا ثواب بخشا ہے۔
[سورۃ النساء:95]
تفسیر:
(61) یہ اس حالت کا ذکر ہے جب جہاد ہر شخص کے ذمے فرض عین نہ ہو، ایسے میں جو لوگ جہاد میں جانے کے بجائے گھر میں بیٹھ گئے، اگرچہ ان پر کوئی گناہ نہیں ہے اور ان کے ایمان اور دوسرے نیک کاموں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان سے جنت کا وعدہ کیا ہوا ہے لیکن جو لوگ جہاد میں گئے ہیں ان کا درجہ گھر بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے، البتہ جہاں جہاد فرض عین ہوجائے یعنی مسلمانوں کا امیر تمام مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیدے یا جب کوئی دشمن مسلمانوں پر چڑھ آئے تو پھر گھر بیٹھنا حرام ہے۔
************************
************************،
[مصباح اللغات: ص41]
أَشْرَفُ الْإِيمَانِ أَنْ يَأْمَنَكَ النَّاسُ
ترجمہ:
اشرف ایمان یہ ہے کہ انسانیت تجھ سے امن میں رہے۔
[المعجم الصغیر-للطبراني:10، جامع الاحادیث-للسيوطي:3499]
الْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ.
ترجمہ:
مومن وہ ہے جس سے لوگ امن میں ہوں۔
[احمد:12561، ابن ماجہ:3934، حاکم:25، طبرانی:193، بغوی:14، ابن حبان:510، البزار:7432]
ارکانِ ایمان»
حضرت علی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، وَإِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ، وَعَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ.
ترجمہ:
ایمان، (بدیہی طور پر ثابت نبوی باتوں پر) (1)دل کے یقین کرنے اور (2)زبان سے اقرار کرنے اور (3)اعضاء سے عمل کرنے کا نام ہے۔
[سنن ابن ماجہ:65، المعجم الأوسط-للطبراني:6254-8580، شعب الایمان-للبيهقي:16]
﴿تفسير الثعلبي:244-1609.سورۃ البقرۃ:3﴾
﴿تفسیر الدر المنثور-للسيوطي:7/583.سورة الحجرات:14﴾
************************
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

نہیں بن سکتا(سچاپکاکامل)مومن تم میں سے کوئی شخص جب تک...
(1)میں(نبی)اسے اسکی جان
[احمد:18047]
مال واھل
[نسائی:5014]
اسکے والدین واولاد
[بخاری13]
اور سارے لوگوں سے(بھی)زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔
[بخاری:14]
(2)۔۔۔اسے کفر کی طرف واپسی،آگ میں جانے کی طرح ناپسند ہو۔
[احمد:13959]
(3)۔۔۔اسکی خواہش پیچھے چلے(اس دین کے)جو میں لایا ہوں۔
[بغوی:104]
(4)۔۔۔اپنے مسلمان بھائی (پڑوسی)کیلئے وہی نہ چاہے جو وہ اپنے لئے چاہتا ہے۔
[بخاری:12]

حضرت ابوھریرہ ﴿حضرت انس﴾ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ليس الإيمان بالتمنى ولا بالتحلى ولكن هو ما وقر فى القلب وصدقه الفعل.
﴿العلم علمان: علم باللسان وعلم فى القلب فأما علم القلب فالعلم النافع وعلم اللسان حجة الله على ابن آدم﴾.
ترجمہ:
ایمان(صرف)تمنا اور تزئین کا نام نہیں بلکہ ایمان تو وہ(یقین)ہے جو دل میں پختہ ہوجاۓ اور عمل(بھی) اس کی تصدیق کرے۔
﴿علم دو ہیں: ایک وہ جو دل میں(اللہ کا ڈر پیدا کرتا)ہو، یہی علم نافع ہے۔ اور جو علم (مال، شہرت یا مقابلے کیلئے) زبان پر ہو، وہ تو اللہ کی حجت (الزامی دلیل) ہے اس کے بندوں پر۔﴾
[شعب الایمان-للبيهقي:66، جامع الاحادیث:19317﴿19318﴾، كنزالعمال:11]
القرآن:
’’نہ تمہاری تمنائیں (جنت میں جانے کیلئے) کافی ہیں اور نہ اہل کتاب کی آرزوئیں۔ جو بھی برا عمل کرے گا وہ اسکی سزا پائے گا۔۔۔‘‘
﴿تفسير الراغب الاصفهاني:4/168،سورة النساء:123﴾
حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ آرزوئیں کرنے اور خلوت اختیار کرنے کا نام ایمان نہیں ہے ۔ بلکہ(نبوی باتوں پر) جو (یقین) دلوں میں ثبت ہو اور اعمال اس کی تصدیق کریں۔ (لہٰذا) جو شخص اچھی بات(کلمہ) کہے اور نیک عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی بات(کلمہ) کو رد فرما دیتے ہیں اور جو شخص اچھی بات(کلمہ) کہے اور نیک عمل بھی کرے تو یہ عمل اس بات کو بلند کرتا(قبولیت کا شرف بخشتا) ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’...اسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلمہ اور نیک عمل اسے بلند کرتا ہے۔۔۔‘‘
﴿تفسير الدر المنثور-للسيوطي:7/10،سورة فاطر:10﴾
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إن الرجل لا يكون مؤمنا حتى يكون قلبه مع لسانه سواء ويكون لسانه مع قلبه سواء ولا يخالف قوله عمله ويأمن جاره بوائقه۔
ترجمہ:
آدمی(کامل)مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا دل اس کی زبان کے موافق نہ ہوجاۓ(یعنی بدیہی طور پر ثابت نبوی باتوں پر اقرار کے ساتھ یقین ہو)،اور اس کا عمل اس کے قول(یعنی زبانی اقرار)کی مخالفت نہ کرے، اور امن سے ہو اس کا پڑوسی اس کے تکلیفوں سے۔
[الترغیب-لاصفھاني:53، جامع الاحادیث:6301-17374، كنزالعمال:85]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنی زبان سے اور حال یہ ہے کہ ایمان اس کے دل میں داخل نہیں ہوا {نہیں پہنچا} {خالص نہیں ہوا} {دل سے ایمان نہیں لائے}، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو {مومنوں کو ایذاء نہ پہنچاؤ}{اور ان کو عار مت دلاؤ} اور ان کے عیوب کے پیچھے نہ پڑو، اس لیے کہ جو ان کے عیوب کے پیچھے پڑے گا، اللہ اس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اور اللہ جس کے عیب کے پیچھے پڑے گا، اسے اسی کے گھر میں ذلیل و رسوا کر دے گا ۔
[سنن أبي داود:4880،
{سنن الترمذي:2032}
{مسند الروياني:305، المعجم الأوسط للطبراني:3778}
{التوبيخ والتنبيه لأبي الشيخ الأصبهاني:87، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:2511}
{الجامع - معمر بن راشد:20251}]
القرآن:
یہ دیہاتی کہتے ہیں کہ : ہم ایمان لے آئے ہیں۔ ان سے کہو کہ : تم ایمان تو نہیں لائے، البتہ یہ کہو کہ ہم نے ہتھیار ڈال دیے ہیں، (10) اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اور اگر تم واقعی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال (کے ثواب) میں ذرا بھی کمی نہیں کرے گا۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔
[سورۃ الحجرات:14 (تفسير البغوي:2007، الزمخشري،القرطبي،ابن كثير،الدر المنثور،المظهري،الألوسي)]
القرآن:
اے (زبان سے) ایمان والو! (دل سے) ایمان رکھو اللہ پر، اور اس کے رسول پر، اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول پر اتاری ہے، اور ہر اس کتاب پر جو اس نے پہلے اتاری تھی۔ اور جو شخص اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا اور یومِ آخرت کا انکار کرے وہ بھٹک کر گمراہی میں بہت دور جا پڑا ہے۔
[سورۃ النساء:136]
تفصیلِ ایمان»
﴿مسند احمد:2924، صحیح ابن حبان:173﴾
اعمالِ ایمان:
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تم جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کہ ایمان نہیں لاؤ گے اور پورے مومن نہیں بنو گے جب تک کہ آپس میں محبت نہیں کروگے کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جب تم اس پر عمل کروگے تو آپس میں محبت کرنے لگ جاؤ گے وہ یہ ہے کہ آپس میں ہر ایک آدمی کو سلام کیا کرو۔
[مسند احمد:9084، المعجم الکبیر للطبرانی:10396]
مسائل اور تخریج:
جنت میں صرف ایمان والے جائیں گے ایمان والوں سے محبت ایمان کی نشانی ہے اور کثرت سلام آپس میں محبت کا باعث ہے۔
[صحیح مسلم:194(54)]
ایمان کی نفی(انکار) کا ذکر جس میں اللہ تعالیٰ کی خاطر (مسلمانوں) سے محبت نہیں۔
[صحیح ابن حبان:236]
سلام کو پھیلانے کا بیان۔
[سنن الترمذي:2688]
ایمان کا چالیسواں شعبہ» نفرت اور حسد کو ترک کرنے کی تلقین کرنے کا بیان۔
[شعب الإيمان-للبیھقي:6613]
ایمان کا اکسٹھواں شعبہ» یہ دینداروں کے قریب آنے اور ان سے دوستی، اور ان کے درمیان سلام پھیلانے کے بیان میں۔
[شعب الإيمان-للبیھقي:8745]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس شخص میں تین اوصاف موجود ہوں وہ ایمان کا مزہ چکھ لیتا ہے۔ (۱) جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے زیادہ اور کسی سے محبت نہ رکھتا ہو۔ (۲) جس شخص کو اپنے دین سے مرتد ہوجانا آگ میں جلا دیا جانے سے زیادہ محبوب ہو۔ (۳) جو اللہ کے لیے کسی سے دوستی رکھتا ہو اور اللہ کے لیے ہی کسی سے بغض رکھتا ہو۔
[صحیح بخاري:16، صحیح مسلم:43]
نصف ایمان:
فرمایا:
طھارت(پکیزگی) آدھا ایمان ہے.
[ترمذی:3519]
نصف ایمان:
فرمایا:
وضو(سے رہنا)آدھا ایمان ہے.
[احمد:23099]
صبر(یعنی احکامِ دین پر جمے رہنا) آدھا ایمان ہے.
[طبرانی:8544]
جس نے نکاح کیا،اس نے اپنا آدھا ایمان کامل کرلیا،اب اپنے باقی آدھے ایمان کے بارے میں الله سے ڈرے.
[المعجم الأوسط-للطبراني:7647]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس نے الله ہی کی خاطر محبت کی، اور الله ہی کیلئے بغض رکھا، اور الله ہی کے واسطے دیا، اور الله ہی کیلئے روکا، تو اس کا ایمان"کامل"ہوگیا۔
[ابوداؤد:4681]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تمام لوگوں سے کامل ایمان والے وہ ہیں جو اخلاق میں اچھے ہوں، اور نرم پہلوؤں والے ہوں جو دوستی رکھتے ہیں اور دوست رکھے جاتے ہیں اور جو شخص نہ کسی کو دوست رکھے اور نہ اس کو کوئی دوست رکھے اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔‘‘
[الصحیحة:751۔ معجم الاوسط:4422۔، معجم الصغیر:35]
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں اپنے دل میں ایسے خیالات پاتا ہوں کہ ان کو زبان پر لانے سے یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ کوئلہ بن جاؤں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ صریح ایمان ہے۔
[معجم الصغیر:65]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بندہ پورا ایمان نہیں لاتا جب تک کہ ہنسی مذاق میں بھی جھوٹ چھوڑدے اور جھگڑنا چھوڑدے اگرچہ سچا(حق پر) ہو.
[احمد:8630]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس میں تین عادتیں پیدا ہوگئیں،اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا
یا فرمایا:تین باتیں ایمان کی تکمیل ہیں:
تھوڑے میں سے کچھ خرچ کرنا،اپنی جان سے انصاف کرنا(ہر نافرمانی سے بچانا)،اور عالم کو(خصوصا)سلام کرتے رہنا.
[جامع الاحادیث:40683]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تین عادتیں جس میں ہوئیں،اس کا ایمان مکمل ہوجاۓ گا:
وہ شخص جو الله کے بارے میں کسی کی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتا، اور نہ اپنے کسی عمل میں دکھلاوا کرتا ہے، اور جب اس کے سامنے دو کام آتے ہیں ایک دنیا کا اور ایک آخرت کا تو وہ(حکمِ خدا کے خلاف حاصل کی جانے والی) دنیا کے مقابلہ میں آخرت کے کام کو فوقیت(اور ترجیح)دیتا ہے.
[جامع الاحادیث:11197]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بندہ اس وقت تک ایمان کامل نہیں پاسکتا جب تک کہ اپنی زبان کو(غلط اور فضول استعمال سے بھی)روک لے۔
[جامع الاحادیث:17838]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ایمان کی پانچ(5)باتیں ایسی ہیں کہ اگر کسی شخص میں ان میں سے کوئی نہ ہو تو اس کا ایمان(کامل)نہیں:
حکمِ الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کرنا، فیصلہِ الہی(تقدیر) پر راضی رہنا، خود(کی چاہت)کو الله کے حوالہ کرنا، الله پر بھروسہ کرنا اور مصیبت کے پہلے جھٹکے میں صبر کرنا۔
[جامع الاحادیث،امام سیوطی:11982]
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وہ شخص کامل الایمان مومن نہیں جو مصیبت کو نعمت نہ سمجھے اور نرمی وآسانی کو مصیبت نہ سمجھے...(کیونکہ)ہر مصیبت کے بعد نرمی اور ہر آسانی کے بعد مصیبت تو آتی ہی ہے۔
[طبرانی:10949]

القرآن:
جو لوگ (اللہ کا) خوف رکھتے تھے، ان میں سے دو مرد جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا تھا۔ (20) بول اٹھے کہ : تم ان پر چڑھائی کر کے (شہر کے) دروازے میں گھس جاؤ۔ جب گھس جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے۔ اور اپنا بھروسہ صرف اللہ پر رکھو، اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو۔
[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 23]
تفسیر:
(20) یہ دو صاحبان حضرت یوشع اور حضرت کالب (علیہما السلام) تھے جو ہر مرحلے پر حضرت موسیٰ ؑ کے وفادار رہے تھے اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت سے بھی سرفراز فرمایا، انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اللہ پر بھروسہ کرکے آگے بڑھو تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق تم ہی غالب رہوگے۔
اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرجائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کردے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا، اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے جو مومنوں کے لیے نرم اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے۔ اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جو وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑے علم والا ہے۔
[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 54]
القرآن:
درحقیقت یہ تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، لہذا اگر تم مومن ہو تو ان سے خوف نہ کھاؤ، اور بس میرا خوف رکھو۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 175]
القرآن:
شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بےحیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا، ہر بات جاننے والا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 268]
القرآن:
اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 208]
منافق کون؟
القرآن:
اے ایمان والو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ کے پاس اپنے خلاف (یعنی اپنے مستحقِ عذاب ہونے کی) ایک کھلی کھلی وجہ پیدا کردو؟ یقین جانو کہ منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے، اور ان کے لیے تم کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔
[سورۃ النساء،آیت نمبر 144]
القرآن:
اے ایمان والو ! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی ان میں سے ایسے لوگوں کو جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا رکھا ہے اور کافروں کو یار ومددگار نہ بناؤ، اور اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو تو اللہ سے ڈرتے رہو۔
[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 57]
تفسیر:
”یار و مددگارـ“ عربی لفظ ”ولی“ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ”ولی“ بنانے کو ”موالات“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی دوستی اور قلبی محبت کا تعلق ہے جس کے نتیجے میں دو آدمیوں کا مقصد زندگی اور ان کا نفع و نقصان ایک ہوجائے۔ اس قسم کا تعلق مسلمان کا صرف مسلمان ہی سے ہوسکتا ہے اور کسی غیر مسلم سے ایسا تعلق رکھنا سخت گناہ ہے اور اس آیت میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے، یہی حکم سورة نساء (4: 139) سورة مائدہ (5: 51) سورة توبہ (9: 23) سورة مجادلہ (28: 22) اور سورة ممتحنہ (60: 1) میں بھی دیا گیا ہے، البتہ جو غیر مسلم جنگ کی حالت میں نہ ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے، جیسا کے خود قرآن کریم نے سورة ممتحنہ (60: 8) میں واضح فرمادیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت پوری حیات طیبہ میں یہ رہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا، اسی طرح ان کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعاون کے وہ معاہدہ اور تجارتی معاملات بھی کئے جاسکتے ہیں جن کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں دوستی کے معاہدے کہا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ معاہدے یا معاملات اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف نہ ہوں اور ان میں کسی خلاف شرع عمل کا ارتکاب لازم نہ آئے، چنانچہ خود آنحضرت ﷺ نے اور آپ کے بعد صحابہ کرام نے ایسے معاہدات اور معاملات کیے ہیں، غیر مسلموں کے ساتھ موالات کی ممانعت کرنے کے بعد قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ : الا یہ کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لئے بچاؤ کا کوئی طریقہ احتیار کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار کے ظلم وتشدد سے بچاؤ کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے جس سے بظاہرموالات معلوم ہوتی ہو تو اس کی گنجائش ہے۔
القرآن:
کیا تم ان لوگوں سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑا، اور رسول کو (وطن سے) نکالنے کا ارادہ کیا، اور وہی ہیں جنہوں نے تمہارے خلاف (چھیڑ چھاڑ کرنے میں) پہل کی ؟ (12) کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟ (اگر ایسا ہے) تو اللہ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ تم اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔ ان سے جنگ کرو تاکہ اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے، انہیں رسوا کرے، ان کے خلاف تمہاری مدد کرے، اور مومنوں کے دل ٹھنڈے کردے۔ اور ان کے دل کی کڑھن دور کردے، اور جس کی چاہے توبہ قبول کرلے (13) اور اللہ کا علم بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل۔
[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 13]
تفسیر:
(12) اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے مکہ مکرمہ میں ظلم شروع کیا اور یہ بھی کہ انہوں نے صلح حدیبیہ کو توڑنے میں پہل کی۔
(13) یعنی اس کا بھی امکان ہے کہ کفار توبہ کرکے مسلمان ہوجائیں، چنانچہ بہت سے لوگ اس کے بعد واقعی مسلمان ہوئے۔

القرآن:
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی مومن ہو تو سود کا جو حصہ بھی (کسی کے ذمے) باقی رہ گیا ہو اسے چھوڑ دو۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 278]
القرآن:
(یہ کامیاب سودا کرنے والے وہ ہیں جو) توبہ کرنے والے ! اللہ کی بندگی کرنے والے ! اس کی حمد کرنے والے ! روزے رکھنے والے ! (86) رکوع میں جھکنے والے ! سجدے گزرنے والے ! نیکی کی تلقین کرنے والے، اور برائی سے روکنے والے، اور اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے، (87) (اے پیغمبر) ایسے مومنوں کو خوشخبری دے دو۔
[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 112]
تفسیر:
(86) قرآن کریم نے یہاں جو لفظ استعمال کیا ہے وہ السائحون ہے اس لفظ کے اصل معنی تو سیاحت کرنے والے کے ہیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے اس کی تفسیر روزہ رکھنے سے فرمائی ہے اور یہی تفسیر متعدد صحابہ اور تابعین سے بھی منقول ہے (تفسیر ابن جریر) بظاہر روزے کو سیاحت اس لیے فرمایا گیا ہے کہ جس طرح سفر میں انسان کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کے معمولات قائم نہیں رہتے، اسی طرح روزے میں بھی ان معمولات میں فرق آجاتا ہے۔ واللہ اعلم۔
( 87) قرآن کریم نے بہت سے مواقع پر ”اللہ کی قائم کی ہوئی حدود“ اور ان کی حفاظت کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ بڑی معنی خیز اصطلاح ہے۔ اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے احکام دئیے ہیں۔ وہ کچھ حدود کے پابند ہیں۔ ان حدود میں رہ کر ان کو انجام دیا جائے تو وہ درست اور نیک کام ہیں۔ اور اگر حدود سے نکل جائیں تو وہی کام ناپسندیدہ اور بعض اوقات گناہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کی عبادت بہت ثواب کا کام ہے، لیکن اگر کوئی شخص عبادت میں اتنا منہمک ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے جو حقوق رکھے ہیں، ان کو پامال کرنے لگے، تو وہ عبادت بھی ناجائز ہوجاتی ہے۔ تہجد کی نماز بڑی عظیم فضیلت کی چیز ہے، لیکن اگر کوئی شخص یہ نمازیں اس طرح پڑھے جس سے سونے والوں کی نیند میں خلل آئے تو یہ ناجائز ہے۔ والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی نفلی عبادت نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس کی وجہ سے بیوی بچوں کے حقوق پامال کرنے لگے تو یہ گناہ ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں بہت سی نیکیوں کا بیان کرنے کے بعد آخر میں حدود کی حفاظت کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ کہ یہ حضرت تمام نیکیاں ان حدود میں رہ کر انجام دیتے ہیں جو ان کاموں کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھی ہیں۔ ان حدود کی تعلیم آنحضرت ﷺ نے اپنے قول اور فعل سے دی ہے اور ان کو سیکھنے کا بہترین طریقہ اس کے سوا کوئی اور نہیں ہے کہ انسان کسی اللہ والے کی صحبت میں رہے، اور اس کے طرز عمل کو دیکھ دیکھ کر ان حدود کو سمجھنے اور اپنی زندگی میں ان کو اتارنے کی کوشش کرے۔
مومنین کون؟ نیک اعمال والے۔
القرآن:
بےشک یہ قرآن راہنمائی کرتا ہے وہ راستہ جو سب سے زیادہ سیدھا ہے، اور خوشخبری دیتا ہے مومنین کو جو نیک عمل کرتے ہیں، انہیں کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔
[سورۃ نمبر 17 الإسراء،آیت نمبر 9]
القرآن:
(نازل کی)ٹھیک سیدھی(کتاب) تاکہ ڈر سنائے عذاب سخت کا اس کی طرف سے اور خوشخبری دے مومنوں کو جو عمل کرتے ہیں اچھے کہ ان کے لیے ہے اجر اچھا۔
[سورۃ الكهف، آیت نمبر 2]
ترجمہ:
ایک سیدھی سیدھی کتاب جو اس نے اس لیے نازل کی ہے کہ لوگوں کو اپنی طرف سے ایک سخت عذاب سے آگاہ کرے اور جو مومن نیک عمل کرتے ہیں ان کو خوشخبری دے کہ ان کو بہترین اجر ملنے والا ہے۔
************************
ایمان بچائیے!
ہم اللہ کے بندے ہیں ، ہم پر اسی کی بندگی واجب ہے، اس کے علاوہ کسی کی بندگی جائز نہیں ، یہی ’’توحید‘‘ ہے، بندگی سکھانے کے لیے اللہ نے نبیوں کو بھیجا یہی ’’رسالت‘‘ ہے، پہلے نبی حضرت آدم اور آخری نبی جناب محمد رسول اللہ… ہیں ، اللہ اور رسول کی باتوں کو ماننا ہی ’’اسلام‘‘ ہے، اسلام ہر انسان کا اصلی مذہب ہے، اسی پر انسان کو پیدا کیاگیا ہے؛ مگر ماں باپ اور مخالفِ اسلام ماحول کی وجہ سے انسان اپنے اصل مذہب سے ہٹ جاتا ہے، حدیث شریف میں ہے:
کُلُّ مولودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہ یُہَوِّدَانِہٖ أو یُنَصِّرانِہٖ أو یُمَجِّسَانِہٖ (بخاری۱۳۸۵)
ترجمہ: ’’ہربچہ (اسلام کی) قابلیت پر پیدا ہوتا ہے؛ لیکن اس کے ماں باپ اُسے یہودی بنالیتے ہیں ، یا نصرانی بنالیتے ہیں ، یا مجوسی بنالیتے ہیں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے سارے انسانوں کو اس کے اصلی مذہب پر چلنے کا حکم فرمایا ہے، اس کے لیے ’’عہد الست‘‘ میں اپنی معرفت کی ایک جھلک دکھاکر دلوں میں ایمان کی ایک چمک ڈال دی تھی، اگر انسان اپنے خراب ماحول سے متاثر نہ ہوتو وہ بلاتکلف اسلام ہی کو مانے گا، اسی کو یاد دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حنیفًا، فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا(روم:۳۰)
ترجمہ: لہٰذا تو ایک طرف ہوکر دین (اسلام) پر سیدھا منھ کیے چلا جا، اللہ کی دی ہوئی قابلیت وصلاحیت پر، جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔‘‘
سارے انسانوں کا مذہب اسلام ہی ہے، آٹھ سو سال بعد حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے گمراہی آئی اور چند لوگوں نے بتوں کی پوجا شروع کردی؛ اس لیے اللہ نے جنت کی خوش خبری دینے والے اور جہنم سے ڈرانے والے نبیوں کو بھیجا۔ (بقرہ:۲۱۳ روح البیان)
اصلی مذہب یعنی اسلام کو قبول نہ کرنے والے جہنم میں جائیں گے؛ اس لیے ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ پوری کائنات کے انسانوں کی خیرخواہی کریں اور اُن کو فطری مذہب کی طرف بلائیں ، اسی کا نام ’’دعوت‘‘ ہے۔ اگر وہ سارے انسانوں کو دعوت پہنچا نہیں سکتے تو کم سے کم اپنے مسلمان بھائیوں کو سنبھالیں کہ وہ بھٹک نہ جائیں !
ایمان سب سے بڑی نعمت
دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جتنی نعمتیں اُتاری ہیں ، اُن میں سب سے بڑی نعمت ایمان ہے، اس کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے، فقہائے کرام نے اس کی وضاحت کی ہے کہ اگر اسلام کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو جان، مال اور نسل (اولاد) سب کچھ قربان کردینے کی نوبت آئے تو بھی اس میں دریغ نہ کرے (موافقات امام شاطبی)
آج ہم دنیا کو دیکھ رہے ہیں ، لذت لے رہے ہیں ؛ اس لیے اس کی قدر ہے، آخرت میں جنت کو دیکھیں گے اس کی لذت لیں گے تو سمجھ میں آئے گا کہ جنت کے مقابلے میں دنیا کی لذت کی کوئی حیثیت نہیں ؛ لیکن یہ دنیا اسی حد تک مفید ہے؛ جب تک کہ اس کے ذریعے اللہ کی فرماں برداری کی جائے، اگر اس کی وجہ سے اللہ کی نافرمانی ہونے لگے تو دنیا کو تھوک دینا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔
قارون کو اللہ تعالیٰ نے ’’حافظِ تورات‘‘ بنایا تھا؛ مگر دنیا کی محبت اس میں اتنی داخل ہوگئی کہ وہ زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے لگا اور دین سے پھرگیا، اللہ تعالیٰ نے اُسے پوری دولت کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا، اس کے دھنسنے سے پہلے بہت سے لوگ اس کی دولت پر رال ٹپکارہے تھے؛ مگر جب معلوم ہوا کہ وہ عذاب میں گرفتار ہوگیا تو لوگوں نے کہا: توبہ توبہ، دنیا کوئی چیز نہیں ، مال ودولت سب فانی ہیں ، باقی صرف اللہ کی ذات ہے اور آخرت کا ثواب سب سے بہتر ہے اور وہ ایمان اور عمل صالح پر جمنے کے بعد ہی نصیب ہوگا۔ (قصص:۷۹-۸۰)
ایمان کے لیے نبیوں کی فکر
دنیا میں اللہ کا پیغام نبیوں نے پہنچایا ہے، خود اس پیغام پر ایمان لائے اور عمل کرکے دوسروں کو بتایا، لوگوں کو ایمان کی دعوت دی، ماننے والوں کو جنت کی خوش خبری دی اورنہ ماننے والوں کو جہنم سے ڈرایا، اس دنیا میں نبیوں کے علاوہ کسی کے ایمان کے باقی رہنے کی کوئی گارنٹی نہیں ، پھربھی انبیائے کرامؑ نے ایمان کی فکر کی، ایمان کے ضائع ہونے سے ڈرنے اور ڈرتے رہنے کی تلقین فرمائی۔
حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہما السلام نے اپنی اولاد کو ایمان پر جمے رہنے اور ایمان پر ہی مرنے کی وصیت فرمائی:
وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیمُ بَنِیہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللَّہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّینَ فَلا تَمُوتُنَّ إِلّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (بقرہ:۱۳۲)
ترجمہ: اور اسی بات کی ابراہیم اور یعقوب نے اپنے بیٹوں کو تاکید کی کہ اے میرے بیٹو! یقینا اللہ نے تمہارے لیے اس دین کو چن دیا ہے؛ لہٰذا ہرگز نہ مرنا؛ مگر اس حالت میں کہ تم مسلمان رہو!
حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد سے ایمان پر باقی رہنے کا وعدہ لیا تھا، انھیں فکرتھی کہ میں تو مسلمان ہوں ، زندہ ہوں تو اولاد کی نگرانی کررہا ہوں ؛ لیکن چوں کہ نبیوں کی اولاد کے ایمان کی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ وہ ایمان پر باقی رہے گی یا نہیں ؟ اس لیے انھوں نے وعدہ لیا، جب سب نے مسلمان رہنے کا اقرار کیا اور ان کو اطمینان دلایا تب اُن کی پریشانی دور ہوئی، آیت ملاحظہ ہو!
أَمْ کُنْتُمْ شُہَدَائَ إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیہِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِی قَالُوا نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ آبَائِکَ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ (بقرہ:۱۳۳)
ترجمہ: کیاتم موجود تھے جب یعقوب کو موت آئی؟ جب انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہا: تم میرے بعد کس کی بندگی کروگے؟ انھوں نے کہا: ہم آپ کے اور آپ کے باپ دادا ابراہیم، اسماعیل اوراسحاق کے معبود کی بندگی کریں گے جو ایک معبود ہے اور ہم اُسی کے فرماں بردار ہیں ۔
اور حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی:
تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَاَلْحِقْنِي بالصالحین (یوسف:۱۰۱)
ترجمہ: مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں موت دیجیے! اور نیک لوگوں سے ملا دیجیے!
اوپر کی تینوں آیتوں کو بار بار پڑھیے کہ انبیائے کرام کو ایمان کی کتنی فکر تھی کہ وہ اپنے ایمان اور اپنی اولاد کے ایمان کے لیے بڑے فکرمند تھے، ایمان کی حالت میں جینا اور ایمان کی حالت میں مرنا چاہتے تھے اور ایمان کی دولت کو اپنی نسل اور آنے والی اولاد میں باقی رکھنا چاہتے تھے؛ اس لیے ہم مسلمانوں کو سب سے زیادہ ایمان کی فکر ہونی چاہیے، ایمان کے ساتھ ہی دنیا اچھی ہے اگر ایمان نہ ہوتو دنیا کی کوئی چیز اچھی نہیں ، ہمیں ہمیشہ چوکنّا رہنا چاہیے اور ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ایمان ضائع نہ ہوجائے، خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ ایمان چلا جائے اور ہمیں پتہ بھی نہ چلے، حدیث شریف میں ہے کہ ایمان کے لیے مؤمن فکر مند رہتا ہے اور منافق بے فکر رہتا ہے (بخاری ۱/۲۱۹)
ایمان بچانے کی فکر انبیائے کرامؑ کواسی لیے تھی کہ
ایمان کا باقی رہنا ہی جہنم سے بچنے کا ذریعہ ہے، دنیا تو بس دھوکے کا سامان ہے:
فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا إِلّا مَتَاعُ الْغُرُورِ۔ (آل عمران:۱۸۵)
ترجمہ: چنانچہ جو دوزخ سے دور رکھاگیا اور جنت میں داخل کیاگیا تو وہ کامیاب ہوچکا اور دنیوی زندگی بس دھوکے کا سامان ہے۔
ایمان کے لیے دعائے نبوی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایمان ویقین کی دعا مانگتے اور کفر وارتداد سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے، ذیل میں دعائیں ذکر کی جاتی ہیں :
۱- اللّٰہُمَّ أعْطِني إیمانًا صَادِقًا ویَقینًا لیس بعدَہٗ کُفرٌ۔ (صحیح ابن خزیمہ، حدیث:۱۱۱۹)
اے اللہ! مجھے ایسا سچا ایمان اوریقین عطا فرمائیے جس کے بعد کفر(وارتداد) نہ ہو!
۲- اَللّٰہُمَّ إني أَعُوْذُبِکَ مِنَ الکُفْرِ۔ (نسائی:۱۳۴۷)
اے اللہ! میں کفر (وارتداد) سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں ۔
ہمیں بھی اپنے لیے اپنی اولاد اور امت مسلمہ کے لیے سچے ایمان کی دعا کرنی چاہیے اور کفر وارتداد سے اللہ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے!
۳- یا مُقَلِّبَ القلوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلٰی دِیْنِکَ۔ (مشکوٰۃ)
اے دلوں کو الٹنے پلٹنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جمادیجیے!
ہندوستانیوں کی قوتِ ایمانی
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں نے اپنے خون بہائے ہیں ، جانیں دی ہیں ، تختۂ دار کو چوما ہے؛ تب جاکر یہ ہندوستان آزاد ہوا ہے؛ لیکن آج یہ فرقہ پرست مسلمانوں کی قربانیوں کی کوئی قدر نہیں کررہے ہیں اور انھیں تاریخ کے صفحات سے کھرچ کر ختم کردینا چاہتے ہیں ؛ غرض یہ کہ اگرایمان کی مضبوطی نہ ہوتی تو یہ ملک آزاد نہ ہوتا، اس وقت لوگوں کو عیسائیت کی دعوت دی جاتی تھی کہ اگر عیسائی بن جائو تو جان بچ جائے گی؛ مگر کسی نے اسلام کو نہیں چھوڑا۔
سرخیل مجاہد آزادی شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندیؒ اپنے شاگرد حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھیؒ سے فرمارہے تھے کہ ہم ہندوستانیوں کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ پھانسی کے وقت بھی کوئی خوف زدہ نہیں ہورہا تھا، ان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں :
’’پھانسی گڑی ہوئی تھی اور ان ناکردہ مظلوموں کا پَرّا بندھا ہوا تھا (یعنی لائن لگی تھی) جن کو پھانسی کا حکم دیا جاچکا تھا، وہ لوگ آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ایک نعش کو اتارا جارہا ہے اور دوسرے زندہ کو چڑھایا جارہا ہے، اس طرح موت ان کی نظر کے سامنے تھی اور ان کو عین الیقین تھا کہ چند منٹ بعد میرا شمار مُردوں میں ہوا چاہتا ہے؛ بایں ہمہ کوئی جھوٹوں بھی ان کے متعلق ضعفِ ایمان کا یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ کسی بچہ نے بھی موت سے ڈرکر اسلام سے انحراف یا تبدیل مذہب کا خیال کیا ہو، باوجود قلتِ علم اور غلبۂ جہالت کے ان کا ایمان اتنا پختہ تھا کہ مرنا قبول تھا؛ مگر مذہب پر حرف آنا قبول نہ تھا۔‘‘ (تذکرہ الخلیل ص۱۶۸، بحوالہ کفروارتداد کا زمانہ اور امت مسلمہ کی بے حسی، ص۱۸۱)
قیامت کے قریب مسلمانوں کی آزمائش
ہم لوگ آج جو صورتِ حال دیکھ رہے ہیں ، اس کی پیش گوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کردی تھی کہ اخیرزمانے میں مسلمانوں کو ایمان پر رہنا بڑا مشکل ہوگا، ایمان پر باقی رہنا ایسا ہوگا جیسے ہاتھ میں انگارہ لینا، بہت سے لوگ صبح کو مسلمان رہیں گے اور شام کو کافر ہوجائیں گے جس طرح لوگ جُٹ کے جٹ ایمان میں داخل ہوے اسی طرح جٹ کے جٹ ایمان سے نکل بھی جائیں گے؛ یہاں تک کہ قیامت سے پہلے مسلمانوں کی بہت ساری جماعتیں مورتی پوجا کرنے لگیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں !ذیل میں چند حدیثیں ملاحظہ فرمائیں :
۱- حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
یأتي عَلی النَّاسِ زَمانٌ، اَلصَّابِرُ فِیْہِمْ علی دینہٖ کالقابِضِ عَلَی الجَمَرْ۔(ترمذی۲۲۶۰)
ترجمہ: مسلمانوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ان میں اپنے دین پر جمے رہنے والا انگارے کو پکڑنے والے کی طرح (پریشان) ہوگا۔
۲- حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بَادِرُوْا بالأعمال فِتَنًا، کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمْ، یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤمِنًا وَیُمْسِيْ کَافِرًا أوْ یُمْسِيْ مُؤمنًا وَیُصْبِحُ کَافِرًا، یَبِیْعُ دِیْنَہٗ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیا۔
ترجمہ: فتنوں کی وجہ سے نیکیاں جلدی جلدی کرو، (فتنے) تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح ہیں ؛ آدمی صبح کو مسلمان رہے گا اور شام کو کافر ہوجائے گا یا شام کو مسلمان رہے گا اور صبح کو کافر ہوجائے گا، وہ اپنے دین کو دنیا کے سامان کے بدلے بیچے گا۔
۳- ایک موقع سے حضرت جابرؓ روتے ہوے فرمانے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ لوگ اللہ کے دین میں جُٹ کے جٹ داخل ہوے ہیں ؛ لیکن آگے (ایسازمانہ آئے گا کہ لوگ) جٹ کے جٹ اسلام سے نکلیں گے۔ (مسنداحمد ۳/۳۴۳)
برصغیر کے مسلمانوں کا سنگین مسئلہ
حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندویؒ ہندوستان میں ارتداد کے مسئلے کو سنگین مسئلہ سمجھتے تھے اور بار بار اس کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرتے تھے، ایک موقع سے انھوں نے فرمایا:
’’برصغیر کے مسلمانوں کا اس وقت میرے نزدیک سب سے اہم ترین مسئلہ جس کو وہ خود مسئلہ نہیں سمجھ رہے ہیں اور اس کی سنگینی و ہولناکی کا خود ان کو اندازہ نہیں ہے، وہ نئی نسل میں بڑھتے فکری ارتداد کاہے، میری گناہ گار آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اگر اس کی نزاکت کا امت کو احساس نہیں ہوا تو یہ تہذیبی وفکری ارتداد امت کو اندر سے کھوکھلا کرکے رکھ دے گا اور اس ملک میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کچھ دنوں کے بعد نام کی مسلمان رہ جائے گی اور غیرشعوری طور پر وہ بتدریج ایمان وتوحید کی نعمت سے محروم ہوجائے گی۔‘‘ (فکر وخبر بھٹکل)
ارتداد کی صورتیں
عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرتد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مسلمان یہودی ہوجائے، عیسائی ہوجائے، یا مندر میں جائے، بھجن گائے، پوجا پاٹ کرے، گھنٹی بجائے اور بتوں کو سجدہ کرے؛ حالاں کہ ایسی بات نہیں ، آدمی روزہ نماز کے ساتھ بھی مرتد ہوسکتا ہے، قرآن کی تلاوت کے ساتھ بھی مرتد ہوسکتا ہے، حدیث شریف کے پڑھنے پڑھانے کے ساتھ بھی مرتد ہوسکتا ہے؛ جب کہ وہ اللہ کو ایک نہ مان رہا ہو، اللہ کے حکم کو نہ مان رہا ہو، قرآن کا مذاق اڑا رہا ہو، سنت نبوی کو حقارت سے دیکھ رہا ہو، متواتر احکام کا انکار کررہا ہو، مثلاً زکوٰۃ کا انکار کرتا ہو جناب محمد رسول اللہ … کو آخری نبی نہ مان رہا ہو، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے اترنے کا انکار کررہا ہو، آج قادیانی اس کی مثال ہیں ، شکیل بن حنیف اور ان کے ماننے والے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں ، یہ لوگ قرآن وسنت کو پڑھتے پڑھاتے ہیں ، روزہ نماز کرتے ہیں ، زکوٰۃ بھی ادا کرتے ہیں پھر بھی وہ اسلام میں داخل نہیں ۔
آج کے جدید تعلیم یافتہ لوگ بھی خوب گمراہ ہورہے ہیں ، ان کی گمراہی کو ’’فکری ارتداد‘‘ کا نام دیا جانا بہتر ہے:
(۱) کوئی عورتوں کو دیے ہوئے اسلامی حقوق کو کم سمجھ رہا ہے۔
(۲) یا عورتوں کی حق تلفی تصور کررہا ہے۔
(۳) کوئی میراث میں بعض صورتوں میں عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں آدھا دینے پر اعتراض کررہا ہے۔
(۴) کوئی عورتوں کو میراث دینے ہی کو غلط تصور کررہا ہے کہ جب اسلام میں ان کے ذمے خرچے نہیں ہیں تو ان کو میراث کیوں دی جارہی ہے؟
(۵) کوئی مردوں کو طلاق کا حق دیے جانے پر اعتراض کررہا ہے۔
(۶) کوئی ازواجِ مطہرات پر اعتراض کی تائید کررہا ہے۔
(۷) کوئی صحابۂ کرامؓ پر کیچڑاچھال رہا ہے۔
(۸) کوئی اسلامی سزائوں کو وحشیانہ سمجھ رہاہے۔
(۹) کوئی مرد کو چار شادیوں کے حق دینے پر اعتراض کررہا ہے۔
(۱۰) کوئی روزہ کو بے فائدہ سمجھتا ہے اور کوئی نماز کو بے کار تھکنے سے تعبیر کرتا ہے۔
یہ سب لوگ گمراہی اور ارتداد کا شکار ہیں ، ہمیں ان سب کے ایمان کی فکر کرنی ہے، ان سب کو خالص اسلام کی طرف بلانا ہے، بہ ظاہر مسلمان کی صورت میں مرتد کی مثال حدیث شریف میں آئی ہے کہ اخیرزمانے میں لوگ نماز روزہ کریں گے، حج کریں گے؛ مگر مرتد ہوں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
سَیَأتي عَلٰی أُمَّتِيْ زمانٌ یُصَلِّيْ فِيْ الْمَسْجِدِ، مِنْہُمْ ألفُ رَجُلٍ وزیادۃٌ لا یکونُ فِیْہِمْ مؤمنٌ۔ (دیلمی ۳۲۶۵)
ترجمہ: ’’آگے میری امت پر ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ مسجد میں نماز پڑھیں گے، ان میں سے ہزار آدمی اور اس سے زیادہ آدمی ہوں گے (مگر) ان میں کوئی ایمان والا نہ ہوگا۔‘‘
ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن عمر بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ حج کررہے ہوں گے، نماز روزہ کررہے ہوں گے؛ لیکن ان میں کوئی ایمان والا نہ ہوگا۔ (اتحاف الجماعۃ ۲/۶۸)
غیروں کی خواہش ہے کہ تم بھی غیرمسلم ہوجائو!
آج عالمی پیمانے پر غیرمسلمین مسلمانوں کو اسلام سے پھیرنا چاہ رہے ہیں وہ اپنے کفر پر جمے ہوے ہیں ، وہ کیا اسلام قبول کریں گے؛ البتہ وہ اپنے جیسا سارے مسلمانوں کو بنانا چاہ رہے ہیں ، وہ برابر اسی کوشش میں لگے ہیں ۔ قرآن مجید نے اس کی صراحت فرمائی ہے:
۱- وَدُّوا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُونُون سوائً (نساء:۸۹)
ترجمہ: وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں (اسی طرح) تم بھی کافر ہوکر برابر ہوجائو۔
۲- وَلَا یَزَالُونَ یُقَاتِلُونَکُمْ حَتّی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ إنِ اسْتَطَاعُوْا۔ (بقرہ:۲۱۷)
ترجمہ: وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیردیں اگر ان کا بس چلے۔
۳- وَدَّ کثیرٌ مِنْ أہلِ الکتابِ لَوْ یَرُدُّونَکُمْ مِنْ بَعْدِ إیمانِکُمْ کفّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أنْفُسِہِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الحقُّ۔ (بقرہ:۱۰۹)
ترجمہ: بہت سے اہل کتاب تو اپنے حسد سے حق ظاہر ہونے کے بعد بھی یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح سے تمہیں ایمان لانے کے بعد پھر کفر کی طرف لوٹاکر لے جائیں ۔
۴- وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الیَہُوْدُ وَلاَ النَّصَاریٰ حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ۔ (بقرہ:۱۲۰)
ترجمہ: اور تم سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی؛ یہاں تک کہ تم ان کے مذہب پر چلنے لگو!
مسلمانوں کا جواب
سارے غیرمسلمین مسلمانوں کو اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں ، یہود ونصاریٰ اپنے مذہب کی پیروی کرانا چاہتے ہیں اور دوسرے مشرکین اپنے مذہب کی تو اس کا کیا جواب ہونا چاہیے؟
اللہ تعالیٰ نے خود اس کا جواب مذکورہ بالا آیت کے بعد دیا ہے:
قل: إنَّ ہُدی اللّٰہِ ہُو الہدیٰ (بقرہ:۱۲۰)
ترجمہ: (ان سب سے) کہہ دیجیے کہ جو راستہ اللہ دکھائے وہی راستہ ہے۔
یعنی سارے مذاہب غلط اور منسوخ ہیں اُن کے یہاں اللہ تعالیٰ کی ہدایت موجود نہیں ، صرف قرآن میں اللہ کی ہدایت ہے؛ اس لیے اسی کی پیروی کی جاسکے گی، کسی اور کی پیروی گمراہی ہوگی۔
غیرمسلم کی بات ماننے والا جہنم میں
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی شرما حضوری میں سامنے والے کی بات مان لیتا ہے؛ اس لیے اس کی وضاحت قرآن نے کردی ہے کہ اگر کوئی مسلمان دوسرے مذہب کو مانے گا اور دوسرے مذہب کے ماننے والوں کی ہاں میں ہاں ملائے گا تو اس کی خیر نہیں ؛ اس لیے کہ اسلام کی قطعیت کھل کر سامنے آچکی ہے، اگر کوئی اسلام کو چھوڑے گا تو آخرت میں اس کا کوئی یارومددگار نہ ہوگا:
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أہْوائَہُمْ بَعْدَ الذي جَائَکَ مِنَ العِلْمِ، مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَليٍ وَّلا نصیر (بقرہ:۱۲۰)
ترجمہ: اور (اے مخاطب!) اگر تونے ان کی خواہشوں کی پیروی کی اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے (تو) اللہ سے (بچانے والا) تیرا نہ کوئی یار ہوگا اور نہ مددگار!
مکمل اسلام کو مانو!
ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ ہم اپنے کو مسلمان بھی کہیں اور اسلام کے خلاف ہونے والے شبہات کو بھی ٹھنڈے پیٹوں قبول کریں ، قرآن پر شبہات کو اپنے دلوں میں رکھیں ، انبیاء اور صحابہ پر اعتراض کرنے والوں کا ساتھ دیں اور ’’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘ والا تصور رکھیں ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے پورے اسلام میں داخل ہونے کا حکم فرمایا ہے، یکسو ہوکر اللہ والے ہوجائیں ، یہی مطلوب ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
یَـٰٓأَیُّہَا لَّذِینَ ئَامَنُواْ دْخُلُواْ فِی لسِّلْمِ کَآفَّۃ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ الشَّیْطَانِ۔ (بقرہ:۲۰۸)
ترجمہ: اے وہ لوگو جو (اسلام کو) مان چکے ہو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجائو! اور شیطانوں کے قدموں پر نہ چلو!
اسلام سے پھرجانے والا اصل کافر سے بدتر
ایک ہے اسلام قبول نہ کرنا، یہ بہت بڑی محرومی کی بات ہے؛ اس لیے کہ کلمہ کے بغیر انسان کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہوتا، چاہے وہ خیرات میں اپنی پوری دولت دے دے تب بھی اس کو آخرت میں کچھ نہیں ملے گا، جو ملنا ہے اسی دنیا میں مل جائے گا، آخرت کی کامیابی کے لیے ایمان شرط ہے، کافر محروم ہوتا ہے؛ مگر ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرنا، اس سے زیادہ بُرا ہے۔
’’الردۃُ: ہِيَ أَفْحَشُ أنْوَاعِ الکفرِ ویُحْبَطُ بِہَا العَمَلُ۔ (إعانۃُ الطالبین ۴/۱۴۹)
اسلام سے پھرجانا، کفر کی قسموں میں سب سے بُری قسم ہے اور اس کی وجہ سے نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں ۔
اسلام سے پھر جانے والوں کے چہرے قیامت کے دن کالے کلوٹے ہوں گے، انھیں ہمیشہ کے لیے جہنم کی سزا ہوگی، قرآنِ پاک میں اس کی وضاحت ہے:
فأمَّا الذین اسْوَدَّتْ وُجوہُہُمْ، أکَفَرْتُم بَعْدَ إیمانِکم فَذُوْقُوا العَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُون (آل عمران:۱۰۶)
ترجمہ: تو رہے وہ لوگ جن کے چہرے کالے ہوں گے، (ان سے پوچھا جائے گا:) کیا تم نے ایمان کے بعد کفر کیا تھا؟ تو عذاب چکھو! اس وجہ سے کہ تم (اسلام کا) انکار کرتے تھے۔
اسلام سے پھرنے والا جہنم میں
اسلام سے پھرنے والا بدبخت ہوجاتا ہے، اس کی ساری نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں ، دنیا میں کیا ہوا کوئی اچھا عمل اُسے کام نہیں آئے گا، نہ تومرتد ہونے سے پہلے کی نیکی کام آئے گی اورنہ ہی مرتد ہونے کے بعد کی نیکی کام آئے گی؛ بلکہ وہ دیکھنے میں ہی نیکی ہوگی حقیقت میں نیکی نہیں ہوسکتی؛ اس لیے کہ نیکی وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نیک کہہ دیں اور قبول فرمالیں !
مرتد جہنم میں جائے گا، اس کی صراحت بھی آیت کریمہ میں ہے:
وَمَنْ یَرْتَدِدْ مِنکُمْ عَن دِینِہٖ فَیَمُتْ وَہُوَ کَافِرٌ فَأُوْلَـٰٓئِکَ حَبِطَتْ أَعْمَٰلُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَأُوْلَـٰٓئِکَ أَصْحَٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیہَا خَٰلِدُونَ۔(بقرہ:۲۱۷)
ترجمہ: اور تم میں سے جو اپنے دین سے پھر جائے پھر کافر ہی مرجائے تو یہی وہ لوگ ہیں کہ ان کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں وہ اُسی میں ہمیشہ رہیں گے۔
اسلام سے پھرنے والے کی توبہ
اگر کوئی مسلمان اپنی کوتاہی اور نادانی سے اسلام سے پھر جائے، یا اسلام کے کسی حکم کا انکار کربیٹھے، جس سے ایمان چلاجاتا ہے، پھر وہ توبہ کرکے اسلام میں دوبارہ آنا چاہے تو اللہ کا دروازہ اس کے لیے کھلا ہے وہ توبہ کرکے پھر اسلام میں داخل ہوجائے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
توبہ قبول کرنا بس اللہ کے ذمے ہے ان لوگوں کی جو نادانی میں گناہ کربیٹھتے ہیں پھر جلدہی توبہ کرتے ہیں تو وہی لوگ ہیں جن کی توبہ اللہ قبول فرماتے ہیں ۔ (نسائی:۱۷)
اسبابِ ارتداد
اسلام کبھی معلوب نہیں ہوسکتا، اس کی حقانیت آفتاب کی طرح روشن ہے؛ البتہ عالمی منظرنامے پر مسلمان مغلوب نظر آرہے ہیں ، یہ ہمارے شامتِ اعمال کی وجہ سے ہے، اس کے اسباب اور عوامل پراگر غور کیا جائے اور تفصیل لکھی جائے تو بڑی طویل ہوجائے گی، ذیل میں چند اسباب اور وجوہ ذکر کیے جارہے ہیں ، جس سے آج کی حالتِ زار کو سمجھنے میں مدد ملے گی:
۱- سب سے پہلی وجہ اسلامی اقتدار کا زوال ہے، ’’عثمانیہ حکومت‘‘ کے زوال کے بعد سے اب تک مسلمان مظلوم ومقہور ہیں اور ان کو دبانے کی عالمی کوششیں ہوتی رہی ہیں ، آج کی عالمی طاقتیں مسلمانوں کے برسرِ اقتدار آنے سے خوف زدہ ہیں ؛ اس لیے وہ مختلف مسائل اور مصائب میں مسلمانوں کو مبتلاکرکے اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔
یہودی سازش اور عیسائی مشنریاں سب سے آگے ہیں ،یہ سب مسلمانوں کواصل دین سے پھیرنا چاہتی ہیں ، چرچ کے تحت چلنے والے ’’این جی اوز‘‘ کی سرگرمیاں بھی مسلمانوں کو مرتد بنانے کی کوششوں میں پیش پیش ہیں ، وہ ایک طرف مسلمانوں کو کھلے طور پر عیسائی بنانے کی مہم چلارہے ہیں ، دوسری طرف وہ عام مسلمانوں کو فکری ارتداد کی طرف لے جارہے ہیں ۔ ان کی خواہش ہے کہ اگر مکمل نہ بدل سکے تو کم از کم قرآن وسنت میں شک وشبہ پیدا ہوجائے، جس سے اسلام بیزاری کی راہ ہموار ہوجائے، اس کے لیے وہ قرآن کو بدلنے کی مہم بھی چلارہے ہیں ، قرآن کے مقابلے میں شام کے بشارالاسد کی تیار کردہ ’’البرہان الحق‘‘ اسی کی کڑی ہے۔ بہت سے ممالک میں ارتداد کی لہرچل رہی ہے، مثلاً الجزائر، افریقہ، لبنان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش ان سب میں سرفہرست ہندوستان ہے۔ جہاں مختلف طریقوں سے لوگوں کو مذہب سے دور کیا جارہا ہے۔ تمل ناڈو، تلنگانہ، آندھرا پردیش، مہاراشٹرا، کشمیر اور یوپی سب ارتداد کی زد میں ہیں ۔ یہاں ’’قادیانی‘‘ بھی اسلامی لباس پہن کر اسلام سے پھیرنے کا کام کررہے ہیں ، ’’شکیل بن حنیف‘‘ کا فتنہ بھی قادیانی فتنہ کا نیا ایڈیشن ہے، اس کا مقصد بھی مرتد بنانا ہے، اس کے ماننے والے مسجد میں لمبی لمبی نمازیں پڑھتے ہیں ، سفید کرتا پاجامہ پہن کر ہاتھوں میں تسبیح رکھ کر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ بھی مسلمان ہیں ؛ حالاں کہ وہ اسلام سے خارج ہیں ، حدیث شریف میں نماز روزہ کرنے والے مرتد کا ذکر موجود ہے، یہ سب اسی کے مصداق ہیں ۔
۲- شدت پسند ہندو یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان سے جمہوریت مٹ جائے، اصول وقوانین ختم ہوجائیں ، ’’آئینِ ہند‘‘ کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اور پورا ملک فرقہ پرست کے ہاتھوں کا کھلونا بن جائے، اس کے لیے وہ کوششیں کررہے ہیں ، اسلام کے مختلف احکامات پر اعتراض کرتے ہیں ، قرآن کی آیتوں پر اعتراض کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ پر اعتراض کرتے ہیں ،ازواجِ مطہرات کو نشانہ بناتے ہیں ، محمد بن قاسم اور اورنگ زیب عالم گیر کے کارناموں میں عیوب نکالتے ہیں ، جمہوریت پسند لیڈران پر تنقید کرتے ہیں ؛ تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں اور مسلمان اسلام کے تئیں شکوک وشبہات میں پڑکر پہلے فکری ارتداد میں مبتلا ہوں ، اسلام سے نفرت کریں پھر اسلام کو چھوڑدیں ۔
مسلمان لڑکیوں کو مرتد بنانے کی سازش بھی یہی لوگ کررہے ہیں ، آر، ایس، ایس سے وابستہ ’’ہندوجاگرن منچ‘‘ نے سیکڑوں مسلمان لڑکیوں کو ہندو گھرانوں کی بہو بنانے کا ہدف بنا رکھا ہے اور مسلم لڑکیوں سے شادی کرنے پر انعامات رکھ رکھے ہیں ۔ (قومی آواز بیورو ۲۹؍نومبر ۲۰۱۷ء)
مسلمانوں کو اسلام سے ہٹانے کی سازش کے لیے جو تدبیریں کی جارہی ہیں ان میں سے ’’وندے ماترم‘‘ کو اسکولوں میں لازم کرنا ہے، ’’شری رام‘‘ کے نعرے لگوانا اور اس کے لیے مجبور کرنا ہے، ’’این، آر، سی اور سی، اے، اے‘‘ بھی اسی کی ایک کڑی ہے اور ’’گھرواپسی‘‘ نام کی تحریک تو کھلے طور پر اسلام سے پھیرنے کی تحریک ہے؛ حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو کلمہ پڑھنے والوں کے لیے بنایا ہے اور جب تک کلمہ پڑھنے والے رہیں گے تبھی تک یہ دنیا رہے گی اور ہم سب کے باوا آدمؑ مسلمان تھے۔ اس دنیا میں رہنے والا جب تک آدم علیہ السلام کے مذہب پر ہے تب تک وہ اپنے ہی گھر میں ہے واپسی کی ضرورت اس کو ہے، جس نے آدم کے گھر کو چھوڑدیا ہے۔
آدم علیہ السلام سے نوح علیہ السلام تک سارے لوگ مسلمان رہے اور انسان کا اصل مذہب اسلام ہی ہے اس لیے گھرواپسی کا صحیح مطلب یہ ہونا چاہیے کہ سارے انسان دوسرے مذاہب کو چھوڑ کر اسلام کے سائے میں آجائیں اور اپنے پیدا کرنے والے اللہ کی عبادت کرکے اور اس کے قانون پر عمل کرکے زندگی کو پرسکون بنائیں اور مرنے کے بعد جنت کے مستحق ہوجائیں ؛ تاکہ مرنے کے بعد افسوس نہ ہوکہ کاش اسلام کو مانا ہوتا تو جہنم کی سزا نہ ہوتی!
۳- اسکولوں ، کالجوں میں ارتداد
علم سیکھنے سکھانے کا کوئی انکار نہیں کرتا؛ مگر کوئی مسلمان یہ نہیں چاہتا کہ علم حاصل کرنے میں ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھے، جو علم ایمان کے لیے خطرہ ہو وہ لعنت ہے، ہندوستان میں بہت سے اسکول ہیں ، جہاں اسباق کے بعد پانچ منٹ ’’اشلوک‘‘ پڑھایا جاتا ہے اور اسکول انتظامیہ اس پر اصرار کرتی ہے، مسلمان بچوں کو الگ کرنے کے مطالبے کو قبول نہیں کرتی، بعض اسکولوں میں ’’وندے ماترم‘‘ ضروری ہے، وہاں بھی مسلمان بچوں کو الگ رکھنے کی بات مانی نہیں جاتی، بعض اسکولوں میں ’’سرسوتی‘‘ کی مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بچوں کو کچھ پڑھایا جاتا ہے۔ اس مورتی کو تعلیم کی دیوی کہا جاتا ہے۔ اس پر پھول چڑھائے جاتے ہیں اور پانی بھی ۔ بعض اسکولوں میں ’’سوریہ نمسکار‘‘ کرایا جاتا ہے، یہ سب اعمال شرک ہیں ، ان سے بندہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، یہ صریح ارتداد ہے، ایسے اسکولوں میں تعلیم دلانا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟
اور بعض اسکولوں میں اسلام کے خلاف مواد داخل نصاب ہے، شرکیہ باتیں کتابوں میں جبراً پڑھائی جاتی ہیں ؛ جب کہ جمہوری ملک ہے یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر رہنے کی اجازت ہے؛ اس لیے کوئی زور زبردستی نہیں ہونی چاہیے!
بعض اسکولوں میں قرآن کی آیات کے خلاف بچوں کا ذہن بنایا جاتا ہے، خصوصاً جہاد کی آیتوں کو نکالنے کی بات کی جاتی ہے؛ جب کہ کوئی مسلمان کسی مذہب کی کتاب کے خلاف کچھ نہیں کہتا، اسلام کی یہی تعلیم ہے کہ تم کسی کے معبود کو بُرا نہ کہو کہ وہ بدلے میں اللہ کو بُرا کہنے لگیں :
لَا تَسُبُّوا الّذِیْنَ یَدْعُونَ مِنْ دونِ اللّٰہ فَیَسُبُّوْا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ۔ (انعام:۱۰۸)
ترجمہ: تم ان لوگوں کو گالی نہ دو جو اللہ کے علاوہ کی پوجا کرتے ہیں کہ وہ نہ جاننے کی وجہ سے دشمنی میں اللہ کو گالی دے بیٹھیں ۔
۴- مفلسی کی وجہ سے ارتداد
آج بہت سے علاقوں میں مسلمان غریب ونادار ہیں ، ان کی مفلسی نے انھیں پریشان کررکھا ہے؛ اس لیے بعض عیسائی مشنریاں ان کو مال کا لالچ دے کر عیسائی بنالیتی ہیں ، مشرکین انھیں مشرک بنالیتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح کفر سے پناہ مانگی ہے اسی طرح فقروفاقے سے بھی پناہ مانگی ہے؛ اس لیے کہ بہت سی مرتبہ غریبی انسان کو کفر سے قریب کردیتی ہے۔
حدیث شریف میں آیا ہے: ’’کاد الفقرُ أن یکونَ کُفْرًا‘‘ (بیہقی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں دعاء بھی منقول ہے:
اَللّٰہُمَّ اِنّيْ أعُوْذُبِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ۔ (حصن حصین)
ترجمہ: اے اللہ! میں (اسلام کا) انکار کرنے اور محتاج ہونے سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں ۔
۵- عشق میں ارتداد
مخلوط تعلیم کی وجہ سے لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ رہتے ہیں ، اس پر سیکس کی تعلیم کا لزوم پٹرول میں آگ لگانے کا کام کرتی ہے، آن لائن تعلیم نے بھی تعلقات کی پاکیزگی ختم کردی ہے۔
بے پردگی کی وجہ سے بھی گندے تعلقات ہوجاتے ہیں معاشقے میں ذات پات کی کوئی قید نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے مسلم اور غیرمسلم لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کے مذہب کو محض شادی کے لیے قبول کرلیتے ہیں ، ان میں نہ تو مسلمان ہونے والوں کو اسلام سے کوئی تعلق ہوتا ہے اورنہ غیرمسلم ہونے والوں کو؛ دونوں مذہب بے زار ہوتے ہیں ، مسلمانوں کو اپنی اولاد پر کڑی نظر رکھنی ضروری ہے؛ تاکہ ارتداد سے بچ سکیں ۔
خیرالقرون میں مرتدین کا مقابلہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام ؓکے زمانے میں بھی ارتداد کی ہوا چلی تھی، وہ بھی اللہ کی مصلحت تھی، اللہ تعالیٰ نے امت کے لیے ایسے موقع سے رسول اللہ … اور صحابۂ کرامؓ کا نمونہ دکھانا چاہا؛ تاکہ اگر بعد میں بھی ارتداد کی لہر چلے تواس کا مقابلہ اسی انداز سے کیا جاسکے۔
(الف) کچھ لوگوں نے اسلام سے پھر کردوبارہ بتوں کی پوجا شروع کردی تھی، اہل کتاب منافقین کی پلاننگ بھی تھی کہ ایمان میں جھوٹ موٹ صبح کو داخل ہوجائو اور شام کو پھر جائو اور پوچھنے پر کہہ دو کہ ہم نے غور کیا؛ مگر ہمیں اسلام سمجھ میں نہیں آیا، اس طرح جو لوگ پکے مسلمان ہیں ان کا ایمان کمزور ہوجائے گا؛ لیکن ان کی یہ سازش چلی نہیں اللہ تعالیٰ نے پردہ فاش کردیا:
وَقَالَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْ أَہْلِ الْکِتَٰبِ ئَامِنُواْ بِالَّذِیٓ أُنزِلَ عَلَی الَّذِینَ ئَامَنُواْ وَجْہَ النَّہَارِ وَاکْفُرُوٓاْ ئَاخِرَہٗ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ۔ (آل عمران:۷۲)
ترجمہ: اور اہل کتاب میں سے ایک جماعت نے کہا: جو کچھ مسلمانوں پر اترا ہے اس پر صبح کو ایمان لائو اور شام کو اس کا انکار کردو، شاید کہ وہ پھر جائیں !
ایک عیسائی منافقت سے ایمان لایا اور سول اللہ … سے قریب ہوگیا؛ لیکن چنددنوں بعد وہ مرتد ہوگیا، عیسائیت میں داخل ہوگیا، پھر بتوں کی پوجا کرنے لگا، جب وہ مرا تو لوگوں نے قبر میں دفن کیا؛ مگر زمین نے قبول نہیں کیا، باہر کردیا، لوگوں نے دوبارہ دفن کیا، پھر باہر کردیاگیا، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں !
(ب) یمامہ کے کچھ لوگوں نے مسیلمہ کذاب کی پیروی شروع کردی، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی نبوت میں شریک کرلینے کا مطالبہ کیا، جسے آپ نے مسترد کردیا؛ لیکن اس نے یمامہ میں چالیس ہزار لوگوں کو ہم نوا بنالیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت میں بغاوت پر اترآیا اورنہ ماننے والوں کو قتل کرنا شروع کردیا، خلیفۂ اول کو چیلنج دیا توآپ نے پہلے حضرت عکرمہ بن ابی جہل کو یمامہ بھیجا؛ لیکن کامیابی نہ ملی؛ بالآخر حضرت خالد بن ولیدؓ نے تیرہ ہزار کے لشکر کے ساتھ یمامہ کا رخ کیا اور گھمسان کی جنگ ہوئی، حضرت وحشی بن حربؓ نے مسیلمہ کو ایسا نیزہ مارا کہ وہ ڈھیر ہوگیا اور اس فتنے کا خاتمہ ہوا۔
(ج) صنعا (یمن) کے اسود عنسی نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی کوشش فرمائی کہ وہ ایمان لے آئے؛ مگر وہ شعبدہ بازی کے ساتھ مسلمانوں کو گمراہ کرتا رہا تو آپ … نے یمن کے مسلمانوں کے نام فتنہ کی سرکوبی کے لیے خط بھیجا؛ بالآخر فیروزنامی ایک بہادر شخصیت نے اس کا کام تمام کردیا اور اس کے مرنے کی اطلاع اس وقت ہوئی جب حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفہ بنائے جاچکے تھے۔
(د) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرماجانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں کچھ لوگوں نے زکوٰۃ کا انکار کیا، روزہ نماز کا انکار نہیں کیا، کلمہ کا انکار نہیں کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے ان لوگوں سے جہاد کا ارادہ فرمایا تو حضرت عمرؓ نے اعتراض کیا کہ کیا آپ ان لوگوں سے جہاد کریں گے جو کلمہ پڑھتے ہیں ؟ تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا کہ ہاں ! جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا اس سے میں جہاد کروں گا؛ اس لیے کہ وہ بھی مرتد ہے۔
مذکورہ بالا واقعات سے معلوم ہوا کہ ارتداد کا مقابلہ کرنا مسلمانوں کے لیے بہت ضروری ہے، مرتد ہونے والا اگر کوئی اعتراض کرے تو اس کے اعتراض کو سناجائے گا اس کا جواب دیا جائے گا؛ اس لیے کہ اسلام مدلل مذہب ہے، اس میں داخل ہونے کے لیے کوئی زبردستی نہیں ، اسلام تلوار سے نہیں پھیلا ہے، اسلام کے کسی حکم میں کسی کو شبہ ہوتو اس شبہ کو دور کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مذہب کی آزادی ہے، یہاں مرتد کو قتل کرنے اور ان سے جہاد کرنے کی بات تو نہیں کہی جاسکتی؛ اس لیے کہ سزائوں کے نفاذ کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے؛ البتہ دلائل سے سمجھا جائے گا اور مسلمان بھائیوں کے فکری ارتداد کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی اور یہ مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری ہے۔ اس میں جمہوریت رکاوٹ نہیں ہے۔
ارتداد سے بچنے کی تدبیریں
اب سوال یہ ہے کہ آج ہندوستان کے موجودہ ماحول میں ہمیں فتنۂ ارتداد کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اپنے بھائیوں کو جہنم سے بچانے کی تدبیریں سوچنی چاہیے اور اس کے لیے مناسب اقدامات سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے؛ اگرچہ ہم تعداد میں کم ہیں ؛ مگر مایوس نہیں ہونا چاہیے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : بہت سی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آجاتی ہیں اور اللہ جمے رہنے والوں کے ساتھ ہیں ۔ (بقرہ:۲۴۹)
مسلمانوں کو ارتداد سے کیسے بچایا جائے؟ ان کے ایمان کی حفاظت کس طرح کی جائے؟ تو اس سلسلے میں چند صورتیں ذہن میں آرہی ہیں اللہ کرے کہ وہ مفید ثابت ہوجائیں :
۱- ارتداد کی عالمی اورملکی سازش کا جائزہ لیا جائے اور ممکن حد تک ہر طرح کی کوشش کی جائے؛ تاکہ مسلمان بھائیوں کا ایمان محفوظ رہے۔
۲- اہلِ وطن سے بحث ومباحثہ نہ کیا جائے، اس سے بات الجھتی ہے؛ نتیجہ ہاتھ نہیں آتا۔
۳- غریب مسلمانوں کے تعاون کا نظام بنایا جائے۔
۴- ایسے اسکول اور کالج سے بچا جائے جہاں نونہالانِ امت ارتداد سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
۵- مسلمان اپنے اسکول کھولیں اور پاکیزہ ماحول میں نونہالان کو تعلیم دیں ۔ مخلوط تعلیم سے بچا جائے، اسی طرح ’’مکاتب‘‘ کے قیام پر توجہ دی جائے، اگر مستقل مکاتب نہ قائم کرسکیں تو مساجد میں مکاتب کا نظام بنائیں !
۶- دینی تعلیم کے فروغ کی کوشش کی جائے، عقیدے سمجھائے جائیں ، عموماً عقیدہ نہ جاننے کی وجہ سے لوگ گمراہ ہوجاتے ہیں ۔
۷- مسلمانوں کے اندر دینی غیرت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، دین اسلام کی اہمیت کو سمجھایا جائے۔
۸- نماز کا اہتمام کیا جائے اور ایک دوسرے کو مسجد سے قریب کرنے کی ہرممکن کوشش ہو، ’’تبلیغی جماعت‘‘ کے احباب اس پر زیادہ توجہ رکھیں !
۹- اگر محسوس ہوکہ کوئی ایمان پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو اس سے دور رہا جائے، ایسوں کی صحبت ہرگز اختیار نہ کی جائے۔
۱۰- اپنی اولاد اور خاندان پر گہری نظر رکھی جائے! غلط صحبتوں سے بچایا جائے۔
۱۱- معاشرے میں پردے کا التزام کیا جائے؛ تاکہ گندے تعلقات نہ ہونے پائیں ، جو اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا سبب بنتے ہیں ۔
۱۲- اسلام پر ہونے والے اعتراضات نہ سنے جائیں ، عموماً موبائل پر بہت سے لوگ اسلام کے خلاف باتیں کرتے رہتے ہیں ، اُن کو نہ سنا جائے، صرف قابلِ اعتماد اور صحیح عقیدہ لوگوں کی باتیں سنی جائیں !
۱۳- علماء اعتراضات کا جواب تیار کریں اور ان کو شائع کریں ، اس کا ایک نظام بنایا جائے، اسلام کے خلاف اعتراضات جمع کیے جائیں پھر جواب تیار کرکے کئی زبانوں میں انھیں پھیلایا جائے؛ تاکہ شکوک وشبہات والوں کے لیے شفا کا ذریعہ ہو!
۱۴- مدارسِ اسلامیہ میں باقاعدہ دفاعِ اسلام کا نظام بنایا جائے!
۱۵- تعارفِ اسلام کے کتابچے تیار کیے جائیں اور وہ مسلمانوں تک پہنچائے جائیں اور غیروں کو بھی دیے جائیں !
۱۶- جمعہ کی تقریروں میں ایمان کی اہمیت اور اس کے عقیدے بیان کیے جائیں ۔
۱۷- جہاں ارتداد کا خطرہ ہو وہاں مبلغین بھیجے جائیں ، مساجد میں اس کا نظام مضبوط انداز میں بنایا جائے! اس کے لیے مساجد میں باصلاحیت فکرمند اماموں کا تقرر کیا جائے جو وقت پر کام آسکیں ، جن کے اندر تقریر کی صلاحیت ہو۔
۱۸- کفریہ الفاظ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے! اس لیے کہ ان الفاظ سے آدمی ایمان سے نکل جاتا ہے، یا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوجاتاہے اور ا ُسے پتہ بھی نہیں چلتا۔
۱۹- مختصرکورس تیار کیا جائے جس میں ایمانیات کی باتیں ہوں اسلام کا تعارف، اہمیت ، عقیدے، ارکانِ اسلام، دعائیں اور دیگر ضروری معلومات ہوں کہ اس کا پڑھنے والا، عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق اورمعاشرت سب کو سمجھ لے۔
۲۰- عوام اور علماء کے تعلقات کو مضبوط کیا جائے؛ ان کا قرب جتنا رہے اتنا ہی ارتداد سے بچ سکیں گے۔ صحبتِ صالحین کی ترغیب دی جائے، اس کے بڑے فائدے ہیں ۔
۲۱- کالجوں میں تعارفِ اسلام اور اسلام پر اعتراضات سے متعلق محاضرات کا نظام بنایا جائے۔
۲۲- اسکول اور کالج کی چھٹیوں کے موقع کو غنیمت جان کر طلبہ وطالبات کو دین سمجھانے کا نظام بنایا جائے! سنڈے کلاس کا نظام بنایا جائے۔
۲۳- چھوٹی ہجرت کی جائے، مثلاً جہاں غیرمسلمین زیادہ ہیں ، مسجدیں نہیں ہیں یا دور ہیں ، ان علاقوں کو چھوڑ کر کثیر مسلم علاقے میں رہائش اختیار کی جائے، اس کے بڑے فائدے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أنا بَریئٌ مِنْ کُلِّ مُسْلِمٍ یُقِیْمُ بَیْنَ أظْہُرِ المُشْرِکِینَ (ابوداؤد)
ترجمہ: میں ہراُس مسلمان سے بے تعلق ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتے ہیں ۔
لَا تُسَاکنوا المشرکینَ وَلَا تُجَامِعُوْہُمْ! فَمَنْ سَاکَنَہُمْ أو جَامَعَہُمْ فلیس مِنَّا۔ (ترمذی)
ترجمہ: مشرکین کے درمیان رہائش اختیار نہ کرو اور ان کے ساتھ جمع نہ رہو؛ اس لیے کہ جو ان کے ساتھ رہائش اختیار کرے گا یا اُن کے ساتھ جمع رہے گا تو وہ ہم (مسلمانوں ) میں سے نہیں ہے۔
۲۴- حفاظتِ اسلام کے لیے دعائوں کا اہتمام کیا جائے!
اَللّٰہُمَّ أرنا الحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتباعَہٗ وأرِنَا الباطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجتِنَابَہٗ!
٭ ٭ ٭
فتنوں کے دور میں ایمان کی حفاظت!
اللہ رب العز ت نے ہمیں انسا ن کی صور ت میں وجو د بخشا ، یہ اللہ کا انتہا ئی عظیم انعام ہے ، اللہ کی مخلو ق میں انس و جن ہی مستحقِ جزا ء و سزا ء ہیں؛ اس لیے کہ اللہ نے انسا ن کو قو تِ ارادہ عطا کیا، پھرعقل دی جس سے وہ خبیث وطیب میں تمیز کر سکے ، اپنے نفع و نقصا ن کو سمجھ سکے ، اور اسے ہدایت وضلا لت کے درمیا ن امتحا ن کے لیے چھوڑ دیا ، اس کی ہدایت کے لیے انبیا ء علیہم السلا م کو مبعو ث کیا ،جنہوں نے وحی کی روشنی میں ہدایت کی را ہیں بتائیں ، انبیا ء کے سلسلے کو احمد ِمصطفی محمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہائی جامع وحی ناز ل کی ، جس میں انسا ن کو اللہ سے مر بو ط رکھنے کی تعلیم ، اللہ کی مر ضیا ت کے مطابق قو ل و فعل کے لیے احکامِ فقہیہ کی تعلیم ، اخلاق کی درستگی کی لیے تزکیہٴ نفس کی تعلیم ، حقو ق العبا دکے لیے معاشر ت کی تعلیم ، اور کسب ِحلا ل کے لیے معیشت کی تعلیم بھی مکمل جامعیت کے ساتھ دی اسی طرح قیامت تک آ نے والے فتنو ں سے مطلع کیا گیا ، غرضیکہ ان تمام امور کی تعلیم دی گئی جو انسا ن کی دنیوی ضرو رت کو بہ حسن و خو بی پورا کر نے کے ساتھ ساتھ آ خر ت کی کا میا بی کی مکمل ضا من ہو ، جب تک امت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیما ت پر عمل کرتی رہی دنیوی کا میا بیا ں قدم بو سی کرتی رہیں؛ مگر جہاں امت نے تعلیمات ِنبویہ سے انحر ا ف کیا اور اپنی خواہشا ت کے مطا بق قرآ ن وحدیث کی باطل تاویلا ت کر نی شروع کردی تو اللہ نے اس کو ہرطرح کی دنیو ی پریشا نی میں مبتلا کر دیا ۔ قر آن کریم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا ﴿اَنْتُمُ الْأعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُوٴْمِنِیْن﴾”تم ہی سر بلند رہو گے اگر صفتِ ایمان کے ساتھ متصف رہے ۔“
ایک سنگین مسئلہ : مسلما نو ں کو بڑی سنجیدگی کے سا تھ اس مسئلہ پر غو ر وفکر کرنے کی ضرو رت ہے کہ مقصد ِحیات کیا ہے ؟ اور آج کا انسا ن مقصد ِحیا ت کو پس پشت ڈال کر کہاں جا رہا ہے ؟
لو گوں کا عجیب حا ل ہے ، زندگی ایسی گز ار رہے ہیں، جیسے مر نا ہی نہیں ہے۔ اور زندگی کا حساب دینا ہی نہیں ہے ؛ حالا نکہ نہ تو مو ت سے کوئی بچ سکتا ہے اور نہ حساب و کتا ب سے ۔ مغر ب نے ما دّیت یعنی دنیا پر ستی کو لو گو ں کے ذہن ودما غ پر ایسا سوار کردیاہے کہ دینی علم اور فکر آخرت میں رسو خ کے بغیر دنیاداری سے بچنا انتہائی دشو ار ہے ۔ اہل مغر ب نے دنیو ی تعلیم میں لو گوں کو ایسا مشغو ل کیا کہ دینی تعلیم کے لیے فرصت ہی نہیں بچی اور ٹیلی ویژن پر اخبار بینی، اسپور ٹ ، سیر یل، فلم ، ناچ ، گا نے اور مختلف پروگراموں میں ایسا مشغو ل کیا کہ دین کے لیے وقت ہی نہیں بچا ، نہ دین سیکھنے کا وقت ہے اور نہ اس پر عمل کر نے کی فرصت ۔
دنیوی تعلیمی نصاب میں مادی افکار کی زہرافشانی:
دنیوی تعلیمی نصاب میں ما دّی افکار کا زہر اور اس کے ایما ن سو ز اثرا ت ،افکار ، اعتقادات اور تہذیب و ثقا فت کو بھی شامل کیا اور خوا ہ مخواہ یہ ثابت کیا کہ ”مذہب “ انسان کانجی مسئلہ ہے، اجتما عی زندگی میں اس کی کوئی ضر ور ت نہیں؛بلکہ انسا ن کو نجی زندگی میں مذہب سے دور رکھنے کے لیے تعلیم دی کہ اسے اپنی زندگی گزا ر نے میں کسی خدائی پا بند ی کا لحا ظ کر نے کی ضرو ر ت نہیں۔ جو کچھ کر نا ہو سب دنیا ہی کے لیے کر و ، اپنی ہر چیز کو دنیا کی کا میا بی کے لیے قر با ن کردو ، اپنا مال، اپنی جا ن، اپنا وقت ، اپنی اولا د سب کو دنیا داری میں مشغو ل کر دو ۔ اللّٰھُمَّ احْفَظْنَا مِنْہ․
یہو د ونصا ریٰ نے یہ بھی ثابت کر نے کی کو شش کی کہ حقا ئق کا جو بھی ادراک ہو تا ہے وہ محض مشاہد ہ اور تجر بہ سے حا صل ہو تا ہے ۔اس کے لیے کسی ”نبی“ اور ”رسول ‘‘ کی ضرو ر ت نہیں، اور اسی خطرناک حر بہ کے ذریعہ عور ت کو آ زا دی دلا ئی ، جو آ زادی نہیں بر با دی کا با عث ہو ئی ۔ آج دنیا کے حالا ت اس پر گواہ ہیں اور جب عو ر ت گھر سے بے پر دہ ہو کر با ہر آ ئی تو زناکاری کے لیے لائسنس جاری ہو نے لگے ، مر د اور عورت کی رضا مندی کو زنا کی فہرست سے خارج کر دیا، جس کے سبب یور پ میں خا ندا نی نظا م جو تبا ہ ہو ا، وہ دنیا والو ں کے سامنے ہے ۔ گویا ”مَنْ حَفَرَ بِئْراً لأخِیْہِ وَقَعَ فِیْہ“ کا یو رپ صحیح مصدا ق ٹھہر ا ،جو اپنے بھا ئی کے لیے کو ا ں کھو دتا ہے خودہی اس میں گر تا ہے ۔
معاشر ے کے معصو م بچو ں کی نصابی کتا بو ں میں جنسیت کے مواد کو شا مل کیا اور العیاذ باللہ انسان کو یہ با و ر کرانے کی کوشش کی کہ یہ دنیا میں محض جنسی ضرو ر ت پور ی کرنے کے لیے ہے، اس طرح انسا ن کو اشرف المخلو قات کے درجہ سے اتا ر کر دیگر حیو ا نو ں کی صف میں لاکھڑ ا کردیا۔
یہ دشمنا نِ ایما ن نہیں؛ بلکہ دشمنا نِ انسا نیت ہیں۔ محض اپنے مفا د کی خا طرمسلما نو ں ہی کو نہیں؛ بلکہ پورے انسا نی معاشر ے کو عا لمگیر پیما نے پر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔
اپنے ایما ن کی حفا ظت یہ ہمار ا اولین تر جیح ہو نی چا ہیے؛ کیو نکہ اگر ایما ن سے ہا تھ دھو بیٹھے، تو نا قابلِ تلافی نقصان اٹھا نا پڑے گا ،جس پر مو ت کے بعد کف ِافسو س ملنے سے بھی کوئی فا ئدہ نہ ہو گا اور اس کے بعد عذابِ جہنم سے خلا صی کی بھی کوئی صور ت نہیں ہو گی، جیسا کہ قر آ ن کریم نے جابجا بیان کیا ہے ۔لہٰذ ا اس مسئلہ کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے مند رجہ ذیل ہدا یا ت پر عمل کیا جائے۔
(۱) علما ء ربا نین کی تحر یرو ں، تقریروں اور ان کی مجالس سے فتنہ کو جا نا جا ئے اور اس کے انجام پر نظر رکھی جا ئے اور اس سے بچنے کی مکمل تدا بیر اختیا ر کی جائے ۔مثلا ً ”قیا مت کی نشا نیاں“ (عمرا ن اشرف عثما نی ) ”عالمی یہودس تنظیمیں “ مفتی ابولبابہ صاحب دامت برکاتہم۔
(۲) دعاء کا اہتمام کیا جائے اور رو رو کر اللہ سے مانگا جائے۔
(۳) اسلامی فر ائض کا خا ص اہتمام کیا جائے مثلا ً نما ز ، رو ز ہ، حج ، زکوٰة اور ہر حالت میں ان فرائض کو ادا کرنے کی انتھک کوشش کی جا ئے ۔
(۴) مقصد ِحیا ت” اللہ کی عبا دت اورا س کی رضا مندی کا حصو ل“ ہر حالت میں پیش نظر رکھا جا ئے ۔ اور اخلا ص کے ساتھ اس پر عمل کر نے کی کوشش کی جا ئے جس سے اللہ راضی ہو تے ہیں، اورہراس قو ل و عمل سے بچاجائے ،جس سے اللہ نا را ض ہو تے ہوں۔
(۵) آخرت کی فکر اپنے اندر پیدا کی جائے اور اس کے لیے صالحین کی صحبت اختیار کی جائے اورایسی کتا بیں پڑھی جائیں، اور گھرمیں اس کی تعلیم کی جائے جو فکر آ خر ت پید ا کر تی ہوں ۔
(۶) اسلا م کے بار ے میں ادھو ری معلو ما ت رکھنے والو ں سے بچا جائے۔
(۷) دینی تعلیم حا صل کر نے کا نظا م بنا یا جا ئے، ہمار ی تمام پریشا نیو ں کا حل دینی تعلیم کے سیکھنے اور اس پر عمل کر نے میں ہے ، ہمارے بچے ، بڑے، عو رتیں ، جوا ن؛ سب کو خو ب اچھی طر ح اسلا می عقا ئد سے واقف ہو نا چا ہیے ، نما ز ، رو زہ ، زکوٰة اور حج کے احکام ہر ایک کے لیے ضروری ہیں، اور تا جر کے لیے تجا رت کے احکا م، جس کا جو پیشہ ہو اس پیشہ کے احکا م سے واقف ہو نا فر ض ہے ۔ یا تو صحیح العقیدہ علما ء سے براہِ راست سیکھاجائے یا گھر میں ا ن کی کتا بو ں کی تعلیم کی جائے، مثلاً اسلا م کی بنیا دی تعلیما ت (حضرت مو لا نا اشر ف علی تھا نوی)، تحفة المسلمین (مو لا نا عاشق الٰہی میرٹھی )، حیاةالمسلمین ، بہشتی زیو ر (حضرت مو لا نا اشر ف علی تھانوی)، دینی تعلیم کا رسالہ ، تعلیمات ِاسلام(مفتی کفا یة اللہ ) ، اسلا می عقیدے (مولانا عبد الحق ) ، وغیرہ مگر علما ء سے براہ ِراست سیکھنا زیا دہ بہتر ہے ۔
(۸) صالحین کی صحبت اختیار کی جائے اور ان کے سا منے اپنے باطنی احو ال رکھ کر علا ج کروا یا جائے اور تز کیہٴ نفس کی فکر کی جائے ، اس سے متعلق کتا بیں پڑھی جا ئیں ۔
(۹) اپنے بچو ں کی دینی تر بیت کی جائے اور فیشن پر ستی سے دور رکھا جائے ، گھر کا ما حو ل دینی بنا یا جائے ادعیہٴ ماثور ہ کا خود بھی عا دی بنیں اور گھر والو ں کو بھی بنا ئیں ، صبح و شا م کی مسنو ن دعائیں او راذکار کا خاص اہتمام کیا جا ئے ۔
(۱۰) بُر ے لو گو ں اوربری تہذیب سے مکمل پر ہیز کیا جا ئے ۔خاص طور پر ٹیلیویژن ، ویڈیو، میوزک ، ناچ گا نا سے بچا جا ئے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ٹی وی صر ف خبر و ں کے لیے رکھا ہے مگر انھیں یہ سو چنا چاہیے کہ مر نے کے بعد دنیا بھر کی خبر و ں کا سو ال نہیں ہو گا ؛بلکہ خو د آپ کی خبرلی جا ئے گی او ر پھر جزاء وسز ا کا فیصلہ ہو گا ۔
(۱۱) قر آ ن کو پڑھا جائے اس کو سمجھا جا ئے اور اس پر عمل کیا جائے ،جیسا کہ صحابہ نے کیا؛ مگر افسو س کے امت نے قر آ ن کو پس پشت ڈا لدیا نہ اس کی تلا و ت ہوتی ہے نہ اس کو سمجھنے کی سعی اور نہ اس پر عمل ۔ لہٰذا ائمہ مساجد اور علما ء سب سے پہلے اس کو صحت اور تجو ید کے سا تھ پڑھنا سیکھیں ، ائمہ اور علماء بھی فکرمندی سے امت کو قر آ ن کی تعلیم دیں اور جو لو گ قرآ ن فہمی کے اصو ل وقو ا عد سے مکمل واقف ہوں ان سے قرآ ن کو سمجھا جا ئے۔
عو ا م کے لیے عا م فہم تفا سیر یہ ہیں :
(۱)معارف القرآ ن (حضرت مفتی شفیع صاحب )
(۲)ہدایتُ القرآن (حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری زیدمجدہ)
(۳) آ سا ن تر جمہ قر آ ن (حضرت مو لا نا مفتی تقی عثما نی زیدمجدہ)
(۴) ترجمہ شیخ الہند مع فوائد عثمانی۔
(۱۲)وقت کی قدر کریں اور ہر وقت ایسا عمل کریں جس سے آخر ت کا فا ئدہ ہو۔
آج انسان کا سب سے بڑ ا مسئلہ وقت کا ضیا ع ہے ، لو گو ں کو بے ہو دہ با تو ں میں مبتلا کرکے دشمنا نِ انسانیت نے بڑ ا ظلم ڈھا یا ہے ، موبائل ، ٹی وی ، انٹر نیٹ ، تفریح گا ہیں وغیرہ کو اتنا عا م کیا جا رہا ہے کہ اللہ کی پنا ہ انسان آ خر ت کی تیا ری سے بے خبر ہو کر ان میں مصر و ف ہے۔
(۱۳) سیرت نبوی کا خاص طور پر مطالعہ کیاجائے آپ … کی سیرت اور زندگی قیا مت تک آنے والو ں کے لیے اسوہ اور نمو نہ ہے۔ اس مو ضو ع پر سب سے عمدہ کتا ب عارف با للہ حضرت مولانا عبد الحئی عارفی رحمة اللہ علیہ کی ”اسوہ ٴرسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم“ہے،(اس کا انگلش میں ترجمہThe Ways Of Holy Prophet Mohammad ہو چکا ہے ) آپ نے اسے سیرتِ نبو ی پر عمل کر نے ہی کے لیے لکھا ہے۔ اس کے علا وہ سیر تِ خا تم الا نبیا ء اور تفصیلی مطالعہ کے لیے سیر ت المصطفیٰ، مولانا ادریس کا ندھلو ی اور سیرت النبی مولانا سید سلیمان ندوی۔
٭٭٭
————————————













No comments:
Post a Comment