Wednesday, 4 June 2025

عوامی شبہات ومغالطوں کی اصلاح

(1) اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت ہی ہے تو کیا عبادت کیلئے فرشتے کافی نہیں تھے؟

جواب:

اسلامی عقیدے کے مطابق انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اللہ کی عبادت ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:  

*"وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ"* (الذاریات: 56)  

(ترجمہ: میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے)۔  


سوال یہ ہے کہ اگر مقصد صرف عبادت تھا تو پہلے سے موجود فرشتے کیوں کافی نہیں تھے؟ اس کا جواب عقلی و نقلی دلائل سے درج ذیل ہے:


---


### *1. عبادت کی نوعیت میں فرق: آزاد مرضی کا امتحان:*

- **فرشتوں کی عبادت**: وہ فطری طور پر مکمل مطیع ہیں، ان میں آزاد مرضی نہیں۔ قرآن میں ہے:  

  *"لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ"* (التحریم: 6)  

  (ترجمہ: وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو انہیں حکم دیا جاتا ہے اور جو کچھ انہیں حکم دیا جائے وہی کرتے ہیں)۔  

  یہ عبادت "مجبوری" پر مبنی ہے۔  


- *انسان کی عبادت*: انسان کو *آزاد مرضی* دی گئی تاکہ وہ اپنے اختیار سے اللہ کی بندگی کا انتخاب کرے۔ یہ عبادت "امتحان" کی بنیاد پر ہے، جس کا مقصد ایمان و عمل کی آزمائش ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:  

  *"اَلَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا"* (الملک: 2)  

  (ترجمہ: جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے)۔  


*عقلی دلیل*:  

جبری عبادت (جیسے فرشتے) اور اختیاری عبادت (جیسے انسان) میں بہت فرق ہے۔ اختیاری عبادت میں *اخلاص، جدوجہد اور خدمت* شامل ہوتی ہے، جو انسان کو روحانی ترقی کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے لیے اجر بھی فرشتوں سے زیادہ ہے۔  



---


### *2. انسان کی منفرد حیثیت: خلافتِ الٰہی کا منصب:*

اللہ تعالیٰ نے انسان کو **خلیفۃ اللہ فی الارض* (زمین پر اپنا نائب) بنایا، جیسا کہ سورۃ البقرہ میں ارشاد ہے:  

*"وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً"* (البقرہ: 30)  

فرشتوں نے اعتراض کیا: **"اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَ يَسْفِكُ الدِّمَآءَ"** (کیا آپ ایسے کو خلیفہ بنائیں گے جو فساد کرے گا اور خونریزی کرے گا؟)۔  

اللہ نے جواب دیا: *"اِنِّيْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ"* (بے شک میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے)۔  


*عقلی دلیل*:  

- فرشتے صرف عبادت کر سکتے ہیں، لیکن انسان کو *تخلیقی صلاحیتیں* دی گئی ہیں تاکہ وہ زمین کو آباد کرے، علم حاصل کرے اور عدل قائم کرے۔  

- انسان کا امتحان ہی اسے فرشتوں سے ممتاز کرتا ہے، کیونکہ وہ *شہوات اور شیطان کے وسوسوں* کے باوجود عبادت پر قائم رہتا ہے۔  


---


### *3. معرفتِ الٰہی کا کمال: اللہ کے اسماء و صفات کا ظہور*

انسان کو *اشرف المخلوقات* بنایا گیا، کیونکہ وہ اللہ کے اسماء و صفات (جیسے رحیم، غفور، حکیم) کو پہچاننے اور ظاہر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فرشتے اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے، جیسا کہ سورۃ البقرہ (آیت 31-33) میں حضرت آدمؑ کو فرشتوں پر فضیلت دینے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔  


*عقلی دلیل*:  

اگر صرف عبادت کا ہدف ہوتا تو فرشتے کافی تھے، لیکن انسان کی تخلیق کا مقصد *اللہ کی صفات کا مکمل ظہور* تھا، جو صرف آزاد مرضی، آزمائش اور اختیار کے ذریعے ممکن ہے۔  



---


### *4. نتیجہ: عبادت کا جامع تصور*

- *عبادت:* محض نماز/روزہ نہیں، بلکہ پوری زندگی کو اللہ کے احکام کے مطابق گزارنا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:  

  *"قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ"* (الأنعام: 162)  

  (ترجمہ: کہہ دو میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے)۔  

- فرشتے صرف *عبادتِ خاصہ* (نماز وغیرہ) کر سکتے ہیں، جبکہ انسان *عبادتِ عامہ* (تعلیم، معاشرتی خدمت واصلاح، عدل قائم کرنا) کے ذریعے بھی اللہ کو راضی کرتا ہے۔  


### *خلاصہ*:  

فرشتوں کی عبادت "فطری" ہے، جبکہ انسان کی عبادت "اختیاری اور آزمائشی" ہے، جو اسے *اعلیٰ درجے کی روحانی بلندی* پر پہنچاتی ہے۔ انسان کو خلافت، علم اور آزاد مرضی جیسے اعزازات دیے گئے، جو فرشتوں کے پاس نہیں۔ لہٰذا، انسان کی تخلیق کا مقصد محض عبادت نہیں، بلکہ *امتحان کے ذریعے کمالِ عبادت تک پہنچنا* ہے، جو فرشتوں کے لیے ممکن نہ تھا۔




(2)اللہ ہمیں کیوں آزمائش میں ڈالتا ہے؟
جواب
اللہ تعالیٰ کی جانب سے آزمائشیں بھیجنے کے حکمت آمیز اسباب قرآن و حدیث اور عقلی دلائل کی روشنی میں درج ذیل ہیں:

### *1. ایمان کی صداقت کا امتحان (نقلی دلیل)*
- *قرآن مجید میں واضح فرمان*:  
  *"أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ"* (العنكبوت: 2)  
  (کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ایمان کا دعویٰ کرنے پر انہیں بغیر آزمائے چھوڑ دیا جائے گا؟)  
  *"وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ"* (البقرة: 155)  
  (اور ہم ضرور تمہیں خوف، بھوک، مال و جان کے نقصان اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے۔ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو)۔  

- *حدیث شریف*:  
  نبی ﷺ نے فرمایا:  
  > *"مَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤْمِنِ حَتَّى يَمْشِيَ عَلَى الأَرْضِ وَلَيْسَ عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ"* (ترمذی:2399)  
  (مومن کو آزمائش اس وقت تک ملتی رہتی ہے جب تک وہ زمین پر (ایسا پاک ہو کر) نہ چلے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہ رہے)۔  

### *2. درجات کی بلندی اور گناہوں کی معافی (نقلی دلائل)*
- *صبر کا اجر*:  
  *"إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ"* (الزمر: 10)  
  (صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا)۔  
- *مصیبت سے گناہوں کا کفارہ*:  
  نبی ﷺ نے فرمایا:  
  > *"مَا يُصِيبُ المُسْلِمَ، مِنْ نَصَبٍ وَلاَ وَصَبٍ، وَلاَ هَمٍّ وَلاَ حُزْنٍ وَلاَ أَذًى وَلاَ غَمٍّ، حَتَّى الشوكة يشاكها، إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ"* (بخاری:5641)  
  (مسلمان جب بھی کسی پریشانی، بیماری، رنج و ملال، تکلیف اور غم میں مبتلا ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے)۔  

### *3. اختیار کی حقیقی آزمائش (عقلی دلیل)*
اللہ نے انسان کو *آزاد ارادہ* دیا ہے۔ اگر ہر حال میں آسائشیں ملتی رہتیں تو:
- نیک و بد کا فراق ختم ہو جاتا۔
- صبر، شکر اور استقامت جیسی صفات کا ظہور ممکن نہ ہوتا۔  
جیسے سونا آگ میں تپ کر کندن بنتا ہے، اسی طرح انسان آزمائشوں سے پاکیزہ ہوتا ہے۔

### *4. تربیت اور روحانی نشوونما (عقلی دلیل)*
آزمائشیں انسان کو:
- *خودشناسی* کا موقع دیتی ہیں ("مصیبت سے پہچانا جاتا ہے")۔
- *اللہ پر توکل* کی تربیت دیتی ہیں، جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا:  
  *"فَصَبْرٌ جَمِيلٌ عَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا"* (یوسف: 83)  
  (پس میں صبر کروں گا، امید ہے اللہ سب کو مجھ سے ملا دے گا
- *دنیا کی بے ثباتی* سکھاتی ہیں، تاکہ آخرت کی تیاری ہو سکے۔

### *5. حکمتِ الٰہی کا تقاضا (عقلی دلیل)*
- اللہ تعالیٰ *حکیم* ہے، وہ بے مقصد کام نہیں کرتا۔ آزمائشوں میں چھپی حکمتیں ہماری عقل سے پوشیدہ ہو سکتی ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے:  
  *"وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ"* (البقرة: 216)  
  (ہو سکتا ہے تمہیں کوئی چیز ناگوار لگے، حالانکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہو)۔  
- جیسے ڈاکٹر تلخ دوا دے کر شفا دیتا ہے، اللہ بھی آزمائشوں کے ذریعے روحانی شفا فرماتا ہے۔

### *خلاصۂ کلام*:
| سبب                     | نقلی دلیل                     | عقلی دلیل                     |
|---------------------|-------------------------|--------------------------|
| *امتحانِ ایمان*       | سورة العنكبوت: 2         | آزاد ارادے کا اثبات        |
| *درجات بلند کرنا*     | الزمر: 10                | صبر و شکر کی تربیت    |
| *گناہوں کا کفارہ*     | بخاری: 5641            | روحانی پاکیزگی            |
| *دنیا کی حقیقت سمجھنا*| البقرة: 155            | آخرت کی تیاری            |

آزمائش درحقیقت *ربِ کریم کی خصوصی توجہ* ہے، جیسے حدیث قدسی میں ہے:  
> *"وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلاَهُمْ"* (ترمذی:2396، ابن ماجہ:4031)  
(اور جب اللہ کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزمائش میں ڈالتا ہے)۔  
یہ مصائب انسان کو اللہ سے قریب کرتے ہیں، بندے کو اس کی اپنی ناتوانی کا احساس دلا کر *حقیقی عبادت* کی طرف رجوع کراتے ہیں۔

(3)انسانیت پیغمبر ونبی کی محتاج کیوں ہے؟
جواب:
انسانی تاریخ میں انبیاء و رسل کی بعثت کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت اور انسانیت کے لیے ہدایت کا بنیادی ذریعہ رہا ہے۔ انبیاء کی ضرورت کے حوالے سے درج ذیل نکات قرآن و سنت اور مستند تفاسیر کی روشنی میں پیش کیے جاتے ہیں:

### ۱۔ *ہدایت ربانی کا واحد ذریعہ:*  
انسان فطری طور پر اپنے خالق، مخلوقات کے مقصد اور اپنے وجود کی غایت کو جاننے کا متلاشی ہے۔ یہ علم صرف وحی الٰہی کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے، جو انبیاء کے توسط سے انسان تک پہنچتی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:  
> *"وَإِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلَـٰٓئِكَةِ إِنِّى جَاعِلٌ۬ فِى ٱلۡأَرۡضِ خَلِيفَةً۬"* (البقرہ: ۳۰)  
انبیاء ہی وہ "واسطے اور سفیر" ہیں جو اللہ کے اوامر و نواہی کو انسانوں تک پہنچاتے اور شرک و گمراہی سے بچاتے ہیں ۔

### ۲۔ *عدلِ اجتماعی کا قیام:*  
انبیاء کا بنیادی مشن معاشروں میں عدل و انصاف کی بنیاد رکھنا ہے۔ قرآن کریم واضح کرتا ہے:  
> *"لَقَدۡ أَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِٱلۡبَيِّنَـٰتِ وَأَنزَلۡنَا مَعَهُمُ ٱلۡكِتَـٰبَ وَٱلۡمِيزَانَ لِيَقُومَ ٱلنَّاسُ بِٱلۡقِسۡطِۖ"* (الحدید: ۲۵)  
حضرت مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری کے مطابق، *"تمام انبیاء کی بعثت کا محوری ہدف انسانیت کو ظلم و ناانصافی سے نجات دلانا اور عدل پر قائم کرنا ہے"* ۔

### ۳۔ *روحانی تشنگی کا سامان:*
انسان جسم و روح کا مرکب ہے۔ اگر جسم کی غذا مادی عناصر ہیں تو روح کی غذا "دینِ صحیح" اور "عملِ صالح" ہے، جو صرف انبیاء کے تعلیمات سے میسر آتی ہے۔ وحی کے بغیر انسان اپنی روحانی ضروریات پوری نہیں کر سکتا ۔

### ۴۔ *عملی نمونہ (اُسوہ) کی فراہمی:*
کتابی ہدایت کے ساتھ عملی نمونے کی ضرورت کو قرآن نے یوں واضح کیا:  
> *"لَّقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِى رَسُولِ ٱللَّهِ أُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ۬"* (الاحزاب: ۲۱)
(یقینا اللہ کے پیغمبر کی زندگی میں تم سب کیلئے بہترین نمونہ ہے)
حضرت محمد ﷺ کی سیرت اس کا مکمل مظہر ہے:  
- *تاریخی صداقت*: آپ ﷺ کی سیرت مستند ذرائع سے محفوظ ہے۔  
- *عالمگیریت*: آپ کا پیغام تمام انسانوں کے لیے ہے۔  
- *جامعیت*: زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی موجود ہے۔  
- *قابلِ اتباع*: اعمال انسانی استطاعت کے دائرے میں ہیں ۔

### ۵۔ *ختمِ نبوت اور جامعیت:*
حضرت محمد ﷺ کو "خاتم النبیین" (الاحزاب: ۴۰) بنا کر بھیجا گیا، جس کا مطلب ہے کہ آپ کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ ہی ضرورت ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں:  
- *اکمالِ دین*: *"ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ"* (المائدہ: ۳) کے بعد دین مکمل ہو چکا۔  
- *جامعیت*: قرآن و سنت قیامت تک کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں ۔

### *جدول: انبیاء کے بغیر انسانیت کے چیلنجز*
| مسئلہ               | نتیجہ بغیر نبوت           | حل انبیاء کے ذریعے  |  
|-----------------|-------------------------|--------------------- -|  
| ہدایت کی تلاش  | گمراہی (جیسے شرک)   | توحید کی تعلیم          |  
| عدل کا فقدان     | ظلم و استحصال            | شریعت کا نفاذ           |  
| اخلاقی انحطاط  | معاشرتی تباہی              | اُسوۂ حسنہ                |  
| روحانی خلا      | مادہ پرستی                  | توازنِ مادہ و روح      |  

### ۶۔ *انسانی دشمنوں سے تحفظ*
انسان کے تین بڑے دشمن (شیطان، برے رفیق، نفسِ امّارہ) ہیں۔ انبیاء ہی ان کے حربوں سے بچاؤ کی تدابیر بتاتے ہیں، جیسے تقویٰ، صبر، اور تزکیۂ نفس کی تعلیمات ۔

### ۷۔ *سماجی توازن کا قیام*
انسانی معاشرے "طبعی طور پر مہذب" ہیں، لیکن بغیر الہامی قانون کے وہ "جنگلیوں" کی مانند ہو جاتے ہیں۔ انبیاء ہی وہ ضابطۂ حیات دیتے ہیں جو ہر حق دار کا حق بلا افراط و تفریط دیتا ہے ۔

### نتیجہ:
انسانی عقل، تجربہ یا سائنس وحی الٰہی کا متبادل نہیں بن سکتے، کیونکہ:  
- *عقل کی محدودیت*: نبوت کی حقیقت "عقل سے وراء الوراء" ہے ۔  
- *تاریخی ثبوت*: جب بھی انبیاء کے پیغام کو پس پشت ڈالا گیا، معاشروں میں فساد پھیلا ۔  
- *دائمی حل*: صرف رسول اللہ ﷺ کا دیا ہوا نظامِ زندگی ("دینِ کامل") ہی قیامت تک انسانیت کی رہنمائی کر سکتا ہے ۔  

آج بھی انسانیت اگر امن، عدل اور روحانی سکون چاہتی ہے تو اسے انبیاء کے مشن، خاص طور پر حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات، کو اپنانا ہوگا۔



(4)جب تقدیر میں سب کچھ لکھ دیا گیا یے، تو عمل کا کیا فائدہ؟
جواب:
تقدیر (قضا وقدر) اور انسانی عمل کا باہمی تعلق اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے۔ اس سوال کا جواب درج ذیل نکات کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے:

### ۱۔ *تقدیر کا صحیح مفہوم:*

- تقدیر "اللہ کا ازلی علم" ہے جو لوحِ محفوظ میں ثبت ہے۔ 


- یہ انسان کے مجبور محض ہونے کا نام نہیں، بلکہ *اللہ کا پیشگی علم* ہے کہ انسان اپنے اختیار سے کیا انتخاب کرے گا۔ 


جیسا کہ امام قرطبی فرماتے ہیں: 

> *"تقدیر اللہ کا سابق علم ہے، بندے کے اختیار کو سلب نہیں کرتا"


### ۲۔ *اختیارِ انسانی کا ثبوت:
قرآن میں 107 سے زائد آیات میں *"فعل"* اور 278 بار *"عمل"*(جیسے الفاظ آئے ہیں جو انسان کے اختیار پر دلالت کرتے ہیں، مزید یہ بھی فرمایا: 

> *"وَقُلِ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَن شَآءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَآءَ فَلْيَكْفُرْ"* (الکہف: ۲۹)

(اور کہدیجئے کہ (لوگو) یہ قرآن تمہارے رب کی طرف سے حق ہے، تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے

- اللہ نے انسان کو اختیار دیا ہے، مجبور محض نہیں کیا۔


### ۳۔ *علمِ الٰہی اور عملِ انسانی کا تعلق:
| عنصر | کردار | مثال | 
|-------|--------|-------| 
| *اللہ کا علم* | سبب کا معلوم ہونا | استاد کو امتحان کے نتائج کا پیشگی اندازہ | 
| *انسانی عمل* | سبب کا وجود | طالب علم کی محنت/کاہلی | 
| *نتیجہ* | علم کے مطابق ظہور | پیشگوئی کا پورا ہونا | 


### ۴۔ *عمل کی اہمیت کے دلائل:

- *جزا و سزا کا اصول*: 

> *"وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا"* (الاحقاف: ۱۹)

(اور سب کیلئے درجے ہیں جیسے انہوں نے عمل کئے ہوں گے

- *توفیقِ الٰہی کا معیار*: 

  *"اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے"* (سورۃ النجم:39)۔ 

- *نبیﷺ کا فرمان*: (اعملوا فكل ميسر لِمَا خُلِقَ لَهُ.)

  *"عمل کرو، کیونکہ ہر ایک کے لیے وہی آسان کردیا گیا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا۔"* (ترمذی:2136)۔


### ۵۔ *تقدیر پر ایمان کے فوائد:
۱۔ *توکل کا تقویت*: نتائج کی فکر چھوڑ کر اسباب اختیار کرنا۔ 
۲۔ *صبر کا حصول*: ناخوشگوار حالات پر یقین رکھنا کہ اللہ کی حکمت ہے۔ 
۳۔ *تکبر سے بچاؤ*: کامیابی کو اپنی ذات کی بجائے اللہ کی توفیق سمجھنا۔ 


### ۶۔ *عملی مثال:* 
کسان: 

- *تقدیر*: فصل کا اللہ کے علم میں ہونا۔ 

- *عمل*: زمین جوتنا، بیج بونا، آبپاشی کرنا۔ 

- *نتیجہ*: محنت کے بغیر فصل ناممکن، لیکن آخری نتیجہ اللہ کے اختیار میں۔ 


### نتیجہ: 
تقدیر *"حتمی ہدایت نامہ"* نہیں بلکہ *"اللہ کا کامل علم"* ہے۔ انسان کو اپنے *اختیارات* اور *ذمہ داریوں* پر عمل کرنا ضروری ہے، کیونکہ: 

- جزا وسزا عمل کے مطابق ہوگی۔ 

- تقدیر کا علم ہمارے لیے پوشیدہ ہے۔ 

- اللہ نے عمل کو جزا کا *سبب* بنایا ہے۔ 

امام غزالی کا قول ہے: 

> *"اسباب اختیار کرنا سنتِ الٰہی ہے، تقدیر پر بھروسہ کر کے انہیں ترک کرنا جہالت ہے"



(5)اللہ پاک کا ہر ہر کام قابلِ تعریف کیوں کر ہے؟
جواب:
اللہ تعالیٰ کے تمام افعال و احکام قابلِ تعریف ہیں کیونکہ وہ اُس کی *کامل حکمت، لامحدود رحمت، مطلق عدل اور کامل علم* پر مبنی ہیں۔ اس کی تفصیل درج ذیل نکات میں ملاحظہ فرمائیں:

### ۱۔ *صفتِ کمال کا تقاضا (اللہ "الحکیم" و "الرحیم" ہے):*  
اللہ کی ذات تمام نقائص سے پاک ہے۔ اُس کا ہر فعل اُس کی صفاتِ کمالیہ (حکمت، رحمت، عدل) کا عکاس ہے:  
> *"أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ"*  
(الاعراف: ۵۴)  
(سنو! اسی کے لیے ہے پیدائش اور حکم، بڑا بابرکت ہے اللہ جو جہانوں کا رب ہے)

### ۲۔ *انسانی علم کی محدودیت vs الہٰی علم کی وسعت:*  
| انسانی ادراک | الہٰی علم |  
|--------------|-----------|  
| جزوی (ٹکڑوں میں) | مکمل (کُل کا علم) |  
| ظاہر پر مبنی | باطن تک رسائی |  
| محدود دورانیہ | ازل تا ابد کا احاطہ |  
جیسے ایک ڈاکٹر کا کڑوا انجکشن درحقیقت مریض کے لیے مفید ہوتا ہے، اسی طرح اللہ کا کوئی فعل بظاہر ناخوشگوار ہو، لیکن اس میں پوشیدہ مصلحت ہوتی ہے۔

### ۳۔ *حکمتِ الٰہی کے محرکات:*  
اللہ کے ہر فعل کے پیچھے یہ مقاصد پوشیدہ ہیں:  
- *تزکیہ و آزمائش*:  
  > *"وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ..."* (البقرہ: ۱۵۵)  
  (ہم ضرور تمہیں خوف، بھوک، مال و جان کے نقصان سے آزمائیں گے)  
- **توازنِ کائنات**: سیلاب، وبائیں وغیرہ فسادِ زمین کو روکتی ہیں۔  
- *ربوبیت کا اظہار*: رزق، صحت، اولاد جیسی نعمتیں اللہ کی شکرگزاری کی ترغیب دیتی ہیں۔

### ۴۔ *شر کا ظاہری وجود اور حقیقت:*  
انسانی نظر "شر" کو الگ دیکھتی ہے، حالانکہ:  
- *شر کی نسبت*: ایک کے لیے نقصان دوسرے کے لیے نفع کا سبب ہو سکتا ہے۔  
- *حکمتِ مطلقہ*: امام غزالی فرماتے ہیں: *"کائنات میں شر کا وجود دراصل خیرِ اکبر کا ذریعہ ہے"*۔  
- *اختیارِ انسانی کا احترام*: انسان کے غلط انتخاب سے پیدا ہونے والے شر کا الزام اللہ پر نہیں۔

### ۵۔ *عدلِ الٰہی کا پہلو:*  
اللہ کا ہر فیصلہ مطلق انصاف پر مبنی ہے:  
> *"وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ..."* (الانبیاء: ۴۷)  
(قیامت کے دن ہم ترازوِ عدل رکھیں گے)  
- دنیا میں ظالم کو عارضی فائدہ، آزمائش ہے۔  
- آخرت میں ہر ظلم کا ازالہ ہوگا، ہر نیکی کا بدلہ ملے گا۔

### ۶۔ *انسانی آزمائش اور اُخروی کامیابی:*
دنیا کی تکالیف درحقیقت:  
- گناہوں کا کفارہ  
- درجات کی بلندی  
- صبر کی تربیت  
کا ذریعہ ہیں، جیسے سونا آگ میں تپ کر کندن بنتا ہے۔

### ۷۔ *قرآنی تصویرِ کائنات:*
> *"رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا..."* (آل عمران: ۱۹۱)  
(اے رب! تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا)  
کائنات کا ہر ذرہ اللہ کی حمد بیان کرتا ہے، انسان بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے۔

### *نتیجہ:* 
اللہ کے افعال کی تعریف کا راز جاننے کے لیے:  
1. *توحید پر ایمان*: اللہ کی ذات، صفات اور افعال میں یکتا ہے۔  
2. *حکمت پر یقین**: ہر چیز میں مصلحت پوشیدہ ہے۔  
3. *آخرت کا تصور*: دنیا کی نامکمل تصویر آخرت میں پوری ہوگی۔  

جیسے ایک مصور کا ہر اسٹروک قابلِ تعریف ہوتا ہے، اسی طرح خالقِ کائنات کا ہر فعل بھی اپنی جگہ مکمل حسن رکھتا ہے۔ امام ابن القیم کا قول ہے:  
*"مومن کی نظر ہمیشہ حکمتِ الٰہی کے جمال میں گم رہتی ہے، چاہے وہ قضا ہو یا قدر"*۔


(6) اللہ کے نیک بندوں پر ہی آزمائشیں اور پریشانیاں کیوں آتی ہیں؟
جواب:
اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں پر آزمائشیں آنا درحقیقت *رحمتِ الٰہی، درجات کی بلندی اور تربیت* کا باطنی نظام ہے۔ اس کی حکمتوں کو درج ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے:

---

### ۱۔ *محبوبیت کی نشانی (حدیث قدسی):
اللہ فرماتا ہے: 

> *"جب اللہ کسی قوم سے محبت کرتا ہے، تو اسے آزمائش میں مبتلا کرتا ہے"* (ترمذی:2396)۔ 

مثال: 

- حضرت ایوبؑ کو بیماری، 

- حضرت یوسفؑ کو کنویں اور قید، 

- حضرت محمد ﷺ کو یتیمی اور طائف کا صدمہ۔ 

یہ سب "امتحانِ محبت" تھے۔

---

*### ۲۔ درجات کی بلندی کا ذریعہ:*
ہر مصیبت گناہوں کا کفارہ اور جنت میں بلندی کا سبب بنتی ہے: 

> *"بڑا اجر وثواب، بڑی آزمائش کے ساتھ ہے"* (ترمذی:2396)۔ 

- *نیکوں پر مصیبت*: درجات بڑھانے کا موقع، 

- *گناہ گاروں پر مصیبت*: گناہ مٹانے کا ذریعہ۔

---

### ۳۔ *صبر کی تربیت اور روحانی پختگی:*
آزمائشیں انسان کو *صبر، توکل اور استقامت* سکھاتی ہیں: 

> *"بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے"* (البقرہ: ۱۵۳)۔ 

جیسے سونا آگ میں تپ کر چمکدار بنتا ہے، مصیبتیں مومن کو روحانی طور پر نکھارتی ہیں۔

---

### ۴۔ *دنیا کی بے ثباتی کا احساس دلانا:* 
نعمتیں آزمائش بن سکتی ہیں! اللہ نیک بندوں کو مصیبت دے کر: 

- دنیا کی *حقیقت* بتاتا ہے، 

- آخرت کی *تیاری* کرتا ہے، 

- *شکر* کی عادت ڈالتا ہے۔

---

### ۵۔ *توحید پر پختگی کا امتحان:* 
مصیبت کے وقت بندے کا ردِعمل اس کے ایمان کی حقیقت بتاتا ہے: 

- *سجدۂ شکر:* (جیسے حضرت یعقوبؑ نے اولاد کے فراق میں)، 

- *"إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ"*(یعنی بےشک ہم سب اللہ کے ہیں اور ہم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے) پڑھنا۔

---

### ۶۔ *انبیاء و صالحین کی سنت:* 
قرآن میں ۲۵ سے زائد انبیاء کے امتحانات بیان ہوئے ہیں، جیسے: 
| نبی | آزمائش | نتیجہ | 
|------|---------|--------| 
| *ایوبؑ* | طویل بیماری | صبر، شفا | 
| *یونسؑ* | مچھلی کے پیٹ میں | توبہ کی قبولیت | 
| *ابراہیمؑ* | آگ میں ڈالا گیا | آگ گلزار بنی | 
یہ اسوہ بتاتا ہے کہ *کامیابی مصیبت کے بعد آتی ہے

---

### ۷۔ *مومن و کافر کا فرق:
| مومن پر مصیبت | کافر پر مصیبت | 
|----------------|----------------| 
| کفارۂ گناہ | عذابِ دنیا | 
| درجات بلند | رسوائی | 
| رحمت کی نوید | تباہی کی علامت | 

---

### ۸۔ *حکمتِ الٰہی کا عظیم پہلو:* 
امام ابن القیم فرماتے ہیں: 

> *"اللہ اپنے بندے کو مصیبت دیتا ہے، حالانکہ وہ اُس سے محبت کرتا ہے، تاکہ اُسے دنیا کے فریب سے بچائے اور اپنی طرف کھینچ لے"*۔ 


---

### عملی مشورہ: مصیبت کے وقت! 
۱۔ *صبر اور نماز* سے مدد طلب کریں (البقرہ: ۴۵)۔ 
۲۔ یہ دعا پڑھیں: 

> *"اللهم أجُرْني في مصيبتي، وأَخْلِفْ لي خيرا منها"*  (صحیح مسلم:918)

(اے اللہ! مجھے اجر دے میری مصیبت میں، اور مجھے اس سے بہتر نعم البدل دعطا فرما

(اے اللہ! بچا مجھے میری مصیبت سے، اور مجھے اس سے بہتر نعم البدل دے)۔ 
۳۔ *یقین رکھیں*: ہر مشکل کے بعد آسانی ہے (الشرح: ۶)۔

---

*### نتیجہ:*
آزمائشیں *"تربیت گاہِ الٰہی"* ہیں، جہاں مومن کو: 

- روحانی طاقت ملتی ہے، 

- دنیا کی محبت کم ہوتی ہے، 

- اللہ سے قربت بڑھتی ہے۔ 

اس لیے مومن مصیبت کو *"رحمت کا پیکج"* سمجھ کر قبول کرتا ہے۔




(7) کیا غریب پر اللہ تعالیٰ کو ترس نہیں آتا؟ دنیا میں کوئی غریب انسان ہے کوئی مفلس ہے لاچار ہے اس پر حالات ہیں پریشانیاں ہیں اس پر فاقہ اور تنگدستی ہے، تو کیا اللہ تعالیٰ کو اس ہر رحم نہیں آتا ہے؟
جواب:
اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم ہے، اُس کی رحمت ہر ذرے کو محیط ہے، لیکن اس رحمت کو سمجھنے کے لیے چند اہم نکات پر غور ضروری ہے:

### ۱۔ *رحمتِ الٰہی کا حقیقی مفہوم:*
- اللہ کی رحمت صرف *دنیوی آسائش* نہیں، بلکہ *آخرت کی کامیابی* ہے۔  
- غربت ظاہری آزمائش ہے، لیکن اس میں چھپی رحمتیں:  
  - گناہوں کا کفارہ
  - درجات کی بلندی  
  - سادگی اور شکر کی تربیت  

### ۲۔ *غربت آزمائش ہے، سزا نہیں:*
قرآن واضح کرتا ہے:  
> *"وَ لَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ..."*  
(البقرہ: ۱۵۵)  
(ہم ضرور تمہیں خوف، بھوک، مال و جان کے نقصان سے آزمائیں گے)  
- *نوٹ*: غربت "عدمِ رحمت" نہیں، بلکہ اللہ کی *خاص توجہ* کی علامت ہے۔

### ۳۔ *دنیا کی حقیقت: امتحان گاہ:*
- دنیا *دارِ امتحان* ہے، نہ کہ دارِ جزا۔  
- غریب کے صبر پر اللہ کی رحمت کا ظہور:  
  - *دعا کی قبولیت*: غریبوں کی دعائیں ردّ نہیں ہوتیں۔  
  - *روحانی طاقت*: مادی محرومی روحانی قربت کا ذریعہ بنتی ہے۔  

### ۴۔ *انسانی ذمہ داری: رحمت کا ہتھیار:*
اللہ نے رحمت پہنچانے کے *اسباب* بنائے ہیں:  
| اللہ کا نظام | انسان کی ذمہ داری |  
|--------------|-------------------|  
| رزق کا وعدہ | صدقہ/زکوٰۃ کا حکم |  
| غریبوں پر رحم | دولت مندوں کی آزمائش |  
جیسے بارش زمین تک پہنچانے کے لیے بادل بنائے، اسی طرح غریبوں تک رحمت پہنچانے کے لیے امیروں کو "واسطہ" بنایا۔

### ۵۔ *غربت میں پوشیدہ حکمتیں:*
- *امیروں کے لیے تنبیہ*: مال کی آزمائش غربت سے کہیں سخت ہے۔  
- *معاشرتی توازن*: اگر سب امیر ہو جائیں تو زکوٰۃ، صدقات کا نظام ختم ہو جائے۔  
- *اخلاقی اقدار*: غربت صبر، قناعت اور انکساری سکھاتی ہے۔

### ۶۔ *اللہ کی رحمت کے خاص مظاہر:*
- *دعا کی قبولیت*: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: *"تین کی دعا رد نہیں ہوتی: مظلوم، مسافر اور باپ کی دعا بیٹے کے لیے"۔* (ترمذی) غریب بھی مسافر کی طرح مال کی کثرت نہیں رکھتا۔
- *کئی گنا اجر:* پیغمبر ﷺ نے فرمایا: "سَبَقَ دِرْهَمٌ مِائَةَ أَلْفِ دِرْهَمٍ" *(غریب کا) ایک درہم، (مالدار کے) ایک لاکھ درہم پر سبقت لے جاتا ہے"۔* (نسائی:2527)
- *مدد اور رزق کا سبب:* نبی ﷺ نے فرمایا: تمہاری مدد تو تمہارے کمزوروں کی وجہ سے کی جاتی ہے، اور تمہیں رزق بھی تمہارے کمزوروں کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری:2739) 
- *جنت میں مالداروں سے پہلے داخلا:* نبی ﷺ نے فرمایا: "فقراء ومساکین عام لوگوں سے ﴿آدھا دن یعنی 500 سال﴾ پہلے جنت میں داخل ہوں گے، اور حساب کتاب کی سختی مالداروں اور حکمرانوں کیلئے رہ جائے گی. ﴿ترمذی:2354﴾ (صحیح ابن حبان:7419)
- *جنت میں اکثریت*: نبی ﷺ نے فرمایا: "میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو مجھے اہلِ جنت میں زیادہ تعداد غریبوں کی نظر آئی"۔ (صحیح بخاری:3241)

### ۷۔ *عملی حل: ہماری ذمہ داری*
اللہ فرماتا ہے:  
> *"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ"* (المائدہ: ۲)  
(نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کا ساتھ دو)
- *صدقہ*: رزق میں برکت اور مصیبت ٹالنے کا ذریعہ۔  
- *احساسِ ذمہ داری*: غریب کی مدد کرنا "رحمتِ الٰہی" کو حرکت دینا ہے۔

### نتیجہ:
غربت *"عدمِ رحمت"* نہیں، بلکہ *رحمت کی خاص شکل* ہے۔ اللہ کو غریب پر سخت ترس آتا ہے، لیکن اُس کی حکمت:  
- غریب کو آخرت میں عظیم اجر دینا،  
- امیر کو آزمائش میں ڈالنا،  
- معاشرے کو توازن میں رکھنا۔  

آئیے! ہم اللہ کے رحم کے "آلہ-اوزار" بنیں: غریب کی مدد کریں، اُن کے لیے دعا کریں، اور یہ یقین رکھیں کہ *اللہ اپنے بندے پر اُس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔* (البقرہ: ۲۸۶)۔





No comments:

Post a Comment