Saturday 1 March 2014

نہیں ہے کوئی عالم الغیب اور حاضر و ناظر ، سواۓ الله کے

اللہ پاک کی خاص صفات:
(1) بےشک اللہ ہی ہر چیز پر۔۔۔ 
شھید (یعنی بڑا شاہد، گواہ، حاضر، موجود) ہے۔

[القرآن، سورۃ {النساء:33}{المائدۃ:117}{الاحزاب:55}{سبا:47}{فصلت:53}{المجادلۃ:6}{البروج:9}]

(2) بےشک اللہ ہی ہر چیز پر۔۔۔ علیم (یعنی بڑا جاننے والا) ہے۔
[القرآن، سورۃ البقرۃ:29+231+282، النساء:176، المائدۃ:97، الانعام:101، الانفال:75، التوبۃ:115، النور:35+64، العنکبوت:62، الشوریٰ:12، الٰحجرات:16، الحديد:3، الجادلة:7. التغابن:11]





الله کے سوا کسی (نبی/فرشتے) کو عالم الغیب یا حاضر و ناظر سمجھنے والے ان آیت کے منکر ہیں:
أَم كُنتُم شُهَداءَ إِذ حَضَرَ يَعقوبَ المَوتُ إِذ قالَ لِبَنيهِ ما تَعبُدونَ مِن بَعدى قالوا نَعبُدُ إِلٰهَكَ وَإِلٰهَ ءابائِكَ إِبرٰهۦمَ وَإِسمٰعيلَ وَإِسحٰقَ إِلٰهًا وٰحِدًا وَنَحنُ لَهُ مُسلِمونَ {2:133}
بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اس وقت موجود تھے، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے، تو انہوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبود یکتا ہے اور ہم اُسی کے حکم بردار ہیں
حضرت یعقوب علیہ السلام کی اپنے بیٹوں کو وصیت:یعنی تم حضرت یعقوبؑ کی وصیت کے وقت تو موجود بھی نہ تھے۔ انہوں نے تو ملت انبیائے موصوفین کا ارشاد فرمایا تھا تم نے یہ کیا کہ یہود اپنے سوا سب کو اور نصاریٰ اپنے سوا سب کو بےدین بتلانے لگے (اور مذہب حق (یعنی اسلام کے) دونوں کے مخالف ہو گئے) یہ تمہارا افتراء ہے۔


ذٰلِكَ مِن أَنباءِ الغَيبِ نوحيهِ إِلَيكَ ۚ وَما كُنتَ لَدَيهِم إِذ يُلقونَ أَقلٰمَهُم أَيُّهُم يَكفُلُ مَريَمَ وَما كُنتَ لَدَيهِم إِذ يَختَصِمونَ {3:44}
(اے محمد ﷺ) یہ باتیں اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم تمہارے پاس بھیجتے ہیں اور جب وہ لوگ اپنے قلم (بطور قرعہ) ڈال رہے تھے کہ مریم کا متکفل کون بنے تو تم ان کے پاس نہیں تھے اور نہ اس وقت ہی ان کے پاس تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے
یہ واقعات آنحضرت ﷺ کی نبوت کی دلیل ہیں:یعنی ظاہری حیثیت سے آپ کچھ پڑھے لکھے نہیں پہلے سے اہل کتاب کی کوئی معتدبہ صحبت نہیں رہی جن سے واقعات ماضیہ کی ایسی تحقیقی معلومات ہو سکیں۔ اور صحبت رہتی بھی تو کیا تھا، وہ لوگ خود ہی اوہام و خرافات کی اندھیریوں میں پڑے بھٹک رہے تھے۔ کسی نے عداوت میں اور کسی نے حد سے زیادہ محبت میں آ کر صحیح واقعات کو مسخ کر رکھا تھا پھر اندھے کی آنکھ سے روشنی حاصل ہونے کی کیا توقع ہو سکتی تھی۔ اندریں حالات "مدنی " اور "مکی" دونوں قسم کو سورتوں میں ان واقعات کو ایسی صحت اور بسط و تفصیل سےسنانا جو بڑے بڑے مدعیان علم کتاب کی آنکھوں میں چکا چوند کر دیں اور کسی کو مجال انکار باقی نہ رہے اس کی کھلی دلیل ہے کہ بذرعیہ وحی آپ ﷺ کو یہ علم دیا گیا تھا۔ کیونکہ آپ نے نہ بچشم خود ان حالات کا معائنہ کیا، اور نہ علم حاصل کرنے کا کوئی خارجی ذریعہ آپ ﷺ کے پاس موجود تھا۔
حضرت مریم علیہ السلام کی پرورش کے لئے قرعہ اندازی:جب حضرت مریمؑ نذر میں قبول کر لی گئیں تو مسجد کے مجاورین میں جھگڑا ہوا کہ انہیں کس کی پرورش میں رکھا جائے آخر قرعہ اندازی کی نوبت آئی۔ سب نے اپنے اپنے قلم جن سے تورات لکھتے تھے چلتے پانی میں چھوڑ دئیے کہ جس کا قلم پانی کے بہاؤ پر نہ بہے۔ بلکہ الٹا پھر جائے اسی کو حقدار سمجھیں۔ اس میں بھی قرعہ حضرت زکریاؑ کے نام نکلا اور حق حقدار کو پہنچ گیا۔

القرآن :
یہ خبریں غیب کی ہیں ہم جو بھیجتے ہیں تجھ کو ، اور تو نہ تھا ان کے پاس جب ڈالنے لگے اپنے قلم کہ کون پرورش میں لے مریم کو اور تو نہ تھا ان کے پاس جب وہ جھگڑتے تھے.
[سورۃ آل عمران:٤٤]
یہ جملہ معترضہ ہے ، جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی صداقت پر دلالت کرتا ہے. یہ واقعات جو آپ بیان کر رہے ہیں، یہ سب سینکڑوں برس پہلے کے ہیں، ان واقعات میں آپ موجود نہ تھے، لیکن اس کے باوجود آپ ان کی صحیح صحیح تفصیلات بیان فرما رہے ہیں، لہذا یہ اس بات کی بیّن دلیل ہے کہ یہ غیب کی خبریں الله تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی بتائی ہیں اور آپ الله کے سچے نبی ہیں. فيه دلالة على نبوة محمد صلى الله عليه وسلم - حيث أخبر عن قصة زكريا ومريم ولم يكن قرأ الكتب ; وأخبر عن ذلك وصدقه أهل الكتاب بذلك [قرطبي:4/85] حضرت مریم کے والد پہلے ہی فوت ہوچکے تھے اس لئے ان کی پرورش کا سوال پیدا ہوا تو ہیکل سلیمانی کے تمام خدام جھگڑنے لگے، ہر ایک کی یہ خواھش تھی کہ حضرت مریم کی کفالت اس کے سپرد ہو، چنانچہ اس جھگڑے کو قرعہ کے ذریعہ طے کیا گیا، قرعہ ڈالنے کا یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ ہر مدعی اپنا اپنا قلم لاۓ ، ان سب قلموں کو بہتے ہوۓ پانی میں ڈالا جاۓ ، جس کا قلم ٹھہرا رہے اور پانی کے ساتھ بہ نہ جاۓ اسے کفالت کا حقدار قرار دیا جاۓ ، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور اس طرح قرعہ حضرت زکریا علیہ السلام کے نام پڑا. [قرطبي:4/86] بعض نے لکھا ہے کہ جو حقدار ہوگا اس کا قلم پانی کے بہاؤ کے مخالف سمت کو حرکت کریگا. [کبیر:2/672] بہرحال یہ حضرت زکریا علیہ السلام کا ایک معجزہ تھا.



كَانَ النَّبِيُّ (یعنی تھے نبی)  فرمایا:
«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُ المَرِيضَ، وَيَشْهَدُ الجَنَازَةَ»
ترجمہ:
مریضوں کی عیادت فرماتے، جنازہ کے پیچھے چلتے اور غلاموں(مسکین نوکروں) تک کی دعوت قبول فرمالیتے تھے۔
[مسند ابن الجعد:848، ترمذی:1017، ابن ماجہ:4178]

چہل احادیث جن میں یہی لفظ (کان) یعنی (تھے) رسول اللہ کے متعلق آئے ہیں:



وَلَولا فَضلُ اللَّهِ عَلَيكَ وَرَحمَتُهُ لَهَمَّت طائِفَةٌ مِنهُم أَن يُضِلّوكَ وَما يُضِلّونَ إِلّا أَنفُسَهُم ۖ وَما يَضُرّونَكَ مِن شَيءٍ ۚ وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيكَ الكِتٰبَ وَالحِكمَةَ وَعَلَّمَكَ ما لَم تَكُن تَعلَمُ ۚ وَكانَ فَضلُ اللَّهِ عَلَيكَ عَظيمًا {4:113}
اور اگر تم پر الله کا فضل اور مہربانی نہ ہوتی تو ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کر ہی چکی تھی اور یہ اپنے سوا (کسی کو) بہکا نہیں سکتے اور نہ تمہارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور الله نے تم پر کتاب اور دانائی نازل فرمائی ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھائی ہیں جو تم جانتے نہیں تھے اور تم پر الله کا بڑا فضل ہے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کا خاص فضل:اس میں خطاب ہے رسول ﷺ کی طرف اور اظہار ہے ان خائنوں کے فریب کا اور بیان ہے آپ ﷺ کی عظمت شان و عصمۃ کا اور اس کا کہ آپ کمال علمی میں جو کہ تمام کمالات سے افضل اور اول ہے سب سے فائق ہیں اور اللہ کا فضل آپ پر بے نہایت ہے جو ہمارے بیان اور ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتا اور اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ آپ کو جو چور کی برأت کا خیال ہوا تھا وہ ظاہر حال کو دیکھ کر اور اقوال و شہادت کو سن کر اور اس کو سچ سمجھ کر ہو گیا تھا۔ میلان عن الحق یا مداہنت فی الحق ہرگز ہرگز اس کا باعث نہ تھا اور اتنی بات میں کچھ برائی نہ تھی بلکہ یہی ہونا ضروری تھا جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے حقیقۃ الامر ظاہر ہو گئ کوئی خلجان باقی نہ رہا اور ان سب باتوں سے مقصود یہ ہے کہ آئندہ کو وہ فریب باز تو آپ کے بہکانے اور دھوکہ دینے سے رک جائیں اور مایوس ہو جائیں اور آپ اپنی عظمت اور تقدس کے موافق غور اور احتیاط سے کام لیں۔ واللہ اعلم۔

ترجمہ : اور اگر نہ ہوتا تجھ پر الله کا فضل اور اس کی رحمت تو قصد کر ہی چکی تھی ان میں ایک جماعت کہ تجھ کو بہکادین ، اور بہکا نہیں سکتے مگر اپنے آپ کو اور تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، اور الله نے اتاری تجھ پر کتاب اور حکمت اور تجھ کو سکھائیں وہ باتیں جو تو نہ جانتا تھا ، اور الله کا فضل تجھ پر بہت بڑا ہے. 
[سورۃ النساء : ١١٣]
چوری کی یہ مذکورہ واردات جس کی حقیقت سے آپ آگاہ نہیں تھے، جس کے اصل چور کا آپ کو علم نہیں تھا اور جس میں چور کے رشتہ داروں کو چور کو بیگناہ ثابت کرنے کے لئے جو رات کو بیٹھ کر منصوبہ بنایا اسے بھی آپ نہیں جانتے تھے لیکن اس واقعہ کی پوری حقیقت سے الله تعالیٰ نے آپ کو مطلع کردیا اور یہ الله تعالیٰ کا آپ پر بہت بڑا احسان اور اس کا عظیم فضل ہے کیونکہ اگر آپ اصل حقیقت سے آگاہ نہ ہوتے تو آپ ایک بےگناہ کو چوری کی سزا دیتے اور اصل چور کو بری کردیتے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ لوگوں کی دلوں میں آپ کی نبوت کے بارے میں شکوک اور شبہات پیدا ہوجاتے.
آیت کی مزید تحقیق : اس آیت سے بریلوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلّی علم غیب پر استدلال کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں لفظ ((مَا)) استعمال ہوا ہے جو عموم کے لئے ہوتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ تمام وہ چیزیں جو آپ کو معلوم نہ تھیں وہ ساری کی ساری الله تعالیٰ نے آپ کو بتادیں تو اس سے معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ نے کلّی علم غیب عطا کردیا تھا. مگر اس آیت سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے لئے کلّی علم غیب پر استدلال سراسر باطل ہے. اولاً : اس لئے کہ یہ استدلال اس بات پر مبنی ہے کہ اس آیت میں عموم و استغراق "حقیقی" کے لئے ہے، حالانکہ ((مَا)) ہر جگہ عموم و استغراق کے لئے نہیں آتا، اس میں "خصوص" کا بھی احتمال ہوتا ہے. امام ابو البركات نسفی حنفی فرماتے ہیں : ومن وما يحتملان العموم والخصوص و أصلهما العموم (رسالة المنار مع شرح نور الأنوار: ص # ٧٩)  یعنی اگرچہ اصل دونوں میں عموم ہے لیکن دونوں میں خصوص کا احتمال بھی ہوتا ہے. اس کی شرح میں ملا جیون فرماتے ہیں : يعني إنهما في أصل الواضح للعموم ويستعملان في الخصوص بعارض  القرائن. اور ایسی مثالیں خود قرآن میں بکثرت موجود ہیں جن میں کلمہ ((مَا)) عموم کے لئے نہیں، چنانچہ ایک جگہ ارشاد ہے: وَيُعَلِّمُكُم ما لَم تَكونوا تَعلَمونَ (البقرہ:١٥١) یعنی اور وہ (پیغمبر صلی الله علیہ وسلم) تم کو وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے. اس آیت میں خطاب براہ راست صحابہ کرام سے ہے اور ان کی وساطت سے سارے امت (تا قیامت) اس آیت کی مخاطب ہے، اگر یہاں کلمہ ((مَا)) کا عموم اور استغراق "حقیقی" پر محمول کیا جاۓ جیسا کہ بریلوی حضرات کا خیال ہے تو اس سے لازم آۓ گا کہ تمام صحابہ کرام اور اسے ((مَا كَانَ وَمَا يَكُونُ)) کا کلّی علم غیب حاصل ہو، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں. اسی طرح ایک جگہ فرمایا :  وَعُلِّمتُم ما لَم تَعلَموا أَنتُم وَلا ءاباؤُكُم (الانعام:٩١) یعنی اور سکھایا گیا تم کو وہ کچھ جو تم نہ جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا. اس آیت کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے کہ اس میں خطاب یہود سے ہے جیسا کہ اکثر مفسرین نے لکھا ہے اور اگر خطاب مسلمانوں سے ہو تو بھی اگر ((مَا)) کو یہاں استغراق حقیقی کے لئے یہاں لیا جاۓ تو اس سے تمام یہودیوں کو یا تمام مسلمانوں کو غیب دان ماننا پڑے گا جو اس آیت کے مخاطب ہیں. اس آیتوں سے معلوم ہوا کہ ((مَا)) ہر جگہ عموم کیلئے نہیں ہوتا.
ثانیاً : مفسرین کرام نے بھی اس آیت میں ((مَا)) کو خصوص پر محمول کیا ہے اور اس سے مخصوص امور ہی مراد لئے ہیں اور اسے استغراق حقیقی پر کسی نے بھی محمول نہیں کیا. حضرت عبداللہ بن عباس اور مقاتل کہتے ہیں ((مَا)) سے مراد شریعت (كا علم) ہے. قال ابن عباس ومقاتل هو الشرع . [البحر:٣/٣٤٧] مفسر قرطبی ، امام بغوی ، امام نسفی اور علامہ خازن فرماتے ہیں : ((مَا)) سے امور دین اور احکام شریعت مراد ہیں. وعلمك ما لم تكن تعلم يعني من الشرائع والأحكام . (قرطبي:٥/٣٨٢) يعني من أحكام الشرع وامور الدين (معالم و خازن واللفظ له:١/٤٩٦) من امور الدين والشرائع (مدارك:١/١٩٥) امام ماوردی کہتے ہیں کہ ((مَا)) سے کتاب و حکمت مراد ہیں،  وفكر لماوردي الكتاب والحكمة (البحر:٣/٤٣٧)
ثالثاً : ((مَا)) کا یہاں عموم و استغراق پر محمول کرنا آیت کے سیاق و سباق کے بلکل منافی ہے کیونکہ اس سے پہلے إِنّا أَنزَلنا إِلَيكَ الكِتٰبَ بِالحَقِّ (النساء:١٠٥) سے حکم سلطانی بیان فرمایا کہ الله کے نازل کردہ احکام اور اس کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق فیصلہ کیا کرو، اس کے بعد جھوٹی تہمت لگانے والوں اور جھوٹی گواہی دینے والوں کو زجریں کیں، اور پھر فرمایا: وَعَلَّمَكَ ما لَم تَكُن تَعلَمُ ۚ لہذا ((مَا)) سے یہاں وہی کچھ مراد ہے جو حضرات مفسرین نے بیان کیا ہے یعنی احکام شریعت، لہذا علم غیب کلّی مراد لینا سراسر غلط اور باطل ہے، نیز اس آیت سے تھوڑا سا پہلے فرمایا : وَلَولا فَضلُ اللَّهِ عَلَيكَ وَرَحمَتُهُ الخ یعنی اگر آپ پر الله کا فضل اور رحمت نہ ہوتی تو ان منافقوں کی ایک جماعت آپ کو صحیح فیصلے سے بھٹکا دیتی ، اگر آپ کو کلّی علم غیب تھا تو کس طرح ممکن تھا کہ منافق آپ کو بھٹکا دیتے؟ اسی طرح وَلا تَكُن لِلخائِنينَ خَصيمًا (النساء:١٠٥) یعنی نہ ہونا دغابازوں کے لئے جھگڑا و بحث کرنے والا، سے آپ کو جو تنبیہ کی گئی یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو کلّی علم غیب نہیں تھا ورنہ آپ ان جھوٹے منافقین کی کیوں طرفداری کرتے؟
رابعاً : سورہ نساء جس میں یہ آیت ہے اس کے بعد تقریباً ٢٤ سورتیں اور نازل ہوئیں، اگر اس آیت سے آپ کو کلّی علم غیب حاصل ہو چکا تھا تو پھر ان چوبیس سورتوں کو نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟؟؟ نیز سورہ نساء سے بعد میں نازل ہونے والی صورتوں میں سورہ نور، منافقون، تحریم اور توبہ وغیرہ ہیں. سورہ نور میں افک عائشہ رضی الله عنہا کا واقعہ مذکور ہے جس کی وجہ سے حضور صلی الله علیہ وسلم عرصہ تک پریشان رہے، سورہ منافقون میں عبدالله بن ابی اور دوسرے منافقوں کی سازش کا ذکر ہے جس کا آپ کو پتہ نہ چل سکا ، سورہ تحریم میں آپ کے شہد نہ کھانے کی قسم کا ذکر ہے جسے توڑنے کا الله نے آپ کو حکم دیا ، اور سورہ توبہ میں مسجد ضرار کے سلسلہ میں آپ کو اس مسجد میں جانے سے روک دیا حالانکہ آپ اس مسجد کے بانیوں کو مومن مخلص سمجھ کر اس میں جاکر نماز ادا کرنے کا وعدہ فرما چکے تھے، یہ آیتیں تفصیل کے ساتھ وَما كانَ اللَّهُ لِيُطلِعَكُم عَلَى الغَيبِ (سورۃ آل عمران:١٧٩) کی تفسیر میں مذکور ہو چکی ہیں. یہ تمام آیتیں حضور علیہ السلام کی ذات گرامی سے علم غیب کی نفی کرتی ہیں، اس لئے اگر زیر بحث آیت سے حضور علیہ الاسلام کے لئے کلّی علم غیب ثابت کیا جاۓ تو اس سے بعد میں نازل ہونے والی ان آیتوں کی تکذیب لازم آۓ گی ، جو آپ سے کلّی علم غیب کی نفی کرتی ہیں. تفصیل بالا سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ اس آیت سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے لئے کلّی علم غیب ثابت نہیں ہوسکتا.
ایک من گھڑت قاعدہ : بعض مبتدع مولوی کہتے ہیں کہ ((مَا)) عموم کے لئے ہے اور ((عَلَّمَ)) کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے اور مفعول نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہیں، الله تعالیٰ مفیض عام اور حضور علیہ السلام میں استعداد تام تو اس سے ثابت ہوا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کو کلّی علم غیب حاصل تھا. اسکا جواب سورہ علق میں ہے: عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ ما لَم يَعلَم (العلق:٥) میں ((الۡاِنۡسَانَ)) سے بعض مفسرین کے نزدیک نبی کریم صلی الله علیہ وسلم مراد ہیں اور بعض بدعتی مولوی بھی اس کو ترجیح دیتے ہیں، تو یہاں بھی فاعل الله ہیں اور مفعول نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہیں اور سورہ علق کی یہ آیتیں بھی بالاتفاق سارے قرآن سے پہلے نازل ہوئی تھیں، تو اگر ((مَا)) کو عموم اور استغراق حقیقی کیلئے لیا جاۓ اور  ((عَلَّمَ)) ماضی کا صیغہ ہے جو گزشتہ زمانہ میں وقوع فعل پر دلالت کرتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ الله تعالیٰ نے اس آیت سے پہلے اور اس کے نزول کے ساتھ آنحضور صلی الله علیہ وسلم کو تمام علوم غیبیہ سکھادیے تھے تو (معاذ الله) پھر سارے قرآن کو نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیونکہ یہ تحصیل حاصل ہے، نیز یہ قانون بھی کسی کتاب میں نہیں لکھا ہوا کہ فاعل اللہ تعالیٰ اور مفعول حضور صلی علیہ السلام کی ذات ہو تو وہاں ہمیشہ عموم ہی مراد لیا جاتا ہے بلکہ شرک پھیلانے کے لئے ان مولویوں نے یہ قاعدہ اپنی طرف سے وضع کیا ہے.
غلط استدلال : مخالفین عموم علم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض حدیثوں سے بھی استدلال کرتے ہیں، مَثَلاً صحیح مسلم میں ہے: ((أَخْبَرَنَا بِمَا كَانَ وَبِمَا هُوَ كَائِنٌ )) تو اس کا جواب یہ ہے کہ علوم غیبیہ کلّیہ یعنی كل ما كان وما يكون مثلا: كل فوجداری اور دیوانی احکام ہندی ، بنگالی ، جرمنی وغیرہ کا بیان کرنا تھوڑے سے وقت میں ناممکن ہے بلکہ یہاں ((مَا)) سے مراد فبذمن امور عظام ہیں یعنی بعض نہایت اہم امور جیسا کہ دوسری روایت میں اس کی تصریح موجود ہے. نیز وہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ شب معراج میں الله تعالیٰ نے میری پشت پر ہاتھ رکھا ((فَتَجَلَّى لِي كُلُّ شَيْءٍ)) تو میرے لئے سب کچھ روشن ہوگیا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ سات صحابہ نے یہ الفاظ بیان کے ہیں ((فَعَلِمْتُ الَّذِي سَأَلَنِي عَنْهُ)) كما هو مصرح في الدر المنثور اور لفظ ((تَجَلَّى لِي كُلُّ شَيْءٍ)) کے بارے میں خازن نے بیہقی سے نقل کیا ہے کہ اس (روایت) کے تمام طرق ضعیف ہیں، لہذا ان حدیثوں سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے کل علم غیب پر استدلال کرنا غلط اور باطل ہے.





إِنّا أَوحَينا إِلَيكَ كَما أَوحَينا إِلىٰ نوحٍ وَالنَّبِيّۦنَ مِن بَعدِهِ ۚ وَأَوحَينا إِلىٰ إِبرٰهيمَ وَإِسمٰعيلَ وَإِسحٰقَ وَيَعقوبَ وَالأَسباطِ وَعيسىٰ وَأَيّوبَ وَيونُسَ وَهٰرونَ وَسُلَيمٰنَ ۚ وَءاتَينا داوۥدَ زَبورًا {4:163}
(اے محمدﷺ) ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان سے پچھلے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ابراہیم اور اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولاد یعقوب اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف بھی ہم نے وحی بھیجی تھی اور داؤد کو ہم نے زبور بھی عنایت کی تھی
وحی کی عظمت و اہمیت:اہل کتاب اور مشرکین مکہ جملہ کفار قرآن مجید کی حقانیت اور صداقت میں طرح طرح سے بیہودہ شبہ پیدا کرتے دیکھئے اس موقع میں یہی کہدیا کہ جیسے توریت سب کی سب ایک دفعہ اتری تھی ایسے ہی تم بھی ایک کتاب آسمان سےلا دو تو ہم تم کو سچا جانیں بقول شخصے خوئے بدرا بہانہ بسیار سو حق تعالیٰ نے اس جگہ چند آیتیں نازل فرما کر اس کی حقیقت واضح کر دی اور وحی کی عظمت اور کفار کے سب خیالات اور شبہات بیہودہ کو رد کر دیا اور وحی الہٰی کی متابعت کو عامۃً اور قرآن مجید کی اطاعت کو تخصیص کے ساتھ بیان فرما کر بتلا دیا کہ حکم الہٰی کا ماننا سب پر فرض ہے۔ کسی کا کوئی عذر اس میں نہیں چل سکتا جو اس کے تسلیم کرنے میں تردد یا تامل یا انکار کرے وہ گمراہ اور بےدین ہے اب یہاں سے تحقیقی جواب دیا جاتا ہے۔
انبیائے سابقین اور ان کا پیغام: اس سے معلوم ہو گیا کہ وحی خاص اللہ کا حکم اور اس کا پیام ہے جو پیغمبروں پر بھیجا جاتا ہے اور انبیائے سابقین پر جیسے وحی الہٰی نازل ہوئی ویسے ہی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی بھیجی تو جس نے اس کو مانا اس کو بھی ضرور ماننا چاہئے اور جس نے اس کا انکار کیا گویا ان سب کا منکر ہو گیا اور حضرت نوحؑ اور ان سے پچھلوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ شاید یہ ہے کہ حضرت آدمؑ کے وقت سے جو وحی شرع ہوئی تو اس وقت بالکل ابتدائی حالت تھی۔ حضرت نوحؑ پر اس کی تکمیل ہو گئ گویا اول حالت محض تعلیمی حالت تھی حضرت نوحؑ کے زمانہ میں وہ حالت پوری ہو کر اس قابل ہو گئ کہ ان کا امتحان لیا جائے اور فرمانبرداروں کو انعام اور نافرمانوں کو سزا دی جائے چنانچہ انبیائے اولوالعزم کا سلسلہ بھی حضرت نوحؑ سے ہی شروع ہوا اور وحی الہٰی سے سرتابی کرنے والوں پر بھی اول عذاب حضرت نوحؑ کے وقت سے شروع ہوا۔ خلاصہ یہ ہے کہ پہلے حکم الہٰی اور انبیاء کی مخالفت پر عذاب نازل نہیں ہوتا تھا بلکہ ان کو معذور سمجھ کر ان کو ڈھیل دی جاتی تھی اور سمجھانے ہی میں کوشش کی جاتی تھی حضرت نوحؑ کے زمانہ میں جب مذہبی تعلیم خوب ظاہر ہو چکی اور لوگوں کو حکم خداوندی کی متابعت کرنے میں کوئی خفا باقی نہ رہا تو اب نافرمانوں پر عذاب نازل ہوا۔ اول حضرت نوحؑ کے زمانہ میں طوفان آیا اس کے بعد حضرت ہودؑ حضرت صالحؑ حضرت شعیبؑ وغیرہ کے زمانہ میں کافروں پر قسم قسم کے عذاب آئے تو آپ کی وحی کو حضرت نوحؑ اور ان سے پچھلوں کی وحی کے ساتھ تشبیہ دینے میں اہل کتاب اور مشرکین مکہ کو پوری تنبیہ کر دی گئ کہ جو آپ کی وحی یعنی قرآن کو نہ مانے گا وہ عذاب عظیم کا مستحق ہو گا۔

القرآن :
اور ہم نے وحی بھیجی تیری طرف جیسے وحی بھیجی نوح پر اور ان نبیوں پر جو اس کے بعد ہوۓ ، اور وحی بھیجی ابراہیم پر اور اسماعیل پر اور اسحاق پر اور یعقوب پر اور اس کی اولاد پر اور عیسیٰ پر اور ایوب پر اور یونس پر اور ہاروں پر اور سلیمان پر ، اور ہم نے دی داود کو زبور. اور بھیجے ایسے رسول جن کا حال ہم نے سنایا تجھ کو اور  ایسے رسول جن کا احوال نہیں سنایا تجھ کو، اور باتیں کیں الله نے موسیٰ سے بول کر.
[سورۃ النساء:١٦٣-١٦٤]
تفسیر:
یہ ((يَسْأَلُكَ أَهْلُ الْكِتَابِ)) یہود کے زجروں اور تخویفوں کے بعد اب یہاں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے جو اس سے پہلے رکوع میں گزر چکا ہے ، یعنی آہستہ آہستہ وحی بھیجنا کوئی آپ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ آپ سے پہلے جتنے بھی پیغمبر گزرے ہیں حضرت نوح علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک، سب کی طرف اسی طرح آہستہ آہستہ وحی بھیجی جاتی تھی. هذا متصل بقوله : يسألك أهل الكتاب أن تنزل عليهم كتابا من السماء ، فأعلم تعالى أن أمر محمدصلى الله عليه وسلم كأمر من تقدمه من الأنبياء . [قرطبي:٦/١٥] فالله تعالى أجاب عن هذه الشبهة بأن هؤلاء الأنبياء الأثنى عشر كلهم كانوا أنبياءً ورسلاً مع أن واحداً منهم ما أتى بكتاب مثل التوراة دفعة واحدة[الكبير:٣/٥٠٨] 


يَومَ يَجمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقولُ ماذا أُجِبتُم ۖ قالوا لا عِلمَ لَنا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلّٰمُ الغُيوبِ {5:109}
(وہ دن یاد رکھنے کے لائق ہے) جس دن الله  پیغمبروں کو جمع کرے گا پھر ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا تھا وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں توہی غیب کی باتوں سے واقف ہے
حشر میں انبیاء سے اللہ کا سوال:محشر کے ہولناک دن میں جب خدائے قہار کی شان جلالی کا انتہائی ظہو ر ہو گا اکابر و اعاظم کے ہوش بجا نہ رہیں گے اولوالعزم انبیاء کی زبان پر نفسی نفسی ہو گا۔ اس وقت انتہائی خوف و خشیت سے حق تعالیٰ کےسوال کا جواب { لَا عِلْمَ لَنَا } (ہمیں کچھ خبر نہیں) کے سوا نہ دے سکیں گے۔ پھر جب نبی کریم ﷺ کے طفیل میں سب کی طرف الله کی نظر لطف و رحمت ہو گی تب کچھ عرض کرنے کی جرأت کریں گے ۔ حسن و مجاہد وغیرہ سے ایسا ہی منقول ہے۔ لیکن ابن عباس کے نزدیک { لَا عِلْمَ لَنَا } کا مطلب یہ ہے کہ خداوندا! تیرے علم کامل و محیط کےسامنے ہمارا علم کچھ بھی نہیں۔ گویا یہ الفاظ "تادّب معَ اللہ" کے طور پر کہے۔ ابن جریح کے نزدیک { لَا عِلْمَ لَنَا } سے یہ مراد ہے کہ ہم کو معلوم نہیں کہ ہمارے پیچھے انہوں نے کیا کچھ کیا۔ ہم صرف ان ہی افعال و احوال پر مطلع ہو سکتے ہیں جو ہمارےسامنے ظاہری طور پر پیش آئے تھے۔ بواطن و سرائر کا علم علام الغیوب ہی کو ہے۔ آئندہ رکوع میں حضرت مسیحؑ کی زبانی جو جواب نقل فرمایا ہے { وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا } الخ اس سے آخری معنی کی تائید ہوتی ہے۔ اور صحیح حدیث میں ہےکہ جب حوض پر بعض لوگوں کی نسبت حضور فرمائیں گے { ھٰؤلاء اصحابی } تو جواب ملے گا { لا تدری ما احد ثوابعدک } یعنی آپ کو خبر نہیں کہ آپ کے پیچھے انہوں نے کیا حرکات کیں۔
آیات وصیت کی شان نزول:یہ سوال محشر میں امتوں کے روبرو پیغمبروں سےکیا جائے گا کہ دنیا میں جب تم ان کے پاس پیغام حق لے کر گئے تو انھوں نےکیا جواب دیا اور کہاں تک دعوت الہٰی کی اجابت کی؟ گذشتہ رکوع میں بتلایا تھا کہ الله کے یہاں جانے سے پہلے بذریعہ وصیت وغیرہ یہاں کا انتظام ٹھیک کر لو۔ اب متنبہ فرماتے ہیں کہ وہاں کی جوابدہی کے لئے تیار رہو۔



قُل لا أَقولُ لَكُم عِندى خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعلَمُ الغَيبَ وَلا أَقولُ لَكُم إِنّى مَلَكٌ ۖ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحىٰ إِلَىَّ ۚ قُل هَل يَستَوِى الأَعمىٰ وَالبَصيرُ ۚ أَفَلا تَتَفَكَّرونَ {6:50}
کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس الله تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ (یہ کہ) میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے (الله کی طرف سے) آتا ہے۔ کہہ دو کہ بھلا اندھا اور آنکھ والے برابر ہوتے ہیں؟ تو پھر تم غور کیوں نہیں کرتے
منصب رسالت کی حقیقت:اس آیت میں منصب رسالت کی حقیقت پر روشنی ڈالی گئ ہے۔ یعنی کوئی شخص جو مدعی نبوت ہو اس کا دعویٰ یہ نہیں ہوتا کہ تمام مقدورات الہٰیہ کے خزانے اس کے قبضہ میں ہیں کہ جب اس سے کسی امر کی فرمائش کی جائے وہ ضرور ہی کر دکھلائے یا تمام معلومات غیبیہ و شہاد پر خواہ ان کا تعلق فرائض رسالت سے ہو یا نہ ہو اس کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ جو کچھ تم پوچھو وہ فورًا بتلا دیا کرے۔ یا نوع بشر کے علاوہ وہ کوئی اور نوع ہے جو لوازم و خواص بشریہ سے اپنی برأت و نزاہت کا ثبوت پیش کرے۔ جب ان باتوں میں سے وہ کسی چیز کا مدعی نہیں تو فرمائشی معجزات اس سےطلب کرنا یا ازراہ تعنت و عناد اس قسم کا سوال کرنا کہ "قیامت کب آئے گی"۔ یا یہ کہنا کہ "یہ رسول کیسے ہیں جو کھانا کھاتے اور بازاروں میں خریدو فروخت کے لئے جاتے ہیں" اور ان ہی امور کو معیار تصدیق و تکذیب ٹھہرانا کہاں تک صحیح ہو سکتا ہے۔
نبی اور غیر نبی کا فرق:یعنی اگرچہ پیغمبر نوع بشر سےعلیحدہ کوئی دوسری نوع نہیں۔ لیکن اس کے اور باقی انسانوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ انسانی قوتیں دو قسم کی ہیں علمی و عملی۔ قوت علمیہ کے اعتبار سے نبی اور غیر نبی میں اعمٰی و بصیر (اندھے اور سوانکھے) کا تفاوت سمجھنا چاہئے۔ نبی کے دل کی آنکھیں ہر وقت مرضیات الہٰی اور تجلیات ربانی کے دیکھنے کےلئے کھلی رہتی ہیں جس کے بلاواسطہ مشاہدہ سے دوسرے انسان محروم ہیں۔ اور قوت عملیہ کا حال یہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اپنے قول و فعل اور ہر ایک حرکت و سکون میں رضائے الہٰی اور حکم خداوندی کے تابع و منقاد ہوتے ہیں وحی سماوی اور احکام الہٰیہ کے خلاف نہ کبھی ان کا قدم اٹھ سکتا ہے نہ زبان حرکت کر سکتی ہے۔ ان کی مقدس ہستی اخلاق و اعمال اور کل واقعات زندگی میں تعلیمات ربانی اور مرضیات الہٰی کی روشن تصویر ہوتی ہے جسے دیکھ کر غوروفکر کرنے والوں کو ان کی صداقت اور مامور من اللہ ہونے میں ذرا بھی شبہ نہیں رہ سکتا۔

وَعِندَهُ مَفاتِحُ الغَيبِ لا يَعلَمُها إِلّا هُوَ ۚ وَيَعلَمُ ما فِى البَرِّ وَالبَحرِ ۚ وَما تَسقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلّا يَعلَمُها وَلا حَبَّةٍ فى ظُلُمٰتِ الأَرضِ وَلا رَطبٍ وَلا يابِسٍ إِلّا فى كِتٰبٍ مُبينٍ {6:59}
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے۔ اور کوئی پتہ نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے
اللہ کا علم ازلی اور لوح محفوظ:یعنی لوح محفوظ میں ہے۔ اور لوح محفوظ میں جو چیز ہو گی وہ علم الہٰی میں پہلے ہو گی اس اعتبار سے مضمون آیت کا حاصل یہ ہوا کہ عالم غیب و شہادت کی کوئی خشک و تر اور چھوٹی بڑی چیز حق تعالیٰ کے علم ازلی محبط سے خارج نہیں ہو سکتی۔ بناءً علیہ ان ظالموں کے ظاہری و باطنی احوال اور ان کی سزا دہی کے مناسب وقت و محل کا پورا پورا علم اسی کو ہے (تنبیہ) "مفاتیح" کو جن علماء نے مفتح بفتح المیم کی جمع قرار دیا ہے انہوں نے "مفاتیح الغیب" کا ترجمہ "غیب کے خزانوں" سے کیا اور جن کے نزدیک مفتح بکسر المیم کی جمع ہے وہ "مفاتیح الغیب" کا ترجمہ مترجمؒ کے موافق کرتے ہیں یعنی "غیب کی کنجیاں" مطلب یہ ہے کہ غیب کے خزانے اور ان کی کنجیاں صرف الله کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ ہی ان میں سے جس خزانہ کو جس وقت اور جس قدر چاہے کسی پر کھول سکتا ہے کسی کو یہ قدرت نہیں کہ اپنے حواس و عقل وغیرہ آلات ادراک کے ذریعہ سے علوم غیبیہ تک رسائی پاسکے یا جتنے غیوب اس پر منکشف کر دیے گئے ہیں ان میں ازخود اضافہ کر لے کیونکہ علوم غیبیہ کی کنجیاں اس کے ہاتھ میں نہیں دی گئیں۔ خواہ لاکھوں کروڑوں جزئیات و واقعات غیبیہ پر کسی بندے کو مطلع کر دیا گیا ہو۔ تاہم غیب کے اصول و کلیات کا علم جن کو "مفاتیح غیب" کہنا چاہئیے حق تعالیٰ نے اپنے ہی لئے مخصوص رکھا ہے۔


يَسـَٔلونَكَ عَنِ السّاعَةِ أَيّانَ مُرسىٰها ۖ قُل إِنَّما عِلمُها عِندَ رَبّى ۖ لا يُجَلّيها لِوَقتِها إِلّا هُوَ ۚ ثَقُلَت فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ ۚ لا تَأتيكُم إِلّا بَغتَةً ۗ يَسـَٔلونَكَ كَأَنَّكَ حَفِىٌّ عَنها ۖ قُل إِنَّما عِلمُها عِندَ اللَّهِ وَلٰكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ {7:187}
(یہ لوگ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کب ہے۔ کہہ دو کہ اس کا علم تو میرے پروردگار ہی کو ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کردےگا۔ وہ آسمان وزمین میں ایک بھاری بات ہوگی اور ناگہاں تم پر آجائے گی۔ یہ تم سے اس طرح دریافت کرتے ہیں کہ گویا تم اس سے بخوبی واقف ہو۔ کہو کہ اس کا علم تو الله ہی کو ہے لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے
قیامت کا علم صرف اللہ کو ہے:پہلے { عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُھُمْ } میں خاص اس قسم کی اجل (موت) کا ذکر تھا کہ انہیں کچھ معلوم نہیں کب آ جائے۔ یہاں تمام دنیا کی اجل (قیامت) کے متعلق متنبہ فرما دیا کہ جب کسی کو خاص اپنی موت کا علم نہیں کب آئے پھر کل دنیا کی موت کو کون بتلا سکتا ہے کہ فلاں تاریخ اور فلاں سنہ میں آئے گی۔ اس کے تعین کا علم بجز خدائے علام الغیوب کسی کے پاس نہیں۔ وہ ہی وقت معین و مقدر پر اسے واقع کر کے ظاہرکر دے گا کہ الله کے علم میں اس کا یہ وقت تھا آسمان و زمین میں وہ بڑا بھاری واقعہ ہو گا اور اس کا علم بھی بہت بھاری ہے جو الله کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ گو اس واقعہ کی امارات (بہت سی نشانیاں) انبیاءؑ خصوصًا ہمارے پیغمبر آخر الزماں ﷺ نے بیان فرمائی ہیں تاہم ان سب علامات کے ظہور کے بعد بھی جب قیامت کا وقوع ہو گا تو بالکل بےخبری میں اچانک اور دفعۃً ہو گا۔ جیسا کہ بخاری وغیرہ کی احادیث میں تفصیلًا مذکور ہے۔
ان لوگوں کے طرز سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا وہ آپ کی نسبت یوں سمجھتے ہیں کہ آپ بھی اسی مسئلہ کی تحقیق و تفتیش اور کھوج لگانے میں مشغول رہے ہیں اور تلاش کے بعد اس کے علم تک رسائی حاصل کر چکے ہیں حالانکہ یہ علم حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ انبیاءؑ اس چیز کے پیچھے نہیں پڑا کرتے جس سے الله نے اپنی مصلحت کی بناء پر روک دیا ہو۔ نہ ان کے اختیار میں ہے کہ جو چاہیں کوشش کر کے ضرور ہی معلوم کر لیا کریں۔ ان کا منصب یہ ہے کہ جن بےشمار علوم و کمالات کا الله کی طرف سے افاضہ ہو نہایت شکر گذاری او ر قدر شناسی کے ساتھ قبول کرتے رہیں۔ مگر ان باتوں کو اکثر عوام کالانعام کیا سمجھیں۔

قُل لا أَملِكُ لِنَفسى نَفعًا وَلا ضَرًّا إِلّا ما شاءَ اللَّهُ ۚ وَلَو كُنتُ أَعلَمُ الغَيبَ لَاستَكثَرتُ مِنَ الخَيرِ وَما مَسَّنِىَ السّوءُ ۚ إِن أَنا۠ إِلّا نَذيرٌ وَبَشيرٌ لِقَومٍ يُؤمِنونَ {7:188}
کہہ دو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو الله چاہے اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کرلیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو مومنوں کو ڈر اور خوشخبری سنانے والا ہوں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صفت علم غیب حاصل نہیں :اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ کوئی بندہ خواہ کتنا ہی بڑا ہو نہ اپنے اندر "اختیار مستقل" رکھتا ہے نہ "علم محیط" سیدالانبیاء جو علوم اولین و آخرین کے حامل اور خزائن ارضی کی کنجیوں کے امین بنائے گئے تھے۔ ان کو یہ اعلان کرنے کا حکم ہے کہ میں دوسروں کو کیا خود اپنی جان کو بھی کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا نہ کسی نقصان سے بچا سکتا ہوں ۔ مگر جس قدر اللہ چاہے اتنے ہی پر میرا قابو ہے۔ اور اگر میں غیب کی ہر بات جان لیا کرتا تو بہت سی وہ بھلائیاں اور کامیابیاں بھی حاصل کر لیتا جو علم غیب نہ ہونے کی وجہ سے کسی وقت فوت ہو جاتی ہیں نیز کبھی کوئی ناخوشگوار حالت مجھ کو پیش نہ آیا کرتی۔ مثلًا "افک" کے واقعہ میں کتنے دنوں تک حضور ﷺ کو وحی نہ آنے کی وجہ سے اضطراب و قلق رہا۔ حجۃ الوداع میں تو صاف ہی فرما دیا { لَوْاسْتَقبَلْتُ مِنْ اَمْرِیَ ما اسْتَدْ بَرْتُ لَمَا سُقْتُ الھَدْیَ } (اگر میں پہلے سے اس چیز کو جانتا جو بعد میں پیش آئی تو ہرگز ہدی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا) اسی قسم کے بیسیوں واقعات ہیں جن کی روک تھام "علم محیط" رکھنے کی صورت میں نہایت آسانی سے ممکن تھی۔ ان سب سے بڑھ کر عجیب تر واقعہ یہ ہے کہ "حدیث جبرئیل" کی بعض روایات میں آپ نے تصریحًا فرمایا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے جبرئیل کو واپسی کے وقت تک نہیں پہچانا۔ جب وہ اٹھ کر چلے گئے تب علم ہوا کہ جبرئیل تھے۔ یہ واقعہ بتصریح محدثین بالکل آخر عمر کا ہے۔ اس میں قیامت کے سوال پر { ما المسئولُ عَنْھَا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِل } ارشاد فرمایا ہے۔ گویا بتلا دیا گیا کہ "علم محیط" الله کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ اور "علم غیب" تو درکنار محسوسات و مبصرات کا پورا علم بھی الله  ہی کے عطا کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ وہ کسی وقت نہ چاہے تو ہم محسوسات کا بھی اور ادراک نہیں کر سکتے۔ بہرحال اس آیت میں کھول کر بتلا دیا گیا کہ "اخیتار مستقل" یا "علم محیط" نبوت کے لوازم میں سے نہیں۔ جیسا کہ بعض جہلاء سمجھتے تھے۔ ہاں شرعیات کا علم جو انبیاءؑ کے منصب سےمتعلق ہے کامل ہونا چاہئے اور تکوینیات کا علم الله تعالیٰ جس کو جس قدر مناسب جانے عطا فرماتا ہے۔ اس نوع میں ہمارے حضور ﷺ تمام اولین و آخرین سے فائق ہیں۔ آپ کو اتنے بیشمار علوم و معارف حق تعالیٰ نے مرحمت فرمائے ہیں جن کا احصاء کسی مخلوق کی طاقت میں نہیں۔

القرآن :
تجھ سے پوچھتے ہیں قیامت کو کہ کب ہے اس کے قائم ہونے کا وقت ، تو کہہ اس کی خبر تو میرے رب ہی کے پاس ہے ، وہی کھول دکھاۓ گا اس کو اس کے وقت پر ، وہ بھاری بات ہے آسمانوں اور زمین میں ، جب تم پر آۓ گی تو بےخبر آۓ گی ، تجھ سے پوچھنے لگتے ہیں کہ گویا کہ تو اس کی تلاش میں لگا ہوا ہے ، تو کہدے اس کی خبر ہے خالص الله کے پاس لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔

(( يَسـَٔلونَكَ )) زجر ہے ، جب آپ قیامت سے ڈراتے ہیں تو ماننے کے بجاۓ الٹے ضد و عناد کی وجہ سے سوال کرنے لگتے ہیں کہ وہ قیامت آۓ گی کب. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے علم قیامت کی نفی سات (٧) طریقوں سے کی گئی. پہلا طریقہ: الله تعالیٰ  نے فرمایا آپ اس کے جواب میں صاف کہدیں (( إِنَّما عِلمُها عِندَ رَبّى )) کہ اس کا علم صرف الله ہی کو ہے کہ قیامت کب آۓ گی. دوسرا طریقہ: (( لا يُجَلّيها لِوَقتِها إِلّا هُوَ )) یعنی اس کا وقت آپہنچے گا تو وہ خود ہی اس کو ظاہر فرماۓ  گا. تیسرا طریقہ: (( ثَقُلَت فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ )) یعنی زمین و آسمان میں قیامت کے علم کا معاملہ بہت اہم ہے ،  زمین و آسمان کی ساری مخلوق سے قیامت کا علم پوشیدہ ہے اور ہر ایک کی تمنا ہے کہ اس کا علم اس پر منکشف ہوجاۓ. أي : كل من أهلها من الملائكة والثقلين أهمه شأن الساعة خوفا من عذاب الله ، ويتمنى أن يتجلى له عملها ، وشق عليه خفاؤها [مدارك:2/67] والمراد كبرت وعظمت على أهلهما حيث لم يعلموا وقت وقوعها [روح المعاني:9/133] چوتھا طریقہ: (( يَسـَٔلونَكَ كَأَنَّكَ حَفِىٌّ عَنها )) مشرکین قیامت کے بارے میں آپ سے اس طرح سوال کرتے ہیں کہ گویا آپ اس کی تلاش و جستجو میں ہیں اور اس کا علم حاصل کرچکے ہیں. أي عالم بها كثيرا السوال عنها. [قرطبى:7/336] پانچواں طریقہ: (( قُل إِنَّما عِلمُها عِندَ اللَّهِ )) دوبارہ تاکیداً حکم دیا کہ آپ اعلان کردیں کہ قیامت کا علم صرف الله ہی کے پاس ہے، الله تعالیٰ  نے قیامت کا علم تمام مخلوق سے پوشیدہ کر رکھا ہے کیونکہ حکمت تشریعیہ کا اقتضاء یہی ہے اسی طرح انسان کی موت کا علم مخفی ہے کیونکہ یہ چیز احکام خداوندی کی بجاآوری اور گناہوں سے اجتناب میں زیادہ معاون و موثر ہے یہاں تک کہ یہ علم الله تعالیٰ نے کسی نبی مرسل اور ملک مقرب پر بھی ظاہر نہیں فرمایا.  وإنما أخفى سبحانه أمر الساعة لاقتضاء الحكمة التشريعية ذلك ، فإنه أدعى إلى الطاعة ، وأزجر عن المعصية ، كما أن إخفاء الأجل الخاص للإنسان كذلك ... وظاهر الآيات أنه - صلى الله عليه وسلم - لم يعلم وقت قيامها . نعم علم - صلى الله عليه وسلم - قربها على الإجمال   [روح المعاني:9/134] چھٹہ طریقہ: قیامت کا علم تو درکنار وہ تو بہت بڑی بات ہے میں تو اپنے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں (( إِلّا ما شاءَ اللَّهُ )) یہ استثناء منقطع ہے یعنی جو کچھ الله چاہے وہی ہوتا ہے.  اس میں انتہائی عجز کا اظھار ہے اور اس سے حضور علیہ السلام کا علم قیامت سے عجز کامل طور پر ثابت ہوتا ہے. ولكن ما شاء الله تعالى من ذلك كائن، وفيه على هذا من اظهار العجز [أبو السعود :4/485]  والكلام مسوق لإثبات عجزه عن العلم بالساعة على أتم وجه  [روح المعاني:9/136] ساتواں طریقہ: یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے علم غیب کی نفی پر ایک واضح دلیل ہے یعنی اگر میں غیب جانتا ہوتا تو دنیا کے تمام منافع حاصل کرلیتا اور تمام مضار سے بچ جاتا اور مجھے  تکلیف نہ پہنچتی. اہل بدعت کہتے ہیں کہ یہاں ((كُنتُ)) ماضی کا صیغہ ہے اور یہ پہلے کی بات ہے بعد میں آپ کو کلی علم غیب حاصل ہوگیا تھا. اس کا جواب یہ ہے کہ جب کلمہ (( لَو )) ماضی پر داخل ہوجاۓ تو مفید استمرار ہوتا ہے جیسا کہ شرح عقائد      اور حاشیہ خیالیہ میں مذکور ہے، (( الخَيرِ )) سے دنیوی منافع اور (( السّوءُ )) سے دنیوی تکلیفیں مراد ہیں، اس میں شک نہیں کہ حضور علیہ الصلاة والسلام سے کئی دنیوی منافع  ہوگئے اور کئی دنیوی تکلیفیں آپ کو پہنچی، باقی رہی آخرت کی خیر تو وہ آپ کو تمام و کمال حاصل تھی اور آخرت کے مضار سے بھی محفوظ تھے. لہذا  مبتدعین کا یہ اعتراض باطل ہوگیا کہ تمہارے مطلب سے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھلائی سے محروم ہونا لازم آتا ہے.

وَمِمَّن حَولَكُم مِنَ الأَعرابِ مُنٰفِقونَ ۖ وَمِن أَهلِ المَدينَةِ ۖ مَرَدوا عَلَى النِّفاقِ لا تَعلَمُهُم ۖ نَحنُ نَعلَمُهُم ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَرَّتَينِ ثُمَّ يُرَدّونَ إِلىٰ عَذابٍ عَظيمٍ {9:101}
اور تمہارے گرد و نواح کے بعض دیہاتی منافق ہیں اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں تم انہیں نہیں جانتے۔ ہم جانتے ہیں۔ ہم ان کو دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے
اہل مدینہ اور اعراب منافقین:پہلے سے دیہاتی عربوں کا ذکر چلا آ رہا تھا۔ درمیان میں اعراب و مومنین کے تذکرہ سے مہاجرین و انصار کی طرف کلام منتقل ہو گیا۔ اب اس آیت میں خاص مدینہ اور اس کے آس پاس رہنے والوں کا بیان ہے یعنی بعض اہل مدینہ اور گردوپیش کے رہنے والے نفاق کے خوگر ہو چکے اور اسی پر اڑے ہوئے ہیں۔ لیکن یہ نفاق اس قدر عریق و عمیق ہے کہ ان کے قرب مکانی اور نبی کریم ﷺ کی کمال فطانت و فراست کے باوجود آپ بھی بالتعین اور قطعی طور پر محض علامات و قرائن سے ان کے نفاق پر مطلع نہیں ہو سکتے ان کا ٹھیک ٹھیک تعین صرف الله کے علم میں ہے۔ جس طرح عام منافقین کا پتہ چہرہ لب و لہجہ اور بات چیت سے لگ جاتا تھا۔ { وَلَوْ شِئْنَا لَاَرَیْنَا کَھُمْ فَلَعَرَ فتَھُمْ۔ وَلَتَعْرِفَنَّھُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ } ان کا نفاق اتنا گہرا ہے کہ اس قسم کی ظاہری علامات ان کا پردہ فاش نہیں کرتیں۔
منافقین کے لئے بڑا عذاب:بڑا عذاب دوزخ کا ہے اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ (نساء۔۱۴۵) اس سے قبل کم ازکم دوبار ضرور عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے ۔ ایک عذاب قبر دوسرا عذاب جو اسی دنیوی زندگی میں پہنچ کر رہے گا مثلاً ابن عباس کی ایک روایت کے موافق حضور ﷺ نے جمعہ کے روز ممبر پر کھڑے ہو کر تقریباً چھتیس آدمیوں کو نام بنام پکار کر فرمایا اُخْرُجْ فَاِنَّکَ مُنَافِقٌ یعنی تو منافق ہے مسجد سے نکل جا۔ یہ رسوائی ایک قسم عذاب کی تھی۔ یاپہلے اسی سورت میں گذرا کہ ان کے اموال و اولاد کو حق تعالیٰ نے ان کے حق میں عذاب بنا دیا۔ فَلَا تُعۡجِبۡکَ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ بِہَا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا (توبہ۔۵۵) الخ یا ان میں کے بعض بھوک وغیرہ آفات ارضی و سماوی میں مبتلا ہو کر ذلت کی موت مرے یا اسلام کی ترقی و عروج کو دیکھ کر غیظ کھانا اور دانت پیسنا یہ بھی ان کے حق میں سوہان روح تھا۔ میرےنزدیک یہ سب قسموں کے عذاب مرتین کے احاطہ میں داخل ہیں۔ اور دو کا عدد یا تو مطلق تعدد کے لئے ہے جیسے ثُمَّ ارۡجِعِ الۡبَصَرَ کَرَّتَیۡنِ (الملک۔۴) میں۔ اور یا دو بار سے مراد نوعی اِثنینیت ہے ۔ یعنی عذاب قبر اور عذاب قبل الموت واللہ اعلم۔


وَلا أَقولُ لَكُم عِندى خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعلَمُ الغَيبَ وَلا أَقولُ إِنّى مَلَكٌ وَلا أَقولُ لِلَّذينَ تَزدَرى أَعيُنُكُم لَن يُؤتِيَهُمُ اللَّهُ خَيرًا ۖ اللَّهُ أَعلَمُ بِما فى أَنفُسِهِم ۖ إِنّى إِذًا لَمِنَ الظّٰلِمينَ {11:31}
میں نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس الله کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور نہ ان لوگوں کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ الله ان کو بھلائی (یعنی اعمال کی جزائے نیک) نہیں دے گا جو ان کے دلوں میں ہے اسے الله خوب جانتا ہے۔ اگر میں ایسا کہوں تو بےانصافوں میں ہوں
حضرت نوح علیہ السلام کی تقریر: کفار نے نوحؑ کو کہا تھا کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو جتھے اور دولت کے اعتبار سے بھی کچھ امتیاز نہیں رکھتے اس کا جواب نہایت متانت و انصاف کے ساتھ دیتے ہیں کہ بیشک جیسا امتیاز تم دیکھنا چاہتے ہو اس کا ہم دعویٰ نہیں رکھتے۔ بلاشبہ میں ایک بشر ہوں ، فرشتہ نہیں نہ الله نے اپنے سارے خزانے میرے تصرف و اختیار میں دیدیے ہیں ، نہ تمام غیب کی باتوں پر مطلع کیا گیا ہوں ، لیکن ان تمام باتوں کے اعتراف کے ساتھ تمہاری طرح یہ کبھی نہ کہوں گا کہ جو لوگ تمہاری نگاہ میں معیوب و حقیر ہیں (یعنی میں اور میرے رفقاء) ان کو الله ہرگز کوئی خیر (بھلائی) نہیں دے سکتا۔ مثلاً ان میں سے کسی کو نبوت و حکمت عطا فرما دے اور باقیوں کو ایمان و عرفان کی دولت سے بہرہ ور کرے۔ خوب سمجھ لو حق تعالیٰ ان کےدلوں کی استعدادات و کیفیات کو پوری طرح جانتا ہے۔ ہر ایک کی استعداد کے مناسب فیض پہنچاتا اور باطنی احوال و کیفیات کے موافق برتاؤ کرتا ہے۔ اس نےجو خاص مہربانی مجھ پر یا میرے ساتھیوں پر کی ہے ، وہ تمہاری آنکھ سے پوشیدہ ہے ۔ اگر میں یہ کہنے لگوں کہ جو تمہیں بظاہر شکستہ حال اور حقیر دکھائی دیتےہیں۔ الله تعالیٰ نے بھی جو بواطن کا جاننے والا ہے انہیں کوئی عزت و شرف نہیں بخشا ، تو نہایت بے اصول اور ناانصافی کی بات ہو گی۔ (تنبیہ) اس آیت کے ابتدائی تین جملے سورہ انعام میں گذر چکے ۔ وہاں کے فوائد میں دیکھ لئے جائیں۔

علم غیب کی نفی میں نبی اور اس کی قوم دونوں شامل ہیں:
تِلكَ مِن أَنباءِ الغَيبِ نوحيها إِلَيكَ ۖ ما كُنتَ تَعلَمُها أَنتَ وَلا قَومُكَ مِن قَبلِ هٰذا ۖ فَاصبِر ۖ إِنَّ العٰقِبَةَ لِلمُتَّقينَ {11:49}
یہ (حالات) منجملہ غیب کی خبروں کے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں۔ اور اس سے پہلے نہ تم ہی ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم (ہی ان سے واقف تھی) تو صبر کرو کہ انجام پرہیزگاروں ہی کا (بھلا) ہے
یعنی یہ دلائل نبوت میں سے ہے کہ ایک امّی کی زبان سے امم سابقہ کے ایسے مستند و مفصل واقعات سنوائے جائیں۔
جیسے نوحؑ اور ان کے رفقاء کے انجام بھلا ہوا آپ کے ساتھیوں کا مستقبل بھی نہایت تابناک اور کامیاب ہے۔ آپ کفار کی ایذاؤں پر صبر کریں ، گھبرا کر تنگدل نہ ہوں۔ جیسے نوحؑ نے ساڑھے نو سو برس صبر کیا۔

یعنی الله کے خبر دینے سے پہلے نبی کی طرح قوم بھی اس غیب (پوشیدہ باتوں) کو نہ جانتے تھی ،  اسی طرح غیبی خبر کے ظاہر کرنے کے بعد الله کے ساتھ جب قوم کو عالم الغیب نہیں کہا جاتا اسی طرح نبی کو بھی الله کی اس خاص صفت میں شریک کرتے قرآن و سنّت میں کہیں بھی عالم الغیب نہیں کہا گیا. کیونکہ قرآن و سنّت میں اس صیغہ و لفظ عالم الغیب کو صرف الله کے لئے ہی استعمال کیا گیا ہے جو  (بلا واسطہ) ذاتی علم رکھنے والے ہی کو کہتے ہیں 





ذٰلِكَ مِن أَنباءِ الغَيبِ نوحيهِ إِلَيكَ ۖ وَما كُنتَ لَدَيهِم إِذ أَجمَعوا أَمرَهُم وَهُم يَمكُرونَ {12:102}
(اے پیغمبر) یہ اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں اور جب برادران یوسف نے اپنی بات پر اتفاق کیا تھا اور وہ فریب کر رہے تھے تو تم ان کے پاس تو نہ تھے
ان واقعات کا علم آنحضرت ﷺ کی نبوت کی دلیل ہے:یعنی برادران یوسفؑ جب ان کو باپ سےجدا کرنے اور کنویں میں ڈالنےکو مشورے اور تدبیریں کر رہے تھے آپ ان کے پاس نہیں کھڑے تھے کہ ان کی باتیں سنتے اور حالات کا معائنہ کرتے ۔ پھر ایسے صحیح واقعات بجز وحی الہٰی کے آپ کو کس نے بتائے ۔ آپ رسمی طور پر پڑھے لکھے نہیں ، کسی ظاہری معلم سے استفادہ کی نوبت نہیں ، پھر یہ حقائق جن کی اس قدر تفصیل بائیبل میں بھی نہیں ، آپ کو الله کے سوا کس نے معلوم کرائیں۔

يَعلَمُ ما بَينَ أَيديهِم وَما خَلفَهُم وَلا يُحيطونَ بِهِ عِلمًا {20:110}
جو کچھ ان کے آگے ہے اور کچھ ان کے پیچھے ہے وہ اس کو جانتا ہے اور وہ (اپنے) علم سے اس (کے علم) پر احاطہ نہیں کرسکتے
یعنی الله کا علم سب کو محیط ہے لیکن بندوں کا علم اس کو یا اس کی معلومات کو محیط نہیں ۔ اس لئے وہ اپنےعلم محیط سے جانتا ہے کس کو کس کے لئے شفاعت کا موقع دینا چاہئے۔

قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمٰوٰتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَما يَشعُرونَ أَيّانَ يُبعَثونَ {27:65}
کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں الله کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے۔ اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کب (زندہ کرکے) اٹھائے جائیں گے
اللہ کی قدرت تامہ اور علم محیط:اس آیت میں مضمون سابق کی تکمیل اور مضمون لاحق کی تمہید ہے۔ شروع پارہ سے یہاں تک حق تعالیٰ کی قدرت تامہ، رحمت عامہ اور ربوبیت کاملہ کا بیان تھا۔ یعنی جب وہ ان صفات و شئون میں منفرد ہے تو الوہیت و معبودیت میں بھی منفرد ہونا چاہئے۔ آیت حاضرہ میں اس کی الوہیت پر دوسری حیثیت سے استدلال کیا جا رہا ہے۔ یعنی معبود وہ ہو گا جو قدرت تامہ کے ساتھ علم کامل و محیط بھی رکھتا ہو۔ اور یہ وہ صفت ہے جو زمین و آسمان میں کسی مخلوق کو حاصل نہیں، اسی رب العزت کے ساتھ مخصوص ہے پس اس اعتبار سے بھی معبود بننے کی مستحق اکیلی اس کی ذات ہوئی۔ (تنبیہ)۔ عالم الغیب کے الفاظ کا استعمال: کل مغیبات کا علم بجز الله کے کسی کو حاصل نہیں، نہ کسی ایک غیب کا علم کسی شخص کو بالذات بدون عطائے الہٰی کے ہو سکتا ہے۔ اور نہ مفاتیح (غیب کی کنجیاں جن کا ذکر سورہ "انعام" میں گذر چکا) اللہ نے کسی مخلوق کو دی ہیں۔ ہاں بعض بندوں کو بعض غیوب پر باختیار خود مطلع کر دیتا ہے جس کی وجہ سے کہہ سکتے ہیں کہ فلاں شخص کو حق تعالیٰ نے غیب پر مطلع فرما دیا، غیب کی خبر دے دی۔ لیکن اتنی بات کی وجہ سے قرآن و سنت نے کسی جگہ ایسے شخص پر "عالم الغیب" یا "فلان یعلم الغیب" کا اطلاق نہیں کیا۔ بلکہ احادیث میں اس پر انکار کیا گیا ہے۔ کیونکہ بظاہر یہ الفاظ اختصاص علم الغیب بذات الباری کے خلاف موہم ہوتے ہیں۔ اسی لئے علمائے محققین اجازت نہیں دیتے کہ اس طرح کے الفاظ کسی بندہ پر اطلاق کئے جائیں۔ گو لغۃً صحیح ہوں کسی کا یہ کہنا کہ { اِنَّ اللہَ لَا یَعْلَمُ الْغَیْبَ } (اللہ کو غیب کا علم نہیں) گو اس کی مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے اعتبار سے کوئی چیز غیب ہے ہی نہیں، سخت ناروا اور سوء ادب ہے۔ یا کسی کاحق سے موت اور فتنہ سے اولاد اور رحمت سے بارش مراد لے کر یہ الفاظ کہنا { انی اکرہ الحق وَاُحِبُّ الفتنۃ وافِرُّ مِنَ الرَّحْمَۃِ } (میں حق کو برا سمجھتا ہوں اور فتنہ کو محبوب رکھتا ہوں اور رحمت سے دور بھاگتا ہوں) سخت مکرو اور قبیح ہے، حالانکہ باعتبار نیت و مراد کے قبیح نہ تھا اسی طرح فلاں عالم الغیب وغیرہ الفاظ کو سمجھ لو۔ اور واضح رہے کہ علم غیب سے ہماری مراد محض ظنون و تخمینات نہیں اور نہ وہ علم جو قرائن و دلائل سے حاصل کیا جائے۔ بلکہ جس کے لئے کوئی دلیل و قرینہ موجود نہ ہو وہ مراد ہے۔ سورہ انعام و اعراف میں اس کے متعلق کسی قدر لکھا جا چکا ہے۔ وہاں مراجعت کر لی جائے۔
یعنی قیامت کب آئے گی جس کے بعد مردے دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اس کی خبر کسی کو نہیں ۔ پہلے سے مبداء کا ذکر چلا آتا تھا۔ یہاں سے معاد کا شروع ہوا۔

 مَا ‌كَانَ ‌وَمَا ‌يَكُون۔۔۔۔کا علم صرف اللہ کیلئے ہے:

لَا يَعْلَمُ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ، أي: ‌مَا ‌كَانَ ‌وَمَا ‌يَكُون إلى أبد الآبدين لا يعلم ذلك إلا اللَّه وإن أعلموا وعلموا ذلك.

ترجمہ:

نہیں کوئی رکھتا علم غیب سوائے اللہ کے، یعنی: جو ہوچکا اور جو ہوگا ہمیشہ ہمیشہ تک، نہیں کوئی علم رکھتا اس کا مگر اللہ ہی اور اگر وہ لوگ اس کا علم رکھتے تو اس پر عمل کرتے۔ 

[تفسير الماتريدي(م333ھ) = تأويلات أهل السنة: سورۃ النمل: آیۃ 65]


وَما كُنتَ بِجانِبِ الغَربِىِّ إِذ قَضَينا إِلىٰ موسَى الأَمرَ وَما كُنتَ مِنَ الشّٰهِدينَ {28:44}
اور جب ہم نے موسٰی کی طرف حکم بھیجا تو تم (طور کی) غرب کی طرف نہیں تھے اور نہ اس واقعے کے دیکھنے والوں میں تھے
یعنی کوہ طور کے غرب کی جانب جہاں موسٰیؑ کو نبوت اور تورات ملی۔

وَلٰكِنّا أَنشَأنا قُرونًا فَتَطاوَلَ عَلَيهِمُ العُمُرُ ۚ وَما كُنتَ ثاوِيًا فى أَهلِ مَديَنَ تَتلوا عَلَيهِم ءايٰتِنا وَلٰكِنّا كُنّا مُرسِلينَ {28:45}
لیکن ہم نے (موسٰی کے بعد) کئی اُمتوں کو پیدا کیا پھر ان پر مدت طویل گذر گئی اور نہ تم مدین والوں میں رہنے والے تھے کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے تھے۔ ہاں ہم ہی تو پیغمبر بھیجنے والے تھے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر استدلال:یعنی تو اس وقت کے واقعات تو ایسی صحت و صفائی اور بسط و تفصیل سے بیان کر رہا ہے جیسے وہیں "طور" کے پاس کھڑ ادیکھ رہا ہو۔ حالانکہ تمہارا موقع پر موجود نہ ہونا ظاہر ہے اور ویسے بھی سب جانتے ہیں تم امی ہو۔ کسی عالم کی صحبت میں بھی نہیں رہے۔ نہ ٹھیک ٹھیک صحیح واقعات کا کوئی جید عالم مکہ میں موجود تھا۔ پھر غور کرنے کا مقام ہے کہ یہ علم کہاں سے آیا حقیقت یہ ہے کہ اقوام دنیا پر مدتیں اور قرن گذر گئے، مرورد ہور سے وہ علوم محرف و مندرس ہوتے جا رہے تھے اور وہ ہدایت مٹتی جا رہی تھیں۔ لہذا اس علیم و خبیر کا ارادہ ہوا کہ ایک امی کی زبان سے بھولے ہوئے سبق یاد دلائے جائیں اور ان عبرتناک و موعظت آمیز واقعات کا ایسا صحیح فوٹو دنیا کے سامنے پیش کر دیا جائے جس پر نظر کر کے بے اختیار ماننا پڑے کہ اس کا پیش کرنے والا موقع پر موجود تھا اور اپنی آنکھوں سے من و عن کیفیات کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ پس ظاہر ہے کہ تم تو وہاں موجود نہ تھے، بجز اس کے کیا کہا جائے کہ جو الله آپ کی زبان سے بول رہا ہے اور جس کے سامنے ہرغائب بھی حاضر ہے یہ بیان اسی کا ہو گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پچھلے واقعات کا علم:یعنی موسٰیؑ کو "مدین" جا کر جو واقعات پیش آئے ان کا اس خوبی و صحت سے بیان تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا اس وقت تم شان پیغمبری کے ساتھ وہیں سکونت پذیر تھے اور جس طرح آج اپنے وطن مکہ میں اللہ کی آیات پڑھ کر سنا رہے ہو، اس وقت "مدین" والوں کو سناتے ہو گے حالانکہ یہ چیز صریحًا منفی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہم ہمیشہ سے پیغمبر بھیجتے رہے ہیں جو دنیا کو غفلت سے چونکاتے اور گذشتہ عبرتناک واقعات یاد دلاتے رہے۔ اسی عام عادت کے موافق ہم نے اس زمانہ میں تم کر رسول بنا کر بھیجا کہ پچھلے قصے یاد دلاؤ۔ اور خواب غفلت سے مخلوق کو بیدار کرو۔ اس لئے ضروری ہوا کہ ٹھیک ٹھیک واقعات کا صحیح علم تم کو دیا جائے اور تمہاری زبان سے ادا کرایا جائے۔

وَما كُنتَ بِجانِبِ الطّورِ إِذ نادَينا وَلٰكِن رَحمَةً مِن رَبِّكَ لِتُنذِرَ قَومًا ما أَتىٰهُم مِن نَذيرٍ مِن قَبلِكَ لَعَلَّهُم يَتَذَكَّرونَ {28:46}
اور نہ تم اس وقت جب کہ ہم نے (موسٰی کو) آواز دی طور کے کنارے تھے بلکہ (تمہارا بھیجا جانا) تمہارے پروردگار کی رحمت ہے تاکہ تم اُن لوگوں کو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی ہدایت کرنے والا نہیں آیا ہدایت کرو تاکہ وہ نصیحت پکڑیں
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پچھلے واقعات کا علم:یعنی جب موسٰیؑ کو آواز دی { اِنِّی اَنَا اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ } تم وہاں کھڑے سن نہیں رہے تھے۔ یہ حق تعالیٰ کا انعام ہے کہ آپ کو ان واقعات و حقائق پر مطلع کیا اور تمہارے ساتھ بھی اسی نوعیت کا برتاؤ کیا جو موسٰیؑ کے ساتھ ہوا تھا۔ گویا "جبل النور" (جہاں غار حرا ہے) اور "مکہ" "مدینہ" میں "جبل طور" اور "مدین" کی تاریخ دہرا دی گئ۔
یعنی عرب کے لوگوں کو یہ چیزیں بتلا کر خطرناک عواقب سے آگاہ کر دیں۔ ممکن ہے وہ سن کر یاد رکھیں اور نصیحت پکڑیں۔ (تنبیہ) { مَااُنْذِرَ اٰبَاؤھُم } سے شاید آبائے اقربین مراد ہوں گے۔ واللہ اعلم۔

إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلمُ السّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الغَيثَ وَيَعلَمُ ما فِى الأَرحامِ ۖ وَما تَدرى نَفسٌ ماذا تَكسِبُ غَدًا ۖ وَما تَدرى نَفسٌ بِأَىِّ أَرضٍ تَموتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ خَبيرٌ {31:34}
الله ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینھہ برساتا ہے۔ اور وہی (حاملہ کے) پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے (کہ نر ہے یا مادہ) اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا۔ اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کس سرزمین میں اُسے موت آئے گی بیشک الله ہی جاننے والا (اور) خبردار ہے
تقدیر الٰہی اور تدبیر کا تعلق:یعنی قیامت آ کر رہے گی۔ کب آئے گی؟ ا سکا علم الله کے پاس ہے۔ نہ معلوم کب یہ کارخانہ توڑ پھوڑ کر برابر کر دیا جائے۔ آدمی دنیا کے باغ و بہار اور وقتی تازگی پر ریجھتا ہے، کیا نہیں جانتا کہ علاوہ فانی ہونے کے فی الحال بھی یہ چیز اور اس کے اسباب سب الله کے قبضہ میں ہیں۔ زمین کی ساری رونق اور مادی برکت (جس پر تمہاری خوشحالی کا مدار ہے) آسمانی بارش پر موقوف ہے۔ سال دو سال مہینہ نہ برسے تو ہر طرف خاک اڑنے لگے۔ نہ سامان معیشت رہیں نہ اسباب معیشت رہیں، نہ اسباب راحت، پھر تعجب ہے کہ انسان دنیا کی زینت اور تروتازگی پر فریفتہ ہو کر ا س ہستی کو بھول جائے جس نے اپنی باران رحمت سے اس کو تروتازہ اور پر رونق بنا رکھا ہے۔ علاوہ بریں کسی شخص کو کیا معلوم ہے کہ دنیا کے عیش و آرام میں اس کا کتنا حصہ ہے۔ بہت سے لوگ کوشش کر کے اور ایڑیاں رگڑ کر مر جاتے ہیں لیکن زندگی بھر چین نصیب نہیں ہوتا۔ بہت ہیں جنہیں بے محنت دولت مل جاتی ہے۔ یہ دیکھ کر بھی کوئی آدمی جو دین کےمعاملہ میں تقدیر الہٰی پر بھروسہ کئے بیٹھا ہو، دنیوی جدوجہد میں تقدیر پر قانع ہو کر ذرہ برابر کمی نہیں کرتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ تدبیر کرنی چاہئے۔ کیونکہ اچھی تقدیر عمومًا کامیاب تدبیر ہی کے ضمن میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ علم الله کو ہے کہ فی الواقع ہماری تقدیر کیسی ہو گی اور صحیح تدبیر بن پڑے گی یا نہیں ۔ یہ ہی بات اگر ہم دین کے معاملہ میں سمجھ لیں تو شیطان کے دھوکہ میں ہرگز نہ آئیں بیشک جنت دوزخ جو کچھ ملے گی تقدیر سے ملے گی جس کا علم الله کو ہے مگر عمومًا اچھی یا بری تقدیر کا چہرہ، اچھی یا بری تدبیر کے آئینہ میں نطر آتا ہے۔ اس لئے تقدیر کا حوالہ دے کر ہم تدبیر کو نہیں چھوڑ سکتے۔ کیونکہ یہ پتہ کسی کو نہیں کہ اللہ کے علم میں وہ سعید ہے یا شقی۔ جنتی ہے یا دوزخی، مفلس ہے یا غنی لہذا ظاہری عمل اور تدبیر ہی وہ چیز ہوئی جس سے عادۃً ہم کو نوعیت تقدیر کا قدرے پتہ چل جاتا ہے۔ ورنہ یہ علم تو حق تعالیٰ ہی کو ہے کہ عورت کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی اور پیدا ہونے کے بعد اس کی عمر کیا ہو، روزی کتنی ملے، سعید ہو یا شقی، اس کی طرف { وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ } میں اشارہ کیا ہے۔ رہا شیطان کا یہ دھوکا کہ فی الحال تو دنیا کے مزے اڑا لو، پھر توبہ کر کے نیک بن جانا، اس کا جواب ہے { وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَاتَکْسِبَ غَدًا } الخ میں دیا ہے۔ یعنی کسی کو خبر نہیں کہ کل وہ کیا کرے گا؟ اور کچھ کرنے کے لئے زندہ بھی رہے گا؟ کب موت آ جائے گی اور کہاں آئے گی؟ پھر یہ وثوق کیسے ہو کہ آج کی بدی کا تدارک کل نیکی سے ضرور کر لے گا اور توبہ کی توفیق ضرور پائے گا؟ ان چیزوں کی خبر تو اسی علیم و خبیر کو ہے۔ (تنبیہ) اللہ کا علم غیب اور رسول اللہ کا علم غیب: یاد رکھنا چاہئے کہ مغیبات جنس احکام سے ہوں گی یا جنس اکوان سے، پھر اکوان غیبیہ زمانی ہیں یا مکانی، اور زمانی کی باعتبار ماضی، مستقبل، حال کے تین قسمیں کی گئ ہیں۔ ان میں سے احکام غیبیہ کا کلی علم پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمایا گیا۔ { فَلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ } الیٰ آخرالآیۃ (جن رکوع۲) جس کی جزئیات کی تفصیل و تبویب اذکیائے امت نے کی، اور اکوان غیبیہ کی کلیات و اصول کا علم حق تعالیٰ نے اپنے ساتھ مختص رکھا ہاں جزئیات منتشرہ پر بہت سے لوگوں کو حسب استعداد اطلاع دی۔ اور نبی کریم ﷺ کو اس سے بھی اتنا وافر اور عظیم الشان حصہ ملا جس کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا۔ تاہم اَکوانِ غیبیہ کا علم کلی رب العزت ہی کے ساتھ مختص رہا۔ مفاتیح الغیب کا کلی علم صرف اللہ کو ہے: آیت ہذا میں جو پانچ چیزیں مذکور ہیں احادیث میں ان کو مفاتیح الغیب فرمایا ہے جن کا علم (یعنی علم کلی) بجز اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں۔ فی الحققیت ان پانچ چیزوں میں کل اکوان غیبیہ کی انواع کی طرف اشارہ ہو گیا۔ { بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ } میں غیوب مکانیہ۔ { مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا } میں زمانیہ مستقبلہ۔ { مَافِی الْاَرْحَامِ } میں زمانہ حالیہ اور { یُنَزِّلُ الْغَیْثَ } میں غالبًا زمانیہ ماضیہ پر تنبیہ ہے۔ یعنی بارش آتی ہوئی معلوم ہوتی ہے لیکن یہ کسی کو معلوم نہیں کہ پہلے سے کیا اسباب فراہم ہو رہے تھے کہ ٹھیک اسی وقت اسی جگہ اسی مقدار میں بارش ہوئی، ماں بچہ کو پیٹ میں لئے پھرتی ہے پر اسے پتہ نہیں کہ پیٹ میں کیاچیز ہے لڑکا یا لڑکی۔ انسان واقعات آئندہ پر حاوی ہونا چاہتا ہے۔ مگر یہ نہیں جانتا کہ کل میں خود کیا کام کروں گا؟ میری موت کہاں واقع ہو گی؟ اس جہل و بیچارگی کے باوجود تعجب ہے کہ دنیوی زندگی پر مفتون ہو کر خالق حقیقی کو اور اس دن کو بھول جائے۔ جب پروردگار کی عدالت میں کشاں کشاں حاضر ہونا پڑے گا۔ بہرحال ان پانچ چیزوں کے ذکر سے تمام اکوان غیبیہ کے علم کلی کی طرف اشارہ کرنا ہے، حصر مقصود نہیں اور غالبًا ذکر میں ان پانچ کی تخصیص اس لئے ہوئی کہ ایک سائل نے سوال انہی پانچ باتوں کی نسبت کیا تھا جس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ کما فی الحدیث۔ پہلے سورہ انعام اور سورہ نمل میں بھی ہم علم غیب کے متعلق کچھ لکھ چکے ہیں ۔ ایک نظر ڈال لیجائے۔ تم سورۃ لقمان بمنہٖ و کرمہٖ



حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ المُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ ذَكْوَانَ، عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ بُنِيَ عَلَيَّ، فَجَلَسَ عَلَى فِرَاشِي كَمَجْلِسِكَ مِنِّي، وَجُوَيْرِيَاتٌ يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ، يَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِهِنَّ يَوْمَ بَدْرٍ، حَتَّى قَالَتْ جَارِيَةٌ: وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَقُولِي هَكَذَا وَقُولِي مَا كُنْتِ تَقُولِينَ»۔
ترجمہ:
حضرت ربیع بنت معوذ ؓ نے بیان کیا کہ جس رات میری شادی ہوئی تھی نبی کریم ﷺ اس کی صبح کو میرے یہاں تشریف لائے اور میرے بستر پر بیٹھے، جیسے اب تم یہاں میرے پاس بیٹھے ہوئے ہو۔ چند بچیاں دف بجا رہی تھیں اور وہ اشعار پڑھ رہی تھیں جن میں ان کے ان خاندان والوں کا ذکر تھا جو بدر کی لڑائی میں شہید ہوگئے تھے۔ انہیں میں ایک لڑکی نے یہ مصرع بھی پڑھا کہ ہم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو کل ہونے والی بات کو جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نہ کہو، بلکہ جو پہلے کہہ رہی تھیں وہی کہو۔

[بخاری:4001]


حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي الْحُسَيْنِ اسْمُهُ خَالِدٌ الْمَدَنِيُّ ، قَالَ : كُنَّا بِالْمَدِينَةِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ ، وَالْجَوَارِي يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ ، وَيَتَغَنَّيْنَ فَدَخَلْنَا عَلَى الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ ، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهَا ، فَقَالَتْ : دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَبِيحَةَ عُرْسِي ، وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تَتَغَنَّيَانِ ، وَتَنْدُبَانِ آبَائِي الَّذِينَ قُتِلُوا يَوْمَ بَدْرٍ ، وَتَقُولَانِ فِيمَا تَقُولَانِ : وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ ، فَقَالَ : " أَمَّا هَذَا فَلَا تَقُولُوهُ مَا يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللَّهُ " .
ابوالحسین خالد مدنی کہتے ہیں کہ ہم عاشورہ کے دن مدینہ میں تھے، لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گا رہی تھیں، پھر ہم ربیع بنت معوذ ؓ کے پاس گئے، ان سے یہ بیان کیا تو انہوں نے کہا: نبی اکرم ﷺ میری شادی کے دن صبح میں آئے، اس وقت میرے پاس دو لڑکیاں گا رہی تھیں، اور بدر کے دن شہید ہونے والے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کر رہی تھیں، گانے میں جو باتیں وہ کہہ رہی تھیں ان میں یہ بات بھی تھی: وفينا نبي يعلم ما في غد ہم میں مستقبل کی خبر رکھنے والے نبی ہے آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا مت کہو، اس لیے کہ جو کچھ کل ہوگا اسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
[سنن ابن ماجہ:1897، طبراني:695 صفوة التصوف:334]





وَلَقَد أَرسَلنا رُسُلًا مِن قَبلِكَ مِنهُم مَن قَصَصنا عَلَيكَ وَمِنهُم مَن لَم نَقصُص عَلَيكَ ۗ وَما كانَ لِرَسولٍ أَن يَأتِىَ بِـٔايَةٍ إِلّا بِإِذنِ اللَّهِ ۚ فَإِذا جاءَ أَمرُ اللَّهِ قُضِىَ بِالحَقِّ وَخَسِرَ هُنالِكَ المُبطِلونَ {40:78}
اور ہم نے تم سے پہلے (بہت سے) پیغمبر بھیجے۔ ان میں کچھ تو ایسے ہیں جن کے حالات تم سے بیان کر دیئے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات بیان نہیں کئے۔ اور کسی پیغمبر کا مقدور نہ تھا کہ الله کے حکم کے سوا کوئی نشانی لائے۔ پھر جب الله  کا حکم آپہنچا تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا گیا اور اہل باطل نقصان میں پڑ گئے
قرآن میں مذکور اور غیرمذکور انبیاء:یعنی بعض کا تفصیلی حال تجھ سے بیان کیا، بعض کا نہیں کیا۔ (اور ممکن ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد ان کا بھی مفصل حال بیان کر دیا ہو) بہرحال جن کے نام معلوم ہیں ان پر تفصیلًا اور جن کے نام وغیرہ معلوم نہیں ان پر اجمالًا ایمان لانا ضروری ہے۔ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ (البقرۃ۔۲۸۵)۔
یعنی اللہ کے سامنے سب عاجز ہیں رسولوں کویہ بھی اختیار نہیں کہ جو معجزہ چاہیں دکھلا دیا کریں، صرف وہ ہی نشانات دکھلا سکتے ہیں جس کی اجازت حق تعالیٰ کی طرف سے ہو۔
اللہ کا فیصلہ:یعنی جس وقت اللہ کا حکم پہنچتا ہے رسولوں اور ان کی قوموں کے درمیان منصفانہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اس وقت رسول سرخرو اور کامیاب ہو تے ہیں۔ اور باطل پرستوں کے حصہ میں ذلت و خسران کے سوا کچھ نہیں آتا۔
نہیں ہے کوئی عالم الغیب اور مختار کل  ، سواۓ الله کے:
ترجمہ : اور ہم نے بھیجے ہیں بہت رسول تجھ سے پہلے بعضے ان میں وہ ہیں کہ سنایا ہم نے تجھ کو ان کا احوال اور بعضے ہیں کہ نہیں سنایا ، اور کسی رسول کو مقدور نہ تھا کہ لے آتا کوئی نشانی مگر الله کے حکم سے ، پھر جب آیا حکم الله کا فیصلہ ہوگیا انصاف سے اور ٹوٹے میں پڑے اس جگہ جھوٹے. [المومن:٧٨]
تفسیر : ((وَلَقَد أَر‌سَلنا)) یہ دلیل نقلی کا اعادہ ہے. یہ دلیل نقلی اجمالی ہے تمام انبیاء علیھم السلام سے، تمام گزشتہ انبیاء علیھم السلام کو اس دعوے کے ساتھ بھیجا گیا. ان میں سے بعض کا ذکر ہم نے آپ سے کیا ہے اور بعض کا ذکر نہیں کیا لیکن بہرحال دعوت سب کی ایک ہی تھی کہ الله کے سوا کوئی معبود و کارساز نہیں، لہذا حاجات و مصائب میں صرف اسی کو پکارو. ((وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ)) یہ سوال مقدر کا جواب ہے. مشرکین ازراہ عناد کہتے ہم تب مانیں گے اگر پیغمبر ہمیں مطلوبہ معجزہ دکھاۓ، فرمایا معجزہ دکھانا پیغمبر کے اختیار میں نہیں کہ جب کوئی اس سے مطالبہ کرے فوراً دکھادے، بلکہ معجزہ اللہ کے اختیار میں ہے، جب الله تعالیٰ چاہے بتقاضاۓ حکمت بالغہ، پیغمبر علیہ السلام کے ہاتھ پر ظاہر فرمادے. فالمعجزات على تشعب فنونها عطايا من الله تعالى قسمها بينهم حسا اقتضته مشيئته المبنية على الحكم البالغة كسائر القسم ليس لهم اختيار في إيثار بعضها والاستبداد بإتيان المقترح بها [روح المعاني:٢٤/٨٩] ((فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ)) جب الله کے عذاب کا معیّن وقت آ پہنچتا ہے تو حق بات کا فیصلہ کردیا جاتا ہے یعنی انبیاء علیھم السلام اور ان کے متبعین کو غالب کیا جاتا ہے، اس وقت باطل پرست خسارے میں رہتے ہیں. کیونکہ ان کو رسوا کن اور ذلّت آمیز عذاب کے ساتھ تباہ و برباد کیا جاتا ہے.


قُل ما كُنتُ بِدعًا مِنَ الرُّسُلِ وَما أَدرى ما يُفعَلُ بى وَلا بِكُم ۖ إِن أَتَّبِعُ إِلّا ما يوحىٰ إِلَىَّ وَما أَنا۠ إِلّا نَذيرٌ مُبينٌ {46:9}
کہہ دو کہ میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آیا۔ اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا (کیا جائے گا) میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی آتی ہے اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے
میں نیا رسول نہیں ہوں:یعنی میری باتوں سے اس قدر بدکتے کیوں ہو؟ میں کوئی انوکھی چیز لے کر تو نہیں آیا۔ مجھ سے پہلے بھی دنیا میں سلسلہ نبوت و رسالت کا جاری رہا ہے۔ وہ ہی میں کہتا ہوں کہ ان سب رسولوں کے بعد مجھ کو اللہ نے رسول بناکر بھیجا ہے جسکی خبر پہلے رسول دیتے چلے آئے ہیں۔ اس حیثیت سے بھی یہ کوئی نئی بات نہ رہی۔ بلکہ بہت پرانی بشارات کا مصداق آج سامنے آ گیا۔ پھر اس کے ماننے میں اشکال کیا ہے۔
میرا کام خبردار کرنا ہے:یعنی مجھے اس سے کچھ سروکار نہیں کہ میرےکام کا آخری نتیجہ کیا ہونا ہے۔ میرے ساتھ اللہ کیا معاملہ کرے گا اور تمہارے ساتھ کیا کرے گا۔ نہ میں اس وقت پوری پوری تفاصیل اپنے اور تمہاے انجام کے متعلق بتلا سکتا ہوں کہ دنیا اور آخرت میں کیاکیا صورتیں پیش آئیں گی۔ ہاں ایک بات کہتا ہوں کہ میرا کام صرف وحی الٰہی کا اتباع اور حکم خداوندی کا امتثال کرنا اور کفر و عصیان کے سخت خطرناک نتائج سے خوب کھول کر آگاہ کر دینا ہے۔ آگے چل کر دنیا یا آخرت میں میرے اور تمہارے ساتھ کیا کچھ پیش آئے گا اسکی تمام تفصیلات فی الحال میں نہیں جانتا نہ اس بحث میں پڑنے سے مجھے کچھ مطلب۔ بندہ کا کام نیتجہ سے قطع نظر کر کے مالک کے احکام کی تعمیل کرنا ہے اور بس۔
   




بَعْدِي (میرے بعد) :



رسول الله ﷺ فرمان مروی ہے:

إِنْ يَخْرُجِ الدَّجَّالُ وَأَنَا حَيٌّ كَفَيْتُكُمُوهُ، وَإِنْ يَخْرُجْ بَعْدِي ، فَإِنَّ رَبَّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ بِأَعْوَرَ
[مسند(امام)احمد:24467]

(اے عائشہ!)تم مت رو، اگر دجال نکلا اور میں زندہ رہا تو اس کے لئے میں تمہاری طرف سے کافی ہوں اور اگر مجھے موت نے آلیا اور اگر دجال میرے بعد نکلا پس(یہ یاد رکھنا) تمہارا رب عزوجل کانا نہیں ہے۔




وَإِنْ يَخْرُجْ بَعْدِي فَاللهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ۔
[احمد:27568، 24467، طبراني:406، ابن حبان:6822]
اور اگر وہ میرے بعد(میر غیرحاضری میں)نکلا تو اللہ میرا خلیفہ(نائب)ہے پر مسلمان پر۔

اور ہم نے آپ ﷺ سے پہلے کسی بھی بشر کے لئے ہمیشہ رہنا مقرر نہیں کیا ، تو کیا آپ کو موت آۓ گی اور کیا یہ ہمیشہ رہیں گے؟
[سورۃ الانبیاء:34]
بے شک آپ بھی مرنے والے ہیں اورانہیں بھی موت آۓ گی۔
[سورۃ الزمر:30]






آنحضرت ﷺ کا اپنے لیے لفظ غائب کا استعمال:
پہلی حدیث:
آنحضرت ﷺ کی باندی ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے چچا زاد بھائی حضرت مابور تھے مصری رواج کے مطابق ان کا اپنی بہن کے ہاں آنا جانا رہتا۔ منافقین نے اسے کچھ اور رنگ دے دیا۔ آنحضرت ﷺ کا بھی یہی خیال ہوا۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ نے مابور کو قتل کا حکم دے دیا۔ حضرت علیؓ نے آپ ﷺ کو آ کر بتایا کہ مابور مرد نہیں اور انہوں نے اسے قتل نہ کیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‌الشَّاهِدُ يَرَى مَا لَا يَرَى ‌الْغَائِبُ۔
ترجمہ:
’’جا کر دیکھنے والا وہ چیز دیکھ لیتا ہے جسے غائب نہیں دیکھ رہا ہوتا۔‘‘
[مسند احمد:628، التاريخ الكبير للبخاري:538، مسند البزار:634]

اس حدیث میں آپ ﷺ نے اپنے لیے غائب کا لفظ استعمال کیا ہے اور حضرت علیؓ کے لیے شاہد کا جو وہاں گئے تھے اور صورت حال دیکھ آئے تھے۔
‌فَكَفَّ ‌عَلِيٌّ ‌عَنْهُ، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ لَمَجْبُوبٌ
ترجمہ:
’’پس حضرت علیؓ اس سے رک گئے اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آ کر عرض کی وہ تو مرد نہیں۔‘‘
[صحیح مسلم : كتاب التَّوْبَةِ ، بَابُ بَرَاءَةِ حَرَمِ النَّبِيِّ ﷺ مِنَ الرِّيبَةِ , حدیث#2771]

آنحضرت ﷺ اگر ہر جگہ ہر وقت حاضر و ناظر ہوتے تو اپنی ذات کے لیے کبھی غائب کا لفظ استعمال نہ کرتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ مجتہد تھے اور مجتہد کی نظر علت پر ہوتی ہے وہ علت پر نظر کر کے اگر کبھی خلاف نص کرے تو اسے نص کا مخالف نہ جاننا چاہیے اور جو کچھ ہوا حضور کی زندگی میں ہوا اور آپ ﷺ نے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس خلاف نص اجتہاد پر کچھ تو بیخ نہ فرمائی۔
دوسری حدیث:
سلف صالحین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غائب کا لفظ بولنے میں کوئی
باک نہ سمجھتے تھے۔ جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن المسیبؒ (93ھ) روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن عبادہؓ کی والدہ فوت ہوئیں تو حضور ﷺ اس وقت مدینہ میں نہ تھے۔ آپ واپس آئے تو آپ نے اس کی قبر پر پھر سے نماز پڑھی۔ ملا علی قاریؒ اسے ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
وَلِلْوَلِیِّ الْاَعَادَۃ اَوْ کَانَتْ مِنْ خَواصِہِ وَلِقَوْلِ سَعِيدِ بْنِ المُسَيِّبِ، «أَنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَائِبٌ، فَلَمَّا قَدِمَ صَلَّى عَلَيْهَا وَقَدْ مَضَى لِذَلِكَ شَهْرٌ»
ترجمہ:
’’ولی کو جنازہ دوبارہ پڑھنے کا حق حاصل ہے یا آپ کو یہ خصوصی حق حاصل تھا اور حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ کی روایت بھی ہے کہ جب ام سعد کا انتقال ہوا تو آنحضرت ﷺ وہاں موجود نہ تھے۔ غائب تھے جب آپ آئے تو اس کی قبر پر آئے اور اس پر پھر نماز پڑھی اور اس پر ایک ماہ گزر چکا تھا۔‘‘
[سنن الترمذي : أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ ، ‌‌بَابُ مَا جَاءَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى القَبْرِ ، حدیث#1038]
تیسری حدیث:
آنحضرت ﷺ جب کسی کی نماز جنازہ پڑھاتے تو دعا میں کہتے:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ ‌لِحَيِّنَا ‌وَمَيِّتِنَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا
ترجمہ:
’’اے اﷲ تو بخش دے ہمارے زندوں کو اور ہمارے مردوں کو اور ان کو جو ہمارے پاس ہیں اور ان کو جو ہم سے غائب ہیں۔‘‘
[سنن ابن ماجہ:1498، سنن ابوداؤد:3201، سنن ترمذی:1024، سنن نسائی:1986]

اگر کچھ لوگ آپ سے غائب ہوتے تھے جن کے لیے آپ دعا کر رہے ہوتے تھے تو آپ بھی ان سے غائب ہوتے ہوں گے اگر وہ لوگ آپ سے غائب تسلیم کر لیے جائیں تو آپ کو بھی تو ان سے غائب تسلیم کرنا پڑے گا۔
چوتھی حدیث:
آنحضرت ﷺ نے خطبہ عرفات میں بھی فرمایا تھا:
فَلْیُبَلِّغْ الشَّاہِدُ الْغَائِبَ
(صحیح بخاری ج1 ص19)
’’جو یہاں ہمارے پاس حاضر ہے وہ ہماری یہ باتیں ان تک پہنچا دے جو ہم سے غائب ہیں۔‘‘
پانچویں حدیث:

آنحضرت ﷺ اپنے سے قریب و بعید کے فاصلوں کا برابر لحاظ رکھتے تھے نماز پڑھاتے بھی یہ صورت قائم کرتے کہ بڑی عمر کے اور سنجیدہ لوگ آپ کے قریب کھڑے ہوں۔ اگر آپ کا حضور و مشہود ہر جگہ برابر اور یکساں ہوتا تو آپ شاہد و غائب کے اس فرق کو کبھی اپنے ہاں جگہ نہ دیتے۔ بھلا حاضر و ناظر بھی کبھی اس طرح قریب و بعید کے فاصلوں کا لحاظ کرتا ہے۔ اس قسم کی روایات آپ کو متعدد ملیں گی اور یہ مضمون تواتر کو پہنچا ہوا ہے اب کوئی شخص یہ عقیدہ اختیار کرتا ہے تو اس کا جواب حساب کے دن اس کے ذمہ ہو گا۔









حضرت محمد بن فضالہ انصاری سے مروی ہے کہ ایک دفعہ نبی ﷺ ان کے قبیلے "بنی ظفر" تشریف لے گئے٬ آپ کے ساتھ صحابہ کرام میں سے احمد عبداللہ بن مسعود اور حضرت معاذ بن جبل وغیرہ بھی تھے. آپ نے صحابہ میں سے کسی کو قرآن پڑھنے کا کہا، انہوں نے پڑھنا شروع کیا، جب وہ اس آیت پر پہنچے:
"تو کیا حال ہوگا ان لوگوں کا، جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے".(سورۃ النساء:41)
تو آپ ﷺ رونے لگے، یہاں تک کہ آپ کی داڑھی مبارک اور رخساروں پر سے آنسوں ٹپک پڑے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
اے میرے رب! میں ان لوگوں پر تو گواہی دے سکتا ہوں، جو میرے سامنے ہیں اور جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہی نہیں، ان پر گواہی میں کیسے دے سکتا ہوں۔
[طبرانی:492،546]
تفسیر(امام)ابن ابی حاتم:5344

عن يونس بن محمد بن فضالة عن أبيه أن النبي -صلى الله عليه وسلم- أتاهم في بني ظفر ومعه ابن مسعود وناس من أصحابه فأمر قارئا فقرأ فأتى على هذه الآية {فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (41)} [النساء: 41] فبكى حتى ضرب لحياه ووجنتاه فقال "يا رب هذا على من أنا بين ظهريه فكيف بمن لم أره".

[قال الحافظ: أخرجه ابن أبي حاتم والطبراني وغيرهما" (1).
أخرجه البخاري في "تاریخ الكبير" (1/ 1/16) وابن أبي حاتم في "تفسيره" (5344) وابن قانع في "الصحابة" (3/ 21 - 22) والطبراني في "الكبير" (19/ 243 - 244) وأبو القاسم البغوي في "معجم الصحابة" وابن شاهين في "معجم الصحابة" كما في "الإصابة" (9/ 105) وأبو نعيم في "الصحابة" (664) من طريقين عن فضيل بن سليمان البصري النميري ثنا يونس بن محمد بن فضالة الظفري الأنصاري عن أبيه وكان ممن صحب النبي -صلى الله عليه وسلم- أنّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أتاهم في مسجد بني ظفر وذكر الحديث.
قال ابن شاهين: لا أعلم روى محمد بن فضالة غير هذا الحديث".
وقال الهيثمي: رجاله ثقات" المجمع 7/ 4.
قلت: فضيل بن سليمان مختلف فيه والأكثر على تضعيفه، ويونس بن محمد ترجمه البخاري وابن أبي حاتم في كتابيهما ولم يذكرا فيه جرحًا ولا تعديلاً، وذكره ابن حبان في "الثقات" على قاعدته.
وللحديث شاهد عن لبيبة الأنصاري أنّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان إذا قرأ هذه الآية {فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (41)} [النساء: 41] بكى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وقال "يا رب هذا شهدت على من أنا بين ظهريه فكيف بمن لم أر؟ ".
أخرجه الطبراني في "الكبير" (19/ 221) ثنا القاسم بن عباد ثنا إسحاق بن بهلول ثنا ابن أبي فُديك عن يحيى بن عبد الرحمن بن لبيبة عن أبيه عن جده به.
قال الهيثمي: وعبد الرحمن بن لبيبة لم أعرفه، وبقية رجاله ثقات" المجمع 7/ 5.
قلت: وشيخ الطبراني لم أقف له على ترجمة.]






دلیل کا غیرعالمانہ استدلال اور غلط استعمال:

جب کوئی آدمی یا مقام یا کوئی بھی چیز مشہور و معروف ہو یا جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہو تو اس کو حاضر کے ساتھ تعبیر کرنا جائز اور صحیح ہے اگرچہ وہ پاس، حاضر یا موجود نہ بھی ہو۔ اور گویہ استعمال، استعمالِ عام کے مقابلہ میں قلیل ہی ہے۔ لیکن ہے ضرور۔
قاعدۃ:

یعنی
کبھی کبھی حاضر کے لفظ سے غائب کو تعبیر کیا جاتا ہے جیسے کہتے ہیں جھگڑا کیا اس شخص نے اگرچہ وہ غائب ہی کیوں نہ ہو۔ مگر غائب کو ’’ھٰذٰا‘‘ سے تعبیر کرنا صحیح ہے۔
[مطول: صفحہ131]


جیسے، قبر میں میت سے منکر نکیر فرشتوں کے سوال کہ تمہارا نبی کون؟ سے مختلف الفاظ جو بعض احادیث میں آئے ہیں کہ:

مَا تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟
کیا تیرا کہتا ہے اس شخص کے بارے میں؟


تشریحِ حدیث:
امام قسطلانیؒ لکھتے ہین:
فقيل: يكشف للميت حتى يرى النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وهي بشرى عظيمة للمؤمن إن صح ذلك، ولا نعلم حديثًا صحيحًا مرويًّا في ذلك. والقائل به إنما استند لمجرد أن الإشارة لا تكون، إلا لحاضر. لكن يحتمل أن تكون الإشارة لما في الذهن، فيكون مجازًا.
[إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري:2/464]

یعنی:
میت کو کشف(ظاہر)ہوتا ہے حتیٰ کہ وہ نبی ﷺ کو دیکھ لیتا ہے، یہ عظیم خوشخبری ہوتی مومن کیلئے اگر یہ بات صحیح ہو۔ لیکن ہم نہیں ہمیں کوئی ایسی صحیح حدیث نہیں مل سکی اس بارے میں۔ اس(حاضر ہونے والی بات کے)قائل کو لفظ ’’ھٰذا‘‘ سے دھوکا ہوا ہے حالانکہ ’’ھٰذا‘‘ کا اطلاق غائب پر بھی ہوتا ہے جبکہ اس کا کچھ نہ کچھ علم ذہن میں محفوظ ہو۔ پھر یہ جائز ہاتا ہے۔



امام جلال الدین سیوطیؒ اپنی کتاب شرح الصدور میں لکھتے ہین:

وَسُئِلَ هَل يكْشف لَهُ حَتَّى يرى النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَأجَاب أَنه لم يرد حَدِيث وَإِنَّمَا إدعاه بعض من لَا يحْتَج بِهِ بِغَيْر مُسْتَند سوى قَوْله فِي هَذَا الرجل وَلَا حجَّة فِيهِ لِأَن الْإِشَارَة إِلَى الْحَاضِر فِي الذِّهْن۔
[شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور: صفحہ146]
یعنی
اور پوچھا گیا(امام ابن حجرؒ)سے کہ کیا قبر میں میت کیلئے درمیانی پردہ اٹھائے جاتے ہیں حتیٰ کہ وہ نبی ﷺ کو دیکھ لیتی ہے؟ تو انہیوں نے جواب دیا کہ کسی حدیث سے اس کا شبوت نہیں ملتا۔ بعض ایسے لوگوں نے جن کی بات حجت نہیں ہوسکتی بغیر کسی دلیل اور سند کے(صرف اپنی جاہلانہ رائے سے)یہ احتجاج کیا ہے مگر ان کی بات حجت(دلیل) نہیں ہے کیونکہ ھٰذا کا اشارہ حاضر فی الذہن کیلیے آیا ہے۔



اگر نبی ﷺ میت کے پاس قبر میں حاضر ہوتے تو میت فرشتوں کو جواب میں ایسا نہ کہتی کہ [هُوَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ] یعنی ’’وہ‘‘ اللہ کے رسول محمد ہیں بلکہ وہ کہتی کہ [ھٰذَا مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ] ’’یہ‘‘ اللہ کے رسول محمد ہیں۔
لیکن
میت حاضر والا اشارہ جواب میں نہیں کہتی بلکہ دور والے اشارہ سے کہتی ہے کہ وہ اللہ کے رسول محمد ہیں۔

فرشتے میت کے ذہن میں اس شخص کا علم ڈالتے ہیں اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا ہے جو تم سب میں رہا تھا۔ یہ مزید کہنا کہ جو تم میں رہا تھا یا اس طرح پوچھنا کہ تیرا نبی کون ہے؟ یہ دلیل ہے اس بات کو ثابت کرنے کی کہفرشتئ میت کے ذہن میں اس شخص کا علم یعنی تصور/تصویر ذہن میں ڈالتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ حاضر نہیں ہوتے۔



بعض دوسری احادیث میں تو فرشتوں کے سوال میں مزید یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ
الَّذِي كَانَ فِيكُمْ، وَمَا تَشْهَدُ بِهِ؟
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:1403، المعجم الأوسط للطبراني:2630]
یعنی
جو (شخص/نبی) تم میں تھا اور اس کے بارے میں تمہاری کیا گواہی ہے۔



بعض روایات میں نام بتاکر پوچھنا بھی ثابت ہے کہ:
مَا تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فِي مُحَمَّدٍ؟
[السنة لابن أبي عاصم:863]
یعنی
اس شخص محمد کے بارے میں کیا جانتے ہو؟



بعض روایات میں آیا پے کہ فرشتوں کے پوچھنے پر میت فرشتوں سے پوچھتی ہے کہ:
وَأَيُّ رَجُلٍ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ۔
[المعجم الكبير للطبراني:281]
یعنی
کونسا شخص؟ (فرشتے) کہتے ہیں کہ: محمد ۔






صفت حاضر و ناظر خاصۂ خداوندی:



پہلے چند شرائط:
1: چونکہ بریلوی اس عقیدے کے منکر کو کافر کہتے ہیں ، اس لیے اس عقیدے پر بریلوی حضرات دلائلِ قطعیہ ہی پیش کر سکتے ہیں۔
2: احناف کے مسلمہ بزرگوں کی عقائد پر کتب موجود ہیں، بریلوی مناظر اپنا یہ عقیدہ کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ موجود ہیں ، ان سے ثابت کریں۔
3: بریلوی حضرات منکرین کو جو ہر جگہ نہیں مانتے کافر لکھ کر دے گا۔
بریلویوں کے ہاں منکرین کافر ہیں:
1: اہل ِ بدعت کی معتبر کتاب میں ہے:
شیخین کا گستاخ اور محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر وناظر ہونے کا منکر دونوں شخص عقیدہ کے لحاظ سے اس کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہ التزام کفر ہے ، جس سے نکاح نہیں رہتا جس فعل کا تعلق عقیدے سے ہو اور اہل السنۃ کے خلاف ہو تو مرتد قطعی ہے۔ العیاذ باللہ اور اس کا قتل واجب ہے۔
(انوارِقمریہ ص 107)
2: مولوی محمد عمر اچھروی لکھتا ہے:
جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر وناظر ہونے کے منکر ہیں ان کی یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ وہ ایمان سے خالی ہیں۔
(مقیاس حنفیت ص 268)
3: فیض احمد اویسی لکھتا ہے:
حضور علیہ السلام کے حاضر وناظر ہونے کا انکار وہی کرےگا جو یا تو اپنے آپ کومومن نہ جانے یاحضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی نہ سمجھے۔
(صحابہ کرام عقیدہ ص8)
4: مولوی غلام نصیرالدین سیالوی لکھتا ہے:
یہ لوگ حضور علیہ السلام کے اوصاف کاملہ کے انکار کی وجہ سے کافر ہوگئے جن صفات کاملہ کا ان لوگوں نے انکار کیاہے ان میں علم غیب ، حاضر وناظر، معراج کی رات حضور علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ کی زیارت کرنا اور حضور علیہ السلام کی اعانت کرنا اور آپ علیہ السلام سے استمداد کا منکر ہوجانا یہ ان کے کفر کی وجوہات ہیں۔
(عباراتِ اکابر کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ جس1ص69،دیوبندی مذہب ص 635)
تنقیح مسئلہ:
بریلوی حضرات سے حاضر وناظر ہونے کی وضاحت طلب کی جائے ، کیونکہ یہ حضرات شتر مرغ کی کیفیت رکھتے ہیں کہ کبھی یہ کبھی وہ۔
حاضر کہتے ہیں موجود کو اور ناظر کہتے ہیں دیکھنے والوں کو ، چونکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقام پر تشریف فرما ہیں اور نامہ اعمال اجمالاً پیش خدمت ہوتا ہے اس کے ناظر بھی ہیں اس لیے ان الفاظ کا استعمال کرنا غلط بھی نہیں۔
مگر بریلوی حضرات سے وضاحت ضروری ہے کہ حاضر وناظر سے کیا مطلب ہے؟ بریلوی حضرات جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر وناظر کہتے ہیں اس سے مراد ان کی ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کی ہوتی ہے ، اس پر آپ یہ سوال اٹھائیں کہ جناب ہر جگہ آپ روح سے حاضر وناظر ہیں یا روح اور جسم دونوں سے؟ اگر وہ کہیں دونوں سے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جسم مبارک تو نظر آنے والا تھا جب دنیا پر موجود تھا۔ ابولہب وابوجہل کو بھی نظر آیا، تو اب تمہیں کیوں نظر نہیں آتا؟ یا تو تمہارا عقیدہ غلط ہے یا پھر تم ابولہب، ابوجہل سے بھی بد تر ہو۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف روح مبارک سے ہر جگہ حاضر وناظر ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں تو آپ کی روح مبارک آپ کے وجود مبارک میں تھی یہ کائنات میں ہر جگہ جو اب موجود ہے یہ کب سے ہوئی؟ تو شاید وہ یہی جواب دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسل کے وصال کے بعد۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کو یہ کس نے بتایا کیونکہ دین تو مکمل ہو چکا ہے اور اس مکمل دین سے آپ کا عقیدہ ثابت نہ ہوااور دوسری بات یہ ہے کہ تو آپ علیہ السلام نہ موجود ہوئے یہ تو روح پاک ہوئی ہے لیکن آپ تو کہہ رہے تھے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں توآپ کی صرف روح کو مان کر آپ نے آدھا مسئلہ خود چھوڑ دیا اور آدھا ہم سے سمجھ لیں کہ اس دنیا میں ہر شے محدود ہے سوائے خدا کے سب محدود ہیں۔ ایک جگہ ہیں تو دوسری جگہ نہیں ، ہر چیز جو کسی جگہ ہے تو وہاں جگہ گھیرے گی مثلاً روشنی کو دیکھ لیجیے جہاں ہو وہاں اندھیرا نہیں اور اندھیر اگر کسی جگہ ہے تو روشنی نہیں دوچیزیں ایک ہی وقت میں ایک جگہ نہیں ہوتیں۔ جہاں ہم بیٹھیں دن کی روشنی میں تو وہاں ہمارا جسم ہے اور اگر ہم اٹھ جائیں تو روشنی وہاں آجائے گی۔ ہر مخلوق کو اللہ کریم نے حادث بنایاہے یعنی وہ پہلے نہ تھی پھر اسے وجود بخشااب تو نہ کوئی ایسی مخلوق بنائی جو ہر آن ہر گھڑی ہر مکان میں ہو ، یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب پورے عالم میں صرف ایک مخلوق ہو اور کوئی نہ ہو۔
اب ان ارواح کو دیکھیے ان میں بھی تداخل نہیں جہاں ایک ہے وہاں دوسری نہیں اور اس کو کتنی ہی سیر کاموقع ملے اور دائرہ کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو مگر ایک دائرہ میں۔ محدود حد تک نہ کہ وہ ہر وقت ہر جگہ موجود ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر فرشتہ انسانی شکل میں آتا ہے توجب زمین پر آتاہے تو وہ اپنی اصل صورت پر جو اوپر ہوتی ہے وہاں نہیں ہوتے اور جب وہاں اس صورت میں ہوتے ہیں تو زمین پر انسانی شکل میں نہیں ہوتے۔ تیز رفتاری اور برق رفتاری ضرور ہے مگر چونکہ مخلوق ہیں اس لیے ہر وقت ہر جگہ ہونا مخلوق کے خواص میں نہیں ہے۔
اب وہ کہے گا کہ جی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم ہر جگہ حاضر وناظر کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ علیہ السلام ایک ہی جگہ تشریف فرما ہونے کے باوجود ہر جگہ کو دیکھ بھی رہے ہیں اور ملاحظہ بھی فرما رہے ہیں، کوئی جگہ آپ کی نظر سے پوشیدہ نہیں۔
اس پر بھی کئی سوال ابھریں گے:
1: یہ کس وقت سے یا تو شروع کائنات سے جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا گیا تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت کے وقت کا قرآن تذکرہ کر کے کہتا ہے کہ آپ وہاں موجود نہیں تھے اور کئی مواقع کا ذکر کرکے قرآن کہتاہے مثلاً موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں کہ آپ وہاں نہ تھے تو شروع والی بات تو غلط ٹھہری۔
2: اگر آپ کہیں کہ زندگی مبارکہ میں تھے تو پھر سوال ابھرے گا کب سے؟ اب جواب توآئےگا مگر اتنا کہیں گے جی یہ ہمیں نہیں پتہ کب سے۔ چلو اس کو بھی دیکھ لیتے ہیں : رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کرام بھی ان کی زندگی مبارکہ میں یوں حاضر وناظر نہ سمجھتےتھے۔
 سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو آپ علیہ السلام نے ایک راز کی بات ارشاد فرمائی تو انہوں نے چھپ کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتادی۔ اگر انہیں یہ خیال ہوتا کہ آپ علیہ السلام ہمیں دیکھ رہے ہیں تو پھر راز کیوں بتاتیں؟
(سورۃ التحریم)
 حضرت کعب بن مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فما رجل یرید ان یتغیب الا ظن انہ سیخفی لہ ما لم ینزل فیہ وحی•
(صحیح البخاری ج2ص634)
اگر کوئی آدمی اس گمان کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپنا چاہتا ہے کہ جب تک وحی نہ آئے تو آپ کو معلوم نہ ہوگا۔ لوگوں کی کثرت کی وجہ سے اس کا خیال درست تھا۔
 سیدنا عاصم رضی اللہ عنہ نے شہادت سے پہلے یہ دعا کی: اللھم اخبر عنا نبیک•
(صحیح البخاری ج1ص427)
آپ علیہ السلام اور صحابہ کرام نے آپ علیہ السلام کی ذات گرامی کے لیے ”غائب“ کا لفظ استعمال فرمایا۔
٭ آپ علیہ السلام نے فرمایا: الشاھد یرٰی مالا یری الغائب"•
(رشدالایمان ص 86)
٭ آپ علیہ السلام نے ایک غلام کے قتل کےلیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا انہوں نے قتل نہ کیا اور آکر بتایا:
انہ لمجبوب•
کہ وہ تو نامرد ہے۔ تو آپ نے یہ بات ارشاد فرمائی۔ تو آپ نے اپنے لیے خود ہی غائب کا لفظ استعمال فرمایا۔
٭آپ علیہ السلام نے امت کو جنازے کی دعاسکھائی:
اللھم اغفرلحینا ومیتنا وشاہدنا وغائبنا•
یہ دعا آپ علیہ السلام ساری زندگی پڑھتے رہے مگر کسی نے نہ کہا کہ آپ سے کچھ غائب نہیں ہے اس لیے یہ لفظ کاٹ دیں۔
 شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
مشہور یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ حضرت رقیہ کے فوت ہونے کے وقت حاضر نہ تھے۔
(تاریخ مدینہ ص 175 مترجم از مولوی محمد صادق بریلوی)
 بیہقی شریف میں ہے:
ان ام سعد ماتت والنبی صلی اللہ علیہ وسلم غائب•
(مرسل عن سعید بن مسیب)
 اسی طرح امام جصاص رحمہ اللہ کا فرمان ہےکہ:
فاما الحالتان کان یجوز فیہما الاجتہاد فی حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم في حال غيبتهم عن حضرته•
(احکام القرآن ج2ص213)
 اسی طرح علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وقدما ت من الصحابہ خلق کثیر وھم غائبون عنہ•
( عینی شرح بخاری ج8 ص119)
تو یہ بات بھی غلط ٹھہری کہ آپ علیہ السلام اپنی زندگی مبارکہ میں موجود تھے اس طرح۔ باقی رہی تیسری بات کہ اگر وفات کے بعد ہوئے ہیں تویہ آپ کو کس نے بتایا۔ کیوں دین تو پہلے مکمل ہوگیا تھا۔ لہذا یہ اب تم نے عقیدہ گھڑا جس کے منکر کو کافر بھی کہنے لگے تو یہ عقیدہ تمہارا خود تراشیدہ ہے نہ کہ شر یعت کا ہے۔
یہ عقیدہ ہے یا بے ادبی!!!
ہم اکثر سوچتے ہیں کہ عوام بھی کتنی بھولی ہے کہ ان کے ایمان سے ڈاکو کھیل رہے اور ان کو خبر ہی نہیں۔ اب جو یہ عقیدہ بریلوی حضرات کا ہے یہ انتہائی بے ادبی پر مشتمل ہے مگر عوام ٹس سے مس ہی نہیں ہو رہی۔ آہ اس قوم کی قسمت کہ سنکھیا کو کھلارہے ہیں کشتہ فولاد بنا کر ، خدا انہیں ہدایت دے۔ اس اجما ل کی تفصیل ہے کہ : بڑے کی خدمت میں چھوٹا حاضر ہوتاہے اور بڑے کو حضور کہتاہے مثلاً پیر مرید سے کہے بھائی یہ کام آپ نے آئندہ نہیں کرنا تو وہ کہے گا جی حضور اور جب استاد بھی حاضری لے تو وہ پوچھتا ہے عبداللہ تو وہ کہتاہے حاضر ہوں، تو بڑا حضور ہوتاہے اور چھوٹا حاضر ہوتا ہے۔ ساری کائنات نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے اور وہ حضور ہیں کیونکہ بڑے کو حضور کہتے ہیں اور چھوٹے حاضر ہوتے ہیں۔ پیر مرید ، استاد شاگرد، نبی امتی کی جنس ایک ہے اس لیے ان میں سے بڑا حضور ہے اور چھوٹا شاگرد ہے مگر خدا تعالیٰ تو جنس سے پاک ہے اس لیے اس کو حاضر کہنے میں حرج نہیں ، جیسا کہ اسے تو کہنا ٹھیک ہے مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب وآداب تو ”آپ“ کہنے میں ہی ہے۔ اسی طرح آپ علیہ السلام کو حضور کہنا اور خدا کو حاضر کہنا ہی ادب وآداب ہے۔ اسی طرح اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کی صورت میں کوئی باحیا آدمی قضاء حاجت ، اپنے گھروالوں سے ہمبستر ہونا ، وغیرہ بے شمار ایسی حالتیں ہیں کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ آپ علیہ السلام اس حالت کو دیکھیں مگر رضا خانی ہیں کہ وہ یہ عقیدہ بنائے بیٹھے ہیں کہ تاریک راتوں میں تنہائی کے اندر چھپ کر گھر میں جو کام کرتے ہیں نگاہ مصطفےٰ علیہ السلام سے وہ بھی پوشیدہ نہیں۔
(جاء الحق ص 72)
اب بتائیے کوئی غیرت مند انسان کسی گھر کے فرد کی موجودگی میں تو اپنی اہلیہ کے ساتھ ہمبستر نہیں ہوتا مگر یہ غیرت سے خالی یہ عقیدہ بنائے بیٹھے ہیں کہ آپ علیہ السلام اس حالت میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ شاید بریلوی حضرات یہ خیال کریں کہ خد ا بھی تو دیکھتا ہے پھر بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق بعض مسلمان اپنے بشری تقاضوں کو پورا کرتے وقت اپنے جسم کے مخصوص حصوں کو برہنہ کرنے سے شرماتے تھے کہ اللہ دیکھ رہا ہے اس لیے اپنی شرمگاہ کو چھپانے کےلیے وہ دہرے ہوجاتے تھے اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے مسلمانوں کو منع کیا۔ اور ارشاد فرمایا:
۝ الا انہم یثنون صدورھم لیستخفوامنہ•
ترجمہ: وہ اپنے سینے دوہرے کر رہے ہیں تاکہ خدا سے چھپ جائیں۔
۝ الا حین یستغشون ثیابہم يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ•
ترجمہ: جس وقت وہ کپڑے اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں تو اس وقت بھی وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔
۝ وما یعلنون انہ علیم بذات الصدور•
ترجمہ: خبردار بلاشبہ وہ دلوں کی باتوں کو جاننے والا ہے۔
یعنی جب اللہ سے بندے کا کوئی حال چھپا ہوا نہیں ہے جب کپڑوں کا ہونا نہ ہونا برابر ہے تو خواہ مخواہ دہراہونا محض اپنے پر سختی اور تنگی ہے، دلوں کی بات جاننے والے سے ظاہری بدن کون چھپا سکتا ہے؟۔ تو چونکہ خدا سے مخفی ہونا انسان کے بس میں نہیں ہے اس لیے انسان کو اللہ سے چھپنے کو حکم بھی نہیں دیا گیا۔ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسے کسی کام کا حکم نہیں دیتا جو بندوں کے بس میں نہ ہو۔" لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا" یہی وجہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ہر دور کے مسلمان اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے یہ سارے بشری تقاضے پورتے کرتےتھے۔ اس سلسلے میں خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مزید کرم یہ فرمایا کہ وہ اپنے سامنے ضروری حاجات پوری کرتے وقت انہیں کسی قسم کی گھٹن اور کوفت کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ ایک مسلمان خدا کو حاضر ناظر جانتے ہوئے یہ سارے کام دن رات میں کئی بار کرتا ہے مگر ذرہ بھر بھی گرانی ،بوجھ اور گھٹن محسوس نہیں کرتا۔ تو کوفت اور ذہنی بوجھ اور اضطراب سے انسان کو محفوظ فرمادیا گیا۔ دیکھیے غسل خانے میں ننگے شخص کو بچہ بھی اگر دیکھ لے تو وہ بوجھ محسوس کرےگا ، مگر اللہ کے بارے میں اسے یقین ہے کہ دیکھ رہا ہے مگر وہ ذرا برابر بھی بوجھ محسوس نہیں کرتا۔ اگر قدرت ایسا نہ کرتی تو ظاہر ہے زندگی عذاب بن کر رہ جاتی ، اب بندے خدا سے پردے کی پابندی سے آزاد ہیں اور بے پردگی کی صورت میں ہونے والی ذہنی کوفت اور گھٹن کے احساس سے بھی۔ یہ یقیناً اس کا اپنے بندوں پر خاص فضل اور احسان ہے، رہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پردہ تو چونکہ یہ انسان کے بس میں ہے اس لیے تمام صحابہ کرام قضائے حاجت کے وقت جیسے باہم ایک دوسرے سے اوٹ میں ہوتے تھے بالکل ویسے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پردے میں ہوجاتےتھے۔ خداتعالیٰ کے سامنے بے دھڑک اپنے ہر طرح کے بشری تقاضے پورے کرنے والے صحابہ کرام میں سے کوئی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنی حاجت پوری نہ کرتا تھا۔ تو ایک تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پردہ اس لیے ضروری ہوا کہ یہ انسان کے بس میں ہے دوسرے یہ دیکھیے کہ خدا کے سامنے تقاضے پورتے کرتے وقت انسان کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتا، جب کہ خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسا کون ہے جو بوجھ گھٹن اور تکلیف محسوس نہ کرےگا۔ فرض کرو آج بھی غسل خانے میں نہانے والے )رضاخانیوں کے سوا( کسی بھی شخص کو یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے ہیں تو مسلمان ہی نہیں کافروں کے پیروں تلے سے بھی زمین نکل جائے گی اور وہ مارے شرم کے پانی پانی ہوجائےگا۔ اگر آنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام حاضر ناظر ہوتےتو آج کرہ ارض پر رضا خانیوں کے علاوہ شاید کوئی فرد بشر موجود نہ ہوتا۔ سوچیے تو اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم حاضر ناظر ہوتے تو جو صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ادب واحترام کے سبب بول نہیں سکتے تھے وہ بشری تقاضے ان کی موجودگی میں کس طرح پورے کرتے؟ یقین کیجیے اگر حضرات صحابہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر ناضر جانتے ہوتے تو نہ تو وہ اپنے بشری تقاضے پورے کر سکتے تھے اور نہ ان کی اولاد ہو سکتی تھی۔ خصوصاً حضراتِ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی ولادت باسعادت نہ ہو سکتی اور یوں دنیا کو ان کے فیوض و برکات سے فیض یاب ہونے کا موقعہ نہ ملتا، کیونکہ علی رضی اللہ عنہ "صحابی "تھے"رضاخانی" قطعاً نہ تھےاور اور فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں۔ رضی اللہ عنہ وعنھا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر ناظر ہونے کا عقیدہ بالکل بے اصل بلکہ نصوص صریحہ شرعیہ کے خلاف اور مشرکانہ عقیدہ ہے۔ ”علی ٰ کل شیئ شہید“ اور ”بکل شی ء محیط“صرف حق تعالیٰ کی صفت ہے۔ اس گمراہانہ عقیدہ کو اسلامی تعلیمات سے اسی قدر بعد ہے جس قدر بت پرستی اور عقیدہ تثلیث کو اسلام اور عقیدہ توحید سے۔ اگر اس عقیدہ کے خلاف نصوص ناطق نہ ہوتے جب بھی اصول ِ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہ تھی، لیکن صورت حال یہ ہے کہ کتاب وسنت میں اس کے خلاف بے حساب دلائل موجود ہیں جن کا احصاء اور استیعاب بھی نہیں کیا جا سکتا۔
بریلوی دعویٰ
عالم میں حاضر وناظر کے شرعی معنی یہ ہے کہ قوت قدسیہ والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے کف دست کی طرح دیکھے اور دور ، قریب کی آواز یں سنے۔
(جاء الحق ص 138 از مفتی احمدیار گجراتی نعیمی)
ویسے تو بریلوی حضرات کے کئی دعویٰ جات ہیں زیادہ وہ اسی کو استعمال کرتے ہیں۔
تنقیح نمبر1:
بریلوی حضرات سے ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال مانتے ہو یا نہیں؟ اگر وہ کہیں:” نہیں“ تو بات ختم اور اگر کہیں: ”ہاں“، تو پھر سوال یہ ہے کہ اس کما ل میں کسی کافر کو شریک کرنے والا بلکہ اس میں کافر کو بڑھانے والا کون ہے؟ اگر تو وہ کہہ دیں کہ کافر نہیں ہے تو پھر معلوم ہوگیا کہ کمال بھی نہیں مانتے، اگر مانتے ہوتے توجو کافر کو شریک بلکہ بڑھارہے ہیں اسے تو کسی فتوے کی زد میں لاتے۔ اور اگر فتویٰ کی زد میں نہیں لاتے تو پھر بریلوی مسلک کے معتبر حضرات کی آراء کو سنیں:
 فاضل بریلوی صاحب لکھتے ہیں:
وہ صفت جو غیر انسان کے لیے ہو سکتی انسان کے لیے کمال نہیں اور جو غیر مسلم کے لیے ہو سکتی مسلم کےلیے کمال نہیں۔
(ملفوظات اعلیٰ حضرت ص 343 فرید بک سٹال لاہور)
 اور دوسرے ”مناظر اعظم“ مولوی ا للہ دتہ صاحب لکھتے ہیں:
باقی رہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر وناظر ماننا اور نہ ماننا۔ سو اے برخودار ! تم یہ سوچو کہ اگر کوئی فرد کسی کے کمال کا انکار کرے تو اس کے انکار سے موصوف کی شان میں کوئی فرق تو نہیں آئے گا لیکن منکر کا انکار موصوف کے لیے باعث اذیت ضرور ہوگا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینا درد ناک عذاب کا مستحق بنادےگا۔
(بھیڑ نما بھیڑیے ص 14)
 اور لگے ہاتھوں یہ بھی سنتے جائیے کہ: سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینے سےآدمی کافر ہوجاتا ہے۔
(غازی ممتاز حسین قادری ص201 از حنیف قریشی)
تو اب بتائیں کہ بریلوی مسلک کے جید علماء تو اس کو فتوے سے کافر بنارہے ہیں جب کہ آپ کچھ بھی نہیں کہتے، امید یہ ہے کہ اس تمہید کے بعد وہ آپ کے مطالبے پر آجائے گا۔
اگر وہ اس بات کو کمال کا انکار اور بے ادبی کہتا ہے تو پھر آپ کے پاس حوالہ جات ہونے چاہییں۔
1: شیطان ہر جگہ حاضر وناظر ہے۔
(نور العرفان ص 184 از مفتی احمد یار خان نعیمی)
2: یہی مفتی صاحب لکھتےہیں:
ابلیس کی نظر تمام جہاں پر ہے کہ وہ بیک وقت سب کو دیکھتاہے اور تمام مسلمانوں کے ارادوں بلکہ دل کے خطرات سے بھی خبردار ہے کہ نیک ارادے سے بارز رکھتا ہے اور برے ارادے کی حمایت کرتا ہے۔
(تفسیر نعیمی ج3ص114 آیت نمبر 268)
3: مولوی احمد رضا خان کی مصدقہ کتاب" انوار ساطعہ" میں ہے:
تماشا یہ ہے کہ اصحاب محفل میلاد تو زمین کی تمام جگہ پاک وناپاک ،مجالس مذہبی وغیرہ میں حاضر ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی نہیں کرتے ملک الموت اور ابلیس کا حاضر ہونا اس سے بھی زیادہ تر مقامات پاک ناپاک ، کفر غیر کفر میں پایا جاتا ہے۔
(انوار ساطعہ ص 359)
اب بتائیں کہ بریلویوں نے بڑھایا شیطان کو یا نہیں؟ اور اس بڑھانے کی وجہ سے یہ لوگ کس فتویٰ کی زد میں آتے ہیں؟! مزید فتویٰ بھی سن لیجیے کہ کاظمی صاحب کہتے ہیں کسی نبی کے معجزات اور کمالات میں کسی غیر نبی کو نبی سے بڑھ چڑھ کر ماننا تو ہین نبوت ہے۔
(الحق المبین ص70)
اب بتائیے اس عقیدے سے یہ لوگ بجائے عاشق بننے کے کیا بنے؟
تنقیح نمبر 2:
یہ عقیدہ بقول بریلوی حضرات شرک ہے۔
1: مولوی شاہ مسعود صاحب لکھتے ہیں :
یارسول اللہ بہ نیت حاضر وناظر کہنا موجب شرک ہے۔
(فتاویٰ مسعودی ص 537)
2: قیاس اگر اس طرح کیا جائے کہ اس میں شرک آجائے تو وہ ناجائز ہے ہر وقت ہر لمحہ حاضر وناظر ہونا صرف رب العالمین ہی کی شان ہے۔
(رسائل میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ص 567)
3: کوئی تصور شیخ کو شرک تصور نہ کرے کیونکہ شرک تب ہو گا جب کوئی یہ خیال کرے کہ شیخ حاضر وناظر ہے کیونکہ حاضر وناظر اللہ کی صفت ہے۔
(السیف الصارم اکتوبر 2011ء ص 22)
اب بتائیے! اپنے اس عقیدے کی وجہ سے یہ لوگ کیا ٹھہرے؟
تنقیح نمبر3:
ہمارا بریلویوں سے سوال ہے کہ آپ خدا کی طرح حاضر وناظر مانتے ہو یانہیں؟ اگر بریلوی کہیں نہیں تو پھر یہ حوالہ جات ان کی خدمت میں لائے جائیں کہ وہ تو کہتے ہیں :
1: نمازی جس طرح اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جانے اسی طرح محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی۔
(تفسیر نعیمی ج1ص58 فاتحہ آیت نمبر4 از مفتی احمدیار خان نعیمی گجراتی)
2: جس طرح انسان حق سبحانہ وتعالیٰ کو ہرحالت میں ظاہر وباطنی طور پر واقف جانتا اور مانتا ہے اسی طرح حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ظاہری وباطنی طور پر حاضر وناظر مانے۔
(حق پر کون ص 70 از ظفر عطاری)
اب بتائیے اگر وہ نہیں مانتے تو ان پر فتویٰ لگائیے اور اگر مانتا ہے تو فتویٰ اسے بھی سنا ددیجیے کہ جو اللہ جل جلالہ کی طرح حاضر وناظر جانے پس اہل سنت کے نزدیک کافر ہے۔
(انوار احناف ص 200 از ابو کلیم محمد صدیق فانی)
تنقیح نمبر4:
ہمارا سوال یہ ہے کہ آپ اس مسئلہ کو سمجھانے کے لیے ٹی وی کی مثالیں لاتے ہو یا نہیں اگر وہ کہے ہم نہیں لاتے تو پھر ان حضرات کے بارے میں پوچھیں:
1: حاضر وناظر کامسئلہ سمجھانے کے لیے ٹی وی بہت معاون ہو سکتاہے۔
(تحفظ عقائد اہلسنت ص 567 از ظہیر الدین قادری برکاتی)
2 ٹیلی ویژن میں غور کرنے سے نئے ذہنوں کے لیے یہ مسئلہ باآسانی واضح ہوجاتا ہے۔
(صحابہ کرام کا عقیدہ حاضر وناظر ص13 از فیض احمد اویسی)
3: ”سوال: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر موجود ہوں یا سب کو دکھائی دیں ؟
جواب: بھائی اللہ تعالیٰ سب کچھ کر سکتا ہے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ آج آدمی اسلام آباد ٹی وی اسٹیشن پر بیٹھا خبریں سناتاہے اور ہم اسے ٹی وی سیٹ پر دیکھتے ہیں۔“
(عقائد وعبادات ص 19 از صدیق ہزاروی)
تو آپ اگر کہیں کہ یہ جائز ہے تو پھر یہ بات ہم دکھاتے ہیں کہ:
٭ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہلکے لفظ استعمال کرنا ہلکی مثالیں دینا کفر ہے۔
(نور العرفان پارہ 15 آیت 48 ص345)
٭ جب رذائل سے تشبیہ دی جاتی ہے تو اس سے توہین وتنقیص کے معنی نکلتے ہیں۔
(الصوارم الہندیہ ص 7)
تو اب یہ بتائیں ان سب لوگوں کا بشمول آپ کے اس فتویٰ کی رو سے کیا بنے گا؟
تنقیح نمبر5:
ہمیں وہ تاریخ بتائی جائے جب آپ علیہ السلام حاضر وناظر ہوئے پھر اسی حساب سے دلیل۔
دلائل اہلسنت و الجماعت دیوبند
دلیل نمبر1:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ:
وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَى قَالُوا سَلاماً قَالَ سَلامٌ فَمَا لَبِثَ أَنْ جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ ۝ فَلَمَّا رَأَى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُوا لا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمِ لُوطٍ•
(سورۃ ھود 70-69)
اگر سیدنا ابراہیم علیہ السلام فرشتوں کو اترتا اور یہ شکل وصورت بنا کر آتے اور اپنے قریب دیکھتے اور ملنے تک کچھ دیکھ رہے تھے تو پھر ڈرنا اور فرشتوں کا یہ کہنا آپ ڈریں نہیں سب مہمل لگتا ہے۔
دلیل نمبر2:
حضرت لوط علیہ السلام کا واقعہ:
وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطاً سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعاً وَقَالَ هَذَا يَوْمٌ عَصِيبٌ، قَالُوا يَا لُوطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ
(سورہ ھود:77)
اگر سیدنا لوط علیہ السلام کا ان کو شروع سے آنا اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس جانا اور یہ سب راستہ ا ن کو دکھانا تھا تو پھر آپ کی پریشانی کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے حالانکہ آپ بہت سخت پریشان ہیں۔
دلیل نمبر3:
حضرت یعقوب علیہ السلام کا واقعہ:
أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَداً يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَنْ تَذْهَبُوا بِهِ وَأَخَافُ أَنْ يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنْتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ قَالُوا لَئِنْ أَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذاً لَخَاسِرُونَ•
(سورۃ یوسف:12)
دوسری جگہ ہے : اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيراً•
(سورۃ یوسف:93)
سیدنا یعقوب علیہ السلام کا رونا اور آنکھوں کا سفید ہونا اسی وجہ سے کہ آپ علیہ السلام کو سیدنا یوسف علیہ السلام نظر نہیں آئے اگر آنکھوں کے سامنے تھے توپھر پیار بھی کر لیتے اور اتنا غمگین اور رونا سمجھ نہیں آتا۔
دلیل نمبر4:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ:
فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَباً قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِي إِلاَّ الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَباً قَالَ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصاً•
(سورۃ الکہف:62)
دیکھیے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سو گئے تھے او ر مچھلی پانی میں کود گئی۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ علیہ السلام نے اسے جاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا ورنہ وہ کھانا مانگتے ہی کیوں۔ کیوں کہ کھانا تو وہی مچھلی تھی جو زندہ ہوکر پانی میں چلی گئی۔
دلیل نمبر5:
حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ:
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِي لا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنْ الْغَائِبِينَ لأعَذِّبَنَّهُ عَذَاباً شَدِيداً أَوْ لأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِي بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ•
(سورۃ النمل:20)
یہ بات اب صاف نص قطعی ہوگئی کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کی نظر مبارک سے ھدھد اوجھل او رپوشیدہ تھا تبھی تو فرمایا کہ مجھے نظر نہیں آرہا۔ اب معلوم ہوگیا یہ کہنا کہ نبی کی نظر سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے یہ نص قطعی کا انکار ہے۔
دلیل نمبر6:
حضرت زکریا علیہ السلام کا واقعہ:
قَالَ رَبِّ اجْعَل لِي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاثَ لَيَالٍ سَوِيّاً •
(سورۃ مریم:10)
اس سے بھی معلوم ہوگیا کہ سیدنا زکریا علیہ السلام نشانی مانگ رہے ہیں۔ ورنہ اگر اہل بدعت کا قول سچا تھا تو پھر تو انہیں سب کچھ نظر آجائے گا کہ بچہ بن گیا اور اب پیدا ہونے والا۔ معلوم ہوا کہ یہ سب ایلِ بدعت کا جھوٹ ہے۔
دلیل نمبر7:
إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ۝ اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً•
(سورۃ المنافقون:1)
یہ سورۃ مزمل ، احزاب، نساء ، حج کے بعد نازل ہوئی جن صورتوں میں چند آیات سے منافقین زمانہ ھذا اپنی گاڑی چلاتے ہیں ، حالانکہ بعد والی سورت یعنی سورہ منافقون کا شان نزول یوں ہے: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم ایک غزوہ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے دوران سفر عبداللہ ابن ابی رئیس المنافقین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم عزت والے جب مدینہ کو چلے جائیں گے تو ذلت والوں ) یعنی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نکال دیں گے، حضرت زید نے یہ واقعہ اپنے چچا کو سنایا انہوں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے مجھے بلوا کر سارا واقعہ سنا تو رئیس المنافقین کو بلوایاگیا تو اس نے قسمیں اٹھاکر اپنی صفائی دی تو زید نے فرماتے ہیں:
فَكَذَّبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَدَّقَهُ فَأَصَابَنِي هَمٌّ لَمْ يُصِبْنِي مِثْلُهُ قَطُّ•
وہ فرماتے ہیں پھر مجھے میرے چچا نے بھی ملامت کیا۔ پھر بعدمیں یہ سورت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایااور فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ يَا زَيْدُ•
(صحیح البخاری: ج2ص727 ملحضاً کتاب التفسیر)
اب معلوم ہوگیا کہ لفظ شاہد ، شہید جو اس سورت سے پہلے اترنے والی سورتوں میں تھے اس کے معنی بھی وہ نہیں جو اہل بدعت نے بتائے ہیں یہ محض ان کی اپنی ایجاد ہے۔ شاید اہل بدعت یہ کہیں کہ چونکہ زید رضی اللہ عنہ کے پاس گواہ نہ تھے اس لیے بات نہ مانی گئی۔ بات یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے تو زید رضی اللہ عنہ کو جھوٹا قرار دیا اور دیگر لوگ مثل چچا ملامت کرنے لگے۔ اگر بات وہی ہوتی تو آپ فرماتے زید تم سچے ہو مگر فیصلہ نہیں ہو سکتا۔
دلیل نمبر8
وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثاً فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِي الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ•
(سورۃ التحریم:3)
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ کو ایک راز بتایا ، انہوں نے چھپ کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتا دیا جب وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کیا آپ نے کیا تو وہ کہنے لگیں آپ کو کس نے بتایا کہ میں نے راز فاش کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے۔
معلوم ہوا کہ امہات المومنین کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دیکھ نہیں رہے ورنہ وہ کیوں بتاتیں اور یہ کیوں پوچھتیں کہ آپ کو کیسے پتہ چلا۔
دلیل نمبر9:
وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِداً ضِرَاراً وَكُفْراً وَتَفْرِيقاً بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَاداً لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلاَّ الْحُسْنَى وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ لا تَقُمْ فِيهِ أَبَداً•
(سورۃ التوبۃ:)
امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
واللہ ما اردت الاالحسنیٰ وھو کاذب فصدقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم •
(در منثور: ج3 ص276)
معلوم ہوگیا کہ آپ ہرجگہ دیکھنے والے نہ تھے ورنہ ان کے سارے پرو پیگنڈے کو آپ تو ملاحظہ فرما رہےتھے اور آپ ان کی تصدیق نہ فرماتے۔
دلیل نمبر10:
وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ•
(سورۃ الانعام:68)
اور اگر آپ کو شیطان بھلاد ے تو نصیحت کے بعد ظالمین کے پاس مت بیٹھیں۔
پہلی بات…… تو یہ ہے کہ حاضر وناظر اگر خدا بنائے پھر شیطان کیسے آپ کے پاس اس حاضر وناظر ہونے میں حائل ہو سکتا ہے۔
دوسری بات…… یہ ہے کہ اللہ فرماتا ہے ایسی قوم کے پاس آپ بیٹھیں ہی نہیں مگر جب حاضر او رناظر ہوئے پھر تو اس قوم کی طرف آپ دیکھ بھی رہے ہیں اور ان کی باتوں کو سن بھی رہے ہیں تو پھر اس حکم خداوندی کا کیا فائدہ۔ یہ سب بریلوی حضرات کی مہربانی ہے۔
دلیل نمبر11:
قرآن پاک میں ہے:
”سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ•“
(سورۃ بنی اسرائیل: 1)
سیر کروانے کامطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں دیکھ رہے تھے۔
دلیل نمبر12:
ارشاد بای تعالیٰ ہے:
”ولا تقم علی قبرہ“•
(سورۃ التوبہ : 84)
کہ آپ اس منافق کی قبر پر کھڑے نہ ہوں یعنی وہاں نہ جائیں۔
مگر ہر جگہ کے حاضر وناظر کہنے والے لوگ تو اس آیت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عامل نہیں مانیں گے۔
دلیل نمبر13:
لَقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ•
(آل عمران:181)
احادیث مبارکہ اور نفی حاضر وناظر
دلیل نمبر1:
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم * لقد رأيتني في الحجر وقريش تسألني عن مسراي فسألتني عن أشياء من بيت المقدس لم أثبتها فكربت كربة ما كربت مثله قط قال فرفعه الله لي أنظر إليه ما يسألوني عن شيء إلا أنبأتهم به•
(صحیح مسلم: ج1ص96،باب المعراج،صحیح البخاری ج1ص548)
اس میں الفاظ حدیث کی طرف غور فرمائیں ”فكربت كربة ما كربت مثله قط“ یعنی میں اتنا پریشان ہوا کہ اتنا پریشان کبھی نہیں ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر جگہ حاضر وناظر نہ تھے ورنہ پریشانی کی ضرورت ہی نہ تھی۔ کیونکہ اگر انہوں نے بیت المقدس کی کھڑکیاں وغیرہ پوچھ ہی لیں تھیں تو ُ آپ تو ہر جگہ کو دیکھ رہےتھے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ فاضل بریلوی کے چاہنے والوں نے خود گھڑا ہے۔
دلیل نمبر2:
عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ أَوْ بِذَاتِ الْجَيْشِ انْقَطَعَ عِقْدٌ لِي فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ••• فَبَعَثْنَا الْبَعِيرَ الَّذِي كُنْتُ عَلَيْهِ فَأَصَبْنَا الْعِقْدَ تَحْتَهُ•
(صحیح البخاری ج2ص663)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہو گیا اور یہ الفاظ خصوصیت سے ذہن میں رکھیے
”فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ“
کہ آپ علیہ السلام اس ہار کو تلاش کرنے کے لیے رک گئے اب کوئی تاویل نہیں چل سکتی کہ اس لیے رکے تھے کہ پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کا حکم آجائے۔ یہ معنی نکالنا صریح الفاظ کی خلاف ورزی ہے کیونکہ روایت میں ہار تلاش کرنے کے لیے رکنا صراحتاً آیا ہے۔ معلوم ہوا کہ آپ اگر پہلے ہی سے دیکھ رہے ہوتے تو ہار کا گرنا اور چھپنا سب آپ کی نظر میں ہوتا۔
دلیل نمبر3:
قال أنس أصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم عروسا بزينب بنت جحش قال وكان تزوجها بالمدينة فدعا الناس للطعام بعد ارتفاع النهار فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم وجلس معه رجال بعد ما قام القوم حتى قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فمشى فمشيت معه حتي بلغ باب حجرة عائشة ثم ظن أنهم قد خرجوا فرجع ورجعت معه فإذا هم جلوس مكانهم•
(صحیح مسلم: ج1ص461،صحیح البخاری: ج2ص706)
آپ نے سیدہ رینب رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا چند صحابہ کرام کو دعوت ولیمہ پر مدعو فرمایا تو وہ کھانے کے بعد آپ علیہ السلام کی باتیں سننے کے لیے بیٹھ گئے، ان کے طویل بیٹھنے سے آپ کو یہ بات ناگوار نہ گزری مگر زبان سے توکچھ نہ کہا اور خود اٹھ کر باہر تشریف لے گئے کہ شاید یہ بھی چلے جائیں گے مگر جب واپس آکر دیکھا تو وہ بدستور بیٹھے ہیں آپ پھر سے چلے گئے تو پھر آپ تشریف لائے۔ یہ روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جگہ حاضر وناظر ہونے صراحتہً تردید کر رہی ہے۔
دلیل نمبر4:
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعِينَ رَجُلًا لِحَاجَةٍ يُقَالُ لَهُمْ الْقُرَّاءُ فَعَرَضَ لَهُمْ حَيَّانِ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ رِعْلٌ وَذَكْوَانُ عِنْدَ بِئْرٍ يُقَالُ لَهَا بِئْرُ مَعُونَةَ فَقَالَ الْقَوْمُ وَاللَّهِ مَا إِيَّاكُمْ أَرَدْنَا إِنَّمَا نَحْنُ مُجْتَازُونَ فِي حَاجَةٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَتَلُوهُمْ فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ شَهْرًا فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ وَذَلِكَ بَدْءُ الْقُنُوتِ وَمَا كُنَّا نَقْنُتُ•
(صحیح البخاری: ج2ص586)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہینہ بھر ان قبیلوں پر دعائے ضرر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آپ کو پہلے معلوم ہوتا یا ان کی سازشوں کو دیکھ رہے ہوتے تو کبھی ان کو روانہ نہ فرماتے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے منشا خداوندی دیکھی کہ ان کی موت کا وقت آگیا ہے اس لیے روانہ فرما دیا۔ یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ ایک دو دن نہیں پورا مہینہ دعائے قنوت پڑھ کر ان کے خلاف بد دعا فرمانا یہ اس کی دلیل ہے کہ آپ کی یہ تاویل غلط ہے۔
دلیل نمبر5:
عَنْ قَتَادَةَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ بِالْمَدِينَةِ فَزَعٌ فَاسْتَعَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا لِأَبِي طَلْحَةَ يُقَالُ لَهُ مَنْدُوبٌ فَرَكِبَهُ•
دوسری جگہ ہے:
عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَهْلَ الْمَدِينَةِ فَزِعُوا مَرَّةً فَرَكِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا لِأَبِي طَلْحَةَ كَانَ يَقْطِفُ أَوْ كَانَ فِيهِ قِطَافٌ فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ وَجَدْنَا فَرَسَكُمْ هَذَا بَحْرًا فَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ لَا يُجَارَى•
(صحیح البخاری ج1ص401)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھوڑا پر تشریف لے جانے دیکھنے کےلیے کہ یہ آواز کیا تھی۔ یہ بھی آپ کے ہر جگہ حاضر وناظر اور ہر جگہ دیکھنے کی نفی کرتی ہے ورنہ آپ تو وہیں سے بتا دیتے کہ یہ فلاں شے ہے۔
دلیل نمبر6:
عن إبراهيم التيمي عن أبيه قال كنا عند حذيفة فقال رجل * لو أدركت رسول الله صلى الله عليه وسلم قاتلت معه وأبليت فقال حذيفة أنت كنت تفعل ذلك لقد رأيتنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة الأحزاب وأخذتنا ريح شديدة وقر فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا رجل يأتيني بخبر القوم جعله الله معي يوم القيامة فسكتنا فلم يجبه منا أحد ثم قال ألا رجل يأتينا بخبر القوم جعله الله معي يوم القيامة فسكتنا فلم يجبه منا أحد ثم قال ألا رجل يأتينا بخبر القوم جعله الله معي يوم القيامة فسكتنا فلم يجبه منا أحد فقال قم يا حذيفة فأتنا بخبر القوم فلم•
(صحیح مسلم: ج2 ص107)
رسول پاک صلی اللہ علیہ کا تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا کہ کون مخالفین کی خبر لائےگا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر ہر بات اور ذرہ ذرہ کا علم توخدا کو ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر آپ ہرجگہ ہی ہر وقت دیکھ رہے ہوتے تو ”الا یا تینی بخبر القوم“ کہنے کی ضرورت ہی کیا۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔
دلیل نمبر7:
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ فَقَالَ أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ قَالَتْ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ فَغَاضَبَنِي فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي•
(صحیح البخاری: ج2ص63)
آپ علیہ السلام کا یہ فرمانا ”این ابن عمک“ آپ کا چچا زاد بھائی کہاں ہے؟۔ یہ بھی آپ علیہ السلا م کے ہر جگہ دیکھنے کی تردید کرتا ہے۔
دلیل نمبر8:
إِذْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حَتَّى دَخَلَ الْمَسْجِدَ. فَقَالَ « مَنْ أَحَسَّ الْفَتَى الدَّوْسِىَّ ». ثَلاَثَ مَرَّاتٍ.
(سنن ابی داؤد ج1ص295)
رحمت کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں داخل ہوتے ہی فرمایا کسی نے دوسی جوان یعنی ابو ہریرہ کو دیکھا ہے یا کسی کو اس کا پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جگہ دیکھنے کی نفی پر صریح دلیل ہے۔
دلیل نمبر9:
عن جابر بن عبد الله أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مكث بالمدينة تسع سنين لم يحج ثم أذن في الناس بالحج في العاشرة•
(مشکوٰۃ شریف ج1ص224)
مکث بالمدینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مدینہ طیبہ میں ٹھہرے ہوئےتھے اگر ہرجگہ ہوتے تو صرف مدینہ طیبہ ٹھہرنے کی وجہ پھر کیاہوئی؟
دلیل نمبر10:
أنس بن مالك أن أبا بكر الصديق حدثه قال * نظرت إلى أقدام المشركين على رءوسنا ونحن في الغار فقلت يا رسول الله لو أن أحدهم نظر إلى قدميه أبصرنا تحت قدميه فقال يا أبا بكر ما ظنك باثنين الله ثالثهما•
(صحیح مسلم: كتاب فضائل الصحابة رضي الله عنهم۔ باب من فضائل أبي بكر الصديق رضي الله عنه)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غار میں رہنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ہرجگہ نہ تھے۔
دلیل نمبر11:
عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَأَعْرِفُ أَصْوَاتَ رُفْقَةِ الْأَشْعَرِيِّينَ بِالْقُرْآنِ حِينَ يَدْخُلُونَ بِاللَّيْلِ وَأَعْرِفُ مَنَازِلَهُمْ مِنْ أَصْوَاتِهِمْ بِالْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ وَإِنْ كُنْتُ لَمْ أَرَ مَنَازِلَهُمْ حِينَ نَزَلُوا بِالنَّهَارِ•
(صحیح البخاری ج2ص608)
اشعری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق آپ نے فرمایا میں نے ان کے ٹھکانے کو نہیں دیکھا ،دن کے وقت وہ جہاں ہوتے ہیں۔ یہ بھی آپ کے ہر جگہ دیکھنے کی نفی ہے۔
دلیل نمبر12:
عَنْ أَبِي حَازِمٍ قَالَ سَأَلْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَقُلْتُ هَلْ أَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّقِيَّ فَقَالَ سَهْلٌ مَا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّقِيَّ مِنْ حِينَ ابْتَعَثَهُ اللَّهُ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ•
(صحیح البخاری: ج2ص814)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات تک میدہ نہیں دیکھا۔ یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جگہ دیکھنے کی نفی ہے۔
اور یہ بھی بخاری میں ہے :
مَا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْخُلًا مِنْ حِينَ ابْتَعَثَهُ اللَّهُ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ•
(صحیح البخاری ج2ص814،815)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات تک چھاننی نہیں دیکھی۔
دلیل نمبر13:
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم * صنفان من أهل النار لم أرهما قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات رؤوسهن كأسنة البخت المائلة لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا•
(صحیح مسلم ج2ص383)
دو جہنمی طبقوں کو آپ علیہ السلام نے نہیں دیکھا۔ یہ بھی ہر جگہ دیکھنے کی نفی ہے
دلیل نمبر14:
عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ قِصَّةِ تَبُوكَ••• فَمَا رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَتَغَيَّبَ إِلَّا ظَنَّ أَنْ سَيَخْفَى لَهُ مَا لَمْ يَنْزِلْ فِيهِ وَحْيُ اللَّهِ•
(صحیح البخاری ج2ص634)
غزوہ تبوک میں اتنا رش تھا لوگوں کا مگر کوئی آدمی اس گمان سے چھپنا چاہتا کہ جب تک وحی نہ آئے گی میری عدم موجودگی کا پتہ آپ علیہ السلام کو نہ چلے گا تو چھپ سکتا تھا۔ یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صراحتہً حاضر وناظر اور ہر جگہ دیکھنے کی نفی ہے۔
دلیل نمبر15:
مشہور یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت رقیہ کے فوت ہونے وقت حاضر نہ تھے۔
(تاریخ مدینہ ص 175 ترجمہ جذب القلوب الی دیار المحبوب الشیخ دہلوی رحمہ اللہ)
دلیل نمبر16:
(حدیث شریف میں ہے): کاش میں دیکھتا اپنے بھائیوں کو۔
(نور علی نور ص 23)
دلیل نمبر17:
ابن مندہ وابو نعیم معرفۃالصحابہ میں حضرت ربیعہ بن وقاص سے راویت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں تین مقامات ایسے ہیں کہ ان میں بندے کی دعا رد نہیں کی جاتی ان میں سے ایک وہ بندہ جو جنگل میں کھڑا ہو کر اس حال میں نماز ادا کرے کہ اسے اس کے رب عزوجل کے سوا کوئی نہ دیکھتا ہو۔
( فضائل دعا ص225مکتبہ مدینہ)
دلیل نمبر18:
علامہ سبکی لکھتے ہیں: حضرت ابوبکر ؓ سے منقول ہیں کہ نبی پاک ﷺ کے سامنے آواز بلند کرنا نہ نبی کی زندگی میں جائز تھا نہ موت کے بعد۔حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر حضور کی قبر مبارک کے پاس کوئی کھٹکا کرتا ہے تو کہلاتی تھیں حضور کو تکلیف نہ پہنچاؤ۔حضرت علیؓ نے اپنے گھر کی چوکھٹ وغیرہ بنوائی تو مناصع میں لے جاکر بنوائی جو آبادی سے باہر جنگل ہے تاکہ قبر مبارک کے پاس کھٹکا نہ ہو۔ علامہ سبکی آگے لکھتے ہیں صحابہ کرام ؑؓ آنحضور ﷺ کی تعظیم کیوجہ سے قبر کے پاس بہت پست آواز سے گفتگو کرتےتھے۔ ایک دن حضرت عمر ؓ مسجد میں تشریف فرما تھے دونوجوان مسجد میں آئے اور بلند آواز سے آپس میں باتیں کرنے لگے حضرت عمر ؓ نے ان کو اپنے پاس بلایا او ر دریافت کیا تم کہاں سے آئے ہو انہوں نےکہا ہم طائف کے باشندے ہیں طائف سے آئے ہیں حضرت عمرؓ نے فرمایا اگر تم مدنی ہوتے تو ابھی تمہارے کوڑے لگاتا۔
(زیارت خیرالانام ترجمہ شفاءالسقام ص146،147،مصدقہ ابوالحسن زید فاروقی)
دلیل نمبر17:
علامہ ابن کثیر ؒ نے سانحہ بیر معونہ کے متعلق یوں لکھا ہے حضرت عمرو بن امیہ ؓ کو اس لیے گرفتار کرنے کے بعد چھوڑ دیاگیا تھا کہ ماں کی طرف سے ان کا قبیلہ مضر تھا اور ان کے ساتھ ایک انصاری ساتھی کو بھی چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس سانحہ کی خبر آنحضرت ﷺ کو عمرو بن امیہ اور اس کے اس انصاری ساتھی نے ہی دی تھی۔
(البدایۃ والنھایۃ ج4ص483)
دلیل نمبر18:
سیدنا حبیب ؓ نے شہادت سے پہلے یوں کہا :
اے اللہ ہم نے تیرے رسول کی رسالت کی تبلیغ کر دی تو بھی اپنے رسول کو ہماری اس حالت کی خبر پہنچادے۔
(سیرت ابن ہشام ج2ص328)
دلیل نمبر20:
آپ ﷺ نے فرمایا:
وان یخرج ولست فیکم فکل امرء حجیج نفسہ•
(صحیح مسلم: ج2ص401)
یعنی اگر دجال میری عدم موجود گی میں ظاہر ہوا تو ہر آدمی اپنا محافظ خود ہے۔
فتاوی جات
1: حضرت علامہ عبدالحی لکھنوی ؒ لکھتے ہیں:
واقعی انبیاء ،واولیاء،کو ہر وقت حاضر وناظر جاننا اور اعتقاد رکھنا کہ ہر حال میں وہ ہماری ندا سنتے ہیں اگر چہ ندا دور سے بھی ہو شرک ہے۔
(مجموعۃالفتاوی ج1ص46)
2: فتاوی مسعودی میں ہے:
یا رسول اللہ کہنا مثل سونے اور نشست اور کار وغیرہ کے وقت ممنوع ہے اور بہ نیت حاضر وناظر کہنا موجب شرک کا ہے۔
(فتاوی مسعودی ص529مصدقہ عبدالحکیم شرف قادری بریلوی ،مولوی منشاتابش قصوری بریلوی)
3 علامہ ابن نجیم ؒ لکھتے ہیں:
قال علماءنا من قال ارواح المشائخ حاضرۃ تعلم یکفر•
(البحرالرائق ج5ص124)
یعنی ہمارے احناف فرماتے ہیں کہ جو یہ کہے کہ مشائخ کی ارواح حاضر ہیں اور جانتی ہیں تو ایسا شخص کافر ہے۔
4: شاہ عبدالعزیز محدث دھلوی فرماتے ہیں:
انبیاء مرسلین را لوازم الوھیت از علم غیب وشنید ن فریاد ہر کس درہر جا وقدرت بر جمیع مقدرات ثابت کنند۔
(تفسیر عزیزی ج1ص55)
یعنی جمیع غلط عقائد میں سے یہ بات بھی ہے کہ نبی اور پیغمبروں کیلئے خدائی صفات جیسے علم غیب اور ہر جگہ سےہر شخص کی فریاد سننا اور تمام ممکنات پر قدرت ثابت کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ علم غیب اور ہر جگہ حاضر وناظر ہو ناخدا کی صفت ہے کسی اور میں ماننا شرک ہے۔
اہلِ بدعت کے چند دلائل پر سرسری تبصرہ
دلیل نمبر1:
 انا ارسلنک شاھدا•
(القرآن)
 وجئنا بک علی ھؤلاء شھیدا•
(القرآن)
شاھد وشھید کا معنی حاضر وناظر ہے۔
جواب نمبر 1:
آپ کا جھگڑا تو ہر جگہ حاضر وناظر کا ہے ورنہ ہر آدمی حاضر وناظر ہے اپنے مقام پر کیونکہ حاضر کا معنی موجود اور ناظر کا معنی دیکھنے والا تو ہر آدمی اپنی جگہ پر موجود بھی ہے اور ناظر بھی ہے جیسا کہ اشرف جلال صاحب لکھتے ہیں شاھد ہر بندہ ہے کوئی بندہ ایسا نہیں جو شاھد نہ ہو۔
(مسٔلہ حاضر وناظر ص16)
جواب نمبر 2:
قرآن پاک میں؛
” شھد شاھد من اھلھا “
(سورۃ یوسف: 26)
اور ”وتکونوا شھداء علی الناس“
(سورۃ الحج: 78)
ہے یعنی یوسف علیہ السلام کی پاکی کی گواہی دینے والے کو بھی قرآن نے شاھد کہا ہے اور صحابہ کرام کو شھید کی جمع شہداء کہا گیا وہ بھی ہر جگہ حاضر وناظر ہو گئے ؟
جواب نمبر3:
شاید رضا خانی یوں کہیں کہ اسکا معنی گواہ کرو تو بھی حاضر وناظر ثابت ہو جائیں گے کیونکہ جو موقع پر موجود نہ ہو وہ گواہی کیسے دے سکتا ہے تو اس کے متعلق عر ض خدمت یہ ہے کہ صحابہ کرام کو بھی گواہ کہا گیا اور سیدنا یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواھی دینے والا بھی تو گواہ ہے اور احادیث میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ ایک صحابی نے آپ کی گواہی دی تھی اور یہ بن دیکھے تھی۔ تومعلوم ہو ا کہ بن دیکھے بھی گواہی دی جا سکتی ہے :
1: ابوالحسنات قادری لکھتے ہیں:
اشیاء معروفہ میں شھادت سماعی بھی معتبر ہے یعنی جن چیزوں کے سننے کا علمِ یقین حاصل ہو، اس پر شہادت دی جا سکتی ہے۔
(تفسیر الحسنات ج1ص278)
2: علامہ سعیدی لکھتے ہیں:
کبھی اس چیز کی خبر کو شھادت کہتے ہیں جس کا اسکو یقین ہو یا وہ چیز مشہور ہو۔
(تبیان القرآن ج1ص1006)
اور فقہاء نے بھی لکھا ہے:
انما یجوز للشاھد ان یشھد بالاشتھاد وذالک بالتواتر او اخبار من یثق بہ•
(ہدایہ ج3ص157)
یعنی جو چیز کہ تواتر کی وجہ سے مشہور ہو جائے یا کسی ثقہ اور معتبر نے خبر دی ہو تو شاھد کو جائز ہے کہ گواہی دے دے۔ تو معلوم ہوگیا کہ گواہی کیلئے دیکھنا ضروری نہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ نبی پاک ﷺ گواہی دیں گے ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کے اعتبار سے نہیں بلکہ آپکی امت کے اعمال آپ کو پیش کیے جاتے ہیں جس وجہ سے آپ ﷺگواہی دیں گے ، جیسا کہ :
 بریلوی علامہ عبد الرزاق بھترالوی لکھتے ہیں :
تمام انبیاء کرام کو انکی امتوں کے اعمال پر مطلع کیا گیا ہے کہ فلاں آج اس طرح کر رہا ہے دوسرا شخص اس طرح کر رہا ہے انکو مطلع کر نیکی یہ وجہ ہے کہ وہ بھی قیامت کے دن گواھی دے سکیں۔
(نجوم الفرقان ج4ص48)
 بریلوی علامہ علام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں :
نبی ﷺ تمام امتوں کے احوال پر مطلع ہو نگے کیونکہ بغیر علم کےگواہی جائز نہیں نبی پاک ﷺ کو اللہ تعالی نے تمام امتوں کے احوال اور افعال پر مطلع فرمایا اور انکی دنیا وآخرت کا آپ کو علم عطا فرمایا ہے خصوصا آپکی امت کے اعمال قبر انور میں آپ پر پیش کیے جاتے ہیں۔
(تبیان القرآن ج1ص572)
 بریلوی علامہ ابو لبرکات قادری لکھتے ہیں :
کوئی دن ایسا نہیں مگر پیش آپکی امت کے اعمال کو صبح وشام کیا جاتا ہے پس آپ انکو نشانی اور ان کے اعمال کی وجہ سے پہچان لیتے ہیں اسی عرض اعمال کی وجہ سے آپ ان پر گواہی دیں گے۔
(رسائل ومناظرے ابو البرکات ص104)
 بریلوی علامہ شرف قادری صاحب لکھتے ہیں :
نبی پاک ﷺ اپنی امت کے گواہ ہیں اور اس کا تقاضا ہے کہ آپ کے سامنے امت کے اعمال پیش کیے جائیں۔ (اسلامی عقائد ص277)
اگر عرض اعمال کی بنیاد پر ہر جگہ حاضر وناظر کہا جائے تو پھر یہ اسی شرف قادری کی کتاب اسلامی عقائد کے ص230پر پورا باب عالم برزخ میں رشتہ داروں کے سامنے اعمال کا پیش کیا جانا بھی موجود ہے۔ تو پھر سارے وفات شدہ حضرات کئی جگہوں پر حاضر وناظر ہو نگے القصہ بغیر ہر جگہ موجود ہوئے بھی گواہی دی جا سکتی ہے جیسے یو سف علیہ السلام کے گواہ کی گواہی حالانکہ وہ ہر جگہ یا اس جگہ موجود نہ تھا۔ تو سرکار طیبہ ﷺ بھی گواہی دے سکتے ہیں وگر نہ بریلوی حضرات کو اذان چھوڑ نی پڑے گی کہ:
اشھد ان لا الہ الااللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک کےعلاوہ کوئی معبود نہیں)
اشھد ان محمدا رسول اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں )
جیسے یہ گواھی علم کے اعتبار سے ہے نہ کہ رؤیت ومشاھد ے کی بناء پر ایسےہی سرکار طیبہ ﷺ بھی گواہ ہیں۔
جواب نمبر4:
اگر یہی ترجمہ بالفرض مان بھی لیں تو ترجمہ حاضر وناظر کا ہے اور جو عقیدہ بنایا اس سے تو صرف ناظر ثابت ہو تے ہیں نہ کہ حاضر ،تو یہ آیتیں تمہیں مفید نہیں۔
جواب نمبر5:
اس لفظ ”شاھد“ کے کئی مطالب ومعانی ہیں :
1) کسی چیز کی خبر دینے والے اور
2) کسی چیز کے حال کو بیان کرنے والے کو بھی شاھد کہتے ہیں۔
(نجوم الفرقان ج 4ص47)
3) امام سلمی کہتے ہیں: پہلا معنی یہ ہو گا اللہ فرمارھا ہے شاھدًا لنا ہم نے تجھے اپنا گواہ بنایا ہے۔
(مسٔلہ حاضر وناظر از اشرف جلالی ص19)
4) اس وجہ سے حضرت کا نام شاھد ہے کہ وہ بارگاہ ایزدی میں حاضر ہونے والے ہیں۔
(شرح کبریت احمر ص80از مولانا عبد المالک)
یہ 4 عدد حوالے صرف بریلوی حضرات کی کتب کے ہیں شاھد کے معنی ومفہوم کو مختلف بیان کیا ہے معلوم ہوا کہ شاھد کا معنی حاضر وناظر کرنا قطعی الدلالۃ نہیں جب قطعی الدلالت نہیں تو اس عقیدے میں مفید نہیں ہو سکتا۔
جواب نمبر6:
اس حدیث کو دیکھ کر معنی تیار کیجئے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
اقول کما قال العبد الصالح الخ
یعنی قیامت کے دن میں بھی وہی کہوں گا جو میرے نیک بھائی عیسی بن مریم نے کہا کہ
”کنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم“
میں ان کی نگرانی کرتا رہا جب تک ان میں رہا اور جب تو نے مجھے اس دنیا سے اٹھا لیا تو پھر تو ان ہی کا نگران ونگہبان تھا۔
(بخاری ج 2ص665)
معلوم ہوا کہ ”شاھد“ اور ”شہید“ کا معنی ہر جگہ حاضر وناظر لینا درست نہیں ورنہ آپ یوں نہ فرماتے کہ میرے اس دنیا سے کوچ کے بعد نگران ونگہبان تو تھا نہ کہ میں۔
المختصر شاھد اور شھید کا معنی گواہ ہی ہو گا اور یہی احادیث طیبہ سے بھی ثابت ہوتا ہے۔
دلیل نمبر2:
وکیف تکفرون وانتم تتلی علیکم آیت اللہ وفیکم رسولہ•
(القرآن)
جواب نمبر1:
یہ آیت بھی تمھیں مفید نہیں کیونکہ تمہارا عقیدہ ہر جگہ ناظر کا تو بن سکتا ہے حاضر کا تو نہیں بن سکتا۔ جو دعوی لکھا ہے اس کے مطابق۔ جبکہ اس آیت سے ہر جگہ موجود ہونا ثابت کر رہے ہوتو یہ آیت تمہارے بھی خلاف ہے۔
جواب نمبر2:
کسی ایک مفسر جو متفق علیہ ہو اس آیت کے تحت تمہارا عقیدہ لکھا ہو ؟ کیا پندر ہ صدیوں بعد قرآن تمہیں سمجھ آیا اور 15 صدیاں فہمِ قرآن سے خالی گئی ہیں۔
جواب نمبر3:
اس آیت کا مفہوم سمجھنے کیلئے کسی بھی تفسیر کو اٹھایئے معلوم ہو جائے گا کہ اوس وخزرج کو لڑائی ختم کرنے اور صلح کا حکم دیا جا رہا ہے کہ اب تم میں نبی آخر الزمان موجود ہیں اب کیوں لڑتے ہو۔ جیسے کوئی بڑا آدمی موجود ہو لوگ لڑ پڑیں تو لوگ انہیں کہتے ہیں: یار نہ لڑو، کچھ خیال کرو، فلاں صاحب تشریف فرما ہیں ان کا لحاظ کرو۔ اوس اور خزرج کو سمجھانے کے لیے یہی طرز اختیار کیا گیا۔
جواب نمبر4:
چونکہ یہ قطعی الدلالۃ نہیں اس لئے کہ تمہارے عقیدے کو ثابت نہیں کر رہی تو یہ تمہیں مفید نہیں۔
جواب نمبر5:
احادیث میں موجود ہے کہ سیدہ عائشہ ؓ کے حجرہ میں پردے پر فوٹو ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ داخل نہ ہوئے جب تک اسے پھاڑ کر پرزے پرزے نہیں کر دیا گیا۔ (مشکوۃ ص385) اب تو جگہ جگہ فوٹو ہیں تو آپ کیسے یہاں موجود ہو سکتے ہیں ؟
نیزسیدنا ابن عمر ؓ سے مروی ہے جسکا خلاصہ یوں ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کے جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے۔
(ترمذی ج1ص19)
جب فرشتہ ایسی جگہ پر رہنا پسند نہیں کرتا تو سرکار طیبہ ﷺ کو آج کل ایسی مجالس عالم میں کیوں موجود سمجھا جاتا ہے ؟!!
دلیل نمبر 3:
الم تر• (القرآن)
ترجمہ: ” کیا تو نے نہیں دیکھا؟“
اگر آپ پہلےہر جگہ موجود نہ ہوتے تو اس طرح کیوں کہا جاتا ہے ؟
جواب نمبر1:
اگر یہی معنی ہو اور اس کے علاوہ کوئی اورمعنی نہ ہو تو پھر رضا خانی اس کو دلیل بنائیں ورنہ یہ قطعی الدلالۃ نہیں آپ کے دعوی کیلئے تو آپ کی دلیل کیسے ہوئی ؟
جواب نمبر 2:
٭قرآن مقدس میں ایک جگہ ہے:
الم تروا کیف خلق اللہ سبع سموت طباقا •
[سورۃ نوح]
(کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالی نے سات آسمان تہ بہ تہ بنائے ؟)
کیا تمام انسان اس وقت موجود تھے جب سات آسمان تہ بہ تہ بنائے گئے؟
٭ ایک جگہ یوں ارشاد ہے:
الم یروا کم اھلکنا من قبلھم من قرن•
[سورۃ الانعام: 6]
(کیا ان لوگوں نے نہ دیکھا کہ کتنی جماعتیں ہم نے ان سے پہلے ہلاک کر دی ہیں؟)
کیا کافر ومشرک بھی اس وقت موجود تھے ؟
اب معنی ومطلب کے بیان کیلئے بریلوی اکابر کی طرف رخ کرتے ہیں تا کہ رضاخانی مان لیں۔
 بریلوی علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں :
”اَلَمْ تَرَ کیا آپ نے نہیں دیکھا“کی تحقیق : رؤیت کے معنی دیکھنا ہے اور یہ رؤیت قلبی یعنی علم کے معنی میں بھی آتا ہے اس لیے کہا آپ نے نہیں دیکھا اسکا معنی ہے کیا آپ نے نہیں جانا ؟ یہ جملہ ان چیزوں کیلئے کہا جاتا ہے جو پہلے مذکور ہو اور جن کا پہلے علم ہو اور ان کا استعمال ان چیزوں کو یاد دلانے ان کو مقرر اور ثابت کرنے اور ان پر تعجب ڈالنے کیلئے ہوتا ہے اور کہیں اس کے بغیر بھی اس جملہ کو استعمال کیا جاتا ہے اس وقت یہ کسی چیز کی خبر دینے اور خبر پر تعجب میں ڈالنے کیلئے ہوتا ہے اور کبھی مجازا استعمال کرتے ہیں اور جس نے کسی چیز کو نہیں دیکھا ہو ا ہوتا اس کو اس شخص کے ساتھ تشبیہ دیتے جس نے اس چیز کو دیکھا ہو اہوتا ہے تاکہ مخاطب اس پر متنبہ ہو کہ یہ چیزیں اس پر مخفی نہیں ہونی چاہئے تھی اور اسکو اس پر تعجب ہونا چاہئے تھا یا یہ بتلانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ چیزیں شہرت کے اس درجہ میں ہے کہ کسی پر مخفی نہیں ہے حتی کہ مخاطب پر بھی مخفی نہیں اور اس سے مقصود یہ ہے کہ اس کے بعد جو واقعہ ذکر کیا جا رہا ہے اس پر غور وفکر کیا جائے اور اس سے عبرت حاصل کی جائے۔ “
(تبیان القرآن ج1ص873،874)
بریلوی علامہ عبد الرزاق بھرتالوی لکھتے ہیں :
”الم تر الی الذین خرجوا من دیارھم“
(سورۃ البقرۃ: 243)
کیا آپ کو علم حاصل نہیں ہوا ان لوگوں کا جو نکلے اپنے گھروں سے۔ بے شک رؤیۃ کا معنی کبھی بصیرت یعنی دل سے دیکھنا ہوتا ہے اور اس کا مطلب علم ہو تا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے وارنا مناسکنا کا معنی یہ ہے کہ ہمیں ہماری عبادت کا علم عطا فرما اور ربّ اللہ تعالی نے فرمایا : ”فاحکم بین الناس بمااراک اللہ “ (سورۃ النساء:105) کا معنی یہ ہے آپ فیصلہ فرمائیں لوگوں کے درمیان اس سے جو اللہ نے آپکو علم عطا کیا۔ رویت قلبی دل سے دیکھنا یعنی علم حاصل ہونے کی پھر دو قسمیں ہیں کبھی مخاطب کو پہلے علم حاصل نہیں ہو تا بلکہ کلام کا تعلق ابتداء سے ہوتا ہے جس طرح کوئی شخص دوسرے کو کہے الم تر الی ما جرٰی علی فلاں کیا تمہیں فلاں شخص کے جاری رہنے والے کام کا علم نہیں اس کلام کا مقصد دوسرےکو بتانا ہوتا ہے جسے پہلے سے علم حاصل نہیں ہوتا۔ رویت قلبی کی دوسری قسم یہ ہے کہ جب کسی کو پہلے سے علم ہوتا ہے پھر بات کو پختہ کرنے کیلئے استفہام انکاری کے طور پر یہ کلام کیا جاتا ہے الم تر کیا تمہیں علم حاصل نہیں یعنی تمہیں علم حاصل ہے۔ دونوں معانی مراد ہو سکتے ہیں۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس آیت کریمہ میں یہ احتمال پایا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو پہلے اس واقعہ کا علم نہ ہو بلکہ اس آیت کریمہ کو نازل فرما کر آپکو علم عطا کیا گیا ہو دوسرے معنی کے لحاظ سے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کو اس آیت کریمہ کے نازل ہونے سے پہلے اس واقعہ کا علم حاصل تھا آپ کے علم کے مطابق آیت کریمہ کو نازل کیا گیا اب مطلب واضح ہے کہ یہ کہا گیا ہے کیا آپ کو علم حاصل نہیں ؟ یعنی یقینا آپکو علم حاصل ہے الم تر کے خطاب سے ظاہر تو یہی ہے کہ یہ خطاب نبی کریم ﷺ کو کیا گیا لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ یہ خطاب آپ کو بھی ہے اور آپ کے ساتھ آپ کی امت کو بھی۔
( نجوم العرفان ج6ص28،29،30،)
اب معلوم ہو گیا کہ خطاب امت کو بھی ہو سکتا ہے تو کیا یہ بھی ہر جگہ حاضر وناظر ہونگے۔
دوسری بات…… یہ بھی کہ اگر آپ علیہ السلام کو ان واقعات کے مشہور ومعروف ہونے کی وجہ سے یا خدا تعالی کے یہ معلومات دینے کی وجہ سے علم ہو تو پھر یہ لفظ الم تر متوجہ کرنے کیلئے آتا ہے ان واقعات کی طرف ورنہ آپ کو ان کا علم دینے کیلئے آیت آتی ہے۔
دلیل نمبر 4:
ا ن رحمت اللہ قریب من المحسنین •
(سورۃ الاعراف:56)
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی احمت نیک لوگوں کے قریب ہے اور دوسری آیت:
وماارسلنک الا رحمۃ للعالمین•
(سورۃ الانبیاء:107)
سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ اللہ کی رحمت ہیں تو سرکار نیک لوگوں کے قریب ہوئے اور
ورحمتی وسعت کل شیء •
(سورۃ الاعراف:156)
سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رحمت نے ہر شے کو گھیر ے ہوئے ہے تو حضور ہر شیء کو گھیرے ہوئے ہیں یعنی ہر جگہ حاضر وناظر ہیں۔
جواب نمبر1:
یہ تفسیر پندرہ صدیوں میں کسی متفق ومعتمد علیہ نے نہیں کی۔
جواب نمبر2:
قرآن میں رحمت ،بارش ،تکلیف کے بعد راحت ،میاں بیوی کے مابین محبت،وغیرہ کو بھی کیا گیا ہے اور بریلوی ملاؤں نے تو اپنے بزرگوں کو رحمۃ للعالمین قرار دیا گیا ہے ، کیا یہ سب چیزیں ہر جگہ حاضر وناظر سمجھی جائیں۔
جواب نمبر3:
آپ ایک جگہ تشریف فرما ہیں اور آپ کا دیا ہو ادین جو رحمت ہے وہ ہر جگہ ہے دیا ہوا قرآن ہر جگہ ہے آپکی دعاؤں کی برکات جو رحمت ہے وہ ہر جگہ لوگوں پر برس رہی ہے جیسے سورج ایک جگہ دھوپ ہر جگہ ایسے ہی سرکار طیبہ ﷺ ایک جگہ آپکی برکات و رحمتیں ہر جگہ۔
جواب نمبر4:
دلیل دعوی کے مطابق نہیں دعوی صرف ناظر ہونے کا دلیل حاضر وناظرکی۔
جواب نمبر 5:
اس سے مراد خاص قسم کی رحمت ہے جو کہ مومنوں کے اوپر ہوتی ہے اور اس سے ہر جگہ کا دعوی بھی چھوڑ دینا چاہیئے کیونکہ ہر جگہ تو مومن نہیں ہیں۔
دلیل نمبر 5:
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا
(النساء: 64)
جواب:
پہلی بات: یہ آیت بھی تمہیں مفید نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جانے کا ذکر ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر جگہ تشریف فرما ہیں تو آپ کے پاس جانے کا کیا مطلب؟!! وہیں سے ہی جہاں آدمی سے گناہ ہو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہہ دیا جائے کہ میرے لیے دعا کریں مگر وہاں جانا تو ہماری دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ ہر جگہ نہیں ہیں اور نہ ہی ہر جگہ کو دیکھ رہے ہیں اس لیے آپ کے جانا چاہیے۔
دوسری بات: بریلوی حضرات کا عمل تو اس کے خلاف ہے کہ یہ تو وہاں جاتے نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے گھر بلاتے ہیں۔
دلیل نمبر6:
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ•
(الانفال:33)
یعنی عذاب الہی اس لیے نہیں آتا کہ آپ موجود ہیں اور عام عذاب تو قیامت تک کسی جگہ نہیں آئے گا۔
(جاء الحق: ص118)
جواب:
قرآن پاک میں ہے:
وَإِذَا كُنْتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ•
(سورۃ النساء: 102)
کہ جب آپ لوگوں میں ہوں تو نماز ان کو خود پڑھائیں۔
پہلی بات: اگر آپ موجود ہیں تو بریلوی ملت نماز بجائے رضاخانی کے پیچھے پڑھنے کے آپ علیہ السلام کے پیچھے ادا کریں
دوسری بات: روایت میں آتا ہے کہ اگر میں آپ میں ہوا تو جب دجال نکلے گا تو میں اس کے لیے کافی ہوں۔
تیسری بات: تو اگر آپ موجود ہیں تو پھر رضا خانی حضرات کو زکوٰۃ سے بھی چھٹی کرنے کی گنجائش شائد نظر آ جائے کہ زکوٰۃ لینے کا حکم بھی قرآن مجید نے آپ علیہ السلام ہی کو دیا ہے تو جب آپ موجود ہیں تو زکوٰۃ بھی خود ہی وصول کریں تو ادا کرو ورنہ فاضل بریلوی کی طرح چھٹی کرو کہ ساری زندگی ایک پیسہ زکوٰۃ نہیں دی۔
دلیل نمبر7:
النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ•
(سورۃ الاحزاب: 6)
قاسم نانوتوی تحذیر الناس ص10 پر لکھتے ہیں: اس آیت میں ”اولیٰ“ کے معنی قریب تر ہیں۔ تو آیت کے معنی ہوئے؛ مسلمانوں سے ان کی جان سے بھی زیادہ قریب ہیں اور زیادہ قریب چیز نظر نہیں آتی، اس زیادتی قرب کی وجہ سے آنکھ سے نظر نہیں آتے۔
(جاء الحق: ص120)
جواب:
اس آیت کو رضاخانی حضرات سمجھے ہی نہیں ورنہ یاد رکھیں عرف عام میں قریبی کا معنی کیا ہے وہ ہم عرض کر دیتے ہیں۔ مثلاً آپ کسی دوست یا رشتہ دار کا تعارف کرواتے ہیں کہ یہ ہمارے بہت قریبی ہیں۔ اس کا کیا مطلب کہ وہ ہر وقت ہمارے پاس رہتے ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے ہمارا تعلق بہت قرب کا ہے، رشتہ بہت قریب کا ہے۔ تو جب نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو قریب تر مانا گیا تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا تعلق ہر امتی سے اس قدر زیادہ ہے کہ اتنا تعلق اس کا اپنی جان سے بھی نہیں، یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حقوق اس امت پر اس قدر ہیں کہ آپ کی امت کے اپنے اوپر بھی نہیں۔ تو اس آیت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے امت کے رشتہ اور تعلق کو بیان کیا گیا ہے مگر یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت و شان گھٹانے کے لیے ہر جگہ مانتے ہیں۔
(کما مر مفصلا واضحا)
دلیل نمبر8:
وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ•
(سورۃ التوبۃ: 94)
معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اعمالِ امت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
جواب:
اگر سرسری طور پر اس آیت کا شانِ نزول ہی دیکھ لیا جائے تو اس سے استدلال کی خامی واضح ہو جاتی ہے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر ان منافقین نے حیلے بنا کر شریک نہ ہونے کی اجازت طلب کر لی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سمجھتے ہوئے اجازت عنایت فرما دی کہ یہ لوگ واقعی معذور ہیں تو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا؛
عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ
(سورۃ التوبۃ: 43)
اور اگراس سے مراد رؤیت بصری ہے تو پھر اسی سورت میں آگے ہے کہ یہ بھی اور مومنین بھی دیکھتے ہیں تو پھر سارے مؤمنین بھی حاضر ناظر ٹھہرے؟؟
دلیل نمبر9:
ماکنت تقول فی ھذ االرجل (الحدیث)
یعنی قبر میں فرشتے پوچھتے ہیں: اس آدمی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ معلوم ہوا کہ آپ ہر جگہ موجود ہیں۔
جواب نمبر1:
اس مسٔلہ میں دلیل قطعی لانی چاہیئے تھی اور یہ دلیل قطعی نہیں کیونکہ متواتر نہیں۔
جواب نمبر2:
جوآدمی مشہور اور معروف ہو یا کوئی جگہ جس کا تصور ذھن میں ہو اس کے بارے میں ھذا کہہ دیا جاتا ہے
جواب نمبر3:
چاند کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام ھذا ربی کہہ رھے ہیں کیا چاند ہر جگہ موجود ہے۔
جواب نمبر4:
سیدنا جبرئیل علیہ السلام ایک اعرابی کی شکل میں سوالات کرتے ہیں ان کے چلے جانے کے بعد آ پ ﷺ نے فرمایا:
ھذا جبرئیل• یہ جبرئیل تھے۔
(بخاری ج2ص704،مسلم ج1ص29)
کیا جبرئیل امین ہر جگہ حاضر وناظر ہیں ؟معلوم ہو گیا کہ لفظ ”ھذا“ ہمیشہ محسوس اور دکھائی دی جانے والی چیز کیلئے استعمال نہیں ہوتا بلکہ جس چیز کا ذھن میں تصور ہواس کیلئے بھی ھذا بول دیتے ہیں۔
تو فرشتے اشارہ کر رھے ہیں جو سرکار طیبہ ﷺ کا تصور اس کے ذہن میں اس طرف۔
جواب نمبر5:
فاضل بریلوی فرماتے ہیں:
”ما تقول فی ھذا الرجل“ ان کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ اب نہ معلوم سرکار خود تشریف لاتے ہیں یا روضہ مقدسہ سے پردہ اٹھا دیا جاتا ہے۔
(ملفوظات حصہ ص75)
تو جب احتمال آگیا تو استدلال باطل ہو گیا۔
جواب نمبر6:
سرکار طیبہ ﷺ بقول تمہارے وہاں تشریف لے جاتے ہیں تو معلوم ہوا کہ پہلے وہاں نہ تھے۔
جواب نمبر7:
سرکار طیبہ ﷺ بقول تمہارے اگر قبر میں تشریف لے جاتے ہیں تو پھر صبح کے وقت کیوں پوچھ رہے ہیں ”متی دفن ھذا؟“ اس آدمی کو کب دفن کیا گیا ہے ؟
(مشکوۃ شریف ج1ص145)
اور یوں کیوں فرما رہے ہیں مسجد کے خادم کے دفن ہو نے کا جب آپ کو علم ہوا کہ:
افلا کنتم آذنتمونی بہ دلونی علی قبرہ•
(بخاری ج1ص65،مسلم ج1ص309)
تم نے مجھے اس کے جنازے کا کیو ں نہ بتایا اچھا مجھے اسکی قبر بتاؤ۔ اگر آپ رات کو وہاں تشریف لے گئے تو پھر یوں کہنے کی کیا ضرورت ؟
جواب نمبر8:
پہلے یہ بات بتائی جائے کہ نبی پاکﷺ کو رجل )آدمی (کہا جارہا ہے کیا تم نبی پاکﷺ کو آدمی ،بشر ماننے کیلئے تیار ہو ؟
اگر ہو تو وہ تمام فتوے ہم حاضر کردیتے ہیں جو نبی پاکﷺ کو ”بشر “کہنے پر بریلوی اکابر نے دیے ہیں تو یہ دلیل تو تمہارے لیے ایمان لیوا ثابت ہو گی۔
دلیل نمبر10:
وعن أم سلمة قالت : استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة فزعا يقول : " سبحان الله ماذا أنزل الليلة من الخزائن ؟ وماذا أنزل من الفتن ؟
(مشکوٰۃ المصابیح: باب التحریص علی قیام اللیل)
اس سے معلوم ہوا کہ آئندہ ہونے والے فتنوں بچشم ملاحطہ فرما رہے ہیں۔
(جاء الحق: 122)
جواب:
پہلی بات…… اس میں تو کہیں بھی یہ نہیں ہے کہ ہر ہر جگہ اور ہر ہر وقت رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم دیکھ رہے ہیں، اس حدیث سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ خزائن اور فتن اس رات میں کئی نازل ہوئے اور یہ حدیث آپ کے خلاف ہے کہ اس سے پہلے آپ علیہ السلام خزائن اور فتن کو نہیں دیکھ رہے تھے ورنہ گھبرانا چہ معنی دارد؟ تو اس سے تو حاضر ناظر کی نفی معلوم ہوتی ہے، چونکہ دعویٰ بریلوی حضرات کا تو یہ ہے کہ ہر ہر جگہ اور ہر ہر وقت آپ کے پیش نظر ہے مگر یہ تو چند ایک خزائن اور فتن کا ذکر ہے نہ کہ کلی خزائن اور فتن کا۔
دوسری بات…… ان کے علاوہ بے شمار کئی دیگر اشیاء، باتیں، انسان اور حیوانات ہیں ان کا کیا بنا؟ ان کا تو اس میں ذکر ہے ہی نہیں۔
تو یہ کہنا کہ تمام اشیاء کا علم ہو گیا ہو یہ غلط ہے۔
ہم مسئلہ علم غیب کی تردید میں بریلوی حضرات کے دلائل کے جوابات میں عرض کر آئے ہیں کہ سیدنا حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے اس فتنہ کے بارے میں نہ پوچھا ہے اور نہ ہی آپ نے ارشاد فرمایا جو اہل مدینہ کو مدینہ سے نکال دے گا۔ تو تمام فتنوں کا علم میں آنا بھی مسلّم نہیں باقی باتیں تو پیچھے رہ گئیں۔
دلیل نمبر11:
وعن أنس قال نعى النبي صلى الله عليه وسلم زيدا وجعفرا وابن رواحة للناس قبل أن يأتيه خبرهم فقال أخذ الراية زيد فأصيب ثم أخذ جعفر فأصيب ثم أخذ ابن رواحة فأصيب وعيناه تذرفان حتى أخذ الراية سيف من سيوف الله حتى فتح الله عليهم .
(مشکوٰۃ: باب المعجزات)
جواب:
پہلی بات…… یا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ واقعہ منکشف کر دیا گیا یا پھر جبرئیل امین کے ذریعے وحی کر کے آپ کو اس واقعہ کے سارے احوال بتا دیے گئے۔ دعویٰ تو سارے عالم کے ذرے ذرے پر نظر مبارک کا ہے اور دلیل میں ایک جزئیہ پیش کرنا یہ عقل مندی اور دانش مندی نہیں بلکہ اپنے گھر سے جاہلیت کی دلیل پیش کرنا ہے۔
دوسری بات…… یہ کشف ہونا انسانی طاقت اور بس میں نہیں ہوتا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو جاتا ہے اور یہ دائمی بھی نہیں ہوتا۔ تو معلوم ہوا کہ یہ آپ کے مسئلہ کے لیے مفید نہیں۔
تیسری بات…… یہ دلیل قطعی نہیں بلکہ خبر واحد ہے جو کہ آپ کے عقیدہ میں مفید نہیں۔
دلیل نمبر12:
عن أبي الدرداء : قال كنا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم فشخص ببصره إلى السماء ثم قال هذا أوان يختلس العلم من الناس حتى لا يقدروا منه على شيء•
(جامع الترمذی: باب العلم)
اس کی شرح میں ملا علی قاری لکھتے ہیں:
فکانہ علیہ السلام لما نظر الی السماء کوشف•
(جاء الحق: 122)
جواب:
1: یہ خبر واحد ہے جو عقیدہ کے باب میں مفید نہیں ہے۔
2: کشف کا ہونا امر اختیاری نہیں یہ امر غیر اختیاری ہے تو اگر یہ کسی امر جزئی میں ہوا تو اس سے آپ کا دعویٰ کیسے ثابت ہوا؟ کیونکہ آپ کا دعویٰ تو تمام عالم اور تمام جہان پر نظر مبارک ہونے کا ہے۔
3: اس سے تو معلوم ہوا کہ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم حاضر و ناظر نہ تھے۔
دلیل نمبر13:
حدیث قدسی ہے: کنت سمعہ الذی یسمع بہ و بصرہ الذی یبصر بہ و یدہ الذی یبطشہ بہا الخ•
ایک اور روایت میں ہے: و لسانہ الذی یتکلم بہ• اس عبارت میں صاف اقرار ہے کہ جب انسان فنا فی اللہ ہو جاتا ہے تو خدائی طاقت سے دیکھتا، سنتا، چھوتا اور بولتا ہے یعنی عالم کی ہر چیز کو دیکھتا ہے، ہر دور اور نزدیک کی چیزوں کو پکڑتا ہے۔ یہی حاضر ناظر کے معنی ہیں اور جب معمولی انسان فنا فی اللہ ہو کر اس درجے میں پہنچ جاویں تو سید الانس و الجان علیہ الصلاۃ والسلام سے بڑھ کرکون فنا فی اللہ ہو سکتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم بدرجہ اولیٰ حاضر ناظر ہوئے۔
(جاء الحق: ص149)
جواب:
1: یہ تو خبرِ واحد ہے، یہ تو آپ کو مفید نہیں ہے۔
2: شاہ صاحب نے تفسیر عزیزی میں(تحت تفسیر سورۃ مزمل)، حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں (ج5 ص77) اور امام بیہقی نے کتاب الاسماء و الصفات میں (ج1 ص345) میں اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ بندہ کثرت عبادت سے اللہ کا مقبول بن جاتا ہے، اس کے سب اعضاء کا اللہ تعالیٰ خود محافظ بن جاتا ہے اور اس کے ہاتھ، پاؤں، کان اور آنکھ اللہ کی مرضی کے تابع بن جاتے ہیں۔
3: یہ بزرگوں کی اس حالت کا بیان ہے کہ جب ان سے کرامات صادر ہوتی ہیں تو اس وقت ان سے یہ افعال صادر ہوتے ہیں جو من جانب اللہ ہوتے ہیں۔ ہاں ظہور ان بزرگوں کے وجود سے ہوتا ہے اور طاقت و قدرت خدا تعالیٰ کی استعمال ہوتی ہے۔ تو یہ اس حالت کا بیان ہے، اس سے تو آپ ہر ہر بزرگ کو حاضر ناظر ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ العیاذ باللہ
دلیل نمبر 14:
السلام علیک ایھاالنبی•
صیغہ خطاب سے درود سلام کا عرض کرنا بتاتا ہے آپ ﷺ ہر جگہ موجود ہیں کیوں نمازی بھی تقریبا ہر جگہ ہوتے ہیں۔
جواب نمبر 1:
جیسے خطوط میں خطاب کے الفاظ لکھے جاتے ہیں مثلاً السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ، حالانکہ حاضر وناظر کوئی بھی نہیں سمجھتا۔
جیسے نبی پاکﷺ نے ”انی ادعوک بدعایۃ الاسلام“ خط میں ہرقل کو لکھا حالانکہ وہ کافر ہے اور ہر جگہ حاضر وناظر اسے ماننے کیلئے بریلوی بھی قطعا تیار نہیں۔ تو یہ خطاب خطوط کی طرح کہ جب قاصد خط لے جا کر پہنچادےگا تو خطاب درست ہو جائے گا اسی طرح جب یہ درود سلام پڑھا جاتا ہے تو مقصود یہی ہوتا ہے کہ فرشتے یہ سلام آپ کی خدمت میں پہنچا دیں گے تو یہ درست ہے اور احادیث کے مطابق ہے۔
من صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی نائیا ابلغتہ•
ان للہ ملائکۃ سیا حین فی الارض یبلغونی عن امتی السلام•
کچھ فرشتے اسی کام پر مقرر کیے گئے ہیں جو امت کا سلا م آپ تک پہنچاتے ہیں تو معلوم ہو گیا دور سے سلام وصلوۃ فرشتے پہنچاتے ہیں چاہے صیغہ خطاب سے ہو یا نہ ہو۔
جواب نمبر 2:
مسٔلہ عقیدے کا ہے یہ خبر واحد ہے جو اس سے ثابت نہیں ہوتا۔
جواب نمبر3:
مولوی فیض احمد اویسی ”فرشتوں کے ذریعے ندا پہنچایا جانا“ کا عنوان باندھ کر پہلی حدیث ان للہ ملائکۃ سیاحین فی الارض ،الحدیث ،لائے اور لکھا:
حدیث التحیات میں سلام کا طریقہ اس طرح پر سکھایا گیا ہے۔ التحیات للہ والصلوت الخ•
(ندائے یارسول اللہ ص30)
معلوم ہوا کہ یہ بھی فرشتوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔
اگر کوئی یوں کہے کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ کے نزدیک یہ تشہد کے الفاظ اس لیے ہیں کہ حقیقت محمدیہ ہر ذرہ میں موجود ہے۔ تو جوابا عرض ہے کہ بریلوی علامہ پیر نصیر الدین گولڑوی لکھتے ہیں:
بعض کم علم حقیقت محمدیہ سے مراد رسالت مآب ﷺ کی معروف ذات لیتے ہیں جو غلط محض ہے۔
(راہ ورسم ومنزل ہا ص63)
اور دوسری بات یہ ہے کہ عقیدے کا مسٔلہ حدیث خبر واحد سے بھی ثابت نہیں ہوتا چہ جائیکہ کسی بزرگ کی بات سے ہو۔
ہماری اس تحریر سے یا رسول اللہ کہنے کا مسٔلہ بھی حل ہو گیا۔ اگر کوئی درود شریف میں یہ لفظ استعمال کرے اور مقصود وہی ہے کہ فرشتے پہنچائیں گے تو درست ہیں مثل السلام علیک ایھاالنبی کے ،اور عبد السمیع رامپوری صاحب لکھتے ہیں جس نے یا رسول اللہ کہا تواس کے معنیٰ عربی قاعدہ سے یہ ہوئے کہ میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کوپکارتاہوں یعنی ان کو یادکرتاہوں اور انکا نام لیتاہوں۔
(انوارساطعہ ص321)
یعنی ”یارسول اللہ“ کامعنی یہ ہے میں ان کا نام لیتاہوں اس میں حاضروناظرسمجھنا کہاں سے ہوا،ایک جگہ یوں لکھتے ہیں تمھارے نام پہ قربان یارسول اﷲ۔فداتم پہ میری جان یارسول اﷲ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میری جان حضرت پر قربان ہے ،اسکی مراد جملہ خبریہ ہے اگرچہ اس نے لفظ ندا یہ بولا کیا ضرور ی ہےکہ یوں کہو یہ شخص خداکی طرح حاضروناظر جان کر پکارتاہےالبتہ تم خود شرک وکفرکے معنی یہ کہہ کر لوگوں کے ذہن میں جماتے ہو کہ لفظ یا نہیں ہوتا مگر واسطے حاضر کےالخ۔ (انوار ساطعہ ص319 )
معلوم ہوگیا خدا کی طرح ہر جگہ حاضروناظر مان کر یارسول اﷲ کہنا شرک ہے،اوربریلویوں کے بہت بڑے سکالر پروفیسر مسعود لکھتے ہیں: ”یارسول اﷲ ہمراہی درود شریف یا بوقت کسی موقع کے اوپر مزارشریف وغیرہ کے درست ہے اورہر وقت مثل نشست وبرخاست کے کہنا ناجائزہے۔“
(تذکرہ مظہر مسعودص131 )
اگر یہ ہر جگہ مانتے تو ناجائز نہ کہتے۔
دلیل نمبر15:
نبی پاکﷺ نے فرمایا:
ان اللہ زوی الی االارض حتی رایتُ مشارقھا ومغاربھا•
اللہ تعالی نے میرے لئے زمین کو سمیٹ دیا ہے یہاں تک کہ میں نے اس کے مشارق ومغارب کو دیکھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺہر شے دیکھ رہے ہیں ہمارا دعوی ثابت ہو گیا۔
جواب نمبر1:
یہ خبر واحد ہے اس سے عقیدہ ثابت نہیں ہو تا۔
جواب نمبر 2:
ایک دفعہ اللہ تعالی نےمشرق ومغرب کی سیر کرا دی اس سے ہر وقت ہر جگہ موجود ہونا کیسے لازم آتا ہے جب کہ آپ کا عقیدہ تو ہر وقت کا ہے۔ اور ایک دفعہ کا دیکھنا جو ہے اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے ہر ہر ذرے ہر ہر قطرے اور ہر ایک شے کو تفصیلا دیکھا ہو۔
آدمی اپنے سر کو روزانہ کئی بار دیکھتا ہے مگر کتنے بال ہیں لمبے کتنے ہیں یہ اسے معلوم نہیں ہوتا نبی پاکﷺ نے بیت المقدس کو تو دیکھا تھا مگر اسکی کھڑ کیا ں ودروازے کتنے تھے یہ آپکو معلوم نہ تھا اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے مدینہ طیبہ میں وہ عمارت سامنے کر دی آپ دیکھ کر بتاتے رہے۔
جواب نمبر 3:
یہ واقعہ معراج کا ہے جب آپ کا دعوی تو شروع سے ہے اس لیے دلیل آپ کی نہیں بن سکتی۔ کیونکہ آپ کو ماننا پڑیگا پہلے حاضر وناظر نہیں تھے۔اگر پہلے سے مانتے ہو تو یہ دلیل آپکو مفید نہیں۔
جواب نمبر 4:
اگر آدمی لاکھ دو لاکھ کے مجمع کو دیکھے کیا ہر آدمی کے بال ،کپڑے ،اعضاء،داڑھی وغیرہ سب کو دیکھتا ہے جیسے یہ سب چیزیں آدمی نہیں دیکھتا ایسی صورت یہاں تصور کر لیں۔ یا آدمی ایک باغ دیکھتا ہے کیا ہر ایک ٹہنی کو ہر ایک پتے کو ہر شاخ کو دیکھتا ہے ؟باغ تو دیکھتا ہے مگر ہر ہرشے کو نہیں دیکھتا۔ قس علی ھذا
جواب نمبر 5:
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ معراج کی رات آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے روئے زمین کے تمام مومن آدمیوں کو دیکھ لیا تھا تو پھر سب کو صحابی ماننا پڑیگا الخ
(شرح نحبۃ الفکر : ص85 ملخصاً)
دلیل نمبر16:
کلمہ طیبہ سے حاضر ناظر کا ثبوت ملتا ہے۔ ”لا الہ الا اللہ“ میں الا کے بعد الوہیت کا ثبوت ہے اور ”محمد رسول اللہ“ میں رسالت کا ثبوت ہے۔ جس طرح الوہیت ہر جگہ ہے اسی طرح رسالت بھی ہر جگہ ہے۔ الوہیت ایک وصف ہے تو موصوف بھی ہر جگہ ہو گا، اسی طرح رسالت بھی ایک وصف ہے تو موصوف بھی ہر جگہ ہو گا۔
جواب:
عقائد قیاس سے تو ثابت نہیں ہوتے۔ اگر یونہی قیاس ہے تو پھر آئیے! صدارت و وزارت ایک وصف ہے جب پورے پنجاب کا وزیر ہے تو کیا وہ ہر جگہ ہو گا؟ کیا پورے ملک کا صدر ہے تو کیا وہ پورے ملک میں ہر جگہ موجود ہوا؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت و رسالت کو الوہیت سے تشبیہ دینا یہ رضا خانی دجل ہے کہ بات کو الجھانے کے لیے خدا کی مثال دیتے ہیں۔ جب خدا جیسا کوئی ہے نہیں تو مثال کیوں لاتے ہو؟
رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی مثال قرآن پاک میں روشن چراغ سے دی گئی ہے، چراغ رکھا تو ایک جگہ جاتا ہے لیکن اس کی روشنی اطراف کو روشن کرتی ہے۔ تو بات اب واضح ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت جو آپ کا وصف اور روشنی ہے وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اطراف کو روشن اور منور کرتی ہے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو ایک ہی جگہ تشریف فرما ہیں۔
دلیل:
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں:
واذا سمعت
فعنک قولا

طیبا

واذا نظرت
 
فما

اریٰ الاک

اے حنفی بننے کا دعویٰ کرنے والو! یہ ہے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فرمان اور عقیدہ۔ اب فرمائیے امام صاحب کو بھی مشرک!!
(جاء الحق: ص148، مقیاس حنفیت: ص285)
جواب:
پہلی بات…… یہ قصیدہ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا نہیں ہے، آج تک کوئی بھی اس کو ثابت نہیں کر سکا۔
دوسری بات…… اگر مان بھی لیا جائے تو بھی اعتراض نہیں کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ میری نظر میں آپ جیسا کوئی نہیں، جس کو بھی دیکھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت اور شان کے مقابلے میں کم ہے، تو ہر طرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہی شان و مقام ومرتبہ مسلّم ہے اور وہی ہماری نظر میں ہے چاہے ہم کہیں بھی ہوں۔
مسئلہ حاضر ناظر کی عام تفہیم
اس مسئلہ کی عامی تفہیم یوں ہو سکتی ہے جیسا کہ رئیس المناظرین ، عمدۃ المحققین مولانا منظور احمد نعمانی نے فرمایا ہے ہم انہی کا مضمون نقل کرتے ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر ناظر ہونے کا عقیدہ بالکل بے اصل بلکہ نصوص صریحہ شرعیہ کے خلاف اور مشرکانہ عقیدہ ہے۔ ”علیٰ کل شیئ شہید“ اور ” لکل شیئ محیط“ صرف حق تعالیٰ کی صفت ہے۔ اس گمراہانہ عقیدہ کو اسلامی تعلیمات سے اسی قدر بعد ہے جس قدر بت پرستی اور عقیدہ تثلیث کو اسلام اور عقیدہ توحید سے۔ اگر اس عقیدہ کے خلاف نصوص ناطق نہ ہوتے جب بھی اصول ِ اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہ تھی، لیکن صورت حال یہ ہے کہ کتاب وسنت میں اس کے خلاف بے حساب دلائل موجود ہیں جن کا احصاء اور استیعاب بھی نہیں کیا جا سکتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لحاظ سے اس عالم کے تین حصے ہیں ایک وہ دور ہے جب کہ آپ کی روح پاک کی تخلیق ہو چکی تھی لیکن آپ اس عالم آب وگل میں تشریف نہیں لائے تھے اس دورمیں آپ کی روح پاک کو بہت سے روحانی کمالات حاصل تھے اور حسب تصریح علماء کرام واشارات نصوص آپ کی روح مبارک اس وقت بھی وصف نبوت کے ساتھ موصوف تھی۔
کنت نبیا واٰدم بین الروح والجسد•
میں اس وقت نبی تھا جب کہ آدم روح اور جسم کے درمیان میں تھے۔
دوسرا دور آپ کا وہ ہی جب آپ اس عالم میں تشریف لے آئے اس دور کا آغاز ولادت طیبہ سے اور اختتام وفات شریف پر ہوتا ہے۔
تیسرا دور عالم برزخ کا ہے اس کا آغاز وفات شریف سے ہوا ہے اور اب قیامت تک یہی دور ہے قرآن وحدیث میں ان تینوں زمانوں کے متعلق تصریحات ملتی ہیں کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر وناظر نہیں ہیں ، دور اول کے متعلق )جس کو عالم روحی یا عالم نوری کہنا چاہیے( قرآن پاک میں جا بجا اس کی تصریحات موجود ہیں۔ سورۃ ”آل عمران “ میں ارشاد ہے :
وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ•
اس کا مطلب یہ ہے کہ ”جس وقت ”بیت المقدس“ کے مجاورین حضرت مریم علیہ السلام کی کفالت کے معاملہ میں جھگڑا کررہے تھے اور قرعہ اندازی ہورہی تھی تو اے رسول تم اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھے کہ ان باتوں کا تم کو علم ہوتا بلکہ اب ہم تم کو بذریعہ وحی کے یہ سب کچھ بتلا رہے ہیں۔
اور سورۃ ہود میں ارشاد ہے:
تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ•
(یعنی ہمارے پیغمبر نوح علیہ السلام) کا یہ واقعہ منجملہ اخبار غیب کے ہے جس کوہم وحی کے ذریعہ سے آپ کے پاس پہنچاتے ہیں پہلے سے نہ آپ اس کو جانتے تھے نہ آپ کو قوم جانتی تھی۔
اور سورۃ یوسف میں ہے:
ذَلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ•
یعنی یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے ہم ہی آپ کو وحی کے ذریعہ سے یہ قصہ بتلاتے ہیں۔ اور آپ ان (برادران یوسف) کے پاس اس وقت موجود نہ تھے جب کہ انہوں نے یوسف کو کنویں میں ڈالنے کا پختہ فیصلہ کیا اور جب کہ وہ خفیہ تدبیروں میں لگے ہوئے تھے۔
اور سورۃ قصص میں ارشاد ہے:
وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَى مُوسَى الأَمْرَ وَمَا كُنتَ مِنْ الشَّاهِدِينَ•
یعنی اے رسول جس وقت ہم نے موسیٰ کی طرف یہ حکم بھیجا تھا تم اس مغربی جانب نہ تھے اور یقیناً تم وہاں حاضر نہ تھے۔
پھر اسی سورت میں آگے ارشاد ہے:
وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَكِنْ رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ الآیۃ•
اس کا خلاصہ یہی ہے کہ جب نے موسیٰ کو پکارا تھا تو اے رسول اس وقت تم طور کے پاس موجود نہ تھے اور اب یہ جو کچھ حالات تم کو اس وقت کے تم کو معلوم ہو رہے ہیں سو یہ تم پر خدا کی رحمت ہے کہ وہ تم کو وحی کے ذریعہ سے ایسی ایسی عجیب وغریب باتیں بتلا رہا ہے۔
ان تمام آیات سے آفتابِ نیمروز کی طرح روشن ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس عالم روح میں بھی ہر جگہ حاضر وناظر نہ تھے۔
نیز زمانہ نبوت کے متعلق بھی قرآن وحدیث میں اس کی تصریحات ملتی ہیں بطور نمونہ مشتے از خروارے چند آیات واحادیث پیش کی جاتی ہیں، بعض منافقین کے بارے میں سورہ بقرہ ہی میں ارشاد ہے۔
وَمِنْ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ•
مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں بعض منافق وہ بھی ہیں جن کی بات اے رسول آپ کو اچھی معلوم ہوتی ہیں کیونکہ وہ بہت چکنی چیڑی باتیں کرتے ہیں اور بہت زیادہ اظہار محبت کرتے ہیں اور اس پر خدا کی قسمیں کھاتے ہیں اور فی الحقیت وہ دشمن اسلام ومسلمین اور نہایت جھگڑالو ہیں۔
(خلاصۃ مافی المعالم والخازن )
نیز منافقین ہی کی جماعت کے متعلق سورہ منافقین میں ارشاد ہے:
وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ وَإِنْ يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ كَأَنَّهُمْ
یعنی وہ ایسے ہیں کہ جب آپ ان کو دیکھیں تو ان کے قدوقامت آپ کو خوش نما معلوم ہوتے ہیں اور اگر وہ کچھ کہیں تو آپ اس کو سچ سمجھ لیں۔
(کذافی المعالم والخازن)
اور مدنیہ کی بعض نہایت گہرے منافقوں کے متعلق سورہ توبہ میں ارشاد ہے:
وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ•
یعنی بعض اہل مدینہ سے منافقت میں بہت مشاق ہیں اے رسول آپ ان کو نہیں جانتے ہم خوب جانتے ہیں۔
ان آیتوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانہ کے بعض منافقین کو نہیں جانتے تھے اور ان کی خفیہ ریشہ دوانیوں کی آپ کو خبر نہیں ہوتی تھی، حالانکہ اگر آپ ہر جگہ حاضر وناظر ہوتے تو کوئی بات آپ کے لیے راز نہ رہتی اور آپ پر سب کچھ ظاہر ہوتا۔ مزید توضیح کے لیے اس سلسلہ میں ایک واقعہ کا ذکر کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جس کا اجمالی ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ لیکن پوری تفصیل صحیح بخاری شریف اور دوسری کتبِ حدیث میں موجود ہے ،واقعہ یہ ہے کہ :
ایک غزوہ میں عبداللہ بن ابی منافق نے کسی موقع پر کہا:
لَا تُنْفِقُوا عَلٰى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ•
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہنے والے ہیں ان پر کچھ خرچ مت کرو۔
نیز اسی مجلس میں اس نے یہ بھی کہا :
وَلَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ•
اگر ہم مدینہ پہنچتے ہیں تو ہم میں سے جو زیادہ عزت والا ہوگا وہ ذلیلوں کو نکال دےگا یعنی اب ہم مدینہ پہنچ کر مہاجرین کو وہاں سے نکال باہر کریں گے۔
اس کی یہ بکواس حضرت زید ابن ارقم رضی اللہ عنہ صحابی نے سنی اور بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی آپ نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا اور دریافت فرمایا کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟ وہ صاف مکر گئے اور جھوٹی قسمیں کہا لیں کہ ہم نے ہر گز ایسا نہیں کہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصدیق فرمادی اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو جھوٹا قرار دیا جس سے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بے حد صدمہ ہوا یہاں تک کہ انہوں نے اس رنج میں گھر سے باہر نکلنا چھوڑ دیا، تاآنکہ سورہ منافقون کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں اور ان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ عبداللہ بن ابی وغیرہ جھوٹے ہیں۔ فی الحقیقت انہوں نے یہ کلمات شنیعہ کہے تھے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حضرت زید رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا اور ان کو خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے بیان کی تصدیق نازل فرما دی۔
(صحیح بخاری کتاب التفسیر ملحضاً)
یہ واقعہ بھی صاف بتا رہا ہے کہ ہر جگہ حاضر وناظر ہونا حضور کی شان نہیں تھی ورنہ اس معاملہ میں آپ پہلے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی تکذیب اور منافقین کی تصدیق نہ فرماتے۔
احادیث میں ایسے واقعات جن سے اس مسئلہ پر ایسی ہی صاف روشنی پڑتی ہے کہ بکثرت موجود ہیں اور ان اگر کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم دفتر تیار ہو سکتا ہے۔اس لیے صرف ایک ہی مختصر حدیث یہاں اور پیش کی جاتی ہے:
جامع ترمذی اور سنن ابی داود میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا یبلغی احد عن احد من اصحابی شیاءً فانی احب ان اخرج الیکم وانا سلیم الصدر
کوئی شخص میرے پاس کسی صحابی کی طرف سے کوئی چیز مجھ تک نہ پہنچائے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں تمہارے پاس اس حال میں آؤں کہ میرا دل (سب کی طرف سے) صاف ہو۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کے پرائیوٹ حالات کی اطلاع عام طور پر لوگوں کے ذکر کرنے سے ہوتی تھی اور اگر آپ ہر جگہ حاضروناظر ہوتے تو کسی کے بیان کرنے یانہ کرنے سے کوئی اثر نہ پڑتا۔
الغرض ان آیات واحادیث سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی حیات طیبہ میں بھی یہ بات حاصل نہ تھی کہ آپ ہر جگہ حاضر وناظر ہوں، اس طرح زمانہ بعد وفات کے متعلق بھی نصوص شرعیہ اس حقیت کو واضح کر رہے ہیں ، صحیحین( بخاری ومسلم ) میں متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حشر کے دن میں حوض کوثر پر ہوں گا اور ایک جماعت کو ملائکہ جہنم کی طرف لے چلیں گے میں کہوں گا کہ یہ تو میرے امتی ہیں مجھ کو جواب دیا جائے گا کہ:
إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ•
تم کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا رخنے پیدا کیے۔
حضور فرماتے ہیں کہ جب مجھے یہ معلوم ہو گا تو میں وہی کہوں گا جو خدا کے نیک بندے عیسیٰ بن مریم نے کہا:
وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ•
میں ان سے خبر دار تھا جب تک ان میں رہا پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا توتو ہی ان کا نگران حال تھا اور تو ہی ہر چیز کی نگرانی خبر رکھنے ولا ہے۔
اس متفق علیہ حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ اس عالم سے رحلت فرمانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو امتیوں کے تفصیلی احوال کی خبر نہیں حالانکہ اگر آپ اس دور میں بھی ہر جگہ حاضر وناظر ہوتے تو قیامت میں یہ نہ فرماتے کہ:
” کنت علیہم شہیداً مادمت فیہم“
اور بیہقی شعب الایمان میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
من صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی نائیا ابلغتہ•
جو میری قبر کے پاس درود پڑھے گا میں اس کو خود سنوں گا اور جو دور سے درود پڑھے گا وہ (فرشتوں کے ذریعے) مجھ تک پہنچایا جائےگا۔
علامہ ابن حجر مکی رحمہ اللہ ”جوہر منظم“ میں لکھتے ہیں :
و من اعظم فوائد الزیارۃ ان زائرہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلی و سلم علیہ عند قبرہ سمعہ سماعا حقیقیاً…… من غیر واسطۃ و ناہیک بذلک بخلاف من یصلی او یسلم من بعید فان ذلک لا یبلغہ و لا یسمعہ الا بواسطۃ و الدلیل علی ذلک احادیث کثیرۃ ذکرتہا فی کتابی السابق ذکرہ منہا ما جاء بسند جید و ان قیل انہ غریب: من صلی علی عند قبری سمعتہ و من صلی علی من بعید اعلمتہ•
زیارت قبر اقد س کے بڑے فائدوں میں سے ایک یہ ہے کہ زائر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ وسلام قبر شریف کے پاس جا کر پڑھتا ہے تو آپ خود سنتے اور اس کا جواب دیتے ہیں۔ یہ نعمت کیا کم ہے بخلاف اس شخص کے جو دور سے صلوٰۃ وسلام پڑھے ، کیونکہ وہ آپ کو نہیں پہنچتا نہ آپ اس کو سنتے ہیں مگر بواسطہ فرشہ کے۔ اس کی دلیل میں بہت سی احادیث ہیں جن کو میں نے کتاب سابق الذکر " یعنی درمنضود" میں بیان کیا ہے ازاں جملہ ایک حدیث وہ جو کھری سند کے ساتھ منقول ہے اگر چہ اس کو غریب کہا گیا ہے جوشخص میری قبر کے پاس درود پڑھتا ہے میں خود اس کو سنتا ہوں اور جو شخص دور سے پڑھتا ہے اس کی اطلاع مجھے دی جاتی ہے۔
اور علامہ علی قاری مکی اپنی کتاب ” الدرۃ المضیئۃ فی الزیارۃ المصطفویۃ“ میں فرماتے ہیں:
و من اعظم فوائد الزیارۃ ان الزائر اذا صلی و سلم علیہ عند قبرہ سمعہ سماعا حقیقیا و رد علیہ من غیر واسطۃ بخلاف من یصلی او یسلم علیہ من بعید فان ذلک لا یبلغہ الا بواسطۃ لما جاء عنہ بسند جید: من صلی علی عند قبری سمعتہ و من صلی علی من بعید اعلمتہ•
زیارت قبر اقدس کے بڑے فائدوں میں سے ایک یہ ہے کہ زائر جب آپ کی قبر شریف کے پاس صلوٰۃ وسلام پڑھتا ہے تو آپ خود سنتے اور جواب عطا فرماتے ہیں بخلاف اس شخص کے جو دور سے صلوٰۃ وسلام پڑھے وہ آپ کو نہیں پہنونچتا مگر بذریعہ فرشتے کے بوجہ اس کے کہ عمدہ سند سے منقول ہے کہ جو شخص میری قبر کے پاس درود پڑھتا ہے میں اس کو سنتا ہوں اور جو شخص دور سے پڑھتا ہے اس کی اطلاع مجھے دی جاتی ہے۔
بہرحال اس چیز پر بہت سی آیات اور احادیث شاہد ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر وناظر نہیں ہیں۔ بلکہ علمائے کرام نے اس عقیدے کے موجب کفر ہونے کی بھی تصریح فرمائی ہے۔
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمہ اللہ کے استاد بزگوار سلطان العارفین حضرت قاضی حمید الدین ناگوری رحمہ اللہ توشیح میں فرماتے ہیں:
و منہم الذین یدعون الانبیاء و الاولیاء عند الحوائج و المصائب باعتقاد ان ارواحہم حاضرۃ تسمع النداء و تعلم الحوائج و ذلک شرک قبیح و جہل صریح قال اللہ تعالیٰ: و من اضل ممن یدعون من دون اللہ•
اور بعض لوگ وہ ہیں جو اپنی حاجتوں اور مصیبتوں کے وقت انیباء واولیاء کو پکارتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کی ارواح حاضر ہیں ہماری پکار سنتی ہیں اور ہماری حاجتوں سے خبردار ہیں اور یہ نہایت قبیح شرک اور کھلی جہالت ہے حق تعالیٰ فرماتا ہے ان سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کو ”اپنی حاجت روائی کے لیے“ پکارتے ہیں۔
اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ تفسیر فتح العزیز ص 52 پر مشرکانہ عقائد کےذیل میں ارقام فرماتے ہیں :
وانبیاء ومرسلین علیہم السلام را الوازم الوہیت از علم غیب وشنیدن فریاد ہرکس در ہرجا ، وقدرت بر جمیع مقدو رات ثابت کنند.
اور ملا حسین خباز رحمہ اللہ مفتاح القلوب میں فرماتے ہیں:
واز کلمات کفر است ندا کردن اموات غائبان راہگماں آنکہ حاضر اند مثل یارسول اللہ و یا عبدالقادر ومانند آن .
اور فقہ حنفی کی مشہور کتاب فتاویٰ بزازیہ میں ہے:
”من قال ان ارواح المشائخ حاضرہ تعلم یکفر“ جو شخص کہے کہ مشائخ کی ارواح حاضر ہیں سب کچھ جانتی ہیں وہ کافر ہیں۔
اس عبارت میں اگرچہ ”مشائخ“ کا لفظ ہے لیکن اہل علم سمجھ سکتے ہیں کہ اس بارہ میں انبیاء واولیاء میں کو ئی فرق نہیں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو شخص یہ عقیدہ رکھے اس کا بھی یہی حکم ہے۔ کمالا یخفیٰ علیٰ اولی الالباب•




1 comment:

  1. السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ ان تمام کے سکین مل سکتے ہیں۔۔۔۔؟

    ReplyDelete