Friday, 13 June 2025

پانچ اوقاتِ نماز کا ثبوت اور فضائل

نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور متواتر احادیث کی روشنی میں مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے اور بلا عذر شرعی مقرر وقت سے مقدم وموٴخر کرنا گناہ کبیرہ ہے۔

کائنات کے خالق ومالک اللہ پاک نے حکم فرمایا:

.....اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا

ترجمہ:
.....بےشک نماز ہے مومنوں پر فرض (مقررہ) اوقات میں۔

[سورۃ النساء:103]

حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ.....نمازوں کی حفاظت کرو۔
[سورة البقرة:238]
مفسر قرآن علامہ ابن کثیر  اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وقت پر نمازوں کو ادا کرنے کی حفاظت کا حکم فرماتے ہیں۔

وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلَی صَلَوَاتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ.....اور وہ لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
[سورة المعارج:34]
مفسر قرآن ابن کثیر  اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ وہ لوگ نماز کے اوقات، ارکان، واجبات اور مستحبات کی حفاظت کرتے ہیں۔

فَوَیلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ.....سو ان نمازیوں کے لیے بڑی خرابی ہے جو اپنی نماز میں کاہلی کرتے ہیں۔
[سورة الماعون:4-5]
مفسرین نے تحریر کیا ہے کہ وقت پر نماز کی ادائیگی نہ کرنا اس آیت کی وعید میں داخل ہے۔

قرآن کریم (سورة النساء آیت ۱۰۲) میں نماز خوف کی کیفیت اور اس کے اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں۔ متعدد احادیث میں نمازِ خوف کی کیفیت بیان کی گئی ہے، جن سے واضح ہوتا ہے کہ میدانِ جنگ میں اور عین جنگ کے وقت صرف نماز کی کیفیت میں تخفیف کی گنجائش ہے؛ لیکن وقت کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ بلکہ امکانی حد تک وقت کی پابندی ضروری ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر کفار سے جنگ ہورہی ہو اور اس وقت ذرا سی کاہلی بھی شکست کا سبب بن سکتی ہے تو اس موقع پر بھی دونمازوں کو جمع کرکے یعنی ایک کا وقت ختم ہونے کے بعد یا دوسرے کا وقت داخل ہونے سے قبل پڑھنا جائز نہیں ہے؛ بلکہ نماز کو وقت پر ادا کیا جائے گا ، ورنہ وقت کے نکلنے کے بعد اس کی قضا کرنی ہوگی، جیسا کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوہٴ احزاب کے موقع پر وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر نماز کی قضا کی تھی۔🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
پانچ(5)اوقاتِ نماز کا ثبوت:
(1)فجر(قبل طلوع الشمس)
[سورۃ الفجر:1، البقرۃ:187، الاسراء:78، النور:58، القدر:5 (ھود:114)(طٰہٰ:130، ق:39)]
(2)ظھر(قبل الغروب)
[سورۃ الروم:18، النور:58 (الاسراء:78)(طٰہٰ:130، ق:39)]
(3)عصر(الوسطیٰ)(قبل الغروب)
[سورۃ العصر:1 (طٰہٰ:130، ق:39)(البقرۃ:238، ھود:114، الاسراء:78)]
(4)مغرب(آناء اللیل)
[سورۃ (ھود:114، الاسراء:78)(طٰہٰ:130، ق:40)]
(5)عشاء(آناء اللیل)
[سورۃ (الاسراء:78)(طٰہٰ:130، ق:40)]

تفصیل نیچے آرہی ہے:

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
پانچ(5)اوقاتِ نماز کا ثبوت:
قرآن مجید اور احادیث کی متواتر(مستند وبےشمار) روایات سے نماز کے پانچ اوقات اور ان کے نام ثابت ہیں، لیکن یہاں چند اہم دلائل کو پیش کیا جاتا ہے:


القرآن:
*اور قائم رکھو نماز دن کے دونوں اطراف میں، اور کچھ حصے رات میں۔۔۔*
[سورۃ ھود:114]
تفسیر:
دن کے دونوں کناروں سے مراد فجر اور عصر کی نمازیں ہیں، اور بعض مفسرین نے ان سے فجر اور مغرب کی نمازیں مراد لی ہیں۔
اور رات کے حصوں کی نماز سے مراد مغرب، عشاء اور تہجد کی نمازیں ہیں۔

نوٹ:
رسول اللہ ﷺ پر تہجد اضافی فرض رہی۔
﴿سورہ الاسراء:79، المزمل:2﴾
اور  امت پر فرض نہ رہی۔
﴿سورہ المزمل:20﴾


*پانچوں نمازوں کا حکم:*

القرآن:
*لہٰذا (اے پیغمبر) صبر کیجئے اس پر جو باتیں یہ (نافرمان لوگ) آپ سے کہتے ہیں، اور (نماز میں) تسبیح کریں حمد کے ساتھ اپنے رب کی سورج طلوع سے پہلے، اور غروب سے پہلے ، اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی تسبیح کریں اور دن کے اطراف(کناروں) میں بھی تاکہ تم خوش رہو۔*
[سورۃ طٰہٰ:130]
تفسیر:
نبی کریم ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ لوگ آپ کے خلاف جو بےہودہ باتیں کرتے ہیں، ان کا جواب دینے کے بجائے ان پر صبر کرتے رہیے۔
اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح (یعنی ہر عیب سے اللہ کا پاک ہونا) حمد کے ساتھ بیان کرنے میں لگے رہئے۔ جس کا بہترین طریقہ نماز پڑھنا ہے یعنی نماز کے سجدہ میں ﴿سبحان اللہ وبحمدہ﴾ کہنا ہے، لہٰذا فرمایا:
*﴿۔۔۔اور نماز قائم کر مجھے "یاد" رکھنے کیلئے﴾۔*
[سورۃ طٰہٰ:14]
حضرت جریر بن عبداللہ بجلی ؓ سے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں موجود تھے۔ آپ ﷺ نے چاند پر ایک نظر ڈالی پھر فرمایا کہ:
تم اپنے رب کو (آخرت میں) اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو اب دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں تم کو کوئی زحمت بھی نہیں ہوگی، پس اگر تم ایسا کرسکتے ہو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز (فجر) اور سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز (عصر) سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت(سورۃ ق:39) تلاوت فرمائی کہ:
پس اپنے مالک کی حمد و تسبیح کر سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے۔
[صحیح بخاری:554، صحیح مسلم:633]
تو ایسا کیا کرو۔
[صحیح بخاری:7434]
پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:
۔۔۔اور سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب سے پہلے اپنے رب کی تسبیح اور حمد کرتے رہو۔۔۔
(سورۃ طٰہٰ:130)
[ابوداؤد:4729، ترمذی:2551،۔صحیح ابن حبان:7442، طبرانی:2224، ابن بطۃ:5، بیھقی:1682]

حضرت عمارة بن رويبةؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«لَنْ يَلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلَّى قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا»
ترجمہ:
جس نے سورج طلوع ہونے سے پہلے یعنی نمازِ فجر اور سورج غروب ہونے سے پہلے یعنی نمازِ عصر پڑھی، وہ شخص ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔
[صحیح مسلم:634(1436-1437)، سنن أبوداود:427، سنن النسائى:472-488، مسندالحميدي:884]

چنانچہ سورج نکلنے سے پہلے فجر کی نماز اور غروب سے پہلے ظہر اور عصر کی نماز اور رات میں عشاء اور تہجد کی نماز اور دن کے کناروں پر مغرب کی نماز کا اہتمام کرتے رہئے۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بالآخر آپ خوش ہوجائیں گے، ایک تو اس لیے کہ اس پر آپ کو جو اجر ملنے والا ہے، وہ انتہائی عظیم الشان ہے، اور دوسرے یہی طرز عمل آخر کار دشمنوں پر آپ کی فتح کا ضامن ہے، اور تیسرے اس لیے کہ آپ کو امت کی شفاعت کا مقام حاصل ہوگا تو امت کی نجات سے آپ کو خوشی ہوگی۔


القرآن:
*لہذا اللہ کی تسبیح کرو اس وقت بھی جب تمہارے پاس (1)شام آتی ہے، اور اس وقت بھی جب تم پر (2)صبح طلوع ہوتی ہے۔ اور اسی کی حمد ہوتی ہے آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی۔ اور (3)سورج ڈھلنے(یعنی عصر) کے وقت بھی (اس کی تسبیح کرو) ، اور اس وقت بھی جب تم پر (4)ظہر کا وقت آتا ہے۔*
[سورۃ الروم:17-18]
نوٹ:
(1)نماز کے اوقات تین سے زیادہ ہیں۔ لہٰذا تین سے زیادہ نماز کے اوقات کا انکار قرآن کا انکار ہے۔



*پانچوں نمازوں کا حکم:*
القرآن:
*"آپ سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی) نماز قائم فرمایا کریں، اور نمازِ فجر کا قرآن پڑھنا بھی (لازم کر لیں)، بیشک نمازِ فجر کے قرآن میں (فرشتوں کی) حاضری ہوتی ہے (اور حضوری بھی نصیب ہوتی ہے)"۔*
[سورۃ الاسراء:78]



نماز فجر اور عشاء‌ کا ثبوت»
القرآن:
*اے ایمان والو! چاہیے کہ تمہارے زیردست (غلام اور باندیاں) اور تمہارے ہی وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لیے) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں: (ایک) نمازِ فجر سے پہلے اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لیے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نمازِ عشاء کے بعد (جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو)، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان (اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر، (کیوں کہ بقیہ اوقات میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اسی طرح اللہ تمہارے لیے  آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہے۔"*
[سورۃ النور:58]












🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

*نمازِ فجر کے فضائل»*

(1)
حضرت عمارة بن رويبةؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَلّى صَلاَةَ الصّبْحِ فَهُوَ فِي ذِمّةِ الله. فَلاَ يَطْلُبَنّكُمُ الله مِنْ ذِمّتِهِ بِشَيْءٍ فَإِنّهُ مَنْ يَطْلُبْهُ مِنْ ذِمّتِهِ بِشَيْءٍ يُدْرِكْهُ. ثُمّ يَكُبّهُ عَلَى وَجْهِهِ فِي نَارِ جَهَنّمَ
ترجمہ:
جس نے صبح کی نماز پڑھیں وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ میں آجاتا ہے، پس(خیال رکھنا کہ) اللہ تعالیٰ تم سے اپنے ذمہ کے بارے میں کسی چیز کا مطالبہ نہ کریں، اس لئے کہ جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ کا مطالبہ کردیا اسے پکڑلیں گے پھر اسے اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیں گے۔
[صحیح مسلم:657(1493-1494)۔ جامع الترمذي:222]

(2)
حضرت عمارة بن رويبةؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«لَنْ يَلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلَّى قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا»
ترجمہ:
جس نے سورج طلوع ہونے سے پہلے یعنی نمازِ فجر اور سورج غروب ہونے سے پہلے یعنی نمازِ عصر پڑھی، وہ شخص ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔
[صحیح مسلم:634(1436-1437)، سنن أبوداود:427، سنن النسائى:472-488، مسندالحميدي:884]

(3)حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَلَّى الْبَرْدَيْنِ دَخَلَ الْجَنَّةَ۔
ترجمہ:
جس نے دو ٹھنڈی نمازیں (یعنی فجر وعصر یا فجر وعشاء نمازیں) پڑھیں وہ جنت میں داخل ہوگا۔
[صحيح البخاري:574، صحيح مسلم:635(1438)]

(4)
حضرت سلمانؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ غَدَا إِلَى صَلَاةِ الصُّبْحِ غَدَا بِرَايَةِ الْإِيمَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ غَدَا إِلَى السُّوقِ غَدَا بِرَايَةِ إِبْلِيسَ.
ترجمہ:
جو شخص صبح سویرے صبح کی نماز کیلئے وہ ایمان کا جھنڈا لیکر جاتا ہے، اور جو صبح بازار کی طرف جاتا ہے وہ ابلیس کا جھنڈا لیکر جاتا ہے۔
[سنن ابن ماجہ:2234]

(5)
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بَشِّرِ الْمَشَّائِينَ فِي الظُّلَمِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِالنُّورِ التَّامِّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
ترجمہ:
اندھیروں میں مسجدوں کی طرف جانے والوں کو قیامت کے دن مکمل نور کی خوشخبری دیدو۔
[سنن ابن ماجہ:781]

(6)حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْمَشَّاءُونَ إِلَى الْمَسَاجِدِ فِي الظُّلَمِ، ‏‏‏‏‏‏أُولَئِكَ الْخَوَّاضُونَ فِي رَحْمَةِ اللَّهِ.
ترجمہ:
اندھیروں میں مسجدوں کی طرف جانے والے لوگ دراصل(وہی) اللہ کی رحمت میں ڈوب جانے والے ہیں۔
[سنن ابن ماجہ:779]

(7)حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلَائِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلَائِكَةٌ بِالنَّهَارِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي ؟ فَيَقُولُونَ:‏‏‏‏ تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ.
ترجمہ:
تمہارے پاس یکے بعد دیگرے دن رات فرشتے آتے رہتے ہیں(جو تمہارے اعمال لکھتے اور بارگاہِ الٰہی میں پہنچاتے رہتے ہیں)، اور فجر کی نماز اور عصر کی نماز میں سب جمع ہوتے ہیں، اور تمہارے پاس رہنے والے فرشتے (جس وقت) آسمان پر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بندوں کے احوال جاننے کے باوجود ان فرشتوں سے (ان کے احوال) پوچھتے ییں؛ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں چھوڑا؟ وہ فرشتے عرض کرتے ہیں: ہم نے انہیں نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا ہے اور جب ہم ان کے پاس آئے تھے اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔
[صحیح بخاری:555]




🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
*نمازِ ظہر کے فضائل»*

(1)حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا مِنْ عَبْدٍ يُحْسِنُ وُضُوءَهُ، وَيُسْبِغَهُ، وَيُكَمِّلَهُ، ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى صَلَاةِ الظُّهْرِ حِينَ يُؤَذَّنُ بِهَا فَيُكْمِلُ رُكُوعَهَا وَسُجُودَهَا وَخُشُوعَهَا، إِلَّا كَفَّرَتْ مَا كَانَ قَبْلَهَا وَمَا هُوَ كَائِنٌ بَعْدَهَا فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ
ترجمہ:
کوئی بندہ اچھی طرح وضو کرکے ظہر نماز کیلئے اذان کے وقت مسجد جائے، اور اس کا رکوع، سجدہ اور خشوع ہر چیز کا مکمل خیال رکھے تو نماز اس کیلئے اس دن کے اگلے پچھلے گناہوں کا کفارہ بن جائے گی۔
[شعب الایمان-للبيهقي:2847]
(2)
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الْأَوَّلِ ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوا عَلَيْهِ لَاسْتَهَمُوا، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي التَّهْجِيرِ لَاسْتَبَقُوا إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي الْعَتَمَةِ وَالصُّبْحِ لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا.
ترجمہ:
اگر لوگ اذان دینے اور اگلی صف میں نماز پڑھنے کی فضیلت جان لیں پھر وہ اس کے حصول کیلئے سوائے قرعہ اندازہ کے کوئی راستہ نہ پائیں تو وہ قرعہ اندازی کرنے لگیں، اور لوگوں کو اول وقت میں (یا دوپہر کی سخت گرمی میں) نماز کیلئے جانے کی فضیلت معلوم ہو جائے تو وہ ایک دوسرے سے(اس کے حصول کیلئے) سبقت کرنے لگ جائیں، اور اگر لوگوں کو عشاء کی اور صبح کی نماز کا اجر معلوم ہو جائے تو وہ ان دونوں نمازوں کیلئے ضرور آئیں اگرچہ انہیں کولہوں کے بل ہی کیوں نہ گھسٹنا پڑے۔
[صحیح بخاری:615، مرقاۃ:2/542]



🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
*نمازِ عصر کے فضائل»*
القرآن:
تمام نمازوں کا پورا خیال رکھو، اور (خاص طور پر) بیچ کی نماز کا اور اللہ کے سامنے باادب فرمانبردار بن کر کھڑے ہوا کرو۔
[سورۃ البقرة:238]
(1)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت ابوھریرہؓ، حضرت سمرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
صلاة الوسطى صَلاَةُ العصر.
ترجمہ:
بیچ کی نماز، عصر کی نماز ہے۔
[سنن ترمذی:181، صحیح ابن خزیمہ:1338، مسند احمد:20155-20255]

(2)
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خندق کے روز فرمایا:
حَبَسُونَا عَنْ صلاة الوسطى صَلَاةِ العصر مَلَأَ اللَّهُ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا۔
ترجمہ:
ہم کو انہوں نے (یعنی کافروں نے) نمازِ وسطیٰ یعنی نمازِ عصر سے روکے رکھا، اللہ ان کے گھروں اور قبروں کو جہنم کی آگ سے بھر دے۔
[سنن ابوداؤد:409]
تخریج:
[صحیح البخاري:2931-4111-4533-6396، صحیح مسلم:626-627 سنن الترمذی:2984، سنن النسائی:474، سنن ابن ماجہ:684]
(3)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الَّذِي تَفُوتُهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ، كَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ.

ترجمہ:
جس کی عصر کی نماز فوت ہوگئی، وہ ایسا ہے جیسے گویا کہ اس کا گھر اور مال سب کچھ چھین لیا گیا ہو۔
[صحیح مسلم:626]
تخریج:
[صحیح بخاری:552-3602، سنن النسائی:479-480، مسند البزار:5459-5461، مسند احمد:5780-6177-6324، صحیح ابن حبان:1469]
(4)
حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«مَنْ تَرَكَ صلاة العصر فقد حبط عمله»
ترجمہ:
جس نے عصر کی نماز ترک کردی ﴿یہان تک کہ سورج غروب ہوگیا﴾ تو اس کا عمل ضایع ہوگیا۔
[﴿مسند ابي حنيفة رواية الحصكفي:8﴾ صحیح بخاری:558، سنن نسائی:474، صحيح ابن حبان:1470]

(5)
حضرت جریر بن عبداللہ بجلی ؓ سے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں موجود تھے۔ آپ ﷺ نے چاند پر ایک نظر ڈالی پھر فرمایا کہ:
إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا الْقَمَرَ، ‏‏‏‏‏‏لَا تُضَامُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَا تُغْلَبُوا عَلَى صَلَاةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا فَافْعَلُوا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَرَأَ:‏‏‏‏ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ (سورة ق آية 39)۔
ترجمہ:
تم اپنے رب کو (آخرت میں) اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو اب دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں تم کو کوئی زحمت بھی نہیں ہوگی، پس اگر تم ایسا کرسکتے ہو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز (فجر) اور سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز (عصر) سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت(سورۃ ق:39) تلاوت فرمائی کہ:
پس اپنے مالک کی حمد و تسبیح کر سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے۔
[صحیح بخاری:554، صحیح مسلم:633]
تو ایسا کیا کرو۔
[صحیح بخاری:7434]
پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:
۔۔۔اور سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب سے پہلے اپنے رب کی تسبیح اور حمد کرتے رہو۔۔۔
(سورۃ طٰہٰ:130)
[ابوداؤد:4729، ترمذی:2551،۔صحیح ابن حبان:7442، طبرانی:2224، ابن بطۃ:5، بیھقی:1682]

[مسند ابي حنيفة رواية الحصكفي:29، مسند الحمیدی:817، مسند احمد:19251، سنن ابن ماجہ:177]
🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
*نمازِ مغرب کے فضائل»*

(1)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«إِنَّ أَفْضَلَ الصلاة عند اللَّهِ صَلَاةُ الْمَغْرِبِ، وَمَنْ صَلَّى بَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ، يَغْدُو فِيهِ وَيَرُوحُ»
ترجمہ:
بےشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل نماز مغرب کی نماز ہے، اور جس نے مغرب کے بعد دو رکعت پڑھی اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں محل بنادیں گے جس میں وہ صبح وشام کرے گا۔
[المعجم الاوسط للطبرانی:6449]
کیونکہ یہ مغرب کا وقت دن اور رات کے درمیان ایک اہم حد فاصل ہے۔ اس کے ذریعے بندہ دن کو ختم کرتا ہے اور رات کا آغاز کرتا ہے۔

(2)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«مَا مِنْ صَلَاةٍ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ، بِهَا يَفْتَحُ الْعَبْدُ لَيْلَهُ وَيَخْتِمُ بِهَا نَهَارَهُ، لَمْ يُحِطْهَا عَنْ مُسَافِرٍ وَلَا مُقِيمٍ، مَنْ صَلَّاهَا وَصَلَّى بَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُكَلِّمَ جَلِيسًا كُتِبَتْ فِي عِلِّيِّينَ أَوْ رُفِعَتْ فِي عِلِّيِّينَ، - شَكَّ مُحَمَّدُ بْنُ عَوْنٍ -، فَإِنْ صَلَّاهَا وَصَلَّى بَعْدَهَا أَرْبَعًا مِنْ غَيْرِ أَنْ يُكَلِّمَ جَلِيسًا بَنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ قَصْرَيْنِ بَيْنَ مُكَلِّلَيْنِ بِالدُّرِّ وَالْيَاقُوتِ بَيْنَهُمَا مِنَ الْجَنَّاتِ مَا لَا يَعْلَمُ عَلِمَهُ إِلَّا هُوَ، وَإِنْ صَلَّاهَا وَصَلَّى بَعْدَهَا سِتًّا مِنْ غَيْرِ أَنَّ يُكَلِّمَ جَلِيسًا غُفِرَ لَهُ ذُنُوبُ أَرْبَعِينَ عَامًا»
ترجمہ:
"اللہ عزوجل کو کوئی نماز مغرب کی نماز سے زیادہ محبوب نہیں۔ بندہ اس کے ذریعے اپنی رات کا آغاز کرتا ہے اور اپنے دن کا اختتام کرتا ہے۔ نہ تو مسافر اس سے مستثنیٰ ہے اور نہ مقیم۔ *جو شخص مغرب پڑھے اور اس کے بعد بغیر کسی سے بات کیے دو رکعت (نفل) پڑھے* تو اس (کا نام) علیین (یعنی جنت کے اعلیٰ درجات) میں لکھ دیا جاتا ہے یا (ثواب) بلند کیا جاتا ہے (یہاں محمد بن عون کو شک ہوا)۔ *اور جو مغرب پڑھے اور اس کے بعد بغیر کسی سے بات کیے چار رکعت (نفل) پڑھے* تو اللہ عزوجل اس کے لیے دو محل بناتا ہے، موتی اور یاقوت سے جڑے ہوئے، جن کے درمیان جنتوں کا وہ فاصلہ ہوتا ہے جس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ *اور جو مغرب پڑھے اور اس کے بعد بغیر کسی سے بات کیے چھ رکعت (نفل) پڑھے* تو اس کے چالیس سال کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔"  
[الترغيب في فضائل الأعمال-امام ابن شاهين(م385ھ)»حدیث: 74]
🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
*نمازِ عشاء کے فضائل»*

(1)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لَيْسَ صَلَاةٌ أَثْقَلَ عَلَى الْمُنَافِقِينَ مِنَ الْفَجْرِ وَالْعِشَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا، ‏‏‏‏‏‏لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ الْمُؤَذِّنَ فَيُقِيمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا يَؤُمُّ النَّاسَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ آخُذَ شُعَلًا مِنْ نَارٍ فَأُحَرِّقَ عَلَى مَنْ لَا يَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ بَعْدُ.
ترجمہ:
 منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ اور کوئی نماز بھاری نہیں اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ ان کا ثواب کتنا زیادہ ہے (اور چل نہ سکتے) تو گھٹنوں کے بل گھسیٹ کر آتے اور میرا تو ارادہ ہوگیا تھا کہ مؤذن سے کہوں کہ وہ تکبیر کہے، پھر میں کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور خود آگ کی چنگاریاں لے کر ان سب کے گھروں کو جلا دوں جو ابھی تک نماز کے لیے نہیں نکلے۔
[صحیح بخاری:657]


(2)
حضرت عثمان بن عفانؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ فِي جماعة فكأنما قَامَ نِصْفَ الليل، وَمَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا صَلَّى الليل كله» 
ترجمہ:
جو عشاء کی نماز "جماعت" سے پڑھے اس نے گویا آدھی رات قیام کیا(یعنی عبادت میں جاگتا رہا)، اور جو صبح کی نماز بھی "جماعت" سے پڑھے اس نے گویا ساتھ رات قیام کیا۔
[صحیح مسلم:656،.صحيح ابن حبان:2060، ترمذی:221 ابوداؤد:555 طبرانی:148]



(3)
حضرت ابو امامہ باہلیؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ، فَقَدْ أَخَذَ مِنْ حَظِّهِ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ»
ترجمہ:
جس نے عشاء کی نماز "جماعت" سے پڑھی اس نے اسی کے بقدر لیلۃ القدر میں سے حصہ پایا۔
[المعجم الکبیر للطبرانی:7745]
کیونکہ اس نے رات میں عبادت کی "قدر" کی۔



(4)سید التابعین حضرت سعید بن مسیب سے مرسلاً رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان مروی ہے کہ:
بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمُنَافِقِينَ شُهُودُ الْعَتَمَةِ وَالصُّبْحِ لَا يَسْتَطِيعُونَهُمَا۔
ترجمہ:
ہمارے اور منافقین کے درمیان عشاء اور صبح کی نماز میں (جماعت کے ساتھ) حاضر  ہونے کا فرق ہے، کیونکہ منافقین ان دونوں نمازوں میں حاضر ہونے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
[موطأ مالك راوية أبي مصعب الزهري:326، شعب الایمان-للبيهقي:2596، جامع الاصول-ابن الأثير:7067]


🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
مزید تفصیلات کیلئے، مفت کتاب ڈاؤنلوڈ کیجئے، یہاں سے:
(1) انوارِ صلوٰۃ
(2) پنج وقتہ نماز اور ان کے ضروری مسائل

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
دو نمازوں کو جمع کرنا:
۔۔۔بےشک نماز ہے مومنوں پر فرض (مقررہ) اوقات میں۔

[سورۃ النساء:103]
ہرنماز  کی ابتدا کا وقت بھی مقرر ہے  اور اس کے ختم ہونے کا بھی وقت مقررہے، چاہے وہ فجرہو، یا ظہر ہو، یا عصر ہو، یا مغرب ہو، یا عشاء ہو، یا جمعہ ہو۔

(1)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دو نمازوں کے سوا کبھی رسول اللہ ﷺ کو اپنے معمول کے وقت کے علاؤہ پڑھتے نہیں دیکھا، (1)ایک تو یہ کہ آپ ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع فرمایا، (2)اور دوسرے یہ کہ آپ ﷺ نے فجر کی نماز اس کے معمول کے وقت سے پہلے اندھیرے میں پڑھ لی۔
[صحيح البخاري:1682، صحیح مسلم:1289(3116)، سنن ابوداود:1934، سنن نسائی:3038(609-3013-3030)، مسند احمد:3637-4137، مسند ابویعلی:5264]

یعنی رسول اللہ ﷺ کی عادتِ مبارکہ فجر کی نماز صبح کی روشنی میں پڑھنے کی تھی۔
[فتح القدیر:1/199]
 امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں فرمائی ہے:
'' المراد بقوله: قبل ميقاتها: هو قبل وقتها المعتاد، لاقبل طلوع الفجر؛ لأن ذلك ليس بجائز بإجماع المسلمين''۔
ترجمہ:
فجر کی نماز وقت سے پہلے ادا کرنے سے مراد یہ ہے کہ عموماً فجر کی نماز جس وقت (آخرِ وقت) ادا کرنے کا معمول تھا، اس وقت سے پہلے (ابتدائی) وقت میں فجر کی نماز ادا فرمائی، نہ کہ طلوع فجر (وقت داخل ہونے) سے پہلے ادا فرمائی ؛ کیوں کہ طلوعِ فجر سے پہلے فجر کی نماز ادا کرنا تمام مسلمانوں کے اجماع سے ناجائز ہے۔
[حاشیة صحیح البخاري، رقم الحاشية:7، 1 / 228 ط:هنديه]


(2)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَتٰى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ".

ترجمہ:

جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں )جمع کیا(پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔

امام ترمذیؒ فرماتے ہیں:

اور اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ سفر یا عرفہ کے سوا دو نمازیں ایک ساتھ نہ پڑھی جائیں۔

[سنن الترمذي:188، باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر]


دوسری روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے، جس کی بنیاد بھی خود حدیثِ مبارکہ ہے، جس میں انہوں نے شاہی فرمان کے طور پر یہ شرعی حکم جاری فرمایا تھا، اور گورنروں اور امراء کو یہ خط لکھا تھا کہ: ’’يَنْهَاهُمْ أنْ يَّجْمَعُوْا بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ وَيُخْبِرُهُمْ اَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِيْ وَقْتٍ وَّاحِدٍ كَبِيْرَةٌ مِّنَ الْكَبَائِرِ . أَخْبَرَنَا بِذٰلِكَ الثِّقَاتُ‘‘۔ ترجمہ: کہ امراء لوگوں کو جمع بین الصلاتین سے روکیں، اور ان کو بتا دیں کہ جمع بین الصلاتین ایک ہی وقت میں کبیرہ گناہ ہے۔اس روایت کو ثقہ روایوں نے ہم سے بیان کیا ہے۔ [موطأ محمدؒ:۲۰۵، باب الجمع بین الصلاتین في السفر]

اگر اس کی اجازت ہوتی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہرگز نہ روکتے، اور اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے اجازت شدہ عمل کو ختم نہ فرماتے۔ معلوم ہواکہ جمع بین الصلاتین جائز نہیں ہے۔

البتہ بعض احادیث سے دونمازوں کے جمع کرنے کا بظاہر معلوم ہوتاہے جن کی بنا پر شوافع نے مسافر کے لیے جمع بین الصلاتین کی اجازت دی ہے، لیکن احناف نے دیگر روایات کی بناپر ان احادیث کے دو جواب دیے ہیں: 1- ایک جواب یہ ہے کہ جن روایات میں صراحتاً وقت سے پہلے یا وقت کے بعد نماز ادا کرنے کا ذکر ہے، وہ قرآنِ مجید اور ان صحیح احادیث سے متعارض ہیں جن میں نمازوں کے اوقات مقرر کیے گئے ہیں، کیوں کہ قرآنِ مجید میں نماز کو اس کے وقتِ مقررہ پر ادا کرنے کا حکم دیا گیاہے،اور اس حدیث میں وقت سے پہلے یا وقت کے بعد دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے،اور ظاہر ہے کہ قرآن اور حدیث میں ٹکراؤ ہوتو قرآن کو ترجیح دی جاتی ہے، نیز دیگر احادیث جو نمازوں کو اوقات کے علاوہ اد اکرنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہیں ان سے بھی ٹکراؤ کی صورت میں ان کثیر وصحیح روایات کو ترجیح دی جائے گی، اس لیے ظہر اور عصرکی نماز کا جو وقت مقرر ہے، اور مغرب وعشاء کی نماز کا جو وقت مقرر ہے، اسی پر عمل کیاجائے گا،اور نمازیں اسی وقت میں ادا کرنا ضروری ہوگا،اوردونمازوں کو جمع کرنے والی روایات کو ترک کردیا جائے گا۔ 2- دوسرا جواب یہ ہے کہ ان روایات میں جمع کرنے سے صورتاً جمع کرنا مراد ہے، حقیقتاً نہیں۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ظہر کی نمازاتنی دیر سے پڑھی جائے کہ اس کاوقت ختم ہونے لگے، جیسے ہی ظہر کی نماز سے فراغت ہو،کچھ دیر انتظار کیا جائے،پھرجب عصر کا وقت شروع ہوجائے تو عصر بھی پڑھ لی جائے،اسی طرح مغرب اور عشاء میں کیا جائے، اس صورت میں ظہر اپنے وقت میں پڑھی جائے گی،اور عصر اپنے وقت میں پڑھی جائےگی۔ لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوگا کہ دونوں ایک ہی ساتھ پڑھی گئیں۔ آپﷺنے دونمازوں کو اس طرح جمع فرمایا تو راویوں نے کہہ دیا کہ آپ نے دونمازوں کو جمع فرمایاہے، جب کہ اس کی حقیقت کچھ اور ہی تھی، جیساکہ تفصیلی روایات میں اس کی وضاحت ملتی ہے۔ چنانچہ عبد اللہ ابن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: "رَاَيْتُ رَسُوْلَ الله صلي الله عليه وسلم إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلاَةَ الْمَغْرِبِ حَتّٰى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ". ترجمہ: میں نے رسول اللہﷺکودیکھا کہ جب آپ کو سفر پر جانے میں عجلت ہوتی تو مغرب کی نماز کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ مغرب اور عشاء کو جمع فرماتے۔ (صحیح مسلم:1659، باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : "كَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وسلمإِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيْلَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلٰى وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ". ترجمہ: رسول اللہﷺ جب سورج کے زائل ہونے سے قبل سفر فرماتے تو ظہر کو مؤخرفرماتے عصر تک، پھر (سواری سے) اترتے،اور دونوں نمازوں کو جمع فرماتے۔ (صحیح مسلم:1659، باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر) ان روایات سے پتا چلتا ہے کہ آپ کا دونمازوں کو جمع فرمانا صورتاً تھا، حقیقتاً نہیں، جس کی وضاحت ماقبل میں کی جاچکی ہے، چناں چہ اگر ہم ان روایات کو جمع صوری پر محمول کرتے ہیں تو تمام آیات اور روایات میں کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے،اور اگر حقیقت پر محمول کرتے ہیں تو پھر آیاتِ مبارکہ اور کثیر احادیثِ صحیحہ مبارکہ کو ترک کرنا لازم آتا ہے، اس لیے اس کو جمع صوری پر محمول کیا جائے گا۔تاکہ قرآن اور حدیث پر مکمل طور پر عمل ہو،اور ان میں باہم تضاداورٹکراؤ نہ ہو۔ حاصل یہ ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا ضروری ہے، احناف کے نزدیک سفر میں بھی دو نمازیں ایک وقت میں جمع کرنا جائز نہیں ہے، ہاں ضرورت کے موقع پر صورتاً دو نمازوں کو جمع کیا جاسکتا ہے، مثلاً ظہر کی نماز کو مؤخر کرکے آخری وقت میں پڑھ لیا جائے اور عصر کو ابتدائی وقت میں، اسی طرح مغرب کو مؤخر کرکے آخری وقت میں ادا کرلیا جائے اور عشاء کو اول وقت میں، یہ صورۃً جمع ہے، سفر میں اس کی گنجائش ہے۔ اور یہ رسول اللہ ﷺ کی احادیثِ مبارکہ کو چھوڑ کر امام کی تقلید نہیں ہے، بلکہ قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ کی ہی اتباع ہے، اور بغیر کسی عذر کے دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنا صرف حنفیہ کے ہاں منع نہیں ہے، بلکہ کتبِ ستہ میں سے ایک اہم کتاب کے مؤلف اور محدثِ وقت، امام بخاری رحمہ اللہ کے مایہ ناز شاگرد امام ترمذی رحمہ اللہ "کتاب العلل" میں فرماتے ہیں: "جمیع ما في هذا الكتاب من الحدیث هو معمول به و به أخذ بعض أهل العلم ما خلا حدیثین: حدیث ابن عباس أنّ النبي صلى الله علیه و سلّم جمع بین الظهر و العصر بالمدینة و المغرب و العشاء من غیر خوف و لا سفر و لا مطر. و حدیث النبي صلى الله علیه و سلّم أنّه قال: إذا شرب الخمر فاجلدوه، فإن عاد في الرابعة فاقتلوه. و قد بیّنّا علة الحدیثین جمیعًا في الكتاب." ترجمہ:

اس کتاب میں جتنی احادیث ہیں سب ہی معمول بہا ہیں، جنہیں بعض اہلِ علم نے اختیار کیا ہے، سوائے دو حدیثوں کے: ایک حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر کی نماز، اور مغرب و عشاء کی نماز مدینہ منورہ میں خوف، سفر یا بارش کے عذر کے بغیر جمع فرمائی۔ اور دوسری حدیث کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شرابی چوتھی بار بھی شراب پیے تو اسے قتل کردو۔ اور ہم (امام ترمذی) نے ان دونوں حدیثوں کی علّت کتاب میں بیان کردی ہے۔ [بدایۃ کتاب العلل، جلد: 2، ص:233، ط: ایچ ایم سعید کراچی] یعنی امام ترمذی رحمہ اللہ کے مطابق بغیر عذر کے دو نمازوں کے جمع کرنے پر کسی بھی اہلِ علم کا عمل نہیں ہے، جب کہ حنفیہ نے اس حدیث کو "جمعِ صوری" پر محمول کرکے اس پر عمل کیا ہے، پھر حنفیہ کو کیسے الزام دیا جاسکتا ہے کہ وہ حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر اپنے امام کی تقلید کر رہے ہیں۔

نیزخلفائے راشدین حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کا عمل بھی یہی تھا،اور اسی پر مواظبت کے ساتھ وہ عمل پیرا تھے۔

اور پھراوقات کا مسئلہ ایسا ہے کہ کبھی اس میں تبدیلی نہیں کی گئی،شریعت کے بہت سے احکام منسوخ ہیں،ابتدا میں حکم کچھ اور تھا، بعد میں اللہ پاک نے اس حکم کومنسوخ کردیا،اور اس کی جگہ دوسرا حکم نازل فرمایا،لیکن اوقات میں کبھی تبدیلی نہیں کی گئی،کبھی اس میں تقدیم و تاخیر نہیں کی گئی۔ان آیاتِ مبارکہ اور احادیث شریفہ سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ نمازوں کو ان کے وقتِ مقررہ پر ادا کرنا ضروری ہے، اور ان میں تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے۔

خلاصہ یہ ہوا کہ حج کے موقع پر عرفات میں ظہر  و عصر اور  مزدلفہ میں مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھنا تو جائز ہے، اس کے علاوہ سفر ہو یا حضر کسی بھی وقت کہیں بھی بلاعذر  یا کسی بھی عذر  کی بنا پر دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنا  جائز نہیں ہے،  لہٰذا کووڈ کی وجہ سے دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کرنے کی قطعًا اجازت نہیں ہوگی۔ دو نمازیں ایک وقت میں پڑھنے کی صورت میں اگر کوئی نماز اپنے وقت سے پہلے پڑھی گئی تو وہ نماز ہوگی ہی نہیں، اور اگر کسی نماز کو اپنے وقت کے بعد پڑھا تو نماز تو بطور قضا ہو جائے گی، لیکن نماز کو اپنے وقت سے مؤخر کر کے پڑھنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، البتہ شدتِ مرض کا عذر ہو   (جس میں اشارے سے بھی نماز نہ پڑھ سکے) یا آنکھ  نہ کھل سکے  جس کی وجہ سے نماز قضا ہوجائے تو اس کا حکم جدا ہوگا۔


دو نمازوں کو جمع کرنا:

قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرناچاہیے۔ یہی شریعت اسلامیہ میں مطلوب ہے، پوری زندگی اسی پر عمل کرنا چاہیے اور اسی کی دعوت دوسروں کو دینی چاہیے؛ لیکن اگر کوئی شخص سفر یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے دو نمازوں کو اکٹھا کرنا چاہے تو اس سلسلہ میں فقہاء وعلماء کرام کا اختلاف ہے۔ فقہاء وعلماء کرام کی ایک جماعت نے سفر یا موسلادھار بارش کی وجہ سے ظہر وعصر میں جمع تقدیم وجمع تاخیر اسی طرح مغرب وعشاء میں جمع تقدیم وجمع تاخیر کی اجازت دی ہے؛ لیکن فقہاء وعلماء کرام کی دوسری جماعت نے احادیث نبویہ کی روشنی میں حقیقی جمع کی اجازت نہیں دی ہے۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور تابعی وفقیہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ہندوپاک کے علماء کا بھی یہی موقف ہے۔ فقہاء وعلماء کی یہ جماعت، اُن احادیث کو جن میں جمع بین الصلاتین کا ذکر آیا ہے، ظاہری جمع پر محمول کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز آخری وقت میں اور عصر کی نماز اوّلِ وقت میں ادا کی جائے، مثلاً ظہر کا وقت ایک بجے سے چار بجے تک ہے اور عصر کا وقت چار بجے سے غروب آفتاب تک تو ظہر کو چار بجے سے کچھ قبل اور عصر کو چار بجے پڑھا جائے۔ اس صورت میں ہر نماز اپنے اپنے وقت کے اندر ادا ہوگی؛ لیکن صورت وعمل کے لحاظ سے دونوں نمازیں اکٹھی ادا ہوں گی، اسی طرح مغرب کی نماز آخری وقت میں اور عشاء کی نماز اوّلِ وقت میں پڑھی جائے، اس کو جمع ظاہری یا جمع صوری یا جمع عملی کہا جاتا ہے۔ اس طرح تمام احادیث پر عمل بھی ہوجائے گا اور قرآن وحدیث کا اصل مطلوب ومقصود (یعنی نمازکی وقت پر ادائیگی) بھی ادا ہوجائے گا۔


موٴخر الذکر قول چند اسباب کی وجہ سے زیادہ راجح ہے


(۱) نماز کے اوقات کی تحدید قطعی فرض ہے جو قرآن کریم کی بعض آیات ومتعدد متواتر احادیث سے ثابت ہے اور پوری امت کا اس پر اجماع ہے۔ جمع بین الصلاتین دو نمازوں کو اکٹھی پڑھنے سے متعلق احادیث اخبار آحاد ہیں۔ قرآنی آیات اور متواتر احادیث کا اگر بظاہر تعارض خبر آحاد سے ہو تو خبر آحاد میں تاویل کرنی چاہیے، لہٰذا ان اخبار آحاد کو جمعِ ظاہری (یعنی نماز ظہر کو آخر وقت میں اور نماز عصر کو اوّل وقت میں ادا کیا جائے) پر محمول کیا جانا چاہیے؛ تاکہ کسی طرح کا تعارض بھی نہ رہے اور تمام احادیث پر عمل بھی ہوجائے۔


(۲) بعض احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے زندگی میں حقیقی جمع بین الصلاتین صرف دو بار حج کے موقع پر کیا ہے:


حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو بے وقت نماز پڑھتے نہیں دیکھا (یعنی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ وقت پر نماز پڑھتے تھے)؛ مگر (حجة الوداع میں) مغرب وعشاء کو مزدلفہ میں اکٹھے پڑھا (یعنی عشاء کے وقت میں مغرب وعشاء اکٹھی پڑھیں)۔ (صحیح بخاری، کتاب الحج، من یصلی الفجر بجمع۔۔۔۔ صحیح مسلم)


حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیشہ نماز وقت پر پڑھتے تھے؛ لیکن (حجة الوداع میں) آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عرفات میں ظہر وعصر کو ظہر کے وقت میں جمع کرکے پڑھا اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کو عشاء کے وقت میں جمع کرکے پڑھا۔ (نسائی)


حجاج کرام کے لیے عرفات (مسجد نمرہ) میں ظہروعصر کی حقیقی جمع اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی حقیقی جمع متواتر احادیث سے ثابت ہے اور پوری امت کا اس پر اجماع ہے؛ لیکن حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عرفات اور مزدلفہ کے علاوہ کبھی بھی حقیقی جمع کی صورت میں دو نمازوں کو اکٹھا کرکے نہیں پڑھا، جیساکہ احادیث بالا میں مذکور ہے۔


(۳) بعض احادیث کے الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھنے سے متعلق احادیث کا تعلق جمع ظاہری سے ہے، مثلاً:


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سفر میں ظہر کو موٴخر اور عصر کو مقدم کرتے تھے، مغرب کو موٴخر اور عشاء کو مقدم کرتے تھے۔ (مسند امام احمد، طحاوی، مستدرک حاکم)


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (ایک سفر میں )غروبِ شفق سے قبل سواری سے اترے، مغرب کی نماز پڑھی پھر انتظار کیا، غروب شفق کے بعد عشاء کی نماز ادا کی پھر فرمایا حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو جب (سفر میں) جلدی ہوتی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اسی طرح عمل فرماتے جیسے میں نے کیا ہے۔ (ابوداود، باب الجمع بین الصلاتین ۔ دار قطنی)


حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمراہ غزوہٴ تبوک کے سفر میں نکلے تو حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  ظہر وعصر کو اس طرح جمع کرتے، ظہر کو آخری وقت میں اور عصر کو اول وقت میں پڑھتے۔ (طبرانی اوسط)


حضرت ابو عثمان نہدی  فرماتے ہیں کہ وہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کوفہ سے مکہ مکرمہ سفر حج پر جارہے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ظہر وعصر کو اس طرح جمع کرتے کہ ظہر کو موٴخر کرتے اور عصر کو مقدم کرتے پھر دونوں کو اکٹھا ادا کرتے، مغرب کو موٴخر کرتے اور عشاء کو مقدم کرتے، پھر دونوں کو اکٹھا ادا کرتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ باب من قال یجمع المسافر بین الصلاتین)


حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ منورہ میں ظہر وعصر کو ملاکر پڑھا؛ حالانکہ یہ کسی خطرہ یا سفر کی حالت نہ تھی۔ حضرت ابو الزبیر  کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید سے پوچھا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت سعید نے جواب دیا کہ میں نے بھی یہ بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھی تھی تو انہوں نے بتایا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا مقصد تھا کہ لوگ تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔ (صحیح مسلم، الجمع بین الصلاتین فی الحضر)


اس حدیث میں جمع بین الصلاتین سے مراد ظاہری جمع ہے یعنی ظہر کو اس کے آخر وقت میں اور عصر کو اس کے اول وقت میں پڑھا۔ محدثین کرام حتی کہ علامہ شوکانی  نے بھی اس حدیث سے جمع صوری ہی مراد لیا ہے۔


ان تمام احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوا ہے کہ ظاہری جمع جائز ہے؛ لیکن حقیقی جمع صرف دو جگہوں پر ہے۔


(۴) حدیث کے پورے ذخیرہ میں حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عمل سے صرف اُنھیں دو نمازوں کے جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے جن کے اوقات آپس میں ملتے ہیں اور درمیان میں مکروہ وقت بھی نہیں ہے، جن کی وجہ سے ظاہری جمع پر عمل ہوسکتا ہے اور وہ صرف ظہر وعصر یا مغرب وعشاء کی نمازیں ہیں۔ باقی جن نمازوں کے اوقات باہم متصل نہیں ہیں، جیسے فجر وظہر یا اوقات تو متصل ہیں؛ لیکن درمیان میں مکروہ وقت ہے، جیسے عصر ومغرب یا عشاء وفجر کہ نصف شب کے بعد عشاء کا مکروہ وقت شروع ہوجاتا ہے۔ اگر حقیقی جمع جائز ہوتی تو پھر ظہر و عصر یا مغرب وعشاء کے ساتھ ہی خاص نہ ہوتی؛ بلکہ عشاء وفجر یا فجر وظہر میں حقیقی جمع جائز ہوتی، اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، معلوم ہوا کہ جن احادیث میں سفر وغیرہ کی وجہ سے دو نمازوں کے اکٹھے پڑھنے کا ذکر ہے اس سے مراد ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرنا ہے۔


(۵) بعض احادیث میں آتا ہے کہ حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بعض دفعہ سفر یا خوف یا بارش کے عذر کے بغیر بھی دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھا۔ اگر دو نمازوں کی حقیقی جمع جائز ہوتی تو ان احادیث کی وجہ سے بغیر کسی عذر کے بھی دو نمازوں کو حقیقی جمع کرکے پڑھنا جائز ہوتا؛ حالانکہ اہل السنة والجماعة میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے ۔ معلوم ہوا کہ اس طرح کی احادیث سے مرادایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرنا ہے۔ غزوہٴ تبوک کے طویل سفر میں یہی صورتِ عمل تھی کہ سفر بہت طویل تھا، موسم سخت گرم تھا، طہارت ووضو کے لیے پانی کی قلت تھی، اسلامی فوج کی تعداد تقریباً تیس ہزار تھی اتنے بڑے لشکر کا ان مذکورہ حالات میں باربار اترنا اور سوارہونا انتہائی مشکل تھا؛ اس لیے ظاہری جمع پر عمل کیا گیا یعنی ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کیا گیا۔


غرضے کہ نماز کو وقت پر ہی ادا کرنا چاہیے سوائے ۹ ذی الحجہ کو مسجد نمرہ (عرفات) میں ظہر وعصر کی ادائیگی ظہر کے وقت میں اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی ادائیگی عشاء کے وقت میں؛ لیکن اگر کوئی عذر شرعی ہے، مثلاً سفر میں ہیں اور بار بار رکنا دشواری کا سبب ہے تو دو نمازیں ظاہری جمع کرکے ادا کرلی جائیں یعنی ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرلیا جائے۔


اللہ تعالیٰ ہم سب کو وقت پر نماز کا اہتمام کرنے والا بنائے اور نماز میں کوتاہی کی تمام شکلوں سے حفاظت فرمائے، آمین۔


فقہاء کے فتاویٰ: الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 381): "(ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافاً للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة). (قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس: «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء»۔ وعن ابن مسعود مثله". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 382): " ومن الأحاديث الدالة على التقديم وليس فيها صريح سوى حديث أبي الطفيل عن معاذ: «أنه عليه الصلاة والسلام كان في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس أخر الظهر إلى العصر فيصليهما جميعاً، وإذا ارتحل قبل زيغ الشمس صلى الظهر والعصر ثم سار، وكان إذا ارتحل قبل المغرب أخر المغرب حتى يصليها مع العشاء، وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب. (قوله: محمول إلخ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً: أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها، ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوز كقوله تعالى :﴿ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ ﴾ [البقرة: 234] أي قاربن بلوغ الأجل أو على أنه ظن، ويدل على هذا التأويل ما صح عن ابن عمر: « أنه نزل في آخر الشفق فصلى المغرب ثم أقام العشاء وقد توارى الشفق، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل به السير صنع هكذا.» " وفي رواية ": ثم انتظر حتى غاب الشفق وصلى العشاء "، كيف وقد قال صلى الله عليه وسلم: «ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، بأن تؤخر صلاة إلى وقت الأخرى». رواه مسلم، وهذا قاله وهو في السفر. وروى مسلم أيضاً عن ابن عباس «أنه صلى الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر، لئلا تحرج أمته». وفي رواية: «ولا سفر». والشافعي لا يرى الجمع بلا عذر، فما كان جوابه عن هذا الحديث فهو جوابنا. وأما حديث أبي الطفيل الدال على التقديم فقال الترمذي فيه: إنه غريب، وقال الحاكم: إنه موضوع، وقال أبو داود: ليس في تقديم الوقت حديث قائم، وقد أنكرت عائشة على من يقول بالجمع في وقت واحد. وفي الصحيحين عن ابن مسعود : « والذي لا إله غيره ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة قط إلا لوقتها إلا صلاتين جمع بين الظهر والعصر بعرفة، وبين المغرب والعشاء بجمع». " ويكفي في ذلك النصوص الواردة بتعيين الأوقات من الآيات والأخبار، وتمام ذلك في المطولات، كالزيلعي وشرح المنية. وقال سلطان العارفين سيدي محيي الدين نفعنا الله به: والذي أذهب إليه أنه لا يجوز الجمع في غير عرفة ومزدلفة؛ لأن أوقات الصلاة قد ثبتت بلا خلاف، ولا يجوز إخراج صلاة عن وقتها إلا بنص غير محتمل؛ إذ لاينبغي أن يخرج عن أمر ثابت بأمر محتمل، هذا لا يقول به من شم رائحة العلم، وكل حديث ورد في ذلك فمحتمل أنه يتكلم فيه مع احتمال أنه صحيح، لكنه ليس بنص اهـكذا نقله عنه سيدي عبد الوهاب الشعراني في كتابه الكبريت الأحمر في بيان علوم الشيخ الأكبر". فقط واللہ اعلم




No comments:

Post a Comment