(1) بےشک اللہ ہی ہر چیز پر۔۔۔ شھید (یعنی بڑا شاہد، گواہ، حاضر، موجود) ہے۔
الله کے سوا کسی (نبی/فرشتے) کو عالم الغیب یا حاضر و ناظر سمجھنے والے ان آیت کے منکر ہیں:
أَم
كُنتُم شُهَداءَ إِذ حَضَرَ يَعقوبَ
المَوتُ إِذ قالَ لِبَنيهِ ما تَعبُدونَ مِن بَعدى قالوا نَعبُدُ إِلٰهَكَ
وَإِلٰهَ ءابائِكَ إِبرٰهۦمَ وَإِسمٰعيلَ وَإِسحٰقَ إِلٰهًا وٰحِدًا وَنَحنُ
لَهُ مُسلِمونَ {2:133}
|
بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اس وقت
موجود تھے، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے،
تو انہوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسمٰعیل اور
اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبود یکتا ہے اور ہم اُسی کے حکم بردار ہیں
|
حضرت یعقوب علیہ السلام کی اپنے بیٹوں کو وصیت:یعنی
تم حضرت یعقوبؑ کی وصیت کے وقت تو موجود بھی نہ تھے۔ انہوں نے تو ملت انبیائے
موصوفین کا ارشاد فرمایا تھا تم نے یہ کیا کہ یہود اپنے سوا سب کو اور نصاریٰ
اپنے سوا سب کو بےدین بتلانے لگے (اور مذہب حق (یعنی اسلام کے) دونوں کے مخالف
ہو گئے) یہ تمہارا افتراء ہے۔
|
ذٰلِكَ
مِن أَنباءِ الغَيبِ نوحيهِ إِلَيكَ ۚ
وَما كُنتَ لَدَيهِم إِذ يُلقونَ أَقلٰمَهُم أَيُّهُم يَكفُلُ مَريَمَ وَما
كُنتَ لَدَيهِم إِذ يَختَصِمونَ {3:44}
|
(اے محمد ﷺ) یہ باتیں اخبار غیب میں سے
ہیں
جو ہم تمہارے پاس بھیجتے ہیں اور جب وہ لوگ اپنے قلم (بطور قرعہ) ڈال رہے تھے کہ
مریم کا متکفل کون بنے تو تم ان کے پاس نہیں تھے اور نہ اس وقت ہی ان کے پاس تھے
جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے
|
یہ واقعات آنحضرت ﷺ کی نبوت کی دلیل ہیں:یعنی
ظاہری حیثیت سے آپ کچھ پڑھے لکھے نہیں پہلے سے اہل کتاب کی کوئی معتدبہ صحبت
نہیں رہی جن سے واقعات ماضیہ کی ایسی تحقیقی معلومات ہو سکیں۔ اور صحبت رہتی بھی
تو کیا تھا، وہ لوگ خود ہی اوہام و خرافات کی اندھیریوں میں پڑے بھٹک رہے تھے۔
کسی نے عداوت میں اور کسی نے حد سے زیادہ محبت میں آ کر صحیح واقعات کو مسخ کر
رکھا تھا پھر اندھے کی آنکھ سے روشنی حاصل ہونے کی کیا توقع ہو سکتی تھی۔ اندریں
حالات "مدنی " اور "مکی" دونوں قسم کو سورتوں میں ان واقعات
کو ایسی صحت اور بسط و تفصیل سےسنانا جو بڑے بڑے مدعیان علم کتاب کی آنکھوں میں
چکا چوند کر دیں اور کسی کو مجال انکار باقی نہ رہے اس کی کھلی دلیل ہے کہ
بذرعیہ وحی آپ ﷺ کو یہ علم دیا گیا تھا۔ کیونکہ آپ نے نہ بچشم خود
ان حالات کا
معائنہ کیا، اور نہ علم حاصل کرنے کا کوئی خارجی ذریعہ آپ ﷺ کے
پاس موجود
تھا۔
|
حضرت مریم علیہ السلام کی پرورش کے لئے قرعہ اندازی:جب حضرت مریمؑ نذر
میں قبول کر لی گئیں تو مسجد کے مجاورین میں جھگڑا ہوا کہ انہیں کس کی پرورش میں
رکھا جائے آخر قرعہ اندازی کی نوبت آئی۔ سب نے اپنے اپنے قلم جن سے تورات لکھتے
تھے چلتے پانی میں چھوڑ دئیے کہ جس کا قلم پانی کے بہاؤ پر نہ بہے۔ بلکہ الٹا
پھر جائے اسی کو حقدار سمجھیں۔ اس میں بھی قرعہ حضرت زکریاؑ کے نام نکلا اور حق
حقدار کو پہنچ گیا۔
|
مریضوں کی عیادت فرماتے، جنازہ کے پیچھے چلتے اور غلاموں(مسکین نوکروں) تک کی دعوت قبول فرمالیتے تھے۔
[مسند ابن الجعد:848، ترمذی:1017، ابن ماجہ:4178]
وَلَولا
فَضلُ اللَّهِ عَلَيكَ وَرَحمَتُهُ لَهَمَّت طائِفَةٌ مِنهُم أَن يُضِلّوكَ وَما يُضِلّونَ إِلّا أَنفُسَهُم ۖ وَما
يَضُرّونَكَ مِن شَيءٍ ۚ وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيكَ الكِتٰبَ وَالحِكمَةَ
وَعَلَّمَكَ ما لَم تَكُن تَعلَمُ ۚ وَكانَ فَضلُ اللَّهِ عَلَيكَ عَظيمًا
{4:113}
|
اور اگر تم پر الله کا فضل اور مہربانی نہ ہوتی تو
ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کر ہی چکی تھی اور یہ اپنے سوا (کسی
کو) بہکا نہیں سکتے اور نہ تمہارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور الله نے تم پر کتاب اور
دانائی نازل فرمائی ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھائی ہیں جو تم جانتے نہیں تھے اور
تم پر الله کا بڑا فضل ہے
|
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کا خاص فضل:اس
میں خطاب ہے رسول ﷺ کی طرف اور اظہار ہے
ان خائنوں کے فریب کا اور بیان ہے آپ ﷺ کی عظمت شان و عصمۃ
کا اور اس کا کہ آپ کمال علمی میں جو کہ تمام کمالات سے افضل اور اول ہے سب سے
فائق ہیں اور اللہ کا فضل آپ پر بے نہایت ہے جو ہمارے بیان اور ہماری سمجھ میں
نہیں آ سکتا اور اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ آپ کو جو چور کی برأت کا خیال ہوا
تھا وہ ظاہر حال کو دیکھ کر اور اقوال و شہادت کو سن کر اور اس کو سچ سمجھ کر ہو
گیا تھا۔ میلان عن الحق یا مداہنت فی الحق ہرگز ہرگز اس کا باعث نہ تھا اور اتنی
بات میں کچھ برائی نہ تھی بلکہ یہی ہونا ضروری تھا جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے
حقیقۃ الامر ظاہر ہو گئ کوئی خلجان باقی نہ رہا اور ان سب باتوں سے مقصود یہ ہے
کہ آئندہ کو وہ فریب باز تو آپ کے بہکانے اور دھوکہ دینے سے رک جائیں اور مایوس
ہو جائیں اور آپ اپنی عظمت اور تقدس کے موافق غور اور احتیاط سے کام لیں۔ واللہ
اعلم۔
|
ترجمہ : اور اگر نہ ہوتا تجھ پر الله کا فضل اور اس کی رحمت تو قصد کر ہی چکی تھی ان میں ایک جماعت کہ تجھ کو بہکادین ، اور بہکا نہیں سکتے مگر اپنے آپ کو اور تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، اور الله نے اتاری تجھ پر کتاب اور حکمت اور تجھ کو سکھائیں وہ باتیں جو تو نہ جانتا تھا ، اور الله کا فضل تجھ پر بہت بڑا ہے.
آیت کی مزید تحقیق : اس آیت سے بریلوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلّی علم غیب پر استدلال کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں لفظ ((مَا)) استعمال ہوا ہے جو عموم کے لئے ہوتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ تمام وہ چیزیں جو آپ کو معلوم نہ تھیں وہ ساری کی ساری الله تعالیٰ نے آپ کو بتادیں تو اس سے معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ نے کلّی علم غیب عطا کردیا تھا. مگر اس آیت سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے لئے کلّی علم غیب پر استدلال سراسر باطل ہے. اولاً : اس لئے کہ یہ استدلال اس بات پر مبنی ہے کہ اس آیت میں عموم و استغراق "حقیقی" کے لئے ہے، حالانکہ ((مَا)) ہر جگہ عموم و استغراق کے لئے نہیں آتا، اس میں "خصوص" کا بھی احتمال ہوتا ہے. امام ابو البركات نسفی حنفی فرماتے ہیں : ومن وما يحتملان العموم والخصوص و أصلهما العموم (رسالة المنار مع شرح نور الأنوار: ص # ٧٩) یعنی اگرچہ اصل دونوں میں عموم ہے لیکن دونوں میں خصوص کا احتمال بھی ہوتا ہے. اس کی شرح میں ملا جیون فرماتے ہیں : يعني إنهما في أصل الواضح للعموم ويستعملان في الخصوص بعارض القرائن. اور ایسی مثالیں خود قرآن میں بکثرت موجود ہیں جن میں کلمہ ((مَا)) عموم کے لئے نہیں، چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہے: وَيُعَلِّمُكُم ما لَم تَكونوا تَعلَمونَ (البقرہ:١٥١) یعنی اور وہ (پیغمبر صلی الله علیہ وسلم) تم کو وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے. اس آیت میں خطاب براہ راست صحابہ کرام سے ہے اور ان کی وساطت سے سارے امت (تا قیامت) اس آیت کی مخاطب ہے، اگر یہاں کلمہ ((مَا)) کا عموم اور استغراق "حقیقی" پر محمول کیا جاۓ جیسا کہ بریلوی حضرات کا خیال ہے تو اس سے لازم آۓ گا کہ تمام صحابہ کرام اور اسے ((مَا كَانَ وَمَا يَكُونُ)) کا کلّی علم غیب حاصل ہو، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں. اسی طرح ایک جگہ فرمایا : وَعُلِّمتُم ما لَم تَعلَموا أَنتُم وَلا ءاباؤُكُم (الانعام:٩١) یعنی اور سکھایا گیا تم کو وہ کچھ جو تم نہ جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا. اس آیت کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے کہ اس میں خطاب یہود سے ہے جیسا کہ اکثر مفسرین نے لکھا ہے اور اگر خطاب مسلمانوں سے ہو تو بھی اگر ((مَا)) کو یہاں استغراق حقیقی کے لئے یہاں لیا جاۓ تو اس سے تمام یہودیوں کو یا تمام مسلمانوں کو غیب دان ماننا پڑے گا جو اس آیت کے مخاطب ہیں. اس آیتوں سے معلوم ہوا کہ ((مَا)) ہر جگہ عموم کیلئے نہیں ہوتا.
ثانیاً : مفسرین کرام نے بھی اس آیت میں ((مَا)) کو خصوص پر محمول کیا ہے اور اس سے مخصوص امور ہی مراد لئے ہیں اور اسے استغراق حقیقی پر کسی نے بھی محمول نہیں کیا. حضرت عبداللہ بن عباس اور مقاتل کہتے ہیں ((مَا)) سے مراد شریعت (كا علم) ہے. قال ابن عباس ومقاتل : هو الشرع . [البحر:٣/٣٤٧] مفسر قرطبی ، امام بغوی ، امام نسفی اور علامہ خازن فرماتے ہیں : ((مَا)) سے امور دین اور احکام شریعت مراد ہیں. وعلمك ما لم تكن تعلم يعني من الشرائع والأحكام . (قرطبي:٥/٣٨٢) يعني من أحكام الشرع وامور الدين (معالم و خازن واللفظ له:١/٤٩٦) من امور الدين والشرائع (مدارك:١/١٩٥) امام ماوردی کہتے ہیں کہ ((مَا)) سے کتاب و حکمت مراد ہیں، وفكر لماوردي الكتاب والحكمة (البحر:٣/٤٣٧)
ثالثاً : ((مَا)) کا یہاں عموم و استغراق پر محمول کرنا آیت کے سیاق و سباق کے بلکل منافی ہے کیونکہ اس سے پہلے إِنّا أَنزَلنا إِلَيكَ الكِتٰبَ بِالحَقِّ (النساء:١٠٥) سے حکم سلطانی بیان فرمایا کہ الله کے نازل کردہ احکام اور اس کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق فیصلہ کیا کرو، اس کے بعد جھوٹی تہمت لگانے والوں اور جھوٹی گواہی دینے والوں کو زجریں کیں، اور پھر فرمایا: وَعَلَّمَكَ ما لَم تَكُن تَعلَمُ ۚ لہذا ((مَا)) سے یہاں وہی کچھ مراد ہے جو حضرات مفسرین نے بیان کیا ہے یعنی احکام شریعت، لہذا علم غیب کلّی مراد لینا سراسر غلط اور باطل ہے، نیز اس آیت سے تھوڑا سا پہلے فرمایا : وَلَولا فَضلُ اللَّهِ عَلَيكَ وَرَحمَتُهُ الخ یعنی اگر آپ پر الله کا فضل اور رحمت نہ ہوتی تو ان منافقوں کی ایک جماعت آپ کو صحیح فیصلے سے بھٹکا دیتی ، اگر آپ کو کلّی علم غیب تھا تو کس طرح ممکن تھا کہ منافق آپ کو بھٹکا دیتے؟ اسی طرح وَلا تَكُن لِلخائِنينَ خَصيمًا (النساء:١٠٥) یعنی نہ ہونا دغابازوں کے لئے جھگڑا و بحث کرنے والا، سے آپ کو جو تنبیہ کی گئی یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو کلّی علم غیب نہیں تھا ورنہ آپ ان جھوٹے منافقین کی کیوں طرفداری کرتے؟
رابعاً : سورہ نساء جس میں یہ آیت ہے اس کے بعد تقریباً ٢٤ سورتیں اور نازل ہوئیں، اگر اس آیت سے آپ کو کلّی علم غیب حاصل ہو چکا تھا تو پھر ان چوبیس سورتوں کو نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟؟؟ نیز سورہ نساء سے بعد میں نازل ہونے والی صورتوں میں سورہ نور، منافقون، تحریم اور توبہ وغیرہ ہیں. سورہ نور میں افک عائشہ رضی الله عنہا کا واقعہ مذکور ہے جس کی وجہ سے حضور صلی الله علیہ وسلم عرصہ تک پریشان رہے، سورہ منافقون میں عبدالله بن ابی اور دوسرے منافقوں کی سازش کا ذکر ہے جس کا آپ کو پتہ نہ چل سکا ، سورہ تحریم میں آپ کے شہد نہ کھانے کی قسم کا ذکر ہے جسے توڑنے کا الله نے آپ کو حکم دیا ، اور سورہ توبہ میں مسجد ضرار کے سلسلہ میں آپ کو اس مسجد میں جانے سے روک دیا حالانکہ آپ اس مسجد کے بانیوں کو مومن مخلص سمجھ کر اس میں جاکر نماز ادا کرنے کا وعدہ فرما چکے تھے، یہ آیتیں تفصیل کے ساتھ وَما كانَ اللَّهُ لِيُطلِعَكُم عَلَى الغَيبِ (سورۃ آل عمران:١٧٩) کی تفسیر میں مذکور ہو چکی ہیں. یہ تمام آیتیں حضور علیہ السلام کی ذات گرامی سے علم غیب کی نفی کرتی ہیں، اس لئے اگر زیر بحث آیت سے حضور علیہ الاسلام کے لئے کلّی علم غیب ثابت کیا جاۓ تو اس سے بعد میں نازل ہونے والی ان آیتوں کی تکذیب لازم آۓ گی ، جو آپ سے کلّی علم غیب کی نفی کرتی ہیں. تفصیل بالا سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ اس آیت سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے لئے کلّی علم غیب ثابت نہیں ہوسکتا.
ایک من گھڑت قاعدہ : بعض مبتدع مولوی کہتے ہیں کہ ((مَا)) عموم کے لئے ہے اور ((عَلَّمَ)) کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے اور مفعول نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہیں، الله تعالیٰ مفیض عام اور حضور علیہ السلام میں استعداد تام تو اس سے ثابت ہوا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کو کلّی علم غیب حاصل تھا. اسکا جواب سورہ علق میں ہے: عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ ما لَم يَعلَم (العلق:٥) میں ((الۡاِنۡسَانَ)) سے بعض مفسرین کے نزدیک نبی کریم صلی الله علیہ وسلم مراد ہیں اور بعض بدعتی مولوی بھی اس کو ترجیح دیتے ہیں، تو یہاں بھی فاعل الله ہیں اور مفعول نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہیں اور سورہ علق کی یہ آیتیں بھی بالاتفاق سارے قرآن سے پہلے نازل ہوئی تھیں، تو اگر ((مَا)) کو عموم اور استغراق حقیقی کیلئے لیا جاۓ اور ((عَلَّمَ)) ماضی کا صیغہ ہے جو گزشتہ زمانہ میں وقوع فعل پر دلالت کرتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ الله تعالیٰ نے اس آیت سے پہلے اور اس کے نزول کے ساتھ آنحضور صلی الله علیہ وسلم کو تمام علوم غیبیہ سکھادیے تھے تو (معاذ الله) پھر سارے قرآن کو نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیونکہ یہ تحصیل حاصل ہے، نیز یہ قانون بھی کسی کتاب میں نہیں لکھا ہوا کہ فاعل اللہ تعالیٰ اور مفعول حضور صلی علیہ السلام کی ذات ہو تو وہاں ہمیشہ عموم ہی مراد لیا جاتا ہے بلکہ شرک پھیلانے کے لئے ان مولویوں نے یہ قاعدہ اپنی طرف سے وضع کیا ہے.
غلط استدلال : مخالفین عموم علم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض حدیثوں سے بھی استدلال کرتے ہیں، مَثَلاً صحیح مسلم میں ہے: ((أَخْبَرَنَا بِمَا كَانَ وَبِمَا هُوَ كَائِنٌ )) تو اس کا جواب یہ ہے کہ علوم غیبیہ کلّیہ یعنی كل ما كان وما يكون مثلا: كل فوجداری اور دیوانی احکام ہندی ، بنگالی ، جرمنی وغیرہ کا بیان کرنا تھوڑے سے وقت میں ناممکن ہے بلکہ یہاں ((مَا)) سے مراد فبذمن امور عظام ہیں یعنی بعض نہایت اہم امور جیسا کہ دوسری روایت میں اس کی تصریح موجود ہے. نیز وہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ شب معراج میں الله تعالیٰ نے میری پشت پر ہاتھ رکھا ((فَتَجَلَّى لِي كُلُّ شَيْءٍ)) تو میرے لئے سب کچھ روشن ہوگیا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ سات صحابہ نے یہ الفاظ بیان کے ہیں ((فَعَلِمْتُ الَّذِي سَأَلَنِي عَنْهُ)) كما هو مصرح في الدر المنثور اور لفظ ((تَجَلَّى لِي كُلُّ شَيْءٍ)) کے بارے میں خازن نے بیہقی سے نقل کیا ہے کہ اس (روایت) کے تمام طرق ضعیف ہیں، لہذا ان حدیثوں سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے کل علم غیب پر استدلال کرنا غلط اور باطل ہے.
إِنّا
أَوحَينا إِلَيكَ كَما أَوحَينا إِلىٰ نوحٍ وَالنَّبِيّۦنَ مِن بَعدِهِ ۚ
وَأَوحَينا إِلىٰ إِبرٰهيمَ وَإِسمٰعيلَ
وَإِسحٰقَ وَيَعقوبَ وَالأَسباطِ وَعيسىٰ وَأَيّوبَ وَيونُسَ وَهٰرونَ
وَسُلَيمٰنَ ۚ وَءاتَينا داوۥدَ زَبورًا {4:163}
|
(اے محمدﷺ) ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی
بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان سے پچھلے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ابراہیم
اور اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولاد یعقوب اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس
اور ہارون اور سلیمان کی طرف بھی ہم نے وحی بھیجی تھی اور داؤد کو ہم نے زبور
بھی عنایت کی تھی
|
وحی کی عظمت و اہمیت:اہل
کتاب اور مشرکین مکہ جملہ کفار قرآن مجید کی حقانیت اور صداقت میں طرح طرح سے
بیہودہ شبہ پیدا کرتے دیکھئے اس موقع میں یہی کہدیا کہ جیسے توریت سب کی سب ایک
دفعہ اتری تھی ایسے ہی تم بھی ایک کتاب آسمان سےلا دو تو ہم تم کو سچا جانیں
بقول شخصے خوئے بدرا بہانہ بسیار سو حق تعالیٰ نے اس جگہ چند آیتیں نازل فرما کر
اس کی حقیقت واضح کر دی اور وحی کی عظمت اور کفار کے سب خیالات اور شبہات بیہودہ
کو رد کر دیا اور وحی الہٰی کی متابعت کو عامۃً اور قرآن مجید کی اطاعت کو تخصیص
کے ساتھ بیان فرما کر بتلا دیا کہ حکم الہٰی کا ماننا سب پر فرض ہے۔ کسی کا کوئی
عذر اس میں نہیں چل سکتا جو اس کے تسلیم کرنے میں تردد یا تامل یا انکار کرے وہ
گمراہ اور بےدین ہے اب یہاں سے تحقیقی جواب دیا جاتا ہے۔
|
انبیائے سابقین اور ان کا پیغام: اس سے معلوم ہو گیا کہ وحی خاص اللہ کا حکم اور اس کا پیام ہے جو
پیغمبروں پر بھیجا جاتا ہے اور انبیائے سابقین پر جیسے وحی الہٰی نازل ہوئی ویسے
ہی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی بھیجی تو جس نے
اس کو مانا اس کو بھی ضرور ماننا چاہئے اور جس نے اس کا انکار کیا گویا ان سب
کا منکر ہو گیا اور حضرت نوحؑ اور ان سے پچھلوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ شاید یہ
ہے کہ حضرت آدمؑ کے وقت سے جو وحی شرع ہوئی تو اس وقت بالکل ابتدائی حالت تھی۔
حضرت نوحؑ پر اس کی تکمیل ہو گئ گویا اول حالت محض تعلیمی حالت تھی حضرت نوحؑ کے
زمانہ میں وہ حالت پوری ہو کر اس قابل ہو گئ کہ ان کا امتحان لیا جائے اور
فرمانبرداروں کو انعام اور نافرمانوں کو سزا دی جائے چنانچہ انبیائے اولوالعزم
کا سلسلہ بھی حضرت نوحؑ سے ہی شروع ہوا اور وحی الہٰی سے سرتابی کرنے والوں پر
بھی اول عذاب حضرت نوحؑ کے وقت سے شروع ہوا۔ خلاصہ یہ ہے کہ پہلے حکم الہٰی اور
انبیاء کی مخالفت پر عذاب نازل نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کو معذور سمجھ کر ان کو
ڈھیل دی جاتی تھی اور سمجھانے ہی میں کوشش کی جاتی تھی حضرت نوحؑ کے زمانہ میں
جب مذہبی تعلیم خوب ظاہر ہو چکی اور لوگوں کو حکم خداوندی کی متابعت کرنے میں
کوئی خفا باقی نہ رہا تو اب نافرمانوں پر عذاب نازل ہوا۔ اول حضرت نوحؑ کے زمانہ
میں طوفان آیا اس کے بعد حضرت ہودؑ حضرت صالحؑ حضرت شعیبؑ وغیرہ کے زمانہ میں
کافروں پر قسم قسم کے عذاب آئے تو آپ کی وحی کو حضرت نوحؑ اور ان سے پچھلوں کی
وحی کے ساتھ تشبیہ دینے میں اہل کتاب اور مشرکین مکہ کو پوری تنبیہ کر دی گئ کہ
جو آپ کی وحی یعنی قرآن کو نہ مانے گا وہ عذاب عظیم کا مستحق ہو گا۔
|
القرآن :
يَومَ
يَجمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقولُ ماذا أُجِبتُم ۖ قالوا لا عِلمَ لَنا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلّٰمُ الغُيوبِ
{5:109}
|
(وہ دن یاد رکھنے کے لائق ہے) جس دن الله پیغمبروں کو جمع کرے گا پھر ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا تھا وہ عرض
کریں گے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں توہی غیب کی باتوں سے واقف ہے
|
حشر میں انبیاء سے اللہ کا سوال:محشر
کے ہولناک دن میں جب خدائے قہار کی شان جلالی کا انتہائی ظہو ر ہو گا اکابر و
اعاظم کے ہوش بجا نہ رہیں گے اولوالعزم انبیاء کی زبان پر نفسی نفسی ہو گا۔ اس
وقت انتہائی خوف و خشیت سے حق تعالیٰ کےسوال کا جواب { لَا عِلْمَ لَنَا } (ہمیں
کچھ خبر نہیں) کے سوا نہ دے سکیں گے۔ پھر جب نبی کریم ﷺ کے طفیل میں سب کی طرف الله کی
نظر لطف و رحمت ہو گی تب کچھ عرض کرنے کی
جرأت کریں گے ۔ حسن و مجاہد وغیرہ سے ایسا ہی منقول ہے۔ لیکن ابن عباس کے نزدیک
{ لَا عِلْمَ لَنَا } کا مطلب یہ ہے کہ خداوندا! تیرے علم کامل و محیط کےسامنے
ہمارا علم کچھ بھی نہیں۔ گویا یہ الفاظ "تادّب معَ اللہ" کے طور پر
کہے۔ ابن جریح کے نزدیک { لَا عِلْمَ لَنَا } سے یہ مراد ہے کہ ہم کو معلوم نہیں
کہ ہمارے پیچھے انہوں نے کیا کچھ کیا۔ ہم صرف ان ہی افعال و احوال پر مطلع ہو
سکتے ہیں جو ہمارےسامنے ظاہری طور پر پیش آئے تھے۔ بواطن و سرائر کا علم علام
الغیوب ہی کو ہے۔ آئندہ رکوع میں حضرت مسیحؑ کی زبانی جو جواب نقل فرمایا ہے {
وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا } الخ اس سے آخری معنی کی تائید ہوتی ہے۔ اور
صحیح حدیث میں ہےکہ جب حوض پر بعض لوگوں کی نسبت حضور فرمائیں گے { ھٰؤلاء
اصحابی } تو جواب ملے گا { لا تدری ما احد ثوابعدک } یعنی آپ کو خبر نہیں کہ آپ
کے پیچھے انہوں نے کیا حرکات کیں۔
|
آیات وصیت کی شان نزول:یہ
سوال محشر میں امتوں کے روبرو پیغمبروں سےکیا جائے گا کہ دنیا میں جب تم ان کے
پاس پیغام حق لے کر گئے تو انھوں نےکیا جواب دیا اور کہاں تک دعوت الہٰی کی
اجابت کی؟ گذشتہ رکوع میں بتلایا تھا کہ الله کے یہاں جانے سے پہلے بذریعہ وصیت
وغیرہ یہاں کا انتظام ٹھیک کر لو۔ اب متنبہ فرماتے ہیں کہ وہاں کی جوابدہی کے
لئے تیار رہو۔
|
قُل
لا أَقولُ لَكُم عِندى خَزائِنُ اللَّهِ وَلا
أَعلَمُ الغَيبَ وَلا أَقولُ لَكُم إِنّى مَلَكٌ ۖ إِن أَتَّبِعُ
إِلّا ما يوحىٰ إِلَىَّ ۚ قُل هَل يَستَوِى الأَعمىٰ وَالبَصيرُ ۚ أَفَلا
تَتَفَكَّرونَ {6:50}
|
کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس الله
تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ (یہ کہ) میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا کہ
میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے (الله کی طرف سے) آتا ہے۔
کہہ دو کہ بھلا اندھا اور آنکھ والے برابر ہوتے ہیں؟ تو پھر تم غور کیوں نہیں
کرتے
|
منصب رسالت کی حقیقت:اس
آیت میں منصب رسالت کی حقیقت پر روشنی ڈالی گئ ہے۔ یعنی کوئی شخص جو مدعی نبوت
ہو اس کا دعویٰ یہ نہیں ہوتا کہ تمام مقدورات الہٰیہ کے خزانے اس کے قبضہ میں
ہیں کہ جب اس سے کسی امر کی فرمائش کی جائے وہ ضرور ہی کر دکھلائے یا تمام
معلومات غیبیہ و شہاد پر خواہ ان کا تعلق فرائض رسالت سے ہو یا نہ ہو اس کو مطلع
کر دیا گیا ہے کہ جو کچھ تم پوچھو وہ فورًا بتلا دیا کرے۔ یا نوع بشر کے علاوہ
وہ کوئی اور نوع ہے جو لوازم و خواص بشریہ سے اپنی برأت و نزاہت کا ثبوت پیش
کرے۔ جب ان باتوں میں سے وہ کسی چیز کا مدعی نہیں تو فرمائشی معجزات اس سےطلب
کرنا یا ازراہ تعنت و عناد اس قسم کا سوال کرنا کہ "قیامت کب آئے گی"۔
یا یہ کہنا کہ "یہ رسول کیسے ہیں جو کھانا کھاتے اور بازاروں میں خریدو
فروخت کے لئے جاتے ہیں" اور ان ہی امور کو معیار تصدیق و تکذیب ٹھہرانا
کہاں تک صحیح ہو سکتا ہے۔
|
نبی اور غیر نبی کا فرق:یعنی اگرچہ پیغمبر
نوع بشر سےعلیحدہ کوئی دوسری نوع نہیں۔ لیکن اس کے اور باقی انسانوں کے درمیان
زمین و آسمان کا فرق ہے۔ انسانی قوتیں دو قسم کی ہیں علمی و عملی۔ قوت علمیہ کے
اعتبار سے نبی اور غیر نبی میں اعمٰی و بصیر (اندھے اور سوانکھے) کا تفاوت
سمجھنا چاہئے۔ نبی کے دل کی آنکھیں ہر وقت مرضیات الہٰی اور تجلیات ربانی کے
دیکھنے کےلئے کھلی رہتی ہیں جس کے بلاواسطہ مشاہدہ سے دوسرے انسان محروم ہیں۔
اور قوت عملیہ کا حال یہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اپنے قول و فعل اور ہر ایک حرکت و
سکون میں رضائے الہٰی اور حکم خداوندی کے تابع و منقاد ہوتے ہیں وحی سماوی اور
احکام الہٰیہ کے خلاف نہ کبھی ان کا قدم اٹھ سکتا ہے نہ زبان حرکت کر سکتی ہے۔
ان کی مقدس ہستی اخلاق و اعمال اور کل واقعات زندگی میں تعلیمات ربانی اور
مرضیات الہٰی کی روشن تصویر ہوتی ہے جسے دیکھ کر غوروفکر کرنے والوں کو ان کی
صداقت اور مامور من اللہ ہونے میں ذرا بھی شبہ نہیں رہ سکتا۔
|
وَعِندَهُ
مَفاتِحُ الغَيبِ لا يَعلَمُها إِلّا هُوَ
ۚ وَيَعلَمُ ما فِى البَرِّ وَالبَحرِ ۚ وَما تَسقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلّا
يَعلَمُها وَلا حَبَّةٍ فى ظُلُمٰتِ الأَرضِ وَلا رَطبٍ وَلا يابِسٍ إِلّا فى
كِتٰبٍ مُبينٍ {6:59}
|
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سوا
کوئی نہیں جانتا۔ اور اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے۔ اور کوئی
پتہ نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور
کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے
|
اللہ کا علم ازلی اور لوح محفوظ:یعنی
لوح محفوظ میں ہے۔ اور لوح محفوظ میں جو چیز ہو گی وہ علم الہٰی میں پہلے ہو گی
اس اعتبار سے مضمون آیت کا حاصل یہ ہوا کہ عالم غیب و شہادت کی کوئی خشک و تر
اور چھوٹی بڑی چیز حق تعالیٰ کے علم ازلی محبط سے خارج نہیں ہو سکتی۔ بناءً علیہ
ان ظالموں کے ظاہری و باطنی احوال اور ان کی سزا دہی کے مناسب وقت و محل کا پورا
پورا علم اسی کو ہے (تنبیہ) "مفاتیح" کو جن علماء نے مفتح بفتح المیم
کی جمع قرار دیا ہے انہوں نے "مفاتیح الغیب" کا ترجمہ "غیب کے
خزانوں" سے کیا اور جن کے نزدیک مفتح بکسر المیم کی جمع ہے وہ "مفاتیح
الغیب" کا ترجمہ مترجمؒ کے موافق کرتے ہیں یعنی "غیب کی کنجیاں"
مطلب یہ ہے کہ غیب کے خزانے اور ان کی کنجیاں صرف الله کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ ہی ان
میں سے جس خزانہ کو جس وقت اور جس قدر چاہے کسی پر کھول سکتا ہے کسی کو یہ قدرت
نہیں کہ اپنے حواس و عقل وغیرہ آلات ادراک کے ذریعہ سے علوم غیبیہ تک رسائی
پاسکے یا جتنے غیوب اس پر منکشف کر دیے گئے ہیں ان میں ازخود اضافہ کر لے کیونکہ
علوم غیبیہ کی کنجیاں اس کے ہاتھ میں نہیں دی گئیں۔ خواہ لاکھوں کروڑوں جزئیات و
واقعات غیبیہ پر کسی بندے کو مطلع کر دیا گیا ہو۔ تاہم غیب کے اصول و کلیات کا
علم جن کو "مفاتیح غیب" کہنا چاہئیے حق تعالیٰ نے اپنے ہی لئے مخصوص
رکھا ہے۔
|
يَسـَٔلونَكَ
عَنِ السّاعَةِ أَيّانَ مُرسىٰها ۖ قُل إِنَّما عِلمُها عِندَ رَبّى ۖ لا
يُجَلّيها لِوَقتِها إِلّا هُوَ ۚ ثَقُلَت فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۚ لا
تَأتيكُم إِلّا بَغتَةً ۗ يَسـَٔلونَكَ كَأَنَّكَ حَفِىٌّ عَنها ۖ قُل إِنَّما
عِلمُها عِندَ اللَّهِ وَلٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ {7:187}
|
(یہ لوگ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے
ہیں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کب ہے۔ کہہ دو کہ اس کا علم تو میرے پروردگار ہی
کو ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کردےگا۔ وہ آسمان وزمین میں ایک بھاری بات
ہوگی اور ناگہاں تم پر آجائے گی۔ یہ تم سے اس طرح دریافت کرتے ہیں کہ گویا تم اس
سے بخوبی واقف ہو۔ کہو کہ اس کا علم تو الله ہی کو ہے لیکن اکثر لوگ یہ نہیں
جانتے
|
قیامت کا علم صرف اللہ کو ہے:پہلے
{ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُھُمْ } میں خاص اس قسم کی اجل
(موت) کا ذکر تھا کہ انہیں کچھ معلوم نہیں کب آ جائے۔ یہاں تمام دنیا کی اجل
(قیامت) کے متعلق متنبہ فرما دیا کہ جب کسی کو خاص اپنی موت کا علم نہیں کب آئے
پھر کل دنیا کی موت کو کون بتلا سکتا ہے کہ فلاں تاریخ اور فلاں سنہ میں آئے گی۔
اس کے تعین کا علم بجز خدائے علام الغیوب کسی کے پاس نہیں۔ وہ ہی وقت معین و
مقدر پر اسے واقع کر کے ظاہرکر دے گا کہ الله کے علم میں اس کا یہ وقت تھا آسمان
و زمین میں وہ بڑا بھاری واقعہ ہو گا اور اس کا علم بھی بہت بھاری ہے جو الله کے
سوا کسی کو حاصل نہیں۔ گو اس واقعہ کی امارات (بہت سی نشانیاں) انبیاءؑ خصوصًا
ہمارے پیغمبر آخر الزماں ﷺ نے بیان فرمائی ہیں تاہم ان سب
علامات کے ظہور کے بعد بھی جب قیامت کا وقوع ہو گا تو بالکل بےخبری میں اچانک
اور دفعۃً ہو گا۔ جیسا کہ بخاری وغیرہ کی احادیث میں تفصیلًا مذکور ہے۔
|
ان لوگوں کے طرز
سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا وہ آپ کی نسبت یوں سمجھتے ہیں کہ آپ بھی اسی مسئلہ
کی تحقیق و تفتیش اور کھوج لگانے میں مشغول رہے ہیں اور تلاش کے بعد اس کے علم
تک رسائی حاصل کر چکے ہیں حالانکہ یہ علم حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ مخصوص ہے۔
انبیاءؑ اس چیز کے پیچھے نہیں پڑا کرتے جس سے الله نے اپنی مصلحت کی بناء پر روک
دیا ہو۔ نہ ان کے اختیار میں ہے کہ جو چاہیں کوشش کر کے ضرور ہی معلوم کر لیا
کریں۔ ان کا منصب یہ ہے کہ جن بےشمار علوم و کمالات کا الله کی طرف سے افاضہ ہو
نہایت شکر گذاری او ر قدر شناسی کے ساتھ قبول کرتے رہیں۔ مگر ان باتوں کو اکثر
عوام کالانعام کیا سمجھیں۔
|
قُل
لا أَملِكُ لِنَفسى نَفعًا وَلا ضَرًّا إِلّا ما شاءَ اللَّهُ ۚ وَلَو كُنتُ
أَعلَمُ الغَيبَ لَاستَكثَرتُ مِنَ الخَيرِ وَما مَسَّنِىَ السّوءُ ۚ إِن أَنا۠
إِلّا نَذيرٌ وَبَشيرٌ لِقَومٍ يُؤمِنونَ {7:188}
|
کہہ دو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی
اختیار نہیں رکھتا مگر جو الله چاہے اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت
سے فائدے جمع کرلیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو مومنوں کو ڈر اور
خوشخبری سنانے والا ہوں
|
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صفت علم غیب حاصل
نہیں :اس
آیت میں بتلایا گیا ہے کہ کوئی بندہ خواہ کتنا ہی بڑا ہو نہ اپنے اندر
"اختیار مستقل" رکھتا ہے نہ "علم محیط" سیدالانبیاء ﷺ
جو علوم اولین و آخرین کے حامل اور خزائن ارضی کی کنجیوں کے امین بنائے گئے تھے۔
ان کو یہ اعلان کرنے کا حکم ہے کہ میں دوسروں کو کیا خود اپنی جان کو بھی کوئی
نفع نہیں پہنچا سکتا نہ کسی نقصان سے بچا سکتا ہوں ۔ مگر جس قدر اللہ چاہے اتنے
ہی پر میرا قابو ہے۔ اور اگر میں غیب کی ہر بات جان لیا کرتا تو بہت سی وہ
بھلائیاں اور کامیابیاں بھی حاصل کر لیتا جو علم غیب نہ ہونے کی وجہ سے کسی وقت
فوت ہو جاتی ہیں نیز کبھی کوئی ناخوشگوار حالت مجھ کو پیش نہ آیا کرتی۔ مثلًا
"افک" کے واقعہ میں کتنے دنوں تک حضور ﷺ کو وحی نہ آنے کی وجہ سے
اضطراب و قلق رہا۔ حجۃ الوداع میں تو صاف ہی فرما دیا {
لَوْاسْتَقبَلْتُ مِنْ اَمْرِیَ ما اسْتَدْ بَرْتُ لَمَا سُقْتُ الھَدْیَ } (اگر
میں پہلے سے اس چیز کو جانتا جو بعد میں پیش آئی تو ہرگز ہدی کا جانور اپنے ساتھ
نہ لاتا) اسی قسم کے بیسیوں واقعات ہیں جن کی روک تھام "علم محیط" رکھنے
کی صورت میں نہایت آسانی سے ممکن تھی۔ ان سب سے بڑھ کر عجیب تر واقعہ یہ ہے کہ
"حدیث جبرئیل" کی بعض روایات میں آپ نے تصریحًا فرمایا کہ یہ پہلا
موقع ہے کہ میں نے جبرئیل کو واپسی کے وقت تک نہیں پہچانا۔ جب وہ اٹھ کر چلے گئے
تب علم ہوا کہ جبرئیل تھے۔ یہ واقعہ بتصریح محدثین بالکل آخر عمر کا ہے۔ اس میں
قیامت کے سوال پر { ما المسئولُ عَنْھَا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِل } ارشاد
فرمایا ہے۔ گویا بتلا دیا گیا کہ "علم محیط" الله کے سوا کسی کو حاصل
نہیں۔ اور "علم غیب" تو درکنار محسوسات و مبصرات کا پورا علم بھی الله ہی کے عطا کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ کسی وقت نہ چاہے تو ہم محسوسات کا بھی اور
ادراک نہیں کر سکتے۔ بہرحال اس آیت میں کھول کر بتلا دیا گیا کہ "اخیتار
مستقل" یا "علم محیط" نبوت کے لوازم میں سے نہیں۔ جیسا کہ بعض
جہلاء سمجھتے تھے۔ ہاں شرعیات کا علم جو انبیاءؑ کے منصب سےمتعلق ہے کامل ہونا
چاہئے اور تکوینیات کا علم الله تعالیٰ جس کو جس قدر مناسب جانے عطا فرماتا ہے۔
اس نوع میں ہمارے حضور ﷺ تمام اولین و آخرین سے فائق ہیں۔ آپ کو اتنے
بیشمار علوم و معارف حق تعالیٰ نے مرحمت فرمائے ہیں جن کا احصاء کسی مخلوق
کی طاقت میں نہیں۔
|
وَمِمَّن
حَولَكُم مِنَ الأَعرابِ مُنٰفِقونَ ۖ وَمِن أَهلِ المَدينَةِ ۖ مَرَدوا عَلَى
النِّفاقِ لا تَعلَمُهُم ۖ نَحنُ نَعلَمُهُم
ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَرَّتَينِ ثُمَّ يُرَدّونَ إِلىٰ عَذابٍ عَظيمٍ {9:101}
|
اور تمہارے گرد و نواح کے بعض دیہاتی منافق ہیں اور
بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں تم انہیں نہیں جانتے۔ ہم جانتے ہیں۔ ہم
ان کو دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے
|
اہل مدینہ اور اعراب منافقین:پہلے
سے دیہاتی عربوں کا ذکر چلا آ رہا تھا۔ درمیان میں اعراب و مومنین کے تذکرہ سے
مہاجرین و انصار کی طرف کلام منتقل ہو گیا۔ اب اس آیت میں خاص مدینہ اور اس کے
آس پاس رہنے والوں کا بیان ہے یعنی بعض اہل مدینہ اور گردوپیش کے رہنے والے نفاق
کے خوگر ہو چکے اور اسی پر اڑے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ نفاق اس قدر عریق و عمیق ہے کہ
ان کے قرب مکانی اور نبی کریم ﷺ کی کمال فطانت و
فراست کے باوجود آپ بھی بالتعین اور قطعی طور پر محض علامات و قرائن سے ان کے
نفاق پر مطلع نہیں ہو سکتے ان کا ٹھیک ٹھیک تعین صرف الله کے علم میں ہے۔ جس طرح
عام منافقین کا پتہ چہرہ لب و لہجہ اور بات چیت سے لگ جاتا تھا۔ { وَلَوْ
شِئْنَا لَاَرَیْنَا کَھُمْ فَلَعَرَ فتَھُمْ۔ وَلَتَعْرِفَنَّھُمْ فِیْ لَحْنِ
الْقَوْلِ } ان کا نفاق اتنا گہرا ہے کہ اس قسم کی ظاہری علامات ان کا پردہ فاش
نہیں کرتیں۔
|
منافقین کے لئے بڑا عذاب:بڑا عذاب دوزخ کا ہے اِنَّ
الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ (نساء۔۱۴۵) اس سے قبل کم ازکم دوبار ضرور عذاب میں مبتلا کئے جائیں
گے ۔ ایک عذاب قبر دوسرا عذاب جو اسی دنیوی زندگی میں پہنچ کر رہے گا مثلاً ابن
عباس کی ایک روایت کے موافق حضور ﷺ نے جمعہ کے روز ممبر پر
کھڑے ہو کر تقریباً چھتیس آدمیوں کو نام بنام پکار کر فرمایا اُخْرُجْ فَاِنَّکَ
مُنَافِقٌ یعنی تو منافق ہے مسجد سے نکل جا۔ یہ رسوائی ایک قسم عذاب کی تھی۔
یاپہلے اسی سورت میں گذرا کہ ان کے اموال و اولاد کو حق تعالیٰ نے ان کے حق میں عذاب بنا دیا۔ فَلَا تُعۡجِبۡکَ
اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ
لِیُعَذِّبَہُمۡ بِہَا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا (توبہ۔۵۵) الخ یا ان میں کے بعض بھوک وغیرہ آفات ارضی و سماوی میں
مبتلا ہو کر ذلت کی موت مرے یا اسلام کی ترقی و عروج کو دیکھ کر غیظ کھانا اور
دانت پیسنا یہ بھی ان کے حق میں سوہان روح تھا۔ میرےنزدیک یہ سب قسموں کے عذاب
مرتین کے احاطہ میں داخل ہیں۔ اور دو کا عدد یا تو مطلق تعدد کے لئے ہے جیسے
ثُمَّ ارۡجِعِ الۡبَصَرَ کَرَّتَیۡنِ (الملک۔۴) میں۔ اور یا دو بار سے مراد نوعی اِثنینیت ہے ۔ یعنی
عذاب قبر اور عذاب قبل الموت واللہ اعلم۔
|
وَلا
أَقولُ لَكُم عِندى خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعلَمُ
الغَيبَ وَلا أَقولُ إِنّى مَلَكٌ وَلا أَقولُ لِلَّذينَ تَزدَرى
أَعيُنُكُم لَن يُؤتِيَهُمُ اللَّهُ خَيرًا ۖ اللَّهُ أَعلَمُ بِما فى
أَنفُسِهِم ۖ إِنّى إِذًا لَمِنَ الظّٰلِمينَ {11:31}
|
میں نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس الله کے خزانے
ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ
ان لوگوں کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ الله ان کو
بھلائی (یعنی اعمال کی جزائے نیک) نہیں دے گا جو ان کے دلوں میں ہے اسے الله خوب
جانتا ہے۔ اگر میں ایسا کہوں تو بےانصافوں میں ہوں
|
حضرت نوح علیہ السلام کی تقریر: کفار نے نوحؑ کو کہا تھا کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو جتھے اور دولت کے
اعتبار سے بھی کچھ امتیاز نہیں رکھتے اس کا جواب نہایت متانت و انصاف کے ساتھ
دیتے ہیں کہ بیشک جیسا امتیاز تم دیکھنا چاہتے ہو اس کا ہم دعویٰ نہیں رکھتے۔
بلاشبہ میں ایک بشر ہوں ، فرشتہ نہیں نہ الله نے اپنے سارے خزانے میرے تصرف و
اختیار میں دیدیے ہیں ، نہ تمام غیب کی باتوں پر مطلع کیا گیا ہوں ، لیکن ان تمام
باتوں کے اعتراف کے ساتھ تمہاری طرح یہ کبھی نہ کہوں گا کہ جو لوگ تمہاری نگاہ
میں معیوب و حقیر ہیں (یعنی میں اور میرے رفقاء) ان کو الله ہرگز کوئی خیر
(بھلائی) نہیں دے سکتا۔ مثلاً ان میں سے کسی کو نبوت و حکمت عطا فرما دے اور
باقیوں کو ایمان و عرفان کی دولت سے بہرہ ور کرے۔ خوب سمجھ لو حق تعالیٰ ان
کےدلوں کی استعدادات و کیفیات کو پوری طرح جانتا ہے۔ ہر ایک کی استعداد کے مناسب
فیض پہنچاتا اور باطنی احوال و کیفیات کے موافق برتاؤ کرتا ہے۔ اس نےجو خاص
مہربانی مجھ پر یا میرے ساتھیوں پر کی ہے ، وہ تمہاری آنکھ سے پوشیدہ ہے ۔ اگر
میں یہ کہنے لگوں کہ جو تمہیں بظاہر شکستہ حال اور حقیر دکھائی دیتےہیں۔ الله تعالیٰ نے بھی جو بواطن کا جاننے والا ہے انہیں کوئی عزت و شرف نہیں بخشا ، تو
نہایت بے اصول اور ناانصافی کی بات ہو گی۔ (تنبیہ) اس آیت کے ابتدائی تین جملے
سورہ انعام میں گذر چکے ۔ وہاں کے فوائد میں دیکھ لئے جائیں۔
|
تِلكَ مِن أَنباءِ الغَيبِ نوحيها إِلَيكَ ۖ ما كُنتَ تَعلَمُها أَنتَ وَلا قَومُكَ مِن قَبلِ هٰذا ۖ فَاصبِر ۖ إِنَّ العٰقِبَةَ لِلمُتَّقينَ {11:49}
|
یہ (حالات) منجملہ غیب کی خبروں کے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں۔ اور اس سے پہلے نہ تم ہی ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم (ہی ان سے واقف تھی) تو صبر کرو کہ انجام پرہیزگاروں ہی کا (بھلا) ہے
|
یعنی یہ دلائل نبوت میں سے ہے کہ ایک امّی کی زبان سے امم سابقہ کے ایسے مستند و مفصل واقعات سنوائے جائیں۔
|
جیسے نوحؑ اور ان کے رفقاء کے انجام بھلا ہوا آپ کے ساتھیوں کا مستقبل بھی نہایت تابناک اور کامیاب ہے۔ آپ کفار کی ایذاؤں پر صبر کریں ، گھبرا کر تنگدل نہ ہوں۔ جیسے نوحؑ نے ساڑھے نو سو برس صبر کیا۔
|
ذٰلِكَ
مِن أَنباءِ الغَيبِ نوحيهِ إِلَيكَ ۖ وَما كُنتَ
لَدَيهِم إِذ أَجمَعوا أَمرَهُم وَهُم يَمكُرونَ {12:102}
|
(اے پیغمبر) یہ اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم
تمہاری طرف بھیجتے ہیں اور جب برادران یوسف نے اپنی بات پر اتفاق کیا تھا اور وہ
فریب کر رہے تھے تو تم ان کے پاس تو نہ تھے
|
ان واقعات کا علم آنحضرت ﷺ کی نبوت کی
دلیل ہے:یعنی
برادران یوسفؑ جب ان کو باپ سےجدا کرنے اور کنویں میں ڈالنےکو مشورے اور تدبیریں
کر رہے تھے آپ ان کے پاس نہیں کھڑے تھے کہ ان کی باتیں سنتے اور حالات کا معائنہ
کرتے ۔ پھر ایسے صحیح واقعات بجز وحی الہٰی کے آپ کو کس نے بتائے ۔ آپ رسمی طور
پر پڑھے لکھے نہیں ، کسی ظاہری معلم سے استفادہ کی نوبت نہیں ، پھر یہ حقائق جن
کی اس قدر تفصیل بائیبل میں بھی نہیں ، آپ کو الله کے سوا کس نے معلوم کرائیں۔
|
يَعلَمُ
ما بَينَ أَيديهِم وَما خَلفَهُم وَلا يُحيطونَ بِهِ
عِلمًا {20:110}
|
جو کچھ ان کے آگے ہے اور کچھ ان کے پیچھے ہے وہ اس
کو جانتا ہے اور وہ (اپنے) علم سے اس (کے علم) پر احاطہ نہیں کرسکتے
|
یعنی
الله کا علم سب کو محیط ہے لیکن بندوں کا علم اس کو یا اس کی معلومات کو محیط
نہیں ۔ اس لئے وہ اپنےعلم محیط سے جانتا ہے کس کو کس کے لئے شفاعت کا موقع دینا
چاہئے۔
|
قُل
لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ
إِلَّا اللَّهُ ۚ وَما يَشعُرونَ أَيّانَ يُبعَثونَ {27:65}
|
کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں الله کے
سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے۔ اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کب (زندہ کرکے) اٹھائے
جائیں گے
|
اللہ کی قدرت تامہ اور علم محیط:اس
آیت میں مضمون سابق کی تکمیل اور مضمون لاحق کی تمہید ہے۔ شروع پارہ سے یہاں تک
حق تعالیٰ کی قدرت تامہ، رحمت عامہ اور ربوبیت کاملہ کا بیان تھا۔ یعنی جب وہ ان
صفات و شئون میں منفرد ہے تو الوہیت و معبودیت میں بھی منفرد ہونا چاہئے۔ آیت
حاضرہ میں اس کی الوہیت پر دوسری حیثیت سے استدلال کیا جا رہا ہے۔ یعنی معبود وہ
ہو گا جو قدرت تامہ کے ساتھ علم کامل و محیط بھی رکھتا ہو۔ اور یہ وہ صفت ہے جو
زمین و آسمان میں کسی مخلوق کو حاصل نہیں، اسی رب العزت کے ساتھ مخصوص ہے پس اس
اعتبار سے بھی معبود بننے کی مستحق اکیلی اس کی ذات ہوئی۔ (تنبیہ)۔ عالم الغیب
کے الفاظ کا استعمال: کل مغیبات کا علم بجز الله کے کسی کو حاصل نہیں، نہ کسی ایک
غیب کا علم کسی شخص کو بالذات بدون عطائے الہٰی کے ہو سکتا ہے۔ اور نہ مفاتیح
(غیب کی کنجیاں جن کا ذکر سورہ "انعام" میں گذر چکا) اللہ نے کسی
مخلوق کو دی ہیں۔ ہاں بعض بندوں کو بعض غیوب پر باختیار خود مطلع کر دیتا ہے جس
کی وجہ سے کہہ سکتے ہیں کہ فلاں شخص کو حق تعالیٰ نے غیب پر مطلع فرما دیا، غیب
کی خبر دے دی۔ لیکن اتنی بات کی وجہ سے قرآن و سنت نے کسی جگہ ایسے شخص پر
"عالم الغیب" یا "فلان یعلم الغیب" کا اطلاق نہیں کیا۔ بلکہ
احادیث میں اس پر انکار کیا گیا ہے۔ کیونکہ بظاہر یہ الفاظ اختصاص علم الغیب
بذات الباری کے خلاف موہم ہوتے ہیں۔ اسی لئے علمائے محققین اجازت نہیں دیتے کہ
اس طرح کے الفاظ کسی بندہ پر اطلاق کئے جائیں۔ گو لغۃً صحیح ہوں کسی کا یہ کہنا
کہ { اِنَّ اللہَ لَا یَعْلَمُ الْغَیْبَ } (اللہ کو غیب کا علم نہیں) گو اس کی
مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے کوئی چیز غیب ہے ہی نہیں، سخت ناروا اور
سوء ادب ہے۔ یا کسی کاحق سے موت اور فتنہ سے اولاد اور رحمت سے بارش مراد لے کر
یہ الفاظ کہنا { انی اکرہ الحق وَاُحِبُّ الفتنۃ وافِرُّ مِنَ الرَّحْمَۃِ }
(میں حق کو برا سمجھتا ہوں اور فتنہ کو محبوب رکھتا ہوں اور رحمت سے دور بھاگتا
ہوں) سخت مکرو اور قبیح ہے، حالانکہ باعتبار نیت و مراد کے قبیح نہ تھا اسی طرح
فلاں عالم الغیب وغیرہ الفاظ کو سمجھ لو۔ اور واضح رہے کہ علم غیب سے ہماری مراد
محض ظنون و تخمینات نہیں اور نہ وہ علم جو قرائن و دلائل سے حاصل کیا جائے۔ بلکہ
جس کے لئے کوئی دلیل و قرینہ موجود نہ ہو وہ مراد ہے۔ سورہ انعام و اعراف میں اس
کے متعلق کسی قدر لکھا جا چکا ہے۔ وہاں مراجعت کر لی جائے۔
|
یعنی قیامت کب آئے
گی جس کے بعد مردے دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اس کی خبر کسی کو نہیں ۔ پہلے سے
مبداء کا ذکر چلا آتا تھا۔ یہاں سے معاد کا شروع ہوا۔
|
لَا يَعْلَمُ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ، أي: مَا كَانَ وَمَا يَكُون إلى أبد الآبدين لا يعلم ذلك إلا اللَّه وإن أعلموا وعلموا ذلك.
ترجمہ:
نہیں کوئی رکھتا علم غیب سوائے اللہ کے، یعنی: جو ہوچکا اور جو ہوگا ہمیشہ ہمیشہ تک، نہیں کوئی علم رکھتا اس کا مگر اللہ ہی اور اگر وہ لوگ اس کا علم رکھتے تو اس پر عمل کرتے۔
[تفسير الماتريدي(م333ھ) = تأويلات أهل السنة: سورۃ النمل: آیۃ 65]
وَما
كُنتَ بِجانِبِ الغَربِىِّ إِذ قَضَينا إِلىٰ موسَى الأَمرَ وَما كُنتَ مِنَ الشّٰهِدينَ {28:44}
|
اور جب ہم نے موسٰی کی طرف حکم بھیجا تو تم (طور
کی) غرب کی طرف نہیں تھے اور نہ اس واقعے کے دیکھنے
والوں میں تھے
|
یعنی
کوہ طور کے غرب کی جانب جہاں موسٰیؑ کو نبوت اور تورات ملی۔
|
وَلٰكِنّا
أَنشَأنا قُرونًا فَتَطاوَلَ عَلَيهِمُ العُمُرُ ۚ وَما
كُنتَ ثاوِيًا فى أَهلِ مَديَنَ تَتلوا عَلَيهِم ءايٰتِنا وَلٰكِنّا
كُنّا مُرسِلينَ {28:45}
|
لیکن ہم نے (موسٰی کے بعد) کئی اُمتوں کو پیدا کیا
پھر ان پر مدت طویل گذر گئی اور نہ تم
مدین والوں میں رہنے والے تھے کہ ان کو
ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے تھے۔ ہاں ہم ہی تو پیغمبر بھیجنے والے تھے
|
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر استدلال:یعنی
تو اس وقت کے واقعات تو ایسی صحت و صفائی اور بسط و تفصیل سے بیان کر رہا ہے
جیسے وہیں "طور" کے پاس کھڑ ادیکھ رہا ہو۔ حالانکہ تمہارا موقع پر
موجود نہ ہونا ظاہر ہے اور ویسے بھی سب جانتے ہیں تم امی ہو۔ کسی عالم کی صحبت
میں بھی نہیں رہے۔ نہ ٹھیک ٹھیک صحیح واقعات کا کوئی جید عالم مکہ میں موجود
تھا۔ پھر غور کرنے کا مقام ہے کہ یہ علم کہاں سے آیا حقیقت یہ ہے کہ اقوام دنیا
پر مدتیں اور قرن گذر گئے، مرورد ہور سے وہ علوم محرف و مندرس ہوتے جا رہے تھے
اور وہ ہدایت مٹتی جا رہی تھیں۔ لہذا اس علیم و خبیر کا ارادہ ہوا کہ ایک امی کی
زبان سے بھولے ہوئے سبق یاد دلائے جائیں اور ان عبرتناک و موعظت آمیز واقعات کا
ایسا صحیح فوٹو دنیا کے سامنے پیش کر دیا جائے جس پر نظر کر کے بے اختیار ماننا
پڑے کہ اس کا پیش کرنے والا موقع پر موجود تھا اور اپنی آنکھوں سے من و عن
کیفیات کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ پس ظاہر ہے کہ تم تو وہاں موجود نہ تھے، بجز اس کے
کیا کہا جائے کہ جو الله آپ کی زبان سے بول رہا ہے اور جس کے سامنے ہرغائب بھی
حاضر ہے یہ بیان اسی کا ہو گا۔
|
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پچھلے واقعات کا علم:یعنی موسٰیؑ کو
"مدین" جا کر جو واقعات پیش آئے ان کا اس خوبی و صحت سے بیان تو یہ
ظاہر کرتا ہے کہ گویا اس وقت تم شان پیغمبری کے ساتھ وہیں سکونت پذیر تھے اور جس
طرح آج اپنے وطن مکہ میں اللہ کی آیات پڑھ کر سنا رہے ہو، اس وقت
"مدین" والوں کو سناتے ہو گے حالانکہ یہ چیز صریحًا منفی ہے۔ بات صرف
اتنی ہے کہ ہم ہمیشہ سے پیغمبر بھیجتے رہے ہیں جو دنیا کو غفلت سے چونکاتے اور
گذشتہ عبرتناک واقعات یاد دلاتے رہے۔ اسی عام عادت کے موافق ہم نے اس زمانہ میں
تم کر رسول بنا کر بھیجا کہ پچھلے قصے یاد دلاؤ۔ اور خواب غفلت سے مخلوق کو
بیدار کرو۔ اس لئے ضروری ہوا کہ ٹھیک ٹھیک واقعات کا صحیح علم تم کو دیا جائے
اور تمہاری زبان سے ادا کرایا جائے۔
|
وَما كُنتَ بِجانِبِ الطّورِ إِذ نادَينا وَلٰكِن رَحمَةً مِن
رَبِّكَ لِتُنذِرَ قَومًا ما أَتىٰهُم مِن نَذيرٍ مِن قَبلِكَ لَعَلَّهُم
يَتَذَكَّرونَ {28:46}
|
اور نہ تم اس وقت
جب کہ ہم نے (موسٰی کو) آواز دی طور کے کنارے تھے
بلکہ (تمہارا بھیجا جانا) تمہارے پروردگار کی رحمت ہے تاکہ تم اُن لوگوں کو جن
کے پاس تم سے پہلے کوئی ہدایت کرنے والا نہیں آیا ہدایت کرو تاکہ وہ نصیحت پکڑیں
|
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پچھلے واقعات کا علم:یعنی
جب موسٰیؑ کو آواز دی { اِنِّی اَنَا اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ } تم وہاں کھڑے
سن نہیں رہے تھے۔ یہ حق تعالیٰ کا انعام ہے کہ آپ کو ان واقعات و حقائق پر مطلع
کیا اور تمہارے ساتھ بھی اسی نوعیت کا برتاؤ کیا جو موسٰیؑ کے ساتھ ہوا تھا۔
گویا "جبل النور" (جہاں غار حرا ہے) اور "مکہ"
"مدینہ" میں "جبل طور" اور "مدین" کی تاریخ دہرا
دی گئ۔
|
یعنی عرب کے لوگوں
کو یہ چیزیں بتلا کر خطرناک عواقب سے آگاہ کر دیں۔ ممکن ہے وہ سن کر یاد رکھیں
اور نصیحت پکڑیں۔ (تنبیہ) { مَااُنْذِرَ اٰبَاؤھُم } سے شاید آبائے اقربین مراد
ہوں گے۔ واللہ اعلم۔
|
إِنَّ
اللَّهَ عِندَهُ عِلمُ السّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الغَيثَ وَيَعلَمُ ما فِى
الأَرحامِ ۖ وَما تَدرى نَفسٌ ماذا
تَكسِبُ غَدًا ۖ وَما تَدرى نَفسٌ
بِأَىِّ أَرضٍ تَموتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ خَبيرٌ {31:34}
|
الله ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینھہ برساتا
ہے۔ اور وہی (حاملہ کے) پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے (کہ نر ہے یا مادہ) اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا۔
اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کس سرزمین
میں اُسے موت آئے گی بیشک الله ہی جاننے والا (اور) خبردار ہے
|
تقدیر الٰہی اور تدبیر کا تعلق:یعنی
قیامت آ کر رہے گی۔ کب آئے گی؟ ا سکا علم الله کے پاس ہے۔ نہ معلوم کب یہ کارخانہ
توڑ پھوڑ کر برابر کر دیا جائے۔ آدمی دنیا کے باغ و بہار اور وقتی تازگی پر
ریجھتا ہے، کیا نہیں جانتا کہ علاوہ فانی ہونے کے فی الحال بھی یہ چیز اور اس کے
اسباب سب الله کے قبضہ میں ہیں۔ زمین کی ساری رونق اور مادی برکت (جس پر تمہاری
خوشحالی کا مدار ہے) آسمانی بارش پر موقوف ہے۔ سال دو سال مہینہ نہ برسے تو ہر
طرف خاک اڑنے لگے۔ نہ سامان معیشت رہیں نہ اسباب معیشت رہیں، نہ اسباب راحت، پھر
تعجب ہے کہ انسان دنیا کی زینت اور تروتازگی پر فریفتہ ہو کر ا س ہستی کو بھول
جائے جس نے اپنی باران رحمت سے اس کو تروتازہ اور پر رونق بنا رکھا ہے۔ علاوہ
بریں کسی شخص کو کیا معلوم ہے کہ دنیا کے عیش و آرام میں اس کا کتنا حصہ ہے۔ بہت
سے لوگ کوشش کر کے اور ایڑیاں رگڑ کر مر جاتے ہیں لیکن زندگی بھر چین نصیب نہیں
ہوتا۔ بہت ہیں جنہیں بے محنت دولت مل جاتی ہے۔ یہ دیکھ کر بھی کوئی آدمی جو دین
کےمعاملہ میں تقدیر الہٰی پر بھروسہ کئے بیٹھا ہو، دنیوی جدوجہد میں تقدیر پر
قانع ہو کر ذرہ برابر کمی نہیں کرتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ تدبیر کرنی چاہئے۔ کیونکہ
اچھی تقدیر عمومًا کامیاب تدبیر ہی کے ضمن میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ علم الله کو ہے
کہ فی الواقع ہماری تقدیر کیسی ہو گی اور صحیح تدبیر بن پڑے گی یا نہیں ۔ یہ ہی
بات اگر ہم دین کے معاملہ میں سمجھ لیں تو شیطان کے دھوکہ میں ہرگز نہ آئیں بیشک
جنت دوزخ جو کچھ ملے گی تقدیر سے ملے گی جس کا علم الله کو ہے مگر عمومًا اچھی یا
بری تقدیر کا چہرہ، اچھی یا بری تدبیر کے آئینہ میں نطر آتا ہے۔ اس لئے تقدیر کا
حوالہ دے کر ہم تدبیر کو نہیں چھوڑ سکتے۔ کیونکہ یہ پتہ کسی کو نہیں کہ اللہ کے
علم میں وہ سعید ہے یا شقی۔ جنتی ہے یا دوزخی، مفلس ہے یا غنی لہذا ظاہری عمل
اور تدبیر ہی وہ چیز ہوئی جس سے عادۃً ہم کو نوعیت تقدیر کا قدرے پتہ چل جاتا
ہے۔ ورنہ یہ علم تو حق تعالیٰ ہی کو ہے کہ عورت کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی اور
پیدا ہونے کے بعد اس کی عمر کیا ہو، روزی کتنی ملے، سعید ہو یا شقی، اس کی طرف {
وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ } میں اشارہ کیا ہے۔ رہا شیطان کا یہ دھوکا کہ
فی الحال تو دنیا کے مزے اڑا لو، پھر توبہ کر کے نیک بن جانا، اس کا جواب ہے {
وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَاتَکْسِبَ غَدًا } الخ میں دیا ہے۔ یعنی کسی کو خبر
نہیں کہ کل وہ کیا کرے گا؟ اور کچھ کرنے کے لئے زندہ بھی رہے گا؟ کب موت آ جائے
گی اور کہاں آئے گی؟ پھر یہ وثوق کیسے ہو کہ آج کی بدی کا تدارک کل نیکی سے ضرور
کر لے گا اور توبہ کی توفیق ضرور پائے گا؟ ان چیزوں کی خبر تو اسی علیم و خبیر
کو ہے۔ (تنبیہ) اللہ کا علم غیب اور رسول اللہ کا علم غیب: یاد رکھنا چاہئے کہ
مغیبات جنس احکام سے ہوں گی یا جنس اکوان سے، پھر اکوان غیبیہ زمانی ہیں یا
مکانی، اور زمانی کی باعتبار ماضی، مستقبل، حال کے تین قسمیں کی گئ ہیں۔ ان میں
سے احکام غیبیہ کا کلی علم پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمایا گیا۔ {
فَلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ }
الیٰ آخرالآیۃ (جن رکوع۲) جس
کی جزئیات کی تفصیل و تبویب اذکیائے امت نے کی، اور اکوان غیبیہ کی کلیات و اصول
کا علم حق تعالیٰ نے اپنے ساتھ مختص رکھا ہاں جزئیات منتشرہ پر بہت سے لوگوں کو
حسب استعداد اطلاع دی۔ اور نبی کریم ﷺ کو اس سے بھی اتنا وافر
اور عظیم الشان حصہ ملا جس کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا۔ تاہم اَکوانِ غیبیہ کا
علم کلی رب العزت ہی کے ساتھ مختص رہا۔ مفاتیح الغیب کا کلی علم صرف اللہ کو ہے:
آیت ہذا میں جو پانچ چیزیں مذکور ہیں احادیث میں ان کو مفاتیح الغیب فرمایا ہے
جن کا علم (یعنی علم کلی) بجز اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں۔ فی الحققیت ان پانچ
چیزوں میں کل اکوان غیبیہ کی انواع کی طرف اشارہ ہو گیا۔ { بِاَیِّ اَرْضٍ
تَمُوْتُ } میں غیوب مکانیہ۔ { مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا } میں زمانیہ مستقبلہ۔ {
مَافِی الْاَرْحَامِ } میں زمانہ حالیہ اور { یُنَزِّلُ الْغَیْثَ } میں غالبًا
زمانیہ ماضیہ پر تنبیہ ہے۔ یعنی بارش آتی ہوئی معلوم ہوتی ہے لیکن یہ کسی کو
معلوم نہیں کہ پہلے سے کیا اسباب فراہم ہو رہے تھے کہ ٹھیک اسی وقت اسی جگہ اسی
مقدار میں بارش ہوئی، ماں بچہ کو پیٹ میں لئے پھرتی ہے پر اسے پتہ نہیں کہ پیٹ
میں کیاچیز ہے لڑکا یا لڑکی۔ انسان واقعات آئندہ پر حاوی ہونا چاہتا ہے۔ مگر یہ
نہیں جانتا کہ کل میں خود کیا کام کروں گا؟ میری موت کہاں واقع ہو گی؟ اس جہل و
بیچارگی کے باوجود تعجب ہے کہ دنیوی زندگی پر مفتون ہو کر خالق حقیقی کو اور اس
دن کو بھول جائے۔ جب پروردگار کی عدالت میں کشاں کشاں حاضر ہونا پڑے گا۔ بہرحال
ان پانچ چیزوں کے ذکر سے تمام اکوان غیبیہ کے علم کلی کی طرف اشارہ کرنا ہے، حصر
مقصود نہیں اور غالبًا ذکر میں ان پانچ کی تخصیص اس لئے ہوئی کہ ایک سائل نے
سوال انہی پانچ باتوں کی نسبت کیا تھا جس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ کما فی
الحدیث۔ پہلے سورہ انعام اور سورہ نمل میں بھی ہم علم غیب کے متعلق کچھ لکھ چکے
ہیں ۔ ایک نظر ڈال لیجائے۔ تم سورۃ لقمان بمنہٖ و کرمہٖ
|
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ المُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ ذَكْوَانَ، عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ بُنِيَ عَلَيَّ، فَجَلَسَ عَلَى فِرَاشِي كَمَجْلِسِكَ مِنِّي، وَجُوَيْرِيَاتٌ يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ، يَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِهِنَّ يَوْمَ بَدْرٍ، حَتَّى قَالَتْ جَارِيَةٌ: وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَقُولِي هَكَذَا وَقُولِي مَا كُنْتِ تَقُولِينَ»۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي الْحُسَيْنِ اسْمُهُ خَالِدٌ الْمَدَنِيُّ ، قَالَ : كُنَّا بِالْمَدِينَةِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ ، وَالْجَوَارِي يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ ، وَيَتَغَنَّيْنَ فَدَخَلْنَا عَلَى الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ ، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهَا ، فَقَالَتْ : دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَبِيحَةَ عُرْسِي ، وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تَتَغَنَّيَانِ ، وَتَنْدُبَانِ آبَائِي الَّذِينَ قُتِلُوا يَوْمَ بَدْرٍ ، وَتَقُولَانِ فِيمَا تَقُولَانِ : وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ ، فَقَالَ : " أَمَّا هَذَا فَلَا تَقُولُوهُ مَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ " .
وَلَقَد
أَرسَلنا رُسُلًا مِن قَبلِكَ مِنهُم مَن قَصَصنا عَلَيكَ وَمِنهُم مَن لَم نَقصُص عَلَيكَ ۗ وَما كانَ
لِرَسولٍ أَن يَأتِىَ بِـٔايَةٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ ۚ فَإِذا جاءَ أَمرُ
اللَّهِ قُضِىَ بِالحَقِّ وَخَسِرَ هُنالِكَ المُبطِلونَ {40:78}
|
اور ہم نے تم سے پہلے (بہت سے) پیغمبر بھیجے۔ ان
میں کچھ تو ایسے ہیں جن کے حالات تم سے بیان کر دیئے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات بیان نہیں کئے۔ اور
کسی پیغمبر کا مقدور نہ تھا کہ الله کے حکم کے سوا کوئی نشانی لائے۔ پھر جب الله کا حکم آپہنچا تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا گیا اور اہل باطل نقصان میں پڑ گئے
|
قرآن میں مذکور اور غیرمذکور انبیاء:یعنی بعض کا تفصیلی حال تجھ سے بیان کیا، بعض کا نہیں کیا۔ (اور ممکن ہے
کہ اس آیت کے نزول کے بعد ان کا بھی مفصل حال بیان کر دیا ہو) بہرحال جن کے نام
معلوم ہیں ان پر تفصیلًا اور جن کے نام وغیرہ معلوم نہیں ان پر اجمالًا ایمان
لانا ضروری ہے۔ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ (البقرۃ۔۲۸۵)۔
|
یعنی
اللہ کے سامنے سب عاجز ہیں رسولوں کویہ بھی اختیار نہیں کہ جو معجزہ چاہیں دکھلا
دیا کریں، صرف وہ ہی نشانات دکھلا سکتے ہیں جس کی اجازت حق تعالیٰ کی طرف سے ہو۔
|
اللہ کا فیصلہ:یعنی جس وقت اللہ
کا حکم پہنچتا ہے رسولوں اور ان کی قوموں کے درمیان منصفانہ فیصلہ کر دیا جاتا
ہے اس وقت رسول سرخرو اور کامیاب ہو تے ہیں۔ اور باطل پرستوں کے حصہ میں ذلت و
خسران کے سوا کچھ نہیں آتا۔
|
ترجمہ : اور ہم نے بھیجے ہیں بہت رسول تجھ سے پہلے بعضے ان میں وہ ہیں کہ سنایا ہم نے تجھ کو ان کا احوال اور بعضے ہیں کہ نہیں سنایا ، اور کسی رسول کو مقدور نہ تھا کہ لے آتا کوئی نشانی مگر الله کے حکم سے ، پھر جب آیا حکم الله کا فیصلہ ہوگیا انصاف سے اور ٹوٹے میں پڑے اس جگہ جھوٹے. [المومن:٧٨]
تفسیر : ((وَلَقَد أَرسَلنا)) یہ دلیل نقلی کا اعادہ ہے. یہ دلیل نقلی اجمالی ہے تمام انبیاء علیھم السلام سے، تمام گزشتہ انبیاء علیھم السلام کو اس دعوے کے ساتھ بھیجا گیا. ان میں سے بعض کا ذکر ہم نے آپ سے کیا ہے اور بعض کا ذکر نہیں کیا لیکن بہرحال دعوت سب کی ایک ہی تھی کہ الله کے سوا کوئی معبود و کارساز نہیں، لہذا حاجات و مصائب میں صرف اسی کو پکارو. ((وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ)) یہ سوال مقدر کا جواب ہے. مشرکین ازراہ عناد کہتے ہم تب مانیں گے اگر پیغمبر ہمیں مطلوبہ معجزہ دکھاۓ، فرمایا معجزہ دکھانا پیغمبر کے اختیار میں نہیں کہ جب کوئی اس سے مطالبہ کرے فوراً دکھادے، بلکہ معجزہ اللہ کے اختیار میں ہے، جب الله تعالیٰ چاہے بتقاضاۓ حکمت بالغہ، پیغمبر علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہر فرمادے. فالمعجزات على تشعب فنونها عطايا من الله تعالى قسمها بينهم حسا اقتضته مشيئته المبنية على الحكم البالغة كسائر القسم ليس لهم اختيار في إيثار بعضها والاستبداد بإتيان المقترح بها [روح المعاني:٢٤/٨٩] ((فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ)) جب الله کے عذاب کا معیّن وقت آ پہنچتا ہے تو حق بات کا فیصلہ کردیا جاتا ہے یعنی انبیاء علیھم السلام اور ان کے متبعین کو غالب کیا جاتا ہے، اس وقت باطل پرست خسارے میں رہتے ہیں. کیونکہ ان کو رسوا کن اور ذلّت آمیز عذاب کے ساتھ تباہ و برباد کیا جاتا ہے.
قُل
ما كُنتُ بِدعًا مِنَ الرُّسُلِ وَما أَدرى
ما يُفعَلُ بى وَلا بِكُم ۖ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحىٰ إِلَىَّ وَما أَنا۠
إِلّا نَذيرٌ مُبينٌ {46:9}
|
کہہ دو کہ میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آیا۔ اور میں
نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا (کیا جائے
گا) میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی آتی ہے اور میرا کام تو علانیہ
ہدایت کرنا ہے
|
میں نیا رسول نہیں ہوں:یعنی
میری باتوں سے اس قدر بدکتے کیوں ہو؟ میں کوئی انوکھی چیز لے کر تو نہیں آیا۔
مجھ سے پہلے بھی دنیا میں سلسلہ نبوت و رسالت کا جاری رہا ہے۔ وہ ہی میں کہتا
ہوں کہ ان سب رسولوں کے بعد مجھ کو اللہ نے رسول بناکر بھیجا ہے جسکی خبر پہلے
رسول دیتے چلے آئے ہیں۔ اس حیثیت سے بھی یہ کوئی نئی بات نہ رہی۔ بلکہ بہت پرانی
بشارات کا مصداق آج سامنے آ گیا۔ پھر اس کے ماننے میں اشکال کیا ہے۔
|
میرا کام خبردار کرنا ہے:یعنی مجھے اس سے
کچھ سروکار نہیں کہ میرےکام کا آخری نتیجہ کیا ہونا ہے۔ میرے ساتھ اللہ کیا
معاملہ کرے گا اور تمہارے ساتھ کیا کرے گا۔ نہ میں اس وقت پوری پوری تفاصیل اپنے
اور تمہاے انجام کے متعلق بتلا سکتا ہوں کہ دنیا اور آخرت میں کیاکیا صورتیں پیش
آئیں گی۔ ہاں ایک بات کہتا ہوں کہ میرا کام صرف وحی الٰہی کا اتباع اور حکم
خداوندی کا امتثال کرنا اور کفر و عصیان کے سخت خطرناک نتائج سے خوب کھول کر
آگاہ کر دینا ہے۔ آگے چل کر دنیا یا آخرت میں میرے اور تمہارے ساتھ کیا کچھ پیش
آئے گا اسکی تمام تفصیلات فی الحال میں نہیں جانتا نہ اس بحث میں پڑنے سے مجھے
کچھ مطلب۔ بندہ کا کام نیتجہ سے قطع نظر کر کے مالک کے احکام کی تعمیل کرنا ہے
اور بس۔
|
ترجمہ:
طیبا
اریٰ الاک
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ ان تمام کے سکین مل سکتے ہیں۔۔۔۔؟
ReplyDelete