(1) اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت ہی ہے تو کیا عبادت کیلئے فرشتے کافی نہیں تھے؟
جواب:
اسلامی عقیدے کے مطابق انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اللہ کی عبادت ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
*"وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ"* (الذاریات: 56)
(ترجمہ: میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے)۔
سوال یہ ہے کہ اگر مقصد صرف عبادت تھا تو پہلے سے موجود فرشتے کیوں کافی نہیں تھے؟ اس کا جواب عقلی و نقلی دلائل سے درج ذیل ہے:
---
### *1. عبادت کی نوعیت میں فرق: آزاد مرضی کا امتحان:*
- **فرشتوں کی عبادت**: وہ فطری طور پر مکمل مطیع ہیں، ان میں آزاد مرضی نہیں۔ قرآن میں ہے:
*"لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ"* (التحریم: 6)
(ترجمہ: وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو انہیں حکم دیا جاتا ہے اور جو کچھ انہیں حکم دیا جائے وہی کرتے ہیں)۔
یہ عبادت "مجبوری" پر مبنی ہے۔
- *انسان کی عبادت*: انسان کو *آزاد مرضی* دی گئی تاکہ وہ اپنے اختیار سے اللہ کی بندگی کا انتخاب کرے۔ یہ عبادت "امتحان" کی بنیاد پر ہے، جس کا مقصد ایمان و عمل کی آزمائش ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
*"اَلَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا"* (الملک: 2)
(ترجمہ: جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے)۔
*عقلی دلیل*:
جبری عبادت (جیسے فرشتے) اور اختیاری عبادت (جیسے انسان) میں بہت فرق ہے۔ اختیاری عبادت میں *اخلاص، جدوجہد اور خدمت* شامل ہوتی ہے، جو انسان کو روحانی ترقی کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے لیے اجر بھی فرشتوں سے زیادہ ہے۔
---
### *2. انسان کی منفرد حیثیت: خلافتِ الٰہی کا منصب:*
اللہ تعالیٰ نے انسان کو **خلیفۃ اللہ فی الارض* (زمین پر اپنا نائب) بنایا، جیسا کہ سورۃ البقرہ میں ارشاد ہے:
*"وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً"* (البقرہ: 30)
فرشتوں نے اعتراض کیا: **"اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَ يَسْفِكُ الدِّمَآءَ"** (کیا آپ ایسے کو خلیفہ بنائیں گے جو فساد کرے گا اور خونریزی کرے گا؟)۔
اللہ نے جواب دیا: *"اِنِّيْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ"* (بے شک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے)۔
*عقلی دلیل*:
- فرشتے صرف عبادت کر سکتے ہیں، لیکن انسان کو *تخلیقی صلاحیتیں* دی گئی ہیں تاکہ وہ زمین کو آباد کرے، علم حاصل کرے اور عدل قائم کرے۔
- انسان کا امتحان ہی اسے فرشتوں سے ممتاز کرتا ہے، کیونکہ وہ *شہوات اور شیطان کے وسوسوں* کے باوجود عبادت پر قائم رہتا ہے۔
---
### *3. معرفتِ الٰہی کا کمال: اللہ کے اسماء و صفات کا ظہور*
انسان کو *اشرف المخلوقات* بنایا گیا، کیونکہ وہ اللہ کے اسماء و صفات (جیسے رحیم، غفور، حکیم) کو پہچاننے اور ظاہر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فرشتے اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے، جیسا کہ سورۃ البقرہ (آیت 31-33) میں حضرت آدمؑ کو فرشتوں پر فضیلت دینے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔
*عقلی دلیل*:
اگر صرف عبادت کا ہدف ہوتا تو فرشتے کافی تھے، لیکن انسان کی تخلیق کا مقصد *اللہ کی صفات کا مکمل ظہور* تھا، جو صرف آزاد مرضی، آزمائش اور اختیار کے ذریعے ممکن ہے۔
---
### *4. نتیجہ: عبادت کا جامع تصور*
- *عبادت:* محض نماز/روزہ نہیں، بلکہ پوری زندگی کو اللہ کے احکام کے مطابق گزارنا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
*"قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ"* (الأنعام: 162)
(ترجمہ: کہہ دو میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے)۔
- فرشتے صرف *عبادتِ خاصہ* (نماز وغیرہ) کر سکتے ہیں، جبکہ انسان *عبادتِ عامہ* (تعلیم، معاشرتی خدمت واصلاح، عدل قائم کرنا) کے ذریعے بھی اللہ کو راضی کرتا ہے۔
### *خلاصہ*:
فرشتوں کی عبادت "فطری" ہے، جبکہ انسان کی عبادت "اختیاری اور آزمائشی" ہے، جو اسے *اعلیٰ درجے کی روحانی بلندی* پر پہنچاتی ہے۔ انسان کو خلافت، علم اور آزاد مرضی جیسے اعزازات دیے گئے، جو فرشتوں کے پاس نہیں۔ لہٰذا، انسان کی تخلیق کا مقصد محض عبادت نہیں، بلکہ *امتحان کے ذریعے کمالِ عبادت تک پہنچنا* ہے، جو فرشتوں کے لیے ممکن نہ تھا۔
(4)جب تقدیر میں سب کچھ لکھ دیا گیا یے، تو عمل کا کیا فائدہ؟
جواب:
تقدیر (قضا وقدر) اور انسانی عمل کا باہمی تعلق اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے۔ اس سوال کا جواب درج ذیل نکات کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے:
### ۱۔ *تقدیر کا صحیح مفہوم:*
- تقدیر "اللہ کا ازلی علم" ہے جو لوحِ محفوظ میں ثبت ہے۔
- یہ انسان کے مجبور محض ہونے کا نام نہیں، بلکہ *اللہ کا پیشگی علم* ہے کہ انسان اپنے اختیار سے کیا انتخاب کرے گا۔
جیسا کہ امام قرطبی فرماتے ہیں:
> *"تقدیر اللہ کا سابق علم ہے، بندے کے اختیار کو سلب نہیں کرتا"*۔
### ۲۔ *اختیارِ انسانی کا ثبوت:*
قرآن میں 107 سے زائد آیات میں *"فعل"* اور 278 بار *"عمل"*(جیسے الفاظ آئے ہیں جو انسان کے اختیار پر دلالت کرتے ہیں، مزید یہ بھی فرمایا:
> *"وَقُلِ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَن شَآءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَآءَ فَلْيَكْفُرْ"* (الکہف: ۲۹)
(اور کہدیجئے کہ (لوگو) یہ قرآن تمہارے رب کی طرف سے حق ہے، تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے)۔
- اللہ نے انسان کو اختیار دیا ہے، مجبور محض نہیں کیا۔
### ۳۔ *علمِ الٰہی اور عملِ انسانی کا تعلق:*
| عنصر | کردار | مثال |
|-------|--------|-------|
| *اللہ کا علم* | سبب کا معلوم ہونا | استاد کو امتحان کے نتائج کا پیشگی اندازہ |
| *انسانی عمل* | سبب کا وجود | طالب علم کی محنت/کاہلی |
| *نتیجہ* | علم کے مطابق ظہور | پیشگوئی کا پورا ہونا |
### ۴۔ *عمل کی اہمیت کے دلائل:*
- *جزا و سزا کا اصول*:
> *"وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا"* (الاحقاف: ۱۹)
(اور سب کیلئے درجے ہیں جیسے انہوں نے عمل کئے ہوں گے)۔
- *توفیقِ الٰہی کا معیار*:
*"اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے"* (سورۃ النجم:39)۔
- *نبیﷺ کا فرمان*: (اعملوا فكل ميسر لِمَا خُلِقَ لَهُ.)
*"عمل کرو، کیونکہ ہر ایک کے لیے وہی آسان کردیا گیا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا۔"* (ترمذی:2136)۔
### ۵۔ *تقدیر پر ایمان کے فوائد:*
۱۔ *توکل کا تقویت*: نتائج کی فکر چھوڑ کر اسباب اختیار کرنا۔
۲۔ *صبر کا حصول*: ناخوشگوار حالات پر یقین رکھنا کہ اللہ کی حکمت ہے۔
۳۔ *تکبر سے بچاؤ*: کامیابی کو اپنی ذات کی بجائے اللہ کی توفیق سمجھنا۔
### ۶۔ *عملی مثال:*
کسان:
- *تقدیر*: فصل کا اللہ کے علم میں ہونا۔
- *عمل*: زمین جوتنا، بیج بونا، آبپاشی کرنا۔
- *نتیجہ*: محنت کے بغیر فصل ناممکن، لیکن آخری نتیجہ اللہ کے اختیار میں۔
### نتیجہ:
تقدیر *"حتمی ہدایت نامہ"* نہیں بلکہ *"اللہ کا کامل علم"* ہے۔ انسان کو اپنے *اختیارات* اور *ذمہ داریوں* پر عمل کرنا ضروری ہے، کیونکہ:
- جزا وسزا عمل کے مطابق ہوگی۔
- تقدیر کا علم ہمارے لیے پوشیدہ ہے۔
- اللہ نے عمل کو جزا کا *سبب* بنایا ہے۔
امام غزالی کا قول ہے:
> *"اسباب اختیار کرنا سنتِ الٰہی ہے، تقدیر پر بھروسہ کر کے انہیں ترک کرنا جہالت ہے"*۔
(6) اللہ کے نیک بندوں پر ہی آزمائشیں اور پریشانیاں کیوں آتی ہیں؟
جواب:
اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں پر آزمائشیں آنا درحقیقت *رحمتِ الٰہی، درجات کی بلندی اور تربیت* کا باطنی نظام ہے۔ اس کی حکمتوں کو درج ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے:
---
### ۱۔ *محبوبیت کی نشانی (حدیث قدسی):*
اللہ فرماتا ہے:
> *"جب اللہ کسی قوم سے محبت کرتا ہے، تو اسے آزمائش میں مبتلا کرتا ہے"* (ترمذی:2396)۔
مثال:
- حضرت ایوبؑ کو بیماری،
- حضرت یوسفؑ کو کنویں اور قید،
- حضرت محمد ﷺ کو یتیمی اور طائف کا صدمہ۔
یہ سب "امتحانِ محبت" تھے۔
---
*### ۲۔ درجات کی بلندی کا ذریعہ:*
ہر مصیبت گناہوں کا کفارہ اور جنت میں بلندی کا سبب بنتی ہے:
> *"بڑا اجر وثواب، بڑی آزمائش کے ساتھ ہے"* (ترمذی:2396)۔
- *نیکوں پر مصیبت*: درجات بڑھانے کا موقع،
- *گناہ گاروں پر مصیبت*: گناہ مٹانے کا ذریعہ۔
---
### ۳۔ *صبر کی تربیت اور روحانی پختگی:*
آزمائشیں انسان کو *صبر، توکل اور استقامت* سکھاتی ہیں:
> *"بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے"* (البقرہ: ۱۵۳)۔
جیسے سونا آگ میں تپ کر چمکدار بنتا ہے، مصیبتیں مومن کو روحانی طور پر نکھارتی ہیں۔
---
### ۴۔ *دنیا کی بے ثباتی کا احساس دلانا:*
نعمتیں آزمائش بن سکتی ہیں! اللہ نیک بندوں کو مصیبت دے کر:
- دنیا کی *حقیقت* بتاتا ہے،
- آخرت کی *تیاری* کرتا ہے،
- *شکر* کی عادت ڈالتا ہے۔
---
### ۵۔ *توحید پر پختگی کا امتحان:*
مصیبت کے وقت بندے کا ردِعمل اس کے ایمان کی حقیقت بتاتا ہے:
- *سجدۂ شکر:* (جیسے حضرت یعقوبؑ نے اولاد کے فراق میں)،
- *"إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ"*(یعنی بےشک ہم سب اللہ کے ہیں اور ہم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے) پڑھنا۔
---
### ۶۔ *انبیاء و صالحین کی سنت:*
قرآن میں ۲۵ سے زائد انبیاء کے امتحانات بیان ہوئے ہیں، جیسے:
| نبی | آزمائش | نتیجہ |
|------|---------|--------|
| *ایوبؑ* | طویل بیماری | صبر، شفا |
| *یونسؑ* | مچھلی کے پیٹ میں | توبہ کی قبولیت |
| *ابراہیمؑ* | آگ میں ڈالا گیا | آگ گلزار بنی |
یہ اسوہ بتاتا ہے کہ *کامیابی مصیبت کے بعد آتی ہے*۔
---
### ۷۔ *مومن و کافر کا فرق:*
| مومن پر مصیبت | کافر پر مصیبت |
|----------------|----------------|
| کفارۂ گناہ | عذابِ دنیا |
| درجات بلند | رسوائی |
| رحمت کی نوید | تباہی کی علامت |
---
### ۸۔ *حکمتِ الٰہی کا عظیم پہلو:*
امام ابن القیم فرماتے ہیں:
> *"اللہ اپنے بندے کو مصیبت دیتا ہے، حالانکہ وہ اُس سے محبت کرتا ہے، تاکہ اُسے دنیا کے فریب سے بچائے اور اپنی طرف کھینچ لے"*۔
---
### عملی مشورہ: مصیبت کے وقت!
۱۔ *صبر اور نماز* سے مدد طلب کریں (البقرہ: ۴۵)۔
۲۔ یہ دعا پڑھیں:
> *"اللهم أجُرْني في مصيبتي، وأَخْلِفْ لي خيرا منها"* (صحیح مسلم:918)
(اے اللہ! مجھے اجر دے میری مصیبت میں، اور مجھے اس سے بہتر نعم البدل دعطا فرما)۔
(اے اللہ! بچا مجھے میری مصیبت سے، اور مجھے اس سے بہتر نعم البدل دے)۔
۳۔ *یقین رکھیں*: ہر مشکل کے بعد آسانی ہے (الشرح: ۶)۔
---
*### نتیجہ:*
آزمائشیں *"تربیت گاہِ الٰہی"* ہیں، جہاں مومن کو:
- روحانی طاقت ملتی ہے،
- دنیا کی محبت کم ہوتی ہے،
- اللہ سے قربت بڑھتی ہے۔
اس لیے مومن مصیبت کو *"رحمت کا پیکج"* سمجھ کر قبول کرتا ہے۔
No comments:
Post a Comment