Friday 12 July 2024

دین کیا ہے؟ اور دیندار کون؟


دین کے معانی

دین کے مختلف معانی ہیں:

(1) طاعت یعنی اپنے اختیار سے فرمانبرادی ہے، قرآن میں ہے :۔ 

إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ
بےشک دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔
[سورۃ آل عمران:19]

(2) جزا یعنی بدلہ، ایک جگہ قرآن مجید میں ہے:
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
بدلہ والے دن کا مالک ہے۔
[سورۃ الفاتحہ:4]

(3) شریعت یا طریقت یعنی زندگی گذارنے کا اصول و ضابطہ، قرآن میں ہے:-
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ۔۔۔
اس(اللہ)نے تمہارے لیے دین کا رستہ مقرر کیا۔
[سورۃ الشوریٰ:13]

لفظ شریعت کا مادہ ش۔ر۔ع ہے اور اس کا لغوی معنی ہے وہ سیدھا راستہ جو واضح ہو۔

[امام راغب اصفهانی، مفردات القرآن : 259]



گگگگگگ



مذکورہ آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں امام رازیؒ(م:606ھ) لکھتے ہیں:
فَيَجِبُ ‌أَنْ ‌يَكُونَ ‌الْمُرَادُ مِنْهُ الْأُمُورَ الَّتِي لَا تَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الشَّرَائِعِ، وَهِيَ الْإِيمَانِ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَالْإِيمَانُ يُوجِبُ الْإِعْرَاضَ عَنِ الدُّنْيَا وَالْإِقْبَالَ عَلَى الْآخِرَةِ وَالسَّعْيَ فِي مَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَالِاحْتِرَازَ عَنْ رَذَائِلِ الْأَحْوَالِ
ترجمہ:
ضروری ہے کہ یہاں دین سے مراد وہ بنیادی عقائد ہوں جو شرائع کے اختلاف کے ساتھ متغیر نہیں ہوتے ۔ اور وہ اللہ پر ، اُس کے فرشتوں پر ، اُس کے کتابوں پر اُس کے رسولوں پر اور روز ِ آخرت پر ایمان ہے ۔ یہ ایمان دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی فکر پیدا کر دیتا ہے ۔ اور اچھے اخلاق کی ترغیب اور برے اخلاق سے اجتناب کا درس دیتا ہے۔
[تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير:27 / 587 ، سورة الشورى:آیۃ13]








دین نام ہے تعلیمِ نبوی کا۔
علمِ نبوی وہ نہیں جو بے-سند (یعنی گواہوں/کتابوں کے "سہارے" کے بغیر) کوئی بات/فرمان نبی کے نام منسوب کرکے بتایا/پھیلایا گیا ہو،
بلکہ
علمِ نبوی وہ یقینی بات ہے جو نبی کے شاگرد/صحابہ سے ہر زمانہ/نسل کے سیکھنے والے (مسلمان)گواہوں کی سند(سہارے) سے ہم تک (حفظ/کتابت کے ذریعہ) پہنچا ہو۔






دین میں غُلُوّ
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے كہ رسول اللہ ‌ﷺ ‌نے ارشاد فرمایا:
إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِين فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِالْغُلُوِّ فِي الدِّينِ.
ترجمہ:
دین میں غلو سے بچو، كیوں كہ تم سے پہلے لوگ بھی دین میں غلو كی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
[الصحيحة:3091(1017)، مسند أحمد رقم (15352)]



دین میں فتنہ(یعنی غیردین کو دین ماننا منوانا) اور سچی نبوی پیشگوئی:


حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ

لَمَّا افْتَتَحَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌مَكَّةَ رَنَّ إِبْلِيسُ رَنَّةً اجْتَمَعَتْ إِلَيْهِ جُنُودُهُ، فَقَالَ: ايْئَسُوا أَنْ نَرَى أُمَّةَ مُحَمَّدٍ عَلَى الشِّرْكِ بَعْدَ يَوْمِكُمْ هَذَا ، وَلَكِنِ افْتُنُوهُمْ فِي دِينِهِمْ ، وَأَفْشُوا فِيهِمُ النَّوْحَ.

ترجمہ:

جب نبی ‌ﷺ ‌نے مكہ فتح كیا تو ابلیس بے تحاشہ رویا۔ اس كے چیلے لاؤ لشكر کے ساتھ اس كے گرد جمع ہو گئے۔ شیطان نے كہا: اس بات سے نا امید ہو جاؤ كہ ہم اس دن كے بعد امت محمد ‌ﷺ ‌كو شرك پر دیكھیں گے۔ لیكن انہیں ان كے دین میں فتنے میں ڈال دو اور ان میں نوحہ خوانی عام كردو۔

[الصحيحة:3467(1078)، المعجم الكبير للطبراني رقم (12149)]


یعنی دین میں نئی نئی باتوں(بدعتوں) میں نوحہ خوانی بھی ہے۔







دین زندہ ہوتا ہے، اللہ والوں سے۔

حضرت ابو عنبہ خولانی سے مروی ہے كہ رسول اللہ  ‌ﷺ ‌نے فرمایا:
لَا يَزَالُ الله يَغْرِسُ فِي هَذَا الدِّينِ غَرْسًا يَسْتَعْمِلُهُمْ فِي طَاعَتِه .
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس دین میں ایسی شخصیات کو پیدا کرتا رہے گا اپنی اطاعت میں استعمال كرے گا۔
[الصحيحة:2442(1421)،  سنن ابن ماجه،كِتَاب الْمُقَدِّمَةِ، بَاب اتِّبَاعِ سُنَّةِ رَسُولِ الله ﷺ، رقم (8)]

حضرت ابراہیم بن عبد الرحمٰن العذريؒ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
يَحْمِل هَذَا الْعِلْمَ مِنْ كُل خَلَفٍ عُدُولُهُ يَنْفُونَ عَنْهُ تَحْرِيفَ الْغَالِينَ وَانْتِحَال الْمُبْطِلِينَ، وَتَأْوِيل الْجَاهِلِينَ
ترجمہ:
اٹھاتے (یعنی سینوں میں محفوظ رکھتے) رہیں گے اس علم (دین) کو خلف (یعنی سلفِ صالحین کے قابل جانشین جو) عادل (یعنی حق بیان کرنے اور انصاف کرنے میں اپنوں سے رعایت اور دشمنوں پر ظلم نہ کرنے والے) ہوں گے، وہ اس (علم) سے غُلُوّ کرنے (یعنی حد سے بڑھنے) والوں کی تحریفوں (وتبدیلیوں) کو، اور باطل (و جھوٹے) لوگوں کی غلط نسبتوں (یعنی کسی پر یا کسی کے نام جھوٹی بات پھیلانے) کو، اور جاہل (غیر عالم) لوگوں کی (غلط) تاویلات (یعنی اصل مطلب، تفسیر وتشریح  سے ہٹادینے) کو دور کریں گے۔

[البدع لابن وضاح:1+2، مسند البزار:9423، شرح مشكل الآثار:3884، الشريعة للآجري:1/268، مسند الشاميين للطبراني:599، الإبانة الكبرى لابن بطة:33، فوائد تمام:899، السنن الكبرى للبيهقي:20911، مصابيح السنة للبغوي:190]
﴿تفسیر ابن ابی حاتم:1606(8488)خلف﴾
﴿تفسیر البغوی»سورۃ مریم:59(فخلف)﴾
جامع الاحادیث، للسیوطی:26643، حديث إبراهيم بن عبد الرحمن العذرى عن الثقة من أشياخه: أخرجه البيهقى (10/209، رقم 20701) ، وابن عساكر (7/38) ، وعزاه الحافظ فى اللسان (1/77، ترجمة 210 إبراهيم بن عبد الرحمن) لابن عدى ، وأخرجه أيضًا: العقيلى (4/256، ترجمة 1854 معان بن رفاعة السلامى) .
حدیثِ علي: مسند(امام)زيد:599،1/342
حديث أسامة: أخرجه ابن عساكر (7/39) .
حديث أنس: أخرجه ابن عساكر (54/225) .
حديث ابن عمر: أخرجه الديلمى (5/537، رقم 9012) وأخرجه أيضًا: ابن عدى (3/31، ترجمة 593 خالد بن عمرو القرشى) .
حديث أبى أمامة: أخرجه العقيلى (1/9) .
حديث ابن عمرو وأبى هريرة معا: قال الهيثمى (1/140) : رواه البزار، وفيه عمرو بن خالد القرشى كذبه يحيى بن معين، وأحمد بن حنبل، ونسبه إلى الوضع. وأخرجه العقيلى (1/10) .
وللحديث أطراف أخرى منها: "يرث هذا العلم من كل خلف عدوله".]

المحدث : الإمام أحمد | المصدر : تاريخ دمشق: 7/39 - لسان الميزان: 1/312 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
المحدث : ابن حبان [الثقات: 4/10]
المحدث : السفاريني الحنبلي | المصدر : القول العلي: 227 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
المحدث : ابن الوزير اليماني | المصدر : العواصم والقواصم: 1/308 | خلاصة حكم المحدث : صحيح

القرآن:
پھر ان کے بعد ان کی جگہ ایسے جانشین آئے جو کتاب کے وارث بنے۔۔۔
[سورۃ الأعراف:169]
القرآن:
تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ(جانشین) بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا، اور ان کے لیے اس دین کو ضرور اقتدار بخشے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور ان کو جو خوف لاحق رہا ہے، اس کے بدلے انہیں ضرور امن عطا کرے گا۔ (بس) وہ میری عبادت کریں، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور جو لوگ اس کے بعد بھی ناشکری کریں گے تو ایسے لوگ نافرمان ہوں گے۔
[سورۃ النور:55]








دین نام ہے احکام وعبادات کا۔
دینداری نام ہے فرمانبرداری کا۔
حضرت انس‌ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَوَّلُ مَا تَفْقِدُونَ مِنْ دِينِكُمُ الأَمَانَةُ، وَآخِرُهُ الصَّلاةُ
ترجمہ:
تم اپنے دین میں سب سے پہلی چیز جو گم پاؤ گے وہ امانت ہو گی اور آخری چیز نماز ہوگی۔
[الصحيحة:1749(595)، مسند الشهاب القضاعي رقم (208)]





حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ہمیں کوئی خطبہ ایسا نہیں دیا جس میں یہ نہ فرمایا ہو کہ
لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ
ترجمہ:
اس شخص کا ایمان نہیں جس کے پاس امانت داری نہ ہو، اور اس شخص کا دین نہیں جس کے پاس وعدہ کی پاسداری نہ ہو۔
[مسند احمد:11935(12406)، السنن الكبري-للبيهقي:18851، المعجم الاوسط-للطبراني:2606+5923]

[صَحِيح الْجَامِع: 7179، المشكاة:35]
تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی»سورۃ البقرۃ:27





حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا صَلَاةَ لِمَنْ لَا طُهُورَ لَهُ، وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا صَلَاةَ لَهُ، إِنَّمَا مَوْضِعُ الصَّلَاةِ مِنَ الدِّينِ كَمَوْضِعِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ»
ترجمہ:
جس کے پاس امانت کی پاسداری نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں، اور جس کو طہارت(وضو) نہیں اس کی نماز نہیں، اور جس کے پاس کوئی نماز نہیں اس کا کوئی دین نہیں، کیونکہ نماز کا مقام دین میں ایسا ہے جیسے سر کا مقام جسم میں۔
[المعجم الاوسط-للطبراني:2292، المعجم الصغیر-للطبراني:162]
تفیسر الدر المنثور-امام السیوطی»سورۃ البقرۃ:238




دین کا مقصد خیرخواہی ہے۔

*دین کیا ہے؟ اور دیندار کون؟*
حضرت تمیم داریؓ رسول اللہﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں:
دین نَصِیحَت (یعنی خیرخواہی کرنے اور مخلص ہونے) کا نام ہے، ہم لوگوں نے عرض کیا کہ خیر خواہی کس کے ساتھ کی جائے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (1)اللہ کے ساتھ، (2)اس کی کتاب کے ساتھ، (3)اس کے رسول کے ساتھ(مخلص ہونا)، (4)اور "مسلمانوں" کے راہنماؤں(یعنی علماء وحکمرانوں) کے ساتھ، (5)اور عام مسلمانوں کے ساتھ۔
[صحيح مسلم » كِتَاب الإِيمَانِ » بَاب بَيَانِ أَنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ ... رقم الحديث: 95 (196)]


القرآن:
میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، اور تمہارا بھلا چاہتا ہوں۔ مجھے اللہ کی طرف سے ایسی باتوں کا علم ہے، جن کا تمہیں پتہ نہیں ہے۔
[سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 62]

https://youtu.be/IFXPuESWkOY












دین نام ہے خیر وشر جاننے، ماننے اور سمجھنے یعنی تقاضا کے مطابق عمل کرنے کا۔

یونس بن میسرہ بن حلبس نے کہا کہ میں نے معاویہ بن ابی سفیان ؓ سے سنا وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے تھے کہ:
الْخَيْرُ عَادَةٌ وَالشَّرُّ لَجَاجَةٌ وَمَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ۔
ترجمہ:
خیر عادت ہے اور شر لجاجت (یعنی دل میں  کھٹکتا) ہے، اور اللہ تعالیٰ جس شخص سے بھلائی کا ارادہ فرمالیتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا کر دیتا ہے۔
[الصحيحة:651(2467)، سنن ابن ماجه كِتَاب الْمُقَدِّمَةِ بَاب فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ رقم 217]



خیر وشر نام کے حلال وحرام کا۔
معبد جہنی سے مروی ہے کہتے ہیں کہ کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ معاویہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث بیان کریں اور وہ یہ کلمات کہا کرتے تھے کم ہی ان کلمات کو چھوڑتے، یا انہیں جمعے میں نبی ﷺ سے بیان کرتے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ يُرِدْ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهُّ فِي الدِّينِ وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ حُلْوٌ خَضِرٌ فَمَنْ يَأْخُذْهُ بِحَقِّهِ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ وَإِيَّاكُمْ وَالتَّمَادُحَ فَإِنَّهُ الذَّبْحُ.
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔ اور یہ مال میٹھا اور سر سبز ہے،جو شخص اسے اس کے حق کے ساتھ لے گا اس کے لئے اس میں برکت دے دی جائے گی۔ خوشامد سے بچو کیوں کہ یہ ذبح کرنا (ہلاکت) ہے۔
[الصحيحة:1196(2499)، مسند أحمد رقم (16234)]





حضرت ابوھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ هَذا الدِّينَ يُسْرٌ وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ.
ترجمہ:
یہ دین آسان ہے، جو شخص اس دین میں سختی كرے گا یہ دین اس پر غالب آجائے گا۔
[الصحيحة:3587(1010)، صحيح مسلم كِتَاب السَّلَامِ بَاب تَحْرِيمِ الْكَهَانَةِ وَإِتْيَانِ الْكُهَّانِ رقم (4136)]



حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ , حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ , عَنْ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ مِنْ سَرَايَاهُ , قَالَ : فَمَرَّ رَجُلٌ بِغَارٍ فِيهِ شَيْءٌ مِنْ مَاءٍ , قَالَ : فَحَدَّثَ نَفْسَهُ بِأَنْ يُقِيمَ فِي ذَلِكَ الْغَارِ , فَيَقُوتُهُ مَا كَانَ فِيهِ مِنْ مَاءٍ , وَيُصِيبُ مَا حَوْلَهُ مِنَ الْبَقْلِ , وَيَتَخَلَّى مِنَ الدُّنْيَا , ثُمَّ قَالَ : لَوْ أَنِّي أَتَيْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ , فَإِنْ أَذِنَ لِي فَعَلْتُ , وَإِلَّا لَمْ أَفْعَلْ , فَأَتَاهُ فَقَالَ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ , إِنِّي مَرَرْتُ بِغَارٍ فِيهِ مَا يَقُوتُنِي مِنَ الْمَاءِ وَالْبَقْلِ , فَحَدَّثَتْنِي نَفْسِي بِأَنْ أُقِيمَ فِيهِ , وَأَتَخَلَّى مِنَ الدُّنْيَا , قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ بِالْيَهُودِيَّةِ وَلَا بِالنَّصْرَانِيَّةِ , وَلَكِنِّي بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ , وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَغَدْوَةٌ أَوْ رَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا , وَلَمُقَامُ أَحَدِكُمْ فِي الصَّفِّ خَيْرٌ مِنْ صَلَاتِهِ سِتِّينَ سَنَةً " .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ » حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ الصُّدَيِّ بْنِ ... رقم الحديث: 21703(22291)]

حضرت ابوامامہؓ (صدی بن عجلان) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ رسول کریم ﷺ کے ساتھ ایک لشکر میں نکلے تو دوران سفر جب ہم میں سے ایک شخص ایک ایسی غار (وادی) کے درمیان سے گزرا جس میں کچھ پانی اور سبزہ تھا تو اس نے اپنے دل میں سوچا کہ وہ اسی غار میں رہ جائے اور دنیا سے کنارہ کشی کر لے ۔ چنانچہ اس نے اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے اجازت چاہی آپ ﷺ نے فرمایا یاد رکھو! نہ تو میں دین یہودیت دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا ہوں اور نہ دین عیسائیت دے کر کہ میں تم لوگوں کو رہبانیت کی تعلیم دوں ، بیجا مشقت وتکلیف میں مبتلا کروں اور لوگوں کے ساتھ رہن سہن اور لذات دنیا سے مطلقًا کنارہ کشی کی اجازت دوں بلکہ میں تو دین حنیفہ دے کر بھیجا گیا ہوں جو ایک آسان دین ہے جس میں نہ تو انسانیت عامہ کے لئے بیجا تکلیف وحرج ہے اور نہ زائد از ضرورت مشقت ومحنت ہے۔ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے دن کے صرف ابتدائی یا آخری حصے میں یعنی صبح وشام کو اللہ کی راہ جہاد میں چلے جانا دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اور تم سے کسی کا میدان جنگ کی جماعت نماز کی صف میں کھڑا ہونا اس کی ساٹھ سال کی تنہا پڑھی جانے والی نماز سے بہتر ہے ۔"
[أخرجه أحمد (22291) ، والطبرانى (8/216، رقم 7868)]


دین(اسلام) وہ نہیں جو مخلوق اپنے خیال وخواہشات سے یا علم وثبوت کے بغیر اللہ(والوں)کے نام سے کسی بات کو نیکی۔خیر۔حلال___یا___برائی۔شر۔حرام کہے۔

[حوالہ سورۃ الکھف:103-104، النجم:28]

بلکہ دین(اسلام) تو نام ہے اللہ کے پیغمبر کی واقعی ثابت تعلیم کے مطابق جو نیکی۔خیر۔حلال___یا___برائی۔شر۔حرام ہو اسی کو نیکی۔برائی ماننا اور اطاعت کرنا۔

[حوالہ سورۃ آل عمران:85، الاحقاف:4]


دلائل:


محفوظ علم(یقینی دلیل) کے دو ماخذ»(1)کتاب (2)روایت

القرآن:

تم ان سے کہو کہ : کیا تم نے ان چیزوں پر کبھی غور کیا ہے جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ؟ مجھے دکھاؤ تو سہی کہ انہوں نے زمین کی کونسی چیز پیدا کی ہے ؟ یا آسمانوں (کی تخلیق) میں ان کا کوئی حصہ ہے ؟ میرے پاس کوئی ایسی کتاب لاؤ جو اس قرآن سے پہلے کی ہو، یا پھر کوئی روایت جس کی بنیاد علم پر ہو۔ اگر تم واقعی سچے ہو۔

[سورۃ نمبر 46 الأحقاف، آیت نمبر 4]



دین نام ہے ہدایت کو برا وخوشی ماننے کا۔
القرآن:
دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہو کر واضح ہوچکا، اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے گا، اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں، اور اللہ خوب سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 256]



دین نام ہے مسلم (فرمانبردار) رہنے کا۔

القرآن:
جو کوئی شخص اسلام(یعنی اطاعت) کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا تو اس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا، اور آخرت میں وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جو سخت نقصان اٹھانے والے ہیں۔
[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 85]




دین نام ہے موت تک مسلمان رہنے کا۔
القرآن:
اور اسی بات کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی، اور یعقوب نے بھی (اپنے بیٹوں کو) کہ : اے میرے بیٹو ! اللہ نے یہ دین تمہارے لیے منتخب فرما لیا ہے، لہذا تمہیں موت بھی آئے تو اس حالت میں آئے کہ تم مسلم ہو۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 132]



دین نام ہے صرف اللہ کی عبادت میں اطاعت وتابعداری کا۔
القرآن:
یاد رکھو کہ خالص دین(بندگی) اللہ ہی کا حق ہے۔ اور جن لوگوں نے اس کے بجائے دوسرے رکھوالے بنا لیے ہیں۔ (یہ کہہ کر کہ) ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔ ان کے درمیان اللہ ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں۔ یقین رکھو کہ اللہ کسی ایسے شخص کو راستے پر نہیں لاتا جو جھوٹا ہو، کفر پر جما ہوا ہو۔
[سورۃ نمبر 39 الزمر، آیت نمبر 3+11]
البینہ




دین نام ہے صرف اللہ کو(غائبانہ حاجات میں) پکارنے کے قابل ماننے کا۔

القرآن:
لہذا (اے لوگو!) اللہ کو اس طرح پکارو کہ تمہاری تابعداری خالص اسی کے لیے ہو چاہے کافروں کو کتنا برا لگے۔
[سورۃ نمبر 40 غافر،آیت نمبر 14]
القرآن:
وہی سدا زندہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس لیے اس کو اس طرح پکارو کہ تمہاری تابعداری خالص اسی کے لیے ہو۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔
[سورۃ نمبر 40 غافر، آیت نمبر 65]

القرآن:
کہو کہ: میرے پروردگار نے تو انصاف کا حکم دیا ہے۔  اور (یہ حکم دیا ہے کہ) جب کہیں سجدہ کرو، اپنا رخ ٹھیک ٹھیک رکھو، اور اس یقین کے ساتھ اس کو پکارو کہ دین (یعنی اطاعت) خالص اسی کا حق ہے۔ جس طرح اس نے تمہیں ابتدا میں پیدا کیا تھا۔ اسی طرح تم دوبارہ پیدا ہوگے۔
[سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 29]

القرآن:
کہو کہ: میرے پروردگار نے تو انصاف کا حکم دیا ہے۔ اور (یہ حکم دیا ہے کہ) جب کہیں سجدہ کرو، اپنا رخ ٹھیک ٹھیک رکھو، اور اس یقین کے ساتھ اس کو پکارو کہ اطاعت خالص اسی کا حق ہے۔ جس طرح اس نے تمہیں ابتدا میں پیدا کیا تھا۔ اسی طرح تم دوبارہ پیدا ہوگے۔
[سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 29]

القرآن:
وہ اللہ ہی تو ہے جو تمہیں خشکی میں بھی اور سمندر میں بھی سفر کراتا ہے، یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو، اور یہ کشتیاں لوگوں کو لے کر خوشگوار ہوا کے ساتھ پانی پر چلتی ہیں اور لوگ اس بات پر مگن ہوتے ہیں تو اچانک ان کے پاس ایک تیز آندھی آتی ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھتی ہیں اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ہر طرف سے گھر گئے۔ تو اس وقت وہ خلوص کے ساتھ صرف اللہ پر اعتقاد کر کے صرف اسی کو پکارتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ)“ (یا اللہ !) اگر تو نے ہمیں اس (مصیبت سے) نجات دے دی تو ہم ضرور بالضرور شکر گزار لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔”
[سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 22]

القرآن:
چنانچہ جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو اس طرح پکارتے ہیں کہ ان کا اعتقاد خالص اسی پر ہوتا ہے۔ (36) پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو فورا شرک کرنے لگتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 65]


تفسیر:
(36)مشرکین عرب کا یہ عجیب طریقہ تھا کہ جب سمندر کی موجوں میں گھر کر موت نظر آنے لگتی تو اس وقت انہیں نہ کوئی بت یاد آتا تھا، نہ کوئی دیوی یا دیوتا۔ اس وقت وہ مدد کے لیے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے۔ لیکن جب ڈوبنے سے بچ کر کنارے پہنچ جاتے تو اللہ تعالیٰ کے بجائے پھر انہی بتوں کی عبادت شروع کردیتے تھے۔


القرآن:
اور جب موجیں سائبانوں کی طرح ان پر چڑھ آتی ہیں تو وہ اللہ کو اس طرح پکارتے ہیں کہ اس وقت ان کا اعتقاد خالص اسی پر ہوتا ہے۔ پھر جب وہ ان کو بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو ان میں سے کچھ ہیں جو راہ راست پر رہتے ہیں (باقی پھر شرک کرنے لگتے ہیں) اور ہماری آیتوں کا انکار وہی شخص کرتا ہے جو پکا بدعہد، پرلے درجے کا ناشکر ہو۔
[سورۃ نمبر 31 لقمان، آیت نمبر 32]




دین نام ہے صرف اللہ کا بول بالا(حکم کو بلند) کرنے میں اطاعت وتابعداری کا۔
القرآن:
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے، تاکہ اسے ہر دوسرے دین پر غالب کردے، چاہے مشرک لوگوں کو یہ بات کتنی ناپسند ہو۔
[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 33]
[سورۃ الفتح:28، الصف:9]

القرآن:
اور تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہوجائے پھر اگر وہ باز آجائیں تو (سمجھ لو کہ) تشدد سوائے ظالموں کے کسی پر نہیں ہونا چاہیے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 193]
[سورۃ الانفال:39]



دین ملے گا دین والوں کے ساتھ بیٹھنے سے۔















No comments:

Post a Comment