Tuesday, 10 June 2025

تکبیراتِ تشریق اور ایامِ تشریق


"اکثر اہل علم کا رجحان اس طرف ہے کہ تکبیرات (تشریق) کا آغاز عرفہ (9 ذی الحجہ) کے دن فجر کی نماز کے فوراً بعد ہوتا ہے، اور اختتام ایام تشریق کے آخری دن کی عصر کی نماز کے بعد ہوتا ہے۔ یہی حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ رضی اللہ عنہما کا قول ہے۔ مکحول نے بھی اسی کو اپنایا ہے۔

[شرح السنة للبغوي:1924(7/146)]

 کیونکہ

(1)حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں:

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يكبر يوم عرفة صَلَاةَ الْغَدَاةِ إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ آخِرَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ

ترجمہ:

"نبی ﷺ عرفہ(9 ذی الحجہ) کے دن فجر کی نماز سے لے کر ایام تشریق(یعنی 11-12-13 ذی الحجہ) کے آخری دن کی عصر کی نماز تک تکبیرات (تکبیرات تشریق) پڑھا کرتے تھے۔"

[بیھقی:6278]


عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ الله , قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الصُّبْحَ مِنْ غَدَاةِ عَرَفَةَ يُقْبِلُ عَلَى أَصْحَابِهِ فَيَقُولُ: «عَلَى مَكَانِكُمْ» , وَيَقُولُ:- «الله أكبر اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ , لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ والله أَكْبَرُ , اللَّهُ أَكْبَرُ ولله الحمد» , فَيُكَبِّرُ مِنْ غَدَاةِ عَرَفَةَ إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ۔

ترجمہ:

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ (یعنی 9 ذی الحجہ) کے دن صبح کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے: "اپنی جگہوں پر ٹھہرے رہو"، پھر یہ تکبیریں پڑھتے:  

«الله أكبر اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ , لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ والله أَكْبَرُ , اللَّهُ أَكْبَرُ ولله الحمد»

آپ ﷺ عرفہ کی صبح سے لے کر تشریق کے آخری دن (یعنی 13 ذی الحجہ) کی عصر کی نماز تک یہ تکبیریں پڑھتے رہے۔ 

[سنن الدارقطني:1737، شرح السنة للبغوي:1924، تفسیر الدر المنثور للسیوطی:1/556-سورۃ البقرۃ:198، تفسیر البغوی:1/234-سورۃ البقرۃ:203]

حكم المحدث : إسناده فيه ضعف

[فضائل الأوقات-البيهقي:100، الخلافيات للبيهقي:2942][نصب الراية-الزيلعي:2/224]


تشریح:


زمانہ تکبیر: ۹ ذی الحجہ (یوم عرفہ) کی صبح سے ۱۳ ذی الحجہ کی عصر تک۔  

تکبیر کا طریقہ: مذکورہ الفاظ کے ساتھ بلند آواز سے تکبیر کہنا۔  

شرعی حکم: یہ تکبیراتِ تشریق سنتِ مؤکدہ ہیں، جو ہر فرض نماز کے بعد پڑھی جاتی ہیں۔

چند ایامِ تشریق میں ذکر کا حکم:

القرآن:

اور (قیام منیٰ کے) دنوں میں (جو) گنتی کے (دن میں) اللہ کو یاد کرو۔۔۔۔

[سورۃ البقرۃ:203]


تفسیر:

وَمِنَ الذِّكْرِ في أَيَّامِ التشريق: التَّكْبِيرُ

ترجمہ:

اور ذکر اللہ سے مراد یہ ہے کہ ایام تشریق میں فرض نمازوں کے بعد اللہ اکبر اللہ اکبر کہیں۔

[تفسیر البغوی:1/234، تفسیر مدارک للنسفی]


وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ يعني التكبير في أَيَّامَ التشريق بَعْدَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ.

ترجمہ:

اور ذکر اللہ سے مراد یہ ہے کہ ایام تشریق میں فرض نمازوں کے بعد اللہ اکبر اللہ اکبر کہیں۔

[تفسیر ابن کثیر:1/417]


امام طبرانیؒ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واذکرواللہ فی ایام معدودت “ سے مراد ہے وہ ایام تشریق ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا جاتا ہے تسبیح، تہلیل، تکبیر اور تحمید کے ساتھ ۔

[تفسیر الدر المنثور:]


اور ایام معلومات یعنی ایامِ تشریق کے پانچ دنوں میں یوم عرفہ، یوم النحر اور 11، 12، 13 کو اللہ تعالیٰ کی حمد و تہلیل (لا الہ الا اللہ) بہت زیادہ کیا کرو۔

[تفسیر ابن عباس:]


اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أَيَّامُ التشريق أَيَّامُ أكل وشرب وذكر اللَّهِ".

ترجمہ:

ایامِ تشریق، کھانے، پینے اور اللہ کو یاد رکھنے کے دن ہیں۔

[مسند احمد:7134، شرح معاني الآثار-للطحاوي:4096-4101، تفسير ابن ابي حاتم:1894، صحيح ابن حبان:3602، السنن الكبري-للبيهقي: 6266-19219، شرح السنة للبغوي:1796]


لَا تَصُومُوا هَذِهِ الْأَيَّامَ، فَإِنَّهَا أَيَّامُ أكل وشرب وذكر اللهِ عَزَّ وَجَلَّ.

ترجمہ:

مت روزہ رکھو ان دنوں میں، کیونکہ یہ دن ہیں کھانے اور پینے اور اللہ عزوجل کو یاد رکھنے کے۔

[مسند احمد:10664-708، ابوداؤد:2813، تفسیر الطبری:3912، شرح معانی الآثار للطحاوی:4096، تفسیر ابن ابی حاتم:1894، المعجم الاوسط للطبرانی:8217، سنن دارقطنی:2287، حاکم:1588]



یومِ عرفہ، یومِ عید الاضحیٰ، اور ایامِ تشریق:

عن عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَوْمُ عَرَفَةَ، وَيَوْمُ النَّحْرِ، وأيام التشريق عِيدُنَا أَهْلَ الْإِسْلَامِ، وَهِيَ أيام أكل وشرب»

ترجمہ:

حضرت عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یوم عرفہ، یوم نحر اور ایام تشریق ہماری یعنی اہل اسلام کی عید کے دن ہیں، اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔

[سنن ابوداؤد:2419، سنن الترمذي:773، سنن النسائي:3004]

وضاحت:

(١)یوم عرفہ سے مراد وہ دن ہے جس میں حاجی میدان عرفات میں ہوتے ہیں یعنی نویں ذی الحجہ مطابق رؤیت مکہ مکرمہ۔ (٢) قربانی کا دن یعنی دسویں ذی الحجہ۔ (٣) ایام تشریق سے مراد گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ ہے۔


۱. تشریق کے لغوی معنیٰ:

مادہ اور بنیادی معنیٰ: لفظ "تشریق" عربی لفظ "شرق" (سورج کا طلوع ہونا) سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ "روشنی پھیلانا"، "سورج کی طرف رخ کرنا"، یا "کسی چیز کو دھوپ میں رکھنا" ہیں۔  

اصطلاحی مفہوم: 

  - گوشت سکھانے کا عمل: قدیم عرب میں قربانی کے گوشت کو دھوپ میں خشک کرنے کے عمل کو "تشریق" کہا جاتا تھا، کیونکہ یہ کام انہی دنوں میں ہوتا تھا ۔  

  - سورج نکلنے کا انتظار: عید الاضحیٰ کی نماز کے لیے سورج طلوع ہونے کا انتظار کرنا بھی "تشریق" کہلاتا ہے ۔  

---

۲. ایامِ تشریق کی تعریف اور مدت:

شرعی تعریف: ایامِ تشریق ذی الحجہ کی ۱۱، ۱۲ اور ۱۳ تاریخوں پر مشتمل ہیں، جو عید الاضحیٰ (۱۰ ذی الحجہ) کے بعد آتے ہیں۔

حوالہ

امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایام معدودات چار دین ہیں یوم نحر اور اس کے بعد تین دن۔

[تفسیر الدر المنثور:]

وجہ تسمیہ:

  - گوشت خشک کرنے کی روایت: قربانی کے گوشت کو سکھانے کے لیے ان دنوں میں دھوپ کا استعمال کیا جاتا تھا، جس کی وجہ سے یہ نام پڑا ۔  

  - تاریخی پہلو: دورِ جاہلیت میں عرب "اَشْرِقْ ثَبِیْرٌ!" (اے ثبیر پہاڑ! سورج نکال) کہہ کر قربانی شروع کرتے تھے، جو "تشریق" کی بنیاد بنا۔  

  - تکبیرات کی مناسبت: چونکہ تکبیراتِ تشریق (ذکرِ خاص) بھی انہی دنوں میں پڑھی جاتی ہیں، اس لیے "تشریق" کا لفظ ذکر کے لیے بھی استعمال ہونے لگا ۔  

---

۳. ایامِ تشریق کی شرعی حیثیت:

ذکر الٰہی کے دن: قرآن میں انہیں "ایامِ معدودات" (گنتی کے چند دن) کہا گیا ہے، جن میں اللہ کے ذکر کا خصوصی حکم ہے :  

  > "وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ" (البقرہ: ۲۰۳)۔  

کھانے پینے کا وقت: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

  > "یہ دن کھانے، پینے اور اللہ کے ذکر کے لیے ہیں" ۔

[صحیح ابن حبان:3602، تفسیر الطبری:3912]

  اس لیے ان دنوں میں روزہ رکھنا "حرام" ہے۔

حج کے اعمال: 

  - رمی جمرات: شیطان کو کنکریاں مارنا (۱۱ سے ۱۳ ذی الحجہ تک)۔  

  - منیٰ میں قیام: حاجیوں کے لیے ۱۳ ذی الحجہ تک منیٰ میں ٹھہرنا واجب ہے ۔  

---

۴. تکبیراتِ تشریق: حکم، وقت اور طریقہ:

تعریف: یہ وہ مخصوص تکبیریں ہیں، جو ۹ ذی الحجہ (یوم عرفہ) کی فجر سے ۱۳ ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد پڑھی جاتی ہیں۔  

الفاظ: 

  > "اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ" ۔

اللہ بہت بڑا ہے ‘ اللہ بہت بڑا ہے ‘ اللہ بہت بڑا ہے اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ اللہ بہت بڑا ہے۔ اللہ بہت بڑا ہے۔ اس کی تعریف ہے۔


احکام: 

  - مرد: بلند آواز سے پڑھیں۔  

  - عورتیں: آہستہ آواز میں پڑھیں۔  

  - وجوب: احناف کے نزدیک یہ ’واجب‘ ہے، جبکہ دیگر مکاتب میں ’سنتِ مؤکدہ‘ ہے۔

نوٹ: واجب اور سنتِ موکدہ کا درجہ ایک ہی ہے کہ اسے بلاعذر چھوڑنے والا فاسق(گناہگار) ہے۔ اختلاف وفرق صرف مختلف الفاظ سے بات سمجھانے کا ہے۔

حوالہ

امام ابن ابی حاتمؒ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ منی کے دنوں میں تکبیر کہا کرتے تھے اور فرماتے تھے تکبیر واجب ہے۔ اور اس آیت لفظ آیت ” واذکروا اللہ فی ایام معدودت “ کی تاویل کرتے ہیں (یعنی بطور دلیل کے یہ آیت تلاوت کرتے تھے) ۔

[تفسیر الدر المنثور:]

---

۵. اہمیت اور تاریخی واقعات:  

تاریخی پس منظر: 

  - عقبہ دوم: ۱۳ نبوی میں ایامِ تشریق کے دوران رسول اللہ ﷺ اور انصار کے درمیان معاہدہ ہوا، جس نے ہجرتِ مدینہ کی راہ ہموار کی۔  

  - سورہ التوبہ کی تبلیغ: ۹ ہجری میں حضرت علیؓ نے انہی دنوں میں مشرکین کے لیے سورہ توبہ کی آیات پڑھ کر سنائیں۔  

روزہ کی ممانعت: ان دنوں میں روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ یہ اللہ کی نعمتوں (قربانی کے گوشت) سے لطف اندوز ہونے کا وقت ہے۔

---

خلاصہ:

۱. تشریق: کا لفظ "سورج نکلنا" یا "گوشت سکھانا" سے مشتق ہے۔  

۲. ایامِ تشریق: ۱۱، ۱۲ اور ۱۳ ذی الحجہ پر مشتمل ہیں، جن میں ذکر الٰہی، کھانا پینا اور حج کے اعمال (رمی جمرات) شامل ہیں۔  

۳. تکبیراتِ تشریق: عرفہ کے دن (۹ ذی الحجہ) کی فجر سے ایامِ تشریق کے آخری دن(۱۳ ذی الحجہ) کی عصر تک پڑھی جاتی ہیں، جن کا طریقہ مخصوص الفاظ پر مشتمل ہے۔



عرفہ کے دن ذکر کا حکم:
القرآن:

۔۔۔۔ فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ (ج) وَاذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْ (ج) وَ اِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ

ترجمہ:

۔۔۔۔ پھر جب تم عرفات سے روانہ ہو تو مشعر حرام کے پاس (جو مزدلفہ میں واقع ہے) اللہ کا ذکر کرو، اور اس کا ذکر اسی طرح کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت کی ہے، جبکہ اس سے پہلے تم بالکل ناواقف تھے۔

[سورۃ البقرۃ:198 (تفسیر الدر المنثور للسیوطی:1/556)]

یعنی حج کے دوران عرفات سے آکر مزدلفہ میں رات گزاری جاتی ہے اور اگلی صبح طلوعِ آفتاب سے پہلے پہلے وقوف کیا جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور دعائیں مانگی جاتی ہیں، جاہلیت میں بھی اہلِ عرب اللہ کا ذکر تو کرتے تھے، مگر اس کے ساتھ اپنے دیوتاؤں کا ذکر بھی شامل کرلیتے تھے، بتایا جارہا ہے کہ مومن کا ذکر خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہونا چاہیے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے۔


عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ، إِلَى آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، لَا يُكَبِّرُ فِي الْمَغْرِبِ، يَقُولُ: «اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا، اللَّهُ أَكْبَرُ، وَأَجَلُّ اللَّهُ أَكْبَرُ، وَلِلَّهِ الْحَمْدُ۔

ترجمہ:

حضرت ابن عباسؓ سے نقل فرماتے ہیں کہ وہ عرفہ (9 ذی الحجہ) کی صبح سے لے کر ایامِ تشریق کے آخری دن تک تکبیر کہتے، لیکن مغرب میں نہیں۔ 

اللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ وَلِلَّہِ الْحَمْدُ اللَّہُ أَکْبَرُ وَأَجَلُّ اللَّہُ أَکْبَرُ۔

(اللہ بہت بڑا ہے ‘ اللہ بہت بڑا ہے ‘ اللہ بہت بڑا ہے اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ اللہ بہت بڑا ہے۔ اللہ بہت بڑا ہے۔ اس کی تعریف ہے 

[صحیح ابن ابی الشیبہ:5646]

۔۔۔على ما هدانا۔

۔۔۔جو اس نے ہمیں ہدایت نصیب فرمائی۔

[السنن الکبریٰ للبیھقی:6280 (3 /441)، تفسیر الدر المنثور للسیوطی:1 /468 ، فتح القدیر للشوکانی:1 /212]

نوٹ:

آخری الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تکبیرات ہدایت کی گئی ہیں۔



حضرت علیؓ اور حضرت عمارؓ کا فتویٰ:

(2)حضرت جابرؓ بن عبداللہ، ابو الطفیل کے ذریعے حضرت علیؓ اور حضرت عمارؓ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں:

وَكَانَ يكبر يوم عرفة صَلَاةَ الْغَدَاةِ , وَيَقْطَعُهَا صَلَاةَ الْعَصْرِ آخِرَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ۔

ترجمہ:

"...اور آپ ﷺ عرفہ (9 ذی الحجہ) کے دن فجر کی نماز سے تکبیرات (یعنی تکبیرات تشریق) پڑھنا شروع کرتے تھے جو ایام تشریق (یعنی 11-12-13 ذی الحجہ) کے آخری دن کی عصر کی نماز پر ختم ہوتی تھیں۔"

[سنن دارقطنی:1734، المستدرک للحاکم:1111]




عَنْ عَلِيٍّ «أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ، إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، وَيُكَبِّرُ بَعْدَ الْعَصْرِ۔

ترجمہ:

حضرت علی یومِ عرفہ (9 ذی الحجہ) کو فجر کی نماز کے بعد سے ایامِ تشریق کے آخر(دن) کی عصر نماز تک تکبیرات کہا کرتے تھے۔

[مصنف ابن ابی شیبہ» باب:تکبیرات تشریق کا وقت، حدیث نمبر:5631  (5677)]

[الآثار لابی یوسف:295]


---

آخری دن کے متعلق اختلافات، اور اتفاقی نکتہ:

مفتیانِ اصحابِ رسول اللہ ﷺ میں سے:

(۱)حضرت عمر، (۲)حضرت علی اور (۳)حضرت ابن مسعود عرفہ(9 ذی الحجہ) کے دن صبح کی نماز کے بعد تکبیریں کہنے پر متفق ہیں۔

لیکن

حضرت ابن مسعود کے اصحاب (شاگرد) یوم النحر (10 ذوالحجہ) کی عصر کی نماز تک تکبیرات پڑھتے ہیں

جبکہ

حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما (کے نزدیک) ایام تشریق(یعنی 11-12-13 ذی الحج) کے آخری دن کی عصر کی نماز تک پڑھی جاتی ہیں۔"

[بیھقی:6274]


نوٹ:

علماءِ امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت" سے ثابت ہیں، ان میں عمل خواہ ایک صورت پر ہو مگر تمام صورتوں کو شرعاً درست سمجھنا ضروری ہے. اگر کوئی فرد یا جماعت ان مسائل میں اپنے مسلکِ مختار (اختیار کردہ طریقہ) کا اتنا اصرار کرے، کہ دوسرے مسلک پر طنز و تعریض، دشنام طرازی اور دست درازی سے بھی باز نہ آۓ تو اس (فتنہ و فساد) کو ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے۔
باہم ٹکراتی اختلافی سنّتوں کے حکم میں فرق اصول حدیث و اصولّ فقہ میں ناسخ و منسوخ، یا راجح و مرجوح، یا اولیٰ اور غیر اولیٰ (افضل و غیرافضل) کا ہوتا ہے۔

طریقہ#2: 

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ الله عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ فِي التَّكْبِيرِ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ: " مِنْ دُبُرِ صَلَاةِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ إِلَى دُبُرِ صَلَاةِ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ النَّحْرِ، وَكَانَ يُكَبِّرُ فَيَقُولُ: اللَّهُ أكبر اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا الله، والله أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ولله الحمد.

ترجمہ:

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تکبیراتِ تشریق کے بارے میں فرماتے ہیں:  

"عرفہ (9 ذی الحجہ) کے دن فجر کی نماز کے بعد سے لے کر یوم النحر (10 ذی الحجہ) کی عصر کی نماز تک (تکبیر پڑھی جائے)۔"  

وہ خود تکبیر پڑھتے تو یہ کہتے:  

«اللَّهُ أكبر اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا الله، والله أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ولله الحمد»

[الآثار لابی یوسف:297، مصنف ابن ابی شیبہ:5633، طبرانی:9538]

حكم المحدث : إسناده جيد

[نصب الراية-الزيلعي:2/223]



---






---


No comments:

Post a Comment