ابراہیم نہ یہودی تھے، نہ نصرانی، بلکہ وہ تو سیدھے سیدھے مسلمان تھے، اور شرک کرنے والوں میں کبھی شامل نہیں ہوئے۔ ابراہیم کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حق دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی، نیز یہ نبی (آخر الزماں ﷺ اور وہ لوگ ہیں جو (ان پر) ایمان لائے ہیں، اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے۔
[سورۃ آل عمران، آیت نمبر 67-68]
اے اہل کتاب(یہود ونصاریٰ!) تم ابراہیم کے بارے میں کیوں بحث کرتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل ان کے بعد ہی تو نازل ہوئی تھیں، کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں ہے؟ دیکھو ! یہ تم ہی تو ہو جنہوں نے ان معاملات میں اپنی سی بحث کرلی ہے جن کا تمہیں کچھ نہ کچھ علم تھا۔ (26) اب ان معاملات میں کیوں بحث کرتے ہو جن کا تمہیں سرے سے کوئی علم ہی نہیں ہے ؟ اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔
[سورۃ آل عمران، آیت نمبر 65-66]
تفسیر:
(26)یہودی کہا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم ؑ یہودی تھے اور عیسائی کہتے تھے کہ وہ عیسائی تھے، اول تو قرآن کریم نے فرمایا کہ یہ دونوں مذہب تورات اور انجیل کے نزول کے بعد وجود میں آئے، جبکہ حضرت ابرہیم ؑ بہت پہلے گزر چکے تھے، لہذا یہ انتہائی احمقانہ بات ہے کہ انہیں یہودی یا عیسائی کہا جائے، اس کے بعد قرآن کریم نے فرمایا کہ جب تمہارے وہ دلائل جو کسی نہ کسی صحیح حقیقت پر مبنی تھے، تمہارے دعوؤں کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں، تو حضرت ابراہیم ؑ کے بارے میں یہ بےبنیاد اور جاہلانہ بات کیسے تمہارے دعوے کو ثابت کرسکتی ہے، مثلاً تمہیں یہ معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰ ؑ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور اس کی بنیاد پر تم نے ان کی خدائی کی دلیل پیش کرکے بحث کی مگر کامیاب نہ ہوسکے ؛ کیونکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا کسی کی خدائی کی دلیل نہیں ہوسکتا، حضرت آدم ؑ تو ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے تھے مگر انکو تم بھی خدا یا خدا کا بیٹا نہیں مانتے، جب تمہاری وہ دلیلیں بھی کام نہ آسکیں جو اس صحیح واقعے پر مبنی تھیں تو سراسر جاہلانہ بات کہ حضرت ابراہیم ؑ نصرانی یا یہودی تھے کیسے تمہارے لئے کارآمد ہوسکتی ہے ؟
ایک اصطلاح "ادیانِ ابراہیمی" کے بارے میں
اصطلاحات کی دنیا میں محاذ آرائی دانشوروں اور مفکرین کے ہاں انتہائی خطرناک چیلنجز میں سے ایک ہے، بلکہ بہت سے ائمہ اور اہل علم نے اسے ایک ایسی دلدل قرار دیا ہے جہاں دوسروں کی آپ بات ہی نہ کریں، اپنے فن کے ماہر حضرات بھی پھنس جاتے ہیں ، اس لئے کہ ان اصطلاحات کی چمک دمک کے پیچھے سیاہ چہرہ پوشیدہ ہوتا ہے، جسکے کثرتِ استعمال کی وجہ سے قلمدان محاذ آرائی شروع ہوجاتی ہے اور کچھ ایسی تحریکیں وجود میں آجاتی ہیں جن کا مقصد تعمیری نہیں ہوتا، حتی کہ ان سیاہ چہروں کا مقابلہ کرنے والے لوگوں کو معاشرے میں اجنبی سا سمجھا جانے لگتا ہے ، اور آخر کار مخالفین دسیسہ کاریوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
بعینہ حال "ادیانِ ابراہیمی" یا "اتحاد بین المذاہب" یا "عالمی مذہب" وغیرہ گذشتہ صدی میں ظہور پذیر ہونے والی اصطلاحات کا ہے، ظاہری طور پر بڑی اچھی اصطلاحات ہیں معانی و مفاہیم بہت خوب رو ہیں، مثلاً: جیو اور جینے دو، امن و امان، فرمانِ الہی کے مطابق اہل کتاب سے اچھے تعلقات وغیرہ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان مفاہیم کو ایک مسلمان اپنی زندگی میں قرآنی تعلیمات کے مطابق "ذمیوں کے حقوق"کے تحت ڈھال سکتا ہے، لیکن ان شریعت سے موافقت رکھنے والے مفاہیم کی آڑ لیکر بہت سے دسیسہ کار باطل اور جھوٹ کیلئے راستہ ہموار کرتے ہیں، اور حقیقت میں ان اصطلاحات کو"اختلاط بین الادیان" چھپانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، جسکا مقصد صرف بات چیت ہی نہیں، بلکہ اس سے اسلامی عقیدہ کی بنیاد لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے فرق کو مٹانا ہے ،تا کہ بنیادی ہدف معرفتِ الہی ہو، چاہے اس ہدف کو پانے کیلئے یہودیت کا راستہ اختیار کیا جائے، یا عیسائیت کا یا اسلام کا، چنانچہ اس قسم کے دعوے کرنے والوں کے نزدیک ان ادیان میں کوئی فرق نہیں، بلکہ یہ تمام متعدد اور یکساں راستے اللہ کی راہ ہی بتلاتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
ترجمہ:
جو اسلام کیلئے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے ، تو کبھی بھی اس سے قبول نہ کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔
[سورۃ آل عمران:85]
اصل میں یہ بہت ہی پرانی دعوت ہے جو چند یہودیوں اور عیسائیوں کی جانب سے شروع کی گئی تھی، جسکا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اپنے سچے عقیدے کے حق سے دستبردار ہو جائیں، کہ کم از کم اس بات پر راضی ہوجائیں کہ ان کے دین بھی سچے ہیں اور آخرت میں نجات کیلئے کافی ہیں، لیکن اس دعوت کی مخالفت میں قرآن مجید نے واضح اور صراحت سے کہہ دیا:
وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
ترجمہ:
اور (اہل کتا ب نے کہا)یہودی یا عیسائی ہو جاؤ، ہدایت پا جاؤ گے، آپ کہہ دیجئے: دینِ حنیف ابراہیمی ملت(ہی سچا دین ہے) اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے۔
[سورۃ البقرة:135]
اہل کتاب نے ملتِ ابراہیم کی طرف اپنی نسبت کرنا چاہی تو قرآن نے انکا پول کھول دیا؛ اس لئے کہ ملتِ ابراہیم: توحید، اور تمام انبیاء پر ایمان لانے کا نام ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ . قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ . فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ . صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ . قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ . أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى قُلْ أَأَنْتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ . تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ترجمہ:
یہودی کہتے ہیں کہ ''یہودی ہو جاؤ تو ہدایت پاؤ گے'' اور عیسائی کہتے ہیں کہ ''عیسائی بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے۔'' آپ ان سے کہہ دیجئے : (بات یوں نہیں) بلکہ جو شخص ملتِ ابراہیم پر ہوگا وہ ہدایت پائے گا اور ابراہیم موحد تھے شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے (مسلمانو)! تم اہل کتاب سے یوں کہو کہ : ''ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہم پر اتارا گیا ہے اور اس پر بھی جو حضرت ابراہیم ،اسماعیل ،اسحاق ،یعقوب ،اور ان کی اولاد پر اتارا گیا تھا۔ اور اس وحی و ہدایت پر بھی جو موسیٰ ،عیسیٰ، اور دوسرے انبیاء کو ان کے پروردگار کی طرف سے دی گئی تھی۔ ہم ان انبیاء میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے اور ہم تو اسی (ایک اللہ ) کے فرمانبردار ہیں۔''[136]سواگر یہ اہل کتاب ایسے ہی ایمان لائیں جیسے تم لائے ہو تو وہ بھی ہدایت پا لیں گے اور اگر اس سے منہ پھیریں تو وہ ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہیں۔ لہذا اللہ ان کے مقابلے میں آپ کو کافی ہے اور وہ ہر ایک کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔[137](نیز ان سے کہہ دو کہ : ہم نے) اللہ کا رنگ (قبول کیا) اور اللہ کے رنگ سے بہتر کس کا رنگ ہو سکتا ہے۔ اور ہم تو اسی کی عبادت کرتے ہیں[138] آپ ان سے کہیے : ''کیا تم لوگ ہم سے اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو جبکہ وہی ہمارا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی؟ ''ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔ اور ہم خالصتہ اسی کی بندگی کرتے ہیں۔[139] (اے اہل کتاب) کیا تم لوگ یہ کہتے ہو کہ ''ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب اور انکی اولاد سب یہودی یا عیسائی تھے؟'' بھلا تم یہ بات زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ ؟ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جس کے پاس اللہ کی طرف سے شہادت موجود ہو پھر وہ سے چھپائے؟ اور جو کام تم کرتے ہو اللہ ان سے بے خبر نہیں ہے۔[140] یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی۔ ان کی کمائی ان کے لیے ہے۔ اور تمہاری تمہارے لیے۔ اور ان کے اعمال کے بارے میں تم سے بازپرس نہ ہوگی۔
[سورۃ البقرة:135-141]
ذراغور کریں !قرآن کریم نے ہدایت والا راستے کو کیسے ایک ہی راستے میں بند کردیا ، اور وہ ہے کہ یہودی اور عیسائی توحید و رسالت پر ایمان لائیں جیسے مسلمان ایمان لائے ہیں۔
خبردار! اس دھوکے میں مت آنا اس کا نام قرآن نے "اللبس"رکھا ہے، فرمایا:
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
ترجمہ:
حق و باطل کو آپس میں خلط ملط مت کرو، اور نہ ہی حق چھپاؤ، حالانکہ تم جانتے بھی ہو۔
[سورۃ:البقرة:42]
اسی کی تفسیر کے بارے میں قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہودیت اور عیسائیت کو اسلام سے مت ملاؤ، اس لئے کہ اللہ کے ہاں دین اسلام ہی ہے، جبکہ یہودیت اور عیسائت نئی ایجادات میں سے ہے اللہ کی جانب سے نہیں"۔
[تفسیر ابن ابی حاتم:(1/98)]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: " کوئی کہنے والا کہے: "معبود تو ایک ہی ہے چاہے راستے مختلف ہیں"یا اس جیسی اور باتیں کہے کہ عیسائیت یا یہودیت تحریف شدہ اور منسوخ ہونے کے باوجود معرفتِ الہی کا ذریعہ ہیں، یا ان میں دینِ الہی کے مخالف اعمال کو اچھا کہے اور ان پر عمل بھی کرے،یہ سب سراسر اللہ ، رسول، قرآن اور اسلام کے ساتھ پوری امت کے ہاں کفر ہے، اور اس دعوے کی وجہ ان ادیان میں کچھ امور پر مشابہت اور شراکت ہے۔
[اقتضاء الصراط المستقیم:(1/540)]
شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہر مسلمان کو اس دعوت کی حقیقت کا علم ہونا ضروری ہے، یہ فلسفی سوچ پر مبنی ہے، سیاست اسکی جائے پیدائش ہے، لادینیت اسکا ہدف ہے، ہمیشہ ایک نئے لباس میں اسکا ظہور مسلمانوں سے اپنے عقیدے، زمین،اور حکمرانی کا بدلہ لینے کیلئے ہوتا ہے، اس دعوت کا ہدف اسلام اور مسلمان ہیں جنہیں ان نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
1- اسلام کے نام پر تشویش ، اور مسلمانوں میں اضطراب پیدا ہو، ان کے ذہنوں میں شبہات اور شہوات کا انبار لگا دیا جائے، تا کہ ایک مسلمان کی زندگی نفرت کرنے والے اور تہذیب یافتہ لوگوں کے درمیان گزرے۔
2- اسلام کے پھیلاؤ کیلئے روک تھام کی جاسکے۔
3- اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، تا کہ اسلام کا نام و نشان تک باقی نہ رہے، مسلمانوں کو کمزور کیا جائے، دلوں سے ایمانی قوت کھینچ کر زمین میں دفن کر دی جائے۔
4- یہود و نصاری وغیرہ کی تکفیر سے مسلم قلم دان اور زبان کو لگام دی جائے، حالانکہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام نہ اپنانے اور دیگر ادیان کو گلے لگانے کی وجہ سے کافر کہا ہے۔
5- اتحاد بین الادیان کے تحت دین دشمن قوتیں، عالمِ اسلامی کو دین سے دور کرنا چاہتی ہیں، قرآن وسنت کوعملی زندگی سے الگ کرنا انکا ہدف ہے، ان اہداف کو پانے کی صورت میں انکے لئے گمراہ کن سوچ ، اخلاق باختہ معاشرہ بغیر کسی قوتِ مدافعت کے رائج کرنا انتہائی آسان ہوجائے گا،اور پھر باگ ڈور سنبھالنے کیلئے کوئی بھی آگے نہ بڑھے، اور مسلمان ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں دین اور اسلام کے دشمن اسے آسانی سے اچک سکیں، اور وہ اپنی گندے ہدف کو پانے میں کامیاب ہوجائیں، اور وہ ہے بلا روک ٹوک عالمی حکمرانی ۔
6- اس کا مقصد اسلام کو گرانا ،اور غلبہ اسلام اور اسکی خوبیوں کو مٹانا ہے، کیونکہ اسلامی تعلیمات ہمہ قسم کی تحریف اور تبدیلی سے محفوظ ہیں پھر اس کو تحریف شدہ اور منسوخ ادیان تو کیا دیگر بت پرست ادیان کے برابر کردیا جائے۔
7- یہ دعوت "تبشیری عیسائی مشنری"کیلئے راستہ ہموار کرتی ہے، جسکے لئے مسلمانوں کے ہاں موجود عقدی موانع کو ختم کیا جا تا ہے، اور مسلمانوں سے متوقع مخالفت کی آگ کو پہلے ہی سے ٹھنڈ اکیا جاتا ہے۔
8- ان سب اہداف کا ہدف یہ ہے کہ: یہود ونصاری اور کمیونزم (اشتراکیت)وغیرہ سے کفر کا لیبل اتار کرعالمِ اسلامی کے منہ پر تھوپ دیا جائے، خاص طور پر عرب دنیا پر، جو کہ عالم اسلامی کامرکز اور اسکا دارالحکومت ہے، یعنی "جزیرہ عرب"، عالمِ کفرجس پلاننگ کے لئے سرگرداں ہےکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک مشترکہ محاذ آرائی کی جائے ، فکری، ثقافتی، اقتصادی، اور سیاسی،ہر قسم کی کوشش کی جائے، اور پھر مشترکہ تجارتی مرکز کا انعقاد ہو، جہاں اسلام کی کوئی پابندی نہ ہو، جہاں کسی قسم کی اطاعت و فرمانبرداری کی پابندی نہ ہو، حلال کمائی کا نام تک نہ ہو، جس سے سود پھیلے ، برائیاں جنم لیں ، عقل و شعور سب حیا باختہ ہو جائیں ، خبیث روح کسی بھی فطرتِ سلیم یا شریعتِ مستقیم سے ٹکرانے کیلئے تیار ہو، ہمیں یہاں پر اللہ کا فرمان پڑھنا چاہئے:
إنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاءُ وَتَهْدِي مَنْ تَشَاءُ أَنْتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الْغَافِرِينَ۔
ترجمہ:
یہ تو تیری ایک آزمائش ہےجس سے تو جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے تو ہی ہمارا سرپرست ہے۔ لہذا ہمیں معاف فرما اور ہم پر رحم فرما اور تو ہی سب سے بڑھ کر معاف کرنے والا ہے۔
[سورۃ الأعراف:155]
بکر ابو زید نے اپنے اس رسالے کے آخر میں یہ کہا: "مسلمانو ں پر اس نظریے کی تردید کرنا واجب ہے"اس لئے کہ ہمہ قسم کی تبدیلی اور تحریف سے محفوظ اسلام کے مقابلے میں ہر دین منسوخ ہے،اور یہ بات اسلام میں مسلمہ ہے۔
تمام روئے زمین کے لوگوں پر لازمی ہے کہ وہ متعددشریعتوں کو تسلیم کریں، اور یہ کہ اسلام ہی آخری شریعت ہے، سابقہ تمام شریعتوں کو اس نے منسوخ کردیا ہے، اس لئے کسی انسان کیلئے اسلام سے ہٹ کر دین اپنانا جائز نہیں۔
تمام لوگوں پر واجب ہے چاہے وہ اہل کتاب سے ہویا انکا تعلق کسی اور سے ہو کہ وہ اسلام قبول کریں، اسلامی تعلیمات پر جزوی اور کلی ہر طور پر ایمان لائیں، ان پر عمل کریں اور اسکے علاوہ تمام تحریف شدہ ادیان اور انکی مذہبی کتابوں کو چھوڑ کراسلا م میں داخل ہو جائیں جو ایسا نہیں کریگا وہ کافر اور مشرک ہے۔
کسی بھی شخص کیلئے روئے زمین پر یہودیت یا عیسائیت پر قائم رہنا جائز نہیں، چہ جائیکہ کہ کسی کو ان میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے، اس لئے اسلام کے علاوہ کسی بھی دین کے پیروکار کو مسلم کہنا درست نہیں ، ایسے ہی اسے ملتِ ابراہیمی پر کہنا بھی صحیح نہیں۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو ہدایت دے، اور انکی آزمائش ختم کرے، اور مکاروں اور فریب کاروں سے انہیں بچائے، اور ہم سب کو ہمیشہ کیلئے اسلام پر قائم رکھے ، وہ اس پر یقینا قادر ہے، وصلی اللہ علی نبینا محمد ، و آلہ و صحبہ و سلم۔
رسالہ: "ابطال لنظرية الخلط بين دين الإسلام و غيره من الأديان"(ص: 105-103)۔
وحدتِ ادیان کی دعوت دینے کا حکم
"تمام تعریفیں صرف ایک اللہ کیلیے ہیں، درود و سلام ہوں ان پر جن کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اسی طرح ان کی آل، صحابہ کرام اور ان کے نقش قدم پر دل جمعی کے ساتھ روزِ قیامت تک چلنے والوں پر، حمد و صلاۃ کے بعد:
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و فتاوی نے کمیٹی کی جانب بھیجے گئے سوالات دیکھے ، اسی طرح مختلف ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی آرا اور مقالہ جات بھی پرکھے ان تمام کا موضوع "وحدتِ ادیان کی دعوت" تھا ، یعنی: دینِ اسلام، یہودیت اور عیسائیت کو آپس میں ضم کر دیا جائے، اسی طرح اس دعوت کا ذیلی مطالبہ یہ بھی تھا کہ یونیورسٹیوں اور عوامی جگہوں میں مسجد، کلیسا اور شُوَل [یہودی عبادت گاہ] ایک ہی چار دیواری میں بنائی جائیں، قرآن کریم، تورات اور انجیل ایک ہی غلاف میں طبع ہوں، اس دعوت کے اور بھی دیگر مطالبے ہیں، اس دعوت کو پھیلانے کیلیے مشرق و مغرب میں کانفرنسیں، سیمینار اور اجتماعات منعقد کئے جاتے ہیں، غور و فکر اور مطالعہ کے بعد کمیٹی اس دعوت کے بارے یہ فیصلہ کرتی ہے:
اول:
اسلامی عقائد کی بنیادی کڑی اور مسلمہ طور پر مشہور و معروف بات یہ ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع بھی ہے کہ: روئے زمین پر اسلام کے علاوہ کوئی دین حق نہیں ہے،اسلام تمام ادیان کیلیے خاتم الادیان ہے، اور یہ کہ اسلام نے اپنے سے پہلے تمام ادیان، ملتوں اور شریعتوں کو منسوخ کر دیا ہے، اس لیے روئے زمین پر اسلام کے علاوہ کوئی ایسا دین نہیں ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی کی عبادت ممکن ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا ہے۔[المائدة: 3]
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
ترجمہ: اور جو بھی اسلام کے علاوہ دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا۔[آل عمران: 85]
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اسلام وہی دین ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے کر بھیجا گیا اس کے علاوہ کوئی بھی دین اسلام نہیں ہے۔
دوم:
اسلام کے بنیادی عقائد میں سےیہ بھی ہے کہ کتابِ الہی: "قرآن کریم" رب العالمین کی جانب سے نازل ہونے والی آخری کتاب ہے ، قرآن کریم نے اس سے پہلے نازل ہونے والی تمام کتابوں کو منسوخ کر دیا ہےچاہے وہ تورات ، زبور، یا انجیل وغیرہ کوئی بھی کتاب ہو، قرآن کریم سابقہ کتابوں کا امین ہے، چنانچہ قرآن کریم کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی کی بندگی کی جا سکے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ
ترجمہ: اور ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب حق کے ساتھ بھیجی، اس حال میں کہ اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور ان پر محافظ ہے، پس ان کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے اس سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کریں ۔[المائدة: 48]
سوم:
تورات اور انجیل کے بارے میں یہ ایمان لانا واجب ہے کہ قرآن مجید نے انہیں منسوخ کر دیا ہے، نیز ان میں تحریف، تبدیلی اور کمی بیشی کی گئی ہے، جیسے کہ قرآن مجید میں اس کے متعلق آیات موجود ہیں، مثال کے طور پر فرمانِ باری تعالی ہے:
فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَى خَائِنَةٍ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ
ترجمہ: پھر انہوں نے اپنے عہد کو توڑ ڈالا لہذا ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کردیئے ، وہ کتاب اللہ کے کلمات کو ان کے موقع و محل سے بدل ڈالتے ہیں اور جو ہدایات انہیں دی گئی تھیں انکا اکثر حصہ بھول چکے ہیں۔ اور ماسوائے چند آدمیوں کے تم کو آئے دن انکی خیانتوں کا پتہ چلتا رہے گا۔ [المائدة: 13]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ
پس ہلاکت اور تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کر لیں ،ان کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجب ہلاکت ہے۔[البقرۃ: 79]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
ترجمہ: یقیناً ان میں ایسا گروہ بھی ہے جو کتاب پڑھتے ہوئے اپنی زبان مروڑتا ہے تاکہ تم اسے کتاب ہی کی عبارت خیال کرو حالانکہ دراصل وہ کتاب میں سے نہیں، اور یہ کہتے بھی ہیں کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے حالانکہ دراصل وہ اللہ کی طرف سے نہیں، وہ تو دانستہ اللہ تعالی پر جھوٹ بولتے ہیں ۔[آل عمران: 78]
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جو کچھ ان میں صحیح سلامت ہے اسے اسلام نے منسوخ کر دیا ہے، اور بقیہ تمام چیزیں تحریف شدہ یا تبدیل ہو کر سلامتی کھو چکی ہیں، یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ایک صحیفہ تھامے ہوئے دیکھا جس میں تورات کی کچھ تحریر تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابن خطاب !کیا میرے بارے میں شک ہے ؟ کیا میں روزِ روشن کی طرح عیاں شریعت لے کر نہیں آیا؟! اگر میرے بھائی موسی بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری ہی اتباع کرنا ہوتی)" اس روایت کو احمد اور دارمی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
چہارم:
اسلام کے بنیادی عقائد میں سے یہ بھی ہے کہ ہمارے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی نے اس چیز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ
ترجمہ: محمد تم میں سے کسی مرد کے والد نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ۔ [الأحزاب: 40]
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی ایسا رسول باقی نہیں بچتا جس کی اتباع کرنا واجب ہو، بلکہ اگر کوئی نبی اس وقت زندہ ہوتے تو انہیں بھی صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اتباع کرنی پڑتی، نیز ان کے پیروکاروں پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اتباع لازمی ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ
ترجمہ: اور جب اللہ تعالی نے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا کہ اگر میں تمہیں کتاب و حکمت عطا کروں پھر کوئی ایسا رسول آئے جو اس کتاب کی تصدیق کرتا ہو جو تمہارے پاس ہے تو تمہیں اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنا ہوگی۔ اللہ تعالی نے (یہ حکم دے کر نبیوں سے) پوچھا ؟ کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو ؟ اور میرے اس عہد کی ذمہ داری قبول کرتے ہو ؟" نبیوں نے جواب دیا : "ہم اس کا اقرار کرتے ہیں "تو اللہ تعالی نے فرمایا : " تو اب تم اس بات پر گواہ رہو اور میں خود بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں "[آل عمران: 81]
چنانچہ اللہ تعالی کے نبی عیسی علیہ السلام بھی جس وقت آخری زمانے میں نازل ہوں گے تو وہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اتباع کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو ہی نافذ کریں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
ترجمہ: جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی اُمّی ہے، جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ رسول انہیں نیکی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا ہے، ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں کو حرام کرتا ہے، ان کے بوجھ ان پر سے اتارتا ہے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہذا جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کی حمایت اور مدد کی اور اس روشنی کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے تو یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں [الأعراف: 157]
اسی طرح یہ بھی دین اسلام کا بنیادی ترین عقیدہ ہے کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تمام لوگوں کیلیے ہوئی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا
ترجمہ: آپ کہہ دیں: لوگو! میں تم سب کیلیے اللہ کا رسول ہوں ۔[الأعراف: 158]
پنجم:
اسلام کا بنیادی اصول ایک مسلمان پر یہ واجب کرتا ہے کہ اسلام قبول نہ کرنے والے یہود و نصاری اور دیگر افراد کو کافر سمجھے، اور جن کے بارے میں اتمام حجت ہو چکا ہے انہیں کافر سے موسوم کرے، انہیں یہ سمجھے کہ وہ اللہ ، اللہ کے رسول اور مومنوں کے دشمن ہیں، نیز وہ جہنمی ہیں ، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ
ترجمہ: اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے وہ کفر سے باز آنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے پاس روشن دلیل نہ آ جائے [البینۃ: 1]
اسی طرح اسی سورت میں فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أُولَئِكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ
ترجمہ: اہل کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے یقیناً وہ جہنم کی آگ میں داخل کیے جائیں گے، اور اس میں ہمیشہ رہیں گے، یہ لوگ بدترین مخلوق ہیں [البینۃ: 6]
ایک اور مقام پر فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ
ترجمہ: اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں ۔[الأنعام: 19]
ایسے ہی فرمایا:
هَذَا بَلَاغٌ لِلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوا بِهِ
ترجمہ: یہ قرآن تمام لوگوں کے لئے اطلاع نامہ ہے کہ اس کے ذریعے سے وہ ہوشیار کر دیئے جائیں ۔[ابراہیم: 52] اس بارے میں اس کے علاوہ بھی بہت سی آیات ہیں ۔
صحیح مسلم میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس امت میں سے کوئی بھی میرے بارے میں سنے چاہے وہ یہودی ہو یا عیسائی، اور پھر وہ مجھے دی گئی شریعت پر ایمان لائے بغیر مر جائے تو وہ جہنمی ہو گا)
اس لیے جو شخص یہود و نصاری کو کافر نہیں سمجھتا وہ بھی کافر ہے؛ کیونکہ شرعی قاعدہ ہے کہ : "جو کسی کافر کو اتمام حجت کے بعد بھی کافر نہیں سمجھتا تو وہ خود بھی کافر ہے"
ششم:
ان بنیادی عقائد اور شرعی حقائق کے سامنے وحدتِ ادیان کی دعوت ، ادیانِ عالم میں قرابتیں بڑھانے کی کوششیں اور انہیں ایک ہی رنگ میں رنگنے کی مساعی خبیث اور مکر و فریب سے بھری ہوئی چالیں ہیں، ایسی دعوت کا مقصد حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ کرنا ، اسلام کا جڑ سے خاتمہ، اور تمام مسلمانوں کو یک بارگی مرتد کرنا ہے، اس دعوت پر تو اللہ تعالی کا یہ فرمان صادق آتا ہے کہ:
وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا
ترجمہ: یہ لوگ تم سے لڑائی بھڑائی کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو تمہیں تمہارے دین سے مرتد کر دیں [البقرة: 217]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً
ترجمہ: وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ تم بھی ویسے ہی کافر ہوجاؤ جیسے وہ خود ہوئے ہیں تاکہ سب برابر ہو جائیں۔ [النساء: 89]
ہفتم:
گناہوں سے لت پت اس دعوت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اسلام اور کفر کے مابین فرق ہی ختم ہو جائے، حق اور باطل میں ، نیکی اور بدی میں امتیاز باقی نہ رہے، مسلمانوں اور کافروں کے درمیان منافرت نہ ہو، دوستی اور دشمنی کا خاتمہ ہو جائے، روئے زمین پر کلمۃ اللہ کی سربلندی کیلیے کسی قسم کا جہاد اور قتال نہ ہو، حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ
ترجمہ: اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں نہ آخرت کے دن پر، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے ان پر حرام کی ہیں اور نہ ہی دین حق کو اپنا دین بناتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور چھوٹے بن کر رہنا گوارا کر لیں ۔[التوبہ: 29]
ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
ترجمہ: اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو، جیسے وہ تم سے مل کر لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے [التوبہ: 36]
ایسے ہی فرمایا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَاعَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو ! اپنے سوا کسی غیر مسلم کو اپنا راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری خرابی کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔ ان کی دشمنی ان کی زبانوں پر بے اختیار آ جاتی ہے اور جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے بیٹھے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔ بیشک ہم نے تمھارے لیے آیات کھول کر بیان کر دی ہیں، اگر تم سمجھتے ہو۔ [آل عمران: 118]
ششم:
اگر وحدتِ ادیان کی دعوت کوئی مسلمان دے تو یہ اس مسلمان کے مرتد ہونے کی صریح دلیل ہو گی؛ کیونکہ یہ دعوت بنیادی اسلامی عقائد سے متصادم ہے، اس دعوت میں اللہ تعالی کے ساتھ کفر کرنے کے متعلق رضا مندی ہے، اس سے قرآن کریم کی صداقت اور سابقہ تمام شریعتوں اور ادیان کی قرآن کے ذریعہ منسوخی کالعدم ہوتی ہے، لہذا یہ دعوت شرعی طور پر مسترد ہے، اور قرآن و سنت سمیت اجماع کے ذریعے بھی تمام دلائل کی رو سے قطعی طور پر حرام ہے ۔
نہم:
جو تفصیلات پہلے گزر چکی ہیں ان کی بنا پر:
1- جو کوئی بھی مسلمان اللہ تعالی کو اپنا پروردگار مانتا ہے، اسلام کو اپنا دین جانتا ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور رسول مانتا ہے اس کیلیے اس گناہ بھری دعوت کی طرف بلانا جائز نہیں ہے، اس فکر کی حوصلہ افزائی کرنا اور اسے مسلمانوں کے مابین عام کرنا درست نہیں ہے، چہ جائیکہ اسے قبول کرے اور ایسی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں جائے اور اس سے متعلقہ مجلسوں کی زینت بنے۔
2- کسی مسلمان کیلیے تورات اور انجیل کی الگ سے طباعت کرنا جائز نہیں ہے، تو ایک ہی جلد میں قرآن مجید کے ساتھ اسے طبع کرنا کیسے جائز ہو گا؟! لہذا ایسی بات کرنے والا واضح اور دور کی گمراہی میں ہے؛ کیونکہ اس طرح حق بات یعنی قرآن کریم اور تبدیل شدہ یا منسوخ کتاب (تورات اور انجیل)کو یکجا کرنا لازم آئے گا۔
3- اسی طرح کسی بھی مسلمان کیلیے ایک ہی چار دیواری میں مسجد، کلیسا اور شول بنانے کی حمایت کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس سے بہت سی باتوں کا اعتراف لازم آئے گا مثلا دینِ اسلام کے بغیر اللہ کی بندگی کا جواز، دین اسلام کے تمام ادیان سے سچے اور سُچے ہونے کی نفی، تین ادیان کی صورت میں مادی دعوت کا اعتراف ، روئے زمین پر تمام لوگوں کے لئے ان میں سے کسی ایک کی پیروی کا جواز، تمام ادیان کی یکسانیت،اور یہ کہ اسلام نے سابقہ ادیان کو منسوخ نہیں کیا۔ اور اس بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ ایسے نظریات کا اقرار یا انہیں پر راضی ہونا کفر اور گمراہی ہے؛ کیونکہ یہ قرآن کریم، سنت مطہرہ، اور مسلمانوں کے اجماع کی کھلی مخالفت ہے، اور اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف سے کی جانے والی تحریفیں بھی منزّل من اللہ ہیں، -اللہ تعالی ایسے بہتانوں سے پاک ہے- اسی طرح کلیسا کو اللہ کا گھر کہنا بھی جائز نہیں ہے، یا یہ سمجھنا کہ اہل کلیسا اس میں اللہ تعالی کی صحیح عبادت کرتے ہیں جو کہ اللہ تعالی کے ہاں مقبول بھی ہوتی ہے، کیونکہ ان کی عبادات دین اسلام کی روشنی میں نہیں ہیں [اس لیے ان کی عبادات نہ تو صحیح ہیں اور نہ ہی اللہ کے ہاں مقبول ہیں] اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
ترجمہ: اور جو بھی اسلام کے علاوہ دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا۔[آل عمران: 85]
بلکہ کلیسا ایسے گھر ہیں جن میں اللہ تعالی کے ساتھ کفر کیا جاتا ہے -اللہ تعالی ہمیں کفر اور کفار سے اپنی پناہ میں رکھے- اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" ( 22/162 ) میں کہتے ہیں:
"کلیسا اور یہودیوں کے معبد خانے اللہ کے گھر نہیں ہیں، اللہ کے گھر صرف مساجد ہیں، یہ تو ایسے گھر ہیں جن میں اللہ تعالی کے ساتھ کفر کیا جاتا ہے، اگرچہ ان میں اللہ کا نام بھی لیا جاتا ہے، لیکن گھر کا درجہ اہلیان گھر کے مطابق ہوتا ہے، اب چونکہ ایسے گھروں کے اہلیان ہی کافر ہیں تو یہ گھر بھی کفار کی عبادت گاہیں ہیں" انتہی
دہم:
یہ بات جاننابھی ضروری ہے کہ تمام کفار کو اسلام کی دعوت دینا اور خصوصی طور پر اہل کتاب کو اسلام کی دعوت دینا مسلمانوں کیلیے واجب اور ضروری ہے، اس بارے میں کتاب و سنت کی نصوص واضح اور صریح ہیں، اور یہ بھی کہ اس کیلیے طریقہ کار اچھا اور بہترین ہونا چاہیے، تاہم غیر مسلموں کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کیلیے اسلام کے کسی بھی حکم سے دستبرداری روا نہیں رکھی جا سکتی، بہترین طریقہ اپنانے کی وجہ یہ ہے کہ ہم انہیں اسلام کے بارے میں مکمل اطمینان دے سکیں یا ان پر اتمام حجت کر سکیں تا کہ کوئی تباہ ہو تو دلیل کی بنیاد پر اور زندگی پائے تو بھی دلیل کی بنیاد پر، فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ يَاأَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
ترجمہ: تم کہہ دو کہ اے اہل کتاب ! ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ ہم اللہ تعالی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں اور نہ اللہ تعالی کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو آپ فرما دیں کہ گواہ رہنا ہم تو مسلمان ہیں۔ [آل عمران: 64]
لیکن ان سے بحث مباحثہ کرنا ، ان سے گفتگو اور بات چیت کرتے ہوئے ان کی مرضی کے مطابق ڈھل جانا، ان کے اہداف پورے کرنے کیلیے آلہ کار بن جانا، یا اسلام کے احکامات اور ایمان کی گرہیں ایک ایک کر کے توڑتے جانا اللہ تعالی اور اس کے رسول کے ہاں، اسی طرح مومنوں کے ہاں بالکل قابل قبول نہیں ہے، ایسے لوگوں کی کارکردگی پر اللہ تعالی سے ہی مدد طلب کرتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ
ترجمہ: اور ان سے ہوشیار رہیے کہ کہیں یہ آپ کو اللہ کے اتارے ہوئے کسی حکم سے ادھر ادھر نہ کریں ۔ [المائدة: 49]
دائمی فتوی کمیٹی مذکورہ بالا تحریر کو حتمی شکل دیتے ہوئے لوگوں کے سامنے اسے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں کو بالعموم ،جبکہ اہل علم کو بالخصوص اللہ کا تقوی اختیار کرنے اور اس کی مراقبت میں رہنےکی تلقین کرتی ہے، اور اسی طرح تحفظِ اسلام، مسلمانوں کے عقیدے کو کج روی اور گمراہیوں سے ، کفریہ امور اور کفار سے محفوظ کرنے کی ترغیب دلاتی ہے، اور تمام مسلمانوں کو اس فکری دعوت سے خبردار بھی کرتی ہے۔" انتہی
واللہ اعلم.
ادیان کوایک دوسرے کے قریب کرنے کی دعوت کا حکم
اول :
اللہ تعالی کی اپنے رسولوں پرنازل کردہ کتابوں میں اصول ایمان ایک ہی جیسے تھے ( وہ کتابیں تورات وانجیل اورقرآن ، اور جس کی اللہ تعالی کے رسولوں ابراھیم ، موسی ، عیسی ، وغیرہ نے دعوت پیش کی )
پہلے آنے والوں نے بعد میں آنے والوں کی خوشخبری دی اوربعد میں آنے والوں نے پہلے آنے والوں کی تصدیق اورمدد اوراس کی شان کی تعظیم کی ، اگرچہ بالجملہ حسب ضرررت زمانے اورحالات اوربندوں کی مصلحت اوراللہ تعالی کی حکمت و عدل اوررحمت اور اس کے فضل کے اعتبار سے فروعات میں اختلاف پایا گیا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
رسول اس چيزپرایمان لایا جو اس کی طرف اللہ تعالی کی جانب سے نازل کی گئ اورمؤمن بھی ایمان لاۓ ، یہ سب اللہ تعالی اوراس کے فرشتوں پراوراس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پرایمان لاۓ ، اس کے رسولوں میں سے کسی میں بھی ہم تفریق نہیں کرتے ، انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اوراطاعت کی ، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب ! اورہمیں تیری طرف ہی لوٹنا ہے البقرۃ ( 285 ) ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اورجولوگ اللہ تعالی اوراس کے تمام رسولوں پرایمان رکھتے ہیں اوران میں سے کسی میں بھی فرق نہیں کرتے انہیں ہی اللہ تعالی پورا اجرو ثواب دے گا اوراللہ تعالی بڑی مغفرت والا بڑي رحمت کا مالک ہے النساء ( 152 ) ۔
ایک اورجگہ پر اللہ تعالی نے فرمایا :
{ جب اللہ تعالی نے نبیوں سے یہ عہد لیا کہ میں تمہیں جوکچھ کتاب وحکمت دوں اورپھرتمہارے پاس وہ رسول آۓ جوتمہارے پاس پائ جانے والی چيزکی تصدیق کرے توتمہارے لیے اس پر ایمان لانا اوراس کی مدد کرنا ضروری ہے اللہ تعالی نے فرمایا کیا تم اس کا اقرارکرتے ہو ؟
سب نے کہا ہمیں اقرار ہے اللہ تعالی نے فرمایا تواب گواہ رہنا اورمیں خود بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں ۔
تواس کے بعد جوبھی پلٹ جائيں وہ یقینا پورے نافرمان ہیں
کیا وہ اللہ تعالی کے دین کے علاوہ اوردین کی تلاش میں ہیں ؟ حالانکہ تمام آسمان وزمین والے اللہ تعالی کے ہی فرمانبرداری اورمطیع ہیں ( ان کی اطاعت ) خوشی سے ہویا ناخوشی ہے ، سب اللہ تعالی ہی طرف لوٹاۓ جائيں گے ۔
آپ کہہ دیجۓ کہ ہم اللہ تعالی اورجوکچھ ہم پرنازل کیا گيا ہے اورجوکچھ ابراھیم علیہ السلام ، اسماعیل علیہ السلام ، اوریعقوب علیہ السلام اوران کی اولاد پرنازل کیا ہے اورجوکچھ موسی علیہ السلام اورعیسی علیہ السلام اوردوسرے انبیاء پرنازل کیاگیا پرایمان رکھتے ہیں ، ہم ان میں سے کسی ایک میں بھی فرق نہیں کرتے ، اورہم اللہ تعالی کے مطیع اورفرمانبردارہيں ۔
جوشخص اسلام کے علاوہ کوئ اوردین تلاش کرے گا اس کا وہ دین قبول نہیں کیا جاۓ گا اوروہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا} آل عمران ( 81- 85 ) ۔
اوراللہ تعالی نے ایک مقام پر ابراھیم خلیل علیہ السلام اوران کے ساتھ دوسرے انبیاءاوران کی دعوت توحید کا ذکر کرنے کےبعد فرمایا :
{ یہ لوگ ایسے تھے کہ ہم نے ان کوکتاب اورحکمت اورنبوت عطا کی تھی تواگریہ ( کافر ) لوگ نبوت کا انکار کردیں توہم نے اس کے لیے ایسے بہت سے لوگ مقرر کردیۓ ہیں جواس کے نہیں ہیں
یہی لوگ ایسے تھے جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت کی تھی توآپ بھی ان ہی کے راستہ پرچلیے آپ کہہ دیجۓ ! کہ میں تم سے اس پرکوئ معاوضہ توطلب نہیں کرتا یہ توصرف تمام جہان والوں کے لیے نصیحت ہے } الانعام ( 89 - 90 )
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان اس طرح بھی ہے :
سب لوگوں سے زيادہ ابراھیم علیہ السلام کے قریب تروہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کا کہنا مانا اوریہ نبی اورجولوگ ایمان لاۓ ، اورمومنوں کا ولی اورسہارا اللہ تعالی ہی ہے آل عمران ( 68 )
اورایک جگہ پرکچھ اس طرح فرمایا :
پھرہم نے آپ کی طرف یہ وحی فرمائ کہ آپ ملت ابراھیم حنیف کی اتباع کریں جو مشرکوں میں سے نہ تھے النحل ( 123 ) ۔
اوراللہ تعالی کایہ بھی فرمایا ہے :
اورجب عیسی بن مریم علیہ السلام نے کہا کہ اے بنواسرائیل میں تم سب کی طرف اللہ تعالی کا رسول ہوں اپنے سے قبل آنے والی تورات کی تصدیق کرنے والا اور اپنے آنے والے رسول کو خوشخبر دینے والا ہوں جس کا نام احمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے ۔
اورفرمان باری تعالی ہے :
اورہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائ ہے جواپنے سے پہلی تمام کتابوں کی تصدیق کرنے والی اوران کی محافظ ہے اس لیے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ تعالی کی نازل کتاب کے ساتھ حکم کیجیۓ ، اس حق سے ہٹ کر ان کی خوہشات کے پیچھے نہ جايۓ ،تم میں سے ہرایک کے لیے ہم نے ایک دستور اورراہ مقرر کردی ہے المائدۃ ( 48 ) ۔ اوربھی آیات ہیں
حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمايا :
( میں دنیا وآخرت میں عیسی بن مریم علیہ السلام کے زيادہ قریب اوراولی ہوں سب انبیاء علاتی بھائیوں کی طرح ہیں ان کا دین ایک اورشریعتیں مختلف ہیں ) صحیح بخاری ۔
دوم :
یھودونصاری ہے کلمات کاان کی جگہ سے اٹھا کران میں تحریف کرڈالی اورجوکچھ ان پرنازل کیا گیا اورانہیں حکم دیاگیا اس میں تبدیلی کرلی تواس طرح انہوں نے اپنے اصل دین اوراپنے رب کی شریعت کوبدل ڈالا ۔
ان تبدیلیوں اورتحریفوں میں سے یھودیوں یہ قول بھی ہے کہ وہ عزیرعلیہ السلام کواللہ تعالی کا بیٹا قرار دیتے ہيں ، ان کا خیال وگمان ہے کہ چھ دنوں میں آسمان وزمین کوپیدا کرتے وقت اللہ تعالی کواکتاہٹ اورتھکاوٹ ہوگئی توہفتہ کے دن اللہ تعالی نے آرام فرمایا ۔
ان کا یہ بھی خیال ہے کہ انہوں نے عیسی علیہ السلام کوسولی پرلٹکا دیا اورانہیں قتل کردیا ہے ۔
انہوں نے حیلہ کرکے ہفتہ کے دن اللہ تعالی کی جانب سے حرام کردہ شکار کوحلال کرلیا ۔
انہوں نے حدزنا ( رجم ) کومنسوخ کردیا ، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بلاشبہ اللہ تعالی فقیر ہے اورہم غنی ہیں اور ان کا یہ بھی قول ہے کہ اللہ تعالی کا ہاتھ گردن کے ساتھ بندھا ہوا ہے ۔
اس کے علاوہ خواہشات کے پیچھے چلتے ہوۓ بہت سی قولی اورعملی تحریفات کرلیں ۔
اورعیسائی یہ گمان کرتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کے بیٹے اوراللہ تعالی کے ساتھ انہيں الہ کا درجہ بھی حاصل ہے ، اوریھودیوں کے تصدیق میں وہ یہ بھی کہتے ہیں انہون نے عیسی علیہ السلام کوسولی پرچڑھایا اور انہیں قتل کردیا ہے ۔
اوردونوں فریقوں کا خیال ہے کہ وہ اللہ تعالی کے بیٹے اوراس کے محبوب ہیں ، اوردونوں فریق نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے لاۓ ہوۓ دین کے ساتھ کفر کرتے ہیں ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے طرف سے ہی حسدوبغض اورکینہ رکھتے ہيں ۔
حالانکہ اللہ تعالی نے ان سے یہ عھد لیا تھا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائيں گے اوران کی تصدیق اور مدد وتعاون کریں گے جس کا انہون نے اقرار بھی کیا ۔
اس کے علاوہ اوربھی بہت سے غلط عقائد اوراسلام مخالف کام ، اللہ تعالی نے ان کے بہت سارے جھوٹ اورکذب و افتراء اور ان کی طرف نازل کردہ شریعت و عقائد میں تحریف وتبدیل اپنی کتاب میں بیان کیے ہیں اورانہيں ذلیل کرتے ہوۓ ان کا رد بھی اپنی کتاب میں کیا ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ ان لوگوں کےلیے ہلاکت ہے جواپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئ کتاب کواللہ تعالی کی طرف منسوب کرتے ہيں اوراس طرح دنیا کماتے ہيں ، ان ہاتھوں کی لکھائ کواوران کے کمائ کوہلاکت اورافسوس ہے
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم توصرف چند روز جہنم میں رہیں گے ، ان سے کہو کہ کیا تمہارے پاس اللہ تعالی کا کوئ پروانہ یا عہد ہے ؟ اگرہے تویقینا اللہ تعالی اپنے وعدے کا خلاف نہیں کرے گا ، بلکہ تم تو اللہ تعالی کے ذمے وہ باتیں لگاتے ہو جنہیں تم جانتے ہی نہیں } البقرۃ ( 79 - 90 )
اوراللہ رب العزت نے فرمایا :
اور وہ یہ کہتے ہیں کہ جنت میں یہود ونصاری کے سوا اورکوئ بھی جنت میں نہیں جاۓ گا یہ صرف ان کی آرزوئيں ہیں ، ان سے کہو کہ اگرتم سچے ہوتوکوئ دلیل پیش کرو البقرۃ ( 111 ) ۔
اورایک مقام پراللہ تعالی نے کچھ اس طرح ذکرکیا ہے :
{ اوروہ کہتے ہيں کہ یہودونصاری بن جاؤ توھدایت یافتہ بن جاؤ گے ، آپ کہہ دیں بلکہ صحیح راستہ پرتوملت ابراھیمی پرچلنے والے ہیں اورابراھیم علیہ السلام خالص اللہ تعالی کے پرستار تھے اورمشرک نہ تھے
اے مسلمانوں تم سب یہ کہو کہ ہم اللہ تعالی پرایمان لاۓ اوراس چیزپر بھی ایمان لاۓ جوہماری طرف نازل کی گئ اورجوچيزابراھیم علیہ السلام ، اسماعیل علیہ السلام ، اسحاق علیہ السلام ، یعقوب علیہ السلام اوران کی اولاد پراتاری گئي اورجو کچھ اللہ تعالی کی جانب سے موسی علیہ السلام ، عیسی علیہ السلام اوردوسرے انبیاء علیہم السلام دیۓ گۓ ، ہم ان میں سے کسی ایک درمیان فرق نہیں کرتے ، اور ہم اللہ تعالی کے فرمانبردار ہيں } البقرۃ ( 135 - 136 ) ۔
اورایک جگہ پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
یقینا ان میں ایسا گروہ بھی ہے جوکتاب پڑھتے ہوۓ اپنی زبان مروڑتا ہے تا کہ تم اسے کتاب ہی کی عبادت شمار کرو حالانکہ دراصل وہ کتاب میں سے نہیں ، اوریہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے حالانکہ وہ دراصل اللہ تعالی کی طرف سے نہیں ، وہ تودانستہ اللہ تعالی پرجھوٹ بولتے ہيں
اورسورۃ النساء میں اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا ہے :
{ یہ سزا تھی ) ان کی عہد شکنی اوراحکام الہی کے ساتھ کفر کرنے اوراللہ تعالی کے نبیوں کوناحق قتل کرنے کے سبب سے اوران کے یہ کہنے کے سبب کہ ہمارے دلوں پرغلاف ہے حالانکہ دراصل ان کے کفر کی وجہ سے اللہ تعالی نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اس لیے یہ بہت ہی تھوڑا ایمان لاتے ہیں
اوران کے کفر کے باعث اوراورمریم علیہا السلام پربہت بڑا بہتان باندھنے کے باعث ، یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ تعالی کے رسول مسیح عیسی بن مریم کوقتل کردیا حالانکہ نہ توانہوں نے اسے قتل کیا اورنہ ہی اسے سولی پرچڑھایا ، بلکہ ان کے لیے ان ( عیسی علیہ السلام ) کا شبیہ بنا دیاگیا تھا ، یقین جانو عیسی علیہ السلام کے بارہ میں اختلاف کرنے والے ان کے بارہ میں شک میں ہیں انہیں اس کا کوئ یقین نہیں یہ سب تخمینی باتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں اتنا تویقین ہے کہ انہوں نے اسے قتل نہیں کیا } النساء ( 157 ) ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی کا یہ بھی فرمان ہے :
اوریہودو نصاری کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کے بیٹے اوراس کے چہیتے ہیں ، آپ کہہ دیجیۓ اگر یہی بات ہے توپھر ) تمہیں اللہ تعالی تمہارے گناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے ، بلکہ تم تواللہ تعالی کی مخلوق میں سے بشر ہو
اور ایک دوسرے مقام پراللہ تعالی نے اس طرح فرمایا ہے :
{ یہودی کہتےہیں کہ عزیر اللہ تعالی کے بیٹے ہیں اورعیسائ کہتے ہیں مسیح اللہ تعالی کا بیٹا ہے یہ قول توصرف ان کےمنہ کی باتیں ہیں ، پہلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے ہیں اللہ تعالی انہیں غارت کرے وہ کیسے پلٹے جارہے ہیں
ان لوگوں نے اللہ تعالی کوچھوڑ کر اپنے عالموں اوردرویشوں کورب بنالیا اور مریم کے بیٹے مسیح کوبھی } التوبۃ ( 30 )
اورایک اورمقام پر اس طرح فرمایا :
ان اہل کتاب کے اکثرلوگ باوجود اس کے کہ حق واضح ہوچکا ہے محض حسدو بغض کی بنا پر تمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں
اس کے علاوہ بھی بہت کچھ جس سے ان کے کذب وافترا اورتناقض وذلت جس سے تعجب ختم نہیں ہوتا ، ان کے حالات کے نمونےذکرکرنے کا مقصد مندرجہ ذیل جواب کی بنیاد فراہم کرنا تھی ۔
سوم :
اورپرجوکچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے جودین اپنے بندوں کے لیے مشرع کیے وہ ایک ہے اوراسے قرب کی کوئ ضرورت نہيں ، اوراسی طرح یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یھودی اورعیسائيوں نے نازل کردہ اپنے دین میں تغیر وتبدل اورتحریف کر لی تھی حتی کہ تحریف کے بعد ان کا دین جھوٹ اوربہتان اورکفروضلال کا دین بن کر رہ گيا ۔
تواسی بنا پر اللہ تعالی نے ان کی اوران کے علاوہ دوسروں کی جانب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوعمومی رسول بنا کرمبعوث کیا تا کہ اس حق کوبیان کیا جاۓ جوانہوں نے چھپا رکھا تھا اورعقائد واحکام میں جوفساد پیدا کردیا گيا تھا اس کی تصحیح کریں اورانہیں اوران کے علاوہ دوسروں کوسیدھے راستہ کی طرف راہنمائ کرے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اے اہل کتاب ! یقینا تہمارے پاس ہمارا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آچکا جوتمہارے سامنے کتاب اللہ کی بکثرت ایسی باتیں ظاہر کررہا ہے جنہیں تم چھپا رہے تھے ، اوربہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے تمہارے پاس اللہ تعالی کی طرف سے نور اورواضح کتاب آچکی ہے
جس کے ذریعہ سے اللہ تعالی انہیں جورضاۓ رب چاہتے ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتا ہے اوراپنی توفیق سے اندیھروں سے نکال کرنورکی طرف لاتا ہے ، اورراہ راست کی طرف ان کی راہنمائ کرتا ہے } المائدۃ ( 15 - 16 ) ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا :
اے اہل کتاب ! یقینا ہمارا رسول تمہارے پاس رسولوں کی آمد کے ایک قفے بعد آپہنچا ہے جو تمہارے لیے صاف صاف بیان کررہا ہے تا کہ تمہاری یہ بات نہ رہ جاۓ کہ ہمارے پاس توکوئ بھلائ ، برائ سنانے والا آیا ہی نہیں ، پس اب تویقینا خوشخبری سنانے والا اورآگاہ کرنے والا آپہنچا اوراللہ تعالی ہرچيز پر قادر ہے المائدۃ ( 19 ) ۔
لیکن حق کے واضح ہوجانے کے بعد بھی انہوں نے دشنی وبغاوت اورحسدو کینہ کی بنا پرحق سے لوگوں کوبھی روکا اورخود بھی حق سے اعراض کیا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
ان اہل کتاب کے اکثر لوگ باوجود حق کے واضح ہوجانے کے محض حسد وبغض کی بنا پرتمہیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں ، تم بھی معاف کرو اورچھوڑ دو یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنا حکم نافذ کردے یقینا اللہ تعالی ہرچیز پرقادر ہے البقرۃ ( 109 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پرارشاد فرمایا :
جب کبھی ان کے پاس اللہ تعالی کاکوئ رسول ان کی کتاب کی تصدیق کرنے والا آیا ، ان اہل کتاب کے ایک فرقہ نے اللہ تعالی کی کتاب کو اس طرح پیٹھ پیچھے ڈال دیا گویا جانتے ہی نہ تھے البقرۃ ( 101 )
ایک اورمقام پراللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا ہے :
اہل کتاب کی کافراورمشرک لوگ جب تک کہ ان کے پاس ظاہر دلیل نہ آجاۓ باز رہنے والے نہ تھے ( اوروہ دلیل یہ تھی ) اللہ تعالی کا ایک رسول جو پاک صحیفے پڑھے جن میں صحیح اوردرست احکام ہوں البینۃ ( 1 - 3 ) ۔
ان کے باطل پراصرار کرنے اورحسدوبغض اورکینہ رکھتے ہوۓ واضح دلائل سے سرکشی کرنے کے باوجود کس طرح ایک عقل مند یہ امید رکھ سکتا ہے کہ ان کے اورپکے سچے مسلمانوں کے درمیان بھی قربت ہوسکتی ہے :
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
مسلمانوں ! ) کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائيں ، حالانکہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جوکلام اللہ کوسن کر عقل و علم والے ہوتے ہوۓ بھی اس میں تحریف کرڈالتے ہیں البقرۃ ( 75 ) ۔
ایک اورمقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
{ یقینا ہم نے آپ کوحق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اورڈرانے والا بنا کربھیجا ہے اورجہنمیوں کے بارہ میں آّپ سے پوچھ گچھ نہیں ہوگی
آپ سے یھود ونصاری اس وقت تک ہرگزراضي نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کوقبول نہ کرلیں ، آپ کہہ دیجیۓ کہ اللہ تعالی کی ھدایت ہی ھدایت ہے اوراگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے پھران لوگوں کی خواہشوں کی پیروی کی تواللہ تعالی کے پاس آپ کا نہ توکوئ ولی ہوگا اورنہ ہی مدد کوئ مدد گار } البقرۃ ( 119 - 120 ) ۔
اورایک جگہ پراللہ تعالی کچھ اس طرح فرماتے ہیں :
اللہ تعالی ان لوگوں کوکیسے ھدایت دے گا جواپنے ایمان لانے اوررسول کی حقانیت کی گواہی دینے اوراپنے پاس روشن اورواضح دلیلیں آجانے کےبعد کافر ہوجائيں ، اللہ تعالی ایسے بے انصاف لوگوں کوراہ راست پرنہیں لاتا آل عمران ( 86 ) ۔
بلکہ اگر یہ لوگ اللہ تعالی سے دشمنی اورکفرمیں اپنے مشرک بھائيوں سے زیادہ سخت نہیں توکم از کم ان کے برابر توہیں ہی حالانکہ اللہ تعالی نے ان کے متعلق فرمایا ہے :
توآپ جھٹلانے والے لوگوں کی بات نہ مانیں ، وہ توچاہتے ہیں کہ کچھ آپ نرم ہوجائيں اورکچھ وہ نرم ہوجائيں القلم ( 8 – 9 ) ۔
اورایک مقام پراللہ سبحانہ وتعالی کچھ اس طرح فرماتے ہیں :
آپ کہہ دیجۓ کہ اے کافرو ! میں اس کی عبادت کرتا ہوں جس کی تم عبادت کرتے ، اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ، اورنہ میں اس کی عبادت کروں گا جس کی تم عبادت کرتے ہو ، اورنہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کررہا ہوں ، تمہارے لیے تمہارا دین ہے اورمیرے لیے میرا دین ہے الکافرون ( 1 - 6 ) ۔
جس کوبھی اس کا نفس اسلام اوریھودیت ، عیسائيت کے درمیان جمع کرنے کا کہے وہ تواسی طرح ہے کہ جو دومخالف چيزوں یعنی حق وباطل اور کفروایمان ، یا آگ اورپانی کوجمع کرنے کی کوشش کرے ۔
ایسا شخص تواس جیسا ہی ہوگا جس کے متعلق کسی نے کہا ہے :
اے ثریا اورسہیل ستارے کا آپس میں نکاح کرنے والے اللہ تیری عمردراز کرے یہ دونوں آپس ميں کیسے مل سکتے ہیں ؟
ثریا شام کی جانب اور سہیل یمن کی طرف ہے کچھ توحوش وحواس قائم کرو ۔
پھردوسری بات یہ ہے کہ یھودیت اورعیسائیت کوتو اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے منسوخ کردیا ہے اور زمین پربسنے والے سب یہودیوں اورعیسائيوں پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی واطاعت واجب اورضروری قرار دی ہے ۔
اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کچھ اس طرح فرمایا ہے :
{ جولوگ ایسے نبی امی کی اتباع کرتے ہیں جن کووہ لوگ اپنے پاس تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، وہ ان کونیک باتوں کا حکم فرماتا اور بری باتوں سے منع کرتا ہے اورپاکیزہ چيزوں کوحلال بتاتے ہیں اورگندی چيزوں کوان پرحرام فرماتےہیں اوران لوگوں پرجوبوجھ اورطوق تھے ان کودورکرتے ہیں توجولوگ اس نبی پرایمان لاتے ہیں اوران کی حمایت کرتے ہیں اوران کی مدد و ونصرت کرتے ہیں اوراس نور کی پیروی کرتے ہیں جوان کے ساتھ بھیجا گیا ہے ، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں
آپ کہہ دیجۓ کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالی کا بھیجا ہوا ہوں ، جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اورزمین میں ہے اس کے سوا کوئ عبادت کے لائق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اوروہی موت دیتا ہے تواللہ تعالی پرایمان لاؤ اوراس کے نبی امی پرجوکہ اللہ تعالی پراوراس کے احکام پرایمان رکھتے ہیں اوران کا اتباع کرو تا کہ تم راہ راست پرآجاؤ } الاعراف (157- 158 )
تواگر اب بھی وہ اپنے منسوخ شدہ دین پرقائم رہتے ہیں تویہ باطل کا تمسک بےدین زندگی ہے لھذا مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ان کے قریب ہوتے پھریں اس لیے کہ ان کے قریب ہونے میں باطل پران کا ساتھ دینا اوراقرار کرنا ہے اوردوسرا بات یہ ہے کہ جاھل قسم کے لوگوں کوہلاکت میں ڈالنا ہے ، واجب تویہ ہے کہ ان کے باطل کولوگوں کے سامنے واضح کرکے انہيں رسوا کیا جاۓ جس طرح کہ اللہ تعالی نے بھی قرآن کریم میں بیان کیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔
چہارم :
اگرکوئ کہے کہ کیا ان کے درمیان مصالحت ہوسکتی ہے ، یا پھرکوئ صلح کا معاھدہ کیا جاسکتا ہے تا کہ خون محفوظ اورجنگوں کا سلسلہ روکا جاسکے اورلوگ دنیا میں آسانی سے سفرکرسکیں ، اورزندگی میں رزق کمانے کی کوشش کی جاسکے اوردنیا کی تعمیر و ترقی ہو ۔
صلح اس لیے کی جاۓ کہ حق کی دعوت دی جاۓ اوران دونوں امتوں کے درمیان عدل انصاف قائم کیا جاسکے ، ( اگر ایسی بات کہی جاۓ تو بہت اچھا ہے اوراسے ممکن اوراثرانداز بنانے کےلیے بہت اچھا مقصد ہے لیکن یہ بھی اس وقت ہوگا جب ان سے جزیہ نہ لینا ممکن نہ ہو ۔
اس لیے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کچھ اس طرح فرمایا ہے :
ان لوگوں سے قتال ولڑائ کرو جو اللہ تعالی اورروز قیامت پرایمان نہیں رکھتے جو اللہ تعالی کے رسول کی حرام کردہ اشیاء کوحرام نہیں جانتے ، اورنہ ہی دین حق کوقبول کرتےہیں ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئ ہے یہاں تک کہ وہ ذلیل وخوار ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں التوبۃ ( 30 ) ۔
اوراس مصالحت میں حق کوثابت اوراس کی مدد و نصرت کرنی چاہیے اوریہ مصالحت اورصلح مسلمانوں کا مشرکوں کے ساتھ مداہنت جسے کچھ لواورکچھ دو کا اصول کہا جاتا ہے کے طریقہ پرنہيں ہونی چاہیے اورنہ ہی اس میں اللہ تعالی کے احکام میں سے کسی کا تنازل کرنا اوراسے ترک کرنا چاہيے ، یا پھراس صلح میں مسلمانوں کی عزت و احترام سے بھی تنازل کرنا چاہيۓ بلکہ اس میں بھی انہیں اپنی عزت واحترام برقرار رکھنا اوراللہ تعالی کی کتاب اورسنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرعمل کرنا ہوگا ، اس میں کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرعمل کرتے ہوۓ اللہ تعالی کے دشمنوں سے بغض رکھنا اوران سے دوستیاں نہ لگانا ہوگا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
پس تم کمزوربن کردشمن سے صلح کی درخواست پرنہ اتر آؤ جبکہ تم ہی بلنداورغالب رہو گے اوراللہ تعالی تمہارے ساتھ ہے یہ ناممکن ہے کہ وہ تمہارے اعمال ضائع کرد ے محمد ( 35 ) ۔
اوراس کی عملی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبہ میں کر دکھائ جوعام حدیبیہ میں قریش مکہ کے ساتھ کی اورمدینہ میں جنگ خندق سے قبل یھودیوں سے بھی صلح کی اوراسی طرح غزوہ خیبرمیں بھی ہوئ اور غزوہ تبوک میں رومیوں کےساتھ صلح کی گئ ۔
تواس صلح کے امن وسلامتی مین بہت ہی عظیم اثر اورنتائج نکلے اورحق کی مدد ونصرت ہوئ اورحق کوزمین میں پھلنے پھولنے کا موقع ملا اورفوج درفوج لوگ اسلام قبول کرنے لگے ، اوران کی دنیاوی اوردینی زندگی میں ہرقسم کے عمل پربھی اس کا بہت اثرہوا جوکہ مسلمانوں کی قوت وطاقت اورمال کی فراوانی اقتصادی مضبوطی کی شکل میں سامنے آئ ۔
اوراسلام اس تیزی سے پھیلا جوکہ اس کے حق ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے اورتاريخ وواقعات اس کے سب سے بڑے گواہ اوردلیل ہيں ، لیکن یہ سب کچھ اسے نظرآتا ہے جوتعصب کی عینک اتار کر اپنے دل سے انصاف کی نظردوڑاۓ اوریا پھراپنے کان اس طرف لگاۓ اور اپنے مزاج اورسوچ وتفکیر میں اعتدال پیدا کرے ۔
اوران سب میں نصیحت توصرف اس کےلیے ہے جس کا دل ہواوروہ اپنے کان بھی حق کےلیے استعمال کرے اورپھر وہ گواہ ہو ۔
اللہ تعالی ہی حق کی طرف راہنمائ کرنے والا ہے ، اوروہ ہمیں کافی ہے اوربہت ہی اچھا کارساز ہے ۔ .
ماخذ:
اللجنۃ الدائمۃ ( 12/284-297 )
ابراہیم علیہ السلام کی ملتِ حنیف اسلام ہی ہے:
قرآن کریم کی متعدد آیات میں دین حنیف کا ذکر ہے، اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کا ذکر اسی دین کے ساتھ متصف کرتے ہوئے کیا ہے، چنانچہ جو شخص ان آیات کو پڑھے تو بآسانی "دین حنیف"کا معنی سمجھ سکتا ہے، اس لئے ہم ان تمام آیات کو اپنے اس جواب میں ذکر کریں گے تا کہ آیات کے سیاق سے قارئین کرام کو اسکا معنی سمجھنے میں آسانی ہو:
چنانچہ سورہ بقرہ میں فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )
ترجمہ: یہودی کہتے ہیں کہ ''یہودی ہو جاؤ تو ہدایت پاؤ گے'' اور عیسائی کہتے ہیں کہ ''عیسائی بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے۔'' آپ ان سے کہیے : [بات یوں نہیں] بلکہ جو شخص ملت ابراہیم [دين حنيف]پر ہوگا وہ ہی ہدایت پائے گا اور ابراہیم موحد تھے شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔ البقرة/135.
اور سورہ آل عمران میں فرمایا:
( يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ إِلَّا مِنْ بَعْدِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ . هَا أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ . مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ . إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آَمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ) ''
ترجمہ: اے اہل کتاب! تم کیوں ابراہیم کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو (کہ وہ یہودی تھے یا نصرانی) حالانکہ تورات اور انجیل تو نازل ہی ان کے بعد ہوئی تھیں! کیا تم اتنا بھی نہیں سوچتے؟[65] تم وہ لوگ ہو جو ان باتوں میں جھگڑا کرچکے ہو جن کا تمہیں کچھ علم تھا مگر ایسی باتوں میں کیوں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں، ان کے بارے میں اللہ ہی جانتا ہے، تم نہیں جانتے [67] ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی، بلکہ سب سے ہٹ کر اللہ ہی کا حکم ماننے والے تھے، اور وہ مشرک بھی نہیں تھے؟ آل عمران/65-68.
سورہ آلِ عمران ہی میں ایک اور جگہ فرمایا:
( قُلْ صَدَقَ اللَّهُ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ)
ترجمہ: آپ ان سے کہئے کہ اللہ نے (جو کچھ فرمایا ہے) سچ فرمایا ہے لہذا تمہیں ابراہیم کے طریقہ کی پیروی کرنا چاہیے جو ہر باطل سے منہ موڑ کر اللہ ہی کے ہوگئے تھے اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔ آل عمران/95.
سورہ نساء میں فرمایا:
( وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا)
ترجمہ: اور اس شخص سے کس کا دین بہتر ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے سامنے اپنا سرتسلیم خم کردیا ہو، وہ نیکو کار بھی ہو اور یکسو ہوجانے والے ابراہیم کے طریقہ کی پیروی کر رہا ہو، اس ابراہیم کی جسے اللہ نے اپنا مخلص دوست بنالیا تھا۔ النساء/125.
سورہ انعام میں فرمایا:
( فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ . إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ)
ترجمہ: پھر جب سورج کو جگمگاتا ہوا دیکھا تو بولے: یہ میرا رب ہے؟ یہ تو سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے: اے میری قوم! جن (سیاروں کو) تم اللہ کا شریک بناتے ہو میں ان سے بیزار ہوں[78] میں نے تو اپنا چہرہ یکسو ہو کر اس ذات کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں۔ الأنعام/78-79.
سورہ انعام ہی میں ایک اور جگہ فرمایا:
( قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ . قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ . لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ)
ترجمہ: آپ ان سے کہئے کہ:میرے پروردگار نے مجھے سیدھی راہ دکھا دی ہے یہی وہ مستحکم دین ہے جو ابراہیم حنیف کا طرزِ زندگی تھا اور ابراہیم مشرکوں میں سے نہ تھے [161] آپ ان سے کہئے کہ:میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ رب العالمین کے لیے ہے [١62] جس کا کوئی شریک نہیں ۔ مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے۔ اور میں سب سے پہلے اللہ کا فرمانبردار بنتا ہوں۔ الأنعام/161-163.
سورہ نحل میں فرمایا:
( إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ . شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ . وَآَتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآَخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ . ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )
ترجمہ: بلاشبہ! ابراہیم (اپنی ذات میں) ایک امت تھے۔ اللہ کے فرمانبردار اور یکسو رہنے والے تھے۔ وہ ہرگز مشرک نہ تھے[١٢0] وہ اللہ کی نعمتوں کے شکرگزار تھے اللہ نے انھیں منتخب کر لیا اور سیدھی راہ دکھادی [١٢1] ہم نے انھیں دنیامیں بھی بھلائی عطا کی اور آخرت میں تو وہ یقینا صالحین میں سے ہوں گے [١٢2] پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ یکسو رہنے والے ابراہیم کی ملت کی اتباع کرو اور وہ مشرک نہ تھے۔ النحل/121-123
چنانچہ جو شخص مذکورہ بالا آیات میں غور و فکر کرے تو اسے ابراہیم علیہ السلام کے "دین حنیف" کا معنی سمجھ آجائے گا، جو کہ اللہ تعالی کی وحدانیت ، سب کچھ اللہ کے لئے فرمانبردار، کفر و شرک سے بیزار، اور غیر اللہ کی عبادت سے دستبردار ہونے کا نام ہے، اور یہی تمام انبیائے کرام کا دین اور رسولوں کا عقیدہ تھا، یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام عقائد کے بارے میں متحد تھے، اور صرف فقہی مسائل میں احکامات مختلف تھے۔
چنانچہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"حنیفاً" کا مطلب ہے کہ ناپسندیدہ ادیان سے دور، اور ابراہیم علیہ السلام کے دینِ حق کے قریب؛ اور "حنیفاً" ترکیب کے اعتبار سے حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے؛ جیسے کہ زجاج نے بیان کیا ہے۔
تو مطلب یہ ہوا کہ : ہم ایسی حالت میں ملتِ ابراہیم کی اتباع کرتے ہیں۔
اور ابراہیم علیہ السلام کو "حنیف" اسی لئے کہا گیا کہ آپ دینِ الہی یعنی اسلام کی طرف مائل ہوگئے۔
اور "حنف" عربی زبان میں میلان کو کہتے ہیں، اسی لئے کہا جاتا ہے، "رِجل حُنفاء" یا "رَجُل أَحنف" یعنی وہ شخص جسکےدونوں قدم انگلیوں کی طرف سے ایک دوسرے کی طرف مڑے ہوئے ہوں، شاعرہ ام احنف کہتی ہے:
واللَّهِ لولا حَنَفٌ بِرجْلِه ... ما كان في فِتيانكم مِن مِثلِه
یعنی: اللہ کی قسم !اگر اسکے پاؤں میں ٹیڑھ پن نہ ہوتا ، تو تمہارے بچوں میں اس جیسا کوئی نہیں تھا۔
اسی طرح ایک اور شاعر نے کہا:
إذا حوّل الظّل العشيّ رأيتَه ... حَنِيفاً وفي قَرْن الضحى يَتنصّرُ
مطلب یہ ہے کہ: گرگٹ شام کے وقت قبلہ کی جانب منہ کرتا ہے، جبکہ صبح کے وقت مشرق کی طرف منہ رکھ کر عیسائی بن جاتا ہے، کیونکہ عیسائیوں کا قبلہ مشرق ہے۔
جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ "حَنَف" کا مطلب استقامت ہے؛ تو دین ابراہیم کو حنیف اس لئے کہا گیا کہ یہ مستقیم دین ہے۔ انتہی
ماخوذ از: " الجامع لأحكام القرآن " (1/358)
اور علامہ السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حنیف کا مطلب وہ شخص ہے جو صرف اللہ کی طرف متوجہ، غیر اللہ سے یکسر اجتناب، توحید پر کاربند، شرک سے بالکل بیزار ہو ایسا شخص قابل اتباع ہوگا، جبکہ اس شخص کے منہج سے اختلاف کفر اور گمراہی شمار ہوگا" انتہی
" تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان " (ص/67)
اسی طرح علامہ ابن عاشور رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ:
"[حنیف] سے مذہبی میلان مراد ہے، کیونکہ جو شخص چلتے ہوئے مائل ہو جائے تو عام طور پر راستے سے ہٹ جاتا ہے، چنانچہ میلان کی یہ قسم ملت ابراہیمی کیلئے اچھی صفت ہے، کیونکہ جس وقت ملت ابراہیمی کا ظہور ہوا تو لوگ اندھیر نگری میں تھے، جبکہ ملتِ ابراہیم اس اندھیر نگری سے ہٹ کر تھی، اور اسی وجہ سے اسے "حنیف" کا لقب دیا گیا، پھر اغلبیت کی بنا پر حنیف بطورِ لقب برائے مدح سرائی کے استعمال ہونے لگا، اور یہ آیت[سورہ بقرہ کی آیت 135 ]اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ دینِ اسلام ابراہیم علیہ السلام کے مذہب پر ہے"انتہی
" التحرير والتنوير " (1/717)
اسی طرح ابن عاشور رحمہ اللہ ایک اور جگہ کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی: ( وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفاً مُسْلِماً وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ )ترجمہ: "لیکن [ابراہیم] دیگر ادیان سے بیزار، مسلمان تھے، اور مشرکوں میں سے نہیں تھے" ان الفاظ سے غیر اسلامی مذاہب کی نفی کے بعد استدراک مقصود ہے، تا کہ ابراہیم علیہ السلام کی حالت اسلامی ضوابط کے دائرے میں رہے، اسی لئے "حنیف"کا مطلب "مسلم" سے بیان کیا، کیونکہ آپکی قوم "حنیف" کا معنی جانتی تھی، اور اسلام پر ایمان نہیں لاتے تھے، تو انہیں بتلایا کہ اسلام ہی دینِ حنیف ہے، اور (وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ) کہہ کر ابراہیم علیہ السلام کی یہودیت، نصرانیت، اور مشرکوں سے موافقت کی نفی کی اور یہ بتلایا کہ آپ صرف مسلمان تھے، چنانچہ اس سے آپ علیہ السلام کی اسلام کے ساتھ مکمل یکسانیت ثابت ہوگئی۔
اس سے پہلے سورہ بقرہ میں متعدد مقامات پر گزر چکا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی تھی کہ انہیں مسلمان بنادے، پھر اللہ تعالی نے بھی ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ وہ مسلمان اور حنیف بن جائیں، اور جو اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں، وہی ابراہیم علیہ السلام لیکر آئے تھے، جیسے کہ اس آیت میں فرمایا: ( وَقَالُوا كُونُوا هُوداً أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إبراهيم حَنِيفاً وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ) ترجمہ: "انہوں نے کہا: یہودی یا عیسائی بن جاؤ ہدایت یافتہ ہوجاؤ گے، آپ کہہ دیں: بلکہ ملت ابراہیمی اپناؤ جو کہ دین حنیف ہے، اور ابراہیم مشرک نہیں تھے" مذکورہ بالا پوری وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ بلا شک و شبہ ابراہیم علیہ السلام کا دین اسلام ہی تھا۔
چنانچہ ابراہیم علیہ السلام عقیدہ توحید لیکر آئے، اور اعلانیہ طور پر توحید کا اتنا پرچار کیا کہ غافل لوگوں تک شرک سرائیت کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی، ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی شکل میں قبلہ تعمیر کیا، جو کہ لوگوں کیلئے بنایا جانیوالا سب سے پہلا گھر تھا، پھر اسکے مقصد کو پورا کرنے کیلئے لوگوں پر اسکا حج فرض کیا ، اور یہ کہتے ہوئے کامل عبادات اللہ کیلئے خاص کرنے کا اعلان کیا: ( وَلا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبِّي شَيْئاً)میں تمہارے بنائے ہوئے اللہ کے شریکوں سے ڈرتا نہیں ہوں، ہاں اگر اللہ کچھ چاہے۔ الأنعام/80 ابراہیم علیہ السلام نے قول و فعل اللہ کیلئے خالص کردئے تھے اسی لئے کہا: ( وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَاناً )میں تمہارے شرکاء سے کیوں ڈروں؟ حالانکہ تم نے اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں، جن کے بارے میں کوئی برہان اللہ تعالی نے نازل نہیں فرمائی۔ الأنعام/81 اتنی بات پر ہی بس نہیں بلکہ پھر بھی اللہ تعالی سے ہدایت کے طلبگار رہے، اور دعا کی: ( رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ )یا اللہ! ہمیں اپنا فرما بردار بنا۔البقرة/128 اسکے بعد سورہ انبیاء کی آیت : 58 کے مطابق اپنے ہاتھوں سے بتوں کو پاش پاش کیا، اور یہ کہتے ہوئے صرف اللہ پر اپنا اعتماد ظاہر کیاکہ : ( الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ[78]وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ[79] وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ[80] وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ )ترجمہ: اسی نے مجھے پیدا کیا ہے وہی مجھے ہدایت بھی دیگا[78] وہی مجھے کھلاتا پلاتا ہے [79] اور جب میں بیمار ہوجاؤں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے[80]اور وہی مجھے موت دیکر دوبارہ زندہ کریگا۔ الشعراء/78- 81، پھر وحدانیت الہی کیلئے دلائل کے ساتھ مناظرے کئے اور کہا: ( فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ ) بیشک اللہ تعالی سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، [اگر توں بھی رب ہے تو]توں سورج کو مغرب سے نکال کردکھا۔ البقرة/258، انہی دلائل کے بارے میں اللہ تعالی نے بھی ذکر کیا اور فرمایا: ( وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إبراهيم عَلَى قَوْمِه ) یہ دلیل ہم نے ابراہیم کو اپنی قوم کے خلاف عطا کی تھی۔ الأنعام/83کیونکہ سورہ انعام کی آیت: 80 کیمطابق آپ کی قوم نے آپ سے مناظرہ کیا تھا" انتہی
" التحرير والتنوير " (3/122-123)
اس بات کی تاکید کہ دین حنیف سے مراد اسلام ہی ہے؛دیگر آیات سے بھی ہوتی ہے جن میں تمام مسلمانوں کو توحید عبادت کا حکم دیا گیا ہے کہ شرک سے بیزار رہیں اور موحد بن کر زندگی گزاریں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی میں ہے:
( قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي شَكٍّ مِنْ دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [104] وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ [105] وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ ) آپ ان سے کہئے: لوگو! اگر میرے دین کے بارے میں تمہیں شک ہے تو میں ان کی عبادت نہ کروں گا جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر کر رہے ہو ، میں تو اسی اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہیں وفات دیتا ہے، اور مجھے یہی حکم ہوا کہ میں ایمان لانے والوں میں سے ہوجاؤں[١04] نیز یہ کہ آپ یکسو ہو کر اسی دین حنیف (اسلام) کی طرف اپنا رخ قائم رکھئے اور مشرکوں سے نہ ہونا [١05] اور اللہ کے سوا کسی کو مت پکاریں جو نہ آپ کو کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان اگر آپ ایسا کریں گے تو تب یقینا ظالموں سے ہوجائیں گے۔ يونس/104-106
اسی طرح فرمانِ باری تعالی:
( فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ) لہذا [اے نبی!] یکسو ہو کر اپنا رخ دین حنیف پر مرتکز کر دو ۔ یہی فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی اس خلقت میں کوئی ردوبدل نہیں ہوسکتا یہی درست دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔الروم/30
یہی وجہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بتلا دیا کہ انہیں دینِ حنیف دیکر بھیجا گیا ہے، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مجھے واضح یکسو دین [حنیف ] کیساتھ بھیجا گیا)
اسے أحمد نے مسند (24334) میں روایت کیا ہے اور البانی نے الصحيحۃ (1829) میں اسے صحیح قرار دیا ہے جبکہ مسند احمد کے محققین نے اسے حسن کہا ہے۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتلایا کہ یہی اللہ کے ہاں محبوب ترین راستہ ہے: چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: اللہ کے ہاں کونسا دین محبوب ترین ہے؟ تو آپ نے فرمایا: (واضح یکسو دین [حنیف ])
اسے أحمد (2108) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے الصحيحة (881) میں صحیح قرار دیا ہے۔
امام بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب الایمان کے اندر ایک باب قائم کیا ہے:
" دین بہت آسان ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب واضح یکسو دینِ [حنیف ]ہے"
دینِ ابراہیم کے کچھ باقیماندہ اثرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب میں پہنچ چکے تھے، اور اسوقت عرب میں بہت کم لوگ دینِ ابراہیم، دین حنیف کو اپنائے ہوئے تھے۔
چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ زید بن عمرو بن نفیل نے سچے دین کی تلاش میں شام کی جانب سفر شروع کیا، تو راستے میں ایک یہودی عالم ملا اور اس کے دین کے متعلق دریافت کیا اور کہا: مجھے آپ اپنے دین کے بارے میں کچھ بتلائیں شاید میں تمہارے دین میں داخل ہوجاؤں؟!
یہودی: ہمارے دین میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک آپ اپنے حصے میں آنے والا اللہ کا غضب نہ لے لیں!!
زید: میں اللہ کے غضب ہی سے بچنے کیلئے نکلا ہوں، اور میں اللہ کا غضب بالکل بھی نہیں لے سکتا، میں اسکی طاقت کہاں رکھتا ہوں!! مجھے آپ کسی اور کی طرف راہنمائی کروگے؟
یہودی: اسکے علاوہ مجھے صرف دینِ حنیف ہی کے بارے میں علم ہے۔
زید: یہ دینِ حنیف کیا ہے؟
یہودی: یہ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے، وہ یہودی اور عیسائی نہیں تھے، وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے۔
یہ سن کر زید اسکے پاس سے چلے گئے اور راستے میں کسی عیسائی عالم سے ملاقات ہوگئی، اور اپنا مقصد بتلایا، تو عیسائی کہنے لگا:
ہمارے دین پر تم اس وقت تک نہیں آسکتے جب تک تم اپنے حصے میں آنے والی اللہ کی لعنت نہ لے لو!!
زید: میں اللہ کی لعنت ہی سے بچنے کیلئے تو بھاگا ہوں، اور میں اللہ کی لعنت نہیں لے سکتا، اور نہ ہی اسکا غضب لے سکتا ہوں، مجھ میں اتنی سکت کہاں؟! کیا مجھے کسی اور کے بارے میں راہنمائی کرسکتے ہو؟
عیسائی: اسکے علاوہ مجھے صرف دینِ حنیف ہی کے بارے میں علم ہے۔
زید: یہ دینِ حنیف کیا ہے؟
عیسائی: یہ ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے، وہ یہودی اور عیسائی نہیں تھے، وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے۔
چنانچہ جب زید نے دونوں کی باتوں میں ابراہیم علیہ السلام کا ذکر سنا تو باہر کی جانب چل پڑے جب باہر آئے تو دونوں ہاتھ اٹھا کر کہنے لگے: "یا اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہوں!!"
[امام بخاری کہتےہیں کہ] لیث نے کہا کہ مجھے ہشام نے بواسطہ اپنے والد کے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں لکھا کہ وہ کہتی ہیں: میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو کعبہ سے اپنی پشت لگائے کھڑا ہوا دیکھا وہ کہہ رہے تھے: "قریشیو! میرے علاوہ تم میں سے کوئی بھی دین ابراہیم پر نہیں ہے"
زید بن عمر و موؤدة (یعنی وه نوزائیده لڑکی جسے زنده درگور کردیا جاتا تھا) کو بھی بچا لیتے تھے وه اس آدمی سے جو اپنی لڑکی کو قتل کرنے کا اراده کرتا یہ فرماتے کہ اسے قتل نہ کرو اور میں اس کا خرچہ برداشت کروں گا تو وه اسے (پرورش کے لئے) لے جاتے، جب وه بڑی ہوجاتی تو اس کے باپ سے کہتے: اگر تم چاہو تو میں یہ لڑکی تمہارے حوالہ کردوں اور تمہاری منشا ہو تو میں ہی اس کی پرورش کرتا رہوں گا۔
اسے بخاری (3828) نے روایت کیا ہے۔
واللہ اعلم .
No comments:
Post a Comment