القرآن: يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ...[النساء:١٧١]
اے اہل کتاب اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ...
اس کی تفسیر_ابن_کثیر میں حدیث_بخاری:
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ ، يَقُولُ : أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سَمِعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : عَلَى الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ ، فَقُولُوا : عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ » بَاب أَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ صَلَاةُ دَاوُدَ ... رقم الحديث: 3213]
ترجمہ : حمیدی سفیان زہری عبیداللہ بن عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ "مجھے اتنا نہ بڑھاؤ جیسے نصاریٰ (عیسایوں) نے عیسیٰ بن مریم
(کی تعریف میں مبالغہ کیا کہ اللہ کا بیٹا ہی بناکر ان) کو بڑھایا ہے میں تو محض اللہ کا بندہ ہوں تو تم بھی یہی کہو کہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔
اے اہل کتاب اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ...
اس کی تفسیر_ابن_کثیر میں حدیث_بخاری:
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ ، يَقُولُ : أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سَمِعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : عَلَى الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ ، فَقُولُوا : عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ " .
[صحيح البخاري » كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ » بَاب أَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ صَلَاةُ دَاوُدَ ... رقم الحديث: 3213]
ترجمہ : حمیدی سفیان زہری عبیداللہ بن عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ "مجھے اتنا نہ بڑھاؤ جیسے نصاریٰ (عیسایوں) نے عیسیٰ بن مریم
(کی تعریف میں مبالغہ کیا کہ اللہ کا بیٹا ہی بناکر ان) کو بڑھایا ہے میں تو محض اللہ کا بندہ ہوں تو تم بھی یہی کہو کہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 676 (3445) - انبیاء علیہم السلام کا بیان : (585) اس فرمان الٰہی کا بیان کہ اور کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے جب وہ اپنے گھر والوں سے جدا ہو گئیں نبذناہ یعنی ہم نے اسے ڈال دیا وہ جدا ہو گئیں شرقیا یعنی وہ گوشہ جو مشرق کی طرف تھا فاجائھا یہ جئت کا باب افعال ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کے معنی الجاھا یعنی مجبو و مضطر کر دیا تساقط یعنی گرائے گی قصیا یعنی بعدی فریا یعنی بڑی بات۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ نسیاً کے معنی ہیں میں کچھ نہ ہوتی دوسرے لوگوں نے کہا کہ نسی حقیر کو کہتے ہیں ابووائل فرماتے ہیں کہ مریم اس بات کو جانتی تھیں کہ متقی ہی عقل مند ہوتا ہے یعنی بری باتوں سے بچتا ہے جبھی تو انہوں نے کہا کہ اگر تو پرہیز گار ہے وکیع اسرائیل اور ابواسحق نے براء سے نقل کیا ہے کہ سریا سریانی زبان میں چھوٹی نہر کو کہتے ہیں۔]
[صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1745 - حدیث متواتر - جنگ کرنے کا بیان : (50) شادی شدہ عورت کو زناء سے حاملہ ہونے پر سنگسار کرنے کا بیان]
تخريج الحديث
|
شواهد الحديث
*****************************************************أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ دُحَيْمٍ الشَّيْبَانِيُّ بِالْكُوفَةِ ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ ، ثنا عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ ، ثنا عَبْدُ السَّلامِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، قَالَ : كُنَّا عِنْدَ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فَجَاءَ قَوْمٌ مِنَ الْكُوفِيِّينَ ، فَقَالَ عَلِيٌّ : يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ أَحِبُّونَا حُبَّ الإِسْلامِ ، سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ : " يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، لا تَرْفَعُونِي فَوْقَ قِدْرِي ، فَإِنَّ اللَّهَ اتَّخَذَنِي عَبْدًا قَبْلَ أَنْ يَتَّخِذَنِي نَبِيًّا " ، فَذَكَرْتُهُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، فَقَالَ : " وَبَعْدَ مَا اتَّخَذَهُ نَبِيًّا " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ .
[المستدرك على الصحيحين » كِتَابُ مَعْرِفَةِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ... » وَمنْ مَنَاقِبِ أَهْلِ بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى ... رقم الحديث: 4771]
ترجمہ : یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ ہم تھے پاس حضرت علی بن حسین کے ، پس آئ ایک قوم کوفیوں میں سے ، پس کہا حضرت علی (بن حسین) نے : اے عراق والو! ہم سے محبت کرنا اہل اسلام (مسلمانوں) سے محبت کرنا ہے. میں نے سنا اپنے ابو (حضرت حسین بن علی) سے یہ کہتے : فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے : اے لوگو! مت بلند کرو مجھے میری قدر (مقام) سے اوپر ، پس بےشک الله نے مجھے اپنا بندہ بنایا پہلے اپنا نبی بنانے سے.
شواهد الحديث
|
******************************************************
ترجمہ : اور تمہارا ذکر بلند کیا.
جواب : اس آیت کا صحیح مفہوم حدیث کی تفسیر میں یوں ہے :
لا أُذكر إلا ذكِرْتَ معي، أشهد ألا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا رسول الله.[تفسیر ابن کثیر]
یعنی نہیں میرا ذکر مگر تیرے ذکر کے ساتھ (جیسے) میں شاھدی دیتا ہوں کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں شاھدی دیتا ہوں کہ محمد الله کے رسول ہیں.
وقال القرطبي: " وروي عن الضحاك عن ابن عباس قال: يقول له: ما ذُكِرْتُ إلا ذكِرْتَ معي في الأذان، والإقامة والتشهد، ويوم الجمعة على المنابر، ويوم الفطر، ويوم الأضحى، وأيام التشريق، ويوم عرفة وعند الجمار، وعلى الصفا والمروة، وفي خطبة النكاح، وفي مشارق الأرض ومغاربها، ولو أن رجلا عبد الله - جل ثناؤه -، وصدّق بالجنة والنار وكل شيء، ولم يشهد أن محمدا رسول الله، لم ينتفع بشيء وكان كافرا " .
ترجمہ : امام قرطبی (اپنی تفسیر قرطبی میں) فرماتے ہیں: اور مروی ہے حضرت ضحاک اور ابن عباس سے : یہ قول : نہیں میرا ذکر مگر تیرے ذکر کے ساتھ (جیسے) اذان میں ، اور اقامت اور تشہد میں ، اور جمعہ کے دن میں منبر پر ، اور فطر کے دن ، اور أضحى کے دن ، اور ایام تشریق ، اور یوم عرفہ اور جمار کے پاس ، اور صفا و مروہ پر، اور خطبہ نکاح میں ، اور (یہ سب) زمین کے مشرقوں اور مغربوں میں (ہوگا) ، اور اگر کوئی شخص الله جل شانہ کی بندگی کرے اور تصدیق کرے جنّت اور جہنم اور ہر (ایمانیات کی) شئ کی ، مگر نہ دے شاھدی کہ محمد الله کا رسول ہے ، تو اسے نہ نفع دے گی کوئی شئ اور وہ ہوگا کافر.
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے تئیں سردار کہلانے سے انکار:
حضرت مطرف بن عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میرے والد حضرت عبداللہ نے بیان کیا کہ بنو عامر کا جو وفد رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اس میں بھی شریک تھا چنانچہ جب ہم آپ کی خدمت میں پہنچے تو ہم نے عرض کیا کہ آپ ہمارے سردار ہیں آپ نے فرمایا سردار تو اللہ ہے ہم نے عرض کیا آپ بھلائی و بہتری کے اعتبار سے ہم میں سب سے بہتر ہیں اور بخشش کے اعتبار سے ہم میں سے بزرگ و برتر ہیں آپ نے فرمایا ہاں اس طرح کہو بلکہ اس سے بھی کم درجہ کے الفاظ استعمال کرو یعنی میری تعریف ومدح میں مبالغہ آرائی سے کام نہ لو اور ان صفات کو میری طرف منسوب نہ کرو جو صرف اللہ کی ذات سے مخصوص ہیں تم نے آخر میں جو بات کہی ہے زیادہ سے زیادہ اسی حد تک میری تعریف کر سکتے ہو بلکہ میرے تئیں اس سے بھی ہلکے درجہ کی تعریف کرو تو زیادہ بہتر ہے اور دیکھو شیطان تم کو اپنا وکیل نہ بنائے۔ (ابوداؤد)
[مشکوۃ شریف:جلد چہارم:حدیث نمبر 830 (41364)]
تشریح
لفظ " جری " کے معنی وکیل کے ہیں جو اپنے موکل کا جاری مجری یعنی قائم مقام ہوتا ہے لہذا لا یستجرینکم الشیطن کا مطلب یہ ہے کہ تم میری تعریف ایسے الفاظ اور ایسے انداز میں نہ کرو جس سے یہ معلوم ہوا کہ شیطان لعین نے تمہیں اپنا وکیل و قائم مقام بنا لیا ہے اور تم اس کی وکالت کے طور پر بلاتامل جو چاہتے ہو کہتے چلے جا رہے ہو چنانچہ وہ لوگ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں جو ذات رسالت کی منقبت و تعریف میں حد سے زیادہ تجاوز کرتے ہیں اور نبی کو اتنا بڑھاتے ہیں کہ گویا بندے کو اللہ کا درجہ دیدیتے ہیں جیسے مروج مولود کے قصائد نقلیہ میں ایسے الفاظ و بیان اختیار کئے جاتے ہیں کہ جن سے پروردگار کی شان میں بڑی بے ادبی ہوتی ہے۔ بعض روایات میں اس" یستجرینکم" میں یاء کی بجائے ہمزہ ہے اس صورت میں یہ لفظ جری کے بجائے جوات سے ہوگا اور معنی یہ ہوں گے کہ شیطان تم کو میری تعریف میں اس طرح اور بے باک نہ بنا دے کہ غلط سلط اور خلاف حقیقت جو کچھ کہنا چاہو بے جھجک کہنے لگو۔
" سردار تو بس اللہ ہے" سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ وہ ذات جو کہ مخلوق کے تمام امور کی حقیقی مالک ہے اور وہ ذات کہ ہر ایک پر فرمانبروائی و حکمرانی کی سزاوار ہے اور جس کے دست قدرت میں تمام تر نظم وتصرف ہے صرف اللہ کی ذات ہے نہ کہ کوئی اور شخص۔علماء نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس جماعت کی طرف سے اپنے آپ کو سردار کہے جانے کی ممانعت کرنا اس سبب سے نہیں تھا کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں سرداری وسیادت کو ثابت کیا تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ تمام اولاد آدم کے سردار ہیں بلکہ آپ کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لفظ سید سردار کے ذریعہ اس انداز مخاطب کیا تھا کہ جس طرح کسی قوم قبیلہ کے سردار کو مخاطب کیا جاتا ہے حالانکہ ان لوگوں کو چاہیے تھا کہ وہ آپ کو لفظ نبی یا رسول اللہ کے ذریعہ مخاطب کرتے جو بشریت کا سب سے اعلی مرتبہ ہے۔
No comments:
Post a Comment