جنت کا وجود
القرآن:
جنّت آسمان میں
[سورۃ الذاریات:22]
سدرۃ المنتہیٰ کے پاس
[سورۃ النجم:14]
(آخری جنتی کیلئے کم از کم) آسمانوں اور زمین کی چوڑائی کے برابر
[صحیح مسلم:186(461) سورۃ آلِ عمران:133]
آرام کی جگہ ہے۔
[سورۃ الفرقان:76]
نہیں ہے وہاں موت
[سورۃ الدخان:56]
سورج وسردی
[سورۃ الدھر:13]
تکلیف
[سورۃ الحجر:48]
غم
[سورۃ فاطر:34]
گناہ وبیہودہ بات
[سورۃ الواقعہ:25]
القرآن:
سو کوئی شخص نہیں جانتا کہ انکے لئے کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے۔ یہ ان اعمال کا صلہ ہے جو وہ کرتے تھے۔ بھلا جو مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو نافرمان ہو؟ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔
[سورۃ الم سجدہ: 17-18]
جس کی جنت ہے، اسی کو حق ہے کہ وہ جسے چاہے جنت دے اور جس کو چاہے اس سے محروم رکھے، یہی حق ہے۔
یعنی خزانہ غیب میں ایسے نیک لوگوں کے لیے جو نعمتیں چھپی ہوئی ہیں وہ انسان کے تصور سے بھی بلند ہیں۔
جنت کی خصوصی نعمت:
جس طرح راتوں کی تاریکی میں لوگوں سے چھپ کر انہوں نے بے ریاء(بغیر دکھائے) عبادت کی۔ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں چھپا رکھی ہیں۔ ان کی پوری کیفیت کسی کو معلوم نہیں۔ جس وقت دیکھیں گے آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی حدیث میں ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے جنت میں وہ چیز چھپا رکھی ہے جو نہ آنکھوں نے دیکھی نہ کانوں نے سنی نہ کسی بشر کے دل میں گذری۔ (تنبیہ) سر سید وغیرہ نے اس حدیث کو لے کر جنت کی جسمانی نعمتوں کا انکار کیا ہے۔ اس کے متعلق ایک تفسیلی مضمون "ہدیہ سنیہ" کے نام سے چھپا ہے اس میں جواب دیکھ لیا جائے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
’’اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے، میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل میں اس کا خیال آیا۔‘‘ ابوہریرہ ؓ نے فرمایا، اگر چاہو تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھ لو : (چنانچہ کسی متنفس کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا سامان ان کے اعمال کے بدلے میں چھپا کر رکھا گیا ہے۔)
[سورۃ السجدۃ:17]
[صحیح بخاري: كِتَابُ التَّفْسِيرِ، باب قولہ : ( فلا تعلم نفس ما أخفي۔۔ ) حدیث نمبر 4779۔ صحیح مسلم : 2824]
حضرت ابو سعید خدریؓ اور حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’پکارنے والا پکار کر کہے گا (اے جنت والو!) تم تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہو گے، تم زندہ رہو گے کبھی نہ مرو گے، تم جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ ہو گے اور تم آرام سے رہو گے کبھی محنت و مشقت نہ اٹھاؤ گے۔‘‘ اللہ پاک نے فرمایا: اور ان سے پکار کر کہا جائے گا کہ : لوگو ! یہ ہے جنت ! تم جو عمل کرتے رہے ہو ان کی بنا پر تمہیں اس کا وارث بنادیا گیا ہے۔(سورۃ الاعراف:43)
[تفسير عبد الرزاق:2648، صحیح مسلم:2837، سنن الترمذي:3246]
سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
’’موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی، اے باری تعالیٰ! ادنیٰ جنتی کا درجہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ادنیٰ جنتی وہ شخص ہے جو تمام جنتیوں کے جنت میں چلے جانے کے بعد آئے گا، اس سے کہا جائے گا، جنت میں داخل ہو جاؤ۔ وہ کہے گا، اے اللہ ! کہاں جاؤں؟ ہر ایک نے تو اپنی اپنی جگہ پر قبضہ کر لیا ہے اور اپنی چیزیں سنبھال لی ہیں۔ اس سے کہا جائے گا: کیا تو اس پر خوش ہے کہ تیرے لیے اتنا ہو جتنا دنیا کے کسی بہت بڑے بادشاہ کے پاس تھا؟ وہ کہے گا، اے میرے رب! میں اس پر خوش ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تجھے یہ سب کچھ دیا جاتا ہے اور اتنا اور، اتنا اور، اتنا اور، اتنا اور، اتنا اور۔ پانچویں بار یہ کہے گا، (بس بس) اے میرے رب! میں راضی ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ سب ہم نے تجھے دیا اور اس کا دس گنا اور بھی دیا اور جس چیز کو بھی تیرا دل چاہے اور جس سے تیری آنکھیں ٹھنڈی رہیں (وہ بھی تو لے لے)۔ یہ کہے گا: میرے پروردگار! میں راضی ہو گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: پھر اے اللہ ! اعلیٰ درجے کے جنتی کی کیفیت کیا ہے؟ فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جن کو میں نے خود چنا اور ان کی بزرگی و عزت کو میں نے اپنے ہاتھ سے لکھا اور اس پر اپنی مہر لگا دی ہے، پھر نہ تو وہ کسی کے دیکھنے میں آئی، نہ کسی کے سننے میں اور نہ کسی کے خیال میں۔‘‘ اور اس چیز کی تصدیق یہ آیت کرتی ہے:
(چنانچہ کسی متنفس کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا سامان ان کے اعمال کے بدلے میں چھپا کر رکھا گیا ہے۔) (سورۃ السجدۃ:17)
[صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب أدنی أہل الجنۃ منزلۃ فیہا : 189]
جنت قابلِ فروخت:
جنت کا وعدہ کن باتوں کو نہ کرنے(چھوڑنے) میں ہے؟
سیدنا سعد بن ابووقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَوْ أَنَّ مَا يُقِلُّ ظُفُرٌ مِمَّا في الجَنَّةِ بَدَا: لَتَزَخْرَفَتْ لَهُ خَوَافِقُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْض، وَلَوْ أَنَّ رَجُلاً مِن أَهْلِ الجَنَّةِ اطَّلَعَ فَبَدَتْ أَسَاوِرُهُ: لَطَمَسَ ضَوْؤُهَا ضَوْءَ الشَّمْس؛ كَمَا تَطْمِسُ الشَّمْسُ ضَوْءَ النُّجُوم۔
ترجمہ:
”اگر جنت کی ناخن کی مقدار سے کم چیز کو (دنیا) میں ظاہر کر دیا جائے تو آسمانوں اور زمینوں کے کنارے روشن ہو جائیں گے۔ اگر کوئی جنتی (دنیا میں جھانکے اور اس کے کنگن بھی نمودار ہوں تو (ان کی تابناکی کے سامنے) سورج کی روشنی بےنور ہو جائے گی، جیسے سورج، ستارے کی روشنی کو ختم کر دیتا ہے۔“
[صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب أدنی أہل الجنۃ منزلۃ فیہا : 189]
سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ نے ہمارے رب کی طرف سے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ جو کوئی ہم میں سے (جہاد میں) مارا جائے گا، وہ جنت میں ایسی نعمتوں میں پہنچ جائے گا جن نعمتوں کے مثل اس نے کبھی کوئی نعمت نہیں دیکھی ہوگی۔
[صحیح بخاری، کتاب الجزیۃ والموادعۃ، باب الجزیۃ والموادعۃ مع أہل الذمۃ والحرب : 3159]
جنت قابلِ فروخت:
واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات کے بدلے خرید لیے ہیں کہ جنت انہی کی ہے۔ وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں مارتے بھی ہیں، اور مرتے بھی ہیں۔ یہ ایک سچا وعدہ ہے جس کی ذمہ داری اللہ نے تورات اور انجیل میں بھی لی ہے، اور قرآن میں بھی۔ اور کون ہے جو اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو ؟ لہذا اپنے اس سودے پر خوشی مناؤ جو تم نے اللہ سے کرلیا ہے۔ اور یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔
[سورۃ التوبۃ:111]
جس کی جنت ہے، اسی کو حق ہے کہ وہ جسے چاہے جنت دے اور جس کو چاہے اس سے محروم رکھے، یہی حق ہے۔
کبیرہ گناہ خصوصاََ فحاشی
[قرآن، سورۃ الشوریٰ:37]
شرک، جھوٹ، زنا
[الفرقان:68+76]
تکبر
[الم سجدۃ:15-17]
بےفائدہ فضولیات
[المومنون:3+11]
اللہ و رسول ﷺ کے(دین)دشمنوں سے دوستی
[المجادلۃ:22]
(ممنوع)خواہش پرستی
[النازعات:40-41]
فساد [قصص:83]
یعنی قتل، ڈاکہ، چوری، زنا، پاکباز مردوں خصوصاََ عورتوں پر تہمت، دین سے پھرنا پھیرنا، دین کی باتوں کو چھپانا، بدلنا اور ملاوٹ کرنا وغیرہ
نوٹ:
جنت والے ان گندگیوں سے پاک ہوں گے۔
جس کی جنت ہے، اسی کو حق ہے کہ وہ جسے چاہے جنت دے اور جس کو چاہے اس سے محروم رکھے، یہی حق ہے۔
جنت کی نعمتوں کی معمولی مقدار دنیا اور جو کچھ اس میں ہے پر غالب ہے:
سیدنا سعد بن ابووقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَوْ أَنَّ مَا يُقِلُّ ظُفُرٌ مِمَّا في الجَنَّةِ بَدَا: لَتَزَخْرَفَتْ لَهُ خَوَافِقُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْض، وَلَوْ أَنَّ رَجُلاً مِن أَهْلِ الجَنَّةِ اطَّلَعَ فَبَدَتْ أَسَاوِرُهُ: لَطَمَسَ ضَوْؤُهَا ضَوْءَ الشَّمْس؛ كَمَا تَطْمِسُ الشَّمْسُ ضَوْءَ النُّجُوم۔
ترجمہ:
”اگر جنت کی ناخن کی مقدار سے کم چیز کو (دنیا) میں ظاہر کر دیا جائے تو آسمانوں اور زمینوں کے کنارے روشن ہو جائیں گے۔ اگر کوئی جنتی (دنیا میں جھانکے اور اس کے کنگن بھی نمودار ہوں تو (ان کی تابناکی کے سامنے) سورج کی روشنی بےنور ہو جائے گی، جیسے سورج، ستارے کی روشنی کو ختم کر دیتا ہے۔“
] مسند أحمد: 1449+1467، سنن الترمذي: 2538، مسند البزار: 1109 +1226، المعجم الأوسط للطبراني: 8880، صفة الجنة لأبي نعيم الأصبهاني: 57+210+266، صفة الجنة لابن أبي الدنيا: 215+276]
تفسير الثعالبي: سورة الذّاريات: آية15+16
الدر المنثور: سورة الْبَقَرَة:25
=========================
القرآن :
متقی لوگوں سے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، اس کا حال یہ ہے کہ اس میں ایسے پانی کی نہریں ہیں جو خراب ہونے والا نہیں، ایسے دودھ کی نہریں ہیں جس کا ذائقہ نہیں بدلے گا، ایسی شراب کی نہریں ہیں جو پینے والوں کے لیے سراپا لذت ہوگی، اور ایسے شہد کی نہریں ہیں جو نتھرا ہوا ہوگا، اور ان جنتیوں کے لیے وہاں ہر قسم کے پھل ہوں گے، اور ان کے پروردگار کی طرف سے مغفرت ! کیا یہ لوگ ان جیسے ہوسکتے ہیں جو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے، اور انہیں گرم پانی پلایا جائے گا، چنانچہ وہ ان کی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا ؟
[سورۃ محمد : 15]
جنت کی نہریں:
یعنی طول مکث یا کسی چیز کے اختلاط سے اس کی بو نہیں بدلی۔ شہد سے زیادہ شیریں اور دودھ سے زیادہ سفید ہے۔ کسی طرح کے تغیر کو اسکی طرف راہ نہیں۔
دودھ کی نہریں:
یعنی دنیا کے دودھ پر قیاس نہ کرو۔ اتنی مدت گذرنے پر بھی اسکے مزے میں فرق نہیں آیا۔
شراب کی نہریں:
یعنی وہاں کی شراب میں خالص لذت اور مزہ ہی ہے نہ نشہ ہے نہ شکستگی نہ تلخی نہ سرگرانی نہ کوئی اور عیب و نقصان۔
شہد کی نہریں:
یعنی صاف و شفاف شہد جس میں تکدر تو کہاں ہوتا جھاگ تک نہیں (تنبیہ) یہاں چار قسم کی نہروں کا ذکر ہوا جن میں پانی تو ایسی چیز ہے کہ انسان کی زندگی اس سے ہے اور دودھ غذائے لطیف کا کام دیتا ہے اور شراب سرور و نشاط کی چیز ہے۔ اور شہد کو شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ فرمایا گیا ہے۔
سیدنا حکیم بن معاویہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جنت میں دودھ، پانی، شہد اور شراب کے سمندر ہیں، جن سے ان کی نہریں اور چشمے جاری ہوں گے۔‘‘
[مسند أحمد:20074۔ ترمذی:2571]
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم اللہ سے سوال کرو تو جنت الفردوس طلب کرو، کیونکہ وہ سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ جنت ہے، اسی کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں۔‘‘
[صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ : 2790]
مشروبات کے بعد یہ ماکولات کا ذکر فرمایا۔
یعنی سب خطائیں معاف کر کے جنت میں داخل کریں گے ۔ وہاں پہنچ کر کبھی خطاؤں کا ذکر بھی نہ آئے گا جو انکی کلفت کا سبب بنے اور نہ آئندہ کسی بات پر گرفت ہو گی۔
جہنم میں کفار کی سزائیں:
علم کا تقاضا:
القرآن:
اور (اس کے برعکس) اگر وہ (غیب پر) ایمان لاتے اور تقویٰ (یعنی نافرمانی سے بچنا) اختیار کرتے تو اللہ کے پاس سے ملنے والا ثواب یقینا کہیں زیادہ بہتر ہوتا۔ کاش کہ ان کو (اس بات کا بھی حقیقی) علم ہوتا۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 103]
حضرت ابوھریرہؓ سے مروی ہے،رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر مومن کو علم ہوجاتا کہ الله کا عذاب کیا ہے تو کوئی بھی اس کی جنت کا لالچ نہ رکھے، اور اگر کافر کو علم ہوجاتا کہ الله کے پاس رحمت کیا ہے تو کوئی جنت سے نا امید نہ ہو۔
[صحیح مسلم» حدیث#2755 (صحیح بخاری»6469)، سنن الترمذی»3542]
نکات:
(1)اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت اور اس کے غضب سے سبقت کا بیان
[صحیح مسلم:2755]
(2)امید کے ساتھ خوف کا بیان
[صحیح بخاری:6469]
(3)دلوں کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان
[سنن الترمذی:3542]
(4)اس بات کا تذکرہ جو ایک مسلمان شخص پر واجب ہے کہ (۱)وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی کو چھوڑ دے (۲)اور اس کی رحمت کی وسعتوں پر بھروسہ چھوڑ دے خواہ اس کے اعمال بہت زیادہ ہوں۔
[صحيح ابن حبان:5085]
اور اللہ نے فرمایا:-
اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، یقین جانو کہ اللہ کی رحمت سے وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں جو کافر ہیں۔
[سورۃ یوسف:٨٧]
(5)ہر گناہ کے لیے ضروری ہے کہ اس (گناہ) سے (ندامت کے ساتھ اللہ کی طرف واپس لوٹتے) توبہ کی جائے اور اللہ تعالیٰ سے بخشش بھی مانگی جائے۔
[الآداب للبيهقي:848]
(6)جہنم کی آگ اور اس کے اہل لوگوں کا بیان۔
[ذكر النار لعبد الغني المقدسي:111]
(7)اللہ کے (۱)عظیم فضل والا ہونے (۲)بخشش اور رحمت والا ہونے (۳)غنی وبے پرواہ ہونے کا بیان۔
[الأسماء والصفات - البيهقي:1036]
(8)اللہ پر حسنِ گمان اور توکل رکھنے کا بیان۔
[نضرة النعيم في مكارم أخلاق الرسول الكريم:5/1604]
(9)کسی نیکی یا برائی کو حقیر نہ سمجھنا چاہئے۔ برے لوگ معمولی نیکی سے جاسکتے ہیں اور نیک لوگ معمولی گناہ پر بھی پکڑے جاسکتے ہیں۔ کیونکہ الله کی عظمت کا تقاضا ہے کہ اس کی تعلیم کو کم-حیثیت ومعمولی نہ سمجھا جائے۔
(10)اپنے یا کسی غیرصحابی کے جنتی یا جہنمی ہونے کا یقین ودعویٰ نہ کیا جائے، البتہ امید رکھنا چاہئے۔
(11)مومن وہ ہے جو اللہ کو ایسے مانے جیسا اللہ نے سکھلایا، اور کافر وہ ہے جو اللہ کو ایسا نہیں مانتا جیسا اللہ نے سکھلایا۔
(12)عالم وہ ہے جو رحمتِ الٰہی کا امیدوار ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اللہ کا خوف بھی رکھتا ہو اور خوف ظاہر ہوتا ہے نافرمانیوں سے بچنے کی کوشش سے۔ اور نادان وہ ہے جو اپنی خواہشات کے پیچھے رہے اور بلند وبزرگ اللہ پر (غیرشرعی) تمنا باندھے۔
قرآنی شواہد:
جان لو کہ بےشک الله انتہائی سخت عذاب دینے والا ہے ﴿اس کیلئے جو اس کے حرام وناجائز کو حلال وجائز کرتا ہے﴾۔ اور بےشک بہت بخشنے والا انتہائی مہربان بھی ہے۔ ﴿اس کیلئے جو اس کی طرف لوٹتے فرمانبرداری کی کوشش کرتا ہے﴾۔
[التفسیر الوسیط(امام)الواحدی(م468ھ) » 2/232، سورۃ المائدۃ:98]
۔۔۔بےشک تمہارا رب یقیناً بہت جلد عذاب دینے والا بھی ہے اور بےشک وہ یقیناً بخشنے والا انتہائی مہربان بھی ہے۔
[تفسیر(امام)ابن ابی حاتم(م327ھ) »11/11، سورۃ الأنعام:165،الأعراف:167]
میرے بندوں کو بتادو کہ میں ہی بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہوں۔ ﴿اپنے دوستوں کا﴾۔ اور یہ بھی بتادو کہ میرا عذاب ہی دردناک عذاب ہے۔ ﴿اپنے(مخالف ومنکر)دشمنوں کا﴾۔
[تفسیر الوسیط،للواحدی:3/46، سورۃ الحجر:49+50]
********************************
اللہ تعالیٰ کی رضامندی جنت کی عظیم نعمت ہو گی:
سیدنا جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
" إذا دخل اهل الجنة الجنة، يقول الله عز وجل: هل تشتهون شيئا فازيدكم؟ فيقولون: ربنا وما فوق ما اعطيتنا؟ قال: فيقول: رضواني اكبر".
ترجمہ:
”جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تمہیں (مزید) کسی چیز کی خواہش ہے، تو وہ بھی پوری کر دیتا ہوں؟ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! جو کچھ تو نے عطا کیا، اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے ( کہ اس کے حصول کی آرزو کی جائے)۔ وہ کہے گا: (تم سے) میرا راضی ہو جانا سب سے بڑی (نعمت) ہے۔“
[معجم (امام) ابن الأعرابي : حدیث نمبر 837
صحيح (امام) ابن حبان، حدیث نمبر 7439
المعجم الأوسط (امام) الطبراني : حدیث نمبر 9025
المعجم (امام) ابن المقرئ : حدیث نمبر 788
المستدرك على الصحيحين (امام) الحاکم، حدیث نمبر 276
صفة الجنة (امام) أبي نعيم الأصبهاني : 283
صفة الجنة (امام) ابن أبي الدنيا : 96
سلسلة الاحاديث الصحيحة» حدیث نمبر 1336]
تفسير ابن أبي حاتم: حدیث#3287، سورۃ آل عمران:آیۃ15
تفسير الطبري: حدیث#16567، سورۃ التوبۃ:21
تفسير ابن كثير: سورۃ التوبۃ:72
جنت الفردوس کا سوال کرنا چاہیے:
سیدنا عرباض بن ساریہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
" إذا سالتم الله فسلوه الفردوس، فإنه سر الجنة".
ترجمہ:
”جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو، کیونکہ وہ جنت کا اعلیٰ و افضل حصہ مقام ہے۔“
[التاريخ الكبير للبخاري:5122(صحیح البخاري:2790، 7423)، المعجم الكبير للطبراني:635، سلسلة الأحاديث الصحيحة:2145+3972]
فردوس، جنت کا اعلی و افضل حصہ ہے:
سیدنا سمرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«الْفِرْدَوْسُ رَبْوَةُ الْجَنَّةِ وَأَعْلَاهَا وَأَوْسَطُهَا، وَمِنْهَا تَفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ»
ترجمہ:
”فردوس تو جنت کا ٹیلہ (اونچا مقام) ہے، وہ جنت کا اعلیٰ و افضل اور احسن و اجمل حصہ ہے۔ اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹ نکلتی ہیں۔“
[المعجم الكبير للطبراني: حدیث#6886، صفة الجنة لأبي نعيم الأصبهاني:11، صفة الجنة للضياء المقدسي:30]
تفسير(امام)الطبري، البغوي، القرطبي، ابن كثير, الخازن=سورۃ الکھف:107
تفسير الماتريدي=سورۃ المومنون:11
جنت کے درجات:
سیدنا عبادہ بن صامتؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«الْجَنَّةُ مِائَةُ دَرَجَةٍ، مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ مَسِيرَةُ عَامٍ وَالْفِرْدَوْسُ أَعْلَاهَا دَرَجَةً، وَمِنْهَا الْأَنْهَارُ الْأَرْبَعَةُ، وَالْفِرْدَوْسُ مِنْ فَوْقِهَا، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَاسْأَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ»
ترجمہ:
”جنت کے سو درجے ہیں، ہر دو درجوں کے درمیان سو سال کی مسافت ہے۔ جتنا کہ آسمان اور زمین کے درمیان فاصلہ ہے۔ درجہ میں سب سے اعلیٰ مقام فردوس ہے، اس سے چار نہریں نکلتی ہیں، اس سے اوپر عرش ہے، جب بھی تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کیا کرو۔“
[مسند أحمد:22695، سنن الترمذي:2531، صفة الجنة لابن أبي الدنيا:16، صفة الجنة لأبي نعيم الأصبهاني:227، الأحاديث المختارة:394+396، صفة الجنة - الضياء المقدسي:29]
تفسير البغوي: سورة النساء : آية 96
تفسير الطبري: سورة الكهف:107, سورة المؤمنون:11
جنت میں کئی جنتیں ہیں:
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا حارثہ بن سراقہؓ جاسوسی کے لیے نکلے، اچانک ایک تیر لگا اور وہ شہید ہو گئے۔ ان کی ماں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ جانتے ہیں کہ حارثہ کا میرے ہاں کیا مقام تھا، اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کرتی ہوں، وگرنہ آپ دیکھیں گے کہ میں (اس کی جدائی پر) کیا کرتی ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
يَا أُمَّ حَارِثَةَ إِنَّهَا لَيْسَتْ بِجَنَّةٍ وَاحِدَةٍ، وَلَكِنَّهَا جِنَانٌ كَثِيرَةٌ، وَإِنَّ حَارِثَةَ لَفِي أَفْضَلِهَا " أَوْ قَالَ: " فِي أَعَلَى الْفِرْدَوْسِ شَكَّ يَزِيدُ.
ترجمہ:
”ام حارثہ! جنت ایک نہیں ہے، بلکہ کئی جنتیں ہیں اور (تیرا بیٹا) حارثہ جنت کے افضل حصے میں یا جنۃ الفردوس میں ہے۔“
[مسند الإمام أحمد بن حنبل : حدیث#12252, الجهاد لابن أبي عاصم:159]
بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہونے والوں کی تعداد:
شریح بن عبیدؒ کہتے ہیں: حضرت ثوبانؓ حمص کے علاقے میں بیمار ہو گئے، اس وقت عبداللہ بن قرط ازدی حمص کا گورنر تھا، اس نے ان کی بیمار پرسی نہیں کی۔ ایک دن کلاعی قبیلے کا آدمی بیمار پرسی کے لیے ثوبان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، حضرت ثوبانؓ نے اس سے پوچھا: کیا تم لکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: لکھو۔ اس نے عبداللہ بن قرط کو یہ خط لکھا: مولائے رسول ثوبانؓ کی طرف سے، بات یہ ہے کہ اگر تیرے علاقے میں موسیٰ اور عیسیٰ کا غلام (میری طرح بیمار) ہوتا تو تو ضرور اس کی بیمار پرسی کرتا۔ پھر خط کو بند کر دیا اور سیدنا ثوبان نے اس سے پوچھا: کیا یہ خط اس تک پہنچا دو گے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ وہ خط لے کر چلا گیا اور ابن قرط تک پہنچا دیا۔ جب اس نے خط پڑھا تو گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ لوگوں نے کہا: اسے کیا ہوا ہے؟ آیا کوئی نیا معاملہ پیش آیا ہے؟ وہ سیدنا ثوبانؓ کے پاس آیا، ان کی بیمار پرسی کی، ان کے پاس کچھ دیر بیٹھا رہا اور جب اٹھ کر جانے لگے تو انہوں نے اس کی چادر پکڑ لی اور کہا: بیٹھ جاؤ، میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث بیان کرتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”میری امت کے ستر ہزار افراد حساب و کتاب اور عقاب و عذاب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے، ان میں سے ہر ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار بھی داخل ہوں گے۔“
[مسند أحمد:22418، سلسلة الأحاديث الصحيحة:2179]
تفسير ابن كثير - سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ:110
جنت میں داخل ہونے والا پہلا گروہ:
سیدنا عبداللہ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”کیا تم کو میری امت کی اس جماعت کے بارے میں علم ہے جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گی؟“ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ جماعت مہاجرین کی ہے۔ وہ روز قیامت جنت کے دروازے پر آ کر دروازہ کھولنے کا مطالبہ کریں گے۔ دربان ان سے پوچھے گا: آیا تمہارا حساب و کتاب ہو چکا ہے؟ وہ کہیں گے: کس موضوع پر ہم سے حساب کتاب لیا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ کے راستے میں مرتے دم تک ہماری تلواریں، ہمارے کندھوں پر رہیں۔ سو ان کے لیے دروازہ کھول دیا جائے گا اور (وہ جنت میں داخل ہو کر) عام لوگوں کے داخلے سے پہلے چالیس سال کا قیلولہ بھی کر چکے ہوں گے۔“
[ المستدرك على الصحيحين(امام) الحاکم: حدیث#2389]
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جنت میں داخل ہونے والی سب سے پہلی جماعت فقراء مہاجرین کی ہو گی، جن کے ذریعے مکروہات سے بچا جاتا ہے، جب انہیں حکم دیا جاتا ہے تو وہ سنتے اور اطاعت کرتے ہیں، اگر ان میں سے کسی کو بادشاہ سے کوئی ضرورت پڑ جاتی ہے تو وہ پوری نہیں کی جاتی، یہاں تک کہ وہ مر جاتا ہے اور وہ ضرورت اس کے سینے میں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن جنت کو بلائے گا، وہ زینت و سجاوٹ اور نمائش و آرائش کے ساتھ آئے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ اعلان کرے گا میرے بندے کہاں ہیں جنہوں نے میرے راستے میں قتال کیا، اور ان سے قتال کیا گیا، ان کو میرے راستے میں تکالیف دی گئیں اور انہوں نے میرے راستے میں جدوجہد کی۔ (میرے بندو!) تم جنت میں داخل ہو جاؤ۔ وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (یہ منظر دیکھ کر) فرشتے آ کر سجدہ کریں گے اور کہیں گے: اے ہمارے ربّ! ہم دن رات تیری تسبیح و تقدیس بیان کرتے تھے، لیکن یہ کون لوگ ہیں جنہیں تو نے ہم پر ترجیح دی؟ ربّ تعالیٰ فرمائے گا: یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے میرے راستے میں جہاد کیا، انہیں میرے راستے میں تکلیفیں دی گئیں۔ سو فرشتے ہر دروازے سے ان پر داخل ہو کر کہیں گے: تم پر سلامتی ہو، صبر کے بدلے، کیا ہی اچھا (بدلہ) ہے اس دار آخرت کا۔ (سورہ رعد : 24)۔“
[سلسله احاديث صحيحه: حدیث نمبر: 3924]
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”پہلا طائِفَہ(جماعت، قوم، ٹولی) جو جنت میں داخل ہوگا، ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح (چمکتے) ہوں گے۔ پھر ان کے بعد داخل ہونے والوں کے چہرے، آسمان پر سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرح ہوں گے، وہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ، وہ تھوکیں گے نہ ناک سنکیں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی، ان کا پسینہ کستوری (کی طرح خوشبودار) ہو گا اور ان کی انگیٹھیوں میں (جلانے کے لیے) خوشبودار لکڑی ہو گی، ان کی بیویاں موٹی آنکھوں والی حوریں ہوں گی، سب (جنتی لوگ) ایک ہی آدمی کی ساخت پر اپنے باپ آدم علیہ السلام کی شکل و صورت پر ہوں گے، بلندی (قد) میں وہ ساٹھ (ساٹھ) ہاتھ ہوں گے (جیسے سیدنا آدم علیہ السلام تھے)۔“
[صحيح مسلم:2834، سنن ابن ماجه:4333]
جنتی حوروں کا نغمہ:
سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ الْحُورَ فِي الْجَنَّةِ يَتَغَنَّيْنَ يَقُلْنَ: نَحْنُ الْحُورُ الْحِسَانُ، هُدِينَا لِأَزْوَاجٍ كِرَامٍ»
ترجمہ:
” جنت کی حوریں پرترنم آواز میں یوں کہتی ہیں: ہم حسین و جمیل حوریں ہیں ہمیں اعلی ظرف خاوندوں کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔“
[صفة الجنة لابن أبي الدنيا: حدیث#249 ، البعث لابن أبي داود:76، المعجم الأوسط للطبراني:6497، البعث والنشور للبيهقي:378، سلسلة الأحاديث الصحيحة:3002]
حور عین کیا ہے؟
(۱)’’حورِ عین‘‘ کا معنیٰ "سیاہ چشم عورت" ہے، جس کی آنکھوں کی سفیدی نہایت سفید اور سیاہی نہایت سیاہ ہو، قرآنِ کریم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے، یہ نام رکھنا درست ہے۔
(۲)"حور العین" بھی حور عین کے معنی میں ہی ہے، دونوں میں صرف ترکیب (الفاظ کی جوڑ توڑ ) کا فرق ہے، لہذا اس طرح نام رکھنا بھی درست ہے، تاہم "حور عین" تلفظ کے ساتھ بہتر ہوگا۔
محیط اللغۃ میں ہے:
"حورة بفتحتين أيضًا والحور أيضًا: شدة بياض العين في شدة سوادها، وامرأة حوراء: بينة الحور، يقال: احورت عينه احوراراً، قال الأصمعي: ما أدري ما الحور في العين، وقال أبوعمرو: الحور أن تسود العين كلها مثل أعين الظباء والبقر، وقال: وليس في بني آدم حور، وإنما قيل للنساء: حور العيون تشبيهاً بالظباء والبقر".
[1/69، ط: دارالكتب العلمية]
’’حورِ عین‘‘ کا معنیٰ "سیاہ چشم عورتیں" ہے، جن کی آنکھوں کی سفیدی نہایت سفید اور سیاہی نہایت سیاہ ہو، قرآنِ کریم میں بھی (یعنی سورہ دخان، آیت:54 میں) یہ لفظ استعمال ہوا ہے، لہذا یہ نام رکھنا درست ہے۔
الجامع لاحکام القرآن (تفسير القرطبی) میں ہے:
"كَذَلِكَ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ" (54)
"وَقَالَ أَبُو عَمْرٍو: الْحَوَرُ أَنْ تَسْوَدَّ الْعَيْنُ كُلُّهَا مِثْلَ أَعْيُنِ الظِّبَاءِ وَالْبَقَرِ. قَالَ: وَلَيْسَ فِي بَنِي آدَمَ حَوَرٌ، وَإِنَّمَا قِيلَ لِلنِّسَاءِ: حُورُ الْعِينِ لِأَنَّهُنَّ يُشَبَّهْنَ بِالظِّبَاءِ وَالْبَقَرِ. وَقَالَ الْعَجَّاجُ:بِأَعْيُنٍ مُحَوَّرَاتٍ حُورِ . يَعْنِي الْأَعْيُنَ النَّقِيَّاتِ الْبَيَاضِ الشَّدِيدَاتِ سَوَادِ الْحَدْقِ. وَالْعِينُ جَمْعُ عَيْنَاءَ، وَهِيَ الْوَاسِعَةُ الْعَظِيمَةُ الْعَيْنَيْنِ."
[سورة الدخان، رقم الآية:54، ج:16، ص:153، ط:دارالكتب المصرية]
قرآن مجید میں نیک اور متقی(یعنی اللہ سے ڈرنے اور نافرمانی سے بچنے والے) مسلمانوں کے لیے جنت کی نعمتیں شمار کراتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿كَذٰلِكَ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ﴾
ترجمہ:
(اور) یہ بات اسی طرح ہے اور ہم ان کا گوری گوری بڑی بڑی آنکھوں والیوں سے بیاہ کردیں گے۔
[سورۃ الدخان: 54]
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿مُتَّكِئِينَ عَلَى سُرُرٍ مَصْفُوفَةٍ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ﴾
ترجمہ:
تکیہ لگائے ہوئے تختوں پر جو برابر بچھائے ہوئے ہیں۔ اور ہم ان کا گوری گوری بڑی بڑی آنکھوں والیوں (یعنی حوروں) سے بیاہ کردیں گے۔
[سورۃ الطور: 20]
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
﴿وَحُورٌ عِينٌ كَأَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ﴾
ترجمہ:
اور ان کے لیے گوری گوری بڑی آنکھوں والی عورتیں ہوں گی (مراد حوریں ہیں) ۔ جیسے (حفاظت سے) پوشیدہ رکھا ہوا موتی۔
[سورۃ الواقعة: 22، 23]
[سورۃ الواقعة: 22، 23]
"حور" حوراء کی جمع ہے، اور "حوراء" اس عورت کو کہتے ہیں جو جوان ہو، حسین وجمیل ہو، گورے رنگ کی ہو، سیاہ آنکھ والی ہو ۔ اور "عین" عیناء کی جمع ہے اور "عیناء" اس عورت کو کہتے ہیں جوعورتوں میں بڑی آنکھ والی ہو۔
[حادي الأرواح إلى بلاد الأفراح-ابن القيم: صفحہ218- ط المدني]
[التفسير القيم: صفحہ472 سورۃ الدخان:54]
حضرت ابو امامہؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
«خُلِقَ الْحُورُ الْعِينُ مِنِ الزَّعْفَرَانِ».
ترجمہ:
حورعین کو زعفران سے بنایا گیا ہے۔
[تفسير ابن أبي حاتم:18559-سورۃ الدخان:50، معجم ابن الأعرابي:268، المعجم الأوسط للطبراني:288، صفة الجنة لأبي نعيم الأصبهاني:،383+385، صفة الجنة - الضياء المقدسي:122، البدور السافرہ:۲۰۱۶۔ طبرانی:۷۸۱۳]
بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مرفوع اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موقوف حدیث بھی اسی طرح نقل کی ہے، اور مجاہد سے بھی یہ روایت آئی ہے۔
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَخْلِقِ الْحُورَ الْعِينَ مِنْ تُرَابٍ، إِنَّمَا خَلَقَهُنَّ مِنْ مِسْكٍ، وَكَافُورٍ، وَزَعْفَرَانٍ، وَأَنْتُمْ تَطْمَعُونَ أَنْ تُعَانِقُوا هَؤُلَاءِ، وَلَا تُطِيعُونَ اللَّهَ فِيمَا أَمَرَكُمْ»
ترجمہ:
زید بن اسلم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: "اللہ بزرگ و برتر نے حور عین کو مٹی سے نہیں بنایا، بلکہ اس نے انہیں مشک، کافور اور زعفران سے پیدا کیا ہے، اور تم ان کو گلے لگانے کی تمنا کروگے، اور (حالہ یہ ہے کہ) تم اللہ کی اطاعت نہیں کرتے جو وہ تمہیں حکم دیتا ہے۔"
[الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي:1537]
الدر المنثور في التفسير بالمأثور-السيوطي: 7/ 123، سورۃ الدخان:43
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: ، لَوْ أَنَّ حَوْرَاءَ بَصَقَتْ فِي سَبْعَةِ أَبْحُرٍ لَعَذُبَتِ الْبِحَارُ مِنْ عُذُوبَةِ رِيقِهَا، وَيُخْلَقُ الْحَوْرَاءُ مِنَ الزَّعْفَرَانِ
ترجمہ:
حضرت انسؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر حور سمندر میں تھوک دے تو اس کے لعاب دہن کی شیرینی سے سمندر میٹھا ہوجائے۔
[صفة الجنة لأبي نعيم الأصبهاني:386]
[حادي الأرواح إلى بلاد الأفراح-ابن القيم: صفحہ234- ط المدني]
[صفات رب العالمين - ابن المحب الصامت - ناقص:531]
البدور السافرہ:۲۰۱۸، باحوالہ ابن المبارک]
عن ابنِ عبَّاسٍ رضي الله عنهما قال:
لوْ أنَّ حوْراءَ أخْرَجَتْ كَفَّها بينَ السماءِ والأرْضِ؛ لافْتَتَن الخلائقُ بحُسْنِها، ولوْ أخْرجَتْ نصيفَها؛ لكانَتِ الشمسُ عندَ حُسْنِهِ مثلَ الفتيلَةِ في الشمْسِ لا ضَوْءَ لها، ولو أَخْرَجَتْ وجْهَها؛ لأضاءَ حُسْنُها ما بينَ السماءِ والأرْضِترجمہ:
حضرت ابن عباسؓ کا بیان نقل کیا ہے : اگر حور اپنی ہتھیلی زمین و آسمان کے درمیان بر آمد کر دے تو اس کے حسن کی وجہ سے دنیا دیوانی ہوجائے، اور اگر حور اپنی اوڑھنی نکال دے تو سورج اس کے سامنے ایسا معلوم ہو جیسے سورج کے سامنے ایک بےنور بتی، اور اگر حور اپنا چہرہ نمودار کر دے تو اس کے حسن سے زمین و آسمان کے درمیان کی ساری فضا چمک جائے۔
[الترغيب والترهيب للمنذري - ط العلمية:4/ 298]
[الترغيب والترهيب للمنذري - ط العلمية:4/ 298]
[حادي الأرواح إلى بلاد الأفراح-ابن القيم: صفحہ236- ط المدني]
[فتح الباري لابن حجر:11/ 442]
[الدر المنثور في التفسير بالمأثور-السيوطي: 7/ 421 سورۃ الدخان:43]
حضرت ابن عباسؓ، حضرت انسؓ اور حضرت ابوسلمہ: بن عبدالرحمٰن (تابعی) اور حضر مجاہدؒ (تابعی) فرماتے ہیں کہ:
إن لولي الله في الجنة عروسا لم يلدها ادم ولا حواء ولكن خلقت من زعفران
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ کے دوست کے لیے ایسی بیوی ہے جس کو آدم وحواء (انسان) نے نہیں جنا؛ بلکہ اس کو زعفران سے پیدا کیا گیا ہے (یعنی وہ جنت میں تخلیق کی گئی ہے، ماں باپ کے واسطے سے پیدا نہیں ہوئی)۔
[حادي الأرواح إلى بلاد الأفراح-ابن القيم: صفحہ233- ط المدني]
حضرت ابن ابی الحواری رحمہ اللہ فرماتے ہیں (کہ میں نے ابوسلیمان سے سنا):
يَنْشَأُ خَلْقُ الْحُورِ إِنْشَاءً فَإِذَا تَكَامَلَ خَلْقُهُنَّ ضَرَبَتِ الْمَلَائِكَةُ عَلَيْهِنَّ الْخِيَامَ
ترجمہ:
حورعین کو محض قدرتِ خداوندی سے (کلمہ کن سے) پیدا کیا گیا ہے، جب ان کی تخلیق پوری ہوجاتی ہے تو فرشتے ان پر خیمے نصب کردیتے ہیں۔
[حادي الأرواح إلى بلاد الأفراح-ابن القيم: صفحہ210+236- ط المدني۔ (صفة الجنة لابن أبي الدنيا ت سليم:304)]
سرکارِ دوعالم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حورعین کے متعلق سوال کیا گیا کہ ان کوکس چیز سے پیدا کیا گیا ؟ توآپ نے ارشاد فرمایا:
"من ثلاثة أشياء: أسفلهن من المسك، وأوسطهن من العنبر، وأعلاهن من الكافور، وشعورهن وحوا جبهن سواد خط من نور".
ترجمہ:
تین چیزوں سے پیدا کی گئی ہیں، ان کا نچلا حصہ مشک (کستوری) کا ہے اور درمیانہ حصہ عنبر کا ہے اور اوپر کا حصہ کافور کا ہے، ان کے بال اور آبرو سیاہ ہیں نور سے ان کا خط کھینچا گیا ہے۔
[التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة-القرطبي: صفحہ991 بحوالہ ترمذی، التوضيح لشرح الجامع الصحيح-ابن الملقن: 17 /361، عمدة القاري شرح صحيح البخاري-بدر الدين العيني: 14/ 95]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اور روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:
"سألت جبريل عليه السلام فقلت: أخبرني كيف يخلق الله الحور العين؟ فقال لي: يامحمد! يخلقهن الله من قضبان العنبر والزعفران، مضروبات عليهن الخيام، أول مايخلق الله منهن نهداً من مسك أذفر أبيض عليه يلتام البدن".
ترجمہ:
میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا اور کہا کہ مجھے بتاؤ اللہ تعالیٰ حورعین کوکس طرح سے تخلیق فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اے محمد! اللہ تعالیٰ ان کوعنبر اور زعفران کی شاخوں سے پیدا فرماتے ہیں؛ پھران کے اوپرخیمے نصب کردیے جاتے ہیں ، سب سے پہلے اللہ تعالیٰ ان کے پستانوں کوخوشبودار گورے رنگ کی کستوری سے پیدا کرتے ہیں اسی پرباقی بدن کی تعمیر کرتے ہیں۔
[التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة-القرطبي: صفحہ992 بحوالہ ترمذی، التوضيح لشرح الجامع الصحيح-ابن الملقن: 17 /361، عمدة القاري شرح صحيح البخاري-بدر الدين العيني: 14/ 95]
اولیاء کا بدلے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ: خَلَقَ اللَّهُ الْحُورَ الْعِينَ مِنْ أَصَابِعِ رِجْلَيْهَا إِلَى رُكْبَتَيْهَا مِنَ الزَّعْفَرَانِ، وَمِنْ رُكْبَتَيْهَا إِلَى ثَدْيَيْهَا مِنَ الْمِسْكِ الْأَذْفَرِ، وَمِنْ ثَدْيَيْهَا إِلَى عُنُقِهَا مِنَ الْعَنْبَرِ الْأَشْهَبِ، وَمِنْ عُنُقِهَا إِلَى رَأْسِهَا مِنَ الْكَافُورِ الْأَبْيَضِ، عَلَيْهَا سَبْعُونَ أَلْفَ حُلَّةٍ مِثْلُ شَقَائِقِ النُّعْمَانِ، إِذَا أَقْبَلَتْ يَتَلَأْلَأُ وَجْهُهَا نُورًا سَاطِعًا كَمَا تَتَلَأْلَأُ الشَّمْسُ لِأَهْلِ الدُّنْيَا، وَإِذَا أَدْبَرَتْ يُرَى كَبِدُهَا مِنْ رِقَّةِ ثِيَابِهَا وَجِلْدِهَا، فِي رَأْسِهَا سَبْعُونَ أَلْفَ ذُؤَابَةٍ مِنَ الْمِسْكِ الْأَذْفَرِ، لِكُلِّ ذُؤَابَةٍ مِنْهَا وَصِيفَةٌ تَرْفَعُ ذَيْلَهَا وَهِيَ تُنَادِي: هَذَا ثَوَابُ الْأَوْلِيَاءِ (جَزاءً بِما كانُوا يَعْمَلُونَ)(سورۃ الواقعۃ:24)
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حورِعین کو پاؤں کی انگلیوں سے اس کے گھٹنے تک زعفران سے بنایا ہے اور اس کے گھٹنوں سے اس کے سینے تک کستوری کی خوشبو سے بنایا ہے اور اس کے سینہ سے گردن تک شعلہ کی طرح چمکنے والے عنبر سے بنایا اور اس کی گردن سے سرتک سفید کافور سے تخلیق کیا ہے، اس کے اوپر گلِ لالہ کی ستر ہزار پوشاکیں پہنائی گئی ہیں، جب وہ سامنے آتی ہے اس کا چہرہ زبردست نور سے ایسے چمک اُٹھتا ہے جیسے دنیا والوں کے لیے سورج اور جب سامنے آتی ہے تو اس کے پیٹ کا اندرونی حصہ لباس اور جلد کی باریکی کی وجہ سے دکھائی دیتا ہے، اس کے سرمیں خوشبودار کستوری کے بالوں کی چوٹیاں ہیں، ہر ایک چوٹی کو اٹھانے کے لیے ایک خدمت گار ہوگی جو اس کے کنارے کو اٹھانے والی ہوگی، یہ حور کہتی ہوگی یہ ثواب(انعام) ہے اولیاء کا۔ (اور جزاء-بدلہ ہے ان اعمال کا جو بجالاتے تھے)۔
[التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة-القرطبي: صفحہ992، تفسير القرطبي: 17 / 206 سورۃ الواقعۃ:24]
حور کا افسوس:
حضرت ابو امامہؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
"إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَاسْتُجِيبَ الدُّعَاءُ، فَإِذَا انْصَرَفَ الْمُنْصَرِفُ مِنَ الصَّلَاةِ، وَلَمْ يَقُلْ: اللهُمَّ أْجِرْنِي مِنَ النَّارِ، وأَدْخِلْنِي الْجَنَّةَ، وَزَوِّجْنِي مِنَ الْحُورِ الْعِينِ، قَالَتِ النَّارُ: يَا وَيْحَ هَذَا، أَعَجَزَ أَنْ يَسْتَجِيرَ اللهَ مِنْ جَهَنَّمَ؟ وَقَالَتِ الْجَنَّةُ: يَا وَيْحَ هَذَا، أَعَجَزَ أَنْ يَسْأَلَ اللهُ الْجَنَّةَ؟ وَقَالَتِ الْحُورُ الْعَيْنِ: يَا وَيْحَ هَذَا أَعَجَزَ أَنْ يَسْأَلَ اللهَ أَنْ يُزَوِّجَهُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ".
ترجمہ:
ترجمہ:
جب نماز قائم کی جاتی ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور دعا قبول کی جاتی ہے، اور جب منہ پھیرنے والا(نمازی سلام کے وقت) منہ پھیرتا ہے اور یہ نہیں کہتا : "اے اللہ! مجھے دوزخ سے نجات عطا فرما، اور مجھے جنت میں داخل فرما، اور مجھے حورعین سے بیاہ دے"، تو فرشتے کہتے ہیں: افسوس! کیا یہ شخص بے بس ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے دوزخ سے پناہ طلب کرے، اور جنت کہتی ہے: افسوس! کیا یہ شخص عاجز ہوگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جنت مانگے، اور حور کہتی ہے : یہ شخص عاجز آگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کرکے وہ اس کی حورعین سے شادی کردے۔
[المعجم الكبير للطبراني:7496، مسند الشاميين للطبراني:1601، موجبات الجنة لابن الفاخر:54، البدورالسافرہ:۲۰۵۸]
ایک اور حدیث میں ہے:
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا قَامَ فِي الصَّلَاةِ، فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَكُشِفَتْ لَهُ الْحُجُبُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَبِّهِ، وَاسْتَقْبَلَتْهُ الْحُورُ الْعِينُ، مَا لَمْ يَمْتَخِطْ أَوْ يَتَنَخَّعْ».
ترجمہ:
جب مسلمان نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تواس کے لیے جنت کو کھول دیا جاتا ہے، اس کے اور اس کے رب کے درمیان سے پردے ہٹادیے جاتے ہیں اور حور اس کی طرف اپنا رُخ کرلیتی ہے جب تک وہ نہ تھوکے اور ناک نہ سنکے (کیوں کہ حوریں اس نزلہ زکام وغیرہ سے پاک ہیں اور اُن سے نفرت کرتی ہیں)۔
[المعجم الكبير للطبراني:7980، البدور السافرۃ فی احوال الآخرۃ-السيوطي:۲۰۵۸]
«إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا قَامَ فِي الصَّلَاةِ، فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَكُشِفَتْ لَهُ الْحُجُبُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَبِّهِ، وَاسْتَقْبَلَتْهُ الْحُورُ الْعِينُ، مَا لَمْ يَمْتَخِطْ أَوْ يَتَنَخَّعْ».
ترجمہ:
جب مسلمان نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تواس کے لیے جنت کو کھول دیا جاتا ہے، اس کے اور اس کے رب کے درمیان سے پردے ہٹادیے جاتے ہیں اور حور اس کی طرف اپنا رُخ کرلیتی ہے جب تک وہ نہ تھوکے اور ناک نہ سنکے (کیوں کہ حوریں اس نزلہ زکام وغیرہ سے پاک ہیں اور اُن سے نفرت کرتی ہیں)۔
[المعجم الكبير للطبراني:7980، البدور السافرۃ فی احوال الآخرۃ-السيوطي:۲۰۵۸]
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«مَنْ بَاتَ لَيْلَةً فِي خِفَّةٍ مِنَ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ يُصَلِّي، تداكَتْ حَوْلَهُ الْحُورُ الْعَيْنُ حَتَّى يُصْبِحَ».
ترجمہ:
جو شخص تھوڑا کھانا کھاکر نماز پڑھتے ہوئے رات گزارتا ہے صبح تک حورعین انتظار میں رہتی ہیں (کہ شاید اللہ تعالیٰ اس نیک بندے کے ساتھ ہمیں بیاہ دے)۔
جو شخص تھوڑا کھانا کھاکر نماز پڑھتے ہوئے رات گزارتا ہے صبح تک حورعین انتظار میں رہتی ہیں (کہ شاید اللہ تعالیٰ اس نیک بندے کے ساتھ ہمیں بیاہ دے)۔
[المعجم الكبير للطبراني:11891 دار النشر: مكتبة ابن تيمية - القاهرة]
حبان بن ابی جبلہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
«إِنَّ نِسَاءَ أَهْلِ الدُّنْيَا مَنْ دَخَلَتْ مِنْهُنَّ الْجَنَّةَ فُضِّلْنَ عَلَى الْحُورِ الْعِينِ بِمَا عَمِلْنَ فِي الدُّنْيَا»
ترجمہ:
دنیا والی عورتیں جب جنت میں جائیں گی تو (حسن میں) حورعین سے بڑھ کر ہوں گی۔
[الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي: صفحہ72]
[الزهد والرقائق - ابن المبارك - ت الأعظمي: صفحہ72]
[صفة الجنة لابن أبي الدنيا:273(283)]
تفسير القرطبي:16/ 152، سورة الدخان:54(17/ 188، سورۃ الرحمان:70)
التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة-القرطبي: صفحہ987
سابقہ تفصیل سے واضح ہوا کہ "حورعین" جنت کی وہ پاکیزہ، خوب صورت، گوری اور بڑی آنکھوں والی عورتیں ہیں، جو دنیا کی عورتوں سے جدا ہیں، ان کی تخلیق کا قوام بھی مختلف ہے۔ البتہ دنیا کی عورتوں کا حسن جنت میں داخل ہونے کے بعد حوروں سے بڑھ کر ہوگا، اور وہ حوروں کی ملکہ (سردار) ہوں گی۔
"وَ"الْحُورُ": هُنَّ النِّسَاءُ النَّقِيَّاتُ الْبَيَاضِ، يَحَارُ فِيهِنَّ الطَّرْفُ مِنْ بَيَاضِهِنَّ وَصَفَاءِ لَوْنِهِنَّ، جمع حوراء، والعين: جمع العيناء وهى العظيم العينين. أخرج الطبراني عن أبى أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خلق الحور العين من الزعفران. وأخرج البيهقي مثله عن أنس مرفوعاً وعن ابن عباس موقوفاً وعن مجاهد كذلك. وأخرج ابن المبارك عن زيد بن أسلم قال: إن الله تبارك وتعالى لا يخلق الحور العين من تراب، إنما خلقهن من مسك وكافور وزعفران. وأخرج ابن أبي الدنيا عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو أن حوراً بزقت في بحر لعذب ذلك البحر من عذوبة ريقها. وأخرج ابن أبي الدنيا عن ابن عباس قال: لو أن حوراً أخرجت كفها بين السماء والأرض لافتتن الخلائق بحسنها، ولو أخرجت نصيفها لكان الشمس عند حسنه مثل الفتيلة فى الشمس لاضوء لها، ولو أخرجت وجهها لأضاء حسنها ما بين السماء والأرض. وأخرج هناد عن حبان بن احيلة قال: إن نساء أهل الدنيا إذا أدخلن الجنة فضلن على الحور العين".
[التفسير المظهري:8/377]
جنت میں مرد کو بہت سی عورتیں اور حوریں ملیں گی تو عورتوں کو کتنے مرد ملیں گے؟
(1)حقیقت میں یہ ایک انتہائی واہیات بات ہے، دنیا میں ہی یہ شرم کا مقام ہے کہ کسی عورت کے چارچار یار یا ستّر ستّر شوہر پائے جاتے ہوں۔ کیا دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں یہ قابل قبول ہے کہ ایک عورت کے بیک وقت متعدد شوہر ہوں؟
لہٰذا
جنت میں گناہ وبیہودہ بات [سورۃ الواقعہ:25] نہیں۔ کیونکہ گناہگار اور بیہودہ لوگوں کیلئے جنت نہیں۔
(2)یہ انسان کی غیرت کے بھی خلاف ہے اور فطرت کے بھی۔ جنت تو جگہ ہی پاکیزہ اور سلیم الطبیعت لوگوں کی ہے ، انکو کسی گندگی کا خیال بھی نہیں آئے گا۔ یہ ایک لاجیکل جواب ہے۔
لہٰذا
کبیرہ گناہ خصوصاََ فحاشی [قرآن، سورۃ الشوریٰ:37] کرنے والے جنت میں نہ ہوں گے۔
تو پھر عورتوں کو جنت میں کیا ملے گا؟؟
اس سوال کے جواب میں اگر ایک یہی آیت پیش کردی جائے تو کافی ہوگی:
وہاں جس (نعمت) کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گی اور جو چیز طلب کرو گے تمہارے لیے موجود ہوگی ۔ یہ بخشنے والی مہربان ذات کی طرف سے مہمانی ہے۔‘‘
[سورۃ فصلت:31-32]
عورتوں کو پسند کیا ہے؟
اسکا تعین جب انہیں خود کرنے کی اجازت مل گئی تو پھر کسی فرق یا کمی کی گنجائش ہی ختم ہوگئی ، جس عورت کو جو کچھ پسند ہوگا وہ اسے ملے گا۔! ایک اور آیت دیکھیے:
” اس جنت میں ہر وہ چیز ہوگی جسکی دلوں کو خواہش ہوگی اور جس سے آنکھوں کو لذت حاصل ہوگی ۔(ان سے کہا جائے گا کہ) اس جنت میں تم ہمیشہ رہو گے۔
[سورۃ الزخرف، آیت 71]
مزید ایک حدیث قدسی جو ایسی نعمتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جن کا ہم اس محدود دنیا میں تصور نہیں کرسکتے، انکو گنوایا اور سمجھایا جاہی نہیں سکتا:
اللہ فرماتے ہیں :
میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جسے ان کی آنکھوں نے دیکھا ہے نہ ان کے کانوں نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے ۔‘‘
[صحیح البخاری ، التفسیر ، حدیث: 4779]
عورت کو با-اخلاق شوہر چننے کا اختیار ملے گا:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہم میں سے بعض عورتیں (دنیا میں) دو، تین یا چار شوہروں سے یکے بعد دیگرے نکاح کرتی ہے اور مرنے کے بعد جنت میں داخل ہو جاتی ہے، وہ سارے مرد بھی جنت میں چلے جاتے ہیں، تو ان میں سے کون اس کا شوہر ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ام سلمہ ! وہ عورت ان مردوں میں کسی ایک کا انتخاب کرے گی اور وہ اچھے اخلاق والے مرد کو پسند کرے گی۔ اللہ تعالی سے گزارش کرے گی: اے میرے رب ! یہ مرد دنیا میں میرے ساتھ سب سے زیادہ اخلاق سے پیش آیا لہذا اسے میرے ساتھ بیاہ دیں۔
[مجموع فيه مصنفات أبي العباس الأصم:209، المعجم الأوسط للطبراني:3141، المعجم الكبير للطبراني:870، صفة الجنة - الضياء المقدسي:119، إعلام الموقعين-ابن القيم:4/212، 6/238، حادي الأرواح إلى بلاد الأفراح-ابن القيم:ص229، البداية والنهاية-ابن كثير ت التركي:20/337، النهاية في الفتن والملاحم-ابن كثير:2/333]
تفسير ابن كثير - ت السلامة:7/532(سورۃ الواقعۃ:27)
التفسير المظهري:9/163(سورۃ الرحمٰن:70)
تفسير الألوسي = روح المعاني:14/125(سورۃ الرحمٰن:70)
اگر سب شوہر حسن خلق میں برابر ہوں تو آخری شوہر کو ملے گی ورنہ اسے اختیار دیا جائے گا۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
«أَيُّمَا امْرَأَةٍ تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا، فَتَزَوَّجَتْ بَعْدَهُ فَهِيَ لِآخِرِ أَزْوَاجِهَا»
[المعجم الأوسط للطبراني:3130]
المرأة لآخر أزواجها
ترجمہ:
عورت کو اس کا آخری شوہر ملے گا۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:1281، صحيح الجامع الصغير:2704]
دنیا کی خاتوں افضل ہے یا جنت کی حور؟
پھر میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! یہ فرمائیے کہ دنیا کی خاتوں افضل ہے یا جنت کی حور؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
بَلْ نِسَاءُ الدُّنْيَا أَفْضَلُ مِنْ حُورِ الْعِينِ كَفَضْلِ الظَّهَارَةِ عَلَى الْبَطَانَةِ
ترجمہ:
دنیا کی خاتون کو جنت کی حور پر وہی فضیلت حاصل ہو گی جو ابرے (باہر والا کپڑا) کو استر (اندر والا کپڑا ) پر حاصل ہوتی ہے۔
میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کیسے؟
تو آپ نے فرمایا:
بَلْ نِسَاءُ الدُّنْيَا أَفْضَلُ مِنْ حُورِ الْعِينِ كَفَضْلِ الظَّهَارَةِ عَلَى الْبَطَانَةِ قَالَتْ قلت يا رسول الله وَبِمَ ذَاكَ قَالَ بِصَلاتِهِنَّ وَصِيَامِهِنَّ وَعِبَادَتِهِنَّ أَلْبَسَ اللَّهُ وُجُوهَهُنَّ النُّورَ وَأَجْسَادَهُنَّ الْحَرِيرَ بِيضُ الأَلْوَانِ خُضْرُ الثِّيَابِ صُفْرُ الْحُلِيِّ مَجَامِرُهُنَّ الدُّرُّ وَأَمْشَاطُهُنَّ الذَّهَبُ يَقُلْنَ أَلا نَحْنُ الْخَالِدَاتُ فَلا نَمُوتُ أبدا ألا نحن الناعمات فلا نبأس أبدا ألانحن الْمُقِيمَاتُ فَلا نَظْعَنُ أَبَدًا طُوبَى لِمَنْ كُنَّا لَهُ وَكَانَ لَنَا
ترجمہ:
ان کے نماز، روزے اور عدات کی وجہ سے ہے ‘ اللہ ان کے چہروں کو نور کا لباس پہنا دے گا (نورانی کر دے گا) اور ان کے جسموں کو ریشم کا لباس پہنا دے گا ‘ ان کے رنگ گورے ‘ کپڑے سبز اور زیور زرد ہوں گے ‘ ان کی انگیٹھیاں موتی کی اور کنگھیاں سونے کی ہوں گی ‘ وہ کہیں گی ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں۔ ہم کبھی بھی نہیں مریں گی ‘ ہم آرام پروردہ ہیں ‘ کبھی دکھی نہیں ہوں گی ‘ ہم یہاں ہمیشہ مقیم رہیں گی ‘ کبھی یہاں سے کوچ نہیں کریں گی ‘ ہم ہمیشہ رضامند رہنے والیاں ہیں ‘ کبھی ناراض نہیں ہوں گی ‘ خوش ہو اس کے لیے جس کے لیے ہم ہیں اور جو ہمارے لیے ہے۔
[مجموع فيه مصنفات أبي العباس الأصم:209، المعجم الأوسط للطبراني:3141، المعجم الكبير للطبراني:870، صفة الجنة - الضياء المقدسي:119، إعلام الموقعين-ابن القيم:4/212، 6/238، حادي الأرواح إلى بلاد الأفراح-ابن القيم:ص229، البداية والنهاية-ابن كثير ت التركي:20/337، النهاية في الفتن والملاحم-ابن كثير:2/333]
تفسير ابن كثير - ت السلامة:7/532(سورۃ الواقعۃ:27)
التفسير المظهري:9/163(سورۃ الرحمٰن:70)
تفسير الألوسي = روح المعاني:14/125(سورۃ الرحمٰن:70)
خلاصہ:
جنت میں جانے والے مرد و عورتوں کو پراگندہ خیالات و خواہشات سے پاک کردیا جائے گا، اور تلذز کے حصول کے تمام حلال اسباب نہ صرف میسر ہوں گے، بلکہ انہیں اس کی خواہش بھی ہوگی، جنتی خواتین اپنے شوہروں کے ساتھ ہوں گی، اور اپنے شوہروں کی حوروں کی سردارنیاں ہوں گی، تاہم انہیں جنت میں متعدد شوہر میسر نہ ہوں گے، اور جو عورت شادی سے پہلے وفات پاجائے اسے جنت میں اختیار دیا جائے گا کہ جس جنتی مرد کو پسند کرلے، اسی سے اس کا نکاح ہوجائے گا، اور اسی کے ساتھ وہ ساری زندگی بتائے گی، یا اللہ پاک اپنی قدرت سے جنت میں ان کے لیے جنتی مرد پیدا فرمادیں گے جن کے ساتھ وہ ہمیشہ رہیں گی، جیسے مردوں کے لیے حوریں ہوں گی۔
اسلام میں حوروں کے فضائل کی غرض و غایت:
اسلام کا تدریجی و ارتقائی اسلوب ِتربیت اور حوروں کے فضائل کی غرض وغایت:معاشر ے میں ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو الہامی عقائد و نظریات سے شد و مد کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں جس کی وجوہات میری ناقص رائے کے مطابق یہ ہو سکتی ہیں:
(۱) ان عقائد و نظریات سے کلی یا جزوی طور پر ناواقفیت۔
(۲) ان نظریات سے متضاد و متصادم نظریات سے گمراہ کن تاثر۔
(۳) تعصب و نفرت کی خلیج۔
سوشل میڈیا پر جن خیالات اور تبصروں کامیں نے مشاہدہ کیا وہ چند سوالات ہیں جو نا بالغ ذہن کی اختراع کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتے جیسے:
کیا اسلام میں حوروں کے فضائل اور ترغیب جنسی میلان کی ترغیب ہے؟
کیا حوریں اس عبادت کا بدل ہیں جو دنیا میں کی جاتی ہے؟
کیا یہ عورت کو محض جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھنا نہیں کہلاتا؟
مردوں کے لیے حوروں کی ترغیب و فضائل ہیں لیکن عورتوں کے لیے اس قسم کے فضائل وترغیب کیوں نہیں بیان کیے گیے؟ وغیرہ وغیرہ
یہ تمام اشکالات اسلام کے تربیتی اسلوب کو نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے ہےں اور مؤخر الذکر تو محض بے حیائی کا عکاس اور اسلام کے تصور حیا کو یکسر نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے ہے۔ درا صل ان سطور کو لکھنے کا محرک بھی اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات اور شر انگیزی پھیلانے والے فتنہ پردازوں کی سوشل میڈیا پراس قسم کی سرگرمیاں ہی ہیں ۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ عبادت کا مقصود ِاصلی محض اللہ ہی کی رضاہے لیکن خوب ذہن نشین کر لیا جائے کہ رسول عربی ﷺ نے نہ صرف جہنم سے ڈرایا ہے بلکہ جنت کی بشارتیں بھی سنائی ہیں ۔قرآن پاک میں اللہ نے جنت کی طرف بڑھنے کا حکم فرمایا اور اس کی نعمتوں کا جا بجا تذکرہ فرمایا جن میں پاکیزہ بیویوں کا تذکرہ ان کے اوصاف اور حسن و جمال کے ساتھ فرمایا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اسلام میں حوروں کے فضائل و استحضار کی غر ض وغایت کیا ہے ؟اگر اس سوال کے تشفی بخش جواب سے یقینی آگاہی حاصل ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مذکورہ بالا اشکالات کی کوئی گنجائش باقی رہ جائے ۔اسلام میں قرن ِاول ہی سے افراد کی تربیت کا جو نظام وضع کیا گیا وہ آج کے ہر ہر فرد کے لیے بطریق ِ اولیٰ مؤثر ہے جس کا کوئی بھی متبادل نظام ِ تربیت قطعی طور پر ناکافی اور غیر مؤثر ہو گا۔اب اسلام کے نظام تزکیہ و تربیت کے اسلوب کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔اسلام کا تزکیہ و تربیت کا نظام تدریجی و ارتقائی ہے جو حکمت و بصیرت سے پُر ہے جس کے مدارج اور ارتقائی مراحل میں سے چند ایک کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔
اول۔۔۔۔ فضائل و ترغیب اور استحضار ِ عمل(عمل پر اللہ کے وعدے کا یقین):
کیا اسلام میں حوروں کے فضائل اور ترغیب جنسی میلان کی ترغیب ہے؟
کیا حوریں اس عبادت کا بدل ہیں جو دنیا میں کی جاتی ہے؟
کیا یہ عورت کو محض جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھنا نہیں کہلاتا؟
مردوں کے لیے حوروں کی ترغیب و فضائل ہیں لیکن عورتوں کے لیے اس قسم کے فضائل وترغیب کیوں نہیں بیان کیے گیے؟ وغیرہ وغیرہ
یہ تمام اشکالات اسلام کے تربیتی اسلوب کو نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے ہےں اور مؤخر الذکر تو محض بے حیائی کا عکاس اور اسلام کے تصور حیا کو یکسر نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے ہے۔ درا صل ان سطور کو لکھنے کا محرک بھی اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات اور شر انگیزی پھیلانے والے فتنہ پردازوں کی سوشل میڈیا پراس قسم کی سرگرمیاں ہی ہیں ۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ عبادت کا مقصود ِاصلی محض اللہ ہی کی رضاہے لیکن خوب ذہن نشین کر لیا جائے کہ رسول عربی ﷺ نے نہ صرف جہنم سے ڈرایا ہے بلکہ جنت کی بشارتیں بھی سنائی ہیں ۔قرآن پاک میں اللہ نے جنت کی طرف بڑھنے کا حکم فرمایا اور اس کی نعمتوں کا جا بجا تذکرہ فرمایا جن میں پاکیزہ بیویوں کا تذکرہ ان کے اوصاف اور حسن و جمال کے ساتھ فرمایا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اسلام میں حوروں کے فضائل و استحضار کی غر ض وغایت کیا ہے ؟اگر اس سوال کے تشفی بخش جواب سے یقینی آگاہی حاصل ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مذکورہ بالا اشکالات کی کوئی گنجائش باقی رہ جائے ۔اسلام میں قرن ِاول ہی سے افراد کی تربیت کا جو نظام وضع کیا گیا وہ آج کے ہر ہر فرد کے لیے بطریق ِ اولیٰ مؤثر ہے جس کا کوئی بھی متبادل نظام ِ تربیت قطعی طور پر ناکافی اور غیر مؤثر ہو گا۔اب اسلام کے نظام تزکیہ و تربیت کے اسلوب کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔اسلام کا تزکیہ و تربیت کا نظام تدریجی و ارتقائی ہے جو حکمت و بصیرت سے پُر ہے جس کے مدارج اور ارتقائی مراحل میں سے چند ایک کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔
اول۔۔۔۔ فضائل و ترغیب اور استحضار ِ عمل(عمل پر اللہ کے وعدے کا یقین):
کا مقصود افراد میں ابتداًاعمال سے موانست و مناسبت ،وابستگی و رغبت اور شوق پیدا کرنا ہے ۔مثلاًنماز ہی کو لے لیجیے اس سے وابستگی او ر رغبت پیدا کرنے اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے نہ صرف قراءت و قیام ،رکوع و سجود وغیرہ کے فضائل بیان کیے گئے بلکہ اذان کے فضائل بیان کیے گئے ،اذان کے سننے اور جواب دینے پر اجرو ثواب کی نوید سنائی گئی،مؤذن کے مناقب بیان کیے گئے ۔اُٹھان پیدا کرنے کا یہ سلسلہ یہیں پہ ختم نہ ہوا بلکہ نماز میں شغف بڑھانے کے لئے وضو کو حسن و نکھاربخشا ،اس پر سنتوں اور مستحبات کا تزین کیا گیا ،وضو میں کمال پیدا کرنے کے لیے مسواک کے فضائل اور اجرو ثواب کو بیان کیا گیا ،نماز کی عظمت پیدا کرنے کے لئے وضو کر کے گھر سے جانے والا ایسا بتلایا گیا گویا احرام باندھ کر حج کو جا رہا ہے پھر نماز کے انتظا ر میں بیٹھنے کی فضیلت بیان کی گئی کہ گویا نماز کا ثواب پاتا رہتا ہے ۔یوں صحابہ کی نماز میں بے مثل ومثال شغف و تعشق، خشوع و خضوع اور حد درجہ کمال پیدا کر دیا گیا کہ ان پر نماز کے اسرارورموز اپنی پوری حقیقت کے ساتھ کھل گئے ۔
دوم۔۔۔۔ آسان سے مشکل کی طرف:
دوم۔۔۔۔ آسان سے مشکل کی طرف:
اس اصول کے تحت پہلے افراد کو ظاہری سانچے میں ڈھالا گیا ازاں بعد ترہیب و ترغیب اور اُٹھان کے ذریعے دلوں کی زمین کو خوب نرم کر کے اس قابل کیا جاتا رہا کہ اس میں ہر اگلی فصل کاشت کی جا سکے جو زیادہ محنت طلب اور قدرے مشکل بھی ہو ۔ عبادات و اخلاقیات کے مراحل سے ہوتے ہوئے افراد کو معاشرت ومعیشت اور معاملات و قضا کے دین کی تکمیل تک لے جایا گیا یوں ارتقائی و تدریجی مراحل کا یہ سلسلہ ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام پر منتج ہوا۔ مثلاًایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ فلاں شخص رات کو نماز پڑھتا ہے اور صبح ہوتے ہی چوری کرتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس کی نماز اس کو عنقریب اس فعل سے روک دے گی۔تمام معاملات میں سدھار پیدا کرنا مشکل بھی ہے اور دیر طلب بھی لیکن نماز میں شغف اور خشوع و خضوع معاملات کی درستگی کی دلیل ہے۔عبادات کے دین میں استحکام کے بعدتربیت کے دائرہ کار کو اخلاقیات و معاشرت کی جانب بڑھایا تو ایسے معاشرے کی تکمیل ممکن ہوسکی جو اقوام ِعالم کے لئے نمونہ قرار پایا۔
ذرا سوچیے ایسا کیوں نہ ہوا کہ تمام احکام شرعیہ بیک وقت نازل ہو جاتے؟ دیکھیے شراب کی حرمت اور پردے کی فرضیت کا عمر رضی اللہ عنہ کی فکر پر نازل ہونا تو ایک تکوینی امر تھا لیکن اعلان نبوت کے طویل عرصہ بعد ان احکامت کے نزول میں درحقیقت اسلام کا یہی تدریجی و ارتقائی اسلوب تربیت ہی حائل تھا گویا ان احکامات کا نزول ایک مناسب وقت کی تلاش میں تھا جیسے کسان بنجر اور سخت زمین میں بیج ہر گز نہیں ڈالتا بلکہ اس کو اس قابل بنا تا ہے کہ اس میں مطلوبہ فصل کاشت کی جا سکے بعینہ زیر تربیت عملہ کے مناسبِ احوال شرعیت مطہرہ کے احکامات متوجہ ہوتے رہے ۔انسانی تربیت کے اس نظام نے عبادات ،اخلاقیات و معاشرت اور معاملات کے دین سے ہوتے ہوئےقضا کے دین کو اپنی وسعتوں میں سمو لیا کہ ایک یہودی اور جلیل القدر صحابی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقدمہ جب عدالت کے روبرو ہو تا ہے تو قاضی کا منصفانہ و عادلانہ فیصلہ یہودی کے ضمیر کو جھنجوڑکے رکھ دیتا ہے اور اسے قبول اسلام پر مجبور کر دیتا ہے ۔ پھر مصلح عظیم ﷺنے ایک فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی اور تیس سال کی محنت شاقہ کے بعد اس دنیا سے اس حال میں پردہ فرمایا کہ ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست قائم ہو چکی تھی گویا تکمیل دین کا عمل اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا ۔ اورآیت مبارکہ۔۔۔۔(ترجمہ:آج میں نے تمھارے لیے تمھار ادین مکمل کردیا ،تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ،اور تمھارے لئے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لئے ) پسند کر لیا ) ۔۔نازل ہوئی ۔
یاد رہے اس تمام تر تربیتی پروگرام میں محنت ِ دعوت کارفرما رہی اور آج بھی ختم نبوت کے طفیل یہی کار نبوت خیر امت کا منصب و اولین فریضہ ہے جس کی انفع صورت محض نہج نبوت پر تربیت کا یہی ارتقائی و تدریجی اسلوب ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جب تک امت مسلمہ اس فرضِ منصبی کو اجتماعی طور پر نبھاتی رہی تو مذکورہ بالا تما م امور میں دین کی بہاریں دکھائی دیتی رہیں جیسے ہی اجتماعی طور پر اس فریضے سے غفلت برتی گئی تو تربیت کا مذکورہ نظا م ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تا چلا گیا اور نتیجتاًسب سے پہلے ریاستی نظا م میں بگاڑ آیا پھر قضا اور امور انتظام (Administration) کا دین جاتا رہا اور پھر معاشرت و معاملات کا وہ حال ہوا کہ آج ہم نہ صرف اپنی پہچان کھو بیٹھے ہیں بلکہ اغیار کی مشابہت کو قابل فخر سمجھتے ہیں اورآج امت کی حالت اس قدر پتلی ہو چکی ہے کہ محض عبادات کا دین کسی قدر نظر آتا ہے ۔
سوم ۔۔۔۔ قلبی کیفیت اور ظاہری نوعیت و مراتب کا لحاظ:
ذرا سوچیے ایسا کیوں نہ ہوا کہ تمام احکام شرعیہ بیک وقت نازل ہو جاتے؟ دیکھیے شراب کی حرمت اور پردے کی فرضیت کا عمر رضی اللہ عنہ کی فکر پر نازل ہونا تو ایک تکوینی امر تھا لیکن اعلان نبوت کے طویل عرصہ بعد ان احکامت کے نزول میں درحقیقت اسلام کا یہی تدریجی و ارتقائی اسلوب تربیت ہی حائل تھا گویا ان احکامات کا نزول ایک مناسب وقت کی تلاش میں تھا جیسے کسان بنجر اور سخت زمین میں بیج ہر گز نہیں ڈالتا بلکہ اس کو اس قابل بنا تا ہے کہ اس میں مطلوبہ فصل کاشت کی جا سکے بعینہ زیر تربیت عملہ کے مناسبِ احوال شرعیت مطہرہ کے احکامات متوجہ ہوتے رہے ۔انسانی تربیت کے اس نظام نے عبادات ،اخلاقیات و معاشرت اور معاملات کے دین سے ہوتے ہوئےقضا کے دین کو اپنی وسعتوں میں سمو لیا کہ ایک یہودی اور جلیل القدر صحابی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقدمہ جب عدالت کے روبرو ہو تا ہے تو قاضی کا منصفانہ و عادلانہ فیصلہ یہودی کے ضمیر کو جھنجوڑکے رکھ دیتا ہے اور اسے قبول اسلام پر مجبور کر دیتا ہے ۔ پھر مصلح عظیم ﷺنے ایک فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی اور تیس سال کی محنت شاقہ کے بعد اس دنیا سے اس حال میں پردہ فرمایا کہ ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست قائم ہو چکی تھی گویا تکمیل دین کا عمل اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا ۔ اورآیت مبارکہ۔۔۔۔(ترجمہ:آج میں نے تمھارے لیے تمھار ادین مکمل کردیا ،تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ،اور تمھارے لئے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لئے ) پسند کر لیا ) ۔۔نازل ہوئی ۔
یاد رہے اس تمام تر تربیتی پروگرام میں محنت ِ دعوت کارفرما رہی اور آج بھی ختم نبوت کے طفیل یہی کار نبوت خیر امت کا منصب و اولین فریضہ ہے جس کی انفع صورت محض نہج نبوت پر تربیت کا یہی ارتقائی و تدریجی اسلوب ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جب تک امت مسلمہ اس فرضِ منصبی کو اجتماعی طور پر نبھاتی رہی تو مذکورہ بالا تما م امور میں دین کی بہاریں دکھائی دیتی رہیں جیسے ہی اجتماعی طور پر اس فریضے سے غفلت برتی گئی تو تربیت کا مذکورہ نظا م ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تا چلا گیا اور نتیجتاًسب سے پہلے ریاستی نظا م میں بگاڑ آیا پھر قضا اور امور انتظام (Administration) کا دین جاتا رہا اور پھر معاشرت و معاملات کا وہ حال ہوا کہ آج ہم نہ صرف اپنی پہچان کھو بیٹھے ہیں بلکہ اغیار کی مشابہت کو قابل فخر سمجھتے ہیں اورآج امت کی حالت اس قدر پتلی ہو چکی ہے کہ محض عبادات کا دین کسی قدر نظر آتا ہے ۔
سوم ۔۔۔۔ قلبی کیفیت اور ظاہری نوعیت و مراتب کا لحاظ:
اسلام قلبی کیفیت اور ظاہری نوعیت و مراتب کے اعتبار سے ہر سطح کے افراد کی تربیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک منظم اسلوب اختیار کرتا ہے ۔ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ عام لوگوں کی توبہ ظاہری گناہوں سے ہوتی ہے اور صالحین کی توبہ باطنی گناہوں اور مذموم اخلاق سے ہوتی ہے اور متقین کی توبہ شکوک و شبہات سے ہوتی ہے اور محبین کی توبہ ا ن اوامر سے ہوتی جو ان کویاد الٰہی سے غافل کر دیں اور عارفین کی توبہ اس مقام سے ہوتی جس پر وہ پہنچ چکے ہوں مگر اس سے مافوق دوسرا مرتبہ ہو جس پر ان کو پہنچنا چاہیے اور چوں کہ معرفت کے مراتب و منازل لا متناہی ہیں اس لیے عارفین کی توبہ کا منتہیٰ نہیں۔(تبلیغ دین)دوسرا یہ کہ آپﷺابوبکر ؓ کا سارا مال قبول فرما لیتے ہیں اور ایک دوسرے شخص سے اس لئے انکار فر ما یتے ہیں کہ ازاں بعد جز اع فزاع کے فتنے میں پڑ جائے گا ۔یہ تو محض نمونے کے طور پر عرض کیے ہیں لیکن حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ میں اس قسم کے واقعات کی کمی نہیں جن میں آپ ﷺ نے افراد کے ایمان ،تقویٰ،توکل اور ظاہری نوعیت و مراتب کو مد نظر نہ رکھا ہو ۔
انسان طبعاً جنس ِ مخالف کی طرف میلان و رجحان اور حب مال و جاہ کا شکار رہتاہے ۔یہی دو چیزیں انسان کی تمام تر محنت اور کاوشوں کا مرکز و محور رہی ہیں۔مصلح کبھی بھی اپنے زیر تربیت عملہ کی طبیعت و مزاج ، میلان و رجحان کو نظر انداز نہیں کرتا ۔ یاد رہے جنس ِ مخالف کی طرف میلان و رجحان اور حب مال و جاہ انسان کی روز اول ہی سے کمزوری رہی ہیں لہٰذا ہر دو جانب سے رخ کو ہٹانے کے لئے ابتداً جنت کی حوروں ، نعمتوں کو بیان کیا جاتا ہے(یعنی فضائل و ترغیب اور استحضار عمل کے ضمن میں ) اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرنے کے لئے دنیا کی مذمت کی جاتی ہے اور مغیبات کے تذکرے کیے جاتے ہیں(یعنی احوال ِآخرت : برزخ ،جنت اور جہنم کو بیان کی جاتا ہے ) تاکہ محنت کا رخ پھر جائے مبادا دنیا کی عارضی شہوتوں ،لذتوں اور آرائش و زیبائش میں الجھ کر اپنے مقصد ِاصلی سے ہٹ جائے اور اپنے خالق حقیقی کو ناراض کر کے اپنی آخرت برباد کر لے ۔لیکن اصلاح ِ احوال ، تزکیہ نفس اور منازل ِسلوک طے کر لینے کے بعد اسی انسان میں نہ حوروں کی تمنا باقی رہتی ہے نہ جنت کی خواہش وہ محض اللہ ذوالجلال کی رضا کا متلاشی بن جاتا ہے ۔چوں کہ معاشرہ خاص و عام لوگوں کا مجموعہ ہوا کرتا ہے اور ایسا ممکن بھی نہیں کہ تمام تر افراد ایک ہی قلبی کیفیت ،نوعیت کے حامل ہوں لہٰذا اگر کوئی شخص کسی وجہ سے تربیت کے تمام ادوار سے نہ گذر سکے یا کسی وجہ سے اس کو تربیت کے مواقع میسر نہ آسکیں توترغیب و ترہیب سے کم از کم وہ فضائل (جنت کی حوروں اور دیگر نعمتوں) اور وعیدوں (جہنم کے عذاب) کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی عقلی بساط اور کیفیت قلبی کی بنیاد پر کسی نہ کسی درجے میں دین سے وابستہ رہتا ہے اور خالق حقیقی کی بندگی بجا لاتا رہتا ہے۔
انسان طبعاً جنس ِ مخالف کی طرف میلان و رجحان اور حب مال و جاہ کا شکار رہتاہے ۔یہی دو چیزیں انسان کی تمام تر محنت اور کاوشوں کا مرکز و محور رہی ہیں۔مصلح کبھی بھی اپنے زیر تربیت عملہ کی طبیعت و مزاج ، میلان و رجحان کو نظر انداز نہیں کرتا ۔ یاد رہے جنس ِ مخالف کی طرف میلان و رجحان اور حب مال و جاہ انسان کی روز اول ہی سے کمزوری رہی ہیں لہٰذا ہر دو جانب سے رخ کو ہٹانے کے لئے ابتداً جنت کی حوروں ، نعمتوں کو بیان کیا جاتا ہے(یعنی فضائل و ترغیب اور استحضار عمل کے ضمن میں ) اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرنے کے لئے دنیا کی مذمت کی جاتی ہے اور مغیبات کے تذکرے کیے جاتے ہیں(یعنی احوال ِآخرت : برزخ ،جنت اور جہنم کو بیان کی جاتا ہے ) تاکہ محنت کا رخ پھر جائے مبادا دنیا کی عارضی شہوتوں ،لذتوں اور آرائش و زیبائش میں الجھ کر اپنے مقصد ِاصلی سے ہٹ جائے اور اپنے خالق حقیقی کو ناراض کر کے اپنی آخرت برباد کر لے ۔لیکن اصلاح ِ احوال ، تزکیہ نفس اور منازل ِسلوک طے کر لینے کے بعد اسی انسان میں نہ حوروں کی تمنا باقی رہتی ہے نہ جنت کی خواہش وہ محض اللہ ذوالجلال کی رضا کا متلاشی بن جاتا ہے ۔چوں کہ معاشرہ خاص و عام لوگوں کا مجموعہ ہوا کرتا ہے اور ایسا ممکن بھی نہیں کہ تمام تر افراد ایک ہی قلبی کیفیت ،نوعیت کے حامل ہوں لہٰذا اگر کوئی شخص کسی وجہ سے تربیت کے تمام ادوار سے نہ گذر سکے یا کسی وجہ سے اس کو تربیت کے مواقع میسر نہ آسکیں توترغیب و ترہیب سے کم از کم وہ فضائل (جنت کی حوروں اور دیگر نعمتوں) اور وعیدوں (جہنم کے عذاب) کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی عقلی بساط اور کیفیت قلبی کی بنیاد پر کسی نہ کسی درجے میں دین سے وابستہ رہتا ہے اور خالق حقیقی کی بندگی بجا لاتا رہتا ہے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثٌ مَنْ جَاءَ بِهِنَّ مَعَ إِيمَانٍ دَخَلَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شَاءَ، وَزُوِّجَ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ حَيْثُ شَاءَ: مَنْ عَفَا عَنْ قَاتِلِهِ، وَأَدَّى دَيْنًا خَفِيًّا، وَقَرَأَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ عَشْرَ مَرَّاتٍ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ "، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَوْ إِحْدَاهُنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «أَوْ إِحْدَاهُنَّ»
ترجمہ:
حضرت جابر بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص ایمان کے ساتھ تین عمل لے کر آیا وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے گا داخل ہوگا اورجس حور سے چاہے گا اس کی شادی کرادی جائے گی۔(۱) جو شخص قاتل کو معاف کردے۔ (۲) پوشیدہ دین (بھی) وہ ادا کردے۔ (۳) ہرفرض نماز کے بعد دس مرتبہ ”قل ہو اللہ احد“ پڑھے، حضرت ابوبکر نے کہا یا ان میں سے ایک کرلے یا رسول اللہ آپ نے فرمایا ان میں سے ایک کرے۔ (تب بھی مذکورہ فضیلت کا مستحق ہوگا)
[مسند أبي يعلى:1794، المعجم الأوسط للطبراني:3361، الدعاء - الطبراني:673، المخزون في علم الحديث:41، معرفة الصحابة لأبي نعيم:1537، فضائل سورة الإخلاص للحسن الخلال:53]
تفسير الثعلبي:11/ 366، سورۃ المائدۃ:45
تفسير ابن كثير:8/ 525-سورۃ الاخلاص:1
جنت میں فقراء کی اور جہنم میں عورتوں کی اکثریت ہوگی:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب میں نے جنت کا جائزہ لیا تو وہاں فقراء کی کثرت پائی اور جب جہنم میں دیکھا تو وہاں عورتوں کی کثرت نظر آئی۔
[مسند الإمام أحمد بن حنبل:2086، صحيح البخاري:3241، صحيح مسلم:2737، سنن الترمذي:2602]
سیدنا ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
”پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہو گا، ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح (چمکتے) ہوں گے، پھر دوسرا گروہ داخل ہو گا جن کا رنگ آسمان پر سب سے زیادہ روشن ستارے کی طرح چمکتا ہو گا۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے دو بیویاں ہوں گی، ہر بیوی نے ستر عمدہ پوشاکیں زیب تن کی ہوئی ہوں گی اور ان کے بیچ میں سے اس کی پنڈلی کی ہڈی کا گودا نظر آ رہا ہو گا۔“
[سلسله احاديث صحيحه : حدیث نمبر:3926]
سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں: خواتین و حضرات، فخر و مباہاۃ میں پڑ گئے۔ انہوں نے کہا: جنت میں عورتوں کی تعداد مردوں کی بہ نسبت زیادہ ہو گی۔ سیدنا عمر بن خطابؓ نے لوگوں کی طرف دیکھا اور کہا: تم لوگ ابوہریرہ کی بات نہیں سن رہے؟ سیدنا ابوہریرہؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جنت میں داخل ہونے والی پہلی جماعت کے بارے میں فرمایا: ”ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح (چمکتے) ہوں گے اور دوسرے گروہ (کے چہرے) آسمان کے سب سے زیادہ چمکدار ستارے کی طرح ( تابناک) ہوں گے، ہر ایک جنتی کی دو بیویاں ہوں گی۔ ان کی ہڈی کا گودا، گوشت میں سے نظر آئے گا اور جنت میں کوئی مرد یا عورت غیر شادی شدہ نہیں ہو گی۔“
[مسند الإمام أحمد بن حنبل: حدیث#7152]
القرآن:
یقین جانو، ہم نے ان عورتوں کو نئی اٹھان دی ہے۔(35) چنانچہ انہیں کنواریاں بنایا ہے۔(36) (شوہروں کے لیے) محبت سے بھری ہوئی، عمر میں برابر۔
تشریح:
(35)قرآن کریم نے ان خواتین کا ذکر بڑے لطیف انداز میں فرمایا ہے کہ بس ضمیر سے ان کی طرف اشارہ فرمادیا ہے، صراحت کے ساتھ نام نہیں لیا، اس میں بڑی بلاغت بھی ہے اور ان خواتین کی پردہ داری بھی، بعض مفسرین نے اس سے مراد حوریں لی ہیں جو جنتیوں کے لئے خاص طور پر پیدا کی گئی ہیں یا پیدا کی جائیں گی، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ان سے مراد نیک لوگوں کی وہ نیک بیویاں ہیں جو دنیا میں ان کی شریک حیات تھیں، آخرت میں ان کو نئی اٹھان دینے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں وہ کیسی ہی رہی ہوں جنت میں انہیں اپنے شوہروں کے لئے بہت خوبصورت بنادیا جائے گا، جیسا کہ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے اس کی تصریح فرمائی ہے، اسی طرح جو خواتین دنیا میں بن بیاہی رہ گئی تھیں انہیں بھی نئی اٹھان دے کر کسی نہ کسی جنتی سے ان کا نکاح کردیا جائے گا، حدیث کی متعدد روایتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت دونوں قسم کی عورتوں کو شامل ہے، حوروں کو بھی اور دنیا کی نیک خواتین کو بھی (تفصیل کے لیے دیکھئے روح المعانی)
(36)بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا کنوار پن کبھی ختم نہیں ہوگا۔
جنت میں داخل ہونے والے آخری فرد اور ادنیٰ مرتبت جنتی کی کیفیت:
سیدنا انسؓ، سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والے آدمی کی کیفیت یہ ہو گی کہ وہ ( جہنم سے نکلنے کے لیے) چلتے چلتے منہ کے بل گرے گا، آگ اس کے چہرے کو جھلستی رہے گی۔ جب وہ جہنم سے گزر جائے گا تو اسے مخاطب ہو کر کہے گا: وہ ذات بابرکت ہے جس نے مجھے تجھ سے نجات دلائی اور مجھے (تجھ سے آزاد کر کے) جو کچھ عطا کیا وہ پہلوں اور پچھلوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اتنے میں اسے ایک درخت نظر آئے گا، وہ کہے گا: میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب پہنچا دے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور وہاں کا پانی پی سکوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! (پہلے یہ معاہدہ کر کہ) اگر میں تیرا یہ مطالبہ پورا کر دوں، تو تو کسی اور چیز کا سوال نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: نہیں، اے میرے ربّ! وہ اللہ تعالیٰ سے عہد و پیمان کرے گا کہ مزید کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا، لیکن (آگے چل کر) اس کا ربّ اس کو معذور سمجھے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ (بندہ) صبر نہیں کر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کر دے گا، وہ اس کے سائے میں آرام کرے گا اور پانی پیئے گا۔ اتنے میں اسے اس درخت کی بہ نسبت ایک اور خوبصورت درخت نظر آئے گا۔ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے فلاں درخت کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کا پانی پی سکوں اور اس کے سائے میں آرام کر سکوں اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ مزید کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ٰ فرمائے گا: ابن آدم! کیا تو نے مجھ سے مزید مطالبہ نہ کرنے کا معاہدہ نہیں کیا تھا؟ اب اگر میں تجھے اس درخت تک پہنچا دوں، تو تو مزید کوئی مطالبہ تو نہیں کرے گا؟ وہ آئندہ کوئی سوال نہ کرنے کا عہد و پیمان کرے گا۔ لیکن اس کا ربّ اسے آئندہ بھی معذور سمجھے گا کیونکہ اسے علم ہے کہ وہ صبر نہیں کر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے (دوسرے) درخت کے پاس پہنچا دے گا، وہ اس کے سائے میں بیٹھے گا اور وہاں کا پانی پئیے گا۔ اتنے میں اسے پہلے دونوں درختوں سے حسین تیسرا درخت دکھائی دے گا، جو جنت کے دروازے کے قریب ہوگا۔ وہ (عدم صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے) دعا کرے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور وہاں کا پانی پی سکوں اور مزید میں تجھ سے کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ابن آدم! کیا تو نے مجھ سے پہلے یہ معاہدہ نہیں کیا تھا کہ مزید کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں، اے میرے ربّ! بس یہی مطالبہ ہے، اس کے بعد کسی چیز کی سوال نہیں کروں گا، لیکن اس کا ربّ اسے معذور سمجھے گا، کیونکہ وہ (آئندہ) ایسی چیزیں دیکھے گا جن پر صبر نہیں کر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے (اس تیسرے درخت کے) قریب کر دے گا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچے گا تو جنت والوں کی آوازیں سنے گا اور کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے جنت میں داخل ہی کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کون سی چیز مجھے تیری دعا قبول کرنے سے روک سکتی ہے؟ ( میں تو قادر مطلق ہوں۔ اے میرے بندے!) اگر میں تجھے دنیا اور اس کی مثل ایک اور دنیا کے برابر دے دوں تو تو راضی ہو جائے گا؟ وہ بندہ کہے گا: اے میرے رب! تو جہانوں کا پالنہار ہونے کے باوجود مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ (یہ تجھے زیب نہیں دیتا) ” سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہنس پڑے اور کہا: کیا تم لوگ مجھ سے میرے ہنسنے کے بارے میں دریافت نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا: اچھا، ہنسنے کی کیا وجہ ہے؟ بتاؤ۔ انہوں نے کہا: (در اصل) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر اسی طرح ہنسے تھے، صحابہ (رضوان اللہ عنہم اجمعین) نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنسے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اس بندے نے کہا: (اے اللہ!) تو جہانوں کا پالنہار ہونے کے باوجود مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ ہنس پڑے، اس لیے میں بھی ہنس پڑا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں تجھ سے مذاق نہیں کر رہا، میں تو جو چاہتا ہوں، وہ کرنے پر قادر ہوں۔“
[أخرجه أحمد (3714) ، ومسلم (187) ، والطبرانى (9775) ، والبيهقى فى البعث (ص 101، رقم 96)، ابن أبى عاصم فى الآحاد والمثانى (1/191، رقم 248).]
جنت میں داخل ہونے والے آخری فرد اور ادنیٰ مرتبت جنتی کی کیفیت:
سیدنا ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اہل جنت میں سب سے ادنیٰ مقام والے آدمی کی تفصیل یہ ہے:۔ اللہ تعالیٰ اس کا رخ جہنم سے پھیر کر جنت کی طرف کریں گے، اسے ایک سایہ دار درخت کی شبیہ نظر آئے گی۔ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت تک پہنچا دے، تاکہ میں اس کے سائے میں آرام کر سکوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اگر میں ایسے کر دوں تو تو مزید کسی چیز کا سوال تو نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: تیری عزت کی قسم! نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اس درخت تک پہنچا دے گا۔ اتنے میں اسے سایہ دار اور پھل دار درخت نظر آئے گا، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت تک آگے لے جا، تاکہ اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور اس کا پھل کھا سکوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اگر میں تیرا یہ مطالبہ بھی پورا کر دوں تو تو مزید سوال تو نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: تیری عزت کے قسم نہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے وہاں تک پہنچا دے گا۔ اسے وہاں سے سائے، پھل اور پانی والے درخت کی شبیہ دکھائی دے گی، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت تک آگے لے جا، تاکہ اس کے سائے میں آرام کر سکوں، اس کا پھل کھا سکوں اور وہاں کا پانی پی سکوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اگر میں ایسا کر دوں تو تو مزید تو کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: تیری عزت کی قسم! نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اس درخت تک پہنچا دیں گے۔ وہاں سے اسے جنت کا دروازہ دکھائی دے گا، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے باب جنت تک لے جا، تاکہ جنت کے شیڈ کے نیچے بیٹھ سکوں اور جنتیوں کو دیکھ سکوں۔ اللہ تعالیٰ اسے جنت کے دروازے کے پاس پہنچا دے گا۔ وہ جنت کے لوگوں اور نعمتوں کو دیکھے گا اور کہے گا: اے میرے رب! مجھے جنت میں داخل ہی کر دے۔ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کر دے گا۔ جب وہ جنت میں داخل ہو گا تو پوچھے گا: یہ جگہ میری ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو تمنا کر۔ وہ تمنا کرے گا اور اللہ تعالیٰ اسے یاد کرائیں گے کہ اس قسم کی نعمتوں کی آرزوئیں کرتا جا، یہاں تک کہ اس کی تمناؤں کی انتہا ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تجھے تیری تمنا اور اس کا دس گنا مزید ملے گا۔ پھر وہ جنت میں (اپنے محل میں) داخل ہو گا، دو آہ وچشم حوریں اس کے پاس آ کر کہیں گی: ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے تجھے ہمارے لیے اور ہمیں تیرے لیے زندہ کیا۔ وہ کہے گا: جو کچھ مجھے ملا، یہ کسی جنتی کو نہیں دیا گیا۔ اور اہل جہنم میں سب سے کم عذاب والا وہ شخص ہو گا جسے آگ کے دو جوتے پہنائے جائیں گے اور ان کی حرارت کی وجہ سے اس کا دماغ ابلنا شروع ہو جائے گا۔“
[مسند الإمام أحمد بن حنبل : 11216]
آخری جنتی کیلئے دنیا سے دس گنا بڑی جنت
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جانتا ہوں اس شخص کو جو سب کے بعد جنت میں جائے گا، یہ وہ شخص ہے جو جہنم سے گھٹنوں کے بل گھسٹتا ہوا نکلے گا، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: جا اور داخل ہو بہشت میں، کہا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) پس آئے گا وہ بہشت یا قریب اس کے پس ڈالا جائے گا اس کے خیال میں کہ تحقیق بہشت بھری ہوئی ہے، پس لوٹ آئے گا اور کہے گا: اے میرے رب! پایا میں نے اس کو بھرا ہوا، پس فرمائے گا اللہ تعالیٰ اس کو: جا پس داخل ہو جنت میں، کہا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) پھر داخل ہو گا جنت میں پھر ڈالا جائے گا اس کے خیال میں کہ تحقیق وہ بھری ہوئی ہے پھر لوٹ آئے گا اور کہے گا: اے میرے رب! پایا میں نے اس کو بھرا ہوا، پھر فرمائے گا اللہ تعالیٰ: جا جنت میں تیرے لئے دنیا اور دس گنا دنیا کی برابر جگہ ہے یا دس دنیا کے برابر، وہ کہے گا تو مجھ سے ٹھٹھا کرتا ہے یا ہنسی کرتا ہے بادشاہ ہو کر۔“ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت مبارک کھل گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ سب سے کم درجے کا جنتی ہو گا۔“
[صحيح مسلم: كِتَاب الْإِيمَانِ، باب آخِرِ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا۔۔۔ حدیث نمبر: 461(186)]
ذرہ برابر ایمان والا بالآخر جہنم سے نکل آئے گا۔
سیدنا ابوسعید خدریؓ روایت ہے، نبی کریم ﷺ فرمایا:
”جس کے دل میں ذرا برابر ایمان ہوا اسے بھی (بالآخر) جہنم سے نکال لیا جائے گا۔“
[ترمذی:2598]
جنت میں جنتی کی زندگی کی کیفیت:
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جو جنت میں داخل ہو گا، وہ (ہمیشہ) خوشحال رہے گا، کبھی بدحال نہیں ہو گا، اس کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہوں گے اور اس کی جوانی ماند نہیں پڑے گی۔ جنت میں ہے وہ بھی جو نہیں دیکھا کسی آنکھ نے، اور نہ ہی سنا کسی کان نے، اور نہ ہی خیال آیا انسانی دل پر۔“
[مسند الإمام أحمد بن حنبل:9391]
عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يبعث أهل الجنة على صورة آدم في ميلاد ثلاثة وثلاثين سنة، جردا مردا مكحلين، ثم يذهب بهم إلى شجرة في الجنة، فيكتبون فيها، لا تبلى ثيابهم، ولا يفنى شبابهم»۔
ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت والوں کو آدم علیہ السلام کی صورت میں تریسٹھ سال کی پیدائش میں نوعمر، صاف بدن اور سرمگین آنکھوں والا اٹھایا جائے گا، پھر انہیں جنتی درخت کے پاس لے جایا جائے گا جس سے انہیں کپڑے پہنائے جائیں گے کہ ان کے کپڑے پرانے نہ ہوں گے اور نہ ان کی جوانی ختم ہوگی۔
[صحيح الكتب التسعة وزوائده-مجموعة من المؤلفين(م1440ھ): حدیث نمبر7809]
[الأحاديث المختارة-امام ضياء الدين المقدسي(م643ھ) : حدیث نمبر 2717]
[صفة الجنة - الضياء المقدسي - المختصرة: 110]
[الطيوريات(م567ھ) : 1329]
[البعث والنشور للبيهقي(م458ھ) ت حيدر:418، ت الشوامي:996]
[حديث أبي الفضل الزهري(م381ھ) : 46]
[البعث لابن أبي داود(م316ھ) : 65]
جنت اور دنیا کا موازنہ
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
”جنت میں ایک کوڑے کی جگہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سے بہتر ہے۔“
پھر آپ نے یہ آیت تلاووت فرمائی:
پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے، بیشک وہ کامیاب ہو گیا اور دنیوی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے۔ (سورۃ-آل عمران:185)“
[مسند الإمام أحمد بن حنبل:9651]
جنتی لوگوں کا ہمیشہ بیدار رہنا:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«النَّوْمُ أَخُو الْمَوْتِ، وَلَا يَمُوتُ أَهْلُ الْجَنَّةِ»
ترجمہ:
”نیند، موت کی ہی ایک قسم ہے اور ( یہی وجہ ہے کہ) جنت والے نہیں سوئیں گے۔
[المعجم الأوسط للطبراني : 919 + 8816]
جنت کی وسعت
سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جنتی لوگ جنت میں داخل ہو جائیں گے اور جب تک اللہ چاہے گا وہ وہاں ٹہریں گے۔ ( ابھی تک جنت کے بعض مقامات خالی ہوں گے، اس لیے) اللہ تعالیٰ نئی مخلوق پیدا کر کے ان کو بھر دے گا۔“
[احمد:12541]
جنت کی نصف آبادی فرزندان امتِ محمدیہ پر مشتمل ہو گی:
سیدنا عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک خیمے میں تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پہ راضی ہو کہ تمہیں جنت کا چوتھائی حصہ مل جائے؟“ ہم نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم جنت کے تیسرے حصے پر راضی ہو جاؤ گے؟“ ہم نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر راضی ہو جاؤ گے کہ تمہیں جنت کا نصف حصہ مل جائے؟“ ہم نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے! مجھے امید ہے کہ تمہیں جنت کا نصف حصہ ملے گا، (اتنا وسیع حصہ ملنے کی) وجہ یہ ہے کہ جنت میں صرف مسلمان داخل ہوں گے اور تم میں شرک کرنے والے لوگوں کا تناسب اتنا ہی ہے جتنا کہ کالے رنگ کے بیل کی جلد میں سفید بال یا سرخ رنگ کے بیل کی جلد میں کالے بال کا ہوتا ہے۔“
[بخاری:6528 مسلم:221 ابن ماجہ:4283 ترمذی:2547 ]
اہل جنت کی خوش عیشی کی ایک جھلک:
سیدنا جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا:
”بیشک جنتی لوگ (قسما قسم کے ماکولات) کھائیں گے اور (نوع بنوع مشروبات) پئیں گے، لیکن وہ نہ تھوکیں گے، نہ پیشاب کریں گے، نہ پائخانہ کریں گے۔ نہ ناک سنکیں گے۔“
صحابہ نے عرض کیا: کھانے کا کیا بنے گا (یعنی وہ کیسے ہضم ہو گا)؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
”بس ایک ڈکار ہو گا (یعنی ڈکار سے کھانا ہضم ہو جائے گا)، ان کے پسینے کی (خوشبو) کستوری کی مانند ہو گی اور ان کے اندر (اللہ تعالیٰ کی) تسبیح و تکبیر ( کا ورد) سانس کی طرح ڈال دیا جائے گا۔“
[صحيح مسلم:2835]
جنت کا گھوڑا:
سیدنا ابوایوبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بدو نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں گھوڑے پسند کرتا ہوں، کیا جنت میں گھوڑے ہوں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تجھے جنت میں داخل کر دیا جائے گا تو تیرے پاس یاقوت کا گھوڑا لایا جائے گا، اس کے دو پر ہوں گے، تجھے اس پر سوار کیا جائے گا اور جہاں تو چاہے گا وہ پرواز کر کے تجھے وہیں لے جائے گا۔“
[ترمذی:2544]
مومن کی تسکین کے لیے اس کی اولاد کا اکرام :
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بیشک اللہ تعالیٰ مومن کو خوش کرنے کے لیے اس کی اولاد کو جنت میں اس کے درجے تک پہنچا دے گا، اگرچہ ان کے عمل (اس درجہ سے) کم ہوں گے۔“
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:
«وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانٍ»
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی
(سورۃ الطور:۲۱)
اور پھر فرمایا:
”ہم نے بیٹوں کو انعامات سے نواز کر ان کے آباء کی نعمتوں میں کوئی کمی نہیں کی۔“
[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء (امام ابونعیم الاصفہانی) : ج4 ص302]
صفة الجنة (امام ضياء الدين المقدسي) : حدیث#178
صدقے اور قرضے کا اجر و ثواب:
سیدنا ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ایک آدمی جنت میں داخل ہوا اور دیکھا کہ اس کے ایک دروازے پر (یہ عبارت) لکھی ہوئی تھی: صدقے کا ثواب دس گنا اور قرضے کا ثواب اٹھارہ گناہ ہے۔“
[سنن ابن ماجہ:2431]
کون سے سعادت مند اپنی آنکھوں کی وجہ سے آتش دوزخ سے محفوظ رہیں گے؟
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
”تین افراد کی آنکھیں روز قیامت آگ کو نہیں دیکھیں گی: وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے رو پڑی، وہ آنکھ جس نے اللہ کے راستے میں پہرہ دیا اور وہ آنکھ جس نے اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور سے چشم پوشی کی۔“
[معجم أبي يعلى الموصلي:215 ، المعجم الكبير للطبراني:1003]
تلواریں جنت کی چابیاں ہیں:
ابوبکر بن ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دشمنوں کے سامنے اپنے باپ کو یہ کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”بیشک تلواریں جنت کی چابیاں ہیں۔“
ایک خستہ حال آدمی نے کہا: کیا تو نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث سنی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں؟۔ اس نے اپنی تلوار سونت لی، میان توڑ دی اور اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا: تم پر سلامتی ہو۔ پھر دشمن کی طرف لپکا اور جہاد کرتے کرتے شہید ہو گیا۔
[مصنف ابن أبي شيبة : كِتَابُ الْجِهَادِ ، مَا ذُكِرَ فِي فَضْلِ الْجِهَادِ وَالْحَثِّ عَلَيْهِ ۔۔۔ حدیث/19327]
جنت کے لمبے لمبے سائے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لَا يَقْطَعَهَا»
ترجمہ:
”جنت میں ایک درخت ایسا ہے کہ اگر تضمیر شدہ، تیز رفتار گھوڑے کا سوار بھی اس پر سو سال چلتا رہے، تب بھی اسے طے نہیں کر سکے گا۔“
[الجامع - معمر بن راشد : حدیث#20876]
جنت کے بازار:
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَسُوقًا، يَأْتُونَهَا كُلَّ جُمُعَةٍ، فَتَهُبُّ رِيحُ الشَّمَالِ فَتَحْثُو فِي وُجُوهِهِمْ وَثِيَابِهِمْ، فَيَزْدَادُونَ حُسْنًا وَجَمَالًا، فَيَرْجِعُونَ إِلَى أَهْلِيهِمْ وَقَدِ ازْدَادُوا حُسْنًا وَجَمَالًا، فَيَقُولُ لَهُمْ أَهْلُوهُمْ: وَاللهِ لَقَدِ ازْدَدْتُمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَجَمَالًا، فَيَقُولُونَ: وَأَنْتُمْ، وَاللهِ لَقَدِ ازْدَدْتُمْ بَعْدَنَا حُسْنًا وَجَمَالًا»
ترجمہ:
”جنت میں ایک بازار ہوگا، لوگ ہر جمعہ کو وہاں آیا کریں گے، اس میں ڈھیروں کستوری ہوگی، پس شمال سے ہوا چلے گی جو ان کے چہروں اور کپڑوں میں کستوری کی خوشبو بکھیر دے گی، جس سے ان کے حسن و جمال میں مزید اضافہ ہو جائے گا، پس جب وہ اپنے گھر والوں کی طرف واپس آئیں گے، جب کہ ان کے حسن و جمال میں اضافہ ہو چکا ہوگا تو ان سے ان کے گھر والے کہیں گے: اللہ کی قسم! تم تو پہلے سے زادہ حسین و جمیل لگ رہے ہو۔ اور وہ کہیں گے! اللہ کی قسم! ہمارے بعد تمہارے حسن و جمال میں بھی اضافہ ہوا ہے۔“
[صحیح مسلم : حدیث#2833, صحیح ابن حبان:7425]
جنت میں مومن کا خیمہ:
حضرت ابوبکر بن ابوموسیٰ بن قیس اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِي الْجَنَّةِ لَخَيْمَةً مِنْ لُؤْلُؤَةٍ وَاحِدَةٍ مُجَوَّفَةٍ، طُولُهَا سِتُّونَ مِيلًا، لِلْمُؤْمِنِ فِيهَا أَهْلُونَ، يَطُوفُ عَلَيْهِمِ الْمُؤْمِنُ فَلَا يَرَى بَعْضُهُمْ بَعْضًا»
ترجمہ:
”مومن کے لیے جنت میں ایک جوف دار موتی کا خیمہ ہو گا، جس کی لمبائی بلندی میں ساٹھ(60) میل ہوگی، اس میں مومن کے کئی گھر والے ہوں گے، وہ ان (سب) کے پاس جائے گا (وہ گھر ایک دوسرے سے اتنی مسافت پر ہوں گے کہ) ایک میں بسنے والے دوسرے کے مکینوں کو نہیں دیکھ سکیں گے۔“
[صحیح مسلم : حدیث#2838]
جنت کے دروازے کی وسعت:
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَا بَيْنَ مِصْرَاعَيْنِ فِي الْجَنَّةِ كَمَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ سَنَةً.
ترجمہ:
”جنت کے دروازوں کے دو پٹوں کے درمیان کا فاصلہ چالیس برس کی مسافت کا ہے۔“
[مسند أحمد بن حنبل : حدیث#11239]
یہ حدیث سیدنا ابوسعید خدری، سیدنا معاویہ بن حیدہ، سیدنا عتبہ بن غزوان اور سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔
جنت کے آٹھ دروازے
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فِي الْجَنَّةِ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابٍ فِيهَا بَابٌ يُسَمَّى الرَّيَّانَ لَا يَدْخُلُهُ إِلَّا الصَّائِمُونَ.»
ترجمہ:
حضرت سہل بن سعدؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا: جنت کے آٹھ دروازے ہیں، ان میں سے ایک دروازہ باب الرّیان ہے جس سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے۔
[صحيح البخاري:3257]
بعض علماء نے احادیث کو سامنے رکھ کر آٹھ دروازوں کے یہ نام ذکر کیے ہیں:
۱- باب الصلاة ۲- باب الجہاد ۳- باب الریان ۴- باب الصدقہ ۵- باب الحج ۶- باب الکاظمین والعافین عن الناس ۷- باب المتوکلین ۸- باب الذکر یا باب العلم
[مستفاد: فتح الباری: ۷/۲۱، باب فضل أبی بکر بعد النبی صلی اللہ علیہ وسلم]
جنت کی عمارت کے اجزا:
سیدنا ابوسعیدؓ سے موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح سے روایت ہے کہ
خَلَقَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْجَنَّةَ لَبِنَةً مِنْ ذَهَبٍ وَلَبِنَةً مِنْ فِضَّةٍ، وَغَرَسَهَا، وَقَالَ لَهَا: تَكَلَّمِي، فَقَالَتْ: {قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ} [سورۃ المؤمنون:1] ، فَدَخَلَتْهَا الْمَلائِكَةُ، فَقَالَتْ: طُوبَاكِ مَنْزِلَ الْمُلُوكِ
ترجمہ:
”اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت کو پیدا کیا، (تعمیر کا انداز یہ تھا کہ) ایک اینٹ سونے کی، ایک اینٹ چاندی کی اور گارا کستوری کا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کہا: کلام کر۔ اس نے کہا: ”تحقیق مومن کامیاب ہو گئے“ (سورۃ-المؤمنون:۱)، فرشتوں نے کہا: (اے جنت!) تیرے لیے خوشخبری ہو، تو تو بادشاہوں کا ٹھکانہ ہے۔“
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:2662، صَحِيحُ التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب:3714]
جنت میں سونے کے محل :
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
دَخَلْتُ الْجَنَّةَ، فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ مِنْ ذَهَبٍ فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِشَابٍّ مِنْ قُرَيْشٍ، قُلْتُ: لِمَنْ؟ قَالُوا: لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ "، قَالَ: " فَلَوْلَا مَا عَلِمْتُ مِنْ غَيْرَتِكَ لَدَخَلْتُهُ "، فَقَالَ عُمَرُ: عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ أَغَارُ
ترجمہ:
”میں جنت میں داخل ہوا، اچانک سونے کا ایک محل دیکھا۔ میں نے پوچھا: یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: ایک قریشی جوان کا ہے۔ مجھے خیال تھا کہ یہ میرا ہی ہو گا (کیونکہ میں قریشی ہوں)۔ بہرحال میں نے پوچھا: وہ قریشی کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ عمر بن خطابؓ کا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر! اگر تیری غیرت و حمیت کا علم نہ ہوتا تو میں اس میں ضرور داخل ہو جاتا۔“ سیدنا عمرؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں آپ پر غیرت کھا سکتا ہوں؟
[مسند الإمام أحمد بن حنبل: حدیث#12046, مسند البزار:4415, مسند أبي يعلى الموصلي:4182, صحيح ابن حبان:54]
طوبیٰ کیا ہے؟
سیدنا ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
طُوبَى ... شَجَرَةٌ فِي الْجَنَّةِ مَسِيرَةُ مِائَةِ عَامٍ، ثِيَابُ أَهْلِ الْجَنَّةِ تَخْرُجُ مِنْ أَكْمَامِهَا
ترجمہ:
”طُوبیٰ، جنت میں ایک درخت کا نام ہے، اس (کے سائے) کی مسافت سو سال ہے اور جنتیوں کے کپڑے اس کی کلیوں کے غلاف سے تیار کئے گئے ہیں۔“
[مسند الإمام أحمد بن حنبل: حدیث#11673, صحيح ابن حبان:7413, الشريعة للآجري:624, البعث لابن أبي داود:68, صفة الجنة لابن أبي الدنيا:143, صَحِيح الْجَامِع: 3923 , صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب: 3736 , الصَّحِيحَة: 1985 , 3432]
تفسیر سورۃ الرعد : آیۃ 29
دنیوی و جنتی چیزوں میں مشابہت کس چیز میں ہے؟
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
لَيْسَ فِي الْجَنَّةِ شَيْءٌ يُشْبِهُ مَا فِي الدُّنْيَا، إِلَّا الْأَسْمَاءُ.
جنت میں جتنی چیزیں ہیں، صرف ناموں میں ان کی دنیوی چیزوں سے مشابہت ہے ( نہ کہ حقیقت میں)۔
[صفة الجنة (أبي نعيم الأصبهاني) : حدیث#124, البعث والنشور للبيهقي:332 , الزهد لهناد بن السري:3، صَحِيح الْجَامِع: 5410، صَحِيحُ التَّرْغِيب:3769 ، سلسلة الأحاديث الصحيحة: 2188]
تفسیر ابن ابی حاتم:260 {وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا} {حالانکہ وہ دئیے گئے اس سے ملتا جلتا} [سورۃ البقرة: 25]
جنت کے درختوں کے کانٹوں کی جگہ رنگا رنگ کے کھانے ہوں گے:
عَنْ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ أَعْرَابِيُّ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَسْمَعُكَ تَذْكُرُ شَجَرَةً فِي الْجَنَّةِ لَا أَعْلَمُ فِي الدُّنْيَا شَجَرَةً أَكْثَرَ شَوْكًا مِنْهَا يَعْنِي الطَّلْحَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَإِنَّ اللَّهَ يَجْعَلُ مَكَانَ كُلِّ شَوْكَةٍ مِثْلَ خِصْيَةِ التَّيْسِ الْمَلْبُودِ يَعْنِي الْمَخْصِيَّ فِيهَا سَبْعُونَ لَوْنًا مِنَ الطَّعَامِ لَا يُشْبِهُ لَوْنُهُ لَوْنَ الْآخَرَ»
سیدنا عتبہ بن عبد سلمیؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، ایک بدو آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کو جنت کے ببول یا کیکر نامی درخت کا تذکرہ کرتے سنا ہے، میرا خیال ہے کہ وہ تو ہمارے ہاں سب سے زیادہ کانٹوں والا درخت ہے (ان کے چبھنے سے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے تو جنت میں ایسے درخت کا کیا تُک ہے)؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”اللہ تعالیٰ اس کے ہر کانٹے کے بدلے خصی بکرے کے خصیہ کی طرح کی ایک چیز پیدا کرے گا، اس میں ستر رنگ کے کھانے ہوں گے اور ہر ایک کا رنگ دوسرے کے رنگ سے مشابہ نہیں ہو گا۔“
[مسند الشاميين، للطبراني: حدیث#492 ، سلسلة الأحاديث الصحيحة: حدیث#2734 , صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب: حدیث#3742]
تفسیر الدر المنثور: سورۃ الواقعہ: آیۃ28
نبوی منبر کے پائے جنت میں نصب تھے، وادئ بطحان جنت کے باغیچے پر ہے۔
(1) سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مِنْبَرِي هَذَا عَلَى تُرْعَةٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ»
”میرا یہی منبر جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر ہے۔“
[السنن الكبرى للنسائی:4274]
(2) سیدہ ام سلمہؓ اور سیدنا ابوواقد رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ قَوَائِمَ مِنْبَرِي رَوَاتِبُ فِي الْجَنَّةِ»
”میرے منبر کے پائے جنت میں نصب ہیں۔“
[مصنف عبد الرزاق:5242 ، المستدرك على الصحيحين للحاكم:6268]
(3) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«بُطْحَانٌ عَلَى تُرْعَةٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ»
”وادی بطحان جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچے پر ہے۔“
[التاريخ الكبير للبخاری:1652، مسند الديلمى:2174، سلسلة الأحاديث الصحيحة:769]
جنت کی مٹی:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْيَهُودِ: «إِنِّي سَائِلُهُمْ عَنْ تُرْبَةِ الْجَنَّةِ، وَهِيَ دَرْمَكَةٌ بَيْضَاءُ» ، فَسَأَلَهُمْ، فَقَالَوا: هِيَ خُبْزَةٌ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْخُبْزُ مِنَ الدَّرْمَكِ»
ترجمہ:
سیدنا جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کے بارے میں فرمایا:
”میں ان سے جنت کی مٹی جو کہ میدے کی طرح سفید ہے، کے بارے میں سوال کرتا ہوں۔“ پھر آپ ﷺ نے ان سے سوال کیا۔ انہوں نے کہا: اے ابوالقاسم! وہ روٹی کی مانند ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”روٹی بھی میدے کی ہی ہوتی ہے۔“
[مسند الإمام أحمد بن حنبل: حدیث#14883, ترمذی:3327، صفة الجنة لأبي نعيم الأصبهاني:159، سلسلة الأحاديث الصحيحة:1438]
تفسیر الدر المنثور: سورۃ البقرۃ: آیۃ25
جنت کی کنگھی اور انگیٹھیوں میں جلنے والی لکڑی:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَلِجُ الْجَنَّةَ صُورَتُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَا يَبْصُقُونَ فِيهَا وَلَا يَمْتَخِطُونَ، وَلَا يَتَغَوَّطُونَ، آنِيَتُهُمْ فِيهَا الذَّهَبُ، وَأَمْشَاطُهُمْ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَمَجَامِرُهُمْ مِنَ الْأُلُوَّةِ، وَرَشْحُهُمُ الْمِسْكُ، وَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ يُرَى مُخُّ سُوقِهِمَا مِنْ وَرَاءِ اللَّحْمِ مِنَ الْحُسْنِ، لَا اخْتِلَافَ بَيْنَهُمْ وَلَا تَبَاغُضَ، قُلُوبُهُمْ قَلْبُ رَجُلٍ وَاحِدٍ يُسَبِّحُونَ اللَّهَ بُكْرَةً وَعَشِيًّا ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَالْأُلُوَّةُ هُوَ الْعُودُ.
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہوگا ان کی شکل چودہویں رات کے چاند کی طرح ہوگی، نہ وہ اس میں تھوکیں گے نہ ناک صاف کریں گے اور نہ پاخانہ کریں گے، جنت میں ان کے برتن سونے کے ہوں گے، ان کی کنگھیاں "سونے" اور "چاندی" کی ہوں گی، ان کی انگیٹھیاں "عود" کی ہوں گی اور ان کا پسینہ مشک کا ہوگا۔ ان میں سے ہر آدمی کے لیے (کم از کم) دو دو بیویاں ہوں گی، خوبصورتی کے سبب ان کی پنڈلی کا گودا گوشت کے اندر سے نظر آئے گا۔ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہ ہوگا، اور نہ ان کے درمیان کوئی عداوت و دشمنی ہوگی۔ ان کے دل ایک آدمی کے دل کے مانند ہوں گے، وہ صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کریں گے ۔
[مسند احمد:8198، صحیح البخاری:3073، صحیح مسلم:2834، سنن الترمذی:2537]
تفسیر(امام)الثعلبی»سورۃ الواقعۃ:آیۃ37
تفسیر (امام)البغوی»سورۃ البقرۃ:آیۃ25
تفسیر(امام)ابن کثیر» سورۃ مریم:آیۃ61-63
تفسیر الخازن»سورۃ الرحمٰن:56-58
اہل جنت کا پہلا کھانا:
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«أَوَّلُ شَيْءٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ زِيَادَةُ كَبِدِ الْحُوتِ»
ترجمہ:
”پہلی چیز جو جنتی لوگ کھائیں گے وہ مچھلی کے جگر کا بڑھا ہوا حصہ ہو گا۔“
[مسند أبي داود الطيالسي:2164، مسند الإمام أحمد بن حنبل:13868، مسند أبي يعلى الموصلي:3414، مسند البزار:6970، صحيح ابن حبان:7423، الأحاديث الطوال للطبراني:7]
ابوحسان کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہؓ کو بتایا کہ میرے دو بیٹے فوت ہو گئے ہیں، کیا آپ رسول اللہ ﷺ کی کوئی ایسی حدیث بیان کر سکتے ہیں، جس سے ہمیں اپنے فوت شدگان کے بارے میں صبر و تسلی ہو جائے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«صِغَارُهُمْ دَعَامِيصُ الْجَنَّةِ يَتَلَقَّى أَحَدُهُمْ أَبَاهُ - أَوْ قَالَ أَبَوَيْهِ -، فَيَأْخُذُ بِثَوْبِهِ - أَوْ قَالَ بِيَدِهِ -، كَمَا آخُذُ أَنَا بِصَنِفَةِ ثَوْبِكَ هَذَا، فَلَا يَتَنَاهَى - أَوْ قَالَ فَلَا يَنْتَهِي - حَتَّى يُدْخِلَهُ اللهُ وَأَبَاهُ الْجَنَّةَ»
ترجمہ:
” (مومنوں کے) چھوٹے بچے جنت کے کیڑے ہوں گے (یعنی بے روک ٹوک جنت میں آتے جاتے رہیں گے)۔ ایسا بچہ اپنے باپ یا اپنے والدین سے ملاقات کرے گا، اس کا ہاتھ پکڑ لے گا، جس طرح میں نے تیرے کپڑے کا کنارہ پکڑ لیا ہے، اور اسے نہیں چھوڑے گا، حتیٰ کہ اﷲ تعالیٰ اسے اور اس کے باپ دونوں کو جنت میں داخل کر دے گا۔“
[صحيح مسلم: 2635، مسند أحمد: 10331 +10620، مسند البزار: 9548، السنن الكبرى للبيهقي: 7142، شرح السنة للبغوي:1544]
تفسير الإمام ابن رجب الحنبلي: سورة آل عمران: آية169
سلسلة الأحاديث الصحيحة: 431، صَحِيحُ التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب: 1998
دنیا میں جنتی چیزیں:
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَيْسَ فِي الْأَرْضِ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا ثَلَاثةُ أَشْيَاءَ: غَرْسُ الْعَجْوَةِ، وَأَوَاقٌ وَأَوْرَاقٌ تَنْزِلُ فِي الْفُرَاتِ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ بَرَكَةِ الْجَنَّةِ، وَالْحَجَرُ
ترجمہ:
”جنت کی صرف تین چیزیں اس زمین میں پائی جاتی ہیں: عجوہ کھجور کا درخت، اور اوقیے جو ہر روز فرات میں نازل ہوتے ہیں جنت کی برکات میں سے اور حجرِ اسود۔“
[مسند الفردوس،للديلمى:5207، سلسلة الأحاديث الصحيحة:3111]
جنت میں داخل ہونے والی عورتوں کی تعداد کم ہوگی؟
حضرت عمارہ بن خزیمہؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حج یا عمرے کے موقع پر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے، اچانک ایک عورت آئی، اس نے کنگن اور انگوٹھیاں پہن کر اپنا ہاتھ کجاوے پر پھیلا رکھا تھا۔ انہوں نے کہا: ہم اسی گھاٹی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے فرمایا: ”ذرا دیکھو، آیا کوئی چیز نظر آ رہی ہے؟“ ہم نے کہا: کوے نظر آ رہے ہیں، ان میں ایک کوا سرخ چونچ اور سرخ پیروں والا بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لا يدخل الجنة من النساء إلا من كان منهن مثل هذا الغراب في الغربان".
"لا يدخل الجنة من النساء إلا من كان منهن مثل هذا الغراب في الغربان".
ترجمہ:
”عورتوں کی اتنی ہی تعداد جنت میں داخل ہو گی جتنی ان کووں میں اس کوے کی ہے۔“
[مسند الإمام أحمد بن حنبل: حدیث#17770، السنن الكبرىٰ للنسائي:9223، مسند أبي يعلى الموصلي:7343، المستدرك على الصحيحين للحاكم:8781، شعب الإيمان للبيهقي:7433]
شہید کا انجام خیر:
سیدنا مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لِلشَّهِيدِ عِنْدَ اللَّهِ خِصَالٌ , يُغْفَرُ لَهُ فِي أَوَّلِ دَفْعَةٍ مِنْ دَمِهِ , وَيُرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَيُحَلَّى حُلَّةَ الْإِيمَانِ , وَيُزَوَّجُ مِنَ الْحُورِ الْعَيْنِ , وَيُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ , وَيَأْمَنُ مِنَ الْفَزَعِ الْأَكْبَرِ , وَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجُ الْوَقَارِ , الْيَاقُوتَةُ مِنْهُ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا , وَيُزَوَّجُ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ زَوْجَةً مِنَ الْحُورِ الْعَيْنِ , وَيُشَفَّعُ فِي سَبْعِينَ إِنْسَانًا مِنْ أَقَارِبِهِ»
ترجمہ:
”شہید کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ انعامات ہیں: (۱) اس کے خون کے پہلے قطرے کے گرتے ہی اسے بخش دیا جاتا ہے۔ (۲) وہ جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے۔ (۳) اسے ایمان کے زیور سے مزین کیا جاتا ہے۔ (۴) بہتر مو ٹی آنکھوں والی حوروں سے اس کی شادی کی جائے گی۔ (۵) اسے عذ اب قبر سے محفوظ رکھا جائے گا۔ (۶) وہ (قیامت کی) بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہے گا۔ (۷) اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا، جس کا ایک موتی دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا اور (۸) اس کے گھر کے ستر افراد کے حق میں اس کی سفارش قبول کی جائے گی۔“
[سنن الترمذي:1663، سنن ابن ماجه:2799، مسند أحمد:17182، مسند البزار:2715، المسند للشاشي:1259]
***********************************
دو کروڑ، چالیس لاکھ، دس ہزار حوروں والا محل:
سَأَلْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ ، وَأَبَا هُرَيْرَةَ ، عَنْ تَفْسِيرِ هَذِهِ الآيَةِ : وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ سورة التوبة آية 72 , فَقَالا : عَلَى الْخَبِيرِ سَقَطْتَ ، سَأَلْنَا عَنْهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ : " قَصْرٌ فِي الْجَنَّةِ مِنْ لُؤْلُؤَةٍ ، فِي ذَلِكَ الْقَصْرِ سَبْعُونَ دَارًا مِنْ يَاقُوتَةٍ حَمْرَاءَ ، فِي كُلِّ دَارٍ سَبْعُونَ بَيْتًا مِنْ زَبَرْجَدٍ خَضْرَاءَ ، فِي كُلِّ بَيْتٍ سَبْعُونَ أَلْفَ سَرِيرٍ ، عَلَى كُلِّ سَرِيرٍ سَبْعُونَ فَرْشًا مِنْ كُلِّ لَوْنٍ ، عَلَى كُلِّ فِرَاشٍ امْرَأَةٌ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ ، وَفِي كُلِّ بَيْتٍ سَبْعُونَ مَائِدَةً ، عَلَى كُلِّ مَائِدَةٍ سَبْعُونَ لَوْنًا مِنْ كُلِّ الطَّعَامِ ، فِي كُلِّ بَيْتٍ سَبْعُونَ وَصَيْفًا وَوَصِيفَةً ، وَيُعْطَى الْمُؤْمِنُ مِنَ الْقُوَّةِ فِي غَدَاةٍ مَا يَأْتِي عَلَى ذَلِكَ كُلِّهِ " .
ترجمہ:
سَأَلْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ ، وَأَبَا هُرَيْرَةَ ، عَنْ تَفْسِيرِ هَذِهِ الآيَةِ : وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ سورة التوبة آية 72 , فَقَالا : عَلَى الْخَبِيرِ سَقَطْتَ ، سَأَلْنَا عَنْهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ : " قَصْرٌ فِي الْجَنَّةِ مِنْ لُؤْلُؤَةٍ ، فِي ذَلِكَ الْقَصْرِ سَبْعُونَ دَارًا مِنْ يَاقُوتَةٍ حَمْرَاءَ ، فِي كُلِّ دَارٍ سَبْعُونَ بَيْتًا مِنْ زَبَرْجَدٍ خَضْرَاءَ ، فِي كُلِّ بَيْتٍ سَبْعُونَ أَلْفَ سَرِيرٍ ، عَلَى كُلِّ سَرِيرٍ سَبْعُونَ فَرْشًا مِنْ كُلِّ لَوْنٍ ، عَلَى كُلِّ فِرَاشٍ امْرَأَةٌ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ ، وَفِي كُلِّ بَيْتٍ سَبْعُونَ مَائِدَةً ، عَلَى كُلِّ مَائِدَةٍ سَبْعُونَ لَوْنًا مِنْ كُلِّ الطَّعَامِ ، فِي كُلِّ بَيْتٍ سَبْعُونَ وَصَيْفًا وَوَصِيفَةً ، وَيُعْطَى الْمُؤْمِنُ مِنَ الْقُوَّةِ فِي غَدَاةٍ مَا يَأْتِي عَلَى ذَلِكَ كُلِّهِ " .
ترجمہ:
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: اور ان پاکیزہ مکانات کا جو سدا بہار باغات میں ہوں گے (سورۃ التوبۃ:72) کی تفسیر میں ارشاد فرمایا:
جنت میں ایک محل لؤلؤ کا ہوگا اس محل میں ستر گھر سرخ یاقوت کے ہوں گے پھر ہر گھر میں ستر کمرے سبز زمرد کے ہوں گے اور ہر کمرے میں ستر تخت ہوں گے اور ہر تخت پرہر رنگ کے ستر دسترخوان ہوں گے، ہر دسترخوان پر ستر قسم کے کھانے چنے ہوں گے، ہر کمرے میں ستر لڑکے اور ستر لڑکیاں (خدمتگار) ہوں گی اللہ عزوجل ہر مؤمن کو (ہر) ایک صبح میں اتنی طاقت عطاء فرمائیں گے کہ وہ ان سب نعمتوں سے مستفید ہوسکے گا۔
[الزهد والرقائق لابن المبارك » رقم الحديث: 1577، صفة الجنة لابن أبي الدنيا:177]
جنت میں ایک محل لؤلؤ کا ہوگا اس محل میں ستر گھر سرخ یاقوت کے ہوں گے پھر ہر گھر میں ستر کمرے سبز زمرد کے ہوں گے اور ہر کمرے میں ستر تخت ہوں گے اور ہر تخت پرہر رنگ کے ستر دسترخوان ہوں گے، ہر دسترخوان پر ستر قسم کے کھانے چنے ہوں گے، ہر کمرے میں ستر لڑکے اور ستر لڑکیاں (خدمتگار) ہوں گی اللہ عزوجل ہر مؤمن کو (ہر) ایک صبح میں اتنی طاقت عطاء فرمائیں گے کہ وہ ان سب نعمتوں سے مستفید ہوسکے گا۔
[الزهد والرقائق لابن المبارك » رقم الحديث: 1577، صفة الجنة لابن أبي الدنيا:177]
[البحر الزخار مسند البزار » مُسْنَدُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ رَضِيَ اللَّهُ ... رقم الحديث: 3035]
[تفسير ابن أبي حاتم » سورة التوبة:72، رقم الحديث: 10302]
[تفسير ابن أبي حاتم » سورة التوبة:72، رقم الحديث: 10302]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس محل میں (۲،۴۰،۱۰،۰۰۰)(2،40،10،000) حورعین ہوں گی اور اتنے ہی رنگ کے کھانے اور اتنے ہی خادم اور خادمائیں ہوں گی۔
المصدر : الترغيب والترهيب الصفحة أو الرقم: 4/375 خلاصة حكم المحدث :[لا يتطرق إليه احتمال التحسين]
المحدث : ابن كثير
المصدر : نهاية البداية والنهاية الصفحة أو الرقم: 2/239 خلاصة حكم المحدث : غريب
عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ حَوْرَاءَ يُقَالُ لَهَا: اللُّعْبَةُ، كُلُّ حُورِ الْجِنَانِ يُعْجَبْنَ بِهَا يَضْرِبْنَ بِأَيْدِيهِنَّ عَلَى كَتِفِهَا وَيَقُلْنَ " طُوبَى لَكِ يَا لُعْبةُ لَوْ يَعْلَمُ الطَّالِبُونَ لَكِ لَجَدُّوا، بَيْنَ عَيْنَيْهَا مَكْتُوبٌ: مَنْ كَانَ يَبْتَغِي أَنْ يَكُونَ لَهُ مِثْلِي فَلْيَعْمَلْ بِرِضَاءِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ۔
ترجمہ:
حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے، کہ آپ نے فرمایا: جنت میں ایک حور ہے جس کو لعبہ کہا جاتا ہے، جنت کی تمام حوریں اس کے حسن پر حیران ہیں اور اس کے کندھے پر ہاتھ مارکر کہتی ہیں، کہ اے لعبہ! تیرے طلبگاروں کو (تیرے حسن وجمال کا علم)، ہو تو وہ خوب کوشش کریں (یعنی عمل صالح کرکے تیرے مستحق بن جائیں) اس کی پیشانی پر لکھا ہے کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کو میرے جیسی حور ملے تو اس کو چاہیے کہ میرے پروردگار کی رضا والے اعمال کرے۔
[صفة الجنة لابن أبي الدنيا:298 (ت سليم)، 309(ت العساسلة)]
[حادي الأرواح إلى بلاد الأفراح-ابن القيم: صفحہ235 - ط المدني]
جاء عطاء السليمي إلى مالك بن دينار، فقال له: يا مالك، بلغني أن في الجنة حوراء يقال لها لعبة، يجتمع إليها الحور، فيبدين عن بعض محاسنها، فيقلن: يا لعبة، طوبى للطالبين لو يرون منك / مثل الذي نرى
ترجمہ:
عطاء السلیمی مالک بن دینار کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے مالک! مجھے خبر پہنچی ہے کہ جنت میں ایک حور ہے جسے لعبہ کہا جاتا ہے، اور حوریں اس کے پاس جمع ہوتی ہیں اور اس کے کچھ محاسن بیان کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: "اے لعبہ! خوشخبری ہے (تیرے) طلبگاروں(جہان والوں) کیلئے اگر وہ تجھ کو ویسا ہی دیکھیں جیسا ہم دیکھتے ہیں۔
[المخلصيات:2110، (أحاديث أبي الحسين الكلابي:42) تاريخ دمشق لابن عساكر:56 / 422]
(جاری ہے)
No comments:
Post a Comment