Thursday, 5 June 2025

علاماتِ قیامت: قبر وحشر، جنّت وجہنّم

علاماتِ قیامت
علاماتِ قیامت کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں:
(۱)علاماتِ بعیدہ
(۲)علاماتِ متوسطہ
(۳)علاماتِ قریبہ، جن کو علاماتِ بعیدہ کہاجاتا ہےاُن کا ظہورہوچکا ہے،
مثلاً حضور اکرم    کا تشریف لانا اور چاند کا شق ہونا ،نبوت کے سلسلہ کا ختم ہوجانا وغیرہ یہ علاماتِ بعیدہ کہلاتی ہیں،اس کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد ہے:اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَر(قمر:۱) قیامت قریب آگئی اور چاند شق ہوگیا،یعنی حضور اکرم    کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے،گزشتہ کتابوں میں چاند کےشق ہونے کو علاماتِ قیامت میں شمار کیاگیا ہے۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت    نے ارشاد فرمایا  مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا اس موقعہ پر حضور اکرم    نے دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا، یعنی جتنا فاصلہ انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی میں ہے اتنا ہی فاصلہ مجھ میں اور قیامت میں ہے۔

(بخاری،بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةَ كَهَاتَيْنِ،حدیث نمبر:۶۰۲۳)

دوسری قسم علاماتِ متوسطہ جن کو علامات صغری بھی کہاجاتا ہے،ان میں سے بہت سی علامتیں ظاہر ہوچکی ہیں اور باقی ظاہر ہوتی جارہی ہیں، ان علامتوں کا تفصیلی ذکر قربِ قیامت کی چھوٹی نشانیوں کے ذیل میں آئے گا،تیسری قسم علامات قریبہ جس کو علاماتِ کبری بھی کہا جاتا ہے اس کا ذکر قیامت کی بڑی نشانیوں کے تحت آئے گا۔

علاماتِ قیامت کی اہمیت

حضور    سے پیشتر انبیاء کرامؑ نے بھی قیامت کی علامتیں اپنی اپنی امتوں کے سامنے بیان فرمائیں،حضور اکرم کے بعد کوئی نیا نبی آنے والا نہیں ہے اس لیے آپ نے اس کی علامتیں سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ ارشاد فرمائیں،آپ    نے ان کی تبلیغ کا کتنا زیادہ اہتمام فرمایا اس کا کچھ اندازہ صحیح مسلم کی درج ذیل دو روایتوں سےہوگا:
حضرت ابوزید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ     نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہمیں خطبہ دیا حتی کہ ظہر کا وقت ہوگیا؛چنانچہ آپ نے اتر کر نماز پڑھی پھر آپ    منبر پر تشریف لےگئے اور ہمیں خطبہ دیتے رہے یہاں تک کہ عصر کا وقت ہوگیا،پھر آپ    نے اتر کر نماز پڑھی اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اورہمارے سامنے خطاب فرماتے رہے،یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیاتو(اس قدر طویل خطبات میں)آپ   نے ہمیں ان(اہم)واقعات کی خبر دی جو ہوچکے اور جو آئندہ پیش آنے والے ہیں،چنانچہ ہم میں سے جس شخص کا حافظہ زیادہ قوی تھا وہی ان واقعات کا زیادہ جاننے والا ہے۔

(مسلم، بَاب إِخْبَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَكُونُ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ،حدیث نمبر:۵۱۴۹)

دوسری روایت میں حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ    ہمارے درمیان ایک ایسی جگہ کھڑے ہوئے جہاں قیامت تک وقوع پذیر ہونے والا کوئی واقعہ نہ چھوڑا جو ہمیں نہ بتایاہو جس نے یاد رکھا یاد رکھا ،میرے یہ ساتھی بھی یہ سب باتیں جانتے ہیں اور آپ نے ہمیں جس وقت واقعات کی اطلاع دی ان میں سے جو بھول گیا ہوں وہ جب بھی رونما ہوتا ہے تو مجھے(آنحضرت کا بیان کیا ہوا)یاد آجاتا ہے جیسے کوئی آدمی غائب ہوتو آدمی اس کا چہرہ بھول جاتا ہے پھر جب وہ نظر پڑتا ہے تو یاد آجاتا ہے۔

(مسلم، بَاب إِخْبَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَكُونُ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ،حدیث نمبر:۵۱۴۷)








قربِ قیامت کی چھوٹی نشانیاں

وأخرج أبو نعيم في الحلية عن حذيفة بن اليمان رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « من اقتراب الساعة اثنتان وسبعون خصلة ، إذ رأيتم الناس أماتوا الصلاة وأضاعوا الأمانة وأكلوا الربا واستحلوا الكذب واستخفوا بالدماء واستعلوا البناء وباعوا الدين بالدنيا وتقطعت الأرحام ويكون الحكم ضعفاً والكذب صدقاً والحرير لباساً وظهر الجور وكثرة الطلاق وموت الفجاءة وائتمن الخائن وخوّن الأمين وصدق الكاذب وكذب الصادق وكثر القذف وكان المطر قيظاً والولد غيظاً وفاض اللئام فيضاً ، وغاض الكرام غيضاً ، وكان الأمراء والوزراء كذبة والأمناء خونة والعرفاء ظَلَمَة والقراء فَسَقَة إذا لبسوا مسوك الضأن قلوبهم أنتن من الجيف وأمرّ من الصبر يغشيهم الله تعالى فتنة يتهاركون فيها تهارك اليهود الظلمة وتظهر الصفراء يعني الدنانير ، وتطلب البيضاء وتكثر الخطايا ويقل الأمن ، وحليت المصاحف وصورت المساجد وطوّلت المنائر وخرّبت القلوب وشربت الخمور وعطلت الحدود ، وولدت الأمة ربتها ، وترى الحفاة العراة قد صاروا ملوكاً ، وشاركت المرأة زوجها في التجارة ، وتشبه الرجال بالنساء والنساء بالرجال ، وحلف بغير الله ، وشهد المؤمن من غير أن يستشهد ، وسلم للمعرفة ، وتفقه لغير دين الله ، وطلب الدنيا بعمل الآخرة ، واتخذ المغنم دولاً والأمانة مغنماً والزكاة مغرماً ، وكان زعيم القوم أرذلهم ، وعق الرجل أباه وجفا أمه وضر صديقه وأطاع امرأته ، وعلت أصوات الفسقة في المساجد ، واتخذ القينات والمعازف ، وشربت الخمور في الطرق ، واتخذ الظلم فخراً وبيع الحكم ، وكثرت الشرط ، واتخذ القرآن مزامير وجلود السباع خفافاً ، ولعن آخر هذه الأمة أولها ، فليرتقبوا عند ذلك ريحاً حمراء وخسفاً ومسخاً وقذفاً وآيات » .

(درمنثور،تفسیر سورہ محمدآیت نمبر:۱۶)

ترجمہ:حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا:بہتّر (۷۲) چیزیں قرب قیامت کی علامت ہیں، جب تم دیکھوکہ:
لوگ نمازیں غارت کرنے لگیں گے، یعنی نمازوں کا اہتمام رخصت ہو جائے گا.
امانت ضائع کرنے لگیں گے ،یعنی جو امانت ان کے پاس رکھی جائے گی اس میں خیانت کرنے لگیں گے.
سود کھانے لگیں گے.
جھوٹ کو حلال سمجھنے لگیں گے، یعنی جھوٹ ایک فن اور ہنر بن جائے گا.
معمولی معمولی باتوں پر خون ریزی کریں گے.
اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے.
دین بیچ کر دنیا جمع کریں گے.
قطع رحمی یعنی رشتہ داروں سے بد سلوکی ہو گی.
انصاف نایاب ہو جائے گا.
جھوٹ سچ بن جائے گا.
لباس ریشم کا پہنا جائے گا.
ظلم عام ہو جائے گا.
طلاقوں کی کثرت ہو گی.
نا گہانی موت عام ہو جائے گی یعنی ایسی موت جس کا پہلے سے پتہ نہیں ہو گا.
خیانت کار کو امین اور امانت دار کوخائن سمجھاجائےگا۔
جھوٹے انسان کو سچا سمجھا جائے گا.
سچے انسان کو جھوٹا سمجھا جائے گا.
تہمت تراشی عام ہوجائےگی، یعنی لوگ دوسروں پر جھوٹی تہمتیں لگائیں گے.
بارش کے باوجود گرمی ہو گی.
اولادغم وغصہ کا موجب ہوگی۔
کمینے لوگ عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں گے.
شریفوں کا ناک میں دم ہو جائے گا۔
امیر اور وزیر جھوٹ کے عادی بن جائیں گے.
امین خیانت کرنے لگیں گے.
سردار ظلم پیشہ ہوں گے.
عالم اور قادری بد کردار ہوں گے یعنی عالم بھی ہیں اور قرآن کی تلاوت بھی کرتے ہیں مگر بد کردار ہیں.
لوگ جانوروں کی کھالوں کے لباس پہنیں گے.
لوگ جانوروں کی کھالوں سے بنے اعلی درجے کے لباس پہنیں گے لیکن ان کے دل مردار سے بھی زیادہ بدبودار ہوں گے.
اور ایلوے سے بھی زیادہ کڑوے ہوں گے.
سونا عام ہو جائے گا.
چاندی کی مانگ بڑھ جائے گی.
گناہ زیادہ ہو جائیں گے.
امن کم ہو جائے گا.
قرآن کریم کے نسخوں کو آراستہ کیا جائے گا اور اس پر نقش ونگار بنائے جائیں گے.
مسجدوں میں نقش و نگار کئے جائیں گے.
اونچے اونچے مینار بنیں گے.
لیکن دل ویران ہوں گے.
شرابیں پی جائیں گی.
شرعی سزاؤں کو معطل کر دیا جائے گا.
لونڈی اپنے آقا کو جنے گی یعنی بیٹی ماں پر حکمرانی کرے گی.
جو لوگ ننگے پاؤں، ننگے بدن، غیرمہذب ہوں گے وہ بادشاہ بن جائیں گے.
تجارت میں عورت مرد کے ساتھ شرکت کرے گی، جیسے آج کل ہو رہا ہے.
مرد عورتوں کی نقالی کریں گے.
عورتیں مردوں کی نقالی کریں گی یعنی مرد عورتوں جیسا حلیہ بنائیں گے اورعورتیں مردوں جیسا حلیہ بنائیں گی.
غیر اللہ کی قسمیں کھائی جائیں گی یعنی قسم تو صرف اللہ یا اللہ کی صفت کی کھانا جائز ہے، دوسری چیزوں کی قسم کھانا حرام ہے.
مسلمان بھی بغیر کہے جھوٹی گواہی دینے کو تیار ہو جائیں گے.
صرف جان پہچان کے لوگوں کو سلام کیا جائے گا ؛حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس کو تم جانتے ہو اسکو بھی سلام کہو اور جس کو تم نہیں جانتے اس کو بھی سلام کہو.
غیر دین کے لئے شرعی علم پڑھا جائے گا یعنی شرعی علم دین کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے لئے پڑھا جائے گا.
آخرت کے کام سے دنیا کمائی جائے گی.
مال غنیمت کوذاتی جاگیر سمجھ لیا جائے گا.
امانت کو لوٹ کا مال سمجھا جائے گا.
زکٰوۃ کو جرمانہ سمجھا جائے گا.
سب سے رذیل آدمی قوم کا لیڈر اور قائد بن جائے گا.
آدمی اپنے باپ کی نافرمانی کرے گا.
اور اپنی ماں سے بد سلوکی کرے گا.
دوست کو نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کریں گے.
شوہر بیوی کی اطاعت کرے گا.
بدکاروں کی آوازیں مسجدوں سے بلند ہوں گی.
گانے والی عورتیں داشتہ رکھی جائیں گی۔
گانے بجانے اور موسیقی کے آلات کو سنبھال کر رکھا جائے گا.
سر راہ شرابیں پی جائیں گی.
ظلم کو فخر سمجھا جائے گا.
انصاف بکنے لگے گا یعنی عدالتوں میں انصاف فروخت ہو گا.
پولیس والوں کی کثرت ہو جائے گی.
قرآن کریم کو نغمہ سرائی کا ذریعہ بنایا جائے گا ۔
درندوں کی کھال کے موزے بنائے جائیں گے.
امت کے آخری لوگ اپنے سے پہلے لوگوں پر لعن طعن کریں گے یعنی تنقید کریں گے.
 اُس وقت سرخ آندھی،زمین میں دھنس جانے،شکلیں بگڑجانےاورآسمان سےپتھر برسنے کے جیسے عذابوں کاانتظار کیاجائے۔
(اخرجہ ابونعیم فی الحلیہ،درمنثور،تفسیر سورۂ محمد،آیت: ۱۶)
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے (ایک طویل حدیث میں)آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کے متعلق فرمائیےآپ نے فرمایا کہ قیامت سے متعلق سوال کرنے والے سےزیادہ جواب دینے والا نہیں جانتا،حضرت جبرئیل نے عرض کیا کہ قیامت کی نشانیاں بتائیے،آپ نے فرمایا ایک تو یہ ہے کہ لونڈی اپنے آقا کو جنے گی اور دوسری علامت یہ ہے کہ تم دیکھو گے برہنہ پاؤں،برہنہ جسم، مفلس وفقیر اور بکریاں چلانے والےلوگوں کو(عالیشان) عمارات میں فخر وغرور کی زندگی بسر کرتے ہوئے۔
(مسلم،بَاب بَيَانِ الْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْإِحْسَانِ،حدیث نمبر:۹)
پہلی جو نشانی آپ نے بیان فرمائی اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے قریب اولاد ماں باپ کی نافرمان ہو جائے گی حتی کے بیٹی جو عام طور پر اطاعت کا جذبہ اس میں رہتا ہے قرب قیامت میں وہ بھی نافرمان ہوجائے گی،اور دوسری نشانی  کا مفہوم یہ ہے کہ بھوکے،ننگے،اور بکریوں کے چلانے والےاونچے اونچے محل بنوائیں گے اور ان عمارتوں کی تعمیر وتزئین میں ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں گے،گویا ان عمارتوں کی تعمیر ہی ان لوگوں کی زندگی کا مقصود ومطلوب ہے۔

(ملخص معارف الحدیث:حدیث جبرئیل،جلد۔۱)


أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ وَيَثْبُتَ الْجَهْلُ وَيُشْرَبَ الْخَمْرُ وَيَظْهَرَ الزِّنَا۔

(مسلم،بَاب رَفْعِ الْعِلْمِ وَقَبْضِهِ وَظُهُورِ الْجَهْلِ،حدیث نمبر:۴۸۲۴)
 وَ فِیْ رِوَایَۃ:وَيَكْثُرُ فِيهَا الْهَرْجُ وَالْهَرْجُ الْقَتْل۔

(مسلم، بَاب رَفْعِ الْعِلْمِ وَقَبْضِهِ وَظُهُورِ الْجَهْلِ،حدیث نمبر:۴۸۲۶)     
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کی علامتوں میں سے ہے کہ علم اٹھالیا جائے گاجہالت قائم ہوجائے گی اور شراب پی جائے گی اور  زنا ظاہر ہوجائے گا۔
اور ایک روایت میں ہے کہ:اور خون ریزی زیادہ ہوجائے گی۔



قیامت کی بڑی نشانیاں

فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا فَأَنَّى لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ 

(محمد:۱۸)

کیا وہ لوگ بس قیامت کے منتظر ہیں کہ وہ ان پر اچانک آپڑےتو یاد رکھو کہ اس کی علامتیں آچکی ہیں،جب قیامت ان کے سامنےآکھڑی ہوگی اس وقت ان کو سمجھنا کہاں میسر ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ قیامت بد ترین مخلوق پر قائم ہوگی۔(مسلم، بَاب قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم،حدیث نمبر:۳۵۵۰) نیز ارشاد فرمایا کہ اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک زمین پر اللہ اللہ کیا جاتا رہے گا یہ بھی ارشاد فرمایا کہ قیامت کسی ایسے شخص پر قائم نہ ہوگی جو اللہ اللہ کہتا ہوگا۔

(بخاری،بَاب ذَهَابِ الْإِيمَانِ آخَرِ الزَّمَان،حدیث نمبر:۲۱۱،۲۱۲)

حضرت  عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری امت میں دجال نکلے گا اور چالیس تک رہے گا مجھ کو یاد نہیں رہا حضور نے چالیس دن فرمایا یا چالیس مہینے فرمایا یا چالیس سال فرمایا؛پھر اللہ تعالی عیسی بن مریم علیہ السلام کو بھیجیں گےگویا کہ وہ عروہ بن مسعود ہیں (یعنی حضرت عیسی علیہ السلام  کی شکل حضرت عروہ بن مسعود سی ہوگی)حضرت عیسیؑ دجال کو تلاش کریں گے،اور اس کو مارڈالیں گے ،پھر سات برس تک لوگ اس حالت میں رہیں گےکہ دو آدمیوں کے درمیان بھی عداوت نہیں رہے گی پھر اللہ تعالی سرد ہوا کو بھیجیں گے جو شام کی طرف سے آئے گی اور وہ زمین پر کسی ایسے شخص کو زندہ نہ چھوڑے گی جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا؛یہاں تک کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی پہاڑ کے اندر بھی چلا جائے گا تو یہ ہوا وہاں پہنچ کر اس  کاخاتمہ کردے گی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس کے بعد صرف برے لوگ ہی دنیا میں رہ جائیں گے (جن کے دل ایمان سے بالکل خالی ہوں گے)ان میں پرندوں والی تیزی اور پھرتی ہوگی یعنی جس طرح پرندے اڑنے میں پھرتیلے ہوتے ہیں اسی طرح یہ لوگ اپنی غلط خواہشات کو پورا کرنے میں پھرتی دکھائیں گےاور (دوسروں پر ظلم وزیادتی کرنے میں )درندوں والی عادات ہوں گی ،بھلائی کا بھلا نہیں سمجھیں گے اور برائی کو برا نہ جانیں گے، شیطان ایک شکل بناکر ان کے سامنے آئے گا اور ان سے کہے گا کیا تم میرا حکم نہیں مانوگے؟ وہ کہیں گے تم ہم کو کیا حکم دیتے ہو؟ یعنی جو تم کہو وہ ہم کریں گے، تو شیطان انھیں بتوں کی پرستش کا حکم دے گا (اور وہ اس کی تعمیل کریں گے)اور اس وقت ان پر روزی کی فراوانی ہوگی اور ان کی زندگی (بظاہر) بڑی اچھی (عیش ونشاط والی) ہوگی، پھر صور پھونکا جائے گا جو کوئی اس صور کی آواز کو سنے گا (اس آواز کی دہشت اور خوف سےبے ہوش ہوجائے گااور اس کی وجہ سے اس کا سر جسم پر سیدھا قائم نہ رہ سکے گا بلکہ)اس کی گردن ادھر ادھر ڈھلک جائے گی، سب سے پہلے جو شخص صور کی آواز سنے گا (اور جس پر سب سے پہلے اس کا اثر پڑے گا )وہ ایک آدمی ہوگا جو اپنے اونٹ کے حوض کو مٹی سے درست کررہا ہوگا، وہ بےہوش وہ بے جان ہوکر گر جائے گا یعنی مرجائے گا اور دوسرے سب لوگ بھی اسی طرح بے جان ہوکر گر جائیں گے پھر اللہ تعالی ہلکی سی بارش برسائیں گے ،ایسی جیسے کے شبنم ،اس کے اثر سے انسانوں کے جسموں میں جان پڑجائے گی پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو ایک دم سب کے سب کھڑے ہوجائیں گے (اور چاروں طرف)دیکھنے لگیں گے پھر کہا جائے گا کہ لوگو ! اپنے رب کی طرف چلو ( اور فرشتوں کو حکم ہوگا) انہیں (حساب کے میدان میں کھڑا کرو( کیونکہ) ان سے پوچھ ہوگی( اور ان کے اعمال کا حساب کتاب ہوگا) پھر حکم ہوگا کہ ان میں سے دوزخیوں کے گروہ کو نکالو عرض کیا جائے گا کہ کتنے میں سےکتنے ،حکم ہوگا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ ہوگا وہ دن جو بچوں کو بوڑھا کردے گا یعنی اس روز کی سختی اور لمبائی کا تقاضہ یہی ہوگا کہ وہ بچوں کو بوڑھا کردے اگرچہ بچے بوڑھے نہ ہوں اور یہی وہ دن ہوگا جس میں پنڈلی کھولی جائے گی؛ یعنی جس دن اللہ تعالی خاص قسم کا ظہور فرمائیں گے۔

 (مسلم،بَاب فِي خُرُوجِ الدَّجَّال،حدیث نمبر:۵۲۳۳)





قیامت کی بڑی نشانیاں بیک نظر

حضرت امام مہدی مدینہ منورہ میں ہوں گے اور اس ڈر سے کہ کہیں حکومت میرے سر نہ کردی جائے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کو چلے جائیں گے اور اس زمانہ کے ولی  جو ابدال کا درجہ رکھتے ہیں سب حضرت امام کی تلاش میں ہوں گے اور بعضے لوگ جھوٹ موٹ بھی مہدی ہونے کا دعوی کرنا شروع کردیں گے،غرض امام خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوں گے اور حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان میں ہوں گے اور بعضے نیک لوگ ان کو پہچان لیں گے اور ان کوزبردستی گھیر گھار کر ان سے حاکم بنانے کی بیعت کرلیں گے اور اسی بیعت میں ایک آواز آسمان سے آئے گی جس کو سب لوگ جتنے وہاں موجود ہوں گے سنیں گے وہ آواز یہ ہوگی کہ یہ اللہ تعالی کا خلیفہ یعنی حاکم بنائے ہوئے امام مہدی ہیں اور حضرت امام کے ظہور سے قیامت کی بڑی نشانیاں شروع ہوتی ہیں غرض! جب آپ کی بیعت کا قصہ مشہور ہوگا تو مدینہ منورہ میں جو فوجیں مسلمانوں کی ہوں گی وہ مکہ چلی آئیں گی اور ملک شام اور عراق اور یمن کے ابدال اور اولیاء سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور بھی عرب کی  بہت فوجیں  اکھٹی ہوجائیں گی،جب یہ خبر مسلمانوں میں مشہور ہوگی ایک شخص خراسان سے حضرت امام کی مدد کے واسطے ایک بڑی فوج لے کر چلے گا،جس کے لشکر کے آگے چلنے والے حصہ کے سردار کا نام منصور ہوگا اور راہ میں بہت سے بددینوں کی صفائی کرتا جائے گا،اور جس  شخص کا اوپر ذکر آیا ہے کہ ابوسفیان کی اولاد میں ہوگا اور سیدوں کا دشمن ہوگا؛ چونکہ حضرت امام بھی سید ہوں گے وہ شخص  حضرت امام سے لڑنے کو ایک فوج بھیجے گاجب یہ فوج مکہ اور مدینہ کے درمیان کے جنگل کو پہنچے گی اور ایک پہاڑ کے تلے ٹہرے گی تو یہ سب کے سب زمین میں دھنس جائیں گے صرف دو آدمی بچ جائیں گا جن میں سے ایک تو حضرت امام کو جاکر خبر کردےگااور دوسرا اس سفیانی کو خبر پہنچائے گا اور نصاری سب طرف سے فوجیں جمع کریں گے اور مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کریں گے اس لشکر میں اس روز اسی جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ساتھ بارہ ہزار آدمی ہوں گے تو کل آدمی نو لاکھ ساٹھ ہزار ہوں گے،حضرت امام مکہ سے چل کر مدینہ تشریف لائیں گے اور وہاں رسول اللہ کی زیارت کرکےشام کے ملک کو روانہ ہوں گے اور شہر دمشق تک پہنچ پائیں گے کہ دوسری طرف سے نصاری کی فوج مقابلہ میں آجائے گی، حضرت امام کی فوج تین حصہ ہوجائے گی ایک حصہ تو بھاگ جائے گا،  ایک حصہ شہید ہوجائے گا اور ایک حصہ کو فتح ہوگی اور اس شہادت اور فتح کا قصہ یہ ہوگا کہ حضرت امام نصاری سے لڑنے کو لشکر تیار کریں گے اور بہت سے مسلمان آپس میں قسم کھائیں گے کہ بے فتح کیے ہوئے نہ ہٹیں گے،پس سارے آدمی شہید ہوجائیں گے صرف تھوڑے سے آدمی بچیں گے جن کو لے کر حضرت امام اپنے لشکر میں چلے آئیں گے اگلے دن پھر اسی طرح کا قصہ ہوگا کہ قسم کھاکر جائیں گے اور تھوڑے سے بچیں گے اور تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوگا آخر چوتھے روز یہ تھوڑے سے آدمی مقابلہ کریں گے اور اللہ فتح دیں گے پھر کافروں کے دلوں میں حکومت کا حوصلہ  نہ رہے گا،اب حضرت امام ملک کا بندوست کریں گے اور سب طرف فوجیں روانہ کریں گےاور خود ان سارے کاموں سے نمٹ کرقسطنطنیہ فتح کرنے کو چلیں گے،جب دریائے روم کے کنارے پر پہنچیں گے بنو اسحاق  کے ستر ہزار آدمیوں کو کشتیوں پر سوار کرکے  اس شہر کو فتح کرنے کے واسطے تجویز کریں گے جب یہ لوگ شہر کی فصیل کے مقابل پہنچیں گے اللہ اکبر اللہ اکبر بآواز بلند کہیں گے اس نام کی برکت سے شہر پناہ کے سامنے کی دیوار گر پڑے گی اور مسلمان حملہ کرکے شہر کے اندر گھس جائیں گے اور کفار کو قتل کریں گے  اور خوب انصاف اور قاعدے سے  ملک کا بندوبست کریں گے اور حضرت امام سے جب بیعت ہوئی تھی اس وقت سے اس فتح تک چھ سال یا سات سال کی مدت گزرے گی حضرت امام یہاں کے بندوبست میں لگے ہوں گے کہ ایک جھوٹی خبر مشہور ہوگی کہ یہاں کیا بیٹھے ہو وہاں شام میں دجال آگیا اور تمہارے خاندان میں فتنہ وفسار کررہا ہے اس خبر پر حضرت امام شام کی طرف سفر کریں گے اور تحقیق حال کے واسطے نو یا پانچ سواروں کو آگے بھیج دیں گےان میں سے ایک شخص آکر خبر دے گا کہ وہ خبر محض غلط تھی ابھی دجال نہیں نکلا، حضرت کو اطمینان ہوجائے گا اور پھر سفر میں جلدی نہ کریں گے، اطمینان کے ساتھ درمیان کے ملکوں کو دیکھتے بھالتے شام میں پہنچیں گے، وہاں پہنچ کر تھوڑے ہی دن گزریں کہ دجال بھی نکل پڑے گا اور دجال یہودیوں کی قوم میں سے ہوگا، اول شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور دعوی نبوت کا کرے گا ،پھر اصفہان میں پہنچیں گاوہاں کے ستر ہزار یہودی اس کے ساتھ ہوجائیں گے اور خدائی کا دعوی شروع کردے گااسی طرح بہت سے ملکوں پر گزرتا ہوا یمن کی سرحد تک پہنچے گا اور ہر جگہ سے بہت سے بددین ساتھ ہوتے جائیں گے؛ یہاں تک کہ مکہ معظمہ کے قریب آکر ٹھہرے گا ؛لیکن فرشتوں کی حفاظت کی وجہ سے اندرنہ جانےپائےگا پھر وہاں سے مدینہ کا ارادہ کرے گا اور وہاں بھی فرشتوں کا پہرہ ہوگا جس سے اندر نہ جانے پائے گامگر مدینہ کو تین بار زلزلہ آئے گا اور جتنے آدمی سست اور کمزور ہوں گے سب زلزلہ سے ڈرکر مدینہ سے باہر نکل کرکھڑے ہوں گے اور دجال کے پھندے میں پھنس جائیں گے ،اس وقت مدینہ میں کوئی بزرگ ہوں گے جو دجال سے خوب بحث کریں گے ،دجال جھنجلاکر ان کو قتل کردے گا اور پھر زندہ کرکے پوچھے گا اب تو میرے خدا ہونے کا قائل ہوتے ہو؟ وہ فرمائیں گے  کہ اب تو اور یقین ہوگیا کہ تو دجال ہے پھر وہ ان کو مارنا چاہےگا ؛مگر اس کا کچھ بس نہ چلےگا اور ان پر کوئی چیز اثر نہ کرے گی، وہاں سے دجال ملک شام کو روانہ ہوگا ،جب دمشق کے قریب پہنچے گا اور حضرت امام وہاں پہلےسے پہنچ چکے ہوں گے اور لڑائی کے سامان میں مشغول ہوں گے کہ عصر کا وقت آجائے گا اور موذن اذان کہے گا اور لوگ نماز کی تیاری میں ہوں گے کہ اچانک حضرت عیسیؑ دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے اترتے نظر آئیں گے اور جامع مسجد کی مشرق کی طرف کے منارے  پر آکر ٹھہریں گے  اور وہاں سے زینہ لگا کر نیچے تشریف لائیں گے، حضرت امام سب لڑائی کا سامان ان کے سپرد کرنا چاہیں گے وہ فرمائیں گے لڑائی کا انتظام آپ ہی رکھیں میں خاص دجال کے قتل کرنے کو آیا ہوں، غرض !جب رات گزر کر صبح ہوگی حضرت امام لشکر کو آراستہ فرمائیں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام ایک گھوڑا ایک نیزہ منگا کردجال کی طرف بڑھیں گے اور اہل اسلام دجال کے لشکر پر حملہ کریں گے اور بہت سخت لڑائی ہوگی اور اس وقت حضرت عیسیؑ کی سانس میں یہ تاثیر ہوگی کہ  جہاں تک نگاہ جائے وہاں تک سانس پہنچ سکے اور جس کافر کو سانس کی ہوا لگادیں وہ فوراً ہلاک ہوجائے، دجال حضرت عیسی علیہ السلام کو دیکھ کر بھاگے گا،آپ اس کا پیچھا کریں گے؛ یہاں تک کہ باب لدا ایک مقام ہے وہاں پہنچ کر نیزے سے اس کا کام تمام کردیں گے اورمسلمان دجال کے لشکر کو قتل کرنا شروع کریں گے اور خدا تعالی کے فضل سے اس وقت کوئی کافر نہ رہے گا پھر حضرت امام کا انتقال ہوجائے گا اور سب بندوبست حضرت عیسی علیہ السلام کے ہاتھ میں آجائے گا پھر یاجوج ماجوج نکلیں گے ان کے رہنے کی جگہ جہاں شمال کی طرف آبادی ختم ہوئی ہے  اس سے بھی آگے سات ولایت سے باہر ہے اور ادھر کا سمندر زیادہ سردی کی وجہ سے ایسا جمع ہوا ہے کہ اس میں جہاز بھی نہیں چل سکتا،حضرت عیسیؑ مسلمانوں کو خدا تعالی کے حکم کے موافق طور پہاڑ پر لے جائیں گے اور یاجوج ماجوج بڑا اودھم مچائیں گے ،آخر کو اللہ تعالی ان کو ہلاک کریں گے اور عیسی علیہ السلام پہاڑ سے اتر آئیں گے اور چالیس برس کے بعد حضرت عیسیؑ وفات فرمائیں گے اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے میں دفن ہوں گے اور آپ کی گدی پر ایک شخص ملک یمن کے رہنے والے بیٹھیں گے جن کا نام جحجاح ہوگا وہ قحطان کے قبیلے سے ہوں گے اور بہت دینداری اور انصاف کے ساتھ حکومت کریں گے، ان کے بعد آگے پیچھے اور کئی بادشاہ ہوں گے ،پھر رفتہ رفتہ نیک باتیں کم ہونا شروع ہوں گی اور بری باتیں بڑھنے لگیں گی، اس وقت آسمان پر ایک دھواں سا چھا جائے گا اور زمین پر برسے گا جس سے مسلمانوں کو زکام اور کافروں کو بیہوشی  ہوگی ،چالیس روز کے بعد آسمان صاف ہوجائے گا اور اسی زمانہ کے قریب بقرعید کا مہینہ ہوگا، دسویں تاریخ کے بعد دفعۃ ایک رات اتنی لمبی ہوگی کہ مسافروں کا دل گھبرا جائے گا اور بچے سوتے سوتے اکتا جائیں گے اور چوپائے جانور  جنگل میں جانے کے لیے چلانے لگیں گے اور کسی طرح صبح نہ ہوگی؛ یہاں تک کہ تمام آدمی ہیبت اور گھبراہٹ سے بیقرار ہوجائیں گے، جب تین راتوں کے برابر وہ رات ہوچکے گی اس وقت سورج تھوڑے روشنی لیے ہوئے جیسے گہن لگنے کے وقت ہوتا ہے مغرب کی طرف نکلے گا اس وقت کسی کا ایمان یا توبہ قبول نہ ہوگی۔
جب سورج اتنا اونچا ہوجائے گا جتنا دوپہر سے پہلے ہوتا ہے پھر خدا تعالی کے حکم سے مغرب ہی کی طرف لوٹے گا اور دستور کے موافق  غروب ہوگا، پھر ہمیشہ اپنے قدیم قاعدے کے موافق روشن اور رونق دار نکلتا رہےگا، اس کے تھوڑے ہی دن کے بعد صفا پہاڑ جو مکہ میں آکر پھٹ جائےگا اور اس جگہ سے ایک جانور بہت عجیب شکل وصورت کا نکل کرلوگوں سے باتیں کرےگا اور بڑی تیزی سے ساری زمین میں پھر جائے گا اور ایمان والوں کی پیشانی پر حضرت موسی علیہ السلام کے عصا سے نورانی لکیر کھینچ دےگاجس سے سارا چہرہ اس کا روشن ہوجائے گا اور بے ایمانوں کی ناک یا گردن پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگھوٹی سے سیاہ  مہر کردے گا جس سے اس کا سارا چہرہ میلا ہوجائے گا اور یہ کام کرکے وہ غائب ہوجائے گا اس کے بعد جنوب کی طرف سے ایک ہوا نہایت فرحت دینے والی چلے گی اس سے سب ایمان والوں کی بغل میں کچھ نکل آئے گا جس سے وہ مرجائیں گے، جب سب مسلمان مرجائیں گے اس وقت کافر حبشیوں کا ساری دنیا میں عمل دخل ہوجائے گا اور وہ لوگ خانۂ  کعبہ کو شہید کریں گے اور حج بند ہوجائے گا اور قرآن شریف دلوں سے اور کاغذوں سے اٹھ جائے گا  اور خدا کا خوف  اور خلقت کی شرم سب اٹھ جائے گی اور کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا، اس وقت ملک شام میں بہت ارزانی ہوگی لوگ اونٹوں اور سواریوں پر پیدل ادھر جھک پڑیں گے اور جو رہ جائیں گے ایک آگ پیدا ہوگی اور سب کو ہانکتی ہوئی  شام پہنچادے گی اور حکمت اس میں یہ ہے کہ قیامت کے روز سب مخلوق اسی میں جمع ہوگی پھر وہ آگ غائب ہوجائے گی اور اس وقت دنیا کو بڑی ترقی ہوگی،تین چار سال اسی حال سے گزریں گے کہ دفعۃ جمعہ کے دن محرم کی دسویں تاریخ صبح کے وقت سب لوگ اپنے اپنے کام میں لگے ہوں گے کہ صور پھونکدیا جائے گا،اول ہلکی ہلکی آواز ہوگی پھر اس قدر بڑھے گی کہ اس کی ہیبت سے سب مرجائیں گے ،زمین وآسمان پھٹ جائیں گے اور دنیا فنا ہوجائے گی اور جب آفتاب مغرب سے نکلا تھا اس وقت سے صور کے پھونکنے تک ایک سو بیس برس کا زمانہ ہوگا اب یہاں سے قیامت کا دن شروع ہوگا۔        
(بہشتی زیور،از قیامت نامہ شاہ رفیع الدینؒ،یہ مضامین احادیث میں مسلسل نہیں ہیں بلکہ شاہ رفیع الدین صاحب نے متفرق احادیث کو جمع کرکے ترتیب دیا ہے۔)


********************************

احوال برزخ

مرنے کےبعد

مرنے کے بعد تین منزلیں آنے والی ہیں: پہلی منزل مرنے کے وقت سے لے کر قیامت آنے تک کی ہے،اس کو عالمِ برزخ کہتے ہیں،مرنے کے بعد آدمی کا جسم چاہے زمین میں دفن کردیا جائے،چاہے دریا میں بہادیاجائے، چاہے جلاکر راکھ کردیاجائے،لیکن اس کی روح کسی صورت میں بھی فنا نہیں ہوتی،صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ ہماری اس دنیا سے منتقل ہوکر ایک دوسرے عالم میں چلی جاتی ہے ،وہاں اللہ کے فرشتے اس کے دین ومذہب کے متعلق اس سے کچھ سوالات کرتے ہیں وہ اگر سچا ایمان والا ہے تو صحیح صحیح جواب دے دیتا ہے جس پر فرشتے اس کو خوش خبری سنادیتے ہیں،کہ توقیامت تک چین وآرام سے رہ اور اگروہ مومن نہیں ہوتا بلکہ کافر، یا صرف نام کا مسلمان منافق ہوتا ہے تو اسی وقت سے سخت عذاب اوردکھ میں مبتلاکردیا جاتا ہے ،جس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہتا ہے،یہی برزخ کی منزل ہے،جس کا زمانہ مرنے کے وقت سے لیکر قیامت تک کا ہے۔
عالم برزخ کےحالات درج ذیل احادیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں:

 عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا وُضِعَتْ الْجِنَازَةُ وَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً قَالَتْ قَدِّمُونِي وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ يَا وَيْلَهَا أَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا، يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ وَلَوْ سَمِعَهُ صَعِقَ۔

 

(بخاری،بَاب حَمْلِ الرِّجَالِ الْجِنَازَةَ دُونَ النِّسَاءِ،حدیث نمبر:۱۲۳۰)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب نعش(چار پائی) پر رکھ دی جاتی ہےاور لوگ اس کو اپنی گردنوں پر اٹھالیتے ہیں تو وہ اگر نیک تھا تو کہتا ہے کہ مجھے جلد لے چلو اور وہ اگر نیک نہ تھا تو گھر والوں سے کہتا ہے کہ ہائے میری بربادی مجھے کہاں لے جاتے ہو (پھر فرمایا)کہ انسان کے علاوہ ہر چیز اس کی آواز سنتی ہے اگر انسان اس کی آواز سن لے تو  بے ہوش ہوجائے۔

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ رِبْعِيٍّ عَنْ حُذَيْفَةَعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ يُسِيءُ الظَّنَّ بِعَمَلِهِ فَقَالَ لِأَهْلِهِ إِذَا أَنَا مُتُّ فَخُذُونِي فَذَرُّونِي فِي الْبَحْرِ فِي يَوْمٍ صَائِفٍ فَفَعَلُوا بِهِ فَجَمَعَهُ اللَّهُ ثُمَّ قَالَ مَا حَمَلَكَ عَلَى الَّذِي صَنَعْتَ قَالَ مَا حَمَلَنِي إِلَّا مَخَافَتُكَ فَغَفَرَ لَهُ۔


(بخاری،بَاب الْخَوْفِ مِنْ اللَّه،حدیث نمبر:۵۹۹۹)

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم سے پہلے(زمانےمیں) ایک آدمی اپنے اعمال کی وجہ سے برا گمان رکھتا تھا وہ شخص اپنے گھر والوں سے کہنے لگا جب میں مرجاؤں تو مجھے  ریزہ ریزہ کرکے گرم دن میں اٹھاکر دریا میں ڈال دینا،  گھر والوں نے ایسا ہی کیا، اللہ نے اس کو جمع کیا پھر پوچھا تجھے ایسا کرنے کے لیے کس چیز نے ابھارا،اس نے کہا مجھے کسی نے نہیں ابھارا سوائے آپ کے ڈر کے  تو اللہ نے اس کی مغفرت فرمادی۔

 عن قيس بن قبيصةمن لم يوص لم يؤذن له في الكلام مع الموتى قيل يا رسول  اللہ ويتكلمون قال رغم يتزاورون۔

(دیلمی ،مسندالفردوس ،حدیث نمبر:۵۹۴۵)(سندہ ضعیف،الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ ،ذکر من اسمہ قیس،۲/۴۷۶)

جس نے وصیت نہیں کی اس کو بات کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی مردوں کے ساتھ کسی نےعرض کیایا رسول اللہ کیا مردے کلام بھی سنتے ہیں،ارشاد فرمایا: ہاں اور ایک دوسرے سےملاقات بھی کرتے ہیں۔




قبر کے احوال

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ( ایک دن) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں قبرستان گئے،جب قبر تک پہنچے تو دیکھا کہ ابھی لحد نہیں بنائی گئی ہے اس وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے آس پاس (باادب)اس طرح بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ سلیہ وسلم کے ہاتھ مبارک میں ایک لکڑی تھی جس سے زمین کرید رہے تھے (جیسے کوئی غمگین کرتا ہے )آپ نے سر مبارک اٹھا کر فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو دو یا تین مرتبہ یہی فرمایا ،پھر فرمایا کہ بلا شبہ جب مؤمن بندہ دنیا سے جانے اور آخرت کا رخ کرنے کو ہوتا ہے تو اس کےپاس آسمان سے فرشتے آتے ہیں ،جن کے سفید چہرے سورج کی طرح روشن ہوتے ہیں ،ان کے ساتھ جنتی کفن ہوتا ہے اور جنت کی خوشبو ہوتی ہے یہ فرشتے اس قدر ہوتے ہیں کہ جہاں تک اس کی نظر پہنچے وہاں تک بیٹھ جاتے ہیں پھر حضرت ملک الموت تشریف لاتے ہیں حتی کے اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اے پاکیزہ روح اللہ کی مغفرت اور اس کی رضامندی کی طرف چل؛چنانچہ اس کی روح اس طرح سہولت سے نکل آتی ہے جیسے مشکیزہ میں سے(پانی کا )قطرہ باہر آجاتا ہے ،پس اسے حضرت ملک الموت علیہ السلام لے لیتے ہیں ان کے ہاتھ میں لیتے ہی دوسرے فرشتے(جو دور تک بیٹھے ہوتے ہیں )پل بھر بھی ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے حتی کہ اسے لے کر اسی کفن اور خوشبو میں رکھ کر لیتے ہیں اس خوشبو کے متعلق ارشاد فرمایا کہ زمین پر جو کبھی عمدہ سےعمدہ خوشبو  مشک کی پائی گئی ہے اس جیسی وہ خوشبو ہوتی ہے ،پھر فرمایا کہ اس روح کو لے کر فرشتے (آسمان کی طرف)چڑھنے لگتے ہیں اور فرشتوں کی جس جماعت پر بھی ان کا گزر ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ کون پاکیزہ روح ہے وہ اس کا اچھے سے اچھا نام لے کر جواب دیتے ہیں جس سے دنیا میں بلایا جاتاتھاکہ فلاں کا بیٹا فلاں ہے اسی طرح پہلے آسمان تک پہنچتے ہیں اور آسمان کا دروازہ کھلواتے ہیں ؛چنانچہ دروازہ کھول دیا جاتا ہے (اور وہ اس روح کو لے کر اوپر چلے جاتے ہیں )حتی کہ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتے ہیں،ہر آسمان کے مقربین دوسرے آسمان تک اسے رخصت کرتے ہیں(جب ساتویں آسمان تک پہنچ جاتے ہیں)تو اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میرے بندے کانام علیین میں لکھ دو اور اسے زمین پر واپس لے جاؤ،کیونکہ میں نے انسان کو زمین ہی سے پیدا کیا ہے اور اسی میں ان کو لوٹادوں گا اور اسی سے ان کو دوبارہ نکالوں گا چنانچہ اس کی روح اس کے جسم میں واپس کردی جاتی ہے اس کے بعد دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟وہ جواب دیتا ہے میرا رب اللہ ہے پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟وہ جواب دیتا ہے میرا دین اسلام ہے پھر اس سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون صاحب ہیں جو تمہارے اندر بھیجے گئے ہیں ؟وہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں (صلی اللہ علیہ وسلم)پھر اس سے دریافت کرتے ہیں کہ تیرا عمل کیا ہے ؟وہ کہتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی سو اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی، اس کے بعد ایک منادی آسمان سے آواز دیتا ہے (جو اللہ کا منادی ہوتا ہے)کہ میرے بندہ نے سچ کہا سو اس کے لیے جنت کے بچھونے بچھادو اور اس کو جنت کے کپڑے پہنادو اور اس  کے لیے جنت کی طرف دروازہ کھول دو ؛چنانچہ جنت کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے جس کے ذریعے جنت کا آرام اور خوشبو آتی رہتی ہے اور اس کی قبر اتنی کشادہ کردی جاتی ہے کہ جہاں تک اس کی نظر پہنچے،اس کے بعد نہایت خوبصورت چہرے والا بہترین لباس والا ،پاکیزہ خوشبو والا ایک شخص اس کے پاس آکر کہتا ہے کہ خوشی کی چیزوں کی بشارت سن لے یہ تیرا وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا وہ کہتا ہے تم کون ہو ؟تمہارا چہرہ  حقیقت میں چہرہ  کہنے کے لائق ہے اور اس لائق ہے کہ اچھی خبر لائے وہ کہتا ہے میں تیرا عملِ صالح ہوں،اس کے بعد وہ (خوشی میں) کہتا ہےکہ اے رب قیامت قائم فرما تاکہ  میں اپنے اہل وعیال اور مال میں پہنچ جاؤں۔
اور بلا شبہ جب کافر بندہ دنیا سے جانے اور آخرت کا رخ کرنے کو ہوتا ہے تو سیاہ چہرے والے فرشتے آسمان سے اس کے پاس آتے ہیں جن  کے ساتھ ٹاٹ ہوتے ہیں اور اس کے پاس اتنی دور تک بیٹھ جاتے ہیں، جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے  پھر ملک الموت تشریف لاتے ہیں حتی کے اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ اے خبیث جان اللہ کی ناراضگی کی طرف نکل ملک الموت کا یہ فرمان سن کر روح اس کے جسم میں ادھرادھربھاگی پھرتی ہے ؛لہذا ملک ا لموت اس کے جسم سے روح کو اس طرح نکالتے ہیں جیسے بوٹیاں بھوننے کی سیخ بھیگے ہوئے اون سے صاف کی جاتی ہے ،پھر اس کی روح کو ملک الموت( اپنے ہاتھ میں) لے لیتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں لیتے ہی دوسرے فرشتے پل جھپکنے کے برابر بھی ان کے پاس نہیں چھوڑتے حتی کے فورا ان سے لے کر اس کو ٹاٹوں میں لپٹ دیتےہیں(جو ان کے پاس ہوتے ہیں )اور ان ٹاٹوں میں سے ایسی بدبو آتی ہے جیسی کبھی کسی بدترین سڑی ہوئی مردہ نعش سے روئے زمین پر بد بو پھوٹی ہو وہ فرشتے اسے لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں اور فرشتوں کی جس جماعت پر پہنچتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ کون خبیث روح ہے وہ اس کا برے سے برا نام لے کر کہتے ہیں جس سے وہ دنیا میں بلایا جاتا تھا کہ فلاں کا بیٹا فلاں ہے حتی کے وہ اسے لے کر پہلے آسمان تک پہنچتے ہیں اور دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں مگر اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

 لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ اَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَـنَّۃَ حَتّٰی یَـلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ

(اعراف:۴۰)۔

ان کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گےاور نہ وہ کبھی جنت میں داخل ہوں گےجب تک اونٹ سوئی کے ناکے میں نہ چلا جائے۔

(اور اونٹ سوئی کے ناکے میں جا نہیں سکتا لہذا وہ بھی جنت میں نہیں جاسکتے)۔

 

پھر اللہ عز وجل فرماتے ہیں کہ اس کانام سجین میں لکھ دوجو سب سے نیچی زمین میں ہے چنانچہ اس کی روح سب سے نیچی زمین میں پھینک دی جاتی ہے،پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

 وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اَوْ تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ

(حج:۳۱)

اور جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا وہ آسمان سے گر پڑا پھر پرندوں نے اس کی بوٹیاں نوچ لیں یا ہوا نے اس کو دور دراز جگہ میں لے جاکر پھینک دیا ۔

پھر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹادی جاتی ہے،اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھاکر پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے وہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے پتہ نہیں پھر اس سے دریافت کرتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے وہ کہتا ہے مجھے پتہ نہیں پھر اس سے دریافت کرتے ہیں کہ یہ شخص کون ہے جو تمہارے پاس بھیجے گئے وہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے پتہ نہیں ،پھر آسمان سے ایک منادی آواز دیتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہااس کے نیچے آگ بچھا دو اس کے لیے دوزخ کا دروازہ کھول دو چنانچہ دوزخ کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور دوزخ کی تپش اور سخت گرم لو آتی رہتی ہے اور قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے حتی کے اس کی پسلیاں آپس میں ملکر ادھر کی ادھر چلی جاتی ہیں ،اور اس کے پاس ایک شخص آتا ہے جو بد صورت اور برے کپڑے پہنے ہوئے ہوتا ہے اس کے جسم سے بری بدبو آتی ہے وہ شخص اس سے کہتا ہے مصیبت کی خبر سن لے یہ وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا وہ کہتا ہے تو کون ہے واقعی تیری صورت اسی لائق ہے کہ بری خبر سنائے وہ کہتا ہے کہ میں تیرا برا عمل ہوں،یہ سن کر(اس ڈر سے کہ میں قیامت میں اس سے زیادہ عذاب میں گرفتار ہوں گا )یہ کہتا ہے کہ یارب !قیامت قائم نہ کر۔

(مسند احمد،حدیث براء بن عازب،حدیث نمبر:۱۷۸۰۳)




قبر کا عذاب برحق ہے

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ أَوْ مَكَّةَ فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَيْنِ يُعَذَّبَانِ فِي قُبُورِهِمَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ ثُمَّ قَالَ بَلَى كَانَ أَحَدُهُمَا لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ وَكَانَ الْآخَرُ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ثُمَّ دَعَا بِجَرِيدَةٍ فَكَسَرَهَا كِسْرَتَيْنِ فَوَضَعَ عَلَى كُلِّ قَبْرٍ مِنْهُمَا كِسْرَةً فَقِيلَ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ فَعَلْتَ هَذَا قَالَ لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ تَيْبَسَا أَوْ إِلَى أَنْ يَيْبَسَا۔

(بخاری ،بَاب مِنْ الْكَبَائِرِ أَنْ لَا يَسْتَتِرَ مِنْ بَوْلِهِ،حدیث نمبر:۲۰۹)

ترجمہ:حضرت ا بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ یا مکہ کی دیواروں کے پاس سے گزررہے تھے اتنے میں دو انسانوں کی آواز سنی جن کو قبر میں عذاب دیا جارہا تھا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ان دونوں کو عذاب ہورہا ہے اور کسی بڑے کام کی وجہ سے عذاب نہیں ہورہا ہے(؛ بلکہ ایسی معمولی باتوں پر جن سے بچ سکتے تھے)؛پھر آپ نے فرمایا ان دونوں میں سے ایک پیشاب سے نہیں بچتا تھااور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا؛پھر آپ نے ایک تر ٹہنی منگائی پھر اس کے دو ٹکڑے کیے پھر ایک ایک ٹکڑا دونوں قبروں پر رکھ دیا،صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے ایسا کیوں کیا آپ نے فرمایا شائد ان دونوں  کا عذاب ان کے سوکھنے تک ہلکا کردیا جائے۔ 

كَانَ عُثْمَانُ إِذَا وَقَفَ عَلَى قَبْرٍ بَكَى حَتَّى يَبُلَّ لِحْيَتَهُ فَقِيلَ لَهُ تُذْكَرُ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَلَا تَبْكِي وَتَبْكِي مِنْ هَذَا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلَّا الْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ۔

(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِي ذِكْرِ الْمَوْتِ،حدیث نمبر:۲۲۳۰)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ داڑھی مبارک تر ہوجاتی تھی سوال کیا گیا کہ آپ جنت ودوزخ کا تذکرہ کرکے نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر (اس قدر)روتے ہیں حضرت عثمان نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بیشک قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے سو اگر اس سے نجات پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ آسان ہیں اور اگر نجات نہ پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہیں حضرت عثمان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں نے کبھی کوئی منظر قبر کے عذاب سے زیادہ سخت نہیں دیکھا۔

عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَاتَ الْمَيِّتُ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ فَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ ثُمَّ يُقَالُ هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔

(ترمذی،قَالَ أَبُو عِيسَى وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،باب ما جاء فی عذاب القبر،حدیث نمبر:۹۹۲)

حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاجب انسان کا انتقال ہوجاتا ہے تواس پر صبح وشام اس کا ٹھکانا پیش کیا جاتا ہے،اگر وہ اہل جنت میں سے ہے تو جنت والوں کا مقام  اور اگر اہل جہنم میں سے ہے تو جہنم والوں کا مقام(اس کو دکھایا جاتا ہے) پھر کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ اللہ تجھ کو قیامت کے دن اٹھائے گا۔



عذاب ِقبر سے پناہ مانگی جائے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو وَيَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ۔

(بخاری،بَاب التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ،حدیث نمبر:۱۲۸۸)

 حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے اور یوں کہتے : اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ :اے اللہ میں تجھ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں اور جہنم کے عذاب سے اور زندگی وموت کے فتنے سے اور دجال کے فتنے سے۔

********************************

میدانِ حشر

میدان حشر کا اجمالی خاکہ

مرنے کے بعد کی تین منزلوں میں پہلی منزل عالم برزخ یعنی قبر کی ہے جس کا تذکرہ اوپر مذکور ہوا ،اس کے بعد دوسری منزل قیامت اورحشر کی ہے،قیامت کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اللہ کے حکم سے یہ ساری دنیا ایک دم فنا کردی جائے گی(یعنی جس طرح سخت قسم کے زلزلوں سے علاقے کے علاقے ختم ہوجاتے ہیں؛اسی طرح سے اس وقت ساری دنیا درہم برہم ہوجائے گی اور سب چیزوں پر ایک دم فنا آجائیگی) پھر عرصہ درازکے بعداللہ تعالی جب چاہے گا سب انسانوں کو پھر سے زندہ کرے گا،اس وقت ساری دنیا کے اگلے پچھلے سب انسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے اور ان کی دنیوی زندگیوں کا پورا حساب ہوگا،جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
جب صور پھونکنے سے تمام دنیا فنا ہوجائے گی چالیس برس اسی سنسانی کی حالت میں گزر جائیں گے پھر حق تعالی کے حکم سےدوسری بار صور پھونکا جائے گا اور پھر زمین آسمان اسی طرح قائم ہوجائیں گے اور مردے قبروں سے زندہ ہوکر نکل پڑیں گے اور میدانِ قیامت میں اکھٹے کردیے جائیں گے اور آفتاب بہت نزدیک ہوجائے گا جس کی گرمی سے دماغ لوگوں کے پکنے لگیں گے اور جیسے جیسے لوگوں کے گناہ ہوں گے اتنا ہی زیادہ پسینہ نکلےگا اور لوگ اس میدان میں بھوکے کھڑے کھڑے پریشان ہوجائیں گے ،جو نیک لوگ ہوں گے ان کے لیے اس زمین کی مٹی مثل میدے کے بنادی جائےگی،اس کو کھاکر بھوک کا علاج کریں گے اور پیاس بجھانے کو حوض کوثر پر جائیں گے پھر جب میدان قیامت میں کھڑے کھڑے دق ہوجائیں گے اس وقت سب مل کر اول حضرت آدمؑ کے پاس پھر اور نبیوں کے پاس اس بات کی سفارش کرانے کے لیے جائیں گے کہ ہمارا حساب کتاب اور فیصلہ جلدی ہوجائےسب پیغمبر کچھ کچھ عذر کریں گے اور سفارش کا وعدہ نہ کریں گے،سب کے بعد ہمارے پیغبر کی خدمت میں حاضر ہوکر وہی درخواست کریں گےآپ    حق تعالی کے حکم سے قبول فرماکرمقام محمودمیں (کہ ایک مقام کا نام ہے)تشریف لے جاکر شفاعت فرمائیں گے، حق تعالی کا ارشاد ہوگا کہ ہم نے سفارش قبول کی، اب ہم زمین پر اپنی تجلی فرماکر حساب کتاب کیے دیتے ہیں، اول آسمان سے فرشتے بہت کثرت سے اترنا شروع ہوں گے اور تمام آدمیوں کو ہر طرف سے گھیر لیں گےپھر حق تعالی کا عرش اترےگا اس پر حق تعالی کی تجلی ہوگی اور حساب کتاب شروع ہوجائے گا اور اعمال نامے اڑائے جائیں گے ایمان والوں کے داہنے ہاتھ میں اور بے ایمانوں کے بائیں ہاتھ میں وہ خود بخود آجائیں گے اور اعمال تولنے کی ترازو کھڑے کی جائے گی ،جس سے سب کی نیکیاں اور بدیاں معلوم ہوجائیں گی اور پل صراط پر چلنے کا حکم ہوگاجس کی نیکیاں تول میں زیادہ ہوں گی  وہ پل سے پار ہوکر بہشت میں جا پہنچے گا اور جس کے گناہ زیادہ ہوں گے اگر اللہ تعالی نے معاف نہیں کیے ہیں تو وہ دوزخ میں گر جائے گا اور جس کی نیکیاں اور گناہ برابر ہوں گے ایک مقام ہے اعراف جنت ودوزخ کے بیچ میں وہ وہاں رہ جائے گا، اس کے بعد ہمارے پیغمبر   اور دوسرے حضرات انبیاءؑ اور عالم اور ولی اور شہید اور حافظ اور نیک بندے گنہگار لوگوں کو بخشوانےکےلیے شفاعت کریں گے، ان کی شفاعت قبول ہوگی،اور جس کے دل میں ذرا سا بھی ایمان ہوگا وہ دوزخ سے نکال کر بہشت میں داخل کردیا جائے گا اس طرح جو لوگ اعراف میں ہوں گے وہ بھی آخر کو جنت میں داخل کردیے جائیں گےاور دوزخ میں خالی وہی لوگ رہے جائیں گے جو بالکل کافر ومشرک ہیں اور ایسے لوگوں کو کبھی دوزح سے نکلنانصیب نہ  ہوگا،جب سب جنتی اور دوزخی اپنے اپنے ٹھکانے  ہوجائیں گے اس وقت اللہ تعالی دوزخ اور جنت کے بیچ میں موت کو ایک مینڈھے کی صورت میں ظاہر کرکے  سب جنتیوں اور دوزخیوں کو دکھلاکراس کو ذبح کرادیں گے اور فرمائیں گے کہ اب نہ جنتیوں کو موت آئےگی نہ دوزخیوں کو آئے گی، سب کواپنے اپنے ٹھکانوں پر رہنا ہوگا،اس وقت نہ جنتیوں کے خوشی کی کوئی حد ہوگی اور نہ دوزخیوں کے صدمےاور رنج کی کوئی انتہا ہوگی ۔

(بہشتی زیور)




شفاعتِ کبریٰ

قیامت کے روز اللہ تعالی ایک ہی میدان میں سارے لوگوں کو جمع فرمائیں گے،سورج ان سے قریب ہوگا،لوگ بے چینی کے عالم میں ہوں گے،اس گھٹن اور پریشانی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے لوگ مقربین بارگاہ رب العزت کو تلاش کرتے ہوئے انبیاء علیہم السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے،انبیاء اس وقت نفسی نفسی کہہ کر آگے بھیجتے رہیں گے،آخر میں سارے لوگ رحمت عالم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے،اس وقت کا حال  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

میں روانہ ہوجاؤں گا اور عرش کے نیچے آکر اپنے رب کے لیے سجدہ میں پڑ جاؤں گا پھر اللہ تعالی مجھ پراپنی تعریفیں اور وہ بہترین ثناء منکشف فرمائیں گےجو مجھ سے پہلے کسی پر منکشف نہ فرمائی تھی؛ پھرارشاد ربی ہوگا اے محمد سر اٹھاؤاور مانگو تمہارا سوال پورا کیا جائے گا،سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی،الخ۔

(بخاری،بَاب ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ،حدیث نمبر:۴۳۴۳)




حشر کے دن کیا ہوگا؟

یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْن ﴿المطففين: ٦﴾

جس دن سب لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے

یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ،فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُم، اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ، وَاَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْھُھُمْ فَفِیْ رَحْمَۃِ اللہِ،ۭ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ

(اٰل عمران:۱۰۶۔۱۰۷)   

  اس دن جب کچھ چہرے چمکتے ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ پڑ جائیں گے،چنانچہ جن لوگوں کے چہرے سیاہ پڑجائیں گےان سے کہا جائے گاکہ کیا تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر اختیار کرلیا،لو پھر اب مزہ چکھو اس عذاب کا کیونکہ تم کفر کیا کرتے تھے،دوسری طرف جن لوگوں کے چہرے چمکتے ہوں گےوہ اللہ کی رحمت میں جگہ پائیں گے وہ اسی میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔
حضرت ابن عباس رضی للہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ بے شک قیامت کے روز تم ننگے پاؤں ،ننگے بدن بے ختنہ جمع کیے جاؤگے یہ فرماکر قرآن مجید کی آیت كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُه(الانبیاء:۱۰۴)(جس طرح ہم نہ پہلی بار تخلیق کی ابتدا کی تھی اسی طرح ہم اسے دوبارہ پیدا کردیں گے)تلاوت فرمائی پھر فرمایا کہ سب سے پہلے قیامت کے روزابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے۔

(بخاری، باب کیف الحشر،حدیث نمبر:۶۰۴۵)





کافروں کا حشر

وَنَحْشُرُہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ عُمْیًا وَّبُکْمًا وَّصُمًّا،

(بنی اسرائیل:۹۷)۔

اور قیامت کے روز ہم ان کواندھے گونگے اور بہرے کرکے چہروں کے بل چلائیں گے۔

اللہ تعالی کے دین سے دنیا میں جن لوگوں نے آنکھیں پھیریں اور مالک حقیقی کی آیات سن کر قبول کرنے اور اقرار کرنے کے بجائے سب سنی ان سنی کردی ان کی آنکھوں اور کانوں اور زبانوں کی طاقتیں سلب کرلی جائیں گی اور گونگے بہرے ہوکر اٹھیں گے، یہ ابتدائے حشر کا ذکر ہے پھر آنکھیں اور زبانیں اور کان کھول دیے جائیں گے تاکہ محشر کے حالات اور اس کی سختیاں دیکھ سکیں اور حساب کتاب کے موقعہ پر ان سے جواب سوال کیا جاوے۔



بے نمازیوں کا حشر

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے نماز کی پابندی نہیں کی اس کے لیے نماز نہ نور ہوگی نہ نجات کا سامان ہوگی اور قیامت کے روز اس کا حشر فرعون،قارون ،ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔

(مسند احمد،مسند عبداللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:۶۲۸۸)




قرآن مجید بھول جانے والے کا حشر

وَمَا مِنْ رَجُلٍ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ ثُمَّ نَسِيَهُ إِلَّا لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَجْذَمُ

(مسند احمد،حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ،حدیث نمبر:۲۱۶۹۶)

حضرت  عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاجس شخص نے قرآن شریف پڑھااور پھر اسے(غفلت اور سستی کی وجہ سے)بھلادیا وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اجذم(کوڑھی) ہوگا۔



زکوۃ نہ دینے والےکا حشر

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جسے اللہ نے مال دیا اور اس نے اس کی زکوۃ ادا نہ کی تو قیامت کے روز اس کا مال گنجا سانپ بنادیا جائےگا،جس کی آنکھوں پر ابھرے ہوئے دو نقطے ہوں گےوہ سانپ طوق بناکر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا پھر سانپ اس کی دونوں بانچھوں کوپکڑکر کہے گامیں تیرا مال ہوں ،میں تیرا خزانہ ہوں پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

 وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَخَیْرًا لَّھُمْ،ۭ بَلْ ھُوَشَرٌّ لَّھُمْ،ۭ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ،ۭ وَلِلہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ،وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ

(ال عمران:۱۸۰)

اور جو لوگ اللہ کے دیے ہوئے میں بخل کرتے ہیں جو اس نے ان کو اپنے فضل سے دیا ہے وہ یہ خیال نہ کریں کہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے بلکہ یہ ان کے لیے وبال ہے انہیں عنقریب قیامت کے روز اس(مال)کا طوق پہنایا جائےگا جس میں انھوں نے بخل کیا تھا۔

(بخاری،بَاب وَلَا يَحْسبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ،حدیث نمبر:۴۱۹۹)




زمین غصب کرنے والے کا حشر

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاجس نے ظلماً ایک بالشت زمین بھی لی اس کو اللہ تعالی مجبور کرے گا کہ اتنا کھودے کہ ساتویں زمین کے آخر تک پہنچ جائے پھر قیامت کے دن ختم ہونے تک جب تک کہ لوگوں میں فیصلہ نہ ہووہ ساتوں زمینیں اس کے گلے میں طوق کی طرح ڈال دی جائیں گی۔

(مسند احمد،حدیث یعلی بن مرۃ الثقفی،حدیث نمبر:۱۶۹۱۳)




میدانِ حشر میں جولوگ اللہ کےسائے میں رہیں گے

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ سات شخصوں کو اس دن اللہ اپنے سایہ میں رکھے گا جبکہ اس کے سایہ کے علاوہ اور کسی کا سایہ نہ ہوگا:
(۱)مسلمانوں کا منصف بادشاہ۔
(۲)وہ جوان جس نے اللہ کی عبادت میں زندگی گزاری۔
(۳)وہ مرد جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے،جب وہ مسجد سے نکلتا ہے جب تک وہ واپس نہ آجائے(اس کا جسم باہراور دل مسجد کے اندررہتا ہے)
(۴)وہ دو شخص جنہوں نے آپس میں اللہ کے لیے محبت کی،اسی محبت کی وجہ سےجمع ہوتے ہیں اور اسی کو دل میں رکھتے ہوئےجدا ہوجاتے ہیں۔
(۵)وہ شخص جس نےتنہائی میں اللہ کو یاد کیااور اس کے آنسو بہ نکلے۔
(۶)وہ مرد جس کو صاحب حسن اور ذی جاہ عورت نے(برے کام کے لیے)بلایااور اس نے صاف جواب دے دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔
(۷)وہ شخص جس نے ایسا چھپا کر صدقہ دیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔

(بخاری،بَاب مَنْ جَلَسَ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُ الصَّلَاة،حدیث نمبر:۶۲۰)(باب الصدقۃ بالیمین،باب فضل من ترک الفواحش،)




میدانِ حشر میں نور کا تاج پہننے والے خوش نصیب

حضرت معاذ جھنی رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جس نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا،قیامت کے روز اس کے والدین کوایک تاج پہنایا جائے گاجس کی روشنی آفتاب کی اس روشنی سے بھی اچھی ہوگی جو دنیاکے گھروں میں اس وقت ہوتی ہے جب کہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو، اب تم ہی بتاؤ کہ جب اس کے والدین کا یہ حال ہے تو خود جس نے اس پر عمل کیا ہوگا اس کا کیسا اعزاز ہوگا۔

(ابو داؤد،باب فِي ثَوَابِ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ،حدیث نمبر:۱۲۴۱)




میدان حشر میں اپنے باپوں کے نام سے بلائے جائیں گے

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ۔

(ابو داؤد،قَالَ أَبُو دَاوُد ابْنُ أَبِى زَكَرِيَّا لَمْ يُدْرِكْ أَبَا الدَّرْدَاءِ، بَاب فِي تَغْيِيرِ الْأَسْمَاءِ،حدیث نمبر:۴۲۹۷)

حضرت ابو الدرداءرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم قیامت کے روز اپنے ناموں اور اپنے باپوں کے نام کے ساتھ بلائے جاؤگے؛لہٰذا تم اپنے نام اچھے رکھو۔



حوض کوثر

اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ
(اے پیغمبر)یقین جانو ہم نے تم کوکوثر عطا کی ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز ہمارے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اچانک آپ پر کچھ کیفیت طاری ہوگئی کچھ دیر کے بعد مسکراتے ہوئے سر اٹھایا،ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ     آپ کے مسکرانے کا سبب کیا ہےفرمایا:ابھی مجھ پر ایک سورت اتری ہے پھر حضور نے پڑھا:

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ،اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ الخ: 

اور ارشاد فرمایاکیا تم کو معلوم ہے کوثر کیا چیز ہے ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی بخوبی واقف ہے فرمایا:یہ ایک نہر ہے،جس کو عطا کرنے کا وعدہ مجھ سے میرے رب نے کرلیا ہے اس میں بہت سی خوبیاں (جمع) ہیں،قیامت کے دن اسی حوض پر میری امت اترے گی،اس کے ظروف ستاروں کی تعداد کے برابر ہوں گے..الخ ۔

(مسند احمد،مسند انس بن مالک،حدیث نمبر:۱۱۵۵۸)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میرے حوض کی مسافت ایک مہینہ کی ہے اور اس کے دونوں کنارے بالکل برابر ہیں یعنی اس کی لمبائی چوڑائی برابر ہے ،اس کا پانی چاندی سے زیادہ سفید ہےاور اس کی خوشبو مشک سے بھی اچھی ہے اور اس کے کوزے آسمان کے تاروں کی طرح (بے شمار)ہیں،جو اس کا پانی پی لے گا اس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی ۔

(مسلم،باب اثبات حوض نبینا،حدیث نمبر:۴۲۴۴)




سب سے پہلے حوض پر پہنچنے والے خوش نصیب

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حَوْضِي كَمَا بَيْنَ عَدَنَ وَعَمَّانَ أَبْرَدُ مِنْ الثَّلْجِ وَأَحْلَى مِنْ الْعَسَلِ وَأَطْيَبُ رِيحًا مِنْ الْمِسْكِ أَكْوَابُهُ مِثْلُ نُجُومِ السَّمَاءِ مَنْ شَرِبَ مِنْهُ شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا أَبَدًا أَوَّلُ النَّاسِ عَلَيْهِ وُرُودًا صَعَالِيكُ الْمُهَاجِرِينَ قَالَ قَائِلٌ وَمَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الشَّعِثَةُ رُءُوسُهُمْ الشَّحِبَةُ وُجُوهُهُمْ الدَّنِسَةُ ثِيَابُهُمْ لَا يُفْتَحُ لَهُمْ السُّدَدُ وَلَا يَنْكِحُونَ الْمُتَنَعِّمَاتِ الَّذِينَ يُعْطُونَ كُلَّ الَّذِي عَلَيْهِمْ وَلَا يَأْخُذُونَ الَّذِي لَهُمْ۔

(مسنداحمد،مسند عبداللہ بن عمر،حدیث نمبر:۵۸۸۷)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرا حوض اتنا بڑا ہے جتنا عدن اور عمان کے درمیان فاصلہ ہے ،برف سے زیادہ ٹھنڈااور شہد سے زیادہ میٹھا اور مشک سے بہتر اس کی خوشبو ہے، اس کے پیالے آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہیں، جو اس میں سے ایک مرتبہ پی لے گااس کے بعد کبھی بھی پیاسا نہ ہوگا،سب سے پہلے پینے کے لیے اس پر مہاجر فقراء آئیں گے ،کسی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ان کا حال بتادیجیے؟ارشاد فرمایایہ وہ لوگ ہیں (دنیا میں)جن کے سروں کے بال بکھرے ہوئے اور چہرے (بھوک اور محنت و تھکن کے باعث)بدلے ہوئے تھے اور اچھی عورتیں ان کے نکاح میں نہیں دی جاتی اور ان کے معاملات کی خوبی کا یہ حال تھاکہ ان کے ذمہ جو حق   ( کسی کا) ہوتا تھا تو سب چکا دیتے ہیں اور ان کا جو (حق کسی پر )ہوتا تھا تو پورا نہیں لیتے ،بلکہ چھوڑدیتےہیں۔



بعض لوگوں کو حوض کوثر سے ہٹایا جائے گا

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ یقین جانو(قیامت کے روز)حوض پر تمہارا میرا سامنا ہوگاجو میرے پاس ہوکر گزرے گا پی لے گااور جو پی لے گا کبھی پیاسا نہ ہوگاپھر ارشاد فرمایا ایسا ضرور ہوگاکہ پینے کے لیے میرے پاس ایسے لوگ آئیں گے جن کو میں پہچانتا ہوں گااور وہ مجھے پہچانتے ہوں گے،پھر میرے اور ان کے درمیان آڑ قائم کردی جائےگی،میں کہوں گا یہ تو میرے آدمی ہیں،اس پر کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتےہیں کہ آپ کے بعد انھوں نے کیا نئی چیزیں نکالی تھیں،یہ سن کر میں کہوں گا دورہوں دورہوں جنہوں نے میرے بعد ادل بدل کیا۔

(بخاری،باب فی الحوض،حدیث نمبر:۶۰۹۷)




میزان

وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ ۔

(الانبیاء:۴۷)

اور ہم قیامت کے دن ایسی ترازویں لارکھیں گے جو سراپا انصاف ہوں گی؛چنانچہ کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا اور اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہوگا تو ہم اسے سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔
اس آیت نے واضح فرمایا ہے کہ قیامت کے دن صرف یہی نہیں کہ تمام لوگوں سے انصاف ہوگا؛بلکہ اس بات کا بھی اہتمام کیا جائے گا کہ انصاف سب لوگوں کو آنکھوں سے نظر آئے،اس غرض کے لیے اللہ تعالی ایسی ترازویں بر سر عام نصب فرمائیں گےجن میں انسانوں کے اعمال کو تولا جائے گا اوراعمال کے وزن کے حساب سے انسانوں کے انجام کا فیصلہ ہوگا،انسان جو عمل بھی کرتا ہے اس دنیا میں اگرچہ ان کانہ کوئی جسم نظر آتا ہے اور نہ ان میں کسی وزن کا احساس ہوتا ہے لیکن آخرت میں اللہ تعالی ان کا وزن کرنے کی ایسی صورت پیدا فرمائیں گےجن سے اعمال کی حقیقت واضح ہوجائے ؛اگر انسان سردی گرمی جیسی چیزوں کو تولنے کے لیے نئے نئے آلات ایجاد کرسکتا ہے تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالی اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ ان اعمال کو تولنے کا عملی مظاہرہ فرمادیں۔

(توضیح القرآن،الانبیاء:۴۷)




اعمال کا وزن

اللہ رب العزت ہمیشہ سے ساری مخلوق کے اعمال سے واقف ہیں اگر قیامت کے میدان میں صرف اپنی معلومات کی بنا پر اعمال کی جزا وسزا دیں تو ان کو اس کا بھی حق ہے لیکن میدان حشر میں ایسا نہ ککیا جائے گا بلکہ بندوں کے سامنے ان کے اعمال نامے پیش کیے جائیں وزن ہوگا گواہیاں ہوں گی مجرمین انکاری بھی ہوں گے اور دلیل سے جرم کا اثبات کا اثبات بھی کیا جائے گا تاکہ سزا بھگتنے والے یوں نہ کہہ سکیں کہ ہم کو ظلماً بلا وجہ عذاب میں ڈالا گیا سورۂ انعام میں فرمایا:

وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (۸ )وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوا بِآيَاتِنَا يَظْلِمُونَ (۹)

(الاعراف)

اور اس دن (اعمال کا)وزن ہونا اٹل حقیقت ہے،چنانچہ جن کی ترازد کے پلے بھاری ہوں گے وہی فلاح پانے والے ہوں گے(۸)اور جن کی ترازد کے پہلے ہلکے ہوں گے وہی لوگ ہیں جنہوں نہ ہماری آیتوں کے ساتھ زیادتیاں کرکرکے خود اپنی جانوں کو گھاٹے میں ڈالا ہے(۹)
حضرت سلمانؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت سید عالم  نے فرمایا کہ قیامت کے روز اعمال تولنے کی ترازورکھ دی جائے گی(اور وہ اس قدر لمبی چوڑی ہوگی)اگر اس میں سارے آسمان وزمین رکھ کر تول دیے جاویں تو سب اس میں آجائیں اس کو دیکھ کر فرشتے بارگاہ خدا وندی میں عرض کریں گے کہ یہ کس کے لیے تولے گی؟ اللہ جل شانہ فرمائیں گےمیں اپنی مخلوق میں سے جس کے لیے(حساب کرنے کے واسطے)تول قائم کروں اس کے لیے یہ تولےگی یہ سن کر فرشتے عرض کریں گے اے اللہ آپ پاک ہیں جیسا عبادت کا حق ہےہم نے ایسی عبادت آپ کی نہیں کی

(الترغیب والترہیب)




کفار کی نیکیاں بے وزن ہوں گی

قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا (۱۰۳) الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا (۱۰۴) أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا (۱۰۵) ذَلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا

(کہف:۱۰۳تا۱۰۴)

کہہ دو کہ: کیا ہم تمہیں بتائیں کہ کون لوگ ہیں جو اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام ہیں،یہ وہ لوگ ہیں کہ دنیاوی زندگی میں ان کی ساری دوڑ دھوپ سیدھے راستے سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ بہت اچھا کام کررہے ہیں،یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے مالک کی آیتوں کا اور اس کے سامنے پیش ہونے کا انکار کیا اس لیے ان کا سارا کیا دھرا غارت ہوگیا ؛چنانچہ قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن شمار نہیں کریں گے،یہ ہے جہنم کی شکل میں ان کی سزا؛کیونکہ انہوں نے کفر کی روش اختیار کی تھی اور میری آیتوں  اور میرے پیغمبروں کا مذاق بنایا تھا۔



نظر رحمت سے دور

عَنْ أَبِي ذَرٍّعَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ قُلْنَا مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا فَقَالَ الْمَنَّانُ وَالْمُسْبِلُ إِزَارَهُ وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ۔

(ترمذی،بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ حَلَفَ عَلَى سِلْعَةٍ كَاذِبًا،حدیث نمبر:۱۱۳۲)

حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ حضور    نے فرمایا قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں پر اللہ تعالی نظررحمت نہیں فرمائیں گےاور نہ ان کو پاک وصاف فرمائیں گے اور ان کےلیے دردناک عذاب ہے،ہم نے عرض کیا وہ کون لوگ ہیں یا رسول اللہ؟ایسے لوگ تو بہت ہی ناکام اور خسارے میں ہیں، آپنے فرمایا،احسان جتانے والا،اپنے لباس کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا،جھوٹی قسم کھاکر مال فروخت کرنے والا۔



نماز کا حساب

حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ بے شک قیامت کے روز بندہ کے اعمال میں سے پہلے اس کی نماز کا حساب کیا جائے گا پس اگر نماز ٹھیک نکلی تو کامیاب اور بامراد ہوگا اور اگر نماز خراب نکلی تو نامراد اور نقصان اٹھانے والا ہوگا پس اس کے فرضوں میں کوئی کمی رہے جائے گی تو پروردگار عالم فرمائیں گے کہ دیکھو کیا میرے بندہ کے کچھ نفل بھی ہیں پس (اگر نوافل نکلےتو)جو فرضوں میں کمی ہوگی نوافل کے ذریعے پوری کردی جائے گی پھر (نماز کے بعد)اس کے باقی اعمال کا اسی طرح حساب ہوگا۔

(مشکوۃ)




حشر کے دن پانچ چیزوں کا سوال ضرور ہوگا

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے روز انسان کے قدم (حساب کی جگہ سے)نہ ہٹ سکیں گے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کا سوال نہ ہوجائے گا
(۱)عمر کا سوال ہوگا کہ کن مشغولیتوں میں فنا کردی.
(۲)جوانی کا سوال ہوگا کہ کہاں ضائع کردی.
(۳)مال کا سوال ہوگا کہ کہاں سے کمایا.
(۴)اور کہاں خرچ کیا.
(۵)علم کا سوال ہوگا کہ جو علم تھا اس پر کتنا عمل کیا۔

(ترمذی، بَاب مَا جَاءَ فِي شَأْن الْحِسَابِ وَالْقِصَاص،حدیث نمبر:۲۳۴۰شاملہ)




سب سے بڑا مفلس

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے ایک مرتبہ اپنے صحابہ  سے سوال فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہےصحابہؓ نے عرض کیا ہم تو اسے مفلس سمجھتے ہیں کہ جس کے پاس درہم(روپیہ پیسہ)اور مال واسباب نہ ہو،اس کے جواب میں آنحضرت نے ارشادفرمایامیری امت میں سے مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نماز اور روزے اور زکوۃ لے کر آئےگا(یعنی اس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں گی اور روزے بھی رکھے ہوں گے اور زکوۃ بھی ادا کی ہوگی اور ان سب کے باوجود اس حال میں (میدانِ حشر) آئےگا کہ کسی کو گالی دی ہوگی اور کسی کو تہمت لگائی ہوگی اور کسی کا ناحق مال کھایا ہوگا اور کسی کا خون بھایا ہوگا اور کسی کو بےجا اور ناحق مارا ہوگااور چونکہ  قیامت کا دن انصاف اور صحیح فیصلوں کا دن ہوگااس لیے اس شخص کا فیصلہ اس طرح کیا جائے گاجس جس کی حق تلفی کی تھی سب  کو اس کی نیکیاں باٹ دی جائیں گی کچھ نیکیاں اس حقدار کو دیدی جائیں گی اور کچھ نیکیاں اس حق دار کو دیدی جائیں گی پھر اگر حقوق پورا نہ ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو حق داروں کے گناہ اس کے سر پر ڈال دیے جائیں گے،پھر اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔


آسان حساب

حضرت عائشہؓ روایت فرماتی ہیں کہ میں نے ایک نماز میں آنحضرت کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا کہ: اللَّهُمَّ حَاسِبْنِي حِسَابًا يَسِيرًا(اے اللہ مجھ سے آسان حساب لیجیے)میں نے عرض کیا یا نبی اللہ آسان حساب کا کیا مطلب ہے ؟ارشاد فرمایا آسان حساب یہ ہے کہ اعمال نامہ میں صرف نظر کرکے درگزر کردیا جائے (اور چھان بین نہ کیجائے)یہ حقیقیت ہے کہ جس کاچھان بین کرکے حساب لیا گیا وہ ہلاک ہوا۔

(مسند احمد،حدیث عائشہؓ،حدیث نمبر:۲۳۰۸۲)




پل صراط

حضرت حذیفہ اور حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاقیامت کے دن صفت امانت اور صلہ رحمی کو(ایک شکل دے کر)چھوڑدیا جائے گا،یہ دونوں چیزیں پل صراط کے دائیں بائیں کھڑی ہوجائیں گی(تاکہ اپنی رعایت کرنے والوں کی سفارش اور نہ رعایت کرنے والوں کی شکایت کریں)تمہارا پہلا قافلہ پل صراط سے بجلی کی طرح تیزی کے ساتھ گزر جائے گا،راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا:میرے ماں باپ آپ پر قربان بجلی کی طرح تیز گزرنے کا کیا مطلب ہے ،آپ    نے ارشاد فرمایا:کیا تم نے بجلی کو نہیں دیکھاکہ وہ پل بھر میں گزر کر لوٹ بھی آتی ہے،اس کے بعد گزرنے والے ہوا کی طرح تیزی سے گزریں گےپھر تیز پرندوں کی طرح پھر جواں مردوں کے دوڑنے کی رفتار سے،غرض ہر شخص کی رفتار اس کے اعمال کے مطابق ہوگی اور تمہارے نبی    پل صراط پر کھڑے ہوکرکہہ رہے ہوں گے اے میرے رب ان کو سلامتی سے گزاردیجئے،یہاں تک کہ ایسے لوگ بھی ہوں گےجو اپنے اعمال کی کمزوری کی وجہ سے پل صراط پر گھسیٹ کر چل سکیں گے،پل صراط کے دونوں طرف لوہے کے آنکڑے لٹکے ہوئے ہوں گےجس کے بارے میں حکم دیا جائے گا وہ اس کو پکڑ لیں گے، بعض لوگوں کو ان آنکڑوں کی وجہ سے صرف خراش آئے گی وہ نجات پا جائیں گے اور بعض جہنم میں دھکیل دئے جائیں گے،حضرت ابو ھریرہ فرماتے ہیں قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں ابو ھریرہ کی جان ہے ،بلا شبہ جہنم کی گہرائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے۔

(مسلم،باب ادنی اہل الجنۃ منزلۃ فیھا،حدیث نمبر:۲۸۸)


***********************************


No comments:

Post a Comment