Monday, 9 June 2025

بیماری اور عیادت کے فضائل، احکام وآداب


دنیا دار الامتحان ہے، جس طرح ایمان سے محروم انسان کو ابتلا وآزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے، اسی طرح صاحبِ ایمان کے لیے بھی ابتلا و آزمائش مقدر ہوتی ہے، اسلام کا تصور یہ ہے کہ بیماری اور شفا اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، فرماں بردار اور نافرماں کی کوئی تخصیص نہیں ہے، حضرات انبیائے کرام بھی بیمار ہوئے ہیں، سیدالمرسلین اور امام الانبیاء بھی متعدد مرتبہ بیماری میں مبتلا ہوئے ہیں، وفات کے موقع پر تقریباً چودہ دن بیمار رہے، بیماری مومن کے لیے امتحان وآزمائش ہے، دنیا میں آزمائشیں بخشش اور مغفرت کے لیے آتی ہیں، حقیقت میں بیماری ایک نعمت ہے، گناہوں کے لیے کفارہ اور رفع درجات کا سبب ہے، بیمار کو اللہ اور بندوں سے معافی تلافی اور حقوقی کی ادائیگی کے لیے ایک موقع دیا جاتا ہے۔

اہل ایمان دنیا میں ہمیشہ مصیبت میں مبتلا رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آخرت کی دائمی راحت پالیتے ہیں:
القرآن:

اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال اور جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ“ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 155-156]

وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا يزال البلاء بالمؤمن أو المؤمنة في نفسه وماله وولده حتى يلقى الله تعالى وما عليه من خطيئة .
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مؤمن مرد یا مؤمن عورت کی جان، اس کے مال اور اس کی اولاد کو ہمیشہ مصیبت و بلاء پہنچتی رہتی ہے یہاں تک کہ (جب) وہ (مرنے کے بعد) اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرتا ہے تو اس پر (یعنی اس کے نامہ اعمال میں) کوئی گناہ نہیں ہوتا (کیونکہ مصیبت و بلاء کی وجہ سے اس کے تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں)۔
[مشکوٰۃ المصابیح:1544]

گناہوں کا کفارہ:
عن عامر الرام قال : ذكر رسول الله صلى الله عليه و سلم الأسقام فقال : إن المؤمن إذا أصابه السقم ثم أعفاه الله منه كان كفارة لما مضى من ذنوبه وموعظة له فيما يستقبل . وإن المنافق إذا مرض ثم أعفي كان كالبعير عقله أهله ثم أرسلوه فلم يدر لم عقلوه ولم يدر لم أرسلوه . فقال رجل يا رسول الله وما الأسقام ؟ والله ما مرضت قط فقال : قم عنا فلست منا.
ترجمہ:
حضرت عامر رامی ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے (ایک مرتبہ) بیماریوں کا ذکر کیا، چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مؤمن جب کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے اس بیماری سے نجات دیتا ہے تو وہ بیماری (نہ صرف یہ کہ) اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے (بلکہ) زمانہ آئندہ کے لئے باعث نصیحت (بھی) ہوتی ہے۔ یعنی بیماری اسے متنبہ کرتی ہے۔ (چنانچہ وہ آئندہ گناہوں سے بچتا ہے) اور جب منافق بیمار ہوتا ہے اور پھر اسے بیماری سے نجات دی جاتی ہے تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہوتی ہے جسے اس کے مالک نے باندھا اور پھر چھوڑ دیا اور اونٹ نے یہ نہ جانا کہ مالک نے اسے کیوں باندھا تھا اور کیوں چھوڑ دیا؟ (یہ سن کر) ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! بیماری کیا چیز ہے؟ میں تو کبھی بھی بیمار نہیں ہوا! آپ ﷺ نے فرمایا! ہمارے پاس سے اٹھ کھڑے ہو! تم ہم میں سے نہیں ہو!

تشریح:
مؤمن بیماری سے صحت پانے کے بعد متنبہ ہوجاتا ہے چناچہ وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے گناہوں کی وجہ سے بیماری میں مبتلا ہوا تھا اس لئے وہ نہ صرف یہ کہ اپنے گزشتہ گناہوں پر نادم شرمسار ہوتا ہے اور توبہ کرتا ہے بلکہ آئندہ گناہوں سے بھی بچتا ہے اس کے برعکس منافق کا حال یہ ہے کہ جب بیماری سے صحت یاب ہوتا ہے تو اس کی مثال بالکل اس اونٹ کی سی ہوتی ہے کہ جسے اگر اس کا مالک باندھ دے تو یہ نہ جانے کہ مجھے باندھا کیوں ہے اور اگر چھوڑ دے تو یہ نہ سمجھے کہ مجھے چھوڑا کیوں ہے۔ چناچہ منافق بیماری کی وجہ سے متنبہ نہیں ہوتا نہ تو وہ نصیحت و عبرت پکڑتا ہے اور نہ گناہوں پر نادم و شرمسار ہو کر توبہ کرتا ہے اسی لئے اس کی بیماری نہ تو اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے اور زمانہ آئندہ میں اس کے لئے باعث نصیحت و عبرت ہوتی ہے کہ وہ گناہوں سے بچ سکے ؓ (فاولئک کالانعام بل ھم اضل اولئک ھم الغافلون)۔ آنحضرت ﷺ کے ارشاد گرامی تم ہم میں سے نہیں ہو کا مطلب یہ ہے کہ تم ہمارے اہل طریقہ میں سے نہیں ہو، کیونکہ جس طرح ہم بیماری اور بلاؤں میں مبتلا ہوئے ہیں اس طرح تم مبتلا نہیں ہوئے ہو۔
[مشکوٰۃ المصابیح:1548]


تکلیف ومصیب مسلمان کے لئے گناہوں کا کفارہ
عن علي بن زيد عن أمية أنها سألت عائشة عن قول الله تبارك وتعالى : (إن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به الله) وعن قوله : (من يعمل سوءا يجز به) فقالت : ما سألني عنها أحد منذ سألت رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : هذه معاتبة الله العبد فيما يصيبه من الحمى والنكبة حتى البضاعة يضعها في يد قميصه فيفقدها فيفزع لها حتى إن العبد ليخرج من ذنوبه كما يخرج التبر الأحمر من الكير .
ترجمہ:
حضرت علی ؓ بن زید (بصری تابعی) امیہ سے روایت کرتے کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے معنی پوچھے اگر وہ چیز جو تمہارے دلوں میں ہے ظاہر کردو یا چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔ آیت (اور جو باتیں تمہارے دلوں میں ہیں، خواہ تم ان کو ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ تم سے ان کا حساب لے گا) [البقرۃ:284] اور اس آیت کے معنی بھی پوچھے آیت (اور جو شخص برا عمل کرے گا (یعنی خواہ صغیرہ گناہ کرے خواہ کبیرہ گناہ) تو اس کی جزاء (یعنی اس کی سزا دنیا یا آخرت میں) دی جائے گی)[النسا:123]۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ جیسا کہ میں نے اس کے بارے میں رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا تھا ویسا کسی نے مجھ سے اس مسئلہ کے بارے میں نہیں پوچھا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے (میرے دریافت کرنے پر) فرمایا کہ یہ (یعنی محاسبہ اور سزا جو دونوں آیتوں میں مذکور ہیں) اللہ تعالیٰ کا عتاب ہے جس میں بندہ بخار و رنج (کی تکلیف) کی صورت میں مبتلا ہوتا یہاں تک کہ کوئی بندہ اپنا کچھ مال اپنے کرتہ کے آستین (یا جیب) میں رکھتا ہے اور (پھر وہ مال گم ہوجاتا ہے جسے) وہ نہیں پاتا چنانچہ وہ اس مال کے نہ ملنے سے غمگین ہوتا ہے (تو اس کی وجہ سے اس کے گناہ دور کئے جاتے ہیں اور ہمیشہ یہی سلسلہ جاری رہتا ہے کہ بندہ کسی تکلیف اور رنج میں مبتلا رہتا ہے) یہاں تک کہ وہ بندہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک وصاف ہوجاتا ہے جیسا کہ سونا اور چاندی بھٹی سے (آگ میں پڑنے کی وجہ سے) سرخ نکلتا ہے۔
[سنن ترمذي:2991]

تشریح:
ان دونوں آیتوں کے معنی پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ پہلی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بندوں سے ان کے دلوں کے خطرات و وسو اس اور برے خیالات پر محاسبہ کیا جائے گا اور دوسری آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بندوں کو ہر برے عمل پر سزا دی جاتی ہے خواہ وہ عمل چھوٹا ہو یا بڑا، تھوڑا ہو یا زیادہ۔ چناچہ اس سے صحابہ ؓ پریشان ہوئے کہ کیا کریں کیونکہ ان سے بچنا ممکن نہیں چناچہ حضرت امیہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے ان آیات کا مطلب پوچھا تو انہوں نے ان آیات کی وضاحت کی جس کا حاصل یہ ہے کہ ان آیات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مؤمنین کو ان کے دل کی تمام باتوں اور ان کے تمام چھوٹے بڑے گناہوں کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کرے گا بلکہ آیات میں محاسبہ اور سزا کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤمنین کو ان سے سرزد ہوئے گناہوں کی وجہ سے دنیا میں اپنے عتاب میں مبتلا کرتا ہے بایں طور کہ کسی کو بیماری کی تکلیف میں اور کسی کو دوسرے رنج و غم میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ یہ چیزیں ان کے گناہوں کا کفار ہوجائیں۔ عتاب کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنے کسی دوست سے اس کی کسی غلط روی اور بےادبی کی وجہ سے بظاہر اس پر اپنے غصہ کا اظہار کرے مگر دل میں اس کی محبت بدستور باقی رہے۔
[مشکوٰۃ المصابیح:1534]

تکلیف ومصیب مسلمان کے لئے گناہوں کا کفارہ
وعن أبي موسى أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : لا يصيب عبدا نكبة فما فوقها أو دونها إلا بذنب وما يعفو الله عنه أكثر وقرأ : ( وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم ويعفو عن كثير) (سورۃ الشوریٰ:30)
ترجمہ:
حضرت ابوموسی ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بندہ کو جو معمولی ایذاء پہنچتی ہے یا کوئی تکلیف پہنچتی ہے خواہ وہ اس سے کم ہو یا زیادہ ہو، یہ اس کے گناہوں کا ثمرہ ہوتا ہے اور وہ گناہ جنہیں اللہ تعالیٰ (بغیر سزا دئیے) دنیا و آخرت میں بخش دیتا ہے ان گناہوں سے بہت زیادہ ہوتے ہیں جن پر وہ سزا دیتا ہے آنحضرت ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (اور جو چیز تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں پیدا کی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ بہت سے (گناہوں یا گناہ گاروں) کو معاف فرما دیتا ہے)۔(سورۃ الشوریٰ:30)
[سنن ترمذي:3252]

تشریح
مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو بھی مصیبت و تکلیف اور بیمار وغیرہ پہنچتی ہے وہ سب تمہاری بداعمالیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ گویا یہاں گنہ گاروں کو مخاطب کیا جا رہا ہے کہ اپنی بداعمالیوں اور غلط کاریوں سے باز آجاؤ اور نیک راستہ پر چلنے ہی کو اپنی دینی و دنیوی راحت و سکون کا ذریعہ جانو، ہاں جب وہ لوگ کسی مصیب و تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں جو گناہ گار نہیں ہوتے تو اس سے ان کی آزمائش و امتحان مقصود ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے درجات میں بلندی ہوتی ہے، اگرچہ اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندے کسی معمولی سی تکلیف اور پریشانی میں بھی مبتلا ہوتے ہیں اور اپنے عجز و بیچارگی کے احساس کی وجہ سے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ ہماری شامت اعمال کی وجہ سے ہے۔ چناچہ ایک بزرگ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ چوہے نے ان کے جوتے کے تسمہ کو کتر لیا تو وہ اتنا متاثر ہوئے کہ روتے جاتے تھے کہ آہ! نامعلوم میں کس گناہ میں مبتلا ہوگیا تھا جس کی سزا میں نے یہ پائی ہے۔
[مشکوٰۃ المصابیح:1535]

مبتلائے مرض ہو کر مرنا بہتر ہے
عن يحيى بن سعيد قال : إن رجلا جاءه الموت في زمن رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال رجل : هيئا له مات ولم يبتل بمرض فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ويحك وما يدريك لو أن الله ابتلاه بمرض فكفر عنه من سيئاته.
ترجمہ:
حضرت یحییٰ بن سعید ؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ اقدس میں ایک شخص کو (اچانک) موت نے آدبوچا۔ ایک دوسرے شخص نے کہا کہ اسے موت مبارک ہو، اس طرح مرا کہ کسی مرض میں مبتلا نہ ہوا! یہ سن کر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ افسوس ہے تم پر تمہیں کیا معلوم؟ (یعنی بغیر مرض و بیماری کے اچانک مرجانے کو اچھا نہ سمجھو) اگر اللہ تعالیٰ اسے مرض مرض کے ساتھ موت دیتا تو (مرض کے بعد بدلہ میں) اس کی خطائیں دور کردیتا (یہ روایت امام مالک نے بطریق ارسال نقل کی ہے)۔
[موطا مالك-رواية يحييٰ:1712، موطا مالك-رواية عبدالباقي:50، مشکوٰۃ:1555]



دنیا کی سزا آخرت کی سزا سے بہتر ہے
عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا أراد الله تعالى بعبده الخير عجل له العقوبة في الدنيا وإذا أراد الله بعبده الشر أمسك عنه بذنبه حتى يوافيه به يوم القيامة .
ترجمہ:
حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندہ کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے اس کے گناہوں کی سزا جلد ہی دنیا میں دے دیتا ہے اور جب اپنے کسی بندہ کی برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے گناہوں کی سزا کو روکے رکھتا ہے۔
[سلسله احاديث صحيحه:2196]
تشریح:
دنیا کی سزا بہر صورت آخرت کی سزا سے بہتر ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ اپنے ان نیک بندوں کو جو کسی گناہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں دنیا ہی میں مصیب و تکلیف یا بیماری وغیرہ کی صورت میں سزا دیتا ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ دنیا کا عذاب ہلکا ہوتا ہے بایں طور کہ دنیا کی مدت کم ہوتی ہے جو کسی نہ کسی طرح گزر ہی جاتی ہے۔ ہاں وہ لوگ جو اللہ کی مسلسل نافرمانی کی وجہ سے اللہ کا غضب مول لیتے ہیں اور آخرت کی بدبختی میں مبتلا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں سزا نہیں دیتا بلکہ ان کی رسی دراز کئے جاتا ہے تاکہ انہیں آخرت کے عذاب میں مبتلا کیا جائے جو دنیا کے عذاب سے کہیں دردناک اور شدید ہوگا۔
[مشکوٰۃ المصابیح:1542]

مؤمن اور منافق کی زندگی کی مثال
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : مثل المؤمن كمثل الزرع لا تزال لاريح تميله ولا يزال المؤمن يصبيه البلاء ومثل المنافق كمثل شجرة الأرزة لا تهتز حتى تستحصد
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ علیہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: مؤمن کی مثال کھیتی کی سی ہے کہ (جس طرح) ہوائیں اسے ہمیشہ جھکائے رہتی ہے (اسی طرح) مؤمن کو ہمیشہ بلائیں اپنی لپیٹ میں لئے رہتی ہیں اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے۔ کہ اگرچہ وہ ہواؤں کے دباؤ سے ہلتا بھی نہیں مگر (آخرکار جڑ ہی سے) اکھڑ جاتا ہے۔
[مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1519]

حضرت کعب بن مالک فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مومن کی مثال نرم ونازک پودے کی سی ہے، جس کو ہوائیں ادھرسے ادھر جھکاتی رہتی ہیں، منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے، جس کی جڑیں زمین میں نہایت مضبوط ہوتی ہیں، ہوائیں اس کو اِدھراُھر جھکا نہیں سکتیں؛ یہاں تک کہ اس کو یکبارگی اکھاڑدیا جاتا ہے۔
[صحيح البخاری:5643-کتاب:بیماریوں کا بیان، باب:مرض کے کفارہ ہونے کے متعلق جو احادیث ہیں، ان کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو شخص برائی کرے گا، اس کا بدلہ دیا جائے گا]

یعنی مومن کو غفلت سے بیدار کرنے اور اس کی اخروی ترقی کے لیے باربار آزمائشیں آتی رہتی ہیں، منافق اور بے ایمان کو مہلت دی جاتی ہے اور وہ غفلت کی زندگی میں مست ہوتا ہے؛ یہاں تک کہ اچانک اس کو موت آجاتی ہے، یا اس پر کوئی عذاب نازل ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے لیے توبہ، استغفار اور گناہوں سے معافی تلافی کی کوئی صورت با قی نہیں رہتی۔

تشریح:
مؤمن کی مثال تو کھیتی کی تر و تازہ اور نرم شاخ سے دی جا رہی ہے کہ جس طرح ہواؤں کے تھپیڑے اس شاخ پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں بایں طور کہ کبھی وہ شاخ کو گرا دیتے ہیں کبھی سیدھا کردیتے ہیں۔ مگر وہ شاخ ہواؤں کے سکت و تند تھپیڑے کھا کھا کر اپنی جگہ اپنے وقت کے آخری لمحہ تک کھڑی رہتی ہے۔ اسی مؤمن کا حال بھی یہی ہے کہ کبھی تو اسے مصائب و آلام اور ضعف و بیماری کے سخت تھپیڑے گرا دیتے ہیں، کبھی صحت و تندرستی اور خوشی و مسرت کے جانفزا جھونکے ان کی زندگی میں بشاشت و انبساط کی زندگی پیدا کردیتے ہیں اس طرح وہ اپنی زندگی کے دن پورے کرتا رہتا ہے۔ منافق کی مثال صنوبر کے درخت سے دی گئی ہے کہ جس طرح صنوبر کا درخت بظاہر ایک جگہ کھڑا رہتا ہے اور اس پر ہوا کا دباؤ اثر انداز نہیں ہوتا مگر جب اس کا وقت آتا ہے تو وہ یکبارگی زمین پر آ رہتا ہے اسی طرح منافق کا حال ہے کہ وہ دنیاوی زندگی میں بظاہر خوش و خرم اور ہشاش بشاش نظر آتا ہے نہ اس پر مصائب و آلام کی بارش ہوتی ہے اور نہ بیماری و ضعف کے تھپیڑے اس پر اثر انداز ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ یکبارگی بغیر کسی بیماری و ضعف کے موت کی وادی میں گر جاتا ہے۔ گویا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ مؤمن و مسلمان کی زندگی مصائب و آلام اور تکلیف و پریشانی میں گزرتی ہے کبھی وہ بیماری و ضعف کے جال میں پھنسا رہتا ہے کبھی اسے مال و زر کی کمی اپنی لپیٹ میں لیتی ہے کبھی دوسرے دنیاوی حوادث و آلام اس کی روشن زندگی پر سیاہ بادل بن کر چھا جاتے ہیں مگر مومن مسلمان اسی حالت میں جیے جاتا ہے اور یہ تمام چیزیں اس کے حق میں اخروی سعادت و خوش بختی کی علامت قرار دی جاتی ہیں بشرطیکہ صبر و رضا اور شکر کا دامن کسی بھی مرحلہ پر ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ اس کے مقابلہ پر منافق و فاسق کی زندگی ہوتی ہے جس پر نہ تو زیادہ تر غم و آلام کا سایہ ہوتا ہے نہ بیماری و پریشانی کے سیاہ بادل اور نہ دوسری دنیاوی ذلت و ناکامرانی اور مصیبت و پریشانی کا چکر، بلکہ وہ بظاہر تندرست و توانا اور خوش و خرم رہتا ہے اس طرح نہ اسے وہ درجہ ملتا ہے جو مصائب و پریشانی میں مبتلا ہو کر مؤمن و مسلمان کی اخروی کامیابی و فلاح کا ضامن بنتی ہے۔
[مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1518]



تکلیف ومصیبت اللہ کی رحمت ہے
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من يرد الله به خيرا يصب منه .
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس شخص کو بھلائی پہنچانے کا ارادہ کرتا ہے، وہ (اس بھلائے کے حصول کے لئے) مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
[صحيح البخاری:5645-کتاب:بیماریوں کا بیان، باب:مرض کے کفارہ ہونے کے متعلق جو احادیث ہیں، ان کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول کہ جو شخص برائی کرے گا، اس کا بدلہ دیا جائے گا]
تشریح
مصیبت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے دل قبول اور پسند نہ کرے، لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت خواہ وہ تکلیف و بیماری کی صورت میں ہو یا حادثہ و صدمہ کی شکل میں، ہمیشہ اللہ کے قہر اور عذاب ہی کے طور پر نہیں آتی بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس بندہ پر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کا سایہ کرنا چاہتا ہے اسے خیر و بھلائی کے راستہ پر ڈالنا چاہتا ہے تو اسے کسی مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ اس کے گناہ صاف ہوجاتے ہیں بلکہ اس کے قلب و دماغ کو مصیبت کی سختی مجلی و مصفا کر کے خیر و بھلائی کے نور کو اپنے اندر ضیا بار کرنے کی صلاحیت پیدا کردیتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی بندہ مصیبت و تکلیف پر صبر کرے اور راضی برضا رہے تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ یہ مصیبت اس کے لئے اپنے دامن میں اللہ کی رضا و رحمت لے کر آئی ہے۔ ہاں اگر کوئی بندہ کسی مصیبت پر صبر و ضبط کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑ کر جزع و فزع کرنے لگے اور ناخوش خفا ہونے لگے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ یہ مصیبت اس کے حق میں رحمت نہیں بلکہ عذاب الٰہی ہے۔
[مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1513]



بیماری اور پریشانی گناہوں کے لیے کفارہ

حدیث قدسی میں وارد ہے، حضرت انس فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ الرَّبَّ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی یَقُولُ:وَعِزَّتِی وَجَلَالِی لَا أُخْرِجُ أَحَدًا مِنَ الدُّنْیَا أُرِید أَغْفِرَ لَہُ حَتَّی أَسْتَوْفِیَ کُلَّ خَطِیئَةٍ فِی عُنُقِہِ بِسَقَمٍ فِی بَدَنِہِ وَإِقْتَارٍ فِی رِزْقِہِ، رَوَاہُ رزین․
[مشکوة المصابیح، کتاب الجنائز، باب عیادة المریض:1585]

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: میری عزت اورجلال کی قسم!میں کسی شخص کو جس کی میں مغفرت کرنا چاہتا ہوں، اس کو دنیا سے نہیں نکالتا؛ یہاں تک کہ بدنی بیماری اور رزق کی تنگی میں مبتلا کرکے اس کی گردن پر موجود گناہوں سے اس بندے کو پاک و صاف نہ کردوں۔




عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الخُدْرِیِّ، وَعَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ: عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا یُصِیبُ المُسْلِمَ، مِنْ نَصَبٍ وَلاَ وَصَبٍ، وَلاَ ہَمٍّ وَلاَ حُزْنٍ وَلاَ أَذًی وَلاَ غَمٍّ، حَتَّی الشَّوْکَةِ یُشَاکُہَا، إِلَّا کَفَّرَ اللَّہُ بِہَا مِنْ خَطَایَاہُ․
ترجمہ:
حضرت ابوسعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہمارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو جو تھکان، بیماری، غم ورنج، کوئی تکلیف اورغم حتی کہ کانٹا بھی چبھتا ہے، تواللہ تعالیٰ اس تکلیف کی وجہ سے اس کے گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں۔
[صحيح البخاری:5641، کتاب المرضی]
تشریح:
الفاظ ہم و حزن وغیرہ کے معنی قریب قریب یکساں ہیں صرف ہم اور غم میں فرق یہ ہے کہ ہم آئندہ واقعہ ہونے والے معاملہ سے تعلق رکھتا ہے یعنی اگر کوئی ایسا مشکل امر پیش آنے والا ہو جس کے کرنے یا نہ کرنے سے رنج و ملال پہنچے تو وہاں ہم استعمال کیا جاتا ہے اور غم کا تعلق گزرے ہوئے واقعہ سے ہوتا ہے۔ بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ مسلمان کو کسی بھی نوعیت کا یا کسی بھی طرح کا کوئی رنج و ملال اور غم و مصیبت پہنچے تو وہ اس کے صغیرہ گناہوں کے دور ہونے کا ذریعہ ہے۔
[مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1514]




عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصِیبُہُ أَذًی مِنْ مَرَضٍ فَمَا سِوَاہُ إِلَّا حَطَّ اللَّہُ تَعَالَی بِہِ سَیِّئَاتِہِ کَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَہَا․
[صحيح البخاری:5648۔ کتاب المرضی، باب اشد الناس بلاء]




بیماری کو برانہ کہو
وعن جابر قال : دخل رسول الله صلى الله عليه و سلم على أم السائب فقال : مالك تزفزفين ؟ . قالت : الحمى لا بارك الله فيها فقال : لا تسبي الحمى فإنها تذهب خطايا بني آدم كما يذهب الكير خبث الحديد .
ترجمہ:
حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ حضرت ام صائب ؓ کے پاس (جو تپ ولرزہ میں مبتلا تھیں) تشریف لائے اور (ان کی حالت دیکھ کر) کہ یہ تمہیں کیا ہوا جو کانپ رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ بخار ہے، اللہ اس میں برکت نہ دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بخار کو برا مت کہو کیونکہ بخار بنی آدم کے گناہوں کو اسی طرح دور کرتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو صاف کردیتی ہے۔
[صحیح مسلم:2575، کتاب البروالصلة، باب ثواب الموٴمن]

تشریح:
ایک روایت میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤمن کی تمام خطائیں اس کے ایک رات کے بخار کی وجہ سے دور فرما دیتا ہے اسی طرح ابوداؤد کی ایک روایت میں منقول ہے کہ ایک رات کا بخار ایک برس کے گناہ دور کردیتا ہے۔
[مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1520]







حضرت عبداللہ بن مسعود  فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کو بیماری، یا کوئی تکلیف پہنچتی ہے، تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس تکلیف اور بیماری کی وجہ سے اس مسلمان کے گناہوں کواس طرح (تیزی سے) گراتے ہیں، جس طرح درخت (موسم خزاں میں) اپنے سوکھے پتوں کو (تیزی سے) گراتا ہے، یعنی مسلمان کم وقت میں اپنے تمام گناہوں سے پاک وصاف ہوجاتا ہے۔




صابر مریض کی فضیلت
ابو الاشعث صنعانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں صبح سویرے دمشق کی جامع مسجد پہنچا، میری ملاقات اصحاب ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت شداد بن اوس اور صنابحی رضی اللہ عنہما سے ہوئی، میں نے ان دونوں سے عرض کیا: اللہ تم پررحم کرے، آپ حضرات کہاں جارہے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: قریب میں ہمارا ایک بھائی ہے، اس کی عیادت کے لیے ہم جا رہے ہیں، تومیں بھی ان کے ساتھ ہوگیا، پھر ہم لوگ چلے اور اس بھائی کے پاس پہنچے، ان دونوں صحابہ کرام نے اس مریض سے پوچھا کہ تم نے صبح کیسی کی؟ (خیریت سے ہو) اس مریض نے کہا: اللہ کے فضل سے صبح کی، (الحمدللہ خیریت سے ہوں) پھرحضرت شداد نے فرمایا: گناہوں کو مٹانے والی اور معاف کرانے والی چیزوں سے خوش ہوجاؤ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: إِنِّي إِذَا ابْتَلَيْتُ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنًا، فَحَمِدَنِي عَلَى مَا ابْتَلَيْتُهُ، فَإِنَّهُ يَقُومُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ مِنَ الْخَطَايَا، وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا قَيَّدْتُ عَبْدِي، وَابْتَلَيْتُهُ، فَأَجْرُوا لَهُ كَمَا كُنْتُمْ تُجْرُونَ لَهُ وَهُوَ صَحِيحٌ․
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جب میں اپنے کسی موٴمن بندے کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہوں اوروہ بندہ آزمائش میں بھی میری حمد وثنا بیان کرتا ہے (تقدیر پر راضی رہ کر ثواب کی امید رکھتا ہے، صبر کرتا ہے، بے صبری، جزع وفزع اور شکوے شکایات سے احتراز کرتا ہے) تو وہ اپنی بیماری کے بستر سے (گناہوں سے پاک وصاف ہوکر) اس طرح اٹھے گا، جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو، اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے) فرماتے ہیں: میں نے اپنے بندے کو عمل کرنے سے روک دیا تھا اور آزمائش میں مبتلا کر رکھا تھا؛ لہٰذا اس کے لیے اسی طرح اجر لکھا کرو جس طرح تم اس کی صحت کے زمانے میں اجر لکھا کرتے تھے۔
[مسند احمد:17118، طبراني:7136، الاوسطؒ:4706، مسند الشاميين:1097، سلسله احاديث صحيحه:1680]



آنحضرت ﷺ پر تکلیف وبیماری کی سختی وزیادتی
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : ما رأيت أحدا الوجع عليه أشد من رسول الله صلى الله عليه و سلم
ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا جس کی بیماری آنحضرت ﷺ کی بیماری سے زیادہ سخت و شدید ہو۔
[مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1516]

وعن عبد الله بن مسعود قال : دخلت على النبي صلى الله عليه و سلم وهو يوعك فمسسته بيدي فقلت : يا رسول الله إنك لتوعك وعكا شديدا . فقال النبي صلى الله عليه و سلم : أجل إني أوعك كما يوعك رجلان منكم . قال : فقلت : ذلك لأن لك أجرين ؟ فقال : أجل . ثم قال : ما من مسلم يصيبه أذى من مرض فما سواه إلا حط الله تعالى به سيئاته كما تحط الشجرة ورقها
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اس وقت آپ ﷺ کو بخار تھا میں نے آپ ﷺ پر اپنا ہاتھ پھیر کر عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کو بہت سخت بخار ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں مجھے تمہارے دو آدمیوں کے برابر بخار چڑھتا ہے حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یہ اس وجہ سے ہوگا کہ آپ کو دو گنا ثواب ملے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں! اور پھر فرمایا جس مسلمان کو بیماری کی وجہ سے یا اس کے علاوہ کسی اور وجہ سے تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کے گناہ (اسی طرح) دور کردیتا ہے جیسے درخت اپنے پتے جھاڑتا ہے۔
[مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1515]








بیماری رفعِ درجات کا ذریعہ

بیماری ایک طرح سے رحمت ہے، اس سے گناہوں کی صفائی ہوتی ہے اور جنت میں درجات بلند ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ بعض بندوں کے لیے آخرت میں بلند مقام کا فیصلہ کرتے ہیں؛ مگر ان کے پاس وہ اعمال نہیں ہوتے جن کی وجہ سے وہ اس کے مستحق ہوسکیں؛ اس لیے بسا اوقات بیماریوں اور آزمائشوں میں مبتلا کر کے ان کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ آخرت کے اس بلند مقام کے اہل ہوجائیں۔




محمدبن خالد سلمی اپنے والد سے اوروہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَہُ مِنَ اللَّہِ مَنْزِلَةٌ لَمْ یَبْلُغْہَا بِعَمَلِہِ،ابتلاہ اللہ فِی جسدہ أَوْفِی مَالِہِ أَوْ فِی وَلَدِہِ ثُمَّ صَبَّرَہُ عَلَی ذَلِکَ یُبَلِّغُہُ الْمَنْزِلَةَ الَّتِی سَبَقَتْ لَہُ مِنَ اللّٰہ․
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کے لیے کسی اونچے مقام کا فیصلے فرماتے ہیں، وہ بندہ اس مقام تک اپنے عمل سے پہنچ نہیں پاتا، تو اللہ تعالیٰ اس کو کسی مالی یا بدنی مصیبت وپریشانی میں مبتلا کرتے ہیں، پھر اس کو اس مصیبت پر صبر کی توفیق عطا فرماتے ہیں؛ یہاں تک کہ اس کو اس مقام تک پہنچا دیتے ہیں جس کا فیصلہ خدا کی طرف سے اس بندے کے لیے ہوا ہے۔
[سنن أَبُودَاوُد:3090، کتاب الجنائز، باب الامراض المکفرة للذنوب]
تشریح:
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بندہ مصیبت و بلا پر صبر کرنے کی وجہ سے اخروی سعادت کے اس عظیم درجہ و مرتبہ کو پہنچ جاتا ہے جہاں اپنی عبادت و اطاعت کے ذریعہ سے نہیں پہنچ سکتا تھا۔
[شرح مشکوٰۃ:1545]
حدیث مذکور سے معلوم ہوا کہ پریشانیاں اور بیماریاں ہمارے لیے رفعِ درجات کا ذریعہ ہیں، بشرط یہ کہ ہم صبرو ہمت سے کام لیں اور ثواب کی امید رکھیں اور خدائی فیصلے اور تقدیر پر راضی رہیں۔
مصائب وامراض پر اجر وثواب

حضرت عبداللہ بن عباس نے حضرت عطابن رباح سے فرمایا: میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھاؤں؟، عطا بن ابی رباح نے عرض کیا: ضروردکھائیے، حضرت ابن عباس نے فرمایا:یہ وہ سیاہ فام عورت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئی اور عرض کیا:مجھ پر مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ میرے لیے اس مرض سے شفا کی دعا فرمائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر تم چاہو،تو صبر کرو اور تمہارے لیے جنت ہے، اگر تم چاہو،تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ تمہیں اس مرض سے نجات دے دے، اس عورت نے عرض کیا: میں صبر کروں گی، پھراس نے یہ درخواست کی: مرگی کے دورے کے دوران میرا ستر کھل جاتا ہے، آپ بس اتنی دعا فرما دیجیے کہ دورے کے دوران میرا ستر محفوظ رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی۔
[صحیح بخاری:5652،کتاب المرضی،باب فضل من یصرع]

تشریح:
علاج توکل کے منافی نہیں
اس عورت کا نام سعیرہ یا سقیرہ اور یا سیکرہ تھا، ایک روایت کے مطابق یہ عورت ام المؤمنین حضرت حدیجہ الکبریٰ ؓ کی کنگھی کرنے والی تھی۔ اس حدیث سے اس طرف اشارہ ہے کہ مصیبت و بلاء پر صبر کرنے اور رضا بتقدیر رہنے کے پیش نظر دوا اور دعا کو ترک کردینا جائز ہے۔ بلکہ حدیث کا ظاہری مفہوم تو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صبر و رضا کے ساتھ ہمیشہ مرض میں مبتلا رہنا صحت مند اور عافیت میں رہنے سے بہتر ہے لیکن بہ نسبت بعض افراد کے یعنی یہ اس شخص کے لئے افضل ہے جس کا مرض مخلوق اللہ کی نفع رسانی کے تعطل کا باعث نہ بنے۔ نیز حدیث کا ظاہر مفہوم اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ علاج و معالجہ کا ترک کردینا افضل ہے اگرچہ علاج و معالجہ کرنا ابوداؤد کی حدیث کے مطابق سنت ہے جس میں مروی ہے کہ صحابہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ کیا ہم (بیماری میں) دوا کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں دوا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی مرض ایسا پیدا نہیں کیا جس کی دوا بھی پیدا نہ کی ہو۔ علاوہ بڑھاپے کے۔ چناچہ علماء لکھتے ہیں علاج معالجہ توکل کے منافی نہیں کیونکہ علاج و معالجہ صرف اسباب کے درجہ میں ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود بھی علاج و معالجہ کو اختیار فرمایا تھا حالانکہ آنحضرت ﷺ متوکلین کے سردار ہیں لیکن اس کے باوجود از راہ توکل علاج و معالجہ ترک کرنا جیسا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے ترک فرمایا تھا، باعث فضیلت ہے۔
[شرح مشکوۃ:1554]




حضرت جابر فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
یَوَدُّ أَہْلُ الْعَافِیَةِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ حِینَ یُعْطَی أَہْلُ الْبَلَاءِ الثَّوَابَ لَوْ أَنَّ جُلُودَہُمْ کَانَتْ قُرِضَتْ فِی الدُّنْیَا بِالْمَقَارِیضِ․
ترجمہ:
دنیا میں عافیت سے رہنے والے قیامت میں جب آزمائش والوں کو دیکھیں کہ ان کو خو ب اجر وثواب دیا جارہا ہے، تو وہ لوگ یہ تمنا کریں گے کہ کاش دنیا میں ان کے جسموں کو قینچیوں سے کاٹ دیا جاتا اور ان کو بھی اسی طرح اجر وثواب دیا جاتا، جیسے ان آزمائش والوں کو دیا جارہا ہے۔
[رواہ الترمذی:2402، ابواب الزھد]
بیماری کے زمانے میں صحت کے زمانے کے اعمال اور ان کا ثواب

ایک صحت مند انسان جن کاموں کو کرسکتا ہے، بیمار آدمی ان کو انجام دے نہیں سکتا، اللہ تعالیٰ کا انتہائی فضل وکرم ہے کہ موٴمن بندہ کسی عمل کو پابندی اوراہتمام سے کرتا تھا، مرض، سفر یا کسی اورعذر کی وجہ سے وہ عمل چھوٹ جائے، تو بھی اس عمل کا اجر وثواب اس کے لیے لکھا جاتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو  فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی بندہ کوئی عبادت کرتا رہے، پھر بیمار ہوجائے، تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں: اس بندے کے لیے اس عمل کا ثواب بھی لکھو جو عمل وہ صحت کی حالت میں کیاکرتاتھا؛یہاں تک کہ میں اس کو صحت دے دوں، یا اپنے پاس بلالوں۔
[مشکوة المصابیح:1536، مسنداحمد:6895]

حالت بیماری میں زمانہ تندرستی کے نیک اعمال لکھ دیئے جاتے ہیں
حضرت انس  فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مومن بندہ کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ فرشتے سے فرماتے ہیں: ان نیک اعمال کو اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیاکرو جن کو وہ (صحت کے زمانے میں) کیا کرتا تھا، پھراللہ تعالیٰ اس کوشفا وصحت عطا فرمادے، تو اس کو گناہوں سے پاک وصاف فرمادیتے ہیں، اگر اس کو اپنے پاس بلالیں، تو اس کو معاف فرمادیتے ہیں اور اس پر رحم فرماتے ہیں۔
[مشکوة المصابیح:1537، مسنداحمد:13501]


زمانہ بیماری کے فوت شدہ اور اوراد ونوافل کا ثواب ملتا ہے:
وعن أبي موسى قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا مرض العبد أو سافر كتب له بمثل ما كان يعمل مقيما صحيحا۔
ترجمہ:
حضرت ابوموسیٰ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر میں جاتا ہے (اور اس کی بیماری یا سفر کی وجہ سے اس کے اور ادو نوافل فوت ہوجاتے ہیں) تو (اس کے نامہ اعمال میں اتنے عمل لکھ دیئے جاتے ہیں جو وہ حالت قیام اور زمانہ تندرستی میں کیا کرتا تھا۔
[صحيح البخاري:2996، المعجم الصغير للطبراني:1145]

حضرت شقیق رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضرت عبداللہ بن مسعود  بیمارتھے،ہم لوگ عیادت کے لیے حاضرہوئے،حضرت ابن مسعود رونے لگے، ہم نے آپ کو تسلی دی،تو آپ نے فرمایا:میں بیماری سے پریشان ہوکر نہیں رورہاہوں؛اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ بیماری گناہوں کے لیے کفارہ کے ذریعہ ہے؛ اس لیے بیماری سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے،میں اس بات پرروہاہوں کہ بیماری کمزوری کے زمانے (بڑھاپے کی عمر جس میں طاقت وقوت مفقود ہونے کی وجہ سے انسان عمل نہیں کرسکتاہے)میں آئی ہے،محنت کے زمانے میں بیماری آتی،تو بیمارہونے سے پہلے جواعمال کرتاتھا،بیماری کے زمانے میں بھی ان اعمال کا اجروثواب لکھاجاتاہے(اس بات پر رورہاہوں)۔
(مشکوة المصابیح،کتاب الجنائز،باب عیادة المریض:۱۵۸۶)





بعض بیماروں پر شہادت کی بشارت

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صحت آدمی کے لیے ہزار نعمت ہے،تمام دینی و معاشرتی خدمات اہل وعیال کی نگرانی، تجارت و کاروبار؛ بلکہ دنیا کا کوئی کام ایسا نہیں جس کے لیے صحت کی ضرورت نہ ہو، اسی لیے ہر شخص یہ تمنا کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ صحت مند رہے،؛لیکن بیماری انسان کے ساتھ لگی رہتی ہے،اس سے کوئی مفرنہیں؛بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس شخص میں کوئی خیرنہیں جس کو کبھی بیماری آئی نہیں۔

لہٰذا ایمان والوں کو چاہیے کہ جب حالات سازگار ہوں، خوشی اور شادمانی کے سامان میسر ہوں،مالی وسعت اورتن درستی حاصل،تو بھی وہ اس کو اپنا کمال اور اپنی قوت بازو کا نتیجہ نہ سمجھیں؛بلکہ اس وقت بھی اپنے دل میں اس یقین کو تازہ کریں کہ یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی بخشش ہے اور وہ جب چاہے اپنی بخشی ہوئی ہر نعمت چھین بھی سکتا ہے؛ اس لیے ہر نعمت پر اس شکرکا کر ادا کریں۔

جب کوئی دکھ، مصیبت اوربیماری پیش آ جائے، تو وہ مایوسی اور سراسیمگی کا شکار نہ ہوں؛بلکہ ایمانی صبر و ثبات کے ساتھ اس کا استقبال کریں اور دل میں یہ یقین رکھے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، جو ہمارا حکیم اور کریم رب ہے اور وہی ہم کو اس دکھ، مصیبت اوربیماری سے نجات دینے والا ہے۔

اس دنیا میں تکلیف اور آرام تو سب ہی کے لیے ہے؛ لیکن اس تکلیف اور آرام سے اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنا یہ صرف اُن اہل ایمان ہی کا حصہ ہے جو چین و آرام اور مسرت و خوشی کی ہر گھڑی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور جب کسی رنج اور دکھ میں مبتلا کیے جاتے ہیں اور کوئی بیماری اورتنگی ان کو پیش آتی ہے، تو وہ بندگی کی پوری شان کے ساتھ صبر کرتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اگر اس کو خوشی اور راحت و آرام پہنچے، تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اگر اس کو دکھ اور رنج پہنچتا ہے، تو وہ (اس کو بھی اپنے حکیم و کریم رب کا فیصلہ اور اس کی مشیت یقین کرتے ہوئے) اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لیے سراسر خیر اور موجبِ برکت ہوتا ہے۔
[صحیح مسلم:2999،کتاب الزہد والرقاق]

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ:جو بندہ کسی جانی یا مالی مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ کسی سے اس کا اظہار نہ کرے اور نہ لوگوں سے شکوہ شکایت کرے، تو اللہ تعالیٰ کا ذمہ ہے کہ وہ اس کو بخش دیں گے۔
[مجمع الزوائد:17872،باب فی من صبرعلی العیش الشدید]
صبر کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنی مصیبت اور تکلیف کا کسی کے سامنے اظہار نہ کرے اور ایسے صابروں کے لیے اس حدیث میں مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی بخشش کا ذمہ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان وعدوں پر یقین اور ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

طاعون میں مرنے والے کی فضیلت
وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : الطاعون شهادة لكل مسلم
ترجمہ:
حضرت انس راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا طاعون (میں مرنا) ہر مسلمان کے لئے شہادت ہے۔
[]
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ اس علاقہ میں جہاں طاعون کی بیماری پھیل جاتی ہے جو مسلمان صبر و برداشت کے دامن کو نہیں چھوڑتا اور بیماری سے ڈر کر کسی دوسری جگہ بھاگتا نہیں بلکہ اللہ پر بھروسہ کر کے وہیں پڑا رہتا ہے اور اگر وہ طاعون میں مبتلا ہو کر مرجاتا ہے تو اسے شہید کے اجر سے نوازا جاتا ہے۔ طاعون ایک عام بیماری اور وباء کا نام ہے جس علاقہ میں یہ بیماری پیدا ہوتی ہے وہاں کی آب و ہوا، عام مزاج اور انسانوں کے جسم تمام ہی چیزیں اس بیماری کے جراثیم اور اس کے فساد سے متاثر ہوجاتی ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ طاعون اس بیماری کو کہتے ہیں جس میں بدن کے نرم حصوں پر زخم ہوجاتے ہیں۔ جیسے بغل وغیرہ اور ان زخموں کے گرد سیاہی، سبزی یا سرخی ہوتی ہے۔
[مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1522]



راہ اللہ میں شہادت کے علاوہ شہادت کی اور اقسام
وعن جابر بن عتيك قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : الشهادة سبع سوى القتل في سبيل الله : المطعون شهيد والغريق شهيد وصاحب ذات الجنب شهيد والمبطون شهيد وصاحب الحريق شهيد والذي يموت تحت الهدم شهيد والمرأة تموت بجمع شهيد .
ترجمہ:
حضرت جابر ابن عتیک راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اس شہادت کے علاوہ جو اللہ کی راہ میں ہو، شہادت کی اور سات قسمیں ہیں: (١) جو شخص طاعون میں مرے شہید ہے (٢) جو شخص ڈوب کر مرجائے شہید ہے (٣) جو شخص ذات الجنب میں مرے شہید ہے (٤) جو شخص پیٹ کی بیماری (یعنی دست اور استسقاء) میں مرجائے شہید ہے (٥) جو شخص جل کر مرجائے شہید ہے۔ (٦) جو شخص دیوار وغیرہ کے نیچے دب کر مرجائے (٧) اور وہ عورت جو حالت حمل میں یا باکرہ مرے شہید ہے۔

تشریح:
مطلب یہ ہے کہ حقیقی شہید تو وہی ہے جو کے راستہ میں دین کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کام آئے اس کے علاوہ سات قسم کے اور شہید ہیں جو حقیقی شہید تو نہیں لیکن حکم میں شہید ہی کے ہیں بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی قسمیں ہیں جو مختلف احادیث میں مذکور ہیں اور جن کو تفصیل کے ساتھ پچھلے صفحات میں ذکر کیا گیا ہے۔ ذات الجنب ایک مشہور بیماری ہے اس بیماری سے پہلو کے اندر دل اور سینہ کے قریب پھنسیاں ہوجاتی ہیں اور اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مریض کا سانس رکتا ہے اور بخار اور کھانسی رہتی ہے۔
[مشکوٰۃ المصابیح:1538]



شہید کا ثواب پانے والے
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : الشهداء خمسة المطعون والمبطون والغريق وصاحب الهدم والشهيد في سبيل الله
ترجمہ
حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا شہداء پانچ ہیں (١) طاعون زدہ (٢) پیٹ کی بیماری (یعنی دست اور استسقاء میں مرنے والا (٣) پانی میں بےاختیار ڈوب کر مرجانے والا (٤) دیوار یا چھت کے نیچے دب کر مرجانے والا۔ (٥) اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا۔
[]
تشریح
پانی میں ڈوب کر مرجانے والے۔ اس شخص کو شہادت کا ثواب ملے گا جو بےاختیار و بلا قصد پانی میں ڈوب گیا ہو یعنی بارادہ خود پانی میں نہ ڈوبے۔ اس طرح اگر دریا میں کشتی ڈوب جائے یا ٹوٹ جائے تو سب لوگ یا کچھ لوگ دریا میں ڈوب جائیں تو ان میں سے اسی ڈوبنے والے کو شہادت کا ثواب ملے گا جو کسی گناہ و معصیت کے ارادہ سے کشتی میں نہ بیٹھا ہو۔ اس حدیث میں پانچ قسم کے شہیدوں کا تذکرہ کیا گیا۔ لہٰذا اس سلسلہ میں یہ بات جان لینی چاہئے کہ حقیقی شہید صرف وہی شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کر دے۔ شہیدوں کی دیگر قسمیں حکمی ہیں یعنی وہ مرنے والے حقیقی شہید تو نہیں ہوتے ہاں اس کی بےکسی و بےبسی کی موت کی بناء پر انہیں شہادت کا ثواب ملتا ہے۔ اس موقع پر اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہاں اس حدیث میں چار قسم کے حکمی شہیدوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ حکمی شہیدوں کی اور بھی بہت زیادہ قسمیں جن کے بارے میں دیگر مشہور احادیث میں ذکر کیا گیا۔ چناچہ بعض علماء مثلاً سیوطی (رح) وغیرہ نے ان کو ایک جگہ جمع کیا ہے۔ اس حدیث میں جو شہداء حکمی ذکر کئے گئے ہیں ان کے علاوہ دوسرے حکمی شہداء یہ ہیں۔ ذات الجنب (یعنی نمونیہ کی بیماری) میں مرنے والا، جل کر مرجانے والا، حالت حمل میں مرجانے والی عورت یا باکرہ مرجانے والی عورت، وہ عورت جو حاملہ ہونے کے بعد سے بچہ کی پیدائش تک یا بچہ کا دودھ چھٹانے تک مرجائے، سل یعنی دق کے مرض میں مرنے والا، حالت سفر میں مرنے والا، سفر جہاد میں سواری سے گر کر مرجانے والا، مرابط یعنی اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظ کے دوران مرجانے والا، گڑھے میں گر کر مرجانے والا، درندوں یعنی شیر وغیرہ کا لقمہ بن جانے والا اپنے مال اپنے اہل و عیال اپنے دین اپنے خون اور حق کی خاطر قتل کیا جانے والا، دوران جہاد اپنی موت مرجانے والا اور وہ شخص جسے شہادت کی پر خلوص تمنا اور لگن ہو مگر شہادت کا موقع اسے نصیب نہ ہو اور اس کا وقت پورا ہوجائے اور شہادت کی تمنا دل میں لئے دنیا سے رخصت ہوجائے۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ جس شخص کو حاکم وقت ظلم و تشدد کے طور پر قید خانہ میں ڈال دے اور وہ وہیں مرجائے تو وہ شہید ہے جو شخص مظلومانہ طریقہ پر زد و کو ب کیا جائے اور وہ زد و کو ب کے نتیجے میں بعد میں مرجائے تو وہ شہید ہے اور جو شخص توحید کی گواہی دیتے ہوئے اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کر دے تو وہ شہید ہے۔ حضرت انس ؓ سے بطریق مرفوع روایت ہے کہ تپ (بخار) شہادت ہے، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ روایت کرتے ہیں میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! شہداء میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ بافضلیت شہید کون ہے آپ نے فرمایا کہ وہ شخص جو ظالم حاکم کے سامنے کھڑے ہو کر اسے اچھا اور نیک کام کرنے کا حکم دے اور برے کام سے روکے اور وہ حاکم اس شخص کو مار ڈالے۔ حضرت ابوموسیٰ ؓ سے مروی ہے کہ جس شخص کو گھوڑا یا اونٹ کچل اور روند ڈالے اور وہ مرجائے یا زہریلے جانور کے کاٹنے سے مرجائے تو شہید ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جس شخص کو کسی سے عشق ہوگیا اور نہ صرف یہ کہ وہ اپنے عشق میں پاکباز و متقی رہا بلکہ اس نے اپنے عشق کو چھپایا بھی اور اسی حال میں اس کا انتقال ہوگیا تو وہ شہید ہے۔ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی منقول ہے کہ جو شخص کشتی میں بیٹھا ہوا درد سر اور قے میں مبتلا ہو تو اسے شہید کا اجر ملتا ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کے لئے غیرت و خود داری لازم رکھی ہے اور مردوں کے لئے جہاد ضروری قرار دیا ہے لہٰذا عورت میں سے جس عورت نے اپنی سوکن کی موجودگی میں صبر و ضبط کے دامن کو پکڑے رکھا تو اسے شہید کا اجر ملے گا۔ حضرت عائشہ ؓ بطریق مرفوع روایت کرتی ہیں کہ جو شخص روزانہ دن میں پچیس مرتبہ یہ دعا (اللہم بارک لی فی الموت وفیما بعد الموت) پڑھے اور بستر مرگ پر اس کا انتقال ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اسے شہید کا ثواب عنایت فرماتے ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ جو شخص ضحی (یعنی اشراق و چاشت) کی نماز پڑھے اور مہینہ میں تین دن روزہ رکھے اور وتر کی نماز نہ حالت سفر میں چھوڑے نہ حالت قیام میں تو اس کے لئے شہید کا اجر لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح امت میں عوامی طور پر اعتقادی و عملی گمراہی کے وقت سنت پر مضبوطی سے قائم رہنے والا اور طلب علم میں مرنے و الا شہید ہے طلب علم میں مرنے والے سے وہ شخص مراد ہے جو حصول علم اور درس و تدریس میں مشغول ہو یا تصنیف و تالیف میں مصروف ہو اور یا محض کسی علمی مجلس میں حاضر ہو، جس شخص نے اپنی زندگی اس طرح گزار دی ہو کہ لوگوں کی مہمانداری و خاطر و تواضع اس کا شیوہ رہا ہو تو وہ شہید، مرتث یعنی وہ شخص جو میدان کارزار میں زخمی ہو کر فوراً نہ مرجائے بلکہ کم سے کم اتنی دیر تک زندہ رہے کہ دنیا کی کسی چیز سے فائدہ اٹھائے تو وہ بھی شہید ہے۔ جو شخص مسلمانوں تک غلہ پہنچائے اور جو شخص اپنے اہل و عیال اور اپنے غلام و لونڈی کے لئے کمائے وہ شہید ہے۔ ایسے وہ جنبی جسے کافر میدان کارزار میں مار ڈالیں اور شریق یعنی وہ شخص جو گلے میں پانی پھنس جانے اور دم گھٹ جانے کی وجہ سے مرجائے وہ شہید ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو مسلمان اپنے مرض میں حضرت یونس (علیہ السلام) کی یہ دعا (لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین) چالیس مرتبہ پڑھے اور اسی مرض میں انتقال کرے تو اسے شہید کا ثواب دیا جاتا ہے اور اگر اس مرض سے اسے چھٹکارا مل جائے تو وہ اسحال میں صحت مند ہوتا ہے کہ اس کی مغفرت ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ بھی حدیث میں وارد ہے کہ سچا اور امانتدار تاجر قیامت کے دن شہداء کے ساتھ ہوگا اور جو شخص جمعہ کی شب میں مرتا ہے وہ شہید ہے۔ نیز حدیث میں یہ بھی منقول ہے کہ بلا اجرت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اذان دینے والا مؤذن اس شہید کی مانند ہے جو اپنے خون میں لت پت تڑپتا ہو، نیز وہ مؤذن جب مرتا ہے تو اس کی قبر میں کیڑے نہیں پڑتے۔ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔ جو شخص مجھ پر دس مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر سو مرتبہ اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور جو شخص مجھ پر سو مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان براۃ یعنی نفاق اور آگ سے نجات لکھ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ رکھے گا۔ منقول ہے کہ جو شخص صبح کے وقت تین مرتبہ اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم اور سورت حشر کی آخری تین آیتیں پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے اور اس کے لئے شام تک بخشش کی دعا کرتے ہیں۔ اور وہ شخص اگر اس دن مرجاتا ہے تو اس کی موت شہید کی موت ہوتی ہے اور جو شخص یہ شام کو پڑھتا ہے وہ بھی اسی اجر کا مستحق ہوتا ہے۔ منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کو وصیت کی کہ جب تم رات میں سونے کے لئے اپنے بستر پر جاؤ تو سورت حشر کی آخری آیتیں پڑھ لو اور فرمایا کہ اگر تم (رات میں یہ پڑھنے کے بعد سوئے اور اسی رات میں) مرگئے تو شہید کی موت پاؤ گے۔ منقول ہے کہ جو شخص مرگی کے مرض میں مرجاتا ہے وہ شہید ہوتا ہے، جو شخص حج اور عمرہ کے دوران مرتا ہے شہید ہوتا ہے جو شخص با وضو مرتا ہے شہید ہوتا ہے اسی طرح رمضان کے مہینہ میں، بیت المقدس میں، مکہ یا مدینہ میں مرنے والا شخص شہید ہوتا ہے، دبلاہٹ کی بیماری میں مرنے و الا شخص شہید ہوتا ہے، جو شخص کسی آفت و بلا میں مبتلاء ہو اور وہ اسی حالت میں ضرر و بلا پر صبر و رضا کا دامن پکڑے ہوئے مرجائے تو شہید ہے۔ جو شخص صبح و شام مقالید السماوات والارض الخ جس کے پڑھنے کی فضیلت کا تذکرہ ایک حدیث میں کیا گیا ہے پڑھے تو وہ شہید ہے۔ منقول ہے کہ جو شخص نوے برس کی عمر میں یا آسیب زدہ ہو کر مرے یا اس حال میں مرے کہ اس کے ماں باپ اس سے خوش ہوں اور یا نیک بخت بیوی اس حال میں مرے کہ اس کا خاوند اس سے خوش راضی ہو تو وہ شہید ہے۔ نیز وہ مسلمان بھی شہید ہے جو کسی ضعیف مسلمان کے ساتھ کلمہ خیر یا اس کی کسی طرح کی مدد کر کے بھلائی کا معاملہ کرے۔ واللہ اعلم۔
[مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1523]


طاعون زدہ علاقہ میں صبر وثبات کی فضیلت
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : سألت رسول الله صلى الله عليه و سلم عن الطاعون فأخبرني : أنه عذاب يبعثه الله على من يشاء وأن الله جعله رحمة للمؤمنين ليس من أحد يقع الطاعون فيمكث في بلده صابرا محتسبا يعلم أنه لا يصيبه إلا ما كتب الله له إلا كان له مثل أجر شهيد .
ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے طاعون کی حقیقت دریافت کی تو آپ ﷺ نے مجھے بتایا کہ (ویسے تو) یہ عذاب ہے جسے اللہ تعالیٰ جس پر چاہے بھیجتا ہے (لیکن) اللہ تعالیٰ نے اسے (ان) مؤمنین کے لئے (باعث) رحمت قرار دیا ہے (جو اس میں ابتلاء کے وقت صبر کرتے ہیں) اور جس شہر یا جس جگہ طاعون ہو اور (کوئی مؤمن) اپنے اس شہر میں ٹھہرا رہے اور صبر کرنے والا اور اللہ سے ثواب کا طالب رہے (یعنی اس طاعون زدہ علاقہ میں کسی اور غرض و مصلحت سے نہیں بلکہ محض ثواب کی خاطر ٹھہرا رہے) نیز یہ جانتا ہو کہ اسے کوئی چیز (یعنی کوئی اذیت و مصیبت) نہیں پہنچے گی مگر صرف وہی جو اللہ نے (اس کے مقدر میں لکھ دی اور جس سے کہیں مفر نہیں) تو اس مؤمن کو شہید کے مانند ثواب ملے گا۔
[مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1524]



طاعون زدہ علاقہ کے بارے میں واضح ہدایت وضابطہ
وعن أسامة بن زيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : الطاعون رجز أرسل على طائفة من بني إسرائيل أو على من كان قبلكم فإذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا فرارا منه
ترجمہ:
حضرت اسامہ بن زید ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا طاعون عذاب ہے جو بنی اسرائیل کی ایک جماعت پر بھیجا گیا تھا یا فرمایا کہ ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے (یعنی راوی کو شک ہوگیا ہے کہ آپ ﷺ نے پہلا جملہ ارشاد فرمایا تھا یا دوسرا) لہٰذا جب تم کسی علاقہ کے بارے میں سنو کہ وہاں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں مت جاؤ اور جس طاعون زدہ علاقہ میں تم (پہلے سے) موجود ہو تو وہاں سے نکل مت بھاگو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح:
بنی اسرائیل کی ایک جماعت سے مراد وہ جماعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ ادخلوا الباب سجدا (یعنی داخل ہو دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے) مگر انہوں نے سرکشی اور نافرمانی کا مظاہرہ کیا چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آیت (فانزلنا علیہم رجزا من السماء) یعنی پس ہم نے ان کی سرکشی و نافرمانی کی وجہ سے) ان پر آسمان سے عذاب اتارا۔ ابن مالک فرماتے ہیں کہ وہ آسمانی عذاب طاعون تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اس بدبخت و سرکش قوم پر نازل فرمایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عذاب و بلا میں مبتلا ہو کر اس قوم کے چوبیس ہزار بڑے بڑے بوڑھے آناً فاناً موت کے گھاٹ اتر گئے۔ اس حدیث میں طاعون زدہ علاقہ کے بارے میں دو ہدایتیں دی جا رہی ہیں ایک تو یہ کہ جس علاقہ میں طاعون پھیلا ہوا ہو اور تم وہاں پہلے سے موجود نہ ہو تو اب طاعون پھیلنے کی وجہ سے اس علاقہ میں نہ جاؤ۔ اس سے منع فرمایا جا رہا ہے تاکہ اپنی جان کو جانتے بوجھتے ہلاکت میں ڈالنا لازم نہ آئے۔ دوسری ہدایت یہ ہے کہ جس علاقہ میں طاعون پھیلا ہوا ہو تو وہاں پہلے سے موجود ہو تو اب محض طاعون پھیلنے کی وجہ سے اس علاقہ سے نکل کر کسی دوسری جگہ نہ بھاگ جاؤ۔ کیونکہ اس طرح کی تکلیف و پریشانی کے خوف سے اور موت کے ڈر سے بھاگنے کا مطلب ہوگا کہ تقدیر کے لکھے ہوئے فیصلہ سے فرار اختیار کرنا جو لا حاصل ہے۔ لہٰذا کسی عام وبا پھیلنے کے وقت کے بارے میں شریعت اسلامی کا یہی ضابطہ ہے کہ جس طرف وبا پھیلی ہوئی ہو وہاں جائے نہیں اور جس جگہ پہلے سے موجود تھا اور وہاں وبا پھیل گئی تو پھر وہاں سے بھاگے نہیں جو شخص بھاگے گا وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اور راندہ درگاہ الٰہی ہوگا ہاں وبا کے علاوہ دوسرے بعض مواقع پر جہاں ہلاکت کا ظن غالب ہو بھاگنے کی اجازت ہے مثلاً کوئی شخص گھر میں ہو اور زلزلہ آجائے یا گھر میں آگ لگ جائے یا اسی طرح کسی ایسی دیوار کے نیچے بیٹھا ہوا ہو جس کے گرنے کا خطرہ ہو تو جان بچانے کے لئے وہاں سے بھاگنا جائز ہے۔
[مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1525]



بینائی سے محرومی اور اس پر صبر اخروی سعادت کی نشانی
وعن أنس قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : قال الله سبحانه وتعالى : إذا ابتليت عبدي بحبيبتيه ثم صبر عوضته منهما الجنة يريد عينيه .
ترجمہ:
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی بندہ کو اس کی دونوں پیاری چیزوں میں مبتلا کردیتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو میں ان دونوں کے بدلہ میں اسے جنت دیتا ہوں (راوی کہتے ہیں کہ اس کی دونوں پیاری چیزوں سے) آنحضرت ﷺ کی مراد اس کی دو آنکھیں ہیں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اللہ جل شانہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو میں اندھا کردیتا ہوں تو اس کو اس کی دونوں آنکھوں کے بدلہ میں بہشت دیتا ہوں، یعنی اسے نجات پائے ہوئے لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل کروں گا، یا یہ کہ اسے جنت میں مخصوص مراتب و درجات عطا کروں گا۔ لہٰذا جب کوئی شخص اپنی بینائی سے محروم ہوجائے تو اسے چاہئے کہ وہ نہ تو اس کی وجہ سے اپنی زبان شکایت کو دراز کرے اور نہ دل میں کوئی تنگی اور تکدر پیدا کرے بلکہ ایسی صورت میں صبر و شکر کی راہ پر گامزن رہے اور جانے کہ اندھا ہونا غضب خداوندی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ گناہوں کے دور ہونے، درجات کے بلند ہونے اور نگاہ بد سے بچانے کے لئے حق تعالیٰ نے آزمائش میں مبتلا کیا ہے۔ ایک بزرگ کے بارے میں منقول ہے کہ جب عمر کے آخری حصہ میں اندھے ہوگئے تو فرمایا کرتے تھے کہ وہ خلوت جسے میں تمام عمر چاہا کرتا تھا اب میسر آئی ہے۔
[مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1526]



آنکھوں کی بیماری میں عیادت کرنے کا مسئلہ
وعن زيد بن أرقم قال : عادني النبي صلى الله عليه و سلم من وجع كان يصيبني .
ترجمہ:
حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے میری عیادت فرمائی جب کہ میری آنکھوں میں درد تھا۔

تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس شخص کی عیادت کرنا سنت ہے جو آنکھیں دکھنے یا آنکھ کی دوسری بیماری میں مبتلا ہو جب کہ ایک روایت کا جو جامع صغیر میں منقول ہے یہ مفہوم ہے کہ تین بیماریاں ایسی ہیں جن میں بیمار کی عیادت نہ کی جائے (١) آنکھیں دکھنے میں (٢) داڑھ کے درد میں (٣) دنبل (پھوڑے) میں۔ چونکہ ان دونوں حدیثوں میں تعارض ہے اس لئے ان دونوں میں اس تاویل کے ذریعہ تطبیق پیدا کی جائے گی کہ ان بیماریوں میں بیمار کی عیادت وہ لوگ نہ کریں جن کے لئے بیمار کو تکلیف کرنا پڑے یا ان کا آنا بیمار کے لئے گراں ہو کیونکہ اگر وہ لوگ ایسے بیمار کی عیادت کے لئے جائیں گے تو آنکھ دکھنے یا آنکھ کی دوسری بیماری کی شکل میں بیمار کو اپنی آنکھ کھولنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ یا داڑھ دکھنے کی صورت میں اسے گفتگو کرنے کی وجہ سے بہت زیادہ تکلیف ہوگی اسی طرح اگر دنبل ہوگا تو وہ ان کی وجہ سے ٹھیک طریقہ سے بیٹھنے پر مجبور ہوگا اور ظاہر ہے پھوڑے کے وجہ سے اس کے لئے کسی ایک اور ٹھیک ہئیت پر بیٹھنا بہ زیادہ تکلیف کا باعث ہوگا۔ ہاں اگر ایسے لوگ عیادت کے لئے جائیں جن کی وجہ سے بیمار کو تکلیف نہ کرنا پڑے یا ان کا جانا بیمار پر گراں نہ گزرے تو ان بیماریوں میں بھی عیادت کے لئے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ حاصل یہ ہے کہ یہاں جو حدیث نقل کی جا رہی ہے وہ آخری صورت پر محمول ہوگی اور جامع صغیر کی روایت پہلی صورت پر محمول کی جائے گی۔
[مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1528]



پیٹ کی بیماری میں مرنے والا قبر کے عذاب سے محفوظ رہے گا:
عن سليمان بن صرد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من قتله بطنه لم يعذب في قبره
ترجمہ:
حضرت سلیمان ابن صرد ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص پیٹ کی بیماری (مثلاً دست و استسقاء وغیرہ) میں مرگیا تو اسے اس کی قبر کے عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا۔
[جامع الترمذي:1064، سنن النسائى:2054]
تشریح:
پیٹ کے مرض میں مرنے والے کے لئے سعادت اس لئے ہے کہ اس مرض کی سختی کی وجہ سے گناہ دور ہوجاتے ہیں اور یہ شہید مرتا ہے جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ذکر کیا جا چکا ہے اور شہید کے بارے میں صحیح مسلم میں یہ حدیث منقول ہے کہ شہید کے تمام گناہ علاوہ دین (یعنی بندوں کے حقوق) کے بخش دئیے جاتے ہیں۔
[شرح مشکوٰۃ:1550]






صبرایوب علیہ السلام

حضر ت مولانا سید شبیراحمدعثمانی  رحمة اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں:

حضرت ایوب علیہ السلام کو حق تعالیٰ نے دنیا میں ہر طرح سے آسودہ رکھا تھا، کھیت،مویشی، لونڈی، غلام، اولاد صالح اور بیوی مرضی کے موافق عطا کی تھی، حضرت ایوب علیہ السلام بڑے شکر گزار بندے تھے؛لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمائش میں ڈالا، کھیت جل گئے، مویشی مر گئے، اور اولاد اکٹھی دب کر مرگی، دوست اورآشنا الگ ہوگئے،بطورخاص سالہا سال کسی سخت بیماری میں میں مبتلاکیے گئے،اس طویل بیماری کے زمانے کبھی بھی زبان پرایک حرف شکایت نہیں لائے،اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں حضرت ایوب کے صبر کی داددیتے ہوئے ارشادفرمایا:ہم نے ایوب کو صبرکرنے والاپایا،وہ بہت ہی بہترین بندہ تھا اور(میری طرف ) بہت رجو ع کرنے والاتھا،حضرت ایوب علیہ السلام جیسے نعمت میں شاکر تھے،ویسے ہی بلا میں صابررہے،پھر دعا کی أَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ۔(الانبیاء:۸۳) رب کو پکارنا تھا کہ دریائے رحمت امنڈ پڑا۔

اللہ تعالیٰ نے مری ہوئی اولاد سے دگنی اولاد دی، زمین سے چشمہ نکالا،اسی سے پانی پی کر اور نہاکر تن درست ہوئے،بدن کا سارا روگ جاتا رہا اور جیسا کہ حدیث میں ہے سونے کی ٹڈیاں برسائیں، غرض سب طرح درست کردیا،ایوب علیہ السلام پر یہ مہربانی ہوئی اور تمام بندگی کرنے والوں کے لیے ایک نصیحت اور یادگار قائم ہوگئی کہ جب کسی بندے پر دنیا میں برا وقت آئے،تو ایوب علیہ السلام کی طرح صبرو استقلال دکھلانا اور صرف اپنے پروردگار سے فریاد کرنا چاہیے، حق تعالیٰ اس پر نظر عنایت فرمائے گا۔
(مستفاد:ازتفسیرعثمانی،سورة الانبیاء:۸۳)

بلا ومصیبت میں راضی برضا رہنا چاہئے

وعن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إن عظم الجزاء مع عظم البلاء وإن الله عز و جل إذا أحب قوما ابتلاهم فمن رضي فله الرضا ومن سخط فله السخط .
ترجمہ:
حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: بڑی مصیبتوں کے بدلہ بڑا اجر ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو پسند کرتا ہے تو اسے (مصیبتوں میں) مبتلا کردیتا ہے چناچہ جو (مصائب و بلاء میں) راضی رہا تو اس کے لئے (اللہ تعالیٰ کی) رضا ہے اور جو شخص (مصیبت کے ابتلاء سے) ناراض رہا تو اس کے لئے (اللہ کی) ناراضگی ہے۔
[رواہ الترمذی:2396، ابواب الزھد]

تشریح
اللہ تعالیٰ جب کسی شخص سے خوش ہوتا ہے تو اسے مصیبت و بلاء میں مبتلا کردیتا ہے اسی طرح جب کسی شخص سے ناراض و ناخوش ہوتا ہے تو اسے بھی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے اگرچہ اس دوسرے جزو کو حدیث میں بظاہر ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن حدیث کے الفاظ فمن رضی الخ سے یہ جزو بھی مفہوم ہوتا ہے۔ گویا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ بندہ کی خوشی و ناخوشی حق تعالیٰ کی خوشی و ناخوشی کی علامت ہے جو شخص مصیبت و بلاء میں راضی برضا رہتا ہے وہ اللہ کا پسندیدہ و محبوب ہوتا ہے بایں طور کہ اللہ بھی اس سے راضی و خوش رہتا ہے اور جو شخص مصیبت و بلاء کی سختیوں پر زبان شکایت دراز کرتا اور ناراضگی و ناخوشی کا اظہار کرتا ہے وہ راندہ درگاہ الٰہی ہوتا ہے بایں طور کہ اللہ اس سے خوش و راضی نہیں رہتا۔ چناچہ منقول ہے کہ صحابہ ؓ آپس میں یہ سوال کرتے تھے کہ کس طرح معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کس بندہ سے خوش و راضی ہے اور کس بندہ سے ناخوش و ناراض ہے؟ پھر یہ جواب دیتے تھے کہ اگر بندہ اللہ سے خوش و راضی ہے تو سمجھا جائے کہ اللہ اس بندہ سے خوش و راضی ہے اور اگر بندہ اللہ سے ناخوش و ناراض ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ اللہ اس سے ناراض و ناخوش ہے۔
[مشکوٰۃ المصابیح:1543]
علاج ومعالجہ اور دعا بے صبری نہیں

اس دنیا میں تکلیف، دکھ اور رنج بھی ہے اور آرام،خوشی اورمسرت بھی،تن درستی اور بیماری بھی ہے اور سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اور اسی کے حکم اور فیصلے سے ہوتا ہے؛ اس لیے ایمان والوں کو چاہیے کہ جب تکلیف، مصیبت پریشانی اور آزمائشیں آئیں، تو صبر وہمت سے کام لیں، ظاہری تدابیراختیارکریں، خدا کی طرف رجوع کریں اور ان مصائب پر اجر وثواب کی امید رکھیں، ان شاء اللہ حالات سازگار ہوں گے، اس کی بہترین مثال اللہ نے قرآن پاک میں حضرت ایوب علیہ السلام کے واقعے میں بیان فرمائی ہے، یہی ہمارے لیے کافی ہے۔

مرض کے ازالے کے لیے ظاہری تدابیر اختیارکرنا، علاج ومعالجہ کرنا، ڈاکٹر، طبیب اور تیماردار کو اپنی بیماری اور تکلیف بتانا اور دعا کی درخواست کرنا، مریض کا شدت ِمرض کی وجہ سے کراہنا، صبر، تقوی اور توکل کے خلاف نہیں ہے، نیز اللہ تعالیٰ سے دعاکرنا،اللہ کے سامنے اپنے کمزوری اور عاجزی اوراپنی عبدیت وحاجت مندی کا اظہارکرنا، پریشانی اوربیماری سے شفا طلب کرنا بے صبری نہیں ہے؛بلکہ یہ باتیں اللہ کو بہت پسند اورمحبوب ہیں۔

اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:حضرت ایوب علیہ السلام کا تذکرہ کیجیے جب کہ انھوں نے (شدید مرض میں مبتلا ہونے کے بعد)پکارا کہ مجھ کو تکلیف پہنچی ہے اور آپ سب سے زیادہ مہربان ہیں، پس اپنی مہربانی سے میری تکلیف اور بیماری کو دور کردیجیے، ہم نے ان کی دعاقبول کی اور ہم نے اپنے فضل سے اورعبادت گزاوں کی عبرت کے لیے ان کو دوبارہ ان کاکنبہ عطافرمایا اوران کے ساتھ ان کے برابر اوربھی اہل، اولاد اورمال ودلت عطاکیا۔

یہی وجہ ہے کہ محققین نے فرمایاہے:حضرت ایوب علیہ السلام کی مذکورہ دعاتوحید وعبدیت، عجز وانکساری پر مشتمل عجیب جامع دعاہے۔
[التفسیرالقیم، سورۃ الانبیاء:۸۳]

بے صبری یہ ہے کہ بیمار جزع وفزع کرے،تقدیرپر ناراضگی کااظہارکرے اورمخلوق کے سامنے خالق کی شکایت کرے،خدا،رسول اورشریعت کو برا بھلاکہے،اللہ کی رحمت سے مایوس ہوجائے، مرض کی شدت کی وجہ سے کوئی نامناسب قدم اٹھائے،یہ بے صبری ہے جوممنوع ہے،مسلمان کی شان نہیں ہے،نیز جزع وفزع سے تکلیفیں،مصیبتیں،پریشانیاں اوربیماریاں دورنہیں ہوں گی،دنیا میں ان پریشانیوں میں مبتلارہیں گے اور آخرت میں اجروثواب سے محروم ہوجائیں گے۔



مریض کے حال کی اطلاع دینے کا طریقہ
عن ابن عباس قال : إن عليا خرج من عند النبي صلى الله عليه و سلم في وجعه الذي توفي فيه فقال الناس : يا أبا الحسن كيف أصبح رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ قال : أصبح بحمد الله بارئا۔
ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت جب کہ آنحضرت ﷺ مرض الموت میں مبتلا تھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ (جب) نبی کریم ﷺ کے پاس سے اٹھ کر باہر تشریف لائے تو لوگوں نے ان سے پوچھا کہ ابوالحسن (یہ حضرت علی ؓ کی کنیت تھی) آنحضرت ﷺ پر صبح کیسی گزری؟ انہوں نے فرمایا اللہ کا شکر ہے آپ ﷺ نے بیماری سے اچھے ہونے والے کی طرح صبح گزاری (یعنی شکر ہے کہ آپ ﷺ آج اچھے ہیں)
[صحيح البخاريّ:4447]

تشریح:
جب لوگوں نے حضرت علی ؓ سے آنحضرت ﷺ کی صحت کے بارے میں پوچھا تو حضرت علی ؓ نے ان الفاظ کے ذریعہ جواب دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب آپ ﷺ قریب بصحت ہیں۔ حضرت علی ؓ کا یہ جواب یا تو ان کے اپنے گمان کے مطابق تھا کہ وہ یہ ہی سمجھ رہے ہوں گے کہ آنحضرت ﷺ جلد ہی صحت یاب ہونے والے ہیں یا پھر یہ کہ حضرت علی ؓ نے آنحضرت ﷺ کی بیماری کی شدت کے احساس اور صحت سے مایوسی کے باوجود یہ جواب نیک فال کے طور پر دیا۔ چناچہ علماء لکھتے ہیں کہ جب کسی عیادت کرنے والے تیمار دار سے مریض کا حال پوچھا جائے تو اگرچہ بیمار کی حالت مایوس کن ہو مگر اس بارے میں ادب اور طریقہ یہی ہے کہ فال نیک کے طور پر اس طرح سے امید افزاء اور خوش کن جواب دینا چاہئے۔
[مشکوٰۃ:1553]
عیادت کی اہمیت

دین متین جس طرح ہم کوخوشیوں میں دوسروں کا ساتھ دے کر ان کی خوشیاں بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے،اسی طرح دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھنے،اس میں شریک ہونے اوراس کے ازالے کی کوشش کرنے کی تلقین کرتاہے،ایک مسلمان کی پہچان یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان بھائی کو بیماری وپریشانی میں مبتلا دیکھ کر اس کے اندر رحم کے جذبات ابھریں اور اس کی مصیبت کا اسے بھی احساس ہو، یقیناایک مسلمان کا دوسروں کی تکلیف کا احساس کرکے دل جوئی اور دل داری کی خاطر اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر عیادت کرنے میں اُس فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلَّم کا عملی اظہار ہوتا ہے کہ جس میں تمام مسلمانوں کوایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے۔

عیادت اور مزاج پرسی سے آپسی تعلقات میں اضافہ ہوتا ہے، ایک دوسرے کے تئیں ہم دردی اورغم خواری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، مریض،اس کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے دل میں عیادت کرنے والے کی محبت پیدا ہوتی ہے اور اتحاد و یگانگت کی ایک اچھی فضا قائم ہوتی ہے، گویا سماجی اور دینی دونوں ضرورتیں اس سے پوری ہوتی ہیں، اگر بیماری کے علم کے باوجود مریض کی عیادت نہ کی جائے اور اس کی طرف بالکل توجہ نہ دی جائے،تو آپس میں عداوت،کدورت اورنفرت اور کم از کم بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔


عیادت مسلمان کا حق ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کاجواب دینا، مریض کی عیادت کرنا،جنازے کے ساتھ چلنا،دعوت قبول کرنا اور چھینک کے جواب پر ”یرحمک اللہ“ کہنا۔
[صحیح بخاری،کتاب الجنائز،اتباع الجنائز:1240]

اسلام نے بیمار پُرسی اور تیمارداری کو گناہوں کی بخشش اور درجات کی بلندی کا ذریعہ بتایا ہے، کسی بھی بیمار کی عیادت کو اللہ تعالیٰ کی عیادت کے مترادف بتلایاگیا،اللہ تعالیٰ کی ذات اگرچہ ہر بیماری سے پاک ہے،اُسے کوئی بیماری و تکلیف ہر گز ہرگز لاحق نہیں ہوسکتی؛لیکن عیادت کی فضیلت اجاگرکرنے کے لیے اس طرح کی مثال بیان کی گئی؛چناں چہ حدیثِ قدسی میں ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا:اے ابن آدم! میں بیمار ہوا، تو نے میری عیادت نہیں کی،وہ کہے گا:اے پروردگار! میں تیری عیادت کیسے کرتا؛ حالاں کہ تو رب العالمین ہے،اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی، اگر تو اس کی عیادت کرتا،تو تو مجھے اس کے پاس پالیتا الخ
[صحیح مسلم، کتاب البروالصلة، باب فضل عیادة المرض:2569]

مریض دوست ہو،یا دشمن،امیر ہو،یا غریب عیادت کو سنت،اخلاقی فریضہ اورمسلمان کاحق سمجھ کرنا چاہیے،آج عیادت کا دائرہ سمٹ کررہ گیا ہے، معاشرے میں عیادت ایک رسم بن گئی ہے،لوگ اس وجہ سے عیادت کرتے ہیں کہ اگرمیں نے عیادت نہیں کی،تو اس کے گھر والے کیا سمجھیں گے، کوئی مال دار،یا عہدہ دار،یا خاص رشتہ دار ہو، تو اس کی عیادت کی جاتی ہے، اگر کوئی غریب ہے،تو پڑوس میں ہونے کے باوجود ایک مرتبہ بھی مزاج پرسی اور اظہارِ ہم دردی نہیں کی جاتی؛اس لیے کہ اس سے ہمارا کوئی دنیوی مفاد وابستہ نہیں اور نہ آئندہ اس کی کوئی توقع ہے۔ ہائے افسوس !





عیادت کے فضائل

عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاہُ الْمُسلم، لم یزل فِی خُرْفَةِ الْجَنَّةِ حَتَّی یَرْجِعَ․
ترجمہ:
حضرت ثوبان  فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی عیادت جاتاہے،تو واپس ہونے تک وہ جنت کے باغات میں ہوتا ہے۔
[صحیح مسلم:2568، مسند ابوعوانہ:11210 ، مسند احمد:22444]

یعنی عیادت کرنے والا جب سے عیادت کے لیے نکلتا ہے، تو واپس ہونے تک اس طرح ثواب کو حاصل کرنے میں لگا رہتا ہے، جس طرح جنتی جنت کے باغات میں پھل توڑنے میں لگا رہتا ہے۔
[مرقاة المفاتیح:1527،کتاب الجنائز]


عیادت کا اجر
عَنْ ‌ثُوَيْرٍ - هُوَ بْنُ أَبِي فَاخِتَةَ - عَنْ ‌أَبِيهِ قَالَ: «أَخَذَ ‌عَلِيٌّ بِيَدِي، قَالَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْحَسَنِ» نَعُودُهُ، فَوَجَدْنَا عِنْدَهُ أَبَا مُوسَى، فَقَالَ عَلِيٌّ: أَعَائِدًا جِئْتَ يَا أَبَا مُوسَى أَمْ زَائِرًا؟ فَقَالَ: لَا، بَلْ عَائِدًا، فَقَالَ عَلِيٌّ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَعُودُ مُسْلِمًا غُدْوَةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ عَادَهُ عَشِيَّةً إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ حَتَّى يُصْبِحَ، وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ.
ترجمہ:
حضرت ابوفاختہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حضرت علی  نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: میرے ساتھ حسن  کی عیادت کی کے لیے چلو، (ہم حضرت حسن  کے گھرگئے)وہاں حضرت ابوموسیٰ اشعری  موجود تھے، حضرت علی نے حضرت ابوموسیٰ اشعری سے پوچھا، ابوموسیٰ!آپ ملاقات کے لیے آئے ہو؟ یا عیادت کی غرض سے آئے ہو؟حضرت ابوموسیٰ اشعری نے عرض کیا: حضرت حسن کی عیادت کی غرض سے حاضر ہوا ہوں، حضرت علی  نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جومسلمان صبح کے وقت کسی مسلمان کی عیادت کرتاہے،شام تک سترہزارفرشتے عیادت کرنے والے کے لیے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں،اگرشام کے وقت عیادت کرے، تو صبح تک سترہزارفرشتے عیادت کرنے والے کے لیے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں اوراس کے لیے جنت میں ایک باغ تیار کیا جاتا ہے۔
[ترمذی:969، ابوداؤد:3098، ابن ماجہ:1442، احمد:802، بزار:777]



عیادت کرنے والے کی سعادت
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ عَادَ مَرِيضًا، لَمْ يَزَلْ يَخُوضُ فِي الرَّحْمَةِ حَتَّى يَجْلِسَ، فَإِذَا جَلَسَ اغْتَمَسَ فِيهَا۔
ترجمہ:
حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص کسی بیمار کے پاس جاتا ہے اور اس کی عیادت کرتا ہے تو جب تک وہ بیٹھتا نہیں دریائے رحمت میں داخل رہتا ہے اور جب بیمار کے پاس بیٹھتا ہے تو دریائے رحمت میں ڈوب جاتا ہے۔
[مسند احمد: 14260، صحیح ابن حبان:2956، مشکوٰۃ:1558]


عیادت کے لئے پیادہ پا جانا افضل ہے:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَنْ عَادَ مَرِیضًا أَوْ زَارَ أَخًا لَہُ فِی اللَّہِ نَادَاہُ مُنَادٍ أَنْ طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاکَ وَتَبَوَّأْتَ مِنَ الجَنَّةِ مَنْزِلًا․
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جوشخص کسی مریض کی عیادت کرے،یا کسی دینی بھائی سے ملاقات کرے،توآسمان سے ایک فرشتہ اعلان کرتاہے کہ تم نے اچھاکیا،تمہارا(عیادت وملاقات کے لیے) چلنا مبارک ہے اورتم نے(عیادت کرکے) جنت میں اپنے لیے ٹھکانہ بنالیا۔
[رَوَاہُ الترمذی:2088، کتاب البروالصلة، باب ماجاء فی زیارة الاخوان]

علامہ طیبی شارح مشکوٰة تحریر فرماتے ہیں:اس روایت میں عیادت کرنے والے کے لیے تین دعائیں دی گئیں ہیں،یہ جملے خبر یہ نہیں؛بلکہ دعائیہ ہیں، پھرحدیث کا ترجمہ یوں گا:تیرا بھلا ہو(دنیا وآخرت میں)، تو آخرت کے راستے پر (برائیوں سے بچتے ہوئے) بھلائی کے ساتھ چلے اور تیرا ٹھکانہ جنت بنے،گویا اس روایت میں عیادت کرنے والے کے لیے دنیا وآخرت کی بھلائی، نیکیوں کی توفیق کی اور حصول جنت کی دعائیں دی گئیں ہیں۔
[مرقاة:1575، مشکوۃ:1552]

عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ -رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ- قَالَ: عَادَنِی النَّبِیُّ مِنْ وَجَعٍ کَانَ بِعَیْنِی․
ترجمہ:
حضرت زیدبن ارقم  فرماتے ہیں: میں آشوبِ چشم کے مرض میں مبتلا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت کے لیے تشریف لے آئے۔
[أَبُودَاوُدَ:3102، کتاب الجنائز، باب العیادة من الرمد]

اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ مرض بظاہر چھوٹا اورمعمولی ہو،تب بھی مسلمان کی ہم دردی اوردل داری کے لیے عیادت مستحب ہے،اس پربھی عیادت کرنے والے کو اجروثواب ملے گا۔
[مرقاة:1551]





عیادت کا شرعی حکم

اسلا م میں عیاد ت کو بڑی اہمیت حاصل ہے،اس بناپر بعض فقہاء نے عیادت کو واجب قرار دیا ہے، امام بخاری کا رجحان بھی یہی ہے، علّامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:عیادت کا حکم اصلاً مستحب ہے، بعض اوقات بعض لوگوں پرواجب ہوتاہے۔(فتح الباری،کتاب المرضی،باب وجوب عیادة المریض:۵۶۴۹)عیادت کا واجب یامستحب ہونا حالات پرموقوف ہے،اگرمریض کے متعدد تیماردار موجودہوں،تومستحب ہے،کوئی دیکھ ریکھ کرنے والانہ ہو،توواجب ہے،علامہ بغوی  نے یہی بات کہی ہے۔
[قامو س الفقہ:4/418]

ایک مسلمان کا فرض ہے کہ مریض کے ساتھ ہم دردی اورغم خواری کرے، اس کے احوال پوچھے اور جہاں تک ہوسکے،اس کا تعاون کرے، اسی کو عربی زبان میں عیادت کہا جاتا ہے،عیادت کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ بیمار کی مزاج پرسی کی جائے،یا تیمار داروں سے اس کے احوال معلوم کرلیے جائیں، عیادت کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ مریض کے ساتھ مکمل غم خواری کی جائے،یعنی بیمار کے پاس پیسے کی کمی ہے اور اللہ نے وسعت دی ہے،تو پیسوں کے ذریعے اس کا تعاون کریں؛تا کہ صحیح علاج کیا جاسکے، اگر خدمت کی ضرورت ہو،تو خدمت کی جائے،صحیح ڈاکٹر کی رہنمائی کی جائے، اپنے علم کے اعتبار سے صحیح اورمفید مشورے دئیے جائیں۔

تیمارداروں (اورمریض کے رشتہ داروں)پرلازم ہے کہ وہ اپنی وسعت ومالی استطاعت کے موافق مریض کی خدمت،اس کا علاج اوراس کی ضروریات کی تکمیل کریں،شریعت ہمیں بتاتی ہے کہ مریض بوجھ نہیں؛بلکہ سببِ رحمت ہے،اس کی خدمت اورتیمارداری اجروثواب کے حصول کا ذریعہ ہے۔
[اسلامک فقہ اکیڈمی کے فیصلے:29]


عیادت کا طریقہ اور آداب

(۱) جب عیادت کے لیے جائے، تو باوضو جائے۔
وعن أنس : قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من توضأ فأحسن الوضوء وعاد أخاه المسلم محتسبا بوعد من جهنم مسيرة ستين خريفا۔
ترجمہ:
حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے وضو کیا اور اچھا (یعنی پورا) وضو کیا ور پھر (حصول) ثواب کے ارادے سے اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کی تو اس کو دوزخ سے ساٹھ برس (کی مسافت) کی بقدر دور رکھا جاتا ہے۔
[ابوداود][مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1529]



(۲) اللہ کی رضا اورثواب کی نیت سے عیادت کی جائے،جاہ ومنصب،مال ومنال کی رعایت، یا ترک ِعیادت پر ملامت سے بچنے کی غرض سے عیادت نہ کی جائے۔

حضر ت انس فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جوشخص وضوکرے،اچھا وضوکرے اوراپنے مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے (کسی دنیوی غرض سے نہ جائے؛بلکہ محض رضائے الٰہی اور)،ثواب کی نیت سے جائے،تواللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے ساٹھ سال کی مسافت کے بقدردورکردیتے ہیں۔
(ابوداؤد،کتاب الجنائز،باب فی فضل العیادة علی الوضوء:۳۰۹۷)

(۳) مریض کے سامنے اس کو خوش کرنے والی باتیں کی جائیں، ایسی باتیں نہ کی جائیں جو اس کے دل کو تکلیف پہنچانے والی ہوں، یا اس کے فکر و اندیشے میں اضافہ کرنے والی ہوں، مریض کو تسلی دے اور کہے ان شاء اللہ ٹھیک ہوجاؤگے،کوئی بڑی بات نہیں ہے، رسول اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتے،تومندرجہ ذیل کلمات سے تسلی دیتے تھے۔
لاَ بَأْسَ، طَہُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّہُ․
ترجمہ:
کوئی تکلیف یا گھبراہٹ کی بات نہیں ہے؛ اس لیے کہ بیماری گناہوں کی صفائی وستھرائی کا ذریعہ ہے، ان شاء اللہ (بہترہی ہوگا)
[(رواہ البخاری:5656،کتاب المرضی، باب عیادة الاعراب]


(۴) مریض کو صحت وتن درستی اورزندگی کی امید دلائے، مریض کو ناامید بنانے والی گفتگو سے احتراز کرے۔
حضرت ابوسعیدخدری  فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب تم بیمارکے پاس جاؤ،تو اس سے عمر کی درازی اور لمبی زندگیکی بات کرو، عمری درازی کی بات سے اس کی عمر لمبی اور بیماری دورنہیں ہوجائے گی؛لیکن بیمار خوش اورمطمئن ہوجائے گا۔
[رواہ الترمذی:2083،ابواب الطب]

عیادت کے وقت مریض کی دلداری کرو:
عن أبي سعيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا دخلتم على المريض فنفسوا له في أجله فإن ذلك لا يرد شيئا ويطيب بنفسه.
ترجمہ:
حضرت ابوسعید ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تم مریض کے پاس (اس کا حال پوچھنے کے لئے) جاؤ تو اس کی زندگی کے بارے میں اس کا غم دور کرو (یعنی تسلی و تشفی دلاؤ کہ فکر و غم نہ کرو تم جلد ہی صحت یاب ہوجاؤ گے اور تمہاری عمر دراز ہوگی) اس لئے کہ یہ (تسلی و تشفی اگرچہ) کسی چیز کو (یعنی مقدر کے لکھے کو) ٹال نہیں سکتی (مگر) مریض کا دل (ضرور) خوش ہوتا ہے۔
[الترمذي:2087، ابن ماجه:1438]
تشریح:
بعض علماء نے لکھا ہے کہ جب وقت نزع قریب ہو تو مریض کے لئے مستحب ہے کہ وہ مسواک کرے چناچہ صحیح احادیث میں آنحضرت ﷺ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ ﷺ نے انتقال کے وقت مسواک فرمائی تھی اور اس کی حکمت بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اس سے رواح کا نکلنا آسان و سہل ہوجاتا ہے اسی طرح اس وقت فرشتوں کی خاطر خوشبو لگانا مستحب ہے، نیز پاکیزہ کپڑے پہننا، نماز پڑھنا اور نہانا بھی مستحب ہے۔
[شرح مشکوٰۃ:1549]


(۵) مریض کے سر یا بدن کے جس حصے پر تکلیف ہو، اس جگہ داہنا ہاتھ پھیرے،احایث میں بے شمار دعائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، انھیں پڑھ کر دم کرے، ذیل میں چند دعائیں ذکرکی جاتی ہیں،موقع ومحل کی رعایت سے ان کو پڑھ کرمریض پر دم کرے۔
عیادت کے وقت کی دعا
وعن عبد الله بن عمرو قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا جاء الرجل يعود مريضا فليقل ك اللهم اشف عبدك ينكأ لك عدوا أو يمشي لك إلى جنازة
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص کسی مریض کے پاس عیادت کے لئے آئے تو اسے یہ دعائیہ الفاظ کہنے چاہئیں۔ آیت (اللہم اشف عبدک ینکالک عدوا او یمشی لک الی جنازۃ)۔ یعنی اے اللہ! اپنے بندہ کو شفا دے تاکہ وہ تیرے بندہ کو ایذاء پہنچائے (یعنی دشمان دین سے جنگ وجدال کر کے انہیں زخمی اور قتل کرے) یا تیری خوشی و رضا کی خاطر جنازہ کی طرف (یعنی نماز جناہ کے لئے) چلے۔
[مشکوٰۃ المصابیح:1533]

حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جومسلمان کسی ایسے مریض(کسی بھی قسم کا مرض ہو)کی عیادت کرے جس کی موت کا وقت قریب نہ آیا ہو، تین مرتبہ بسم اللہ پڑھے، پھر سات مرتبہ مندرجہ ذیل دعا کرے، تو اللہ تعالیٰ اس مریض کو ضرور شفاعطا فرماتے ہیں:
أَسْأَلُ اللَّہَ العَظِیمَ رَبَّ العَرْشِ العَظِیمِ أَنْ یَشْفِیَکَ․
میں اللہ بزرگ و برتر سے جو عرش عظیم کا مالک ہے دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے شفا دے۔
[سنن الترمذی:2083، ابواب الطب]


حضرت عائشہ فرماتی ہیں:جب ہم میں سے کوئی آدمی بیمارہوتا،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا داہناہاتھ (بدن کے اس حصے پر) پھیرتے، (جس جگہ تکلیف اورمرض ہے) پھرمندرجہ ذیل دعا پڑھتے (جوکسی بھی قسم کے مریض کے لیے پڑھی جاسکتی ہے )

اللَّہُمَّ رَبَّ النَّاسِ أَذْہِبِ البَاسَ، اشْفِہِ وأَنْتَ الشَّافِی، لاَ شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُکَ، شِفَاءً لاَ یُغَادِرُ سَقَمًا․
(رواہ البخاری، کتاب الطب، باب رقیة النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:۵۷۴۳)

اے اللہ!اے لوگوں کے پروردگار! تکلیف اورمرض کو دورفرما،اس مریض کو شفانصیب فرما،آپ ہی شفاعطافرمانے والے ہیں، ایسی شفانصیب فرماجوکسی بیماری کو باقی نہ چھوڑے،سب کو دور کرے۔


عن عائشة رضي الله عنها قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا اشتكى منا إنسان مسحه بيمينه ثم قال : أذهب الباس رب الناس واشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما
ترجمہ:
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ (کا یہ طریقہ تھا) جب ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا آپ ﷺ اس پر داہنا ہاتھ پھیرتے اور یہ (دعا) فرماتے۔ اے لوگوں کے پروردگار! بیماری دور کر دے اور شفا دے تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیرے سوا کسی کی شفاء ایسی نہیں جو بیماری کو دور کر دے۔
[مشکوٰۃ المصابیح:1507]

بخار اور درد کی دعا:
عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه و سلم : كان يعلمهم من الحمى وم الأوجاع كلها أن يقولوا : بسم الله الكبير أعوذ بالله العظيم من شر كل عرق نعار ومن شر حر النار . رواه الترمذي وقال هذا حديث غريب لا يعرف إلا من حديث إبراهيم بن إسماعيل وهو يضعف في الحديث
ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ صحابہ کو سکھلایا کرتے تھے کہ وہ (یعنی بیمار لوگ) بخار بلکہ ہر درد (سے شفا) کے لئے اس طرح دعا کیا کریں دعا (بسم اللہ الکبیر اعوذ باللہ العظیم من شر کل عرق نعار ومن شر حر النار) یعنی میں برکت چاہتا ہوں اللہ بزرگ و برتر کے نام سے اور پناہ چاہتا ہوں اللہ بزرگ و برتر کی، ہر رگ جوش مارنے والی کی برائی (یعنی تکلیف) سے اور آگ کی برائی سے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے کیونکہ ہم اس حدیث کو ابراہیم ابن اسماعیل کے علاوہ اور کسی دوسرے ذریعہ سے نہیں جانتے اور وہ (یعنی ابراہیم) روایت حدیث کے بارے میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں۔

تشریح:
ہر رگ جوش مارنے والی سے مراد وہ خون ہے جو رگ میں جوش مارتا ہے، مطلب یہ ہے کہ اس خون سے پناہ چاہے جو رگ میں جوش مارتا ہے کیونکہ جب خون غالب آجاتا ہے تو تکلیف پہنچاتا ہے بایں طور کہ اس سے بخار اور دوسرے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ حدیث ابن شیبہ، ترمذی، ابن ماجہ، ابن ابی الدنیا، ابن سنی اور حاکم نے روایت کی ہے اور بیہقی نے دعوات کبیر میں اس کی صحت کی تصدیق کی ہے۔
[مشکوٰۃ المصابیح:1531]


آنحضرت ﷺ کی علالت اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کی دعا:
حضرت ابوسعید خدری  فرماتے ہیں: جبریل امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا:اے محمد! تم بیمارہو ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں میری طبیعت خراب ہے، پھر جبرئیل امین علیہ السلام نے مندرجہ ذیل دعا (جونظربد اوربرے اثرات کے لیے نہایت مفیدومجرب ہے) پڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دم کیا۔

بِاسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیکَ، مِنْ کُلِّ شَیْءٍ یُؤْذِیکَ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَیْنِ حَاسِدٍ، اللّٰہُ یَشْفِیکَ بِاسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیکَ․
ترجمہ:
اللہ کے نام سے تم پر دم کرتاہوں، ہرچیز کے شرسے جوتمہیں تکلیف پہنچائے،ہرنفس کے شر اور حاسد کی نظربد سے، اللہ تمہیں شفاعطافرمائے،اللہ کے نام سے تم پر دم کرتاہوں۔
[صحیح مسلم:2186،کتاب الآداب، باب الطب والمرض]


برائی وحادثہ سے اللہ کی پناہ میں دینا
حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرات حسنین کو (نظربداور انسانی وغیرانسانی اذیتوں سے حفاظت کے لیے)
مندرجہ ذیل کلمات سے دم کیاکرتے تھے اورفرماتے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اپنے بچے حضرت اسحاق اوراسماعیل علیہما السلام کو ان کلمات سے دم کیاکرتے تھے۔
أُعِیذُکُمَا بِکَلِمَاتِ اللَّہِ التَّامَّةِ مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَہَامَّةٍ، وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّةٍ، وَیَقُولُ: ہَکَذَا کَانَ إِبْرَاہِیمُ یُعَوِّذُ إِسْحَاقَ وَإِسْمَاعِیلَ․
ترجمہ:
میں اللہ تعالی کے کلمات تامہ(اس کے اسمائے حسنی اوراس کی نازل کردہ کتب) کے توسط سے شیطان مردود،ہرقسم کے زہریلے جانور اورہرملامت کرنے والی آنکھ (جو نظربد کا سبب ہوتی ہے) سے تمہیں اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں۔
[سنن الترمذی:2060، ابواب الطب، باب مَا جَاء فی الرقْیة من العیْن]
تشریح:
کلمات اللہ سے مراد یا تو اللہ تعالیٰ کی معلومات ہیں یا اس کے اسماء پاک اسی طرح اس کی کتابیں بھی مراد ہوسکتی ہیں۔ ہر شیطان کی برائی سے کا مطلب ہے ہر سرکش اور حد سے بڑھ جانے والے کی برائی سے خواہ وہ آدمیوں میں سے ہو خواہ جنات میں سے یا جانوروں سے ہامہ اس زہریلے جانور کو کہتے ہیں جس کے کاٹے سے آدمی ہلاک ہوجائے جیسے سانپ وغیرہ۔ جس زہریلے جانور کے کاٹے سے آدمی مرتا نہیں اسے سامہ کہتے ہیں جیسے بچھو، زنبور (بھڑ) وغیرہ۔ نیز بعض مواقع پر حشرات الارض ہوام ہامہ کی جمع کہتے ہیں۔ روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہاں جو حدیث نقل کی گئی ہے اس کے الفاظ ان اباکما کان یعوذبہا میں لفظ بہا ضمیر مفرد کے ساتھ نقل کیا گیا ہے جب کہ مصابیح کے اکثر نسخوں میں اس موقع پر بہما ضمیر تثنیہ کے ساتھ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس ضمیر تثنیہ حدیث کے دو جملوں من شر کل شیطان اور من کل عین لامۃ کی طرف راجع ہوگی۔ لیکن اس میں چونکہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے اس لئے علامہ طیبی (رح) نے کہا ہے کہ جن نسخوں میں بہما تثنیہ کی ضمیر کے ساتھ لکھا گیا ہے وہاں کاتب سے سہو ہوگیا ہے صحیح بہا یعنی مفرد کی ضمیر کے ساتھ ہی ہے۔
[مشکوٰۃ المصابیح:1512]


درد ختم کرنے کی دعا
وعن عثمان بن أبي العاص أنه شكا إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم وجعا يجده في جسده فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : ضع يدك على الذي يألم من جسدك وقل : بسم الله ثلاثا وقل سبع مرات : أعوذ بعزة الله وقدرته من شر ما أجد وأحاذر . قال : ففعلت فأذهب الله ما كان بي .
ترجمہ:
اور حضرت عثمان بن ابی العاص کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے (ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ سے درد کی شکایت کی جسے وہ اپنے بدن (کے کسی حصہ) میں محسوس کرتے تھے، چناچہ آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تمہارے بدن کے جس حصہ میں درد ہے وہاں اپنا ہاتھ رکھ کر (پہلے) تین مرتبہ بسم اللہ پڑھو اور (پھر) سات مرتبہ یہ پڑھو۔ میں اللہ سے اس کی عزت اور اس کی قدرت کے ذریعہ اس برائی (یعنی درد) سے پناہ مانگتا ہوں جسے میں (اس وقت) محسوس کر رہا ہوں اور (آئندہ اس کی زیادتی سے) ڈرتا ہوں۔ حضرت عثمان ؓ فرماتے ہیں کہ (آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق) میں نے ایسا ہی کیا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے میری تکلیف دور کردی۔
[مشکوٰۃ المصابیح:1510]


بیماری میں کیا دعا پڑھی جائے:
عن أبي الدرداء قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : من أشتكى منكم شيئا أو اشتكاه أخ له فليقل : ربنا الله الذي في السماء تقدس اسمك أمرك في السماء والأرض كما أن رحمتك في السماء فاجعل رحمتك في الأرض اغفر لنا حوبنا وخطايانا أنت رب الطيبين أنزل رحمة من رحمتك وشفاء من شفائك على هذا الوجع . فيبرأ .
ترجمہ:
حضرت ابودرداء ؓ راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے جس شخص کو کوئی بیماری ہو یا اس کا کوئی بھائی بیمار ہو تو اسے چاہئے کہ یہ دعا پڑھے۔ ہمارا پروردگار اللہ ہے، ایسا اللہ جو آسمان میں ہے (تمام نقصانات سے) تیرا نام پاک ہے، تیری حکومت آسمان و زمین (دونوں) میں ہے، جیسی تیری رحمت آسمان میں ہے ویسی ہی تو اپنی رحمت زمین پر نازل فرما، تو ہمارے چھوٹے اور بڑے گناہ بخش دے تو پاکیزہ لوگوں کا پروردگار ہے (یعنی ان کا محب اور کا رساز ہے اور تو اپنی رحمت میں سے (جو ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے رحمت عظیمہ) نازل فرما اور اس بیماری سے اپنی شفا عنایت فرما (اس دعا کے پڑھنے سے انشاء اللہ بیمار) اچھا ہوجائے گا۔ ( ابوداؤد )

تشریح
جیسی تیری رحمت آسمان میں ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ آسمان میں تو تیری رحمت ہر ہر جگہ ہے اور وہاں کے ہر ہر رہنے والے پر ہے۔ بخلاف زمین اور زمین کے رہنے والوں کے کہ یہاں تو رحمت خاص بعضوں پر ہوتی ہے اور بعضوں پر نہیں ہوتی یعنی رحمت خاص صرف مؤمن ہی فیضیاب ہوتے ہیں نہ کہ کافر اگرچہ رحمت عام سب کے لئے یکساں ہے خواہ مؤمن ہو یا کافر جیسا کہ ارشاد ربانی ہے آیت (رحمتی وسعت کل شئی)۔ میری رحمت ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے۔ پاکیزہ لوگوں سے مؤمن مراد ہیں جو شرک سے پاک ہوتے ہیں یا وہ متقی مسلمان مراد ہیں جو برے افعال اور فاسد و لا یعنی اقوال سے بچتے ہیں۔
[مشکوٰۃ المصابیح:1532]


بیمار کے لئے آنحضرت ﷺ کی دعاء شفا
وعن عائشة رضي الله عنها قالت : كان النبي صلى الله عليه و سلم إذا اشتكى نفث على نفسه بالمعوذات ومسح عنه بيده فلما اشتكى وجعه الذي توفي فيه كنت أنفث عليه بالمعوذات التي كان ينفث وأمسح بيد النبي صلى الله عليه و سلم وفي رواية لمسلم قالت : كان إذا مرض أحد من أهل بيته نفث عليه بالمعوذات
ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب بیمار ہوتے تو معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے اور اپنا ہاتھ بدن پر (جہاں تک پہنچتا) پھیرتے، چناچہ جب آپ ﷺ اس بیماری میں مبتلا تھے جس میں آپ ﷺ نے وفات پائی تو میں معوذات پڑھ کر آپ ﷺ پر دم کرتی تھی جیسا کہ آپ ﷺ خود معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم فرمایا کرتے تھے، نیز میں آپ کا ہاتھ آپ ﷺ کے بدن پر پھیرا کرتی تھی۔ اس طرح کہ میں معوذات پڑھ کر آنحضرت ﷺ کے ہاتھوں پر دم کرتی تھی اور پھر آپ ﷺ کے دونوں ہاتھ آپ ﷺ کے بدن مبارک پر پھیرتی۔ (بخاری ومسلم) مسلم کی ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ ؓ سے یہ منقول ہے کہ جب گھر والوں میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آنحضرت ﷺ معوذات پڑھ کر اس پر دم فرمایا کرتے تھے۔
[مشکوٰۃ المصابیح:1509]
تشریح:
معوذات سے مراد قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس کی سورتیں ہیں۔ چناچہ حدیث میں معوذاب بصیغہ جمع آیتوں کے اعتبار سے فرمایا گیا ہے۔ یا یہ کہ چونکہ اقل جمع (یعنی جمع کا سب سے کم درجہ) دو ہیں اس لئے ان دونوں سورتوں کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ نیز یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ معوذات سے مراد تین سورتیں یعنی قل اعوذ برب الفلق، قل اعوذ برب الناس اور قل ھو اللہ ہیں اور ان تینوں کو معوذات کا نام تغلیباً دیا گیا ہے۔ یہی بات زیادہ معتمد ہے بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ معوذات میں ان تینوں سورتوں کے علاوہ قل یا ایہا الکافرون بھی داخل ہے۔ واللہ اعلم۔ مسلم کی دوسری روایت میں ہاتھ پھیرنے کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا اس موقع پر جہاں یہ احتمال ہے کہ آنحضرت ﷺ دم کرنے کے ساتھ ہاتھ بھی پھیرتے ہوں گے۔ لیکن یہاں اس کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا ہے کہ دم کرنے سے ہاتھ پھیرنا بھی خود بخود مفہوم ہوجاتا ہے وہیں یہ بھی احتمال ہے کہ آنحضرت ﷺ جس طرح دم کرنے کے ساتھ ہاتھ پھیر تے تھے اس طرح کسی کسی موقعہ پر صرف دم کرنے ہی پر اکتفاء کرتے ہوں گے اور ہاتھ نہ پھیرتے ہوں گے۔ لیکن صحیح اور قریب از حقیقت وضاحت وہی ہے جو پہلے بیان کی گئی ہے اور اولیٰ بھی یہی ہے کہ دم بھی کیا جائے اور ہاتھ بھی پھیرا جائے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کلام اللہ کی آیتیں پڑھ کر بیمار پر دم کرنا سنت ہے۔




(۶) مریض کے پاس زیادہ دیر نہیں ٹہرنا چاہیے۔

بعض مرتبہ مریض کو آرام یا بعض خاص ضروریات کی تکمیل کا تقاضا ہوتا ہے، بیمار اور تیماردار مہمان کے واپس ہونے کے انتظار میں رہتے ہیں،زبان سے کہہ نہیں سکتے،جس کی وجہ سے ان لوگوں کی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے،اس لیے مریض اورتیمارداروں سے چند تسلی کے کلمات کہہ کرچلے آنا چاہیے؛ البتہ اگر مریض خود خواہش مند ہو اور اہل خانہ کو بھی کوئی زحمت نہ ہو تو دیر تک بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

(۷) مریض کے پاش شور وشغب نہیں کرنا چاہیے؛ اس لیے کہ شوروشغب سے مریض کو بھی اذیت ہوتی ہے اور تیمارداروں کو بھی برا لگتا ہے۔

حضرت انس فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: العیادةُ فواقَ ناقةٍ۔ (مشکوٰة، کتاب الجنائز،باب عیاة المریض:۱۵۹۰)

عیادت دودھ دوہنے کے وقت کے بقدر ہونی چاہیے، حضرت سعید المسیب  سے مرسلاًمروی ہے: سب سے جلد واپسی والی عیادت سب سے افضل ہے۔




حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:عیادت میں سنت یہ ہے کہ مریض کے پاس کم وقت ٹہرا جائے اور شورشرابہ نہ کیا جائے۔

مریض کو سکون اور خاموشی کا ماحول اچھا لگتا ہے، شور و غل سے تکلیف اور الجھن محسوس ہو تی ہے؛ اس لیے عیادت کرنے والوں اور تیمار داروں کو غیر ضروری بات چیت سے احتراز کرنا چاہیے۔




عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مِنَ السُّنَّةِ تَخْفِیفُ الْجُلُوسِ، وَقِلَّةُ الصَّخَبِ فِی الْعِیَادَةِ عِنْدَ الْمَرِیضِ․ رَوَاہُ رَزِینٌ․
[مشکوة المصابیح:1579]
اگرکوئی شخص ایسا ہو کہ مریض کو اس کے قریب رہنے سے خوشی حاصل ہوتی ہو، راحت ملتی ہو، یا کوئی ایسی شخصیت ہو جس سے حصول ِبرکت کی امید ہو،تو ان لوگوں کے مریض کے پاس دیر تک رہنا جائز ہے۔
[مرقاة المفاتیح:1590،کتاب الجنائز،باب عیاة المریض]


(۸) مریض کسی کھانے پینے کی چیز کی خواہش کرے اور وہ چیز اس کی صحت کے لیے نقصان دہ نہ ہو، تو وہ چیز مریض کے لیے فراہم کرنا چاہیے۔

حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، اس بیمارسے فرمایا:کیاکھاناچاہتے ہو؟بیمارشخص نے کہا:گیہوں کی روٹی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کے پاس گیہوں کی روٹی ہو، وہ اس مریض کے پاس بھیج دے، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جب کوئی مریض کسی چیز کے کھانے کی خواہش کرے،تو اس کو وہ چیز کھلادے۔
(ابن ماجہ،کتاب الطب،باب المریض یشتھی الشيء:۳۴۴۰)




(۹)جب عیادت کے لیے جائے،تومریض سے دعا کی درخواست کرنی چاہیے؛اس لیے کہ مریض کی دعا قبول ہوتی ہے۔

حضرت عمربن خطاب فرماتے ہیں:جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ،تو اس سے دعاکی درخواست کرو؛ اس لیے کہ مریض کی دعا(قبولیت میں )ملائکہ کے دعاکی طرح ہوتی ہے۔
(ابن ماجہ، کتاب الطب، باب المریض یشتھی الشیء:۳۴۴۱)


(۱۰)عیادت کے لیے مناسب وقت میں جائے؛کیوں کہ بعض اوقات مریض اور تیماردار کے آرام اور ضروریات ک ہوتاہے؛اس لیے ان چیزوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
(فتح الباری، کتاب المرضی،باب وجوب عیادة المریض:۵۶۴۹)



اپنے سے کمتر اور ادنیٰ مریض کی بھی عیادت کرنی چاہئے
اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ (ایک مرتبہ) ایک اعرابی (گنوار) کے پاس اس کی بیماری کا حال پوچھنے کے لئے تشریف لے گئے آنحضرت ﷺ (کا طریقہ یہ تھا کہ) جب آپ کسی کے پاس عیادت کے لئے تشریف لے جاتے تو اس سے فرماتے کہ کوئی ڈر نہیں (یعنی بیماری سے غم نہ کھاؤ اس لئے کہ) یہ بیماری (گناہوں سے) پاک کرنے والی ہے اگر اللہ چاہے چناچہ آپ ﷺ نے (اس وقت) اس دہقانی سے بھی یہی فرمایا کہ کوئی ڈر نہیں یہ بیماری (گناہوں سے) پاک کرنے والی ہے اگر اللہ چاہے دہقانی نے کہا کہ ہرگز نہیں، بلکہ یہ بخار ہے جو بڑے بوڑھے پر چڑھ آیا ہے اور اسے قبر کی زیارت کرا دے گا (یعنی موت کی آغوش میں پھینک دے گا) آنحضرت ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اچھا (اگر تم یہی سمجھتے ہو تو) یوں ہی سہی۔
[مشکوٰۃ المصابیح - جنازوں کا بیان - حدیث نمبر 1506]

تشریح
یہ حدیث آنحضرت ﷺ کے کمال تواضع اور مساوات عمل کی مظہر ہے کہ آپ ایک دہقانی کی عیادت کے لئے اس کے پاس تشریف لے گئے، گویا آپ ﷺ نے اپنے اس عمل مبارک سے امت کے لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ صرف انہیں لوگوں کی مزاج پرسی کے لئے نہیں جانا چاہئے جو اپنے سے اونچے یا ہم مرتبہ ہوں بلکہ ان لوگوں کی بھی عیادت کرنی چاہئے جو کسی بھی حیثیت سے اپنے سے کمتر اور ادنیٰ درجے کے ہوں۔ اچھا (اگر تم یہی سمجھتے ہو تو) یوں ہی سہی یعنی آنحضرت ﷺ نے اس دہقانی سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا کہ میں تو تمہارے سامنے بیماری کا ثواب بیان کر رہا ہوں مگر تم اس نعمت کا انکار کر رہے ہو اگر تمہارا خیال یہی ہے تو پھر جان لو کہ اس طرح ہوگا جس طرح تم کہہ رہے ہو کیونکہ کفران نعمت کرنے والے کی سزا ہی یہ ہے کہ وہ اس نعمت سے محروم ہوجائے۔ دہقانی کے اس رویہ اور اس کی اس بات کی بناء پر احتمال ہوسکتا ہے کہ وہ کافر ہو مگر علماء نے کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ وہ مسلمان تھا مگر چونکہ بیوقوف اور ناسمجھ اجڈ گنوار تھا اسی لئے بیماری کی تکلیف اور شدت درد سے بےتاب و مضطرب ہو کر اس قسم کے الفاظ اپنی زبان سے نکال بیٹھا۔



غیرمسلم کی عیادت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں اورعورتوں یہاں تک کہ غیرمسلموں کی عیادت کے لیے بھی تشریف لے جاتے تھے؛اس لیے کہ انسانیت کی بنیاد پر وہ بھی ہمدردی کے مستحق ہیں، ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی عیادت کرناتو اسلامی حق ہے؛مگر اس سے آگے بڑھ کر انسانیت کی بنیاد پربلاتفریقِ مذہب و ملت غیرمسلم برادرانِ وطن کی مزاج پرسی بھی اجر و ثواب سے خالی نہیں، اگراس میں تبلیغِ اسلام کی نیت کرلی جائے،تو پھرنور علی نور۔اس کے بہتر اورمفید نتائج سامنے آتے ہیں۔


حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا رسول اللهﷺکی خدمت کیاکرتاتھا،وہ بیمارہوگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس یہودی لڑکے کی خبر گیری اور عیادت کے لیے تشریف لے گئے،اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور اس کو اسلام کی دعوت دی اورفرمایا:اسلام قبول کرلو، (اس کا باپ بھی وہیں بیٹھا ہوا تھا)وہ یہودی لڑکا اپنے باپ کودیکھنے لگا،باپ نے کہا:بیٹا ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لے،بیٹے نے فوراًکلمہ پڑھا، اورانتقال کرگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الحمد للّٰہ الذی انقذہ من النار۔تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں،جس نے اس بچے کو جہنم سے بچالیا۔
[صحیح بخاری:1356،کتاب الجنائز،باب اذااسلم الصبی،فمات]

تشریح:
حدیث کے الفاظ فقعد عند راسہ سے معلوم ہوا کہ عیادت کے وقت مریض کے سر کے پاس بیٹھنا مستحب ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کافر ذمی سے خدمت لینی اور اگر کوئی کافر ذمی بیمار ہو تو اس کی عیادت کے لئے جانا جائز ہے۔ کتاب خزانہ میں لکھا ہے کہ یہود کی عیادت کے لئے جانے میں کئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہاں مجوسیوں کی عیادت کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ اسی طرح فاسق کی عیادت کے بارے میں بھی اگرچہ علماء نے اختلاف کیا ہے لیکن صحیح تر یہ ہے کہ فاسق کی عیادت کے لئے جانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ یہ حدیث نابالغ کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کی تائید کرتی ہے۔ کیونکہ حضرت امام موصوف فرماتے ہیں کہ نابالغ کا اسلام قبول کرنا صحیح ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہاں حدیث میں جس یہودی لڑکے کا ذکر کیا جا رہا ہے اس کا نام عبدالقدوس ہے۔
[شرح مشکوٰۃ:1551]



No comments:

Post a Comment