Wednesday, 21 May 2025

نکاح میں"عمر"کے حد مقرر کرنے کا شرعی حکم

واضح رہے کہ شریعت میں نکاح کیلئے "عمر" کی حد(قید) نہیں لگائی گئی، اور دین مکمل ہوچکا اس میں کسی اضافے یا کمی کی گنجائش نہیں، اور انسانی عقل سے تجویز کردہ باتوں میں اختلاف ناگزیر ہے، لہٰذا انسانی عقل سے نازل شدہ حکم اور علمِ الٰہی کی ہدایت کو بدلنا نہ صرف دین سے بغاوت ہے بلکہ یہ دین میں تحریف و تبدیلی کرنا اور دین میں فساد وفتنہ پھیلانا ہے۔


لہٰذا کسی بھی عمر میں شادی کرائی جاسکتی ہے، البتہ بلوغت سے پہلے لڑکے/ لڑکی خود سے شادی نہیں کرسکتے، بلکہ ولی کو ان کی شادی کرانے کا حق ہوتا ہے۔

نابالغ کی(شادی اور)طلاق کا حکم:

چنانچہ قرآن پاک میں ہے:

{وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ}

ترجمہ:

اور تمہاری عورتوں میں سے جو ماہواری آنے سے مایوس ہوچکی ہوں اگر تمہیں (ان کی عدت کے بارے میں) شک ہو تو (یاد رکھو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے، اور ان عورتوں کی (عدت) بھی (یہی ہے) جنہیں ابھی ماہواری آئی ہی نہیں۔۔۔

[سورۃ الطارق:4]


پس اس آیت کے ذیل میں امام جصاص رحمہ اللہ (م370ھ) لکھتے ہیں:

"فحكم بصحة طلاق الصغيرة التي لم تحض, والطلاق لا يقع إلا في نكاح صحيح, فتضمنت الآية جواز تزويج الصغيرة.ويدل عليه أن النبي صلى الله عليه وسلم تزوج عائشة وهي بنت ست سنين۔"

ترجمہ:

"(اس آیت ميں) اس بچی جس کو ابھی حیض نہ آیا ہو اس کی طلاق کی درستگی کا حکم دیا گیا ہے اور طلاق صرف نکاح صحیح کے دوران ہوتی ہے، پس یہ آیت اس کو حکم کو بھی متضمن ہے کہ چھوٹی بچی کا نکاح کرانا درست ہے، اور اس بات پر بھی دلالت کر رہی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس وقت شادی کی جب وہ چھ سال کی تھیں۔"

[احکام القرآن للجصاص» سورہ آلِ عمران ،ج:،ص:69،ط:دار الکتب العلمیہ]


پس اگر لڑکی صحت مند ہو، شوہر کے قابل ہو تو رخصتی میں شرعاً کوئی حرج نہیں اور اس کا تعین لڑکی کے ولی اور سرپرست جو کہ لڑکی کے انتہائی خیر خواہ اور ذمہ دار ہیں ان کا کام ہے ،دوسرے لوگوں کو اس پر اعتراض کرنا اور اس قسم کی باتوں کو موضوع سخن بنانے کا کوئی حق نہیں ہے۔











اسی طرح حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی(نکاح) چھ(6) سال کی عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئی۔

حوالہ:

"عن عائشة، قالت: تزوجني النبي صلى الله عليه و سلم و أنا بنت ست سنين، و بنى بي و أنا بنت تسع سنين."

[صحیح مسلم:1422]

﴿مسند الحمیدي:223، مصنف ابن ابي شيبة:33927﴿33950﴾، مسند اسحاق بن راهوية:1784، سنن الدارمي:2307، صحيح البخاري:3894 ﴿3896-5133-5134-5158﴾ سنن ابن ماجة:1876، ﴿سنن النسائي:3379﴾ مسند ابي يعلى الموصلي:﴿4673﴾ 4897، المعجم الأوسط-للطبراني:6957،.المعجم الكبير-للطبراني:48-52-58-69-74-153، السنن الكبرى للبيهقي:13843، شرح السنة للبغوي:3224﴾


اس حدیث اسنادی حیثیت سے پایہ صحت کو پہنچتی ہے، اور اس سند کے تمام راوی ثقہ ومتعمد ہیں۔ اور دیگر متعدد شواہد سے صحت کے یقین میں مزید تقویت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔


جہاں تک یہ اعتراض اور شبہ ہے کہ نو سال کی عمر میں لڑکی بالغ نہیں ہوتی تو پھر رخصتی کیسے، تو جواب سے قبل یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آپ کے ذہن میں اٹھنے والا یہ اعتراض نیا نہیں، بلکہ پرانا ہے اور اسلام دشمن اس قسم کے اعتراضات کی ترویج و تشہیر کرتے ہیں، تاکہ عام مسلمانوں کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کیا جائے۔


تو اس بارے میں پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن،حدیث میں یہ بات کہیں مذکور نہیں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نکاح کے وقت بالغ نہیں تھیں، احادیث میں رخصتی کے وقت آپ رضی اللہ عنہا کی عمر نو سال آئی ہے اور یہی عمر(نو سال)شریعت مطہرہ میں لڑکیوں کی بلوغت کی ابتدائی مدت ہے، یعنی اس عمر میں بھی بعض لڑکیاں بالغ ہوجاتی ہیں، جیسا کہ آج کل کا بھی مشاہدہ ہے کہ بعض لڑکیاں نو سال کی عمر میں بالغ ہو جاتیں ہیں گو کہ اس کی مقدار کم ہے۔

نکاح مقدر کرنے والے اللہ کا حکم ہوا، نکاح کرانے والے باپ حضرت ابوبکر راضی، اور شادی کرنے والے بھی راضی رہے تو دوسروں کا اعتراض محض ناحق مخالفت ہے۔





اور مباشرت کے حوالے سے اسلام میں یہ قید لگائی گئی ہے اگر لڑکی جماع کی متحمل نہ ہو تو شوہر کو اس سے صحبت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، اور اگر وہ جماع کی متحمل ہو نیز کسی مرض کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں شوہر کو اس سے صحبت کرنے کی اجازت ہے۔


مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں لڑکی کی شادی اٹھارہ(18) سال سے کم عمر میں کرانا جائز ہے، البتہ صحبت کے حوالے سے دیکھا جائے گا کہ اگر وہ جماع کی متحمل ہے تو پھر اس سے جسمانی صحبت بھی جائز ہوگی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و اختلفوا في وقت الدخول بالصغيرة فقيل: لايدخل بها ما لم تبلغ، و قيل: يدخل بها إذا بلغت تسع سنين، كذا في البحر الرائق. و أكثر المشايخ على أنه لا عبرة للسن في هذا الباب وإنما العبرة للطاقة إن كانت ضخمة سمينة تطيق الرجال و لايخاف عليها المرض من ذلك؛ كان للزوج أن يدخل بها، و إن لم تبلغ تسع سنين، و إن كانت نحيفةً مهزولةً لاتطيق الجماع و يخاف عليها المرض لايحلّ للزوج أن يدخل بها، و إن كبر سنّها و هو الصحيح."


[فتاوی عالمگیری» کتاب النکاح، الباب الرابع فی الأولیاء فی النکاح، ص:287، ج:1، ط:رشیدیه]






نکاح کا وقت:

علامہ ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شدت اشتیاق کے وقت نکاح کرنا واجب ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ اگر نکاح نہ کرے تو زنا میں پڑ جانے کا اندیشہ بھی ہو، کیونکہ ہم بستری کی رغبت سے لازما زنا میں پڑ جانے کا اندیشہ نہیں ہوتا واجب ”لازم ”ہونا مراد ہے، لہذا یہ فرض اور اصطلاحی واجب دونوں کو شامل ہے۔

[البحر الرٸق :241ج3]

علامہ ابن قدامہ الحنبلی فرماتے ہیں :”جس کو نکاح نہ کرنے کی صورت میں کسی ناجاٸز فعل میں پڑ جانے کا اندیشہ ہو، جمہور فقہاء کے قول کے مطابق اس کے لیے نکاح کرنا واجب ہے، کیونکہ اپنے آپ کو پاک باز رکھنا حرام سے بچانا واجب ہے اور اس کی صورت نکاح ہے۔“

[المغنی، کتاب النکاح]


فقط والله اعلم




امریکہ میں کمسنی کی شادیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے»

اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ جیسے ملک کی کئی ریاستوں میں کمسنی کی شادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے تو شاید بہت سے لوگوں کو اس بات کا یقین نہیں آئے گا۔ زیادہ تر ریاستوں میں 18 سال سے کم عمر میں شادی کرنا غیر قانونی ہے لیکن نیویارک سمیت کئی ریاستوں میں قانونی طور پر 14 سال تک کی عمر کے لوگ بھی شادی کر سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ان کے والدین اور عدالت کے جج اس کی منظوری دے دیں۔ ریاست ورجینیا میں 2016 میں ہی کم عمری کی شادی کے خلاف اسمبلی میں قانون منظور کیا گیا تھا۔یہ واقعی حیرت انگیز بات ہے کہ نیویارک میں 14 سالہ لڑکیوں کو شادی کرنے کی قانونی اجازت ہے۔ کئی ریاستوں میں تو 12 سال تک کے بچوں کو ان کے والدین اور عدالتی جج کی منظوری کے ساتھ شادی کی اجازت ہے۔وہاں غیر شادی شدہ لڑکیوں کے مقابلے میں کم عمر میں شادی کرنے والی لڑکیوں کی ہائی سکول کی تعلیم بھی مکمل نہ کرنے کا امکان 50 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔جن لڑکیوں کی 16 سال سے بھی کم عمر میں شادی ہوتی ہے ان میں غربت کا امکان 31 فیصد بڑھ جاتا ہے۔اسی طرح 18 سال سے کم عمر میں شادی کرنے والی لڑکیوں کو صحت اور نفسیاتی پریشانیاں بھی 23 فیصد زیادہ جھیلنا پڑتی ہیں اور بہت سے معاملات میں ایسی لڑکیوں کو شوہر کے ہاتھوں تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔2000ء اور 2010ء کے درمیان امریکہ کی 38 ریاستوں میں 18 سال سے کم عمر کے تقریباً ایک لاکھ 67 ہزار بچوں کی شادیاں ہوئیں۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں ہر چار میں سے ایک لڑکی کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہی ہو جاتی ہے۔


تفصیل ملاحظہ فرمائی:

https://www.pewresearch.org/short-reads/2016/11/01/child-marriage-is-rare-in-the-u-s-though-this-varies-by-state/ 








جنسی تعلق کیلئے عورت کی کم از کم کتنی عمر ہو، اس معاملہ میں عورت کی رضامندگی کے بجائے ماہرین کی رائے معتبر ہے، تو ایسا کیوں؟

عورت کی مرضی پر لغام لگانے والی مغربی نام نہاد آزادی:
انڈیا میں ٢١ سال سے کم اور امریکا کی مختلف ریاستوں میں ١٨، ١٥ یا ١٢ سال سے کم عمر کی لڑکی اپنی "مرضی" سے بھی شادی نہیں کرسکتی۔
پھر کیوں عورت کی مرضی کو پارلیامینٹ یا کانگریس طے کرتی ہے کہ کب عورت کی مرضی کو ہم مانیں یا نہ مانیں؟
جبکہ مذاہب کے مقابلے میں خود کو انسانیت کے سب سے بڑے علمبردار بنتے پھرتے ہیں۔

تفصیل کیلئے دیکھئے نیچے دی گئی ویڈیو:


امریکہ پچاس ریاستوں کی یونین ہے جس کی ہر ریاست کو اپنا عائلی قانون بنانے کا اختیار ہے۔ ان ریاستوں میں شادی کی کم سے کم عمر کیا ہے؟ کسی ریاست میں اٹھارہ سالہ عمر تو کیا، سولہ ریاستوں میں ایسی کوئی عمر ہی نہیں۔ ان تمام ریاستوں کا عائلی قانون ایک دوسرے سے معمولی فرق کے ساتھ بڑی حد تک قانونِ فطرت ہے۔


الاسکا اور نارتھ کیرولینا نامی دو ریاستوں میں شادی کی کم سے کم عمر 14 سال ہے۔ میری لینڈ، کنساس، انڈیانا اورجزائر ہوائی نامی چار ریاستوں میں یہ عمر پندرہ سال ہے۔ انیس امریکی ریاستیں وہ ہیں جن میں کم سے کم عمر سولہ سال ہے۔ وہ ریاستیں کنِکٹی کٹ، جارجیا، الباما، ایریزونا، الینو ئس، آئیوا، نارتھ ڈکوٹا، منی سوٹا، مِسوری، ہیمپشائر، ساؤتھ ڈکوٹا، ٹیکساس، اوٹاہ، ویرمونٹ، ورجینیا، وسکونسن، واشنگٹن ڈی سی، ساؤتھ کیرولینا اور مونٹینا ہیں۔ اسی طرح فلوریڈا، ارکنساس، نبراسکا، کنیٹکی، اوہائیو، نیویارک اور اوریگان نامی سات ریاستوں میں یہ عمر سترہ سال ہے۔ سولہ ریاستیں وہ ہیں جن میں شادی کی کم از کم کوئی عمر نہیں ہے جو یہ ہیں:وائیومنک، ویسٹ ورجینیا، واشنگٹن (ڈی سی نہیں) ساؤتھ کیرولینا (قانونی تضادات کے بعد اسے سولہ سال والی عمر میں بھی شمار کیا جاتا ہے) پنسلوینیا، اوکلاہاما، نیو میکسیکو، مسی سپی، نیویڈا، مشی گن، میسا چوسٹس، مینی، لوزیانا، کولاریڈو، اِڈاہو اور کیلی فورنیا۔


شادی کی قانونی عمر (اٹھارہ، انیس یا اکیس) سے کم عمر کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، ان میں کم سنی کی شادی چند شرائط سے منسلک ہے۔ درج ذیل میں سے بعض ریاستیں ایک شرط اور بعض زیادہ شرائط پوری ہونے پر قانونی عمر سے کم کسی بھی عمر میں شادی کی اجازت دیتی ہیں: کم سن لڑکی نے بچے کو جنم دیا ہو؛ کم سن بالکل آزاد (Emancipated)ہو جیسے ماں باپ مرگئے ہوں یا معلوم نہ ہوں؛ لڑکی حاملہ ہو گئی ہو؛ والدین یا قانونی سرپرست کی اجازت ہو؛ اور یہ عدالتی اطمینان ہو کہ اس کم سن کی شادی ممکن ہے۔


ان شرائط خمسہ میں سے بعض ریاستوں میں عدالتی اطمینان پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یہ قانون کا پہلا حصہ ہے۔ دوسرا حصہ بلوغ کی قانونی عمر کی تکمیل پر حرکت میں آتا ہے۔ پورے امریکہ میں شادی کی قانونی عمر اٹھارہ سال ہے (نبراسکا اور مسی سپی میں یہ عمر بالترتیب انیس اور اکیس سال ہے). قانونی عمر کی تکمیل پر مرد و زن خود مختار ہیں کہ پسند کی شادی کریں۔


کیا آپ نے غور کیا کہ ان تمام ریاستوں میں سے کسی ایک میں بھی شادی کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال نہیں ہے۔دو امریکی ریاستوں میں کم سے کم مقررہ عمر اگر 14 سال ہے تو سولہ ریاستوں میں شادی کی کم سے کم عمر سرے سے ہے ہی نہیں۔ ان حالات میں اگر ہمارا کوئی فاضل جج ہم پر ”یہ“ امریکی فکر مسلط کرنا چاہے تو ہم بسر و چشم دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھیں گے کہ آؤ کر گزرو یہ امریکی قانون ہمارے یہاں بھی نافذ۔ امید ہے کہ مسٹر و ملا اور راہروانِ مسجد و میخانہ دونوں کو اس امریکی مثال سے ہدایت مل جائے گی۔


دنیا کا کوئی قانون دیکھ لیں،میری مراد ترقی یافتہ دنیا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس میں بال کی کھال اتاری جاتی ہے۔ انسانی فہم میں آنے والا بعید ترین امکان بھی قانونی دائرے میں لانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ شادی بھی انہی امور میں سے ہے جس کے متعدد پہلو ہیں۔ ہر ایک پر بڑی سوچ بچار کے بعد اگر جامعیت سے بھرپور قانون بنایا جائے تو وہی قانون، قانونِ فطرت کہلاتا ہے۔


اپنے ملک میں آزاد خیال لوگوں اور خواتین کے حقوق والیوں نے بغیر جانے اور بغیر پڑھے یہ فرض کر رکھا ہے کہ چونکہ فلاں جگہ ایک اَسّی سالہ جاگیردار نے تیرہ سالہ لڑکی سے شادی کر لی ہے، لہٰذا یقینا سارے ملک میں ایسے ہی ہوتا ہو گا۔ اور یہ کہ ہر کم سنی والی شادی بوڑھے کے ساتھ ہی ہوتی ہے، اس لیے ریاستی نظام فوراً حرکت میں آ ئے۔ حالانکہ یہ لوگ شہروں سے نکل کر جی ٹی روڈ، موٹر وے سے چھ آٹھ کلومیٹر دور کی دنیا دیکھیں، وہاں چند سال گز اریں تو انہیں اندازہ ہوگا کہ ہمارے ان دیہات کی دنیا یکسر مختلف نوعیت کی ہے۔


گویا کسی امریکی ریاست میں شادی کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال کہیں نہیں۔ یہ کام امریکہ میں جائز ہو سکتا ہے تو یہاں پاکستان میں کیا رکاوٹ ہے؟ یہ وہ دلیل ہے جس کی بنا پر میں کہتاہوں کہ مذہب بیزار یا مذہب دشمن طبقہ کسی عقلی بنیاد پر اس کا مخالف نہیں ہے، اس کی مخالفت دین دشمنی پر ہے۔ یہاں آکر میں انسانوں کو مذہبی بنیاد پر تقسیم نہیں کرتا۔ میرے نزدیک ایک طرف یزدان کے خیمے میں مقیم انسان ہیں جو قانونِ فطرت کی حفاظت میں لگے رہتے ہیں تو دوسرے لوگ اہرمن کے پجاری ہیں۔ اوّل الذکر اللہ والے امریکی سپریم کورٹ میں اس خاتون رجسٹرار کی صورت میں مل جائیں گے جس نے ہم جنسوں کی شادی پر عدالتی فیصلے کی نقل اپنے دستخطوں سے یہ کہہ کردینے سے انکار کر دیا تھا کہ میرے مذہبی عقائد اس فیصلے کی تائید نہیں کرتے۔ وہ نیک بخت خاتون اپنی ملازمت داؤ پر لگا بیٹھی لیکن فیصلے کی نقل نہیں دی۔ رہے اہرمن کے راکھشش تو وہ آپ کو ہر ملک اور ہر معاشرے میں ملیں گے۔


کچھ لوگوں یا اداروں نے ہمارے دینی طبقوں کو ان ہیولوں کے تعاقب میں لگا رکھا ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں جن میں سے ایک کم سنی کی شادی ہے۔ میرے مخاطبین دینی طبقے کے میرے اپنے عزیز لوگ ہیں۔ ان عزیزان گرامی سے گزارش ہے کہ اپنے مسلک کے کسی بڑے کے ملفوظات کے ساتھ عہد حاضر کی فکر کا مطالعہ بھی کیا کریں۔ کلمة الحکمۃ پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ اسی کو ”لوہا لوہے کو کاٹتا ہے“ کہا جاتاہے۔ اس مسئلے کو لے لیں،دین دشمن طبقات میں سے کون ہے جو آپ کے شرعی دلائل اور قرآن و سنت پر کان دھرے گا۔ کیا موسیٰ علیہ السلام فرعونی سانپوں کا سر لکڑی کی بوجھل الہامی الواح سے نہیں کچل سکتے تھے؟ تختیاں جن کی ایک ضرب سے ان کے قتلے بن جاتے، لیکن سنپولیوں کا مقابلہ اژدھے سے کیا گیا۔


کم سنی کی شادی کا معاملہ ایسا ہی ہے، یہ قانونِ فطرت ہے اور قانونِ فطرت کا تعلق کسی مذہب سے تلاش نہ کیا جائے۔ یہ ہر مذہب اور ہر معاشرت میں مل جاتا ہے۔ جس قانونِ فطرت کا نام ہم نے یا اللہ کریم نے اسلام رکھا ہے، اس کے مظاہر ہمیں کُو بہ کُو اور قریہ بہ قریہ مل سکتے ہیں۔


کم سنی کی شادی کے متعلق انسانی رجحانات آج بھی وہی ہیں جو صنعتی انقلاب سے قبل کے معاشروں میں تھے۔ آج کم سنی کی شادی سے متعلق دو طرفہ بظاہر دلائل، لیکن حقیقتاً لوگوں کے اپنے نقطہ ہاےنظر، ملتے ہیں۔ ان دلائل میں کوئی چیز نہیں ملتی تو ”تلاشِ حق“ کی کیفیت نہیں ملتی۔ اور یہ کام جستجو، کھوج، پِتّہ ماری اور تحقیق کے بغیر نہیں ہوتا۔



کم سنی کی شادی پر مذہبی طبقہ دلائل دیتا ہے تو حضرت عائشہؓ سے ابتدا ہوتی ہے۔ غیر ضروری مدافعت اور اُکتا دینے والی گھسی پٹی گفتگو سے آگے لوگ جا تے ہی نہیں۔ دوسرا وہ طبقہ ہے جس کا ذہن مذہب کے خلاف اتنا زہر آلود ہے کہ انہیں کوئی اچھی چیز تو کیا ملے گی، وہ تو تلاشِ حق کے بھی روادار نہیں ہیں۔ ان کی زندگی محض مذہب دشمنی اور مذہبی طبقے سے منافرت پر قائم ہے۔ پس ضروری ہے کہ اس امریکی قانون کا ہلکا سا خلاصہ ذرا دوسرے انداز میں پیش کیا جائے جہاں صغر سنی کی شادیاں کم و بیش ویسے ہی ہوتی ہیں جیسے ہمارے دیہات میں بغیر کسی تقنین (Codification) کے ہو رہی ہیں۔


جن ریاستوں میں کم از کم عمر نہیں ہے ، وہاں پیدائش کے بعد بچے کی شادی عدالتی اطمینان کے بعد کسی بھی عمر میں ممکن ہے۔ لوگ سوچیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے ، ممکن ہی نہیں ہو بھی رہا ہے۔ جنوبی امریکی زندگی قبائلی نظام سے عبارت ہے۔ مثلاً ماں کو ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے کر کہا کہ بس دو ایک ماہ زندگی باقی ہے۔ ماں مچل گئی کہ میں نے اپنے دو ایک سالہ بچے کے سہرے کے پھول دیکھنا ہیں، وہ عدالت جا پہنچی، عدالت اجازت دے دے گی ،کیوں دے گی؟ کیونکہ وہاں کی عدالتوں پر این جی او کے تاریک آسیبی سائے نہیں ہیں۔ جج اپنے دماغ سے سوچتے ہیں جن میں انسانی جذبات بھی شامل ہوتے ہیں۔


ان امریکی ریاستی قوانین پر عمل کا جائزہ لیا جائے تو اپنے ہاں کسی کو یقین نہیں آئے گا۔ حوالہ جات کے لیے عرض کروں کہ میں نے مشہور امریکی تھِنک ٹینک ، پیو (Pew) ریسرچ سینٹر کی تحقیق پر انحصار کیا ہے جس کے بیشتر اعدادوشمار امریکی بیورو آف اسٹیٹسکس سے لیے گئے ہیں، ماسوائے اس کے کہ ان کے اپنے سروے وغیرہ ہوں۔ پیو کے مطابق صرف 2014ءمیں 57,800 ایسے بچوں کی شادیاں ہوئیں جن کی عمریں 15 تا 17 سال تھیں۔


ان میں 31,644 کم سن بچیاں تھیں۔ ایک اور ادارہ اَن چینڈ ایٹ لاسٹ (Unchained at Last) ہے۔ اس کا مقصد جبری اور صغر سنی کی شادیاں روکنا ہے۔اس کے مطابق اکیسویں صدی کے ابتدائی 15 سالوں میں دو لاکھ بچوں کی شادیاں انہی قوانین کے مطابق ہوئیں۔ ضرب تقسیم خود کر لیں، ہر روز چھتیس شادیوں سے بھی قدرے زائد۔ این جی اوز اور ریاست کے اندھے وکیل ذرا صبر سے تفصیلات پڑھ لیں: صرف فلوریڈا میں سترہ سالوں میں 13 سالہ بچوں سمیت 16,400 بچوں کی شادیاں ہوئیں۔ ٹیکساس اس سے بھی آگے ہے جہاں 14 سالوں میں 40,000 بچوں کی شادیاں ہوئیں۔ نیویارک متجددین کا گڑھ ہونے کا باعث ذرا پیچھے رہا جہاں دس سالوں میں 3,800 شادیاں ہوئیں یعنی اوسط ہر روز ایک سے قدرے زائد ۔ اوہائیو میں پندرہ سالہ مدت میں 4,443 لڑکیوں کی شادیاں مختلف عمروں کے مردوں سے ہوئیں۔ ایک بچی کی شادی 48 سالہ مرد کے ساتھ ہوئی۔


مذکورہ دو لاکھ شادیوں کا ایک فی صد تقریباً دو ہزار، 14 سال سے کم عمری کی شادیاں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ میں اس کا کوئی نوٹس تک نہیں لیا گیا۔ ان میں 13 سالہ بچوں کی تعداد اکیاون ہے۔ 6 بچوں کی شادیاں 12 سالہ عمر میں ہوئیں۔ الباما میں ایک 74 سالہ شخص نے 14 سالہ لڑکی سے شادی کی۔ ایک اور ریاست میں 10 سالہ بچیوں کی شادیاں 24 تا31 سالہ مردوں سے ہوئیں۔ یہ سب کچھ متعلقہ ریاستی قوانین اور دستور کی چھتری کے نیچے ہو رہا ہے۔ اپنے متجددین اور دین بیزار طبقے سے امید ہے کہ یہ امریکی رویہ لینے میں اسے کوئی تامل نہ ہو گا۔



بچے کی شادی والدین کا مسئلہ ہے۔ وہ معاشرتی قدروں کے مطابق یہ کام کریں تو ٹھیک، ورنہ عدالتی اطمینان کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی۔ عدالتی اطمینان شادی روکنے کے لیے نہیں، شادی سے مفاسد دور کرنے کے لیے ہوگا۔ عبداللہ ؓ ابن مسعود سے منسوب حدیث کا ترجمہ ملاحظہ ہو: ”جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے (ماراہ المسلمون حسناً فھو عنداللہ حسن) اسلامی معاشرت میں ریاست کا وجود بہت معدوم سا اور خبر گیری کی حد تک کا ہے۔ مارکس کا قول کس سے پنہاں ہے جو ریاست کو آلہ جبر قرار دیتا ہے۔ اثباتی انداز میں محرم راز خالقِ کائنات کا فرمان لاگو کریں ذرا، شخصی امور میں ریاست کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ والدین بگڑے ہوے ہوں تو اجتماعی معاشرت میں غیر متوازن کام ممکن نہیں ہوتا، پھر بھی بگاڑ کا امکان رہتا ہے۔ یہاں آ کر ریاست نگران (Watch Dog) کا کردار ادا کرتی ہے، نہ کہ مقنن (Legislator) کا۔ ریاستی نمائندوں ججوں وغیرہ سے گزارش ہے کہ اس بابت اسلامی قوانین وضع شدہ (Codified) شکل میں موجود ہیں، کسی نئی تقنین کی حاجت نہیں ہے۔


بلوغت کے ساتھ جب انسان کے جسمانی تقاضے بیدار ہوتے ہیں تو یہ مسئلہ قانون، ریاست، معاشرے سے زیادہ انسانی حقوق سے مربوط ہو جاتا ہے جن کا کام رکاوٹ پیدا کرنا نہیں بلکہ معاشرے کے مجموعی میلانات کے اندر نئے جوڑے کا درست ترین مقام متعین کرنا ہوتا ہے۔ معمولی مقامی اختلافات کے ساتھ یہ مسئلہ دنیا بھر میں ایک ہی اصول سے منسلک ہے جس کا مذہب سے بہت کم تعلق ہے۔


پارلیمان، کابینہ اور سپریم کورٹ کورٹ سے توقع کی جاتی ہے کہ اس اہم معاشرتی مسئلے کو خوب بحث و تمحیص کے بعد مناسب انداز میں نمٹایا جائے۔ ایسی قانون سازی کے ذریعے جو سات ہزار سالوں سے دنیا بھر میں معروف ہے اور متمدن دنیا میں بھی اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ ججوں کے ذاتی میلانات کو عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے سے باز رکھنے کا کوئی مکینزم وضع کرے گی۔ کیا یہ امر باعث تعجب نہیں ہے کہ جج آئین کے تحت حلف اٹھائیں اور فیصلے لکھتے وقت آئینی شقوں کا خیال رکھنے کی بجائے قانون بین الاقوام کا سہارا لیں ؟


اللہ نے موقع دیا تو کم سنی کی شادی پر یورپی اور چند دیگر ممالک کے قوانین کا جائزہ بھی پیش کیا جائے گا۔




علماءِ عرب کا موقف»

احادیثِ عمرِ نکاحِ عائشہ:

صحیح احادیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چھ سال کی عمر میں ہوا، اور آپ  کی رخصتی 9 سال کی عمر میں ہوئی، ان میں سے کچھ احادیث درج ذیل ہیں:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا تو میری عمر اس وقت چھ سال تھی، پھر جس وقت ہم مدینہ آئے اور بنی حارث بن خزرج کے ہاں ٹھہرے، تو مجھے وہاں بخار ہو گیا اور اس کی وجہ سے میرے بال جھڑ گئے پھر جب کندھے تک لمبے ہوئے تو میری والدہ ام رومان میرے پاس آئیں میں اس وقت اپنی سہیلیوں کیساتھ جھولے لے رہی تھی، میری والدہ نے مجھے زور دار آواز دے کر بلایا میں ان کے پاس آئی  مجھے نہیں معلوم انہوں نے مجھے کس لیے بلایا تھا، میری والدہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھر کے دروازے پر پہنچ گئیں، میرا سانس اس وقت پھولا ہوا تھا، جب میرا سانس آپس میں ملا تو پانی سے میرا سر اور چہرہ دھویا، پھر مجھے ایک گھر میں لے گئیں، تو وہاں انصار کی کچھ خواتین  پہلے سے ہی موجود تھی، انہوں نے میرے بارے میں کلمات خیر کہے، اور میری والدہ نے مجھے ان کے سپرد کر دیا، ان خواتین نے میرا بناؤ سنگھار کر دیا، مجھے کسی بات کا علم ہی نہیں تھا کہ چاشت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور میری والدہ نے مجھے آپ کے سپرد کر دیا، اور میری عمر اس وقت نو سال تھی"
بخاری: (3894) مسلم: (1422)

اسی طرح عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے کہ : "جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں تھی اس وقت اپنی سہیلیوں کیساتھ گڑیوں سے کھیلتی تھی،  جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوتے تھے میری سہیلیاں چھپ جاتیں،  تو آپ انہیں واپس بلاتے  پھر وہ میرے ساتھ کھیلنے لگتیں"
بخاری: (7130) مسلم:(2440)

اسی طرح ابو داود: (4932) میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت موجود ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک یا خیبر سے واپس تشریف لائے  تو ان کی الماری کا پردہ ہوا سے ہٹ گیا، جس کی وجہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی گڑیاں نظر آنے لگیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عائشہ یہ کیا ہیں؟) تو انہوں نے کہا: "یہ میری گڑیاں ہیں" انہی گڑیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو پروں والا  کپڑے کا گھوڑا بھی نظر آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: (یہ گڑیوں کے درمیان کیا چیز ہے؟) تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: "یہ گھوڑا ہے" آپ نے پوچھا: (اس پر کیا بنا ہوا ہے؟) عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: "یہ اس کے پر ہیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: (کیا گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں؟) تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: "کیا آپ نے یہ نہیں سنا کہ سلیمان [علیہ السلام] کے گھوڑے کے پر تھے" عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا کھل کھلا کر ہنسے کہ مجھے آپ کی ڈاڑھیں بھی نظر آئیں"
اس روایت کو البانی رحمہ اللہ نے "آداب الزفاف" صفحہ: (203) میں صحیح کہا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"خطابی رحمہ اللہ کے مطابق: عائشہ رضی اللہ عنہا کو گڑیوں کے رکھنے کی اجازت اس لئے دی گئی کہ آپ اس وقت بالغ نہیں تھیں۔
لیکن مجھے [ابن حجر کو ] اس کے بارے میں ٹھوس الفاظ سے تعبیر  میں تامل ہے، البتہ اس کا احتمال موجود ہے؛ کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غزوہ خیبر کے موقع پرکم و بیش  14 سال عمر تھی، لیکن غزوہ تبوک کے موقع پر یقینی بات ہے کہ آپ اس وقت تک بالغ ہو چکی تھیں، اس لیے حدیث میں خیبر کے الفاظ ہی راجح ہونگے" انتہی،  واضح رہے کہ  غزوہ خیبر سات ہجری میں ہوا تھا۔

اسی طرح مسلم: (1422) میں  ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ : (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ ان کا نکاح 7  سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی 9 سال کی عمر میں ہوئی اس وقت ان کیساتھ ان کی گڑیوں کو بھی بھیجا گیا تھا، اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے ان کی عمر اٹھارہ سال تھی)

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"یہاں  عربی متن کے لفظ  "بنات" سے مراد  گڑیاں ہیں، جن سے چھوٹی بچیاں کھیلتی ہیں، اور ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی کمر عمری واضح ہو" انتہی

اس حدیث میں ہے کہ :  نکاح کے وقت ان کی عمر 7 سال تھی، اور اکثر روایات میں 6 سال کا ذکر ہے، تو ان دونوں روایات میں تطبیق ایسے ہوگی کہ ان کی عمر 6 سال سے کچھ زیادہ تھی، تو بسا اوقات انہوں نے صرف 6 سال کا ذکر کیا اور بسا اوقات انہوں نے جس سال میں لگ چکی تھیں اس کا ذکر کیا۔
یہ بات امام نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم میں بیان کی ہے۔

ابن کثیر رحمہ اللہ نے اہل علم کا اس بات پر اتفاق بھی نقل کیا ہے، اور یہ بھی کہا ہے کہ اس بارے میں کسی کا اختلاف اب تک ذکر نہیں  کیا گیا، چنانچہ وہ کہتے ہیں:
"عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ ان کا نکاح 6 سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی 9 سال کی عمر میں ہوئی" اس بارے میں لوگوں  کاکوئی اختلاف ہے ہی نہیں، ویسے بھی یہ بات صحیح بخاری و مسلم سمیت دیگر کتب میں بھی ثابت ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ ان کی رخصتی ہجرت کے دوسرے سال ہوئی تھی" انتہی
"البداية والنهاية" (3 / 161)

یہ بات سب کے ہاں مسلّمہ ہے کہ اجماع کبھی بھی غلط موقف پر قائم نہیں ہوتا؛ کیونکہ امت کسی بھی غلط بات پر متفق نہیں ہو سکتی، چنانچہ ترمذی (2167) میں ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی میری امت کو گمراہی پر متحد نہیں فرمائے گا) اس حدیث کو البانی نے صحیح الجامع: (1848) میں صحیح قرار دیا ہے۔

دوم:

مذکورہ مضمون نگار کے تعصب نے اسے دروغ گوئی اور حقائق مسخ کرنے پر مجبور کیاہے، مقصد صرف یہ ہے کہ اپنا الو سیدھا کر سکے، جیسے کہ مثال کے طور پر مضمون نگار نے ابن کثیر رحمہ اللہ کے حوالے سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں کے متعلق لکھا کہ:
"خواتین میں سے اسماء بنت ابی بکر اور عائشہ بچپن میں ہی مسلمان ہو گئیں اس طرح یہ سب ابتدائی تین سالوں میں مسلمان ہوئے"

یہ بات ہمیں ابن کثیر رحمہ اللہ کی کتاب "البداية والنهاية"  میں نہیں ملی، ابن کثیر رحمہ اللہ کی بات اسی کتاب (3/25) میں کچھ اس طرح ہے:
"سب سے پہلے آزاد لوگوں میں نبوت محمدی کی تصدیق کیلئے حضرت ابو بکر صدیق نے قدم بڑھایا، بچوں میں سے حضرت علی بن ابی طالب نے، اور خواتین میں سے حضرت خدیجہ بنت خویلد نے اسلام قبول کیا" انتہی، لیکن اسماء اور عائشہ رضی اللہ عنہما کا انہوں نے بالکل بھی تذکرہ نہیں کیا۔

کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا  تو اعلان نبوت سے بھی تقریباً چار سال بعد پیدا ہوئیں۔

مضمون نگار کا یہ کہنا کہ: "اسی طرح تمام کے تمام تاریخی مصادر نے بغیر کسی اختلاف کے یہ ذکر کیا ہے کہ اسماء عائشہ سے 10 سال بڑی تھیں"
تو یہ بات بھی مبنی بر حقیقت نہیں ہے، کیونکہ ذہبی رحمہ اللہ نے "سير أعلام النبلاء" (3/522) میں ذکر کیا ہے کہ اسما ءرضی اللہ عنہا  عائشہ رضی اللہ عنہا سے  دس سال اور [بضع] یعنی کچھ بڑی تھیں" انتہی
عربی کا لفظ: "بضع" تین سے دس کے درمیان بولا جاتا ہے۔

سوم:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہا کیساتھ 9 سال کی عمر میں شادی کوئی تعجب خیز بات نہیں ہے؛ کیونکہ یہ بات مسلّمہ ہے کہ  نسل، آب و ہوا کے اثرات کی وجہ سے لڑکیوں کے بالغ ہونے کی عمر  ہر خطے کی الگ ہوتی ہے، چنانچہ گرم علاقوں میں لڑکی جلدی بالغ ہو جاتی ہے، اور شمالی یا جنوبی قطبی علاقوں میں لڑکیاں بسا اوقات 21 سال کی عمر تک بالغ ہوتی ہیں۔

نیز امام ترمذی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ:  عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: "جب لڑکی 9 سال کی ہو جائے تو وہ عورت ہی ہے"
"سنن ترمذی" (2/409)

اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میں نے یمن میں دیکھا کہ اکثر طور پر 9 سالہ لڑکیوں کو حیض آنے لگتا ہے"
"سير أعلام النبلاء" (10 / 91)

اسی طرح  بیہقی (1588)  نے شافعی رحمہ اللہ سے  روایت کیا ہے کہ:
"جن خواتین کے بارے میں جلدی سے جلدی حیض آنے کے بارے میں سنا ہے وہ تہامہ کی خواتین ہیں انہیں 9 سال کی عمر میں حیض آتا ہے"

اسی طرح شافعی رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"میں نے صنعا میں 21 سالہ وعورت کو نانی بنے دیکھا ہے، کہ ایک عورت کو 9 سال کی عمر میں حیض آیا اور 10 سال کی عمر میں اس نے ایک بچی کو جنم دیا، پھر یہ بچی بھی 9 سال کی عمر میں جوان ہوئی اور اس نے بھی 10 سالہ عمر میں ایک بچی کو جنم دیا"
"السنن الكبرى" از بیہقی  (1 / 319)

اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہا کیساتھ رخصتی بلوغت کے بعد یا بلوغت سے کچھ پہلے ہوئی ۔

کسی بھی فن سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اس امر کا لحاظ رکھنا لازمی اور واجب ہے کہ  علم اور انصاف کی بنیاد پر گفتگو ہو، جہالت، تعصب اور ذاتی رائے کو تقویت دینا مقصود نہیں ہونا چاہیے۔

کسی بھی شخص  کے برے ہونے کیلیے اتنا ہی کافی ہے کہ کوئی  ایسا موقف اپنائے جو  گزشتہ سینکڑوں سال میں کسی نے نہ اپنایا ہو، بلکہ یہ تو اس بات کے غلط ہونے کی دلیل بنتی ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو بات گزشتہ اہل علم کی بجائے صرف بعد والے کریں تو یہ امر اس کے غلط ہونے کی دلیل ہے، جیسے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا تھا: کوئی بھی ایسی بات مت کرنا جو تم سے پہلے کسی نے نہ کہی ہو" انتہی
"مجموع الفتاوى" (21/291)

اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ : اللہ تعالی ہمیں حق کو حق سمجھنے اور پھر اتباعِ حق کرنے کی توفیق عطا فرمائے، نیز باطل کو باطل سمجھنے اور پھر اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔



نبی ﷺ کی عائشہ سے عمر میں فرق کے باوجود شادی میں حکمت:

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سودہ بنت زمعہ رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کرنے کے بعد عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کی ، اورصرف عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا ہی کنواری تھیں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی اور جب ان سے ازداوجی تعلقات قائم کیے توعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی عمر نوبرس تھی ۔

اور عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے فضائل میں یہ بھی ہے کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے علاوہ ازواج مطہرات میں سے کسی اورکے لحاف میں وحی نازل نہيں ہوئی ، اورعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسب بیویوں سے زيادہ محبوب تھیں ، ان کی برات ساتوں آسمانوں سے نازل ہوئی ۔

عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے سب سےزيادہ فقیہ اورعلم رکھنے والے تھیں ، بلکہ مطلقاامت اسلامیہ کی عورتوں میں سب سے زيادہ فقیہ اورعلم رکھنے والی تھیں ، بڑے بڑے صحابہ کرام عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے رجوع کرتے اوران سے مسائل پوچھا کرتے تھے ۔

ان کی شادی کا قصہ یہ ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی وفات سے بہت زيادہ غمزدہ ہوئے اس لیے کہ وہ ان کی تائيد اورمدد کیا کرتی تھیں ، اورہر معاملہ میں ان کے ساتھ کھڑی ہوتی تھیں ، اسی لیے اس سال کو جس میں وہ فوت ہوئي اسےعام الحزن ( یعنی غموں کا سال ) کہا جاتا ہے ۔

پھر ان کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سودہ رضی اللہ تعالی عنہا سے شادی کرلی یہ بڑی عمر کی تھیں اورخوبصورت بھی نہيں تھیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے صرف غمواری کے لیے شادی کی تھی کیونکہ اس کا خاوند فوت ہوچکا تھا ، اوریہ مشرک قوم کے درمیان رہائش پذیر تھیں ۔

اس کے چارسال بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے شادی کی اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچاس برس سے زيادہ تھی ، عائشہ رضي اللہ تعالی عہنا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شادی کرنے میں مندرجہ ذیل حکمتیں ہوسکتی ہیں :

اول :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کی خواب دیکھی تھی ، صحیح بخاری میں حدیث مروی ہے کہ عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں فرمایا :

( خواب میں مجھے تو دوبار دکھائي گئي تھی ، میں نے تجھے ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئي دیکھا ، کہا گیا کہ یہ تیری بیوی ہے جب میں کپڑا ہٹاتا ہوں تو دیکھا کہ تو ہے ، میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے توپھر اللہ اسے پورا کرے گا )
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3682 ) ۔

اور کیا یہ اپنے ظاہر پر نبوت کی خواب ہے یا اس کی کوئي تاویل ہوگي علماء کرام کے مابیں اس میں اختلاف ہے ، جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے فتح الباری میں ذکر کیا ہے ۔ دیکھیں فتح الباری ( 9 / 181 ) ۔

دوم :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے بچپن میں جوذھانت اورسمجھداری کی علامات اورنشانیاں دیکھیں تواس بنا پران سے شادی کرنا پسند فرمائی تا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال اوراقوال کودوسروں کی بنسبت صحیح اوربہتر طریقے سے نقل کرسکے ۔

اورپھر حیقیقتا ہوا بھی ایسے ہی جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بڑے بڑے صحابہ کرام کے لیے مرجع بن گئي اورصحابہ کرام اپنے احکام اورہرمعاملہ کے بارہ میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے رجوع کیا کرتے اورپوچھا کرتے تھے ۔

سوم :

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے والد ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ، کہ انہوں نے دعوت حق کے راستے میں جواذیتیں برداشت کی اوران پر صبر وتحمل سے کام لیا ، لھذا علی الاطلاق انبیاء کےبعد وہ سب لوگوں سے زیادہ پختہ ایمان والے اورسچے یقین والے تھے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی بھی شادیاں کی اگران میں نظر دوڑائي جائے توہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں کم عمر بھی ہے اوربوڑھی بھی اورسخت قسم کے جھگڑالودشمن کی بیٹی بھی اورجگری اوردلی دوست کی بیٹی بھی ۔

ان میں ایسی بھی ہے جویتیموں کی پرورش بھی کرنے والی ہے ، اوران میں ایسی بھی ہے جونماز اورروزے کثرت سے رکھنے میں دوسروں سے ممتازہوتی ہے ۔۔۔ وہ سب انسانی افراد کے لیے نمونہ اورآئڈیل تھیں ، ان کے ذریعہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کوایک ایسی یکسو تشریع دی جس میں بشریت کے ہرمعاملے اورکام سے تعامل اوربرتاؤ کی کیفیت بیان کی گئي ہے ۔

دیکھیں : السیرۃ النبويۃ فی ضوء المصادرالاصلیۃ صفحہ ( 711 ) ۔



اور رہا مسئلہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی صغر سنی اوراس کے بارہ میں آپ کے اشکال کا توہم گزارش کرینگے گے کہ : آپ کوعلم ہونا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک گرم علاقہ جزیرہ عربیہ میں رہتے تھے اوروہيں پرورش بھی پائي ، اورغالباگرم علاقوں میں سن بلوغ بھی جلد آجاتا ہے جس کی بنا پر شادی بھی جلد ہوجاتی ہے ، جزیرہ میں بھی عھد قریب تک یہی حالت تھی ، اورپھر عورتوں میں جسم کے نشونما کا بھی اختلاف پایا جاتا ہے جس میں وہ ایک دوسرے سے بہت زيادہ مختلف ہوتی ہیں ۔

اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے ، جب آپ غورکریں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے علاوہ کسی اورکنواری عورت سے شادی نہيں کی بلکہ ان کے علاوہ باقی سب بیویاں ایسی تھیں جن کی پہلے شادی ہوچکی تھی اب یا تو وہ مطلقہ تھیں یا بیوہ ، اس طرح وہ طعن جوکچھ لوگ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شادی کرنے کا مقصد صرف عورتوں کی شھوت اوران سے نفع اٹھانا تھا زائل ہوجاتا ہے ۔

کیونکہ جس شخص کا یہ مقصد ہو تووہ اپنی ساری بیویاں یا اکثر ایسی اختیار کرتا ہے جوانہتائي خوبصورت ہوں اوران میں رغبت کی ساری صفات پائي جائيں ، اوراسی طرح اورحسی اورزائل ہونے والے معیار بھی ۔

کفار اوران کے پیروکاروں کا اس طرح نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم میں طعن کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ دین اورشریعت میں طعن کرنے سے بالکل عاجز آچکے ہیں اب انہيں کچھ نہيں ملا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں طعن کرنا شروع کردیا اورکوشش کرتے ہيں کہ خارجی امور میں طعن کیا جائے ، لیکن اللہ تعالی تواپنے نور اوردین کو مکمل کرکے رہے گا اگرچہ کافر برا مناتے رہیں ۔

اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔

مزید تفصیل کے لیے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کی کتاب زاد المعاد ( 1 / 106 ) کا مطالعہ کریں ۔



اتفاقِ علماء:

تمام فقہاءِ امت بھی نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اسی عمر کے قائل ہیں۔ اور اسی کو مدِنظر رکھتے ہوئے کتنے مسائل کی کتب ِفقہ میں 'تفریع' کی گئی ہے۔ ﴿کتاب الاستیعاب فی معرفة الأصحاب﴾ جو صحابہ کے حالات میں نہایت جامع، مبسوط اور معتبر کتاب ہے، اس میں بھی آپ کی عمر یہی مذکور ہے۔ چنانچہ آپ  کے ترجمہ میں اس کتاب کی عبارت یہ ہے :

«عائشة بنت أبی بکر الصديق زوج النبیﷺ تزوجها رسول اللهﷺ بمکة قبل الهجرة بسنتين هذا قول أبی عبيدة وقال غيره بثلاث سنين وهي بنت ست سنين وقيل سبع سنين وابتنی بها بالمدينة وهي ابنة تسع لاأعلمهم اختلفوا فی ذلک»

ترجمہ:

"حضرت عائشہ  : (آپ) حضرت ابوبکر  کی بیٹی ہیں۔ آپ کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں ہواتھا۔ ابوعبیدہ کا بیان ہے کہ ہجرت کے دو سال قبل یہ نکاح ہوا تھا اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ تین سال قبل ہوا تھا۔ اس وقت آپ کی عمر چھ برس کی تھی اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سات برس کی تھی۔ اور جس وقت آپ کی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر رخصتی ہوئی ہے، اس وقت آپ کی عمر کل نو برس کی تھی۔ مجھے اس بارے میں کسی کا اختلاف معلوم نہیں۔"

[استيعاب ص۳۵۶ علی هامش الإصابة]

یعنی آپ کے نکاح کی عمر میں تو ذرا سا اختلاف ہے کہ کسی نے چھ، کسی نے سات برس کی عمر بتلائی ہے مگر رخصتی کی عمر سب کے نزدیک ۹ برس مسلم ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اب رہا یہ چھ سات کا اختلاف تو اہل نظر کے نزدیک کچھ اہم نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر اپنی کتاب 'اصابہ' میں لکھتے ہیں:

«عائشة  بنت أبی بکر الصديق ولدت بعد المبعث بأربع سنين أو خمس فقد ثبت فی الصحيح أن النبیﷺ تزوجها وهي بنت ست وقيل سبع و يجمع بأنها کانت أکملت السادسة ودخلت فی السابعة ودخل بها وهي بنت تسع»

ترجمہ:

"عائشہ... حضرت ابوبکر کی لڑکی ہیں۔ نبوت کے چوتھے یا پانچویں سال آپ کی ولادت ہوئی ہے کیونکہ صحیح حدیث سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے ساتھ نکاح کیا تھا تو اس وقت آ پ کی عمر چھ برس یا بقول بعض سات برس کی تھی۔ اور ان دونوں اَقوال میں کچھ اختلاف نہیں۔اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ چھ برس کی عمر پوری کرکے ساتویں برس میں داخل ہوچکی تھیں۔ اور آپ کی رخصتی ہوئی جبکہ آپ کی عمر ۹ برس کی تھی۔"

[استيعاب:۴/۳۵۶]

یعنی یہ اختلاف کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ آپ چھ برس کی ہوچکیں تو ساتویں سال میں پہنچ گئیں۔ لہٰذا جس نے چھ سال کہا، اس نے کامل سال مراد لیا اور جس نے سات سال بتلایا، اس نے اس نئے سال کو بھی داخل کرلیا۔ الغرض آپ کی نکاح کی یہ عمر بالکل صحیح اور یقینی ہے۔ اور ان کتب مذکورہ کے علاوہ بھی جتنی کتابیں حدیث و سیر کی ہیں، سب میں آپ کی عمر یہی مذکور ہے کہ بوقت ِنکاح چھ برس اور بوقت ِرخصتی نو برس تھی۔




موجودہ صدی کی نئی تحقیق کی واضح غلطی:
اس اہم اور مشہور واقعہ پر اسلام کی تیرہ صدیاں گذر چکیں مگر کسی نے اس واقعہ کی تاریخ کو غلط ثابت کرنے کی ہمت نہیں کی۔ کیونکہ اسلام کے جملہ دوادین و کتب میں کہیں ایک حرف بھی اس کے خلاف نہیں ہے۔ کتب ِاسلامیہ اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت عائشہ  کی نکاح کی عمر چھ برس اور رخصتی کی عمر نو برس ہے مگر آج کے بعض تجدد پسند اصحاب نے، مشکوٰة شریف کے اخیر میں جو ایک رسالہ امام خطیب کا لگا ہوا ہے، اس کی ایک عبارت دیکھ کر فوراً یہ لکھ دیا اور اخباروں کے ذریعہ تمام ملک میں اس کی اشاعت بھی کردی کہ حضرت عائشہ  کی عمر بوقت نکاح ۱۶/ برس اور بوقت ِرخصتی ۱۹/ برس تھی۔
امام خطیب (موٴلفِ مشکوٰة ) کی جس عبارت سے یہ اخذ کیا گیا ہے ، وہ حضرت اسماء جو حضرت عائشہ کی بڑی بہن تھیں، کا ترجمہ (حالات ِزندگی) ہے ۔ اس کی اصل عبارت یوں ہونی چاہئے :
«هي أکبر من أختها عائشة بعشرين سنين وماتت وله مائة سنة وذلک سنة ثلاث وسبعين» 
ترجمہ:
"اسماءبنت ابی بکر... اپنی بہن حضرت عائشہ  سے بیس برس بڑی تھیں، ۷۳ ہجری میں ایک سو برس کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔"
[الاکمال :ص ۳ ملحقہ مشکوٰةشریف]

امام خطیب کی اصل عبارت تو یوں تھی جو ہم نے درج کی لیکن اللہ کاتب پررحم کرے کہ اس نے عشرین کی جگہ عشر لکھ دیا جس سے ۱۰ عدد کا فرق پڑ گیا۔ یعنی بیس کی بجائے دس ہوگیا۔ اب اس عبارت کا ترجمہ یہ ہوگیا کہ حضرت اسماء حضرت عائشہ  سے صرف دس برس بڑی تھیں۔
اور اس صورت میں حضرت عائشہ جو اپنی بہن اسماء  سے بیس برس چھوٹی تھیں، عمرمیں صرف دس برس کم رہ گئیں۔ اور یہاں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت اسماء ایک ہجری میں ۲۷ برس کی تھیں۔ کیونکہ ۷۳ ہجری میں آ پ کی عمر سو برس کی ٹھہری تو ایک ہجری میں ۲۷ برس یقینی امر ہے۔ اسی غلطی پر بنیاد بناتے ہوئے جب حضرت عائشہ کی عمر ایک ہجری میں نکالی جائے تو دس برس چھوٹی ہونے کی وجہ سے ۱۷ برس بنتی ہے ۔اگر عمر کا فرق ۲۰ برس کا ہو تو ایک ہجری میں حضرت عائشہ کی عمر ۷ برس بنی۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے ہمارے واقعہ نگار کو غلطی لگی۔
لیکن ہمارے عجلت پسند بزرگ اسی رسالہ کا وہ مقام دیکھ لیتے جو خاص حضرت عائشہ  ہی کے ترجمہ کے ساتھ مخصوص ہے تو ہرگز اس فاش غلطی کا ارتکاب نہ کرتے۔چنانچہ یہی امام خطیب اسی رسالہ میں حضرت عائشہ  کے ترجمہ میں لکھتے ہیں کہ
«عائشة الصديقة أم الموٴمنين: عائشة بنت أبی بکر الصديق خطبها النبیﷺ وتزوجها بمکة في شوال سنة عشر من النبوة قبل الهجرة بثلاث سنين وأعرس بها بالمدينة فی شوال سنة اثنتين من الجهرة علی رأس ثماني عشر شهراً ولها تسع سنين وقيل دخل بها بالمدينة بعد سبعة أشهر من مقدمه وبقيت معه تسع سنين ومات عنها ولها ثماني عشرة سنة»
ترجمہ:
"عائشہ صدیقہ اُمّ المومنین: یہ عائشہ  حضرت ابوبکر کی لڑکی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نکاح کا پیغام دیا اور آپ سے مکہ میں شوال کے مہینہ میں نکاح کیا۔ (یہ واقعہ) ۱۰/ نبوت میں ہوا یعنی ہجرت سے تین برس پہلے اور آپ نے ان کو ۱۸/ مہینہ گذرنے کے بعد ۲ ہجری میں اپنی دلہن بنایا جس وقت آپ کی عمر کل ۹ برس کی تھی اور بعض کا بیان ہے کہ یہ خلوت مدینہ میں تشریف آوری کے صرف سات ماہ بعد واقع ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا قیام بھی (مکہ کے قیام کی طرح) صرف ۹ ہی برس رہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت آپ کی کل عمر صرف اٹھارہ برس کی تھی۔"
[الاکمال :ص۲۸]

اس صاف و صریح بیان کے بعد کہ ۶ برس کی عمر میں نکاح ہوا اور ۹ برس کی عمر میں رخصتی ہوئی اور ۱۸ برس کی عمر میں بیوگی کا صدمہ اٹھایا، کیا کوئی منصف اور عقل مند شخص اس کے بعد اس امر کے یقین کرنے میں تامل کرسکتا ہے کہ حضرت اسماء  کے ترجمہ میں عشرین کی بجائے عشر کا لفظ،محض کتابت کی غلطی ہے۔ ہمیں سخت تعجب ہے کہ لائق مضمون نگار نے اس اصل مضمون سے کیونکر غفلت کی اور ایک غلط عبارت کے ذریعہ تمام دنیا کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش کی۔ اگر واقعتہً یہ مقام آپ کی نظر سے نہیں گزرا تو یہ ایک اہل علم کے لئے یہ ناقابل معافیجرم ہے۔کیونکہ یہ مضمون اسی رسالہ میں ہے جس میں سے آپ مضمون لکھ رہے ہیں اوریہی مقام آپ کے ماخذ کا اصل سرچشمہ ہے۔ اور اگر دیدہ دانستہ اس بددیانتی کا ارتکاب کیا گیا ہے تو ہمارے خیال میں اس سے بڑھ کر ظلم و خیانت کی شاید کوئی اور مثال نہیں ملے گی۔ اب رہا کتابت میں اس قسم کی غلطیوں کا ہوجانا یہ تو روز مرہ کی بات ہے۔ اہل نظر کے لئے ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں، اکائی دہائی کی آئے دن غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ مگر قرائن بھی تو کوئی چیز ہیں خصوصاً اس حالت میں کہ اسی واقعہ کو دوسری جگہ بالکل صاف اور واضح کردیا گیا ہو اور جملہ دوادین و کتب بھی اس کی تصدیق کرتی ہوں۔
اس موقع پر ہمیں اپنے ان محترم معاصرین سے بھی شکایت ہے جنہوں نے اس صحیح مسلک کی تائید کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ امام خطیب سے اس جگہ غلطی ہوگئی ہے یا یہ کہا گیا کہ یہ رسالہ کوئی ایسا اہم رسالہ نہیں ہے۔ کیونکہ جب تک کسی کی غلطی یقینی طور پر معلوم نہ ہو، تب تک اس قسم کا لفظ بولنا بالکل غیر موزوں ہے بالخصوص امام خطیب جیسے بلند پایہ شخص کی طرف جو اس میدان کا اعلیٰ شہسوار ہے۔

حضرت عائشہ کے نکاح پر عقلی اعتراضات
اہلِ اسلام میں جب تک وسعت ِعلم اور دقت ِنظر کا عنصر غالب رہا، کسی فرد نے اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس عمر میں شادی کو غیر معقول خیال نہیں کیا۔ مگر آج جبکہ ہر طرف کفر والحاد کا غلبہ ہے اور تجدد و نیچریت کا دور دورہ ہے، اس نکاح پر عقلی اعتراضات وارد کئے جا رہے ہیں۔ اس موقع پر جو سوالات آج کل عموماً اٹھائے جاتے ہیں ، وہ درج ذیل ہیں:
1۔ حضرت عائشہ  جیسی کمسن لڑکی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شادی کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟
2۔ آیا اس عمر کی لڑکی دلہن بننے اور ازدواجی ضرورت کے رفع کرنے کی اہلیت رکھتی ہے یا نہیں؟
3۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس سے زیادہ عمر کی لڑکی نہیں مل سکتی تھی کہ اس کمسن بچی کے ساتھ عقد کیا؟
یہی وہ شکوک و اوہام ہیں جو بطریق سوال پیش کئے جارہے ہیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ اس موقعہ پر ان کا جواب بھی دے دیا جائے۔

پہلا سوال اور اس کا جواب
یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت تمام دنیا کے واسطے تھی اور ہے۔ اور دین اسلام کی تکمیل آپ ہی کے ہاتھوں ہونے والی تھی اور ہوئی۔ ایسی صورت میں یہ ضروری تھا کہ طبقہ اناث کو احکام ومسائل بتلانے کے لئے آپ کے عقد میں جہاں کئی ایک عمر رسیدہ خواتین ہوں، وہاں ایک کمسن خاتون بھی ضرور ہونی چاہئے تاکہ وہ کمسن اور کنواری بچیاں جو فرطِ حیا سے ماں برابر جیسی عورتوں سے اپنے مخصوص مسائل پوچھنے میں حیا محسوس کریں،وہ خاص آپ سے مل کر اپنے حالات کا اظہار کرکے اپنی تشفی کرسکیں۔ اور اس کے لئے صرف حرم نبوی میں داخل ہونا ہی ضروری نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی قابلیت کا پایا جانا بھی ضروری تھا جو احکام و مسائل کے سمجھنے میں کافی مدد دے سکے۔
حالات و واقعات اس امر پر شاہد ِعدل ہیں کہ اس مخصوص انداز میں جو حضرت عائشہ کو قدرتی طور پر فضیلت حاصل تھی، وہ ازواجِ مطہرات میں سے کسی اور کو باوجود زیادتی ٴسن کے حاصل نہ تھی۔ اوریہی وجہ ہے کہ جس قدر احکام و مسائل حضرت عائشہ سے منقول ہیں، کسی اور بیوی سے اس کا عشرعشیر بھی نہیں پایا جاتا۔ اسی لئے تمام دنیائے اسلام بھی آپ کے فضل و کمال کی معترف ہے۔ 'الاستیعاب 'میں عطار بن ریاح جیسے جلیل القدر بزرگ سے مروی ہے کہ
«کانت عائشة أفقه الناس وأعلم الناس وأحسن الناس رأيا فی العامة»
(استیعاب علی الاصابة: جلد۴/ ص۲۵۸ )
"حضرت عائشہ تمام لوگوں میں زیادہ سمجھدار اور سب سے زیادہ علم والی اور عام طور پر نہایت پختہ رائے رکھنے والی تھیں۔"
اسی کتاب میں امام ابوالضحیٰ سے مروی ہے کہ حضرت مسروق فرماتے تھے کہ
«رأيت مشيخة من أصحاب رسول اللهﷺ الأکابر يسئلونها عن الفرائض»
"میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے جلیل القدر اصحاب کو دیکھا کہ وہ حضرت عائشہ سے فرائض کے مسائل دریافت کیا کرتے تھے"
ہشام بن عروہ کا بیان ہے کہ میرے والد مکرم فرمایا کرتے تھے
«ما رأيت أحدا أعلم بفقه ولا بطب ولا بشعر من عائشة رضی الله عنها»
"میں نے کسی کو حضرت عائشہ  سے زیادہ عالم نہیں پایا۔ فقہ، طب، شعر ان میں سے کسی ایک میں بھی کوئی ان کا ہم پلہ عالم نہ تھا۔"
امام زہری جوصحابہ کرام کے حالات سے بہترین واقفیت رکھنے والے اور علم حدیث اور فقہ کے مسلمہ امام ہیں، ان کا بیان ہے کہ
«لو جمع علم عائشة إلی علم جميع أزواج النبیﷺ وعلم جميع النساء لکان علم عائشة أفضل»
"اگر حضرت عائشہ کا علم ایک پلہ میں رکھا جائے اور تمام ازواجِ مطہرات اور دیگر تمام عورتوں کا دوسرے پلہ میں اور یہ تمام علم سے آراستہ ہو کر آئیں تو پھر بھی حضرت عائشہ ہی کے علم کا پلہ بھاری رہے گا۔"
ابوبردہ اپنے والد ابوموسیٰ  سے روایت کرتے ہیں کہ آپ فرماتے تھے
«ما أشکل علينا أمر فسألنا عنه عائشة إلا وجدنا عندها فيه علما»
"مشکل سے مشکل مسئلہ بھی حضرت عائشہ  سے دریافت کیا جاتا تو اس کے متعلق بھی علم کا خزانہ ان کے پاس موجود نظر آتا تھا۔"
یہ تمام حالات کتاب'الاستیعاب' اور'الاصابه' سے لئے گئے ہیں جو اس فن کی اعلیٰ درجہ کی معتبر کتابیں شمار ہوتی ہیں۔ان واقعات و حالات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ حضرت عائشہ کو قدرت کی طرف سے ایسی مافوق العادت استعداد و قابلیت ودیعت کی گئی تھی کہ عرب کیا ساری دنیا کی عورتوں میں اب تک اس کی نظیر نہیں پائی گئی۔ حتیٰ کہ وہ ازواجِ مطہرات جو آپ سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض صحبت سے مستفیض ہو رہی تھیں اور ان میں سے اکثر کا تعلق اعیانِ قریش اور صنادید عرب ہی سے تھا، ان میں سے ہر ایک نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بھی آپ سے کہیں زیادہ پائی تھی مگر پھر بھی جو فضل و کمال اس کمسن اور خورد سال میں پایا گیا، وہ کسی اور معمر، عمررسیدہ میں نظر نہ آیا۔ ایسی صورت میں جبکہ قدرت نے پہلے ہی سے آپ کو فضل و کمال کے بے انتہا محاسن عطا کر رکھے تھا اورنکاح کے بعد آپ کی ذات ِ گرامی سے وہ علم و فضل کے چشمے جاری ہوئے کہ اس وقت سے لے کر آج تک کے تمام اہل اسلام اس کے بغیر تشنہ کام نظر آرہے ہیں، کیا کسی کو یہ کہنا سزاوار ہے کہ آپ نے تمام عرب میں سے اسی کمسن اور خورد سال بچی کو کیوں منتخب فرمایا!!؟
امرِ واقعہ بھی یہ ہے کہ جس قدرت کی طرف سے آپ کے اندر فضل وکمال کے یہ جواہرات ودیعت کئے گئے تھے اور دنیا کی ہدایت کے لئے آپ کی ذاتِ گرامی کو منتخب کیا گیاتھا، اسی کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رسم ازدواجی کے پورا کرنے کا اشارہ بھی فرما دیا گیا تھا۔ چنانچہ حافظ ابن عبدالبر 'الاستیعاب' میں لکھتے ہیں کہ
«کان رسول اللهﷺ قدرأی عائشة فی المنام فی سرقة من حرير فتوفيت خديجة فقال إن يکن هذا من عند الله يمضه فتزوجها بعد موت خديجة»
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ  کو ریشم کے کپڑے میں خواب میں دیکھا۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ کا انتقال ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ خواب خدا کی طرف سے ہے تو وہ اس کو سچا کر دکھائے گا (چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ) حضرت خدیجہ کے بعد آپ نے حضرت عائشہ سے نکاح کیا"
'الاصابہ' میں حافظ ابن حجر اس خواب کا ذکر خود حضرت عائشہ  ہی کی زبان سے نقل کرتے ہیں کہ آپ کہا کرتی تھیں:
«أعطيت خلالا ما أعطيتها امرأة: ملکنی رسول اللهﷺ وأنا بنت سبع وأتاه الملک بصورتی فی کفه لينظر إليهاو بنی بی لتسع" ... الخ»
"مجھے بعض ایسی فضیلتیں عطا کی گئیں کہ وہ کسی اور بی بی کو نصیب نہ ہوئیں: (ایک) یہ کہ سات سال کی عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی بیوی بنایا، (دوسرے) : یہ کہ فرشتہ میری صورت اپنی ہتھیلی میں لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلانے کے لئے لایا، (تیسرے): یہ کہ ۹ برس کی عمر میں میرے ساتھ آپ نے خلوت کی... الخ"
بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دو بار آپ کو اس نکاح کی طرف بذریعہ خواب توجہ دلائی گئی۔ چنانچہ حضرت عائشہ  کی ہی زبانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ان لفظوں میں مذکور ہے:
«أريتک فی المنام مرتين إذا رجل يحملک فی سرقة حرير فيقول هذه امرأتک فأکشفها فإذا هي أنت فأقول إن يکن هذا من عندالله يمضه» 
"تم مجھے دو بار خواب میں اس طرح سے دکھلائی گئیں کہ ایک شخص تم کو ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر دکھلاتا ہے کہ یہ آپ کی بیوی ہیں۔ میں جب کپڑا اٹھا کر دیکھتا تو تمہاری صورت نظر آتی تھی۔ میں نے کہا کہ اگر یہ خواب خدا کی طرف سے ہے تو پورا ہو کر رہے گا۔"
[بخاری : کتاب التعبیر حدیث نمبر ۷۰۱۱]

بعض روایات میں تین بار کا بھی ذکر آیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قدرت کو پہلے ہی سے یہ بات مدنظر تھی کہ آپ کی ذات سے اسلام کو تقویت ہو۔ چنانچہ اس کا ثبوت ان خوابوں سے واضح ہوگیا۔ کیونکہ اسلامی مفاد مدنظر نہ ہوتا تو بذریعہ خواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دیے جانے کی ضرورت نہ تھی۔ اور یہی وجہ تھی کہ پہلے ہی سے آپ کے روحانی اور جسمانی حالات قدرتی طور پر مافوق العادت ترقی پذیر تھے۔ قدرت کی یہ تربیت خاص انداز میں آپ کے ساتھ اسی لئے تھی کہ آپ سے بڑے بڑے کام اس کو لینا منظور تھے۔ چنانچہ دنیا نے اس کو دیکھ لیا کہ آپ باوجود کمسن اورصنف ِ نازک ہونے کے بڑے بڑے فقہاصحابہ سے علمی طور پر برتر تھیں۔

دوسرا سوال اور اس کا جواب
دوسرا سوال جو اس موقع پر کیا جاتا ہے کہ ۹ برس کی لڑکی صحیح معنی میں دلہن بننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔ اس سوال کا جواب خود واقعات دینے کوتیار ہیں۔ اگر کسی کی نظر ہی وسیع نہ ہو تو اس کا کیا علاج ہے۔ ہم نے خود اپنے اس زمانہ میں بعض واقعات اس قسم کے سنے ہیں کہ فلاں مقام پر اس عمرکی کمسن لڑکی حاملہ پائی گئی یا اس کو وضع حمل ہوا ہے۔ اخبارات میں بھی ایسے واقعات شائع ہوتے رہتے ہیں۔مگر ہم اس موقع پر ائمہ اسلام کی شہادت پیش کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے یہ لکھا ہے کہ اس سن کی عورتیں حاملہ یا ذات الولد پائی گئیں چنانچہ دارقطنی جو حدیث کی مشہور کتاب ہے۔ اس میں عباد بن عباد مہلبی کا بیان مذکور ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ
«أدرکت فينا يعنی المهالبة امرأة صارت جدة وهي بنت ثمان عشرة سنة ولد لتسع سنين ابنة فولدت ابنتها لتسع سنين فصارت هي جدة وهي بنت ثمانی عشرہ سنة ... الخ»
"میں نے اپنی قوم مباہلہ میں ایک عورت کو دیکھا کہ وہ اٹھارہ برس کی عمر میں نانی بن گئی تھی۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ خود اس کو ۹/ برس کی عمر میں لڑکی پیدا ہوئی او رپھر وہ لڑکی ۹/ برس میں لڑکے والی ہوگئی اور اس طرح سے ۱۸ /برس میں نانی بن گئی۔"
اصل یہ ہے کہ لڑکے لڑکیوں کا شباب و بلوغ صرف عمر ہی پر موقوف نہیں۔ زیادہ تر ملکی آب و ہوا اور جسمانی نشوونما کو بھی اس میں بہت کچھ دخل ہے۔ ایک ہی ملک کے قوی الاعضا اور نحیف الاعضامیں چار چار، چھ چھ برس کافرق پڑ جاتا ہے حتیٰ کہ بعض اوقات چھوٹا لڑکا یا لڑکی بلوغ کوپہنچ جاتے ہیں اور بڑے ابھی برسوں پڑے رہ جاتے ہیں۔امام شافعی جو ائمہ اربعہ میں جلیل القدر امام ہیں ، آپ کا چشم دید واقعہ نقل کیا جاتاہے :
«أنه رأی جدة بنت إحدی عشرين سنة وإنها حاضت لاستکمال تسع ووضعت بنتها لاستکمال عشر ووقع ببنتها مثل ذلک»
"آپ نے دیکھا کہ ایک عورت اکیس برس کی عمر میں نانی بن گئی۔ اس کی صورت یوں ہوئی کہ نویں برس میں حیض آیا، دسویں برس میں لڑکی جنی اور اس لڑکی کا حیض و حمل بھی اسی طرح وقوع پذیر ہوا جس سے اکیس برس کی عمر میں نانی کہلانے لگی۔"
[فتح الباری: ص۲۰۳ جلد ۵]

اسی طرح صحیح بخاری میں بھی حسن بن صالح کے ذریعہ ایک واقعہ مذکور ہے۔ ان کابیان ہے کہ
«کنت أدرکت جارة لنا جدة بنت إحدیٰ و عشرين»
"میں نے اپنے پڑوس کی لڑکی کو دیکھا کہ وہ اکیس برس کی عمر میں نانی ہوگئی تھی۔"
[بخاری: جلد۱/ص۴۶۶]

ان واقعات اور حالات کے معلوم کرلینے کے بعد غالباً اس عمر میں عورت کے بلوغ میں کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا۔ ہاں یہ ہمیں بھی تسلیم ہے کہ علی العموم اس سن میں بہت کم عورتیں بالغ پائی جاتی ہیں مگر اس سے یکدم نفی کا ثبوت کیونکر ہوسکتا ہے اور خاص کر ایسی لڑکی کی نسبت جس کی جسمانی اور روحانی نشوونما کا کمال سب پر ظاہر ہو۔
ہاں ممکن ہے کہ کسی کو اس واقعہ سے شبہ پڑے کہ آپ کی کمسنی اور جھولا وغیرہ کا ذکر آ پ کے بلوغ کو تسلیم کرنے سے مانع ہے تو اس کے جواب میں آپ کی توجہ عہد رفتہ کی طرف منعطف کرنے کا مشورہ دیں گے اور اس زمانہ کی سادگی اور معاشرتی حالات کی طرف غائر نظر ڈالنے کی رائے دیں گے، جس سے تمام شکوک رفع ہوجائیں گے۔

تیسرا سوال اور اس کا جواب
اس موقع پر تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اور لڑکی اس سے زیادہ سن کی آپ کو نہیں مل سکتی تھی۔ اس کے جواب میں گذارش ہے کہ ہاں ضرور مل سکتی تھی لیکن وہ فضل و کمال جو آپ کے شامل حال تھا، وہ کیونکر کسی او رمیں مل سکتا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ  کے علاوہ اور بھی ۸،۹ بیویاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عقد میں تھیں۔ لیکن کوئی بیوی بھی آپ کے ہم پلہ نہیں ہوئی ۔ ہم نے جو اوپر آپ کے حالات میں ائمہ کرام کے کلمات کو پیشکیا ہے، اس سے ہر شخص آ پکی قابلیت کا بآسانی اندازہ لگا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی مسلمہ امر ہے کہ حضرت ابوبکر نہ صرف اہل اسلام میں معزز و محترم تسلیم کئے جاتے تھے بلکہ کفارِ عرب نے بھی ہمیشہ آپ کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا۔ چنانچہ آپ کا یہ واقعہ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ آپ اپنی قوم سے تنگ آکر جب حبشہ کی طرف اوّل اوّل ہجرت کرنا چاہی تھی اور اس قصد سے آپ مکان سے نکل چکے تھے تو راستہ میں 'ابن دغنہ' سردارِ قبیلہ آپ سے ملا۔ اوراسے جب یہ معلوم ہوا کہ آپ ترکِ وطن کرکے اور جگہ جانا چاہتے ہیں تو وہ آپ کو راستہ سے واپس لایا اور کہا کہ آپ جیسا شخص بھی قوم سے الگ کیا جاسکتا ہے؟
مقامِ غور ہے کہ کفارِ عرب جودین اسلام کے سخت ترین دشمن اور مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے ایسی حالت میں ایک ایسے شخص کو جو اسلام کا سخت فدائی اور دین کا کامل جاں نثار ہے ، اس کو ان کی قوم کا سردار راستہ سے واپس بلا رہا ہے۔ کوئی شخص اس واقعہ سے بخوبی اندازہ کرسکتا ہے کہ عرب میں آپ کس شان و شوکت اور عزت و وقار کے مالک تھے۔اس سے یہ واضح ہے کہ عرب میں آپ کی شخصیت ایک بے نظیر شخصیت تھی اور مذہب ِاسلام میں تو اہل حق کا اس امر پرکامل اتفاق ہی ہے کہ
«إن أفضل الناس بعد الأنبياء بالتحقيق أبوبکر الصديق»
"یقینا انبیاء کے بعد تمام انسانوں سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔"
ایسے عظیم الشان اور معززخاندان کی لڑکی جو خاندانی شرافت کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے جسمانی اور روحانی محاسن سے بھی مالا مال ہو۔ کیا ایسی معزز خاتون بجز نبی کے کسی اور کے لائق ہوسکتی تھی۔ اور کیا کوئی دوسری لڑکی ا ن تبلیغی فرائض کی انجام دہی کر سکتی تھی۔
اس کے علاوہ ایک نہایت اہم مصلحت یہ بھی تھی کہ دنیا آگے چل کر یہ نہ کہہ سکے کہ ایسا اولوالعزم نبی باوجود متعدد نکاح و بیاہ کے کسی باکرہ لڑکی سے ہم آغوش نہ ہوسکا۔ جیسا کہ کفارِ عرب نے آپ کے سامنے آپ کے چچا ابوطالب کی معرفت آپ کو راہ حق سے روکنے کے لئے آخری تدبیر پیش کرتے ہوئے کہا :
1۔ آپ اگر حکومت چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا سردار تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ مگر آپ ہمارے مذہب کی تردید سے باز آجائیں۔
2۔ اگر آپ مال چاہتے ہوں تو ہم تمام قبائل آپ کے لئے اس کا انتظام کردیں گے۔ مگر آپ ہمارے مذہب کی توہین نہ کریں۔
3۔ اگر آپ ہماری لڑکیوں میں سے کسی لڑکی کو چاہتے ہیں تو آپ کو اختیار دیتے ہیں کہ اَعیان قریش کے خاندان سے بہتر سے بہتر لڑکی منتخب کرسکتے ہیں، مگر ہمارے مذہب کی مخالفت نہ کریں۔
یہ وہ چیزیں تھیں جو آپ کو مذہب ِاسلام سے روکنے کے لئے آپ کے سامنے پیش کی گئی تھیں۔ مگر آپ نے اس کے جواب میں جوچچا سے عرض کیا ہے، وہ تمام دنیا کے لئے مقامِ فکر ہے ، فرمایا:
" اے چچا ! اگر میری قوم میرے ایک ہاتھ پرآفتاب اور دوسرے پر ماہتاب رکھ دے تو پھر بھی میں اَحکامِ الٰہی کی تبلیغ سے باز نہیں آسکتا۔"
آپ کی اس ثبات قدمی اور اولوالعزمی کے صلہ میں خدا نے دولت ِحکومت کے ساتھ عرب کے بہترین سردار کی قابل ترین لڑکی کو بھی آ پ کے عقد میں عطا فرمایا جس سے درج ذیل مصالح کی تکمیل باحسن وجوہ عمل میں آئی:
(1) مسلم خواتین کی اہم اور ضروری مصلحتیں آپ کے ذریعہ انجام پذیر ہوئیں۔
(2) آپ نے صنف ِنازک میں اس امر کا حوصلہ بتلایا کہ ایک لڑکی عقل و شعور سے کام لے اور محنت کرے تو علم وفضل میں نمایاں مرتبہ پاسکتی ہے۔
(3) نبی جس طرح اُخروی نعمتوں سے سرفراز ہوگا، دنیا بھی اس کی خواہش اورارادہ سے زیادہ، اس کی خدمت کے لئے موجود تھی۔
(4) آپ کی عزت و شرافت کا معیار اس قدر اعلیٰ اور اہم تھا کہ عرب کا بڑے سے بڑا سردار اپنی کمسن بچی کو آپ کے عقد میں دے دینا بھی اپنے لئے باعث ِفخر سمجھتا تھا۔
(5) دنیا سے بے رغبتیآپ کی کسی مجبوری /عاجزی پر منحصر نہ تھی بلکہ آپ کا زہد و تقدس آپکو دنیا سے دور رکھے ہوئے تھا۔ ورنہ دنیا آپ کی تمام خواہشات کے لئے آپ کے قدم مبارک پر سرنگوں تھی۔




مزيد شُبهات
متفق علیہ احادیث کی تکذیب کوئی معمولی گناہ نہیں ہے۔ انہی پر اسلام اور قرآنی احکام کا دارومدار ہے۔ اگر ایسی ہی 'درایت' سے آج روایتوں کی تکذیب ہونے لگے تو کل قرآن مجید بھی اسی نام نہاد 'درایت' کے قربان گاہ پرچڑھ جائے گا اور ساری دنیائے اسلام میں الحاد و نیچریت کا نقارہ بجنے لگے گا اور ہمارے اسلام کے پیچھے پڑی ہوئی قوم خود ہمارے ہاتھوں کامیاب ہوجائے گی۔
ہر چند کہ اس کے بعد کچھ بھی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ اس کے متعلق کچھ مزیدلکھا جائے مگر چونکہ مضمون نگار حضرات نے اس خلافِ واقعہ تحقیق پر اعتماد رکھتے ہوئے کچھ اور دلائل عقلیہ بھی لکھے ہیں جو بناء فاسد علی الفاسد ہونے کے علاوہ احادیث سے حددرجہ بدگمان کرنے والے ہیں۔ لہٰذا ان کی مزعومہ درایت پر بھی نظر ڈال لینا مناسب سمجھتے ہیں اور ان کے دلائل کاذکر کرتے ہوئے ساتھ ساتھ جواب بھی لکھتے ہیں :
مدعی کی پہلی دلیل اور اس پر تنقید
"حضرت خدیجة الکبریٰ کی وفات سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغی تکلیفات کے علاوہ گھر کی ویرانی کی زیادہ تکلیف دہ تھی۔ خانہ داری کا انتظام تتر بتر ہورہا تھا اور گھر میں بال بچوں کا سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا۔ ایسے حالات میں ضروری تھا کہ گھر کے انتظام کے لئے ایک قابل جوان عورت ہو نہ کہ ۶برس کی بچی عائشہ کا نکاح جواکثر راویوں کے نزدیک حضرت سودہ سے پہلے ہوا، اور بالفرض اگر یہی سچ ہو کہ سودہ ہی کا پہلے نکاح ہوا تو وہ بے چاری بڑھیا، بھاری بھرکم تھی جس کا ہلنا جلنا بھی مشکل تھا گھر کا کام کیا کرسکتی؟"
اس کے جواب میں عرض ہے کہ بلاشبہ حضرت خدیجہ اور ابوطالب کی وفات سے آپ کی اندرونی وبیرونی مشکلات میں اضافہ ہوگیاتھا اور خانہ داری کے انتظام کے لئے ایک قابل عورت کی بروقت ضرورت بھی تھی۔ لیکن اس کا ثبوت آپ کے ذمہ ہے کہ بوقت ِضرورت حضرت عائشہ خانہ آباد بھی ہوگئی تھیں حالانکہ آپ خود پہلے لکھ چکے ہیں کہ "ہجرت سے پہلے مکہ میں نکاح ہوا اور ہجرت کے دو سال بعد مدینہ میں رسول اللہ کے گھر میں آباد ہوئیں۔ پس آپ ہی بتلائیں کہ انتظام کی ضرورت تو بروقت مکہ میں ہو اور منتظمہ دو سال کے بعد گھر میں قدم رکھے۔ وہ بھی مکہ کے بجائے مدینہ میں۔پھر تو ویران گھر ویران ہی رہا یا آباد ہوگیا۔ اب آپ حضرات کی وہ خانہ آبادی والی مصلحت اور بال بچوں کی نگرانی کی ضرورت کہاں گئی اور بالخصوص اس صورت میں کہ آپ حضرات نے حضرت سودہ کوحضرت عائشہ سے قبل گھر میں آنا ہی ممنوع قرار دے رکھا ہے جو خلاف ِتحقیق کے ساتھ ساتھ عقل کے بھی خلاف ہے۔
اصل یہ ہے کہ اوّلاً تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا انتظام کوئی بڑا بھاری انتظام نہیں تھا اور نہ زیادہ بال بچے۔ ایک حضرت فاطمہ کبریٰ جو بقول آپ کے ۱۵/۱۶ برس کی تھیں اور ایک آپ سے چھوٹی رضی اللہ عنہما اور بس۔ ثانیاً: جو کچھ بھی ہو انتظام کے لئے با ل بچوں کی نگرانی کے لئے سن رسیدہ تجربہ کار عورت کی ضرورت ہواکرتی ہے جس کو سب جانتے ہیں اور اس کے لئے حضرت سودہ بروقت کافی ہوگئیں۔انہیں سے پہلے نکاح بھی ہوااور یہی پہلے آباد بھی ہوئیں۔ طبقات ابن سعد صفحہ ۳۷ میں ہے کہ حضرت خدیجہ  کی وفات کے بعد آپ کے پاس حضرت عثمان بن مظعون کی بیوی خولہ آئیں اور کہا کہ حضور کو خدیجہ کی وفات سے بہت صدمہ ہوا۔ آپ نے فرمایا:
«أجل کانت أمّ العيال وربة البيت»" ہاں وہ بچوں کی ماں اور گھر کی منتظمہ تھیں اور اب کوئی نہیں"
تب خولہ نے حضرت سودہ کے تجربہ کاری اور سن رسیدگی کا تذکرہ کرکے اجازت مانگی کہ اگر حکم ہو تو میں درمیان میں پڑوں۔ چونکہ آپ کو سردست ایسی ہی اہل بیت کی ضرورت تھی، آپ نے اجازت دی۔ بات پختہ ہوگئی، نکاح ہوا اور مکہ ہی میں خانہ آباد ہوگئیں۔
اس کے بعد حضرت عائشہ کی طرف خیال کیا گیا، اس لئے کہ آپ کو ازغیب بشارت ہوچکی تھی۔چنانچہ آپ نے پیغام دیا اور اس وقت آپ کی عمر ۶ برس کامل ہو کرساتویں برس میں داخل ہوچکی تھی (اسی وجہ سے آپ کی عمر کی بابت چھ برس اور کہیں سات برس کا ذکر آتا ہے) نہ اس وجہ سے کہ آپ سے گھر کا کام چلے گا بلکہ محض مبشر من اللہ ہونے کی وجہ سے (کذا فی الطبقات والا ستيعاب)۔ اس نکاح سے بشارتِ ربانی حاصل کرنامطلوب تھا، نہ کہ خانہ آبادی۔ ہاں جن سے کام چلنے والا تھا، وہ خانہ آباد ہوگئیں یعنی حضرت سودہ اور روایتہ یہی صحیح ہے ۔
بالفرض حضرت عائشہ ہی کے ساتھ پہلے نکاح ہونا مان لیاجائے اور وہ بھی بقول آپ کے زیادہ سے زیادہ سولہ برس کی عمر میں تو اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا کام چلا۔ کیونکہ ان سے تو گھر آباد ہوا مدینہ میں اور بروقت ضرورت تھی مکہ میں۔ پس ان سے پہلے نکاح ہوا تو کیا، نہ ہوا تو کیا ۶ کی عمر میں یا ۱۶ کی ! فافھم
باقی آپ کے یہ الفاظ کہ وہ بے چاری بڑھیا بھاری بھر کم جس کے لئے ہلنا جلنا بھی مشکل تھا، بھلا گھر کا کام کیا کرسکتی، خلاف تہذیب ہونے کے علاوہ کسی قدر خلافِ واقعہ ہے۔ کیانعوذ باللہ وہ اپاہج تھیں یا گھر میں کدال چلانی تھی۔ کیا حضور کی دل دہی، گھر کے معمولی انتظام اور بچوں کی دیکھ بھال سے بھی قاصر تھیں۔ پھر تو حضور نے ان سے نکاح کرکے اپنی مشکلات میں ایک اور مشکل کا اضافہ کرلیا۔

دوسری دلیل اور اس پر تنقید
کتابوں میں لکھا ہے کہ بعض مرتبہ حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ میں مقابلہ کی گفتگو ہوجایا کرتی اور یہ صرف ہم عمروں میں ہی ہوا کرتی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ عائشہ کی عمر ہجرت کے وقت ضرور سترہ سال ہوگی۔
اس کے متعلق سوائے اس کے کہ آپ کے قوتِ استدلالیہ کی تعریف کروں اور کیا عرض کروں۔ اولاً تو حضرت فاطمة الزہرا بحکم فاطمة بضعة منی بالکل اپنے بزرگوار باپ سید المرسلین رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی نمونہ تھیں، وہ مقابلہ کی گفتگو کیا جانیں۔ ثانیاً : بالفرض تسلیم کربھی لیا جائے تو ایسا ہونا لازمی نہیں۔ثالثاً اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ حضرت عائشہ  اور حضرت زینب دونوں میں گاہے بگاہے (نہ ہونے کے برابر) مقابلہ کی گفتگو ہوجایا کرتی تھی لہٰذا یہ دونوں بھی ہی ہم عمر ہوں «واللازم باطل فاللزوم مثله»

تیسری دلیل اور اس پر تنقید
یہ ثابت ہے کہ عائشہ  کی منگنی جبیر بن مطعم کے بیٹے کے ساتھ ہوئی تھی مگر ان لوگوں نے منگنی توڑ دی کہ ان کے آنے سے ان کے گھر میں اسلام کا قدم آجائے گا۔ یہ ظاہر ہے کہ اسلام کی تبلیغ ہجرت کے سال سے پہلے ہوئی تھی اس لئے ضروری ہے کہ منگنی اس سے بھی پہلے ہوئی ہوگی ، الخ
اوّلاً یہ غلط ہے کہ جبیر بن مطعم کے بیٹے سے ہوئی بلکہ خود جبیر سے ہوئی تھی۔ ثانیاً یہ بھی غلط ہے کہ مطعم بن عدی کی طرف سے منگنی توڑ دی گئی یہ اور بات ہے کہ ان لوگوں نے حمیت ِجاہلیت کی وجہ سے پہلو تہی برتی تھی مگر منگنی توڑی نہیں تھی۔ طبقات ابن سعد صفحہ ۳۵ میں ہے :
«عن ابن عباس قال خطب رسول اللهﷺ إلی أبی بکر الصديق عائشة فقال أبوبکر يا رسول! قد کنت وعدت بها أو ذکرتها لمطعم بن عدی لابنه جبير فدعنی حتی أسئلها منهم ففعل ثم تزوجها رسول الله ﷺ»
ثالثاً کیا یہ ضروری ہے کہ سن تبلیغ سے پہلے منگنی ہوئی ہو۔ کیونکہ ان کو لڑکی لینی تھی، دینی نہیں تھی۔ البتہ یہ کہئے کہ احکامِ نکاح کے نزول سے پہلے ہوئی ہوگی۔

چوتھی دلیل اور اس پر تنقید
حضرت عائشہ کے علمی اجتہادات کا زور وشور سے اعلان کیا جاتاہے ۔ بلکہ ان کو نصف دین مانا گیا ہے۔یہ کارنامے دس بارہ سال کے بچے سے نہیں ہوسکتے... الخ
اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ کہ دنیا کے اندر بچوں کی نشوونما میں قدرت کے اَطوار مختلف ہیں۔ بعض بچے پیدا ہوتے ہی اپنے کمالِ سلامتی اعضا او رہرے بھرے بدن اور قدوقامت کے لحاظ سے دیکھنے والوں کی نظر میں ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ دیکھتے ہی لوگ اس کو مہینوں کی عمر کا تجویز کرتے ہیں اور بعض ایسے نحیف ولاغر ہوتے ہیں کہ مہینوں کی عمر پربھی ایک ہفتہ کی عمر تجویز کرنے میں تامل کرتے ہیں۔ علیٰ ہذاالقیاس عقل و ذکا اور فہم رسا میں بھی بعض بچے ایسے ہونہار و ممتاز نکل جاتے ہیں کہ صغرسنی ہی سے ان کے فہم و ادراک کی مثالیں ملنے لگتی ہیں۔ یہ سب تو قدرتی آثار ہیں۔ پھر اگر وہ مولود کسی امیر اور علمی خاندان کا ہو تو اس کی نشوونما اور ترقی علم و فہم کا کیا پوچھنا ہے۔ حضرت عائشہ اُمّ المومنین بھی اسی زمرہ کی ایک ممتاز فرد اور نمونہ قدر ت تھیں۔ حضرت ابوبکر کی امارت اور فقاہت کوئی مخفی چیز نہیں ہے اور پھر حضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے انتساب و ازواج و معیت و فیض صحبت سب پر بالا بلکہ سونے پر سہاگہ ہوگیا جس سے ان کے جوہر عقل و ذکا میں ایسی جلا آگئی اور عامہ و خاصہ تمام امورمیں معاملہ فہمی کا ایسا ملکہ راسخہ حاصل ہوگیا کہ اکابر صحابہ کرام بھی ان کے محتاج ہوگئے اور بڑے بڑے مسائل شرعیہ وسیاسیہ ان سے حاصل کرنے لگے بلکہ فرائض جو نصف علم مانا گیا ہے، اکابر صحابہ اس کے مسائل اسی کم عمر فاضلہ صدیقہ سے دریافت فرمانے لگے
«قال مسروق والذي نفسی بيده لقد رأيت مشيخة أصحاب محمدﷺ الأکابر يسئلونها عن الفرائض» (طبقات: صفحہ ۴۵)
"میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے جلیل القدر اصحاب کو دیکھا کہ وہ حضرت عائشہ سے فرائض کے مسائل دریافت کیا کرتے تھے"
«قال عطاء کانت عائشة أفقه الناس وأعلم الناس وأحسن الناس رأيا فی العامة قال هشام ما رايت أحدا أعلم بفقه ولا بطب ولا بشعر من عائشة»
"حضرت عائشہ تمام لوگوں میں زیادہ سمجھدار اور سب سے زیادہ علم والی اور عام طور پر نہایت پختہ رائے رکھنے والی تھیں۔...میں نے کسی کو حضرت عائشہ  سے زیادہ عالم نہیں پایا۔ فقہ، طب، شعر ان میں سے کسی ایک میں بھی کوئی ان کا ہم پلہ عالم نہ تھا۔"
(استیعاب: صفحہ ۷۶۵)

پانچویں دلیل اور اس پر تنقید
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال اُمت کے لئے نمونہ ہیں، اس واسطے آپ کی پیروی سب کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے سو یہ بات بھی ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶ برس کی بچی سے نکاح نہیں کیا۔
چھ برس کی بچی سے نکاح کرنا نہ عقلاً کوئی عیب ہے نہ شرعاً کوئی حرج :
«أجمع المسلمون علی جواز تزويجه بنته البکر الصغيرة لهذا الحديث»
"حضرت عائشہ کی حدیث کہ چھ برس کی عمر میں حضور سے نکاح ہوا، سے تمام علماء نے اجماعی طور پر یہ مسئلہ نکالا ہے کہ باپ اپنی چھوٹی بچی کا نکاح اگر کردے تو جائز ہے"( مسلم شریف مع نووی)
اسی طرح اس مسئلہ کا انکشاف تمام کتب ِفقہ میں بھی موجود ہے ۔

چھٹی دلیل اور اس پر تنقید
یہ بات سب جانتے ہیں کہ ابتدا میں پیدائش کے وقت کوئی نہیں جانتا کہ مولود دنیا میں نامور ہوگا یا گمنام۔پھر دنیا میں رہ کر اپنی قابلیت سے نامور ہوجاتا ہے تو اس کا سن وفات اکثر صحیح اور پھر اس کی عمر کا حساب لگا کر سن پیدائش نکالا جاتاہے جو اکثر غلط ہوتا ہے ... الخ
آپ کا مطلب ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ  کا سن وفات جو ۵۸ھ کتابوں میں لکھا ہے، وہ تو صحیح ہے مگر سن پیدائش غلط ہے۔ اس بنا پر حدیثوں میں جو عندالنکاح چھ یا سات برس کی عمر مروی ہے، وہ بھی غلط ہے اور 'اکمال' کی سند کا یقین کرتے ہوئے اپنی کوتاہ نظر اور قصور فہمی سے ۱۶ برس کی عمر جو سمجھ لیاہے،بس وہی صحیح ہے باقی غلط۔ کیونکہ ا س کے بعد آخر میں بطورِ نتیجہ کے آپ لکھتے ہیں
"ہم لوگ خوش اعتقادی سے راویوں کی اس بات پر آمنا و صدقنا تو کہتے ہیں مگر دل میں یہ بات ضرور کھٹکتی رہی۔ سو خدا کا شکر ہے کہ وہ کھٹکا دور ہوگیا۔ اب ناظرین کو اختیار ہے کہ راویوں کی بات مانیں یا 'اکمال' کی سند کا یقین کریں۔"
اس کے متعلق ہم زیادہ کہنا نہیں چاہتے۔ ہمیں بھی اکمال کی سند کا یقین ہے۔ بس آپ مہربانی کرکے 'اکمال' کے دونوں متعارض بیانوں کو ملا کر عندالنکاح سولہ برس کی عمر پر چسپاں کردیجئے۔ مگر یاد رکھئے کہ ایسا قیامت تک آپ نہ کرسکیں گے !

فإن کنت لا تدري فتلک مصيبة           وإن کنت تدری فالمصيبة أعظم





کم سنی میں حضرت عائشہ -رضی الله عنہا- کا نکاح

تحقیق و تجزیہ

 


 

                حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی اکرم -صلى الله علیه وسلم- کے ساتھ کم سنی میں ہوا یعنی ۶/ سال کی عمر میں نکاح اور ۹/سال کی عمر میں رخصتی ہوئی، اس سلسلہ میں معاندینِ اسلام کی طرف سے یہ شکوک و شبہات قائم کئے جاتے ہیں کہ اس کم سنی کی شادی پیغمبرِ اسلام -صلى الله علیه وسلم- کے لئے موزوں اور مناسب تھی، چنانچہ ایک یہودی عالم نے انٹرنیٹ پر یہی اعتراض پیش کیا ہے زیر نظر مضمون میں اسی کا مفصل ومدلل جواب دیاگیا ہے۔

                سوال: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی اکرم -صلى الله علیه وسلم- کے ساتھ کم سنی میں ہوا، بیان کیا جاتاہے کہ ۶/ سال کی عمر میں نکاح اور ۹/سال کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ اس سلسلہ میں معاندین اسلام کی طرف سے یہ شکوک و شبہات قائم کئے جاتے ہیں کہ اس کم سنی کی شادی پیغمبر اسلام -صلى الله علیه وسلم- کے لئے موزوں اور مناسب نہیں تھی۔ چنانچہ ایک یہودی عالم نے انٹرنیٹ پر یہی اعتراض پیش کیا ہے۔ آپ اس کا تحقیقی و تفصیلی جواب عنایت فرمائیں تو شکرگذار ہوں گا۔ (فاروق عبدالعزیز قریشی رنگ روڈ مہدی پٹنم، حیدرآباد)

                جواب: حضرت عائشہ صدیقہ-رضی الله عنہا- سے جو حضوراکرم -صلى الله علیه وسلم- نے اُن کی کم سنی میں نکاح فرمایا اور پھر ان کی والدہ حضرت ام رومان-رضی الله عنہا- (زینب-رضی الله عنہا-) نے تین سال بعد ۹/ سال کی عمر میں رخصتی کردی، اس پر بعض گوشوں سے اعتراضات اور شکوک و شبہات نئے نہیں ہیں؛ بلکہ پرانے ہیں، علماء اور محققین نے جوابات بھی دئیے ہیں، تاہم ذیل کی سطروں میں ایک ترتیب کے ساتھ جواب دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امید کہ جواب میں تحقیق و تجزیہ کے جو پہلو سامنے آئیں گے، اُن سے ذہنی غبار دھل جائے گا اور ذہن کا مطلع بالکل صاف اور واضح ہوجائے گا۔ اس لیے مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر تفصیلی جواب لکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

                اس میں کوئی شک نہیں کہ کارگاہِ عالم کا سارا نظام قانونِ زوجی (Law of Sex) پر مبنی ہے اور کائنات میں جتنی چیزیں نظر آرہی ہیں سب اسی قانون کا کرشمہ اور مظہر ہیں۔ (الذاریات:۴۹) یہ اور بات ہے کہ مخلوقات کا ہر طبقہ اپنی نوعیت، کیفیت اور فطری مقاصد کے لحاظ سے مختلف ہیں لیکن اصل زوجیت ان سب میں وہی ایک ہے۔ البتہ انواعِ حیوانات میں انسان کو خاص کرکے یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ اس کے زوجین کا تعلق محض شہوانی نہ ہو بلکہ محبت اور انس کا تعلق ہو دل کے لگاؤ اور روحوں کے اتصال کا تعلق ہو۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے راز دار اور شریک رنج و راحت ہوں، ان کے درمیان ایسی معیت اور دائمی وابستگی ہو جیسی لباس اور جسم میں ہوتی ہے۔ دونوں صنفوں کا یہی تعلق دراصل انسانی تمدن کی عمارت کا سنگِ بنیاد ہے اس ربط و تعلق کے بغیر نہ انسانی تمدن کی تعمیر ممکن ہے اور نہ ہی کسی انسانی خاندان کی تنظیم۔ جب یہ قانونِ زوجی خالقِ کائنات کی طرف سے ہے تو یہ کبھی صنفی میلان کو کچلنے اور فنا کرنے والا نہیں ہوسکتا۔ اس سے نفرت اور کلی اجتناب کی تعلیم دینے والا بھی نہیں ہوسکتا؛ بلکہ اس میں لازماً ایسی گنجائش رکھی گئی ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اس اقتضاء کو پورا کرسکے حیوانی سرشت کے اقتضاء اور کار خانہٴ قدرت کے مقرر کردہ اصول و طریقہ کو جاری رکھنے کے لیے قدرت نے صنفی انتشار کے تمام دروازے مسدود کردئیے،اور ”نکاح“ کی صورت میں صرف ایک دروازہ کھولا۔ کسی بھی آسمانی مذہب و شریعت نے اس کے بغیر مرد و عورت کے باہمی اجتماع کو جائز قرار نہیں دیا۔ پھر اسلامی شریعت میں یہاں تک حکم دیاگیا ہے کہ اس فطری ضرورت کو تم پورا کرو، مگر منتشر اور بے ضابطہ تعلقات میں نہیں، چوری چھپے بھی نہیں، کھلے بندوں بے حیائی کے طریقے پر بھی نہیں؛ بلکہ باقاعدہ اعلان و اظہار کے ساتھ، تاکہ تمہاری سوسائٹی میں یہ بات معلوم اور مسلم ہوجائے کہ فلاں مرد اور عورت ایک دوسرے کے ہوچکے ہیں۔

                نبی کریم -صلى الله علیه وسلم- ایک ایسی قوم میں مبعوث ہوئے تھے، جو تہذیب و تمدن کے ابتدائی درجہ میں تھی آپ -صلى الله علیه وسلم- کے سپرد اللہ نے صرف یہی کام نہیں کیا تھا کہ اُن کے عقائد وخیالات درست کریں؛ بلکہ یہ خدمت بھی آپ -صلى الله علیه وسلم- کے سپرد تھی کہ ان کا طرزِ زندگی، بود وباش اور رہن سہن بھی ٹھیک اور درست کریں۔ ان کو انسان بنائیں، انہیں شائستہ اخلاق، پاکیزہ معاشرت، مہذّب تمدن، نیک معاملات اور عمدہ آداب کی تعلیم دیں، یہ مقصد محض وعظ و تلقین اور قیل و قال سے پورا نہیں ہوسکتا تھا، تیس سال کی مختصر مدتِ حیات میں ایک پوری قوم کو وحشیت کے بہت نیچے مقام سے اٹھاکر تہذیب کے بلند ترین مرتبہ تک پہنچادینا اس طرح ممکن نہ تھاکہ محض مخصوص اوقات میں ان کو بلاکر کچھ زبانی ہدایات دیدی جائیں۔ اس کے لیے ضرورت تھی کہ آپ -صلى الله علیه وسلم- خود اپنی زندگی میں ان کے سامنے انسانیت کا ایک مکمل ترین نمونہ پیش کرتے اور ان کو پورا موقع دیتے کہ اس نمونہ کو دیکھیں اور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق بنائیں۔ چنانچہ آپ -صلى الله علیه وسلم- نے ایسا ہی کیا۔ یہ آپ -صلى الله علیه وسلم- کا انتہائی ایثار تھا کہ آپ -صلى الله علیه وسلم- نے زندگی کے ہر شعبہ کو قوم کی تعلیم کے لیے عام کردیا۔ اپنی کسی چیز کو بھی پرائیویٹ اور مخصوص نہ رکھا۔ حتی کہ ان معاملات کو بھی نہ چھپایا جنھیں دنیا میں کوئی شخص عوام کے لئے کھولنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔ آپ -صلى الله علیه وسلم- نے اتنا غیر معمولی ایثار اس لئے کیا تاکہ رہتی دنیا تک کے لئے لوگوں کو بہترین نمونہ اور عمدہ نظیر مل سکے۔ اسی اندرونی اور خانگی حالات دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے آپ -صلى الله علیه وسلم- نے متعدد نکاح فرمایا۔ تاکہ آپ -صلى الله علیه وسلم- کی نجی زندگی کے تمام حالات نہایت وثوق اور اعتماد کے ساتھ دنیا کے سامنے آجائیں اور ایک کثیر جماعت کی روایت کے بعد کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے اور شریعت کے وہ احکام ومسائل جو خاص عورتوں سے متعلق ہیں اور مردوں سے بیان کرنے میں حیاء اور حجاب مانع ہوتا ہے ایسے احکام شرعیہ کی تبلیغ ازواجِ مطہرات-رضی الله عنهن- کے ذریعہ سے ہوجائے۔

                تنہائی کے اضطراب میں، مصیبتوں کے ہجوم میں اور ستمگاریوں کے تلاطم میں ساتھ دینے والی آپ -صلى الله علیه وسلم- کی غمگسار بیوی ام الموٴمنین حضرت خدیجہ-رضی الله عنہا- کا رمضان ۱۰ ء نبوت میں جب انتقال ہوگیا تو آپ -صلى الله علیه وسلم- نے چار سال بعد یہ ضروری سمجھا کہ آپ -صلى الله علیه وسلم- کے حرم میں کوئی ایسی چھوٹی عمر کی خاتون داخل ہوں جھنوں نے اپنی آنکھ اسلامی ماحول میں ہی میں کھولی ہو اور جو نبی -صلى الله علیه وسلم- کے گھرانے میںآ کر پروان چڑھیں، تاکہ ان کی تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے مکمل اور مثالی طریقہ پر ہو اور وہ مسلمان عورتوں اور مردوں میں اسلامی تعلیمات پھیلانے کا موٴثر ترین ذریعہ بن سکیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے مشیت الٰہی نے حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کو منتخب فرمایا اور شوال ۳ ء قبل الہجرہ مطابق ۶۲۰/ مئی میں حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے آپ -صلى الله علیه وسلم- کا نکاح ہوا، اس وقت حضرت عائشہ کی عمر جمہور علماء کے یہاں چھ سال تھی اور تین سال بعد جب وہ ۹ سال کی ہوچکی تھیں اور اُن کی والدئہ محترمہ حضرت ام رومان-رضی الله عنہا- نے آثار و قرائن سے یہ اطمینان حاصل کرلیا تھا کہ وہ اب اس عمر کو پہنچ چکی ہیں کہ رخصتی کی جاسکتی ہے تو نبی اکرم -صلى الله علیه وسلم- کے پاس روانہ فرمایا اور اس طرح رخصتی کا عمل انجام پایا۔ (مسلم جلد۲، صفحہ ۴۵۶، اعلام النساء صفحہ ۱۱، جلد ۳، مطبوعہ بیروت)

                حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کے والدین کا گھر تو پہلے ہی نوراسلام سے منور تھا، عالمِ طفولیت ہی میں انہیں کا شانہٴ نبوت تک پہنچادیا گیاتاکہ ان کی سادہ لوح دل پر اسلامی تعلیم کا گہرا نقش مرتسم ہوجائے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- نے اپنی اس نوعمری میں کتاب وسنت کے علوم میں گہری بصیرت حاصل کی۔ اسوئہ حسنہ اور آنحضور -صلى الله علیه وسلم- کے اعمال و ارشادات کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھا اور درس و تدریس اور نقل و روایت کے ذریعہ سے اُسے پوری امت کے حوالہ کردیا۔ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کے اپنے اقوال و آثار کے علاوہ اُن سے دوہزار دو سو دس (۲۲۱۰) مرفوع احادیث صحیحہ مروی ہیں۔ اور حضرت ابوہریرہ-رضی الله عنه- کو چھوڑ کر صحابہ وصحابیات میں سے کسی کی بھی تعدادِ حدیث اس سے زائد نہیں۔

                بعض مریضانہ ذہن و فکر رکھنے والے افراد کے ذہن میں یہ خلش اور الجھن پائی جاتی ہے کہ آپ -صلى الله علیه وسلم- کی حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے اس کم سنی میں نکاح کرنے کی کیا ضرورت تھی؟اور یہ کہ اس چھوٹی سی عمر میں حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے نکاح کرنا آپ -صلى الله علیه وسلم- کے لئے موزوں اور مناسب نہیں تھا؟ چنانچہ ایک یہودی مستشرق نے انٹرنیٹ پر اس قسم کا اعتراض بھی اٹھایا ہے اور اس طرح اس نے بعض حقائق و واقعات، سماجی روایات، موسمی حالات اور طبی تحقیقات سے اعراض اور چشم پوشی کا اظہار بھی کیا ہے کہ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے نکاح اور رخصتی اس کم سنی میں کیوں کر ہوئی؟

                یہ اعتراض درحقیقت اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- میں وہ اہلیت وصلاحیت پیدا نہیں ہوئی تھی جو ایک خاتون کو اپنے شوہر کے پاس جانے کے لئے درکار ہوتی ہے، حالانکہ اگر عرب کے اس وقت کے جغرافیائی ماحول اور آب و ہوا کا تاریخی مطالعہ کریں تو یہ واقعات اس مفروضہ کی بنیاد کو کھوکھلی کردیں گے، جس کی بناء پر حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کے نکاح کے سلسلہ میں ناروا اور بیجاطریقہ پر لب کو حرکت اور قلم کوجنبش دی گئی ہے۔ سب سے پہلے یہ ذہن میں رہے کہ اسلامی شریعت میں صحت نکاح کے لیے بلوغ شرط نہیں ہے سورہ ”الطلاق“ میں نابالغہ کی عدت تین ماہ بتائی گئی ہے، واللّائی لم یحضن (المائدہ:۴) اور ظاہر ہے کہ عدت کا سوال اسی عورت کے معاملہ میں پیدا ہوتا ہے جس سے شوہر خلوت کرچکا ہو؛ کیوں کہ خلوت سے پہلے طلاق کی صورت میں سرے سے کوئی عدت ہی نہیں ہے۔ (الاحزاب:۴۹) اس لیے ”واللائی لم یحضن“ سے ایسی عورت کی عدت بیان کرنا جنھیں ماہواری آنا شروع نہ ہوا ہو صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس عمر میں نہ صرف لڑکی کا نکاح کردینا جائز ہے بلکہ شوہر کا اس کے ساتھ خلوت کرنا بھی جائز ہے۔ ( احکام القرآن للجصاص جلد۲، صفحہ ۶۲۔ الفقہ الاسلامی وادلتہ جلد ۷ صفحہ ۱۸)

                حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کی نسبت قابل وثوق ذرائع سے معلوم ہے کہ ان کے جسمانی قوی بہت بہتر تھے اور ان میں قوت نشو و نما بہت زیادہ تھی۔ ایک تو خود عرب کی گرم آب و ہوا میں عورتوں کے غیرمعمولی نشوونماکی صلاحیت ہے۔ دوسرے عام طورپر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح ممتاز اشخاص کے دماغی اور ذہنی قویٰ میں ترقی کی غیرمعمولی استعداد ہوتی ہے، اسی طرح قدوقامت میں بھی بالیدگی کی خاص صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لیے بہت تھوڑی عمر میں وہ قوت حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- میں پیدا ہوگئی تھی جو شوہر کے پاس جانے کے لیے ایک عورت میں ضروری ہوتی ہے۔ داؤدی نے لکھا ہے کہ وکانت عائشة شبت شبابا حسنا یعنی حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- نے بہت عمدگی کے ساتھ سن شباب تک ترقی کی تھی (نووی ۴۵۶/۳) حضرت عائشہ کے طبعی حالات تو ایسے تھے ہی، ان کی والدہ محترمہ نے ان کے لیے ایسی باتوں کا بھی خاص اہتمام کیا تھاجو ان کے لیے جسمانی نشوونما پانے میں ممدومعاون ثابت ہوئی۔ چنانچہ ابوداؤد جلد دوم صفحہ ۹۸ اور ابن ماجہ صفحہ ۲۴۶ میں خود حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کا بیان مذکور ہے کہ ”میری والدہ نے میری جسمانی ترقی کے لیے بہترے تدبیریں کیں۔ آخر ایک تدبیر سے خاطر خواہ فائدہ ہوا، اور میرے جسمانی حالات میں بہترین انقلاب پیدا ہوگیا“ اس کے ساتھ اس نکتہ کو بھی فراموش نہ کرنا چاہئے کہ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کو خود ان کی والدہ نے بدون اس کے کہ آنحضرت -صلى الله علیه وسلم- کی طرف سے رخصتی کا تقاضا کیاگیاہو، خدمتِ نبوی میں بھیجا تھا اور دنیا جانتی ہے کہ کوئی ماں اپنی بیٹی کی دشمن نہیں ہوتی؛ بلکہ لڑکی سب سے زیادہ اپنی ماں ہی کی عزیز اور محبوب ہوتی ہے۔ اس لیے ناممکن اور محال ہے کہ انھوں نے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت واہلیت سے پہلے ان کی رخصتی کردیا ہو اور اگر تھوڑی دیر کے لیے مان لیا جائے کہ عرب میں عموماً لڑکیاں ۹/برس میں بالغ نہ ہوتی ہوں تواس میں حیرت اور تعجب کی کیا بات ہے کہ استثنائی شکل میں طبی اعتبار سے اپنی ٹھوس صحت کے پس منظر میں کوئی لڑکی خلافِ عادت ۹/برس ہی میں بالغ ہوجائے، جو ذہن و دماغ منفی سوچ کا عادی بن گئے ہوں اور وہ صرف شکوک و شبہات کے جال بننے کے خوگر ہوں انھیں تویہ واقعہ جہالت یا تجاہل عارفانہ کے طور پر حیرت انگیز بناکر پیش کرے گا؛ لیکن جو ہرطرح کی ذہنی عصبیت و جانبداری کے خول سے باہر نکل کر عدل و انصاف کے تناظر میں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہتے ہوں وہ جان لیں کہ نہایت مستند طریقہ سے ثابت ہے کہ عرب میں بعض لڑکیاں ۹/برس میں ماں اور اٹھارہ برس کی عمر میں نانی بن گئی ہیں۔ سنن دار قطنی میں ہے حدثنی عباد بن عباد المہلبی قال ادرکت فینا یعنی المہالبة امرأة صارت جدة وہی بنت ثمان عشرة سنة، ولدت تسع سنین ابنة، فولدت ابنتہا لتسع سنین فصارت ہی جدة وہی بنت ثمان عشرة سنة (دارقطنی، جلد۳، صفحہ ۳۲۳، مطبوعہ: لاہور پاکستان) خودہمارے ملک ہندوستان میں یہ خبر کافی تحقیق کے بعد شائع ہوئی ہے کہ وکٹوریہ ہسپتال دہلی میں ایک سات سال سے کم عمر کی لڑکی نے ایک بچہ جنا ہے۔ (دیکھئے اخبار ”مدینہ“ بجنور، مجریہ یکم جولائی ۱۹۳۴/ بحوالہ نصرت الحدیث صفحہ ۱۷۱)

                جب ہندوستان جیسے معتدل اور متوسط ماحول وآب و ہوا والے ملک میں سات برس کی لڑکی میں یہ استعداد پیدا ہوسکتی ہے تو عرب کے گرم آب و ہوا والے ملک میں ۹/ سال کی لڑکی میں اس صلاحیت کا پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی-رضی الله عنه- نے اپنی لڑکی ام کلثوم کا نکاح عروة بن الزبیر سے اور عروة بن الزبیر نے اپنی بھتیجی کا نکاح اپنے بھتیجے سے اور عبداللہ بن مسعود-رضی الله عنه- کی بیوی نے اپنی لڑکی کا نکاح ابن المسیب بن نخبة سے کم سنی میں کیا۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ جلد۷، صفحہ ۱۸۰)

                ان حضرات کا کم سنی میں اپنی لڑکیوں کا نکاح کردینا بھی اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ اس وقت بہت معمولی عمر میں ہی بعض لڑکیوں میں شادی وخلوت کی صلاحیت پیدا ہوجاتی تھی، تو اگر حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کا نکاح ۶/برس کی عمر میں ہوا تو اس میں کیا استبعاد ہے کہ ان میں جنسی صلاحیتیں پیدا نہ ہوئی ہوں۔ جیساکہ ابھی ثابت ہوچکا ہے کہ ان کی والدہ نے خصوصیت کے ساتھ اس کا اہتمام کیا تھا الغرض شوہر سے ملنے کے لیے ایک عورت میں جو صلاحیتیں ضروری ہوتی ہیں وہ سب حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- میں موجود تھیں۔ لہٰذا اب یہ خیال انتہائی فاسد ذہن کا غماز ہوگا اور موسمی، ملکی، خاندانی اور طبی حالات سے اعراض اور چشم پوشی کا مترادف ہوگا کہ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے کم سنی میں شادی کرنے کی آپ -صلى الله علیه وسلم- کو کیا ضرورت تھی؟ علاوہ ازیں حضرت عائشہ کے ماسواء جملہ ازواج مطہرات-رضی الله عنهن- بیوہ، مطلقہ یا شوہر دیدہ تھیں، حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے کم سنی میں ہی اس لئے نکاح کرلیا گیا تاکہ وہ آپ -صلى الله علیه وسلم- سے زیادہ عرصہ تک اکتسابِ علوم کرسکیں۔ اور حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کے توسط سے لوگوں کو دین و شریعت کے زیادہ سے زیادہ علوم حاصل ہوسکیں۔ چنانچہ آنحضرت -صلى الله علیه وسلم- کی وفات کے بعد حضرت عائشہ-رضی الله عنہا-(48) اڑتالیس سال زندہ رہیں، زرقانی کی روایت کے مطابق ۶۶ھ میں حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کا انتقال ہوا۔ ۹/برس میں رخصتی ہوئی آپ کے ساتھ ۹/ سال رہیں اور آپ کی وفات کے وقت ان کی عمر ۱۸ برس تھی۔ (زرقانی، الاستیعاب) اور صحابہ و تابعین ان کی خداداد ذہانت و فراست، ذکاوت وبصیرت اور علم و عرفان سے فیض حاصل کرتے رہے،اور اس طرح ان کے علمی و عرفانی فیوض و برکات ایک لمبے عرصہ تک جاری رہے۔ (زرقانی جلد ۳، صفحہ ۲۲۹-۲۳۶)

                حقیقت یہ ہے کہ آپ -صلى الله علیه وسلم- کے سوا کوئی ایسا آدمی دنیا میں نہیں گزرا جو کامل ۲۳ برس تک ہر وقت، ہر حال میں منظر عام پر زندگی بسر کرلے، سینکڑوں ہزاروں آدمی اس کی ایک ایک حرکت کے تجسس میں لگے ہوئے ہوں۔ اپنے گھر میں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کے ساتھ برتاؤ کرتے ہوئے بھی اس کی جانچ پڑتال ہورہی ہو اور اتنی گہری تلاش کے بعد نہ صرف یہ کہ اس کے کیریکٹر پر ایک سیاہ چھینٹ تک نظر نہ آئے؛ بلکہ یہ ثابت ہو کہ جو کچھ وہ دوسروں کو تعلیم دیتا تھا، خود اس کی اپنی زندگی اس تعلیم کا مکمل نمونہ تھی؛ بلکہ یہ ثابت ہوکہ اس طویل زندگی میں وہ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی عدل وتقویٰ اور سچائی و پاکیزگی کے معیاری مقام سے نہیں ہٹا؛ بلکہ یہ ثابت ہوکہ جن لوگوں نے سب سے زیادہ قریب سے اس کو دیکھا وہی سب سے زیادہ اس کے گرویدہ اور معتقد ہوئے۔ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم۔

                یہی وجہ ہے کہ انسان کی پوری آبادی میں ”انسانِ کامل“ کہلائے جانے کے آپ -صلى الله علیه وسلم- ہی مستحق ہیں اور عیسائی سائنسداں نے جب تاریخ عالم میں ایسے شخص کو جو اپنی شخصیت کے جگمگاتے اور گہرے نقوش چھوڑے ہیں سب سے پہلے نمبر پر رکھ کر اپنی کتاب کاآغاز کرنا چاہا تو اس نے دیانت کا ثبوت دیتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ الصلاة والسلام اوراپنے من پسند کسی سائنسداں کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ اس کی نظر انتخاب اسی پر پڑی اور اسی سے اپنی کتاب کاآغاز کیا جسے دنیا حضرت محمد -صلى الله علیه وسلم- کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ اس لئے آپ -صلى الله علیه وسلم- کی زندگی جلوت کی ہو یا خلوت کی ایک کامل نمونہ ہے اور اس میں ایسا اعتدال و توازن پایا جاتا ہے کہ کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اور جب کوئی ”یرقانی“ نظر والے آپ -صلى الله علیه وسلم- کی زندگی میں کسی کمی کو تلاش کریں تو حقیقت پسند شاعر یہ کہہ کر اس کی طرف متوجہ ہوگا۔

فرق آنکھوں میں نہیں، فرق ہے بینائی میں

عیب میں عـیب، ہنرمند ہنر دیکھتے ہیں

                انٹرنیٹ کی دنیا سے قریبی تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسلام کے خلاف مختلف شکوک و شبہات اور فتنے پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس قسم کے شکوک وشبہات کاازالہ اور فتنوں کا سدِّباب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، جو لوگ انٹرنیٹ کے ذریعہ فتنے کے شوشے چھوڑ دیتے ہیں ان کا منظم و منصوبہ بند طریقہ پرجواب دیا جائے کسی وجہ سے اگر علماء براہِ راست انگریزی میں جواب نہیں دے سکتے تو ان کا علمی تعاون حاصل کرکے جواب کی اشاعت عمل میں لائی جاسکتی ہے، زندگی کا کارواں جب چلتا ہے تو گرد و غبار کا اٹھنا لازمی ہے؛ لیکن منزل کی طرف رواں دواں رہنے ہی میں منزل پر پہنچا جاسکتا ہے؛ لیکن اس کے لئے قدم میں طاقت اور دست و بازو میں قوت چاہئے۔ ع

اس بحرِ حوادث میں قائم پہنچے گا وہی اب ساحل تک

جو موجِ بلاء کا خوگر ہو رخ پھیرسکے طوفانوں کا

$ $ $

---------------------------------












No comments:

Post a Comment