بارش» اللہ(کے وجود)کی نشانی اور قدرت کا شاہکار۔
القرآن:
اور وہی ہے جو لوگوں کے ناامید ہونے کے بعد بارش برساتا اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے، اور وہی ہے جو (سب کا) قابل تعریف رکھوالا ہے۔
[سورۃ الشورى،آیت نمبر 28]
بھلا وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کے اندھیروں میں تمہیں راستہ دکھاتا ہے اور جو اپنی رحمت (کی بارش) سے پہلے ہوائیں بھیجتا ہے جو تمہیں (بارش کی) خوشخبری دیتی ہیں ؟ کیا (پھر بھی تم کہتے ہو کہ) الله کے ساتھ کوئی اور خدا ہے ؟ (نہیں ! بلکہ) الله اس شرک سے بہت بالا و برتر ہے جس کا ارتکاب یہ لوگ کر رہے ہیں۔
[سورۃ نمبر 27 النمل،آیت نمبر 63]
القرآن:
اور وہ ہوائیں جو بادلوں کو پانی سے بھر دیتی ہیں، ہم نے بھیجی ہیں، پھر آسمان سے پانی ہم نے اتارا ہے، پھر اس سے تمہیں سیراب ہم نے کیا ہے، اور تمہارے بس میں یہ نہیں ہے کہ تم اس کو ذخیرہ کر کے رکھ سکو۔
[سورۃ نمبر 15 الحجر، آیت نمبر 22]
تمام مخلوق کے لئے آب رسانی اور آب پاشی کا عجیب و غریب نظامِ الہی:
(آیت) وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ سے وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ تک.....قدرتِ الہیہ کے اس حکیمانہ نظام کی طرف اشارہ ہے جس کے ذریعہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسان اور جانور، چرندوں، پرندوں، درندوں کے لئے ضرورت کے مطابق پینے، نہانے، دھونے اور کھیتوں درختوں کو سیراب کرنے کے لئے پانی بلا کسی قیمت کے مل جاتا ہے، اور جو کچھ کسی کنواں بنانے یا پائپ لگانے پر خرچ کرنا پڑتا ہے وہ اپنی سہولتیں حاصل کرنے کی قیمت ہے، پانی کے ایک قطرہ کی قیمت بھی کوئی ادا نہیں کرسکتا نہ کسی سے مانگی جاتی ہے۔
اس آیت میں پہلے تو اس کا ذکر کیا گیا کہ کس طرح قدرتِ الہیہ نے سمندر کے پانی کو پوری زمین پر پہنچانے کا عجیب و غریب نظام بنایا ہے کہ سمندر میں بخارات پیدا فرمائے جن سے بارش کا مواد (مان سون) پیدا ہوا، اوپر سے ہوائیں چلائیں جو اس کو بادل کی شکل میں تبدیل کر کے پانی سے بھرے ہوئے پہاڑوں جیسے جہاز بنادیں، پھر پانی سے لبریز ان ہوائی جہازوں کو دنیا کے ہر گوشہ میں جہاں جہاں پہونچانا ہے پہنچا دیں، پھر فرمانِ الہی کے تابع جس زمین پر جتنا پانی ڈالنے کا حکم ہے اس کے مطابق یہ خود کار ہوائی جہاز وہاں پانی برسا دیں۔
اس طرح یہ سمندر کا پانی زمین کے ہر گوشے میں بسنے والے انسانوں اور جانوروں کو گھر بیٹھے مل جائے، اسی نظام میں ایک عجیب و غریب تبدیلی پانی کے ذائقے اور دوسری کیفیات میں پیدا کردی جاتی ہے، کیونکہ سمندر کے پانی کو الله تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے انتہائی کھارا اور ایسا نمکین بنایا ہے کہ ہزاروں ٹن نمک اس سے نکالا اور استعمال کیا جاتا ہے، حکمت اس میں یہ ہے کہ یہ عظیم الشان پانی کا کرہ جس میں کروڑوں قسم کے جانور رہتے اور اسی میں مرتے اور سڑتے ہیں اور ساری زمین کا گندہ پانی بالآخر اسی میں جاکر پڑتا ہے، اگر یہ پانی میٹھا ہوتا تو ایک دن میں سڑ جاتا اور اس کی بدبو اتنی شدید ہوتی کہ خشکی میں رہنے والوں کی تندرستی اور زندگی بھی مشکل ہوجاتی، اس لئے قدرت نے اس کو ایسا تیزابی کھارا بنادیا کہ دنیا بھر کی غلاظتیں اس میں پہنچ کر بھسم ہوجاتی ہیں، غرض اس حکمت کی بناء پر سمندر کا پانی کھارا بلکہ تلخ بنایا گیا جو نہ پیا جا سکتا ہے اور نہ اس سے پیاس بجھ سکتی ہے۔ نظامِ قدرت نے جو پانی کے ہوائی جہاز بادلوں کی شکل میں تیار کئے ان کو صرف سمندری پانی کا خزانہ ہی نہیں بنایا بلکہ مون سون اٹھنے سے لے کر زمین پر برسنے تک اس میں ایسے انقلابات بغیر کسی ظاہری مشین کے پیدا کردیئے کہ اس پانی کا نمک علیحدہ ہو کر میٹھا پانی بن گیا۔ سورة المرسلات میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
(آیت) وَاَسْقَيْنٰكُمْ مَّاۗءً فُرَاتًا.....اس میں لفظ فرات کے معنیٰ ہیں، ایسا میٹھا پانی جس سے پیاس بجھے، معنیٰ یہ ہیں کہ ہم نے بادلوں کی قدرتی مشینوں سے گذار کر سمندر کے کھارے اور تلخ پانی کو تمہارے پینے کے لئے شیریں بنادیا۔
سورة واقعہ(آیت 68-70) میں اسی مضمون کو ارشاد فرمایا ہے:
اَفَرَءَيْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَ ءَاَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ۔
بھلا دیکھو تو پانی کو جو تم پیتے ہو کیا تم نے اتارا (اس کو بادل سے یا ہم ہیں اتارنے والے اگر ہم چاہیں کردیں اس کو کھارا پھر کیوں نہیں احسان مانتے۔
یہاں تک تو قدرتِ الہیہ کی یہ کرشمہ سازی دیکھی کہ سمندر کے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کر کے پورے روئے زمین پر بادلوں کے ذریعے کس حسنِ نظام کیساتھ پہونچایا کہ ہر خطہ کے نہ صرف انسانوں کو بلکہ جانوروں کو بھی جو انسانوں کی دریافت سے باہر ہیں گھر بیٹھے پانی پہنچا دیا اور بالکل مفت بلکہ جبری طور پر پہونچا۔
لیکن انسان اور جانوروں کا مسئلہ صرف اتنی بات سے حل نہیں ہوجاتا کیونکہ پانی ان کی ایسی ضرورت ہے جس کی احتیاج ہر روز بلکہ ہر آن ہے، اس لئے ان کی ضرورت روز مرہ کو پورا کرنے کا ایک طریقہ تو یہ تھا کہ ہر جگہ سال کے بارہ مہینے ہر روز بارش ہوا کرتی لیکن اس صورت میں ان کی پانی کی ضرورت تو رفع ہوجاتی مگر دوسری معاشی ضرورت میں کتنا خلل آتا اس کا اندازہ کسی اہلِ تجربہ کے لئے مشکل نہیں کہ سال بھر کے ہر دن کی بارش تندرستی پر کیا اثر ڈالتی اور کاروبار اور نقل و حرکت میں کیا تعطل پیدا کرتی۔
دوسرا طریقہ یہ تھا کہ سال بھر کے خاص خاص مہینوں میں اتنی بارش ہوجائے کہ اس کا پانی باقی مہینوں کے لئے کافی ہوجائے مگر اس کے لئے ضرورت ہوتی کہ ہر شخص کا ایک کوٹہ مقرر کرکے اس کے سپرد کیا جائے کہ وہ اپنے کوٹہ اور حصہ کا پانی خود اپنی حفاظت میں رکھے۔
اندازہ لگائیے کہ اگر ایسا کیا جاتا تو ہر انسان اتنی ٹینکیاں یا برتن وغیرہ کہاں سے لاتا جن میں تین یا چھ مہینہ کی ضرورت کا پانی جمع کرکے رکھ لے، اور اگر وہ کسی طرح ایسا کر بھی لیتا تو ظاہر ہے کہ چند روز کے بعد یہ پانی سڑ جاتا اور پینے بلکہ استعمال کرنے کے بھی قابل نہ رہتا۔ اس لئے قدرتِ الہیہ نے اس کے باقی رکھنے اور بوقتّ ضرورت ہر جگہ مل جانے کا ایک دوسرا عجیب و غریب نظام بنایا کہ جو پانی برسایا جاتا ہے اس کا کچھ حصہ تو فوری طور پر درختوں کھیتوں اور انسانوں اور جانوروں کو سیراب کرنے میں کام آ ہی جاتا ہے، کچھ کھلے تالابوں جھیلوں میں محفوظ ہوجاتا ہے اور اس کے بہت بڑے حصہ کو برف کی شکل میں بحرِ منجمد (برفانی سمندر) بنا کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر لاد دیا جاتا ہے، جہاں تک نہ گرد و غبار کی رسائی ہے نہ کسی غلاظت کی، پھر اگر وہ پانی سیال صورت میں رہتا تو ہوا کے ذریعہ کچھ گرد و غبار یا دوسری خراب چیزیں اس میں پہنچ جانے کا خطرہ رہتا پرندے جانوروں کے اس میں گرنے مرنے کا اندیشہ رہتا جس سے وہ پانی خراب ہوجاتا مگر قدرت نے اس پانی کے عظیم خزانے کو بحرِ منجمد (برفانی سمندر) بنا کر پہاڑوں پر لاد دیا جہاں سے تھوڑا تھوڑا رس کر وہ پہاڑوں کی رگوں میں پیوست ہوجاتا ہے اور پھر چشموں کی صورت میں ہر جگہ پہنچ جاتا ہے، اور جہاں یہ چشمے بھی نہیں ہیں تو وہاں زمین کی تہہ میں یہ پانی انسانی رگوں کی طرح زمین کے ہر خطہ پر بہتا ہے اور کنواں کھودنے سے برآمد ہونے لگتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ آب رسانی کا یہ نظامِ الہی ہزاروں نعمتیں اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ اول تو پانی کو پیدا کرنا ایک بڑی نعمت(انعام واحسان) ہے، پھر بادلوں کے ذریعہ اس کو زمین کے ہر خطہ پر پہونچانا دوسری نعمت ہے، پھر اس کو انسان کے پینے کے قابل بنادینا تیسری نعمت ہے، پھر انسان کو اس کے پینے کا موقع دینا چوتھی نعمت ہے، پھر اس پانی کو ضرورت کے مطابق جمع اور محفوظ رکھنے کا نظامِ محکم پانچویں نعمت ہے، پھر انسان کو اس سے پینے اور سیراب ہونے کا موقع دینا چھٹی نعمت ہے، کیونکہ پانی کے موجود ہوتے ہوئے بھی ایسی آفتیں ہو سکتی ہیں کہ ان کی وجہ سے آدمی پینے پر قادر نہ ہو۔ قرآن کریم کی أیت فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ ۚ وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ (اور تمہارے بس میں یہ نہیں ہے کہ تم اس کو ذخیرہ کر کے رکھ سکو۔) میں انہی انعاماتِ الہیہ کی طرف اشارہ اور تنبیہ کی گئی ہے۔ فتبارک الله احسن الخالقین۔
۔۔۔غرض بڑی شان ہے اللہ کی جو سارے کاریگروں سے بڑھ کر کاریگر ہے۔
[سورۃ المؤمنون:14]
...غرض بڑی برکت والا ہے اللہ، سارے جہانوں کا پالنہار۔
[سورۃ غافر:64]
فضا میں بہت سے گیس اور بہت سی ہوائیں ہیں لیکن بادل پر اثر انداز ہونے کے لئے دو قسم کی ہوائیں خاص طورپر قابل ذکر ہیں ۔ ایک خشک ہوا، جب یہ ہوا چلتی ہے تو بادل کو پھاڑتی چلی جاتی ہے اس کی وجہ سے بادل پھٹ کر منتشر ہوجاتا ہے اور وہ بارش نہیں برساتا
دوسری قسم ’’ مانسون ہوا ‘‘ یہ چلتی ہے تو منتشر بادل کو جوڑدیتی ہے، بادل میں بھاپ اور پانی پہلے سے موجود رہتے ہیں اس ہوا کی وجہ سے بھاپ ٹھنڈی ہوکر پانی میں تبدیل ہوجاتی ہے اور بادل کے درمیان سے بوندیں ٹپکنے لگتیں ہیں ، نزول قرآن کے وقت اتنی ساری تحقیقات نہیں ہوئیں تھیں کہ بلندی پر بادل میں بھاپ ہے اور ہوائیں اس کو ٹھنـڈی کرکے بارش کے قابل بناتی ہیں گویا کہ یہ ہوائیں بادل کو حاملہ کررہی ہیں ۔
قرآن کریم نے اس عظیم حقیقت کا پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا:
وَاَرْسَلْنَا الریٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمآئِ مَآءً فَاَسْقَیْنٰکُمُوْہُ
ترجمہ:
اور ہم ہی پانی سے لدی ہواؤں کو بھیجتے ہیں پھر ہم ہی آسمانوں سے پانی برساتے ہیں پھر وہی پانی ہم تم کو پلاتے ہیں۔
[سورۃ الحجر۱۵، آیت ۲۲]
قرآن نے صرف ایک جملہ ’’ارسلنا الریح لواقح‘‘ (اور ہم نے بھیجی ہوائیں بھری ہوئی) سے سائنس کی ساری تحقیقات کی طرف اشارہ کردیا۔
ڈاکٹر اسرار احمد فرماتے ہیں:
لَوَاقِحَ کا مفہوم پہلے تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ یہ ہوائیں بادلوں کو اٹھا کر لاتی ہیں اور بارش کا سبب بنتی ہیں لیکن اب جدید سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ polen grains بھی ہواؤں کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں جن سے پھولوں کی فرٹیلائزیشن ہوتی ہے جس کے نتیجے میں فصلیں اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ یوں یہ سارا نباتاتی نظام بھی ہواؤں کی وجہ سے چل رہا ہے۔
فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ
پانی مبدا حیات ہے۔ زمین پر ہر طرح کی زندگی کے وجود کا منبع اور سرچشمہ بھی پانی ہے اور پھر پانی پر ہی زندگی کی بقا کا انحصار بھی ہے۔ پانی کی اس اہمیت کے پیش نظر الله تعالیٰ نے اس کی تقسیم و ترسیل کا ایک لگا بندھا نظام وضع کیا ہے جسے آج کی سائنس نے واٹر سائیکل کا نام دیا ہے۔ واٹر سائیکل کا یہ عظیم الشان نظام الله تعالیٰ کے عجائبات میں سے ہے۔ سمندروں سے ہواؤں تک بخارات پہنچا کر بارش اور برفباری کا انتظام گلیشیئرز کی شکل میں بلند وبالا پہاڑوں پر واٹر سٹوریج کا اہتمام پھر چشموں ندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعے سے اس پانی کی وسیع و عریض میدانی علاقوں تک رسائی اور زیر زمین پانی کا عظیم الشان ذخیرہ۔ یہ الله تعالیٰ کا وضع کردہ وہ واٹرسائیکل ہے جس پر پوری دنیا میں ہر قسم کی زندگی کا دارومدار ہے۔
وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ
یہ تمہارے بس میں نہ تھا کہ تم پانی کے اس ذخیرے کو جمع کرتے۔
[بیان القرآن،ڈاکٹر اسرار احمد]
تفسیر:
(13)زندگی کے لئے پانی کی اہمیت :
پانی کا ذخیرہ یا تو زمین کے نیچے ہوتا ہے۔ وہ بھی الله کے قبضہ ئقدرت میں ہے۔ وہ چاہے تو پانی کی سطح کو بہت نیچے لے جائے اور انسان پانی حاصل ہی نہ کرسکے۔
یا بارش کی صورت میں نازل ہوتا ہے۔ وہ بھی خالصتاً الله کے قبضہ ئقدرت میں ہے۔ وہ چاہے تو کسی مقام پر سالہا سال بارش ہی نہ ہو یا پھر پہاڑوں پر سردیوں میں برفباری ہوتی ہے جو گرمیوں میں پگھل کر دریاؤں کی صورت میں رواں ہوتی ہے۔ لیکن کئی دفعہ دریاؤں میں پانی کی انتہائی کمی واقع ہوجاتی ہے حالانکہ پانی الله کی اتنی بڑی نعمت ہے جس کے بغیر نہ انسان زندہ رہ سکتا ہے نہ دوسرے جاندار اور نہ ہی نباتات اگ سکتی ہیں۔ یعنی پانی نہ ہونے سے انسان خوراک سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔
[تيسير القرآن-مولانا عبد الرحمٰن کیلانی]
کیا تم نے دیکھا نہیں کہ الله بادلوں کو ہنکاتا ہے، پھر ان کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتا ہے، پھر انہیں تہہ بر تہہ گھٹا میں تبدیل کردیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ بارش اس کے درمیان سے برس رہی ہے۔ اور آسمان میں (بادلوں کی شکل میں) جو پہاڑ کے پہاڑ ہوتے ہیں، الله ان سے اولے برساتا ہے، پھر جس کے لیے چاہتا ہے ان کو مصیبت بنا دیتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے ان کا رخ پھیر دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کی بجلی کی چمک آنکھوں کی بینائی اچک لے جائے گی۔
[سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 43]
بارش کی اصل مون سون ہے۔
بارش کا منبع سمندر ہے - بتایئے سمندر سے بادلوں میں کونسا نل لگا ہوا ہے اور کونسی مشین اتنا کھینچتی ہے اور وہ نل اور وہ مشین کسی سیاح اور جغرافیہ داں نے یا کسی ہوا باز نے بھی دیکھی ہے سوائے اس کے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ قدرت خدا سے ایسا ہوا پھر جس نے لاکھوں من پانی جیسی ثقیل بالطبع چیز کو اوپر چڑھایا وہ جنت سے سوتھ میں پانی کیوں نہیں لا سکتا ہے - زائد سے زائد یہ کہ ہم کو اس ذریعہ کا علم نہیں جس سے پانی سوتھ تک پہنچا - ممکن ہے ہوا بن کر پہنچا ہو اور ہوا سوتھ میں یا جھیل میں پانی بن جاتی ہو - آجکل اس قسم کے تصرفات صنعت سے ہی حاصل ہوگئے ہیں - ایک برقی آلہ ہے جس سے ہوا کا پانی بن جاتا ہے اور جیسا کہ سوتھ کے پانی کی گرمی سے قیاس کیا گیا کہ آگ کا اثر ہے ایسے ہی رود نیل کے پانی کی عمدگی اور لاثانی ہونا پتہ دیتا ہے کہ جنت کا پانی ہے - غور سے دیکھا جاوے تو شریعتِ مطہرہ کی تحقیقات پر کوئی بھی اعتراض نہیں پڑتا ٓ خلجان پیدا ہونا صرف اس کا نتیجہ ہے کہ علماء سے تحقیقات نہیں کرتا۔
القرآن:
الله ہی وہ ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ بادل کو اٹھاتی ہیں، پھر وہ اس (بادل) کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا ہے، اور اسے کئی تہوں (والی گھٹا) میں تبدیل کردیتا ہے۔ تب تم دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان سے بارش برس رہی ہے۔ چنانچہ جب وہ اپنے بندوں میں سے جن کو چاہتا ہے وہ بارش پہنچاتا ہے تو وہ اچانک خوشی منانے لگتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 30 الروم، آیت نمبر 48]
نوٹ:
بندوں کا کبھی خوش ہونا اور کبھی رنجیدہ ہونا یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کی نظر اسباب ظاہری پر ہے اللہ کی قدرت کاملہ پر نظر نہیں اور اس کی رحمت پر اعتماد نہیں۔ لہٰذا چاہئے کہ خدا کی قدرت کاملہ پر نظر رکھیں اور اسی پر اعتماد کریں۔
بارشیں اللہ کے حکم سے برستیں ہیں:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ کوئی سال کسی سال کے کم و بیش بارش کا نہیں لیکن اللہ جہاں چاہے، برسائے۔ جہاں سے چاہے، پھیرے۔ پس چاہئے تھا کہ ان نشانات کو دیکھ کر اللہ کی ان زبردست حکمتوں کو اور قدرتوں کو سامنے رکھ کر اس بات کو بھی مان لیتے کہ بیشک ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اور یہ بھی جان لیتے کہ بارشیں ہمارے گناہوں کی شامت سے بند کر دی جاتی ہیں تو ہم گناہ چھوڑ دیں لیکن ان لوگوں نے ایسا نہ کیا بلکہ ہماری نعمتوں پر اور ناشکری کی۔
ایک مرسل حدیث ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام سے کہا کہ میں بادل کی نسبت کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: بادلوں پر جو فرشتہ مقرر ہے، وہ یہ ہے۔ آپ ان سے جو چاہیں، دریافت فرما لیں۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے پاس تو اللہ کا حکم آتا ہے کہ فلاں فلاں شہر اتنے اتنے قطرے برساؤ، ہم تعمیل ارشاد کر دیتے ہیں۔
بارش جیسی نعمت کے وقت اکثر لوگوں کے کفر کا طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے یہ بارش برسائے گئے۔
چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ بارش برس چکنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! جانتے ہو تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جاننے والا ہے۔ آپ نے فرمایا: سنو! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندوں میں سے بہت سے میرے ساتھ مومن ہو گئے اور بہت سے کافر ہو گئے۔ جنہوں نے کہا کہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بارش ہم پر برسی ہے، وہ تو میرے ساتھ ایمان رکھنے والے اور ستاروں سے کفر کرنے والے ہوئے اور جنہوں نے کہا کہ ہم پر فلاں فلاں تارے کے اثر سے پانی برسایا گیا، انہوں نے میرے ساتھ کفر کیا اور تاروں پر ایمان لائے۔
[صحیح بخاری:810]
بارش کے فرشتے:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ بارش کے فرشتے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اجازت چاہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ دیکھو دروازہ پر نظر رکھنا کوئی اندر نہ آنے پائے، اتنے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کودتے ہوئے اندر داخل ہوئے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھے مبارک پر چڑھنے لگے، فرشتہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟ آپ انے فرمایا: جی ہاں! پھر فرشتہ نے کہا کہ آپ اکی امت اسے قتل کردے گی، اگر آپ اچاہیں تو میںوہ جگہ بھی دکھادوں، جہاں پر قتل کئے جائیںگے، پھر فرشتہ نے ہاتھ مارا اور آپ اکو سرخ مٹی دکھائی، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے وہ مٹی لے لی اور اپنے کپڑے کے کونے میں باندھی۔
[مسند أحمد:13729، صحیح ابن حبان:2241، دلائل النبوۃ للبیھقی:6/469، البدایۃ والنہایۃ 8/583]
بارش، قبولیتِ دعا کا وقت:
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ تین وقتوں میں مومن جو دعاء کرتا ہے قبول کی جاتی ہے۔(اس میں ایک وقت یہ بھی ہے کہ ) بارش جس وقت برسے۔
مکحول سے مرسلاً منقول ہے کہ وقت مستجاب ۳ اوقات میں تلاش کرو۔
(۱)مقابلہ کے وقت (جہاد میں)۔
(۲)اقامت صلوٰۃ کے وقت
(۳)بارش کے وقت۔
[بیہقی،کنز العمال:2/62]
امام شافعی ؒ نے کتاب الامام میں اسے مرسلاً روایت کیا ہے اورفرمایا ہے کہ میں نے نزول باراں کے وقت دعاء کا قبول ہونا بکثرت علماء سے محفوظ کیاہے۔
[حصن حصین: ص61]
جب بارش نہ برسے!
حضرت ابولبابہ عبدالمنذر فرماتے ہیں کہ آپ نے استسقاء طلب باراں کی دعاء کی اوریہ پڑھا:
اَللّٰھُمَّ اَسْقِنَا، اَللّٰھُمَّ اَسْقِنَا
ترجمہ:
اے اللہ ہمیں سیراب فرما، اے اللہ ہمیں سیراب فرما۔
[ابوداؤد:225،الدعاء:1782]
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے اللھم اسقنا کہا۔
[نسائی:293،نسائی:227:بِسندحسن]
حضرت انسؓ سے منقول ہے کہ آپ نے ہاتھ اٹھایا اوریہ دعاء کی :
اَللّٰھُمَّ اَغِثْنَا، اَللّٰھُمَّ اَغِثْنَا، اَللّٰھُمَّ اَغِثْنَا
ترجمہ:
اے اللہ مینہ برسائیے،اے اللہ مینہ برسائیے، اے اللہ مینہ برسائیے۔
[مسلم:293،نسائی:227،بِسندحسن]
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ لوگ پریشان حال آپ کے پاس آئے تو آپ نے (طلب باراں) کے لئے یہ دعاء کی:
اَللّٰھُمَّ اَسْقِنَا غَیْثاً مُغِیْثَا مُرِیْئًا مُرِیْعًا نَافَعاً غَیْرَ ضَارٍّ عَاجِلاً غَیْرَ آجِلِ
ترجمہ:
اے اللہ ہم پر ایسا مینہ برسا جو فریاد رسی کرنے والا ہو اور ارزانی پیدا کرنے والا نفع دینے والا ہو نہ کہ نقصان پہنچانے والاہو،جلدی برسنے والا ہو نہ کہ دیر سے برسنے والا ہو۔
[الاذکار:150، ابوداؤد:165 بسند حسن]
بارش ہونے پر!
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی پاک ﷺ جب بارش دیکھتے تو یہ دعاء پڑھتے:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ صَیْباً ھَنِیْئًا۔
ترجمہ:
اے اللہ اسے بابرکت بارش بنادیجئے۔
[ابوداؤد:۲/۶۹۵]
سعید بن مسیب سے مرسل روایت میں یہ دعاء ہے۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ سَیْبَ رَحْمَۃٍ وَلَا تَجْعَلْہُ سَیْبَ عَذَابٍ
ترجمہ:
اے اللہ اسے بارش رحمت بنادیجئے اورنہ بنائیے اسے بارش عذاب۔
[عمل الیوم للنسائی:513]
زیارت خداوندی میں خوشبو کی بارش:
بازارِ جنت کے متعلق کئی احادیث ایسی گذرچکی ہیں جن میں بیان کیا گیا ہے کہ جس دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی زیارت ہوا کرے گی توان پرایک بادل سایہ کرے گا اور ان پرایسی خوشبوچھوڑے گا کہ ویسی خوشبو انہوں نے کبھی نہ سونگھی اور دیکھی ہوگی۔
(بمہوم الحدیث)
جنتی جو تمنا کریں گے اسی کی بارش ہوگی:
حضرت کثیر بن مرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنت کی نعمت مزید میں سے ایک یہ ہے کہ جنت والوں کے اوپر سے ایک بادل گذرے گا اور کہے گا تم کیا چاہتے ہو؟ میں آپ حضرات پرکس نعمت کے ساتھط برسوں؛ چنانچہ وہ جس نعمت کی چاہت کریں گے وہی ان پرنازل ہوگی، حضرت کثیر بن مرہ (حضرمی رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ اگراللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ منظر دکھایا تو میں کہوں گا کہ ہم پر سنگھار کی ہوئی لڑکیوں کی بارش ہو۔
[صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۳۰۲۔ نعیم بن حماد فی زیاداتہ علی الزہد لابن المبارک:۲۴۰]
فائدہ:
علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دنیا میں بادل کوسبب رحمت اور سبب حیات بنایا ہے اور قبروں پربھی بادل کوسبب حیات بنایا ہےکیونکہ چالیس دن تک عرش کے نیچے سے متواتر بارش ہوگی اور یہ مردے کھیتی کی طرح سے زمین کے نیچے سے اگیں گے اور قیامت کے دن جب ان کومیدانِ محشر میں پیش کیا جائے گا تو (خواص حضرات پر) ہلکی ہلکی بونداباندی کرتا ہوگا جیسا کہ دنیا میں ہوتی ہے؛ اسی طرح سے جنت میں بھی جنتی حضرات کے لیے بادل بھیجے جائیں گے جوان پراسی چیز کوبرسائیں گے، جس کی وہ طلب کریں گے خوشبو وغیرہ سے؛ اسی طرح سے دوزخیوں کے لیے بھی بادل بھیجے جائیں گے جوان کے عذاب پرمزید (بیڑیوں کا) عذاب گرائیں گے (اور ان کوان بیڑیوں میں جکڑدیا جائے گا) جس طرح سے قوم ہود اور قوم شعیب پربادل بھیجا گیا تھا اور اس نے ان پرعذاب کی بارش کرکے ان کوتباہ وبرباد کیا تھا، اللہ کی ذات پاک ہے چاہے توبادل کورحمت کے لیے پیدا کرے اور چاہے توعذاب کے لیے پیدا کرے۔
[حادی الارواح:۳۴۷۔ بیان القرآن-تھانوی]
No comments:
Post a Comment