Islamic Affirmation:
اَللّٰهُ اَکْبَرُ.....الله سب سے بڑا ہے
الله پاک کے آخری پیغمبر محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ
ترجمہ:
۔۔۔اور ہر تکبیر (یعنی الله اکبر کہنا) بھی صدقہ(نیکی)ہے۔۔۔
[صحیح مسلم:720(2329)]
.....وَكَبِّرِي اللهَ مِئَةَ تَكْبِيرَةٍ فَإِنَّهَا تَعْدِلُ لَكِ مِائَةَ بَدَنَةٍ مُقَلَّدَةٍ مُتَقَبَّلَةٍ.....
ترجمہ:
.....اور سو(100) مرتبہ اَللّٰهُ اَکْبَرُ(یعنی الله سب سے بڑا ہے) کہو، یہ تمہارے لئے(الله کی خاطر قربانی کیلئے) نکیل ڈالی ہوئی مقبول سو(100) اونٹنیوں کے برابر (یعنی اتنا ثواب حاصل کرنے جیسا) ہوگا.....
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:1316]
.....وَمَنْ كَبَّرَ اللَّهَ مِائَةً بِالْغَدَاةِ وَمِائَةً بِالْعَشِيِّ لَمْ يَأْتِ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ أَحَدٌ بِأَكْثَرَ مِمَّا أَتَى بِهِ إِلَّا مَنْ قَالَ مِثْلَ مَا قَالَ أَوْ زَادَ عَلَى مَا قَالَ۔
ترجمہ:
۔۔۔اور جس نے سو(100) بار صبح ﴿سورج طلوع ہونے سے پہلے﴾ اور سو(100) بار شام کو بھی ﴿سورج غروب ہونے سے پہلے﴾ اَللّٰهُ اَکْبَرُ(یعنی الله سب سے بڑا ہے) کہا تو قیامت کے دن کوئی شخص اس سے زیادہ نیک عمل لے کر حاضر نہ ہوگا، سوائے اس کے جس نے اس سے زیادہ کہا ہوگا یا اس کے برابر کہا ہوگا۔
[سنن-الترمذي:3471، سنن ابن ماجہ:3810]
﴿السنن الكبريٰ-النسائي:10588، صحيح الترغيب:658﴾
قرآنی اشارہ»سورۃ طٰہٰ:130، سورۃ ق:39
مرنے سے پہلے زندگی بھر کے بغیر-مانگے عطا کئے گئے اللہ کے انعامات کا شکر ادا کرلو ۔۔۔ بےشک جنت میں داخلہ اللہ کی رحمت(رضا) ہی سے ہوگا، لیکن اعمال ہی (1)قیامت کے حساب، (2)جہنم کے عذاب اور (3)جنت میں سب سے نیچے پیچھے ہونے کی دائمی ندامت سے بچانے کا وسیلہ ہیں۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ فَرُّوخَ أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ تَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّهُ خُلِقَ كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْ بَنِي آدَمَ عَلَى سِتِّينَ وَثَلَاثِمِائَةِ مَفْصِلٍ، فَمَنْ كَبَّرَ اللهَ، وَحَمِدَ اللهَ، وَهَلَّلَ اللهَ، وَسَبَّحَ اللهَ، وَاسْتَغْفَرَ اللهَ، وَعَزَلَ حَجَرًا عَنْ طَرِيقِ النَّاسِ، أَوْ شَوْكَةً، أَوْ عَظْمًا عَنْ طَرِيقِ النَّاسِ وَأَمَرَ بِمَعْرُوفٍ، أَوْ نَهَى عَنْ مُنْكَرٍ عَدَدَ تِلْكَ السِّتِّينَ، وَالثَّلَاثِمِائَةِ السُّلَامَى فَإِنَّهُ يَمْشِي يَوْمَئِذٍ، وَقَدْ زَحْزَحَ نَفْسَهُ عَنِ النَّارِ. قَالَ أَبُو تَوْبَةَ: وَرُبَّمَا قَالَ: يُمْسِي.»
ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بنی آدم میں سے ہر انسان کو تین سو ساٹھ جوڑوں سے پیدا کیا گیا ہے، جس نے اللہ کی بڑائی بیان کی، اور اللہ کی تعریف کی، اور اللہ کی تہلیل کی (یعنی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہا)، اور اللہ کی تسبیح کی (یعنی سُبْحَانَ اللَّهِ کہا)، اور اَسْتَغْفَرَ اللَّهَ کہا، اور لوگوں کے راستہ سے پتھر یا کانٹے یا ہڈی کو ہٹادیا، اور نیکی کا حکم کیا، اور برائی سے منع کیا تین سو ساٹھ جوڑوں کی تعداد کے برابر۔ تو وہ اس دن چلتا ہے حالانکہ اس نے اپنی جان کو دوزخ سے دور کرلیا ہے ابو توبہ کی روایت ہے کہ: شام کرتا ہے وہ اسی حال میں۔ (یعنی سب گناہوں سے پاک و صاف ہوگا)۔
[صحیح مسلم:1007(2330)]
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كُنَّا إِذَا صَعِدْنَا كَبَّرْنَا، وَإِذَا نَزَلْنَا سَبَّحْنَا.
ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب ہم (کسی بلندی پر) چڑھتے، تو «الله اكبر» کہتے اور جب (کسی نشیب میں) اترتے تو «سبحان الله» کہتے تھے۔
[صحيح البخاري:2993+2994]
سیدنا عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مؤذن «اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ» کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ دہرائے اور جب وہ «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» اور «أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ» کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ کہے۔ اور جب مؤذن «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» کہے تو سننے والا «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» کہے۔ پھر مؤذن جب «حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ» کہے تو سننے والے کو «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» کہنا چاہئیے۔ اس کے بعد مؤذن جب «اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ» اور «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» کہے تو سننے والے کو بھی یہی الفاظ دھرانے چاہئیں اور جب سننے والے نے اس طرح خلوص اور دل سے یقین رکھ کر کہا تو وہ جنت میں داخل ہوا۔“
[التاريخ الكبير للبخاري:2729، صحيح مسلم:385، سنن أبي داود:527، صحيح ابن خزيمة:417]
الله کی بڑائی-کبریائی کا مطلب:
القرآن:
اور تمام تر بڑائی(چودھراہٹ-شہنشاہی) اسی کو حاصل ہے ، آسمانوں میں بھی ، اور زمین میں بھی ، اور وہی ہے جس کا اقتدار(حکومت) بھی کامل ہے ، جس کی حکمت بھی کامل۔
[سورۃ الجاثیہ:37]
اور کہو کہ : تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے نہ کوئی بیٹا بنایا، نہ اس کی سلطنت میں کوئی شریک ہے، اور نہ اسے عاجزی سے بچانے کے لیے کوئی حمایتی درکار ہے۔ اور اس کی ایسی بڑائی بیان کرو جیسی بڑائی بیان کرنے کا اسے حق حاصل ہے۔
[سورۃ الکھف:111]
پھر جب انہوں (حضرت ابراھیمؑ) نے سورج کو چمکتے دیکھا تو کہا : یہ میرا رب ہے۔ یہ زیادہ بڑا ہے۔ پھر جب وہ غروب ہوا تو انہوں نے کہا : اے میری قوم ! جن جن چیزوں کو تم اللہ کی خدائی میں شریک قرار دیتے ہو، میں ان سب سے بیزار ہوں۔
[سورۃ الانعام:78]
لہٰذا
۔۔۔۔۔الله کی رضامندگی تو سب سے بڑی چیز(کامیابی)ہے۔۔۔۔۔
[سورۃ التوبۃ:72]
...یقینا الله کا ذکر "سب" سے بڑا(اچھا کام)ہے...
[سورۃ العنکبوت:45]
تو عذاب دے گا اسے الله سب سے بڑا عذاب۔
[سورۃ الغاشیہ:44]
یعنی
الله کا عذاب بھی سب سے بڑا ہے۔
الله زیادہ حقدار ہے کہ۔۔۔
القرآن:
اسی سے ڈرا جائے
[سورۃ التوبۃ:13]الزمر:38، الفتح:11
اس کو راضی کیا جائے
[التوبۃ:62]
اس کا قرض(یعنی عبادات کی قضا)ادا کیا جائے۔
[بخاری:1953]
اس سے وفاء کی جاۓ۔
[بخاری:7315]
اس سے(تنہائی میں بھی)حیاء کی جاۓ۔
[ابوداؤد:4017]
اللہ کی خوبیاں:
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ام سلیم ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ ﷺ! مجھے کچھ ایسے کلمات سکھا دیجئے جن کے ذریعے میں دعاء کرلیا کروں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: دس مرتبہ سبحان اللہ، دس مرتبہ الحمدللہ اور دس مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر اپنی ضرورت کا اللہ سے سوال کرو، اللہ فرمائے گا کہ میں نے تمہارا کام کردیا، میں نے تمہارا کام کردیا۔
[مسند احمد:12207]
سنن الترمذي:481، سنن نسائي:1299، صحيح ابن خزيمة:850، صحيح ابن حبان:2011،
مسند البزار:7599، مسند ابي يعلي:4292
ترجمہ:
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:1885، صحيح ابن حبان: التقاسيم والأنواع:549، الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان:833، معرفة الصحابة لأبي نعيم:866]
[السنة لابن أبي عاصم:781، معرفة الصحابة لأبي نعيم:2143]
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ «أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ إِلَى بَعْدِ صَلَاةِ الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ»۔
ترجمہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ عرفہ(9 ذی الحجہ) کے دن فجر کی نماز سے ایامِ تشریق کے آخری دن(13 ذی الحجہ) کی نماز عصر تک تکبیرِ تشریق کہتے تھے۔
[الآثار لأبي يوسف:295، الأصل لمحمد بن الحسن - ت الأفغاني:1/ 384، الآثار لمحمد بن الحسن:208، المصنف - ابن أبي شيبة - ت الشثري:5749+5750، الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف-ابن المنذر:2203، فضل عشر ذي الحجة للطبراني:35+36، سنن الدارقطني:1733+1734، المستدرك على الصحيحين للحاكم:1111، معرفة السنن والآثار-البيهقي:7001+7003، السنن الصغير للبيهقي:682]
عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ لَقِيتُ إِبْرَاهِيمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَقْرِئْ أُمَّتَكَ مِنِّي السَّلَامَ وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ الجَنَّةَ طَيِّبَةُ التُّرْبَةِ عَذْبَةُ المَاءِ، وَأَنَّهَا قِيعَانٌ، وَأَنَّ غِرَاسَهَا سُبْحَانَ اللَّهِ وَالحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ۔{وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ }.
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس رات مجھے معراج کرائی گئی، اس رات میں ابراہیم (علیہ السلام) سے ملا، ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا: اے محمد! اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہہ دینا اور انہیں بتادینا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی (زرخیز) ہے، اس کا پانی بہت میٹھا ہے، اور وہ خالی پڑی ہوئی ہے، اور اس کی باغبانی: «سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ{وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ }» سے ہوتی ہے۔
[سنن الترمذي:3462 {المعجم الكبير للطبراني:10363، المعجم الأوسط للطبراني:4170، المعجم الصغير للطبراني:539، ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:1121، المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي:14}]
[صحيح الترغيب والترهيب:1550، صحيح الجامع الصغير:3460+5152، الصحيحة:105]
No comments:
Post a Comment